چار یار

چار  یار33%

چار  یار مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں
صفحے: 180

چار یار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 50348 / ڈاؤنلوڈ: 3788
سائز سائز سائز
چار  یار

چار یار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نہ نوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔

۲۔اطاعت خدا

جب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔

یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:

۸۱

امام محمد باقر نے فرمایا ہے:

(لماخلق ﷲ العقل استنطقه ثم قال له أقبل فأقبل،ثم قال له أدبرفأدبر،ثم قال له:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً هوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احبأمانی یّاک آمرو یّاکأنهیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب )( ۱ )

''یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا''

امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لماخلق ﷲ عزوجل العقل قال له ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انهی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب )( ۲ )

''جب ﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا''

بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔( ۳ )

ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ص۱۰۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۹۶۔

(۳)بحارالانوار ج۱ ص ۹۷ ۔

۸۲

وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔

روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔

علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:

(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص )( ۱ )

'' عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے''

ﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(العاقل من أطاع ﷲ )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو''

روایت ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟

قال :(العمل بطاعة الله،ان العمال بطاعة الله هم العقلاء )

''فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں''( ۳ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۱۰۱۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۱۶۰۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۱۔

۸۳

امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :

''جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے''راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی''( ۱ )

حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم )( ۲ )

''سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو''

امام جعفر صادق :

(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے''

۳۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)

یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۷۹۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۰۔

۸۴

خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:

٭(العقل حسام قاطع )( ۱ )

''عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے''

٭ (قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهیٰ )( ۳ )

''نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنها )( ۴ )

''دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے''

٭ (العاقل من غلب هواه،ولم یبع آخرته بدنیاه )( ۵ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے''

٭ (العاقل من هجرشهوته،وباع دنیاه بآخرته )( ۶ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض

____________________

(۱)نہج البلاغہ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)تحف العقول ص۹۶۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ ص ۰۴ ۱ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۸۶۔

۸۵

فروخت کرڈالے''

٭ (العاقل عدولذ ته والجاهل عبد شهوته )( ۱ )

''عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے''

٭ (العاقل من عصیٰ هواه فی طاعة ربه )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے''

٭ (العاقل من غلب نوازع أهویته )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے''

٭ (العاقل من أمات شهوته،والقوی من قمع لذته )( ۴ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے''

لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:

۱۔معرفت خدا

۲۔واجبات میں اسکی اطاعت

۳۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔

اس باب (بحث)میں ہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۸۷۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۰۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

۸۶

عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہی

عقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟

یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :

۱۔متقی

۲۔فاسق وفاجر

اس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:

۱۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)

۲۔فسق وفجور ( بد کردار)

تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔

۸۷

امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

(من غلب عقله هواه افلح،ومن غلب هواه عقله افتضح )( ۱ )

''جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا''

آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:

(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والهویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینهما،فأیهمایغلب کانت فی حیّزه )( ۲ )

''عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے''

اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔

حضرت علی :

(العقل والشهوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشهوة الهویٰ،والنفس متنازعة بینهما،فأیهما قهرکانت فی جانبه )( ۳ )

''عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۸۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۱۳۔

(۳)گذشتہ حوالہ ۔

۸۸

ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے''

یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔

ضعف عقل اورقوت ہوس

شہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔

اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔

جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔

حضرت علی نے فرمایا:

(کم من عقل اسیرعند هویٰ امیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں''

خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۱۱

۸۹

امیر المومنین فرماتے ہیں:

(اکره نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیها )( ۱ )

''نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو''

کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔

اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔

____________________

(۱)مستدرک وسائل الشیعہ ج ۲ ص۳۱۰۔

۹۰

عقل کے لشکر

پروردگار عالم نے انسان کے اندر ایک مجموعہ کے تحت کچھ ایسی قوتیں ، اسباب اور ذرائع جمع کردئے ہیں جو مشکل مرحلوں میں عقل کی امداد اور پشت پناہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور نفس کے اندر یہ خیروبرکت کا مجموعہ انسان کی فطرت ،ضمیر اورنیک جذبات (عواطف)کے عین مطابق ہے اور اس مجموعہ میں خواہشات کے مقابلہ میں انسان کو تحریک کرنے کی تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔

نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ''عزت نفس ''کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔

۹۱

۲۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔

۳۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

۴۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔

۵۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو''خوف الٰہی''کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔

اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔

جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔

۹۲

لشکر عقل سے متعلق روایات

معصومین کی احادیث میں نفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔

چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔

پہلی روایت

سعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔

۹۳

اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:

خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔

ایمان کی ضد کفر

تصدیق کی ضد انکار

رجاء (امید)کی ضد مایوسی

عدل کی ضد ظلم وجور

رضا(خشنودی )کی ضد ناراضگی

شکرکی ضد کفران(ناشکری)

لالچ کی ضد یاس

توکل کی ضدحرص

رافت کی ضدغلظت؟

رحمت کی ضد غضب

علم کی ضد جہل

فہم کی ضد حماقت

عفت کی ضد بے غیرتی

زہد کی ضد رغبت(دلچسپی)

قرابت کی ضدجدائی

خوف کی ضد جرائت

۹۴

تواضع کی ضد تکبر

محبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟

علم کی ضد سفاہت

خاموشی کی ضد بکواس

سر سپردگی کی ضد استکبار

تسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشی

عفوکی ضد کینہ

نرمی کی ضد سختی

یقین کی ضد شک

صبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)

خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقام

غنیٰ کی ضد فقر

تفکر کی ضد سہو

حافظہ کی ضد نسیان

عطوفت کی ضد قطع(تعلق)

قناعت کی ضد حرص

مواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)

مودت کی ضد عداوت

وفا کی ضد غداری

اطاعت کی ضد معصیت

خضوع کی ضد اظہارسر بلندی

سلامتی کا ضد بلائ

حب کی ضد بغض

۹۵

صدق کی ضد کذب

حق کی ضد باطل

امانت کی ضد خیانت

اخلاص کی ضد ملاوٹ

ذکاوت کی ضد کند ذہنی

فہم کی ضد ناسمجھی

معرفت کی ضد انکار

مدارات کی ضد رسوا کرنا

سلامت کی ضد غیب

کتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)

