معراج خطابت

معراج خطابت0%

معراج خطابت مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

معراج خطابت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مولانا عابد عسکری
زمرہ جات: مشاہدے: 61419
ڈاؤنلوڈ: 4774

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 61419 / ڈاؤنلوڈ: 4774
سائز سائز سائز
معراج خطابت

معراج خطابت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

شہید کی جو موت ہے ۴

بسْم اللّٰه الرَّحْمٰن الرَّحیْم

( لَا تَحْسَبَنَّ الَّذیْنَ قتلوْافیْ سَبیْل اللّٰه اَمْوَاتًابَلْ اَحْیَاءٌ عنْدَ رَبهمْ یرْزَقوْن ) ۔

”جو اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں، انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں ، اپنے پروردگار کے ہاں رزق حاصل کرتے ہیں“۔

میں نے عرض کیا تھا کہ شہید کیلئے غسل و کفن نہیں ہے۔ تو پوچھا یہ گیا ہے کہ جو نائب امام کے حکم سے جہاد شروع کیا جائے ، کیا اس میں شہید ہونے والے کیلئے بھی غسل و کفن نہیں ہوگا؟تو جواب یہ ہے کہ جب اس میں شرع کی تمام شرائط پوری ہوگئیں تو جہاد ہے اور اس میں شہید ہونے والے کیلئے غسل و کفن نہیں ہے۔ فقہی احکام اسی شہید کے ساتھ مخصوص ہیں جو اس قسم کے جہاد کے معرکہ جنگ میں شہید ہو۔لیکن اگر کوئیظالم خواہ خدمت دین کی بناء پر کسی کو قتل کردے تو وہ مقتول طلم کے معنی میں شہید ہے لیکن فقہ کے احکام اس آیت میں جو اعلان حیات جاودانی کیلئے کیا گیا ہے،وہ اس شہید کے ساتھ وابستہ ہیں جس پر فقہ کے اصول مرتب ہوں۔ اس حیات جاودانی کا معیار”قتلوْافیْ سَبیْل اللّٰه “ہے کہ اللہ کی راہ میں قتل ہو۔

فرض کیجئے کسی شخص کو نصرت دین کی وجہ سے کسی نے نشانہ ظلم بنادیا۔ اگرچہ معرکہ جنگ میں شہید نہیں ہے لیکن قتل ہونا راہ خدا میں یقینی ہے، لہٰذا قرآن مجید کا اعلان اس کیلئے بھی ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے راہ خدا میں جدوجہد اتنی کی کہ جس کی بناء پر اس کے قویٰ متحمل نہ ہوسکے اور وہ زیادہ زندہ نہ رہ سکاتو وہ قتل تو نہیں ہوا ہے مگر موت اس کی راہ خدا میں ہے۔ یہ حیات جاودانی کی جو آیا ت ہیں، ان میں ”انَّمَا“کے معنی ہوتے ہیں ایک شے کا ثبوت اور اس کے غیر کی نفی۔

( انَّمَاوَلیّکم اللّٰه وَرَسوْلَه وَالَّذیْنَ اٰمَنوْاالَّذیْنَ یقیْموْنَ الصَّلوٰةالخ ) ۔

اس ”انَّمَا“کے معنی یہ ہے کہ بس یہی ولی ہیں اور دوسرا کوئی ولی نہیں ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور کو ولی ماننا غلط ہے۔ ایک بہت بڑے ادیب تھے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ کیا بات ہے کہ آپ کے ہاں اولیاء نہیں ہوتے؟ یعنی ہمارے گروہ میں اولیاء نہیں ہوتے۔یہ کیا بات ہے؟ میں کہا کہ اولیاء ہمارے ہاں کوئی الگ قوم نہیں ہے۔ جو ایمان و عمل کے جتنے درجہ پر فائز ہے، اتنے درجہ اس کو ولایت الٰہی حاصل ہے اور یوں بحیثیت منصب ولی وہ ہے جسے وہ خود مقرر کرے۔

آیہ تطہیر میں کلمہ حصر ہے:

( انَّمَایریْداللّٰه لیذْهبَ عَنْکم الرجْسَ اَهْلَ الْبَیْت وَیطَهرَکمْ تَطْهیْرًا ) ۔

اسی طرح یہ آیت جو میں نے سرنامہ کلام بنائی، چوتھے پارے میں ہے ۔ اس میں”انَّمَا“کلمہ حصر نہیں ہے۔ اس آیت کا پس منظر کچھ یوں ہے، مختصراً عرض کرنا ہے۔معرکہ احد کا نتیجہ کچھ یوں ہوا کہ کثرت سے لوگ شہید ہوئے اور جنہیں جان زیادہ عزیز تھی، انہوں نے ایسی تدابیر اختیا رکیں کہ جان بچ جائے۔بہت محتاط الفاظ میں بیان کروں تو بھی حقیقت تو سامنے آئے گی۔ قرآن مجید کی آیات ہیں، کوئی روایت تونہیں ہے۔ ناموں کا سوال نہیں، قرآن مجید میں نام نہیں ہیں اور میں بھی نام کب لے رہا ہوں ، اور جو ایک اجتماعی عمل ہو، اس میں نام کہاں کہاں تک لئے جائیں۔

جنگ ختم ہوگئی، بہت لوگ شہید ہوگئے۔ جو لوگ میدان سے ہٹے ہیں، ان کی آپس میں گفتگوئیں ہیں۔یہ گفتگوئیں اس میدان سے ہٹنے کے عمل سے زیادہ خطرناک ہیں، دینی حیثیت سے، یعنی میدان جنگ سے جان بچانے کیلئے ہٹنے کو تو ایک بشری کمزوری کہاجا سکتا ہے لیکن اس گفتگو سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دلوں میں ایمان ہے ہی نہیں۔اس کو اس عمل سے چسپاں کیجئے تو اس عمل کا پس منظر ان لوگوں کی آپس کی گفتگو سے معلوم ہوجاتا ہے جسے حضرت علی علیہ السلام نے ایک جملے سے تجزیہ کرکے بر وقت بتادیا تھا۔

