چار یار

چار  یار33%

چار  یار مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں
صفحے: 180

چار یار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50352 / ڈاؤنلوڈ: 3788
سائز سائز سائز
چار  یار

چار یار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

خواہشات پر عقل کی حکومت

اگر چہ انسان پرخواہشات کی حکومت بہت ہی مستحکم ہوتی ہے لیکن عقل کے اندر ان خواہشات کو کنٹرول کرنے اور انہیں صحیح رخ پرلانے کی مکمل صلاحیت اورقدرت پائی جاتی ہے۔بشرطیکہ انسان خواہشات پر عقل کو فوقیت دے اور اپنے معاملات زندگی کی باگ ڈورعقل کے حوالہ کردے۔

صرف یہی نہیں بلکہ جس وقت خواہشات پر عقل کی گرفت کمزور پڑجاتی ہے اور خواہشات اسکے دائرہ اختیار سے باہر نکل جاتے ہیں تب بھی عقل کی حیثیت حاکم و سلطان کی سی ہوتی ہے وہ حکم دیتی ہے ،انسان کو برے کامو ںسے روکتی ہے،اور خواہشات ،نفس کے اندرصرف وسوسہ پیدا کرتے ہیں حضرت علی نے فرمایاہے:

(للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجروتنهی )( ۱ )

''نفسوں کے اندرمختلف خواہشیں سر ابھارتی ہیںاور عقلیں ان سے مانع ہوتی ہیں اورانہیں روکتی رہتی ہیں''

آپ ہی سے منقول ہے :

(للقلوب خواطرسوئ،والعقل یزجرمنها )( ۲ )

''دلوںمیں برے خیالات آتے ہیں اور عقل ان سے روکتی رہتی ہے''

اس کا مطلب یہ ہے کہ خواہشات کی بناء پر انسان کے نفس میں صرف برے خیالات،اوہام اور وسوسے جنم لیتے ہیں لیکن عقل کے پاس انہیں کنڑول کرنے نیز ان سے روکنے کا اختیار موجود ہے اور اس کی حیثیت حاکم و سلطان کی سی ہے۔ اسی لئے مولائے کائنات نے فرمایاہے:

(العقل الکامل قاهرللطبع السُّوئ )( ۳ )

''عقل کامل ،بری طبیعتوں پر غالب ہی رہتی ہے''

جسکا مطلب یہ ہوا کہ انسانی مزاج اور اسکا اخلاق، بے جا خواہشات کی بناء پر بگڑکرچاہے جتنی پستی میں چلاجائے تب بھی عقل کی حکومت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے اور عقل سلیم وکامل اپنے اندر

____________________

(۱)تحف العقول ص۹۶۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۳)بحار الانوارج۱۷ص۱۱۶۔

۲۱

ہر قسم کی بری طبیعت اور مزاج کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یہ اسلامی تربیت کا ایک اہم اصول ہے جسکے بارے میں ہم آئندہ تفصیل سے گفتگوکریں گے۔

انسان ،عقل اور خواہش کا مجموعہ

یہاں تک ہم اس واضح نتیجہ تک پہونچ چکے ہیں کہ خواہشیں کتنی ہی قوی اورموثر کیوں نہ ہوںلیکن وہ انسان سے اسکاارادہ اور قوت ارادی کونہیں چھین سکتی ہیں۔بشرطیکہ انسان عقل کو کامل بنالے اور معاملات زندگی میں عقل کو اہمیت دیتارہے کیونکہ انسان، عقل اور خواہشات سے مل کر بنا ہے لہٰذاعقل اور خواہشات کے باعث انسان ہمیشہ ترقی و تنزلی کی منزلیںطے کرتارہتاہے انسان اپنے معاملات حیات میں جس حد تک عقل کی حاکمیت کا قائل ہوگا اور اپنی عقل کے تکامل کی کوشش کرے گا اسی حد تک ترقی اور کمال کی جانب قدم بڑھائے گا اسکے برخلاف عقل کو بالکل نظر انداز کرکے اور اس سے غافل ہو کراگرخواہشات کوعقل پر ترجیح دے گاتو اسی کے مطابق پستیوں میں چلاجائے گا۔

لیکن حیوانات کی زندگی کا معاملہ انسان کے بالکل بر خلاف ہے کیونکہ ان کے یہاں کہیں سے کہیں تک عقل کا گذر نہیں ہے اوروہاںسوفیصد خواہشات کی حکومت ہوتی ہے گویا وہ صرف ایک سبب کے تابع ہوتے ہیںاوران کی زندگی صرف اسی ایک سبب کے تحت گذرتی ہے۔مولائے کائنات کا ارشاد ہے:

(إن ﷲ رکّب فی الملائکة عقلا ًبلا شهوة،ورکّب فی البهائم شهوةبلاعقل،ورکّب فی بنی آدم کلیهمافمن غلب عقله شهوته فهوخیرمن الملائکة،ومن غلبت شهوته عقله،فهوشرمن البهائم )( ۱ )

''خداوند عالم نے ملائکہ کو صرف عقل دی ہے مگرخواہشات نہیں دیںاورحیوانات

____________________

(۱)وسائل الشیعہ،کتاب الجھاد:جہاد النفس باب ۹ح۲۔

۲۲

کو خواہشات دی ہیں مگر عقل سے نہیں نوازا ،مگر اولاد آدم میں یہ دونوںچیزیں ایک ساتھ رکھی ہیں لہٰذا جسکی عقل اس کی خواہشوں پر غالب آجائے وہ ملائکہ سے بہتر ہے اور جس کی خواہشیں اسکی عقل پر غلبہ حاصل کرلیں وہ حیوانات سے بدتر ہے ''

خواہشات کی شدت اورکمزوری

اسلامی تہذیب کاایک اہم مسئلہ خواہشات کی شدت اورکمزوری کا بھی ہے۔کیونکہ عین ممکن ہے کہ کوئی خواہش نہایت مختصر اور کم ہواور ممکن ہے کہ بعض خواہشات بھڑک کرشدت اختیار کرلیں ۔ چنانچہ اگر یہ مختصر ہوگی تو اس پر عقل حاکم ہوگی اور آدمی ،انسان کامل بن جائے گا اوراگر یہی خواہشات شدت اختیار کرلیں تو پھر ان کا تسلط قائم ہوجاتا ہے اور انسان،حیوانیت کی اس پستی میں پہنچ جاتا ہے جہاں صرف اور صرف خواہشات کا راج ہوتاہے اور عقل وشعور نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔

انسان چاہے اس حالت کے ماتحت ہو یا اس حالت کے ماتحت ہو ہرصورت میں خواہشات کی کمی یا زیادتی کا دارومدار خود انسان کے اوپر ہی ہوتا ہے کہ جب وہ خواہشات کا تابع ہوتاہے اور ان کے تمام مطالبات کو پورا کرتاہے تو خواہشات اور بھڑک اٹھتی ہیں اور انسان کو مکمل طور پر اپنا اسیر بنالیتی ہیںاور انسانی زندگی میں ایک مضبوط قوت کے روپ میں ابھرتی ہیں اور انسان کی زندگی میں ان کاکردار بہت اہم ہوتا ہے۔

اوراسی کے برعکس جب انسان اپنی خواہشات پرپابندی لگاتارہے اوران کوہمیشہ حداعتدال میں رکھے اور خواہشات پرانسان کا غلبہ ہواور وہ عقل کے ماتحت ہوں تو پھر اسکی خواہشات ضعیف ہوجاتی ہیں اور انکا زور گھٹ جاتاہے ۔

ایک متقی کے اندر بھی وہی خواہشات ہوتے ہیں جو دوسروں کے اندر پائے جاتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ متقی افراد خواہشات کو اپنی عقل و فہم کے ذریعہ اپنے قابو میں رکھتے ہیں جبکہ بے عمل افرادپر ان کے خواہشات حاکم ہوتے ہیں اورخواہشات ان کو قابو میںکرلیتے ہیں۔ اس دور اہے پر انسان کوکوئی ایک راستہ منتخب کرناہے وہ جسے چاہے اختیار کرے۔ خواہشات کو کچل کر ان کا مالک ومختا ر بن جائے یا انکی پیروی کرکے ان کاغلام ہوجائے۔

۲۳

آئندہ صفحات میں ہم خواہشات پرغلبہ حاصل کرنے کے کچھ طریقے ذکر کریںگے لیکن فی الحال آیات وروایات کی روشنی میں ان باتوں کا تذکرہ کر رہے ہیں جن سے خواہشات کی کمزوری یاشدت اور ان صفات کے اسباب کا علم حاصل ہوتاہے۔

سب سے پہلے قرآن کریم کی آیات ملاحظہ فرمائیں۔ﷲتعالیٰ ارشادفرماتاہے:

( ولکن ﷲ حبَّب لیکم الایمان وزیَّنه فی قلوبکم وکَرَّه إلیکم الکفروالفسوق والعصیان ) ( ۱ )

''لیکن خدا نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیا ہے اور کفر،فسق اور معصیت کو تمہارے لئے ناپسندیدہ قرار دیدیا ہے ''

فسوق (برائی) کی یہ نفرت خداوند عالم نے مومنین کے دلوں میں پیداکی اور اہل تقویٰ اس سے ہمیشہ متنفر رہتے ہیںمگرفاسقین اس پرلڑنے مرنے کو تیار رہتے ہیں اسکے واسطے جان توڑ کوشش کرتے ہیں اور اس کی راہ میں بیش قیمت اشیاء کو قربان کردیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کس ذات نے اس برائی کو مومنین کی نظروں میں قابل نفرت بنادیا؟ کون ہے جس نے فاسقوں کی نگاہ میں اسے محبوب بنادیا؟یقینا خدا وند عالم ہی نے مومنین کو اس سے متنفر کیا ہے۔کیونکہ مومن کا دل خداکے قبضۂ قدرت میں رہتا ہے لیکن برائیوں کو فاسقوں کیلئے پسندیدہ بنانے والی چیز خود ان برائیوں اور خواہشات کی تکمیل نیزان کوہرقیمت پر انجام دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جسکی بناپر وہ ان کی

____________________

(۱)سورئہ حجرات آیت۷۔

۲۴

من پسند چیز بن جاتی ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے:

(المداومة علیٰ الخیرکراهیة الشر )( ۱ )

''کار خیر کی پابند ی برائیوں سے بیزار و متنفر کرتی ہے''

یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اگر مسلسل کا رخیر کی پابندی کی جاتی رہے تو خود بخود شر اور برائی سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے شر سے مراد انسان کی وہ خواہشات اور لذتیں ہیںجن کے پیچھے لوگ دوڑتے رہتے ہیں۔ یعنی فاسق اور گمراہ لوگ انھیں حرام خواہشات ولذائذ کے متلاشی رہتے ہیں۔

اس کے برعکس ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح کارخیرکی پابندی کے باعث برائی سے نفرت ہوجاتی ہے اسی طر ح یہ بھی ایک فطری بات ہے کہ''برائیوں کی پابندی سے برائیوں کی محبت پیدا ہوجاتی ہے''

خطبہ متقین جو خطبہ ہمام کے نام سے مشہور ہے اس میں امیر المومنین کا یہ ارشاد ہے: (تراه قریباًأمله،قلیلاًزلَله،خاشعاًقلبه،قانعةنفسه،منزوراًأکله،سهلاًأمره، حریزاًدینه،میتةً شهوته،مکظوماًغیظه )( ۲ ) '' متقین کی پہچان یہ ہے کہ ان کی آرزوئیں بہت مختصر ،لغزشیںکم،دل خاشع،نفس قانع، غذا معمولی،معاملات آسان،دین محفوظ ،خواہشات مردہ اور غیظ و غضب اور غصہ ٹھنڈارہتاہے''

