چار یار

چار  یار44%

چار  یار مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں
صفحے: 180

چار یار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50358 / ڈاؤنلوڈ: 3788
سائز سائز سائز
چار  یار

چار یار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

اس واقعہ سے جہاں جناب ابوذر رضی اللہ عنہ کی بے مثال محبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پتہ چلتا ہے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوذر(رض) کو آیندہ کے احوال سے باخبر کردیاتھا۔

بشارت جنت:-

حضرت ابوذر(رض) کا شمار ان اصحاب مبشرہ میں ہے جنکو اس دنیا میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت دے دی ۔مروی ہے کہ ایک دن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد قبا میں تشریف فرماتھے اور آپ کےگرد بہت سے اصحاب حلقہ باندھے بیٹھے تھے ۔آپ نے فرمایا کہ جو شخص سب سے پہلے اس مسجد کے دروازہ سے داخل مسجد ہوگا وہ اہل بہشت سے ہوگا ۔یہ سنکر چند اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے اٹھ کر باہر چلے گئے تاکہ داخل مسجد ہونے میں سبقت کریں ۔ اصحاب کے اس عمل پر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ اب بہت سے لوگ داخل ہونے میں ایک دوسرے پر سبقت کریں گے اور مسجد میں داخل ہوں گے ان میں سے جو کوئی مجھے "ماہ ذر" کے ختم ہوجانے سے مطلع کرے وہ اہل بہشت سے ہوگا ۔تھوڑی دیر کے بعد وہ لوگ داخل مسجد ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ یہ بتاؤ یہ مہینہ رومی مہینوں میں سے کونسا ہے ۔ان لوگوں میں حضرت ابوذر بھی تھے جو تنہا باہر سے آنے والوں میں صحیح آنے والے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس سوال پر تمام لوگ لاجواب رہے لیکن حضرت ابوذر نے کہا کہ مولا ماہ آذر (چیت)ختم ہوچکا ہے ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے لیکن میں یہ ظاہر کرنے کے لئے تم سے سوال کیا ہے کہ لوگ سمجھ لیں کہ تم اہل بہشت سے ہو ۔

۱۰۱

ابے ابوذر(رض) تم کو میرے اہل بیت علیھم السلام کی دوستی میں حرم سے نکا لا جائے گا ۔تم عالم غربت میں زندگی بسر کروگے اور عالم تنہائی میں دنیا سے اٹھوگے تمہاری تجہیز وتکفین کی وجہ اہل عراق کا ایک گروہ سعادت حاصل کرے گا اور اہل بہشت میں میرے ہمراہ ہوگا ۔

محافظ شیر:-

تفسیر امام حسن العسکری علیہ السلام میں ہے کہ حضرت ابوذر (رض) خاصان خدا اور مقرّبین اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تھے ایک دن خدمت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے پاس ساٹھ گوسفند ہیں جن کی مجھے حفاظت کرنی پڑی ہے مگر میرادل یہ گوارہ نہیں کرتا کہ میرے یہ لمحات صحبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خالی رہیں ۔حضور نے فرمایا ابوذر تم واپس اپنے مقام پر جاکر ان گوسفندوں کا بندوبست کرو۔حکم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ملتے ہی واپس آئے ۔ایک روز مشغول نماز تھے کہ ایک بھیڑیا آگیا دل میں سوچا کہ نماز تمام کرلوں یا اپنے جانوروں کی حفاظت کروں خیال میں فیصلہ کیا ک گوسفند جاتے ہیں تو جاتے رہیں نماز تو پوری کرلو ۔مگر ساتھ ہی شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ اگر بھیڑئیے نے سارے جانور ہلاک کردئیے تو پھر کیا بنے گا مگر فورا ہی جذبہ ایمان بولا کہ خداکی توحید ،محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور علی علیہ السلام کی ولایت جیسی دولت جس کے پاس ہو اس کو اور کیاچاہیئے ۔ گوسفند جاتے ہیں تو جاتے رہیں ۔ نماز کیوں جائے ۔لہذا صمیم قلبی سے نماز میں مشغول رہے ،بھیڑیا آیا اور اس نے پہلا حملہ کیا کہ ایک بچہ لے چلا ۔ابھی وہ چند قدم ہی گیا ہوگا کہ ایک شیر نمودار ہوا اور اس نے بھیڑئیے کو ہلاک کردیا اور گوسفند کے بچے کو اس سے چھین کر گلہ میں پہنچادیا ۔ ت=پھرامر ربی سےگویا ہوا ۔

"ابے ابوذر(رض) !تم اپنی نماز میں مشغول رہو ۔حق تعالی نے مجھے

۱۰۲

تمھارے گوسفندوں پر مؤکل کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ جب تک تم نماز سے فارغ نہ ہوجاؤ میں تمہارے گوسفندوں کی حفاظت کرتا رہوں "۔

پس جناب ابوذر(رض) نے کمال آداب وشرائط سے نماز قائم کی جب نماز سے فراغت پائی تو شیر حضرت ابوذر(رض) کے قریب آیا اور اس نے پیغام دیا کہ اے ابوذر (رض) بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوکر اطلاع کردو کہ اللہ نے ان کے صحابی کے لئے اس کے گوسفندوں کی حفاظت پر شیر کو مقرر کردیا ہے ۔جناب ابوذر خدمت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں آئے اور یہ واقعہ سنایا حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ سنکر ارشاد فرمایا کہ اے ابوذر(رض) تم بالکل سچ کہتے ہو ۔میں (محمد)صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،علی علیہ السلام،فاطمہ سلام اللہ علیہا ، حسن اور حسین علیھما السلام تمھاری تصدیق کرتے ہیں اس کے بعد ابوذر (رض) واپس ہوئے ۔

