معراج خطابت

معراج خطابت0%

معراج خطابت مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

معراج خطابت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مولانا عابد عسکری
زمرہ جات: مشاہدے: 61347
ڈاؤنلوڈ: 4771

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 44 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 61347 / ڈاؤنلوڈ: 4771
سائز سائز سائز
معراج خطابت

معراج خطابت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اسلام اور ادیانِ عالم ۲

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

( وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَالْاِسْلَامِ دِیْنًافَلَنْ یُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَفِی الْاٰخِرَة مِنَ الخَاسِرِیْنَ ) ۔

اس موضوع سے متعلق جو میں عرض کررہا ہوں، قرآن مجید کی ایک آیت ہے:

( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَالَّذِیْنَ هَادُوْاوَالنَّصَارٰی وَالصَّائِبِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِوَعَمِلَ صَالِحًافَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَاهُمْ یَحْزَنُوْنَ ) ۔

یہ مضمون قرآن مجید میں دو مقامات پر ہے۔ ایک جگہ یہ ہے جو الفاظ میں نے پڑھے اور ایک جگہ اتنا فرق ہے کہ یہاں نصاریٰ پہلے اور صائبین بعد میں ہے اور وہاں صائبین پہلے ہے اور نصاریٰ بعد میں ہے۔ذرا گرائمر کا فرق ہے کہ یہاں صائبین منصوب ہے اور وہاں صائبون مرفوع ہے۔ مطلب دونوں کا ایک ہے۔ لفظی ترجمے کے لحاظ سے ایسا ذہن میں آتا ہے کہ نجات کیلئے اسلام کی خصوصیت نہیں ہے۔ ترجمہ یہ ہے کہ جو ایمان لائے اور عیسائی اور صائبی ، یہ ستارہ پرست ہوتے تھے اور یہودی، یہ سب جو ایمان لائیں اللہ اور روزِ آخرت پر اور نیک اعمال کریں تو ان کیلئے ان کا اجر ہے ان کے پروردگار کے ہاں اور خوف اور حزن ان کو نہیں ہے۔

اب کوئی کہے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں اور قرآن کی آیت یہ تھی کہ جو اسلام کے علاوہ کوئی دین اختیار کرے، وہ قبول نہیں ہوگا اور گھاٹا اٹھائے گا اور یہاں دو جگہ قرآن کہہ رہا ہے کہ یہودی اور نصرانی اور آتش پرست یہ سب۔ میں کہتا ہوں کہ یہ نام بھی بطورِ مثال ہیں یعنی کسی بھی مذہب کا ہو اور نیک اعمال کرے تو وہ نجات پائے گا اور اُسے اجروثواب حاصل ہوگا۔ آپ کی توجہ اس طرف مبذول کروانا ہے کہ اگر ان سب ناموں کے بعد صرف”( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا ) “ہوتا ، یہودی، نصرانی، صائبی اور مسلمان ، جو نیک اعمال کرے، تب وہ مطلب نکلتا جس کی خاطر یہ آیت پیش کی جارہی ہے۔ مگر یہاں”( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا ) “نہیں ہے بلکہ مومن و یہودی و نصرانی و صائبی و مجوسی یا جو بھی نام آپ کو یاد آئیں مذاہب کے، وہ سب ۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ سب اگر نیک اعمال کریں ، کہا جاتا ہے کہ یہ سب جو ایمان لائیں اللہ اور روزِ آخرت پر اور پھر نیک اعمال کریں ۔

جب قرآن کا مطالعہ کیجئے تو اللہ اور آخرت کے معنی ہیں اسلام یعنی یہ دوسرے ہیں عقائد کے ایک مبداء اور ایک معاد۔ایک اللہ اور ایک آخرت۔ کہاں سے آئے؟ وجود کیونکر ہوا؟ یعنی آغازِ حیات اور انجامِ حیات۔ رسالت اور امامت سب اس کے درمیان میں ہے جیسے سماو ارض کے مابین تمام کائنات ہے، ایسے مبداء و معاد میں تمام اسلام ہے۔اس لئے آپ قرآن میں اکثر دیکھیں گے کہ اظہارِ ایمان و اسلام کیلئے صرف ”( یُومِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ) “، اللہ پر اور آخرت پر ا یمان لائیں ۔یہی ہے، یہ گویا محاورئہ قرآنی ہے ایمانِ مکمل کیلئے کہ

( اَ لْاِیْمَانُ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ) “، اللہ پر اور روزِ آخرت پر ا یمان۔

اب ایک اور موضوع کی با ت آگئی ذہن میں کہ اگر قرآن سے کلمہ مرتب کرنا ہے تو اللہ اور قیامت کا کلمہ پڑھئے۔ اس لئے کہ قرآن میں یہی دو چیزیں اکٹھی ہیں۔ قرآن میں شروع سے لے کر آخر تک کہیں بھی یکجا”لَآاِلٰهَ اِلَّااللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّ ٰہ“نہ یں ہے۔ قرآن میں اللہ کے ساتھ یومِ آخر ہے۔تو اگر قرآن کو کافی بنا کر کلمہ پڑھنا ہے تو بس اللہ اورقیامت کو لیجئے۔ معلوم ہوا کہ کلمہ قرآن سے نہیں پڑھاگیا اور نہ قرآن نے کلمہ سکھایا ہے اور رسول بھی جب مسلمان بناتے تھے تو لفظ”قولوالَآاِلٰهَ اِلَّااللّٰه “کہتے تھے کہ ”لَآاِلٰہَاِلَّا اللّٰہ“کہو۔ تو اگر رسول کے کہنے سے کلمہ پڑھنا ہے تو عمر بھر یہی پڑھتے جائیے۔ رسول تو فقط ”لَآاِلٰهَ اِلَّااللّ ٰہ“ پڑھواتے تھے۔ آگے کوئی جملہ نہیں کہتے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کلمہ نہ قرآن سے بحیثیت مجموعی مرتب ہوا ہے، نہ حدیث سے بحیثیت مجموعی مرتب ہوا ہے بلکہ اپنے خصوصیاتِ امتیازی ، جو عقیدہ کے لحاظ سے ہیں، ان کے اظہار کا ذریعہ کلمہ ہے۔

اب رسول نے فرمایا”قُوْلُوالَآاِلٰهَ اِلَّااللّٰ ہ“۔ بس”لَآاِلٰهَ اِلَّااللّٰ ہ“، تو ہم نے رسول کے کہنے سے کہا مگر چونکہ ان کے کہنے سے کہا، اس کے معنی ہیں رسالت کو مانا۔ تو ہم نے خود کہہ دیا”مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰه “، اور جب غد یر میں اعلان کیا”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ “، تو ہم نے کہہ دیا”عَلِیٌّ وَلِیُّ اللّٰهِ “۔

تو جناب! یہ تو ہے نہیں کہ جو یہ سب کرے، وہ سب نیک اعمال کرے بلکہ اس کے بعد کہا گیا”مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ “ اور روزِ آخرت پر ا یمان لائے اور نیک اعمال کرے۔یہ دو چیزیں ہیں یعنی صرف عمل صالح پھر بھی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ عقیدہ کا ایک جزو ہے جس کا نام ”اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ “ ہے اور اس کے بعد پھر عمل صالح ہے۔

