چار یار

چار  یار0%

چار  یار مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں
صفحے: 180

چار  یار

مؤلف: عبد الکریم مشتاق
زمرہ جات:

صفحے: 180
مشاہدے: 43531
ڈاؤنلوڈ: 2577

تبصرے:

چار یار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43531 / ڈاؤنلوڈ: 2577
سائز سائز سائز
چار  یار

چار یار

مؤلف:
اردو

میں تقسیم کیا ہے ۔ اول ایسے لوگ جن کے نفاق کا علم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ مخلص اصحاب کو بھی تھا ۔دوسرے اس قسم کے لوگ تھے جن کو صرف اللہ اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی جانتے تھے اور ان میں سے کچھ کا پتہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چند معتمد ساتھیوں کا بتایا بھی تھا جیسے کہ حضرت حذیفہ بن الیمان کو "صاحب السرّ" کہا جاتا ہے دیگر صحابہ کو معلوم تھا کہ حضرت حذیفہ کو حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منافقین کے نام بتا دیئے ہیں ۔چنانچہ حضرت عمر بھی اکثر ان سے یہ راز اگلوانے کی کوشش کرتے رہے ۔راقم الحقیر کو عقیدے کے لحاظ سے یہاں اختلاف ہے مگر نقلا تحریر ہے کہ تیسرا گروہ وہ تھا جس کا علم غالبا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی نہ تھا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس لاعلمی کا انحصار علماءنے ان احادیث کو بنایا ہے جن میں صحابہ کے دوزخ میں جانے کا بیان ہے اور وہ اس انداز سے مروی ہیں جس سے اندازہ قائم ہوتا ہے کہ وہ لوگ ایسے کٹر منافق تھے جن کے نفاق کو رسول علیم بھی نہ پہچان سکے یا پھر وہ لوگ تھے جو بعد وفات پیغمبر مرتد ہوئے یا پھر حیات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ان کی منافقت محتاطا خفیہ تھی مگر بعد از رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علانیہ منافقت پر ظاہر ہوگئے چنانچہ صحیح بخاری کی کتاب الحوض والی روایات میں جو تعجب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واظہار لاعلمی والا بیان ہے اس سے استدلال کرکے متقد مین نےیہ نظریہ قائم کیا ہے ۔حالانکہ شیعی عقیدہ ایسا نہیں ہے لیکن یہاں اس بحث سے گریز ہی کرنا ہے کہ اختصار اور پابندی موضوع ملحوظ ہیں بہر حال یہ نتیجہ اظہر من الشمس ہے کہ کسی کا صحابی ہونا اس امر کے لئے دلیل نہیں ہوسکتا ہے کہ اعمال وافعال سے چشم پو شی کرکے اور اس کے کردار واقعی کو نظر انداز کرکے اسے محض صحبت یافتہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہونے

