معراج خطابت

معراج خطابت0%

معراج خطابت مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

معراج خطابت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مولانا عابد عسکری
زمرہ جات: مشاہدے: 61422
ڈاؤنلوڈ: 4774

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 61422 / ڈاؤنلوڈ: 4774
سائز سائز سائز
معراج خطابت

معراج خطابت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

شعائرِ الٰہیہ ۲

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

(”( وَمَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَاللّٰهِ فَاِنَّهَامِنْ تَقْوَی الْقُلُوْب ) “) ۔

جو شعائر اللہ کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ کا ایک جزو ہے۔ میں نے عرض کیا کہ عبادت اللہ کے ساتھ ہے۔ کسی اور چیز یا کسی اور شخص کیلئے عبادت نہیں ہو سکتی۔ مگر جہاں تک تعظیم کا تعلق ہے، تو اس کیلئے کہا جارہا ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم پرہیزگاری کا ایک جزو ہے۔ تو اس سے یقینا معلوم ہوتا ہے کہ عبادت اور چیز ہے اور تعظیم اور چیز ہے۔ پیغمبر خدا کی تعظیم کی دعوت جس طرح دی گئی ہے، اس کیلئے میں نے دو آیتیں پڑھی تھیں:

)( لَا تَجْعَلُوْادُعَاالرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَأِبَعْضِکُمْ بَعْضًا ) ( ۔

”اس طرح نہ پکارا کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو“۔

)( لَا تَرْفَعُوْااَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتَ النَّبِیِّ ) ( ۔”اپنی آوازوں کو رسول کی آوازسے اونچا نہ کیا کرو“۔

اب ایک اور آیت:

)( اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیِّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَه مَکْتُوْبًاعِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰة وَالْاِنْجِیْلِ یَأمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ یُحِلِّلُ لَهُمُ الطَّیِّبَاتِ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبَائِثَ وَیَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْهِمْ ) ( ۔

ارشاد ہورہا ہے ، تائید کی جارہی ہے کہ وہ جو پیروی کرتے ہیں اس نبی اُمی کی۔ اس وقت ہر ہر لفظ کی تشریح منظور نہیں ہے جسے لکھا ہوا دیکھتے ہیں خود اپنے پاس۔ یعنی اہل کتاب خود اپنے پاس لکھا ہوا دیکھتے ہیں۔ توریت اور انجیل میں اور یہ انہیں نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور بری باتوں سے روکتا ہے اور ان کیلئے اچھی صاف ستھری پاک غذاؤں کو حلال قرار دیتا ہے اور جو خبیث چیزیں ہیں، انہیں منع کرتا ہے، انہیں حرام قرار دیتا ہے اور جو بوجھ ان پر تھے، ان کو دور کرتا ہے اور جو زنجیریں ان کے پیروں میں پڑی ہوئی تھیں، ان کو دور کرتا ہے۔

یہ ایک طویل آیت ہے۔ اس کے ہر جزو کی تشریح نہیں کرنا ہے۔تو جن لوگوں نے اس پر ایمان اختیار کیا، ”( آمَنُوْابِه ) “ کے معن ی ہیں، اس کے بعد ہے”ع( َ زَّرُوْهُ ) “۔ اس کے بعد ہے”( نَصَرُوْهُ ) “۔ اب ”( عَزَّرُوْهُ ) “کے معن ی لغت میں دیکھئے کیا ہیں؟ ”( آمَنُوْابِه ) “کے معن ی سب جانتے ہیں۔’ ’( نَصَرُوْهُ ) “کے معن ی سب جانتے ہیں۔ نصرت کے معنی ہیں مدد کرنا۔ مگرلغت میں دیکھئے تو ”ع( َ زَّرُوْهُ ) “کے معن ی ہیں ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ جو لوگ ان پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ آیا ہے۔ یہی لوگ دین و دنیا کی بہتری حاصل کرتے ہیں۔ تو وہ تو خصوصی انداز سے جن کو میں کہتا ہوں کہ ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ تعظیم ہے۔ یعنی نام اس طرح نہ لو جیسے اوروں کا نام لیتے ہو۔ لیکن یہاں تو”( عَزَّرُوْهُ ) “کے معن ی ہیں”ان کی تعظیم کرتے ہیں“۔اب جو جو چیز داخلِ تعظیم ہو، وہ مطلوبِ خالق ہوگی۔ جب تک کہ استثنیٰ نہ ہو، کسی ایک طریقہ تعظیم کو خاص طور پر منع کردیا جائے تو وہ اور بات ہے لیکن جب تک کہ استثنیٰ نہ کیا جائے ، اس وقت تک جو بھی طریق تعظیم ہوگا، وہ اس حکمِ الٰہی میں داخل ہوگا اور یاد رکھنا چاہئے کہ تعظیم ایک عنوان ہے جس کے تحت میں جو جو طریقے ہیں، وہ بہ اختلافِ زمانہ بہ اختلافِ ملک بدلتے رہتے ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ ایک وقت میں کوئی طریقہ تعظیم کا نہ ہو اور دوسرے وقت میں وہ طریقہ تعظیم کا رواج پاجائے جس طرح توہین۔ وہ جو اس کا مقابل رُخ ہے، وہ بھی ملک ، آب و ہوا اور زمانہ کے اعتبار سے بدلتی ہے۔ایک جگہ ایک بات توہین نہیں ہوتی ، دوسری جگہ وہ توہین ہوتی ہے۔جہاں تک میرا خیال ہے،اگر شہروں میں نہیں تو دیہاتوں میں پنجاب کے۔ تو اور تم کہہ کر بات کرنا خاص طور پرکوئی توہین نہیں ہے۔ بعض جگہ گفتگو کا انداز ہی یہی ہے۔ لیکن مثلاً ہمارے ہاں ہندوستان میں اور خصوصاً یوپی میں ، تم یا تُو کہنا یہ تذلیل اور توہین قرار پاتا ہے۔ ویسے بھی تعظیم کے انداز مختلف ملکوں میں ، مختلف زمانوں میں بدلتے رہتے ہیں۔