اب جو شروع میں سب نام لئے تھے، اس کا کیا مطلب؟ جو مطلب میں سمجھا ہوں، اس کے سوا کوئی مطلب نہیں ہوسکتا، وہ یہ ہے، شروع میں بھی تو ایک عدد”الَّذین اٰمنوا“موجود ہے کہ وہ جو ایمان لائے۔ جو ایمان لائے اور یہودی و نصرانی و صائبی، جو ایمان لائے ، اللہ اور روزِ آخرت پر، تو اس لائن میں بھی ایمان لائے ہے اور پھر معیارِ نجات میں بھی ایمان لائے اور نیک اعمال کرے۔ کیا مطلب؟ وہ ایمان کونسا ہے اور یہ ایمان کونسا ہے جو یہودی و نصرانی کے ساتھ”اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا “کہا ہے، وہ پھرک یا ہے؟ او ربعد میں جو قید لگائی ہے کہ ایمان لائے اور نیک اعمال کرے، یہ کیا ہے؟

تو اب جو میں کہتا ہوں ایمان کا مطلب، اس کے بعد دیکھئے کہ نتیجہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ماضی کو نہیں دیکھا جائے گا۔خواہ شروع سے مسلمان ہو، یہ شروع والا”اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا “ہے۔ یعنی یہ نہیں ہے کہ پہلے یہودی تھا، یہ نہیں کہ پہلے نصرانی تھا، یہ نہیں کہ پہلے صائبی تھا۔ جی نہیں! یعنی وہ جو پیدائشی مسلمان ہے۔ یہ پہلا”اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا “ہے جو شروع سے مسلمان ہ یں اور جو یہودی ہیں، نصرانی ہیں، ہیں اب نہیں، یعنی پہلے تھے ماضی میں، خواہ شروع سے مسلمان ہو، خواہ پہلے یہودی ہو، نصرانی ہو، صائبی ہو، آتش پرست ہو یا ستارہ پرست ہو، جوبھی وہ پہلے تھا، اب معیارِ نجات سب کیلئے ایک ہے۔ وہ یہ کہ:

مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِوَعَمِلَ صَالِحًافَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ “۔

ماضی جس کا جو بھی ہو لیکن حال میں اگر دونوں شرطیں حاصل ہیں یعنی ایمان ہے اللہ اور روزِآخر ت پر، جس کے معنی ہیں اسلام اور نیک اعمال ہیں تو اس کیلئے اس کا اجر ہے یعنی نجات ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حال میں معیارِ نجات سب کا ایک ہے اور وہ اسلام با عمل ہے۔

جناب! تین عدد حقائق بیان ہوچکے ۔ ایک یہ کہ اسلام کا براہِ راست اللہ سے تعلق ہے، کسی محدود ذات سے یا محدود مکان سے تعلق نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ دین فطرت ہے اور تیسرے جو آخر میں عرض کیا گیا۔ یہ تین خصوصیات بیان ہوچکیں۔ تیسری یہ تھی کہ انسان کو انسان کی معرفت کروائی۔ چوتھا تحفہ جو اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، وہ وحدتِ الٰہ کا ہے۔اللہ کے ایک ہونے کا تصور۔ جتنے بھی پیغمبر آئے، آدم سے لیکر خاتم تک، ایک لاکھ چوبیس ہزار ، وہ سب یہی دعوت دیتے رہے کہ اللہ کو ایک مانو اور یہی امیرالمومنین نے توحید کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔انبیاء کے پیغام کو توحید کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔

منطقی طور پر یہ ذرا انوکھی بات ہے کہ رسالت تو توحید پر مبنی ہے تو رسالت سے توحید کیونکر ثابت ہوگی؟ مگر دیکھئے کہ کس رُخ سے امیرالمومنین علیہ السلام ثابت فرمارہے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی آئے۔ جو نبی آتا ہے، اسی کی بات کرتا ہے ۔اس کے علاوہ اگر کوئی اور خدا ہوتا تو اس کی بھی تو کوئی بات کرتا۔ اگر کوئی اور خدا ہوتا تو اس کے بھی رسول آتے۔یہ بیچارہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے ہوئے جو بیٹھا ہے، تو گویا اعزازی خدا ہے، عملاً تو وہ ایک ہی ہے۔ وہ اگر کوئی ہیں جو اعزازی خدا بنے بیٹھے ہیں تو وہ تو بت ہیں ، کام کچھ نہیں کرسکتے۔ مگر نام کے خدا بنے بیٹھے ہیں۔

حضورِ والا! یہ توحید الٰہی اسلام کی خصوصیت خاص ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ توحید آئی تو آدم کے وقت سے تھی مگر پیغمبر اسلام نے اس توحید کو ایسے جاہ و جلال کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ان کا لقب اگر ہم پیغمبر توحید کردیں تو تاجدارِ مدینہ سے بہتر ہے۔لفظ تاجدارِ مدینہ تو بہت ہی محدود نگاہ کا ترجمان ہے۔تو یہ توحید کے پیغمبر حضرت محمد مصطفےٰ نے اس شان و شوکت و جاہ و جلال و جبروت کے ساتھ پیغامِ توحید پیش کیا ہے کہ جہاں جہاں شرک کا شائبہ تھا، وہ اپنے اس شرک سے گویا شرمانے لگے اور کسی نہ کسی طور پر توحید کے پردہ میں چھپانے لگے۔

جہاں تثلیث تھی کہ تین ہیں، توحید نے اتنا زبردست اثر ذہن پر ڈالا کہ انہوں نے نیا پہاڑہ ایجاد کرلیا کہ تین اکم تین۔ایک تیا ایک۔ توحید فی التثلیث اور تثلیث فی التوحید۔ جب آپ سے بحث ہوگی تو وہ یوں کہیں گے کہ ہم وحدت کے منکر نہیں ہیں۔ ہم بھی توحید کے قائل ہیں۔ مگر وہ توحید ہے تثلیث میں اور تثلیث ہے توحید میں۔ یہ کیونکر ہے؟ بس وہ اللہ جانے کہ کیونکر ہے۔

اینڈرسن صاحب سے تثلیث پر گفتگو ہوئی۔ وہ کہنے لگے کہ نجف میں گیا تھا اور علامہ شیخ محمد حسین الغِطا سے ملنے گیا۔انہوں نے چائے کا انتظام کیا تھا مگر میں نے کچھ کھایا پیا نہیں،اس لئے کہ بغداد کے جو لوگ میرے ساتھ تھے، انہوں نے بتا دیا تھا کہ یہ تم کو نجس سمجھتے ہیں۔ یہ تمہیں چائے پلا رہے ہیں مگر تمہیں نجس سمجھتے ہیں۔ خیر! میں خاموشی سے سنتا رہا اگر وہ مجھ سے تبصرہ نہ چاہتے۔بتائیے یہ کیا واقعہ ہے؟ میں نے کہا کہ آپ کو چائے پینے میں کیا حرج تھا؟ زیادہ سے زیادہ وہ برتن پاک کروالیتے؟ کوئی برتن بیکار تو نہیں ہوجاتے۔ان کو کئی نقصان نہ ہوتا۔ ان کا دل چاہتا ، وہ پاک کروالیتے۔اس بات پر بات ختم ہوجاتی تو غنیمت تھا۔ انہوں نے کہا: آخر ہم کیوں نجس ہیں؟میں نے بہت آہستہ سے ، دھیمی آواز میں جتنا کہ تہذیب کے پردہ میں دھیما ہوا جاسکتا تھا ، کہا کہ قرآن نے کہہ دیا ہے:

اِنَّمَاالْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ “۔

مشرکین نجس ہیں۔ یہ دشواری ہے۔ کہا: ہم کیوں مشرک ہیں؟دیکھ لیجئے! شرک سے شرمانے لگے۔میں نے پھر بہت ہی آہستہ سے ، بہت ہی سست الفاظ میں کہا: بھئی تثلیث کی وجہ سے۔ تثلیث کی وجہ سے۔ فوراً جو چھاٹاسا جاہل بچہ کہے گا کہ وہی معلوم ہوا کہ پروفیسر کہتا ہے کہ وہ تو توحید ہے فی التثلیث اور تثلیث ہے فی التوحید۔

