چار یار

چار  یار0%

چار  یار مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں
صفحے: 180

چار  یار

مؤلف: عبد الکریم مشتاق
زمرہ جات:

صفحے: 180
مشاہدے: 43582
ڈاؤنلوڈ: 2579

تبصرے:

چار یار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43582 / ڈاؤنلوڈ: 2579
سائز سائز سائز
چار  یار

چار یار

مؤلف:
اردو

"جاؤ واپس لے جاؤ مجھے اس کی حالت میں قطعی ضرورت نہیں ہے جبکہ غریب مسلمانوں کو نظر انداز کردیاگیا ہے میرے لئے تھوڑی گندم کافی ہے ۔میرا گزر اوقات ہورہا ہے ۔خلیفہ سے جاکر کہہ دینا کہ میں علی علیہ السلام اور اہلبیت علیہم السلام کی ولایت میں بالکل غنی ہوں ۔میرا دل غنی ہے ۔میری روح غنی ہے ۔میری جان غنی ہے ۔ تمھاری دولت کی ہمیں ضرورت نہیں "۔(حیات القلوب)

جب یہ تراکیب کارآمد نہ ہوئی تو سرکاری فرمان جاری ہوا کہ ابوذر سے ترک موالات کی جائے ۔حکم حاکم مرگ مفاجات اس شاہی حکم سے لوگوں نے آپ کے پاس آنا جانا ترک کردیا ۔مگر ابوذر چلتے پھر تے اپنا وعظ جاری رکھتے رہے ۔کچھ درباری چہچہوں نے خلیفہ کے کان بھرے لہذا حضرت عثمان نے ان کوجلا وطن کرکے ربذہ بھیج دیا ۔مروان کو حکم دیا کہ اسے ننگی پشت کے اونٹ پر سوار کرکے ربذہ پہنچانے اور اعلان کیا کہ اس کی مشایعت کے لئے کوئی شخص نہ جاوے بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ ضرب شدید سے اذیت بھی پہنچائی ۔بہر حال سزائے موت کے ہم پلہ کالے پانی کی سزا اس صدیق امت صحابی کو خلیفہ مسلمین نے محض حق گوئی کے پاداش میں دی ۔

حضرت عثمان کے حکم اخراج ابوذر پر اگرچہ اصحاب میں سخت اضطراب تھا مگر جلتی آگ میں کودنا کسی کسی کا حوصلہ ہوتا ہے ۔حضرت ابوذر جب مدینہ سے نکالے گئے تو حکم عثمان کے خلاف حضرات علی،حسن،حسین،علیھم السلام ،عمار،ابن عباس،ابن جعفر اورمقداد رضی اللہ تعالی عنھم اپنے گھروں سے باہر آئے ۔اورجب حضرت ابوذر کو ننگے اونٹ پرمراوان بٹھانے لگا تو حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے مروان کو ٹوکا۔ حس پروہ حضرت عثمان کے پاس شکایت لے کرگیا ۔

۱۲۱

کئی مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ حضرت علی خود جناب ابوذر کو ربذہ کے جنگل تک چھوڑنے تشریف لےگئے ۔حضرت ابوذر کو کسمپرسی کی حالت میں ربذہ کے جنگل میں قید تنہائی کی سزا بھگتنی پڑی ۔اس حال میں کہ وہاں کوئی آبادی نہ تھی ۔اور دوردور تک انسان نظر نہ آئے تھے ۔ سوائے کسی مسافر کے اس مقام پر کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں آپ پناہ لے لیتے ۔بس ایک درخت تھا جس کے نیچے آپ رہتے تھے ۔جب معاویہ کویہ جلاوطنی کی خبر ملی تو اس نے حضرت ابوذر کی بیوی وغیرہ کو ربذہ بھیج دیا ۔اسی عالم بے بسی میں آپ کے فرزند ذر کا انتقال ہوا اورتھوڑے عرصہ بعد رفیقہ حیات بھی چل نسیں پھرآپ خود علیل ہوئے ۔ایک دختر کے علاوہ کوئی پرسان حال نہ تھا ۔جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو فضائل آل محمد کے علاوہ اور کوئی وصیت نہ کی اپنی بیٹی کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس خبر سے آگاہ کیا جو آپ نے اپنی حیات میں دربارہ دفن ارشاد فرمائی تھی چنانچہ بمطابق پیشگوئی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت مالک اشتر رضی اللہ عنہ یہ سعادت حاصل کی ۔اور جناب ابوذر کو چار ہزار درہم کا کفن پہنایا ۔بعض روایات میں ہے کہ لشکر کے ہرآدمی نے تھوڑا تھوڑا کفن کے لئے کپڑا دیا۔ مرقوم ہے کہ نماز جنازہ عبداللہ بن مسعود نے پڑھی ۔!!!!

