چار یار

چار  یار0%

چار  یار مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں
صفحے: 180

چار  یار

مؤلف: عبد الکریم مشتاق
زمرہ جات:

صفحے: 180
مشاہدے: 43526
ڈاؤنلوڈ: 2574

تبصرے:

چار یار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43526 / ڈاؤنلوڈ: 2574
سائز سائز سائز
چار  یار

چار یار

مؤلف:
اردو

دیکھیں گے تو کیا ایسی احادیث پر اعتبار کریں گے ؟۔

اب اگر حضرت علی علیہ السلام کے حق میں انکی روز خندق کی ایک ضربت کو ثقلین کی عبادت سے افضل قرار دیا گیا تویہ عین امر واقعہ ہے کہ اس ضرب سے اسلام بچ گیا ۔اگر اسلام ہی نہ ہوتا تو عبادت کون کرتا اسی طرح اگر علی علیہ السلام باب مدینۃ العلم ہوئے تو آپ نے ہمیشہ "سلونی "(پوچھ لوجوپوکچھ بھی پوچھنا چاہو۔) کہا ہر مسئلہ حل فرمایا ۔لیکن یار لوگوں نے شہر کی دیواریں اور چھت تک بنا لیں مگر لوگوں نے دیکھ لیا کہ دیوار نے شگافتہ انداز میں اقرار کر لیا کہ اگر علی علیہ السلام نہ ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا ۔ اس سے بڑا کوئی قاضی نہیں ہے ۔

الغرض جو احادیث آج کل فضیلت میں حضرات ثلاثہ کی پیش کی جاتی ہیں اگر وہ فی الحقیقت ارشادات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے ۔تو پھر سقیفہ بنی ساعدہ میں ان فضائل کا اظہار کیوں نہ کیا گیا ۔صرف رفاقت غار اور امامت نماز پر اکتفا ہوا ۔اسی طرح نامزدگی عمر اور انتخاب شوری کے اوقات پر بھی ایسے فضائل پر سے پردہ نہ اٹھا یا گیا جب کہ حضرت علی علیہ السلام نے ہر موقع احتجاج پر احادیث پیغمبر سے استدلال فرمایا ۔بہر حال چند نمونے ملاحظہ کریں اور لطف اٹھائیں ۔

جھوٹ نمبر۱:-

"خلفاء اربعہ (حضرات ابو بکر ،عمر، عثمان ،علی ) اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم حضرت آدمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلقت سے پہلے نوری حالت میں موجود تھے اور ان میں سے ہر ایک خاص صفت کے ساتھ موصوف تھا ۔اور ان کو برا کہنے سے

۴۱

بچا جائے ۔محمد بن ادریس الشافعی اپنی سند سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ میں (رسول خدا) ابو بکر، عمر ،عثمان اور علی ا للہ کے عرش کی داہنی طرف نور کی شکل میں حضرت آدم کی پیدائش سے ایک ہزار سال قبل سے تھے ۔جب حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے ایک ہزار سال قبل سے تھے ۔جب آدم علیہ السلام پیدا ہوئے تو ہمیں ان کی صلب میں رکھدیا گیا اور ہم اسی طرح اصلاب طاہرہ میں منتقل ہوتے رہے ۔یہاں تک کہ اللہ نے مجھے صلب عبداللہ میں ،ابو بکر کو صلب ابی قحافہ میں ،عمر کو صلب خطاب میں عثمان کو صلب عفان میں اور علی کو صلب ابو طالب میں منتقل فرمادیا پھر ان کو میر ا صحابی مقرر کیا ،ابو بکر کو صدیق ،عمر کو فاروق ،عثمان کو ذوالنورین اور علی کو وصی قرار دیا ۔

پس جس نے میرے اصحاب کو شب وشتم کیا اس نے مجھے گالی دی جس نے مجھے گالی دی اس نے خدا کو برا کہا اور جس نے خدا کو بر ا کہا اس کو خداوند نار جہنم میں منہ کے بل ڈالے گا ۔

(ریاض النضرہ اما محب الدین طبری جزء نمبر ۱ باب نمبر ۴ ص ۳۰)

اس نام نہاد حدیث کے حرف حرف پر مصنوعیت کی مہر لگی ہوئی ہے ۔صاف ظاہر ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے حق میں جو حدیث نور مشہور ہے اس کا جواب تراشا گیا ہے حضرت علی علیہ السلام کے لئے حدیث نو ر اس لئے قابل قبول ہے کہ آپ کو مخالفین بھی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی غیر خداکو سجدہ نہ کیا ۔مگر دیگر بزرگوں کے ا جام پر یہ خلعت فٹ نہیں ہوتا اس لئے کہ

ا:-عرش الہی کے سامنے ہزاروں برس طاہر ومطہر رہنے سے اتنی بھی صلاحیت پیدا نہ ہوسکی کہ دنیا میں آکر اصنام

۴۲

پرستی سے محفوظ رہتے ۔بس یہ ساری عبادت وطہارت اس چالیس سالہ بت پرستی سے بے فائدہ ٹھہرتی ہے ۔

