معراج خطابت

معراج خطابت0%

معراج خطابت مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

معراج خطابت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مولانا عابد عسکری
زمرہ جات: مشاہدے: 61368
ڈاؤنلوڈ: 4773

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 61368 / ڈاؤنلوڈ: 4773
سائز سائز سائز
معراج خطابت

معراج خطابت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

شہید کی جو موت ہے ۳

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْافِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًابَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْن )

”جو اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں، انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں ، اپنے پروردگار کے ہاں رزق حاصل کرتے ہیں“۔

یہ آیت شہیدوں کے زندئہ جاوید ہونے کو بتاتی ہے۔ یعنی حیاتِ شہداء کا ثبوت دیتی ہے۔ مگر ایک پہلو غور طلب ہے کہ ہمیں ان ہستیوں کا نام معلوم ہے کہ انہیں شہید کہتے ہیں اور اس کی جمع شہداء ہے۔ اسی لئے ہم نے کہا کہ یہ حیاتِ شہداء سے متعلق ہے۔ لیکن اس آیت میں شہداء کا لفظ استعمال نہیں ہوا، حالانکہ بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر مختصر لفظ سے مفہوم ادا ہوجائے تو اُسے پھیلا کر کئی الفاظ میں ادا نہیں کرنا چاہئے۔ بہتر یہ تھا کہ کہاجاتا کہ شہداء کو مردہ نہ سمجھو۔کیا یہ ہماری بنائی ہوئی اصطلاح ہے کہ ہم ان لوگوں کو شہداء کہتے ہیں؟ یہ بات بھی از روئے قرآن غلط ثابت ہے۔ یہ اصطلاح علماء کی وضع کردہ نہیں ہے بلکہ قرآن مجید میں یہ لفظ ان معنی میں موجود ہے:

( مَنْ یُطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّ یْقِیْنَ وَالشُّهَداءِ وَالصَّالِحِیْنَ ) ۔

”جو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے تو یہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن کو اس نے اپنی نعمت خاص سے نواز اہے۔ وہ نبیین ، صدیقین ، شہداء صالحین“۔

دیکھئے! یہاں شہداء کا لفظ موجود ہے۔ تو پھر یہ تصور تو غلط ثابت ہوا کہ یہ محاورہ علماء کا قرار دیا ہوا ہے۔ قرآن مجید میں یہ اصطلاح موجود ہے تو پھر لفظ شہداء کیوں نہ کہا گیا؟ شہداء کے لفظ کی بجائے یہ اتنا جملہ کیوں لایا گیا:

( اَلَّذِیْنَ قُتِلُوْافِیْ سَبِیْلِ اللّٰه ) ۔

تو اس پر غور کیا جائے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ بعض الفاظ کو اگر اکیلا استعمال کیا جائے اور ان کی تشریح نہ کی جائے تو ان کی القاب کی سی حیثیت ہوجاتی ہے۔ اگر کہاجاتا کہ شہیدوں کو زندئہ جاوید سمجھو یا شہیدوں کو مردہ نہ سمجھو تو شہید کا لفظ ہمارے ذہن کی پیداوارکا پابند ہوجاتا کہ جسے ہم شہید سمجھ لیں، بس پھر وہ زندئہ جاوید ہے۔ یعنی شہداء کے لفظ کی تشخیص کرنا کہ کون کون شہداء ہیں؟ پھر وہ ہمارا کام ہوجاتا کہ ہم بتائیں کہ کون کون شہداء ہیں۔ قرآن بھیجنے والے کو تو معلوم تھا کہ شہادت کا لفظ اتنا ارزاں ہوجائے گا کہ جو بھی کسی بھی صورت میں قتل ہو، اُسے شہید ہی قرار دے دیا جائے گا۔ اسے دیکھا ہی نہیں جائے گا کہ کس راہ میں شہید ہوا یعنی قتل کس راہ میں ہوا؟ بس ادھر قتل ہوا، اُدھر شہید ہوگیا۔ چاہے جس وجہ سے قتل ہو۔ بلکہ اکثر تو اس مشاہدہ کی بھی ضرورت نہیں کہ یہ قتل ہوا، بس ایک قبر دیکھ لی اور اُسے مرجعیت دینا ہوئی تو کہہ دیا کہ شہید کی قبر ہے۔ نذرانے چڑھنے لگے، چڑھاوے آنے لگے۔ تو گویا لفظ شہید ہمارے محاورات کا پابندہوجاتا ۔لہٰذا خالق نے دونوں آیتوں میں لفظ شہید استعمال ہی نہیں کیا بلکہ معیارِ شہادت بتایا کہ ہم سے سنو کہ اصل شہادت کا نتیجہ زندگیِ جاوید کیونکر بنتا ہے؟ قتل ہو اللہ کی راہ میں۔ اب قتل ہونا تو آنکھ دیکھ سکتی ہے مگر اللہ کی راہ کو آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ ہم آپ تڑپتا ہوا لاشہ دیکھ سکتے ہیں ، زخمی جسم دیکھ سکتے ہیں، زخموں کو شمار کرسکتے ہیں ، گولیوں کے نشان دیکھ سکتے ہیں لیکن ہم آپ اللہ کی راہ کو نہیں دیکھ سکتے اور جب تک اللہ کی راہ کو نہیں سمجھیں گے، اس وقت تک شہید کہنے کا حق نہیں ہے اور نہ ہی شہید سمجھنے کا حق ہے اور جب شہید سمجھنے کا حق نہیں ہے تو زندئہ جاوید سمجھنے کا حق بھی نہیں ہوگا۔وہ تو اسی سے متعلق ہے جو اللہ کی راہ میں قتل ہو۔ بغیر مقصد کو دیکھے ہوئے ہم کسی مقتول کو شہادت کی سند نہیں دے سکتے۔