نماز کی ضد اسے ضائع کرنا

روزہ کی ضد افطار

جہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)

حج کی ضد عہد شکنی

راز داری کی ضدفاش کرنا

والدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدین

حقیقت کی ضد ریا

معروف کی ضد منکر

ستر(پوشش)کی ضد برہنگی

تقیہ کی ضد ظاہر کرنا

انصاف کی ضدحمیت

ہوشیاری کی ضد بغاوت

صفائی کی ضدگندگی

۹۶

حیاء کی ضد بے حیائی

قصد (استقامت )کی ضد عدوان

راحت کی ضدتعب(تھکن)

آسانی کی ضد مشکل

برکت کی ضدبے برکتی

عافیت کی ضد بلا

اعتدال کی ضد کثرت طلبی

حکمت کی ضد خواہش نفس

وقار کی ضد ہلکا پن

سعادت کی ضد شقاوت

توبہ کی ضد اصرار (برگناہ)

استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہی

دعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہار

نشاط کی ضد سستی

فرح(خوشی)کی ضد حزن

الفت کی ضد فرقت(جدائی)

سخاوت کی ضد بخل

پس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔

۹۷

خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔( ۱ )

دوسری روایت

ہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔( ۲ )

یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:

امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور ﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:

خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہے

ایمان، کفر

تصدیق، تکذیب

اخلاص ،نفاق

رجا ئ،ناامیدی

عدل،جور

خوشی ،ناراضگی

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱ ص۱۰۹۔۱۱۱ کتاب العقل والجہل۔

(۲)اصول کافی جلد۱ص۱۳۔۲۳،بحارالانوار جلد۱ص۱۵۹۔

۹۸

شکر، کفران(ناشکری)

طمع رحمت ،رحمت سے مایوسی

توکل،حرص

نرم دلی،قساوت قلب

علم، جہل

عفت ،بے حیائی

زہد،دنیا پرستی

خوش اخلاقی،بد اخلاقی

خوف ،جرائت

تواضع ،کبر

صبر،جلدبازی

ہوشیاری ،بے وقوفی

خاموشی،حذر

سرسپردگی، استکبار

تسلیم،اظہار سربلندی

عفو، کینہ

رحمت، سختی

یقین ،شک

صبر،بے صبری (جزع)

عفو،انتقام

استغنا(مالداری) ، فقر

تفکر،سہو

حفظ،نسیان

۹۹

صلہ رحم، قطع تعلق

قناعت ،بے انتہالالچ

مواسات ،نہ دینا (منع)

مودت ،عداوت

وفاداری ،غداری

اطاعت، معصیت

خضوع ،اظہار سربلندی

صحت ،(سلامتی )بلائ

فہم ،غبی ہونا(کم سمجھی)

معرفت، انکار

مدارات،رسواکرنا

سلامة الغیب ،حیلہ وفریب

کتمان (حفظ راز)،افشائ

والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عاق ہونا

حقیقت،ریا

معروف ،منکر

تقیہ،ظاہر کرنا

انصاف ،ظلم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

"جاؤ واپس لے جاؤ مجھے اس کی حالت میں قطعی ضرورت نہیں ہے جبکہ غریب مسلمانوں کو نظر انداز کردیاگیا ہے میرے لئے تھوڑی گندم کافی ہے ۔میرا گزر اوقات ہورہا ہے ۔خلیفہ سے جاکر کہہ دینا کہ میں علی علیہ السلام اور اہلبیت علیہم السلام کی ولایت میں بالکل غنی ہوں ۔میرا دل غنی ہے ۔میری روح غنی ہے ۔میری جان غنی ہے ۔ تمھاری دولت کی ہمیں ضرورت نہیں "۔(حیات القلوب)

جب یہ تراکیب کارآمد نہ ہوئی تو سرکاری فرمان جاری ہوا کہ ابوذر سے ترک موالات کی جائے ۔حکم حاکم مرگ مفاجات اس شاہی حکم سے لوگوں نے آپ کے پاس آنا جانا ترک کردیا ۔مگر ابوذر چلتے پھر تے اپنا وعظ جاری رکھتے رہے ۔کچھ درباری چہچہوں نے خلیفہ کے کان بھرے لہذا حضرت عثمان نے ان کوجلا وطن کرکے ربذہ بھیج دیا ۔مروان کو حکم دیا کہ اسے ننگی پشت کے اونٹ پر سوار کرکے ربذہ پہنچانے اور اعلان کیا کہ اس کی مشایعت کے لئے کوئی شخص نہ جاوے بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ ضرب شدید سے اذیت بھی پہنچائی ۔بہر حال سزائے موت کے ہم پلہ کالے پانی کی سزا اس صدیق امت صحابی کو خلیفہ مسلمین نے محض حق گوئی کے پاداش میں دی ۔

حضرت عثمان کے حکم اخراج ابوذر پر اگرچہ اصحاب میں سخت اضطراب تھا مگر جلتی آگ میں کودنا کسی کسی کا حوصلہ ہوتا ہے ۔حضرت ابوذر جب مدینہ سے نکالے گئے تو حکم عثمان کے خلاف حضرات علی،حسن،حسین،علیھم السلام ،عمار،ابن عباس،ابن جعفر اورمقداد رضی اللہ تعالی عنھم اپنے گھروں سے باہر آئے ۔اورجب حضرت ابوذر کو ننگے اونٹ پرمراوان بٹھانے لگا تو حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے مروان کو ٹوکا۔ حس پروہ حضرت عثمان کے پاس شکایت لے کرگیا ۔

