چار یار

چار  یار22%

چار  یار مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں
صفحے: 180

چار یار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51199 / ڈاؤنلوڈ: 3991
سائز سائز سائز
چار  یار

چار یار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

نشرواشاعت کو جرم قرار دیا گیا آج کی زبان میں پریس آرڈر ینیس سختی سے نافذ کیاگیا ۔حکومت کی یہ پابندی صرف احادیث فضائل ومناقب ہی کے لئے نہ تھی بلکہ اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے رفقاء کے سوانح وواقعات فضائل کاذکر کرنا بھی ممنوع تھا ۔اسی طرح ان احادیث فضائل کے مقابلہ میں ارکان حکومت اور ہم خیال صحابہ کے حق میں لاتعداد فرضی حدیثیں وضع کی گئیں اور اس وضعیت کی حوصلہ افزائی حکومت نے انعامات و اکرامات کی بارش کرنے کی حرص ولالچ دے دے کر ان کی خوب اشاعت کروائی۔

یہ سب کچھ اس وقت کی حکومت کادور اندیشانہ سیاسی کارنامہ تھا۔ حضرت عمر جن سے بڑا سیاستدان کوئی پیدا ہی نہیں ہوسکا یہ حکمت عملی ان ہی کی مر ہون منت تھی ۔ آپ نے اس سیاسی اصول کی ابتدا کی ۔ان کے بعد آنے والوں نے ان کے مقصد کو سمجھا اور اپنی کرسی اقتدار کو اس ہی مقصد کا محتاج پایا ۔لہذا ان ہی اصول وقواعد کی اپنے اپنے زمانہ وعہد کے مطابق تشکیل کرکے حضرت عمر کے نقش قدم پر چلنے کو اپنا فخر بلکہ باعث حیات سمجھا ۔آج بھی جب کبھی کسی حکومت کو اپنے مخالفین کی زبانیں بند کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ ذرائع ابلاغ عامہ پر کنٹرول کرنا ضروری سمجھتی ہے ۔

صدر اول کی اسلامی حکومت ۔عہد بنوامیہ اور زمانہ بنی عباس کا نصب العین ایک ہی تھا ۔ان کے اقتدار کا مدار ایک مشترکہ اصول پر تھا ۔حضرت ابو بکر کا مقابلہ حضرت علی علیہ السلام سے تھا ۔ اور حضرت عمر کے متعلق بھی حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عبداللہ ابن عمر نے کہا تھا کہ اگر تیرا باپ نہ ہوتا تو کوئی بھی میری مخالفت نہ کرتا ۔اسی طرح

۲۱

حضرت عثمان بن عفان اور معاویہ بن سفیان کامقابلہ بھی حضرت علی علیہ السلام سے تھا ۔لہذا مخالفت علی علیہ السلام ان ساری حکومتوں کا جزو مشترک ہوا ۔یہی حال عباسیوں کا رہا ۔صرف حالات کے تقاضے بدلتے رہے مثلا حضرت عمر مجبور تھے اپنے گردوپیش کے حالات وواقعات کی وجہ سے لہذا انھوں نے حضرت علی علیہ السلام کو ٹھکانے لگانے کی تجویز مجلس شوری کی پیچیدہ کاروائیوں کا سے خفیہ انداز میں بنائی لیکن جب (بقول محمود عباسی حضرت عمر کا پیروکار) یزید بن معاویہ تخت پر بیٹھا تو اس وقت حالات بہت بدک چکے تھے وہ علانیہ نواسہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کردینے کا حکم دے سکتا تھا ۔

یہی حالت احادیث کی تھی زمانہ معاویہ بن ابو سفیان میں لوگوں حالیں بدل چکی تھی اور عادتیں بھی تبدیل ہوگئی تھیں وہ مطلق العنان حاکم کی طرح یہ پورے ملک میں دے سکتا تھا کہ آل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے شیعوں کے فضائل کی احادیث بیان نہ کی جائیں منبروں پر ان کو برا بھلا کہا جائے اصحاب ثلاثہ کے حق میں احادیث وضع کی جائیں لیکن حضرت عمر اس قسم کی دیدہ دلیری نہیں کرسکتے تھے ۔ ان کے زمانے کے حالات کے پیش نظر یہی سیاسی حکمت عملی تھی کہ بنیادی اصول وضع کردیا جائے چنانچہ اس ہی اصول کی بناء پر معاویہ نے اپنا حکم صادر کیا کیونکہ سیرت شیخین یہ تھی کہ حکومت کو چاہیئے کہ احادیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبضہ کرلے اور محض ان احادیث کی اشاعت کی اجازت دے جو حکومت کے حق میں مضر نہ ہوں اپنی مخالف احادیث کی ہر ممکن طریقے سے روکے بالکل اسی طرح جیسے آج کے زمانہ میں اخبار پر سنسر شب عائد کردی جادتی ہے ۔یا

۲۲

حکومت پریس کنڑول کی تدبیریں سوچتی ہے اور ٹرسٹ بنا کر اپنی من پسند خبروں کوچھاپنے کی اجازت دیتی ہے ۔

بعد از رسول مسلمان حکمرانوں کا احادیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کیسا برتاؤ تھا اور ان سے متعلق کس قسم کے احکامات جاری تھے یہ مشہور علامہ اہل سنتہ محمد الخضری کی زبانی سنئے جو انھوں نے اپنی کتاب "تاریخ التشریعی الاسلامی" میں ثبت فرمایا ہے ۔

"حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ"میں مراسیل ابن ابی ملکیہ سے یہ روایت کی ہے کہ :رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق نے ان لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ تم لوگ رسو ل اللہ صلعم سے ایسی حدیثیں روایت کرتے ہو جن میں تم لوگوں میں اختلاف ہوتا ہے ۔ اور تمھارے بعد جو لوگ ہوں گے ان میں اس سے بھی زیادہ اختلاف ہوگا ۔تم رسول اللہ صلعم سے کوئی حدیث روایت نہ کرو ۔ جو شخص تم سے سوال کرے اس سے کہو کہ ہمارے اور تمھارے درمیان خدا کی کتاب ہے اس کے حلال کئے ہوئے کو حلال اور اس کے حرام کئے ہوئے کو حرام سمجھو "

(تاریخ فقہ اسلامی مولوی عبدالسلام ندوی مطبع معارف دار المصنفین سلسلہ نمبر۳۰-۱۶۱)

حافظ ذہبی کابیان ہے کہ شعبہ و‏‏غیرہ نے بیان سے اور بیان نے شعبی سے او ر شعبی نے قرظہ بن کعب سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے جب ہم کو عراق کی طرف روانہ کیا تو ہمارے ساتھ خود بھی چلے اور فرمایا تم کو عراق کی طرف روانہ کیا ہمارے ساتھ خود بھی چلے اور فرمایا تم کو معلوم ہے کہ میں کیوں تمھاری مشایعت کرتا ہوں ؟لوگوں نے کہا ہاں ہماری عزت افزائی کے لئے بولے اس کے ساتھ یہ بھی بات ہے کہ تم ایسی آبادی کے لوگوں کے پاس جاتے ہو جو شہد کی مکھیوں کی

۲۳

طرح گنگنا گنگنا کر قرآن پڑھتے ہیں تو احادیث کی روایت کرکے ان کی تلاوت قرآن میں روکاوٹ نہ پیدا کرنا صرف قرآن مجید پر بس کرو اور رسول اللہ سے روایت کم کرو ۔ اور اس میں بھی تمھارا شریک ہوں چنانچہ جب قرطہ آئے تو لوگوں نے رویت حدیث کی خواہش کی انھوں نے جواب دیا کہ ہم کو حضرت عمر نے اس کی ممانعت کی ہے "

)کتاب مذکورہ اردو ترجمہ تاریخ التشریع السلامی ص ۱۶۲)

ذرا داد دیجیئے کہ اس قدر دور اندیش سیاسی پالیسی ہے دو رو نزدیک کے علاقوں مسلمان پھیل رہے ہیں لشکر اسلامی آگے بڑھ رہے ہیں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ حزب مخالف کے فضائل کی احادیث لوگوں میں پھیل جائیں اور لوگوں کو ان پر غور وفکر کرنے کا موقعہ حاصل ہوجائے حضرت عمر نے تین حضرات یعنی ابن مسعود، ابودرداءاور ابو مسعود انصاری کو محض اس وجہ سے قید کردیا تھا کہ انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت زیادہ حدیثیں بیان کردیں(فقہ اسلامی ص۱۶۲)۔

اب آگے سنئے ۔

"ابن علیہ نے رجائن ابی سلمہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا کہ ہم کو یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت امیر معاویہ کہا کرتے تھے کہ تم لوگ بھی حدیث کے ساتھ وہی طرز عمل اختیار کرو جو حضرت عمر کے زمانے میں جاری تھا کیونکہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت حدیث کرنے کے متعلق لوگوں کو دھمکیاں دی تھیں ۔(کتاب مذکورہ ۱۶۳)

اور سماعت فرمائیے کہ ۔

"حضرت عمر ابن الخطا ب نے احادیث کو لکھوانا اور اس

۲۴

بارے میں اصحاب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشورہ کیا تو عام صحابہ نے اس کا مشورہ دیا لیکن وہ ایک مہینہ تک خود متیقن طور پر اس معاملہ میں استخارہ کرتے رہے اس کے بعد ایک دن انھوں نے یقینی رائے قائم کرلی اور فرمایا کہ میں نے جیسا کہ تم لوگوں کو معلوم ہے تم سے تحریر احادیث کاذکر کیا تھا پھر میں نے غور کیا تو معلوم کہ تم سے پہلے اہل کتاب میں سے بہت سے لوگوں نس کتاب اللہ کے ساتھ اور کتابیں لکھیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ان ہی کتابوں میں مشغول ہوگئے اور کتاب اللہ چھوڑ دیا ( کتاب مذکورہ ۱۶۳ ابن سعد نے اپنی طبقات میں بھی ایسی ہی روایت لکھی ہے )

ان منقولہ بالا عبارات سے ثابت ہو ا کہ احادیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے متعلق جو حضرت عمر کا رویہ تھا اس کو معاویہ نے پسند کیا اور اسی پر عمل کیا ۔ مولوی شبلی نعمانی کے مطابق حضرت ابو بکر نے پہلے احادیث جمع کرنے کا کام کیا او رتقریبا پانچو احادیث اکھٹی کرلیں مگر بعد میں وہ بھی حضرت عمر کے ہم خیال ہوگئے اور ان حدیثوں کو آگ میں جلا یا ۔الفاروق حصہ دوم )۔پس اب ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ معاویہ نے جم فضائل علی علیہ السلام و اہل بیت اطہار کی احادیث کو مٹانے اور حضرات ثلاثہ کے حق میں حدیثیں وضع کرانے کا رویہ اختیار کیا تھا وہ در اصل حضرت عمر ہی کی پیروی تھی ۔