تو جو حکم خالق کی طرف سے سب کیلئے آئے، وہ ہر ملک کے لحاظ سے اس کی تہذیب کے اعتبار سے اس کے تمدن کے اعتبار سے جو طریقہ تعظیم ہو، اس پر حاوی ہوتا ہے اور ہر ملک کے لحاظ سے جو طریقہ توہین ہو جو طریقہ اہانت ہو، وہ حرام ہوجائے گا بلکہ کفر ہوجائے گا۔ تو اس مصداق کے طریقے بدلتے رہ سکتے ہیں مگر اصل حقیقت اپنے حال پر قائم رہے گی کہ خالق کی طرف سے تعظیم کا حکم ہے۔ جیسے میں نے کہا کہ ذکر رسول کے دوران قیام بعض جماعتوں میں رائج نہیں ہے۔ بعض جماعتوں میں رائج ہے لیکن رائج جن جماعتوں میں ہے، وہ کس بناء پر؟ تعظیم کی بناء پر۔لہٰذا وہ قابل اعتراض نہیں ہوگا۔ وہ اسی تعظیم و احترام میں داخل ہوگا جس کا خالق نے حکم دیا ہے۔

اب ایک اور بات۔ کل کا بیان تھا جس کو میں نے سرنامہ کلام قرار دیا ہے ابتداء ہی میں۔ میں نے کہا کہ تعظیم اور ہوتی ہے، عبادت اور ہوتی ہے۔ یعنی تعظیم اور عبادت ایک چیز نہیں ہے مگر اب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایسی تعظیم جو حکمِ الٰہی سے ہو، وہ یقینا عبادت ہے۔ مگر فرق صرف اتنا ہے کہ تعظیم کسی کی ہے، عبادت کسی کی ہے۔ تعظیم شعائر اللہ کی ہے اور عبادت اللہ کی ہے، تعظیم رسول کی ہے او رعبادت اللہ کی ہے کیونکہ عبادت اس کی ہے جس کے حکم سے تعظیم ہے اور تعظیم اسی کی ہے جس کی تعظیم کا اس نے حکم دیا ہے تو متعلق تعظیم اور ہے ، متعلق عبادت اور ہے۔ تو تعظیم بہرحال شرک نہیں ہوسکتی ۔ اگر حکمِ خدا سے ہو تو عبادت ہوگی۔ اگر از خود ہے یا کسی محرکِ دنیاوی کے لحاظ سے تو وہ عبادت نہیں ہوگی۔ جیسے بہت سے کام ہمارے جو اس کے حکم کی بناء پر نہ ہوں، خود سے ہوں۔ فرض کیجئے کہ کسی حاکمِ ضلع کی تعظیم کررہے ہیں یا اپنے کسی بزرگ کی تعظیم کررہے ہیں۔ ماں باپ کی تعظیم کررہے ہیں۔تو اگر اس وقت تصور ہو حکمِ خدا کا تو عبادت ہے کیونکہ اس نے حکم دیا ہے تعظیم کا۔

اسی طرح فرض کیجئے اپنے اُستاد کی تعظیم کررہے ہیں تو وہ بھی اس نے کہا ہے کہ جو تمہیں تعلیم دے، وہ ایسا ہے جیسے تمہارا آقاو مولا عالم دین کی تعظیم کریں کہ وہ اس دین کا عالم ہے۔ تو یہ سب تعظیم عبادت ہو گی۔اگر کسی امیر کبیر کی اس کی دولت کی وجہ سے تعظیم کریں تو وہ بس تعظیم ہوگی، عبادت نہیں ہوگی۔ اگر کسی بوڑھے کی اس کے بزرگ ہونے کی وجہ سے بہ اعتبارِ سن تعظیم کی تو وہ بھی حکمِ خدا سے ہے۔ کہا گیا ہے کہ تم میں سے جو سن رسیدہ بڑے لوگ ہیں، ان کی توقیر کرو۔ تو اگر اس کا حکم پیش نظر ہے تو وہ بھی عبادت ہوگی۔

غرض یہ کہ اگر اس کے حکم کے ماتحت تعظیم ہے تو وہ تعظیم بھی ہے اور عبادت بھی ہے۔مگر تعظیم کسی کی ہے، عبادت کسی کی ہے۔ عبادت ہے خالق کی۔ اب جو طریقے تعظیم کے ہوں، اکثر نام لے لے کر ان کو شرک کہاجاتا ہے، مثلاًجا کر روضہ نبوی کی ضریح کو بوسہ دیا تو بہت زیادہ زبان ہی سے شرک شرک نہیں ہوا بلکہ پشت پر تازیانہ بھی پڑگیا۔ گویا پاداشِ شرک یہیں مل گئی۔اسی طرح سے اور اسی طرح کے کاموں کو جو شرک کہاجاتا ہے، سجدہ گاہ پر ہم نے سجدہ کرلیا، آواز آئی شرک۔ جب ضریحِ نبوی کا بوسہ لینے پر شرک کا حکم لگ گیا تو پھر ظاہر ہے کہ کسی عَلَم کو، ضریح کو، تعزیہ کو، جو ایامِ عزا میں ہوتے ہیں، اس کا بوسہ لے لیں ، تو وہ بھلا کہاں توحید کے دائرے میں ہوگا؟