اس واقعہ کے بعد کچھ کج عقیدہ اور ناقص الایمان لوگوں کو اعتبار نہ آیا آپس میں چہ مے گوئیاں شروع کردیں کچھ نے امتحان کی ٹھان لی ۔ایک دن چپکے سے اس جگہ آپہنچے جہاں ابوذر(رض) اپنے جانوروں کو چرا رہے تھے چنانچہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ نماز کے وقت شیر ان گوسفندوں کی حفاظت کرتا تھا اور اگر کوئی جانور گلہ سے جدا ہوتا تو وہ شیر اسے اندر داخل کرلیتا جب حضرت ابوذر(رض) نماز ختم کرچکے تو شیر نے مخاطب ہوکر کہا کہ اپنے جانور پورے کرلو میں نے ان کی حفاظت میں کوتاہی نہیں کی ہے ۔اس کے بعد وہ شیر ان چھپے ہوئے منافقوں سے متوجہ ہو کر بولا ۔

"اے گروہ منافقین! کیاتم اس امر سے انکار کرتے ہو کہ خدا نے مجھے اس شخص کے گوسفندوں کے لئے مؤکل فرمایا ہے جو حضرت

۱۰۳

محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل علیھم السلام کا دوست ہے اور تقرب خداوندی کے لئے ان ہی بزرگوں کا وسیلہ ڈھونڈتا ہے میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس نے محمد اور آل محمد علیھم السلام کو گرامی کیا ہے کہ خداوند قدیر نے مجھے ابوذر کا تابع فرمان اور مطیع قرار دیا ہے ۔خبرداررہو اگر ابوذر(رض) اس وقت مجھے حکم دیں کہ میں تم سب کو ہلاک کردوں تو میں بالتحقیق تم لوگوں کو بلا تاخیر پھاڑ کھاؤں "

یہ منظر دیکھ کر ان لوگوں کی جان حلق میں اٹک گئی مگر شیر غائب ہوگیا اور یہ اپنا سامنہ لے کر واپس ہوئے جب پھر ابوذر (رض) بارگاہ رسول میں حاضر ہوئے تو سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

"اے ابوذر (رض)! تم نے اپنے خالق کی اطاعت کے سبب یہ شرف حاصل کرلیا ہے کہ جنگل کے جانور تک تمھارے مطیع کردئیے گئے ہیں ۔ بے شک تم نے اپنے خالق کی اطاعت کے سبب یہ شرف حاصل کرلیا ہے کہ جنگل کے جانور تک تمھارے مطیع کردئیے گئے ہیں ۔بے شک تم ان بندوں میں بڑا مقام رکھتے ہو جن کی تعریف قرآن مجید میں نماز کے قائم رکھنے کے متعلق کی گئی ہے "۔(حیات القلوب )

اسلامی اخلاق وعادات:-

عقل کو اسلام سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے ۔حضرت ابوذر چونکہ مردعاقل تھے لہذا ان کی غیر اسلامی زندگی میں بھی اسلام کی مخالفت نظر نہیں آئی جب وہ پرچم اسلام تلے آگئے تو ایسا معلوم ہوا کہ ما لا کا ایک کھویا ہو ا موتی دوبارہ زینت بننے کے لئے مل گیا ۔تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابو ذر(رض) اسلام لانے کے بعد نکھرتے چلے گئے ہیں ۔ پاکیزگی نفس ،خالص عقیدت،مخلص ایمان ،یقین محکم اور حسن وکمال سیرت کاجو مظاہرہ اس صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے مطالعہ سے ہوتا ہے وہ ممتاز حیثیت رکھتا ہے آپ کی سیرت بابصیرت ہرطبقہ کے لئے مشعل راہ ہے ظہور اسلام کےبعد

۱۰۴

انھوں نے لوگوں کو مواعظ ونصائح سے سیراب فرمایا ۔اخوت ومحبت اور حقیقی مساوات کا سبق سکھایا ۔اطاعت خدا ورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اولی الامر کا راستہ واضح فرمایا ۔اور عقل سلیم کے فلسفہ کو مبرہن طریقوں سے پیش کیا ۔ زہد کا یہ عالم تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا

شبیہ عیسی (ع):-

"ابو ذر (رض) میری امت میں حضرت عیسی علیہ السلام کی زہد میں مثال ہیں " اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ "جو چاہے کہ عیسی علیہ السلام کو زہد وتواضع کو دیکھتے تو وہ ابوذر (رض) کی طرف نگاہ کرے"(ابوذر غفاری ص ۵۷)۔

حضرت ابوذر (رض)فرمایا کرتے تھے کہ دنیا سے سخت بیزار ہوں اور دوٹکڑے روٹی اوردو ٹکڑے کپڑا کے علاوہ کچھ نہیں جانتا روٹی کے ٹکڑے صبح وشام کھانے کے لئے اور کپڑے کے ٹکڑے گردن اور کمر پر باندھنے کے لئے یہ بات آپ (رض) کے زہد کی منزل روشناس کراتی ہے ۔

مورخین اور محدثین کو اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ حضرت ابوذر علم کے عظیم مدارج پر فائز تھے ۔آپ فرماتے ہیں کہ رسول علیمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میرا سینہ علم سےبھرا ہے ۔آپ کہتے ہیں کہ اگر آسمان میں کوئی فرشتہ بھی حرکت کرتا تھا تو اس کے متعلق حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کچھ معلومات حاصل کرلیتا تھا ۔