بیشک تقویٰ شہوات اور خواہشات کو مختصر اور سادہ بنا دیتا ہے جسکے نتیجہ میں حریص اور لالچی نفوس بھی متقی اور قانع ہو جاتے ہیںاور انکی خواہشات گھٹ کر گویا مردہ ہوجاتی ہیں۔

البتہ اس طرح کی روایات نقل کرنے سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ تقویٰ ،خواہشات کو لگام

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۷۔

(۲)نہج البلا غہ خطبہ ۹۵(ہمام)

۲۵

لگاکر ایک دم روک دیتا ہے( اگر چہ یہ بات اپنی جگہ پر کسی حد تک درست ہے )۔بلکہ نفس کے اوپر تقویٰ کا دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہشات کو بہت ہی ہلکا اور سادہ بنادیتا ہے اور اسی مقصد کے تحت ہم نے مذکورہ روایات بیان کی ہیں اب حضرت علی سے مروی مندرجہ ذیل روایات ملاحظہ فرمائیں جنہیں ہم بغیر کسی تبصرہ کے پیش کررہے ہیں:

(کلما قویت الحکمة،ضعفت الشهوة )( ۱ )

''جس قدر حکمت قوی ہوگی خواہش اتنی ہی کمزور ہوجائے گی''

(اذاکثرت المقدرة قلت الشهوة )( ۲ )

''جب قدرت زیادہ ہوگی تو شہوت کم ہوجائے گی''

(العفة تضعف الشهوة )( ۳ )

''عفت اور پاکدامنی شہوت کو کمزور بنادیتی ہے''

(من اشتاق الیٰ الجنة سلا من الشهوات )( ۴ )

''جو جنت کا مشتاق ہوا وہ خواہشات سے بری ہوگیا ''

(واذکرمع کل لذة زوالها،ومع کل نعمة انتقالها،ومع کل بلیة کشفها فن ذلک أبقیٰ للنعمة،وأنقیٰ للشهوة،وأذهب للبطر،وأقرب للفرج، وأجد ر بکشف الغمةودرک المأمول )( ۵ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۱۱۔

(۲)بحار الانوار ج۷۲ص۶۸ونہج البلاغہ حکمت ۲۴۴۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۱۱۸۔

(۴)نہج البلاغہ حکمت ۳۱۔

(۵)غررالحکم۔

۲۶

''ہر لذت کے ساتھ اسکے زوال پر، ہر نعمت کے ساتھ اسکے منتقل ہونے اورہر بلاکے ساتھ اسکے رفع ہونے پر بھی نظر رکھو کیونکہ یہ نعمت کو تادیر باقی رہنے، شہوت کو صاف و پاکیزہ بنانے ،نعمت پر اترانے اور اسکی ناشکری کو ختم کرنے ،آسانی اور کشادگی کو قریب کرنے ،مشکلات اور پیچیدگیوں کودور کرنے نیزآرزووں کی تکمیل کے لئے سب سے زیادہ مناسب ہے۔''

تقویٰ اورضبط نفس کاتسلط انسانی خواہشات اور آرزووں پر اس حد تک ہوتا ہے کہ وہ انسانی خواہشات کو حدود الٰہیہ کے سانچہ میں ڈھال دیتے ہیں جسکے بعد انسان صرف وہی چاہتااور پسند کرتا ہے جو خداوند عالم پسند کرتا ہے اور صرف اسی سے نفرت اور کراہت محسوس کرتا ہے جس سے خداوندعالم نفرت کرتاہے اور یہ انسانی نفس اور حدود الٰہیہ کے آپسی رابطہ کی آخری حد ہے اسی عجیب و غریب انقلاب کی طرف اس آیۂ کریمہ نے اشارہ کیا ہے :

(وکرَّه لیکم الکفر والفسوق والعصیان )( ۱ )

''اور کفر،فسق اور معصیت کو تمہارے لئے ناپسندیدہ قرار دیدیا ہے ''

اس مرحلہ میں تقویٰ کاانسان پر صرف یہی اثر نہیںہوتا ہے کہ وہ کفر،فسق وفجور اور گناہ سے دوررہتا ہے بلکہ تقویٰ انسان کو ان باتوں سے متنفر بھی کردیتا ہے۔

انسانی زندگی میں خواہشات کا مثبت کردار

انسانی زندگی میں اسکی خواہشوں کی تباہ کاریوں کو دیکھنے کے بعد ہر انسان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ان کی اتنی تباہ کاریوںکے باوجودبھی خداوند عالم نے انسان کے اندر ان خواہشات کو کیوں پیدا کیا ہے؟اور ان کاکیا فائدہ ہے ان میںایساکونسا مثبت پہلو پایاجاتا ہے جسکی بناپر انہیں خلق کیا گیا ہے؟اگر چہ آئندہ ہم خواہشات کی تباہ کاریوں اور اسکے منفی اثرات کا جائزہ لیں گے

____________________

(۱)سورئہ حجرات آیت۷۔

۲۷

لیکن فی الحال اسکے مثبت اثرات اور فوائد کا تذکرہ کررہے ہیں۔

۱۔انسانی زندگی کا سب سے طاقتور محرک

انسانی خواہشات اس کی زندگی میں سب سے بڑا محرک ہیں کیونکہ ﷲ تعالیٰ نے حیات انسانی کے اہم ترین پہلوئوں کو انہیں خواہشات سے جوڑدیا ہے اوریہی خواہشات اسکی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کی ضامن ہیں۔

جیسے تولیدنسل، انسانی زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر انسان صفحہ ہستی سے نابود ہوکر رہ جائے گا۔لہٰذا افزائش نسل اوراسکی بقاکے لئے کوئی ایساذریعہ یا جذبہ در کار تھا جسکی بنا پر نسل انسانی باقی رہے۔چنانچہ اس اہم مسئلہ کو خداوند عالم نے جنسی خواہشات سے جوڑکر بقائے انسانیت کا سامان فراہم کردیا۔

اسی طرح جسمانی نشوونما کو کھانے پینے سے جوڑ دیا اگر آب ودانہ کی یہ خواہش نہ ہوتو انسانی جسم نمو نہیں پاسکتا اور مسلسل جد و جہد کی وجہ سے اسکے بدن میں جو کمزوری پیدا ہوجاتی ہے اس کی کمی پوری نہیں ہوسکتی تھی اور اسکے بدن میں جو خلیے مردہ ہوجاتے ہیں ان کی جگہ زندہ خلیے حاصل نہ ہوپاتے۔

اسی طرح خدا وند عالم نے اجتماعی زندگی کے لئے نفس میں سماج کی جانب رغبت اوررجحان کا جذبہ رکھا ہے اگر یہ جذبہ نہ ہوتاتو سماجی زندگی انتشار کا شکار ہوجاتی اور انسانی تہذیب و تمدن تارتار ہوجاتا۔

انسانی زندگی کے اقتصادی اور معاشی حصہ میں ملکیت اورمالکیت کا جذبہ کا رفرما رکھا ہے۔ اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو پھر اقتصادی نظام بالکل برباد ہوجاتا ۔

جان ،مال،ناموس اورعزت و آبرو کے تحفظ کیلئے قوت غضب رکھی گئی ہے اگر انسان کے اندر یہ قوت نہ رہے تو پھر ہر سمت دشمنی کارواج ہوگا اور کہیںبھی امن وامان کا نام ونشان باقی نہ رہے گا

اسی طرح انسان کے وہ دوسرے تمام ضروریات جن کے بغیر اسکے لئے روئے زمین پر زندگی گذار ناممکن نہیںہے ان کے لئے بھی خداوند عالم نے کوئی نہ کوئی جذبہ اور خواہش ضرور رکھی ہے اور اسی خواہش کے ذریعہ ان ضروریات کی فراہمی کا انتظام کیا ہے۔

۲۸

۲۔خواہشات ترقی کا زینہ

خواہشات انسانی زندگی میں ترقی کا زینہ ہیںاسی کے ساتھ یہ وہ پھسلن بھرا راستہ بھی ہے جس پر چل کرانسان پستیوں میںبھی پہنچ سکتا ہے۔اوراسی زینہ کے ذریعہ خدا تک بھی پہونچ سکتا ہے یہی زینہ انسان کی ترقی اور تکامل میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جسکی تفصیل کچھ یوں ہے۔

قرب خدا کی جانب انسان کا سفر اور اسی طرح انسان کی نشو ونما کادارو مداراس کے ''ارادہ''پر ہے جبکہ جمادات ،حیوانات اورنباتات کی نشو و نما اور ان کاتکاملی سفر ایک فطری اور قہری انداز میں انجام پاتاہے۔اور اس میں ان کے کسی ارادہ کا دخل نہیں ہوتا ہے لیکن انسان کو خداوند عالم نے ''ارادہ''کے ذریعہ یہ خاص شرف بخشا ہے کہ اس کی ہر حرکت ،ہر کام اسکے اپنے ارادہ واختیار کے تحت انجام پاتاہے ۔ انسان اور کائنات کی دوسری تمام اشیاء مشیت وارادہ ٔ الٰہی کے تابع ہیں اس اعتبار سے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے فرق صرف اتنا ساہے کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ مشیت الٰہی کا تابع ہوتا ہے اوربقیہ کا ئنات فطری اورقہری طور پر یعنی اپنے ارادہ و اختیار کے بغیر مشیت الٰہی کے مطابق چلتی رہتی ہے۔

احکام الٰہی در اصل خدا کی مشیت اور اس کے ارادہ کا مظہر ہیں جن پر بندہ اپنے اختیار سے چلتا ہے اسی طرح سنن الٰہی بھی مشیت و ارادہ الٰہی کامظہر ہیں جن پر جمادات نباتا ت اور حیوانات اپنے ارادہ و اختیار کے بغیر رواں دواں ہیں۔

اسی لئے انسان کو قرآن مجید میں:(خلیفة ﷲ)قرار دیا گیاہے( ۱ ) اور اسکے علاوہ پوری کائنات کو (مسخرات بأ مرہ)''اسکے حکم کی تابع ''کہا گیا ہے۔( ۲ )

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت۳۰۔

(۲)سورئہ اعراف آیت ۵۴وسورئہ نحل آیت ۱۲و۷۹۔

۲۹

خلافت اور تسخیر کے درمیان ایک چیز مشترک ہے اور ایک لحاظ سے ان کے درمیان اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ ان کا مشترک پہلو یہ ہے کہ دونوں ہی مشیت و ارادئہ الٰہی کے تابع اور مطیع ہیں البتہ اس لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں کہ خلیفہ خدا (انسان)اپنے ارادہ و اختیار سے حکم الٰہی کی پابندی کرتا ہے اور(والمسخرات بامرہ) تقریباًمشینی اندا ز میں اپنے کسی ارادہ و اختیار کے بغیر حکم خدا پر چلتے رہتے ہیں۔

اور یہی نکتہ انسان کی عظمت و بلندی کا راز ہے کیونکہ اگر وہ بھی اپنے قصد و ارادہ سے خداوند عالم کی اطاعت نہ کرتااور مجبور ہوتا تو پھر اسکے اور بقیہ پوری کائنات کے عمل میں کوئی فرق نہ ہوتااور اس کے عمل کو کسی قسم کا امتیاز یا برتری حاصل نہ ہوتی۔

اسی ارادی اور اختیاری اطاعت نے دیگر مخلوقات کے مقابل انسان کوخلافت الٰہیہ کا اہل بنایا ہے اور اسی بناء پر اسکے ہر عمل کی قدروقیمت بھی اسکی محنت و مشقت کے متناسب ہوتی ہے۔