۱۲۱

کئی مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ حضرت علی خود جناب ابوذر کو ربذہ کے جنگل تک چھوڑنے تشریف لےگئے ۔حضرت ابوذر کو کسمپرسی کی حالت میں ربذہ کے جنگل میں قید تنہائی کی سزا بھگتنی پڑی ۔اس حال میں کہ وہاں کوئی آبادی نہ تھی ۔اور دوردور تک انسان نظر نہ آئے تھے ۔ سوائے کسی مسافر کے اس مقام پر کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں آپ پناہ لے لیتے ۔بس ایک درخت تھا جس کے نیچے آپ رہتے تھے ۔جب معاویہ کویہ جلاوطنی کی خبر ملی تو اس نے حضرت ابوذر کی بیوی وغیرہ کو ربذہ بھیج دیا ۔اسی عالم بے بسی میں آپ کے فرزند ذر کا انتقال ہوا اورتھوڑے عرصہ بعد رفیقہ حیات بھی چل نسیں پھرآپ خود علیل ہوئے ۔ایک دختر کے علاوہ کوئی پرسان حال نہ تھا ۔جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو فضائل آل محمد کے علاوہ اور کوئی وصیت نہ کی اپنی بیٹی کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس خبر سے آگاہ کیا جو آپ نے اپنی حیات میں دربارہ دفن ارشاد فرمائی تھی چنانچہ بمطابق پیشگوئی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت مالک اشتر رضی اللہ عنہ یہ سعادت حاصل کی ۔اور جناب ابوذر کو چار ہزار درہم کا کفن پہنایا ۔بعض روایات میں ہے کہ لشکر کے ہرآدمی نے تھوڑا تھوڑا کفن کے لئے کپڑا دیا۔ مرقوم ہے کہ نماز جنازہ عبداللہ بن مسعود نے پڑھی ۔!!!!

توزہد جہاں کا قبلہ ہے اےقلب ابوذرغفاری

واللہ کہ تیرا فقررہا دینائے حکومت پر بھاری

تو ہے وہ خطیب عرفانی دل دہل گئے جس کے خطبوں سے

صحرائے عرب کی ریتی میں گل کھل گئے جس کے خطبوں سے

(احسان امروہوی)

٭٭٭٭٭

۱۲۲

سوم یا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ

ہمارے ہاں بسند معتبر یہ روایت ہے کہ جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خوشا حال اس کا مجھے دیکھے اور مجھ پر ایمان لا ئے یہی ارشاد سات مرتبہ فرمایا ۔امام حعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارہ اصحاب ایسے تھے ۔مدینہ کے آٹھ ہزار ،مکہ کے دوہزار اور دوہزار آزاد کنندہ لوگ کہ ان میں کوئی قدری المذھب نہ تھا ۔جو خداوند کے جبر کا قائل ہو۔ اور نہ ہی ان میں کوئی مرجی تھا جویہ کہتا ہوکہ ہرشخص کا ایمان ایک ہی قسم (درجہ) کا ہے اور نہ کوئی حروری تھا جو امیر المومنین علیہ السلام کو ناسزا کہتا ہو اور نہ کوئی معتزلی تھا جس کا یہ عقیدہ ہو کہ خدا کو بندوں کے اعمال میں کوئی عمل دخل نہیں اور یہ حضرات اللہ کے دین کے بارے میں اپنی طرف سے (قیاس سے )کوئی بات نہ کہتے تھے ۔یہ اصحاب دن رات گریہ زاری کرتے تھے اور بارگاہ ربّانی میں دعا کرتے تھے کہ خداوند تعالی ہماری روحوں کو قبض کرلے اس سے پہلے کہ ہمارے کان شہادت سبط رسول امام حسین علیہ السلام کی خبر سنیں۔

سید الاولیاء امام المتقین قائد ثقل دوم امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں میں تم کو تمھارے رسول کے اصحاب کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ ان کو گالی مت دو ۔برا نہ کہو ۔اور یاد رکھو تمھارے پیغمبر کے اصحاب وہ اشخاص

۱۲۳

ہیں جنھوں نے وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد نہ ہی کوئی بدعت کی اور نہ ہی کسی بدعت کرنے والے کی اعانت فرمائی یا اس کو پناہ دی بے شک میرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے اپنے ایسے اصحاب کے بارے میں سفارش (محبت ) فرمائی ہے ۔

اس وقت میری حیرت کی انتہا ہوجاتی ہے جب ہمارے مخالفین میں یہ گالی دیتے ہیں کہ ہم صحابہ کی تعظیم نہیں کرتے ہیں جب ہماری کتابوں میں اصحاب رسول کے ابواب فضائل ومناقب کو اگر یکجا کیا جائے یہ ایک دفتر بن جاتا ہے ۔ ہمارے نزدیک اصحاب رسول کا مرتبہ ایسا ہے کہ اللہ نے ان ہی پاک بازوں اور راست روش ہستیوں کی خیرات اس زمین کو قائم کیا ۔ اور ان ہی کے خدمات جلیلہ کے طفیل اہل زمین کو روزی ملتی ہے ۔ان کے ہی کسب ہائے کمال اور کردار ہائے پرجمال کی بدولت باراں رحمت برستی ہے ۔ان ہی متقی ومومن اصحاب رسول کے کارہائے فضیلہ کے انعام وصدقہ میں ہم خاطی لوگوں کی مدد ہوتی ہے ۔اور یہ بات محض لفاظی نہیں بلکہ ارشاد مولائے کائنات سے مصدّقہ ہے ۔حضرت امیر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔

سات وسیلے :-

"زمین سات اشخاص کے واسطے پیدا کی گئی ہے جن کے سبب سے اہل زمین روزی پاتے ہیں اور ان ہی کی برکت سے بارش ہوتی ہے انہی کی برکت سے لوگوں کی مدد کی جاتی ہے ۔اور وہ ابوذر، سلمان ، مقداد،عمار ،حذیفہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھم ہیں اس کے بعد حضرت امیر علیہ السلام نے فرمایا میں (علی) ان کا امام اور پیشوا ہوں ۔اور یہی وہ لوگ

۱۲۴

ہیں جو فاطمہ زھراء کی میت پر نماز کے لئے حاضر تھے (حیات القلوب:- علامہ مجلسی مؤلف حیات القلوب کے نزدیک حضرت عبدا للہ بن مسعود کا معاملہ مشتبہ ہے ۔تاہم ابن مسعود کا راجح ہونا تسلیم شدہ امر ہے )

