چار یار

چار  یار22%

چار  یار مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں
صفحے: 180

چار یار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50360 / ڈاؤنلوڈ: 3788
سائز سائز سائز
چار  یار

چار یار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

اس واقعہ سے جہاں جناب ابوذر رضی اللہ عنہ کی بے مثال محبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پتہ چلتا ہے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوذر(رض) کو آیندہ کے احوال سے باخبر کردیاتھا۔

بشارت جنت:-

حضرت ابوذر(رض) کا شمار ان اصحاب مبشرہ میں ہے جنکو اس دنیا میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت دے دی ۔مروی ہے کہ ایک دن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد قبا میں تشریف فرماتھے اور آپ کےگرد بہت سے اصحاب حلقہ باندھے بیٹھے تھے ۔آپ نے فرمایا کہ جو شخص سب سے پہلے اس مسجد کے دروازہ سے داخل مسجد ہوگا وہ اہل بہشت سے ہوگا ۔یہ سنکر چند اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے اٹھ کر باہر چلے گئے تاکہ داخل مسجد ہونے میں سبقت کریں ۔ اصحاب کے اس عمل پر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ اب بہت سے لوگ داخل ہونے میں ایک دوسرے پر سبقت کریں گے اور مسجد میں داخل ہوں گے ان میں سے جو کوئی مجھے "ماہ ذر" کے ختم ہوجانے سے مطلع کرے وہ اہل بہشت سے ہوگا ۔تھوڑی دیر کے بعد وہ لوگ داخل مسجد ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ یہ بتاؤ یہ مہینہ رومی مہینوں میں سے کونسا ہے ۔ان لوگوں میں حضرت ابوذر بھی تھے جو تنہا باہر سے آنے والوں میں صحیح آنے والے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس سوال پر تمام لوگ لاجواب رہے لیکن حضرت ابوذر نے کہا کہ مولا ماہ آذر (چیت)ختم ہوچکا ہے ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے لیکن میں یہ ظاہر کرنے کے لئے تم سے سوال کیا ہے کہ لوگ سمجھ لیں کہ تم اہل بہشت سے ہو ۔

۱۰۱

ابے ابوذر(رض) تم کو میرے اہل بیت علیھم السلام کی دوستی میں حرم سے نکا لا جائے گا ۔تم عالم غربت میں زندگی بسر کروگے اور عالم تنہائی میں دنیا سے اٹھوگے تمہاری تجہیز وتکفین کی وجہ اہل عراق کا ایک گروہ سعادت حاصل کرے گا اور اہل بہشت میں میرے ہمراہ ہوگا ۔

محافظ شیر:-

تفسیر امام حسن العسکری علیہ السلام میں ہے کہ حضرت ابوذر (رض) خاصان خدا اور مقرّبین اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تھے ایک دن خدمت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے پاس ساٹھ گوسفند ہیں جن کی مجھے حفاظت کرنی پڑی ہے مگر میرادل یہ گوارہ نہیں کرتا کہ میرے یہ لمحات صحبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خالی رہیں ۔حضور نے فرمایا ابوذر تم واپس اپنے مقام پر جاکر ان گوسفندوں کا بندوبست کرو۔حکم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ملتے ہی واپس آئے ۔ایک روز مشغول نماز تھے کہ ایک بھیڑیا آگیا دل میں سوچا کہ نماز تمام کرلوں یا اپنے جانوروں کی حفاظت کروں خیال میں فیصلہ کیا ک گوسفند جاتے ہیں تو جاتے رہیں نماز تو پوری کرلو ۔مگر ساتھ ہی شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ اگر بھیڑئیے نے سارے جانور ہلاک کردئیے تو پھر کیا بنے گا مگر فورا ہی جذبہ ایمان بولا کہ خداکی توحید ،محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور علی علیہ السلام کی ولایت جیسی دولت جس کے پاس ہو اس کو اور کیاچاہیئے ۔ گوسفند جاتے ہیں تو جاتے رہیں ۔ نماز کیوں جائے ۔لہذا صمیم قلبی سے نماز میں مشغول رہے ،بھیڑیا آیا اور اس نے پہلا حملہ کیا کہ ایک بچہ لے چلا ۔ابھی وہ چند قدم ہی گیا ہوگا کہ ایک شیر نمودار ہوا اور اس نے بھیڑئیے کو ہلاک کردیا اور گوسفند کے بچے کو اس سے چھین کر گلہ میں پہنچادیا ۔ ت=پھرامر ربی سےگویا ہوا ۔

"ابے ابوذر(رض) !تم اپنی نماز میں مشغول رہو ۔حق تعالی نے مجھے

۱۰۲

تمھارے گوسفندوں پر مؤکل کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ جب تک تم نماز سے فارغ نہ ہوجاؤ میں تمہارے گوسفندوں کی حفاظت کرتا رہوں "۔

پس جناب ابوذر(رض) نے کمال آداب وشرائط سے نماز قائم کی جب نماز سے فراغت پائی تو شیر حضرت ابوذر(رض) کے قریب آیا اور اس نے پیغام دیا کہ اے ابوذر (رض) بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوکر اطلاع کردو کہ اللہ نے ان کے صحابی کے لئے اس کے گوسفندوں کی حفاظت پر شیر کو مقرر کردیا ہے ۔جناب ابوذر خدمت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں آئے اور یہ واقعہ سنایا حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ سنکر ارشاد فرمایا کہ اے ابوذر(رض) تم بالکل سچ کہتے ہو ۔میں (محمد)صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،علی علیہ السلام،فاطمہ سلام اللہ علیہا ، حسن اور حسین علیھما السلام تمھاری تصدیق کرتے ہیں اس کے بعد ابوذر (رض) واپس ہوئے ۔

اس واقعہ کے بعد کچھ کج عقیدہ اور ناقص الایمان لوگوں کو اعتبار نہ آیا آپس میں چہ مے گوئیاں شروع کردیں کچھ نے امتحان کی ٹھان لی ۔ایک دن چپکے سے اس جگہ آپہنچے جہاں ابوذر(رض) اپنے جانوروں کو چرا رہے تھے چنانچہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ نماز کے وقت شیر ان گوسفندوں کی حفاظت کرتا تھا اور اگر کوئی جانور گلہ سے جدا ہوتا تو وہ شیر اسے اندر داخل کرلیتا جب حضرت ابوذر(رض) نماز ختم کرچکے تو شیر نے مخاطب ہوکر کہا کہ اپنے جانور پورے کرلو میں نے ان کی حفاظت میں کوتاہی نہیں کی ہے ۔اس کے بعد وہ شیر ان چھپے ہوئے منافقوں سے متوجہ ہو کر بولا ۔

"اے گروہ منافقین! کیاتم اس امر سے انکار کرتے ہو کہ خدا نے مجھے اس شخص کے گوسفندوں کے لئے مؤکل فرمایا ہے جو حضرت

۱۰۳

محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل علیھم السلام کا دوست ہے اور تقرب خداوندی کے لئے ان ہی بزرگوں کا وسیلہ ڈھونڈتا ہے میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس نے محمد اور آل محمد علیھم السلام کو گرامی کیا ہے کہ خداوند قدیر نے مجھے ابوذر کا تابع فرمان اور مطیع قرار دیا ہے ۔خبرداررہو اگر ابوذر(رض) اس وقت مجھے حکم دیں کہ میں تم سب کو ہلاک کردوں تو میں بالتحقیق تم لوگوں کو بلا تاخیر پھاڑ کھاؤں "

یہ منظر دیکھ کر ان لوگوں کی جان حلق میں اٹک گئی مگر شیر غائب ہوگیا اور یہ اپنا سامنہ لے کر واپس ہوئے جب پھر ابوذر (رض) بارگاہ رسول میں حاضر ہوئے تو سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

"اے ابوذر (رض)! تم نے اپنے خالق کی اطاعت کے سبب یہ شرف حاصل کرلیا ہے کہ جنگل کے جانور تک تمھارے مطیع کردئیے گئے ہیں ۔ بے شک تم نے اپنے خالق کی اطاعت کے سبب یہ شرف حاصل کرلیا ہے کہ جنگل کے جانور تک تمھارے مطیع کردئیے گئے ہیں ۔بے شک تم ان بندوں میں بڑا مقام رکھتے ہو جن کی تعریف قرآن مجید میں نماز کے قائم رکھنے کے متعلق کی گئی ہے "۔(حیات القلوب )

اسلامی اخلاق وعادات:-

عقل کو اسلام سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے ۔حضرت ابوذر چونکہ مردعاقل تھے لہذا ان کی غیر اسلامی زندگی میں بھی اسلام کی مخالفت نظر نہیں آئی جب وہ پرچم اسلام تلے آگئے تو ایسا معلوم ہوا کہ ما لا کا ایک کھویا ہو ا موتی دوبارہ زینت بننے کے لئے مل گیا ۔تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابو ذر(رض) اسلام لانے کے بعد نکھرتے چلے گئے ہیں ۔ پاکیزگی نفس ،خالص عقیدت،مخلص ایمان ،یقین محکم اور حسن وکمال سیرت کاجو مظاہرہ اس صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے مطالعہ سے ہوتا ہے وہ ممتاز حیثیت رکھتا ہے آپ کی سیرت بابصیرت ہرطبقہ کے لئے مشعل راہ ہے ظہور اسلام کےبعد

۱۰۴

انھوں نے لوگوں کو مواعظ ونصائح سے سیراب فرمایا ۔اخوت ومحبت اور حقیقی مساوات کا سبق سکھایا ۔اطاعت خدا ورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اولی الامر کا راستہ واضح فرمایا ۔اور عقل سلیم کے فلسفہ کو مبرہن طریقوں سے پیش کیا ۔ زہد کا یہ عالم تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا

شبیہ عیسی (ع):-

"ابو ذر (رض) میری امت میں حضرت عیسی علیہ السلام کی زہد میں مثال ہیں " اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ "جو چاہے کہ عیسی علیہ السلام کو زہد وتواضع کو دیکھتے تو وہ ابوذر (رض) کی طرف نگاہ کرے"(ابوذر غفاری ص ۵۷)۔

حضرت ابوذر (رض)فرمایا کرتے تھے کہ دنیا سے سخت بیزار ہوں اور دوٹکڑے روٹی اوردو ٹکڑے کپڑا کے علاوہ کچھ نہیں جانتا روٹی کے ٹکڑے صبح وشام کھانے کے لئے اور کپڑے کے ٹکڑے گردن اور کمر پر باندھنے کے لئے یہ بات آپ (رض) کے زہد کی منزل روشناس کراتی ہے ۔