۶۱

کی بنا پر قابل ولائق پیروی سمجھ لیا جائے اس کے برعکس اگر وہ صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مومن کامل، مرد صالح اور بندہ متقی ہے اور اس کے اعمال وخدمات اسے عزت واحترام کا مستحق ٹھہراتے ہیں تو پھر شرف صحابیت رسول کی قدر منزلت اپنے معراج پر ہوگی ۔پس اگر اعمال اسلامی نقطہ نظر سے مذموم ہوں گے تو صحابی ہونے کے باوجود ہم اس پر نکتہ چینی کرنے کے حقدار ہیں ۔ مگر اس بارے میں احتیاط و اعتدال کا لحاظ ہر قدم پر ضروری ہے ۔واضح ہو کہ صحابی کے مذموم فعل کا اثر محض اس کی اپنی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ پوری قوم پر پڑتا ہے ۔اگر صرف اس کی ذات تک محدود ہوتا تو پھر یہ کہا جا سکتا تھا کہ معاملہ اللہ کے اور اس کے درمیان ہے ہمیں زبان بند رکھنی چاہیئے لیکن جب اس کا اثر براہ راست پورے نظام ومعاشرے پر پڑتا ہو تو ۔ایسی قطع نظری اور خاموشی ہر لحاظ سے مضرت رساں ہوگی لہذا صحابہ کو تنقید سے بالا خیال کرنا در اصل حقائق سے چشم پو شی کرنا ہے ۔اہل اسلام میں صحابی کی تعریف میں چنداں اختلاف ہے عام اعتبار سے تو صحابی ہر اس شخص کو کہا جاسکتا ہے جسے مجلس رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں شرکت کا موقعہ حاصل ہوا یا صحبت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا شرف ملا اس میں مدت کے کم زیادہ ہونے کی قید نہیں لیکن اصطلاح میں صحابی کی تعریف مختلف ہے ۔ شروع میں یہی خیال تھا کہ جیسے شرف صحبت نصیب ہوگیا وہ قابل عزت ہے اور اس ابتدائی دور میں یہ احساس طبعی تھا کیونکہ ابتدائی دور کے صحابہ میں زیادہ تر اس کے مسحق حضرات ہی تھے لیکن بعد میں تجربہ ہوا کہ کچھ صحابی مرتد ہوکر دوبارہ کفار سے جاملے لہذا صحابی

۶۲

کی تعریف میں یہ شرط بھی ضروری قرار پائی کہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہونا لازمی ہے اس کے بعد کچھ لوگوں نے اس تعریف کو مزید مشروط کیا ہے کہ بالغ لوگ جو صحبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا درجہ تابعی کے مطابق ہے پھر طبقہ محدثین نے صرف ان صحابیوں کو قبول کیا جو کسی حدیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے راوی ہوئے لیکن امام بخاری اور امام احمد بن حنبل وغیرہ نے ہر اس مسلمان کو صحابی تسلیم کیا ہے جس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک بار دیکھ لیا ۔الغرض مندرجہ بالا تعریفوں میں سے کسی ایک پر بھی علمائے اہل سنتہ کا اتفاق نہ ہو سکا اور کافی بحث وتمحیض کس بعد یہ متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام صحابہ بلا استثنا روایت کے معاملہ میں"عادل" ہیں ۔حالانکہ یہ مانتے ہیں کہ صحابہ میں بعض فسق وفجور کا ارتکاب کرتے تھے ان سے چوری ،زنا ،کذب وغیرہ جیسے کبائر کا صدور ہوا مگر روایت قول رسول میں ان سے غلط بیانی نہ ہوتی تھی اس عقیدے کی تائید قرآن وحدیث سے تومستند نہیں ہوسکتی البتہ بزعم علمائے اہل سنتہ والجماعۃ تجربات وتحقیقات شاہد ہیں کہ صحابہ خواہ کیسے ہی گنہگار ہوں مگر رسول خدا(ض) سے روایت کرنے میں انھوں نے کبھی جھوٹ نہ باندھا ۔چنانچہ ابن انباری کہتے ہیں کہ "یہ مطلب نہیں ہے کہ صحابہ میں گناہوں سے عصمت پائی جاتی ہے اور ان سے گناہوں کاارتکاب ممکن نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کی راویتوں کو اسباب عدالت کی بحث اور ثقاہت کی تحقیق کے بغیر قبول کرلینا چاہیئے مگر یہ کہ ان سے ایسا امر سرزد ہو جو روایات

۶۳

میں قادح ہو اور ایسا ثابت نہیں ہے "

