چار یار

چار  یار0%

چار  یار مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں
صفحے: 180

چار  یار

مؤلف: عبد الکریم مشتاق
زمرہ جات:

صفحے: 180
مشاہدے: 44120
ڈاؤنلوڈ: 2668

تبصرے:

چار یار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 44120 / ڈاؤنلوڈ: 2668
سائز سائز سائز
چار  یار

چار یار

مؤلف:
اردو

اس واقعہ سے حضرت سلمان کی عظمت کا ر زار واضح ہوتی ہے ۔کسی بھی شعبہ حیات میں دیکھا جائے حضرت سلمان کی حیات پاک کا مقصد ومنشور صرف یہی نظر آتا ہے کہ سنت رسول کی حفاظت رہے آپ شب وروز رسول وآل رسول (علیھم السلام) کی صحبت علمی وعملی سے مستفید رہنے پر مستعد رہے ،علم کے حصول کے ساتھ ساتھ عمل میں کمال حاصل کیا یہی تو وہ متوازن حقیقت تھی جس کے باعث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بے انتہا محبت اور نظر کرم میں دریا دلی کا مظاہرہ فرمایا اور آپ کو اپنے اہلبیت میں شامل کرلیا ۔

حضرت سلمان کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ انھیں حضرت خاتون جنت سلام اللہ علیہا کے دروازے کی دربانی کاشرف بھی حاصل ہے آپ کو "حاجب علی "ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔

تاریخی واقعات سے اجمالا اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلمان نے حیات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غزوات میں بھر پور حصہ لیا اور بہادری کے کارنامے انجام دئیے لیکن جنگ خندق کے علاوہ اور کسی جنگ میں ان کے کارناموں کی تفصیل نہیں ملتی ۔اسی طرح بعد وفات رسول کی جنگوں میں ان کو سپہ سالار کی حیثیت سے منتخت کیاگیا ۔مثلا جنگ قادسیہ ، مدائن ،جلولا،اور حملات فارس میں ان کی کارکردگیاں ان کو ایک ماہر جنگجو افسر ثابت کرتی ہیں ۔

سادگی وقناعت :-

باوجودیکہ وہ اعلی مناصب پر فائز رہے مگر سادہ زندگی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔اپنے اسی سادہ رہن سہن پر قائم رہے ۔امیر لشکر ہونے کے باوجود آپ کی ظاہری وضع قطع ایک معمولی سپاہی سے بھی کمتر نظر آتی تھی ۔ ابن عساکر لکھتے ہیں کہ حضرت

۱۶۱

سلمان فاتح کی حیثیت سے مدائن کے پل سے گزرے ان کے ساتھ ایک شخص بنی کندہ کا تھا ۔آپ ایک بے زین گدھے پر سوار تھے چونکہ سردار فوج تھے اس لئے لوگوں نے کہا کہ پر چم ہمیں دے دیجئے ۔جواب دیا میں پر چم اٹھا نے کا زیادہ حقدار ہوں ۔اسی طرح آگے بڑگئے جب مدائن سے کوفہ جانے لگے تو لوگوں نے دیکھا کہ بلازین خچر پر سوار ہیں اور جھنڈا ہاتھ میں تھامے ایک فرد بنی کندہ کے ساتھ چلے جارہے ہیں ۔حلیۃ الاولیاء میں حافظ ابو نعیم نے تحریر کیا ہے کہ ایک لڑائی میں حضرت سلمان سردار فوج تھے جب فوج چلی تو لوگوں نے دیکھا کہ ایک گدھے پر سوار ہیں اور جسم پر ایک لباس ہے اور ان کی ٹانگیں تھر تھرارہی ہیں ۔

ایسے سادگی کے واقعات کی موجودگی کے باوجود وہ انتظامی امور کی نگہداشت میں کمال مہارت رکھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ بد انتظامی کی کوئی کیفیت ان کی قیادت میں نظر سے نہیں گزرتی ہے ۔ شہر مدائن ایک زمانے میں کسروی سلطنت کادار الحکومت تھا اسے سعد بن ابی وقاص نے فتح کیا ۔سلمان بھی ایک فوجی دستے کےقائد کی کی حیثیت سے اس لشکر میں تھے جب مسلمانوں نےمدائن کو فتح کیا تو سعد نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ شہر میں داخل ہونے کے لئے نہر دجلہ کو عبور کریں اور کہا اگر مسلمان اپنی صفات پر باقی ہیں تو خدا ضرور عبور کرنے میں مدد کریگا حضرت سلمان کو جوش آگیا ۔اور فرمایا اسلام ابھی تازہ ہے اور دریا بھی مسلمانوں کی اسی طرح اطاعت کرگا جس طرح اہل زمین نے کی ہے لیکن خدا کی قسم لوگ دین اسلام سے اسی طرح گروہ گروہ خارج ہوں گے جس طرح فوج درفوج داخل ہوئے ہیں ۔یہ سمجھ لو

۱۶۲

کہ آج کے دن ہماری فوج کا کوئی آدمی پانی میں ہلاک نہ ہوگا ۔سلمان کی اطلاع کے مطابق پوری فوج سواریوں پر دجلہ عبور کرگئی اور کوئی بھی غرق نہ ہوا ۔