تو یہ جو ان کاموں کو ترک کروایا جاتا ہے ، میری سمجھ میں تو اس کے معنی ہی نہیں آتے۔رَد کرنا تو اور بات ہے، وہ تو اس وقت ہے جب مفہوم سمجھ میں آئے اور جب کسی چیز کے معنی ہی سمجھ میں نہ آئیں تو اس کی رَد کیا ہو؟ اب میں عرض کرتا ہوں ، خانہ کعبہ کا طواف ہوتا ہے۔ اب فرض کیجئے کہ کوئی بنظر عقیدت کسی ضریح کا طواف کرے تو بڑی شدت سے آواز آئے گی کہ” شرک“۔ اسی طرح حجر اسود کا بوسہ متفق علیہ ہے لیکن کسی عَلَم کو کوئی بوسہ دے تو آواز آئے گی” شرک“۔ اور ایک چیز ابھی کہہ چکا کہ ہم نے سجدہ گاہ پر سجدہ کرلیا ، کہا گیا کہ” شرک“۔ اوّل تو ایک اصولی بات عرض کروں، وہ خشک بات، یہ ہے اصولی کہ جو شرک ہو، اس میں استثنیٰ کی گنجائش نہیں۔ میری زبان سے لوگ خشک باتیں سن لیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ہم کہیں کہ شرک ظلم عظیم ہے تو کیا اس میں ”اِلَّا “کی گنجائش ہے کہ سوائے اس کے شرک؟ جیسے اللہ کا کوئی شریک نہیں۔ اب اس میں سوا نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح شرک حرام یا کفر یا ظلم عظیم۔ اس میں ”اِلَّا “کی کی گنجائش کوئی نہیں ہے کہ سوا ا س کے۔

تو میں کہتا ہوں کہ جن جن چیزوں کو میں نے متفق علیہ کہا۔ طوافِ خانہ کعبہ، جزوِ حج سب کے نزدیک۔ تو اگر کسی چیز کا طواف شرک ہے تو کیا خانہ کعبہ کو شریک بنانے پر وہ راضی ہوگیا؟ اسی طرح حجر اسود کو بوسہ دینا متفق علیہ ہے۔ وہ جہاں گویا کارخانہ ہے شرک سازی کا، وہ خود بھی اس پر عامل ہیں۔ حالانکہ ہر صاحب فہم غور کرے کہ شباہت بھی ڈرنے کی چیز ہے۔ مثلاً کوئی کہے کہ یہ چیز شرک نہیں ہے مگر تصور ہوتا ہے۔ یعنی ملتی جلتی ہوئی ہے شرک سے۔تو یہ ملتا جلتا ہوا ہونا بھی محرک ہوسکتا ہے ہولناک بنانے کا۔ تو اب میں ہر صاحب فہم کو دعوت دیتا ہوں کہ یہ حجر اسود کو بوسہ دینے کا جو حکم ہوا تو یہ تو پتھر ہے اور انہی پتھروں کو تو پوجتے تھے یعنی جنس اور نوع کے اعتبار سے اسی شرک کی قسم ہے جو مشرکین کرتے تھے۔ مگر پھر بھی یہ ہی نہیں کہ حرام نہیں بلکہ جزوِ حج۔ یعنی امکان ہو تو بوسہ دے، نہ امکان ہو تو استیلام کرے۔مجمع کی کثرت کی وجہ سے رسائی نہ ہو تواستیلام کرے یعنی ہاتھ سے یوں کرے اور وہ پاس نہ جاسکے تو دور سے۔

ارے ہمیں لوگ کہتے ہیں کہ اتنی دور سے زیارت پڑھنے کا کیا فائدہ؟ وہاں نہیں سوچتے کہ دو گز سے یوں کیا اور پھر یوں کرلیا، اس سے کیا فائدہ؟ میں کہتا ہوں کہ یہ عمل جذبہ احترام کا مظہر ہے۔ اب یہ سب کے نزدیک عبادت حالانکہ جو واقعی شرک تھا، اس سے صورت و شکل میں کتنا قریب ہے۔ اب وہاں ایک بام ودر ہوا۔ حجر اسود کو جاکر بوسہ دیا تو دیکھتے رہے۔وہاں بھی تو کوڑے چلتے ہیں مگر وہاں وہ روکنے کیلئے نہیں، اس لئے کہ دوسروں کو موقع دیں۔

بس! بعض ہیں کہ لپٹے ہوئے ہیں او رہٹنے کا نام نہیں لیتے۔ تو ان کے لئے کوڑا چلتا ہے کہ بس تم بوسہ لے چکے، اب ہٹو۔اب دوسروں کو موقع دو۔ تو وہاں یہ ترغیب و تحریص ہے۔ گویااس کیلئے دوسروں کو موقع دینا، یہ امدا دہے، اس کی اعانت ہے۔ اس عملِ خیر میں مگر اسی وقت رکن یمانی کو ، جو اس کے مقابل میں رُخ ہے، گوشہ ہے خانہ کعبہ کا،اس کو اگر بوسہ دے لیا تو پھر چاروں طرف سے اعتراض کی آوازیں آنے لگیں۔ تو اس گوشہ کا بوسہ لینا روا، اس گوشہ کا بوسہ لینا ناروا۔

یہاں فقہ کا اختلا ف ہے۔ ہمارے ہاں مستحب ہے رکن یمانی کا بوسہ لینا، ان کے ہاں استیلام تو ہے اس کا بھی لیکن وہ جو بوسہ لینا ہے، وہ نہیں۔ میں نے کہا جو شرک ہے اس میں، استثنیٰ کی گنجائش نہیں۔ اگر شرک ہے تو پھر حجر اسود کا بوسہ لینا بھی ناروا ہونا چاہئے اور جب

حجر اسود کا بوسہ لینے کی اجازت ہی نہیں ہے بلکہ حکم ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ شرک تو نہیں ہے ، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اس کا حکم نہیں ہے۔ تو جس بات کا حکم نہ ہو، وہ حرام تو نہیں ہوجاتی۔ اب جو جو غذائیں آپ کھاتے ہیں، ان کے کھانے کا کہاں حکم ہے؟ جو آپ پیتے ہیں ، ان کے پینے کا کہاں حکم ہے؟ تو حکم ہونا اور بات ہے ،ممانعت ہونا اور بات ہے۔جب تک ممانعت نہ ہو، اس وقت تک جائز ہے۔ حجر اسود کا بوسہ لینے کا حکم ہے۔ اس کے غیر کے بوسہ لینے کا حکم نہیں ہے۔