علامہ انباری کہ یہ رائے ہم خیال لوگوں کے لئے تو کچھ وزن رکھتی ہو یا نہ ہو ہم کسی آزاد وغیر جانبدار شخص کے لئے عقیدت کے علاوہ اس میں کوئی کشش وجاذبیت ہرگز نہیں ہے ۔ بہر کیف صحابی کی تعریف میں اختلاف ہونے کے باعث ان کی تعداد اور مدارج میں بہت فرق پیدا ہوگیا ہے ۔ امام شافعی کے مطابق حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصال کے وقت ساٹھ ہزار اصحاب تھے جن میں تیس ہزار خالص مدینہ میں تھے ابوزرعہ کے قول سے صرف صحابی ایک لاکھ تک ہوتے ہیں بعض نے سوالاکھ تک تعداد بتائی ہے یہی وجہ ہے کہ تمام اصحاب کے حالات کا علم نہ ہوسکا لہذا ان کے کردار وچال وچلن کے بارے میں کوئی حتمی وعام فیصلہ کرنا امرمحال ہے ۔جو تمام صحابیوں کی شخصیت پر فردا فردا حاوی ہو۔ لہذا جب ہم افراد پر بحث کریں گے تو یہ دیکھنا بھی ضروری ہوگا کہ ان کی زندگی تقوی کے معیار پر کتنا درجہ رکھتی ہے ۔صحابہ میں فضیلت کے لحاظ سے مدارج کا فرق قرآن مجید سے ثابت ہے کہ سورہ حدید میں اللہ نے فرمایا کہ تم میں سے جن لوگوں نے اللہ کے لئے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا ان لوگوں کے برابر نہیں ہیں جنھوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا یا جہاد کیا ۔ازروئے قرآن حلقہ اصحاب کی خاص تقسیم یہ قرار پائی کہ فتح مکہ سے پہلے جن صحابہ نے اتفاق وقتال کیا ان سے افضل ہیں جو فتح مکہ کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور انھوں نے راہ خدا میں خرچ کیا اور جانی قربانی پیش کی ۔ ان صحابہ کی فضیلت قرآن مجید سے ظاہر ہے کہ انھوں نے اس دور میں

۶۴

اسلام کا ساتھ دیا جب سخت امتحان وآزمائشوں سے گذرنا پڑتا تھا ۔جب گھڑیاں اسلام پر اتنی کڑی تھیں کہ تاریخ عالم میں ان کی نظیر نہیں ملتی چنانچہ ان کا قرآنی نقشہ اس طرح کہ "ان کو جھنجھوڑ اگیا یہاں تک رسول اور اس کے ساتھ صاحبان ایمان چلا اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ۔خبردار! کہ اللہ کی مدد قریب ہے ۔

اسلام کی مکی زندگی کاخیال آتے ہی حساس لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔دل لرزاں ہوتا ہے ۔کہ ان مردان حق پرست نے کس بے جگری اور صبر واستقامت کے ساتھ محض خوشنودی خدا ورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاطر جان جوکھوں میں ڈالی ۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو لوہے کی زرہ پہنا کر گرم ریت پر ڈال دیا جاتا تھا اور دشمنان دین پہاڑوں کے تپتے ہوئے پتھروں پر حضرت کو گھسیٹتے تھے لیکن آپ کی زبان حقیقت بیان سے ہردم احد احد ہی آتا تھا ۔ اسی طرح حضرت صہیب رضی اللہ عنہ اور جناب یاسر رضی اللہ عنہ کو کفار انگاروں پر لٹاتے تھے ۔ ابو فکیہ کو گرم ریت پر گھسیٹ کر اذیت دیتے تھے مگر یہ عاشقان خداو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر مصیبت کو عزم واستقلال سے برداشت کرتے ۔حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت سمیہ کو اس ظالمانہ طریقہ سے ستایا کہ یہ مصائب جھیلتے ہوئے آپ کو اسلام کی پہلی شہیدہ کا اعزاز نصیب ہوا ۔اور ابوجہل نے برچھا مار کران کو سوئےرضوان الجنتہ روانہ کیا اسی طرح اور بھی متعدد نفوس مقدسہ تھے جنھوں نے ایثار کی تاریخ کو اپنے کارہائے نمایاں سے زینت بخشی ۔لیکن زمانہ کی طوطا چشمی یہ ہے کہ ان محسنین اسلام کا آج تذکرہ بھی