سید مناظر گیلانی لکھتے ہیں "حیدر کرار علیہ السلام ،افضی الصحابہ وباب العلم کی اس شہادت کو پڑو اور خود غور کرو کہ اگر انھوں نے ایسا فرمایا تو کیا غلط فرمایا ۔فرماتے ہیں ابوذر(رض) سخت حریص اور لالچی تھے ۔لا لچی دین کی پیروی

۱۰۵

کرنے میں اور اس کی باتوں پر عمل کرنے میں اور حریص علم حاصل کرنے میں تھے ۔بہت زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کرتے تھے ۔پھر انھیں کبھی جواب دیا گیا اور کبھی نہیں اس پر بھی ان کا پیمانہ بھر حتی کہ لبریز ہوگیا"

مولا علی باب مدینۃ العلم کی یہ گواہی حضرت ابوذر(رض) کے تبحر علمی کے لئے بہت کافی ہے اور جناب ابوذر(رض) کبھی کبھار جوش میں آکر کہہ جایا کرتے تھے جیسا کہ ابن سعد نے طبقات میں لکھا ۔

"ہم رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے اس وقت بچھڑے ہیں کہ فضاء آسمانی میں بازوہلا کراڑنے والا کوئی پرندہ ایسا نہیں رہ گیا تھا کہ ہمیں اس کے متعلق کوئی خاص بات معلوم نہ ہوئی ہو۔"

حضرت ابوذر(رض)اول درجہ کے محدث تھے فصاحت وبلاغت پر دسترس کامل رکھتے تھے متقی مسلمان کا صحیح نمونہ تھے ۔اسی لیئے لوگوں کے قبلہ بن گئے تھے ۔ایک روز مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور احادیث نبوی کی تعلیم دے تھے کہ ایک شخص نے کہا "کاش ! میں نبی کی زیارت کرتا "ابوذر(رض) نے فرمایا حدیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے کہ میری امت میں سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور کہیں گے کاش! ہم رسول اللہ کو دیکھتے چاہے ان کی اولاد اور مال چھن جائے ۔"

حضرت ابوذر اخلاق کے اعلی منازل ومدارج پر فائز تھے ۔ آپ پر صحبت پیغمبر کا نمایاں رنگ چڑھ چکا تھا اسوہ حسنہ کا جلوہ نظر آتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کردار میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس پر انگشت اعتراض اٹھائی جا سکے ۔آپ کی پوری

۱۰۶

زندگی اخلاق کی بے نظریر مثال ہے ۔حضرت ابوذر تعلیم اخلاق کے مبلغ تھے اور فرماتے تھے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سلسلہ میں سات باتوں کی ہدایت فرمائی ہے ۔

۱:-فقراء ومساکین کو دوست رکھنا اور انھیں اپنے قریب رکھنے کی کوشش کرنا ۔

۲:- اپنے حالات کو سنوارنے کے لئے اپنے سے کم حیثیت کے لوگوں پر نظر رکھنا اور اپنے سے بڑی حیثیت کے لوگوں کی طرف توجہ نہ کرنا ۔

۳:-کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا اور قناعت کو اپنا شعار قراردینا ۔

۴:- صلہ رحم کرنا یعنی اپنے اقرباء کے ساتھ پوری ہمدری کرنا ۔اور ان کے آڑے وقت ان کے کام آنا ۔

۵:- حق بات کہنے میں کوئی باک نہ کرنا چاہئیے ساری دنیا دشمن ہوجائے ۔

۶:- خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا ۔

۷:- ہمیشہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ کاورد کرتے رہنا ۔(مسند احمد بن حنبل)

حضرت ابوذر کا بیان ہے کہ اس کے بعد حضور نے میرے سینہ پر ہاتھ مارکر فرمایا ۔

"اے ابوذر !تد بیر سے بہتر کوئی عقل(سائنس ) نہیں اور اپنے نفس پر قابو پانے سے بہتر کوئی پرہیز گاری نہیں اور حسن اخلاق سے بہتر دنیا میں کوئی حسن نہیں "

جب ہم حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کی حیات پاک کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے آپ اکثر مساکین وفقراء کو سینے سے لگائے رہتے تھے ۔آپ ان خوش نصیب صحابہ رسول میں سے تھے جن کے رگ وریشہ میں بوئے اسوہ

۱۰۷

حسنہ سمائی ہوئی تھی ۔آپ فرمایا کرتے تھے مجھےمیرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حکم ہے کہ جو تم کھاتے ہو وہی اپنے غلاموں اوراپنی لونڈیوں کو کھلاؤ ۔اور جو خود پہنو وہی ان کو بھی پہناؤ ۔چنانچہ آپ (رض) نے اس حکم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کےتعمیل میں کوئی کوتاہی نہ برتی ۔ایک مرتبہ کاذکر ہے آپ اپنے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے راستہ میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی اس نے دیکھا کہ جس طرح کالباس حضرت ابوذر(رض) نے زیب تن فرمایا ہے وہی لباس ان کے غلام نے بھی پہن رکھا ہے وہ شخص معترض ہوا۔ آقا وغلام کا ایک لباس ہے آپ نے جواب دیا کہ مجھے میرے مرشد ونبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہی امر ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ میں خلاف حکم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود کچھ پہنوں اور اپنے غلام کو کچھ اور پہناؤں ۔

آپ کا طرز بود وباش اور ظاہری وضع قظع بالکل سادہ تھی لباس وپوشاک میں زرق برق ملبوسات پسند نہ کرتے تھے ۔طہارت کا خیال ضرور فرمایا کرتے تھے مگر قطعا پوشاک کی پرواہ نہ کرتے تھے اکثر بال الجھے رہا کرتے تھے ۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ احباب نے زبر دستی نہلا دھلا کر گنگھی وغیرہ کی آ پ کا بستر ایک معمولی چٹائی تھا ۔ الغرض آپ کی زندگی کا معیار رہن سہن بالکل ایک عام شریف النفس انسان کی طرح تھا ۔