مورخین اور محدثین کو اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ حضرت ابوذر علم کے عظیم مدارج پر فائز تھے ۔آپ فرماتے ہیں کہ رسول علیمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میرا سینہ علم سےبھرا ہے ۔آپ کہتے ہیں کہ اگر آسمان میں کوئی فرشتہ بھی حرکت کرتا تھا تو اس کے متعلق حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کچھ معلومات حاصل کرلیتا تھا ۔

سید مناظر گیلانی لکھتے ہیں "حیدر کرار علیہ السلام ،افضی الصحابہ وباب العلم کی اس شہادت کو پڑو اور خود غور کرو کہ اگر انھوں نے ایسا فرمایا تو کیا غلط فرمایا ۔فرماتے ہیں ابوذر(رض) سخت حریص اور لالچی تھے ۔لا لچی دین کی پیروی

۱۰۵

کرنے میں اور اس کی باتوں پر عمل کرنے میں اور حریص علم حاصل کرنے میں تھے ۔بہت زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کرتے تھے ۔پھر انھیں کبھی جواب دیا گیا اور کبھی نہیں اس پر بھی ان کا پیمانہ بھر حتی کہ لبریز ہوگیا"

مولا علی باب مدینۃ العلم کی یہ گواہی حضرت ابوذر(رض) کے تبحر علمی کے لئے بہت کافی ہے اور جناب ابوذر(رض) کبھی کبھار جوش میں آکر کہہ جایا کرتے تھے جیسا کہ ابن سعد نے طبقات میں لکھا ۔

"ہم رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے اس وقت بچھڑے ہیں کہ فضاء آسمانی میں بازوہلا کراڑنے والا کوئی پرندہ ایسا نہیں رہ گیا تھا کہ ہمیں اس کے متعلق کوئی خاص بات معلوم نہ ہوئی ہو۔"

حضرت ابوذر(رض)اول درجہ کے محدث تھے فصاحت وبلاغت پر دسترس کامل رکھتے تھے متقی مسلمان کا صحیح نمونہ تھے ۔اسی لیئے لوگوں کے قبلہ بن گئے تھے ۔ایک روز مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور احادیث نبوی کی تعلیم دے تھے کہ ایک شخص نے کہا "کاش ! میں نبی کی زیارت کرتا "ابوذر(رض) نے فرمایا حدیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے کہ میری امت میں سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور کہیں گے کاش! ہم رسول اللہ کو دیکھتے چاہے ان کی اولاد اور مال چھن جائے ۔"

حضرت ابوذر اخلاق کے اعلی منازل ومدارج پر فائز تھے ۔ آپ پر صحبت پیغمبر کا نمایاں رنگ چڑھ چکا تھا اسوہ حسنہ کا جلوہ نظر آتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کردار میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس پر انگشت اعتراض اٹھائی جا سکے ۔آپ کی پوری

۱۰۶

زندگی اخلاق کی بے نظریر مثال ہے ۔حضرت ابوذر تعلیم اخلاق کے مبلغ تھے اور فرماتے تھے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سلسلہ میں سات باتوں کی ہدایت فرمائی ہے ۔

۱:-فقراء ومساکین کو دوست رکھنا اور انھیں اپنے قریب رکھنے کی کوشش کرنا ۔

۲:- اپنے حالات کو سنوارنے کے لئے اپنے سے کم حیثیت کے لوگوں پر نظر رکھنا اور اپنے سے بڑی حیثیت کے لوگوں کی طرف توجہ نہ کرنا ۔

۳:-کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا اور قناعت کو اپنا شعار قراردینا ۔

۴:- صلہ رحم کرنا یعنی اپنے اقرباء کے ساتھ پوری ہمدری کرنا ۔اور ان کے آڑے وقت ان کے کام آنا ۔

۵:- حق بات کہنے میں کوئی باک نہ کرنا چاہئیے ساری دنیا دشمن ہوجائے ۔

۶:- خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا ۔

۷:- ہمیشہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ کاورد کرتے رہنا ۔(مسند احمد بن حنبل)

حضرت ابوذر کا بیان ہے کہ اس کے بعد حضور نے میرے سینہ پر ہاتھ مارکر فرمایا ۔

"اے ابوذر !تد بیر سے بہتر کوئی عقل(سائنس ) نہیں اور اپنے نفس پر قابو پانے سے بہتر کوئی پرہیز گاری نہیں اور حسن اخلاق سے بہتر دنیا میں کوئی حسن نہیں "

جب ہم حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کی حیات پاک کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے آپ اکثر مساکین وفقراء کو سینے سے لگائے رہتے تھے ۔آپ ان خوش نصیب صحابہ رسول میں سے تھے جن کے رگ وریشہ میں بوئے اسوہ

۱۰۷

حسنہ سمائی ہوئی تھی ۔آپ فرمایا کرتے تھے مجھےمیرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حکم ہے کہ جو تم کھاتے ہو وہی اپنے غلاموں اوراپنی لونڈیوں کو کھلاؤ ۔اور جو خود پہنو وہی ان کو بھی پہناؤ ۔چنانچہ آپ (رض) نے اس حکم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کےتعمیل میں کوئی کوتاہی نہ برتی ۔ایک مرتبہ کاذکر ہے آپ اپنے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے راستہ میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی اس نے دیکھا کہ جس طرح کالباس حضرت ابوذر(رض) نے زیب تن فرمایا ہے وہی لباس ان کے غلام نے بھی پہن رکھا ہے وہ شخص معترض ہوا۔ آقا وغلام کا ایک لباس ہے آپ نے جواب دیا کہ مجھے میرے مرشد ونبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہی امر ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ میں خلاف حکم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود کچھ پہنوں اور اپنے غلام کو کچھ اور پہناؤں ۔

آپ کا طرز بود وباش اور ظاہری وضع قظع بالکل سادہ تھی لباس وپوشاک میں زرق برق ملبوسات پسند نہ کرتے تھے ۔طہارت کا خیال ضرور فرمایا کرتے تھے مگر قطعا پوشاک کی پرواہ نہ کرتے تھے اکثر بال الجھے رہا کرتے تھے ۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ احباب نے زبر دستی نہلا دھلا کر گنگھی وغیرہ کی آ پ کا بستر ایک معمولی چٹائی تھا ۔ الغرض آپ کی زندگی کا معیار رہن سہن بالکل ایک عام شریف النفس انسان کی طرح تھا ۔

حضرت ابوذر (رض) باوجودیکہ سادہ طرز زندگی پر عامل تھے مگر وہ رہبانیت کے قائل ہرگز نہ تھے ۔آپ نے سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی میں شادی بھی فرمائی آپ نے تمام حقوق زوجیت کا لحاظ کما حقہ رکھا ۔آپ کی زوجہ کا رنگ سیاہی مائل تھا اور لوگ کبھی کبھار یہ طعنہ بھی دیتے تھے مگر آپ (رض) نے اسی بیوی کو اپنا ملکہ خانہ قرار دیا ۔آپ اپنی بیوی کا

۱۰۸

کافی خیال رکھتے تھے ۔اسی طرح مہمان نوازی اور تواضع داری حضرت ابوذر کی نمایاں صفات تھیں ۔

صدق ابوذر:-

جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے اور سچائی وہ صفت اعلی ہے جس پر بڑی سے بڑی شخصیت بھی ثابت نہیں رہی لیکن جناب ابوذر رحمۃ اللہ علیہ کے لئے خصوصی صفت کے واسطے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نص فرمائی ۔چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صادق نے صدق ابوذر کی ضمانت یوں ارشاد فرمائی ۔

"سایہ آسمان تلے اور زمین کے فرش کے اوپر ابوذر سے زیادہ سچ بولنے والا کوئی نہیں "(ازالۃ الخفاء جلد ۱ ص ۲۸۲ شاہ ولی اللہ دہلوی)

حضرت ابوذر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معتمد اصحاب میں تھے چنانچہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غزوہ ذات الرقاع میں آپ کو مدینہ منورہ میں قائم مقام فرمایا ۔اسی طرح حضرت ابوذر (رض) کو ردیف النبی (کسی سواوی پر پیچھے بیٹھنا اور آگے سے کمر تھام کر بیٹھنا۔) ہونے کا بھی شرف اکثر مرتبہ نصیب ہوا ۔اسی طرح حضرت ابوذر (رض) پر حضور کا پورا پورا اعتماد تھا کہ کئی راز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوذر (رض) کو بتا دئیے تھے ۔حضرت ابوذر ان خوش قسمت اصحاب میں ہیں جن کو دفن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں شرکت کا شرف حاصل ہوا ۔

رحلت پیغمبر کےبعد حضرت ابوذر (رض) کبھی حکومتی محلوں کو وقعت نہ دی بلکہ ہمیشہ خانہ مرکز ہدایت ومعدن نبوت اہل بیت اطہار کا طوف کرتے رہے ۔اسی ناکردہ گناہ کی سزا میں عموما ضیق یافتہ رہتے ۔

۱۰۹

جب سقیفہ کی سازش کاظہور ہوا اور مسلمانوں میں دھینگا مشتی چلی تو اس شیر دل بزرگ نے مسجد النبی میں ایک دلیرانہ تقریر فرمائی ۔

"اے گروہ قریش ! تم کس غفلت میں پڑے ہو؟ تم نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قرابت کی یکسر نظر انداز کردیا ۔خدا کی قسم عرب کی ایک جماعت مرتد ہوگئی ہے اور دین میں شکوک کے رخنے ڈالنے دیئے ہیں ۔ سنو! امر خلافت اہل بیت کا حق ہے ۔یہ جھگڑا فساد اچھا نہیں ہے ۔تمہیں کیا ہوگیا ہے ۔اہل کو نا اہل قرار دیتے ہو اور نا اہل کو سرپر اٹھاتے ہو۔ خدا کی قسم تم سب کو معلوم ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بار بار فرمایا ہے کہ خلافت وامارت میرے بعد علی (ع) کے لئے پھر حسن اور حسین علیھما السلام پھرمیری پاک اولاد اس کی مالک ہوگی ۔تم نے قول رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم او رخدا کے حکم کو نظر انداز کردیا تم اس عہد اور حکم کو بھول گئے جو تم پر عائد کیاگیا تھا تم نے فانی دنیا کی اطاعت کرلی اور آخرت کو فروخت کردیا جو باقی رہنے والی ہے اور جس میں جوان بوڑھے نہ ہونگے اور جس کی نعمتیں زائل نہ ہوں گی جس کے رہنے والوں پر رنج وغم طاری نہ ہوگا ۔جس کے مکینوں پر ملک الموت کا زور نہ ہوگا ۔ ایسی قیمتی چیز کو تم نے فانی دنیا کے عوض بیچ دیا یہ تو تم لوگوں نے ایسا ہی کیا جس طرح پہلی امتوں نے کیا ۔انھوں نے یہ کیا تھا کہ جب ان کا نبی انتقال کر گیا تو انھوں نے بیعت توڑ دی اور رجعت قہقری کرگئے ۔انھوں نے معاہدے ختم کردیئے اور احکام بدل دیئے ۔اور دین کو مسخ کردیا ۔ تم نے ان سے فسادات کا پورا ثبوت دیا ۔اے گروہ قریش ! تم بہت جلد اپنی کرتوت کا بدلا