ایک مرتبہ حضرت سلمان نے اپنے بھائی حضرت ابوذر کی ضیافت کی جب وہ آئے تو دوروٹیاں جو کی ان کے سامنے لاکر رکھدیں ۔ابوذر نے ان روٹیوں کو ہاتھ میں لے کر بغور دیکھنا شروع کیا ۔سلمان نے پو چھا کیا دیکھ رہے ہو ۔انھوں نے روٹیوں کو ناپسند کرنے کا اظہار کیا ۔سلمان کے چہرے پر ناراضگی کے اثرات نمایاں ہوئے ۔فرمایا تمھیں ایسی بات کہنے کی جراءت کیسے ہوئی ۔خدا کی قسم اس روٹی کے تیار ہونے میں اس پانی سے کام لیا گیا جو زیر عرش ملائکہ کی عملداری میں رہتا ہے ۔اس روٹی کے تیار کرنے میں زمین کی لکڑی ،لوہا، آگ ،جانور ۔اور نمک کا بھی حصہ ہے اور ان چیزوں کا بھی جنھیں میں شمار نہیں کرسکتا ۔اور اے ابوذر ! جن باتوں کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے ان سے وہ باتیں زیادہ ہیں جن کا میں ذکر نہیں کرسکا ہوں ۔ پھر کیسے اس ایک نعمت کا شکر ادا ہو سکتا ہے ۔ابوذر ان باتوں سے متاثر ہوئے اور ندامت محسوس کی اور خدا سے توبہ ومعذرت طلب فرمائی ۔

اسی طرح ایک دن ابوذر سلمان کے گھر آئے انھوں نے چند روٹی کے سوکھے ٹکڑے سامنے رکھے ۔ابوذر نے کہا کتنی اچھی روٹی ہے اگر نمک ساتھ ہو تو خوب رہے ۔ سلمان باہر گئے اور لوٹا رہن کرکے نمک لاکر رکھ دیا ۔ابوذر نمک چھڑک کر تناول فرمانے لگے اور کہا حمد ہے اس اللہ کی جس نے صفت قناعت بخشی ۔سلمان نے فرمایا اگر تم میں قناعت کا جوہر ہوتا تو مجھے لوٹا گروی نہ کرنا پڑتا ۔

۱۶۳

حضرت سلمان باوجود یکہ گور نر تک کے منصب تک فائز ہوئے مگر انھوں نے کوئی اپنا باقاعدہ گھر نہ بنایا ۔ ابن سعد نے انس نے روایت کی ہے کہ سلمان فارسی جہاں جہاں گھومتا تھا اس سے سایہ حاصل کرتے تھے ان کا کوئی گھر نہ تھا ۔ایک شخص نے پوچھا آپ اپنا گھر کیوں نہیں بنا تے جس سے گرمیوں میں سایہ اور سردیوں میں سکون حاصل ہو۔ فرمایا اچھا ۔جب اس شخص نے پشت پھیری تو اسے پکارا اور پوچھا تم اسے کیونکر بناؤگے ۔اس نے کہا ایسے بناؤنگا کہ اگر آپ کھڑے ہوں تو سرمیں لگے اور لیٹیں تو پاؤں میں لگے ۔سلمان نے کہا ہاں ۔

نعمان بن حمید سے مروی ہے کہ میں اپنے مامں کے ہمراہ مدائن گیا ۔ وہ بوریا بن رہے تھے ۔میں نے انھیں کہتے سنا کہ ایک درہم کھجور کے پتے خرید تا ہوں اسے بنتا ہوں اور تین درہم میں فروخت کرتا ہوں ۔ایک درہم اسی میں لگا دیتا ہوں اور ایک درہم عیال پر خرچ کرتا ہوں ۔ایک درہم خیرات کردیتا ہوں اگر عمر بن خطاب پابندی نہ لگاتا تو اس سے باز نہ آتا ۔

ابی قلابہ سے مروی ہے کہ ایک شخص سلمان کے پاس آیا اس وقت وہ آٹا گوند رہے تھے ۔عرض کی خادم کہاں ہے ۔فرمایا ہم نے اسے ایک کام پر روانہ کیا ہے اور پھر ہم نے نا پسند ایا کہ اس سے دوکام لیں پھر اس شخص سے کسی کا سلام پہنچایا ۔پوچھا تم کب سےآئے ہو ۔کہا تین دن سے فرمایا دیکھو اگر تم (آج) سلام نہ پہنچاتے تو یہ امانت میں خیانت ہوتی ۔

حضرت سلمان کی روزمرہ کی گفتگو میں آیات قرآنی کا کثرت سے

۱۶۴

حوالہ ملتا ہے اور عموما آپ حلقہ احباب میں تفسیر قرآن بیان کرتے تھے ۔اورجب لوگوں کی عدم توجہ کی شکایت کیا کرتے تھے علماء نے ان کو ممتاز فقیہ تسلیم کیا ہے ۔ابن عساکر نے روایت نقل کی ہے کہ حضور سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ ہم آپ کے بعد کس سے علم حاصل کریں ۔آنحضرت نے فرمایا "علی (علیہ السلام )اور سلمان(رضی اللہ عنہ) سے " ۔اسی طرح علم حدیث میں ان کو بخاری اور مسلم نے مدوّن شمار کیا ہے ۔