ب:-حضرت آدم سے ایک ہزار سال پہلے پیدا ہونے سے تمام انبیا ء پر امتیاز وفوقیت وفضیلت لازم آتی ہے ۔ کوئی امت محمد یہ میں ایسا نہ ہوگا جو اس امر کا قائل ہو کہ اصحاب ثلاثہ انبیاء سے افضل تھے ۔ نہ ہی ان کے سوانح حیات اس بات کی شہادت فراہم کرتے ہیں۔

ج:- اصحاب ثلاثہ کے والد وآباؤ اجداد متفقہ طور پر کافر تھے پھر اصلاب طاہرہ کے کیا معنی ہوئے ؟اور ارحام کے تو کیا کہنے ہیں ۔چپ بھلی ہے ۔

د:- یہ حدیث صحاح ستہ میں نہیں ہے ۔

ر:- علمائے اہل سنۃ و الجماعۃ کی بڑی جماعت نے اس حدیث کو جھوٹی و موضوع قراردیا ہے ۔

مولوی سیف اللہ یانی پتی "سیف مسلول "میں اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "ایں حدیث ہرچند ضیعف است" حافظ ابو نعیم تاج المحدثین نے" امالی" میں تسلیم کیا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے ۔ علامہ ذہبی نے "میزان الاعتدال "میں اعتراف کیا ہے کہ یہ جھوٹ ہے ۔ حافظ علامہ جلا ل الدین سیوطی نے بھی اس قسم کی احادیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے ۔ چنانچہ سیوطی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کا راوی المنجی میرے نزدیک ایک آفت ہے ۔بلا ہے ۔ جھوٹ بولتا ہے ۔

جھوٹ نمبر ۲:-

حضرت علی علیہ السلام کی شان میں حدیث منزلت مشہور

۴۳

ومعروف ہے یہ حدیث کئی موقعوں پر دہرائی گئی ہے ۔ اس کے مقابلے میں ایک جھوٹی حدیث بنائی گئی ۔

"جناب ابن عباس سے مرفوعا مروی ہے کہ اگر میں کسی کو دوست بناتا تو ابو بکر کو بناتا مگر مجھے تو خدا نے دوست بنا لیا ہے ۔

ابو بکر وعمر مجھ سے وہی منزلت رکھتے ہیں جو ہارون کو حضرت موسی کے ساتھ تھی ۔

اولا تو اس حدیث کا بے جوڑ پن ملاحظہ ہو ذکر تو خلت ودوستی کا تھا ۔حضرت موسی کی اور حضرت ہارون کی منزلت کا تذکرہ کیوں؟ پھر دو ہارون کیسے ؟ ایک موسی علیہ السلام کے لئے تو صرف ایک ہی ہارون تھے ۔ یہاں دو کی کیا ضرورت پیش آگئی ۔شاید اس لئے کہ جن صاحب نے یہ حدیث بنائی وہ دونوں کی منزلت قائم رکھنا چاہتے تھے ۔اس حدیث نامحمود کے ایک راوی قزعہ بن سوید ہیں ان کی نسبت علامہ ذہبی کہتے ہیں ۔

"امام بخاری کہتے ہیں کہ قزعہ بن سوید قوی نہیں ہے امام احمد کہتے ہیں کہ اس حدیثیں مضطرب ہوتی ہیں اور ابو حاتم کہتے ہیں کہ وہ اس کی حدیثوں سے استدلال نہیں کرسکتے ۔امام نسائی نے کہا ہے کہ وہ ضعیف ہے ۔ ابن عدی نے بھی یہی کہا ہے ۔ اس نے یہ غلط حدیث ابن ابی ملکیہ سے مرفوعا ابن عباس سے بیان کی ہے (میزان الاعتدال جلد دوم صفحہ ۳۴۷) ۔یہی حدیث ایک اور طریقہ سے بیان ہوئی ہے جس کے ایک راوی عمار بن ہارون ہیں ان کے بارے میں علامہ ذہبی فرماتے ہیں "موسی نے کہا کہ

۴۴

(عمار)ابن ہارون کی حدیث کو لوگوں نے چھوڑدیا ہے اور ابن عدی نے کہا ہے عام (بازاری) آدمی ہے جو بیان کرتا ہے غلط ہوتا ہے اور یہ حدیثوں کی چوری کیا کرتا تھا "(میزان الاعتدال جلد ۷ صفحہ ۳۲۰)-

سو ملاحظہ کیاآپ نے کیسے چورلوگوں کی یہ روایات ہیں ۔المختصر لاتعداد ایسی حدیثیں وضع کی گئیں کہ کمالات اہل بیت علیھم السلام پر قبضہ ہو جائے مگر اللہ خیر الماکرین ہے لہذا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ الگ نظر آجاتا ہے ۔مشہور سنی امام ابو فرج ابن الجوزی نے اپنی کتاب "الموضوعات" میں ان احادیث کے بارے میں اس رائے کا اظہار کیا ہے ۔