بات یہ ہے کہ اللہ کی نظر میں جان کی کوئی قیمت نہ ہوتی تو ہماری جان تھی،جب چاہے دے دیتے اور جس صورت سے یہ جان جاتی، صلہ مل جاتا ۔ لیکن اس جان کی بھی پیش خدا قیمت ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہماری جان ہے، لہٰذا جب چاہیں دے دیں۔ اس کیلئے ایک مختصر دلیل یہ ہے کہ اگر اپنی جان ہوتی تو خود کشی جرم ہی نہ ہوتی۔خود کشی کا گناہ اور جرم ہونا ثبوت ہے اس کا کہ یہ جان اپنی نہیں ہے۔ متفق علیہ اسلامی قانون کی روشنی میں دیکھئے۔ اگر جان کی قیمت نہ ہوتی تو یہ حکم ہوتا کہ روزہ رکھو او رمکمل کرو۔ زیادہ سے زیادہ مرہی تو جائیں گے۔ خدا کے ایک حکم کے سلسلہ میں جان جائے گی تو کیا کہنا۔لیکن جی نہیں!جان کی قیمت اس کی نظر میں ہے کہ روزہ اگر مضر ہے تو ناجائز۔اگر اندیشہ ہے کہ بیمار ہوجاؤ گے، تب بھی روزہ نہ رکھو۔ اگر بیمار ہواور اندیشہ ہو کہ بیماری میں طول ہوجائے گا، تو بھی روزہ نہ رکھو۔اگر روزہ رکھا تو وہ باطل ہو گا اور فاقہ ہوگا،روزہ نہیں ہوگا۔ضعیفی ہے، اولاد منع کرتی ہے کہ روزہ نہ رکھئے، آپ کیلئے نقصان دہ ہے۔ ڈاکٹر بھی بتاتے ہیں کہ روزہ رکھنا صحت کیلئے مضر ہے۔ عالم دین سے پوچھا تو انہوں نے بھی روزہ نہ رکھنے کیلئے کہا تو روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔مگر وہ کہتے ہیں کہ عمر بھر تو روزے رکھتے رہے، اب جب دنیا سے چل چلاؤ ہے، تو روزہ نہ رکھیں؟ یعنی اس عبادت کو آخر وقت میں ترک کریں؟ ہماری طبیعت اس کیلئے آمادہ نہیں ہے۔

احکامِ شرع کی روشنی میں مَیں تو یہ کہوں گا کہ عمر بھرتو عبادت کرتے رہے اور اب چلتے وقت بھی گناہ نہ کریں۔ وضو مضر ہے، نہیں وضو نہ کرو، شرع کا حکم ہے تیمم کرلو۔جیسے روزہ ساقط تھا، یہاں وضا کا نائب رکھ دیا گیا کہ اگر وضو نہیں کرسکتے تو تیمم کرلو۔ نماز وہی مرتبہ رکھے گی جو وضو کے ساتھ ہوتی۔ نمازی حضرات کہتے ہیں کہ تیمم سے نماز دل کو نہیں لگتی۔ بعد میں قضا کرکے پڑھ لیں گے۔ توبعد میں پڑھ لیں گے تو یہ ترکِ نمازگناہ ہوگا۔وہ جو آپ کے دل کو نہیں لگتی، وہ خدا کو قبول ہے۔ تو اگر آپ دل کی خاطر نماز پڑھاکرتے ہیں تو ٹھیک ہے، تیمم کرکے نماز نہ پڑھئے اور اگر خدا کے حکم سے نماز پڑھتے ہیں تو جب اس کا حکم وضو کا تھا، وضو کیجئے اور جب اس کا حکم تیمم کا ہے تو تیمم کیجئے۔آپ کا دل کیا چیز ہے؟ عبادت کا تعلق اللہ کے حکم سے ہے، آپ کے دل سے نہیں ہے۔اگر غسل کی ضرورت ہے اور غسل نہیں ہوسکتا تو غسل کا بدل وہی تیمم۔ حالانکہ اگر یہاں دنیاوی عقل سے کام لیا تو پھر دل یہ کہے گا کہ صاحب! غسل میں تو تمام جسم صاف ہوتا، اگر غسل نہیں ممکن ہے تو وضو ہی اس کا قائم مقام ہوجاتا، کم از کم اتنا حصہ تو صاف ہوجاتا لیکن شریعت کیا کہتی ہے کہ اگر دس دفعہ وضو کرلوگے غسل کے بدلے تو کام نہیں چلے گا، ایک