وہ جملہ وہ ہے جسے شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے ، جو بیہقی ہند کہلاتے ہیں، مدارج النبوة میں تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب فارسی زبان میں ہے۔ ہندوستان میں منشی نولکشور نے چھاپی ہے جو ایک غیر جانبدارمطبع ہے۔ شاہ عبدالحق نے اس موقع پر لکھا ہے کہ میدان جنگ میں صرف ایک ذات رہ گئی تھی ، حضرت علی علیہ السلام کی،آپ پیغمبر خدا کو تلاش کرتے ہوئے ایک گڑھے کے قریب پہنچے تو انہیں اس گڑھے میں زخمی حالت میں دیکھا۔ نفسیاتی طور پر چند جملے ہیں کہ اگر ان کا پس منظر سامنے نہ ہوتو وہ سمجھ میں نہیں آئیں گے کہ کیوں ارشادفرمائے۔

میں کہتا ہوں کہ جماعت کے کردار پر پیغمبر کا غیظ و غضب اتنا تھا کہ اب علی جو سامنے نظر آئے تو فرماتے ہیں: ”تم بھی کیوں نہیں چلے گئے؟“ہر شخص اس جملے کی روح کو دیکھ سکتا ہے۔ دل کی کس کیفیت کا مظہر ہے کہ”تم بھی کیوں نہیں چلے گئے؟“بس علی جیسامزاج شناس رسول ہونا چاہئے کہ ایک جملے سے پیغمبر خداکی کیفیت مزاج کو بدلا۔ علی نے جواب دیا:

اَاَکْفربَعْدَالْایْمَان “۔

”کیا ایمان لانے کے بعد کافر ہوجاتا؟“

میں کہتا ہوں کہ علی علیہ السلام کا یہ کہنا اور پیغمبر خدا کا تائیدی سکوت فرمانا بلکہ خوش ہوجانا ، اس نے آج قراروفرار کو میعار کفرو ایمان بنا دیا۔اس سے قبل کی لوگوں کی جو آپس کی گفتگو ہے، قرآن میں درج ہے۔کسی راوی کی بیان کردہ نہیں ہے۔وہ عجیب و غریب ہے۔ طولانی گفتگو ہے۔ غور سے دیکھئے، میں خلاصہ سنا رہا ہوں۔

جن حضرات نے، جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ دوچار افراد نہیں ہیں کہ آپ کا ذہن خاص افراد کی طرف جائے، وہ کثرت جو میدان سے ہٹی تھی، بجائے اس کے کہ اپنے عمل پرشرمندہ ہو اور جو شہدائے احد ہیں، ان کی تعریفیں کریں، وہ آپس میں اپنے عمل پر گویا نازش کررہے تھے کہ دیکھو! اگر یہ لوگ بھی ہماری طرح کرتے تو ”مَاقَتَلوْا “، پھر قتل نہ ہوتے۔ یعنی (معاذاللہ) یہ سب احمق تھے جنہوں نے جانیں دے دیں۔ ہماری طرح عقل سے کام لیتے اور دنیا نے تو عقل کا معیار یہی رکھا ہے۔ اگر ہماری طرح عقل سے کام لیتے تو”مَاقَتَلوْا “، پھر قتل نہ ہوتے۔پ یغمبر خدا ہم سے کبھی رائے نہیں لیتے تھے۔ آجکل دنیا کہتی ہے کہ رسول ہر بات رائے سے کرتے تھے اور قرآن ان کی زبانی شکایت یہی کررہا ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم سے تو رائے لی ہی نہیں جاتی۔ ہم سے تو کوئی مشورہ لیتا ہی نہیں۔اگر ہم سے مشورہ لیا جائے تو ایسے روزہائے بد کیوں دیکھنا پڑیں۔ آخر ہمیں بھی ان معاملات میں کوئی دخل ہے یا نہیں؟ آخر ہم جمہور ہیں تو ہمارا دخل ہونا چاہئے ان باتوں میں۔

( لَوْکَانَ منَ الْاَ مْرشَيْئًامَاقتلْنَا ) “۔

”اگر ہمیں کوئی اس امر میں دخل ہوتا تو ہم کیوں قتل ہوتے؟“

اب ان قتل ہونے والوں میں اپنے کو بھی شامل کرلیا۔ وہ کبھی ان میں شامل نہیں ہوتے، یہ ان میں شامل ہوگئے۔”مَاقتلْنَا “، تو اس طرح سے ہم قتل نہ ہوتے۔ یہ ہے پس منظر جس میں پہلے یہ کہا گیا ہے کہ تم ہٹنے کے بعد کیا موت سے بچے رہو گے؟ اس سے قبل کی آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ جب ہم جانیں جب تم اپنے گھروں میں رہ کر موت سے بچ جاؤ۔ کیا اگر تم گھروں کے اندر رہے تو تمہیں موت نہیں آئے گی؟ جب ہم جانیں کہ تم بچ جاؤ اوررہ گئے یہ کہ جو اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں، انہیں مردہ نہ سمجھو۔

( بَلْ اَحْیَاءٌ عنْدَرَبهمْ یرْزَقوْنَ ) ۔

”بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے پروردگار کے ہاں رزق حاصل کرتے ہیں“۔