۶۵

نہیں کیا جاتا ہے ۔اور ان لوگوں کے صبح وشام ترانے گائے جاتے ہیں جن کا کبھی بال بھی بیگانہ ہوا۔زمانہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں تقسیم مال غنیمت کے وقت کے علاوہ کسی آڑے وقت کام نہ آئے اور جب حضور کا وصال ہوگیا تو اقتدار کا انتقال ان کے نام ہوا اس وقت بھی لوگوں نے تاج و تخت والوں ہی کو سلام کیا اور آج بھی کرسی سلام ہے ۔

لیکن ہم نے جن چار حضرات بابر کات کا تذکرہ اس کتاب میں کرنا ہے ان کا تعلق صحابہ کے اس طبقہ سے ہے جو اسلام کے اولین محسنوں کا ہے ۔ انھوں نے اسلام کی محبت میں نہ ہی اپنے رشتہ داروں کی پرواہ کی نہ ہی قبائلی تعلقات کو نظر میں لائے نہ ہی اسلام کی دولت ان کی آنکھوں میں گھومی اور نہ ہی حکومت کا خیال ان کے دل میں کبھی آیا۔ انھوں نے اپنے تن ،من،دھن ،اولاد ،خویش واقارب ،گھرباراور ہرشے کو صرف اورصرف دین کے لئے قربان کردیا دراصل کلام پاک میں جتنی آیات میں صحابہ رضوان اللہ علیھم کی تعریف ،مدح وتوصیف ہے ۔وہ سب کے سب اسی دور کے مسلمان تھے جو امتحانوں سے گزرے یا پھر بحیثیت مجموعی اس سماج کی تعریف ہے جو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بنایا تھا اور صحابہ اس پر نیک نیتی اور خلوص دل سے چلتے تھے ۔کوئی ایک آیت بھی قرآن میں ایسی موجود نہیں ہے کہ سب کے سب صحابہ فردافردا قابل تعریف تھے یا یہ کہ ان کی مذمت کرنا یا ان پر تنقید کرنا گناہ ہے اگر ہر صحابی کی مذمت کی ممانعت ہوتی تو بڑے بڑے جلیل القدر بعض دیگر صحابہ کی مذمت نہ کرتے

۶۶

قرآنی آیات کے علاوہ احادیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بھی صحابہ کے فضائل کی موید روایات ہیں ۔لیکن ان میں بھی کوئی صحیح حدیث ایسی ثابت نہیں کی جاسکتی ہے کہ ہر صحابی بلا لحاظ زہد وتقوی قابل احترام ہو۔ اہل سنت و صحابہ حضرات عموما ایک حدیث اکثر اپنے موقف کے حق میں پیش کرتے رہتے ہیں جس سے انفرادی مداح کاشبہ ہوتا ہے لیکن معمولی ساغور کرلینے پر اس شبہ کا ازالہ ہوسکتا ہے حدیث یہ ہے

"حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اصحاب کو برابھلا مت کہو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگوں میں سے اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اس کا ثواب میرے اصحاب میں سے کسی کے مد یا نصف مد کے برابر نہیں ہوگا "(صحیح ترمذی کتاب المناقب )

اس حدیث کے الفاظ سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول حاضر وموجود صحابہ کو پہلے دور کے صحابہ پر سب وشتم کرنے سے روک رہے تھے ۔حدیث میں خطابیہ عبارت "تم لوگوں میں سے " بعد کے دور کے صحابہ موجود کی طرف اشارہ ہے ۔اور "میرے اصحاب کو برا بھلا نہ کہو" میں غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے وہ اصحاب جن سے خطاب تھا اس کے مکمل مصداق نہ تھے بلکہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کےاصحاب ابتدائی دور کے تھے جن کی مٹھی بھر خیرات کوہ احد کے وزن کی مقدار سے افضل تھی ۔