توزہد جہاں کا قبلہ ہے اےقلب ابوذرغفاری

واللہ کہ تیرا فقررہا دینائے حکومت پر بھاری

تو ہے وہ خطیب عرفانی دل دہل گئے جس کے خطبوں سے

صحرائے عرب کی ریتی میں گل کھل گئے جس کے خطبوں سے

(احسان امروہوی)

٭٭٭٭٭

۱۲۲

سوم یا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ

ہمارے ہاں بسند معتبر یہ روایت ہے کہ جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خوشا حال اس کا مجھے دیکھے اور مجھ پر ایمان لا ئے یہی ارشاد سات مرتبہ فرمایا ۔امام حعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارہ اصحاب ایسے تھے ۔مدینہ کے آٹھ ہزار ،مکہ کے دوہزار اور دوہزار آزاد کنندہ لوگ کہ ان میں کوئی قدری المذھب نہ تھا ۔جو خداوند کے جبر کا قائل ہو۔ اور نہ ہی ان میں کوئی مرجی تھا جویہ کہتا ہوکہ ہرشخص کا ایمان ایک ہی قسم (درجہ) کا ہے اور نہ کوئی حروری تھا جو امیر المومنین علیہ السلام کو ناسزا کہتا ہو اور نہ کوئی معتزلی تھا جس کا یہ عقیدہ ہو کہ خدا کو بندوں کے اعمال میں کوئی عمل دخل نہیں اور یہ حضرات اللہ کے دین کے بارے میں اپنی طرف سے (قیاس سے )کوئی بات نہ کہتے تھے ۔یہ اصحاب دن رات گریہ زاری کرتے تھے اور بارگاہ ربّانی میں دعا کرتے تھے کہ خداوند تعالی ہماری روحوں کو قبض کرلے اس سے پہلے کہ ہمارے کان شہادت سبط رسول امام حسین علیہ السلام کی خبر سنیں۔

سید الاولیاء امام المتقین قائد ثقل دوم امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں میں تم کو تمھارے رسول کے اصحاب کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ ان کو گالی مت دو ۔برا نہ کہو ۔اور یاد رکھو تمھارے پیغمبر کے اصحاب وہ اشخاص

۱۲۳

ہیں جنھوں نے وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد نہ ہی کوئی بدعت کی اور نہ ہی کسی بدعت کرنے والے کی اعانت فرمائی یا اس کو پناہ دی بے شک میرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے اپنے ایسے اصحاب کے بارے میں سفارش (محبت ) فرمائی ہے ۔

اس وقت میری حیرت کی انتہا ہوجاتی ہے جب ہمارے مخالفین میں یہ گالی دیتے ہیں کہ ہم صحابہ کی تعظیم نہیں کرتے ہیں جب ہماری کتابوں میں اصحاب رسول کے ابواب فضائل ومناقب کو اگر یکجا کیا جائے یہ ایک دفتر بن جاتا ہے ۔ ہمارے نزدیک اصحاب رسول کا مرتبہ ایسا ہے کہ اللہ نے ان ہی پاک بازوں اور راست روش ہستیوں کی خیرات اس زمین کو قائم کیا ۔ اور ان ہی کے خدمات جلیلہ کے طفیل اہل زمین کو روزی ملتی ہے ۔ان کے ہی کسب ہائے کمال اور کردار ہائے پرجمال کی بدولت باراں رحمت برستی ہے ۔ان ہی متقی ومومن اصحاب رسول کے کارہائے فضیلہ کے انعام وصدقہ میں ہم خاطی لوگوں کی مدد ہوتی ہے ۔اور یہ بات محض لفاظی نہیں بلکہ ارشاد مولائے کائنات سے مصدّقہ ہے ۔حضرت امیر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔

سات وسیلے :-

"زمین سات اشخاص کے واسطے پیدا کی گئی ہے جن کے سبب سے اہل زمین روزی پاتے ہیں اور ان ہی کی برکت سے بارش ہوتی ہے انہی کی برکت سے لوگوں کی مدد کی جاتی ہے ۔اور وہ ابوذر، سلمان ، مقداد،عمار ،حذیفہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنھم ہیں اس کے بعد حضرت امیر علیہ السلام نے فرمایا میں (علی) ان کا امام اور پیشوا ہوں ۔اور یہی وہ لوگ

۱۲۴

ہیں جو فاطمہ زھراء کی میت پر نماز کے لئے حاضر تھے (حیات القلوب:- علامہ مجلسی مؤلف حیات القلوب کے نزدیک حضرت عبدا للہ بن مسعود کا معاملہ مشتبہ ہے ۔تاہم ابن مسعود کا راجح ہونا تسلیم شدہ امر ہے )

ہم شیعیان اہل بیت کو اس بات پر فخر وناز ہے کہ ہم نے کرسی اقتدار کو کبھی جھک کر سلام نہیں کیا ہے بلکہ ہم نے ہمیشہ ان مردان مومنین کی راہوں میں اپنی آنکھیں بچھائیں ہیں جو دنیا کی نظروں میں فقیر وحقیر دکھائی دیتے تھے لیکن ہماری نگاہوں نے پہچان لیا کہ یہ وہ ہستیاں ہیں کہ جن کی نگاہ ایمان کو تقدیر پر تبدیل کردینے کی قدرت حاصل ہے ۔اغیار نے تاج وتخت اور حکومت سب کچھ سمجھ لیا اور لاٹھی کی بھینس بن گئے مگر ہم نے ان سے لولگائی جن کو ظاہرا اور باطنا ہر طرح سے درجہ بدرجہ اقتدار و اختیار منجانب خدا ورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حاصل تھا ۔ایسے ہی عظیم المرتبت حضرات میں حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ کو امتیازی مقام وافتخاری درجہ حاصل ہے ۔