دفعہ تیمم کرلو۔

یہاں دیکھئے کہ طبیعت پر کتنا بار ہے کہ بجائے صاف وضو کے میلے ہوجاؤ اور مٹی مل لو۔مگر غسل ممکن نہیں ہے۔ تو ہم اپنی عقل سے وضو کو اس کا قائم مقام نہیں بنا سکتے جسے اُس نے قائم مقام بنایا۔ایک اپنا عمل اُس کا جانشین تو ہم نہیں بنا سکتے اور اس کے رسول کا جانشین ہم بنالیں!

اگر ہماری جان اس کی نظر میں کوئی قیمت نہ رکھتی تو کیوں یہ حکم ہوتا او رکہا جاتا کہ مرجاؤ مگر روزہ رکھو۔ چاہے مرجاؤمگرغسل وضو ضرور کرو۔معصومین کے زمانہ میں ایسے جاہل قسم کے بخیالِ خود عبادت گزار تھے۔ ایک شخص بیمار تھا۔ تیمارداروں کو معلوم ہوا کہ اسے غسل کی ضرورت ہے۔ وہ اتنا بیمار تھا کہ خود غسل بھی نہیں کرسکتا تھا۔تیمارداروں نے اس کو غسل دے دیا، نہلا دیا۔اُس سے اُس کی تکلیف بڑھ گئی۔نہلانے سے بہت ہی مہلک مرض اسے ہوگیا۔ کسی نے جاکر امام سے بیان کیا کہ یہ ہوا ہے۔ آپ نے اس کے تیمارداروں کیلئے یہ جملہ ارشاد فرمایا:

قَتَلُوْهُ قَتَلَهُمُ اللّٰهُ “۔”انہوں نے اس کو قتل کیا، اللہ انہیں قتل کرے گا“۔

یہ تہذیب معصومین میں سخت ترین جملہ ہے جو ارشاد فرمایا اس جاہلانہ ذوقِ عبادت پر۔ تو جان ہماری اس کے نزدیک کوئی وقعت نہ رکھتی ہوتی تو یہ حکم کیوں ہوتا؟ اسی طرح حج۔ اگر راستہ غیر مامون ہے، خطرئہ جان ہے تو حج ضروری نہیں۔شرائط استطاعت میں امنیت راہ داخل کہ راستہ پُر امن ہو، غیر معمولی خطرئہ جان نہ ہو۔ تو ان تمام احکامات میں جان کی حفاظت پیش نظر رکھی۔اس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری جان اس کے نزدیک قیمت رکھتی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اندھا دھندجان نہیں دینی کہ کیا ہوگا؟ گولی ہو تو کھالیں گے، لوگ کہیں گے کہ بہت بہادر ہیں۔

یاد رکھئے کہ دنیا کے مقابلہ میں بہادری بہت قابل تعریف ہے۔ اللہ کے مقابلہ میں بہادری قابل تعریف نہیں ہے۔ اگر موقع ایسا ہے کہ حفاظت جان واجب ہے تو یہ بہادری نہیں ہے۔یہ در حقیقت احکامِ الٰہی کے مقابلہ میں جراءت ہے۔ یوں تو بڑا بہادر شیطان تھا جس نے (معاذاللہ) اس کے منہ پر کہہ دیا۔آجکل اس کو اخلاقی جراءت کہا جاتا ہے۔ اس بے باک ی کو اخلاقی جراءت کہتے ہ یں۔ یقینا شیطان بڑی اخلاقی جراءت رکھتا تھا کہ اللہ تعال یٰ کے سامنے اس نے صاف صاف کہہ دیاکہ نہیں ، یہ نہیں ہوسکتا کہ مٹی کے پتلے کے سامنے میں سر جھکاؤں۔ مجھ سے کہتا ہے کہ میں اس کو سجدہ کروں جبکہ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے، یہ خاک سے پیدا ہوا ہے۔تو میں اس کے سامنے سر کیونکر جھکاؤں؟تو کتنا عذابِ الٰہی نازل ہوا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے واسطے راندئہ درگاہ ہو گیا حالانکہ بیچارہ اپنے خیال میں ایک طرح کے شرک سے بچ رہا تھا۔ اللہ کو بے شمار سجدے کرچکا تھا۔ غیر اللہ کے سامنے سجدہ کرنے سے بچ رہا تھا تو خالق اتنا ناراض کیوں ہوا؟ سمجھتا کہ اس نے مجھ کو بہت سجدے کئے ہیں ،خیر اس کے سامنے سجدہ نہیں کرتا تو نہ سہی، اب بھی میرے سامنے سجدے کا وقت آئے گا تو ضرور سجدہ کرے گا۔واقعی کرتا۔