چونکہ ارادی عمل میں جسمانی زحمت کے ساتھ نفسیاتی اور روحانی زحمت ومشقت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے لہٰذاخدا کے نزدیک اس عمل کی قدروقیمت زیادہ ہونی ہی چاہئے ۔ارادی عمل سے پیدا ہونے والی حرکت میں سرعت و استحکام بھی زیادہ ہونا چاہئے لہٰذا یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ ایک انسان تو کسی عمل کیلئے باقاعدہ زحمتیں اٹھائے اور دوسرا شخص بغیر کسی مشقت کے کوئی عمل انجام دے اور قدرو قیمت کے اعتبار سے دونوں برابر قرار د یدئے جائیں ۔

جیسے'' کھانے پینے'' اور'' روزہ رکھنے'' کے درمیان زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے جبکہ چاہے کھانا پینا ہو اور یا روزہ ہو یہ سب اعمال قصد وارادہ اور حکم الٰہی کی اطاعت کے جذبہ سے انجام پاتے ہیں لیکن کھانے پینے میں چونکہ انسان کے ارادہ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا اور اس میں اسے کسی قسم کی زحمت ومشقت نہیں ہوتی ہے اورچونکہ ہرعمل کی قیمت کا اندازہ اس عمل کی راہ میں ہونے والی اس محنت و مشقت کو دیکھکر لگایا جاتا ہے جو اس عمل کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے درکار ہوتی ہے اور کیونکہ کھانے پینے میں ایسی کوئی خاص زحمت نہیں ہے لہٰذاروزہ کے برخلاف اس عمل کی کوئی خاص اہمیت بھی نہیں ہے۔

جس عمل میں زحمت و مشقت کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی اس عمل کی قدروقیمت بھی اسی اعتبار سے بڑھتی رہے گی۔اور ایسا عمل انسانی ترقی اور قرب الٰہی کے سفر میں زیادہ اہمیت کا حامل ہوتاہے ۔ لہٰذا اصل حیثیت عمل پر صرف ہونے والی محنت ومشقت کی ہے اور اگر یہ محنت و مشقت نہ ہو تو پھر عمل بالکل بے قیمت ہوکر رہ جاتاہے۔

۳۰

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ زحمت ومشقت کیا ہے؟یہ کیسے حاصل ہوتی ہے؟اور اسکے درجات مختلف کیوں ہوتے ہیں؟

اس زحمت و مشقت کودینی اصطلاح میں''ابتلا''یعنی امتحان اور آزمائش کہا جاتا ہے اور یہ زحمت و مشقت خواہشات اور آرزووںکے وقت ظاہرہوتی ہے کیونکہ اگر ہمارے وجود میں خداوند عالم کی ودیعت کردہ یہ خواہشات نہ ہوتیں یا اسی طرح ان خواہشات کی مخالفت کے بغیر اطاعت ممکن ہوتی تو پھر ہمارے کسی عمل کی کوئی قیمت باقی نہ رہ جاتی اور کوئی عمل بھی قرب الٰہی کا ذریعہ نہیں بن سکتاتھا۔

اس ابتلاء اور مشقت کے درجات میں تفاوت در اصل خواہشات اور آرزووں کی شدت و ضعف یاکمی وزیادتی کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ خواہشات جتنی زیادہ طاقتور ہونگی ان پر قابو پانے کیلئے انسان کو اتنی ہی مشقت اٹھا ناپڑے گی( ۱ ) اور عمل کو انجام دینے کیلئے خواہشات نفس کی جتنی زیادہ مخالفت درکارہوتی ہے وہ عمل قرب خداکیلئے اتنا ہی بیش قیمت ہوتاہے اور اسی کے مطابق خداوندعالم اسے جنت میں ثواب عنایت فرما تاہے ۔

____________________

(۱)خواہشات کے بارے میں اسلام کا نظریۂ اعتدال واضح ہے اوراسے تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔مختصر یہ کہ:

اسلام نہ تومکمل طورپر خواہشات کا گلا گھو ٹنے کی اجازت دیتاہے اور نہ وہ انھیں مطلق العنا ن چھوڑنے کاقائل ہے بلکہ اسلام کا ہر انسان سے صرف اتنا مطالبہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو شرعی احکام کے دائر ہ میں پورا کرتا رہے ۔

۳۱

اس وضاحت کے بعد بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ اپنے پروردگار کی جانب انسان کے ارتقائی سفر میں خواہشات کی کیا قدر وقیمت ہے کیونکہ قرب الٰہی کے ہر راہرو کو خواہشات اور آرزووںکے اس دلدل سے گذرناپڑے گاجسے خداوندعا لم نے ہر انسان کے وجود کا حصہ قرار دیا ہے ۔

اس وضاحت سے یہ نتیجہ اخذ ہوتاہے کہ جسطرح خواہشات پستی اور ہلاکت کا باعث ہیںاسی طرح خداوندعالم تک پہونچنے کا زینہ بھی ہیں یہ نظریہ اسلامی فکر کی امتیازی جدت کا ایک نمونہ ہے ۔

جس کی طرف متعدد روایات میں اشارہ پایاجا تا ہے مگرہم اس مقام پر بطور نمونہ صرف دوروایات ذکر کر رہے ہیں :

۱۔(عن أبی البجیر،وکان من أصحاب النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال:اصاب النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یومًاجوع شدید،فوضع حجراً علیٰ بطنه ثم قال:''ألارُبَّ طاعمة،ناعمة،فی الدنیاجائعة،عاریةیوم القیامة،ألارُبَّ مکرم لنفسه،وهولها مهین،ألاربّ مهین لنفسه،وهولها مکرم،ألا یارب متخوض،متنعم،فیما أفاء ﷲعلیٰ رسوله،ماله عندﷲ من خلاق،ألاون''عمل الجنة''حَزْنة بربوة، ألاون'' عملالنار''سهلة بشهوة،ألایارب شهوة ساعةٍأورثت حزناًطویلا )( ۱ )

''پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی ابی بجیر کا بیان ہے کہ ایک روز آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوبے حد بھوک لگی تھی تو آپ نے اپنے شکم مبارک پر پتھر رکھ لیا اور فرمایا :

نعمتوں کے خواہشمندکتنے ایسے افرادہیںجنہیں دنیا میں نعمتیں مل جاتی ہیں لیکن وہ قیامت کے دن بھوکے اور برہنہ ہونگے یا د رکھو! بظاہراپنے نفس کی عزت کرنے والے نہ جانے کتنے لوگ خودنفس کی توہین کرتے ہیں ۔اور نفس کو رسوا کرنے والے کتنے افراد ہیں جو دراصل نفس کی عزت

____________________

(۱)ذم الہویٰ لا بن الجوزی ص۳۸۔

۳۲

افزائی کرتے ہیں۔یاد رکھو! کتنے لوگ ان نعمتوں سے سرشار ہیںجو خداوندعالم نے اپنے رسول کو عنایت فرمائی ہیں مگر خدا کے نزدیک ان کا کوئی مرتبہ نہیں ہے یادرکھو !کہ جنت والا عمل ''حزنہ بربوة' ( نا ہموار پہا ڑی پر چڑھنے کے مثل )ہے اور جہنمی اعمال خواہشات کے عین مطابق او ر آسان ہیں یا د رکھو! بسا اوقات ایک ساعت کی شہوت ،طویل حزن و ملال کاسبب ہوتی ہے۔''

اس روایت میں متعدد قابل توجہ فکر انگیز نکات پائے جاتے ہیں جن سے بیحد مفید نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں جیسے کتنے نفس ایسے ہیں کہ جب انہیں کسی چیز کی خواہش ہوتی ہے تو انہیں وہ نعمت مل جاتی ہے مگر وہ اپنی خواہشات کی بناء پر حرام وحلال کی کوئی فکر نہیں کرتے ۔۔۔ایسے لوگ روز قیامت بھوکے اوربرہنہ لائے جائیں گے۔

اور اسی طرح بعض اپنی خواہشات اور آرزووں کو پورا کرنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس طرح اپنے نفس کی عزت و احترام میں اضافہ کررہے ہیں جب کہ در حقیقت وہ نفس کی توہین کرکے اسے تکلیف پہنچا رہے ہیں۔

کچھ لوگ اپنے نفس کے ساتھ شدت اور سختی سے پیش آتے ہیں اورجب وہ کسی شہوت اور خواہش کی طرف آگے بڑھناچاہتاہے تو صرف اسے روکتے ہی نہیں بلکہ اسکے ساتھ ساتھ اسکی توہین و تذلیل بھی کرتے ہیںیہ عمل در حقیقت اپنے نفس کی عزت افزائی اور احترام ہے۔

اور کچھ ایسے ہیں جو بالکل اندھا دھنداپنی خواہشات میں ڈوبے رہتے ہیں انھیںصرف دنیاوی لذت سے مطلب ہے ایسے لوگوں کو آخرت میں کچھ ہاتھ آنے والانہیں ہے۔یہ لوگ آخرت کی نعمتوں سے محروم رہیں گے۔

حدیث کے ان الفاظ پرمزید توجہ فرمائیں :

(ألا ون عمل الجنةحَزْنة بربوة )

''حزنة ربو ة'' والاعمل جنت میں لے جاتا ہے۔''

۳۳

''حزنہ'' ناہموار پتھریلی زمین اور'' ربوة'' اس پر چلنے کو کہا جاتا ہے۔جو شخص ناہمواراور پتھریلی پہاڑیوں پر چڑھتا ہے اسکا سانس پھول جاتا ہے اور ہمت جواب دینے لگتی ہے اور آخری منزل تک پہنچنے تک اسکو بیحد مشقتوں کا سامنا کر نا پڑتاہے جیسے دریا کے بہائو کے خلاف تیرنے میں انسان کی ہمت جواب دینے لگتی ہے لیکن ہموار راستہ پر چلنا یا دریا کے رخ کے مطابق تیرنا نہایت ہی آسان کام ہے یہی حال جنت اور جہنم کے اعمال یعنی اطاعت و معصیت کا بھی ہے کہ گناہ کرتے وقت تو انسان آسانی کے ساتھ خواہشات کے بہائو میں بہتا رہتا ہے لیکن اطاعت خدا کرتے وقت اسے اپنے نفس کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرناپڑتا ہے۔

۲۔ نہج البلاغہ میں منقول ہے کہ مولائے کائنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کایہ قول نقل کیا ہے کہ رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم برابر یہ فرمایا کرتے تھے:

(ن الجنةحفت بالمکاره،ون النارحفت بالشهوات،واعلموا:نه مامن طاعة ﷲ شیٔ لایأتی فی کره،وما من معصیة ﷲ شیٔ لایاتی فی شهوة،فرحم ﷲامرأً نزع نفسه عن شهوته،وقمع هویٰ نفسه،فن هذه النفس أبعد شی منزعا،ونها لاتزال تنزع لی معصیة فی هویٰ )( ۱ )

'' جنت کے چاروں طرف مشکلات اور زحمتوں کا حصار ہے اور جہنم کے چاروں طرف شہوتوں (خواہشات )کا گھرائو ہے اور یہ یاد رکھو کہ خدا کی کوئی اطاعت ایسی نہیں ہے جس میں کچھ نہ کچھ زحمت اور ناگواری کا پہلو نہ ہو اور اسکی کوئی معصیت ایسی نہیں ہے جس میں شہوت اور ہوی ٰوہوس شامل نہ ہو۔ ﷲ اس بندے پر رحمت نازل کرے جو اپنے نفس کو ہویٰ وہوس سے دور کرلے اور اپنی ہوس کو بالکل اکھاڑ پھینکے کہ یہ نفس خواہشات میں بہت دور تک کھینچ لے جانے والا ہے اور ہمیشہ

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ۱۷۶

۳۴

گناہوں کی خواہش کی طرف ہی کھنچتا رہتا ہے''

