چار یار

چار  یار22%

چار  یار مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں
صفحے: 180

چار یار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51031 / ڈاؤنلوڈ: 3956
سائز سائز سائز
چار  یار

چار یار

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : چار ۴ یار

مؤلفہ: عبد الکریم مشتاق

ای بک کپوزنگ :حافظی

نیٹ ورک: شبکہ امامین حسنین علیھما السلام

۳

معنون

میں بندہ حقیر ،شرمندہ وعاجز پر تقصیر اپنی یہ ادنی خدمت یاران رسول حضرت علی علیہ السلام ،ابو ذر غفاری ،مقداد،اور مولی رسول سلمان الفارسی رضی اللہ عنھم کے اسماء مبارکہ سے معنون کرتا ہوں اور ان حقیقی چار یاروں کے وسیلے سے بارگاہ رب العالمین میں ملتجی ہوں کہ وہ تمام مسلمانوں میں سچی محبت ،یقین محکم ۔باہمی ۔اتحاد اور قرآنی نظم وضبط پیداکرے (آمین)

احقر العباد

عبد الکریم مشتاق

۴

بسم الله الرحمان الرحیم ۔

اللہ سبحانہ تعالی نے قرآن مجید میں تمام اہل ایمان کو یہ حکم دیا ہے کہ "یا ایھا الّذین آمنوا لا تتو لّوا قوما غضب اللہ علیھم ۔۔الخ" اے ایما ن والو جن لوگوں پر خدا نے غضب ڈھایا ہے ان سے محبت مت رکھو ۔(سورہ الممتحنہ پارہ نمبر ۲۸ آیت ۱۳)

ہم شیعہ اثنا عشریہ پر یہ یہ عرصہ دراز سے الزام بے بنیاد عائد کیا جارہا ہے کہ شیعہ صحابہ کو براجانتے ہیں، معاذاللہ ان کو گالیاں دیتے ہیں ،حالانکہ آج تک مخالفین اپنے اس دعوی کو ثابت نہ کرسکے کیونکہ بحمد اللہ وبعونہ ہم تمام نیک وعدل پسند وفقاء رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہ صرف عقیدۃ بزرگ مانتے ہیں بلکہ ان کو ہدایت کا نشان تسلیم کرتے ہیں ۔البتہ ہم ان حضرات سے سے محبت نہیں رکھتے جو مغضوب خدا قرار پائے اور ہمارا یہ مختار قرآن حکیم کی نص جلی کی متابعت میں ہے جیسا کہ مندرجہ بالا آیت وافی ہدایت کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے ۔

ہمارا مذہب یہ ہے کہ صحابی کے دومعانی ہیں یعنی ایک تعریف عام کہ جو کوئی بھی صحبت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں پہنچا وہ صحابی ہے اور دوسری تعریف خاص ہے کہ جو شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا اور حالت ایمان میں دنیا سے رخصت ہوا ۔

۵

اسی مؤخر الذکر تعریف کو ملحوظ رکھتے ہوئے اہل تشیع اصحاب رسول (رض) کو محترم و معظم تسلیم کرتے ہیں ۔قرآن مجید میں ان ہی رفقاء (رض) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعریف ایمان اور مدح اعمال صالحہ بیان ہوئی ہیں ۔ اسی طرح اور الذکر اشخاص کی مذمت (نفاق و کفر و ارتداد و‏‏غیرہ کی وجہ سے ) کلام پاک میں مذکو ر ہے ۔ اسی طرح کتب احادث صحیح بخاری و صحیح مسلم میں "باب الفتن" میں ایسے ہی اصحاب کا تذکرہ موجود ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے زاری فرمائیں گے ۔

ایسے مقدوحانہ اور ممدوحانہ اقتباسات کی قرآن و احادیث میں موجود گی بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں مومن و منافق ہر دو طرح کے اشخاص تھے پس "کل" کو برا جاننے والا مذہب امامیہ کی رو سے ملّت اسلامیہ سے ہی باہر ہے کیونکہ وہ منکر قرآن ہے ۔اسی طرح "کل" سے محبت کرنے والا اور تمام کو "عدول" سمجھنے والا مخالف قرآن اور منکر حکم خدا ہے ۔جیسا کہ اوپر نقل کردہ آیت سے صاف ظاہر ہے ۔

پس توفیق الہیہ کے طفیل شیعوں نے بتمسک ثقلین اچھے اور برے میں تمیز کرلی اور پوری احتیاط سے ان لوگوں سے محبت نہ کی جو ازروئے قرآن مغضوب قرار پاتے ہیں ۔ اہل شیعہ نے اس اصول کی پابندی کی کہ جن لوگوں سے ثقل دوم (اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) نے بے زاری اختیار کی انکی طرف نگاہ محبت نہ اٹھائی ۔ ہم نے جانچ پڑتال کا یہ معیار اختیار کیا کہ جس نے اہل بیت رسول(ع) سے محبت رکھی ہم نے اسے مو من کامل وفرد متقی مانا اور اجس جس نے ثقل دوم

۶

سے عداوت رکھی ہم بھی اس سے نفرت کرتے ہیں ۔

اہل سنت والجماعتہ کے قطب العالم حضرت مولوی رشید احمد گنگو ہی نے ہمارے خلاف ایک کتاب "ھدایۃ الشیعۃ" نامی تحریر فرمائی اس کتاب میں حضرت صاحب رقم کرتے ہیں کہ "لاریب اہل سنت صحابی اس کو کہتے ہیں کہ با ا سلام خدمت سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور با ایمان انتقال کیا اور مرتد ہوکر مرنے والے کو صحابی نہیں کہتے "(ھدایۃ الشیعۃص ۲۲)

پس یہی عقیدہ شیعوں کا ہے پھر اختلاف کیسا؟

اسی کتاب میں گنگوہی صاحب آگے جاکر لکھتے ہیں کہ "بعض منافق بھی صحابہ میں ملے ہوئے تھے ۔ہر چند ان کے نفاق کی خبر صحابہ کو تھی مگر ظاہر پر تھا اور انجام کا رسب ممیّز ہوگئے تھے کسی کا حال مخفی نہ رہا تھا"(ھدایۃ الشیعۃ ص ۵۷)۔

اب خود فیصلہ کر لیا جائے کہ ایسے منافقین لائق تعظیم ہوسکتے ہیں یا نہیں ۔حالانکہ دائرہ اصحاب میں داخل تھے ۔اگر یہ لوگ کسی عزّت کے مستحق نہ تھے تو پھر "سب کے احترام" کی پابندی کیونکر مستحسن قرار پائے گی۔؟

مجھے یہ لکھتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے مخالفین نے ہمارے خلاف کس قدر بے ہودہ اور من گھڑت پرو پیگنڈا کر رکھا ہے کہ شیعہ اصحاب کو نہیں مانتے ، لوگ بلا تحقیق یہ تہمت ہم پر باندھتے ہیں اور ہماری صفائی پر کان دھرنا گناہ سمجھتے ہیں ۔اگر ہماری معروضات سماعت فرمائی جائیں تو بڑی آسانی سے ان وجوہات سے آگاہی ہوسکتی

۷

ہے جو اس نزاع کا باعث ہیں ۔معمولی سا غور وفکر حق وباطل کی تمیز کرنے میں کافی ہوسکتا ہے ۔

یاد رکھیں ! ہادی عالمین ، رسول ثقلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت حمیدہ کو دو وسیلوں کے سپرد کیا ہے ۔اول ۔کتاب اللہ(قرآن)اور ۔دوم۔ عترت نبی (اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )۔جیسا کہ حدیث ثقلین کی تائید میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریہ میں تحریر کیا ہے ۔پس اسی کے تحت شیعہ ہر اس ہستی کا احترام کرتے ہیں جو ان فرمودہ رسول ثقلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہو ۔اور جس نے ان کوچھوڑا اسے شیعوں نے بھی چھوڑ دیا ۔اب جب کبھی یہ سوال آجائے کہ فلاں بزرگ کو شیعہ واجب التعظیم نہیں سمجھتے تو سمجھ لیجئے کہ فریق مخالف ہی کی قوی شہادت کی بنا پر اسی فرد پر یہ الزام ہے کہ اس نے حکم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نافرمانی کرتے ہوئے تمسک بالثقلین کا حکم نہیں مانا ۔ یا تو وہ مخدومہ کونین ،خاتو ن جنت ،سید طاہرہ سلام اللہ علیھا کی ناراضگی کا باعث ہوا اور مغضوبین کے زمرے میں آگیا کیونکہ بخاری شریف میں ہے کہ اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا "فاطمہ (س) میرے جگر کا ٹکڑا ہے ،جس نے اسے غضبناکیا اس نے مجھے غضبناک کر لیا اور جس نے مجھے غضبناک کیا اس نے خدا کو غضبناک کیا "

یا پھر کسی نے صرف ایک ہی ثقل کتاب اللہ کو کافی کہکر دوسرے ثقل سے عداوت کرکے نافرمانی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ۔ کوئی ثقل اوّل کو نذر آتش کرکے توہین ثقلین کا مرتکب ہوا اور کچھ ایسے نڈر ہوئے کہ اہل بیت (ع) سے رزم آرائی کر کے خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لڑائی مول لی ۔ المختصر

۸

بلاوجہ وجواز محکم ہو کسی سے عداوت نہیں رکھتے ۔

خدا بہتر جانتا ہے کہ شر پسند لوگ ہم پر بلا وجہ اتہام طرازی کرتے ہیں کہ ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی عزت نہیں کرتے حالانکہ ہم ان کی ذوات بابرکات کے واسطے سے اپنی دعائیں بارگاہ سامع الدعوات میں عرض کرتے ہیں چنانچہ سیّد الساجدین ،امام زین العابدین علیہ السلام کی مناجات جو صحیفہ کاملہ میں منقول ہیں اس بات کا ناقابل انکار ثبوت ہے کہ ہم صحابہ (رض) رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شیدائی اور حبدار ہیں ۔ان کے مراتب جلیلہ کے معترف اور فضائل ومناقب کے معتقد ہیں ۔عبارت مندرجہ ذیل کی نقل کے بعد ہم پر اصحاب دشمنی کے بہتان کی قلعی سب پر کھل جاتی ہے چنانچہ ارشاد معصوم (ع) ہے کہ