ہم شیعیان اہل بیت کو اس بات پر فخر وناز ہے کہ ہم نے کرسی اقتدار کو کبھی جھک کر سلام نہیں کیا ہے بلکہ ہم نے ہمیشہ ان مردان مومنین کی راہوں میں اپنی آنکھیں بچھائیں ہیں جو دنیا کی نظروں میں فقیر وحقیر دکھائی دیتے تھے لیکن ہماری نگاہوں نے پہچان لیا کہ یہ وہ ہستیاں ہیں کہ جن کی نگاہ ایمان کو تقدیر پر تبدیل کردینے کی قدرت حاصل ہے ۔اغیار نے تاج وتخت اور حکومت سب کچھ سمجھ لیا اور لاٹھی کی بھینس بن گئے مگر ہم نے ان سے لولگائی جن کو ظاہرا اور باطنا ہر طرح سے درجہ بدرجہ اقتدار و اختیار منجانب خدا ورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حاصل تھا ۔ایسے ہی عظیم المرتبت حضرات میں حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ کو امتیازی مقام وافتخاری درجہ حاصل ہے ۔

مثیل میکائیل :-

اللہ اللہ ! سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس یار جانثار کا تعارف اس انداز میں کراتے ہیں ۔

ارشاد فرماتے ہیں کہ

"جبریل خداوند کی جانب سے مجھے (رسول اللہ کو)خبر دے رہے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! سلمان اور مقداد آپس میں بھائی بھائی ہیں جو تمھاری محبت اور تمھارے بھائی ،وصی اور تمھارے برگزیدہ علی علیہ السلام کی مؤدت میں خالص ہیں ۔اور یہ دونوں حضرات تمھارے حلقہ اصحاب میں جبرئیل ومیکائیل کے مانند

۱۲۵

ہیں ۔جیسے وہ ملائکہ میں ہیں (جو مرتبہ ودرجہ فرشتوں میں ان کو حاصل ہے )سلمان اور مقداد رضی اللہ عنھما اس کے دشمن ہیں جو ان میں کسی کا دشمن ہے (جبرئیل ومکائیل کا) اور اس کے دوست ہیں جو ان سے دوستی رکھتا ہو اور محمد وعلی علیھما ا لصلواۃ والسلام کو دوست رکھتا ہو ۔ اور( یہ دونوں )اس کے بھی دشمن ہیں جو محمد و علی علیھما الصلواۃ والسلام کو دشمن رکھتا ہو ۔ اگر اہل زمین سلمان اور مقداد کو دوست رکھیں محض اس لئے کہ وہ محمد وعلی علیھما الصلواۃ والسلام کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے دوستوں کو دوست اور ان کے دشمنوں کو دشمن رکھتے ہیں جس طرح کہ ان کو آسمانوں کے حجابات اور عرش وکرسی کے فرشتے رکھتے ہیں تو یقینا خدا ان میں سے کسی پر کسی طرح کا عذاب نہ کرتا ۔(تفسیر امام حسن عسکری سورہ بقرہ ص۹۷-۹۸ بحوالہ حیات القلوب)

ارشاد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مطابق میکائل صحابی رسول حضرت مقداد رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت کے لئے یہ اعزاز بھی ایک خصوصی تمغہ خدمت ہے کہ آپ کو سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ۔چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ،سے مروی ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام رسالت مآب کے غسل وکفن سے فارغ ہوئے اور مجھے (سلمان کو) ابوذر ، مقدادرضی اللہ عنہ ،فاطمہ ،حسن اور حسین علیھم السلام کو بلایا ۔خود (علی)آگے کھڑے ہوئے اور ہم نے حضرات امیر کے پیچھے صف باندھی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نماز پڑھی (اسی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ اسی حجرے میں موجود تھیں مگر جبرئیل نے ان کی آنکھوں کو( دست غیب سے) نند رکھا تھا وہ ہم کو نہ دیکھ سکیں ۔

جنت کا اشتیاق:-

کتب فریقین میں معمولی فرق کے ساتھ یہ حدیث مرقوم ہے اور شہرت کی حامل ہے کہ حضور نے فرمایا کہ جنت چار اشخاص

۱۲۶

کی مشتاق ہے ۔ہر فریق نے ان چار حضرات میں حضرت مقداد رضی اللہ عنہ ،کو شامل کیا ہے چنانچہ سید ابن طاؤؤس نے بطریق مخالفین ایک روایت بیان کی ہے کہ ۔

انس بن مالک سے میروی ہے کہ ایک روز رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بہشت میری امت میں سے چار شخصیوں کی مشتاق ہے ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا رعب مانع ہوا کہ میں (انس ) حضرت سے دریافت کروں کہ وہ کون لوگ ہیں ۔میں حضرت ابوبکر کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ آپ(ابوبکر)حضرت سے دریافت کیجئے ۔حضرت ابوبکر نے کہا کہ میں ان چاروں اشخاص میں اگر نہ ہوا تو بنی تمیم مجھ کو سرزنش کریں گے ۔یہ سن کر میں حضرت عمر کے پاس گیا ان سے کہا کہ میں ان چار اشخاص میں اگر نہ ہوا تو بنی عدی مجھ کو طعنہ دیں گے ۔پھر میں (انس) حضرت عثمان کے پاس گیا اور ان (عثمان) سے خواہش کی کہ وہ دریافت کریں ۔انھوں نے بھی کہا کہ اگر میں ان میں سے نہ ہوا تو بنی امیہ مجھ کو ملامت کریں گے ۔آخر میں حضرت علی کی خدمت میں گیا ۔حضرت باغ میں پانی دے رہے تھے ۔میں نے کہا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ بہشت چار اشخاص کی مشتاق ہے میں (انس) آپ سے التماس کرتا ہوں کہ حضرت سے دریافت فرمائیے کہ وہ کون لوگ ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں ان سے پوچھوں گا ۔ میں (علی)اگر ان چار شخصوں میں ہوا تو خدا کا شکر کروں گا اور اگر ان میں میرا شمار نہ ہوا تو خدا سے سوال کروں گا کہ مجھے ان میں سے قراردے ۔اور میں ان(چاروں)کو دوست رکھوں گا ۔غرض حضرت علی علیہ السلام روانہ ہوئے اور میں (انس) بھی ان کے ساتھ چلا ۔جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے تو دیکھا کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۱۲۷