تو اصل میں یہ لوگ جو تصور کررہے تھے کہ شہداء نے بیکار جانیں دیں ، ان کی جانیں فضول گئیں، اس کے مقابلہ میں قرآن مجید میں شہداء کیلئے یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے علاوہ جو عمر صرف کرے ، راہ خدا میں، وہ زندئہ جاوید نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کو جو راہ خدا سے جان بچائیں، اس خیال سے کہ اس طرح ہماری زندگی بچ گئی، ان کے مقابلہ میں کہا جارہا ہے کہ تمہاری زندگیاں بچی ہوئی نہیں ہیں۔ تم تو جب مرنا ہوگا، مروگے اور مروگے تو ہلاکت ہی ہوگی۔ ہاں! یہ جو اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں، انہیں مردہ نہ سمجھو۔ چونکہ اصل گفتگو انہی میں تھی، ان کیلئے ان کا تصور یہ تھا کہ بیکار مرگئے۔اس لئے کہا گیا کہ ان کو مرا ہو ا نہ سمجھو۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو میدان جنگ میں اس طرح سے نہ جائے، وہ مردہ ہے۔ وہ تو جب کوئی دلیل حصر ہوتی ، انحصار کا ثبوت ہوتا۔ یہاں نہ پس منظر ہے ، نہ انحصار۔

اب میں عقلی طور پرپہلے آپ کے سامنے اس سوال کو پیش کرتا ہوں ، ماشاء اللہ صاحبان عقل و فہم ہیں، دو آدمی میدان جنگ میں آئے، دونوں نے بھرپور جنگ کی۔ ایک پر مقابل کاوار کام کرگیا، ایک پر دشمن کا وار کام نہیں کرسکا۔یاد رکھئے کہ جزائے اخروی اعمال اختیاری پر منحصر ہوتی ہے۔ جب اختیاری کارنامہ عمل میں دونوں یکساں ہیں تو وار کا چلنا یا نہ چلنا اتفاق ہے۔ اللہ کے ہاں جزا اتفاق سے وابستہ نہیں ہوتی۔

اب جو عرض کررہا ہوں، فرصت کے لمحات میں اس پر غور کیجئے گا ، میدان جنگ میں آکر اختیاری بات تو ثابت قدم رہنا ہے۔ مسلمانوں میں دو معزز لقب ہیں غازی او رشہید۔یعنی زندہ رہے تو غازی، مرگئے تو شہید۔اپنے بس میں قائم رہناہے ، برقرار رہناہے ، ثابت قدم رہناہے۔غازی ہونا بھی اپنے بس کا نہیں اور شہید ہونا بھی اپنے بس کا نہیں۔ثابت قدم رہے، اگر ہمارا وار چل گیا دشمن کو ختم کرکے زندہ واپس آگئے تو غازی ہوگئے۔ اگر اس کا وار چل گیا اور ہم گر گئے زخمی ہوکر تو شہید ہوگئے۔ نہ غازی ہونا اپنے اختیار میں، نہ شہید ہونا اپنے اختیار میں۔ جما رہنا اپنے اختیار میں ہے۔

ایک بڑی حقیقت ہے جسے صاحبان فہم اپنی فہم کے اعتبار سے جانچ لیں عقلی طورپر کہ صحیح ہے یا نہیں! وہ یہ عرض کررہا ہوں دینی حقیقت کہ اگر شہادت کے شوق میں میدان جنگ میں کوئی کمی ہوگئی دشمن کے مقابلہ میں تو یاد رکھئے کہ شہادت کی منزل دور ہوجائے گی۔یعنی میدان جنگ میں ہر مجاہد کو یہ طے کرکے آنا چاہئے کہ ہمیں قاتل ہونا ہے ، حالانکہ لوگ خونریزی سے بہت گھبرانے لگے ہیں۔کچھ عرصہ سے یہ مسئلہ بہت زورشور سے پیش کیا جارہا ہے کہ اسلام میں خونریزی جائز نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اسلام میں خونریزی نہ ہوتی تو جہاد کا حکم ہی نہ ہوتا۔ میں ایک مرتبہ الہ آباد گیا۔ یہ قضیے تارہ تازہ تھے۔ میری اطلاع کے بغیر موضوع کا اعلان کردیا گیا۔ جب میں گیا تو معلوم یہ ہوا کہ اسلام میں خونریزی نہیں ہے۔ میں سمجھ گیا کہ اس کا پس منظر کیا ہے۔اسلام خونریزی کا حامی نہیں ہے۔ اعلان ہوگیا۔

تو مجھے اس پر تقریر تو کرنا تھی۔ پہلے تو ایک اصولی بات کہی کہ ایک ( debate )ہوتی ہے۔ اس قسم کا یک رخا موضوع ڈیبیٹ کا ہوتا ہے کہ کوئی موافق تقریرکرے، کوئی مخالف تقریر کرے۔ اس کے بعد رائے شماری ہوتی ہے، ووٹ لئے جاتے ہیں۔ وہ ڈیبیٹ کا موضوع ہوتا ہے۔ لیکن ایک مقرر کو جو موضوع دیا جائے، اسے جملہ ناتمام ہونا چاہئے۔ مثلاً اسلام اور خونریزی۔ اب یہ اس مقرر کا کام ہے کہ اسلام حامی ہے یا نہیں ہے۔ جب آپ نے خود ہی طے کرلیا کہ اسلام خونریزی کا حامی نہیں ہے تو پھر تقریر بھی خود ہی کرلی ہوتی۔ میری کیا ضرورت تھی؟میں نے کہا کہ اگر اس میں ایک لفظ اور بڑھا دیا جائے تو پھر میں اس موضوع کی موافقت میں تقریر کرنے کیلئے تیار ہوں اور وہ لفظ یہ ہے کہ اسلام ناحق خونریزی کا حامی نہیں ہے۔

اب میدان جنگ میں جو شخص آئے، اسے یہ طے کرکے آنا چاہئے کہ ہم زیادہ سے زیادہ دشمنوں کی جان لیں گے اور قتل کریں گے۔ پھر اتفاق سے اگر دشمن کا وار چل جائے اور قتل ہوجائیں تو شہید ہیں اور اگر دشمن کے سامنے کھڑے ہوکر اس شوق میں کچھ رعایت کردی کہ شہید ہوجائیں تو یاد رکھئے کہ یہ شوق شہادت باعث ہلاکت ہوجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل معیار ثابت قدم رہنا ہے اور میدان جنگ میں کوتاہی نہ ہونا ہے۔ اب اگر کوتاہی نہ ہوجانے کے باوجود دشمن کی تلوار کام کرجائے تو پھر شہید ہوگا۔