تو اچھاصاحب!آپ عبادت نہ مانئے اس کو، عبادتِ خدا نہ مانئے لیکن وہ شرک کیونکر ہوجائے گا؟ جو شے شرک ہو، وہ کسی وقت میں بھی نہیں ہے۔ ہاں! میں نے کہا تھا کہ کسی طریقہ تعظیم کی کسی طور سے ممانعت ہوجائے، وہ بھی شرک نہیں ہوگا، گناہ ہوگا۔شرک میں اور گناہ میں فرق ہے اور میں صاف طور پر کہوں کہ سجدہ طریقہ تعظیم، اسے ہمارے سوادِ اعظم کا ایک طبقہ یعنی صوفیاء کا ایک گروہ جائز سمجھتا ہے اور بڑا گروہ مخالف ہے۔ہمارے ہاں بھی شرعاً سجدہ جائز نہیں ہے کسی کو۔ اس کیلئے احادیث ہیں پیغمبر خدا کی۔دو قسم کی حدیثیں میری نظر سے گزریں۔ ایک حدیث یہ ہے کہ اگر سجدہ غیر اللہ کو جائز ہوتا ، اب یہ بات آج کے ترقی پسند زمانہ کے تقاضوں کے خلاف ہے، مگر کیا کیا جائے کہ ہمارے رسول اتنے ترقی پسند نہیں تھے۔ اگر سجدہ غیراللہ کو جائز ہوتا تو میں بیویوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔ اگر سجدہ جائز ہوتا۔اس سے نتیجہ نکلا کہ جائز نہیں ہے۔اب یہ بھی میں نے دیکھا ہے کہ اگر سجدہ غیراللہ کو جائز ہوتا تو میں شاگردوں کو حکم دیتا کہ وہ اُستاد کو سجدہ کریں۔ اب کوئی فقیہ اگر جراءت استنباط رکھتا ہو تو اس سے یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ جب شاگرد کو حکم دیا کہ وہ اپنے اُستاد کو سجدہ کرے تو پھر بیٹے کو بھی حکم دیتا کہ وہ اپنے باپ کو سجدہ کرے کیونکہ اُستاد کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ آبائے ثلاثہ یعنی تین قسم کے باپوں میں سے ہیں۔ تو باپ ہونے کی حیثیت سے اس کی عزت ہے تو جب اس کیلئے سجدہ جائز ہوتا تو جو واقعی باپ ہے، اس کیلئے سجدہ کیوں نہ جائز ہوتا؟

لیکن اگر یہ ہوتا ، اگر ہوتا، اسی نے بتادیا کہ جائز نہیں ہے۔ لہٰذا ہم سجدئہ تعظیم کوجائز نہیں سمجھتے۔ مگر شرک کہنا غلط ہے۔ سجدہ بھی اگر بنظر تعظیم کرے تو وہ میرے نزدیک گناہ ہے، شرک نہیں ہے۔اس کی دلیل، میں نے کہا کہ جو شرک ہے، اس میں استثنیٰ کی گنجائش نہیں ، تو جو شرک ہے، اس میں شریعت کی تبدیلی کا بھی اثر نہیں کیونکہ:

)( اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰهِ الْاِسْلامُ ) ( ۔

اصولِ دین تمام انبیاء میں ایک ہے۔ توحید اور شرک اصولِ دین سے متعلق۔ ثواب اور گناہ ، یہ فروعِ دین سے متعلق۔ تو اگر شرک ہوتا تو آدم کو سجدہ کرنے کا حکم نہ دیتا۔ اگر شرک ہوتا تو برادرانِ یوسف اور یعقوب، یعقوب کی آنکھوں کے سامنے اور ان کی مرضی سے یوسف کو سجدہ نہ کرتے اور یہ سب باتیں قرآن سے ثابت۔

ہمارے اوپر وہ سندیں پیش نہیں کی جاسکتیں کیونکہ ہم کہیں گے کہ اب ہم شریعت اسلام کے پیرو ہیں۔ اس وقت سجدئہ تعظیمی جائز تھا اور اس وقت پیغمبر اسلام نے کہہ دیا ہے کہ جائز نہیں ہے۔ مگر شریعتوں میں تبدیلی ہوتی ہے،اصولِ دین میں تبدیلی نہیں ہوتی۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اب جب ناجائز ہوگیا ہے ، تب بھی گناہ ہے، شرک نہیں ہے۔ شرک ہوتا تو کسی دور میں بھی جائز نہ ہوسکتا۔

اب جو بات میں نے شروع کی تھی، بیچ میں اس کا دوسرا جزو آگیا، میں نے کہا کہ میری سمجھ میں تو اس کے معنی ہی نہیں آتے۔ اب یہیں سے شروع کروں، کہتے ہیں کہ سجدہ گاہ پر سجدہ کرنا شرک ہے۔میں کہتا ہوں سجدہ گاہ کی حقیقت کیا ہے؟یعنی پیشانی کے نیچے۔ اس کیلئے ایک تمہید کی ضرورت ہے۔ وہ یہ ہے کہ شرک ہوتا کیا ہے؟جو بات خدا سے خاص ہو، اسے کسی دوسرے کیلئے صرف کرنا مثلاً خداوند عالم خالقِ حقیقی ہے۔ اب کسی دوسرے کو خالق مانیں، اس کے ذاتی ارادہ و اختیار سے خود اس کی ذاتی طاقت سے تو وہ شرک ہوجائے گا۔اللہ بطورِ معجزہ کسی کے ہاتھ میں خلق کروادے، وہ اور بات ہے۔ لیکن خالقِ حقیقی بس ایک رازقِ حقیقی، بس ایک ربِ حقیقی، بس ایک۔یہ باتیں کسی دوسرے کیلئے ثابت کردی جائیں تو وہ شرک ہوجائے گا۔یا جیسے میں نے کہا کہ عبادت جس سے خاص ہے، عبادت کسی دوسرے کی کرے۔اب عبادت کے معنی کیا ہیں؟ اللہ ہونے کا تصور کرکے کوئی عمل کرے۔ اس کا نام عبادت۔ کسی دوسرے کیلئے اسی تصور کے ساتھ کرے تو وہ شرک ہوجائے گا۔ لیکن جو بات اللہ کیلئے ہو ہی نہ سکتی ہو، اُسے غیر اللہ کیلئے ثابت کریں تو وہ شرک کیونکر ہوگا؟