حضرت ابوذر (رض) باوجودیکہ سادہ طرز زندگی پر عامل تھے مگر وہ رہبانیت کے قائل ہرگز نہ تھے ۔آپ نے سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی میں شادی بھی فرمائی آپ نے تمام حقوق زوجیت کا لحاظ کما حقہ رکھا ۔آپ کی زوجہ کا رنگ سیاہی مائل تھا اور لوگ کبھی کبھار یہ طعنہ بھی دیتے تھے مگر آپ (رض) نے اسی بیوی کو اپنا ملکہ خانہ قرار دیا ۔آپ اپنی بیوی کا

۱۰۸

کافی خیال رکھتے تھے ۔اسی طرح مہمان نوازی اور تواضع داری حضرت ابوذر کی نمایاں صفات تھیں ۔

صدق ابوذر:-

جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے اور سچائی وہ صفت اعلی ہے جس پر بڑی سے بڑی شخصیت بھی ثابت نہیں رہی لیکن جناب ابوذر رحمۃ اللہ علیہ کے لئے خصوصی صفت کے واسطے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نص فرمائی ۔چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صادق نے صدق ابوذر کی ضمانت یوں ارشاد فرمائی ۔

"سایہ آسمان تلے اور زمین کے فرش کے اوپر ابوذر سے زیادہ سچ بولنے والا کوئی نہیں "(ازالۃ الخفاء جلد ۱ ص ۲۸۲ شاہ ولی اللہ دہلوی)

حضرت ابوذر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معتمد اصحاب میں تھے چنانچہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غزوہ ذات الرقاع میں آپ کو مدینہ منورہ میں قائم مقام فرمایا ۔اسی طرح حضرت ابوذر (رض) کو ردیف النبی (کسی سواوی پر پیچھے بیٹھنا اور آگے سے کمر تھام کر بیٹھنا۔) ہونے کا بھی شرف اکثر مرتبہ نصیب ہوا ۔اسی طرح حضرت ابوذر (رض) پر حضور کا پورا پورا اعتماد تھا کہ کئی راز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوذر (رض) کو بتا دئیے تھے ۔حضرت ابوذر ان خوش قسمت اصحاب میں ہیں جن کو دفن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں شرکت کا شرف حاصل ہوا ۔

رحلت پیغمبر کےبعد حضرت ابوذر (رض) کبھی حکومتی محلوں کو وقعت نہ دی بلکہ ہمیشہ خانہ مرکز ہدایت ومعدن نبوت اہل بیت اطہار کا طوف کرتے رہے ۔اسی ناکردہ گناہ کی سزا میں عموما ضیق یافتہ رہتے ۔

۱۰۹

جب سقیفہ کی سازش کاظہور ہوا اور مسلمانوں میں دھینگا مشتی چلی تو اس شیر دل بزرگ نے مسجد النبی میں ایک دلیرانہ تقریر فرمائی ۔

"اے گروہ قریش ! تم کس غفلت میں پڑے ہو؟ تم نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قرابت کی یکسر نظر انداز کردیا ۔خدا کی قسم عرب کی ایک جماعت مرتد ہوگئی ہے اور دین میں شکوک کے رخنے ڈالنے دیئے ہیں ۔ سنو! امر خلافت اہل بیت کا حق ہے ۔یہ جھگڑا فساد اچھا نہیں ہے ۔تمہیں کیا ہوگیا ہے ۔اہل کو نا اہل قرار دیتے ہو اور نا اہل کو سرپر اٹھاتے ہو۔ خدا کی قسم تم سب کو معلوم ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بار بار فرمایا ہے کہ خلافت وامارت میرے بعد علی (ع) کے لئے پھر حسن اور حسین علیھما السلام پھرمیری پاک اولاد اس کی مالک ہوگی ۔تم نے قول رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم او رخدا کے حکم کو نظر انداز کردیا تم اس عہد اور حکم کو بھول گئے جو تم پر عائد کیاگیا تھا تم نے فانی دنیا کی اطاعت کرلی اور آخرت کو فروخت کردیا جو باقی رہنے والی ہے اور جس میں جوان بوڑھے نہ ہونگے اور جس کی نعمتیں زائل نہ ہوں گی جس کے رہنے والوں پر رنج وغم طاری نہ ہوگا ۔جس کے مکینوں پر ملک الموت کا زور نہ ہوگا ۔ ایسی قیمتی چیز کو تم نے فانی دنیا کے عوض بیچ دیا یہ تو تم لوگوں نے ایسا ہی کیا جس طرح پہلی امتوں نے کیا ۔انھوں نے یہ کیا تھا کہ جب ان کا نبی انتقال کر گیا تو انھوں نے بیعت توڑ دی اور رجعت قہقری کرگئے ۔انھوں نے معاہدے ختم کردیئے اور احکام بدل دیئے ۔اور دین کو مسخ کردیا ۔ تم نے ان سے فسادات کا پورا ثبوت دیا ۔اے گروہ قریش ! تم بہت جلد اپنی کرتوت کا بدلا

۱۱۰

پاؤگے اور تمھیں اپنی بدکاری کا نتیجہ مل جائے گا ۔وہ چیز تمھارے سامنے آجائے گی جو تم نے اپنے کردار بھیج دی ہے ۔خبر دارہو! جو بھی ہوگا درست ہوگا کیونکہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا "(ابوذر الغفاری ص۱۱۳)