یہاں یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ حضرات شیخین کا مقصد محض یہ

۲۵

تھا کہ لوگ غلط سلط حدیثیں شائع نہ کریں نیز یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ انھوں نے صرف فضائل اہل بیت(ع) اور شیعیان اہلبیت کی جو خبیرں تھیں ان کو بیان کرنے سے روکا اور پھر حضرت عمر کا گذشتہ امتوں کے حالات سے عبرت آموز نتیجہ نکالنا ہر طرح معقول ہے لہذا بہتر ہے کہ ان اعتراض پر بھی مختصرا گفتگو کرلی جائے ۔ چنانچہ وکلاء عمر نے کہا ہے کہ

خوف غلطی:-

حضرت عمر نے احادیث کی اشاعت کو اس لئے روکا کہ خوف تھا کہ لوگ جھوٹی احادیث نہ مشہور کردیں جبکہ ہم اس عذر کے تحت حضرت عمر کو طرز عمل دیکھتے ہیں تو یہ خدشہ ان کے ذہن کی سوچ اور عمل و کردار کے مطابق قرار نہیں پاتا ہے میں سب سے پہلے تو یہ کہتا ہوں کہ سارے صحابی عادل تھے تو پھر حضرت عمر نے ثقایت اصحاب پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ایسا کیوں سوچ لیا ۔ یا حضرت عمر کی نظر میں حلقہ اصحاب میں بعض لوگ نا قابل اعتبار تھے یا پھر حدیث نجوم کو بعد میں وضع کیا گیا ہے ۔ بہر صورت یہ بات غور طلب ہے کہ اگر محض غلطی کا خوف تھا تو اس کا علاج بڑی آسانی سے کیا جاسکتا تھا کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کو زیادہ عرصہ نہیں بیتا تھا ۔تمام صحابہ موجود تھے جنھوں نے خود اپنے کانوں سے ارشاد ات رسول سنے تھے اور اپنے ذہن میں محفوظ کرلئے تھے حضرت عمر کسی بھی مقتدر صحابی کی سربراہی میں ایک مخصوص جماعت صحابہ کے سپرد یہ کام کردیتے جو صحیح احادیث رسول جمع کرنے کی ذمہ داری ہو تی ۔جو کام انتقال رسول کے ڈیڑھ سو سال بعد شروع ہوا اسی وقت شروع ہو جاتا اور آیندہ کے تمام جھگڑے وہیں پر ختم ہو جاتے ۔

۲۶

آخر قرآن شریف بھی تو لوگوں کے سینوں ہی سے نکال کر جمع کیا گیا تھا ۔ اسی وجہ سے تدوین حدیث کا کام بھی بڑی عمدگی سے ہو سکتا تھا جبکہ تمام امت کا اجماع بھی اس بات پر تھا جیسا کہ آپ نے اوپر والے بیان میں ملاحظہ فرمایا ہے کہ اصحاب احادیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جمع کرنے کے حق میں تھے مگر حضرت عمر کی رائے اس کے خلاف ہوئی خود اس مسئلہ میں حضرت عمر نے اجماع امت کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے ایک مہینے کے استخاروں پر عمل کیا ۔ اور نہایت ضروری امر شریعت میں اپنی اکیلی رائے کو مسلط کرکے جمہوریت کے تابوت میں کیل ٹھونک دی ۔

ترک حدیث اخفائے فضائل مخالفین کے لئے نہ تھا :-

کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر کا یہ طرز عمل اہل بیت اور ان کے متبعین کے فضائل و مناقب کو چھپانے کے لئے نہ تھا بلکہ ہر طرح کے حدیثوں سے ان کا برتاؤ یکسان تھا ۔

لیکن جب ہم تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہ قیاس بے بنیاد ثابت ہو تا ہے کیونکہ حضرت عمر دیگر احادیث کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے بلکہ مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت اگر قرآن شریف میں کسی تنازعہ کا جواب نہ پاتے تھے تو لوگوں سے احادیث رسول پوچھا کرتے تھے جب حضرت عمر کا آخری وقت قریب ہوا تو آب کو اپنا جانشین مقرر کرنے کا خیال ہو ا ۔ معاذ بن جبل ، خالد بن ولید ،ابو عبیدہ بن جراح اور سالم غلام کے فضائل حضور کی احادیث سے مستبنظ کرتے تھے کہ فلان کو "امین امت" فلاں کو سیف اللہ اور فلاں کو عالم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا تھا ۔حضرت علی علیہ السلام کے ومتعلق جو

۲۷

احادیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھی وہ یک دم فراموش کردی تھیں گویا ان کا ذکر کرنا نہیں چاہتے تھے ان کو چھپا نے میں بہتر مصلحت سمجھتے تھے ۔مولوی عبد السلام ندوی نے ایک بڑی پر معنی بات نقل کی ہے کہ خوارج کا ذکر کرتے ہوئے مولوں صاحب لکھتے ہیں کہ "یہ لوگ (خوارج )صرف قرآن کے ظاہری معنی لیتے تھے اور حدیثوں میں صرف ان ہی آحادیث کو قبول کرتے جن کی روایت ان لوگوں نے کی تھی جن کو یہ لوگ دوست رکھتے تھے ۔چنانچہ ان کی قابل اعتماد حدیثیں صرف وہ تھیں جنکی روایت شیخین حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کے دور خلافت میں کی گئی تھی" ۔

(تاریخ فقہ اسلامی ص ۲۳۹)

خوارج حضرت علی علیہ السلام کے تو سخت دشمن تھے ۔فضائل علی علیہ السلام کی احادیث تو ان کے لئے قابل اعتماد ہو نہیں سکتی تھیں اور ان کے لئے وہی حدیثیں قابل اعتبار تھیں جو دور ابو بکر و عمر میں تھیں پس خوارج کے اس طرز عمل سے ثابت ہوگیا کہ حضرت ابو بکر وعمر کے زمانہ حکومت میں حضرت علی اور ان کے دوستوں کے فضائل کی احادیث کی روایت نہیں کی جاتی تھی اس نقش قدم پر معاویہ چلا بہر حال لگے ہاتھوں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ زمانہ شیخین میں حدیث کے روایت کرنے والے خارجیوں کے دوست تھے ۔اور مثل خوارج حضرت علی علیہ السلام کے مخالف تھے ۔

گزشتہ امتوں کی غلط مثال :-

حضرت عمر کا یہ عذر کہ امم سابق کی طرح مسلمان بھی کتاب خدا کو چھوڑ کر دوسری لکھی ہوئی کتابون کی طرف رجوع کریں گے نہ ہی تاریخ سے ثابت ہے اور

۲۸

نہ ہی مذہبی روایات سے ۔ قرآن مجید سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ اہل کتاب نے اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کی تھی مگر کسی ایسی کتاب کا ذکر نہیں ملتا ہے جو انھوں نے لکھی ہو ۔ اور توریت ، زبور ، اور انجیل کے مقابلہ میں رکھ کر اس کی طرف رجوع کی ہو ۔ اور پھر زمانہ اصحاب میں تو یہ عذر بالکل بے معنی ہے کہ ارشادات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عین مطابق قرآن ہیں ۔ اس کے معارض نہیں پھر احادیث کی طرف رجوع کرنا قرآن مجید سے اعراض کرنے کے مترادف کیسے ہو سکتا ہے ؟

حقیقت یہ ہے کہ انکار حدیث کو حضرت عمر فقہ کی رو سے غلط نہ سمجھتے تھے انھیں اس بات کا ضرور احساس تھا کہ ہم محتاج سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں یہی وجہ ہے کہ جب آخری وقت آپ نے شوری کمیٹی تشکیل دی تو سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کرنے کی شرط کو نظر انداز نہ کرسکے ۔ مگر اس کو سیرت شیخین سے مشروط کردیا اصل میں یہ انکار ایک خاص سیاسی مقصد کی خاطر تھا لیکن کچھ ہی عرصہ میں تدوین حدیث میں مشغول ہوگئے اور انھیں حضرت عمر کی غلطی کا احساس ہوگیا ۔مداحان حضرت عمر بھی دبی زبان میں ان کی غلطی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے جیسے مولوی عبد السلام ندوی رقمطرز ہیں ۔

"اگر چہ اس دور میں حدیثوں کی بھی بکثرت روایت کی جاتی تھی اور تابعین کا ایک گروہ صرف اسی کام میں لگا ہو ا تھا تا ہم وہ اب تک کسی مجموعہ کی صورت میں مدون نہیں ہوئی تھیں لیکن چونکہ تمام لوگ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن مجید کی وضاحت کرکے حدیثیں فقہ کی ---کرتی ہیں اور عام مسلمانوں میں کوئی اس رائے کا مخالف نہ تھا اس لئے عقلا یہ حالت دیر تک قائم نہ رہ سکتی تھی چنانچہ

۲۹

دوسری صدی ہجری کے آغاز میں حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس کمی کو محسوس کیا اور اپنے عامل مدینہ حضرت ابو بکر بن محمد بن حزم لکھا کہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی جو حدیثیں ملیں ان کو لکھیں کیونکہ مجھ کو علم اور علماء کے فنا ہوجانے کا خوف ہے "(تاریخ فقہ اسلامی ص ۲۱۴)