اگر آپ غور کریں تو آپ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ جو بات اپنے بس کی نہ ہو، اس پر احکام شرع مرتب نہیں ہوسکتے، نہ خالق کی جزا ایسے امر سے متعلق ہوسکتی ہے جو اپنے اختیار سے وابستہ نہ ہو۔اب میں آپ کے بالکل جانے پہچانے واقعات کو پیش کرکے آپ سے فیصلہ کروانا چاہتا ہوں کہ کیا ہر میدان میں جو شہید ہوجائے، اس کا رتبہ اونچا ہے اور جو شہید نہ ہو، اس کا رتبہ نیچا ہے؟

سب سے پہلی لڑائی بدر ہے غزوات اسلامی میں۔اس میں ادھر سے تین سورماآئے۔ عرب کے بڑے منجھے ہوئے بہادر۔ عتبہ، شیبہ اور ولید ادھر سے نکلے۔ تینوں کے تعارف کیلئے ایک ہی گھر کا حوالہ کافی ہے۔وہ جو عتبہ ہے، وہ امیر شام کا نانا ہے۔ شیبہ عتبہ کا بھائی ہے اور ہمارے محاورات میں نانا کا بھائی بھی نانااور ولید اسی عتبہ کا لڑکا ہے۔ جو نانا کا لڑکا ہے، وہ ماموں ہوتا ہے۔ ہوگیا تعارف!

ادھر سے تین انصاری آئے۔ وہ تو بیڑا اٹھا چکے تھے نصرت کا۔ انہوں نے اپنے عمل سے اس کو نبھایا کہ ادھر سے تین انصاری گئے، مدینہ کے باشندے۔انہوں نے کہا تمہارا نام؟ انہوں نے کہا: معاذ، معوذ اور تیسرے نے نام بتایا۔ انہوں نے کہا: ہم تم سے جنگ نہیں کرنا چاہتے۔ جاہلیت میں نسب کا غرور ہوتا تھا۔ کہنے لگے کہ ہم تم سے جنگ نہیں کریں گے۔ تم ہمارے برابر والے نہیں ہو۔ پیغمبر اسلام سے کہو کہ ہمارے برابر والوں کو بھیجیں۔وہ واپس آگئے۔ یہاں سے جناب حمزہ، پیغمبر کے چچا، ایک عبیدہ ابن حارث ابن عبدالمطلب، تیسرے علی ابن ابی طالب علیہما السلام۔ رشتہ میں جناب حمزہ سب سے بڑے تھے۔ یہ دونوں چچا زاد بھائی تھے، وہ چچا تھے۔ جناب عبیدہ عمر میں ان سب سے بڑے تھے۔پیرانہ سالی کی عمر میں تھے۔ ان سے چھوٹے حمزہ تھے، پیغمبر خدا کے ہم عمر تھے۔عمر میں سب سے چھوٹے حضرت علی علیہ السلام تھے جن کے بارے میں اس کے بعد بھی مدتوں کہا گیا کہ یہ تو بچے ہیں۔ بچے کو بوڑھا بنانے کا شوق مجھے نہیں ہے۔جو جس کی عمر ہے، وہ تو ہے۔ دنیا عمر کو پیدائش کے لحاظ سے گنتی ہے۔ جب سے یہ خلق ہوئے ہیں، اس وقت سے عمر نہیں دیکھی جاتی، وہ تو اس پیدائش کے لحاظ سے دیکھتی ہے۔ لہٰذا بے شک بچے ہیں مگر بچے کے معنی یہ ہیں کہ چوبیس پچیس برس کے۔ان لوگوں میں سب سے کم عمر ہیں۔

اس سے پہلے پیغمبر اسلام کے مکہ کے دور میں جنگ کا سوال ہی نہیں تھا۔ لہٰذا انہیں تلوار چلانے کا موقع کب ملا۔ مدینہ آکر پہلی جنگ ہے۔ تو جناب حمزہ توآزمودہ کار سپاہی ہوں گے۔ عبیدہ کی عمر حمزہ سے بھی زیادہ تھی تو وہ عرب کی اور لڑائیوں میں شریک ہوئے ہوں گے۔لیکن حضرت علی علیہ السلام تو بالکل نمایاں بات ہے کہ پہلی دفعہ میدان جنگ میں گئے ہیں۔ مگر ان دونوں کے ساتھ ساتھ رسول نے انہیں بھیجا ہے۔ یعنی رسول کے لئے ان کی صفات محتاج تجربہ نہیں ہیں۔

انہوں نے ان کا نسب پوچھا۔ انہوں نے بتایا۔ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، برابر کی لڑائی ہے۔ ایک ہی خاندان کے ہیں۔ یہ بے شک ہمارے مد مقابل صحیح بھیجے ہیں۔ایک اصول ان کے ہاں تھا کہ مقابلہ میں عمر کا تناسب بھی کرتے تھے۔ لہٰذا عبیدہ کا مقابلہ ہوا ان میں سے سب سے سن رسیدہ پہلوان سے۔ مگر وہ فنون جنگ میں بھی سب سے زیادہ ماہر تھا۔ ان کا اس سے سخت مقابلہ ہوا۔ جناب حمزہ کا مقابلہ ہوا عتبہ سے اور جناب علی علیہ السلام کا اس سے مقابلہ ہوا جو امیر شام کا حقیقی ماموں تھا۔ اسی پس منظر میں بعد کے سب واقعات ہیں۔ جناب حمزہ نے اپنے مقابل کو تہہ تیغ کیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے جو سب سے جوان تھاولید، اس کو تہہ تیغ کیا۔ جناب عبیدہ نے شیبہ کو زخمی کیا۔ وار چونکہ کاری نہیں تھا، اس لئے زخمی ہونے کے بعد وہ نہیں گرا۔ اس نے جو وار کیا، اس سے جناب عبیدہ گر گئے۔اس طرح وہ بدر کے پہلے شہید ہو گئے۔علی ابن ابی طالب علیہما السلام اپنے حریف سے فارغ ہوچکے تھے۔ آپ کی زبان میں کہوں کہ نمٹ چکے تھے۔لہٰذا وہی تلوار لے کر، جو کھنچی ہوئی تھی،اس حریف کی طرف چلے گئے جو زندہ کھڑا تھا۔اب اسے تہہ تیغ کیا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ پہلے ہی معرکہ میں حمزہ کا کردار اکہرا رہ گیا، ان کا کردار دہرا ہوگیا۔