"خداوندا ! رحمت نازل فرما اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جنھوں نے حق صحبت نہایت خوبی سے ادا کیا ۔جنھوں نے ہر طرح کے مصائب اور تکالیف کو ان کی اعانت میں گوارہ کیا ۔ جنہوں نے ان کی رسالت تسلیم کرنے میں جلدی فرمائی۔اور جن ان کی دعوت کی اجابت میں سبقت کی ۔جب ان کو رسول خدا نے اپنی رسالت کی حجتیں بتائیں تو انھوں نے بلا توقف قبول کیا ۔ان کی نبوت کے اظہار میں اپنے آباؤ اولاد کو قتل کیا ۔ جب ان لوگوں نے دامن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھاما تو ان کے کنبے وخاندان کے افراد نے ان سے قطع تعلق کرلیا اور جب وہ پیغمبر کی قربت

۹

میں آئے تو ان کے رشتہ داروں نے ان سے ناطے توڑلئے۔پس خدایا ! مت بھول تو ان باتوں کو جو اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تیرے لئے چھوڑا اور راضی کردینا تو ان کو اپنی رضا مندی سے اس لئے کہ انھوں نے خلقت خدا کو تیری طرف جمع کردیا اور تیرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ دعوت دین اسلام کا حق ادا کردیا ۔ الہی ! وہ شکر کرنے کے لائق ہیں کہ انھوں نے اپنی قوم اور خانوادے اپنے گھر ووطن کو تیری خاطر چھوڑا ،اپنے عیش و آرام کو ترک کرکے ضیق معاش کو تیرے لئے اختیار کیا اور خداوندا! ان کے تابعین کوجزائے خیر دے ۔جو دعا کیا کرتے ہیں کہ پروردگار ہماری مغفرت کر اور ہمارےف ان بھایئوں کی جو ہم میں سے ایمان میں سبقت لے گئے ہیں وہ تابعین ایسے ہیں کہ ان اصحاب (رض) کے نقش قدم پر چلتے ہیں ۔اور ان کے نشانات کی پیروی کرتے ہیں اور ان کی ہدایت کی اقتدا کرتے ہیں جن کو کوئی شک ان کی نصرت میں نہیں آتا جن کے دل میں کوئی شبہ ان کے آثار کی پیروی میں نہیں آتا ،کیسے تابعین جو معاون ومدد گار اصحاب (رض) کے ہیں ۔جو ان کی ہدایت کے مطابق رہتے ہیں ۔اور ان کے موافق ہدایت پاتے ہیں ۔اور جو اصحاب (رض) سے اتفاق رکھتے ہیں اور جو کچھ اصحاب نے انھیں پہنچایا اس میں ان پر کچھ تہمت نہیں کرتے ۔خدایا رحمت نازل کر ان اصحاب (رض) کی اتباع کرنے والوں پر آج کے دن جس دن میں ہم (موجود) ہیں تا قیامت او ران کی ازواج واولاد پر۔(آمین)

ان مراتب وفضائل کے ہوتے ہوئے اگر کوئی ہم پر نفرین صحابہ کی تہمت باندھے تو اس کا سبب عداوت بے معنی نہیں تو اور کیا ہے ؟

۱۰

بارالہا!تجھے معلوم ہے کہ ہم اس الزام سے بھری ہیں۔ لہذا ہم یہ معاملہ تیری جانب لوٹاتے ہیں اور تجھے تیرے محبوب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منظور نظر اصحاب کاواسطہ دیتے ہیں کہ حق وباطل کا فیصلہ فرما ۔

"انّا من المجرمین منتقمین"

ہمارے مخالفین نے یہاں تک زبان درازی کی ہے کہ شیعہ تما اصحاب کو مرتد سمجھتے ہیں حالانکہ ہمارا ایمان ہے کہ ائمہ معصومین علیھم السلام کے بعد اصحاب رسول کا درجہ تمام امت سے بلند ہے لیکن ہم صحابی کہتے ہی اس فرد کا مل کو ہیں جو اظہر اقوال کی بنا پر حالت ایمان میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے دائرہ صحبت میں تشریف لایا اور مومن ہی فوت ہوا ۔ مطلب ہمارے مختار کا صاف ہے کہ جو شخص ایمان کی حالت میں رسو ل اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مقبول سے ملاقات کے بعد عہد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا بعد عہدرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایمان کی حالت میں فوت ہوا وہ صحابی کہلانے کا حق ہی اسی مرد ناجی کو ہے ۔ اس کے برعکس جس کسی کا خاتمہ بالخیر نہ ہوگا وہ شرف صحابیت کی دنیوی واخروی مراعات سے محروم ہوگا ۔ویسے تو کتب فریقین میں صحابہ کی تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار نفوس تک مرقوم ہوئی ہے لیکن ان میں مدارج کے لحاظ سے یقینا مراتب کا فرق ہے ۔

علامہ ابن قتیبہ کی تحقیق کے مطابق مندرجہ ذیل سترہ اصحاب النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو امتیاز حاصل ہے ۔

۱:- حضرت سلمان فارسی ۔۲:- حضرت ابو ذر ‏‏غفاری ۔۳:- حضرت مقداد بن اسود ۔۴:- حضرت عمار یاسر ۔۵:- حضرت خالد بن معید ۔۶

۱۱

:- حضرت بریدہ اسلمی ۔۷:- حضرت ابی بن کعب ۔۸:- حضرت خذیفہ بن ثابت ۔۹:- حضرت سہل بن حنیف ۔

۱۰:-حضرت عثمان بن حنیف ۔۱۱:- حضرت ابو ایوب انصاری۔۱۲:- حضرت حذیفہ بن یمان ۔۱۳:-حضرت سعد بن یمان۔۱۴:- حضرت قیس بن سعد ۔۱۵:- حضرت عباس بن عبد المطلب ۔۱۶:- حضرت عبداللہ بن عباس ۔۱۷:- حضرت ابو الہیثم بن تیہان رضی اللہ تعالی عنھم ۔

حجۃ الا سلام علامہ شیخ محمد حسین آل کاشف الغطاء اعلی اللہ مقامہ نس اس سلسلے میں تین سو نفوس کا حوالہ دیا ہے ۔

علامہ نوری نے حضرت سلمان فارسی،ابوذر، مقداد، عمار ، ابو سا مانی ، حذیفہ اور ابو عمرہ کو ممتاز صحابہ میں شمار کیا ہے ۔ امام اہلسنت علامہ ابو حاتم سجستانی بصری بغدادی اپنی کتاب " الزینت " میں لکھتے ہیں کہ عہد رسول میں جو لفظ سب سے پہلے متداول اور مشہور ہوا وہ "شیعہ " ہے اور یہ لفظ (شیعہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چار صحابہ حضرات سلمان ، ابوذر،مقداد اور عمار یاسر رضی اللہ عنھم کا طرہ امتیاز بن گیا تھا (روح القرآن ص ۶۶)۔

اس تصریح سےثابت ہوا کہ زمان رسول میں صحابہ کرام کا ایا گروہ ایسا موجود تھا جو خود کو شیعہ کہلواتے تھے ۔پس لقب شیعہ قدامت تاریخ کے لحاظ سے مقدم ٹھہر ا اور شیعوں کا وجود دور رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ثابت ہوگیا ۔

الغرض ہم اپنے دین و مذہب میں کسی شک وشبہ میں مبتلا نہیں ہیں نہ ہی ہم صحابہ رسول کے مراتب میں فرق و تمیز کرنے

۱۲

میں ارشاد خداوندی کے مخالف ہیں۔ حلقہ اصحاب میں جو صحابہ عظام رضوا ن اللہ علیھم صداقت شعار اور حق پرست تھے ہم ان کی پیروی کرتے ہیں ۔ جو صحابہ متمسک بالثقلین تھے اور صفات حسنہ سے متصف تھے انھیں محبوب ودوست رکھتے ہیں البتہ ہماری پر خاموش ان دوست نما اصحاب سے ہے جنھوں نے خدا ورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خیانت کی ہم ایسے لوگوں کی پیروی کرنا دین حق سے غداری سمجبھتے ہیں ۔پس ہم ظالم نام نہاد صحابہ پر اعتماد نہیں کرتے نہ ان لوگوں کو دوست رکھتے ہیں کہ انھوں نے خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ دشمنی کی ۔

جب مخالفین مذہب اہل بیت ہمارے مسلک میں کوئی اور خامی تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر وہ ایسی جھوٹی تہمتیں باندھنے میں اپنا بچاؤ دیکھتے ہیں اور اس قسم کی رقیق باتیں ہم سے منسوب کرتے ہیں جن کا تصور بھی صحیح الدماغ شخص نہیں کرسکتا چنانچہ ایسا ہی اوچھا ہتیھیار ہمارے خلاف یہ استعمال کیا جاتا رہا ہے کہ شیعہ تمام صحابہ کو کافر قرار دیتے ہیں اور یاران رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو گالیاں بکتے ہیں ۔

ہم نے ا س مسئلہ پر اس کتاب میں تفصیلی گفتگو کی ہے اور مدلّل و شرین مباحثوں سے اپنے موقف کو پیش خدمت کیا ہے نیز عالی مرتبت اصحاب رسول میں سے چار جلیل القدر صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے ۔ جس سے انشا اللہ مخالفین یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ شیعوں پر یہ بے ہودہ الزام کہ وہ صحا بہ کے منکر ہیں اور تمام صحابیوں کو معاذاللہ کا فر سمجھتے ہیں قطعا غلط اور