مثیل میکائیل :-

اللہ اللہ ! سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس یار جانثار کا تعارف اس انداز میں کراتے ہیں ۔

ارشاد فرماتے ہیں کہ

"جبریل خداوند کی جانب سے مجھے (رسول اللہ کو)خبر دے رہے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! سلمان اور مقداد آپس میں بھائی بھائی ہیں جو تمھاری محبت اور تمھارے بھائی ،وصی اور تمھارے برگزیدہ علی علیہ السلام کی مؤدت میں خالص ہیں ۔اور یہ دونوں حضرات تمھارے حلقہ اصحاب میں جبرئیل ومیکائیل کے مانند

۱۲۵

ہیں ۔جیسے وہ ملائکہ میں ہیں (جو مرتبہ ودرجہ فرشتوں میں ان کو حاصل ہے )سلمان اور مقداد رضی اللہ عنھما اس کے دشمن ہیں جو ان میں کسی کا دشمن ہے (جبرئیل ومکائیل کا) اور اس کے دوست ہیں جو ان سے دوستی رکھتا ہو اور محمد وعلی علیھما ا لصلواۃ والسلام کو دوست رکھتا ہو ۔ اور( یہ دونوں )اس کے بھی دشمن ہیں جو محمد و علی علیھما الصلواۃ والسلام کو دشمن رکھتا ہو ۔ اگر اہل زمین سلمان اور مقداد کو دوست رکھیں محض اس لئے کہ وہ محمد وعلی علیھما الصلواۃ والسلام کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے دوستوں کو دوست اور ان کے دشمنوں کو دشمن رکھتے ہیں جس طرح کہ ان کو آسمانوں کے حجابات اور عرش وکرسی کے فرشتے رکھتے ہیں تو یقینا خدا ان میں سے کسی پر کسی طرح کا عذاب نہ کرتا ۔(تفسیر امام حسن عسکری سورہ بقرہ ص۹۷-۹۸ بحوالہ حیات القلوب)

ارشاد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مطابق میکائل صحابی رسول حضرت مقداد رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت کے لئے یہ اعزاز بھی ایک خصوصی تمغہ خدمت ہے کہ آپ کو سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ۔چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ،سے مروی ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام رسالت مآب کے غسل وکفن سے فارغ ہوئے اور مجھے (سلمان کو) ابوذر ، مقدادرضی اللہ عنہ ،فاطمہ ،حسن اور حسین علیھم السلام کو بلایا ۔خود (علی)آگے کھڑے ہوئے اور ہم نے حضرات امیر کے پیچھے صف باندھی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نماز پڑھی (اسی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ اسی حجرے میں موجود تھیں مگر جبرئیل نے ان کی آنکھوں کو( دست غیب سے) نند رکھا تھا وہ ہم کو نہ دیکھ سکیں ۔

جنت کا اشتیاق:-

کتب فریقین میں معمولی فرق کے ساتھ یہ حدیث مرقوم ہے اور شہرت کی حامل ہے کہ حضور نے فرمایا کہ جنت چار اشخاص

۱۲۶

کی مشتاق ہے ۔ہر فریق نے ان چار حضرات میں حضرت مقداد رضی اللہ عنہ ،کو شامل کیا ہے چنانچہ سید ابن طاؤؤس نے بطریق مخالفین ایک روایت بیان کی ہے کہ ۔

انس بن مالک سے میروی ہے کہ ایک روز رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بہشت میری امت میں سے چار شخصیوں کی مشتاق ہے ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا رعب مانع ہوا کہ میں (انس ) حضرت سے دریافت کروں کہ وہ کون لوگ ہیں ۔میں حضرت ابوبکر کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ آپ(ابوبکر)حضرت سے دریافت کیجئے ۔حضرت ابوبکر نے کہا کہ میں ان چاروں اشخاص میں اگر نہ ہوا تو بنی تمیم مجھ کو سرزنش کریں گے ۔یہ سن کر میں حضرت عمر کے پاس گیا ان سے کہا کہ میں ان چار اشخاص میں اگر نہ ہوا تو بنی عدی مجھ کو طعنہ دیں گے ۔پھر میں (انس) حضرت عثمان کے پاس گیا اور ان (عثمان) سے خواہش کی کہ وہ دریافت کریں ۔انھوں نے بھی کہا کہ اگر میں ان میں سے نہ ہوا تو بنی امیہ مجھ کو ملامت کریں گے ۔آخر میں حضرت علی کی خدمت میں گیا ۔حضرت باغ میں پانی دے رہے تھے ۔میں نے کہا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ بہشت چار اشخاص کی مشتاق ہے میں (انس) آپ سے التماس کرتا ہوں کہ حضرت سے دریافت فرمائیے کہ وہ کون لوگ ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں ان سے پوچھوں گا ۔ میں (علی)اگر ان چار شخصوں میں ہوا تو خدا کا شکر کروں گا اور اگر ان میں میرا شمار نہ ہوا تو خدا سے سوال کروں گا کہ مجھے ان میں سے قراردے ۔اور میں ان(چاروں)کو دوست رکھوں گا ۔غرض حضرت علی علیہ السلام روانہ ہوئے اور میں (انس) بھی ان کے ساتھ چلا ۔جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے تو دیکھا کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۱۲۷