اصبغ بن نباتہ بیان کرتے ہیں کہ میں عہد علوی میں سلمان کے پاس مدائن گیا ۔اکثر وبیشتر ان سے ملاقات رہتی تھی جب وہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو مجھ سے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے مجھے بتایا تھا کہ جب میری موت کا وقت قریب ہوگا تو مردہ مجھ سے باتیں کرےگا ۔میں نے کہا میں آپ کاحکم ماننے کے لئے تیار ہوں ۔فرمایا ایک تختہ منگوا کرے مجھے لوگوں کے کندھوں پر لے چلو جب قبرستان پہنچے تو زمین پر بیٹھ گئے اور بلند آواز سے کہا ۔سلام ہو تم پر اے لوگو جو فنا کے راستے پر جاکر خاک میں پوشیدہ ہوئے ہو سلام ہو تم پر اے لوگو جو اپنے اعمال کے نتیجے تک پہنچ گئے ہو۔ اور صور اسرافیل کا انتظار کر رہے ہو اسی طرح چند مرتبہ سلام کیا ۔فرمایا کہ میں سلمان فارسی آزاد کردہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں ۔ انھوں نے مجھے خبر دی تھی کہ جب میری موت کا وقت قریب آئےگا تو تم میں سے کوئی شخص مجھ سے بات کرے گا۔

اصبغ بیان کرتے ہیں کہ اسی وقت ایک آواز بلند ہوئی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ تم نے اپنے آپ کو دنیا میں مشغول کررکھا ہے ۔اے سلمان تمھاری باتیں سن رہا ہوں جو پوچھنا

۱۶۵

چاہتے ہو پوچھ لو۔ اس موقع پر سلمان نے بہت سی باتیں دریافت فرمائیں ۔آخر میں سلمان نے پوچھا کہ سب سے زیادہ مفید عبادت کونسی ہے جواب ملا کہ میں نے تین چیزوں سے زیادہ مفید عبادت نہیں پائی ۔ پہلی سرد راتوں میں نماز پڑھنا ۔دوسرے گرم دنوں مں روزے رکھنا ۔تیسرے اس طرح صدقہ دینا کہ دوسر ہاتھ کو خبر نہ ہو۔یہ سننے کے بعد سلمان نے سرکو آسمان کی طرف بلند کیا اور فرمایا اے وہ ذات خداوندی جس کے قبضہ ملکیت میں ہرچیز ہے اور ہر شے اسی کی طرف پلٹ جانے والی ہے ۔اس کے بعد چند کلمات اداکئے ۔اور کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا کہ مجھے قبلہ رخ لٹا دو ۔ انھیں لٹا دیا گیا اور روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ۔

ذازان کہتے ہیں کہ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیاتو میں نے پوچھا کہ آپ کو غسل کون دےگا ۔فرمایا وہ شخص جس نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو غسل دیا تھا ۔ میں نے کہا آپ مدائن میں ہیں ۔ اور وہ یہاں سے بہت دور ہے ۔انھوں نے جواب دیا کہ جب میں مرجاؤں گا تو تم ایک آواز سنوگے ۔راوی کا بیان ہے کہ جب آپ کا انتقال ہو تو میں نے ایک آواز سنی مڑ کر دیکھا تو امیر المومنین علی ابن طالب علیہ السلام تھے ۔جناب امیر المومنین ۔آپ نے چادر کو ہٹا کر سلمان کے چہرے پر نظر ڈالی ۔میں نے دیکھا کہ سلمان کے ہونٹوں پر تبسم تھا ۔علی علیہ السلام کی آنکھیں پر نم تھیں ۔جناب امیر علیہ السلام دعا فرما رہے تھے کہ اے سلمان تم پر رحمت ہو ۔ اے سلمان ! جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۱۶۶

سے ملنا تو سب کچھ بتا دینا ،جو امت نے میرے ساتھ برتاؤ کیا ہے تجہیز وتکفین سے فارغ ہو کر نماز جنازہ پڑھی دو آدمی اور ان کے ساتھ تھے جو نماز پڑھ رہے تھے ۔پوچھا یہ حضرات کو ن ہیں فرمایا ایک حضرت خضر اور دوسرے جعفر طیار (رض) اور کے ساتھ ملائکہ کی صفین تھیں ۔

حضرت سلمان کی عمر کے بارے میں اختلاف ہے ڈھائی سو سال ساڑھے تین سو سال ۔چارسو سال اور بعض کے نزدیک انھوں نے حضرت عیسی کا زمانہ بھی دیکھا تھا ۔بہر حال اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے ۔آپ کی اولاد تین لڑکے اور تین لڑکیاں بیان ہوئی ہیں ۔ عبداللہ اور محمد دونوں فرزندوں سے نسل سلمانی پھلی پھولی ہے ۔آپ نے قبل از اسلام کوئی شادی نہ کی ۔بعد میں دو شادیاں کیں ایک عربی اور ایک عجمی ۔عربی زوجہ کا انتقال ہوگیا اور عجمی بیوی ان کے بعد تک زندہ رہیں ۔