۱۱۰

پاؤگے اور تمھیں اپنی بدکاری کا نتیجہ مل جائے گا ۔وہ چیز تمھارے سامنے آجائے گی جو تم نے اپنے کردار بھیج دی ہے ۔خبر دارہو! جو بھی ہوگا درست ہوگا کیونکہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا "(ابوذر الغفاری ص۱۱۳)

یہ تقریر اس موقعہ پر کی گئی ہے جب حکومت کی تلوار سروں پر لٹک رہی تھی اور لوگوں کی زبانیں بند کرادی گئی تھیں ایسے خطرناک حالات میں صدیق امت حضرت ابوذر غفاری کا یہ عظیم الشان خطبہ ان کی بے مثال جراءت وحق گوئی کاآئینہ دار ہے ۔حضرت ابوذر کے مقدّر کا ستارہ اس قدر روشن تھا کہ خاندان ر سول میں ان کی ہراہم موقعہ پر ضرورت محسوس کی جاتی تھی چنانچہ جب سیدہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کا وصال ہوا تو غسل سے فراغت پانے کے بعد حضرت امیر علیہ السلام نے امام حسن کو حضرت ابوذرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بلا نے بھیجا چنانچہ آپ تشریف لائے اور صدیقہ العالمین کی نماز جنازہ میں اس صدیق امت نے شرکت کا شرف پایا ۔حضرت ابوذر کے لئے طبعا یہ مشکل تھا کہ حق گوئی سے زبان بند رکھیں چنانچہ وہ دور حضرت ابوبکر میں اکثر آل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت میں تقریر فرماتے رہتے اور روضہ اقدس کی مجاورت میں رہتے باوجود یکہ ان کی سرگرمیاں حکومت وقت کو گوارہ نہ تھیں مگر انھوں نے مصلحت کے تحت اپنا رویہ بزم رکھا البتہ خفیہ طور آپ کو مجنون ومجذوب مشہور کرنے کی کوشش کی تاکہ لوگ ان کی باتوں کو وقعت نہ دیں ۔ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حیات طیّبہ میں حضرت ابوذر کوایک نصیحت فرمادی تھی جس کی صحیح

۱۱۱

مصلحت اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں کہ "جب کوہ سلع تک شہر کی آبادی بڑھ جائے تو اے ابوذر تم شام کی طرف چلے جانا "۔

چنانچہ جب حضرت عمر کے زمانہ میں فتوحات کا اضافہ ہوا تو اس حکم رسول کی تعمیل میں حضرت ابوذر نے شام کی طرف کوچ فرمایا اور دس سال کا عرصہ مدینہ سے باہر گزار ا۔جب حضرت عثمان حاکم ہوئے تو پھر آپ واپس مدینہ آگئے ۔حضرت عثمان کے دور حکومت میں بنی امیہ نے قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کردیا جناب ابوذر کو حکومت کی اس دھاندلی سے اختلاف ہوا ۔لہذا انھوں نے حکومت کی اس پالیسی پر کڑی نکتہ چینی کی پس حضرت عثمان نے ان پر سخت پابندیاں عائد کردیں ۔لیکن ان پابندیوں سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے لہذا فیصلہ کیاگیا کہ آپ کو جلا وطن کردیا جائے پس ان کو زبر دستی شام بھیج دیاگیا ۔شام میں آکر حضرت ابوذر (رض)کو معاویہ سے واسطہ پڑا ۔یعنی آسمان سے گرا کجھور میں اٹکا ۔ابوذر کے وعظ معاویہ کے لئے دردسربن گئے ۔لہذا اس نے ابوذر (رض)کو قتل کی دہمکی دی ۔جب جناب ابوذر کویہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا ۔

"امیّہ کی اولاد مجھے فقر و قتل کی دہمکی دیتی ہے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ فقیری مجھے تونگری سے زیادہ مر‏غوب ہے اور زمین کے اندر ہونا مجھے زمین کے باہر ہونے سے زیادہ پسند ہے ۔نہ میں قتل کی دہمکی سے مرعوب ہوتا ہوں اور نہ مرنے سے ڈرتا ہوں "۔

(ابوذر الغفاری ص ۱۲۲)

چنانچہ حضرت ابوذر حقیقی اسلامی نظام اقتصادیات کاپرچار

۱۱۲

کرتے رہے ۔معاویہ نے عاجز آکر حضرت ابوذر (رض) کو خریدنے کی کوشش کی اور تین سودینار سرخ کی ایک تھیلی ایک ملازم کے ہاتھ روانہ کی مگر حضرت نے اسے ٹھکرادیا ۔حضرت ابوذر (رض) کے پاس دوہی موضوع سخن تھے ۔اسلام کی معاشی پالیسی ۔اور مؤدہ آل محمد علیھم السلام ۔چنانچہ ان ہی دومضامین پر آپ مسلسل لوگوں میں تبلیغ کرتے رہے ۔جس کے نتیجہ میں ہر طرف سے ابوذر کو مصائب نے گھیر ڈال دیا ۔معاویہ کی حکومت کے ہاتھوں بڑی اذیتیں برداشت کرنا پڑیں ۔مگر انھوں نے تمام آلام کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا آپ کے پائے استقلال میں ہرگز لغزش نہ آئی اس پر حکومت نے اپنے متشددانہ رویہ میں زیادتی کرنا شروع کردی ۔اور اعلان عام کروا دیا کہ ابوذر کی مجلس میں کوئی شخص شرکت نہ کرے ۔لیکن لوگ پھر بھی آپ کی صحبت کا شرف پانے آتے حضرت منع فرماتے اس خیال سے کہ کہیں یہ بیچارے حکومت سے مستوجب سزانہ ہوں ۔مگر لوگ آپ کی تقریر یں جوش وشوق سے سنتے ۔معاویہ نے حضرت عثمان کو شکایت ک اور حضرت ابوذر (رض) کو قید کرلیا ۔چنانچہ حضرت عثمان نے انھیں واپس مدینہ بلا لیا او رمعاویہ کویہ خط لکھا ۔

"تیرا خط ملا ۔ابوذر کی بابت جو کچھ لکھا ہے معلوم ہوا۔اجس وقت تیرے پاس یہ حکم پہنچے اسی وقت ابوذر کو ایک بد رفتار اونٹ پر سوار کراکے اور کسی درشت مزاج رہبر کو اس کے ساتھ روانہ کرو جو رات دن اونٹ کو بھگا تا لائے کہ ابوذر (رض) پر ایسی نیند غلبہ کرے جس سے وہ میرا اور تیرادونوں کا ذکر کرنا بھول جائے اسے مدینہ بھیج دے "۔(ابوذر الغفاری ص۲۶۵)

۱۱۳

حضرت عثمان کا خط ملتے ہی معاویہ نے حضرت ابوذر (رض)کو بلا یا اور ان کو گھر تک بھی جانے کی اجازت نہ دی اور تن تنہا پانچ حبشی بد خو اور درشت مزاج غلاموں کے ہمراہ ایک بد رفتار اونٹ کی ننگی پشت پر سوار کرکے روانہ کردیا جناب ابوذر اس وقت ضعیف العمر تھے ۔اور کافی کمزور تھے یہ تکلیف ان کے لئۓ اذیت ناک ثابت ہوئی اس سفر کے دوران آپ کی رانوں کا گوشت چھل چھل کر جدا ہوگیا اس سفر کی صعوبتیں بھی حضرت ابوذر کو حق گوئی سے باز نہ رکھ سکیں چنانچہ آپ راستہ میں جہاں بھی موقعہ ہاتھ لگتا حکومت کی غلط پالیسیوں پر اپنے خیالات کا اظہار فرماتے رہے ۔بیرون شہر دیر مران کے مقام پر لوگوں کا اجتماع ہوا جو آپ کو الوداع کہنے آئے یہاں بعد از نماز باجماعت آپ نے ایک معرکۃ الآراء خطبہ ارشاد فرمایا ۔

خطبہ دیرمران:-

"ایھاالناس"!تم کو ایسی چیز کی وصیت کرتا ہوں جو تمہارے لئے نافع ہو بعد اس کے فرمایا کہ خداوند عالم کا شکر ادا کرو سبھوں نے کہا الحمدللہ پھر آپ نے خدا وحدانیت اور حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی گواہی دی اور سبھوں نے ان کی موافقت کی پھر فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ قیامت میں زندہ ہونا اور بہشت ودوزخ ہے ۔اور جوکچھ حضرت رسول خدا حق تعالی کی طرف سے لائے قرار دیتا ہوں سبھوں نے کہا تم نے جو کچھ کہا اس کے ہم لوگ گواہ ہیں ۔اس کے بعد فرمایا تم میں سے بھی جو کوئی اس اعتقاد پر دنیا سے اٹھے گا اس کو خدا کی رحمت اور کرامت کی بشارت دی

۱۱۴

جائے گی ۔بشرطیکہ گناہگاروں کا معین اور ظالموں کے اعمال کا موید اور ستم گاروں کا یار ومددگار نہ ہوگا ۔اے گروہ مردم ! اپنے نماز روزہ کے ساتھ محض خدا کے لئےغضب وغصہ کرنے کوبھی شامل کرو جبکہ دیکھو کہ زمین پر لوگ خدا کی معصیت کرتے ہیں اور ان چیزوں کے سبب اپنے پیشواؤں کو راضی نہ رکھو جو کہ غضب خدا باعث ہوتے ہیں اور اگر وہ لوگ دین خدا میں ایسی چیزیں ظاہر کریں جن کی حقیقت تم لوگ نہ جانتے ہو تو ان سے کنارہ کش ہوجاؤ ۔اور ان کے عیبوں کو بیان کرو ۔اگر چہ وہ(ظالم)لوگ تم پر عذاب کریں اور اپنی بارگاہ سے نکال دیں او اپنی عطا سے محروم رکھیں اور تم کو شہروں سے خارج کردیں اور اپنی عطا سے محروم رکھیں اور تم کو شہروں سے خارج کردیں تاکہ حق تعالی تم سے راضی اور خوشنود ہو ۔بہ تحقیق کہ حق تعالی سب سے زیادہ جلیل وبلند مرتبہ ہے اور یہ امر سزاوار نہیں کہ مخلوقات کی رضا مندی کے لئے کوئی شخص اس کو غضب میں لائے خدا مجھے اور تمھیں بخش دے۔ اب میں تم کو خدا کے سپرد کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تم پر خدا کا سلام اور اس کی رحمت ہو"(حیات القلوب)