٭٭٭

۶۷

اول یار رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیھما السلام

علامہ اہل سنت ابن عبد البر لکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل اور قاضی اسماعیل بن اسحاق اور امام احمد بن علی بن شعیب النساکی اور بو علی نیشاپوری کہتے ہیں کہ جس قدر جید سندوں کے ساتھ احادیث حضرت علی ابن ابی طالب کے حق میں مروی ہیں ویسے کسی ایک بھی صحابی کے حق میں نہیں ہوئیں

(استیعاب فی معرفتہ الاصحاب بذیل علی ابن ابی طالب)

اس کے علاوہ اگر جناب امیر علیہ السلام کی خصوصیات کو دیکھا جائے اور آپ کے امور کثرت ثواب کے اسباب پر غور کیا جائے تو جناب امیرالمومنین کے علاوہ بعد از رسول کوئی شخص افضل الناس یعنی خیرالبشر نظر نہیں آتا ۔لیکن اگر یہ خیال کیا جائے کہ کثرت ثواب کی وجہ سے افضل ہونا محض امر باطنی ہے تو اس کا ازالہ یوں ہوتا ہے کہ مولا علی کے" الاجمع بمزایا الفضل و الخلال الحمیدۃ "کی طرف نگاہ اٹھتے ہی یہ خیال رفع ہوجاتا ہے اور آپ سرکار کی افضلیت کا آفتاب یقین کی آنکھوں میں چمکتا نظر آتا ہے ۔کیونکہ فضیلت کی ہر قسم کے اعتبار سے جناب امیر افضل ترین دکھائی دیتے ہیں فضلیت نفسانی ،فضیلت جسمانی اور فضیلت خارجی غرضیکہ ہر طرح خلعت فضیلت صرف حضرت علی علیہ السلام ہی کو زیب دیتا ہے ۔ اور ان کے غیر کے لئے پورا نظر نہیں آتا ہے علاوہ دیگر خصوصیت کے

۶۸

زبان وحی بیان سے حضرت علی علیہ السلام کے ذکر عبادت ہونا ثابت ہے اسی طرح آنجناب کے دیدار کا عبادت ہونا وارد ہے نیز سرکار امیر علیہ السلام کی محبت کا عبادت ہونا ایسے فضائل ہیں کہ کسی دوسرے فرد کو اس میں حصّہ نہ مل سکا ۔اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کے حق میں وارد شدہ حدیثوں کے بارے میں محدثین کی رائے ہے کہ جناب امیر علیہ السلام ک مثل کسی نے اکتساب فضل نہیں کیا ۔آپ کے فضائل ومناقب کا لاتحصی ہونا فریقین میں مسلمہ ہے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ

"مجاہد کا قول ہے کہ حضرت ابن عباس سے ایک شخص نے کہا سبحان اللہ علی کے فضائل کس قدر زیادہ ہیں میرا خیال ہے کہ تین ہزار ہوں گے ۔حضرت ابن عباس نے جوابا فرمایا کہ تین ہزار کیا شے ہے تیس ہزار ہوں گے پھر ابن عباس کہنے لگے اگر دنیا کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر سیا ہی ہوجائیں اور انسان لکھنے والے ہوں جنات حساب کرنے والے ہوں تب بھی علی علیہ السلام کے فضائل کا احصی نہیں کرسکیں گے "

(ارجح المطالب بحوالہ سبط ابن جوزی ص ۱۲۳)