شیخ طوسی نے بسند معتبر روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضرت صادق کی خدمت میں عرض کی کہ ہم آپ سے سلمان فارسی کا بہت ذکر سنا کرتے ہیں امام نے فرمایا سلمان فارسی مت کہو بلکہ سلمان محمدی کہو ۔کیا تو جا نتا ہے کہ کس سبب سے ہم ان کو بہت یاد کرتے ہیں ؟ راوی نے کہا نہیں ۔حضرت نے فرمایا تین خصلتوں کے سبب اول یہ کہ انھوں نے اپنی خواہش پر جناب امیر کی خواہش کو ترجیح دی اور اختیار کیا ۔دوسرے یہ کہ فقیروں کو دوست رکھتے تھے اور ان کو مال دراروں اور صاحبان عزت وشرف پر ترجیح دیتے تھے ۔تیسرے یہ کہ علم اور علماء کو دوست رکھتے تھے بے شک

۱۶۷

سلمان خدا کے شائستہ بندہ تھے اور ہر باطل سے کترا کر حق کی طرف مائل ہوتے تھے اور مسلمان حقیقی تھے اور کسی طرح کا شرک اختیار نہ کیا تھا ۔

حضرت سلمان اور یہودی جماعت کا امتحان :-

علامہ مجلسی(رح) نے حیات القلوب میں تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام سے ذکر کیا ہے کہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کا گزر ایک دن یہودیوں کی ایک جماعت کی طرف ہوا ۔ان لوگوں نے آپ سے خواہش کی کہ ان کے پاس تشریف رکھیں ۔ اور جو کچھ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے ان سے بیان کریں ۔ جناب سلمان ان کے پاس بیٹھ گئے اور ان کے اسلام لانے کے انتہائی لالچ میں کہا کہ میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! کیا ایسا نہیں ہے کہ ایک گروہ کو تم سے بڑی حاجتیں ہوتی ہیں اور تم ان کی حاجتیں پوری نہیں کرتے ہو مگر اس وقت جبکہ وہ اس سے سفارش کراتے ہیں جو خلق میں تم کو زیادہ محبوب ہوتا ہے ۔ جب وہ ان کو ان کی شان ومنزلت کے سبب تمھارے نزدیک اپنا شفیع قرار دیتے ہیں ۔ تو تم ان کی حاجتیں برلاتے ہو ۔ اسی طرح سمجھ لو کہ میرے نزدیک میری مخلوق میں سب سے زیادہ ذی قدر وذی مرتبہ اور ان میں سب سے افضل وبر تر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے بھائی علی (ع) اور ائمہ (ع)جو ان کے بعد ہونے والے ہیں جو خلق کے وسیلہ اور ذریعہ میری بارگاہ میں ہیں لہذا جس شخص کو کوئی حاجت درپیش ہو جو مخلوق میں سب سے زیادہ نیک پاک اور گناہوں سے معصوم ہیں ۔شفیع ووسیلہ قراردے تاکہ میں اس کی حاجتیں برلاؤں ۔اس شخص سے بہتر طریقہ سے

۱۶۸

جس کو کوئی اس کے محبوب ترین شخص کے شفیع قرار دینے سے بر لا تا ہے یہ سنکر ان یہودیوں نے بطور مذاق کہا کہ پھر کیوں خدا سے ان کو وسیلہ قراردیتے کر سوال نہیں کرتے اور ان کے حق سے توسل اختیار کرکے دعا نہیں کرتے تاکہ خدا ان کے طفیل میں آپ کو اہل مدینہ میں سب سے زیادہ بے نیاز کردے ۔سلمان نے فرمایا کہ میں نے ان کو وسلہ اور ذریعہ اور شفیع قرار دیکر خدا سے اس چیز کا سوال کیا جو دنیا کے تمام ملک سے زیادہ عظیم اور نافع تر ہے ۔ کہ خدا مجھے ان کی عظمت وبزرگی اور مدح وثنا بیان کرنے کے لئے زبان عطا فرمائے ۔اور ایسا دل کرامت فرمائے جو اس کی نعمتوں پر شکر کرنے والا ہو اور عظیم مصیبتوں پر صبر کرنے والا ہو ۔ تو خدا نے میری دعا قبول فرمائی اور جو کچھ میں نے طلب کیا تھا مجھے عطا فرمایا اور وہ تمام دنیا کی بادشاہی اور جو کچھ دنیا میں نعمتیں ہیں ان سے لاکھوں درجہ بہتر وبرتر ہے ۔ تو یہودیوں نے آپ کا مذاق اڑایا۔ اور کہا اے سلمان تم نے مرتبہ عظیم و بلند کا دعوی کیا ہے ۔ اب ہم مجبور ہیں کہ تمھارا امتحان کریں کہ تم اپنے دعوے میں سچے ہو یا نہیں ۔ لہذا پہلا امتحان تو یہ ہے کہ ہم اپنے تازیانوں سے تم کو مارتے ہیں تم اپنے خدا سے دعا کرو کہ ہمارے ہاتھ تم سے روک دے ۔سلمان نے دعا کی پر وردگار ا مجھ کو ہر بلا پر صبر کرنے والا قرار دے ۔وہ بار بار یہ دعا کرتے تھے ۔ اور وہ ملعون یہودی آپ کو تازیانے لگاتے تھے یہاں تک کہ تھک گئے ۔ اور رنجیدہ ہوئے اور سلمان اس دعا کے علاوہ اور کچھ نہ کہتے تھے ۔ جب وہ تھک کر رکے تو کہنے لگے ہم کو گمان نہ تھا کہ کسی کے بدن میں روح باقی رہتی اس شدید عذاب کے سبب جو ہم نے تم پر وارد کیا ہے ۔تم نے خدا سے