۱۳

سراسر بہتان ہے ۔ یہ بات محض تعصّب وفرقہ وارانہ ذہنیت کا مظاہرہ ہے ۔ذوق سلیم رکھنے والے قارئین پر اس حقیقت کا انکشاف ہو جائے گا کہ مخالفین نے یہ چال کس ہو شیاری سے چلی اور اس کا پس منظر کیا تھا ۔

آغاز کتاب سے قبل ہو اپنے مسلمان بھائیوں سے دست بستہ گزارش کرتے ہیں کہ راہ خدا کسی بات کو زبان سے ادا کرنے سے پہلے اس پر سوچ بچار کرلیا کریں ۔اور جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کیا کریں ۔ اسلاف کی کور کورانہ تقلید اور غلط قیاسات کبھی ہدایت کے معاون نہیں ہو تے ہیں لہذا باہمی اتحاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی پر الزام دینے سے پہلے اس کی مکمل چھان بین کر لیا کریں نیز سازشی جالوں او ر مستورہ ریشہ دوانیوں سے خبردار رہا کریں کیوں کہ اسی طریقہ سے امت میں اتحاد و یک جہتی اور باہمی اخوت برقرار رہ سکتی ہے جو اس وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے او ر ہماری ملت اب مزید کسی انتشار وفساد کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے ۔ اب جذبات کے ساتھ ساتھ اصلاحات کی بھی ضرورت ہے اور قوم کی ترقی و استقلال کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب مؤعظہ حسنہ کی تعلیم اسلام پر عمل کریں اور لا اکراہ فی الدین کے قرآنی حکم کو ہمیشہ یاد رکھیں ۔ شکریہ

ملتجی

عبد الکریم مشتاق

*****

۱۴

چار یار رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

" عن ابن بریدة عن ابیه قال "قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ان الله امرنی یحب اربعة و اخبر نی انه یحبهم قیل یا رسول الله اسمعهم لنا قال علی منهم ،یقول ذالک ثلا ثة و ابوذر و المقداد و سلمان و امرنی احبهم و اخبرنی انه یحبهم "

(جامع ترمذی جلد دوم ص ۵۷۴ مطبوعہ :نو لکشور پریس لکھنؤ)

"حضرت ابن بریدہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "اللہ تعالی نے مجھے چار شخصوں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے اور مجھے خبر دی ہے کہ میں (اللہ) بھی ان( چاروں ) کو دوست رکھتا ہوں ۔ کسی نے آپ سے دریافت کیا یا رسول اللہ ان کے نام ہم کو بتا ئیں (رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے) فرمایا ،"علی ان میں سے ہے "۔اور آپ نے یہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا اور حضرت ابوذر (غفاری) حضرت مقداد (بن اسود)اور حضرت سلمان( فارسی) اور حضور نے مجھے (روای کو) ان کی محبت کو حکم دیا ہے ۔اور خبر دی ہے کہ میں بھی(حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) ان کو اپنا یار رکھتا ہوں "

حدیث منقولہ بالا میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چار یاروں کا تعارف اس جامع انداز میں کروایا ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی فضیلت نہیں ہوسکتی جو کسی غیر معصوم ہستی کو نصیب ہو سکے کہ اللہ تعالی نے ان چاربزرگواروں کی محبت کا حکم صادر فرمایا ہے اور ان کو اپنا دوست قرار دیا ہے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی تاکید فرمائی ہے کہ وہ ان کو اپنا یار بنا ئے رکھے ۔

۱۵

مقام افسوس ہے کہ ایسے عظیم مرتبت اصحاب رسول کے فضائل و مناقب کو اتنے پردوں میں ڈھانپا جا چکا ہے کہ عام مسلمان ان یا ران خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اسماء مبارکہ سے بھی واقف نہیں ہیں ۔ ان کے کمالات و اعزازات کا اخفاء نہایت گھناؤ نی محلاتی سازش کے تحت ضروری ہوا اور ایسے ایسے بندوبست کئے گئے کہ ان نجوم ہدایت کی روشنی ماند پڑ جائے مگر باوجود لاکھ حیلہ جوئی کے مخالفین کی تمام تدابیر الٹی ہو گئیں اور ان جلیل القدر اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدموں کے نشانات کی پیروی کے بغیر راہ ہدایت نصیب نہ ہو سکی ۔ ہم مسرور ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں تو فیق عطا فرما ئی کہ یاران خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی درگا ہوں میں نذرا نہ عقیدت پیش کرسکیں ۔ اس میں شک نہیں کہ ان مقتدر نفوس کی تعریف و توصیف ہم جیسے ناقص بندوں بس کی بات نہیں ہے جبکہ ان گرامی قدر حضرات کی مدح سرائی خداوند قدوس نے اپنے کلام پلاک میں فرمائی اور رسول مقدس نے ان کے تقدس کی قصیدہ خوانی اپنی احادیث پاک کے ذریعے فرمائی ۔ ائمہ طاہرین نے اپنی زبان مطہر سے ان متبرک ہستیوں سے محبت وعقیدت رکھنے کی تائید کی ۔تاہم حصول ثواب کی خاطر ہم ان برگزیدہ محبوبان خدا ورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اپنی عقیدت کے جذبات کا اظہار کرنے میں دلی مسرت اور قلبی فرحت محسوس کر رہے ہیں ۔اور یقین واثق رکھتے ہیں کہ ہماری یہ ادنی سی خدمت مقبول ہوگی ۔

قبل اس کے ہم یاران رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مناقب نقل کریں ضروری خیال کرتے ہیں کہ چند مقدمات پیش کریں جن میں ان مسائل کا تصفیہ ہوجائے کہ کیا وجہ ہے کہ ایسی بلند پایہ ہستیوں کو وہ شہرت حاصل نہ ہو سکی جس کا یہ استحقاق محفوظ رکھتے ہیں اور ان کے غیروں کو ان پر

۱۶

فوقیت کیوں دی جانے لگی ہے ۔ اس بات کا سبب کیا تھا کہ زمانہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ان اصحاب باوفا کو جو مقامات عالیہ نصیب تھے بعد میں ان کی قدر نہ کی گئی ۔ امت حمیدہ کے ان درخشیدہ ستاروں کی روشنی کے مدھم پڑجانے کا باعث کیا ہوا ۔ اور کیوں بے جرم وخطا ان یاران رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بے اعتنائی کا سلوک کیا گیا چونکہ اس قسم کے سوالات خصوصی اہمیت رکھتے ہیں اس لئے ان پر حسب استطا عت گفتگو کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔

مقدمہ:-

اگر ہم تاریخ عالم کا مطالعہ باریک بینی سے کریں تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تمام عظیم الشان مدبّر ین سلطنت کی سیاست کے دو مشترکہ اصول اساسی تھے ۔ جو ان کامیابی کے راز تھے پہلا یہ کہ " اپنے مقاصد کے حصول کی خا طر ہر ایک امر ما سوا کی طرف سے مطلقا بے تو جہی اختیار کرکے اس کو قطعا نظر انداز کردینا ۔"

مذہب اور محبت دوبڑی طاقتیں ہیں لیکن ان فرماں رواؤں نے ان طاقتوں کو بھی مفلوج بنا کر اپنا سکہ جمایا ۔ دوسرا کہ " اپنے ارادہ اور دلی راز کو اس طرح خفیہ رکھنا ، کہ عوام الناس کو اس کی بھنک بھی نہ لگ ۔اگر ایمانداررانہ رائے قائم کی جائے تو میرے خیال میں کمال سلطنت اسلامیہ کے پہلے بادشاہوں ہوں خصوصا حضرت عمر بن خطاب کو اس ہنر میں حاصل ہو ا دنیا کے کسی بھی حکمران کو نصیب نہ ہو سکا ۔حتی کہ آج کے مغربی سیاستدان بھی اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتے ۔ جب ہم فاروق اعظم اہل سنتہ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ساری عمر اس مقصد کے حاصل کرنے میں گزاردی ۔مرتے مرگئے مگر سوائے چند مقرب افراد کے انھوں نے عوام الناس پر اپنا مقصد ظاہر نہ ہونے دیا ۔ یہ بلا شبہ دینون سیاست اور طرز جہاں بانی کا آخری درجہ کمال ہے حضرت عمر کو جن لوگوں سے سیاسی اختلاف

۱۷

بھی ہوتا تھا آپ ظاہری طور پر ان سے خبر خیر خواہی کا دم بھرتے تھے ۔مثلا حضرت علی علیہ السلام سے ان کو مسئلہ خلافت میں اتفاق نہ تھا پھر بھی وہ ان کی بہت تعظیم و تکریم کرتے تھے آپ کی اس عاقلانہ سیاست کا پتہ اس واقعہ سے چلتا ہے کہ بعض لوگوں نے حضرت عمر کو حضرت علی علیہ السلام کی عزت وتوقیر کرتے دیکھ کر پوچھ لیا کہ آپ (عمر) جتنی تعظیم و تکریم علی ابن ابی طالب علیھما السلام کی کرتے ہیں اور کسی کی نہیں کرتے ؟ حضرت عمر نے جواب دیا کہ کیوں نہ کروں کیوں کہ وہ تو میرا بھی مو لا ہے ۔اور تمام مومنین و مومنات کا مولا ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب ن ےکس خوبی ہے یہ تاثر پیش کردیا کہ غدیر خم والی جو روایت لوگوں میں چل رہی ہے وہ کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں فقط اتنا ہے کہ علی مولا ہے ۔اور مولا کے معنی حاکم نہیں ۔حاکم میں ہوں ،مولا علی ہے ۔

لاکھ جتن کرلو ۔ہزاروں کتابیں لکھ ڈالو مگر وہ اثر نہ ہوگا جو جناب ابن خطاب کے اس ایک جملہ سے ہوگیا