"میں نے کثیر تعداد میں احادیث ترک کردی ہیں جو حضرت ابو بکر کی شان میں بیان کی جاتی ہیں کچھ تو ان میں ایسی ہیں جو ظاہری معنی تو رکھتی ہیں لیکن ان کی صحت ثابت نہیں لیکن بہت سی تو ایسی ہیں جو بالکل بے معنی و لغو اور بے ہودہ ہیں ۔ میں لوگوں کو کہتے ہوئے سنتا ہوں کہ" حضور نے فرمایا کوئی شی خدا نے میرے سینہ میں نہیں ڈالی لیکن یہ کہ پھر میں نے اس کو سینہ ابو بکر میں ڈالدیا اور جب مجھے جنت کا شوق ہوتا ہے تو ابو بکر کی سفید داڑھی کو چومتا لیتا ہوں اور یہ کہ میں اور ابو بکر دوگھوڑوں کی طرح دوڑ رہے تھے میں ان سے آگے بڑھ گیا تو ان کو میری اتباع کرنی پڑی اور اگر وہ آگے بڑھ جاتے تو میں ان کی پیروی کرتا ۔ یہ تمام حدیثیں جھوٹی ہیں اور قطعا موضوعہ(جعلی) ہیں اور ایسی احادیث کے جاری کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ۔"

۴۵

ملا علی قاری نے اپنے رسالہ موضوعات کبیر میں ابن قسیم سے نقلا لکھا ہے کہ

"جہلا ئے اہل سنۃ نے جو احادیث فضائل ابو بکر میں وضع کی ہیں۔ ان سے چند یہ ہیں ۔

۱:-"خدا وند تعالی روز قیامت اور لوگوں کے لئے عام طور سے اور ابو بکر کے لئے خاص طور سے تجلی کرے گا "۔

۲:-"کوئی علم کی شے خداوند تعالی نے میرے سینہ میں نہیں ڈالی لیکن یہ کہ میں نے پھر اس کو سینہ ابو بکر میں ڈالدیا ۔"

۳:- یا "جب حضور کو جنّت کا شوق ہوتا تھا حضرت ابو بکر کی سفید داڑھی چومتے تھے ۔"

۴:- "میں اور ابو بکر دوگھوڑوں کی طرح دوڑ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔"

۵:- یا "جب خدا نے ارواح میں انتخاب کیا ۔۔۔۔"

۶:- اسی طرح عمر کا یہ قول کہ" جب رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر آپس میں باتیں کرتے تھے تو میں زنگی کی طرح مبہوت بیٹھا رہتا تھا "۔

۷:- "اگر میں عمر کے فضائل عمر نوح تک بیان کروں تو ختم نہ کرسکوں گا ۔"

۸:-اسی طرح "عمر تو ایک نیکی ہے ابوبکر کی نیکیوں میں سے "۔

۹:- یا پھر یہ کہ " ابو بکر تم سے کثرت صوم وصلواۃ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس چیز کی وجہ سے تم پر سبقت لے گیا جو اس کے سینہ میں ہے " یہ سب جھوٹی ہیں " ۔

اگر ہم مصنوعی احادیث جمع کرنے لگ جائیں تو اس کے لئے ایک دفتر درکار ہوگا ۔چند نمونے پیش خدمت کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جو اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے کافی ہیں کہ حکام وقت کو خوش کرنے اور ان کے احکام استحکام حکومت کے لئے استحقاق خلافت ثابت کرنے کی خاطر لوگوں نے بے حساب احادیث وضع کیں اور اس کارکردگی کے لئے کو انعامات وصلے فراخدلی

۴۶

سے دیئے گئے اور ہر طرح سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔اب جب خود علماء اہل سنت ہی ان احادیث کو موضوع اور کذب قرار دیتے ہیں تو پھر ہم مزید نکتہ چینی کس لئے کریں ۔

احادیث کو وضع کرنے کے لئے اور ان پر سچائی کا ملمع چڑھانے کے لئے اصول موضوعہ وعلوم متعارفہ قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی لہذا ایک جامع وحادی فارمولا اختیار کیاگيا اور اپنی عادت وضرورت کے مطابق حسب رواج دوستور وہ بھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے سر منڈھا گیا وہ آئندہ مقدمہ میں ملاحظہ فرمائیں ۔

۴۷

حدیث نجوم

مقدمہ چہارم:-

حدیث مشہور ہے کہ ۔"اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم اصحابی لکم رحمۃ" یعنی میرے اصحاب مثل ستاروں کے ہیں ۔ان میں سے جس کسی کی پیروی کروگے ۔ہدایت پاؤ گے میرے اصحاب کا اختلاف تمھارے لئے رحمت ہے ۔"

اس حدیث کو وضع کرکے دوکام نکالنے کی کوشش کی گئی ۔ ایک تو یہ کہ دیگر بناوٹی حدیثوں کے لئے ایک خود ساختہ کلیّہ بن گیا ۔

دوسرے یہ کہ حدیث ثقلین ،حدیث مدینۃ العلم اور دیگر احادیث جو حضرات اہل بیت علیھم السلام اور شیعیان آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمودات ہیں ان کے مدّ مقابل ایک ایسی وضعی حدیث