اسی طرح خوارزمی ، محمد بن یوسف کنجی شافعی حافظ ہمدانی جیسے جیّد علمائے اہل سنت نے حضرت علی بن حسین زین العابدین علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ اپنے والد مکرم سید الشہدا علیہ السلام اور اپنے جد امجد سید الاولیا علیہ السلام سے روایت فرماتے ہیں کہ حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میرے بھائی علی کے فضائل اس قدر ہیں جن کی کثرت کاشمار نہیں ہوسکتا ہے پس جو شخص اس کے فضائل میں سے کسی ایک فضیلت کو تسلیم کرکے اقراری ہوکر لکھے اللہ اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دے گا اور جب کوئی شخص اس (علی) کے فضائل میں سے کسی ایک فضیلت کو لکھتا ہے جب تک وہ لکھتا رہتا ہے فرشتے اس کے گناہوں کے لئے خدا سے مغفرت مانگتے رہتے ہیں اور جو شخص اس (علی) کے فضائل میں سے کسی ایک فضیلت کو سنتا ہے تو خداوند تعالی اس کے گناہ جو کہ ان سے اپنے کانوں کے ذریعہ سے نا جائز کلام سننے کے لئے ہیں بخش دیتا ہے ۔

۶۹

اور جو شخص اس(علی) کے فضائل میں سے کسی ایک فضیلت کی طرف نگاہ کرتا ہے تو رب غفار اس کے وہ گناہ جو کہ اس نے اپنی آنکھوں سے بذریعہ ناجائز نگاہ کرنے کے کئے ہیں بخش دیتا ہے پھر سرکار دوعالم نے ارشاد فرمایا کہ علی ابن ابیطالب کی طرف دیکھنا عبادت ہے اس (علی) کا ذکر بندگی ہے ۔ خدائے تعالی کسی شخص کا ایمان قبول نہیں کرتا مگر علی کی ولایت اور اس کے دشمنوں سے برائت ہونے کے وجہ سے (ارجح المطالب ص ۱۲۴)۔

ملا علی متقی حسام الدین نے "کنزل العمال" میں اور دیلمی نے" فردوس الاخبار" میں حضرت عایشہ سے روایت لکھی ہے کہ "ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رصی اللہ تعالی عنھا سے مروی ہے میں (عائشہ) نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے تمام بھائیوں میں سے بہتر علی ہیں اور تمام چچوں سے بہتر حمزہ ہیں اور علی کا ذکر عبادت ہے

(ارجح المطالب ص ۱۲۱)

۷۰

"امام طبرانی نے تخریج کی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ،کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی شخص نے علی کی مثل فضل کا اکتساب نہیں کیا ۔وہ(علی) اپنے دوست کو ہدایت کی راہ دکھاتا ہے اور برائی سے پھیرتا ہے

(ارجح المطالب ص ۱۲۳)

شہادت حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بعد حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام نے منبر پر ایک خطبہ ارشاد فرمایا ۔جیسے امام احمد ،امام نسائی وغیرہ نے نقل کیا ہے ۔ امام طبرانی نے معجم الکبیر میں اور امام طبری نے اپنی تاریخ میں بھی یہ خطبہ لکھا ہے جس میں سبط اکبر علیہ السلام نے لوگوں سے فرمایا کہ "اے لوگو! تم سے آج ایک ایسا مرد جدا ہوگیا ہے (یعنی علی)کہ پہلے لوگ اس(علی) سے کسی بات میں بڑے ہوے نہیں تھے اور پچھلے ان تک نہیں پہنچ سکیں گے "

(ارجح المطالب ص ۱۲۳)

پس ایسے یار رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فضائل ومناقب بیان کرنا انسانی بساط سے باہر ہے محض حصول ثواب اور زاد راہ آخرت کی خاطر ہم سرکار امام المتقین سید الاوصیا ء ،یعسوب الدین حضرت علی علیہ السلام کی چند خصوصیات نقل کرتے ہیں جو کسی غیر کو حاصل نہیں ۔

۱:- علامہ ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ لکھا ہے کہ ابن عباس سے روایت ہے کہ جناب علی کی اٹھارہ منقبتیں ایسی ہیں جو امت کے کسی فرد کو بھی حاصل نہیں ۔