کا سراقدس دحیہ کلبی کی گود میں ہے جب دحیہ کلبی نے امیر المؤمنین کو دیکھا ۔تعظیم کے لئے اٹھے اور ان کو سلام کیا اور کہا لو اپنے پسر عم کے سر کو اے امیر المومنین کہ تم مجھ سے زیادہ سزاوار ہو ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے اور اپنا سر علی علیہ السلام کی گود میں دیکھا تو فرمایا اے علی علیہ السلام شاید تم کسی حاجت کے لئے آئے ہو ۔انھوں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ جب میں یہاں آیاتو دیکھا کہ آپ کا سر مبارک دحیہ کلبی کی گود میں تھا ۔ تو وہ اٹھے اور مجھے سلام کرکے بولے کہ اپنے پسر عم کے سر کو گود میں لوحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ تم نے پہچانا کہ وہ کون تھے ۔؟عرض کی دحیہ کلبی تھے حضرت نے فرمایا کہ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے جنہوں نے تم کو امیر المومنین کہا جناب امیر نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ انس(بن مالک )نے مجھے بتا یا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ بہشت میری امت میں سے چار شخصوں کی مشتاق ہے لہذا فرمائیے کہ وہ کون کون ہیں ۔

حضرت نے جناب امیر علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور تین مرتبہ فرمایا کہ تم (علی)ان میں سے پہلے ہو ۔جناب امیر نے عرض کی میرے باپ ماں آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ اور وہ تین اشخاص کون ہیں ؟حضرت نے فرمایا وہ مقداد،سلمان اور ابوذر رضی اللہ ہیں ۔

محفوظ عن الشک :-

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ حضرات مقداد ،سلمان ،اور ابوذر رضی اللہ عنھم تینوں ایسے اصحاب تھے جن کے دلوں میں مطلق شک داخل نہ ہوا ۔محرر حقیر کہتا ہے کہ سراپا یقین تھے ۔

۱۲۸

حور مقدودۃ:-

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد گھر سے نکلا تو راستہ میں امیر المومنین علیہ السلام سے ملا قات ہوئی جناب امیر نے فرمایا جاؤ جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا)کے پاس ان کو بہشت سے کچھ تحفہ آیا ہے اور وہ تم کو بھی اس میں سے کچھ عطا کرنے کی خواہش رکھتی ہیں یہ سنکر میں ان مخدومہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔شاہزادی نے فرمایا ۔کل میں اسی مقام پر بیٹھی ہوئی تھی ۔دروازہ بند تھا میں غمگین ومحزون تھی اور سوچ رہی تھی کہ ہم وحی الہی سے محروم ہوگئے ۔اور ہمارے گھر میں فرشتوں کی آمد ورفت بند ہوگئی اچانک دروازہ کھلا اور تین لڑکیاں اندر داخل ہوئیں کہ ان سے زیادہ حسین وجمیل اور نازک ورعنائی میں بہتر اور خشبودار کبھی کسی نے نہ یکھا ہوگا ۔ان کو دیکھا تو میں اٹھ کھڑی ہوئی اور پوچھا تم اہل مکّہ سے ہو یا مدینہ کی رہنے والی ہو ۔وہ بولیں ۔اے بنت رسول (س)ہم اہل زمین سے نہیں ہیں ۔ہم آپ کی زیارت کے لئے بے حد مشتاق تھیں ۔ان میں سے بڑی جو مجھے معلوم ہوئی میں نے ان سے پوچھا کہ تمھارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا" مقدودۃ"

میں نے پوچھا کس سبب سے یہ نام رکھا گیا ؟ اس نے کہا اس لئے کہ مقداد بن اسود کے لئے خلق کی گئی ہوں "(حیات القلوب)

مجھے افسوس ہے کہ اہل قلم مسلمانوں کے قلم کی نبیس( Nibs ) اسی لوہے سے تیار ہوتی رہیں جس سے بے گناہ خون سے آلودہ تلوار یں بنی تھیں اسی لئے ان لوگوں کے حالات ومناقب کو

۱۲۹

ہمیشہ قلم انداز کیا گیا جن کو ارباب حکومت اپنے مخالفین تصور کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ زمانہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اعزاز یافتہ اور محفل نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معتمد مصاحب کی اقدار رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھ بند ہوتے ہی پامال ہونا شروع ہوگئیں اور زنانہ کی ریت یا رسم دنیا کے مطابق لوگوں نے ارباب سلطنت کے ترانے بڑھی دھوم سے گائے اور اصحاب اخیار سے خیرہ چشمی برتی ۔باوجود ان اندوہناک حالات اور اوپر آشوب اوقات کے یہ قدرت کا احسان ہے کہ پھر بھی کوئلوں کی کانوں سے وافر مقدار میں جواہر دستیاب ہوجائے ہیں جن کی آب وتاب ایک ہدایت کی روشنی میں اضافہ کرتی ہے تو دوسری طرف گمراہی کی انکھیں چند یادیتی ہے ۔حضرت مقداد کا امتیازی مقام اوران کی منفرد شخصیت کا انداز ہ آپ اس بات سے کرسکتے ہیں کہ اسلام کی پہلی جنگ غزوہ بدر میں ان کو شرکت کا اعزاز حاصل تھا اور طبقات ابن سعد کے مطابق آپ وہ واحد مجاہد تھے جو لشکر اسلام میں گھوڑا سوار تھے ۔چنانچہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ ۔