اس خطبہ کا حاظرین پر یہ اثر ہوا کہ لوگوں نے جوش وخروش میں کہا کہ اے ابوذر ! اے مصاحب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق تعالی آپ کو بھی سلامت رکھے اور آپ پر بھی رحمت نازل کرے ۔کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہم آپ کو پھر اپنے شہر لے چلیں اور آپ کے دشمنوں کے مقابلے میں آپ کی حمایت کریں ۔جناب ابوذر نے ان کو تلقین صبر

۱۱۵

فرمائی اور ارشاد کیا کہ اللہ تم پر رحمت کرے اب واپس جاؤ میں تم سے زیادہ بلاؤں میں کرنے والا ہوں تم لوگ ہرگز فکر مندنہ ہونا اور اپنے درمیان اختلاف نہ کرنا ۔

المختص حضرت ابوذر (رض)سفر کی اذیت سے مجروح ،تھکن سے چوربال حال پریشان مدینہ پہنچے اور دربارحکومت میں حاکم وقت حضرت عثمان بن عفان کے روبرو پیش کردیئے گئے ۔حضرت عثمان نے صحابیت کے تمام اعزازات ومراعات کو یک قلم نظر انداز کرتے ہوئے حضرت ابوذر(رض) پر نگاہ غضب اٹھاتے ہوئے آپ کو سخت برا بھلا کہا یہ منظر طبقات ابن سعد سے ملاحظہ فرمائیے ۔

حضرت عثمان :- تو ہی وہ ہے جس نے ایسی حرکات کی ہیں۔

جناب ابوذر(رض):-میں نے تو کچھ نہیں کیا مگر یہ کہ تمھیں نصیحت کی تم نے اس نصیحت کا بر ا مانا اور مجھے اپنے سے دور کردیا ۔پھر میں نے معاویہ کو نصیحت کی اس نے بھی برا مانا اور مجھے نکال دیا۔

عثمان:- تو جھوٹا ہے تیرے دل میں فتنہ کود رہا ہے تو یہ چاہتا ہے کہ اہل شام میرے خلاف برانگیختہ ہوجائیں ۔

ابوذر(رض):-اے عثمان ! اگر تو سنت کا اتباع کرے تو تجھے کوئی بھی کچھ نہ کہہ سکے گا ۔

عثمان:- تجھے اس سے کیا واسطہ میں اتباع کروں یا نہ کروں (اس کے بعد نازیبا جملہ ہے )

ابوذر(رض):- (حضرت ابوذر غضبناک ہوکر بد دعا دیتے ہیں )خدا کی قسم تو مجھ پر اس کے سوا اور کوئی الزام عائد نہیں کرسکتا کہ

۱۱۶

بھلائیوں کا حکم کرتا ہوں اور برائیوں سے روکنے کا پرچار کرتا ہوں ۔

عثمان:- (یہ سن کر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں )اے اہل دربار مجھے مشورہ دو کہ میں اس بڈھے جھوٹے کے ساتھ کیا سلوک کروں ۔اس کو کوڑے لگاؤں یا قید کردوں یا اس کا کام تمام کردوں یا پھر وطن بدر کردوں ۔(اس پر جماعت مسلمین میں اختلاف واشتغال رونما ہوا ۔یہ سنکر حضرت علی علیہ السلام جو اس وقت موجود تھے بولے )

حضرت علی علیہ السلام :-اے عثمان! میں تمھیں مومن آل فرعون کی طرح یہ رائے دیتا ہوں تم ابوذر کو اس کے اپنے حال پر چھوڑ دو۔ اگر یہ (معاذاللہ) جھوٹا ہے تو جھوٹ کا نتیجہ خود پائے گا اور اگر یہ سچا ہے تو اس کا بار تمھاری گردن پر ہوگا ۔خدا اس کی ہدایت نہیں کرتا جو اسراف کرے اور جھوٹا ہو۔

(صاحب طبقات لکھتے ہیں کہ یہ سنکر خلیفہ عثمان اور حضرت علی میں گرما گرمی ہوئی اور بحث میں تلخی وشدت پیدا ہوئی جس کاذکر میں نہیں کرنا چاہتا ۔)

اللہ فقیر ،عثمان غنی :-

بہر حال حضرت علی علیہ السلام کی کوششوں سے حضرت ابوذر (رض) دربار عثمان سے باہر آئے اقتدا کے نشہ میں حاکم کی مدہوشی کا یہ عالم تھا کہ اس کو رسول صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول مبنی بر صدق بھی یاد نہ رہا تھا کہ حضور نے جناب ابوذر (رض) کے لئے ضمانت دی تھی کہ "نیلے آسمان کے نیچے اور روئے زمین کے اوپر ابوذر سے زیادہ سچا کوئی نہیں پیدا ہوگا ۔مگر ابوذر نے بھی مقام غدیر پر مے ولایت کے خم کے خم نوش کر رکھے تھے جس کی مستی کم ہی نہ ہوتی ہے ۔

۱۱۷

جوں جوں تشدد کیا جاتا تھا آپ کا نشہ بڑھتا جاتا تھا اور ان کو مصائب جھیلنے میں سرور محسوس ہوتا تھا چنانچہ ایوان حکومت سے باہر آتے ہی گلی گلی علی علی شروع ہوا ۔مدینہ میں ابھی سرمایہ دارانہ ذہینیت ابتدائی مراحل میں پروان چڑھ رہی تھی لہذا محبت اہل بیت علیھم السلام کی عنوان پر تبلیغی سرگرمیاں زور شور سے شروع کردیں اگر کوئی سیٹھ سامنے آگیا تو اس کو بھی ہاتھ آیاشکار سمجھ کر اسلامی اقتصادی نظام کی تشریحات تعلیم کئے بغیر نہ چھوڑا ۔کوچہ وبازار میں آپ اکثر مشغول تبلیغ رہتے ۔ایک روز حضرت عثمان نے مسجد میں بلوالیا اور پوچھ لیا کہ مجھے تمھاری شکایت ملی ہے کہ تم کہتے ہو کہ عثمان کہتا ہے کہ " خدا فقیر ہے اور میں (عثمان)غنی ہوں "حضرت ابوذر نے جواب دیا کہ میں نے یہ کسی سے نہیں کہا لوگوں نے میری چغلی کھائی ہے ۔حضرت عثمان نے کہاکہ تم اب بڈھے ہوگئے ہو اور تمھارا دماغ کام نہیں کرتا ہے ۔ آپ نے فرمایا میرا دماغ کام کرے یا نہ کرے مگر یہ بات مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

"جب ابو العاص کی اولاد یں تیس تک پہنچ جائیں گی تو وہ خدا کے مال کو اپنی دولت واقبال کا ذریعہ ٹھہرائیں گے ۔خدا کے بندوں کو اپنے خدمتگاروں اور نوکر قرار دیں گے خدا کے دین میں خیانت کریں گے ۔اس کے بعد اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو ان سے آزادی بخشے گا"۔

حضرت ابوذر (رض) کا یہ کہنا بادشاہ وقت کو ناگوار گزرا ۔انھوں نے لوگوں سے پوچھا مگر حاضرین نے لاعلمی کا اظہار کردیا چنانچہ حضرت علی علیہ السلام کو بلوایا گیا چنانچہ انھوں نے فرمایا کہ میں ابوذر کی تکذیب نہیں کرسکتا

۱۱۸

کیوں کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ ابوذر سے زیادہ سچا اس زمین پر کوئی نہیں ہے یہ سنکر لوگوں نے کہا ابوذر سچ کہتے ہیں ۔اس واقعہ کے چند روز بعد عثمان نے حضرت ابوذر کو مدینہ سے نکالنے پر غور کرنا شروع کردیا ۔

دولت کی غلط تقسیم اور طبقاتی طبع آزمائی کے جو مناظر دور عثمانیہ میں نظر آتے ہیں وہ محتاج بیان نہیں ہے تاریخ کے اورراق حضرت عثمان کی کنبہ پروریوں اور ناجائز کرم گستریوں سے بھر پور ہیں لیکن وہ حقائق ہمیں اس کتاب میں نہیں کرنا ہے ہمیں صرف اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ حضرت عثمان نے قومی خزانہ کا منہ اس طرح کھول دیا تھا کہ مسلمانوں میں ایک خاص طبقہ امراء کا پیدا ہوگیا تھا اور ان میں حرص مال اس نہج تک آپہنچی تھی کہ حلال وحرام میں امتیاز ختم ہوتی نظر آرہی تھی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے حضرات کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ اکثر یت کو نان شبینہ کے لئے محتاج پائیں اور خواص کو مال وجواہر میں کھیلتا دیکھیں ۔لہذا اس جماعت مردان حق نے صدائے احتجاج بلند کی اور جناب ابوذر (رض) اس سلسلے میں پیش پیش رہے ۔ابو ذر جب مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کو دیکھتے تو ان کے پاس صرف جو کی سوکھی روٹی نظر آتی لیکن جب مصاحبان حکومت کی بودوباش اور ذخیرہ اندوزی ملاحظہ کرتے تو یہ صورت حال برداشت نہ کرسکتے تھے ۔چنانچہ آپ جمع دولت اور سرمایہ داری کے مخالف تھے ۔ غرباء فقراء نوازی ،محتاج یتیم ومسکین ومجبور وقہور کی ہمدردی واعانت کے کٹر حامی تھے ۔ان ہی خیالات کے باعث عہد حاضر کے بعض افراد نے انھیں کمیونسٹ اوراشتراکی کہنا شروع کردیا حالانکہ حضرت ابو ذر کے پاکیزہ اسلامی اقتصادی نظریہ کو اشتراکیت سے کوئی