لہذا احادیث پر بہت سی کتابیں مرتب کر لی گئیں ۔حنفی فقہ کا تو یہ جزو اعظم ہے ۔ صحاح ستہ مشہور ہیں ۔اس بات سے فقط یہی نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ ہر مسلمان مع حضرت عمر یہ سمجھتا تھا کہ احادیث دین کے لئے بہت ضروری ہیں ۔ ان کے بغیر فقہ نا مکمل رہتی ہے ۔مخالفین حدیث کا منشاء محض یہ تھا کہ حضرت علی و اہلبیت اطہار علیھم السلام اور ان کے دوستوں کے فضائل کی حدیثوں کو پردہ اخفاء میں رکھا جائے ۔ اسی بات پر عمل ان کے مقلدین نے بھی کیا اور ایسی احادیث فضائل ومناقب کو جس قدر ممکن ہو سکتا تھا چھپایا گیا جبکہ باقی احادیث کی اشاعت سے تعرض نہ کیا گیا حضرت عمر نے جو بات مخصوص اشاروں میں کہی تھی معاویہ نے کھلم کھلا اس کا اظہار کردیا ۔ اور حکم جاری کیا کہ حضرت علی علیہ السلام اور ان کے شیعوں کے بارے میں حدیثیں بیان نہ کی جائیں اور حضرات ثلاثہ کے حق میں احادیث وضع کی جائیں ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ کے قریب یہ جراءت نہ ہوسکتی تھی اور اگر فضائل ثلاثہ کی مروجہ احادیث کا وجود زمانہ رسالت میں ہوتا تو بوقت سقیفہ یا شوری ان فضائل کا اظہار ضرور کیا جاتا ۔ ان دونوں اہم مواقع پر ایسی حدیثوں کا بیان نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ یہ احادیث اس وقت

۳۰

وضع نہ ہوئی تھیں۔اب ہم چند شواہد اس کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ حضرت علی اور ان کے حامی افراد کے نام کو مٹانے کے لئے کیسی مذموم کوشش کی گئی ان حضرات کی توصیف وتعریف میں وارد احادیث کو کیسے ضائع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور کس طرح حضرات ابوبکر ،عمر ،عثمان اور ان کے ہم خیال لوگوں کے حق میں جعلی احادیث سازی کا کام شروع ہوا ۔

احادیث فضائل علی علیہ السلام اور شیعیان علی کی تضییع اور توصیف حضرات ثلاثہ کی وضعیت :

سنی معتزلی علامہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں جو واقعات نقل کئے ہیں ان سے یہ بات مکمل طور پر ثابت ہوتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور ان کے رفقاء کی شان میں بیان کردہ احادیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اشاعت پر کڑی پابندی لگادی گئی اور اس کے برعکس اصحاب ثلاثہ اور ان کے ہم خیال لوگوں کی شان میں من گھڑت حدیثوں کی خوب مشہوری کی گئی ۔

"ابو الحسن علی بن محمد ابی سیف المدائنی نے کتاب الاحادیث میں روایت کی ہے کہ معاویہ نے مضمون واحد کے حکم نامے امام حسن علیہ السلام کے بعد اپنے تمام عمّال کے پاس بھیجے جن میں اس نے تحریر کیا کہ میں بری الذمہ ہوں ۔لہذا ہر طبقہ و سرزمین میں ہر منبر پر خطیب کھڑے ہوگئے جو حضرت علی علیہ السلام پر لعنت کرتے تھے ان سے تبّراء چاہتے تھے اور اہل بیت علیھم السلام کی مذمت کرتے تھے اس مصیبت میں سب سے

۳۱

زیادہ اہل کوفہ گرفتار تھے کیونکہ وہاں شیعیان علی بہت تھے لہذا معاویہ نے کوفہ پر زیاد بن سمیّہ کو حاکم مقرر کردیا اور بصرہ بھی اس کے ساتھ ملا دیا وہ شیعوں کو جہاں بھی وہ ہوتے تھے نکال لاتا تھا وہ ان سے واقف تھا کیونکہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے زمانے میں ان کے ساتھ تھا لہذا ایک پتھر وکنکر کے نیچے سے شیعوں کو تلاش کرکے اس نے قتل کیا ۔دھمکیاں دیں ۔ان کے ہاتھ پیر کاٹے ۔آنکھیں نکال ڈالیں ۔درختوں کی شاخوں میں سولی پر لٹکا دیا اور بہتوں کو عراق سے جلاوطن کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عراق میں کوئی بھی شیعہ جس سے وہ واقف تھا نہ رہا ۔اور معاویہ نے کل اطراف میں اپنے عاملوں کو لکھا کہ کسی شیعہ علی و اہلبیت کی گواہی جائز نہ رکھو ۔اور اپنے عاملوں کو لکھا کہ عثمان کے پیروکاروں ،دوست داروں اور اہل واولاد پر مہربانی کرو۔ جو عثمان کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہیں ان کی جائے نشست اپنے قریب قرار دو اور ان لوگوں کو اپنا ہم نشین بناؤ ان کی بزرگی کرو اور ان کی بیان کردہ روایات و احادیث مجھے لکھو ۔ اور بیان کرنے والے کا نام اور اس کے باپ کا نام قبیلے کا نام لکھو ۔پس عمال نے ایسا ہی عمل کیا یہاں تک کہ عثمان کے فضائل و مناقب کی ان لوگوں نے کثرت کردی کیونکہ معاویہ ان لوگوں کو صلہ بھیجتا تھا باغات و زمینیں اور عمدہ لباس وغیرہ اور ان حدیثوں کو شایع کرتا تھا سارے عرب میں ۔اور عثمان کے دوستوں کے پاس بھیجتا تھا ۔پھر ہر شہر میں اس کی کثرت ہوئی اور لوگ دنیا اور وجاہت دنیا کی طرف مائل ہوگئے ۔پس معاویہ کے عمّال

۳۲

میں کوئی ایسا نہ تھا کہ جھوٹی احادیث لاوے مگر یہ کہ ہر ایک عثمان کے حق میں فضیلت ومنقبت کی جھوٹی حدیث بیان کرنے والے کا نام معاویہ لکھ لیتا تھا اور اس کو مقرب بنالیتا تھا اس کی سفارش قبول کرلیتا تھا ۔پس اس طرح ایک زمانہ گزر گیا ۔پھر معاویہ نے اپنے عاملوں کو لکھا کہ بتحقیق حضرت عثمان کے حق میں حدیثیں بہت کثرت سے ہوگئی ہیں اور ہر شہر اور ہر طرف اور ہر گوشہ میں پھیل گئی ہیں لہذا جس وقت میرا یہ خط تمھیں ملے تم لوگوں کو فورا مخصوص صحابہ اور خلفائے اولین کے فضائل بیان کرنے پر مائل کرو۔اور اگرتم کوئی حدیث ابو تراب کے حق میں سنو تو ویسی ہی او راس کے مثل ونظیر دوسری حدیث"الصحابہ" کے حق میں بنا کر مجھے دو ۔پس بلاشبہ یہ امر مجھے بہت محبوب تر ہے اور میری آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے والا ہے اور ابوتراب اور اس کے شیعوں کی دلیل کو توڑنے والا ہے ۔اور ان لوگوں (شیعوں )کو فضائل عثمان سخت تر معلوم ہوں گے ۔ معاویہ کے یہ خطوط لوگوں کو پڑھ کر سنائے گئے ۔پس مخصوص صحابہ کی تعریف میں بہت ساری جھوٹی حدیثیں گھڑ کر بیان کی گئیں جن کی کوئی حقیقت نہ تھی اور لوگوں نے ا س قسم کی خبریں بیان کرنے میں کوشش کی یہاں تک کہ یہ جعلی احادیث منبروں پر مشتہر کی گئیں اور یہ موضوعہ حدیثیں مدرسوں کے استادوں کی دی گئیں اور انھوں نے اپنے شاگردوں ،طالب علموں اور لڑکوں کو سکھا یا اور تعلیم دی جس طرح قرآن سیکھتے ہیں ۔یہاں تک کہ معلموں نے اپنے گھروں کی عورتوں ،بچیوں اور ملازموں کو بھی سکھایا

۳۳

بس اسی حال میں لوگوں نے بسر کی پھر معاویہ نے ایک ہی مضمون کا پروانہ اپنے گورنروں کو سب شہروں میں با ایں مضمون لکھا کہ تم لوگ جس شخص کی نسبت گواہی سے ثابت ہو کہ وہ شخص علی واہلبیت کو دوست رکھتا ہے بس اس کا نام دفتر سے مٹا دو اوراس کا رزق بند کردو جو اس کو ملتا ہے وہ روک لو۔ اس حکم کی تائید میں پروانہ ثانی میں لکھا کہ جس شخص کے اوپر محب علی واہلبیت کا اتہام تمھارے نزدیک ثابت ہو جائے تو اس پر اس کے گھر کو گرادو اور اس قوم سے محبت کرنے والوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کرو۔زیادہ تر یہ بلا عراق خصوصا کوفہ میں تھی تاکہ اینکہ اگر کوئی شخص شیعہ علی اس شخص کے پاس آتا تھا جس پر وہ بھروسہ کرتا تھا تو وہ داخل خانہ ہوتا اور اپنا راز اس سے کہتا تھا اور اس کے خادم وغلام سے ڈرتا تھا اور اس سے بھی کوئی بات نہ کرتا تھا جب تک کہ سخت قسم کا اور پکا حلف اس سے رازپوشیدہ رکھنے کا نہ لیتا تھا ۔پس بہت سی خود ساختہ احادیث حق صحابہ میں ظاہر ہوئیں اور بہت سی بہتان پھیلانے والی احادیث برخلاف حضرت علی علیہ السلام شائع ہوئیں اور اس ہی روش پر سب فقہا قاضی اور حکام چلے سب سے زیادہ اس روش پر چلنے والے قاریان ،ریا کنندگان مستضعفین تھے جو اظہار خشوع خضوع وعبادت کرتے تھے پھر وہ جھوٹی حدیثیں بناتھے تاکہ ان کے سبب سے اپنے والیان ملک کے نزدیک بہرہ مند ہوں اور پاس بیٹھنے کاقرب حاصل کریں۔اور بسبب تقرب کے مال و جائیداد ومکانات ان کو حاصل ہوں ۔یہاں تک کہ یہ خبریں اور احادیث ان دین داروں کے ہاتھ میں منتقل ہوئیں جو جھوٹ کو حلال نہیں جانتے تھے اور سچاگمان کرکے

۳۴

قبول کرتے تھے اور اگر وہ جانتے کہ یہ احادیث جھوٹی ہیں تو ان کوروایت نہ کرتے اور نہ اس راہ پر چلتے پس یہ امر اسی طرح پر رہا ۔یہاں تک کہ امام حسن ابن علی نے وفات پائی پھر یہ فساد وبلا اور زیادہ ہوئے یہاں تک کہ کوئی شخص اس قسم کا باقی نہیں رہا مگر یہ کہ ڈرتا تھا اپنے قتل سے یا جلاوطن ہونے سے (اس کے بعد زمانہ عبد الملک وحجاج بن یوسف میں زیادہ ہوگئی)اور تحقیق روایت کی اپنی تاریخ میں ابن عرفہ نفطویہ نے جو بہت بڑے محدثین میں سے ہیں وہ خبر جو اس خبر کی تصدیق کرتی ہے کہا ابن عرفہ نے کہ بہت احادیث موضوعہ فضائل صحابہ وخلفائے ثلاثہ میں بنائی گئی ہیں زمانہ بنوامیہ تاکہ ان کے ذریعے نزدیکی وتقرب حاصل کیا جائے کیونکہ بنوامیہ گمان کرتے تھے کہ وہ ان احادیث موضوعہ کے ذریعے سے بنوہاشم کی ناک مروڑرہے ہیں ۔