یہ حدیث ہمارے اس نتیجہ کی بہترین دلیل ہے جسے ہم نے روایات سے اخذ کرکے یہاںپیش کیا ہے کیونکہ جنت و جہنم ہی ہر انسان کی آخری منزل ہے جوانسان خداوند عالم کی طرف محوحرکت ہے وہ جنت میں جائے گا اور جو اسکی نافرمانی کرے گا وہ انتہائی پستیوں میں پہنچ کر جہنم کا نوالہ بن جائے گا۔

جنت کے چاروں طرف مشکلات اور ناگوار یوں کے حصار کا مطلب یہ ہے کہ اس تک پہونچنے کے لئے انسان کو ہر طرح کی مشکلات سے گذر ناپڑتا ہے یعنی خواہشات اور ہوی وہوس پر قابو پانے ،تسلط حاصل کرنے اوراسے کچلنے کے لئے سخت زحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے

جبکہ جہنم کے ہر طرف خواہشات اور ہوی ٰو ہوس کا بسیراہے انسان خواہشات اور ہوی وہوس کے درمیان پھسل کرہی تنزلی اور پستیوں میں مبتلا ہوتا ہے۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث کی روشنی میں امیر المومنین نے ایک عام اصول ہمارے حوالے کردیا ہے:

(مامن طاعة ﷲ شیء لایاتیفی کره ،ومامن معصیة ﷲ شیء لایاتی فی شهوة )

'' ہر اطاعت خدا کے وقت کچھ نہ کچھ ناگواری ضرور محسوس ہوتی ہے اور ہر گناہ میں ہوس کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور پایا جاتا ہے ''

اطاعت الٰہی کرتے وقت نفس کو اسکی خواہشات و لذات اور ہویٰ و ہوس سے دور رکھنے کے لئے انسان کو ناگواری کا احساس ہوتاہے جبکہ وہ گناہوں میں لذت محسوس کرتا ہے کیونکہ اس سے نفس کی ہوس اور خواہشات پوری ہوتی ہیں اور اسے کسی قسم کے اندرونی ٹکرائو کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

ان تمام تفصیلات کے بعد یہ حقیقت بآسانی قبول کی جاسکتی ہے کہ انسان کے لئے خداوندعالم تک پہونچنے کی راہیں خواہشات اور لذتوں کی دشوار گذاروادیوں سے ہوکر ہی گذرتی ہیں اورانسان خواہشات کے زینہ سے ہی ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا خداوند عالم تک پہونچتا ہے۔ اگرانسانی وجود میں یہ خواہشات نہ ہوتیں تو انسان کے لئے اس منزل معراج وکمال تک پہونچنا ہرگز آسان نہ ہوتا جس کااسے اہل قرار دیاگیا ہے۔

۳۵

عمل اور رد عمل کا سلسلہ

خداوند عالم نے انسانی وجود میں خواہشات کو ودیعت فرماکر اسکے لئے درحقیقت ایک ایساذخیرہ فراہم کردیا جس سے انسان اپنی ہر ضرورت پوری کر سکتاہے ۔جیسے پروردگار نے انسان کے لئے زمین کے اندر کھانے پینے اور لباس کی جملہ ضروریات ،سمندروں میں پینے اور سینچائی کے لئے پانی فضا میں ہوا اور سانس کے لئے مختلف اقسام کے ذخائر فراہم کردئیے کہ انسان ان تینوں عناصر سے حسب ضرورت آب و غذایا دوسرے خام مواد حاصل کرتاہے۔اسی طرح خداوند عالم نے ان خواہشات کے ضمن میں نفس انسانی کے اندر علم ومعرفت ،یقین اور بندگی کے خزانے بھی ودیعت فرمائے ہیں۔

نفسانی خواہشات در حقیقت حیوانی وجود کا مقدمہ ہیں اوران خواہشات کا اکثر حصہ حیوانات کے اندر پایا جاتا ہے صرف انسان ایک ایسی مخلوق ہے جسکو خداوند عالم نے ''ارادہ''کے ذریعہ ان خواہشات پرغلبہ حاصل کرنے ،انہیں روکنے یامحدود رکھنے کی صلاحیت بھی عنایت فرمائی ہے اوراسی ارادہ کے ماتحت ہوجانے کے بعد یہ اڑیل اور خود سر حیوانی خصلتیں بھی بہترین روحانی اور اخلاقی فضائل و اقدار ،بصیرت ویقین، عزم واستقلال اور تقوی وپرہیزگاری جیسی حسین شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

وہ خواہشات جن سے انسان کے اندر حیوانی اور جسمانی پہلو کی تشکیل ہوتی ہے یہ جب کنٹرول اور قابو میں رکھنے والے اسباب کے ماتحت آتی ہیں تو اخلاقی اقدار میں تبدیل ہوجاتی ہیںاور وہی خواہشات اس کے ''انسانی''پہلو کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ خود سرحیوانی خواہشات تقویٰ اور پرہیزگاری کے ذریعہ کس طرح ان بلندوبالا انسانی اقدار میں تبدیل ہوتی ہیں اور تقوی و پرہیز گاری کی بنا پر نفس کے اندرکس قسم کے تغیرات اورتبدیلیاںرونماہوتے ہیں جو اس حیوانی خصلت کو علم ویقین اور صبر و بصیرت میں تبدیل کردیتے ہیں؟اسکا جواب ہمیں نہیں معلوم ہے۔

۳۶

بلکہ نہایت افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ ایک تویہ کہ ہمیں یہ بات معلوم نہیں ہے۔ اور مزیدافسوس یہ کہ علم ومعرفت کا یہ وسیع باب انسان کیلئے آج تک نہ کھل سکا اور قدیم وجدیدماہرین نفسیات یہاں تک کہ اسلامیات کے ماہرین میں سے کوئی بھی آج تک اس گتھی کو سلجھا نے میں کامیاب نہیں ہوسکاہے۔

لیکن جب ہم خود اپنے نفس کے اوپر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں اسکے اندربڑے پیمانہ پر رونما ہونے والے عمل اور رد عمل کے سلسلہ کا صاف اشارہ ملتاہے جیسے حیا ئ،جنسی خواہشات پر غلبہ حاصل کرنے کا ''ذریعہ''ہی نہیں ہے بلکہ حیاء ان خواہشات کو کچلنے کا ''نتیجہ''بھی ہے۔چنانچہ انسان ادب،فن اور ذوق کے غیر اخلاقی مواقع پر جس حد تک جنسی خواہشات کو کچلتارہتاہے اس کی حیامیں اتنا ہی اضافہ ہوتاجاتاہے ۔

ادب سے ہمار ی مراد ،ہرگز بدکاری نہیںہے البتہ وہ بلندپایہ ادب ،فن اور ذوق جس کی بناء انسان حیوانیت سے ممتاز ہوتاہے وہ اسی قوت برداشت اور تقوی کی بناء پر حاصل ہوتا ہے۔

اس سلسلہ میں جب ہم قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اسکے اندر بھی ہمیں واضح طورپر اشارے ملتے ہیں جو ہمیںاپنے نفس کے بارے میں غور کرنے سے حاصل ہورہے تھے ۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( واتقواﷲ ویعلمکم ﷲ ) ( ۱ )

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت ۲۸۲۔

۳۷

''یعنی تم پر ہیزگار اور متقی بن جائواور خداوند عالم تم کو دولت علم عطا فرمائے گا''

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس آیت کا دوسرا جملہ( ویعلمکم ﷲ ) پہلے جملہ پر بغیرکسی رابطہ کے عطف کیا گیاہے اوران دونوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ علم و تقویٰ میں گہرا رابطہ ہے اور یہ دونوں جملے در حقیقت ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں ۔ اور ایک ترازو کے دوپلڑوںکی طرح ہیں؟

جو شخص بھی قرآن مجید کے اسلوب سے باخبر ہے وہ اسمیں کوئی شک وشبہ نہیں کرسکتا اوروہ یقینی طورپر جانتاہے کہ یہ دونوں جملے ایک ہی ترازو کے دوپلڑوںکی مانند ہیں۔ خداوند عالم نے اپنے بندوںکے لئے یہاں جس علم کاتذکرہ فرمایا ہے وہ علم تقویٰ کا ہی نتیجہ اور اثر ہے اور یہ علم اس علم سے بالکل مختلف ہے جسے ہم تعلیم کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ علم، نور ہے جو خداوند عالم اپنے جس بندے کو چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے۔

اس نور کی طرف سورئہ حدید کی یہ آیۂ کریمہ بھی اشارہ کر رہی ہے:

( یاأیهاالذین آمنواا تقواﷲ وآمنوابرسوله یؤتکم کفلین من رحمته ویجعل لکم نوراً تمشون به ) ( ۱ )

''ایمان والو ﷲ سے ڈرو اور رسول پر واقعی ایمان لے آو تاکہ خدا تمہیں اپنی رحمت کے دوہرے حصے عطا کردے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دیدے جسکی روشنی میں چل سکو''

اس نور سے مراد علم ہے لہٰذا سورئہ بقرہ اور سورئہ حدید دونوں مقامات پرعلم اور تقویٰ کے درمیان ایک جیسارابطہ پایا جاتا ہے۔

تقویٰ خواہشات کے طوفان کے سامنے بند باندھنے کا نام ہے اور خواہشات کے سامنے

____________________

(۱)سورئہ حدید آیت۲۸۔

۳۸

لگائی جانے والی یہی بندش ایک دن نور علم و بصیرت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

جناب یوسف کے واقعہ کے ذیل میں ارشاد الٰہی ہے :

( ولمابلغ أشده آتیناه حکماً وعلماً وکذٰلک نجزی المحسنین ) ( ۱ )

''اور جب یوسف اپنی جوانی کی عمر کو پہونچے تو ہم نے انہیں حکم اور علم عطا کردیا کہ ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں''

جناب موسیٰ کے قصہ میں بھی بعینہ یہی تذکرہ موجودہے :

( ولمابلغ أشده واستویٰ آتیناه حکماً وعلماً وکذٰلک نجزی المحسنین ) ( ۲ )

''اور جب موسی جوانی کی توانائیوں کو پہونچے اور تندرست ہوگئے تو ہم نے انہیں علم اور حکمت عطا کردی اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں''

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے جناب موسی اور جناب یوسف کو اس خاص انعام سے کیوں نواز ا دوسرے لوگوں کو یہ نعمت کیوں نہیں ملی؟کیاخدا یوں ہی بلاسبب اپنے بعض بندوں کو ایسے اعزاز سے نوازدیتاہے اور دوسروں کو محروم رکھتاہے؟یا ایسا نہیں ہے بلکہ یہ سب تبدیلیاں ثابت واستوار الٰہی سنتوں کے تحت انجام پاتی ہیں۔

جو لوگ قرآنی لہجہ سے واقف ہیں انھیں اس بات میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ نہیں ہوسکتا کہ ان دونوں آیتوں میں علم وحکمت کا تعلق ''احسان ''سے قراردیا گیا ہے۔ ''( وکذٰ لک نجزی المحسنین ) ''اور ہم احسان کرنے والوں کو اسی طرح جزادیاکرتے ہیں''تو جب وہ علم وحکمت جو جناب مو سی اور جناب یوسف کو خدا کی طرف سے عطا کی گئی ہے وہ سنت الٰہی کی بناء پر احسان سے

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت ۲۲

(۲)سورہ قصص آیت ۱۴

۳۹

مربوط ہے تو اسکے معنی یہ ہوئے کہ محسنین اپنے احسان اور حسن عمل کی وجہ سے ہی رحمت الٰہی کے مستحق ہوتے ہیںاور اسی بناء پر ان کو اسکی بارگاہ سے علم وحکمت کی دولت سے نوازا جاتا ہے۔لہٰذا اس استدلال کی درمیانی کڑیوں کو چھوڑتے ہوئے ہم مختصر طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ'' درحقیقت وہ احسان،علم وحکمت میں تبدیل ہوگیا ہے۔''

اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ تقوی اور خواہشات نفس کی مخالفت،احسان کا واضح ترین مصداق ہیں۔

فی الحال ہم اس موضوع کو مزید طول نہیں دے سکتے کیونکہ اس اہم موضوع کے لئے ہمارے پاس مناسب مقدار میں علمی مواد موجودنہیں ہے۔خدا وند عالم سے یہی دعا ہے کہ کوئی ایسا صاحب علم و کمال پیدا ہوجائے جو بہترین انداز سے اس مسئلہ کی گتھیاں سلجھا دے۔ کیونکہ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ نفس کے اندرعمل اور رد عمل کا سلسلہ بالکل اسی طرح رونما ہوتارہتاہے جس طرح فیزکس،کیمسٹری اور زولوجی وغیرہ کے میدانوں میں دکھائی دیتاہے مثلاًحرارت حرکت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور حرکت حرارت میں بدل جاتی ہے یا بجلی کی طاقت حرکت پیدا کردیتی ہے اور اسی حرکت سے بجلی بنائی جاتی ہے بالکل اسی طرح نفس کے اندربھی عمل اور رد عمل کا سلسلہ پایا جاتاہے جسکی طرف قرآن مجید کی بعض آیتوں میں سرسری اشارہ موجود ہے ،لہٰذااسلام سے تعلق رکھنے والے علم النفس کے ماہرین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نفس کے اسرار سے پردہ ہٹاکر ان کے اصول وقوانین کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔

خواہشات کا تخریبی کردار

خواہشات اور طاغوت

انسانی زند گی میںبربادی کاایک مرکز انسانی ہویٰ و ہوس اور خواہشات ہیں اور دوسرا مرکز طاغوت ہے انکے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ ہویٰ وہوس نفس کے اندر رہ کر تخریبی کا رروائی کرتی ہے اور طاغوت یہی کام نفس کے باہرسے انجام دیتا ہے اس طرح یہ دونوں انسان کو فتنہ وفسا داورتباہی کی آگ میں جھونک دیتے ہیں۔بس ان کاانداز جداہوتاہے۔

شیطان ان خواہشات کے ذریعہ انسان کے اندرداخل ہوکر اس پر اپنا قبضہ جما لیتا ہے جبکہ سماج یا معاشرہ اور قوموں کے اوپر طاغوت کے ذریعہ اپنی گرفت مضبوط رکھتا ہے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

اس واقعہ سے جہاں جناب ابوذر رضی اللہ عنہ کی بے مثال محبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پتہ چلتا ہے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوذر(رض) کو آیندہ کے احوال سے باخبر کردیاتھا۔

بشارت جنت:-

حضرت ابوذر(رض) کا شمار ان اصحاب مبشرہ میں ہے جنکو اس دنیا میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت دے دی ۔مروی ہے کہ ایک دن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد قبا میں تشریف فرماتھے اور آپ کےگرد بہت سے اصحاب حلقہ باندھے بیٹھے تھے ۔آپ نے فرمایا کہ جو شخص سب سے پہلے اس مسجد کے دروازہ سے داخل مسجد ہوگا وہ اہل بہشت سے ہوگا ۔یہ سنکر چند اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس سے اٹھ کر باہر چلے گئے تاکہ داخل مسجد ہونے میں سبقت کریں ۔ اصحاب کے اس عمل پر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ اب بہت سے لوگ داخل ہونے میں ایک دوسرے پر سبقت کریں گے اور مسجد میں داخل ہوں گے ان میں سے جو کوئی مجھے "ماہ ذر" کے ختم ہوجانے سے مطلع کرے وہ اہل بہشت سے ہوگا ۔تھوڑی دیر کے بعد وہ لوگ داخل مسجد ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ یہ بتاؤ یہ مہینہ رومی مہینوں میں سے کونسا ہے ۔ان لوگوں میں حضرت ابوذر بھی تھے جو تنہا باہر سے آنے والوں میں صحیح آنے والے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس سوال پر تمام لوگ لاجواب رہے لیکن حضرت ابوذر نے کہا کہ مولا ماہ آذر (چیت)ختم ہوچکا ہے ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے لیکن میں یہ ظاہر کرنے کے لئے تم سے سوال کیا ہے کہ لوگ سمجھ لیں کہ تم اہل بہشت سے ہو ۔

۱۰۱

ابے ابوذر(رض) تم کو میرے اہل بیت علیھم السلام کی دوستی میں حرم سے نکا لا جائے گا ۔تم عالم غربت میں زندگی بسر کروگے اور عالم تنہائی میں دنیا سے اٹھوگے تمہاری تجہیز وتکفین کی وجہ اہل عراق کا ایک گروہ سعادت حاصل کرے گا اور اہل بہشت میں میرے ہمراہ ہوگا ۔

محافظ شیر:-

تفسیر امام حسن العسکری علیہ السلام میں ہے کہ حضرت ابوذر (رض) خاصان خدا اور مقرّبین اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تھے ایک دن خدمت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے پاس ساٹھ گوسفند ہیں جن کی مجھے حفاظت کرنی پڑی ہے مگر میرادل یہ گوارہ نہیں کرتا کہ میرے یہ لمحات صحبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خالی رہیں ۔حضور نے فرمایا ابوذر تم واپس اپنے مقام پر جاکر ان گوسفندوں کا بندوبست کرو۔حکم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ملتے ہی واپس آئے ۔ایک روز مشغول نماز تھے کہ ایک بھیڑیا آگیا دل میں سوچا کہ نماز تمام کرلوں یا اپنے جانوروں کی حفاظت کروں خیال میں فیصلہ کیا ک گوسفند جاتے ہیں تو جاتے رہیں نماز تو پوری کرلو ۔مگر ساتھ ہی شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ اگر بھیڑئیے نے سارے جانور ہلاک کردئیے تو پھر کیا بنے گا مگر فورا ہی جذبہ ایمان بولا کہ خداکی توحید ،محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور علی علیہ السلام کی ولایت جیسی دولت جس کے پاس ہو اس کو اور کیاچاہیئے ۔ گوسفند جاتے ہیں تو جاتے رہیں ۔ نماز کیوں جائے ۔لہذا صمیم قلبی سے نماز میں مشغول رہے ،بھیڑیا آیا اور اس نے پہلا حملہ کیا کہ ایک بچہ لے چلا ۔ابھی وہ چند قدم ہی گیا ہوگا کہ ایک شیر نمودار ہوا اور اس نے بھیڑئیے کو ہلاک کردیا اور گوسفند کے بچے کو اس سے چھین کر گلہ میں پہنچادیا ۔ ت=پھرامر ربی سےگویا ہوا ۔

"ابے ابوذر(رض) !تم اپنی نماز میں مشغول رہو ۔حق تعالی نے مجھے

۱۰۲

تمھارے گوسفندوں پر مؤکل کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ جب تک تم نماز سے فارغ نہ ہوجاؤ میں تمہارے گوسفندوں کی حفاظت کرتا رہوں "۔

پس جناب ابوذر(رض) نے کمال آداب وشرائط سے نماز قائم کی جب نماز سے فراغت پائی تو شیر حضرت ابوذر(رض) کے قریب آیا اور اس نے پیغام دیا کہ اے ابوذر (رض) بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوکر اطلاع کردو کہ اللہ نے ان کے صحابی کے لئے اس کے گوسفندوں کی حفاظت پر شیر کو مقرر کردیا ہے ۔جناب ابوذر خدمت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں آئے اور یہ واقعہ سنایا حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ سنکر ارشاد فرمایا کہ اے ابوذر(رض) تم بالکل سچ کہتے ہو ۔میں (محمد)صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،علی علیہ السلام،فاطمہ سلام اللہ علیہا ، حسن اور حسین علیھما السلام تمھاری تصدیق کرتے ہیں اس کے بعد ابوذر (رض) واپس ہوئے ۔

اس واقعہ کے بعد کچھ کج عقیدہ اور ناقص الایمان لوگوں کو اعتبار نہ آیا آپس میں چہ مے گوئیاں شروع کردیں کچھ نے امتحان کی ٹھان لی ۔ایک دن چپکے سے اس جگہ آپہنچے جہاں ابوذر(رض) اپنے جانوروں کو چرا رہے تھے چنانچہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ نماز کے وقت شیر ان گوسفندوں کی حفاظت کرتا تھا اور اگر کوئی جانور گلہ سے جدا ہوتا تو وہ شیر اسے اندر داخل کرلیتا جب حضرت ابوذر(رض) نماز ختم کرچکے تو شیر نے مخاطب ہوکر کہا کہ اپنے جانور پورے کرلو میں نے ان کی حفاظت میں کوتاہی نہیں کی ہے ۔اس کے بعد وہ شیر ان چھپے ہوئے منافقوں سے متوجہ ہو کر بولا ۔

"اے گروہ منافقین! کیاتم اس امر سے انکار کرتے ہو کہ خدا نے مجھے اس شخص کے گوسفندوں کے لئے مؤکل فرمایا ہے جو حضرت

۱۰۳

محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی آل علیھم السلام کا دوست ہے اور تقرب خداوندی کے لئے ان ہی بزرگوں کا وسیلہ ڈھونڈتا ہے میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس نے محمد اور آل محمد علیھم السلام کو گرامی کیا ہے کہ خداوند قدیر نے مجھے ابوذر کا تابع فرمان اور مطیع قرار دیا ہے ۔خبرداررہو اگر ابوذر(رض) اس وقت مجھے حکم دیں کہ میں تم سب کو ہلاک کردوں تو میں بالتحقیق تم لوگوں کو بلا تاخیر پھاڑ کھاؤں "

یہ منظر دیکھ کر ان لوگوں کی جان حلق میں اٹک گئی مگر شیر غائب ہوگیا اور یہ اپنا سامنہ لے کر واپس ہوئے جب پھر ابوذر (رض) بارگاہ رسول میں حاضر ہوئے تو سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

"اے ابوذر (رض)! تم نے اپنے خالق کی اطاعت کے سبب یہ شرف حاصل کرلیا ہے کہ جنگل کے جانور تک تمھارے مطیع کردئیے گئے ہیں ۔ بے شک تم نے اپنے خالق کی اطاعت کے سبب یہ شرف حاصل کرلیا ہے کہ جنگل کے جانور تک تمھارے مطیع کردئیے گئے ہیں ۔بے شک تم ان بندوں میں بڑا مقام رکھتے ہو جن کی تعریف قرآن مجید میں نماز کے قائم رکھنے کے متعلق کی گئی ہے "۔(حیات القلوب )

اسلامی اخلاق وعادات:-

عقل کو اسلام سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے ۔حضرت ابوذر چونکہ مردعاقل تھے لہذا ان کی غیر اسلامی زندگی میں بھی اسلام کی مخالفت نظر نہیں آئی جب وہ پرچم اسلام تلے آگئے تو ایسا معلوم ہوا کہ ما لا کا ایک کھویا ہو ا موتی دوبارہ زینت بننے کے لئے مل گیا ۔تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابو ذر(رض) اسلام لانے کے بعد نکھرتے چلے گئے ہیں ۔ پاکیزگی نفس ،خالص عقیدت،مخلص ایمان ،یقین محکم اور حسن وکمال سیرت کاجو مظاہرہ اس صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے مطالعہ سے ہوتا ہے وہ ممتاز حیثیت رکھتا ہے آپ کی سیرت بابصیرت ہرطبقہ کے لئے مشعل راہ ہے ظہور اسلام کےبعد