۱۱۹

واسطہ نہیں ہے ۔اور یہ مفصل بحث ہم نے اپنی کتاب "صرف ایک راستہ "کے باب معاشیات واقتصادیات میں ہدیہ قار‏ئین کردی ہے ۔ حضرت ابو ذر کا موقف محض یہ تھا اسلامی حکومت کے دائرہ حدود میں ایسا ہرگز نہ ہو کہ امراء حد سے بڑھ جائیں اور غرباء حد سے گر جائیں ۔آپ کا منشاء صرف یہ تھا کہ اسلام اس انداز میں سطح عالم پر ابھرے کہ امراء اور غرباء دونوں میں توازن وعدل قائم رہے ۔معاشرہ پر ہرایک متوازن طبقہ چھایا رہا ہے ۔یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوذر دولت کو چند ہاتھوں سے لے کر زیادہ ہاتھوں میں گردش کناں دیکھنے کے متمنی تھے ۔آپ کو احساس تھا کہ فراوانی دولت اور شدت غربت دونوں گناہوں کی محرک ہوتی ہیں ۔ ایک طرف دولت اسلامیہ منظور نظر لوگوں ،عزیزوں اور اقرباء کو بے دریغ لٹائی جارہی تھی تو دوسری طرف بیت المال کا دروازہ غریبوں ،یتیموں اور مستحقوں کے لئے بالکل بند کردیا گیا تھا ۔خلیفہ کے رشتہ دار جاگیر یں اور محلات بنانے میں مصروف مگر غریب بھوکوں مررہے تھے اس معاشی بحران ہی کے دوران حضرت عثمان نے قرآن جلوادئے یہ جلتی پر تیل ثابت ہوا ۔لہذا یہ بے حرمتی بھی لوگوں کو ناگوار ہوئی ۔چنانچہ حضرت ابوذر کو ایک اور موضوع احتجاج حاصل ہوا چونکہ انھیں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہلے ہی آگاہ دیا تھا کہ "اے ابوذر (رض) تجھے کوئی قتل نہ کرسکے گا "لہذا انھیں ہلاکت کا خوف نہ ہوتا تھا چنانچہ وہ نڈر ہوکر حکومت پر نکتہ چینی کرتے تھے ادھر تبلیغ ابوذر میں شدت ہوئی تو ادھر حکومت نے ان کا منہ بند کرنے کے طریقے دریافت کرنے شروع کردئیے پہلے مردان کی رائے کے مطابق آپ کو مال وزر کے ذریعہ خاموش کرنا چاہا لیکن جب رقم پیش ہوئی تو آپ نے ٹھکراتے ہوئے فرمایا۔

۱۲۰

"جاؤ واپس لے جاؤ مجھے اس کی حالت میں قطعی ضرورت نہیں ہے جبکہ غریب مسلمانوں کو نظر انداز کردیاگیا ہے میرے لئے تھوڑی گندم کافی ہے ۔میرا گزر اوقات ہورہا ہے ۔خلیفہ سے جاکر کہہ دینا کہ میں علی علیہ السلام اور اہلبیت علیہم السلام کی ولایت میں بالکل غنی ہوں ۔میرا دل غنی ہے ۔میری روح غنی ہے ۔میری جان غنی ہے ۔ تمھاری دولت کی ہمیں ضرورت نہیں "۔(حیات القلوب)

جب یہ تراکیب کارآمد نہ ہوئی تو سرکاری فرمان جاری ہوا کہ ابوذر سے ترک موالات کی جائے ۔حکم حاکم مرگ مفاجات اس شاہی حکم سے لوگوں نے آپ کے پاس آنا جانا ترک کردیا ۔مگر ابوذر چلتے پھر تے اپنا وعظ جاری رکھتے رہے ۔کچھ درباری چہچہوں نے خلیفہ کے کان بھرے لہذا حضرت عثمان نے ان کوجلا وطن کرکے ربذہ بھیج دیا ۔مروان کو حکم دیا کہ اسے ننگی پشت کے اونٹ پر سوار کرکے ربذہ پہنچانے اور اعلان کیا کہ اس کی مشایعت کے لئے کوئی شخص نہ جاوے بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ ضرب شدید سے اذیت بھی پہنچائی ۔بہر حال سزائے موت کے ہم پلہ کالے پانی کی سزا اس صدیق امت صحابی کو خلیفہ مسلمین نے محض حق گوئی کے پاداش میں دی ۔

حضرت عثمان کے حکم اخراج ابوذر پر اگرچہ اصحاب میں سخت اضطراب تھا مگر جلتی آگ میں کودنا کسی کسی کا حوصلہ ہوتا ہے ۔حضرت ابوذر جب مدینہ سے نکالے گئے تو حکم عثمان کے خلاف حضرات علی،حسن،حسین،علیھم السلام ،عمار،ابن عباس،ابن جعفر اورمقداد رضی اللہ تعالی عنھم اپنے گھروں سے باہر آئے ۔اورجب حضرت ابوذر کو ننگے اونٹ پرمراوان بٹھانے لگا تو حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے مروان کو ٹوکا۔ حس پروہ حضرت عثمان کے پاس شکایت لے کرگیا ۔

۱۲۱

کئی مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ حضرت علی خود جناب ابوذر کو ربذہ کے جنگل تک چھوڑنے تشریف لےگئے ۔حضرت ابوذر کو کسمپرسی کی حالت میں ربذہ کے جنگل میں قید تنہائی کی سزا بھگتنی پڑی ۔اس حال میں کہ وہاں کوئی آبادی نہ تھی ۔اور دوردور تک انسان نظر نہ آئے تھے ۔ سوائے کسی مسافر کے اس مقام پر کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں آپ پناہ لے لیتے ۔بس ایک درخت تھا جس کے نیچے آپ رہتے تھے ۔جب معاویہ کویہ جلاوطنی کی خبر ملی تو اس نے حضرت ابوذر کی بیوی وغیرہ کو ربذہ بھیج دیا ۔اسی عالم بے بسی میں آپ کے فرزند ذر کا انتقال ہوا اورتھوڑے عرصہ بعد رفیقہ حیات بھی چل نسیں پھرآپ خود علیل ہوئے ۔ایک دختر کے علاوہ کوئی پرسان حال نہ تھا ۔جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو فضائل آل محمد کے علاوہ اور کوئی وصیت نہ کی اپنی بیٹی کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس خبر سے آگاہ کیا جو آپ نے اپنی حیات میں دربارہ دفن ارشاد فرمائی تھی چنانچہ بمطابق پیشگوئی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت مالک اشتر رضی اللہ عنہ یہ سعادت حاصل کی ۔اور جناب ابوذر کو چار ہزار درہم کا کفن پہنایا ۔بعض روایات میں ہے کہ لشکر کے ہرآدمی نے تھوڑا تھوڑا کفن کے لئے کپڑا دیا۔ مرقوم ہے کہ نماز جنازہ عبداللہ بن مسعود نے پڑھی ۔!!!!

توزہد جہاں کا قبلہ ہے اےقلب ابوذرغفاری

واللہ کہ تیرا فقررہا دینائے حکومت پر بھاری

تو ہے وہ خطیب عرفانی دل دہل گئے جس کے خطبوں سے

صحرائے عرب کی ریتی میں گل کھل گئے جس کے خطبوں سے

(احسان امروہوی)

٭٭٭٭٭

۱۲۲

سوم یا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ

ہمارے ہاں بسند معتبر یہ روایت ہے کہ جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خوشا حال اس کا مجھے دیکھے اور مجھ پر ایمان لا ئے یہی ارشاد سات مرتبہ فرمایا ۔امام حعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارہ اصحاب ایسے تھے ۔مدینہ کے آٹھ ہزار ،مکہ کے دوہزار اور دوہزار آزاد کنندہ لوگ کہ ان میں کوئی قدری المذھب نہ تھا ۔جو خداوند کے جبر کا قائل ہو۔ اور نہ ہی ان میں کوئی مرجی تھا جویہ کہتا ہوکہ ہرشخص کا ایمان ایک ہی قسم (درجہ) کا ہے اور نہ کوئی حروری تھا جو امیر المومنین علیہ السلام کو ناسزا کہتا ہو اور نہ کوئی معتزلی تھا جس کا یہ عقیدہ ہو کہ خدا کو بندوں کے اعمال میں کوئی عمل دخل نہیں اور یہ حضرات اللہ کے دین کے بارے میں اپنی طرف سے (قیاس سے )کوئی بات نہ کہتے تھے ۔یہ اصحاب دن رات گریہ زاری کرتے تھے اور بارگاہ ربّانی میں دعا کرتے تھے کہ خداوند تعالی ہماری روحوں کو قبض کرلے اس سے پہلے کہ ہمارے کان شہادت سبط رسول امام حسین علیہ السلام کی خبر سنیں۔

سید الاولیاء امام المتقین قائد ثقل دوم امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں میں تم کو تمھارے رسول کے اصحاب کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ ان کو گالی مت دو ۔برا نہ کہو ۔اور یاد رکھو تمھارے پیغمبر کے اصحاب وہ اشخاص

۱۲۳

ہیں جنھوں نے وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد نہ ہی کوئی بدعت کی اور نہ ہی کسی بدعت کرنے والے کی اعانت فرمائی یا اس کو پناہ دی بے شک میرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے اپنے ایسے اصحاب کے بارے میں سفارش (محبت ) فرمائی ہے ۔

اس وقت میری حیرت کی انتہا ہوجاتی ہے جب ہمارے مخالفین میں یہ گالی دیتے ہیں کہ ہم صحابہ کی تعظیم نہیں کرتے ہیں جب ہماری کتابوں میں اصحاب رسول کے ابواب فضائل ومناقب کو اگر یکجا کیا جائے یہ ایک دفتر بن جاتا ہے ۔ ہمارے نزدیک اصحاب رسول کا مرتبہ ایسا ہے کہ اللہ نے ان ہی پاک بازوں اور راست روش ہستیوں کی خیرات اس زمین کو قائم کیا ۔ اور ان ہی کے خدمات جلیلہ کے طفیل اہل زمین کو روزی ملتی ہے ۔ان کے ہی کسب ہائے کمال اور کردار ہائے پرجمال کی بدولت باراں رحمت برستی ہے ۔ان ہی متقی ومومن اصحاب رسول کے کارہائے فضیلہ کے انعام وصدقہ میں ہم خاطی لوگوں کی مدد ہوتی ہے ۔اور یہ بات محض لفاظی نہیں بلکہ ارشاد مولائے کائنات سے مصدّقہ ہے ۔حضرت امیر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔

سات وسیلے :-

"زمین سات اشخاص کے واسطے پیدا کی گئی ہے جن کے سبب سے اہل زمین روزی پاتے ہیں اور ان ہی کی برکت سے بارش ہوتی ہے انہی کی برکت سے لوگوں کی مدد کی جاتی ہے ۔اور وہ ابوذر، سلمان ، مقداد،عمار ،حذیفہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھم ہیں اس کے بعد حضرت امیر علیہ السلام نے فرمایا میں (علی) ان کا امام اور پیشوا ہوں ۔اور یہی وہ لوگ