اب آپ سے سوال ہے ، آپ کے ضمیر انسانی اور ضمیر ایمانی سے کہ نتیجہ آپ کے سامنے جو مسلّماً ہے، وہ میں نے پیش کردیا۔ اب آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا عبیدہ کا مرتبہ اس لئے اونچا ہوگیا کہ وہ جنگ کو سر نہ کرسکے اور علی کا کردار(معاذاللہ) اس قصور میں گھٹ گیا کہ انہوں نے اپنے دونوں حریفوں کو تہہ تیغ کردیا اور صحیح سلامت واپس ہوئے فتح یاب ہوکر؟ کیا عدل الٰہی کا یہی تقاضا ہے کہ وہ علی کے کارنامہ کو پست کرے اور عبیدہ کے کارنامے کو بڑھائے؟کسی کا ضمیر انسانی اس کیلئے تیار نہیں ہوگا۔ تو کیا جو شید ہوگیا، اس کا درجہ اونچا ہے؟ یا جو زندہ رہا، اس کا درجہ اونچا ہے؟

اب آئیے دوسری جنگ عظیم احد۔ کتنے شہید ہوگئے۔ میں نے ابھی کہا کہ کارواں ہے شہیدوں کا اس میں۔ صرف جناب حمزہ نہیں ہیں۔ وہ اتنے ہیں کہ ان کے نام بھی ہمیں نہیں معلوم۔ناموں کا معلوم نہ ہونا دلیل کثرت ہوتاہے۔ان سے کم جو میدان سے ہٹے مگر پھر بھی اتنے ہیں کہ ایک جماعت ہے او رکافی اچھی بڑی ہے جو میدان جنگ میں شہید ہوئی۔ اب صفحہ میدان کے سادہ ہونے کے بعد، دونوں طرح سادہ ہوا، جو بیچارے شہید ہوگئے، ان سے بھی خالی ہوگیا اور جنہوں نے نقل مکانی کرلی، ان سے بھی خالی ہوگیا۔اب میدان جنگ سادہ ہے اور ایک فرد واحد ہے جس نے بگڑی ہوئی جنگ کو بنا دیا۔ جس نے بظاہر اس فتحیاب جماعت کو پھر ایسی مکمل شکست دی اور اتنی دور بھگا دیا کہ اطمینان کے ساتھ رسول کے پاس آئے۔ ان سے باتیں کیں، گفتگو کی۔

میں کہتا ہوں کہ ذرا غور کیجئے، میں کہوں گا کہ معیارفہم انسانی پر غور کیجئے۔ معیار عقل ایمانی پر بھی غور کیجئے کہ کیا وہ سب شہدائے احد افضل ہیں اور علی جو جنگ کو سرکرکے واپس آئے(معاذاللہ) ان کا اس لئے درجہ گھٹ گیا کہ اسلام کو فتحیاب کرکے واپس ہوئے؟ آپ کا عقل و ضمیر کیا فیصلہ کرتا ہے؟یقینا ان کا کردار بلند تر ہے۔ت ومرتبہ عمل بھی بلند تر ہے اس کے لحاظ سے جزا بھی بلند تر ہے۔اب آپ فیصلہ کیجئے یا نہ کیجئے، میں کہتا ہوں کہ فرشتہ کو میں کیا کہوں کہ اس نے شہید ہونے والوں کا کلمہ نہیں پڑھا، جو زندہ واپس آگیا، اس کا کلمہ پڑھا:

لَا فَتٰی الاَّ عَلیْ لَا سَیْفَ الَّا ذوالْفقْار “۔

اس کے بعد پھر بڑی لڑائی ہے، جنگ خندق، جنگ احزاب۔ ادھر وہ ہزار کے مقابل والا ایک آگیا جس طرح عبیدہ وہاں زخمی ہوئے تھے، بے شک یہ ایک سورما ایسا ہے کہ جس نے حضرت علی علیہ السلام کو زخمی کردیا۔ یقینا جو وہاں اس کا رعب جما رہے تھے کہ ہزار کے مقابلہ میں ایک ہے، اس سے کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ تو اس نے اپنے فنون جنگ کا مظاہرہ کرکے ثابت کردیا۔ یعنی معلوم ہوتا ہے دنیائے کفر میں اس کا جواب نہیں تھا۔ ایک بات تو یہ کہ علی علیہ السلام کا کوئی بھی مد مقابل ایک وار کی آمدورفت سے زیادہ نہیں ٹک سکا ہے۔ بس ایک وار۔ مگر یہ شخص حضرت علی کے سامنے اتنا جما ہے کہ ستّر ضربوں کے ردّوبدل کی نوبت آئی۔ ارے اگر دنیائے کفرمیں ممتاز نہ ہوتا تو رسول کل کفر کیوں کہتے! ستّر ضربوں کے ردوبدل کی نوبت آئی۔