میں کہتا ہوں کہ جب لڑرہا تھا، اس وقت بھی رب رب کہہ رہا تھا۔ میرے مالک! میرے پروردگار! یعنی اسے برابر مانے جارہا تھا۔اس کی خدائی کا قائل تھا۔ فرعون نہیں تھا کہ دعوائے خدائی کردے۔ نمرود نہیں تھا کہ دعوائے اُلوہیت کردے۔ برابر اس کی ربوبیت کو سرنامہ خطاب قرار دے رہا ہے۔ رب رب ہر قدم پر۔ ہر جملے میں رب کہہ رہا تھا۔ مگر خدا نے کہا کہ مجھے ایسے سجدے نہیں چاہئیں جن کے سامنے جھکنے کیلئے کہوں تو ان کے سامنے جھکنے سے انکار کرے۔ یعنی منظورِ نظر افراد سے سرتابی مجھ سے سرتابی ہے۔

انسان اس کے احکام سے سرتابی کرے، اپنے ذوق کی بناء پر، اپنے دل کی خاطر کہ میری طبیعت کو یہ نماز نہیں لگتی۔میرے دل کو یہ وضو نہیں لگتا۔ یہ احکامِ خدا سے سرتابی ہے، انحراف ہے۔ معلوم ہوا کہ ہماری جان اس کی نظر میں قیمت رکھتی ہے۔ اب میں کہتا ہوں کہ جان اندھادھند نہیں دینا ہے۔جب جان جانے کا خطرہ ہو تو یہ دیکھنا ہے کہ جان جائے گی تو سوارت ہوگی یا اکارت جائے گی۔یہ سوارت اور اکارت ہونے کا تعلق مقصد سے ہے۔ اگر پست مقصد کیلئے یا بلا مقصد ہوگئی تو اکارت گئی اور بلند مقصد کی خاطر جان گئی تو سوارت ہوئی۔

میں نے کل عرض کیا تھا کہ انسان سے بالا تر بس خالق ہے۔ پس اگر اللہ کی راہ کے سوا کسی دوسرے مقصد کیلئے جان گئی تو وہ اکارت گئی اور ہلاکت ہوئی اور اگر اللہ کے مقصد کی خاطر جان گئی ، وہ سوارت ہوئی۔وہ سنت کائنات کے مطابق ہے۔یعنی سنت کائنات یہ ہے کہ پست بلند پر قربان ہو۔ جمادات نباتات پر قربان ہوئے، نباتات حیوانات پر قربان ہوئے اور حیوانات انسان پر قربان ہوئے۔ تو اب اگر انسان قربانی پیش کرے تو اپنے سے بالا ترکی خاطر اور اسے بالا تر صرف اللہ ہے۔

مگر اب صاحبانِ فہم غور کریں کہ اب ایک مشکل ہے کہ اس سے پہلے ہر ایک شے جو اپنے سے بلند کی خاطر قربان ہوتی تھی، وہ بلند محتاج ہوتا تھا یعنی پودے غذا کے محتاج ہیں، اجزاء کے محتاج ہیں۔ زمین نے اس ضرورت کو پوراکرنے کیلئے ان اجزاء کو جو اس لائق تھے کہ پودے کا جزو بن سکیں، اس کی خاطر پیش کردیا، یہ قربانی ہوئی۔تو پودا محتاج تھا ان ذرّات کا۔ اگر یہ ذرات اس میں شامل نہ ہوتے تو پودے کی ہستی قائم نہ ہوتی۔ اس ضرورت کو زمین نے پورا کیا تو قربانی ہوئی۔