۔اگر حضرت عمر اس پر علمی کرنا شروع کرتے تو لوگ سمجھ جاتے کہ اب تخت پر قابض ہو کر الٹی سیدھی تاویلوں پر اتر آئے ہیں ۔مگر ان کے اس طرز عمل اور اس کی تشریح سے لوگوں کے دلوں پر بہت اثر ہوا ان کو معلوم ہو ا کہ ایک آدمی مولا وآقا بھی ہو سکتا ہے ورنہ اگر ایسا نہ ہوتا تو عمر جو علی علیہ السلام کی اتنی عزت کرتے تھے کہ ایک لمحے کے لئے بھی علی علیہ السلام کی موجودگی میں مسند حکومت پر نہ بیٹھتے ۔اس ظاہری تعظیم و تکریم کی ایک اور سیاسی وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ ابھی وہ وقت نہ آیا تھا کہ ہر وقت و ہر طرح علی علیہ السلا م کی توہین ہو سکے ۔دعوی فدک کے باعث عوام میں ہیجان پیدا ہوگیا تھا لہذا سیاسی تدبر ایسے حالات میں دو تقاضے کرتا تھا یا تو قیر فریق مخالف کا کا م کردیا جائے یا پھر اظاہری وضعداری حسن وخوبی سے

۱۸

جاری رکھی جائے ۔کیونکہ اگر زیادہ تنگ کیا جاتا تو نتیجہ "تنگ آمد بہ جنگ آمد" کا احتمال تھا پھر حضرت علی علیہ السلام صاحب رسوخ بھی تو تھے لہذا حضرت علی علیہ السلام کی لوگوں میں عزت ووقعت کا لحاظ رکھنا ضروری تھا مگر جس خوبصورت سیا سی انداز سے آئندہ چشم پو شی کی گئی وہ سیاستدانوں سے داد تحسین حاصل کئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔اصحاب ثلاثہ کی سیاست ایک ہی تھی ایک کی کمی دوسرا پوری کردیتا تھا ۔اور اس بحث کا محل اس کتاب میں موجود نہیں ہے ،ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ محض حصول استحکام اقتدار کے لئے یہ تدبیر بروئے کا لائی گئ کہ حضرت علی علیہ السلام اور ان کے ساتھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی اقدار کو پامال کیا جائے ۔عوام الناس کے دلوں سے ان کی محبت اورعقیدت ختم کردی جائے اس کوشش میں علاوہ دیگر ترکیب کے ایک یہ بڑی موثر وکارگر تدبیر آزمائی گئی کہ وہ قرآنی آیات جو حضرات اہل بیت علیھم السلام اور شیعیان اہل بیت کے حق میں نازل ہوئیں ان کی من گھڑت تاویلیں اور خود ساختہ تفاسیر مرتب کی گئیں اور بڑے محتاط طریقہ سے ان کا اجرا کیا گیا ۔فضائل ومناقب کی احادیث کی اشاعت کو ممنوع قرار دیا گیا اور بارگاہ رسالت سے عطا شدہ القابات کو غیر مستحق افراد کے حق میں غصب کرلیا گیا ۔صاحبان اقتدار کی شان میں جھوٹی احادیث وضع کی گئیں اور ان کی نشر واشاعت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا اس تدبیر سے یہ فائدہ ہو ا کہ لوگ حقیقی بزرگوں کی معرفت سے بے بہرہ رہے اور بادشاہوں یا ان کے حواریوں کے گن گانے لگے اور مخالفین حکومت مورد عتاب شاہی قرار پائے ان کو اس قدر گم نام بنادیا گیا کہ آج لوگوں کی بعض ممتاز اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ناموں سے بھی واقفیت نہیں ہے ۔

۱۹

اخفائے فضائل

مقدمہ دوم:-

قرن اول میں کسی صحابی کے فضائل کا انحصار دوباتوں پر ہوتا تھا ۔اول ارشادات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جن میں فضائل کا ذکر ہو اور دوم خود صحابی کے سوانح حیات ۔

بر سر اقتدار طبقہ کی کوشش یہی رہی کہ حضرت علی علیہ السلام اور ان کے ساتھی اصحاب کے متعلق ان دونوں امور کو لوگوں کی یاد سے محو کردیا جائے سوانح حیات کے لئے تو آسان ترکیب تھی کہ ان کا ذکر ہی عام طور پر نہ کیا جائے اور لوگوں کو جاہ ہشم اور مال وزر کی جانب متوجہ رکھا جائے اور جو جو واقعات و صفات و اعزازات زیادہ فضل وفخر کے قابل تھے ان صفات میں حقیقی متصف لوگوں کے برخلاف اپنے من پسند لوگوں کا ظاہر کیا جائے ۔ہم خیال صحابہ کو دربار حکومت میں ترجیح دی جائے ۔ مثلا حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت وبہادری کے چرچے عام تھے یہ شہرت حکومت کی نظر میں کھٹکی اس صفت کے مقابلہ میں نئے ہیرو پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔لہذا ید اللہ و اسداللہ کی بجائے سیف اللہ تیار کرنی پڑی جرنیل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کسی جنگ میں شریک نہ کیا تاکہ ان کی صفت کرّاری وغیرفرّاری لوگوں کے سامنے نہ آئے ۔ اسی طرح دوسرا امر احادیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دربارہ فضائل ہے لہذا ان کی روک تھام کا مکمل بندوبست کیاگیا اس طرح کہ جبرا حکومت کی طاقت کے خوف سے اور باری انعامات کے لالچ سے لوگوں کو ایسی احادیث بیان کرنے سے روکا گیا جن میں مخالفین حکومت کے فضائل کا تذکرہ تھا ۔بلکہ ملکی قانون کے مطابق ایسی احادیث رسول کی

۲۰

نشرواشاعت کو جرم قرار دیا گیا آج کی زبان میں پریس آرڈر ینیس سختی سے نافذ کیاگیا ۔حکومت کی یہ پابندی صرف احادیث فضائل ومناقب ہی کے لئے نہ تھی بلکہ اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے رفقاء کے سوانح وواقعات فضائل کاذکر کرنا بھی ممنوع تھا ۔اسی طرح ان احادیث فضائل کے مقابلہ میں ارکان حکومت اور ہم خیال صحابہ کے حق میں لاتعداد فرضی حدیثیں وضع کی گئیں اور اس وضعیت کی حوصلہ افزائی حکومت نے انعامات و اکرامات کی بارش کرنے کی حرص ولالچ دے دے کر ان کی خوب اشاعت کروائی۔

یہ سب کچھ اس وقت کی حکومت کادور اندیشانہ سیاسی کارنامہ تھا۔ حضرت عمر جن سے بڑا سیاستدان کوئی پیدا ہی نہیں ہوسکا یہ حکمت عملی ان ہی کی مر ہون منت تھی ۔ آپ نے اس سیاسی اصول کی ابتدا کی ۔ان کے بعد آنے والوں نے ان کے مقصد کو سمجھا اور اپنی کرسی اقتدار کو اس ہی مقصد کا محتاج پایا ۔لہذا ان ہی اصول وقواعد کی اپنے اپنے زمانہ وعہد کے مطابق تشکیل کرکے حضرت عمر کے نقش قدم پر چلنے کو اپنا فخر بلکہ باعث حیات سمجھا ۔آج بھی جب کبھی کسی حکومت کو اپنے مخالفین کی زبانیں بند کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ ذرائع ابلاغ عامہ پر کنٹرول کرنا ضروری سمجھتی ہے ۔

صدر اول کی اسلامی حکومت ۔عہد بنوامیہ اور زمانہ بنی عباس کا نصب العین ایک ہی تھا ۔ان کے اقتدار کا مدار ایک مشترکہ اصول پر تھا ۔حضرت ابو بکر کا مقابلہ حضرت علی علیہ السلام سے تھا ۔ اور حضرت عمر کے متعلق بھی حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عبداللہ ابن عمر نے کہا تھا کہ اگر تیرا باپ نہ ہوتا تو کوئی بھی میری مخالفت نہ کرتا ۔اسی طرح

۲۱

حضرت عثمان بن عفان اور معاویہ بن سفیان کامقابلہ بھی حضرت علی علیہ السلام سے تھا ۔لہذا مخالفت علی علیہ السلام ان ساری حکومتوں کا جزو مشترک ہوا ۔یہی حال عباسیوں کا رہا ۔صرف حالات کے تقاضے بدلتے رہے مثلا حضرت عمر مجبور تھے اپنے گردوپیش کے حالات وواقعات کی وجہ سے لہذا انھوں نے حضرت علی علیہ السلام کو ٹھکانے لگانے کی تجویز مجلس شوری کی پیچیدہ کاروائیوں کا سے خفیہ انداز میں بنائی لیکن جب (بقول محمود عباسی حضرت عمر کا پیروکار) یزید بن معاویہ تخت پر بیٹھا تو اس وقت حالات بہت بدک چکے تھے وہ علانیہ نواسہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کردینے کا حکم دے سکتا تھا ۔

یہی حالت احادیث کی تھی زمانہ معاویہ بن ابو سفیان میں لوگوں حالیں بدل چکی تھی اور عادتیں بھی تبدیل ہوگئی تھیں وہ مطلق العنان حاکم کی طرح یہ پورے ملک میں دے سکتا تھا کہ آل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے شیعوں کے فضائل کی احادیث بیان نہ کی جائیں منبروں پر ان کو برا بھلا کہا جائے اصحاب ثلاثہ کے حق میں احادیث وضع کی جائیں لیکن حضرت عمر اس قسم کی دیدہ دلیری نہیں کرسکتے تھے ۔ ان کے زمانے کے حالات کے پیش نظر یہی سیاسی حکمت عملی تھی کہ بنیادی اصول وضع کردیا جائے چنانچہ اس ہی اصول کی بناء پر معاویہ نے اپنا حکم صادر کیا کیونکہ سیرت شیخین یہ تھی کہ حکومت کو چاہیئے کہ احادیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبضہ کرلے اور محض ان احادیث کی اشاعت کی اجازت دے جو حکومت کے حق میں مضر نہ ہوں اپنی مخالف احادیث کی ہر ممکن طریقے سے روکے بالکل اسی طرح جیسے آج کے زمانہ میں اخبار پر سنسر شب عائد کردی جادتی ہے ۔یا