۱۲۴

ہیں جو فاطمہ زھراء کی میت پر نماز کے لئے حاضر تھے (حیات القلوب:- علامہ مجلسی مؤلف حیات القلوب کے نزدیک حضرت عبدا للہ بن مسعود کا معاملہ مشتبہ ہے ۔تاہم ابن مسعود کا راجح ہونا تسلیم شدہ امر ہے )

ہم شیعیان اہل بیت کو اس بات پر فخر وناز ہے کہ ہم نے کرسی اقتدار کو کبھی جھک کر سلام نہیں کیا ہے بلکہ ہم نے ہمیشہ ان مردان مومنین کی راہوں میں اپنی آنکھیں بچھائیں ہیں جو دنیا کی نظروں میں فقیر وحقیر دکھائی دیتے تھے لیکن ہماری نگاہوں نے پہچان لیا کہ یہ وہ ہستیاں ہیں کہ جن کی نگاہ ایمان کو تقدیر پر تبدیل کردینے کی قدرت حاصل ہے ۔اغیار نے تاج وتخت اور حکومت سب کچھ سمجھ لیا اور لاٹھی کی بھینس بن گئے مگر ہم نے ان سے لولگائی جن کو ظاہرا اور باطنا ہر طرح سے درجہ بدرجہ اقتدار و اختیار منجانب خدا ورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حاصل تھا ۔ایسے ہی عظیم المرتبت حضرات میں حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ کو امتیازی مقام وافتخاری درجہ حاصل ہے ۔

مثیل میکائیل :-

اللہ اللہ ! سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس یار جانثار کا تعارف اس انداز میں کراتے ہیں ۔

ارشاد فرماتے ہیں کہ

"جبریل خداوند کی جانب سے مجھے (رسول اللہ کو)خبر دے رہے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! سلمان اور مقداد آپس میں بھائی بھائی ہیں جو تمھاری محبت اور تمھارے بھائی ،وصی اور تمھارے برگزیدہ علی علیہ السلام کی مؤدت میں خالص ہیں ۔اور یہ دونوں حضرات تمھارے حلقہ اصحاب میں جبرئیل ومیکائیل کے مانند

۱۲۵

ہیں ۔جیسے وہ ملائکہ میں ہیں (جو مرتبہ ودرجہ فرشتوں میں ان کو حاصل ہے )سلمان اور مقداد رضی اللہ عنھما اس کے دشمن ہیں جو ان میں کسی کا دشمن ہے (جبرئیل ومکائیل کا) اور اس کے دوست ہیں جو ان سے دوستی رکھتا ہو اور محمد وعلی علیھما ا لصلواۃ والسلام کو دوست رکھتا ہو ۔ اور( یہ دونوں )اس کے بھی دشمن ہیں جو محمد و علی علیھما الصلواۃ والسلام کو دشمن رکھتا ہو ۔ اگر اہل زمین سلمان اور مقداد کو دوست رکھیں محض اس لئے کہ وہ محمد وعلی علیھما الصلواۃ والسلام کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے دوستوں کو دوست اور ان کے دشمنوں کو دشمن رکھتے ہیں جس طرح کہ ان کو آسمانوں کے حجابات اور عرش وکرسی کے فرشتے رکھتے ہیں تو یقینا خدا ان میں سے کسی پر کسی طرح کا عذاب نہ کرتا ۔(تفسیر امام حسن عسکری سورہ بقرہ ص۹۷-۹۸ بحوالہ حیات القلوب)

ارشاد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مطابق میکائل صحابی رسول حضرت مقداد رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت کے لئے یہ اعزاز بھی ایک خصوصی تمغہ خدمت ہے کہ آپ کو سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ۔چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ،سے مروی ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام رسالت مآب کے غسل وکفن سے فارغ ہوئے اور مجھے (سلمان کو) ابوذر ، مقدادرضی اللہ عنہ ،فاطمہ ،حسن اور حسین علیھم السلام کو بلایا ۔خود (علی)آگے کھڑے ہوئے اور ہم نے حضرات امیر کے پیچھے صف باندھی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نماز پڑھی (اسی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ اسی حجرے میں موجود تھیں مگر جبرئیل نے ان کی آنکھوں کو( دست غیب سے) نند رکھا تھا وہ ہم کو نہ دیکھ سکیں ۔

جنت کا اشتیاق:-

کتب فریقین میں معمولی فرق کے ساتھ یہ حدیث مرقوم ہے اور شہرت کی حامل ہے کہ حضور نے فرمایا کہ جنت چار اشخاص

۱۲۶

کی مشتاق ہے ۔ہر فریق نے ان چار حضرات میں حضرت مقداد رضی اللہ عنہ ،کو شامل کیا ہے چنانچہ سید ابن طاؤؤس نے بطریق مخالفین ایک روایت بیان کی ہے کہ ۔

انس بن مالک سے میروی ہے کہ ایک روز رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بہشت میری امت میں سے چار شخصیوں کی مشتاق ہے ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا رعب مانع ہوا کہ میں (انس ) حضرت سے دریافت کروں کہ وہ کون لوگ ہیں ۔میں حضرت ابوبکر کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ آپ(ابوبکر)حضرت سے دریافت کیجئے ۔حضرت ابوبکر نے کہا کہ میں ان چاروں اشخاص میں اگر نہ ہوا تو بنی تمیم مجھ کو سرزنش کریں گے ۔یہ سن کر میں حضرت عمر کے پاس گیا ان سے کہا کہ میں ان چار اشخاص میں اگر نہ ہوا تو بنی عدی مجھ کو طعنہ دیں گے ۔پھر میں (انس) حضرت عثمان کے پاس گیا اور ان (عثمان) سے خواہش کی کہ وہ دریافت کریں ۔انھوں نے بھی کہا کہ اگر میں ان میں سے نہ ہوا تو بنی امیہ مجھ کو ملامت کریں گے ۔آخر میں حضرت علی کی خدمت میں گیا ۔حضرت باغ میں پانی دے رہے تھے ۔میں نے کہا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ بہشت چار اشخاص کی مشتاق ہے میں (انس) آپ سے التماس کرتا ہوں کہ حضرت سے دریافت فرمائیے کہ وہ کون لوگ ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں ان سے پوچھوں گا ۔ میں (علی)اگر ان چار شخصوں میں ہوا تو خدا کا شکر کروں گا اور اگر ان میں میرا شمار نہ ہوا تو خدا سے سوال کروں گا کہ مجھے ان میں سے قراردے ۔اور میں ان(چاروں)کو دوست رکھوں گا ۔غرض حضرت علی علیہ السلام روانہ ہوئے اور میں (انس) بھی ان کے ساتھ چلا ۔جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے تو دیکھا کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۱۲۷

کا سراقدس دحیہ کلبی کی گود میں ہے جب دحیہ کلبی نے امیر المؤمنین کو دیکھا ۔تعظیم کے لئے اٹھے اور ان کو سلام کیا اور کہا لو اپنے پسر عم کے سر کو اے امیر المومنین کہ تم مجھ سے زیادہ سزاوار ہو ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے اور اپنا سر علی علیہ السلام کی گود میں دیکھا تو فرمایا اے علی علیہ السلام شاید تم کسی حاجت کے لئے آئے ہو ۔انھوں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ جب میں یہاں آیاتو دیکھا کہ آپ کا سر مبارک دحیہ کلبی کی گود میں تھا ۔ تو وہ اٹھے اور مجھے سلام کرکے بولے کہ اپنے پسر عم کے سر کو گود میں لوحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ تم نے پہچانا کہ وہ کون تھے ۔؟عرض کی دحیہ کلبی تھے حضرت نے فرمایا کہ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے جنہوں نے تم کو امیر المومنین کہا جناب امیر نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ انس(بن مالک )نے مجھے بتا یا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ بہشت میری امت میں سے چار شخصوں کی مشتاق ہے لہذا فرمائیے کہ وہ کون کون ہیں ۔

حضرت نے جناب امیر علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور تین مرتبہ فرمایا کہ تم (علی)ان میں سے پہلے ہو ۔جناب امیر نے عرض کی میرے باپ ماں آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ اور وہ تین اشخاص کون ہیں ؟حضرت نے فرمایا وہ مقداد،سلمان اور ابوذر رضی اللہ ہیں ۔

محفوظ عن الشک :-

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ حضرات مقداد ،سلمان ،اور ابوذر رضی اللہ عنھم تینوں ایسے اصحاب تھے جن کے دلوں میں مطلق شک داخل نہ ہوا ۔محرر حقیر کہتا ہے کہ سراپا یقین تھے ۔

۱۲۸

حور مقدودۃ:-

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد گھر سے نکلا تو راستہ میں امیر المومنین علیہ السلام سے ملا قات ہوئی جناب امیر نے فرمایا جاؤ جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا)کے پاس ان کو بہشت سے کچھ تحفہ آیا ہے اور وہ تم کو بھی اس میں سے کچھ عطا کرنے کی خواہش رکھتی ہیں یہ سنکر میں ان مخدومہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔شاہزادی نے فرمایا ۔کل میں اسی مقام پر بیٹھی ہوئی تھی ۔دروازہ بند تھا میں غمگین ومحزون تھی اور سوچ رہی تھی کہ ہم وحی الہی سے محروم ہوگئے ۔اور ہمارے گھر میں فرشتوں کی آمد ورفت بند ہوگئی اچانک دروازہ کھلا اور تین لڑکیاں اندر داخل ہوئیں کہ ان سے زیادہ حسین وجمیل اور نازک ورعنائی میں بہتر اور خشبودار کبھی کسی نے نہ یکھا ہوگا ۔ان کو دیکھا تو میں اٹھ کھڑی ہوئی اور پوچھا تم اہل مکّہ سے ہو یا مدینہ کی رہنے والی ہو ۔وہ بولیں ۔اے بنت رسول (س)ہم اہل زمین سے نہیں ہیں ۔ہم آپ کی زیارت کے لئے بے حد مشتاق تھیں ۔ان میں سے بڑی جو مجھے معلوم ہوئی میں نے ان سے پوچھا کہ تمھارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا" مقدودۃ"

میں نے پوچھا کس سبب سے یہ نام رکھا گیا ؟ اس نے کہا اس لئے کہ مقداد بن اسود کے لئے خلق کی گئی ہوں "(حیات القلوب)

مجھے افسوس ہے کہ اہل قلم مسلمانوں کے قلم کی نبیس( Nibs ) اسی لوہے سے تیار ہوتی رہیں جس سے بے گناہ خون سے آلودہ تلوار یں بنی تھیں اسی لئے ان لوگوں کے حالات ومناقب کو