اللہ کیلئے کوئی بات ہوتی ہو اور اُسے غیر اللہ کیلئے ثابت کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ شرک ہے اور جوبات ہوتی ہو غیر اللہ کیلئے،اُسے غیراللہ کیلئے ثابت کریں، مثلاً کسی باپ ماں سے پید اہونا، یہ غیراللہ سے خاص ہے۔ تو اب ہم کسی کی ولادت، وہ چاہے کعبہ میں ہو، وہ ولادت بیان کریں یہ کہہ کر کہ خدا کے گھر میں ہوئی تو گھر خدا کا ہے مگر ولادت تو غیراللہ ہی کی ہوگی۔ اسے کیونکر کہا جائے گا ”شرک“۔یہاں تیرہ رجب کی محفل تھی، ولادتِ جنابِ امیر علیہ السلام کا بیان تھا تو ایک صاحب نے پوچھ لیا کہ اگر یہ بہت بڑی فضیلت ہے تو آخر رسول کیوں نہیں پیدا ہوئے کعبہ میں؟ اللہ نے یہ بات رسول کے لئے کیوں نہیں رکھی؟ انہی کو کیوں کعبہ میں پیدا ہونے کا موقع دیا؟

بظاہر تو سوال مشکل تھا مگر میں نے جو عرض کیا کہ ہاں، یوں تو خد اکی باتیں خدا ہی جانے۔ بندہ ایک راز کی بات کو کیونکر سمجھ سکتا ہے؟ مگر کچھ میری سمجھ میں بھی آتا ہے ، وہ یہ ہے کہ رسول کو بعد میں خدا کہنے والی کوئی جماعت پید اہونے والی نہیں تھی علم الٰہی میں مگر اس کے علم میں اس بندے کیلئے بعد میں خد اکہنے والے پیدا ہونے والے تھے۔ اس لئے اس کی ولادت کو نمایاں کرنے کی ضرورت تھی کہ دیکھو! یہ خدا نہیں ہیں، یہ تو پیدا ہوئے ہیں۔

تو ولادت چونکہ غیراللہ کیلئے خاص چیز ہے، تو اگر ہم کسی کی ولادت کو کتنا ہی فضیلت کے ساتھ بیان کریں تو یہ تو ثبوت ہے اس کا کہ ہم نے انہیں خدا نہیں سمجھا ہے۔ اس میں شرک کا تصور ہو ہی نہیں سکتا۔ جو بات غیر اللہ کیلئے خاص ہے، اس کو ثابت کریں غیراللہ کیلئے تو شرک کیسے ہوگا؟

تو اب دیکھئے کہ سجدہ گاہ پیشانی کے نیچے ہے، کیا یہ بات اللہ کیلئے ہوسکتی ہے؟ کیا ہماری پیشانی کے نیچے اُس کا دست حق پرست آسکتاہے؟کبھی(معاذاللہ) اس کا کوئی جسم کا حصہ۔ جسم ہی وہاں کہاں ہے جو ہماری پیشانی کے نیچے ہو۔ ہماری پیشانی کے نیچے جوہوگا، کوئی جسم کا حصہ ہوگا۔ تو یہ بات تو غیراللہ کیلئے خاص ہے تو کسی غیراللہ کیلئے ہم وہ عمل کریں تو شرک کہاں سے ہوگا؟ یعنی اگر آپ اپنے کپڑے پر سجدہ کرلیں تو وہ شریک خدا نہ ہو،ماشاء اللہ قالین پر سجدہ کرلیں تو وہ شریک خدا ہو اور ہم خاکِ شفا پر، ارے مٹی کی جنس پر سجدہ کریں ، جو خاکساری کا نشان ہے، قالین پر سجدہ میں تو پھر بھی امارت پسندی کا ایک پہلو ہے، خاک پر سجدہ بوریا نشینوں کی علامت ہے۔ جتنی قیمتی چیزیں بچھی ہوئی ہوں ، چاہے وہ ریشم کا فرش ہو، چاہے وہ زرتار ہو، اس میں سونا لگا ہوا ہو، جواہر لگے ہوئے ہوں۔ مگر جب نماز پڑھیں گے تو خاک کی ٹکیہ لائیں گے ۔ دنیااسے خا ک کی ٹکیہ ہی کہے گی۔بہرحال ہم اُسے پیشانی کے نیچے رکھیں گے۔ یعنی یہ ایک اظہار ہوگاکہ ہم ان تمام اسبابِ ثروت کو ذلیل سمجھتے ہیں اور اس کی ہمارے نزدیک کوئی عزت نہیں۔اُسے بوسہ نہیں دیتے، اسے بوسہ دیتے ہیں، اسے قابل احترام سمجھتے ہیں۔

اب تو بنظر شرف کربلا کی خاک کہتے ہیں ورنہ مسئلہ حقیقی کے لحاظ سے کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ وہ تو ایک اصول ہے۔ درخت کا پتہ لے لیتے ہیں۔ پنکھا ہوتا ہے، وہ رکھ لیتے ہیں، چٹائی ہوتی ہے، اس پر سجدہ کرلیتے ہیں۔اگر خاکِ شفا ہے تو اُسے ترجیح دے دیتے ہیں۔ اسے شرک کہنے کے کیا معنی ہیں؟ کس چیز کا شرک؟یعنی بوسہ دیا ضریح کو، وہ بہت بڑا شرک۔میں کہتا ہوں بوسہ دینے کی کیا حقیقت ہے؟ہمارے لب کسی جسم سے متصل ہوں، یہی معنی تو بوسے کے ہیں۔تو وہی بات کہ کیا ہمارے لب اللہ سبحانہ کے کسی جزو سے متصل ہوسکتے ہیں؟ یہ جب بھی ہوگا کسی جسم کے ساتھ ہوگا۔کسی مخلوق کے ساتھ ہوگا۔ اب میری عمر ایسی نہیں، ان باتوں کو پیش کرنا اور پھر جلالت منبر مانع ہے، اگر منبر کا حق کوئی سمجھتا ہو توبڑی نازک منزل ہے۔ عرفی نے اس قصیدہ میں،جونعت رسول میں کہا تھا، بڑامعرکہ آرا قصیدہ، اس میں کہا تھا:

ھشدار کہ پابرسر تیغ است قلم را

”ہوش رکھو کہ قلم کا پیر تلوا رپر ہے“۔

بادشاہوں کی تعریف کرلینا آسان ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول کی تعریف کرنا جو شایانِ شان ہو، وہ بڑی نازک منزل ہے۔ قلم کا پاؤں تلوار پر ہے۔ تو اب اس میں ذرا سے تصرف کے ساتھ میں یہ کہوں گا کہ اگر منبر کے محل کی عظمت کا احساس ہو تو ہر خطیب اپنے دل سے کہے ”ھشدار کہ پابرسر تیغ است زبان را“۔”ہوش رکھو کہ زبان کا پاؤں تلوار کی دھار پر ہے“۔یہ مقامِ منبر نہ مذاق کامتقاضی ہے، نہ بے فائدہ باتوں کامتقاضی ہے۔ اس میں حقیقت ہونی چاہئے۔ اس میں وہ ہونا چاہئے جو منبر کے شایانِ شان ہو۔ مگر اپنی غیر شاعرانہ زبان میں کہوں گا کہ جناب! بوسہ لینا جذباتِ نفس کی تحریک سے ہو تو شرک نہ ہو اور ازروئے عقیدت ہو تو شرک ہوجائے۔ اب طواف کرنا، میں

نے کہا کہ خانہ کعبہ میں متفق علیہ، کوئی امام بارگاہ کا طواف کرے ، کوئی ضریح کا طواف کرے، کوئی روضہ حسینی کا طواف کرے،کوئی کہے غضب کیا، غضب کیا۔ میں کہتا ہوں کہ غضب کیا کیا؟ طواف کیا ہوتا ہے؟ بیچ میں کوئی شخص یا کوئی چیز اور اس کے گرد چکر لگانا۔ تو کیا کبھی آپ کو اللہ سبحانہ ملے گا کہ اس کے گرد چکر لگائیے۔ کوئی زبان سے کہے یا نہ کہے مگر جسمانیت کے تقاضے ثابت کرتا ہے۔ تو وہ بھی اس کی عظمت کا تصور یہ رکھتا ہے کہ عرش پر نہیں سماتا۔تو پھر آپ کیا چکر لگائیں گے؟ مگر ہم تو کہتے ہیں کہ جسمانیت سے بری ہے۔ تو وہاں تو چکر لگانے کا تصور ہوہی نہیں سکتا۔ کسی عمار ت کے گرد ، کسی شے کے گرد چکر لگائے جائے گا تو کوئی معنی ہی نہیں طواف کو عبادت سمجھنے کے۔

ہاں! ہر چیزمیں معنی پیدا ہوجائیں گے اگر جس کا چکر لگا رہے ہیں، اسے خدا سمجھ لیں۔ا گر جس کا بوسہ لے رہے ہیں،اُسے خدا سمجھ لیں تو شرک ہے۔ یاد رکھئے کہ یہ شرک بوسہ لینے سے نہیں ہوا ہے، خدا سمجھنے سے ہوا ہے اور ایک جملہ کہہ کر آگے بڑھوں کہ خدا سمجھ کر آنکھ سے ایک اشارہ ہوگا تو شرک ہوگااور بغیر خدا سمجھے ہوئے سجدہ بھی ہوگا تو شرک نہیں ہوگا۔

جناب! تعظیم کے تقاضے سب جانتے ہیں۔ تعظیم کبھی براہِ راست ہوتی ہے اور کبھی اضافتوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ تو اب میں مثالوں سے ثابت کروں گا کہ اضافتوں کے ساتھ جو تعظیم ہے، وہ بڑے درجہ کی تعظیم ہوتی ہے۔

ایک صاحب، کوئی عالم دین، کوئی صاحب دولت آئے، حاکمِ ضلع آئے، آپ کھڑے ہوگئے تعظیم کیلئے، مگر اب وہ نہیں آئے، ان کا چھوٹا سا بچہ آگیا مگر اب اس بچے کو دیکھ کرآپ تعظیم کیلئے کھڑے ہوگئے۔ کسی نے پوچھا یہ آپ اس بچے کی تعظیم کررہے ہیں؟آپ نے کہا: جانتے نہیں کس کا بچہ ہے؟ تو بتائیے جب خود ان کیلئے آپ کھڑے ہوئے تھے، وہ بڑے درجہ کی تعظیم تھی یا یہ بڑے درجہ کی تعظیم ہوئی؟

جناب! وہ خود بھی نہیں آئے، نہ بچے کو بھیجا۔ ارے ان کا نوکر آگیا۔نوکر صورت شکل سے کوئی دیہاتی آدمی ہے۔ آپ اس کی تعظیم کیلئے کھڑے ہوگئے۔ کسی نے کہا: ارے آپ اس دہقانی کی تعظیم کرتے ہیں؟ آپ نے کہا: اسے نہ دیکھو، یہ دیکھو کس کا نوکر ہے۔

اب دیکھئے! بیٹے کی تعظیم کو جو کھڑے ہوئے تھے، اُس سے بھی یہ تعظیم بڑھ گئی۔ اور اب جناب! وہ ان کا بھیجا ہوا کوئی بھی نہیں۔ ڈاکئے نے لاکر ان کا خط دیا۔ روز ڈاکئے سے خط لیتے تھے، چپکے بیٹھے رہتے تھے۔ آج ڈاکئے نے خط دیا اور آپ سروقد کھڑے ہوگئے دیکھتے ہی۔کسی نے کہا: ارے بھئی کیا ہوا؟ کہا: یہ فلاں قبلہ کا خط ہے۔ تم جانتے ہو یہ کس کا خط ہے؟ حالانکہ یہ تو بے جان ہے۔ مگر یہ تعظیم اُن سب تعظیموں سے بڑھی ہوئی ہے۔ معلوم ہوا کہ جتنا رشتہ دور کا ہو، اور پھر بھی جذبہ تعظیم باقی رہے ، وہ اس مرکز کی سب سے بڑی تعظیم ہوگی۔