اسی طرح نباتات انسان اور حیوان کے کام آئے۔ تو حیوان محتاجِ غذا تھا۔ اگر غذا نہ ملے تو یہ ہلاک ہوجائے۔پودوں نے اس ضرورت کو پورا کردیا۔ اپنی ہستی کو فنا کردیا، اس کی غذا رسانی کیلئے۔پھر بقا حاصل ہوئی اور ترقی کا درجہ ملا۔ حیوان میں شامل ہوگئے۔پس حیوان محتاجِ غذا تھالیکن انسان سے جو بلند تر ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں ہے، نہ اُسے کوئی ضرورت ہوتی ہے ، نہ اس کے دامن پر گردِ تغیر و زوال و انتقال آسکتی ہے۔تمام دنیا مل کر اس کے سامنے سربہ سجود ہوجائے، تو اس کے جاہ و جلال میں ذرّ ہ بھر اضافہ نہیں اور سب مل کر منکر ہوجائیں تو اس کے جاہ و جلال و جبروتِ قدرت میں ذرّہ بھر کمی نہیں۔ اس کیلئے فوج و لشکر کی ضرورت نہیں۔ فوج و لشکر سب مخلوق ہیں، وہ جب چاہے ان کو تباہ کردے۔ اس کی ذات ان کی محتاج نہیں ہے۔ ایسی بے نیاز مطلق ہستی ہے کہ نہ انکار سے اس کا نقصان، نہ اقرار سے اس کافائدہ۔

ہم نے ایک ملک کے متعلق سنا ، صحیح و غلط کا پتہ نہیں۔ اس ملک والوں نے یہ کہا کہ ہم نے خدا کو اپنے ملک سے نکال دیا ہے۔ اب خبریں آنے لگیں کہ وہاں مدرسے اور مسجدیں کھل گئے یعنی ہواں عبادت کی آزادی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا آگیا۔انہوں نے اعلان کیا کہ ہم نے خدا کو اپنے ملک سے نکال دیا۔ زبان ان کے منہ میں ہے، جو مرضی کہہ دیں۔ لیکن ان کے کہنے سے کیا واقعی وہ نکل ہی گیا؟ یہ تو ان کا کہنا ہے کہ نکال دیا لیکن واقعی کیا وہ ان کے ملک سے نکل گیا، چلا گیا؟یہ اُس ملک والوں نے کہا۔ جس شخص نے بھی سائنس پڑھ لی تو

ترقی کی نشانی یہ سمجھ لی کہ میری سمجھ میں تو خدا کا وجود نہیں آیا، حالانکہ ذہن کے اندر نہ اقرار ہے ، نہ انکا رہے۔ لیکن اس بات کا اظہار فیشن کی بناء پر ہے کہ میں فلسفی ہوں، میری سمجھ میں خدا کا وجود نہیں آیا۔ باغی ہونا بہت ترقی کی نشانی ہے۔ سماج سے باغی ، ماں باپ سے باغی، روایاتِ خاندانی سے باغی اور سب سے بڑی اور اعلیٰ قسم یہ کہ خدا سے باغی۔

مجھے اس وقت فلسفے اور منطق کی کوئی بحث نہیں کرنی ہے، مجھے یہ کہنا ہے کہ آپ بڑے باغی ہیں تو جب جانوں کہ جب آپ پورے باغی ہوں، جب وہ بھیجے تو آئیے نہیں اور جب وہ بلائے تو جائیے نہیں۔حالانکہ کتنے ہی بڑے بلند بانگ دعوے بغاوت کے کرنے کے عادی ہوں، جب اُس نے بھیجا، تب آئے اور جب وہ بلائے گا تو چلے جائیں گے۔اس وقت بغاوت بھول جائیں گے۔میں کہتا ہوں کہ جس وقت آئے تھے تو کم از کم روئے تو تھے اور جب جانا ہوگا تو سانس تک نہ لیں گے، چپکے سے چلے جائیں گے۔یہ ہے انسان، ضعیف البیان کی حقیقت بغاوت۔یہ کیا بغاوت کرسکتا ہے؟اگر وہ اپنے اختیار کو سلب کرلے، اُس نے زبان اس کے دہن میں دے رکھی ہے تو اقرار کرے یا انکار کرے۔لیکن وہ اس زبان کو خاموش کردے تو یہ بات تو کرے؟ اُس نے ہاتھ دئیے ہیں اور اس کے ارادے کے تابع بنا رکھے ہیں تاکہ اس کا جوہر اختیار نمودار ہو۔ لیکن وہ اس ہاتھ کو بے حس و حرکت کردے تو یہ جنبش تو کرے۔ اس نے پاؤں دئیے ہیں اور اس کے ارادے کے تابع بنا رکھا ہے کہ چاہے یہ ان پیروں سے صحیح راستہ پر چلے ، چاہے غلط راستے پر چلے۔ لیکن وہ اس پیر کو معطل کردے تو یہ ایک قدم چل کر تو دکھائے۔عین اس وقت جب یہ کہہ رہا ہے کہ میں خدا کو نہیں مانتا، عین اسی وقت دل کی دھڑکن اطاعت کررہی ہے، نبض کی جنبش اس کی اطاعت کررہی ہے، خون کی روانی اس کی اطاعت کررہی ہے۔ جتنی اطاعت اسے لینی ہے، وہ تو لے رہا ہے۔ ایک زبان اس کے قبضے میں ہے، زبان کے اس قبضہ سے ناجائز فائدہ اٹھاکر اس کے دئیے ہوئے اختیار کو اس کے خلاف استعمال کرکے انکار کررہا ہے تو حقیقت میں اُس سے اسلام کا مطالبہ جو ہے، وہ صرف شرافت کا مطالبہ ہے کہ جس کی اطاعت جبری کرنی ہے، اس کی اطاعت اختیاری کرلو تو تمہارا جوہر انسانیت نمودار ہوگا ورنہ جو اطاعت اُسے لینا ہے، وہ تو وہ لے ہی لے گامگر وہ اطاعت ایسی ہوگی جیسی پتھروں کی اطاعت ہے، جیسے درختوں کی اطاعت ہے، جیسے جانوروں کی اطاعت ہے۔اگر انسانی اطاعت کرنا ہے تو اپنے ارادہ سے اطاعت کرلو۔ اس صورت میں اگر اطاعت کرو گے تو جزا کے مطالبہ کا تمہیں کوئی حق نہیں ہوگا اور ارادہ کے ساتھ اگر اطاعت کرو تو پھر جزا ہوگی۔