اب میں نے پھر رواداری برتی اور بعد میں افسوس ہوا کہ میں نے صاف کیوں نہ کہا۔ میں نے کہا کہ یہ چیز ہماری عقل میں نہیں آتی”توحید فی التثلیث اور تثلیث فی التوحید“۔یہ ہماری عقل میں نہیں آتی۔ میری اس تہذیب اور رواداری سے انہوں نے غلط فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ بس! بات یہی ہے کہ یہ آپ کی عقل میں نہیں آتی۔ میں نے کہا کہ کسی عاقل کی عقل میں نہیں آتی۔ مگر اب جو بات انہوں نے کہا اس کے بعد، اس کا جواب میں نے دے لیا ۔ اگر کوئی اور مسلمان عالم ہوتا تو میں نہیں سمجھتا کہ اتنی آسانی سے نکلتا۔انہوں نے کہا کہ جناب! ہم تو تین کا مجموعہ مانتے ہیں اور آپ کے ہاں تو ایک ذات اور نو صفات ہیں۔صفات زائد بر ذات ہیں، دنیا کے نزدیک، یعنی مسلمان اکثریت کے نزدیک کہ خدا ہے اور پھر ایک چیز ہے علم اور ایک چیز ہے قدرت، ایک چیز ہے حیات۔ بچوں کو آٹھ صفاتِ ثبوتیہ سکھائے جاتے ہیں۔ تو ایک خدا اور آٹھ عدد صفات۔

تو آپ تو نو کا مجموعہ مانتے ہیں ۔ اب مجھے اس جملے کا بدلہ لینے کا موقع مل گیا اور میں نے کہا کہ افسوس ہے کہ آپ اسلامیات کے پروفیسر ہیں، اتنی بڑی جگہ اور آپ کو یہ نہیں معلوم کہ جس سے آپ بات کررہے ہیں، وہ نہیں مانتا صفات کو زائد بر ذات۔ ہم تو صفات کو عین ذات مانتے ہیں، ہمارے نزدیک تو ذات کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں۔چند برس کے بعد دہلی میں ایک مجلس مکالمہ تھی جس میں تمام دنیا کے پروفیسر جمع تھے۔ اس میں وہ دور بیٹھے تھے، اُٹھ کر آئے اور خلوص کے ساتھ مصافحہ کیا۔ اس کا مطلب تھا کہ انہوں نے اس ناگواری کو محسوس نہیں رکھا۔

تو حضورِوالا! غور فرمائیے کہ توحید الٰہی کو اس طرح پیش کیاکہ جہاں جہاں توحید نہیں ہے، یہ بعد میں نہیں ہوا، اسی وقت مشرک اپنے شرک کو سمجھانے لگے ۔ اگر ایسانہ ہوتا تو اپنی بت پرستی کی تاویل کیوں کرتے کہ:

مَانَعْبُدُهُمْ اِلَّالِیُقَرِّبُوْااِلَی اللّٰه زُلْفًا “۔

ہم ان کی عبادت نہیں کرتے ہیں مگر اس لئے کہ یہ ہم کو اللہ سے قریب کریں، ہمیں تقرب عطا کریں۔

ہم درحقیقت اللہ ہی کے طلبگار ہیں۔ ان کو گویا بالکل برابر برابر نہیں سمجھتے۔ ایک مسلمان میں اور ان میں یہ فرق ہے کہ وہ جس چیز کی تعظیم کرتا ہے، اس سے اگر پوچھئے کہ تم عبادت کرتے ہو تو وہ کہے گا : نہیں نہیں، ہم اس کی عبادت کرتے ہی نہیں، ہم اس کی تعظیم کرتے ہیں،عبادت خدا کی کرتے ہیں۔

بس! جب اس نے عبادت اور تعظیم میں فرق کیا، وہ شرک کے دائرے سے نکل گیا۔وہ تاویل کررہے ہیں مگر نسبت عبادت کی انہی کی طرف دے رہے ہیں کہ ان کی ہم عبادت کرتے ہیں، اس لئے کہ اللہ سے ہمیں قریب کریں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ معبود وہ ان کو مانتے ہیں اور ایک مسلمان ، اگر وہ صحیح مسلمان ہے، تو وہ کسی کی بھی تعظیم کرے مگر معبود اسے نہیں مانے گا۔ وہ عبادت ان کی کرنے سے انکار کرے گا۔ کسی سے کہئے کہ عَلَم کو جو اس بوسہ دیا ہے، تو اس کی عبادت کی ؟ وہ کہے گا: توبہ توبہ، میں عَلَم کی عبادت نہیں کرتا ہوں، میں احترام کرتا ہوں، تعظیم کرتا ہوں۔بس اس کے ذہن میں احترام اور عبادت میں فرق ہے ۔

یہ قضیہ عرض کردوں کہ عبادت کسی نوعیت عمل کا نام نہیں ہے۔ اگر ایک اشارہ کیا جائے خدا سمجھ کر تو وہ عبادت ہے اور شرک ہے اور اگر سجدہ بھی کرلیا جائے، بغیر نیت عبادت کے ، تو وہ چاہے شرعِ اسلامی میں گناہ ہو مگر شرک نہیں ہوگا۔اس لئے میں نے کہا کہ سجدہ غیر اللہ کیلئے اسلام میں ممنوع ہے۔ممنوع ہونے کے یہ معنی ہیں کہ گناہ ہے لیکن عبادت نہیں ہے۔ عبادت اگر ہوتی تو پھر کسی دَورِ رسالت میں نہ ہوتی، اس لئے کہ شریعت بدلتی ہے، اصولِ دین نہیں بدلتے۔اگر سجدہ غیر اللہ کو عبادت ہوتا تو آدم کو بھی سجدہ نہیں کروایا جاسکتا تھا۔یوسف کے سامنے یعقوب اور ان کے بھائی بھی سجدہ نہیں کرسکتے تھے کیونکہ توحیدکا اصول ازل سے ایک ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ یہ گنا ہے، عبادت نہیں ہے۔ شرک نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک سجدہ غیر اللہ کیلئے جائز نہیں ہے۔اس کیلئے رسول کی حدیثیں ہیں کہ اگر سجدہ غیر اللہ کیلئے جائز ہوتا تو میں زوجہ کو حکم دیتا کہ وہ شوہر کو سجدہ کرے۔ (یہ حدیث آجکل کے ترقی یافتہ دَور کے تقاضوں کے خلاف ہے)۔دوسری حدیث ہے کہ اگر سجدہ غیر اللہ کو جائز ہوتا تو میں شاگرد کو حکم دیتا کہ اُستاد کو سجدہ کرے۔ آجکل تو دورِ حاضر کے ترقی یافتہ طلباء اُستاد کے خلاف ہر قسم کی تشدد آمیز کارروائی کیلئے تیار رہتے ہیں، خصوصاً کالج اور یونیورسٹی کے طالب علم۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تو ہماری وجہ سے اُستاد ہوا ہے۔ یعنی ہم اس کیلئے نہیں ہیں، یہ ہمارے لئے ہے۔یہ ان کی منطق ہے ۔اگر یہ منطق صحیح ہو تو میں کہتا ہوں کہ اُمت کے افراد رسولوں کیلئے نہیں ہیں، رسول اُمت کے افراد کیلئے ہیں۔ وہ بھی تو سکھانے کیلئے ہوتے ہیں۔ تو اُمت کے افراد کہیں کہ وہ ہمارے لئے ہیں تو ہم اونچے ہیں اور (معاذاللہ) وہ نیچے ہیں۔

حضور!یہ دیکھئے کہ خالق نے اُستاد کو معلم کا درجہ دیا ہے جو خود خالق کا درجہ ہے، وہ معلم خلائق ہے اور اس نے شاگردوں کو وہ حیثیت دی ہے جو بندوں کو پروردگار کے ساتھ ہے۔ ملائکہ بھی بارگاہِ قدس کے طالب علم ہیں۔