"مقداد بن عمر و سے مروی ہے کہ یوم بدر میرے پاس ایک گھوڑا تھا جس کا نام "سجہ"تھا علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ یوم بدر میں سوائے مقداد بن عمر و کے ہم میں سے کوئی سوار نہ تھا ۔(طبقات ابن سعد حصہ سوم ص ۳۱۵)

صاحب طبقات تحریر کرتے ہیں کہ "قاسم بن عبد الرحمان سے مروی ہے اللہ کی راہ میں سب سے پہلے جس شخص کو اس کے

۱۳۰

گھوڑے نے دوڑایا وہ مقداد بن الاسود ہیں "(طبقات ابن سعد حصہ سوم ۳۱۵)

لیکن افسوس ہے کہ اول معرکہ حق وباطل میں اول گھوڑا دوڑانے والے اس مجاہد کے کارہائے نمایاں کی کتاب "ذہبیہ" کو بعد کے جارح لشکر وں کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی دھول سے اس قدر ڈھانپ گیا ہے کہ آج حق وباطل کی شناخت میں مٹی کی نہیں ایک سدراہ دیوار بن کر نمودار ہوچکی ہیں اور محققین کے لئے اس کو عبور کرنا جان جوکھوں کی مہم بن گیا ہے تاہم ہمت مرداں مدد ے خدا ۔اگر نیک نیتی سے کوشش کی جائے تو بفضل خدا یہ ریت کی دیوار یں صرف ایک نعرہ حیدری کی پھونک سے اڑجاتی ہیں اور تمام حقائق شفاف آئنہ کی مانند سامنے آجاتے ہیں ۔

مختصر حالات:-

حضرت مقداد کے فضائل بیان کرنے کے لئے عمر خضر بھی کافی نہ ہوگی علماء کی رائے یہ ہے کہ صحابہ میں ان کے بلند مرتبہ کے برابر سلمان اور ابوذر کے بعد کوئی نہیں ہے ۔محمد بن سعد کی تحقیق کے مطابق ان کی کنیت ابو سعید تھی اور شجرہ یہ تھا۔

ابن تغلبہ بن مالک بن ربیعہ بن ثمامہ بن مطرفہ بن عمرو بن سعد ابن دہیر لوئی بن ثعلبہ بن مالک بن الشرید ابی اہون بن فائش ابن دریم بن القیس بن اہود بن بہراء بن عمرو بن الحاف بن قضاعۃ کنیت ابو سعید تھی۔ زمانہ جاہلیت میں اسود بن یغوث الزہری سے معاہدہ حلف کیا ۔انھوں نے ان کو متبنی بنا لیا اور انھیں

۱۳۱

مقداد بن الاسود کہا جاتا تھا جب قرآن نازل ہوا کہ "ادعوھم لاباءھم" (لوگوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارو)تو مقداد بن عمروکہا جانے لگا ۔

ابن اثیر نے لکھا ہے کہ وہ مرد بن ثعلبہ بن مطرودہن عمرو کندی کے بیٹے تھے بعض نے کہا ہے وہ قبیلہ قصاعہ سے تھے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ حضرت کے رہنے والے تھے ۔ چونکہ ان کے والد قبیلہ کندہ سے ہم سوگند ہوگئے تھے اسی لئے اس قبیلہ سے منسوب ہوگئے تھے ۔علامہ ابن عبدالبر کے مطابق آپ اسود بن یغوث زہری کے غلام تھے اور چونکہ اسود نے ان کو فرزندی میں لے لیا اس وجہ سف مقداد کو ان کی طرف منسوب کردیا گیا ۔

حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سابق الا سلام اصحاب میں سے تھے اور انکا اسلام قدیم تھا ۔ وہ اسلام کے بہت جری اور نڈر مجاہد تھے ۔ابو سفیان نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت مقداد وہ خوش بخت اللہ کے سپاہی تھے کہ جسے ان کے گھوڑے نے سب سے پہلے راہ خدا میں درڑایا ۔(طبقات ابن سعد)

عبد اللہ سے مروی ہے کہ میں (راوی)مقداد کے مشہد میں موجود تھا ۔البتہ مجھے ان کا ساتھی ہونا اس سے زیادہ پسند ہے کہ جس سے ہٹایا گیا وہ مشرکین بدر پر بد دعا کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ ہم لوگ آپ سے وہ بات نہ کہیں گے جو قوم موسی نے موسی علیہ السلام سے کہی ک آپ کا رب اور آپ جائیۓ اور آپ دونوں قتال کیجئے ہم لوگ یہیں بیٹھے ہیں ۔ہم لوگ آپ کے داہنے اوربائیں آگے اور پیچھے