۴۸

بن گئی جو ہر وقت کام آسکتی ہے لیکن حق کی شان یہ ہے کہ کوئلوں میں ہیرا بن کرچمکتا ہے چنانچہ اس خود ساختہ حدیث کو خود جماعت اہل حکومت کے علماء محدثین نے موضوع قرار دیا ہے ۔اس کی جرح وقدح کی ہے ۔ اور مضبوط دلائل سے اس کو مردود اور وضعی ثابت کیا ہے ۔

امام اہلسنت ابن تیمیہ نے اس حدیث کے متعلق اپنی رائے اس طرح لکھی ہے ۔

"پس آنحضرت صلعم کا قول کہ میرے اصحاب مثل ستاروں کے ہیں جس کی پیروی کروگے ہدایت پاؤگے ۔ یہ حدیث ضعیف ہے جس کو ائمہ حدیث نے ضعیف ثابت کیا ہے ۔ چنانچہ البزار کہتے ہیں کہ یہ حدیث جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صحیح ثابت نہیں ہے ۔ اور وہ احادیث کی کتب معتبرہ میں نہیں پائی جاتی ۔(منہاج السنۃ)۔

اس حدیث کے جعلی ہونے کے بارے میں میں اگر ہم علمائے اہل سنت کی آراء کو نقل کریں تو اس کے لئے ایک جداگانہ کتاب کی ضرورت ہے ۔لیکن چونکہ یہ حدیث سرمایہ وآثاثہ مذہب سنیہ ہے اس لئے اس بارے میں مرفوع القلمی بھی بلا جواز اختصار ہوگا ۔لہذا ہو درمیانی راہ نکالتے ہوئے ان علماء اور کتابوں کے نام نقل کردیتے ہیں جو ہمارے شواہد ہیں ۔

۱:- اما م حنبل الشیبانی :-

کتاب" التقریر و البتحیر" مؤلفہ ابن امیرالحجاج الحلبی ۔ "صبح صادق " تصنیف ملا نظام الدین سہالوی ۔"فواتح الرحموت " شرح مسلم الثبوت تصنیف مولوی عبدالعلی بحر العلوم۔

۲:- ابو ابراہیم اسماعیل بن یحیی المزنی:-

کتاب"جامع بیان العلم "

۴۹

تصنیف ابی یوسف بن عبداللہ المزنی

۳:- ابو بکر احمد بن عمر بن عبد الخالق بزار:-

کتاب " جامع بیان العلم"تصنیف ابی یوسف ۔رسالہ "ابطال رائے وقیاس "تصنیف ابن حزم ۔"منہاج السنۃ " ابن تیمیہ ۔"تفسیر بحر محیط" ابی جہاں۔"اعلام الموقعین" ۔"ابن القیم تخریج" احادیث منہاج ابو الفضل عراقی ۔شرح ملا علی قاری بر شفائی قاضی عیاض ۔وغیرہ۔

۴:- ابو احمد عبداللہ بن محمد الجرجانی المعروف ابن عدی:-

کتاب" الکامل و ذکر حدیث نجوم" وترجمہ جعفر بن عبد الواحد" ۔"ترجمہ حمزہ ابی حمزہ" ۔

۵:- ابو الحسن علی بن عمر دارقطنی:-

کتاب " غرائب مالک اثیر " "لسان المیزان" ابن حجر عسقلانی و"تخریج احادیث "کشاف ابن حجر عسقلانی

۶:- ابو محمد علی بن محمد بن احمد بن حزم :-

رسالہ" ابطال رائے وقیاس "۔"تفسیر بحر محیط ذکر حدیث نجوم" تصنیف میاں غرناطی۔ تفسیر النہر الماء ابو حبان ۔تفسیر دار اللقیط ذکر حدیث النجوم"تصنیف تا ج الدین ابو محمد احمد بن عبدالقادر بن احمد مکتوم ۔"تخریج احادیث منہاج "زین الدین عراقی ۔کتاب"تلخیص الغبیر ابن حجر عسقلانی "۔مرقاۃ " از ملا علی قاری ۔نسیم الریاض علامہ خفا جی وغیرہ ۔

۷:- ابو بکر احمد بن الحسین بن علی البیہقی :-

کتاب" الدخل ،"تخریج احادیث منہاج بیضاوی "تصنیف زین الدین عراقی ۔

۸:- ابو عمر یوسف بن عبد اللہ المعروف ابن عبد البر:-

کتاب "جامع بیان العلم"

۹:- ابو القاسم علی بن الحسن ہبۃ اللہ المعروف ابن عساکر:-

فیض القدیر منادی۔

۱۰:- عمر بن الحسن بن علی الکلبی المعروف ابن دحیہ :-

تعلیق تخریج احادیث منہاج بیضاوی " تصنیف زین الدین عراقی۔

۵۰

۱۱:- احمد بن الحلیم ابن تیمیہ :-

منہاج السنۃ ۔

۱۲:- ابو جہان محمد بن یوسف اند لسی :-

تفسیر بحر محیط ، تفسیر النہر الما من البہر۔

۱۳:- تاج الدین ابو محمد احمد بن عبد القادر بن احمد بن مکتوم :-

۱۴:- محمد بن ابو بکر بن قیم الجوزیہ :-

کتاب اعلام الموقعین در مقام روبرو مقلدین

۱۵:- زین الدین عبدالرحیم بن الحسین العراقی :-

کتاب "تخریج احادیث منہاج بیضاوی ۔تعلیق کتاب التخریج احادیث المنہاج ۔

۱۶:- احمد بن علی بن حجر عسقلانی:

کتاب تلخیص الکبیر فی تخریج الرافعی الکبیر" ،کتاب تخریج احادیث مختصر ابن الحاجب ۔لسان المیزان در ترجمہ جمیل بن یزید۔

۱۷:- کمال الدین محمد بن عبد الواحد ابن ہمام :-

کتاب التقریر والتجیر درمبحث اجماع ۔

۱۸:- محمد بن محمد الحلبی المعروف ابن امیر الحاج :-

کتاب التقریر والتجیر در مبحث اجماع۔

۱۹:- احمد بن ابراہیم الحلبی :-

شرح شفاء۔

۲۰:- شمس الدین محمد بن عبد الرحمان البخاوی :-

مقاصد حسنہ۔

۲۱:- کمال الدین محمد بن ابو بکر بن علی بن مسعود بن رضوان المعروف ابن ابی شریف :-

فیض القدیر منادی۔

۲۲:- جلا الدین عبد الرحمان بن ابی بکر السیوطی:-

کتاب اتمام الدرایہ

القراء النعایہ ۔جامع ضغیر۔جمع الجوامع ۔

۵۱

۲۳:- ملا علی متقی :-

کنز العمال ، منتخب کنزل العمال ، مرقاۃ شرح مشکواۃ ، شرح شفاء۔

۲۴:- عبد الرؤف بن تاج العارفین المنادی :-

فیض القدیر۔شرح جامع صغیر۔

۲۵:- شہاب الدین احمد بن محمد بن عمر الحنفاجی:-

نسیم الریاض ۔شرح شفائی قاضی عیاض

۲۶:- علامہ محمد معین بن محمد امین :-

دراسات اللبیب ۔

۲۷:- قاضی محب اللہ بہاری :-

مسلم الثبوت۔

۲۸:- ملا نظام الدین سہالوی:-

صبح صادق شرح منار ۔

۲۹:- عبد العلی :-

فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت ،درمبحث اجماع شیخین ۔

۳۰:-قاضی محمد ابن علی بن الشوکانی :-

ارشاد الغمول الی تحقیق الحق من علم الاصول القول المفید فی اولۃہ الاجتہاد والتقلید ۔

۳۱:- عبد الرحمان بن علی بن محمد البکری المعروف ابن الجوزی :-

کتاب العلل المتناہیۃ ۔

۳۲:- ولی اللہ ابن حبیب اللہ :-

شرح مسلم الثبوت ۔

۳۳:- مولوی نواب صدیق حسن خاں :-

حصول المامول من علم الاصول ۔

اگر چہ ان حوالجات کے بعد مزید کسی تفصیل کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی تاہم مزید تشفی کے لئے چند عبارات نقل کرتے ہیں ۔چنا نچہ علامہ نظام الدین سہالوی حدیث نجوم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "ابن حزم اپنے رسالۃ الکبری میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث

۵۲

جھوٹی ،بناوٹی اور باطل ہے ۔اوراحمد بن حنبل اور بزار نے بھی یہی کہا ہے" (صبح صادق شرح منار)

علامہ ابن جوزی نے اپنی کتاب العلل المتناہیۃ میں لکھا ہے کہ "نعیم بن حماد کہتا ہے کہ بیان کیا اس سے عبد الرحیم بن زید نے اپنے باپ سے اور اس کے باپ نے سعید بن مسیب سے اور اس نے عمر بن الخطاب سے کہ فرمایا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہ میں درگاہ رب العزت میں اختلاف کی نسبت سوال کیا ،جو میرے بعد میرے اصحاب میں ہوگا پس خداوند تعالی نے وحی بھیجی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے اصحاب میرے نزدیک آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں ۔کوئی چکمدار ہے کوئی کم ،پس جس شخص نے تیرے اصحاب کے اختلاف میں سے کوئی بھی امر پکڑ لیا وہ ہدایت پر ہے ۔مؤلف کہتا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔نعیم مجروح ہے ۔اور یحیی بن معین نے کہا ہے کہ عبدالرحیم کذاب یعنی جھوٹا ہے :۔

امام ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث نجوم پر اچھی تنقید کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ باطل جھوٹی اور بناوٹی حدیث ہے ۔

"حدیثاصحابی کالنجوم فبایهم اقتدیتم اهتدیتم "کو دار قطنی نے مؤلف میں روایت سلام بن سلیم عن الحرث بن عضین عن الاعمش عن ابی سفیان عن جابر سے بیان کیا ہے یہ حدیث مرفوع ہے اور سلام ضعیف ہے اس حدیث کو دارقطنی نے غرائب مالک میں بھی جمیل بن یزید عن جعفر بن محمد عن ابیہ عن جابر کے طریق سے بیان کیا ہے ۔