کا سراقدس دحیہ کلبی کی گود میں ہے جب دحیہ کلبی نے امیر المؤمنین کو دیکھا ۔تعظیم کے لئے اٹھے اور ان کو سلام کیا اور کہا لو اپنے پسر عم کے سر کو اے امیر المومنین کہ تم مجھ سے زیادہ سزاوار ہو ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے اور اپنا سر علی علیہ السلام کی گود میں دیکھا تو فرمایا اے علی علیہ السلام شاید تم کسی حاجت کے لئے آئے ہو ۔انھوں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ جب میں یہاں آیاتو دیکھا کہ آپ کا سر مبارک دحیہ کلبی کی گود میں تھا ۔ تو وہ اٹھے اور مجھے سلام کرکے بولے کہ اپنے پسر عم کے سر کو گود میں لوحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ تم نے پہچانا کہ وہ کون تھے ۔؟عرض کی دحیہ کلبی تھے حضرت نے فرمایا کہ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے جنہوں نے تم کو امیر المومنین کہا جناب امیر نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ انس(بن مالک )نے مجھے بتا یا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ بہشت میری امت میں سے چار شخصوں کی مشتاق ہے لہذا فرمائیے کہ وہ کون کون ہیں ۔

حضرت نے جناب امیر علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور تین مرتبہ فرمایا کہ تم (علی)ان میں سے پہلے ہو ۔جناب امیر نے عرض کی میرے باپ ماں آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ اور وہ تین اشخاص کون ہیں ؟حضرت نے فرمایا وہ مقداد،سلمان اور ابوذر رضی اللہ ہیں ۔

محفوظ عن الشک :-

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ حضرات مقداد ،سلمان ،اور ابوذر رضی اللہ عنھم تینوں ایسے اصحاب تھے جن کے دلوں میں مطلق شک داخل نہ ہوا ۔محرر حقیر کہتا ہے کہ سراپا یقین تھے ۔

۱۲۸

حور مقدودۃ:-

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد گھر سے نکلا تو راستہ میں امیر المومنین علیہ السلام سے ملا قات ہوئی جناب امیر نے فرمایا جاؤ جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا)کے پاس ان کو بہشت سے کچھ تحفہ آیا ہے اور وہ تم کو بھی اس میں سے کچھ عطا کرنے کی خواہش رکھتی ہیں یہ سنکر میں ان مخدومہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔شاہزادی نے فرمایا ۔کل میں اسی مقام پر بیٹھی ہوئی تھی ۔دروازہ بند تھا میں غمگین ومحزون تھی اور سوچ رہی تھی کہ ہم وحی الہی سے محروم ہوگئے ۔اور ہمارے گھر میں فرشتوں کی آمد ورفت بند ہوگئی اچانک دروازہ کھلا اور تین لڑکیاں اندر داخل ہوئیں کہ ان سے زیادہ حسین وجمیل اور نازک ورعنائی میں بہتر اور خشبودار کبھی کسی نے نہ یکھا ہوگا ۔ان کو دیکھا تو میں اٹھ کھڑی ہوئی اور پوچھا تم اہل مکّہ سے ہو یا مدینہ کی رہنے والی ہو ۔وہ بولیں ۔اے بنت رسول (س)ہم اہل زمین سے نہیں ہیں ۔ہم آپ کی زیارت کے لئے بے حد مشتاق تھیں ۔ان میں سے بڑی جو مجھے معلوم ہوئی میں نے ان سے پوچھا کہ تمھارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا" مقدودۃ"

میں نے پوچھا کس سبب سے یہ نام رکھا گیا ؟ اس نے کہا اس لئے کہ مقداد بن اسود کے لئے خلق کی گئی ہوں "(حیات القلوب)

مجھے افسوس ہے کہ اہل قلم مسلمانوں کے قلم کی نبیس( Nibs ) اسی لوہے سے تیار ہوتی رہیں جس سے بے گناہ خون سے آلودہ تلوار یں بنی تھیں اسی لئے ان لوگوں کے حالات ومناقب کو

۱۲۹

ہمیشہ قلم انداز کیا گیا جن کو ارباب حکومت اپنے مخالفین تصور کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ زمانہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اعزاز یافتہ اور محفل نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معتمد مصاحب کی اقدار رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھ بند ہوتے ہی پامال ہونا شروع ہوگئیں اور زنانہ کی ریت یا رسم دنیا کے مطابق لوگوں نے ارباب سلطنت کے ترانے بڑھی دھوم سے گائے اور اصحاب اخیار سے خیرہ چشمی برتی ۔باوجود ان اندوہناک حالات اور اوپر آشوب اوقات کے یہ قدرت کا احسان ہے کہ پھر بھی کوئلوں کی کانوں سے وافر مقدار میں جواہر دستیاب ہوجائے ہیں جن کی آب وتاب ایک ہدایت کی روشنی میں اضافہ کرتی ہے تو دوسری طرف گمراہی کی انکھیں چند یادیتی ہے ۔حضرت مقداد کا امتیازی مقام اوران کی منفرد شخصیت کا انداز ہ آپ اس بات سے کرسکتے ہیں کہ اسلام کی پہلی جنگ غزوہ بدر میں ان کو شرکت کا اعزاز حاصل تھا اور طبقات ابن سعد کے مطابق آپ وہ واحد مجاہد تھے جو لشکر اسلام میں گھوڑا سوار تھے ۔چنانچہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ ۔

"مقداد بن عمر و سے مروی ہے کہ یوم بدر میرے پاس ایک گھوڑا تھا جس کا نام "سجہ"تھا علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ یوم بدر میں سوائے مقداد بن عمر و کے ہم میں سے کوئی سوار نہ تھا ۔(طبقات ابن سعد حصہ سوم ص ۳۱۵)

صاحب طبقات تحریر کرتے ہیں کہ "قاسم بن عبد الرحمان سے مروی ہے اللہ کی راہ میں سب سے پہلے جس شخص کو اس کے

۱۳۰

گھوڑے نے دوڑایا وہ مقداد بن الاسود ہیں "(طبقات ابن سعد حصہ سوم ۳۱۵)

لیکن افسوس ہے کہ اول معرکہ حق وباطل میں اول گھوڑا دوڑانے والے اس مجاہد کے کارہائے نمایاں کی کتاب "ذہبیہ" کو بعد کے جارح لشکر وں کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی دھول سے اس قدر ڈھانپ گیا ہے کہ آج حق وباطل کی شناخت میں مٹی کی نہیں ایک سدراہ دیوار بن کر نمودار ہوچکی ہیں اور محققین کے لئے اس کو عبور کرنا جان جوکھوں کی مہم بن گیا ہے تاہم ہمت مرداں مدد ے خدا ۔اگر نیک نیتی سے کوشش کی جائے تو بفضل خدا یہ ریت کی دیوار یں صرف ایک نعرہ حیدری کی پھونک سے اڑجاتی ہیں اور تمام حقائق شفاف آئنہ کی مانند سامنے آجاتے ہیں ۔