یہاں ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ دنیا کی حکومتوں میں مخالفت کی سزا ہے مگر موافقت کی جزا نہیں ہے۔ ایک دفعہ قانون کی خلاف ورزی کرے تو پکڑا جائے لیکن اگر عمر بھر قانون کے مطابق عمل کرے تو کوئی صلہ نہیں ملے گا۔کہاجائے گا کہ یہ تو رعایا ہونے کا لازمی تقاضا ہے اور وہ کہ جس کی ذاتی حکومت ہے، وہاں مخالفت کی سزا اور موافقت کی جزا ہے۔

میں پوری ذمہ داری کے ساتھ قرآن و حدیث کے مطالعہ کی بناء پر عرض کررہا ہوں کہ اگر سزا کا اعلان ہے تو وہ ٹل بھی سکتا ہے مگر جزا کا اعلان ٹلنے والا نہیں ہے۔دوسرا فرق یہ ہے کہ سزا عمل سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ جتنا گناہ ، اُتنی سزا۔ جزا کیلئے کم از کم دس گنا کا اعلان کہ ایک نیک کام کرو گے تو دس گنا اس کی جزا ملے گی۔

کسی نے مجھے مدعو کیا، میں نے سوچا کہ پتہ نہیں مجھے کیوں مدعو کیا ہے؟ وہ وقت مقررہ پر آئے اور مجھے لے گئے۔ بعض لوگ بہت سے لوگوں کو مدعو کرتے ہیں تو جو بھی یاد آتا ہے، اُسے اپنے تعلقات کی وسعت کے مظاہرہ کے لئے بلا لیتے ہیں۔آجکل جو احکامِ الٰہیہ پر عمل ہوتا ہے، اس میں بھی اپنے تعلقات کی نمائش ہوتی ہے، یہاں تک کہ افطارِ صوم کی دعوت ہے تواس میں اکثر روزہ دارنہیں بلائے جائیں گے۔ جو بڑے لوگ ان سے متعلق ہیں، یعنی ان کے شایانِ شان ہیں، جن سے تعلقات قائم کرنا ہیں، انہیں مدعو کیا جائے گا۔معلوم ہوا کہ انہیں روزہ سے کوئی مطلب نہیں، اس کے معنی یہ کہ نام ہے افطارِ صوم کا اور مقصد اپنی دوستی اور تعلقا ت کامظاہرہ کرنا ہے۔ ایسے ہی اکثر نذر نیاز وغیرہ کی جاتی ہے اور ان سے جو مقصدامدادِ غریباں کا ہے، وہ فوت ہوجاتا ہے۔غریب آئیں تو ان کے کپڑوں کے میلے پن کو دیکھ کر رد کردیا جاتا ہے اور جو ان کے حسب حیثیت ہیں، ان کو مدعو کیا جاتا ہے۔معلوم نہیں کہ یہ نذر بارگاہِ معصومین میں قبول ہوگی یا نہیں اور خدا اسے قبول کرے گا یا نہیں کیونکہ اصل قبول کرنا تو اسی کو ہے۔ نذراُن کیلئے ہوئی مگر قبول کرنے والااللہ تعالیٰ ہے۔