(شرح نہج البلاغہ علامہ ابن ابی الحدید معتزلی ج ۳ ص۱۵ -۱۶ تشریح خطبہ "ان فی ابدی الناس حقا وباطلا

اس کے بعد مزید کیا ثبوت دیا جاسکتا ہے ۔یہ ایک معجزہ خداوندی ہے کہ ایسے حالات وواقعات کے باوجود فضائل علویہ اور منقبت شیعیان علی کتب مخالفین میں موجود ہیں ۔بیشک اللہ قدرت کا ملہ رکھتا ہے کہ اس نے موسی کو فرعون ہی کی گود میں پروان چڑھا دیا تھا اور خدا کے نور کو پھونکوں سے بجھایا نہیں جا سکتا ہے ۔

غرضیکہ بہت اچھی طرح ثابت ہوگیا کہ جماعت اہل حکومت

۳۵

نے فضائل صحابہ وخلفائے اولین کی تائید میں کثرت سے جھوٹی حدیثیں وضع کیں اور کرائیں اور اس کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی کہ فضائل علی واہلبیت علیھم السلام و شیعیان شائع ومشہور نہ ہوں ان ہی اصول کو مد نظر رکھ کر تدوین و تالیف کتب احادیث کے زمانہ تک معاویہ اور اس سے قبل کی موضوعہ احادیث کے زمانہ تک معاویہ اور اس سے قبل کی موضوعہ احادیث کے زما امتداد زمانہ کے باعث لوگوں کی نظروں میں صحیح معلوم ہونے لگی تھیں کیونکہ جھوٹ کا مسلسل تکرار بعض اوقات سچ سمجھا جاتا ہے ۔

حقوق و فضائل اہلبیت کے چھپانے کی حکومتی کوششیں آپ نے ملاحظہ کرلیں اور یہ ضرورت بر سر اقتدار جماعت کو صرف اس لئے پیش آئی کہ عدم استخلاف کے عقیدہ کی ضرورت حکومت کو اپنے قیام وحیات کے لئے درکار ک تھی ۔لہذا اس غلط اعتقاد کی اشاعت نہ صرف عمدا اور قصدا کی کی گئی بلکہ طاقت وجبر اور ظلم وتعدی سے اسے رواج دیا گیا یہاں تک کہ یہ عقیدہ لوگوں کے تن من میں رچ گیا اور آئندہ نسلوں نے اسی عقیدے ہی کی تعلیم پائی ۔جس کے نتیجے میں ایک خام خیال ان کے مذہب میں داخل ہوگیا اور یہی نہیں کہ اب وہ اسے غلطی سمجھنا پسند نہیں کرتے بلکہ اس کے سچا ہونے پر ان کا ایسا ہی ایمان ہے جیسا قرآن پر ۔لیکن باوجود ان سب باتوں کے پھر بھی ذکر علی وفضائل حیدر کرار زندہ وپائندہ ہیں ۔اور ان کے مخالفین کی زبانوں پر بغیر ان کی مرضی و ارادہ کے وقتا فوقتا جاری ہو کر رہتے ہیں کیونکہ خداوند تعالی نے وعدہ فرمایا ہے کہ

( انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحافظون )

*****

۳۶

موضوع احادیث فضائل برائے مغالطہ

مقدمہ سوم:-

کسی سازش یا انقلاب ،کسی معرکہ یا کشمکش کسی اتفاق یا ترکیب کے سہارے بر سراقتدار آجانے والے حکمران عموما سب سے پہلے یہ تدبیر کرتے ہیں کہ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ کر اپنی حکومت کو مستحکم ومستقل بنائیں ۔

اوران لوگوں کی طرف سے عوام کے قلوب کو پھیر دیں جو ان کی نظر میں ان سے حکومت کے زیادہ حقدار اور اہل ہوتے ہیں یا ان افراد کے اثر و رسوخ سے ان کی حکومت کو خطرہ محسوس ہوتا ہو نشہ اقتدار کی مستی میں ان حکمرانوں کاجی تو یہی چاہتا ہے کہ ایسے افراد کو نیست ونابود کردیں لیکن اگر واقعات وحالات اس طرح کے ہوں کہ ان کا قلع قمع یا جلا وطنی ان کے استحکام اقتدار کے لئے مضرت رساں ہو تو وہ ایسا قدم اٹھا نے سے گریز کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ایسی صورت میں وہ یہ سیاسی چال چلتے ہیں کہ ان حقداروں اور دعویداران حکومت کے حقوق وفضائل اور اہلیت وقابلیت کو کم کرکے دکھاتے یا ممکن ہو تو بالکل چھپا تے اور اپنے منہ میاں مٹھو بنکر خود کے ترانے بجاتے ہیں اپنی تعریف کے بل باندھتے ہیں اور اپنے کارناموں کے قلابے آسمان سے ملاتے رہتے ہیں ۔اپنی تیس مار خانی کے قصیدے گھڑکر لوگوں میں بڑی ہوشیاری سے پھیلا تے ہیں ۔ذرایع ابلاغ عامہ کے بل بوتے پر اپنے قصّے و کہانیاں جی بھر کر مشہور کراتے ہیں اور

۳۷

یہ ایسی چالاکی ہے کہ سانپ بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی بھی ثابت رہتی ہے ۔

جماعت سقیفہ کی کامیابی بڑی شاندار تھی کہ ایک ایسے مستحق فرد کو نظر انداز کرکے حکومت پر قبضہ جمایا گیا تھا جس کی اسلامی خدمات کے کارہائے نمایاں عوامی نظروں میں گھوم رہے تھے اس کی محبت وقرابت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر ایک پر واضح تھی اس کی شجاعت لوگوں میں ضرب المثل بن چکی تھی ۔اس کی سخاوت نے حاتم کا نام زیر کرلیا تھا اس کے علم وحکمت کے ڈنکے ہر کان میں بج رہے تھے اس کے زہد وتقوی نے لوگوں کو مبہوت کر رکھا تھا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وہ خطبے جن میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے فضائل وحقوق کا اظہار فرمایا تھا لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ تھے خم غدیر کا منظر نگاہوں میں سمایا ہوا تھا ۔ایسی صورت حالات تھی کہ اگر جناب امیر علیہ السلام کو اللہ تعالی نے صبر کامل کی قوت عطا نہ فرمائی ہوتی اور ان کے دل میں اسلام کی محبت بدرجہ اولی نہ ہوتی جیسی کہ محبت خود بانی اسلام کے دل میں تھی تو ارکین حکومت سقیفہ کے لئے اپنا تخت و تاج قائم رکھنا سخت دشوار ہوجاتا اور مدینہ میں خون کی نہریں جاری ہوجاتیں لیکن اہلیان حکومت نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے اوپر قیاس کرکے ایسی تدابیر اور پیش بندیاں اختیار کیں جن کے باعث ان کے زعم میں جو علی علیہ السلام کی طرف سے ان کو خوف تھا وہ اگر بالکل دور نہ ہو تو بہت حد تک کم ضرور ہو جائے چنانچہ فضائل علویہ کی احادیث میں رکاوٹ پیدا کرنا بھی ایسی ہی اہم سیاسی تدبیر تھی جب حکومت نے روایت حدیث پر پابندی عائد کی اور

۳۸

احادیث پر اپنا قبضہ و اختیار جماکے رکھا پھر وضعیت احادیث اس قدر تی اور آسان نتیجہ تھا یہ طریقہ ایک طرف سہل تھا دوسری جانب بہت مؤثر و کارگر تھا کیونکہ اگر لوگوں کو یقین ہوجائے کہ ان بزرگواروں کے بھی اتنے ہی فضائل جناب رسول خدا نے ان بزرگواروں کے بھی اتنے ہی فضائل جناب رسول خدا نے بیان فرمائے ہیں تو پھر وہ ان کے قبضہ حکومت کو حق بجانب سمجھنے لگیں گے اور اس تدبیر میں سہولت یہ تھی کہ چند آدمیوں پر نظر عنایت کرکے ان کو ایسا کہنے پر آمادہ کر لینا کوئی بڑی بات نہ تھی ۔چنانچہ معاویہ بن ابو سفیان نے جس خوبی سے یہ کام سرانجام دیا اس کا حال ہم گزشتہ مقدمہ میں لکھ چکے ہیں ۔اب ہم بطور مثال چند شواہد پیش خدمت کرتے ہیں اور چند موضوعہ احادیث نقل کرتے ہیں ۔ان پر جرح کرکے اثبات وضعیت لکھتے ہیں ۔

کسوٹی:-

کسی حدیث کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے تین گر ایسے ہیں جن کی کسوٹی پر ہر حدیث کو پرکھا جا سکتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

(ا):- فضلیت کی حدیث موافق قرآن ہے یا نہیں ۔

(ب):- ممدوح کے سوانح حیات اور واقعات سے حدیث کی مطابقت ہوتی ہے یا نہیں ۔

(ج):- حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے فورا بعد چند ایسے مواقع اگر آئے جو اس حدیث کے بیان کے مناسب محل ومتقاضی تھے تو کیا اس حدیث کو ان موقعوں پر پیش کیا گیا کہ نہیں ۔

اگر کوئی حدیث خلاف قرآن ہے تو یقینا وہ جھوٹی ہے ۔اسی طرح قابل غور امر ہے کہ حدیث کا ممدوح اس قابل و اہل بھی تھا کہ نہیں جو اس کے حق میں بیان ہوا ہے ۔تعریف و توصیف اسی وقت زمرہ مدح میں شمار ہوگی جب ممدوح کے سوانح حیات