۱۰۴

انھوں نے لوگوں کو مواعظ ونصائح سے سیراب فرمایا ۔اخوت ومحبت اور حقیقی مساوات کا سبق سکھایا ۔اطاعت خدا ورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اولی الامر کا راستہ واضح فرمایا ۔اور عقل سلیم کے فلسفہ کو مبرہن طریقوں سے پیش کیا ۔ زہد کا یہ عالم تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا

شبیہ عیسی (ع):-

"ابو ذر (رض) میری امت میں حضرت عیسی علیہ السلام کی زہد میں مثال ہیں " اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ "جو چاہے کہ عیسی علیہ السلام کو زہد وتواضع کو دیکھتے تو وہ ابوذر (رض) کی طرف نگاہ کرے"(ابوذر غفاری ص ۵۷)۔

حضرت ابوذر (رض)فرمایا کرتے تھے کہ دنیا سے سخت بیزار ہوں اور دوٹکڑے روٹی اوردو ٹکڑے کپڑا کے علاوہ کچھ نہیں جانتا روٹی کے ٹکڑے صبح وشام کھانے کے لئے اور کپڑے کے ٹکڑے گردن اور کمر پر باندھنے کے لئے یہ بات آپ (رض) کے زہد کی منزل روشناس کراتی ہے ۔

مورخین اور محدثین کو اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ حضرت ابوذر علم کے عظیم مدارج پر فائز تھے ۔آپ فرماتے ہیں کہ رسول علیمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میرا سینہ علم سےبھرا ہے ۔آپ کہتے ہیں کہ اگر آسمان میں کوئی فرشتہ بھی حرکت کرتا تھا تو اس کے متعلق حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کچھ معلومات حاصل کرلیتا تھا ۔

سید مناظر گیلانی لکھتے ہیں "حیدر کرار علیہ السلام ،افضی الصحابہ وباب العلم کی اس شہادت کو پڑو اور خود غور کرو کہ اگر انھوں نے ایسا فرمایا تو کیا غلط فرمایا ۔فرماتے ہیں ابوذر(رض) سخت حریص اور لالچی تھے ۔لا لچی دین کی پیروی

۱۰۵

کرنے میں اور اس کی باتوں پر عمل کرنے میں اور حریص علم حاصل کرنے میں تھے ۔بہت زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کرتے تھے ۔پھر انھیں کبھی جواب دیا گیا اور کبھی نہیں اس پر بھی ان کا پیمانہ بھر حتی کہ لبریز ہوگیا"

مولا علی باب مدینۃ العلم کی یہ گواہی حضرت ابوذر(رض) کے تبحر علمی کے لئے بہت کافی ہے اور جناب ابوذر(رض) کبھی کبھار جوش میں آکر کہہ جایا کرتے تھے جیسا کہ ابن سعد نے طبقات میں لکھا ۔

"ہم رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے اس وقت بچھڑے ہیں کہ فضاء آسمانی میں بازوہلا کراڑنے والا کوئی پرندہ ایسا نہیں رہ گیا تھا کہ ہمیں اس کے متعلق کوئی خاص بات معلوم نہ ہوئی ہو۔"

حضرت ابوذر(رض)اول درجہ کے محدث تھے فصاحت وبلاغت پر دسترس کامل رکھتے تھے متقی مسلمان کا صحیح نمونہ تھے ۔اسی لیئے لوگوں کے قبلہ بن گئے تھے ۔ایک روز مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور احادیث نبوی کی تعلیم دے تھے کہ ایک شخص نے کہا "کاش ! میں نبی کی زیارت کرتا "ابوذر(رض) نے فرمایا حدیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے کہ میری امت میں سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور کہیں گے کاش! ہم رسول اللہ کو دیکھتے چاہے ان کی اولاد اور مال چھن جائے ۔"

حضرت ابوذر اخلاق کے اعلی منازل ومدارج پر فائز تھے ۔ آپ پر صحبت پیغمبر کا نمایاں رنگ چڑھ چکا تھا اسوہ حسنہ کا جلوہ نظر آتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کردار میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس پر انگشت اعتراض اٹھائی جا سکے ۔آپ کی پوری

۱۰۶

زندگی اخلاق کی بے نظریر مثال ہے ۔حضرت ابوذر تعلیم اخلاق کے مبلغ تھے اور فرماتے تھے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سلسلہ میں سات باتوں کی ہدایت فرمائی ہے ۔

۱:-فقراء ومساکین کو دوست رکھنا اور انھیں اپنے قریب رکھنے کی کوشش کرنا ۔

۲:- اپنے حالات کو سنوارنے کے لئے اپنے سے کم حیثیت کے لوگوں پر نظر رکھنا اور اپنے سے بڑی حیثیت کے لوگوں کی طرف توجہ نہ کرنا ۔

۳:-کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا اور قناعت کو اپنا شعار قراردینا ۔

۴:- صلہ رحم کرنا یعنی اپنے اقرباء کے ساتھ پوری ہمدری کرنا ۔اور ان کے آڑے وقت ان کے کام آنا ۔

۵:- حق بات کہنے میں کوئی باک نہ کرنا چاہئیے ساری دنیا دشمن ہوجائے ۔

۶:- خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا ۔

۷:- ہمیشہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ کاورد کرتے رہنا ۔(مسند احمد بن حنبل)

حضرت ابوذر کا بیان ہے کہ اس کے بعد حضور نے میرے سینہ پر ہاتھ مارکر فرمایا ۔

"اے ابوذر !تد بیر سے بہتر کوئی عقل(سائنس ) نہیں اور اپنے نفس پر قابو پانے سے بہتر کوئی پرہیز گاری نہیں اور حسن اخلاق سے بہتر دنیا میں کوئی حسن نہیں "

جب ہم حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کی حیات پاک کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے آپ اکثر مساکین وفقراء کو سینے سے لگائے رہتے تھے ۔آپ ان خوش نصیب صحابہ رسول میں سے تھے جن کے رگ وریشہ میں بوئے اسوہ

۱۰۷

حسنہ سمائی ہوئی تھی ۔آپ فرمایا کرتے تھے مجھےمیرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حکم ہے کہ جو تم کھاتے ہو وہی اپنے غلاموں اوراپنی لونڈیوں کو کھلاؤ ۔اور جو خود پہنو وہی ان کو بھی پہناؤ ۔چنانچہ آپ (رض) نے اس حکم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کےتعمیل میں کوئی کوتاہی نہ برتی ۔ایک مرتبہ کاذکر ہے آپ اپنے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے راستہ میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی اس نے دیکھا کہ جس طرح کالباس حضرت ابوذر(رض) نے زیب تن فرمایا ہے وہی لباس ان کے غلام نے بھی پہن رکھا ہے وہ شخص معترض ہوا۔ آقا وغلام کا ایک لباس ہے آپ نے جواب دیا کہ مجھے میرے مرشد ونبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہی امر ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ میں خلاف حکم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود کچھ پہنوں اور اپنے غلام کو کچھ اور پہناؤں ۔

آپ کا طرز بود وباش اور ظاہری وضع قظع بالکل سادہ تھی لباس وپوشاک میں زرق برق ملبوسات پسند نہ کرتے تھے ۔طہارت کا خیال ضرور فرمایا کرتے تھے مگر قطعا پوشاک کی پرواہ نہ کرتے تھے اکثر بال الجھے رہا کرتے تھے ۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ احباب نے زبر دستی نہلا دھلا کر گنگھی وغیرہ کی آ پ کا بستر ایک معمولی چٹائی تھا ۔ الغرض آپ کی زندگی کا معیار رہن سہن بالکل ایک عام شریف النفس انسان کی طرح تھا ۔

حضرت ابوذر (رض) باوجودیکہ سادہ طرز زندگی پر عامل تھے مگر وہ رہبانیت کے قائل ہرگز نہ تھے ۔آپ نے سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی میں شادی بھی فرمائی آپ نے تمام حقوق زوجیت کا لحاظ کما حقہ رکھا ۔آپ کی زوجہ کا رنگ سیاہی مائل تھا اور لوگ کبھی کبھار یہ طعنہ بھی دیتے تھے مگر آپ (رض) نے اسی بیوی کو اپنا ملکہ خانہ قرار دیا ۔آپ اپنی بیوی کا

۱۰۸

کافی خیال رکھتے تھے ۔اسی طرح مہمان نوازی اور تواضع داری حضرت ابوذر کی نمایاں صفات تھیں ۔

صدق ابوذر:-

جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے اور سچائی وہ صفت اعلی ہے جس پر بڑی سے بڑی شخصیت بھی ثابت نہیں رہی لیکن جناب ابوذر رحمۃ اللہ علیہ کے لئے خصوصی صفت کے واسطے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نص فرمائی ۔چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صادق نے صدق ابوذر کی ضمانت یوں ارشاد فرمائی ۔

"سایہ آسمان تلے اور زمین کے فرش کے اوپر ابوذر سے زیادہ سچ بولنے والا کوئی نہیں "(ازالۃ الخفاء جلد ۱ ص ۲۸۲ شاہ ولی اللہ دہلوی)

حضرت ابوذر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معتمد اصحاب میں تھے چنانچہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غزوہ ذات الرقاع میں آپ کو مدینہ منورہ میں قائم مقام فرمایا ۔اسی طرح حضرت ابوذر (رض) کو ردیف النبی (کسی سواوی پر پیچھے بیٹھنا اور آگے سے کمر تھام کر بیٹھنا۔) ہونے کا بھی شرف اکثر مرتبہ نصیب ہوا ۔اسی طرح حضرت ابوذر (رض) پر حضور کا پورا پورا اعتماد تھا کہ کئی راز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوذر (رض) کو بتا دئیے تھے ۔حضرت ابوذر ان خوش قسمت اصحاب میں ہیں جن کو دفن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں شرکت کا شرف حاصل ہوا ۔

رحلت پیغمبر کےبعد حضرت ابوذر (رض) کبھی حکومتی محلوں کو وقعت نہ دی بلکہ ہمیشہ خانہ مرکز ہدایت ومعدن نبوت اہل بیت اطہار کا طوف کرتے رہے ۔اسی ناکردہ گناہ کی سزا میں عموما ضیق یافتہ رہتے ۔

۱۰۹

جب سقیفہ کی سازش کاظہور ہوا اور مسلمانوں میں دھینگا مشتی چلی تو اس شیر دل بزرگ نے مسجد النبی میں ایک دلیرانہ تقریر فرمائی ۔

"اے گروہ قریش ! تم کس غفلت میں پڑے ہو؟ تم نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قرابت کی یکسر نظر انداز کردیا ۔خدا کی قسم عرب کی ایک جماعت مرتد ہوگئی ہے اور دین میں شکوک کے رخنے ڈالنے دیئے ہیں ۔ سنو! امر خلافت اہل بیت کا حق ہے ۔یہ جھگڑا فساد اچھا نہیں ہے ۔تمہیں کیا ہوگیا ہے ۔اہل کو نا اہل قرار دیتے ہو اور نا اہل کو سرپر اٹھاتے ہو۔ خدا کی قسم تم سب کو معلوم ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بار بار فرمایا ہے کہ خلافت وامارت میرے بعد علی (ع) کے لئے پھر حسن اور حسین علیھما السلام پھرمیری پاک اولاد اس کی مالک ہوگی ۔تم نے قول رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم او رخدا کے حکم کو نظر انداز کردیا تم اس عہد اور حکم کو بھول گئے جو تم پر عائد کیاگیا تھا تم نے فانی دنیا کی اطاعت کرلی اور آخرت کو فروخت کردیا جو باقی رہنے والی ہے اور جس میں جوان بوڑھے نہ ہونگے اور جس کی نعمتیں زائل نہ ہوں گی جس کے رہنے والوں پر رنج وغم طاری نہ ہوگا ۔جس کے مکینوں پر ملک الموت کا زور نہ ہوگا ۔ ایسی قیمتی چیز کو تم نے فانی دنیا کے عوض بیچ دیا یہ تو تم لوگوں نے ایسا ہی کیا جس طرح پہلی امتوں نے کیا ۔انھوں نے یہ کیا تھا کہ جب ان کا نبی انتقال کر گیا تو انھوں نے بیعت توڑ دی اور رجعت قہقری کرگئے ۔انھوں نے معاہدے ختم کردیئے اور احکام بدل دیئے ۔اور دین کو مسخ کردیا ۔ تم نے ان سے فسادات کا پورا ثبوت دیا ۔اے گروہ قریش ! تم بہت جلد اپنی کرتوت کا بدلا