یہ تقریر اس موقعہ پر کی گئی ہے جب حکومت کی تلوار سروں پر لٹک رہی تھی اور لوگوں کی زبانیں بند کرادی گئی تھیں ایسے خطرناک حالات میں صدیق امت حضرت ابوذر غفاری کا یہ عظیم الشان خطبہ ان کی بے مثال جراءت وحق گوئی کاآئینہ دار ہے ۔حضرت ابوذر کے مقدّر کا ستارہ اس قدر روشن تھا کہ خاندان ر سول میں ان کی ہراہم موقعہ پر ضرورت محسوس کی جاتی تھی چنانچہ جب سیدہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کا وصال ہوا تو غسل سے فراغت پانے کے بعد حضرت امیر علیہ السلام نے امام حسن کو حضرت ابوذرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بلا نے بھیجا چنانچہ آپ تشریف لائے اور صدیقہ العالمین کی نماز جنازہ میں اس صدیق امت نے شرکت کا شرف پایا ۔حضرت ابوذر کے لئے طبعا یہ مشکل تھا کہ حق گوئی سے زبان بند رکھیں چنانچہ وہ دور حضرت ابوبکر میں اکثر آل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت میں تقریر فرماتے رہتے اور روضہ اقدس کی مجاورت میں رہتے باوجود یکہ ان کی سرگرمیاں حکومت وقت کو گوارہ نہ تھیں مگر انھوں نے مصلحت کے تحت اپنا رویہ بزم رکھا البتہ خفیہ طور آپ کو مجنون ومجذوب مشہور کرنے کی کوشش کی تاکہ لوگ ان کی باتوں کو وقعت نہ دیں ۔ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حیات طیّبہ میں حضرت ابوذر کوایک نصیحت فرمادی تھی جس کی صحیح

۱۱۱

مصلحت اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں کہ "جب کوہ سلع تک شہر کی آبادی بڑھ جائے تو اے ابوذر تم شام کی طرف چلے جانا "۔

چنانچہ جب حضرت عمر کے زمانہ میں فتوحات کا اضافہ ہوا تو اس حکم رسول کی تعمیل میں حضرت ابوذر نے شام کی طرف کوچ فرمایا اور دس سال کا عرصہ مدینہ سے باہر گزار ا۔جب حضرت عثمان حاکم ہوئے تو پھر آپ واپس مدینہ آگئے ۔حضرت عثمان کے دور حکومت میں بنی امیہ نے قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کردیا جناب ابوذر کو حکومت کی اس دھاندلی سے اختلاف ہوا ۔لہذا انھوں نے حکومت کی اس پالیسی پر کڑی نکتہ چینی کی پس حضرت عثمان نے ان پر سخت پابندیاں عائد کردیں ۔لیکن ان پابندیوں سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے لہذا فیصلہ کیاگیا کہ آپ کو جلا وطن کردیا جائے پس ان کو زبر دستی شام بھیج دیاگیا ۔شام میں آکر حضرت ابوذر (رض)کو معاویہ سے واسطہ پڑا ۔یعنی آسمان سے گرا کجھور میں اٹکا ۔ابوذر کے وعظ معاویہ کے لئے دردسربن گئے ۔لہذا اس نے ابوذر (رض)کو قتل کی دہمکی دی ۔جب جناب ابوذر کویہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا ۔

"امیّہ کی اولاد مجھے فقر و قتل کی دہمکی دیتی ہے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ فقیری مجھے تونگری سے زیادہ مر‏غوب ہے اور زمین کے اندر ہونا مجھے زمین کے باہر ہونے سے زیادہ پسند ہے ۔نہ میں قتل کی دہمکی سے مرعوب ہوتا ہوں اور نہ مرنے سے ڈرتا ہوں "۔

(ابوذر الغفاری ص ۱۲۲)

چنانچہ حضرت ابوذر حقیقی اسلامی نظام اقتصادیات کاپرچار

۱۱۲

کرتے رہے ۔معاویہ نے عاجز آکر حضرت ابوذر (رض) کو خریدنے کی کوشش کی اور تین سودینار سرخ کی ایک تھیلی ایک ملازم کے ہاتھ روانہ کی مگر حضرت نے اسے ٹھکرادیا ۔حضرت ابوذر (رض) کے پاس دوہی موضوع سخن تھے ۔اسلام کی معاشی پالیسی ۔اور مؤدہ آل محمد علیھم السلام ۔چنانچہ ان ہی دومضامین پر آپ مسلسل لوگوں میں تبلیغ کرتے رہے ۔جس کے نتیجہ میں ہر طرف سے ابوذر کو مصائب نے گھیر ڈال دیا ۔معاویہ کی حکومت کے ہاتھوں بڑی اذیتیں برداشت کرنا پڑیں ۔مگر انھوں نے تمام آلام کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا آپ کے پائے استقلال میں ہرگز لغزش نہ آئی اس پر حکومت نے اپنے متشددانہ رویہ میں زیادتی کرنا شروع کردی ۔اور اعلان عام کروا دیا کہ ابوذر کی مجلس میں کوئی شخص شرکت نہ کرے ۔لیکن لوگ پھر بھی آپ کی صحبت کا شرف پانے آتے حضرت منع فرماتے اس خیال سے کہ کہیں یہ بیچارے حکومت سے مستوجب سزانہ ہوں ۔مگر لوگ آپ کی تقریر یں جوش وشوق سے سنتے ۔معاویہ نے حضرت عثمان کو شکایت ک اور حضرت ابوذر (رض) کو قید کرلیا ۔چنانچہ حضرت عثمان نے انھیں واپس مدینہ بلا لیا او رمعاویہ کویہ خط لکھا ۔