میں کہہ رہا تھا کہ پیغمبر اسلام نے توحید کی آواز اتنی بلند آہنگی کے ساتھ پیش کی کہ جہاں جہاں کسی میں شرک کی کوئی قسم تھی، وہ اپنے شرک سے شرمانے لگا اور اس کو توحید کے پردوں میں چھپانے لگا۔ یہاں توحید ہی پر پورا زور تھا کیونکہ اگر یہ کہا جاتا کہ اللہ خدا ہے تو پورا عرب کلمہ پڑھ لیتا کیونکہ جو تین سو ساٹھ کو مان رہے تھے، ان کو اکسٹھویں( ۶۱) کے ماننے میں کیا عذر ہوتا! مگر یہاں یہ کلمہ نہیں سکھایا جارہا تھا کہ کہو کہ اللہ خدا ہے۔ یہ کلمہ سکھایا جارہا تھا ”لَآاِلٰہَاِلَّا اللّٰہ“، کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے۔ اللہ کو ماننا مشکل نہیں تھا، غیر اللہ کو نہ ماننا مشکل تھا۔

اُردو زبان میں یوں کہہ سکتا ہوں کہ ان کو ایک خدا کے ماننے میں عذر نہ تھا، خدا کو ایک ماننے میں عذر تھا اور یہاں یہ تھا کہ ایک خدا کو ماننے سے بات نہیں بنے گی۔ خدا کو ایک مانو۔ بہت سے خداؤں کو انہوں نے ایک خدا بنا دیا۔یہ عجیب بات ہے۔ عجیب کے معنی روایاتِ قدیمہ کے خلاف۔ یعنی بڑی دلیل ان کی یہی تھی کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی راستے پر دیکھا ہے توہم اسے مانے چلے جائیں گے۔ بہت سی غلط باتوں کیلئے ہمارے عوام بھی اسی قسم کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ صاحب! ہم نے اپنے باپ کو یہی کرتے دیکھا، اپنے دادا کو یہی کرتے دیکھا۔ قرآن نے اس کے جواب میں یہی کہا ہے کہ باپ دادا کے حوالے دینے سے کام نہیں چلے گا۔ اگر وہ بھی عقل نہ رکھتے ہوں تو ؟ یعنی تمہیں خود اپنی عقل سے سوچنا چاہئے کہ یہ صحیح ہے یا نہیں۔ باپ دادا کی عقل کی عینک لگا کر سوچنا غلط ہے۔خود اپنی عقل کی آنکھ سے دیکھنا چاہئے کہ یہ صحیح ہے یا نہیں۔ ان کو بڑی مشکل یہی تھی۔یہاں یہی کہنا تھا کہ کہو”لَآاِلٰهَ اِلَّااللّٰ ہ“،اس وقت کے جاہل عرب نہ سمجھتے ہوں کہ اللہ کو ایک کہنے سے ”تُفْلِحُوْا “، ”تمہارا فائدہ ہوگا“۔اللہ کو کہ یں ایک اور فائدہ ہوگا ہمارا۔ یہ اور بات ہے۔ فائدہ ہوگا اُس کا ہوگا، نہ ہوگااُس کا نہ ہوگا جس کے رقیبوں کا خاتمہ کریں گے۔اُسے ایک کہیں اور فائدہ ہو ہمارا!

مگر دیکھئے ! انداز تبلیغِ رسول کا تحکمانہ نہیں ہے۔ کہہ رہے ہیں کہ یہ کہو۔ ناصح کے انداز میں کہہ رہے ہیں۔ درد مند کے انداز میں کہہ رہے ہیں کہ تمہارے فائدے کیلئے کہتا ہوں کہ”لَآاِلٰهَ اِلَّااللّٰه “کہو۔ مانو۔کہو یہ کوئی وظیفہ نہیں ہے جو سکھایا جارہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مانو۔اس قول کو اختیار کرو۔ یہ کہنا وہ ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ ہمارا قول یہ ہے۔ یہ کوئی وقت خاص پر کہنے والی بات نہیں ہے۔ لوگ کلمے کو وقت خاص پر کہنے کی بات سمجھتے ہیں ۔اسی لئے روایتیں وضع کی ہیں کہ اس وقت پر کہا کہ کہیں۔ انہوں نے نہیں کہا۔میں کہتا ہوں کہ یہ کہنے کی چیز نہیں ہے، یہ ماننے کی چیز ہے۔ یہ دیکھئے کہ وہ مانتے تھے یا نہیں۔ اگر مانتے نہ ہوتے تو بیٹے سے کیوں کہتے کہ ان کے ساتھنماز پڑھو ؟ اگر مانتے نہ ہوتے تو اس پیغام کی حمایت میں عمر بھر جان کیوں لڑائے رکھتے؟جب ماننے کا سوال طے ہوگیا تو کہنے کی اہمیت کیا ہے؟ کہا نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ جس کا ایمان سب پر مسلّم ہے، چاہے جس عمر میں، آپ باپ کے بارے میں یہ حدیث سوچتے ہیں کہ کب کہا ، کلمہ کب پڑھا؟

میں کہتا ہوں کہ بیٹے کیلئے ثابت کیجئے کہ علی نے کبھی کلمہ پڑھا؟ بس آئے اور نما زپڑھنے لگے۔ دوسرے بھائی جعفر آئے، کچھ دن کے بعد وہ نماز پڑھنے لگے۔معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب وہ تھے جو بغیر کلمہ پڑھے پہلے سے مسلمان تھے کیونکہ نماز بغیر اسلام کے ہوتی ہی نہیں۔ جب نماز پڑھنے چلے تھے، اس وقت رسول کو کلمہ پڑھوانا چاہئے تھا۔ جب نہیں پڑھوایا تو سمجھئے کہ یہ کلمہ پڑھنے سیمستغنی ہیں ۔میں کہوں گا کہ جب پہلی دفعہ وحی آئی او رجبرئیل امین آئے تو انہیں اقراء لے کر نہیں آنا چاہئے تھا، کلمہ لے کر آنا چاہئے تھا۔ تو جب رسول ہوجاتا ہے بغیر کلمہ پڑھے تو مومن بغیر کلمہ پڑھیکیوں نہ ہوگا؟

پس پورا پیغام یہ ہے:

قُوْلُوْالَآاِلٰهَ اِلَّااللّٰه “۔

اس وقت جاہل عرب یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اللہ کو ایک ماننے سے کیا فائدہ ہے؟ میں کہتا ہوں کہ آجکل جب ذہن کی بہت ترقی ہو چکی، اب دنیا سمجھے کہ اللہ کو ایک کہنے سے ، ایک ماننے سے ہمارا کیا فائدہ ہے؟ یاد رکھئے کہ تمام دنیا تڑپ رہی ہے دو چیزوں کیلئے، ایک اخوت اور ایک مساوات۔ یعنی برابری اور برادری۔ان دونوں چیزوں کیلئے پریشان ہے۔ اسی لئے یہ دولت کی برابر تقسیم کا نظریہ ہے۔ امیروں سے چھینو اور غریبوں کو دے دو۔اس لئے کہ دولت مند اپنی دولت سے غریبوں کو پامال کرتا ہے۔ جب برابر سے تقسیم کردیں گے ، نہ امیر رہے گا، نہ غریب، سب یکساں ہوجائیں گے تو کون کس کو دبائے گا؟مقصد تو ٹھیک ہے مگر علاج کا طریقہ درست نہیں ہے۔