۱۶۹

یہ دعا کیوں نہیں کی کہ ہم کو تمھاری ایذا رسانی سے روک دیتا ۔ سلمان نے فرمایا کہ یہ دعا صبر کے خلاف تھی ۔بلکہ میں نے قبول ومنظور کیا اور اس مہلت پر راضی ہوا جو خدا نے تم کو دے رکھی ہے ۔اور میں نے دعا کی خدا سے کہ مجھے اس بلا پر صبر عطا فرمائیے ۔چنانچہ ان یہودیوں نے تھوڑی دیر کے لئے آرام کیا ۔پھر اٹھے اور کہا اس مرتبہ تم کو اتنا ماریں گے کہ کہ تمھاری جان نکل جائے ۔یامحمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت سے انکار کرو ۔جب سلمان نے فرمایا ہرگز ایسا نہ کروں گا ۔بے شک خدا نے اپنے رسول پر نازل فرمایا کہ "وہ لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں ۔اور یقینا تمھاری اذیت رسانی پر میر ا صبر کرنا اس لئے ہے کہ میں اس جماعت میں داخل ہوجاؤں جن کی خلاق عالم نے اس آیہ میں مدح کی ہے اور یہ صبر میرے لئے سہل اور آسان ہے ۔پھر ظالموں نے سلمان کو مارنا شروع کیا ،اور مارتے مارتے تھک گئے تو چھوڑ کر بیٹھے اور بولے کہ اے سلمان ! اگر پیش خدا تمھاری کوئی قدر ہوتی اس ایمان کے سبب سے جو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر لائے ہو تو یقینا وہ تمھاری دعا مستجاب کرتا اور ہم کو تم سے باز رکھتا ۔سلمان نے فرمایا تم لوگ کیسے جاہل ہو ۔خدا میری دعا کیسے قبول کرتا ۔کیا میرے لئے اس کے خلاف کرتا جو کچھ میں نے اس سے طلب کیا ہے ۔ میں نے اس سے صبر طلب کیا ہے ۔اس نےمیری دعا قبول فرمائی ۔اور مجھے صبر کرامت فرمایا اگر اس سے طلب کرتا کہ تم کو مجھ سے باز رکھے اور تم کو باز نہ رکھتا تو میری دعا کے خلاف ہوتا ۔جیسا کہ تم گمان کرتے ہو۔پھر تیسری بار وہ ملاعین اٹھے اور تازیانہ کھینچ کر جناب سلمان کو مارنے لگے ۔آپ اس سے زیادہ نہیں کہتے تھے کہ خداوندا مجھے ان بلاؤں پر صبر عطافرما جو مجھ پر

۱۷۰

تیرے برگزیدہ اور محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں نازل ہورہی ہیں ۔ تو ان کافروں نے کہا اے سلمان! تم پر وائے ہو۔کیا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمھیں تقیہ کے لئے اجازت نہیں دی ہے کہ اپنے دشمنوں سے کفر کی باتیں کہہ دو ۔ہم تم کو مجبور کررہے ہیں ۔سلمان نے کہا خدا نے مجھے اس امر میں تقیہ کی اجازت دی ہے لیکن واجب نہیں قرار دیا ہے ۔بلکہ جائز کیا ہے کہ میں وہ بات کہہ دوں جس پر تم مجھے مجبور کرتے ہو ۔اور تمھاری ایذا رسانی اور تکلیف دینے پر صبر کروں تویہ اس سے بہتر ہے ۔میں اس کے سوا کچھ پسند نہیں کرتا غرض پھر اشقیاء اٹھے اور ان کو بے شمار تازیانے مارے کہ حضرت کے جسم مبارک سے خون جاری ہوگیا ۔اور مذاق کے طور پر کہتے تھے کہ خدا سے کہتے ہو کہ ہم تمھاری آزار رسانی سے باز رکھے اور وہ بھی نہیں کہتے جو ہم تم سے چاہتے ہیں لہذا ہم پر نفرین کرو کہ خدا ہم کو ہلاک کرے ۔اگر تم اپنے اس دعوی میں سچے ہو کہ خدا وند عالم تمھاری دعا کو رد نہیں کرتا اگر محمد وآل محمد (علیھم السلام) کے توسل سے کرو ۔جناب سلمان نے فرمایا میں کراہت رکھتا ہوں اس سے کہ خدا سے تمھاری ہلاکت کی دعا کروں تو اس کے خلاف ہوگا ۔ یہ سنکر ان کافروں نے کہا کہ اگر اس سے دڑتے ہو تو اس طرح دعا کرو کہ خدا وندا ہلاک کر اس کو جس کے بارے میں تو جانتا ہے کہ وہ بغاوت اور سرکشی پا باقی رہے گا ۔ اگر اس طرح دعا کروگے تو اس بات کا خوف نہ رہے گا جس کا تم کو خیال ہے ۔اسی اثنا ء میں اس مکان کی دیوار شق ہوئی جس میں کہ وہ لوگ تھے اور جناب سلمان نے حضرت رسالتمآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا آپ فرما رہے تھے اے سلمان ان ظالموں کی ہلاکت کی دعا کرو ۔کیونکہ ان میں کوئی