دارقطنی نے کہا ہے کہ یہ حدیث مالک سے ثابت نہیں ہے ۔مالک کے

۵۳

علاوہ سب رواوی مجہول ہیں اور اس حدیث کو عبد بن حمید نے اور دار قطنی نے فضائل میں حدیث حمزہ الجزری عن نافع عن ابن عمر سے بیان کیا ہے اور حمزہ حدیثیں وضع کیاکرتا تھا اس حدیث کو قضا عی نے مسند الشہاب میں حدیث ابو ہرہ سے روایت کیا ہے اور اس میں جعفر بن عبدالواحد ہاشمی ہے اور علماء حدیث نے اس کی تکذیب کی ہے ۔ اور ابن ظاہر نے اس حدیث کو بطریق بشر بن حسین عن زبیر بن عدی عن انس بیان کیا ہے ۔اور بشر بھی جھوٹ اور وضع حدیث کے ساتھ متہم ہے ۔اور بیہقی نے مدخل میں اس حدیث کو روایت جو ئیبر عن الضحاک عن ابن عباس سے بیان کیا ہے اور جوئیبر متروک ہے ۔جوئیبر کی روایت بطریق دیگر عن جواب بن عبیداللہ ہے وہ مرفوع ہے اور حدیث مرسل ہے ۔ بیہقی کہتا ہے کہ اس کا متن تو مشہور ہے مگر اس کی تمام اسانید ضعیف ہیں اور بیہقی نے مدخل میں حضرت عمر سے ہی اس حدیث کو ان الفاظ سے بیان کیا ہے ۔"سالت ربی فیھا الخ"اس کے اسناد میں عبدالرحیم بن زید العمی ہےاور وہ متروک ہے "۔

(تخریج احادیث کشاف)

علامہ ابن حجر عسقلانی نے اس موضوع حدیث کے ہر ایک طریقہ اور سند پر گفتگو کرکے اس کو باطل او رجھوٹا ثابت کیا ہے ۔مگر راویوں کی جرح وقدح میں اختصار نویسی سے کام لیا ہے ۔ تاہم دیگر علمائے نے اس حدیث کے ہر راوی پر جرح کرکے اس کو جھوٹا ثابت کیا ہے مزید تشفی کے لئے علامہ ذہبی کی کتاب "میزان الاعتدال " ملاحظہ فرمائیں۔

۵۴

پس اس حدیث کی حقیقت معلوم ہوگئی کہ اس کا ہر راوی مجروح و مقدوح ہے کوئی قابل اعتبار نہیں ،سب ضعیف ہیں ۔ یہی وجہ ہے خود علمائے اہل سنت کی بھاری اکثریت نے اسے با طل ثابت کیا ہے لہذا بدیہی امر ہے یہ حدیث ثقلین وحدیث سفینہ وغیرہ کے مد مقابل گھڑی گئی ہے اور اس بات کا اعتراف بھی خود علمائے اہل سنّت نے بزبان خود کیا ہے ۔

مشہور سنّی عالم محمد معین حدیث نجوم اور ایسی ہی دوسری احادیث کو حدیث ثقلین وغیرہ کے مقابلہ میں بایں الفاظ رد کرتے ہیں "اگر تو کہے کہ یہ حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ میرے بعد اصحاب مثل ستاروں کے ہیں ان میں سے جن کی پیروی کروگے ہدیت پاجاؤگے ۔نیز یہ کہ میر ے بعد ابو بکر وعمر کی پیروی کرو ۔اور یہ کہ تمھیں چاہیئے میری اور میرے خلفاء راشد بن کی سنت کی پیروی کرو۔(وغیرہ) اور بس ان احادیث سے ثابت ہوا کہ اہل بیت کے علاوہ دوسروں کی پیروی بھی جا ‏ئز ہے تو ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ حدیثیں گھڑی ہوئی ہیں کیونکہ لفظ "اہتدیتم"سے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ بزرگوار کبھی خطاء نہیں کرسکتے جو کہ واقعۃ غلط ہے "۔(دراسات اللبیب)

پس ملا معین کی اس وضاحت کے بعد مزیدکسی بحث کی گنجائش نہیں رہ جاتی تا ہم اس حدیث پر عقلی بحث بھی کرتے ہیں تاکہ نقل کی تائید عقل سے بھی ہوجائے اس حدیث کا تجزیہ کرنے پر دوکلیے بر آمد ہوتے ہیں ۔اول یہ کہ صحابہ کا آپس کا اختلاف

۵۵

امت کے لئے رحمت اور دوم یہ کہ کسی ایک بھی صحابی کی پیروی ہدایت کے لئے کافی ہے ۔اس ضمن کی پہلی عقلی دلیل یہ ہے جو اس کو باطل ٹھہراتی ہے کہ تضاد وتفریق علامت حق ہرگز نہیں ہوسکتی ہے ۔ حق ہمیشہ ایک ہی ہوگا ۔اختلاف اتحاد کو شکستہ کرتا ہے ۔قرآن میں جگہ جگہ تفریق کی مذمت پائی جاتی ہے ۔کسی حالت میں اختلاف رحمت ثابت نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ زحمت بنا رہا ۔پس ایسا گمراہ کن نظریہ تابع وحی نہیں ہوسکتا ہے ۔اور نہ ہی یہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے کہ خلاف قرآن ہے ۔دوسری دلیل یہ ہے کہ پیروی کے قابل صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جو کبھی غلط حکم نہ دے خود محفوظ عن الخطا ہو۔عالم قرآن ہو ۔عامل شرع رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہو۔ جبکہ صحابہ کا معصوم ہونا کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا اور ان کے اختلافات سے کتابیں بھر پور ہیں ۔پس عقلی لحاظ سے بھی حدیث نجوم قابل رد وترک ہے ۔