میں کہتا ہوں کہ نوعِ انسانی میں اگر تفرقہ فقط دولت و غربت کا ہوتا تو دولت کو برابر سے تقسیم کرکے آپ سمجھ لیتے کہ مساوات قائم ہوگئی مگر نوعِ انسانی میں تفرقہ فقط دولت و غربت کا نہیں ہے، بازوؤں کی طاقت میں بھی فرق ہے۔ ایک قوی ہیکل ہوتا ہے ، دوسرے بیچارے دھان پان سے ہوتے ہیں۔ اور جناب! ایک چیز ہے وجاہت۔ ایک بااثر ہوتا ہے، دوسرے بے اثر ہوتے ہیں۔ ایک چیز ہے قوم و قبیلہ۔ ایک کا جتھا بڑا ہوتا ہے، خاندان بڑا ہوتا ہے، ایک بیچارہ یوسف بے کارواں ہوتا ہے۔ اس کے قبیلے اور خاندان کے افراد ہے ہی نہیں یا کم ہیں۔ ایک چیز ہے دماغی فوقیت۔ ایک ذہین ہے، دوسرے لوگ سادہ لوح ہیں، بھولے بھالے ہیں اور اکثریت انہی کی ہوتی ہے۔

جس طرح دولت مند اپنی دولت سے غریب کو دباتا ہے، اسی طرح بازوؤں کی طاقت والا اپنے بازوؤں کی طاقت سے کمزوروں کو دباتا ہے۔کسی محلے میں کوئی پہلوان صاحب ہوں تو دیکھئے جتنے اہل محلہ ہیں، وہ ان سب کے رحم و کرم پر ہوجاتے ہیں یا نہیں؟اس لئے کہ وہ بحمد للہ اتنے طاقت و قوت کے تیس مارخاں ہیں۔ وہ سب ان سے ڈریں گے۔ اسی طرح جو قوم و قبیلے والا ہے، وہ اپنے قوم و قبیلہ کی کثرت کے برتے پر دوسرے لوگوں کو دباتا ہے۔

ارے ایک زمانہ میں قوم و قبیلہ ہوتا تھا، اب پارٹی ہوتی ہے۔ جس کی پارٹی بڑی ہے، وہ اپنی پارٹی کی کثرت کی بناء پر دوسرے لوگوں کو دباتا ہے۔ایک دماغی فوقیت والا اپنی ذہانیت سے ایسی ترکیبیں بنالیتا ہے کہ دوسرے لوگ ہمدرد سمجھ کراس کے قبضے میں چلے جاتے ہیں اور سب اس کو اپنا راس و رئیس مان لیتے ہیں۔یہ سب ہوتا ہے۔ دولت تو باہر کی چیز ہے، وہ آدمی کا جزو نہیں ہوتی۔ اس کی تصویر کشی امیرالمومنین علیہ السلام نے اس طرح کی ہے:

اَنْ یَبْقٰی لَکَ فَلا تَبْقٰی لَه  “۔

”یہ دولت تمہارے لئے رہ بھی جائے تو تم اس کیلئے نہیں رہو گے“۔

ہو تو سکتا ہے کہ یہ آدمی رہے اور دولت ہی کسی طرح چلی جائے اور ہوسکتا ہے کہ دولت رکھی رہے اور یہی چل بسیں۔ یا وہ وفا نہ کرے گی یا یہ وفا نہ کریں گے۔تو جب بیرونی چیز ہے دولت، تو اس کا برابر سے تقسیم کرنا کونسا مشکل ہے۔ دولت کو آرام سے تقسیم کرسکتے ہیں لیکن بازوؤں کی طاقت کا کیا کیجئے گا۔کیا طاقتوروں کے بزوؤں سے طاقت کو کھینچ کر کمزوروں میں تقسیم کیجئے گا؟ یہ ہوسکتا ہے کہ ایسی غذائیں کھلائیے کہ سب کمزور ہوجائیں لیکن جس تناسب سے وہ طاقتور کمزور ہوگا، اسی تناسب سے وہ کمزور قبر کے کنارے پہنچے گا۔ تو اس تفرقہ کو آپ مٹانہیں سکتے اور وجاہت کا کیا کیجئے گا؟ کیا اُسے بھی نمایاں افراد ے لے کر غیر نمایاں افراد میں تقسیم کیجئے گا؟ قوم و قبیلہ کا کیا کیجئے گا؟ کیا افرادِخاندان کو بھی تقسیم کیجئے گا؟ دماغی فوقیت کو کیا کیجئے گا؟ کیا اُسے ذہین افراد کے دماغ سے لے کر کسی انجکشن کے ذریعہ سے سادہ لوحوں میں اور بیوقوفوں میں تقسیم کیجئے گا؟

آپ سمجھیں گے کہ سب برابر کے عقل مند ہوگئے اور میں سمجھوں گا کہ سب برابر کے بیوقوف ہوگئے۔جب یہ سب کچھ نہیں ہوسکتا تودولت کو برابر سے تقسیم کرکے یہ سمجھ لینا کہ مساوات ہوگئی، طفل تسلی نہیں تو او رکیا ہے؟ وہ اسلام جو خالق کائنات کی طرف سے تھا، اس سے بڑھ کر مزاجِ بشر سے واقف کون ہے؟اس نے محسوس کیا کہ عملی طور پر یکسانی کے ساتھ مساوات قائم کردینا ناممکن ہے۔ ارے زمینیں یکساں نہیں ہیں، کوئی بلند ہے، کوئی پست، کوئی زرخیز، کوئی بنجر۔پہاڑ سب یکساں نہیں ہیں، کوئی بلند ہے، کوئی پست۔ درخت سب یکساں نہیں ہیں، کوئی طویل کوئی قصیر۔ حیوان سب یکساں نہیں ہیں، کوئی طاقتور ہے ، کوئی کمزور۔تو جب کائنات میں مساوات یکسانی کے معاملہ میں مماثلت کے معنی میں نہیں ہے تو انسانوں میں کیونکر ہوسکتی ہے۔ یہ تو سنت تخلیق کے خلاف ہے ۔ لہٰذا یہ فرقے تو نہیں مٹ سکتے مگر ذہنیت کی تعمیر ایسی ہونی چاہئے کہ ایک بازوؤں کی طاقت والا اپنی طاقت سے کمزوروں کو دبائے نہیں بلکہ ان کا محافظ ہوجائے اور ایک صاحب قوم و قبیلہ اپنے قبیلے کی کثرت سے یا پارٹی کی کثرت سے بے نوا اور بیکس افراد کو پامال نہ کرے بلکہ ان کا پاسبان بن جائے ۔ ایک دماغی فوقیت والا اپنی ذہنیت کو دوسروں کی تخریب میں صرف نہ کرے بلکہ تعمیر میں صرف کرے۔

یہ بات ہوجائے تو ایک فرد کو اللہ کی دی ہوئی نعمت تمام نوع کا سرمایہ بن جائے اور اگریہ ہوجائے تو دولت مندی بھی لعنت نہ رہے اور اگر ذہنیت کی تعمیر نہیں ہوتی ہے تو ہزار مرتبہ دولت کو برابر تقسیم کردیجئے، عدلِ کُلّی قائم نہیں ہوگا اور ظلم کا خاتمہ نہیں ہوگا۔لیکن یہ تعمیر ذہنیت کیونکر ہوا، اس کیلئے احساسِ اخوت کی ضرور ت ہے۔دنیا قانون کے دباؤ سے مساوات قائم کرکے بھائی بھائی بنانا چاہتی ہے، لہٰذا وہ عمارتِ بے بنیاد ہے۔ ذہنیت کی تشکیل اگر اس طرح ہوجائے کہ ہر انسان دوسرے انسان کو اپنا بھائی سمجھے تویہ عمارت پائیدار ہوگی۔