۱۷۱

ایسا نہیں ہے جو ایمان لائے اور نیکی وہدایت حاصل کرے جیسطرح حضرت نوح نے اپنی قوم کے لئے بد دعا کی تھی جبکہ سمجھ لیا تھا کہ ان کی قوم ایمان نہ لائے گی ۔سوائے ان کے جو ایمان لاچکے ہیں ۔ یہ امر پاکر سلمان نے فرمایا ۔اے یہود یو! تم کس طرح ہلاک ہونا چاہتے ہو۔ بتاؤ تو اسی امر کے لئے خدا سے دعا کروں ۔ وہ بد نصیب بو لے کہ یہ دعا کرو کہ خداوند ان میں سے ہر شخص کے تازیانے کوایک سانپ کی شکل میں بدل دے جو اپنا سراٹھا ئے اور اپنے اپنے مالک کی ہڈیاں چبا ڈالے ۔جناب سلمان نے اسی طرح دعا کی تو ہر ایک کا تازیانہ سانپ بن گیا جن میں سے ہر ایک کے دو دو سرتھے ایک سر اپنے مالک کا سر اور دوسرے سے اس کا داہنا ہاتھ پکڑا جسمیں وہ تازیانہ لئے ہوئے تھا ۔اور تمام ہڈیاں چور چور کر ڈالیں اور چبا کر کھالیا اسی وقت جناب رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی مجلس میں جہاں کہ تشریف فرما تھے فرمایا کہ اے مسلمانو !خداوند عالم نے تمھارے ساتھی سلمان کی اس وقت بیس منافقوں اور یہودیوں کے مقابلے میں مدد کی اور ان کے تازیانوں کو سانپ بنادیا ۔جنہوں نے ان کو چورچور کر کے کھالیا لہذا چلو ان سانپوں کو دیکھیں جن کو خدا نے سلمان کی مدد کے لئے تعینات فرمایا ہے ۔غرض جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے اصحاب اٹھے اور اس مکان کی طرف چلے ۔اس وقت اس میں پاس پڑوس والے منافقین و یہودی ان کافروں کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنکر جمع ہوگئے تھے جبکہ ان کو سانپ کا ٹ رہے تھے ۔ جب ان لوگوں نے یہ حال دیکھا تو خوف زدہ ہوکر دور ہٹ گئے تھے ۔ جب آنحضرت وہاں تشریف لائے تو وہ سب

۱۷۲

سانپ اس گھر سے نکل کرمدینہ کی گلی میں آگئے جو بہت تنگ تھی خداوند عالم نے اس کو گنا کشادہ کردیا ۔حضرت کو دیکھ کر ان سانپوں نے ندا کی " السلام علیک یا سید الاولین و الآخرین " پھر جناب امیر علیہ السلام پر سلام کیا اور کہا "السلام علیک یا علی یا سید الوصیّین" پھر آپ کی ذریت طاہرہ پر سلام کیا اور کہا "السلام علی ذریتک الطیبین الطاہرین جعلو علی الخلائق قوامین" یعنی سلام ہو آپ کی اولاد پر جو پاک ومعصوم ہیں جن کو خدانے امو خلق کے ساتھ قیام کرنے والا قرار دیا ہے ۔یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم ان منافقوں کے تازیانے ہیں ۔خدا نے ہم کو اس مومن سلمان کی دعا سے سانپ بنا دیا ہے ۔جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمام تعریفیں خدا کے لئے سزاوار ہیں کہ جس نے میری امت میں اس کو قرار دیا جو صبر کرنے والا اور بد دعا نہ کرنے والا اور نہ نفرین کرنے والا مثل حضرت نوح کے ہے پھر ان سانپوں نے آواز دی کہ یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کافروں پر ہمارا غضب و غصہ شدید ہوچکا ہے ۔آپ کا اور آپ کے وصی کا حکم خدا کے ملکوں میں جاری ہے ۔ہماری گزارش ہے کہ آپ خداوند عالم سے دعا فرماویں کہ ہم کو جہنم کے ان سانپوں میں سے قرار دے دے جن کو ان ملاعین پر مسلط فرمائے گا ۔ تاکہ ہم ان پر جہنم میں بھی عذاب کرنے والے ہوں جس طرح ان کو دنیا میں ہم نے نیست ونابود کردیا جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ تمھاری تمنا تھی خدا نے منظور فرمائی ۔لہذا جہنم کے سب سے نیچے طبقوں میں چلے جاؤ اور ان کافروں کی ہڈیاں جو تمھارے پیٹ میں ہیں اگل دو ۔تاکہ ان کی