"تیرا خط ملا ۔ابوذر کی بابت جو کچھ لکھا ہے معلوم ہوا۔اجس وقت تیرے پاس یہ حکم پہنچے اسی وقت ابوذر کو ایک بد رفتار اونٹ پر سوار کراکے اور کسی درشت مزاج رہبر کو اس کے ساتھ روانہ کرو جو رات دن اونٹ کو بھگا تا لائے کہ ابوذر (رض) پر ایسی نیند غلبہ کرے جس سے وہ میرا اور تیرادونوں کا ذکر کرنا بھول جائے اسے مدینہ بھیج دے "۔(ابوذر الغفاری ص۲۶۵)

۱۱۳

حضرت عثمان کا خط ملتے ہی معاویہ نے حضرت ابوذر (رض)کو بلا یا اور ان کو گھر تک بھی جانے کی اجازت نہ دی اور تن تنہا پانچ حبشی بد خو اور درشت مزاج غلاموں کے ہمراہ ایک بد رفتار اونٹ کی ننگی پشت پر سوار کرکے روانہ کردیا جناب ابوذر اس وقت ضعیف العمر تھے ۔اور کافی کمزور تھے یہ تکلیف ان کے لئۓ اذیت ناک ثابت ہوئی اس سفر کے دوران آپ کی رانوں کا گوشت چھل چھل کر جدا ہوگیا اس سفر کی صعوبتیں بھی حضرت ابوذر کو حق گوئی سے باز نہ رکھ سکیں چنانچہ آپ راستہ میں جہاں بھی موقعہ ہاتھ لگتا حکومت کی غلط پالیسیوں پر اپنے خیالات کا اظہار فرماتے رہے ۔بیرون شہر دیر مران کے مقام پر لوگوں کا اجتماع ہوا جو آپ کو الوداع کہنے آئے یہاں بعد از نماز باجماعت آپ نے ایک معرکۃ الآراء خطبہ ارشاد فرمایا ۔

خطبہ دیرمران:-

"ایھاالناس"!تم کو ایسی چیز کی وصیت کرتا ہوں جو تمہارے لئے نافع ہو بعد اس کے فرمایا کہ خداوند عالم کا شکر ادا کرو سبھوں نے کہا الحمدللہ پھر آپ نے خدا وحدانیت اور حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی گواہی دی اور سبھوں نے ان کی موافقت کی پھر فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ قیامت میں زندہ ہونا اور بہشت ودوزخ ہے ۔اور جوکچھ حضرت رسول خدا حق تعالی کی طرف سے لائے قرار دیتا ہوں سبھوں نے کہا تم نے جو کچھ کہا اس کے ہم لوگ گواہ ہیں ۔اس کے بعد فرمایا تم میں سے بھی جو کوئی اس اعتقاد پر دنیا سے اٹھے گا اس کو خدا کی رحمت اور کرامت کی بشارت دی

۱۱۴

جائے گی ۔بشرطیکہ گناہگاروں کا معین اور ظالموں کے اعمال کا موید اور ستم گاروں کا یار ومددگار نہ ہوگا ۔اے گروہ مردم ! اپنے نماز روزہ کے ساتھ محض خدا کے لئےغضب وغصہ کرنے کوبھی شامل کرو جبکہ دیکھو کہ زمین پر لوگ خدا کی معصیت کرتے ہیں اور ان چیزوں کے سبب اپنے پیشواؤں کو راضی نہ رکھو جو کہ غضب خدا باعث ہوتے ہیں اور اگر وہ لوگ دین خدا میں ایسی چیزیں ظاہر کریں جن کی حقیقت تم لوگ نہ جانتے ہو تو ان سے کنارہ کش ہوجاؤ ۔اور ان کے عیبوں کو بیان کرو ۔اگر چہ وہ(ظالم)لوگ تم پر عذاب کریں اور اپنی بارگاہ سے نکال دیں او اپنی عطا سے محروم رکھیں اور تم کو شہروں سے خارج کردیں اور اپنی عطا سے محروم رکھیں اور تم کو شہروں سے خارج کردیں تاکہ حق تعالی تم سے راضی اور خوشنود ہو ۔بہ تحقیق کہ حق تعالی سب سے زیادہ جلیل وبلند مرتبہ ہے اور یہ امر سزاوار نہیں کہ مخلوقات کی رضا مندی کے لئے کوئی شخص اس کو غضب میں لائے خدا مجھے اور تمھیں بخش دے۔ اب میں تم کو خدا کے سپرد کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تم پر خدا کا سلام اور اس کی رحمت ہو"(حیات القلوب)

اس خطبہ کا حاظرین پر یہ اثر ہوا کہ لوگوں نے جوش وخروش میں کہا کہ اے ابوذر ! اے مصاحب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق تعالی آپ کو بھی سلامت رکھے اور آپ پر بھی رحمت نازل کرے ۔کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہم آپ کو پھر اپنے شہر لے چلیں اور آپ کے دشمنوں کے مقابلے میں آپ کی حمایت کریں ۔جناب ابوذر نے ان کو تلقین صبر

۱۱۵

فرمائی اور ارشاد کیا کہ اللہ تم پر رحمت کرے اب واپس جاؤ میں تم سے زیادہ بلاؤں میں کرنے والا ہوں تم لوگ ہرگز فکر مندنہ ہونا اور اپنے درمیان اختلاف نہ کرنا ۔