اب یہ بات کہ اخوت کیونکر پیدا ہو، برابری کیونکر پیدا ہو، اس کیلئے ہر آدمی غور کرسکتا ہے کہ اس راز کو دیکھئے اور سمجھئے کہ بھائی ہوتا کیونکر ہے؟ یہ سگے بھائی کیوں بھائی ہیں؟ اس لئے کہ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں۔ تو ایک ماں باپ کی اولاد دس ہوئے تو دس بھائی بہن ، اور پچاس ہوئے تو پچاس بھائی بہن۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ نہ دیکھئے کہ کثرت کتنی بڑی ہے، یہ دیکھئے کہ وحدت نے کتنے افراد کو پرویا ہے۔ اس کے بعد یہ دیکھئے کہ دیہاتوں میں یہ محاورہ ہے کہ یہ ہماری برادری کے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ باپ تو اپنا الگ الگ ہے مگر پانچ چھ پشت پر کوئی مورثِ اعلیٰ ہے کہ اس کی اولاد میں دونوں ہیں۔

اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ جتنی بھی دور جاکر ایک کا احساس پیدا ہو، وہیں سے برادری قائم ہوتی ہے۔ اس کے بعد غور کیجئے، یہ ہمارے ہم وطن ہیں۔ یہ کیا ایک دیس کے باشندے ، اور اگر کسی دوسرے وطن میں اپنے وطن کے آدمی کو دیکھ لیا تو چاہے وہاں کبھی شناسائی بھی نہ ہو لیکن دل چاہا کہ قریب آئیں، کچھ اپنی کہیں، کچھ ان کی سنیں۔ یہ وطن کا احساس ہے۔ دنیا نے اور ترقی کی تو یہ سمتوں کا احساس قائم ہوا کہ یہ مغرب ہے اور یہ مشرق ہے۔ لہٰذا مسائل پر یوں غور ہونے لگا کہ کون یورپ کیلئے کارآمد و مفید ہے او رکون ایشیاء کیلئے مفید ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دنیاتڑپ رہی ہے، اُس ایک کیلئے جو زیادہ سے زیادہ رقبہ کو ایک بنا سکے۔ مگر جتنی اکائیوں کا تصور ہوا، یہ سب تفریق کا پیش خیمہ ہے کہ جب ایک باپ کی اولاد میں ایکا ہوگا تو دوسرے باپ کی اولاد کے مقابلہ میں محاذ ہوا۔جب ایک برادری والوں میں ایکا ہوگا تو دوسری برادری والوں کے مقابلہ میں محاذ ہوا۔ جب ایک ملک والوں میں ایکا ہوگا تو دوسرے ملک والوں کے مقابلہ میں محاذ ہوا۔جب ایک سمت والوں میں ایکا ہوگا تو دوسری سمت والوں کے مقابلہ میں محاذ ہوگا۔ ہر اتحاد افتراق کا پیش خیمہ ہے کیونکہ اتحاد کے مرکز عالم انسانیت کے بیچ میں اٹھائے جارہے ہیں، لہٰذا ہر دیوار ادھر والوں کو ایک کرتی ہے ، اُدھر والوں سے جدا کرتی ہے۔

اسلام جو ہمہ گیر برادری کا پیغام لے کر آیا تھا، اس نے یہ کام کیا کہ درمیان کی اتحاد کی دیواروں کوڈھا کر نہیں بلکہ بلند مقاصد کیلئے نظر انداز کرکے ایک احاطہ اتحاد کا ایسا تعمیر کیا جس میں نہ زبان کی تفریق ہے، نہ ملک کی تفریق ہے، نہ رنگ کی تفریق ہے، نہ نسل کی تفریق ہے، نہ سمت کی تفریق ہے اور وہ خدائے واحد کا ایکا ہے۔ کوئی مجھے بتائے کہ ایک باپ کی اولاد بھائی بھائی ہے، ایک مورثِ اعلیٰ کی نسل کے لوگ بھائی بھائی ہیں۔ ایک ملک کے باشندے بھائی بھائی ہیں۔ ایک سمت کے رہنے والے بھائی بھائی ہیں۔ ایک خدا کی مخلوق کیوں بھائی بھائی نہیں ہیں مگر اصول وہی ہے کہ بھائی کے حقوق کو وہی یاد رکھے گا جس نے باپ کو یاد رکھا ہوگا۔ اور جو باپ کو بھول جائے، تو پھر بھائی کے حقوق کیسے؟ یہ وجہ تھی کہ پیغمبر اسلام نے پوری طاقت اس ایک کے یاد دلانے پر صرف کردی۔ تمام عالم انسانیت بغیر تفریق اسلام و غیر اسلام غور کرے کہ یہ وحدت خالق کا پیغامِ اتحاد خلائق کا سنگ بنیاد ہے۔ اسی بناء پر اسلام دین مساوات ہوا یعنی وہ تمدن جو زیر سایہ توحید قائم ہوتا ہے، اس کا نام ہے مساوات اور اس مساوات کی خصوصیت یہ ہے کہ گورے اور کالے میں کوئی فرق نہیں۔ ایک قوم اور دوسری قوم میں کوئی فرق نہیں۔ دیسی اور بدیسی میں کوئی فرق نہیں۔ سب خد اکے پیدا کردہ ہیں۔ لہٰذا سب کے حقوق و فرائض برابر ہیں۔ یہ وحدتِ خالق کے زیر سایہ جس تمدن کی تشکیل ہوتی ہے، اس کا نام مساوات ہے۔ اس کے زیر سایہ جو تمدن ہوتا ہے، اس میں اور تفریقوں کا کیا ذکر، اپنے دوست اور دشمن کی بھی تفریق نہیں ہوتی۔قرآن مجیدنے کہا:

لَایجْرِمَنَّکُمْ شَنَانُ قَوْمٍ اَ لَا تَعْدِلُوْا “۔

یہ اس وقت کیلئے ہدایت ہے جب مسلمان برسر اقتدار ہوں۔

ارشاد ہورہا ہے کہ دیکھو! کسی قوم کی عداوت تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔ تم انصاف نہ کرو۔ عدل تمہارا فریضہ ہے ، چاہے یگانے کے مقابلہ میں ہو چاہے بیگانے کے مقابلہ میں ہو۔اب اس کے زیر سایہ جو اس تمدن کی تعمیر ہوتی ہے، اس میں پھر اپنا بھائی بھی اپنے حق سے زیادہ مانگتا ہے۔ تو اس کی فرمائش کی تعمیل نہیں ہوتی چاہے وہ خفا ہو کر غیر سے مل جائے۔ یعنی نظر ظاہر میں یہ سیاسی شکست برداشت کرلی جائے گی مگر مساواتِ اسلامی کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ ظاہر ہے سیاسی طورپر گویا یہ کتنی بڑی ادھر کی فتح ہے کہ سگا بھائی میری طرف آگیا۔ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔

مشہور روایت کے مطابق عرض کررہا ہوں کہ جو گیا تھا،اس میں عملی کمزوری تھی، اعتقادی کمزوری نہیں تھی۔فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی مگر اس نے اپنے اعتقادی استحکام سے اُسے ناکام بنا دیا۔ جنابِ عقیل سے کہا کہ منبر پر جاؤاور بتاؤ کہ تمہارے بھائی نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا؟یہ بلا تکلف اقرار کرلیتے ہیں۔ بے شک صاف صاف کہوں گا کہ میرے ساتھ کیا کیا۔ بہت خوشی ہوئی کہ دیکھو! سگا بھائی جب منبر پر جاکر کہے گا تو دنیا سمجھے گی ، بڑی خوشی ہوئی، بلا تکلف منبر پرجانے دیا۔ انہوں نے جا کر کہا:اے لوگو! گواہ رہنا کہ میں نے بہت کوشش کی کہ میرا بھائی اپنے دین پر مجھے ترجیح دے دے مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ اُس نے اپنے دینی تقاضے پر مجھے ترجیح نہیں دی۔ تم سب گواہ رہنا کہ اِنہوں نے مجھے اپنے دین پر ترجیح دے دی۔