۱۱۰

پاؤگے اور تمھیں اپنی بدکاری کا نتیجہ مل جائے گا ۔وہ چیز تمھارے سامنے آجائے گی جو تم نے اپنے کردار بھیج دی ہے ۔خبر دارہو! جو بھی ہوگا درست ہوگا کیونکہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا "(ابوذر الغفاری ص۱۱۳)

یہ تقریر اس موقعہ پر کی گئی ہے جب حکومت کی تلوار سروں پر لٹک رہی تھی اور لوگوں کی زبانیں بند کرادی گئی تھیں ایسے خطرناک حالات میں صدیق امت حضرت ابوذر غفاری کا یہ عظیم الشان خطبہ ان کی بے مثال جراءت وحق گوئی کاآئینہ دار ہے ۔حضرت ابوذر کے مقدّر کا ستارہ اس قدر روشن تھا کہ خاندان ر سول میں ان کی ہراہم موقعہ پر ضرورت محسوس کی جاتی تھی چنانچہ جب سیدہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کا وصال ہوا تو غسل سے فراغت پانے کے بعد حضرت امیر علیہ السلام نے امام حسن کو حضرت ابوذرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بلا نے بھیجا چنانچہ آپ تشریف لائے اور صدیقہ العالمین کی نماز جنازہ میں اس صدیق امت نے شرکت کا شرف پایا ۔حضرت ابوذر کے لئے طبعا یہ مشکل تھا کہ حق گوئی سے زبان بند رکھیں چنانچہ وہ دور حضرت ابوبکر میں اکثر آل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت میں تقریر فرماتے رہتے اور روضہ اقدس کی مجاورت میں رہتے باوجود یکہ ان کی سرگرمیاں حکومت وقت کو گوارہ نہ تھیں مگر انھوں نے مصلحت کے تحت اپنا رویہ بزم رکھا البتہ خفیہ طور آپ کو مجنون ومجذوب مشہور کرنے کی کوشش کی تاکہ لوگ ان کی باتوں کو وقعت نہ دیں ۔ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حیات طیّبہ میں حضرت ابوذر کوایک نصیحت فرمادی تھی جس کی صحیح

۱۱۱

مصلحت اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں کہ "جب کوہ سلع تک شہر کی آبادی بڑھ جائے تو اے ابوذر تم شام کی طرف چلے جانا "۔

چنانچہ جب حضرت عمر کے زمانہ میں فتوحات کا اضافہ ہوا تو اس حکم رسول کی تعمیل میں حضرت ابوذر نے شام کی طرف کوچ فرمایا اور دس سال کا عرصہ مدینہ سے باہر گزار ا۔جب حضرت عثمان حاکم ہوئے تو پھر آپ واپس مدینہ آگئے ۔حضرت عثمان کے دور حکومت میں بنی امیہ نے قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کردیا جناب ابوذر کو حکومت کی اس دھاندلی سے اختلاف ہوا ۔لہذا انھوں نے حکومت کی اس پالیسی پر کڑی نکتہ چینی کی پس حضرت عثمان نے ان پر سخت پابندیاں عائد کردیں ۔لیکن ان پابندیوں سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے لہذا فیصلہ کیاگیا کہ آپ کو جلا وطن کردیا جائے پس ان کو زبر دستی شام بھیج دیاگیا ۔شام میں آکر حضرت ابوذر (رض)کو معاویہ سے واسطہ پڑا ۔یعنی آسمان سے گرا کجھور میں اٹکا ۔ابوذر کے وعظ معاویہ کے لئے دردسربن گئے ۔لہذا اس نے ابوذر (رض)کو قتل کی دہمکی دی ۔جب جناب ابوذر کویہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا ۔

"امیّہ کی اولاد مجھے فقر و قتل کی دہمکی دیتی ہے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ فقیری مجھے تونگری سے زیادہ مر‏غوب ہے اور زمین کے اندر ہونا مجھے زمین کے باہر ہونے سے زیادہ پسند ہے ۔نہ میں قتل کی دہمکی سے مرعوب ہوتا ہوں اور نہ مرنے سے ڈرتا ہوں "۔

(ابوذر الغفاری ص ۱۲۲)

چنانچہ حضرت ابوذر حقیقی اسلامی نظام اقتصادیات کاپرچار

۱۱۲

کرتے رہے ۔معاویہ نے عاجز آکر حضرت ابوذر (رض) کو خریدنے کی کوشش کی اور تین سودینار سرخ کی ایک تھیلی ایک ملازم کے ہاتھ روانہ کی مگر حضرت نے اسے ٹھکرادیا ۔حضرت ابوذر (رض) کے پاس دوہی موضوع سخن تھے ۔اسلام کی معاشی پالیسی ۔اور مؤدہ آل محمد علیھم السلام ۔چنانچہ ان ہی دومضامین پر آپ مسلسل لوگوں میں تبلیغ کرتے رہے ۔جس کے نتیجہ میں ہر طرف سے ابوذر کو مصائب نے گھیر ڈال دیا ۔معاویہ کی حکومت کے ہاتھوں بڑی اذیتیں برداشت کرنا پڑیں ۔مگر انھوں نے تمام آلام کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا آپ کے پائے استقلال میں ہرگز لغزش نہ آئی اس پر حکومت نے اپنے متشددانہ رویہ میں زیادتی کرنا شروع کردی ۔اور اعلان عام کروا دیا کہ ابوذر کی مجلس میں کوئی شخص شرکت نہ کرے ۔لیکن لوگ پھر بھی آپ کی صحبت کا شرف پانے آتے حضرت منع فرماتے اس خیال سے کہ کہیں یہ بیچارے حکومت سے مستوجب سزانہ ہوں ۔مگر لوگ آپ کی تقریر یں جوش وشوق سے سنتے ۔معاویہ نے حضرت عثمان کو شکایت ک اور حضرت ابوذر (رض) کو قید کرلیا ۔چنانچہ حضرت عثمان نے انھیں واپس مدینہ بلا لیا او رمعاویہ کویہ خط لکھا ۔

"تیرا خط ملا ۔ابوذر کی بابت جو کچھ لکھا ہے معلوم ہوا۔اجس وقت تیرے پاس یہ حکم پہنچے اسی وقت ابوذر کو ایک بد رفتار اونٹ پر سوار کراکے اور کسی درشت مزاج رہبر کو اس کے ساتھ روانہ کرو جو رات دن اونٹ کو بھگا تا لائے کہ ابوذر (رض) پر ایسی نیند غلبہ کرے جس سے وہ میرا اور تیرادونوں کا ذکر کرنا بھول جائے اسے مدینہ بھیج دے "۔(ابوذر الغفاری ص۲۶۵)

۱۱۳

حضرت عثمان کا خط ملتے ہی معاویہ نے حضرت ابوذر (رض)کو بلا یا اور ان کو گھر تک بھی جانے کی اجازت نہ دی اور تن تنہا پانچ حبشی بد خو اور درشت مزاج غلاموں کے ہمراہ ایک بد رفتار اونٹ کی ننگی پشت پر سوار کرکے روانہ کردیا جناب ابوذر اس وقت ضعیف العمر تھے ۔اور کافی کمزور تھے یہ تکلیف ان کے لئۓ اذیت ناک ثابت ہوئی اس سفر کے دوران آپ کی رانوں کا گوشت چھل چھل کر جدا ہوگیا اس سفر کی صعوبتیں بھی حضرت ابوذر کو حق گوئی سے باز نہ رکھ سکیں چنانچہ آپ راستہ میں جہاں بھی موقعہ ہاتھ لگتا حکومت کی غلط پالیسیوں پر اپنے خیالات کا اظہار فرماتے رہے ۔بیرون شہر دیر مران کے مقام پر لوگوں کا اجتماع ہوا جو آپ کو الوداع کہنے آئے یہاں بعد از نماز باجماعت آپ نے ایک معرکۃ الآراء خطبہ ارشاد فرمایا ۔

خطبہ دیرمران:-

"ایھاالناس"!تم کو ایسی چیز کی وصیت کرتا ہوں جو تمہارے لئے نافع ہو بعد اس کے فرمایا کہ خداوند عالم کا شکر ادا کرو سبھوں نے کہا الحمدللہ پھر آپ نے خدا وحدانیت اور حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کی گواہی دی اور سبھوں نے ان کی موافقت کی پھر فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ قیامت میں زندہ ہونا اور بہشت ودوزخ ہے ۔اور جوکچھ حضرت رسول خدا حق تعالی کی طرف سے لائے قرار دیتا ہوں سبھوں نے کہا تم نے جو کچھ کہا اس کے ہم لوگ گواہ ہیں ۔اس کے بعد فرمایا تم میں سے بھی جو کوئی اس اعتقاد پر دنیا سے اٹھے گا اس کو خدا کی رحمت اور کرامت کی بشارت دی

۱۱۴

جائے گی ۔بشرطیکہ گناہگاروں کا معین اور ظالموں کے اعمال کا موید اور ستم گاروں کا یار ومددگار نہ ہوگا ۔اے گروہ مردم ! اپنے نماز روزہ کے ساتھ محض خدا کے لئےغضب وغصہ کرنے کوبھی شامل کرو جبکہ دیکھو کہ زمین پر لوگ خدا کی معصیت کرتے ہیں اور ان چیزوں کے سبب اپنے پیشواؤں کو راضی نہ رکھو جو کہ غضب خدا باعث ہوتے ہیں اور اگر وہ لوگ دین خدا میں ایسی چیزیں ظاہر کریں جن کی حقیقت تم لوگ نہ جانتے ہو تو ان سے کنارہ کش ہوجاؤ ۔اور ان کے عیبوں کو بیان کرو ۔اگر چہ وہ(ظالم)لوگ تم پر عذاب کریں اور اپنی بارگاہ سے نکال دیں او اپنی عطا سے محروم رکھیں اور تم کو شہروں سے خارج کردیں اور اپنی عطا سے محروم رکھیں اور تم کو شہروں سے خارج کردیں تاکہ حق تعالی تم سے راضی اور خوشنود ہو ۔بہ تحقیق کہ حق تعالی سب سے زیادہ جلیل وبلند مرتبہ ہے اور یہ امر سزاوار نہیں کہ مخلوقات کی رضا مندی کے لئے کوئی شخص اس کو غضب میں لائے خدا مجھے اور تمھیں بخش دے۔ اب میں تم کو خدا کے سپرد کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تم پر خدا کا سلام اور اس کی رحمت ہو"(حیات القلوب)

اس خطبہ کا حاظرین پر یہ اثر ہوا کہ لوگوں نے جوش وخروش میں کہا کہ اے ابوذر ! اے مصاحب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق تعالی آپ کو بھی سلامت رکھے اور آپ پر بھی رحمت نازل کرے ۔کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہم آپ کو پھر اپنے شہر لے چلیں اور آپ کے دشمنوں کے مقابلے میں آپ کی حمایت کریں ۔جناب ابوذر نے ان کو تلقین صبر