الغرض یہ حدیث اور ایسی ہی کئی احادیث واہی ولغو وفضول وضع کی گئیں اور جتنا بھی ان احادیث کی گہرائیوں میں جایا جائے عقائد متزلزل ہونے لگتے ہیں اور دشمنان اسلام کے اعتراضات سامنے آجاتے ہیں ۔ان واضعین احادیث کے مقصد محض دو ہی تھے ایک یہ کہ اہل بیت اور شیعیان اہل بیت (ع) کے مقابلہ میں حکام اور ان کے حواریوں کے فضائل وضع کئے جائیں تاکہ وہ اہل منصب قرار پاسکیں دوسرے یہ کہ حضرت علی (ع) اور ان کے دوستوں کی شان میں تنقیص ہوجائے تاکہ ان کے جائز حقوق لوگوں کے سامنے نہ آسکیں اوران پر پردے پڑجائیں ۔جیسا کہ جعفراسکافی نے لکھا ہے کہ

۵۶

"بتحقیق معاویہ نے ایک جماعت صحابہ میں سے اور ایک جماعت تابعین میں سے اس غرض کے لئے قائم کررکھتی تھی کہ وہ حضرت علی (ع) کے متعلق قبیح روایات واحادیث وضع کریں اور وہ روایات ایسی ہوں کہ جن سے حضرت علی (ع) پر طعن وار د ہوسکے اور ان سے لوگ بے زاری کرنے لگیں اور ان لوگوں کے واسطے اس خدمت حدیث سازی کے عوض میں وظیفے مقرر کردیئے تھے پس ان لوگوں نے ایسی احادیث وروایات ایجاد کیں جن سے معاویہ بہت خوش ہوا کہ اس کی طبیعت کے موافق ہوئیں ۔اس جماعت حدیث ساز میں صحابہ میں سے حضرت ابوہرہ ، عمر وبن العاص ،مغیرہ بن شعبہ تھے اور تابعین میں عروۃ بن الزبیر تھا۔ زہری نے عروہ سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ کہا عروہ نے مجھ سے ۔ حضرت عائشہ نے کہا کہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس بیٹھی تھی کہ اتنے میں عباس وعلی (ع) آئے ۔جناب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا اے عائشہ یہ دونوں (علی وعباس) (معاذاللہ حاکم بد ہن) مرتد ہوکر مریں گے "

(شرح نہج البلاغہ ج ۴ ص ۳۵۸ علامہ ابن ابی الحدید معتزلی)

دیکھا آپ نے حکومت کے کارخانہ حدیث سازی نے کیسی کیسی مصنوعات پیش کی ہیں ۔ایسے میں حضرات اہل بیت (ع) اور ان کے رفقاء کے فضائل کا اخفاء اور ان کی کسر شان میں روایات کا اجراء حکومت کی پشت پناہی میں ہوتا رہا ۔ آج بھی کتب میں ایسی روایات کا طومار ملتا ہے جو اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ مسلمانوں نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جھوٹ منسوب کرنے میں کوئی دقیقہ فروشت نہ کیا جبکہ آنحضرت اس فتنہ وضع احادیث سے امت کو اپنی حیات

۵۷

طیبہ ہی میں آگاہ فرما چکے تھے ۔جناب رسالت پناہ نے فرمایا ۔

"اے لوگو! خدا سے ڈرو جیسا کہ کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرتے دم تک مسلمان رہو ۔اور جان لو کہ خدا وند تعالی ہر شے پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔خبرداررہو! فورا میرے بعد ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جو میرے اوپر جھوٹ بولیں گے اور میری نسبت جھوٹی حدیثیں لوگوں میں بیان کریں گے ۔اور وہ قبول کرلی جائیں گی ۔میں پناہ مانگتا ہوں خدا کی طرف ۔اس بات سے کہ میں خدا کی طرف سے حق کے علاوہ کچھ اور کہوں یا تم کو ایسی بات کا حکم دوں جس کا خدا نے حکم نہیں دیا یا خدا کے علاوہ اور کی طرف تم کا بلاؤں ،عنقریب یہ ظالم لوگ معلوم کرلیں گے کہ ان کا حشر کیا ہوتا ہے ۔پس عبادہ بن صامت کھڑے ہوئے اور پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ایسا کب واقع ہوگا تاکہ ہم ان لوگوں کو پہچان لیں اور ان سے پر ہیز کریں ۔آپ نے فرمایا کہ یہ جماعت اپنے ظاہری (اقرار وقبول) اسلام لانے کے دن ہی سے اپنی تیاری میں مشغول ہے لیکن خفیہ اور تم پر وہ فورا ہی ظاہر ہوجائیں گے جب میری سانس یہاں تک پہنچے گی آنحضرت نے اپنے حلقوم مبارک کی طرف اشارہ فرمایا ۔عبادہ بن صامت نے کہا کہ جب ایسا ہو تو ہم کیا کریں اورکس طرف پناہ ڈھونڈ یں حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ میری عترت میں سے سابقین (یعنی علی علیہ السلام ) کی طرف اور ان کی اطاعت کرو اوران کے قول کو تسلیم کرو۔ وہ میری نبوت کے آخذ ین ہیں وہ تم کو بدی سے بچائیں گے خیر ونیکی کی طرف لے جائیں گے وہ اہل حق ہیں ۔معاون صدق ہیں وہ تم میں کتاب وسنت کو زندہ رکھیں گے ۔الحاد وبدعت سے محفوظ کریں گے ۔اہل باطل کا قلع قمع کریں گے اور جاہلوں کی طرف رخ نہ کرینگے "