یہ مساوات ہے کہ دشمن کیلئے ہماری لغت میں قاتل سے بڑھ کر کوئی لفظ نہیں ہے۔ جب ہم کسی کو اپنانتہائی دشمن کہیں گے تو کہیں گے:ارے وہ تو میرا قاتل ہے۔ لیکن اب دیکھئے کہ زیر سایہ توحید جو مساوات قائم ہوتی ہے،اس میں کیا ہوتا ہے؟ کبھی کی ضرب ہو، جس کا زخم بھر چکا ہو ، وہ اور بات ہے لیکن جس نے ابھی ضرب لگائی ہے جس کے اثرات ابھی پورے جاہ و جلال کے ساتھ موجود ہیں اور وہ گرفتار ہوکر سامنے آتا ہے، تو پہلے نگاہ اس کے بندھے ہوئے ہاتھوں پر چلی جاتی ہے ، حالانکہ یہ ان کی طرف کا آدمی تھا۔ لہٰذا اس نے رسیوں سے نہیں باندھا تھا، ہتھکڑیاں نہیں ڈالی تھیں ، اپنے رومال سے دونوں ہاتھوں کو کس کر باندھ دیا تھا ۔ فوراً کہا کہ اس کے ہاتھ کیوں بندھے ہیں؟ اس کے ہاتھ کھلوا دئیے۔ اس کے بعد اس کے ضمیر پر اتمامِ حجت کیلئے ایک سوال کیا کہ کیوں کیا؟ میں تمہارا اچھا امام نہیں تھا؟ اس نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ بس بات ختم ہوگئی۔ اب حسن مجتبیٰ سے فرمارہے ہیں کہ جاؤ! یہ تمہارا قیدی ہے۔یعنی شہنشاہِ ملت اسلامیہ اور ہمارے نزدیک دین و دنیا کا شہنشاہ۔ مگر ان کا قاتل جیل نہیں بھیجا جاتا۔ اپنے گھر کے ایک کمرہ میں رکھا جاتا ہے کہ اس کو رکھو ، یہ نظر بندی ہے۔ علی کے دَور میں جیل خانہ نہیں تھا۔ فرماتے ہیں: لے جاؤ، یہ تمہارا قیدی ہے۔

مگر حسن سے کہہ رہے ہیں کہ جو خود کھانا ، وہ اسے کھلانا۔ جو پانی خود پینا، وہ اس کو پلانا۔ یہ کوئی کرسکتا ہے سوائے اس کے جس کے پیش نظر اللہ کا رشتہ ہو، جو زیر سایہ توحید عمل کررہا ہو۔ اس کے سوا کون کرسکتا ہے؟

توحضورِ والا! یہ مساوات زیر سایہ توحید قائم ہوئی ہے۔ اس احساسِ مساوات کا راز وحدتِ خالق کا پیغام ہے۔ دنیا والے جو مساوات مساوات کا نعرہ لگاتے ہیں، وہ یہ سمجھے ہیں کہ یہ ضرب المثل ہے کہ اسلام دین مساوات ہے۔ مگر قرآن کو میں دیکھتا ہوں ، شروع سے آخر تک، تو مجھے زیادہ آیتیں یہ ملتی ہیں کہ یہ برابر نہیں ہے، یہ برابر نہیں ہے، یہ برابر نہیں ہے۔برابر ہونے پر اتنا زور نہیں جتنا برابر نہ ہونے پر زور ہے۔ اگر میں صرف دو آیتیں دیکھوں تو اسلام مجھے دین عدم مساوات نظر آتا ہے۔

لَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْر “۔

اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہے۔ دھوپ اور سایہ برابر نہیں ہے۔

هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ “ ۔

کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں؟ آبِ شور اور آبِ شیریں برابر نہیں ہیں۔

معلوم ہوتا ہے کہ اس کی رد منظور ہے کہ کوئی کمالات کو نظر انداز کرکے سب کو ایک لکڑی ہنکائے۔اس لئے قدم قدم پر عدم مساوات کااعلان ہورہا ہے۔ لہٰذا مساوات کسی معنی سے ہے اور کس معنی سے نہیں ہے، دیکھئے کتنا بڑا موضوع ہے کہ اسلام دین مساوات ہے۔ ان غلط امتیازات کے اعتبار سے جو دنیا والوں نے قائم کئے ہیں، ان خطوطِ امتیاز کو اسلام نے مٹایا۔ غربت و دولت کو وجہ بلندی و پستی بتایا تھا، اُسے اسلام نے مٹایا۔ نسبت کو معیارِبلندی و پستی بتایا تھا، اُسے مٹایا۔ ملک کو بلندی و پستی کا معیار بتایا تھا، اُسے مٹایا۔ رنگت کو معیارِ بلندی و پستی بتایا تھا، اُسے مٹایا۔ ان سب کے مقابلہ میں مساوات قائم کی اور پھر اپنی طرف سے خطوطِ امیتاز کھینچے جو کردار پر مبنی ہیں، عمل پر مبنی ہیں، جو تقویٰ پر مبنی ہیں۔

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰهِ اَ تقٰکُمْ “۔

”تم میں سب سے زیادہ عزت اُس کی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگا رہے“۔

یہ مساوات ہے کہ مسجدکا موذن بلال حبشی کو بنا دیا جاتا ہے ۔ یہ بات خاندانی عربوں پر گراں گزرتی ہے کیونکہ احساساتِ جاہلتے مٹتے مٹتے مٹیں گے۔خو بو ایک دم سے نہیں بدلتی ہے۔ مگر اب رسول سے کیا کہیں کہ یہ تو حبشی ہے؟ کیونکہ ان کی زبان سے سنتے رہے ہیں کہ اسلام میں یہ تفرقے نہیں ہیں، لہٰذا اپنی ناگواری کا اظہار ایسے الفاظ میں ہو کہ ان کے مزاج کے مطابق ہو۔تو اب دل میں تو یہ ہے کہ یہ حبشی ہے، رسول سے آکر کہا کہ یہ تو”اَسْهَدُاَنْ لَآاِلٰهَ اِلَّااللّٰ ہ“کہتے ہ یں،”اَشْهَدُاَنْ لَآاِلٰهَ اِلَّااللّٰ ہ“نہیں کہہ سکتے۔ شین صاف نہیں کہتے۔ مَیں کہتا ہوں یقینا کہا ہوگا ۔ ہمارے ہاں فصاحت کے اظہار کیلئے یہ محاورہ ہے کہ فلاں شخص کا شین قاف درست ہے ، صاف ہے۔ وہ ضرور کہتے ہوں گے ”اَسْهَدُاَنْ لَآاِلٰهَ اِلَّااللّٰه “۔ سچ ی بات کہی مگر اپنے مطلب کے رنگ میں۔ یہ نہ سوچا کہ آخر پیغمبر نے بھی تو کبھی بولتے سنا ہوگا، یہ انکشاف ہم کیا کررہے ہیں؟انہوں نے اپنے دل میں سوچا کہ یہ دلیل ایسی ہے کہ رسول ضرورمعزول کردیں گے، اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں گے کیونکہ ان کے نزدیک توفیصلہ بشر ہی کا ہے۔

اب رسول یہ نہیں کہتے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، وہ تو ”اَشْهَدُاَنْ لَآاِلٰهَ اِلَّااللّٰ ہ“صاف کہتے ہ یں۔ واقعاً نہیں کہتے تھے۔ رسول کیا جواب دیتے ہیں؟ فرماتے ہیں کہ :