۱۳۲

جنگ کریں گے ۔میں (راوی)نے دیکھا کہ نبی کا چہرہ اس بات سے روشن ہوگیا اور اس بات نے آپ کو مسرور کردیا ۔یہ اظہار حضرت مقداد کے جذبہ جہاد اور شوق شہادت کی کیفیت بیان کرنے کے لئے کافی ہے ۔آپ غزوات بدر۔احد وخندق اور تمام مشاہد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حاضر ہوئے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان خاص اصحاب میں سے تھے جو تیر انداز تھے آپ تیر اندازی میں مشہور اور امہارت یافتہ تھے ۔ رسول کریم کی قربت خاص حاصل تھی یہاں تک کہ حضور نے ضابطہ بنت زبیر عبد المطلب سے آپ کا نکاح کردیا تھا (طبقات ابن سعد)

ابن بابویہ نے بسند معتبر امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ جبرائیل آنحضرت پر نازل ہوئے ۔اور کہا یا رسول اللہ آپ کا پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے اور فرمایا ہے کہ باکرہ لڑکیاں درخت پر پھلوں کی مانند ہیں ۔جب درختوں پر پھل تیار ہوجاتے ہیں تو ان کا علاج سوائے توڑ کر استعمال کرنے کے کوئی نہیں ۔اگر ان کو استعمال نہ کروگے تو ہوا ان کو خراب کردے گی ۔اور سورج بے کار کردے گی اسیطرح کنواری لڑکیاں جب بالغ ہوجاتی ہیں تو ان کا علاج شوہر کے سوا کچھ نہیں اگر ایسا نہ ہوتو فتنہ وفساد سے ان کا محفوظ رہنا ممکن نہیں ۔ یہ سنکر آنحضرت منبر پر تشریف لےگئے ۔اور لوگوں کے سامنے خطبہ پڑھا اور ان کو آگاہ کیا اس سے جو کچھ خدا نے ان کو حکم دیا تھا تو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ہم اپنی لڑکیوں کو کس کے ساتھ

۱۳۳

تزویج کریں ۔فرمایا ان کے کفو اور برابر والے لوگوں کے ساتھ پوچھا ان کے کفو کون لوگ ہیں ۔ حضور نے فرمایا مومنین آپس میں ایک دوسرے کے کفو اور ہمسر ہیں ۔ یہ فرما کر منبر سے نیچے تشریف لائے اور ضباعۃ کو مقداد ابن اسود کے ساتھ تزویج فرمایا کہ میں نے اپنے چچا کی بیٹی کو مقداد سے اس لئے تزویج کردیا کہ نکاح پست ہو یعنی لوگ کفو کے بارے میں حسب ونسب کا خیال نہ کریں بلکہ ہر مومن کو رشتہ دے لے کریں ۔

ابن سعد نے کریمہ بنت مقداد سےا ن کا حلیہ مبارک یوں بیان کیا ہے کہ وہ گندم گوں ،لانبے ،فراخ شکم ،سرمیں بہت بال تھے ۔داڑھی کو زرد رنگتے جو خوبصورت تی نہ بڑی نہ چھوٹی ۔بڑی بڑی آنکھیں ۔پیوستہ آبرو، ناک کا بانسہ بھرا ہوا اور نتھنے تنگ تھے ۔

حضرت کلینی نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ ایک دن حضرت عثمان نے جناب مقداد سے کہا کہ میری (عثمان کی) مذمت اور علی کی مدح سے باز آجاؤ ۔ورنہ تم کو تمہارے پہلے آقا کے پاس واپس بھیج دوں گا ۔جب حضرت مقداد کی وفات کاوقت آیا تو انھوں نے حضرت عمار یاسر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ عثمان کو کہہ دو کہ میں اپنے پہلے آقا کی طرف واپس جارہاہوں یعنی عالمین کے پروردگار جل شانہ کی جانب ۔

۱۳۴

وجہ عتاب حکومت :-

حضرت مقداد مورد عتاب حکومت کیوں رہے ۔ اس کا جواب مندرجہ ذیل روایت سے حاصل ہوجاتا ہے کہ شیخ طوسی فرماتے ہیں ۔

"جب لوگوں نے عثمان بن عفان سے بیعت کی حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن الرحمان بن عوف (خلیفہ گر عثمان) سے کہا خدا کی قسم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت (علیھم السلام) پر حضرت کے بعد جو کچھ ہوا اس کی نظیر کہیں نہیں مل پاتی ۔عبد الرحمان نے بے رخی سے کہا کہ تم کو ان کاموں سے کیاواسطہ ؟ مقداد نے جواب دیا کہ میں خدا کی قسم ان کو (اہلیت کو) دوست رکھتے تھے اور خدا کی قسم مجھے ان کے حالات دیکھ کر ایسا صدمہ ہوتا ہے جس کا اظہار ممکن نہیں کیو نکہ قریش کو کے سبب لوگوں پر شرافت وعزت حاصل ہوئی ۔پھر سب نے ملکر یہ سازش کی کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بادشاہی ان کے قبضے سے لے لیں عبد الرحمان نے بپھر کر کہا وائے ہو تم پر واللہ میں نے یہ کوشش تو تم ہی لوگوں کی خاطر کی ہے اور نہیں پسند کیا کہ خلافت علی کے قبضے میں جائے ۔