تاریخ نے مرقع کشی کی ہے کہ دونوں طرف کے بہادر۔دونوں طرف کے سورما۔ ایک جیسے الفاظ استعمال ہوں۔ تو دونوں ادھر ادھر کے گرد کے حصار میں چھپ گئے تھے۔ بس تلوار کی ایک چمک دکھائی دے رہی تھی اور کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔تمام بہادر ہکابکا باپردہ دیکھ رہے تھے کہ کیا ہورہا ہے۔ یہ دیکھ ہی نہیں رہے تھے، دیکھتے دیکھتے کچھ دہل بھی رہے تھے کہ اب وہ کہیں یہاں تک نہ آجائے اور کچھ یوں محبت میں بشری حیثیت سے، غرض یہ کہ سب کی نظریں لڑی ہوئی تھی اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ بھی دلیل ہے کہ قوت امامت سے جنگ نہیں کی جاتی تھی، فنون جنگ سے مقابلہ کیا جاتا تھا۔ انسانی طاقت سے لڑاجاتا تھا۔ طاقت امامت اور علم وہبی کو استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔اس کی مجال تھی کہ اتنی دیر تک رک سکے۔ ستّر مرتبہ ردوبدل کی نوبت آئی اورستّر مرتبہ کے بعد اس نے تلوار ماری تو سر مبارک تک پہنچ گئی۔امیرالمومنین کے وار ہمیں معلوم ہیں کہ ہمیشہ سر پر تلوار ماری ہے اور دوپارہ کردیا ہے۔مرحب کے سر پر تلوار ماری اور خود کو کاٹا ، سینے تک پہنچی۔حضور سر پر وار کرتے تھے، دوپارہ کرتے تھے۔ یہ ان کا خاص وار تھا مگر یہ بھی دلیل ہے اس کے امتیاز خاص کی، اپنے شعبے میں کہ علی کو وار بدلنا پڑا۔یعنی جو اسے بھی معلوم تھا کہ خاص وار یہ ہے۔ وہ اس سے بچتا رہا اور اس وار کا اس نے موقع نہ دیا جو ان کا خاص وار تھا۔

لہٰذا علی علیہ السلام نے سر کو دکھا کر کمر پر تلوار ماری۔ یہ وہ واحد شخص ہے جسے کمر پر تلوار مار کر زخمی کیا اور ا س کے زخمی ہوکر گرنے کے بعد حضرت کو ضرورت ہوئی کہ اس کے سر کو قلم کریں۔ابھی اس میں اتنی جان تھی کہ لعاب دہن اس نے روئے مبارک پر پھینکا۔یہ اس کی بہادری کی دلیل ہے کہ اتنی جنگ کرنے کے بعد اور ہلاکت کے قریب ہوجانے کے بعد خوف سے منہ خشک ہوجاتا ہے مگر لعاب دہن کا باقی ہونا اس کی انتہائی بے جگری کی دلیل ہے کہ اس نے لعاب دہن چہرئہ مبارک پر پھینکا۔ حضرت اتر گئے اور پھر اس کا سر قلم کیا تاکہ اس کا قتل کرنا بالکل اللہ کی راہ میں ہو۔

اب واپس ہوئے تو زندہ واپس ہوئے ہیں۔اسے قتل کرکے واپس ہوئے ہیں۔ زخمی سہی مگر یہ کہ صحیح سلامت واپس ہوئے ہیں۔ تو کیا اس لئے یہ کارنامہ غیر وقیع ہوگیا کہ یہ شہید نہیں ہوئے، زندہ واپس ہوئے ہیں؟معاذاللہ، اس لئے کارنامہ ہلکا ہوگیا ؟ کیا آپ کا دل اس کی گواہی دیتا ہے؟ اور میں کیا کروں کہ رسول اس ضربت کی تعریف کررہے ہیں جس میں علی نے جان لی ہے، ان کی جان گئی نہیں ہے۔

ضَرْبَة عَلیٍّ یَوْمَ الْخَنْدَق اَفْضَل منْ عبَادَة الثَّقَلَیْن “۔

”علی کی یہ ضربت جو روز خندق ہے، ثقلین کی عبادت سے قیامت تک کیلئے افضل ہے“۔

میں پوچھتا ہوں کہ شہیدوں کی عبادت، عبادت ثقلین میں شامل ہے یا نہیں؟

معلوم ہوتا ہے کہ ثابت قدم رہنا معیار ہے ، شہیدہوجانا معیار نہیں ہے۔ اگر کسی نے خطروں کا منتظر رہتے ہوئے زندگی گزاری، ہر وقت تیار رہا ہے کہ جان راہ خدا میں جائے لیکن کوئی قاتل نہیں آیا تو کیا ظالم کے عمل سے اس کی بلندی عمل وابستہ ہے کہ قاتل آتا تو اس کا درجہ اونچا ہوجاتا اور چونکہ قاتل نہیں آیا، اس لئے اس کا درجہ نیچا ہوگیا؟

اب سمجھ میںآ جاتے ہیں پیغمبر خدا کے ارشاد کے معنی جوعلامہ فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں ، جو حدیث ڈیڑھ صفحے میں درج فرمائی ہے اور وہ بھی آیہ مودة کے تحت( قلْ لَا اَسْئَلکمْ عَلَیْه اَجْرًاالَّا الْمَوَدَّةَ فی الْقرْبٰی ) ،جو حدیث تفسیر میں درج کی ہے، اس کا ایک جملہ، ایک سلسلہ ہے :

مَنْ مَاتَ عَلٰی حب آل محَمَّدٍ “۔

”جو آل رسول کی محبت میں دنیا سے گیا“،

مَاتَ کَامل الْایْمَان “۔

اسلوب شاعری میں یہ ہوتا ہے کہ آدھا مصرعہ ہر شعر میں آتا ہے اور آدھا مصرعہ بدلتا رہتاہے۔ اسی طرح ایک صفحے کے قریب سلسلہ کلام یوں ہے کہ ”من مات علی حب آل محمد“، اس کے ساتھ کا جزو بدلتا رہتا ہے:

مَنْ مَاتَ حب آل محَمَّدٍ مَاتَ کَامل الْایْمَان “۔

”جو آل محمد کی محبت میں مرا، کامل الایمان مرا“۔

مَنْ مَاتَ عَلٰی حب آل محَمَّدٍ مَاتَ مَغْفوْرًا “۔

”جو آل محمد کی محبت میں دنیا سے گیا، وہ بخشا ہوا گیا“۔

مَنْ مَاتَ عَلٰی حب آل محَمَّدٍکتبَ بَیْنَ عَیْنَیْه “۔

”جو آل رسول کی محبت میں دنیا سے گیا، اس کی پیشانی پر آنکھوں کے درمیان لکھا ہوا ہوگا کہ یہ رحمت خدا کا حقدار ہے“۔