۲۲

حکومت پریس کنڑول کی تدبیریں سوچتی ہے اور ٹرسٹ بنا کر اپنی من پسند خبروں کوچھاپنے کی اجازت دیتی ہے ۔

بعد از رسول مسلمان حکمرانوں کا احادیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کیسا برتاؤ تھا اور ان سے متعلق کس قسم کے احکامات جاری تھے یہ مشہور علامہ اہل سنتہ محمد الخضری کی زبانی سنئے جو انھوں نے اپنی کتاب "تاریخ التشریعی الاسلامی" میں ثبت فرمایا ہے ۔

"حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ"میں مراسیل ابن ابی ملکیہ سے یہ روایت کی ہے کہ :رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق نے ان لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ تم لوگ رسو ل اللہ صلعم سے ایسی حدیثیں روایت کرتے ہو جن میں تم لوگوں میں اختلاف ہوتا ہے ۔ اور تمھارے بعد جو لوگ ہوں گے ان میں اس سے بھی زیادہ اختلاف ہوگا ۔تم رسول اللہ صلعم سے کوئی حدیث روایت نہ کرو ۔ جو شخص تم سے سوال کرے اس سے کہو کہ ہمارے اور تمھارے درمیان خدا کی کتاب ہے اس کے حلال کئے ہوئے کو حلال اور اس کے حرام کئے ہوئے کو حرام سمجھو "

(تاریخ فقہ اسلامی مولوی عبدالسلام ندوی مطبع معارف دار المصنفین سلسلہ نمبر۳۰-۱۶۱)

حافظ ذہبی کابیان ہے کہ شعبہ و‏‏غیرہ نے بیان سے اور بیان نے شعبی سے او ر شعبی نے قرظہ بن کعب سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے جب ہم کو عراق کی طرف روانہ کیا تو ہمارے ساتھ خود بھی چلے اور فرمایا تم کو عراق کی طرف روانہ کیا ہمارے ساتھ خود بھی چلے اور فرمایا تم کو معلوم ہے کہ میں کیوں تمھاری مشایعت کرتا ہوں ؟لوگوں نے کہا ہاں ہماری عزت افزائی کے لئے بولے اس کے ساتھ یہ بھی بات ہے کہ تم ایسی آبادی کے لوگوں کے پاس جاتے ہو جو شہد کی مکھیوں کی

۲۳

طرح گنگنا گنگنا کر قرآن پڑھتے ہیں تو احادیث کی روایت کرکے ان کی تلاوت قرآن میں روکاوٹ نہ پیدا کرنا صرف قرآن مجید پر بس کرو اور رسول اللہ سے روایت کم کرو ۔ اور اس میں بھی تمھارا شریک ہوں چنانچہ جب قرطہ آئے تو لوگوں نے رویت حدیث کی خواہش کی انھوں نے جواب دیا کہ ہم کو حضرت عمر نے اس کی ممانعت کی ہے "

)کتاب مذکورہ اردو ترجمہ تاریخ التشریع السلامی ص ۱۶۲)

ذرا داد دیجیئے کہ اس قدر دور اندیش سیاسی پالیسی ہے دو رو نزدیک کے علاقوں مسلمان پھیل رہے ہیں لشکر اسلامی آگے بڑھ رہے ہیں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ حزب مخالف کے فضائل کی احادیث لوگوں میں پھیل جائیں اور لوگوں کو ان پر غور وفکر کرنے کا موقعہ حاصل ہوجائے حضرت عمر نے تین حضرات یعنی ابن مسعود، ابودرداءاور ابو مسعود انصاری کو محض اس وجہ سے قید کردیا تھا کہ انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت زیادہ حدیثیں بیان کردیں(فقہ اسلامی ص۱۶۲)۔

اب آگے سنئے ۔

"ابن علیہ نے رجائن ابی سلمہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا کہ ہم کو یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت امیر معاویہ کہا کرتے تھے کہ تم لوگ بھی حدیث کے ساتھ وہی طرز عمل اختیار کرو جو حضرت عمر کے زمانے میں جاری تھا کیونکہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت حدیث کرنے کے متعلق لوگوں کو دھمکیاں دی تھیں ۔(کتاب مذکورہ ۱۶۳)

اور سماعت فرمائیے کہ ۔

"حضرت عمر ابن الخطا ب نے احادیث کو لکھوانا اور اس

۲۴

بارے میں اصحاب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشورہ کیا تو عام صحابہ نے اس کا مشورہ دیا لیکن وہ ایک مہینہ تک خود متیقن طور پر اس معاملہ میں استخارہ کرتے رہے اس کے بعد ایک دن انھوں نے یقینی رائے قائم کرلی اور فرمایا کہ میں نے جیسا کہ تم لوگوں کو معلوم ہے تم سے تحریر احادیث کاذکر کیا تھا پھر میں نے غور کیا تو معلوم کہ تم سے پہلے اہل کتاب میں سے بہت سے لوگوں نس کتاب اللہ کے ساتھ اور کتابیں لکھیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ان ہی کتابوں میں مشغول ہوگئے اور کتاب اللہ چھوڑ دیا ( کتاب مذکورہ ۱۶۳ ابن سعد نے اپنی طبقات میں بھی ایسی ہی روایت لکھی ہے )

ان منقولہ بالا عبارات سے ثابت ہو ا کہ احادیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے متعلق جو حضرت عمر کا رویہ تھا اس کو معاویہ نے پسند کیا اور اسی پر عمل کیا ۔ مولوی شبلی نعمانی کے مطابق حضرت ابو بکر نے پہلے احادیث جمع کرنے کا کام کیا او رتقریبا پانچو احادیث اکھٹی کرلیں مگر بعد میں وہ بھی حضرت عمر کے ہم خیال ہوگئے اور ان حدیثوں کو آگ میں جلا یا ۔الفاروق حصہ دوم )۔پس اب ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ معاویہ نے جم فضائل علی علیہ السلام و اہل بیت اطہار کی احادیث کو مٹانے اور حضرات ثلاثہ کے حق میں حدیثیں وضع کرانے کا رویہ اختیار کیا تھا وہ در اصل حضرت عمر ہی کی پیروی تھی ۔

یہاں یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ حضرات شیخین کا مقصد محض یہ

۲۵

تھا کہ لوگ غلط سلط حدیثیں شائع نہ کریں نیز یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ انھوں نے صرف فضائل اہل بیت(ع) اور شیعیان اہلبیت کی جو خبیرں تھیں ان کو بیان کرنے سے روکا اور پھر حضرت عمر کا گذشتہ امتوں کے حالات سے عبرت آموز نتیجہ نکالنا ہر طرح معقول ہے لہذا بہتر ہے کہ ان اعتراض پر بھی مختصرا گفتگو کرلی جائے ۔ چنانچہ وکلاء عمر نے کہا ہے کہ

خوف غلطی:-

حضرت عمر نے احادیث کی اشاعت کو اس لئے روکا کہ خوف تھا کہ لوگ جھوٹی احادیث نہ مشہور کردیں جبکہ ہم اس عذر کے تحت حضرت عمر کو طرز عمل دیکھتے ہیں تو یہ خدشہ ان کے ذہن کی سوچ اور عمل و کردار کے مطابق قرار نہیں پاتا ہے میں سب سے پہلے تو یہ کہتا ہوں کہ سارے صحابی عادل تھے تو پھر حضرت عمر نے ثقایت اصحاب پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ایسا کیوں سوچ لیا ۔ یا حضرت عمر کی نظر میں حلقہ اصحاب میں بعض لوگ نا قابل اعتبار تھے یا پھر حدیث نجوم کو بعد میں وضع کیا گیا ہے ۔ بہر صورت یہ بات غور طلب ہے کہ اگر محض غلطی کا خوف تھا تو اس کا علاج بڑی آسانی سے کیا جاسکتا تھا کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کو زیادہ عرصہ نہیں بیتا تھا ۔تمام صحابہ موجود تھے جنھوں نے خود اپنے کانوں سے ارشاد ات رسول سنے تھے اور اپنے ذہن میں محفوظ کرلئے تھے حضرت عمر کسی بھی مقتدر صحابی کی سربراہی میں ایک مخصوص جماعت صحابہ کے سپرد یہ کام کردیتے جو صحیح احادیث رسول جمع کرنے کی ذمہ داری ہو تی ۔جو کام انتقال رسول کے ڈیڑھ سو سال بعد شروع ہوا اسی وقت شروع ہو جاتا اور آیندہ کے تمام جھگڑے وہیں پر ختم ہو جاتے ۔

۲۶

آخر قرآن شریف بھی تو لوگوں کے سینوں ہی سے نکال کر جمع کیا گیا تھا ۔ اسی وجہ سے تدوین حدیث کا کام بھی بڑی عمدگی سے ہو سکتا تھا جبکہ تمام امت کا اجماع بھی اس بات پر تھا جیسا کہ آپ نے اوپر والے بیان میں ملاحظہ فرمایا ہے کہ اصحاب احادیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جمع کرنے کے حق میں تھے مگر حضرت عمر کی رائے اس کے خلاف ہوئی خود اس مسئلہ میں حضرت عمر نے اجماع امت کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے ایک مہینے کے استخاروں پر عمل کیا ۔ اور نہایت ضروری امر شریعت میں اپنی اکیلی رائے کو مسلط کرکے جمہوریت کے تابوت میں کیل ٹھونک دی ۔