حضرت مقداد نے فرمایا خدا کی قسم تو نے اس شخص کو چھوڑ دیا جو لوگوں کو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے اور عدالت کے ساتھ ان میں حکم جاری فرماتا ہے ۔اللہ کی قسم اگر مجھے مددگار میسر ہوں تو میں یقینا قریش سے اسی طرح جنگ کرتا جس طرح بدر واحد کے روز جنگ کی تھی ۔عبد الرحمان نے آگ بگولہ ہوکر کہا تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے اے مقداد اس بات کو ترک کر کہ لوگ تم سے نہ سنیں ورنہ فتنہ وفساد برپا ہوگا ۔خدا کی قسم میں خوف زدہ ہوں کہ تیری باتوں سے

۱۳۵

لوگوں میں اختلاف اور فساد پیدا ہوجائے گا ۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ اس مجلس سے اٹھے تو میں ان کے پاس گیا اور کہا اے مقداد میں تمھارے مددگار وں میں سے ہوں ۔ مقداد نے جواب دیا کہ خدا تم پر رحمت نازل کرے ۔جس امر کا میں ارادہ رکھتا ہوں وہ دویا تین شخصوں سے پورا نہ ہوگا اس کے بعد راوی حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی اور اپنی گفتگو بیان کی ۔جسے سنکر مولائے عالمین نے ان کے لئے دعائے خیر کی ۔

اس روایت سے وہ وجوہات ازخود منکشف ہوجاتی ہیں جو حضرت مقداد اور حکومت کے درمیان باعث کشمکش رہیں ۔

الف قران :-

حضرت صادق آل محمد علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ "مقداد بن اسود کا مرتبہ قرآن مین الف کے مرتبہ کے مانند ہے کہ دوسرا حرف اس سے نہیں ملتا ۔اسی طرح کمال میں کوئی دوسرا مقداد کے کمال سے ملحق نہیں ہوتا ۔

خصوصی امتیاز:-

حلقہ اصحاب النبی میں حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کو یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ شیخ کشی نے بسند معتبر روایت کی ہے کہ صحابہ میں کوئی ایسا صاحب نہ تھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی حرکت نامناسب نہ کی ہو سوائے مقداد بن اسود کے کیوں کہ ان کادل حق کی طرفداری میں مثل آہنی ٹکڑوں کے تھا ۔پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ یار باوقار

۱۳۶

ستر یا اسی برس کی عمر میں اس فانی دنیا سے رخصت ہوگیا ۔ مدینے سے تین میل دور الحرف میں وفات پائی اور لوگوں نے گردنوں پر لاد کر مدینہ منورہ پہنچایا ۔جنت البقیع میں مدفون ہوئے وجہ وفات میں اختلاف ہے ۔ابی فائد کی روایت کے مطابق روغن انجیر پینے سے وفات پائی ۔ بعض کا گمان ہے کہ حکومت نے خفیہ طور پر زہر سے ہلاک کرنے کی کو ‎ شش کی ۔جب وفات مقداد کی خبر حضرت عثمان کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اظہار افسوس کیا اور حضرت مقداد کی تعریفیں کرنے لگے ۔اس پر زبیر بن عوام سے نہ رہا گیا اور یہ شعر کہا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ

"میں تم کو اس حالت میں پاؤں گا کہ مرنے پر میرے محاسن بیان کروگے حالانکہ جیتے جی مجھے توشہ تک نہ دیا "(طبقات ابن سعد حصہ سوم ص ۳۱۷)

بدل دے بدل دے خیال زبوں کو

مٹادے مٹادے ملال دروں کو

دکھادے دکھادے بہار سکوں کو

الٹ دے الٹ دے نظام جنوں کو

ہے مقداد تو رھبر انقلابی

ہر اک دور کامحور انقلابی

(احسان امروہوی)

٭٭٭٭٭

۱۳۷

چہارم یار نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لقمان امت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ

اس کرہ ارض خداوندی کی تاریخ میں ہزروں نامور اشخاص کے نام وحالات ملتے ہیں جو اپنی اپنی بجاکر خالی ہاتھوں خاک میں مل گئے ۔عالم فانی میں جہاں وحشی ،درندہ صفت ،خونخوار اور سفاک لوگوں نے اپنے کردار سے لقب اشر ف المخلوقات کو شرمندہ کیا وہاں سینکڑوں ایسی ہیستیاں بھی گزریں جنھوں نے کردار انسان کو اس قدر بلند کیا کہ لفظ اشرف المخلوقات خود شرما گیا اسمیں شک نہیں کہ اسلام خدا کاپسندیدہ دین ہے او تا قیام قیامت انسان کی معاشرتی حیات کے لئے کافی ہے لیکن زمانہ کے تغیر و تبدل نے اس دین بھی رخنہ اندازی پیدا کردی ۔رسول اکرم نے دین حقیقی کے دووارث مقرر کردیئے ،ایک کتاب الہی اور دوسرےاہل بیت رسول(علیھم السلام)۔ان دونوں سے تمسک رکھنا ہر طرح کی گمراہی سے محفوظ رہنے کا علاج تجویز فرمایا ۔جن لوگوں نے راہ فلاح پہچان لی اور دین اسلام کو دل سے قبول کیا وہ بموجب ہدایت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،قرآن واہل بیت (ع)سے متمسک رہتے لیکن جو لوگ کسی طمع یا غرض سے کلمہ اسلام پڑھنے پر مجبور ہوئے انھوں نے اہل بیت (ع) کادامن چھوڑ دیا کیوں کہ وہ اپنی دانست میں حکومت ونبوت ایک گھر میں پھیلتی پھولتی برداشت نہ کرسکے وہ لوگ جو اسلام کو حق سمجھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے انھوں نے صحبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور تعلیم الہامی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اپنے آپ کو اسلامی کردار کے سانچے میں ڈھالنے کا حق ادا کردیا ۔انھوں نے