۱۷۳

ذلت وخواری کا ذکر زمانہ میں زیادہ ہو اس سبب سے لو گ ان کو دفن کردیں تاکہ مومنین جو ان کی قبروں کی طرف سے گزریں تو عبرت حاصل کریں اور کہیں کہ یہ ملعو نوں کی اولاد یں ہیں جو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوست اور مومنین میں برگزیدہ سلمان محمدی کی بد عا سے غضب الہی میں گرفتار ہوئے یہ سنکر ان سانپوں نے جو کچھ ان کے پیٹ میں ان کی ہڈیاں تھیں اگل دین اور ان کا فروں کے اعزاء و اقربا نے آکر ان کو دفن کیا اور بہت سےکافروں نے یہ معجزہ دیکھ کر اسلام قبول کیا اور بہت سے کافروں اور منافقوں پر شقاوت غالب ہوئی اور کہنے لگے کہ یہ کھلا ہوا جادو ہے ۔پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب سلمان سے فرمایا کہ اے ابو عبد اللہ تم میرے مومن بھائیوں میں خاص ہو اور مقرب فرشتوں کے دلوں کے محبوب ہو بے شک تم آسمانوں ،خدا کے حجابوں ،عرش وکرسی ۔اور جو کچھ عرش کے درمیان تحت السری تک ہے ان کے نزدیک فضیلت وکرامت میں مشہور ومعروف ہو ۔ تم ایک آفتاب ہو جو طالع ہوئے ہو ۔اور ایک دن ہوجس پر گرد وغبار اور ہوا کی تیرگی نہیں اور اس آیہ کریمہ میں تمھاری مدح کی گئی ہے ۔"الذین یومنون بالغیب" پس فرمان رسول کے بعد راقم عاجز وقاصر ہے کہ کچھ لکھ سکے ۔

حامل سر خفی ،عارف قرآن کریم

اس پہ روشن ہے رموز صحف ابراہیم

تابش نورخدا ،روشنی ء شمع قدیم

نائب عیسی مریم ،شرف شان کلیم

۱۷۴

عزم وکردار سے آفاق میں سلمان بنا

تھا جو نباض جہاں وقت کا لقمان بنا

(احسان امر وہوی)

اس میں کچھ شک نہیں کہ سخت گناہگارہوں میں مگر اتنا ضرور ایمان رکھتا ہوں کہ میرا اللہ غفارہے ۔ اس لئے کفران نعمت کی جسارت کرکے میں اپنی گناہوں کی گھڑی کو مزید وزنی بنا نا چاہتا ہوں لہذا بارگاہ قدوس میں سر بسجود نہایت عجز وانکساری کے ساتھ ہدیہ تشکر بجالاتا ہوں کہ وہ ذات والی صفات عاصی وخطاکار کا بھی شکرانہ قبول کرنے والی ہے ۔میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ اسی کی توفیق ونظر کرم کا نتیجہ ہے ۔اس نے مجھ جیسے جاہل کو یہ ہمت عطا فرمائی کہ میں ۔اس کے دوستوں اور اس کے رسول کے چار یاروں کی خدمات میں اپنی عقیدت مندانہ معروضات پیش کرنے کا شرف حاصل کرسکا ۔بے شک حق یہ ہے کہ ان حضرات بابرکات کی صفت وتوصیف اور مدح ومنقبت کا حق ادا کرنا میری استطاعت اور غیر علمی قابلیت سے باہر ہے ۔ لیکن جو کچھ بھی ہوسکا وہ محض ایک فیض کی بدولت ہو اگر اس میں تائید خاصان نہ ہوتی تو شاید یہ موقع ہی میسر نہ آتا ۔میں نے ان مظلوم روحانی بادشاہوں کے حالات کی نشرو اشاعت کی کوشش کی ہےجن کے سنہرے کارناموں کو سطوت شاہی اور مادی اقتدار کے داؤ پرلگایا جاچکا ہے ۔ان کے کارہائے نمایاں اور اعزازات کو غیر مستحق افراد کو سونپنے کی سوچی سمجھی تدبیر آج تک بروئے کار ہے ۔یہ امر یقینا میرے لئے باعث مسرت ہے کہ میں

۱۷۵

نے حقدار کو اس کا حق اداکرنے کی آواز بلند کی ہے اور غاصب کے ظلم کا اظہار عام کیا ۔ اب اگر کوئی جماعت مخلصین اس سلسلہ میں دست تعاون بڑھا ئے تو یقینا اسلامی تاریخ کے پوشیدہ خزانے تلاش کئے جاسکتے ہیں ۔ یہ صحابہ یادیگر یار ان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو خدمت رسول میں آنے کے بعد راہ مستقیم پر پامردی سے ثابت قدم رہے اور تمسک بالثقلین کی ہدایت رسول پر تا دم آخر قائم رہے اپنے غیروں کے سامنے کندن کی طرح چمکتے نظر آتے ہیں ۔جس طرح ان کی حیات میں دنیا والوں کے مظالم ان کے پایہ استقلال کو جنبش نہ دے سکے اسی طرح ان کی مادی زندگی کے بعد بھی زمانے کے ظلم وستم او مکار سیاست ان کے کردار وایمان کے بلند سر کو خمیدہ نہ کرسکے ۔ان کے کمالات کو جس قدر چھپایا گیا وہ سی قدرر کرامات کی صورت میں ابھرتے چلے گئے ۔ان کے اوصاف جتنا پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی گئی وہ اتنا ہی ظاہر ہوئے ۔ان کے ذکر پر جتنی پابندیاں عائد کی گئی ان کی اہمیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔کیونکہ یہ دنیا جس بات کو چھپا نا چاہتی تھی خدا کو اسے ظاہر کرنا مقصود ہے ۔