مختصر حالات:-

حضرت مقداد کے فضائل بیان کرنے کے لئے عمر خضر بھی کافی نہ ہوگی علماء کی رائے یہ ہے کہ صحابہ میں ان کے بلند مرتبہ کے برابر سلمان اور ابوذر کے بعد کوئی نہیں ہے ۔محمد بن سعد کی تحقیق کے مطابق ان کی کنیت ابو سعید تھی اور شجرہ یہ تھا۔

ابن تغلبہ بن مالک بن ربیعہ بن ثمامہ بن مطرفہ بن عمرو بن سعد ابن دہیر لوئی بن ثعلبہ بن مالک بن الشرید ابی اہون بن فائش ابن دریم بن القیس بن اہود بن بہراء بن عمرو بن الحاف بن قضاعۃ کنیت ابو سعید تھی۔ زمانہ جاہلیت میں اسود بن یغوث الزہری سے معاہدہ حلف کیا ۔انھوں نے ان کو متبنی بنا لیا اور انھیں

۱۳۱

مقداد بن الاسود کہا جاتا تھا جب قرآن نازل ہوا کہ "ادعوھم لاباءھم" (لوگوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارو)تو مقداد بن عمروکہا جانے لگا ۔

ابن اثیر نے لکھا ہے کہ وہ مرد بن ثعلبہ بن مطرودہن عمرو کندی کے بیٹے تھے بعض نے کہا ہے وہ قبیلہ قصاعہ سے تھے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ حضرت کے رہنے والے تھے ۔ چونکہ ان کے والد قبیلہ کندہ سے ہم سوگند ہوگئے تھے اسی لئے اس قبیلہ سے منسوب ہوگئے تھے ۔علامہ ابن عبدالبر کے مطابق آپ اسود بن یغوث زہری کے غلام تھے اور چونکہ اسود نے ان کو فرزندی میں لے لیا اس وجہ سف مقداد کو ان کی طرف منسوب کردیا گیا ۔

حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سابق الا سلام اصحاب میں سے تھے اور انکا اسلام قدیم تھا ۔ وہ اسلام کے بہت جری اور نڈر مجاہد تھے ۔ابو سفیان نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت مقداد وہ خوش بخت اللہ کے سپاہی تھے کہ جسے ان کے گھوڑے نے سب سے پہلے راہ خدا میں درڑایا ۔(طبقات ابن سعد)

عبد اللہ سے مروی ہے کہ میں (راوی)مقداد کے مشہد میں موجود تھا ۔البتہ مجھے ان کا ساتھی ہونا اس سے زیادہ پسند ہے کہ جس سے ہٹایا گیا وہ مشرکین بدر پر بد دعا کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ ہم لوگ آپ سے وہ بات نہ کہیں گے جو قوم موسی نے موسی علیہ السلام سے کہی ک آپ کا رب اور آپ جائیۓ اور آپ دونوں قتال کیجئے ہم لوگ یہیں بیٹھے ہیں ۔ہم لوگ آپ کے داہنے اوربائیں آگے اور پیچھے

۱۳۲

جنگ کریں گے ۔میں (راوی)نے دیکھا کہ نبی کا چہرہ اس بات سے روشن ہوگیا اور اس بات نے آپ کو مسرور کردیا ۔یہ اظہار حضرت مقداد کے جذبہ جہاد اور شوق شہادت کی کیفیت بیان کرنے کے لئے کافی ہے ۔آپ غزوات بدر۔احد وخندق اور تمام مشاہد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حاضر ہوئے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان خاص اصحاب میں سے تھے جو تیر انداز تھے آپ تیر اندازی میں مشہور اور امہارت یافتہ تھے ۔ رسول کریم کی قربت خاص حاصل تھی یہاں تک کہ حضور نے ضابطہ بنت زبیر عبد المطلب سے آپ کا نکاح کردیا تھا (طبقات ابن سعد)

ابن بابویہ نے بسند معتبر امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ جبرائیل آنحضرت پر نازل ہوئے ۔اور کہا یا رسول اللہ آپ کا پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے اور فرمایا ہے کہ باکرہ لڑکیاں درخت پر پھلوں کی مانند ہیں ۔جب درختوں پر پھل تیار ہوجاتے ہیں تو ان کا علاج سوائے توڑ کر استعمال کرنے کے کوئی نہیں ۔اگر ان کو استعمال نہ کروگے تو ہوا ان کو خراب کردے گی ۔اور سورج بے کار کردے گی اسیطرح کنواری لڑکیاں جب بالغ ہوجاتی ہیں تو ان کا علاج شوہر کے سوا کچھ نہیں اگر ایسا نہ ہوتو فتنہ وفساد سے ان کا محفوظ رہنا ممکن نہیں ۔ یہ سنکر آنحضرت منبر پر تشریف لےگئے ۔اور لوگوں کے سامنے خطبہ پڑھا اور ان کو آگاہ کیا اس سے جو کچھ خدا نے ان کو حکم دیا تھا تو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ہم اپنی لڑکیوں کو کس کے ساتھ

۱۳۳

تزویج کریں ۔فرمایا ان کے کفو اور برابر والے لوگوں کے ساتھ پوچھا ان کے کفو کون لوگ ہیں ۔ حضور نے فرمایا مومنین آپس میں ایک دوسرے کے کفو اور ہمسر ہیں ۔ یہ فرما کر منبر سے نیچے تشریف لائے اور ضباعۃ کو مقداد ابن اسود کے ساتھ تزویج فرمایا کہ میں نے اپنے چچا کی بیٹی کو مقداد سے اس لئے تزویج کردیا کہ نکاح پست ہو یعنی لوگ کفو کے بارے میں حسب ونسب کا خیال نہ کریں بلکہ ہر مومن کو رشتہ دے لے کریں ۔