میری عادت نہیں کہ کسی کی نسبت بدگمانی سے کام لوں۔ میں کہتا ہوں کہ کوئی جماعت ہے جس میں جذبہ ہے اللہ کی تعظیم کا۔ مگر اقبال کی زبان میں کہوں کہ ہزاروں سجدے جبینوں میں تڑپتے رہے اس انتظا رمیں کہ وہ ملے تو سجدے کریں۔نہ وہ ملے گا، نہ سجدے ہوں گے۔ ارے ایک طبقہ کو اُمید ہے کہ اس دارِ دنیا میں نہ سہی، وہاں سہی۔ ایک طبقے کو اُمید ہے کہ ملے گا۔ مجھے ہمدردی ہے کہ وہ اس دن کے منتظر ہیں کیونکہ مجھے انتظار کرنے والوں سے ہمدردی ہوا کرتی ہے اور اس سے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ قسمت مسلم میں انتظار لکھا ہوا ہے۔ہر ایک منتظر ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی منتظر ہے ناممکن بات کا اور کوئی منتظرہے ممکن بات کا۔

تو جناب!یہ بس انتظار میں ہے کہ وہ ملے۔ اب ایک جماعت ہے بیچاری جسے وہ نہیں ملتا اور جذباتِ تعظیم ہیں۔ اب اس تک نہیں پہنچتے۔ اتفاق سے چودہ سو برس پہلے پیدا ہوئے تھے۔ اس لئے حضرت رسولِ خدا کے سامنے حاضر ہوگئے۔ آپ کے دست حق پرست کوبوسہ دیا۔ اب وہ جو پنجاب کا طریقہ ہے، مثلاً پائے مبارک کو بوسہ دیا۔ جو کچھ ممکن تھا، فرض کیجئے طواف بھی کرلیا۔ اب آپ نے کہا”شرک“۔میں کہتا ہوں کہ اسے سے پوچھئے کس کے ہاتھ کو بوسہ دے رہا ہے؟ اگر وہ کہے کہ خاندانِ بنی ہاشم کے تاجدار کے ہاتھ کو بوسہ دے رہا ہوں تو دنیا دار ہے، اگر کہے کہ حاکمِ عرب کو بوسہ دے رہا ہوں تو میں سمجھوں گا کہ دنیا پرست ہے۔ لیکن اگر وہ کہے کہ اللہ کے رسول کے ہاتھ کو توسمجھ لیجئے کہ وہ عظمت خد اہے جو اس عمل کو اُس سے کروارہی ہے۔

تو ایک درجہ اونچا ہے اس کی تعظیم کا۔ اور اب کوئی شخص ہے جو بعد میں پیدا ہوا اور پیغمبر خدااس کے سامنے نہیں ہیں۔ ایک آلِ رسول ہے، اولادِ رسول۔ اب اس نے جو جذباتِ محبت و عقیدت تھے، ان کو صرف کیا ان کی خدمت میں۔ کیوں؟ اس لئے کہ رسولِ خدا کے یہ نور سے ہیں۔ یہ بیٹے ہیں، رسولِ خدا کی اولاد ہیں۔ تو دیکھئے! وہ جذبہ محبت اور جذبہ عقیدت اور جذبہ تعظیم خدا کا ہے جو وہاں تک پہنچ رہا ہے اور اب بدنصیبی سے اس دَور میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ اب ان کی ضریح مطہر سامنے ہے اور ضریح مطہر کوجاکر بوسہ دیتا ہے۔ تو میں کہتا ہوں کہ جاہل سے جاہل دیہات کا رہنے والا آج کا مسلمان ، اس سے پوچھئے کہ کس کی زیارت کو آئے ہو؟ کیا وہ کہے گا کہ خاندانِ بنی ہاشم کے ایک بڑے آدمی کی زیارت کو آیا ہوں؟ کیا وہ کہے گا کہ تاجدارِ مدینہ؟ ، مجازاًآپ کہہ لیں کہ مدینہ کے بادشاہ کی زیارت کو آیا ہوں۔ کیا وہ کہے گا کہ قومِ عرب کے سردار کی زیارت کو آیا ہوں؟جاہل سے جاہل آدمی بھی کہے گا کہ رسول اللہ کی قبر کی زیارت کو آیاہوں۔

دنیا کہتی ہے کہ قبر پرستی ہے، قبر پرستی ہے۔ارے قبر پرستی ہوتی تو ہمارے ملک میں قبروں کی کوئی کمی تھی؟ یہ ہم اتنی مسافت طے کر کے وہاں کیوں جاتے؟ معلوم ہوا کسی قبر کی پرستش نہیں ہے، صاحب قبر کا رشتہ ہے جولے آیاہے۔

اب فرض کیجئے کہ ہم دور افتادہ ہیں، ہماری رسائی کربلا تک نہیں ہے۔ رکاوٹیں ایسی ہوگئی ہیں کہ پہنچنا اب اس دَور میں تو آسان نہیں رہا ہے۔ میں بھی دعا کرتا ہوں، آپ سب بھی دعا کریں کہ سب رکاوٹیں پروردگارِ عالم دور کرے تو یہ ہماری تمنا ہے کہ وہاں پہنچیں۔اب وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔ ویسے بھی ہر دور میں ہر ایک کے حالات تو نہیں ہوتے کہ وہاں ہر وقت پہنچ سکے۔ لہٰذا اس نے قبر کی شبیہ تیار کی، ضریح کی شبیہ تیار کی۔ اب وہ اس کا احترام کررہا ہے، اس کا طواف کررہا ہے، اس کو بوسہ دے رہا ہے۔ آپ کہتے ہیں :اوہ! شرک ہوگیا۔