۳۹

کردار ،چال چلن وطرز زندگی کے مطابق ہو ورنہ ہجو ہوگی مثلا کسی کمزور و لاغر اور بزدل شخص کے بارے میں اگر کہا جائے کہ وہ رستم زماں تھا تو یقینا یہ تعریف نہیں بلکہ ہجو ٹھہرے گی ۔حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے فضائل وکمالات و علو مرتبت کے متعلق جس قدر احادیث ہیں وہ محض ایک امر واقعہ کو بیان کرتی ہیں ۔آپ کے چال چلن ۔سوانح حیات فضائل روحانی وصفات جسمانی کے عین مطابق ہیں۔ اگر حدیث میں ہے کہ آپ (ع) کا اور جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کانو ر تخلیق نورتخلیق ارض وسما سے قبل خلق کیاگیا اور وہ نور ایک ہی تھا جو عرش الہی کے سامنے ہزاروں سال کی تخلیق آدم سے پہلے مشغول عبادت الہی تھا تو اس کی تردید آپ کے سوانح حیات ہے ہرگز نہ ہوسکے گی بلکہ مزید تقویت بخشی ہوگی کیونکہ فضائل میں آپ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوش بدوش تھے اور اس دنیا میں آکر بھی دونوں نے کبھی کسی بت کو سجدہ نہ کیا ۔

ایک حدیث وضع کی گئی ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاذاللہ فرمایا کہ "میں اور ابوبکر دوگھوڑوں کی طرح دوڑ رہے تھے ۔(یعنی نبوت کے پائے کو چھونے کے لئے )میں ان سے آگے بڑھ گیا تو ان کو میری پیروی کرنی پڑی اوراگر وہ آگے بڑھ جاتے تو میں ان کی پیروی کرتا ۔

اس موضوعہ حدیث سے بعض جہلاء نے استدلال کیا ہے کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نبوت مل گئی اور ابو بکر کو خلافت حصہ میں آئی ۔اسی طرح یہ بھی حدیث ہے کہ ابو بکر و عمر کا نور تخلیق آدم سے پہلے مصروف عبادت تھا تو جب ان کو زمین پر چالیس بتوں کے آگے سجدہ ریز

۴۰

دیکھیں گے تو کیا ایسی احادیث پر اعتبار کریں گے ؟۔

اب اگر حضرت علی علیہ السلام کے حق میں انکی روز خندق کی ایک ضربت کو ثقلین کی عبادت سے افضل قرار دیا گیا تویہ عین امر واقعہ ہے کہ اس ضرب سے اسلام بچ گیا ۔اگر اسلام ہی نہ ہوتا تو عبادت کون کرتا اسی طرح اگر علی علیہ السلام باب مدینۃ العلم ہوئے تو آپ نے ہمیشہ "سلونی "(پوچھ لوجوپوکچھ بھی پوچھنا چاہو۔) کہا ہر مسئلہ حل فرمایا ۔لیکن یار لوگوں نے شہر کی دیواریں اور چھت تک بنا لیں مگر لوگوں نے دیکھ لیا کہ دیوار نے شگافتہ انداز میں اقرار کر لیا کہ اگر علی علیہ السلام نہ ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا ۔ اس سے بڑا کوئی قاضی نہیں ہے ۔

الغرض جو احادیث آج کل فضیلت میں حضرات ثلاثہ کی پیش کی جاتی ہیں اگر وہ فی الحقیقت ارشادات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے ۔تو پھر سقیفہ بنی ساعدہ میں ان فضائل کا اظہار کیوں نہ کیا گیا ۔صرف رفاقت غار اور امامت نماز پر اکتفا ہوا ۔اسی طرح نامزدگی عمر اور انتخاب شوری کے اوقات پر بھی ایسے فضائل پر سے پردہ نہ اٹھا یا گیا جب کہ حضرت علی علیہ السلام نے ہر موقع احتجاج پر احادیث پیغمبر سے استدلال فرمایا ۔بہر حال چند نمونے ملاحظہ کریں اور لطف اٹھائیں ۔

جھوٹ نمبر۱:-

"خلفاء اربعہ (حضرات ابو بکر ،عمر، عثمان ،علی ) اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم حضرت آدمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلقت سے پہلے نوری حالت میں موجود تھے اور ان میں سے ہر ایک خاص صفت کے ساتھ موصوف تھا ۔اور ان کو برا کہنے سے

۴۱

بچا جائے ۔محمد بن ادریس الشافعی اپنی سند سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ میں (رسول خدا) ابو بکر، عمر ،عثمان اور علی ا للہ کے عرش کی داہنی طرف نور کی شکل میں حضرت آدم کی پیدائش سے ایک ہزار سال قبل سے تھے ۔جب حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے ایک ہزار سال قبل سے تھے ۔جب آدم علیہ السلام پیدا ہوئے تو ہمیں ان کی صلب میں رکھدیا گیا اور ہم اسی طرح اصلاب طاہرہ میں منتقل ہوتے رہے ۔یہاں تک کہ اللہ نے مجھے صلب عبداللہ میں ،ابو بکر کو صلب ابی قحافہ میں ،عمر کو صلب خطاب میں عثمان کو صلب عفان میں اور علی کو صلب ابو طالب میں منتقل فرمادیا پھر ان کو میر ا صحابی مقرر کیا ،ابو بکر کو صدیق ،عمر کو فاروق ،عثمان کو ذوالنورین اور علی کو وصی قرار دیا ۔

پس جس نے میرے اصحاب کو شب وشتم کیا اس نے مجھے گالی دی جس نے مجھے گالی دی اس نے خدا کو برا کہا اور جس نے خدا کو بر ا کہا اس کو خداوند نار جہنم میں منہ کے بل ڈالے گا ۔

(ریاض النضرہ اما محب الدین طبری جزء نمبر ۱ باب نمبر ۴ ص ۳۰)

اس نام نہاد حدیث کے حرف حرف پر مصنوعیت کی مہر لگی ہوئی ہے ۔صاف ظاہر ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے حق میں جو حدیث نور مشہور ہے اس کا جواب تراشا گیا ہے حضرت علی علیہ السلام کے لئے حدیث نو ر اس لئے قابل قبول ہے کہ آپ کو مخالفین بھی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی غیر خداکو سجدہ نہ کیا ۔مگر دیگر بزرگوں کے ا جام پر یہ خلعت فٹ نہیں ہوتا اس لئے کہ

ا:-عرش الہی کے سامنے ہزاروں برس طاہر ومطہر رہنے سے اتنی بھی صلاحیت پیدا نہ ہوسکی کہ دنیا میں آکر اصنام

۴۲

پرستی سے محفوظ رہتے ۔بس یہ ساری عبادت وطہارت اس چالیس سالہ بت پرستی سے بے فائدہ ٹھہرتی ہے ۔

ب:-حضرت آدم سے ایک ہزار سال پہلے پیدا ہونے سے تمام انبیا ء پر امتیاز وفوقیت وفضیلت لازم آتی ہے ۔ کوئی امت محمد یہ میں ایسا نہ ہوگا جو اس امر کا قائل ہو کہ اصحاب ثلاثہ انبیاء سے افضل تھے ۔ نہ ہی ان کے سوانح حیات اس بات کی شہادت فراہم کرتے ہیں۔

ج:- اصحاب ثلاثہ کے والد وآباؤ اجداد متفقہ طور پر کافر تھے پھر اصلاب طاہرہ کے کیا معنی ہوئے ؟اور ارحام کے تو کیا کہنے ہیں ۔چپ بھلی ہے ۔

د:- یہ حدیث صحاح ستہ میں نہیں ہے ۔

ر:- علمائے اہل سنۃ و الجماعۃ کی بڑی جماعت نے اس حدیث کو جھوٹی و موضوع قراردیا ہے ۔

مولوی سیف اللہ یانی پتی "سیف مسلول "میں اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "ایں حدیث ہرچند ضیعف است" حافظ ابو نعیم تاج المحدثین نے" امالی" میں تسلیم کیا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے ۔ علامہ ذہبی نے "میزان الاعتدال "میں اعتراف کیا ہے کہ یہ جھوٹ ہے ۔ حافظ علامہ جلا ل الدین سیوطی نے بھی اس قسم کی احادیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے ۔ چنانچہ سیوطی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کا راوی المنجی میرے نزدیک ایک آفت ہے ۔بلا ہے ۔ جھوٹ بولتا ہے ۔

جھوٹ نمبر ۲:-

حضرت علی علیہ السلام کی شان میں حدیث منزلت مشہور

۴۳

ومعروف ہے یہ حدیث کئی موقعوں پر دہرائی گئی ہے ۔ اس کے مقابلے میں ایک جھوٹی حدیث بنائی گئی ۔

"جناب ابن عباس سے مرفوعا مروی ہے کہ اگر میں کسی کو دوست بناتا تو ابو بکر کو بناتا مگر مجھے تو خدا نے دوست بنا لیا ہے ۔

ابو بکر وعمر مجھ سے وہی منزلت رکھتے ہیں جو ہارون کو حضرت موسی کے ساتھ تھی ۔

اولا تو اس حدیث کا بے جوڑ پن ملاحظہ ہو ذکر تو خلت ودوستی کا تھا ۔حضرت موسی کی اور حضرت ہارون کی منزلت کا تذکرہ کیوں؟ پھر دو ہارون کیسے ؟ ایک موسی علیہ السلام کے لئے تو صرف ایک ہی ہارون تھے ۔ یہاں دو کی کیا ضرورت پیش آگئی ۔شاید اس لئے کہ جن صاحب نے یہ حدیث بنائی وہ دونوں کی منزلت قائم رکھنا چاہتے تھے ۔اس حدیث نامحمود کے ایک راوی قزعہ بن سوید ہیں ان کی نسبت علامہ ذہبی کہتے ہیں ۔

"امام بخاری کہتے ہیں کہ قزعہ بن سوید قوی نہیں ہے امام احمد کہتے ہیں کہ اس حدیثیں مضطرب ہوتی ہیں اور ابو حاتم کہتے ہیں کہ وہ اس کی حدیثوں سے استدلال نہیں کرسکتے ۔امام نسائی نے کہا ہے کہ وہ ضعیف ہے ۔ ابن عدی نے بھی یہی کہا ہے ۔ اس نے یہ غلط حدیث ابن ابی ملکیہ سے مرفوعا ابن عباس سے بیان کی ہے (میزان الاعتدال جلد دوم صفحہ ۳۴۷) ۔یہی حدیث ایک اور طریقہ سے بیان ہوئی ہے جس کے ایک راوی عمار بن ہارون ہیں ان کے بارے میں علامہ ذہبی فرماتے ہیں "موسی نے کہا کہ