سِیْنُ بِلالٍ شِیْنٌ عِنْدَاللّٰه “۔

”بلال کا سین اللہ کے ہاں شین ہے“۔

فلسفہ کیا ہے؟ ہم تو ان کانوں سے سنتے ہیں ،لہٰذا اس زبان سے جو لفظ نکلتا ہے، وہی ہماری سمجھ میں آتا ہے اور اللہ جو دل کی صدا سنتا ہے، لہٰذاان کا سین وہاں شین ہوکر پہنچتا ہے۔ اب اس موذن بنانے کے فیصلے پر دنیا غور کرے ۔ امامِ جماعت کو وہی دیکھے گا جو مسجد کے اندر جائے گا۔ مگر موذن کی صدا وہ بھی سنے گا جو رہگزر سے جائے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ بلال کو موذن بنانا نہیں تھا، یہ مساواتِ اسلامی کا ایک علم تھا جو بلند کیا گیا تھا۔

یہ تو مساوات ہوئی۔ عدم مساوات یہ ہے کہ جب بیٹی آتی ہے تو تعظیم کو کھڑے ہوجاتے ہیں، حالانکہ دنیا میں کوئی باپ بیٹی کی تعظیم نہیں کرتا۔یہ تو عملِ رسول بتاتا ہے کہ فاطمہ فقط بیٹی نہیں ہیں، کچھ اور ہیں۔ کوئی اور منزل ہے۔ فاطمہ کی منزل یہ ہے کہ رسول کا عمل مردوں کیلئے نمونہ عمل ہے اور فاطمہ کا کردارخواتین کیلئے نمونہ عمل ہے۔حضرت علی علیہ السلام تک کیلئے”( فَاتَّبِعُوْنِیْ ) “کا پیغام ہے کہ میرے نقش قدم پر چلو۔ یعنی علی کیلئے بھی رسول کا نقش قدم نمونہ ہے۔ ان کا نقش قدم ان کے واسطے بھی اتباع کا مرکز ہے مگر فاطمہ کے نقش قدم کے آگے کسی کا نقش قدم نہیں۔

اس پہلو کی بناء پر ایک بڑی مشکل میرے ذہن کی حل ہوگئی کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل بے شمار مگر میں نے کہیں نہیں دیکھا کہ پیغمبر خدا علی علیہ السلام کیلئے کھڑے ہوئے ہوں۔ لیکن فاطمہ زہرا کیلئے، صحاحِ ستہ کی حدیث ہے کہ پیغمبر خدا تعظیم کو کھڑے ہوتے تھے۔افضل شخص امیرالمومنین ، ان کیلئے یہ بات نظر نہیں آتی اور فاطمہ زہرا کی تعظیم کیلئے رسولِ خدا کھڑے ہوتے ہیں۔یہ ان کی خصوصیت نظر آتی ہے ۔ میں نے اس پر غور کیا تو بس یہی کچھ سمجھ میں آیاکہ کثرتِ فضائل الگ چیز ہے مگر عہدہ کے لحاظ سے علی کا جو منصب ہے، وہ رسول کے بعد ہوگا اور فاطمہ کا جو منصب ہے، وہ رسول کے ساتھ ساتھ ہے۔ یہ ان کا کردار ہے جو خواتین کے طبقہ کیلئے نمونہ عمل ہے، مثالِ عمل ہے۔

میں کہتا ہوں مقامِ اطاعت میں یہ رسول کے پیچھے ہیں مگر مقامِ اتباع میں یہ رسول کے پیچھے نہیں ہیں، ان کی صف میں ہیں، ان کے ساتھ ساتھ ہیں اور اب کہتا ہوں کہ مقامِ عمل میں جوکام تیرہ معصومین نے مل کر کیا، وہ اپنے طبقہ کیلئے تنہا فاطمہ زہرا نے کیا۔

اب انہیں مثال پیش کرنا تھی تو جتنے بھی رشتے خواتین کے تقاضے کے ہوتے ہیں، ان سب کو انہیں نمونہ مثال پیش کرنا تھا۔ ڈاکٹر اقبال نے تو عظمت و عزت کے لحاظ سے کہا ہے۔

مریم از یک نسبت عیسیٰ عزیز

از سہ نسبت حضرتِ زہرا عزیز

وہ عزت کے لحاظ سے ہے ۔ میں دوسرے رُخ سے ان کے اس تصور کو لیتا ہوں کہ حضرتِ مریم مثالِ عمل حضرت عیسیٰ کی نسبت سے ہیں اور حضرت زہرا تین نسبتوں سے تین رشتوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔

ماشاء اللہ صاحبانِ فہم ہیں۔ میں نے جہاں تک غور کیا، عورت کی زندگی کے تین پہلو ہیں۔ ایک بیٹی ہونے کا دَور، دوسرے بیوی ہونے کا دَور، تیسرے ماں ہونے کا دَور۔ یہ تین دَور ہیں جو عورت پر گزرتے ہیں۔عورت ہی بیٹی ہوتی ہے، عورت ہی زوجہ ہوتی ہے، شریک حیات ہوتی ہے، عورت ہی ماں ہوتی ہے۔یہ ہیں تین دَور۔میں کہتا ہوں کہ پہلا دَور بیٹی ہونے والا تمہید حیات ہے۔ وہ بیچ کا دور ہے، وہ مقدمہ زندگی ہے، یہ نتیجہ زندگی ہے اور اصل زندگی کا درمیان کا دَور ہے اور وہی درمیان کا خانہ حضرت مریم کے ہاں خالی ہے۔ وہ بے شک ماں باپ کی بیٹی ہیں۔ بے شک عیسیٰ ایسے بیٹے کی ماں ہیں لیکن وہ اصل زندگی نہیں ہے۔ شریک حیات ہیں ہی نہیں۔ لہٰذا اصل رہنمائی طبقہ خواتین کی نہیں کرسکتیں۔ میں کہتا ہوں کہ جس طرح عیسیٰ پر رسالت ختم نہیں ہوسکتی، اس لئے کہ وہ انفرادی زندگی کے نمائندہ ہیں، اسی طرح مریم پر اس سلسلہ کی رہنمائی ختم نہیں ہوسکتی۔ جس طرح عیسیٰ کے بعد ہمارے پیغمبر کی ضرورت تھی،اسی طرح مریم کے بعد فاطمہ زہرا کی ضرورت تھی۔انہوں نے تینوں رشتوں کیلئے مکمل مثالیں چھوڑیں۔ باپ کی شریک کار ہوکر مباہلے میں آئیں، شریک منصب نہیں کہہ رہا،شریک کارہوکر باپ کے ساتھ مباہلے میں آئیں اور شوہر کے ساتھ ساری زندگی شریک کار رہیں اور ایسے بچے چھوڑے ، حسن و حسین جیسے بیٹے، زینب و اُمِ کلثوم جیسی بیٹیاں۔

میں بارگاہِ سیدہ عالم میں خود دست بستہ عرض کروں گا کہ آپ بے شک مکمل نمائندہ ہیں ۔ بے شک آپ نے ہر شعبے میں مثال چھوڑی ہے مگر اے معصومہ عالم!اے خاتون جنت! اے مخدومہ دو جہاں!آپ کی سیرت کا نقص نہیں ہے مگر اللہ نے آپ کو کوئی بھائی نہیں عنایت کیا۔ اس رشتہ کے تقاضے آپ نہیں دکھا سکتی تھیں ۔لہٰذا جس طرح مریم کے بعد آپ کی ضرورت تھی، اسی طرح آپ کے بعد آپ کی بیٹی زینب کی ضرورت تھی۔اس رشتہ کا مکمل نمونہ حضرت زینب کبریٰ، انہوں نے اس رشتہ کے تقاضے کربلا میں پیش کردئیے۔