میں کہتا ہوں کہ یہی اجزائے ضریح دوکان پر بھی تو تھے۔ ہم نے وہاں جاکر ان کی تعظیم کیوں نہ کی؟ جب ان میں ایک شکل پیدا ہوئی کہ کسی خاص ضریح کی شبیہ بن گئے تو معلوم ہوا کہ وہی جذبہ ہے۔ اب یہ جذبہ کی قوت پر انحصارہے کہ کتنی دور تک لہریں جاتی ہیں جن کا جذبہ محبت قوی ہے۔ان کیلئے رسول کا حکم رہنمائی کیلئے ہے۔

فتاویٰ قاضی خاں، ان میں یہ حدیث ہے کہ ایک شخص پیغمبر خدا کی خدمت میں آیا اور اُس نے یہ کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے او رایک روایت میں ہے کہ میں نے نذر کی ہے کہ میں پیشانی حورعین اور جنت کی چوکھٹ پر بوسہ دے رہا ہوں۔ چوکھٹ پر جنت کی اور پیشانی پر حورعین کی۔اوّل تو ماشاء اللہ آپ ہر موقع پر نکتہ رس ثابت ہوئے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ پہلے رسول کو یہ کہنا چاہئے کہ یہ تمہارا خواب

شیطان کا دکھایا ہوا ہے۔ بھلا بوسہ بھی کہیں ہوتا ہے ؟ یعنی گویا خواب میں بھی یا ا س نے نذر کی شرک کی۔ تو پیغمبر کا کام ہی ہے توحید کی طرف بلانا۔ تو آپ کو پہلے ہی اس کی زبان پکڑنا چاہئے کہ ارے یہ کیا؟ یہ شرک تم نے خواب میں دیکھا یا شرک کی تم نے نذر کی؟

تو جناب!اُس نے یہ کہا کہ پیشانی حورعین او رجنت کی چوکھٹ کو بوسہ دے رہا ہوں۔ ارشاد فرمایا کہ تمہیں یہ کرنا چاہئے کہ باپ کی پیشانی اور ماں کے قدموں کو بوسہ دے لو۔اُس نے کہا کہ حضور! میرے ماں باپ زندہ نہیں ہیں، وفات پاچکے ہیں۔آپ نے فرمایا: ان کی قبریں ہیں؟ دونوں کی قبروں کوجاکر بوسہ دے لو۔

دیکھئے! کیا رسول اللہ قبر پرستی کی تعلیم دے رہے ہیں؟ فرمایا: اگر دونوں کی قبریں ہیں تو دونوں کی قبروں کا جاکر بوسہ لے لو۔اُس نے کہا: حضور! قبروں کا پتہ نہیں ہے۔ میں کم سن تھا، دونوں اس وقت دنیا سے اٹھ گئے۔ مجھے معلوم نہیں کہ قبریں کہاں ہیں؟ آپ نے فرمایا: دو لکیریں کھینچو، ایک پر اس کا نام لکھو، ایک پر اُس کا نام لکھو اور ان کو بوسہ دے لو۔

میں کہتا ہوں یہ بھی ہمارے مولا نے نہیں لکھوایا کہ کسی زیارت کے مشتاق ہو تو شبیہ کو دیکھ کر زیارت کا شوق پورا کرلو۔کچھ حضرات کا ذہن منتقل ہوگیا ہوگا ۔ مگر میں کہتا ہوں کہ ہمارے امام کو اللہ تعالیٰ نے رسول کی ایک زندہ شبیہ عطا کی تھی۔ وہ کون؟ شہزادہ علی اکبر ۔ اسی وجہ سے یہ علی اکبر کی خصوصیت ہے کربلا میں، کسی کے جاتے وقت حسین نے اللہ کو گواہ نہیں بنایا۔ مگر جب علی اکبر جارہے ہیں تو ہاتھ اٹھادیتے ہیں دربارِالٰہی میں:

اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ عَلٰی هَولَاءِ الْقَوْمِ فَقَدْ بَرَزَاِلَیْهِمْ غُلَامٌ وَاَشْبَهُ النَّاسِ خَلْقًا وَ خُلْقًا وَمَنْطَقًابِنَبِیِّکَ وکُنَّااِذَااشْتَقْنَا اِلٰی نَبِیِّکَ نَظِرْنَا اِلٰی وَجْهِه “۔

”خداوندا! تو گواہ رہنا اس قوم کے ظلم پر کہ اب وہ جارہا ہے “۔

ماشاء اللہ آپ غور سے سن رہے ہیں۔ امام کیا کیا کہہ سکتے تھے۔ کون جارہا ہے؟ یہ کہہ سکتے تھے کہ میری ضعیفی کا سہارا جارہا ہے۔ یہ کہہ سکتے تھے کہ بھرے گھر کی رونق جارہا ہے۔ یہ کہہ سکتے تھے کہ پھوپھی کا اٹھارہ برس کا ریاض جارہا ہے۔ یہ کہہ سکتے تھے کہ ماں کے دل کی ڈھارس جارہی ہے۔ ارے ! کہہ سکتے تھے کہ میرا کڑیل جوان جارہا ہے۔ مگر مولا نے یہ نہیں کہا۔کہتے ہیں:

”پروردگار! گوہ رہنا کہ وہ جارہا ہے جو صورت و سیرت، گفتار و رفتار میں تیرے رسول سے دنیا میں سب سے زیادہ مشابہ ہے۔ پروردگار! جب ہم تیرے نبی کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو اپنے اس جوان کو دیکھ لیتے تھے“۔

میں کہتاہوں کہ جب سے علی اکبر پیدا ہوئے، امام نے کتنی مرتبہ علی اکبر کو دیکھاہوگا۔ مگر آج امام نے اپنی پوری عمر کی سیرت کی تفسیر کردی۔ اس پوری عمر میں جب بھی بیٹے کو دیکھا تو بنظر عبادتِ خدا دیکھا ہے۔ ہمیشہ رسول کی شبیہ ہونے کی حیثیت سے دیکھا ہے۔