اب ہم عالم اسلام سے مؤدبانہ التماس کرتے ہیں کہ وہ جماعت اصحاب رسول میں کوئی ایک بھی فرد ایسا پیش کریں جس کا ایمانی درجہ ،روحانی مقام ،اخلاقی کردار اور انسانی مرتبہ ان اصحاب رسول رضی اللہ عنھم کے ہم پلہ ہو ۔کیا یہ اعجاز خداوندی نہیں ہے کہ حکومت واقتدار کے بل بوتے پر ان کے فضائل پر لاکھوں پردے ان کے نور ایمان کی ایک شعاع سے راکھ ہوگئے اور زمانہ

۱۷۶

ان کے نور ایقانی سے روشن ومنور ہوگیا ۔ان یاران رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ خصوصی انفرادیت ہے کہ انھوں نے فلسفہ حیات کے ہرگوشے پر غلبہ حاصل کیا اور فلسفہ اسلام کے ساتھ انھیں یوں سنواردیا کہ آج ان کا ایک ایک قدم مشعل راہ بن گیا ہے ۔جو اصحاب معصوم نہ تھے انھوں نے اپنے نفس امارہ سے ایسا جہاد کیا کہ عصمت کے مظہر نظر آنے لگے ۔اسلامی کتابیں ،سلاطین کے قصائد سے بھری ہوئی ہیں ۔ ہزاروں میل کی فتوحات کو ہم نے اپنا سرمایہ تاریخ سمجھ رکھا ہے اور محل وقصور ہماری نظر میں نشانات ہدایت ہیں ۔ مگر یہ سب سننے میں بھلا ضرورلگتا ہے ۔پڑھنے میں بھی مزا دیتا ہے لیکن غور کرنے پر سخت تلخی کا سبب بنتا ہے ۔کیونکہ ! اگر کبھی ہمارے بادشاہوں کی تلوار تیز تھی توجب آب تلوار گئی تو ساتھ آبرو بھی لیتی گئی ۔اگر دھار تیز تھی تو کند بھی ہوئی اور ایسی ہوئی کہ آج تک دھار لگ نہ سکی ۔اسلام فوج کشی اور ملک گیر کا ضابطہ نہیں ۔بلکہ یہ نظام حیات ہے ۔یہ زندگی بخش ہے ۔زندہ رہنا سکھا تا ہے ۔اس میں امن وسلامتی کی ضمانت ہے ۔ ایک قطرہ خون ناجائز بھی برداشت نہیں کرتا ہے ۔ پس اسلام کو زندگی کا پیغام بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے پس اسلام کو زندگی کا پیغام بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیجئے نہ کہ اس کو موت کی تلوار کہلوائیے ۔اور اگر اسلام سلامتی ہے تو پھر سوائے متمسک بالثقلین یاران رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اور کوئی اس کا نمونہ اور نظیر نہیں نظر آئے گا جس کی پیروی حقیقی اسلام کی اتباع ہو ۔

والسلام

عبد الکریم مشتاق

٭٭٭٭٭

۱۷۷

فہرست

معنون ۴

چار یار رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۱۵

مقدمہ:- ۱۷

اخفائے فضائل ۲۰

مقدمہ دوم:- ۲۰

خوف غلطی:- ۲۶

ترک حدیث اخفائے فضائل مخالفین کے لئے نہ تھا :- ۲۷

گزشتہ امتوں کی غلط مثال :- ۲۸

احادیث فضائل علی علیہ السلام اور شیعیان علی کی تضییع اور توصیف حضرات ثلاثہ کی وضعیت : ۳۱

موضوع احادیث فضائل برائے مغالطہ ۳۷

مقدمہ سوم:- ۳۷

کسوٹی:- ۳۹

جھوٹ نمبر۱:- ۴۱

جھوٹ نمبر ۲:- ۴۳

حدیث نجوم ۴۸

مقدمہ چہارم:- ۴۸

صحابی کی تعریف اور صحابہ میں باہمی فرق ۶۰

اول یار رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیھما السلام ۶۸

دوم یار نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت ابوذر الصدیق رضی اللہ عنہ ۸۰

۱۷۸

نام ونسب وحلیہ:- ۸۲

عہد جاہلیت کے مختصر حالات :- ۸۳

قبول اسلام:- ۸۹

ابوذر کی تبلیغی خدمات:- ۹۲

محبت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مثالی واقعہ:- ۹۹

بشارت جنت:- ۱۰۱

محافظ شیر:- ۱۰۲

اسلامی اخلاق وعادات:- ۱۰۴

شبیہ عیسی (ع):- ۱۰۵

صدق ابوذر:- ۱۰۹

خطبہ دیرمران:- ۱۱۴

اللہ فقیر ،عثمان غنی :- ۱۱۷

سوم یا نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ ۱۲۳

سات وسیلے :- ۱۲۴

مثیل میکائیل :- ۱۲۵

جنت کا اشتیاق:- ۱۲۶

محفوظ عن الشک :- ۱۲۸

حور مقدودۃ:- ۱۲۹

مختصر حالات:- ۱۳۱

وجہ عتاب حکومت :- ۱۳۵

۱۷۹

الف قران :- ۱۳۶

خصوصی امتیاز:- ۱۳۶

چہارم یار نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لقمان امت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ۱۳۸

ابتدائی حالات:- ۱۴۰

علمی مقام:- ۱۵۰

جہاد:- ۱۵۶

سادگی وقناعت :- ۱۶۱

حضرت سلمان اور یہودی جماعت کا امتحان :- ۱۶۸

۱۸۰