اس طرح کے فقرں کا صفحہ ہے اور پھر یوں صفحہ ہے:

مَنْ مَاتَ عَلٰی بغْض آل محَمَّدٍ “۔

ارے ایک جماعت کے مذاق کے مطابق کہتا ہوں، یہ علامہ رازی کو کیا ہوگیا تھا؟ رسول کو کیا کہوں مگر نقل کرنا تو ان کا کام تھا۔ ایک رخ کہہ دیتے، دوسرا رخ کیوں کہہ رہے ہیں؟ لوگ کہتے ہیں کہ بس تَوَلّا تک ٹھیک ہے۔

میں کیا کروں امام فخری الدین رازی نے پیغمبر خدا کی حدیث نقل کی ہے۔ جتنے فقرے پہلے اسلوب کے تھے، اتنے ہی فقرے بعد کے اسلوب کے ہیں۔

مَنْ مَاتَ عَلٰی بغْض آل محَمَّدٍ “۔

”جو آل محمد کے بغض میں دنیا سے گیا“۔

جو بھی ہو، وہ:

مَاتَ یَائس منْ رَحْمَة اللّٰه “۔

”رحمت خدا سے مایوس ہوگیا“۔

ہر فقرہ کے مقابل میں فقرہ ہے۔ پہلے سلسلے کا ایک فقرہ عرض کرنا ہے۔

مَنْ مَاتَ عَلٰی حب آل محَمَّدٍ مَاتَ شَهیْدًا “۔

”جو محبت آل محمد میں دنیا سے گیا،وہ شہید گیا“۔

کیا پیغمبر خدا یہ کسی تاریخی واقفیت کا اظہار فرمارہے ہیں کہ جو محبت آل محمد رکھتا ہے، وہ ضرور کسی نہ کسی معرکہ جنگ میں گیا ہوگا یا جائے گا؟پیشین گوئی ہے اور ضرور وہ دشمن کے حربہ کا شکار ہوگا، شہید ہوگا۔ کیا رسول یہ اطلاع تاریخی دے رہے ہیں۔اگر یہ نہیں ہے تو کیا مطلب کہ جو محبت آل محمد میں دنیا سے گیا، وہ شہید ہوگیا۔

اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک چیز ہوتی ہے کنایہ۔ ”نکلا ڈکارتا ہوا ضیغم کچھا ر سے“۔کیا واقعی اس چیز سے دلچسپی ہے کہ انہیں شیر کہا جائے؟ یاد رکھئے کہ شیر حوانات میں داخل ہے۔ ایک عام انسان اس سے بالاتر ہے۔ تو کسی خاص انسان کو شیر کہنا اسے درجہ سے گرانا ہے۔ تو شیر کہنے سے حیوان کہنا منظور نہیں ہے۔ جو اس کے لوازم میں سے ہے ذہن انسانی میں، شجاعت، اس شجاعت کو پیش کرنا ہے۔ لازم سے ملزوم کی طرف اس کو ذہن میں لانا منظور ہے۔ ویسے ہی رسول نے فرمایا کہ جو محبت آل رسول میں دنیا سے گیا، وہ شہید ہوگیا۔تو قرآن میں دیکھو کہ شہید کا لازمہ کیا بتایا ہے؟شہید کا لازمہ یہ بتایا گیا ہے زندگی جاوید کہ انہیں مردہ نہ سمجھو۔تو رسول فرمارہے ہیں کہ جو آل محمد کی محبت میں دنیا سے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو، نہ مردہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں ، اپنے پروردگار کے ہاں رزق حاصل کرتے ہیں۔ جو لوازم قرآن نے شہادت کے بیان کئے ہیں، رسول فرمانا چاہتے ہیں کہ اس کیلئے معرکہ جنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر محبت آل محمد میں آخر رمق حیات تک گیا، قائم رہا، برقرار رہا، تو قاتل آیا ہو یا نہ آیاہو،معرکہ جنگ میں گیا ہو یا نہ گیا ہو،اسماعیل بھی ذبح نہیں ہوئے تھے مگر لقب مل گیا ذبیح اللہ۔تو جس وقت میں محبت آل رسول قتل ہونے کی ضمانت تھی، جو محبت آل رسول پر قائم رہا،وہ ہر وقت خنجر کے نیچے رہا یا نہیں؟

اب کوئی حجاج بن یوسف ثقفی پیدا نہیں ہوا تو اس کی وجہ سے کیا اس کے صلہ میں کمی ہوجائے؟ جب یہ آخر دم تک خطروں کو محسوس کرتے ہوئے اسی راستہ پر رہا جس کا نتیجہ ہمیشہ شمشیر و دار رہے، عنوان شمشیر و دار کے بدلتے ہوں، محبت اہل بیت کب پھولوں کی سیج رہی ہے؟ اگر کوئی اس سب کے باوجود اس راستے پر قائم رہا تو عدل الٰہی کے خلاف ہے کہ اس کو شہادت کا درجہ نہ دے۔

ایک طبقہ کی طرف سے کہا جاتا تھا کہ فاتحہ دلواتے ہو، اس میں غذا رکھتے ہو، تو کیا مرنے والاغذا کھائے گا؟ میں کہتا ہوں کہ اگر کھاتا نہیں ہے تو خدا نے کیوں کہا ہے کہ رزق حاصل کرتا ہے؟ جو کھاتا نہ ہو تو رزق کی کیا ضرورت ہے؟ اعتراض کے الفاظ بدلیں گے کہ کھاتا تو ہے مگر یہ کھانے نہیں کھاتا جو تم اس کے سامنے پیش کرتے ہو۔اس کیلئے ایک جدید دنیا کی بات کرنا ہے۔بہت آسان ہوگیا ہے میرا سمجھانا کہ آجکل کی دنیا کے جو معاشی قوانین ہیں، اس میں دو ملکوں کے درمیان انتقال زر ممنوع ہے۔ اکثر ملکوں میں ممنوع ہے۔ خاص طور پر وہاں جہاں افراط زر ہو۔ انتقال زر کا ایک قانون ذریعہ مجھے معلوم ہے ورنہ غیر قانونی تو بہت سے لوگوں کو معلوم ہوگا۔قانونی ذریعہ یہ ہے کہ کوئی بینک ہے جس کا رابطہ یہاں سے بھی ہے اور وہاں سے بھی ہے یا یہاں سے ہے اور وہاں کے کسی بینک سے ہے۔ آپ یہاں داخل کیجئے اور وہ اسے وہاں کے بینک سے مل جائے گا جو ان کا حساب ہے، اس کے حساب سے۔