۵۸

(توضیح الدلائل علی ترجیح الفضائل علامہ سید شہاب الدین )

ہادی عالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی ابھی حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت میں چند گھڑیاں باقی تھیں جو واقعہ قرطاس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بہتان ہذیان عائد کردیا گیا ۔

علی ہذا القیاس حدیث نجوم کہتی ہے کہ ہر صحابی ہدایت کا سرچشمہ ہے لیکن صحیحین میں جب ہم کتاب الفتن وکتاب الخواص میں مندرجہ احادیث پر نظر دو ڑاتے ہیں تو معاملہ اس کے برعکس ملتا ہے ان کثیر تعداد منقولہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے فورا بعد فتنے سراٹھائیں گے ۔جن میں صحابہ کی بڑی جماعت راہ ضلالت اختیار کرے گی یہاں تک کہ قیامت کے دن حوض کوثر پر آنحضرت موجود ہوں گے ۔صحابہ کو حوض کے پاس سے اونٹوں کی طرح ہنکا کر لے جایا جائےگا ۔حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرمائیں گے کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں حکم ہوگا کہ آپ کو معلوم نہیں ؟ کہ آپ کے بعد انھوں نے کیا کیا گل کھلائے ہیں اس پر سرور دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرمائیں گے کہ دفع دور کرو ان کو میرے پاس سے ۔ اگر ہر صحابی عادل اور ہادی ہے تو پھر حوض کوثر سے ذلت کے ساتھ ہنکایا جانا کیا معنی رکھتا ہے ۔اختصار ملحوظ ہے ورنہ ان روایات کو نقل کردیا جاتا تا ہم قارئین صحیح بخاری ،صحیح مسلم وغیرہ میں کتاب الفتن اور کتاب الحوض مطالعہ کرکے اس حقیقت سے آشکا ر ہوسکتے ہیں ۔

پس حدیث نجوم نہ ہی عقلا قابل قبول ہے اور نہ ہی نقلا صحیح ثابت ہوتی ہے یہ حدیث معارض قرآن بھی ہے اور اورخلاف سنت بھی اسی لئے علماءنے بڑی شد و مد سے اس کی تردید کی ہے ۔

۵۹

صحابی کی تعریف اور صحابہ میں باہمی فرق

عبوری معروضات کے بعد ہم نفس مضمون کی طرف لوٹتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ ایمان والوں کے لئے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت ایسی بیش بہا نعمت ہے جسکی قدر وقیمت کا اندازہ لگانا ہم خاطی انسانوں کی استطاعت سے باہر ہے لیکن ایسے صحبت یافتہ لوگوں کی بد قسمتی پر تمام کائنات اظہار تعجب وافسوس کرنے پر مجبور ہے کہ صحبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شرف مقدر بننے کی بجائے بد نصیبی کا بخت ثابت ہوا۔وہ افراد جو نبی رحمتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صحبت پانے کے باوجود دولت ایمان سے محروم رہے یقینا یہ اعزاز ونعمت ان بد قسمتوں کے لئے بے کار وغیر مفید رہا ۔چنانچہ تاریخ میں ایسی مثالوں کی کمی نہیں ہے کہ اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صحبت سے سرفراز ہونے کی بجائے وہ لوگ اسلام سے مرتد ہوکر سرنگوں وپست قرار پاگئے ۔ان ہی صحابیوں میں سے بعض کو جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دھتکار دیا۔ خطرناک ومجرمانہ ذہنیت کے افراد کو قتل کروادیا اور کئی ایسے ہوئے جو نشانہ بد عا ئے رحمت للعالمین قرارپائے ۔بعض حلقہ بگوش غداری میں اس قدر آگے نکل گئے کہ انھوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور پیغام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف علا نیہ محاذ آرائی کرنے سے بھی دریغ نہ کیا ۔ ایسے لوگوں کی تعداد بھی نمایاں ہے جنھوں نے ارتداد کو خفیہ رکھا اور صحبت میں رہتے ہوئے منافق رہے ۔چنانچہ یہ جماعت اسلام کے لئے بہت ہی خطرناک ثابت ہوئی ۔علماء نے اس جماعت منافقین کو تین گروہوں

۶۰