۱۲۹

ہمیشہ قلم انداز کیا گیا جن کو ارباب حکومت اپنے مخالفین تصور کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ زمانہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اعزاز یافتہ اور محفل نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معتمد مصاحب کی اقدار رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھ بند ہوتے ہی پامال ہونا شروع ہوگئیں اور زنانہ کی ریت یا رسم دنیا کے مطابق لوگوں نے ارباب سلطنت کے ترانے بڑھی دھوم سے گائے اور اصحاب اخیار سے خیرہ چشمی برتی ۔باوجود ان اندوہناک حالات اور اوپر آشوب اوقات کے یہ قدرت کا احسان ہے کہ پھر بھی کوئلوں کی کانوں سے وافر مقدار میں جواہر دستیاب ہوجائے ہیں جن کی آب وتاب ایک ہدایت کی روشنی میں اضافہ کرتی ہے تو دوسری طرف گمراہی کی انکھیں چند یادیتی ہے ۔حضرت مقداد کا امتیازی مقام اوران کی منفرد شخصیت کا انداز ہ آپ اس بات سے کرسکتے ہیں کہ اسلام کی پہلی جنگ غزوہ بدر میں ان کو شرکت کا اعزاز حاصل تھا اور طبقات ابن سعد کے مطابق آپ وہ واحد مجاہد تھے جو لشکر اسلام میں گھوڑا سوار تھے ۔چنانچہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ ۔

"مقداد بن عمر و سے مروی ہے کہ یوم بدر میرے پاس ایک گھوڑا تھا جس کا نام "سجہ"تھا علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ یوم بدر میں سوائے مقداد بن عمر و کے ہم میں سے کوئی سوار نہ تھا ۔(طبقات ابن سعد حصہ سوم ص ۳۱۵)

صاحب طبقات تحریر کرتے ہیں کہ "قاسم بن عبد الرحمان سے مروی ہے اللہ کی راہ میں سب سے پہلے جس شخص کو اس کے

۱۳۰

گھوڑے نے دوڑایا وہ مقداد بن الاسود ہیں "(طبقات ابن سعد حصہ سوم ۳۱۵)

لیکن افسوس ہے کہ اول معرکہ حق وباطل میں اول گھوڑا دوڑانے والے اس مجاہد کے کارہائے نمایاں کی کتاب "ذہبیہ" کو بعد کے جارح لشکر وں کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی دھول سے اس قدر ڈھانپ گیا ہے کہ آج حق وباطل کی شناخت میں مٹی کی نہیں ایک سدراہ دیوار بن کر نمودار ہوچکی ہیں اور محققین کے لئے اس کو عبور کرنا جان جوکھوں کی مہم بن گیا ہے تاہم ہمت مرداں مدد ے خدا ۔اگر نیک نیتی سے کوشش کی جائے تو بفضل خدا یہ ریت کی دیوار یں صرف ایک نعرہ حیدری کی پھونک سے اڑجاتی ہیں اور تمام حقائق شفاف آئنہ کی مانند سامنے آجاتے ہیں ۔

مختصر حالات:-

حضرت مقداد کے فضائل بیان کرنے کے لئے عمر خضر بھی کافی نہ ہوگی علماء کی رائے یہ ہے کہ صحابہ میں ان کے بلند مرتبہ کے برابر سلمان اور ابوذر کے بعد کوئی نہیں ہے ۔محمد بن سعد کی تحقیق کے مطابق ان کی کنیت ابو سعید تھی اور شجرہ یہ تھا۔

ابن تغلبہ بن مالک بن ربیعہ بن ثمامہ بن مطرفہ بن عمرو بن سعد ابن دہیر لوئی بن ثعلبہ بن مالک بن الشرید ابی اہون بن فائش ابن دریم بن القیس بن اہود بن بہراء بن عمرو بن الحاف بن قضاعۃ کنیت ابو سعید تھی۔ زمانہ جاہلیت میں اسود بن یغوث الزہری سے معاہدہ حلف کیا ۔انھوں نے ان کو متبنی بنا لیا اور انھیں

۱۳۱

مقداد بن الاسود کہا جاتا تھا جب قرآن نازل ہوا کہ "ادعوھم لاباءھم" (لوگوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارو)تو مقداد بن عمروکہا جانے لگا ۔

ابن اثیر نے لکھا ہے کہ وہ مرد بن ثعلبہ بن مطرودہن عمرو کندی کے بیٹے تھے بعض نے کہا ہے وہ قبیلہ قصاعہ سے تھے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ حضرت کے رہنے والے تھے ۔ چونکہ ان کے والد قبیلہ کندہ سے ہم سوگند ہوگئے تھے اسی لئے اس قبیلہ سے منسوب ہوگئے تھے ۔علامہ ابن عبدالبر کے مطابق آپ اسود بن یغوث زہری کے غلام تھے اور چونکہ اسود نے ان کو فرزندی میں لے لیا اس وجہ سف مقداد کو ان کی طرف منسوب کردیا گیا ۔

حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سابق الا سلام اصحاب میں سے تھے اور انکا اسلام قدیم تھا ۔ وہ اسلام کے بہت جری اور نڈر مجاہد تھے ۔ابو سفیان نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت مقداد وہ خوش بخت اللہ کے سپاہی تھے کہ جسے ان کے گھوڑے نے سب سے پہلے راہ خدا میں درڑایا ۔(طبقات ابن سعد)

عبد اللہ سے مروی ہے کہ میں (راوی)مقداد کے مشہد میں موجود تھا ۔البتہ مجھے ان کا ساتھی ہونا اس سے زیادہ پسند ہے کہ جس سے ہٹایا گیا وہ مشرکین بدر پر بد دعا کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ ہم لوگ آپ سے وہ بات نہ کہیں گے جو قوم موسی نے موسی علیہ السلام سے کہی ک آپ کا رب اور آپ جائیۓ اور آپ دونوں قتال کیجئے ہم لوگ یہیں بیٹھے ہیں ۔ہم لوگ آپ کے داہنے اوربائیں آگے اور پیچھے

۱۳۲

جنگ کریں گے ۔میں (راوی)نے دیکھا کہ نبی کا چہرہ اس بات سے روشن ہوگیا اور اس بات نے آپ کو مسرور کردیا ۔یہ اظہار حضرت مقداد کے جذبہ جہاد اور شوق شہادت کی کیفیت بیان کرنے کے لئے کافی ہے ۔آپ غزوات بدر۔احد وخندق اور تمام مشاہد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حاضر ہوئے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان خاص اصحاب میں سے تھے جو تیر انداز تھے آپ تیر اندازی میں مشہور اور امہارت یافتہ تھے ۔ رسول کریم کی قربت خاص حاصل تھی یہاں تک کہ حضور نے ضابطہ بنت زبیر عبد المطلب سے آپ کا نکاح کردیا تھا (طبقات ابن سعد)

ابن بابویہ نے بسند معتبر امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ جبرائیل آنحضرت پر نازل ہوئے ۔اور کہا یا رسول اللہ آپ کا پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے اور فرمایا ہے کہ باکرہ لڑکیاں درخت پر پھلوں کی مانند ہیں ۔جب درختوں پر پھل تیار ہوجاتے ہیں تو ان کا علاج سوائے توڑ کر استعمال کرنے کے کوئی نہیں ۔اگر ان کو استعمال نہ کروگے تو ہوا ان کو خراب کردے گی ۔اور سورج بے کار کردے گی اسیطرح کنواری لڑکیاں جب بالغ ہوجاتی ہیں تو ان کا علاج شوہر کے سوا کچھ نہیں اگر ایسا نہ ہوتو فتنہ وفساد سے ان کا محفوظ رہنا ممکن نہیں ۔ یہ سنکر آنحضرت منبر پر تشریف لےگئے ۔اور لوگوں کے سامنے خطبہ پڑھا اور ان کو آگاہ کیا اس سے جو کچھ خدا نے ان کو حکم دیا تھا تو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ہم اپنی لڑکیوں کو کس کے ساتھ

۱۳۳

تزویج کریں ۔فرمایا ان کے کفو اور برابر والے لوگوں کے ساتھ پوچھا ان کے کفو کون لوگ ہیں ۔ حضور نے فرمایا مومنین آپس میں ایک دوسرے کے کفو اور ہمسر ہیں ۔ یہ فرما کر منبر سے نیچے تشریف لائے اور ضباعۃ کو مقداد ابن اسود کے ساتھ تزویج فرمایا کہ میں نے اپنے چچا کی بیٹی کو مقداد سے اس لئے تزویج کردیا کہ نکاح پست ہو یعنی لوگ کفو کے بارے میں حسب ونسب کا خیال نہ کریں بلکہ ہر مومن کو رشتہ دے لے کریں ۔

ابن سعد نے کریمہ بنت مقداد سےا ن کا حلیہ مبارک یوں بیان کیا ہے کہ وہ گندم گوں ،لانبے ،فراخ شکم ،سرمیں بہت بال تھے ۔داڑھی کو زرد رنگتے جو خوبصورت تی نہ بڑی نہ چھوٹی ۔بڑی بڑی آنکھیں ۔پیوستہ آبرو، ناک کا بانسہ بھرا ہوا اور نتھنے تنگ تھے ۔

حضرت کلینی نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ ایک دن حضرت عثمان نے جناب مقداد سے کہا کہ میری (عثمان کی) مذمت اور علی کی مدح سے باز آجاؤ ۔ورنہ تم کو تمہارے پہلے آقا کے پاس واپس بھیج دوں گا ۔جب حضرت مقداد کی وفات کاوقت آیا تو انھوں نے حضرت عمار یاسر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ عثمان کو کہہ دو کہ میں اپنے پہلے آقا کی طرف واپس جارہاہوں یعنی عالمین کے پروردگار جل شانہ کی جانب ۔

۱۳۴

وجہ عتاب حکومت :-

حضرت مقداد مورد عتاب حکومت کیوں رہے ۔ اس کا جواب مندرجہ ذیل روایت سے حاصل ہوجاتا ہے کہ شیخ طوسی فرماتے ہیں ۔

"جب لوگوں نے عثمان بن عفان سے بیعت کی حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن الرحمان بن عوف (خلیفہ گر عثمان) سے کہا خدا کی قسم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت (علیھم السلام) پر حضرت کے بعد جو کچھ ہوا اس کی نظیر کہیں نہیں مل پاتی ۔عبد الرحمان نے بے رخی سے کہا کہ تم کو ان کاموں سے کیاواسطہ ؟ مقداد نے جواب دیا کہ میں خدا کی قسم ان کو (اہلیت کو) دوست رکھتے تھے اور خدا کی قسم مجھے ان کے حالات دیکھ کر ایسا صدمہ ہوتا ہے جس کا اظہار ممکن نہیں کیو نکہ قریش کو کے سبب لوگوں پر شرافت وعزت حاصل ہوئی ۔پھر سب نے ملکر یہ سازش کی کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بادشاہی ان کے قبضے سے لے لیں عبد الرحمان نے بپھر کر کہا وائے ہو تم پر واللہ میں نے یہ کوشش تو تم ہی لوگوں کی خاطر کی ہے اور نہیں پسند کیا کہ خلافت علی کے قبضے میں جائے ۔