۱۳۸

اپنی زندگیوں کو ہمیشہ تابع اسلام رکھا اور ہر طرح کی ملامت و خوف کو نظر انداز کرتے ہوئے پیکر تسلیم ورضا بنے رہے یہی وہ خوش قسمت اور سرخرو طبقہ تھا جو محافظ لقب بنی آدم "اشرف المخلوقات "کا مصداق قرار پایا ان کا چال چلن آج بھی دنیا کو مکمل درس دے رہا ہے اور اہل باطل کے لئے عبرت آموز سبق ہے ۔ دیگر اقوام کی طرح اسلام کے ساتھ بھی یہ المیہ عظیم پیش آیا کہ سلاطین نے اپنی اغراض ذاتی اور بقا ئے سلطنت کے لئے ان اشراف کائنات بزرگوں کے حالات زندگی کو منظر عام پر نہ آنے دیا مؤرخین نے خوف حکومت اور حرص مال ومنصب میں ان نامور اور کامران ہستیوں کے کارناموں کو پوشیدہ کیا اور اپنے حاکموں یا ان کے بہی خواہوں کے حالات کو بے بنیاد فضائل اور جھوٹے مناقب کے ساتھ خوب بڑھا چڑھا کر درج کرلیا اور یہ کہانی ہم مقدمات میں پہلے ہی سنا چکے ہیں ۔ہم جب تاریخ بینی کرتے ہیں تو سخت تعجب ہوتا ہے ایسے بزرگان اسلام کے حالات جن کو پڑھ کر اصلاح نفس اور تسکین قلب حاصل ہوتے ہیں ۔ اور جو کردار کے اعلی مدارج پر فائز تھے لوگ ان کے ناموں سے بھی آشنا نہیں ہیں اورجن لوگوں کے فضائل کی تشہیر کی جاتی ہے ان کے سوانح حیات ان فضائل کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جو ان سے منسوب ہیں یہ مسئلہ نازک تو ضرور ہے مگر بہت اہم ہے لہذا مجھے بار بار اس کے تکرار کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس نا انصافی پر مبنی تدبیر نے آئندہ نسل کی فکر پر گہرا اثر ڈالا ہے اور اس کا نتجہ اس قدر مضر سامنے آیا ہے کہ حق وباطل آپس میں

۱۳۹

اس طرح خلط ملط ہوگئے ہیں کہ شناخت کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے ملاحظہ کریں کہ اسلام امن وسلامتی کادین ہے لیکن تاریخ نویسی ہمیں بتائی ہے کہ اسلام تلوارزنی ۔فتوحات ارضی اور لشکرکشی کانام ہے ۔

الغرض ان مظلوم حضرات کی خطا صرف یہی تھی کہ انھوں نے سنّت رسول اور آل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنا رہنما قرار دیا وہ اپنے اصول پر چٹان کی طرح رہے اپنے کردار کو اسقدر بلند رکھا کہ ان کا ہرغیر ان سے پست نظر آتا تھا اگر آج کی نسل کے سامنے ان بااصول باضمیر اور باکمال مسلمانوں کے وہ عظیم کارنامے پیش کئے جائیں تو دنیا لادینی رجحان کی طرف کبھی راغب نہ ہو ۔ان لائق پیروی اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ کو ممتاز مقام حاصل ہے ۔وہ افضل ترین صحابہ میں سے تھے ۔کہ ان کو خود حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خصوصی نسبت ہوئی اور آپ کو سلمان محمدی کہا جاتا ہے ۔

ابتدائی حالات:-

حضرت سلمان فارسی کا نسبی تعلق اصفہان کے آب کے خاندان سے تھام ۔قدیم نام میں اختلاف ہے لیکن ان میں دونام زیادہ مشہور ہیں ۔"مابہ "اور "روزبہ"اسلامی نام سلمان تجویز ہوا ۔رسول کریم نے "سلمان الخیر"کا لقب عطا فرمایا ۔ اس کے علاوہ طیّب ۔طاہر لقمان الحکمت کے القابات حضور اکرم نے عنایت فرمائے ۔ابو عبد اللہ کنیت تھی ۔سلسلہ نسب یہ ہے ۔روزبہ (سلمان)بن بود خیشاں بن مو رسلان بن بہود ان بن فیروزبن سہرک ۔آپ کا تعلق ایران

۱۴۰