۱۱۵

فرمائی اور ارشاد کیا کہ اللہ تم پر رحمت کرے اب واپس جاؤ میں تم سے زیادہ بلاؤں میں کرنے والا ہوں تم لوگ ہرگز فکر مندنہ ہونا اور اپنے درمیان اختلاف نہ کرنا ۔

المختص حضرت ابوذر (رض)سفر کی اذیت سے مجروح ،تھکن سے چوربال حال پریشان مدینہ پہنچے اور دربارحکومت میں حاکم وقت حضرت عثمان بن عفان کے روبرو پیش کردیئے گئے ۔حضرت عثمان نے صحابیت کے تمام اعزازات ومراعات کو یک قلم نظر انداز کرتے ہوئے حضرت ابوذر(رض) پر نگاہ غضب اٹھاتے ہوئے آپ کو سخت برا بھلا کہا یہ منظر طبقات ابن سعد سے ملاحظہ فرمائیے ۔

حضرت عثمان :- تو ہی وہ ہے جس نے ایسی حرکات کی ہیں۔

جناب ابوذر(رض):-میں نے تو کچھ نہیں کیا مگر یہ کہ تمھیں نصیحت کی تم نے اس نصیحت کا بر ا مانا اور مجھے اپنے سے دور کردیا ۔پھر میں نے معاویہ کو نصیحت کی اس نے بھی برا مانا اور مجھے نکال دیا۔

عثمان:- تو جھوٹا ہے تیرے دل میں فتنہ کود رہا ہے تو یہ چاہتا ہے کہ اہل شام میرے خلاف برانگیختہ ہوجائیں ۔

ابوذر(رض):-اے عثمان ! اگر تو سنت کا اتباع کرے تو تجھے کوئی بھی کچھ نہ کہہ سکے گا ۔

عثمان:- تجھے اس سے کیا واسطہ میں اتباع کروں یا نہ کروں (اس کے بعد نازیبا جملہ ہے )

ابوذر(رض):- (حضرت ابوذر غضبناک ہوکر بد دعا دیتے ہیں )خدا کی قسم تو مجھ پر اس کے سوا اور کوئی الزام عائد نہیں کرسکتا کہ

۱۱۶

بھلائیوں کا حکم کرتا ہوں اور برائیوں سے روکنے کا پرچار کرتا ہوں ۔

عثمان:- (یہ سن کر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں )اے اہل دربار مجھے مشورہ دو کہ میں اس بڈھے جھوٹے کے ساتھ کیا سلوک کروں ۔اس کو کوڑے لگاؤں یا قید کردوں یا اس کا کام تمام کردوں یا پھر وطن بدر کردوں ۔(اس پر جماعت مسلمین میں اختلاف واشتغال رونما ہوا ۔یہ سنکر حضرت علی علیہ السلام جو اس وقت موجود تھے بولے )

حضرت علی علیہ السلام :-اے عثمان! میں تمھیں مومن آل فرعون کی طرح یہ رائے دیتا ہوں تم ابوذر کو اس کے اپنے حال پر چھوڑ دو۔ اگر یہ (معاذاللہ) جھوٹا ہے تو جھوٹ کا نتیجہ خود پائے گا اور اگر یہ سچا ہے تو اس کا بار تمھاری گردن پر ہوگا ۔خدا اس کی ہدایت نہیں کرتا جو اسراف کرے اور جھوٹا ہو۔

(صاحب طبقات لکھتے ہیں کہ یہ سنکر خلیفہ عثمان اور حضرت علی میں گرما گرمی ہوئی اور بحث میں تلخی وشدت پیدا ہوئی جس کاذکر میں نہیں کرنا چاہتا ۔)

اللہ فقیر ،عثمان غنی :-

بہر حال حضرت علی علیہ السلام کی کوششوں سے حضرت ابوذر (رض) دربار عثمان سے باہر آئے اقتدا کے نشہ میں حاکم کی مدہوشی کا یہ عالم تھا کہ اس کو رسول صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول مبنی بر صدق بھی یاد نہ رہا تھا کہ حضور نے جناب ابوذر (رض) کے لئے ضمانت دی تھی کہ "نیلے آسمان کے نیچے اور روئے زمین کے اوپر ابوذر سے زیادہ سچا کوئی نہیں پیدا ہوگا ۔مگر ابوذر نے بھی مقام غدیر پر مے ولایت کے خم کے خم نوش کر رکھے تھے جس کی مستی کم ہی نہ ہوتی ہے ۔

۱۱۷

جوں جوں تشدد کیا جاتا تھا آپ کا نشہ بڑھتا جاتا تھا اور ان کو مصائب جھیلنے میں سرور محسوس ہوتا تھا چنانچہ ایوان حکومت سے باہر آتے ہی گلی گلی علی علی شروع ہوا ۔مدینہ میں ابھی سرمایہ دارانہ ذہینیت ابتدائی مراحل میں پروان چڑھ رہی تھی لہذا محبت اہل بیت علیھم السلام کی عنوان پر تبلیغی سرگرمیاں زور شور سے شروع کردیں اگر کوئی سیٹھ سامنے آگیا تو اس کو بھی ہاتھ آیاشکار سمجھ کر اسلامی اقتصادی نظام کی تشریحات تعلیم کئے بغیر نہ چھوڑا ۔کوچہ وبازار میں آپ اکثر مشغول تبلیغ رہتے ۔ایک روز حضرت عثمان نے مسجد میں بلوالیا اور پوچھ لیا کہ مجھے تمھاری شکایت ملی ہے کہ تم کہتے ہو کہ عثمان کہتا ہے کہ " خدا فقیر ہے اور میں (عثمان)غنی ہوں "حضرت ابوذر نے جواب دیا کہ میں نے یہ کسی سے نہیں کہا لوگوں نے میری چغلی کھائی ہے ۔حضرت عثمان نے کہاکہ تم اب بڈھے ہوگئے ہو اور تمھارا دماغ کام نہیں کرتا ہے ۔ آپ نے فرمایا میرا دماغ کام کرے یا نہ کرے مگر یہ بات مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

"جب ابو العاص کی اولاد یں تیس تک پہنچ جائیں گی تو وہ خدا کے مال کو اپنی دولت واقبال کا ذریعہ ٹھہرائیں گے ۔خدا کے بندوں کو اپنے خدمتگاروں اور نوکر قرار دیں گے خدا کے دین میں خیانت کریں گے ۔اس کے بعد اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو ان سے آزادی بخشے گا"۔

حضرت ابوذر (رض) کا یہ کہنا بادشاہ وقت کو ناگوار گزرا ۔انھوں نے لوگوں سے پوچھا مگر حاضرین نے لاعلمی کا اظہار کردیا چنانچہ حضرت علی علیہ السلام کو بلوایا گیا چنانچہ انھوں نے فرمایا کہ میں ابوذر کی تکذیب نہیں کرسکتا

۱۱۸

کیوں کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ ابوذر سے زیادہ سچا اس زمین پر کوئی نہیں ہے یہ سنکر لوگوں نے کہا ابوذر سچ کہتے ہیں ۔اس واقعہ کے چند روز بعد عثمان نے حضرت ابوذر کو مدینہ سے نکالنے پر غور کرنا شروع کردیا ۔

دولت کی غلط تقسیم اور طبقاتی طبع آزمائی کے جو مناظر دور عثمانیہ میں نظر آتے ہیں وہ محتاج بیان نہیں ہے تاریخ کے اورراق حضرت عثمان کی کنبہ پروریوں اور ناجائز کرم گستریوں سے بھر پور ہیں لیکن وہ حقائق ہمیں اس کتاب میں نہیں کرنا ہے ہمیں صرف اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ حضرت عثمان نے قومی خزانہ کا منہ اس طرح کھول دیا تھا کہ مسلمانوں میں ایک خاص طبقہ امراء کا پیدا ہوگیا تھا اور ان میں حرص مال اس نہج تک آپہنچی تھی کہ حلال وحرام میں امتیاز ختم ہوتی نظر آرہی تھی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے حضرات کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ اکثر یت کو نان شبینہ کے لئے محتاج پائیں اور خواص کو مال وجواہر میں کھیلتا دیکھیں ۔لہذا اس جماعت مردان حق نے صدائے احتجاج بلند کی اور جناب ابوذر (رض) اس سلسلے میں پیش پیش رہے ۔ابو ذر جب مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کو دیکھتے تو ان کے پاس صرف جو کی سوکھی روٹی نظر آتی لیکن جب مصاحبان حکومت کی بودوباش اور ذخیرہ اندوزی ملاحظہ کرتے تو یہ صورت حال برداشت نہ کرسکتے تھے ۔چنانچہ آپ جمع دولت اور سرمایہ داری کے مخالف تھے ۔ غرباء فقراء نوازی ،محتاج یتیم ومسکین ومجبور وقہور کی ہمدردی واعانت کے کٹر حامی تھے ۔ان ہی خیالات کے باعث عہد حاضر کے بعض افراد نے انھیں کمیونسٹ اوراشتراکی کہنا شروع کردیا حالانکہ حضرت ابو ذر کے پاکیزہ اسلامی اقتصادی نظریہ کو اشتراکیت سے کوئی

۱۱۹

واسطہ نہیں ہے ۔اور یہ مفصل بحث ہم نے اپنی کتاب "صرف ایک راستہ "کے باب معاشیات واقتصادیات میں ہدیہ قار‏ئین کردی ہے ۔ حضرت ابو ذر کا موقف محض یہ تھا اسلامی حکومت کے دائرہ حدود میں ایسا ہرگز نہ ہو کہ امراء حد سے بڑھ جائیں اور غرباء حد سے گر جائیں ۔آپ کا منشاء صرف یہ تھا کہ اسلام اس انداز میں سطح عالم پر ابھرے کہ امراء اور غرباء دونوں میں توازن وعدل قائم رہے ۔معاشرہ پر ہرایک متوازن طبقہ چھایا رہا ہے ۔یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوذر دولت کو چند ہاتھوں سے لے کر زیادہ ہاتھوں میں گردش کناں دیکھنے کے متمنی تھے ۔آپ کو احساس تھا کہ فراوانی دولت اور شدت غربت دونوں گناہوں کی محرک ہوتی ہیں ۔ ایک طرف دولت اسلامیہ منظور نظر لوگوں ،عزیزوں اور اقرباء کو بے دریغ لٹائی جارہی تھی تو دوسری طرف بیت المال کا دروازہ غریبوں ،یتیموں اور مستحقوں کے لئے بالکل بند کردیا گیا تھا ۔خلیفہ کے رشتہ دار جاگیر یں اور محلات بنانے میں مصروف مگر غریب بھوکوں مررہے تھے اس معاشی بحران ہی کے دوران حضرت عثمان نے قرآن جلوادئے یہ جلتی پر تیل ثابت ہوا ۔لہذا یہ بے حرمتی بھی لوگوں کو ناگوار ہوئی ۔چنانچہ حضرت ابوذر کو ایک اور موضوع احتجاج حاصل ہوا چونکہ انھیں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہلے ہی آگاہ دیا تھا کہ "اے ابوذر (رض) تجھے کوئی قتل نہ کرسکے گا "لہذا انھیں ہلاکت کا خوف نہ ہوتا تھا چنانچہ وہ نڈر ہوکر حکومت پر نکتہ چینی کرتے تھے ادھر تبلیغ ابوذر میں شدت ہوئی تو ادھر حکومت نے ان کا منہ بند کرنے کے طریقے دریافت کرنے شروع کردئیے پہلے مردان کی رائے کے مطابق آپ کو مال وزر کے ذریعہ خاموش کرنا چاہا لیکن جب رقم پیش ہوئی تو آپ نے ٹھکراتے ہوئے فرمایا۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180