المختص حضرت ابوذر (رض)سفر کی اذیت سے مجروح ،تھکن سے چوربال حال پریشان مدینہ پہنچے اور دربارحکومت میں حاکم وقت حضرت عثمان بن عفان کے روبرو پیش کردیئے گئے ۔حضرت عثمان نے صحابیت کے تمام اعزازات ومراعات کو یک قلم نظر انداز کرتے ہوئے حضرت ابوذر(رض) پر نگاہ غضب اٹھاتے ہوئے آپ کو سخت برا بھلا کہا یہ منظر طبقات ابن سعد سے ملاحظہ فرمائیے ۔

حضرت عثمان :- تو ہی وہ ہے جس نے ایسی حرکات کی ہیں۔

جناب ابوذر(رض):-میں نے تو کچھ نہیں کیا مگر یہ کہ تمھیں نصیحت کی تم نے اس نصیحت کا بر ا مانا اور مجھے اپنے سے دور کردیا ۔پھر میں نے معاویہ کو نصیحت کی اس نے بھی برا مانا اور مجھے نکال دیا۔

عثمان:- تو جھوٹا ہے تیرے دل میں فتنہ کود رہا ہے تو یہ چاہتا ہے کہ اہل شام میرے خلاف برانگیختہ ہوجائیں ۔

ابوذر(رض):-اے عثمان ! اگر تو سنت کا اتباع کرے تو تجھے کوئی بھی کچھ نہ کہہ سکے گا ۔

عثمان:- تجھے اس سے کیا واسطہ میں اتباع کروں یا نہ کروں (اس کے بعد نازیبا جملہ ہے )

ابوذر(رض):- (حضرت ابوذر غضبناک ہوکر بد دعا دیتے ہیں )خدا کی قسم تو مجھ پر اس کے سوا اور کوئی الزام عائد نہیں کرسکتا کہ

۱۱۶

بھلائیوں کا حکم کرتا ہوں اور برائیوں سے روکنے کا پرچار کرتا ہوں ۔

عثمان:- (یہ سن کر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں )اے اہل دربار مجھے مشورہ دو کہ میں اس بڈھے جھوٹے کے ساتھ کیا سلوک کروں ۔اس کو کوڑے لگاؤں یا قید کردوں یا اس کا کام تمام کردوں یا پھر وطن بدر کردوں ۔(اس پر جماعت مسلمین میں اختلاف واشتغال رونما ہوا ۔یہ سنکر حضرت علی علیہ السلام جو اس وقت موجود تھے بولے )

حضرت علی علیہ السلام :-اے عثمان! میں تمھیں مومن آل فرعون کی طرح یہ رائے دیتا ہوں تم ابوذر کو اس کے اپنے حال پر چھوڑ دو۔ اگر یہ (معاذاللہ) جھوٹا ہے تو جھوٹ کا نتیجہ خود پائے گا اور اگر یہ سچا ہے تو اس کا بار تمھاری گردن پر ہوگا ۔خدا اس کی ہدایت نہیں کرتا جو اسراف کرے اور جھوٹا ہو۔

(صاحب طبقات لکھتے ہیں کہ یہ سنکر خلیفہ عثمان اور حضرت علی میں گرما گرمی ہوئی اور بحث میں تلخی وشدت پیدا ہوئی جس کاذکر میں نہیں کرنا چاہتا ۔)

اللہ فقیر ،عثمان غنی :-

بہر حال حضرت علی علیہ السلام کی کوششوں سے حضرت ابوذر (رض) دربار عثمان سے باہر آئے اقتدا کے نشہ میں حاکم کی مدہوشی کا یہ عالم تھا کہ اس کو رسول صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول مبنی بر صدق بھی یاد نہ رہا تھا کہ حضور نے جناب ابوذر (رض) کے لئے ضمانت دی تھی کہ "نیلے آسمان کے نیچے اور روئے زمین کے اوپر ابوذر سے زیادہ سچا کوئی نہیں پیدا ہوگا ۔مگر ابوذر نے بھی مقام غدیر پر مے ولایت کے خم کے خم نوش کر رکھے تھے جس کی مستی کم ہی نہ ہوتی ہے ۔

۱۱۷

جوں جوں تشدد کیا جاتا تھا آپ کا نشہ بڑھتا جاتا تھا اور ان کو مصائب جھیلنے میں سرور محسوس ہوتا تھا چنانچہ ایوان حکومت سے باہر آتے ہی گلی گلی علی علی شروع ہوا ۔مدینہ میں ابھی سرمایہ دارانہ ذہینیت ابتدائی مراحل میں پروان چڑھ رہی تھی لہذا محبت اہل بیت علیھم السلام کی عنوان پر تبلیغی سرگرمیاں زور شور سے شروع کردیں اگر کوئی سیٹھ سامنے آگیا تو اس کو بھی ہاتھ آیاشکار سمجھ کر اسلامی اقتصادی نظام کی تشریحات تعلیم کئے بغیر نہ چھوڑا ۔کوچہ وبازار میں آپ اکثر مشغول تبلیغ رہتے ۔ایک روز حضرت عثمان نے مسجد میں بلوالیا اور پوچھ لیا کہ مجھے تمھاری شکایت ملی ہے کہ تم کہتے ہو کہ عثمان کہتا ہے کہ " خدا فقیر ہے اور میں (عثمان)غنی ہوں "حضرت ابوذر نے جواب دیا کہ میں نے یہ کسی سے نہیں کہا لوگوں نے میری چغلی کھائی ہے ۔حضرت عثمان نے کہاکہ تم اب بڈھے ہوگئے ہو اور تمھارا دماغ کام نہیں کرتا ہے ۔ آپ نے فرمایا میرا دماغ کام کرے یا نہ کرے مگر یہ بات مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