ترک حدیث اخفائے فضائل مخالفین کے لئے نہ تھا :-

کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر کا یہ طرز عمل اہل بیت اور ان کے متبعین کے فضائل و مناقب کو چھپانے کے لئے نہ تھا بلکہ ہر طرح کے حدیثوں سے ان کا برتاؤ یکسان تھا ۔

لیکن جب ہم تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہ قیاس بے بنیاد ثابت ہو تا ہے کیونکہ حضرت عمر دیگر احادیث کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے بلکہ مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت اگر قرآن شریف میں کسی تنازعہ کا جواب نہ پاتے تھے تو لوگوں سے احادیث رسول پوچھا کرتے تھے جب حضرت عمر کا آخری وقت قریب ہوا تو آب کو اپنا جانشین مقرر کرنے کا خیال ہو ا ۔ معاذ بن جبل ، خالد بن ولید ،ابو عبیدہ بن جراح اور سالم غلام کے فضائل حضور کی احادیث سے مستبنظ کرتے تھے کہ فلان کو "امین امت" فلاں کو سیف اللہ اور فلاں کو عالم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا تھا ۔حضرت علی علیہ السلام کے ومتعلق جو

۲۷

احادیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھی وہ یک دم فراموش کردی تھیں گویا ان کا ذکر کرنا نہیں چاہتے تھے ان کو چھپا نے میں بہتر مصلحت سمجھتے تھے ۔مولوی عبد السلام ندوی نے ایک بڑی پر معنی بات نقل کی ہے کہ خوارج کا ذکر کرتے ہوئے مولوں صاحب لکھتے ہیں کہ "یہ لوگ (خوارج )صرف قرآن کے ظاہری معنی لیتے تھے اور حدیثوں میں صرف ان ہی آحادیث کو قبول کرتے جن کی روایت ان لوگوں نے کی تھی جن کو یہ لوگ دوست رکھتے تھے ۔چنانچہ ان کی قابل اعتماد حدیثیں صرف وہ تھیں جنکی روایت شیخین حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کے دور خلافت میں کی گئی تھی" ۔

(تاریخ فقہ اسلامی ص ۲۳۹)

خوارج حضرت علی علیہ السلام کے تو سخت دشمن تھے ۔فضائل علی علیہ السلام کی احادیث تو ان کے لئے قابل اعتماد ہو نہیں سکتی تھیں اور ان کے لئے وہی حدیثیں قابل اعتبار تھیں جو دور ابو بکر و عمر میں تھیں پس خوارج کے اس طرز عمل سے ثابت ہوگیا کہ حضرت ابو بکر وعمر کے زمانہ حکومت میں حضرت علی اور ان کے دوستوں کے فضائل کی احادیث کی روایت نہیں کی جاتی تھی اس نقش قدم پر معاویہ چلا بہر حال لگے ہاتھوں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ زمانہ شیخین میں حدیث کے روایت کرنے والے خارجیوں کے دوست تھے ۔اور مثل خوارج حضرت علی علیہ السلام کے مخالف تھے ۔

گزشتہ امتوں کی غلط مثال :-

حضرت عمر کا یہ عذر کہ امم سابق کی طرح مسلمان بھی کتاب خدا کو چھوڑ کر دوسری لکھی ہوئی کتابون کی طرف رجوع کریں گے نہ ہی تاریخ سے ثابت ہے اور

۲۸

نہ ہی مذہبی روایات سے ۔ قرآن مجید سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ اہل کتاب نے اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کی تھی مگر کسی ایسی کتاب کا ذکر نہیں ملتا ہے جو انھوں نے لکھی ہو ۔ اور توریت ، زبور ، اور انجیل کے مقابلہ میں رکھ کر اس کی طرف رجوع کی ہو ۔ اور پھر زمانہ اصحاب میں تو یہ عذر بالکل بے معنی ہے کہ ارشادات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عین مطابق قرآن ہیں ۔ اس کے معارض نہیں پھر احادیث کی طرف رجوع کرنا قرآن مجید سے اعراض کرنے کے مترادف کیسے ہو سکتا ہے ؟

حقیقت یہ ہے کہ انکار حدیث کو حضرت عمر فقہ کی رو سے غلط نہ سمجھتے تھے انھیں اس بات کا ضرور احساس تھا کہ ہم محتاج سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں یہی وجہ ہے کہ جب آخری وقت آپ نے شوری کمیٹی تشکیل دی تو سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کرنے کی شرط کو نظر انداز نہ کرسکے ۔ مگر اس کو سیرت شیخین سے مشروط کردیا اصل میں یہ انکار ایک خاص سیاسی مقصد کی خاطر تھا لیکن کچھ ہی عرصہ میں تدوین حدیث میں مشغول ہوگئے اور انھیں حضرت عمر کی غلطی کا احساس ہوگیا ۔مداحان حضرت عمر بھی دبی زبان میں ان کی غلطی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے جیسے مولوی عبد السلام ندوی رقمطرز ہیں ۔

"اگر چہ اس دور میں حدیثوں کی بھی بکثرت روایت کی جاتی تھی اور تابعین کا ایک گروہ صرف اسی کام میں لگا ہو ا تھا تا ہم وہ اب تک کسی مجموعہ کی صورت میں مدون نہیں ہوئی تھیں لیکن چونکہ تمام لوگ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن مجید کی وضاحت کرکے حدیثیں فقہ کی ---کرتی ہیں اور عام مسلمانوں میں کوئی اس رائے کا مخالف نہ تھا اس لئے عقلا یہ حالت دیر تک قائم نہ رہ سکتی تھی چنانچہ

۲۹

دوسری صدی ہجری کے آغاز میں حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس کمی کو محسوس کیا اور اپنے عامل مدینہ حضرت ابو بکر بن محمد بن حزم لکھا کہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی جو حدیثیں ملیں ان کو لکھیں کیونکہ مجھ کو علم اور علماء کے فنا ہوجانے کا خوف ہے "(تاریخ فقہ اسلامی ص ۲۱۴)

لہذا احادیث پر بہت سی کتابیں مرتب کر لی گئیں ۔حنفی فقہ کا تو یہ جزو اعظم ہے ۔ صحاح ستہ مشہور ہیں ۔اس بات سے فقط یہی نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ ہر مسلمان مع حضرت عمر یہ سمجھتا تھا کہ احادیث دین کے لئے بہت ضروری ہیں ۔ ان کے بغیر فقہ نا مکمل رہتی ہے ۔مخالفین حدیث کا منشاء محض یہ تھا کہ حضرت علی و اہلبیت اطہار علیھم السلام اور ان کے دوستوں کے فضائل کی حدیثوں کو پردہ اخفاء میں رکھا جائے ۔ اسی بات پر عمل ان کے مقلدین نے بھی کیا اور ایسی احادیث فضائل ومناقب کو جس قدر ممکن ہو سکتا تھا چھپایا گیا جبکہ باقی احادیث کی اشاعت سے تعرض نہ کیا گیا حضرت عمر نے جو بات مخصوص اشاروں میں کہی تھی معاویہ نے کھلم کھلا اس کا اظہار کردیا ۔ اور حکم جاری کیا کہ حضرت علی علیہ السلام اور ان کے شیعوں کے بارے میں حدیثیں بیان نہ کی جائیں اور حضرات ثلاثہ کے حق میں احادیث وضع کی جائیں ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ کے قریب یہ جراءت نہ ہوسکتی تھی اور اگر فضائل ثلاثہ کی مروجہ احادیث کا وجود زمانہ رسالت میں ہوتا تو بوقت سقیفہ یا شوری ان فضائل کا اظہار ضرور کیا جاتا ۔ ان دونوں اہم مواقع پر ایسی حدیثوں کا بیان نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ یہ احادیث اس وقت

۳۰

وضع نہ ہوئی تھیں۔اب ہم چند شواہد اس کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ حضرت علی اور ان کے حامی افراد کے نام کو مٹانے کے لئے کیسی مذموم کوشش کی گئی ان حضرات کی توصیف وتعریف میں وارد احادیث کو کیسے ضائع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور کس طرح حضرات ابوبکر ،عمر ،عثمان اور ان کے ہم خیال لوگوں کے حق میں جعلی احادیث سازی کا کام شروع ہوا ۔

احادیث فضائل علی علیہ السلام اور شیعیان علی کی تضییع اور توصیف حضرات ثلاثہ کی وضعیت :

سنی معتزلی علامہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں جو واقعات نقل کئے ہیں ان سے یہ بات مکمل طور پر ثابت ہوتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور ان کے رفقاء کی شان میں بیان کردہ احادیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اشاعت پر کڑی پابندی لگادی گئی اور اس کے برعکس اصحاب ثلاثہ اور ان کے ہم خیال لوگوں کی شان میں من گھڑت حدیثوں کی خوب مشہوری کی گئی ۔

"ابو الحسن علی بن محمد ابی سیف المدائنی نے کتاب الاحادیث میں روایت کی ہے کہ معاویہ نے مضمون واحد کے حکم نامے امام حسن علیہ السلام کے بعد اپنے تمام عمّال کے پاس بھیجے جن میں اس نے تحریر کیا کہ میں بری الذمہ ہوں ۔لہذا ہر طبقہ و سرزمین میں ہر منبر پر خطیب کھڑے ہوگئے جو حضرت علی علیہ السلام پر لعنت کرتے تھے ان سے تبّراء چاہتے تھے اور اہل بیت علیھم السلام کی مذمت کرتے تھے اس مصیبت میں سب سے