پس انسان جو کچھ بھی کرتا ہے، اس میں بہت زیادہ نمودونمائش ہوتی ہے۔ جنابِ امیر علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں ایک گورنر کو بڑا سخت خط لکھا ہے کہ بصرہ میں ایک شخص نے تمہیں مدعو کیا، روسائے بصرہ میں سے ایک آدمی نے، اور تم وہاں بڑی تیزی سے گئے۔ یہ عتاب کا انداز ہے کہ بڑی تیزی سے ،بڑے ذوق و شوق سے وہاں گئے۔ مجھے تم سے یہ توقع نہ تھی کہ تم ایسے افراد کے ہاں دعوت میں جاؤ گے جہاں دولت مندوں کو بلایا جاتا ہے اور محتاجوں کو واپس بھیج دیا جاتا ہو۔امیرالمومنین علیہ السلام نے جس بات پر تنبیہہ فرمائی تھی، وہ بات ہمارے ہاں ہورہی ہے، اکثر عبادات کے انجام دینے میں۔اس سے جو دینی فوائد ہیں، وہ مفقود ہوجاتے ہیں اورلوگوں کی نظر میں مادّی فوائدکا حصول ہی ساری اہمیت حاصل کرلیتا ہے۔ پس جو جان رضائے الٰہی کے سوا کسی اور مقصد میں صرف ہوتو وہ جان ضائع اور برباد ہوگی۔

پس جان دینے میں بہت سوجھ بوجھ کی ضرورت ہوگی۔ جس کو خالق نے یوں کہا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہو۔ مشکل یہ درپیش آئی کہ ہر چیزمحتاج تھی۔ لہٰذا قربانی کا تصور تھا۔ لیکن انسان سے بالا تر جو ذات ہے، وہ کسی کی محتاج نہیں ہے۔ اس کی خاطر کیونکر قربان ہوں۔ اس کیلئے کس طرح جان دیں؟ اس مشکل کو آیہ قرآن نے ایک لفظ سے حل کیا اور وہ یہ کہ مقصد قربانی کوان الفاظ میں ادا کیا:

اَلَّذِیْنَ قُتِلُوْافِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ “۔”جو اللہ کی راہ میں قتل ہوں“۔

ہر صاحب عقل سمجھ سکتا ہے کہ راہ عین منزل نہیں ہوتی۔منزل او رہوتی ہے، راہ اور ہوتی ہے۔ ہاں! راہ پر چل کر منزل ملا کرتی ہے۔راہِ خدا کا مقصد یہ ہے کہ ان مقاصد کی خاطر جان دے جو اللہ کو پسند ہیں۔ ان مقاصد کی خاطر جان دینا فی سبیل اللہ جان دینا ہوا۔ مگر اللہ کی راہ کیونکر معلوم ہو؟ اگر منزل مادّی ہو یعنی جسمانی تو اشارہ سے بتائی جاسکتی ہے ، مثلاً کوئی پوچھے کہ ماڈل ٹاؤن کہاں ہے؟ تو اگر وہیں جا رہا ہے تو کہہ سکتا ہے کہ میرے پیچھے پیچھے آجاؤ اور اگر اُدھر نہیں جارہا تو اشارے سے بتاسکتا ہے کہ اُدھر چلے جاؤ۔لیکن یہاں جس کا راستہ ہے، وہ جسم و جسمانیت سے بری، آنکھوں سے دکھائی نہیں دے سکتا۔ کسی سمت خاص میں نہیں کہ اُدھر اشارہ کیا جائے، کسی مکان میں مقید نہیں کہ ادھر بتایا جائے۔ کوئی سمجھے کہ کعبہ ہے، اُدھر رُخ کرکے کہے کہ یہ ہے۔ تو ہر مسلمان جانتا ہے ، جتنے لوگ خانہ خدا سمجھتے ہیں، وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہاں اللہ رہتا ہے۔ بودوباش کا تصور کسی کو نہیں ہے۔ حالانکہ بیت اللہ کہتے ہیں اور بیت اللہ صرف نام کو نہیں کہتے۔دور دراز سے وہاں حج کو جاتے ہیں۔لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ اللہ وہاں رہتا ہے۔ تو جسے بیت اللہ کہا، اس کیلئے تو نہیں کہتے کہ اللہ یہاں رہتا ہے اور جسے اُس نے عرش کہہ دیا، اس کیلئے کہتے ہیں کہ اللہ وہاں بیٹھتا ہے۔