اب ذرا اس بات پر غور کیجئے ، یہاں تو آپ وہی کرنسی داخل کریں گے جو آپ کے پاس ہے مگر وہ بینک اگر وہی کرنسی وہاں بھیج دے تو وہاں بیکار ہوگی۔لہٰذا امانت داری کے ساتھ ، عقل سے کام لیتے ہوئے اور وہ عقل عمومی ہے، وہ بینک اس کرنسی کو جو آپ نے داخل کی ہے، اس ملک کی کرنسی میں بدل کے اپنی امانت داری کے تقاضے سے پہنچا دے گا۔اگر یہی کرنسی پہنچا دے تو امانت داری تو ہوگی مگر حماقت ہوگی۔ اگر نہ پہنچائے تو امانت داری نہیں ہوگی۔ اس کو امانت داری سے کام بھی لینا ہے اور عقل سے بھی کام لینا ہے۔

لہٰذا یہاں آپ سے آپ کی کرنسی لے گا اور وہاں اس کی کرنسی میں ادائیگی کرے گا۔میں دنیا والوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا جتنی عقل آپ کے بینکوں کو ہے، (معاذاللہ) اتنی عقل بھی اللہ کو نہیں ہے؟ ہم اپنے محبت کے جذبہ کے تحت اس کو تحفہ بھیجنا چاہتے ہیں مگر ہمارے پاس تو وہی کھانے ہیں جو ہمارے ہاں پکتے ہیں۔ ہم تو وہی دیں گے لیکن ہمارے ایمانی جذبہ کی قدر کرتے ہوئے ، محبت کے جذبہ کی قدر کرتے ہوئے، اسے کسی کی محبت ناگوار نہیں ہے۔ہماری محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے ہاں کے کھانے اسے پیش کریں تو خدائے کریم کیا اس پر قادر نہیں ہے کہ اس عالم کے کھانوں کی شکل میں منتقل کرکے ہمارے پیش کردہ ہدیہ کو اس تک پہنچا دے۔

یہ سمجھ کر نہ کیجئے کہ شرع نے یہ طریقہ بتایا ہے ورنہ وہ بدعت ہوجائے گی۔شرک نہیں ہوگی، بدعت ہوجائے گی۔ کون ۲۲/ رجب کو پوریاں پکاتا ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ شرع میں آئی ہیں ؟ کون عید کے دن سویّاں کھاتا ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ شرع میں آئی ہیں؟ بس عید کے دن سے سویاں مخصوص ہوگئیں اور ۲۲/ رجب سے پوریاں مخصوص ہوگئیں۔اس کو رواج کے ماتحت کیجئے تو بدعت نہیں ہوگا۔ حکم شرع سمجھ کر کیجئے تو بدعت ہوگا۔

تو بس یہ سمجھنا کہ زندگی جاوید اسی وقت ہوسکتی ہے جب ہم میدان جنگ میں جائیں، حالانکہ میدان جنگ میں جانا صدیوں نہیں ہوسکتا۔ وہ حالات کئی کئی سو برس نہیں پیدا ہوتے جن میں میدان جنگ میں جانا ہو۔ تو کیا یہ ان جزاؤں سے محروم رہے؟ صرف اس وجہ سے کہ اس کے دَور میں کوئی موقع ایسا نہیں آیا؟ موقع آنا نہ آنا تو اس کے بس میں نہیں تھا تو جو اس کے بس میں تھا، اس سے اس کا صلہ کیوں وابستہ ہو؟ میں اس کو آیہ قرآنی سے ثابت کرچکااور حدیث سے ثابت کرچکا۔

امیرالمومنین علیہ السلام ، جمل کا معرکہ ہے، فتح حاصل ہوئی، اصحاب جمع ہیں۔ نہج البلاغہ میں ہے، اصحاب میں سے ایک شخص نے اپنے دوست کا نام لے کر کہا کہ کاش! وہ فلاں شخص بھی یہاں ہوتا اور جنگ میں شریک ہوتا اور اس فتح کو دیکھتا ۔ اس کے نہ ہونے پر افسوس کیا تو امیرالمومنین نے دریافت کیا: یہ بتاؤ کہ تمہارے اس بھائی کی محبت ہمارے ساتھ ہے؟ وہ ہمارے دوستوں میں سے ہے؟ اس نے کہا: بے شک وہ آپ کے دوستوں میں سے ہے۔ تو ارشادفرمایا: جب وہ ہمارے دوستوں میں سے ہے تو یقین جانو کہ وہ ہمارے ساتھ شریک ہے اور وہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس کا کیا ذکر ، اس جنگ میں ہمارے ساتھ وہ بھی ہیں جو ابھی اپنے آباؤ اجداد کی پشت میں ہیں۔ جو ابھی شکم ہائے مادر میں ہیں۔ وقت آئے گا کہ زمانہ انہیں سامنے لائے گا اور ان کے ذریعہ سے اس دَور میں ایمان کو قوت ہوگی اور اس دَور سے اللہ حق کی نصرت کرے گا۔ تو جوجو ہمارے ساتھ نہیں ہیں، صدیوں بعد میں، وہ بھی ہمارے ساتھ معرکہ میں شریک ہیں۔