۴۴

(عمار)ابن ہارون کی حدیث کو لوگوں نے چھوڑدیا ہے اور ابن عدی نے کہا ہے عام (بازاری) آدمی ہے جو بیان کرتا ہے غلط ہوتا ہے اور یہ حدیثوں کی چوری کیا کرتا تھا "(میزان الاعتدال جلد ۷ صفحہ ۳۲۰)-

سو ملاحظہ کیاآپ نے کیسے چورلوگوں کی یہ روایات ہیں ۔المختصر لاتعداد ایسی حدیثیں وضع کی گئیں کہ کمالات اہل بیت علیھم السلام پر قبضہ ہو جائے مگر اللہ خیر الماکرین ہے لہذا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ الگ نظر آجاتا ہے ۔مشہور سنی امام ابو فرج ابن الجوزی نے اپنی کتاب "الموضوعات" میں ان احادیث کے بارے میں اس رائے کا اظہار کیا ہے ۔

"میں نے کثیر تعداد میں احادیث ترک کردی ہیں جو حضرت ابو بکر کی شان میں بیان کی جاتی ہیں کچھ تو ان میں ایسی ہیں جو ظاہری معنی تو رکھتی ہیں لیکن ان کی صحت ثابت نہیں لیکن بہت سی تو ایسی ہیں جو بالکل بے معنی و لغو اور بے ہودہ ہیں ۔ میں لوگوں کو کہتے ہوئے سنتا ہوں کہ" حضور نے فرمایا کوئی شی خدا نے میرے سینہ میں نہیں ڈالی لیکن یہ کہ پھر میں نے اس کو سینہ ابو بکر میں ڈالدیا اور جب مجھے جنت کا شوق ہوتا ہے تو ابو بکر کی سفید داڑھی کو چومتا لیتا ہوں اور یہ کہ میں اور ابو بکر دوگھوڑوں کی طرح دوڑ رہے تھے میں ان سے آگے بڑھ گیا تو ان کو میری اتباع کرنی پڑی اور اگر وہ آگے بڑھ جاتے تو میں ان کی پیروی کرتا ۔ یہ تمام حدیثیں جھوٹی ہیں اور قطعا موضوعہ(جعلی) ہیں اور ایسی احادیث کے جاری کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ۔"

۴۵

ملا علی قاری نے اپنے رسالہ موضوعات کبیر میں ابن قسیم سے نقلا لکھا ہے کہ

"جہلا ئے اہل سنۃ نے جو احادیث فضائل ابو بکر میں وضع کی ہیں۔ ان سے چند یہ ہیں ۔

۱:-"خدا وند تعالی روز قیامت اور لوگوں کے لئے عام طور سے اور ابو بکر کے لئے خاص طور سے تجلی کرے گا "۔

۲:-"کوئی علم کی شے خداوند تعالی نے میرے سینہ میں نہیں ڈالی لیکن یہ کہ میں نے پھر اس کو سینہ ابو بکر میں ڈالدیا ۔"

۳:- یا "جب حضور کو جنّت کا شوق ہوتا تھا حضرت ابو بکر کی سفید داڑھی چومتے تھے ۔"

۴:- "میں اور ابو بکر دوگھوڑوں کی طرح دوڑ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔"

۵:- یا "جب خدا نے ارواح میں انتخاب کیا ۔۔۔۔"

۶:- اسی طرح عمر کا یہ قول کہ" جب رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر آپس میں باتیں کرتے تھے تو میں زنگی کی طرح مبہوت بیٹھا رہتا تھا "۔

۷:- "اگر میں عمر کے فضائل عمر نوح تک بیان کروں تو ختم نہ کرسکوں گا ۔"

۸:-اسی طرح "عمر تو ایک نیکی ہے ابوبکر کی نیکیوں میں سے "۔

۹:- یا پھر یہ کہ " ابو بکر تم سے کثرت صوم وصلواۃ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس چیز کی وجہ سے تم پر سبقت لے گیا جو اس کے سینہ میں ہے " یہ سب جھوٹی ہیں " ۔

اگر ہم مصنوعی احادیث جمع کرنے لگ جائیں تو اس کے لئے ایک دفتر درکار ہوگا ۔چند نمونے پیش خدمت کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جو اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے کافی ہیں کہ حکام وقت کو خوش کرنے اور ان کے احکام استحکام حکومت کے لئے استحقاق خلافت ثابت کرنے کی خاطر لوگوں نے بے حساب احادیث وضع کیں اور اس کارکردگی کے لئے کو انعامات وصلے فراخدلی

۴۶

سے دیئے گئے اور ہر طرح سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔اب جب خود علماء اہل سنت ہی ان احادیث کو موضوع اور کذب قرار دیتے ہیں تو پھر ہم مزید نکتہ چینی کس لئے کریں ۔

احادیث کو وضع کرنے کے لئے اور ان پر سچائی کا ملمع چڑھانے کے لئے اصول موضوعہ وعلوم متعارفہ قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی لہذا ایک جامع وحادی فارمولا اختیار کیاگيا اور اپنی عادت وضرورت کے مطابق حسب رواج دوستور وہ بھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے سر منڈھا گیا وہ آئندہ مقدمہ میں ملاحظہ فرمائیں ۔

۴۷

حدیث نجوم

مقدمہ چہارم:-

حدیث مشہور ہے کہ ۔"اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم اصحابی لکم رحمۃ" یعنی میرے اصحاب مثل ستاروں کے ہیں ۔ان میں سے جس کسی کی پیروی کروگے ۔ہدایت پاؤ گے میرے اصحاب کا اختلاف تمھارے لئے رحمت ہے ۔"

اس حدیث کو وضع کرکے دوکام نکالنے کی کوشش کی گئی ۔ ایک تو یہ کہ دیگر بناوٹی حدیثوں کے لئے ایک خود ساختہ کلیّہ بن گیا ۔

دوسرے یہ کہ حدیث ثقلین ،حدیث مدینۃ العلم اور دیگر احادیث جو حضرات اہل بیت علیھم السلام اور شیعیان آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمودات ہیں ان کے مدّ مقابل ایک ایسی وضعی حدیث

۴۸

بن گئی جو ہر وقت کام آسکتی ہے لیکن حق کی شان یہ ہے کہ کوئلوں میں ہیرا بن کرچمکتا ہے چنانچہ اس خود ساختہ حدیث کو خود جماعت اہل حکومت کے علماء محدثین نے موضوع قرار دیا ہے ۔اس کی جرح وقدح کی ہے ۔ اور مضبوط دلائل سے اس کو مردود اور وضعی ثابت کیا ہے ۔

امام اہلسنت ابن تیمیہ نے اس حدیث کے متعلق اپنی رائے اس طرح لکھی ہے ۔

"پس آنحضرت صلعم کا قول کہ میرے اصحاب مثل ستاروں کے ہیں جس کی پیروی کروگے ہدایت پاؤگے ۔ یہ حدیث ضعیف ہے جس کو ائمہ حدیث نے ضعیف ثابت کیا ہے ۔ چنانچہ البزار کہتے ہیں کہ یہ حدیث جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صحیح ثابت نہیں ہے ۔ اور وہ احادیث کی کتب معتبرہ میں نہیں پائی جاتی ۔(منہاج السنۃ)۔

اس حدیث کے جعلی ہونے کے بارے میں میں اگر ہم علمائے اہل سنت کی آراء کو نقل کریں تو اس کے لئے ایک جداگانہ کتاب کی ضرورت ہے ۔لیکن چونکہ یہ حدیث سرمایہ وآثاثہ مذہب سنیہ ہے اس لئے اس بارے میں مرفوع القلمی بھی بلا جواز اختصار ہوگا ۔لہذا ہو درمیانی راہ نکالتے ہوئے ان علماء اور کتابوں کے نام نقل کردیتے ہیں جو ہمارے شواہد ہیں ۔

۱:- اما م حنبل الشیبانی :-

کتاب" التقریر و البتحیر" مؤلفہ ابن امیرالحجاج الحلبی ۔ "صبح صادق " تصنیف ملا نظام الدین سہالوی ۔"فواتح الرحموت " شرح مسلم الثبوت تصنیف مولوی عبدالعلی بحر العلوم۔

۲:- ابو ابراہیم اسماعیل بن یحیی المزنی:-

کتاب"جامع بیان العلم "

۴۹

تصنیف ابی یوسف بن عبداللہ المزنی

۳:- ابو بکر احمد بن عمر بن عبد الخالق بزار:-

کتاب " جامع بیان العلم"تصنیف ابی یوسف ۔رسالہ "ابطال رائے وقیاس "تصنیف ابن حزم ۔"منہاج السنۃ " ابن تیمیہ ۔"تفسیر بحر محیط" ابی جہاں۔"اعلام الموقعین" ۔"ابن القیم تخریج" احادیث منہاج ابو الفضل عراقی ۔شرح ملا علی قاری بر شفائی قاضی عیاض ۔وغیرہ۔

۴:- ابو احمد عبداللہ بن محمد الجرجانی المعروف ابن عدی:-

کتاب" الکامل و ذکر حدیث نجوم" وترجمہ جعفر بن عبد الواحد" ۔"ترجمہ حمزہ ابی حمزہ" ۔

۵:- ابو الحسن علی بن عمر دارقطنی:-

کتاب " غرائب مالک اثیر " "لسان المیزان" ابن حجر عسقلانی و"تخریج احادیث "کشاف ابن حجر عسقلانی

۶:- ابو محمد علی بن محمد بن احمد بن حزم :-

رسالہ" ابطال رائے وقیاس "۔"تفسیر بحر محیط ذکر حدیث نجوم" تصنیف میاں غرناطی۔ تفسیر النہر الماء ابو حبان ۔تفسیر دار اللقیط ذکر حدیث النجوم"تصنیف تا ج الدین ابو محمد احمد بن عبدالقادر بن احمد مکتوم ۔"تخریج احادیث منہاج "زین الدین عراقی ۔کتاب"تلخیص الغبیر ابن حجر عسقلانی "۔مرقاۃ " از ملا علی قاری ۔نسیم الریاض علامہ خفا جی وغیرہ ۔

۷:- ابو بکر احمد بن الحسین بن علی البیہقی :-

کتاب" الدخل ،"تخریج احادیث منہاج بیضاوی "تصنیف زین الدین عراقی ۔

۸:- ابو عمر یوسف بن عبد اللہ المعروف ابن عبد البر:-

کتاب "جامع بیان العلم"