"جب ابو العاص کی اولاد یں تیس تک پہنچ جائیں گی تو وہ خدا کے مال کو اپنی دولت واقبال کا ذریعہ ٹھہرائیں گے ۔خدا کے بندوں کو اپنے خدمتگاروں اور نوکر قرار دیں گے خدا کے دین میں خیانت کریں گے ۔اس کے بعد اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو ان سے آزادی بخشے گا"۔

حضرت ابوذر (رض) کا یہ کہنا بادشاہ وقت کو ناگوار گزرا ۔انھوں نے لوگوں سے پوچھا مگر حاضرین نے لاعلمی کا اظہار کردیا چنانچہ حضرت علی علیہ السلام کو بلوایا گیا چنانچہ انھوں نے فرمایا کہ میں ابوذر کی تکذیب نہیں کرسکتا

۱۱۸

کیوں کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ ابوذر سے زیادہ سچا اس زمین پر کوئی نہیں ہے یہ سنکر لوگوں نے کہا ابوذر سچ کہتے ہیں ۔اس واقعہ کے چند روز بعد عثمان نے حضرت ابوذر کو مدینہ سے نکالنے پر غور کرنا شروع کردیا ۔

دولت کی غلط تقسیم اور طبقاتی طبع آزمائی کے جو مناظر دور عثمانیہ میں نظر آتے ہیں وہ محتاج بیان نہیں ہے تاریخ کے اورراق حضرت عثمان کی کنبہ پروریوں اور ناجائز کرم گستریوں سے بھر پور ہیں لیکن وہ حقائق ہمیں اس کتاب میں نہیں کرنا ہے ہمیں صرف اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ حضرت عثمان نے قومی خزانہ کا منہ اس طرح کھول دیا تھا کہ مسلمانوں میں ایک خاص طبقہ امراء کا پیدا ہوگیا تھا اور ان میں حرص مال اس نہج تک آپہنچی تھی کہ حلال وحرام میں امتیاز ختم ہوتی نظر آرہی تھی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے حضرات کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ اکثر یت کو نان شبینہ کے لئے محتاج پائیں اور خواص کو مال وجواہر میں کھیلتا دیکھیں ۔لہذا اس جماعت مردان حق نے صدائے احتجاج بلند کی اور جناب ابوذر (رض) اس سلسلے میں پیش پیش رہے ۔ابو ذر جب مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کو دیکھتے تو ان کے پاس صرف جو کی سوکھی روٹی نظر آتی لیکن جب مصاحبان حکومت کی بودوباش اور ذخیرہ اندوزی ملاحظہ کرتے تو یہ صورت حال برداشت نہ کرسکتے تھے ۔چنانچہ آپ جمع دولت اور سرمایہ داری کے مخالف تھے ۔ غرباء فقراء نوازی ،محتاج یتیم ومسکین ومجبور وقہور کی ہمدردی واعانت کے کٹر حامی تھے ۔ان ہی خیالات کے باعث عہد حاضر کے بعض افراد نے انھیں کمیونسٹ اوراشتراکی کہنا شروع کردیا حالانکہ حضرت ابو ذر کے پاکیزہ اسلامی اقتصادی نظریہ کو اشتراکیت سے کوئی

۱۱۹

واسطہ نہیں ہے ۔اور یہ مفصل بحث ہم نے اپنی کتاب "صرف ایک راستہ "کے باب معاشیات واقتصادیات میں ہدیہ قار‏ئین کردی ہے ۔ حضرت ابو ذر کا موقف محض یہ تھا اسلامی حکومت کے دائرہ حدود میں ایسا ہرگز نہ ہو کہ امراء حد سے بڑھ جائیں اور غرباء حد سے گر جائیں ۔آپ کا منشاء صرف یہ تھا کہ اسلام اس انداز میں سطح عالم پر ابھرے کہ امراء اور غرباء دونوں میں توازن وعدل قائم رہے ۔معاشرہ پر ہرایک متوازن طبقہ چھایا رہا ہے ۔یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوذر دولت کو چند ہاتھوں سے لے کر زیادہ ہاتھوں میں گردش کناں دیکھنے کے متمنی تھے ۔آپ کو احساس تھا کہ فراوانی دولت اور شدت غربت دونوں گناہوں کی محرک ہوتی ہیں ۔ ایک طرف دولت اسلامیہ منظور نظر لوگوں ،عزیزوں اور اقرباء کو بے دریغ لٹائی جارہی تھی تو دوسری طرف بیت المال کا دروازہ غریبوں ،یتیموں اور مستحقوں کے لئے بالکل بند کردیا گیا تھا ۔خلیفہ کے رشتہ دار جاگیر یں اور محلات بنانے میں مصروف مگر غریب بھوکوں مررہے تھے اس معاشی بحران ہی کے دوران حضرت عثمان نے قرآن جلوادئے یہ جلتی پر تیل ثابت ہوا ۔لہذا یہ بے حرمتی بھی لوگوں کو ناگوار ہوئی ۔چنانچہ حضرت ابوذر کو ایک اور موضوع احتجاج حاصل ہوا چونکہ انھیں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہلے ہی آگاہ دیا تھا کہ "اے ابوذر (رض) تجھے کوئی قتل نہ کرسکے گا "لہذا انھیں ہلاکت کا خوف نہ ہوتا تھا چنانچہ وہ نڈر ہوکر حکومت پر نکتہ چینی کرتے تھے ادھر تبلیغ ابوذر میں شدت ہوئی تو ادھر حکومت نے ان کا منہ بند کرنے کے طریقے دریافت کرنے شروع کردئیے پہلے مردان کی رائے کے مطابق آپ کو مال وزر کے ذریعہ خاموش کرنا چاہا لیکن جب رقم پیش ہوئی تو آپ نے ٹھکراتے ہوئے فرمایا۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180