ایک عقلی بات کہتا ہوں، ہر ایک فیصلہ کرے کہ جسے بیٹھنے کیلئے جگہ کی ضرورت ہوگی، اُسے رہنے کیلئے مکان کی بھی ضرورت ہوگی اور جسے رہنے کیلئے مکان کی ضرورت نہیں، اُسے بیٹھنے کیلئے جگہ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔یہ بھی نسبت ہے اللہ کا گھر اور وہ بھی نسبت ہے اللہ کا عرش۔مگر جیسی نسبت ہوتی ہے، ویسا ہی اس کے ساتھ عمل بھی ہوتا ہے۔ یہ ہے اللہ کا گھر اور وہ ہے اللہ کا عرش۔ گھر کی نسبت کسی شخص کی طرف نجی اور ذاتی ہوتی ہے اور عرش کی نسبت تخت سلطنت، یہ منصب کی ہوتی ہے۔ تو جسے گھر کہا تھا، جب نجی کام لینا ہوا، گھریلو، کسی کا زچہ خانہ بنانا تو اُسے منتخب کیا اور جب کسی کو سرکاری مہمان بنانا ہوا ، وہاں بلا لیا۔

کسی طرح معلوم ہو اللہ کا راستہ؟ اشارہ کردیں تو کیا وہاں ہے؟ ادھر کہہ دیں تو کیا وہاں ہے؟ کون بتائے اللہ کا راستہ؟ اشارے سے بتایا نہیں جاسکتا۔ اب سادہ الفاظ میں ایک اصول بتاتا ہوں کہ جادہ شناس وہی ہوگا جو منزل شناس ہو۔ جو منزل کو جانتا ہوگا، وہی راستہ کو بھی جانتا ہوگا۔اللہ کی راہ کو وہ جانے جو اللہ کی پوری معرفت رکھتا ہو۔ جب اللہ کی معرفت کامل رکھنے والا، جسے اُس نے رہنما بنایا ہے، وہ معرفت نہ رکھتا ہوتا تو رہنما کیوں بنایا جاتا؟ ہاں! ہم رہنما بناتے تو شاید وہ منزل سے واقف نہ ہوتا۔جو اللہ کے بنائے ہوئے رہنما ہوتے ہیںِ وہ معرفت کامل رکھتے ہیں۔وہی اس کی راہ کو بتا سکتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ فقہ جعفریہ میں یہ اصول ہوگیا کہ بغیر اذنِ امام کے جہاد نہیں ہوتا۔اب اگر امام سامنے ہیں، رسائی ہے ان تک، تو خاص انہی سے پوچھا جائے گا۔ پھر جتنے عالم ہیں جن کی امام تک رسائی ہے، جس طرح آپ عالم سے مسئلہ پوچھنے کے محتاج، اسی طرح عالم امام سے مسئلہ پوچھنے کے محتاج۔ لیکن غیبت کے زمانہ میں ، اوصاف کے لحاظ سے جنہیں انہوں نے حقوق دئیے ہوں، جن کے بارے میں کہا ہو کہ جب ہم تک رسائی نہ ہو تو یہ اوصاف جن میں پائے جائیں، وہ ہماری طرف سے ہمارے نائب ہیں۔

اس لئے جب وہ حضرات سامنے تھے، پیغمبر خدااپنے دَور میں اور ان کے بتائے ہوئے نامزد جانشین ہمارے آئمہ معصومین جب تک رہے، جب تک ان کے حکم سے جہاد نہ ہو، وہ جہاد نہیں ہوگا، جنگ نہیں ہوگی۔ وہ جنگ چاہے کسی مفادِ اسلامی کیلئے ہی ہو، جہاد اُسی وقت ہوگا جب ان کااذن ثابت ہو۔اس لئے بڑے بڑے صاحب اوصاف افراد نے بنی اُمیہ سے ٹکر لی اور شہید ہوئے ۔

تو شہید اس معنی میں تو ہیں کہ مقتولِ ظلم ہیں لیکن وہ شہادت جو اصطلاحی شہادت ہے، جس میں غسل و کفن نہیں ہوتا، وہ صرف اسی وقت ہوگی جب میدانِ جنگ میں امام کی اجازت سے ہو۔ معصوم کی اجازت سے ہو۔ اسی لئے ان لڑائیوں کو ، جو چاہے مظلوم حیثیت سے لڑی گئی ہوں، بنی اُمیہ کے مقابلہ میں، لیکن چونکہ ثابت نہیں ہے کہ ہمارے آئمہ کی تائیداس میں شامل ہے، اس لئے ہم نے ان لڑائیوں کو وہ درجہ نہیں دیا جو اُن لڑائیوں کو دیا ہے جن میں معصومین شریک تھے۔