۹:- ابو القاسم علی بن الحسن ہبۃ اللہ المعروف ابن عساکر:-

فیض القدیر منادی۔

۱۰:- عمر بن الحسن بن علی الکلبی المعروف ابن دحیہ :-

تعلیق تخریج احادیث منہاج بیضاوی " تصنیف زین الدین عراقی۔

۵۰

۱۱:- احمد بن الحلیم ابن تیمیہ :-

منہاج السنۃ ۔

۱۲:- ابو جہان محمد بن یوسف اند لسی :-

تفسیر بحر محیط ، تفسیر النہر الما من البہر۔

۱۳:- تاج الدین ابو محمد احمد بن عبد القادر بن احمد بن مکتوم :-

۱۴:- محمد بن ابو بکر بن قیم الجوزیہ :-

کتاب اعلام الموقعین در مقام روبرو مقلدین

۱۵:- زین الدین عبدالرحیم بن الحسین العراقی :-

کتاب "تخریج احادیث منہاج بیضاوی ۔تعلیق کتاب التخریج احادیث المنہاج ۔

۱۶:- احمد بن علی بن حجر عسقلانی:

کتاب تلخیص الکبیر فی تخریج الرافعی الکبیر" ،کتاب تخریج احادیث مختصر ابن الحاجب ۔لسان المیزان در ترجمہ جمیل بن یزید۔

۱۷:- کمال الدین محمد بن عبد الواحد ابن ہمام :-

کتاب التقریر والتجیر درمبحث اجماع ۔

۱۸:- محمد بن محمد الحلبی المعروف ابن امیر الحاج :-

کتاب التقریر والتجیر در مبحث اجماع۔

۱۹:- احمد بن ابراہیم الحلبی :-

شرح شفاء۔

۲۰:- شمس الدین محمد بن عبد الرحمان البخاوی :-

مقاصد حسنہ۔

۲۱:- کمال الدین محمد بن ابو بکر بن علی بن مسعود بن رضوان المعروف ابن ابی شریف :-

فیض القدیر منادی۔

۲۲:- جلا الدین عبد الرحمان بن ابی بکر السیوطی:-

کتاب اتمام الدرایہ

القراء النعایہ ۔جامع ضغیر۔جمع الجوامع ۔

۵۱

۲۳:- ملا علی متقی :-

کنز العمال ، منتخب کنزل العمال ، مرقاۃ شرح مشکواۃ ، شرح شفاء۔

۲۴:- عبد الرؤف بن تاج العارفین المنادی :-

فیض القدیر۔شرح جامع صغیر۔

۲۵:- شہاب الدین احمد بن محمد بن عمر الحنفاجی:-

نسیم الریاض ۔شرح شفائی قاضی عیاض

۲۶:- علامہ محمد معین بن محمد امین :-

دراسات اللبیب ۔

۲۷:- قاضی محب اللہ بہاری :-

مسلم الثبوت۔

۲۸:- ملا نظام الدین سہالوی:-

صبح صادق شرح منار ۔

۲۹:- عبد العلی :-

فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت ،درمبحث اجماع شیخین ۔

۳۰:-قاضی محمد ابن علی بن الشوکانی :-

ارشاد الغمول الی تحقیق الحق من علم الاصول القول المفید فی اولۃہ الاجتہاد والتقلید ۔

۳۱:- عبد الرحمان بن علی بن محمد البکری المعروف ابن الجوزی :-

کتاب العلل المتناہیۃ ۔

۳۲:- ولی اللہ ابن حبیب اللہ :-

شرح مسلم الثبوت ۔

۳۳:- مولوی نواب صدیق حسن خاں :-

حصول المامول من علم الاصول ۔

اگر چہ ان حوالجات کے بعد مزید کسی تفصیل کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی تاہم مزید تشفی کے لئے چند عبارات نقل کرتے ہیں ۔چنا نچہ علامہ نظام الدین سہالوی حدیث نجوم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "ابن حزم اپنے رسالۃ الکبری میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث

۵۲

جھوٹی ،بناوٹی اور باطل ہے ۔اوراحمد بن حنبل اور بزار نے بھی یہی کہا ہے" (صبح صادق شرح منار)

علامہ ابن جوزی نے اپنی کتاب العلل المتناہیۃ میں لکھا ہے کہ "نعیم بن حماد کہتا ہے کہ بیان کیا اس سے عبد الرحیم بن زید نے اپنے باپ سے اور اس کے باپ نے سعید بن مسیب سے اور اس نے عمر بن الخطاب سے کہ فرمایا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہ میں درگاہ رب العزت میں اختلاف کی نسبت سوال کیا ،جو میرے بعد میرے اصحاب میں ہوگا پس خداوند تعالی نے وحی بھیجی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے اصحاب میرے نزدیک آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں ۔کوئی چکمدار ہے کوئی کم ،پس جس شخص نے تیرے اصحاب کے اختلاف میں سے کوئی بھی امر پکڑ لیا وہ ہدایت پر ہے ۔مؤلف کہتا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔نعیم مجروح ہے ۔اور یحیی بن معین نے کہا ہے کہ عبدالرحیم کذاب یعنی جھوٹا ہے :۔

امام ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث نجوم پر اچھی تنقید کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ باطل جھوٹی اور بناوٹی حدیث ہے ۔

"حدیثاصحابی کالنجوم فبایهم اقتدیتم اهتدیتم "کو دار قطنی نے مؤلف میں روایت سلام بن سلیم عن الحرث بن عضین عن الاعمش عن ابی سفیان عن جابر سے بیان کیا ہے یہ حدیث مرفوع ہے اور سلام ضعیف ہے اس حدیث کو دارقطنی نے غرائب مالک میں بھی جمیل بن یزید عن جعفر بن محمد عن ابیہ عن جابر کے طریق سے بیان کیا ہے ۔

دارقطنی نے کہا ہے کہ یہ حدیث مالک سے ثابت نہیں ہے ۔مالک کے

۵۳

علاوہ سب رواوی مجہول ہیں اور اس حدیث کو عبد بن حمید نے اور دار قطنی نے فضائل میں حدیث حمزہ الجزری عن نافع عن ابن عمر سے بیان کیا ہے اور حمزہ حدیثیں وضع کیاکرتا تھا اس حدیث کو قضا عی نے مسند الشہاب میں حدیث ابو ہرہ سے روایت کیا ہے اور اس میں جعفر بن عبدالواحد ہاشمی ہے اور علماء حدیث نے اس کی تکذیب کی ہے ۔ اور ابن ظاہر نے اس حدیث کو بطریق بشر بن حسین عن زبیر بن عدی عن انس بیان کیا ہے ۔اور بشر بھی جھوٹ اور وضع حدیث کے ساتھ متہم ہے ۔اور بیہقی نے مدخل میں اس حدیث کو روایت جو ئیبر عن الضحاک عن ابن عباس سے بیان کیا ہے اور جوئیبر متروک ہے ۔جوئیبر کی روایت بطریق دیگر عن جواب بن عبیداللہ ہے وہ مرفوع ہے اور حدیث مرسل ہے ۔ بیہقی کہتا ہے کہ اس کا متن تو مشہور ہے مگر اس کی تمام اسانید ضعیف ہیں اور بیہقی نے مدخل میں حضرت عمر سے ہی اس حدیث کو ان الفاظ سے بیان کیا ہے ۔"سالت ربی فیھا الخ"اس کے اسناد میں عبدالرحیم بن زید العمی ہےاور وہ متروک ہے "۔

(تخریج احادیث کشاف)

علامہ ابن حجر عسقلانی نے اس موضوع حدیث کے ہر ایک طریقہ اور سند پر گفتگو کرکے اس کو باطل او رجھوٹا ثابت کیا ہے ۔مگر راویوں کی جرح وقدح میں اختصار نویسی سے کام لیا ہے ۔ تاہم دیگر علمائے نے اس حدیث کے ہر راوی پر جرح کرکے اس کو جھوٹا ثابت کیا ہے مزید تشفی کے لئے علامہ ذہبی کی کتاب "میزان الاعتدال " ملاحظہ فرمائیں۔

۵۴

پس اس حدیث کی حقیقت معلوم ہوگئی کہ اس کا ہر راوی مجروح و مقدوح ہے کوئی قابل اعتبار نہیں ،سب ضعیف ہیں ۔ یہی وجہ ہے خود علمائے اہل سنت کی بھاری اکثریت نے اسے با طل ثابت کیا ہے لہذا بدیہی امر ہے یہ حدیث ثقلین وحدیث سفینہ وغیرہ کے مد مقابل گھڑی گئی ہے اور اس بات کا اعتراف بھی خود علمائے اہل سنّت نے بزبان خود کیا ہے ۔

مشہور سنّی عالم محمد معین حدیث نجوم اور ایسی ہی دوسری احادیث کو حدیث ثقلین وغیرہ کے مقابلہ میں بایں الفاظ رد کرتے ہیں "اگر تو کہے کہ یہ حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ میرے بعد اصحاب مثل ستاروں کے ہیں ان میں سے جن کی پیروی کروگے ہدیت پاجاؤگے ۔نیز یہ کہ میر ے بعد ابو بکر وعمر کی پیروی کرو ۔اور یہ کہ تمھیں چاہیئے میری اور میرے خلفاء راشد بن کی سنت کی پیروی کرو۔(وغیرہ) اور بس ان احادیث سے ثابت ہوا کہ اہل بیت کے علاوہ دوسروں کی پیروی بھی جا ‏ئز ہے تو ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ حدیثیں گھڑی ہوئی ہیں کیونکہ لفظ "اہتدیتم"سے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ بزرگوار کبھی خطاء نہیں کرسکتے جو کہ واقعۃ غلط ہے "۔(دراسات اللبیب)

پس ملا معین کی اس وضاحت کے بعد مزیدکسی بحث کی گنجائش نہیں رہ جاتی تا ہم اس حدیث پر عقلی بحث بھی کرتے ہیں تاکہ نقل کی تائید عقل سے بھی ہوجائے اس حدیث کا تجزیہ کرنے پر دوکلیے بر آمد ہوتے ہیں ۔اول یہ کہ صحابہ کا آپس کا اختلاف