۳۱

زیادہ اہل کوفہ گرفتار تھے کیونکہ وہاں شیعیان علی بہت تھے لہذا معاویہ نے کوفہ پر زیاد بن سمیّہ کو حاکم مقرر کردیا اور بصرہ بھی اس کے ساتھ ملا دیا وہ شیعوں کو جہاں بھی وہ ہوتے تھے نکال لاتا تھا وہ ان سے واقف تھا کیونکہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے زمانے میں ان کے ساتھ تھا لہذا ایک پتھر وکنکر کے نیچے سے شیعوں کو تلاش کرکے اس نے قتل کیا ۔دھمکیاں دیں ۔ان کے ہاتھ پیر کاٹے ۔آنکھیں نکال ڈالیں ۔درختوں کی شاخوں میں سولی پر لٹکا دیا اور بہتوں کو عراق سے جلاوطن کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عراق میں کوئی بھی شیعہ جس سے وہ واقف تھا نہ رہا ۔اور معاویہ نے کل اطراف میں اپنے عاملوں کو لکھا کہ کسی شیعہ علی و اہلبیت کی گواہی جائز نہ رکھو ۔اور اپنے عاملوں کو لکھا کہ عثمان کے پیروکاروں ،دوست داروں اور اہل واولاد پر مہربانی کرو۔ جو عثمان کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہیں ان کی جائے نشست اپنے قریب قرار دو اور ان لوگوں کو اپنا ہم نشین بناؤ ان کی بزرگی کرو اور ان کی بیان کردہ روایات و احادیث مجھے لکھو ۔ اور بیان کرنے والے کا نام اور اس کے باپ کا نام قبیلے کا نام لکھو ۔پس عمال نے ایسا ہی عمل کیا یہاں تک کہ عثمان کے فضائل و مناقب کی ان لوگوں نے کثرت کردی کیونکہ معاویہ ان لوگوں کو صلہ بھیجتا تھا باغات و زمینیں اور عمدہ لباس وغیرہ اور ان حدیثوں کو شایع کرتا تھا سارے عرب میں ۔اور عثمان کے دوستوں کے پاس بھیجتا تھا ۔پھر ہر شہر میں اس کی کثرت ہوئی اور لوگ دنیا اور وجاہت دنیا کی طرف مائل ہوگئے ۔پس معاویہ کے عمّال

۳۲

میں کوئی ایسا نہ تھا کہ جھوٹی احادیث لاوے مگر یہ کہ ہر ایک عثمان کے حق میں فضیلت ومنقبت کی جھوٹی حدیث بیان کرنے والے کا نام معاویہ لکھ لیتا تھا اور اس کو مقرب بنالیتا تھا اس کی سفارش قبول کرلیتا تھا ۔پس اس طرح ایک زمانہ گزر گیا ۔پھر معاویہ نے اپنے عاملوں کو لکھا کہ بتحقیق حضرت عثمان کے حق میں حدیثیں بہت کثرت سے ہوگئی ہیں اور ہر شہر اور ہر طرف اور ہر گوشہ میں پھیل گئی ہیں لہذا جس وقت میرا یہ خط تمھیں ملے تم لوگوں کو فورا مخصوص صحابہ اور خلفائے اولین کے فضائل بیان کرنے پر مائل کرو۔اور اگرتم کوئی حدیث ابو تراب کے حق میں سنو تو ویسی ہی او راس کے مثل ونظیر دوسری حدیث"الصحابہ" کے حق میں بنا کر مجھے دو ۔پس بلاشبہ یہ امر مجھے بہت محبوب تر ہے اور میری آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے والا ہے اور ابوتراب اور اس کے شیعوں کی دلیل کو توڑنے والا ہے ۔اور ان لوگوں (شیعوں )کو فضائل عثمان سخت تر معلوم ہوں گے ۔ معاویہ کے یہ خطوط لوگوں کو پڑھ کر سنائے گئے ۔پس مخصوص صحابہ کی تعریف میں بہت ساری جھوٹی حدیثیں گھڑ کر بیان کی گئیں جن کی کوئی حقیقت نہ تھی اور لوگوں نے ا س قسم کی خبریں بیان کرنے میں کوشش کی یہاں تک کہ یہ جعلی احادیث منبروں پر مشتہر کی گئیں اور یہ موضوعہ حدیثیں مدرسوں کے استادوں کی دی گئیں اور انھوں نے اپنے شاگردوں ،طالب علموں اور لڑکوں کو سکھا یا اور تعلیم دی جس طرح قرآن سیکھتے ہیں ۔یہاں تک کہ معلموں نے اپنے گھروں کی عورتوں ،بچیوں اور ملازموں کو بھی سکھایا

۳۳

بس اسی حال میں لوگوں نے بسر کی پھر معاویہ نے ایک ہی مضمون کا پروانہ اپنے گورنروں کو سب شہروں میں با ایں مضمون لکھا کہ تم لوگ جس شخص کی نسبت گواہی سے ثابت ہو کہ وہ شخص علی واہلبیت کو دوست رکھتا ہے بس اس کا نام دفتر سے مٹا دو اوراس کا رزق بند کردو جو اس کو ملتا ہے وہ روک لو۔ اس حکم کی تائید میں پروانہ ثانی میں لکھا کہ جس شخص کے اوپر محب علی واہلبیت کا اتہام تمھارے نزدیک ثابت ہو جائے تو اس پر اس کے گھر کو گرادو اور اس قوم سے محبت کرنے والوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کرو۔زیادہ تر یہ بلا عراق خصوصا کوفہ میں تھی تاکہ اینکہ اگر کوئی شخص شیعہ علی اس شخص کے پاس آتا تھا جس پر وہ بھروسہ کرتا تھا تو وہ داخل خانہ ہوتا اور اپنا راز اس سے کہتا تھا اور اس کے خادم وغلام سے ڈرتا تھا اور اس سے بھی کوئی بات نہ کرتا تھا جب تک کہ سخت قسم کا اور پکا حلف اس سے رازپوشیدہ رکھنے کا نہ لیتا تھا ۔پس بہت سی خود ساختہ احادیث حق صحابہ میں ظاہر ہوئیں اور بہت سی بہتان پھیلانے والی احادیث برخلاف حضرت علی علیہ السلام شائع ہوئیں اور اس ہی روش پر سب فقہا قاضی اور حکام چلے سب سے زیادہ اس روش پر چلنے والے قاریان ،ریا کنندگان مستضعفین تھے جو اظہار خشوع خضوع وعبادت کرتے تھے پھر وہ جھوٹی حدیثیں بناتھے تاکہ ان کے سبب سے اپنے والیان ملک کے نزدیک بہرہ مند ہوں اور پاس بیٹھنے کاقرب حاصل کریں۔اور بسبب تقرب کے مال و جائیداد ومکانات ان کو حاصل ہوں ۔یہاں تک کہ یہ خبریں اور احادیث ان دین داروں کے ہاتھ میں منتقل ہوئیں جو جھوٹ کو حلال نہیں جانتے تھے اور سچاگمان کرکے

۳۴

قبول کرتے تھے اور اگر وہ جانتے کہ یہ احادیث جھوٹی ہیں تو ان کوروایت نہ کرتے اور نہ اس راہ پر چلتے پس یہ امر اسی طرح پر رہا ۔یہاں تک کہ امام حسن ابن علی نے وفات پائی پھر یہ فساد وبلا اور زیادہ ہوئے یہاں تک کہ کوئی شخص اس قسم کا باقی نہیں رہا مگر یہ کہ ڈرتا تھا اپنے قتل سے یا جلاوطن ہونے سے (اس کے بعد زمانہ عبد الملک وحجاج بن یوسف میں زیادہ ہوگئی)اور تحقیق روایت کی اپنی تاریخ میں ابن عرفہ نفطویہ نے جو بہت بڑے محدثین میں سے ہیں وہ خبر جو اس خبر کی تصدیق کرتی ہے کہا ابن عرفہ نے کہ بہت احادیث موضوعہ فضائل صحابہ وخلفائے ثلاثہ میں بنائی گئی ہیں زمانہ بنوامیہ تاکہ ان کے ذریعے نزدیکی وتقرب حاصل کیا جائے کیونکہ بنوامیہ گمان کرتے تھے کہ وہ ان احادیث موضوعہ کے ذریعے سے بنوہاشم کی ناک مروڑرہے ہیں ۔

(شرح نہج البلاغہ علامہ ابن ابی الحدید معتزلی ج ۳ ص۱۵ -۱۶ تشریح خطبہ "ان فی ابدی الناس حقا وباطلا

اس کے بعد مزید کیا ثبوت دیا جاسکتا ہے ۔یہ ایک معجزہ خداوندی ہے کہ ایسے حالات وواقعات کے باوجود فضائل علویہ اور منقبت شیعیان علی کتب مخالفین میں موجود ہیں ۔بیشک اللہ قدرت کا ملہ رکھتا ہے کہ اس نے موسی کو فرعون ہی کی گود میں پروان چڑھا دیا تھا اور خدا کے نور کو پھونکوں سے بجھایا نہیں جا سکتا ہے ۔

غرضیکہ بہت اچھی طرح ثابت ہوگیا کہ جماعت اہل حکومت

۳۵

نے فضائل صحابہ وخلفائے اولین کی تائید میں کثرت سے جھوٹی حدیثیں وضع کیں اور کرائیں اور اس کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی کہ فضائل علی واہلبیت علیھم السلام و شیعیان شائع ومشہور نہ ہوں ان ہی اصول کو مد نظر رکھ کر تدوین و تالیف کتب احادیث کے زمانہ تک معاویہ اور اس سے قبل کی موضوعہ احادیث کے زمانہ تک معاویہ اور اس سے قبل کی موضوعہ احادیث کے زما امتداد زمانہ کے باعث لوگوں کی نظروں میں صحیح معلوم ہونے لگی تھیں کیونکہ جھوٹ کا مسلسل تکرار بعض اوقات سچ سمجھا جاتا ہے ۔