حضرت مقداد نے فرمایا خدا کی قسم تو نے اس شخص کو چھوڑ دیا جو لوگوں کو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے اور عدالت کے ساتھ ان میں حکم جاری فرماتا ہے ۔اللہ کی قسم اگر مجھے مددگار میسر ہوں تو میں یقینا قریش سے اسی طرح جنگ کرتا جس طرح بدر واحد کے روز جنگ کی تھی ۔عبد الرحمان نے آگ بگولہ ہوکر کہا تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے اے مقداد اس بات کو ترک کر کہ لوگ تم سے نہ سنیں ورنہ فتنہ وفساد برپا ہوگا ۔خدا کی قسم میں خوف زدہ ہوں کہ تیری باتوں سے

۱۳۵

لوگوں میں اختلاف اور فساد پیدا ہوجائے گا ۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ اس مجلس سے اٹھے تو میں ان کے پاس گیا اور کہا اے مقداد میں تمھارے مددگار وں میں سے ہوں ۔ مقداد نے جواب دیا کہ خدا تم پر رحمت نازل کرے ۔جس امر کا میں ارادہ رکھتا ہوں وہ دویا تین شخصوں سے پورا نہ ہوگا اس کے بعد راوی حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی اور اپنی گفتگو بیان کی ۔جسے سنکر مولائے عالمین نے ان کے لئے دعائے خیر کی ۔

اس روایت سے وہ وجوہات ازخود منکشف ہوجاتی ہیں جو حضرت مقداد اور حکومت کے درمیان باعث کشمکش رہیں ۔

الف قران :-

حضرت صادق آل محمد علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ "مقداد بن اسود کا مرتبہ قرآن مین الف کے مرتبہ کے مانند ہے کہ دوسرا حرف اس سے نہیں ملتا ۔اسی طرح کمال میں کوئی دوسرا مقداد کے کمال سے ملحق نہیں ہوتا ۔

خصوصی امتیاز:-

حلقہ اصحاب النبی میں حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کو یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ شیخ کشی نے بسند معتبر روایت کی ہے کہ صحابہ میں کوئی ایسا صاحب نہ تھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی حرکت نامناسب نہ کی ہو سوائے مقداد بن اسود کے کیوں کہ ان کادل حق کی طرفداری میں مثل آہنی ٹکڑوں کے تھا ۔پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ یار باوقار

۱۳۶

ستر یا اسی برس کی عمر میں اس فانی دنیا سے رخصت ہوگیا ۔ مدینے سے تین میل دور الحرف میں وفات پائی اور لوگوں نے گردنوں پر لاد کر مدینہ منورہ پہنچایا ۔جنت البقیع میں مدفون ہوئے وجہ وفات میں اختلاف ہے ۔ابی فائد کی روایت کے مطابق روغن انجیر پینے سے وفات پائی ۔ بعض کا گمان ہے کہ حکومت نے خفیہ طور پر زہر سے ہلاک کرنے کی کو ‎ شش کی ۔جب وفات مقداد کی خبر حضرت عثمان کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اظہار افسوس کیا اور حضرت مقداد کی تعریفیں کرنے لگے ۔اس پر زبیر بن عوام سے نہ رہا گیا اور یہ شعر کہا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ

"میں تم کو اس حالت میں پاؤں گا کہ مرنے پر میرے محاسن بیان کروگے حالانکہ جیتے جی مجھے توشہ تک نہ دیا "(طبقات ابن سعد حصہ سوم ص ۳۱۷)

بدل دے بدل دے خیال زبوں کو

مٹادے مٹادے ملال دروں کو

دکھادے دکھادے بہار سکوں کو

الٹ دے الٹ دے نظام جنوں کو

ہے مقداد تو رھبر انقلابی

ہر اک دور کامحور انقلابی

(احسان امروہوی)

٭٭٭٭٭

۱۳۷

چہارم یار نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لقمان امت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ

اس کرہ ارض خداوندی کی تاریخ میں ہزروں نامور اشخاص کے نام وحالات ملتے ہیں جو اپنی اپنی بجاکر خالی ہاتھوں خاک میں مل گئے ۔عالم فانی میں جہاں وحشی ،درندہ صفت ،خونخوار اور سفاک لوگوں نے اپنے کردار سے لقب اشر ف المخلوقات کو شرمندہ کیا وہاں سینکڑوں ایسی ہیستیاں بھی گزریں جنھوں نے کردار انسان کو اس قدر بلند کیا کہ لفظ اشرف المخلوقات خود شرما گیا اسمیں شک نہیں کہ اسلام خدا کاپسندیدہ دین ہے او تا قیام قیامت انسان کی معاشرتی حیات کے لئے کافی ہے لیکن زمانہ کے تغیر و تبدل نے اس دین بھی رخنہ اندازی پیدا کردی ۔رسول اکرم نے دین حقیقی کے دووارث مقرر کردیئے ،ایک کتاب الہی اور دوسرےاہل بیت رسول(علیھم السلام)۔ان دونوں سے تمسک رکھنا ہر طرح کی گمراہی سے محفوظ رہنے کا علاج تجویز فرمایا ۔جن لوگوں نے راہ فلاح پہچان لی اور دین اسلام کو دل سے قبول کیا وہ بموجب ہدایت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،قرآن واہل بیت (ع)سے متمسک رہتے لیکن جو لوگ کسی طمع یا غرض سے کلمہ اسلام پڑھنے پر مجبور ہوئے انھوں نے اہل بیت (ع) کادامن چھوڑ دیا کیوں کہ وہ اپنی دانست میں حکومت ونبوت ایک گھر میں پھیلتی پھولتی برداشت نہ کرسکے وہ لوگ جو اسلام کو حق سمجھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے انھوں نے صحبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور تعلیم الہامی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اپنے آپ کو اسلامی کردار کے سانچے میں ڈھالنے کا حق ادا کردیا ۔انھوں نے

۱۳۸

اپنی زندگیوں کو ہمیشہ تابع اسلام رکھا اور ہر طرح کی ملامت و خوف کو نظر انداز کرتے ہوئے پیکر تسلیم ورضا بنے رہے یہی وہ خوش قسمت اور سرخرو طبقہ تھا جو محافظ لقب بنی آدم "اشرف المخلوقات "کا مصداق قرار پایا ان کا چال چلن آج بھی دنیا کو مکمل درس دے رہا ہے اور اہل باطل کے لئے عبرت آموز سبق ہے ۔ دیگر اقوام کی طرح اسلام کے ساتھ بھی یہ المیہ عظیم پیش آیا کہ سلاطین نے اپنی اغراض ذاتی اور بقا ئے سلطنت کے لئے ان اشراف کائنات بزرگوں کے حالات زندگی کو منظر عام پر نہ آنے دیا مؤرخین نے خوف حکومت اور حرص مال ومنصب میں ان نامور اور کامران ہستیوں کے کارناموں کو پوشیدہ کیا اور اپنے حاکموں یا ان کے بہی خواہوں کے حالات کو بے بنیاد فضائل اور جھوٹے مناقب کے ساتھ خوب بڑھا چڑھا کر درج کرلیا اور یہ کہانی ہم مقدمات میں پہلے ہی سنا چکے ہیں ۔ہم جب تاریخ بینی کرتے ہیں تو سخت تعجب ہوتا ہے ایسے بزرگان اسلام کے حالات جن کو پڑھ کر اصلاح نفس اور تسکین قلب حاصل ہوتے ہیں ۔ اور جو کردار کے اعلی مدارج پر فائز تھے لوگ ان کے ناموں سے بھی آشنا نہیں ہیں اورجن لوگوں کے فضائل کی تشہیر کی جاتی ہے ان کے سوانح حیات ان فضائل کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جو ان سے منسوب ہیں یہ مسئلہ نازک تو ضرور ہے مگر بہت اہم ہے لہذا مجھے بار بار اس کے تکرار کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس نا انصافی پر مبنی تدبیر نے آئندہ نسل کی فکر پر گہرا اثر ڈالا ہے اور اس کا نتجہ اس قدر مضر سامنے آیا ہے کہ حق وباطل آپس میں

۱۳۹

اس طرح خلط ملط ہوگئے ہیں کہ شناخت کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے ملاحظہ کریں کہ اسلام امن وسلامتی کادین ہے لیکن تاریخ نویسی ہمیں بتائی ہے کہ اسلام تلوارزنی ۔فتوحات ارضی اور لشکرکشی کانام ہے ۔

الغرض ان مظلوم حضرات کی خطا صرف یہی تھی کہ انھوں نے سنّت رسول اور آل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنا رہنما قرار دیا وہ اپنے اصول پر چٹان کی طرح رہے اپنے کردار کو اسقدر بلند رکھا کہ ان کا ہرغیر ان سے پست نظر آتا تھا اگر آج کی نسل کے سامنے ان بااصول باضمیر اور باکمال مسلمانوں کے وہ عظیم کارنامے پیش کئے جائیں تو دنیا لادینی رجحان کی طرف کبھی راغب نہ ہو ۔ان لائق پیروی اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ کو ممتاز مقام حاصل ہے ۔وہ افضل ترین صحابہ میں سے تھے ۔کہ ان کو خود حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خصوصی نسبت ہوئی اور آپ کو سلمان محمدی کہا جاتا ہے ۔

ابتدائی حالات:-

حضرت سلمان فارسی کا نسبی تعلق اصفہان کے آب کے خاندان سے تھام ۔قدیم نام میں اختلاف ہے لیکن ان میں دونام زیادہ مشہور ہیں ۔"مابہ "اور "روزبہ"اسلامی نام سلمان تجویز ہوا ۔رسول کریم نے "سلمان الخیر"کا لقب عطا فرمایا ۔ اس کے علاوہ طیّب ۔طاہر لقمان الحکمت کے القابات حضور اکرم نے عنایت فرمائے ۔ابو عبد اللہ کنیت تھی ۔سلسلہ نسب یہ ہے ۔روزبہ (سلمان)بن بود خیشاں بن مو رسلان بن بہود ان بن فیروزبن سہرک ۔آپ کا تعلق ایران

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180