۵۵

امت کے لئے رحمت اور دوم یہ کہ کسی ایک بھی صحابی کی پیروی ہدایت کے لئے کافی ہے ۔اس ضمن کی پہلی عقلی دلیل یہ ہے جو اس کو باطل ٹھہراتی ہے کہ تضاد وتفریق علامت حق ہرگز نہیں ہوسکتی ہے ۔ حق ہمیشہ ایک ہی ہوگا ۔اختلاف اتحاد کو شکستہ کرتا ہے ۔قرآن میں جگہ جگہ تفریق کی مذمت پائی جاتی ہے ۔کسی حالت میں اختلاف رحمت ثابت نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ زحمت بنا رہا ۔پس ایسا گمراہ کن نظریہ تابع وحی نہیں ہوسکتا ہے ۔اور نہ ہی یہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے کہ خلاف قرآن ہے ۔دوسری دلیل یہ ہے کہ پیروی کے قابل صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جو کبھی غلط حکم نہ دے خود محفوظ عن الخطا ہو۔عالم قرآن ہو ۔عامل شرع رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہو۔ جبکہ صحابہ کا معصوم ہونا کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا اور ان کے اختلافات سے کتابیں بھر پور ہیں ۔پس عقلی لحاظ سے بھی حدیث نجوم قابل رد وترک ہے ۔

الغرض یہ حدیث اور ایسی ہی کئی احادیث واہی ولغو وفضول وضع کی گئیں اور جتنا بھی ان احادیث کی گہرائیوں میں جایا جائے عقائد متزلزل ہونے لگتے ہیں اور دشمنان اسلام کے اعتراضات سامنے آجاتے ہیں ۔ان واضعین احادیث کے مقصد محض دو ہی تھے ایک یہ کہ اہل بیت اور شیعیان اہل بیت (ع) کے مقابلہ میں حکام اور ان کے حواریوں کے فضائل وضع کئے جائیں تاکہ وہ اہل منصب قرار پاسکیں دوسرے یہ کہ حضرت علی (ع) اور ان کے دوستوں کی شان میں تنقیص ہوجائے تاکہ ان کے جائز حقوق لوگوں کے سامنے نہ آسکیں اوران پر پردے پڑجائیں ۔جیسا کہ جعفراسکافی نے لکھا ہے کہ

۵۶

"بتحقیق معاویہ نے ایک جماعت صحابہ میں سے اور ایک جماعت تابعین میں سے اس غرض کے لئے قائم کررکھتی تھی کہ وہ حضرت علی (ع) کے متعلق قبیح روایات واحادیث وضع کریں اور وہ روایات ایسی ہوں کہ جن سے حضرت علی (ع) پر طعن وار د ہوسکے اور ان سے لوگ بے زاری کرنے لگیں اور ان لوگوں کے واسطے اس خدمت حدیث سازی کے عوض میں وظیفے مقرر کردیئے تھے پس ان لوگوں نے ایسی احادیث وروایات ایجاد کیں جن سے معاویہ بہت خوش ہوا کہ اس کی طبیعت کے موافق ہوئیں ۔اس جماعت حدیث ساز میں صحابہ میں سے حضرت ابوہرہ ، عمر وبن العاص ،مغیرہ بن شعبہ تھے اور تابعین میں عروۃ بن الزبیر تھا۔ زہری نے عروہ سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ کہا عروہ نے مجھ سے ۔ حضرت عائشہ نے کہا کہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس بیٹھی تھی کہ اتنے میں عباس وعلی (ع) آئے ۔جناب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا اے عائشہ یہ دونوں (علی وعباس) (معاذاللہ حاکم بد ہن) مرتد ہوکر مریں گے "

(شرح نہج البلاغہ ج ۴ ص ۳۵۸ علامہ ابن ابی الحدید معتزلی)

دیکھا آپ نے حکومت کے کارخانہ حدیث سازی نے کیسی کیسی مصنوعات پیش کی ہیں ۔ایسے میں حضرات اہل بیت (ع) اور ان کے رفقاء کے فضائل کا اخفاء اور ان کی کسر شان میں روایات کا اجراء حکومت کی پشت پناہی میں ہوتا رہا ۔ آج بھی کتب میں ایسی روایات کا طومار ملتا ہے جو اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ مسلمانوں نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جھوٹ منسوب کرنے میں کوئی دقیقہ فروشت نہ کیا جبکہ آنحضرت اس فتنہ وضع احادیث سے امت کو اپنی حیات

۵۷

طیبہ ہی میں آگاہ فرما چکے تھے ۔جناب رسالت پناہ نے فرمایا ۔

"اے لوگو! خدا سے ڈرو جیسا کہ کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرتے دم تک مسلمان رہو ۔اور جان لو کہ خدا وند تعالی ہر شے پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔خبرداررہو! فورا میرے بعد ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جو میرے اوپر جھوٹ بولیں گے اور میری نسبت جھوٹی حدیثیں لوگوں میں بیان کریں گے ۔اور وہ قبول کرلی جائیں گی ۔میں پناہ مانگتا ہوں خدا کی طرف ۔اس بات سے کہ میں خدا کی طرف سے حق کے علاوہ کچھ اور کہوں یا تم کو ایسی بات کا حکم دوں جس کا خدا نے حکم نہیں دیا یا خدا کے علاوہ اور کی طرف تم کا بلاؤں ،عنقریب یہ ظالم لوگ معلوم کرلیں گے کہ ان کا حشر کیا ہوتا ہے ۔پس عبادہ بن صامت کھڑے ہوئے اور پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ایسا کب واقع ہوگا تاکہ ہم ان لوگوں کو پہچان لیں اور ان سے پر ہیز کریں ۔آپ نے فرمایا کہ یہ جماعت اپنے ظاہری (اقرار وقبول) اسلام لانے کے دن ہی سے اپنی تیاری میں مشغول ہے لیکن خفیہ اور تم پر وہ فورا ہی ظاہر ہوجائیں گے جب میری سانس یہاں تک پہنچے گی آنحضرت نے اپنے حلقوم مبارک کی طرف اشارہ فرمایا ۔عبادہ بن صامت نے کہا کہ جب ایسا ہو تو ہم کیا کریں اورکس طرف پناہ ڈھونڈ یں حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ میری عترت میں سے سابقین (یعنی علی علیہ السلام ) کی طرف اور ان کی اطاعت کرو اوران کے قول کو تسلیم کرو۔ وہ میری نبوت کے آخذ ین ہیں وہ تم کو بدی سے بچائیں گے خیر ونیکی کی طرف لے جائیں گے وہ اہل حق ہیں ۔معاون صدق ہیں وہ تم میں کتاب وسنت کو زندہ رکھیں گے ۔الحاد وبدعت سے محفوظ کریں گے ۔اہل باطل کا قلع قمع کریں گے اور جاہلوں کی طرف رخ نہ کرینگے "

۵۸

(توضیح الدلائل علی ترجیح الفضائل علامہ سید شہاب الدین )

ہادی عالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی ابھی حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت میں چند گھڑیاں باقی تھیں جو واقعہ قرطاس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بہتان ہذیان عائد کردیا گیا ۔

علی ہذا القیاس حدیث نجوم کہتی ہے کہ ہر صحابی ہدایت کا سرچشمہ ہے لیکن صحیحین میں جب ہم کتاب الفتن وکتاب الخواص میں مندرجہ احادیث پر نظر دو ڑاتے ہیں تو معاملہ اس کے برعکس ملتا ہے ان کثیر تعداد منقولہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے فورا بعد فتنے سراٹھائیں گے ۔جن میں صحابہ کی بڑی جماعت راہ ضلالت اختیار کرے گی یہاں تک کہ قیامت کے دن حوض کوثر پر آنحضرت موجود ہوں گے ۔صحابہ کو حوض کے پاس سے اونٹوں کی طرح ہنکا کر لے جایا جائےگا ۔حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرمائیں گے کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں حکم ہوگا کہ آپ کو معلوم نہیں ؟ کہ آپ کے بعد انھوں نے کیا کیا گل کھلائے ہیں اس پر سرور دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرمائیں گے کہ دفع دور کرو ان کو میرے پاس سے ۔ اگر ہر صحابی عادل اور ہادی ہے تو پھر حوض کوثر سے ذلت کے ساتھ ہنکایا جانا کیا معنی رکھتا ہے ۔اختصار ملحوظ ہے ورنہ ان روایات کو نقل کردیا جاتا تا ہم قارئین صحیح بخاری ،صحیح مسلم وغیرہ میں کتاب الفتن اور کتاب الحوض مطالعہ کرکے اس حقیقت سے آشکا ر ہوسکتے ہیں ۔

پس حدیث نجوم نہ ہی عقلا قابل قبول ہے اور نہ ہی نقلا صحیح ثابت ہوتی ہے یہ حدیث معارض قرآن بھی ہے اور اورخلاف سنت بھی اسی لئے علماءنے بڑی شد و مد سے اس کی تردید کی ہے ۔

۵۹

صحابی کی تعریف اور صحابہ میں باہمی فرق

عبوری معروضات کے بعد ہم نفس مضمون کی طرف لوٹتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ ایمان والوں کے لئے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت ایسی بیش بہا نعمت ہے جسکی قدر وقیمت کا اندازہ لگانا ہم خاطی انسانوں کی استطاعت سے باہر ہے لیکن ایسے صحبت یافتہ لوگوں کی بد قسمتی پر تمام کائنات اظہار تعجب وافسوس کرنے پر مجبور ہے کہ صحبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شرف مقدر بننے کی بجائے بد نصیبی کا بخت ثابت ہوا۔وہ افراد جو نبی رحمتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صحبت پانے کے باوجود دولت ایمان سے محروم رہے یقینا یہ اعزاز ونعمت ان بد قسمتوں کے لئے بے کار وغیر مفید رہا ۔چنانچہ تاریخ میں ایسی مثالوں کی کمی نہیں ہے کہ اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صحبت سے سرفراز ہونے کی بجائے وہ لوگ اسلام سے مرتد ہوکر سرنگوں وپست قرار پاگئے ۔ان ہی صحابیوں میں سے بعض کو جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دھتکار دیا۔ خطرناک ومجرمانہ ذہنیت کے افراد کو قتل کروادیا اور کئی ایسے ہوئے جو نشانہ بد عا ئے رحمت للعالمین قرارپائے ۔بعض حلقہ بگوش غداری میں اس قدر آگے نکل گئے کہ انھوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور پیغام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف علا نیہ محاذ آرائی کرنے سے بھی دریغ نہ کیا ۔ ایسے لوگوں کی تعداد بھی نمایاں ہے جنھوں نے ارتداد کو خفیہ رکھا اور صحبت میں رہتے ہوئے منافق رہے ۔چنانچہ یہ جماعت اسلام کے لئے بہت ہی خطرناک ثابت ہوئی ۔علماء نے اس جماعت منافقین کو تین گروہوں

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180