ابن سعد نے کریمہ بنت مقداد سےا ن کا حلیہ مبارک یوں بیان کیا ہے کہ وہ گندم گوں ،لانبے ،فراخ شکم ،سرمیں بہت بال تھے ۔داڑھی کو زرد رنگتے جو خوبصورت تی نہ بڑی نہ چھوٹی ۔بڑی بڑی آنکھیں ۔پیوستہ آبرو، ناک کا بانسہ بھرا ہوا اور نتھنے تنگ تھے ۔

حضرت کلینی نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ ایک دن حضرت عثمان نے جناب مقداد سے کہا کہ میری (عثمان کی) مذمت اور علی کی مدح سے باز آجاؤ ۔ورنہ تم کو تمہارے پہلے آقا کے پاس واپس بھیج دوں گا ۔جب حضرت مقداد کی وفات کاوقت آیا تو انھوں نے حضرت عمار یاسر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ عثمان کو کہہ دو کہ میں اپنے پہلے آقا کی طرف واپس جارہاہوں یعنی عالمین کے پروردگار جل شانہ کی جانب ۔

۱۳۴

وجہ عتاب حکومت :-

حضرت مقداد مورد عتاب حکومت کیوں رہے ۔ اس کا جواب مندرجہ ذیل روایت سے حاصل ہوجاتا ہے کہ شیخ طوسی فرماتے ہیں ۔

"جب لوگوں نے عثمان بن عفان سے بیعت کی حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن الرحمان بن عوف (خلیفہ گر عثمان) سے کہا خدا کی قسم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت (علیھم السلام) پر حضرت کے بعد جو کچھ ہوا اس کی نظیر کہیں نہیں مل پاتی ۔عبد الرحمان نے بے رخی سے کہا کہ تم کو ان کاموں سے کیاواسطہ ؟ مقداد نے جواب دیا کہ میں خدا کی قسم ان کو (اہلیت کو) دوست رکھتے تھے اور خدا کی قسم مجھے ان کے حالات دیکھ کر ایسا صدمہ ہوتا ہے جس کا اظہار ممکن نہیں کیو نکہ قریش کو کے سبب لوگوں پر شرافت وعزت حاصل ہوئی ۔پھر سب نے ملکر یہ سازش کی کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بادشاہی ان کے قبضے سے لے لیں عبد الرحمان نے بپھر کر کہا وائے ہو تم پر واللہ میں نے یہ کوشش تو تم ہی لوگوں کی خاطر کی ہے اور نہیں پسند کیا کہ خلافت علی کے قبضے میں جائے ۔

حضرت مقداد نے فرمایا خدا کی قسم تو نے اس شخص کو چھوڑ دیا جو لوگوں کو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے اور عدالت کے ساتھ ان میں حکم جاری فرماتا ہے ۔اللہ کی قسم اگر مجھے مددگار میسر ہوں تو میں یقینا قریش سے اسی طرح جنگ کرتا جس طرح بدر واحد کے روز جنگ کی تھی ۔عبد الرحمان نے آگ بگولہ ہوکر کہا تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے اے مقداد اس بات کو ترک کر کہ لوگ تم سے نہ سنیں ورنہ فتنہ وفساد برپا ہوگا ۔خدا کی قسم میں خوف زدہ ہوں کہ تیری باتوں سے

۱۳۵

لوگوں میں اختلاف اور فساد پیدا ہوجائے گا ۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ اس مجلس سے اٹھے تو میں ان کے پاس گیا اور کہا اے مقداد میں تمھارے مددگار وں میں سے ہوں ۔ مقداد نے جواب دیا کہ خدا تم پر رحمت نازل کرے ۔جس امر کا میں ارادہ رکھتا ہوں وہ دویا تین شخصوں سے پورا نہ ہوگا اس کے بعد راوی حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی اور اپنی گفتگو بیان کی ۔جسے سنکر مولائے عالمین نے ان کے لئے دعائے خیر کی ۔

اس روایت سے وہ وجوہات ازخود منکشف ہوجاتی ہیں جو حضرت مقداد اور حکومت کے درمیان باعث کشمکش رہیں ۔

الف قران :-

حضرت صادق آل محمد علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ "مقداد بن اسود کا مرتبہ قرآن مین الف کے مرتبہ کے مانند ہے کہ دوسرا حرف اس سے نہیں ملتا ۔اسی طرح کمال میں کوئی دوسرا مقداد کے کمال سے ملحق نہیں ہوتا ۔

خصوصی امتیاز:-

حلقہ اصحاب النبی میں حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کو یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ شیخ کشی نے بسند معتبر روایت کی ہے کہ صحابہ میں کوئی ایسا صاحب نہ تھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی حرکت نامناسب نہ کی ہو سوائے مقداد بن اسود کے کیوں کہ ان کادل حق کی طرفداری میں مثل آہنی ٹکڑوں کے تھا ۔پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ یار باوقار

۱۳۶

ستر یا اسی برس کی عمر میں اس فانی دنیا سے رخصت ہوگیا ۔ مدینے سے تین میل دور الحرف میں وفات پائی اور لوگوں نے گردنوں پر لاد کر مدینہ منورہ پہنچایا ۔جنت البقیع میں مدفون ہوئے وجہ وفات میں اختلاف ہے ۔ابی فائد کی روایت کے مطابق روغن انجیر پینے سے وفات پائی ۔ بعض کا گمان ہے کہ حکومت نے خفیہ طور پر زہر سے ہلاک کرنے کی کو ‎ شش کی ۔جب وفات مقداد کی خبر حضرت عثمان کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اظہار افسوس کیا اور حضرت مقداد کی تعریفیں کرنے لگے ۔اس پر زبیر بن عوام سے نہ رہا گیا اور یہ شعر کہا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ

"میں تم کو اس حالت میں پاؤں گا کہ مرنے پر میرے محاسن بیان کروگے حالانکہ جیتے جی مجھے توشہ تک نہ دیا "(طبقات ابن سعد حصہ سوم ص ۳۱۷)

بدل دے بدل دے خیال زبوں کو

مٹادے مٹادے ملال دروں کو

دکھادے دکھادے بہار سکوں کو

الٹ دے الٹ دے نظام جنوں کو

ہے مقداد تو رھبر انقلابی

ہر اک دور کامحور انقلابی

(احسان امروہوی)

٭٭٭٭٭

۱۳۷

چہارم یار نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لقمان امت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ

اس کرہ ارض خداوندی کی تاریخ میں ہزروں نامور اشخاص کے نام وحالات ملتے ہیں جو اپنی اپنی بجاکر خالی ہاتھوں خاک میں مل گئے ۔عالم فانی میں جہاں وحشی ،درندہ صفت ،خونخوار اور سفاک لوگوں نے اپنے کردار سے لقب اشر ف المخلوقات کو شرمندہ کیا وہاں سینکڑوں ایسی ہیستیاں بھی گزریں جنھوں نے کردار انسان کو اس قدر بلند کیا کہ لفظ اشرف المخلوقات خود شرما گیا اسمیں شک نہیں کہ اسلام خدا کاپسندیدہ دین ہے او تا قیام قیامت انسان کی معاشرتی حیات کے لئے کافی ہے لیکن زمانہ کے تغیر و تبدل نے اس دین بھی رخنہ اندازی پیدا کردی ۔رسول اکرم نے دین حقیقی کے دووارث مقرر کردیئے ،ایک کتاب الہی اور دوسرےاہل بیت رسول(علیھم السلام)۔ان دونوں سے تمسک رکھنا ہر طرح کی گمراہی سے محفوظ رہنے کا علاج تجویز فرمایا ۔جن لوگوں نے راہ فلاح پہچان لی اور دین اسلام کو دل سے قبول کیا وہ بموجب ہدایت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،قرآن واہل بیت (ع)سے متمسک رہتے لیکن جو لوگ کسی طمع یا غرض سے کلمہ اسلام پڑھنے پر مجبور ہوئے انھوں نے اہل بیت (ع) کادامن چھوڑ دیا کیوں کہ وہ اپنی دانست میں حکومت ونبوت ایک گھر میں پھیلتی پھولتی برداشت نہ کرسکے وہ لوگ جو اسلام کو حق سمجھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے انھوں نے صحبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور تعلیم الہامی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اپنے آپ کو اسلامی کردار کے سانچے میں ڈھالنے کا حق ادا کردیا ۔انھوں نے

۱۳۸

اپنی زندگیوں کو ہمیشہ تابع اسلام رکھا اور ہر طرح کی ملامت و خوف کو نظر انداز کرتے ہوئے پیکر تسلیم ورضا بنے رہے یہی وہ خوش قسمت اور سرخرو طبقہ تھا جو محافظ لقب بنی آدم "اشرف المخلوقات "کا مصداق قرار پایا ان کا چال چلن آج بھی دنیا کو مکمل درس دے رہا ہے اور اہل باطل کے لئے عبرت آموز سبق ہے ۔ دیگر اقوام کی طرح اسلام کے ساتھ بھی یہ المیہ عظیم پیش آیا کہ سلاطین نے اپنی اغراض ذاتی اور بقا ئے سلطنت کے لئے ان اشراف کائنات بزرگوں کے حالات زندگی کو منظر عام پر نہ آنے دیا مؤرخین نے خوف حکومت اور حرص مال ومنصب میں ان نامور اور کامران ہستیوں کے کارناموں کو پوشیدہ کیا اور اپنے حاکموں یا ان کے بہی خواہوں کے حالات کو بے بنیاد فضائل اور جھوٹے مناقب کے ساتھ خوب بڑھا چڑھا کر درج کرلیا اور یہ کہانی ہم مقدمات میں پہلے ہی سنا چکے ہیں ۔ہم جب تاریخ بینی کرتے ہیں تو سخت تعجب ہوتا ہے ایسے بزرگان اسلام کے حالات جن کو پڑھ کر اصلاح نفس اور تسکین قلب حاصل ہوتے ہیں ۔ اور جو کردار کے اعلی مدارج پر فائز تھے لوگ ان کے ناموں سے بھی آشنا نہیں ہیں اورجن لوگوں کے فضائل کی تشہیر کی جاتی ہے ان کے سوانح حیات ان فضائل کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جو ان سے منسوب ہیں یہ مسئلہ نازک تو ضرور ہے مگر بہت اہم ہے لہذا مجھے بار بار اس کے تکرار کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس نا انصافی پر مبنی تدبیر نے آئندہ نسل کی فکر پر گہرا اثر ڈالا ہے اور اس کا نتجہ اس قدر مضر سامنے آیا ہے کہ حق وباطل آپس میں

۱۳۹

اس طرح خلط ملط ہوگئے ہیں کہ شناخت کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے ملاحظہ کریں کہ اسلام امن وسلامتی کادین ہے لیکن تاریخ نویسی ہمیں بتائی ہے کہ اسلام تلوارزنی ۔فتوحات ارضی اور لشکرکشی کانام ہے ۔

الغرض ان مظلوم حضرات کی خطا صرف یہی تھی کہ انھوں نے سنّت رسول اور آل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنا رہنما قرار دیا وہ اپنے اصول پر چٹان کی طرح رہے اپنے کردار کو اسقدر بلند رکھا کہ ان کا ہرغیر ان سے پست نظر آتا تھا اگر آج کی نسل کے سامنے ان بااصول باضمیر اور باکمال مسلمانوں کے وہ عظیم کارنامے پیش کئے جائیں تو دنیا لادینی رجحان کی طرف کبھی راغب نہ ہو ۔ان لائق پیروی اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ کو ممتاز مقام حاصل ہے ۔وہ افضل ترین صحابہ میں سے تھے ۔کہ ان کو خود حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خصوصی نسبت ہوئی اور آپ کو سلمان محمدی کہا جاتا ہے ۔

ابتدائی حالات:-

حضرت سلمان فارسی کا نسبی تعلق اصفہان کے آب کے خاندان سے تھام ۔قدیم نام میں اختلاف ہے لیکن ان میں دونام زیادہ مشہور ہیں ۔"مابہ "اور "روزبہ"اسلامی نام سلمان تجویز ہوا ۔رسول کریم نے "سلمان الخیر"کا لقب عطا فرمایا ۔ اس کے علاوہ طیّب ۔طاہر لقمان الحکمت کے القابات حضور اکرم نے عنایت فرمائے ۔ابو عبد اللہ کنیت تھی ۔سلسلہ نسب یہ ہے ۔روزبہ (سلمان)بن بود خیشاں بن مو رسلان بن بہود ان بن فیروزبن سہرک ۔آپ کا تعلق ایران

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180