حقوق و فضائل اہلبیت کے چھپانے کی حکومتی کوششیں آپ نے ملاحظہ کرلیں اور یہ ضرورت بر سر اقتدار جماعت کو صرف اس لئے پیش آئی کہ عدم استخلاف کے عقیدہ کی ضرورت حکومت کو اپنے قیام وحیات کے لئے درکار ک تھی ۔لہذا اس غلط اعتقاد کی اشاعت نہ صرف عمدا اور قصدا کی کی گئی بلکہ طاقت وجبر اور ظلم وتعدی سے اسے رواج دیا گیا یہاں تک کہ یہ عقیدہ لوگوں کے تن من میں رچ گیا اور آئندہ نسلوں نے اسی عقیدے ہی کی تعلیم پائی ۔جس کے نتیجے میں ایک خام خیال ان کے مذہب میں داخل ہوگیا اور یہی نہیں کہ اب وہ اسے غلطی سمجھنا پسند نہیں کرتے بلکہ اس کے سچا ہونے پر ان کا ایسا ہی ایمان ہے جیسا قرآن پر ۔لیکن باوجود ان سب باتوں کے پھر بھی ذکر علی وفضائل حیدر کرار زندہ وپائندہ ہیں ۔اور ان کے مخالفین کی زبانوں پر بغیر ان کی مرضی و ارادہ کے وقتا فوقتا جاری ہو کر رہتے ہیں کیونکہ خداوند تعالی نے وعدہ فرمایا ہے کہ

( انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحافظون )

*****

۳۶

موضوع احادیث فضائل برائے مغالطہ

مقدمہ سوم:-

کسی سازش یا انقلاب ،کسی معرکہ یا کشمکش کسی اتفاق یا ترکیب کے سہارے بر سراقتدار آجانے والے حکمران عموما سب سے پہلے یہ تدبیر کرتے ہیں کہ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ کر اپنی حکومت کو مستحکم ومستقل بنائیں ۔

اوران لوگوں کی طرف سے عوام کے قلوب کو پھیر دیں جو ان کی نظر میں ان سے حکومت کے زیادہ حقدار اور اہل ہوتے ہیں یا ان افراد کے اثر و رسوخ سے ان کی حکومت کو خطرہ محسوس ہوتا ہو نشہ اقتدار کی مستی میں ان حکمرانوں کاجی تو یہی چاہتا ہے کہ ایسے افراد کو نیست ونابود کردیں لیکن اگر واقعات وحالات اس طرح کے ہوں کہ ان کا قلع قمع یا جلا وطنی ان کے استحکام اقتدار کے لئے مضرت رساں ہو تو وہ ایسا قدم اٹھا نے سے گریز کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ایسی صورت میں وہ یہ سیاسی چال چلتے ہیں کہ ان حقداروں اور دعویداران حکومت کے حقوق وفضائل اور اہلیت وقابلیت کو کم کرکے دکھاتے یا ممکن ہو تو بالکل چھپا تے اور اپنے منہ میاں مٹھو بنکر خود کے ترانے بجاتے ہیں اپنی تعریف کے بل باندھتے ہیں اور اپنے کارناموں کے قلابے آسمان سے ملاتے رہتے ہیں ۔اپنی تیس مار خانی کے قصیدے گھڑکر لوگوں میں بڑی ہوشیاری سے پھیلا تے ہیں ۔ذرایع ابلاغ عامہ کے بل بوتے پر اپنے قصّے و کہانیاں جی بھر کر مشہور کراتے ہیں اور

۳۷

یہ ایسی چالاکی ہے کہ سانپ بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی بھی ثابت رہتی ہے ۔

جماعت سقیفہ کی کامیابی بڑی شاندار تھی کہ ایک ایسے مستحق فرد کو نظر انداز کرکے حکومت پر قبضہ جمایا گیا تھا جس کی اسلامی خدمات کے کارہائے نمایاں عوامی نظروں میں گھوم رہے تھے اس کی محبت وقرابت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر ایک پر واضح تھی اس کی شجاعت لوگوں میں ضرب المثل بن چکی تھی ۔اس کی سخاوت نے حاتم کا نام زیر کرلیا تھا اس کے علم وحکمت کے ڈنکے ہر کان میں بج رہے تھے اس کے زہد وتقوی نے لوگوں کو مبہوت کر رکھا تھا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وہ خطبے جن میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے فضائل وحقوق کا اظہار فرمایا تھا لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ تھے خم غدیر کا منظر نگاہوں میں سمایا ہوا تھا ۔ایسی صورت حالات تھی کہ اگر جناب امیر علیہ السلام کو اللہ تعالی نے صبر کامل کی قوت عطا نہ فرمائی ہوتی اور ان کے دل میں اسلام کی محبت بدرجہ اولی نہ ہوتی جیسی کہ محبت خود بانی اسلام کے دل میں تھی تو ارکین حکومت سقیفہ کے لئے اپنا تخت و تاج قائم رکھنا سخت دشوار ہوجاتا اور مدینہ میں خون کی نہریں جاری ہوجاتیں لیکن اہلیان حکومت نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے اوپر قیاس کرکے ایسی تدابیر اور پیش بندیاں اختیار کیں جن کے باعث ان کے زعم میں جو علی علیہ السلام کی طرف سے ان کو خوف تھا وہ اگر بالکل دور نہ ہو تو بہت حد تک کم ضرور ہو جائے چنانچہ فضائل علویہ کی احادیث میں رکاوٹ پیدا کرنا بھی ایسی ہی اہم سیاسی تدبیر تھی جب حکومت نے روایت حدیث پر پابندی عائد کی اور

۳۸

احادیث پر اپنا قبضہ و اختیار جماکے رکھا پھر وضعیت احادیث اس قدر تی اور آسان نتیجہ تھا یہ طریقہ ایک طرف سہل تھا دوسری جانب بہت مؤثر و کارگر تھا کیونکہ اگر لوگوں کو یقین ہوجائے کہ ان بزرگواروں کے بھی اتنے ہی فضائل جناب رسول خدا نے ان بزرگواروں کے بھی اتنے ہی فضائل جناب رسول خدا نے بیان فرمائے ہیں تو پھر وہ ان کے قبضہ حکومت کو حق بجانب سمجھنے لگیں گے اور اس تدبیر میں سہولت یہ تھی کہ چند آدمیوں پر نظر عنایت کرکے ان کو ایسا کہنے پر آمادہ کر لینا کوئی بڑی بات نہ تھی ۔چنانچہ معاویہ بن ابو سفیان نے جس خوبی سے یہ کام سرانجام دیا اس کا حال ہم گزشتہ مقدمہ میں لکھ چکے ہیں ۔اب ہم بطور مثال چند شواہد پیش خدمت کرتے ہیں اور چند موضوعہ احادیث نقل کرتے ہیں ۔ان پر جرح کرکے اثبات وضعیت لکھتے ہیں ۔

کسوٹی:-

کسی حدیث کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے تین گر ایسے ہیں جن کی کسوٹی پر ہر حدیث کو پرکھا جا سکتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

(ا):- فضلیت کی حدیث موافق قرآن ہے یا نہیں ۔

(ب):- ممدوح کے سوانح حیات اور واقعات سے حدیث کی مطابقت ہوتی ہے یا نہیں ۔

(ج):- حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے فورا بعد چند ایسے مواقع اگر آئے جو اس حدیث کے بیان کے مناسب محل ومتقاضی تھے تو کیا اس حدیث کو ان موقعوں پر پیش کیا گیا کہ نہیں ۔

اگر کوئی حدیث خلاف قرآن ہے تو یقینا وہ جھوٹی ہے ۔اسی طرح قابل غور امر ہے کہ حدیث کا ممدوح اس قابل و اہل بھی تھا کہ نہیں جو اس کے حق میں بیان ہوا ہے ۔تعریف و توصیف اسی وقت زمرہ مدح میں شمار ہوگی جب ممدوح کے سوانح حیات

۳۹

کردار ،چال چلن وطرز زندگی کے مطابق ہو ورنہ ہجو ہوگی مثلا کسی کمزور و لاغر اور بزدل شخص کے بارے میں اگر کہا جائے کہ وہ رستم زماں تھا تو یقینا یہ تعریف نہیں بلکہ ہجو ٹھہرے گی ۔حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے فضائل وکمالات و علو مرتبت کے متعلق جس قدر احادیث ہیں وہ محض ایک امر واقعہ کو بیان کرتی ہیں ۔آپ کے چال چلن ۔سوانح حیات فضائل روحانی وصفات جسمانی کے عین مطابق ہیں۔ اگر حدیث میں ہے کہ آپ (ع) کا اور جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کانو ر تخلیق نورتخلیق ارض وسما سے قبل خلق کیاگیا اور وہ نور ایک ہی تھا جو عرش الہی کے سامنے ہزاروں سال کی تخلیق آدم سے پہلے مشغول عبادت الہی تھا تو اس کی تردید آپ کے سوانح حیات ہے ہرگز نہ ہوسکے گی بلکہ مزید تقویت بخشی ہوگی کیونکہ فضائل میں آپ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوش بدوش تھے اور اس دنیا میں آکر بھی دونوں نے کبھی کسی بت کو سجدہ نہ کیا ۔

ایک حدیث وضع کی گئی ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذاللہ فرمایا کہ "میں اور ابوبکر دوگھوڑوں کی طرح دوڑ رہے تھے ۔(یعنی نبوت کے پائے کو چھونے کے لئے )میں ان سے آگے بڑھ گیا تو ان کو میری پیروی کرنی پڑی اوراگر وہ آگے بڑھ جاتے تو میں ان کی پیروی کرتا ۔

اس موضوعہ حدیث سے بعض جہلاء نے استدلال کیا ہے کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نبوت مل گئی اور ابو بکر کو خلافت حصہ میں آئی ۔اسی طرح یہ بھی حدیث ہے کہ ابو بکر و عمر کا نور تخلیق آدم سے پہلے مصروف عبادت تھا تو جب ان کو زمین پر چالیس بتوں کے آگے سجدہ ریز

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180