۲:- حافظ ابو نعیم نے حلیۃ المتقین میں حضرت ابن عباس

۷۱

سے لکھا ہے کہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب امیر علیہ السلام سے ایسے پوشیدہ عہد فرمائے جو ان کے سوا کسی دوسرے شخص سے نہیں کئے۔

۳:- صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ ، سے مروی ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علی کو پانچ باتیں ایسی عطا ہوئی ہیں کہ میرے نزدیک وہ دنیا و مافیھا سے بہت محبوب ہیں ۔

۱:-قیامت کے دن وہ (علی) میرا تکیہ ہوگا جب تک کہ میں (رسول) حساب سے فارغ ہوجاؤں۔

۲:- لواء الحمد اس(علی) کے ہاتھ میں ہوگا ۔حضرت آدم اور اولاد آدم اس جھنڈے تلے ہوں گے ۔

۳:- وہ میرے حوض(کوثر) کے اوپر کھڑا ہوگا جس کو میری امّت میں پہچانے گا اسے سیراب کرے گا۔

۴:_ میری وفات کے بعد میرا پردہ دار ہوگا اور مجھے میرے پروردگار کے سپرد کرے گا ۔

۵:- مجھے اس کی نسبت یہ خوف نہیں ہے کہ وہ پارسا ہونے کے بعد زنا کا مرتکب ہو۔ اور ایمان لانے کے بعد پھر کافر ہو ۔

(مسند امام احمد بن حنبل بحوالہ ارجح المطالب ص ۸۵۴)

۴:- حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی چار خصلتیں ایسی ہیں کہ کسی ایک کی بھی نہیں ۔

ا:- وہ (علی) تمام عربی وعجمی لوگوں سے پہلے ہیں جنھوں نے آنحضرت کے ساتھ نماز ادا فرمائی ۔

۷۲

ب:-وہ(علی) ایسی ہستی ہیں کہ حضور کے تمام جہادوں میں آنحضرت کا علم انھیں (علی) کے ہاتھ میں رہا ہے ۔

ج:- وہ(علی) ایسے ہیں کہ اس روز (احد کے دن) حضور کے پاس سے لوگ بھاگ گئے مگر آپ(علی) حضور کے ساتھ صبر کئے ہوئے احد کے مقام میں ڈٹے رہے ۔

د:-آپ (علی) ہی وہ ہیں جنھوں نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا اور لحد میں اتارا ۔(ارجح المطالب ص ۸۵۳)

ابو سعید الخدری نے" شرف النبوۃ "میں ،دیلمی نے فردوس الاخبار میں اور مسند امام رضا علیہ السلام میں لکھا ہے کہ

"ابو الحمراء رضی اللہ عنہ ، سے روایت ہے کہ رسالت مآب صلّی اللہ علیہ وآلہ نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ تجھے تین ایسی باتیں دی گئی ہیں کہ کسی ایک کو بھی نہیں دی گئیں حتی کہ مجھے (رسول خدا( ص) کو) بھی نہیں دی گئیں ۔

۱:- تجھے مجھ (رسول) جیسا خسر دیا گیا اور مجھے مجھ جیسا خسر نہیں دیا گیا ۔

۲:- تجھے میری بیٹی جیسی صدیقہ زوجہ ملی اور مجھے ویسی بیوی نہیں ملی

۳:-حسن اور حسین علیھما السلام جیسے بیٹے تیری پشت سے تجھے دیئے گئے ہیں میری پشت سے مجھے ویسے نہیں دیئے گئے

مگر تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ۔

(نوٹ ) یہ حدیث پیغمبر مسئلہ تعداد بنات رسول میں حکم فیصل کا درجہ رکھتی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و

۷۳

آلہ وسلم سوائے جناب امیر علیہ السلام کے کسی دوسرے شخص کے خسر نہ تھے ۔

یحیی بن عوف اور عمروبن میمون سے مروی ہے کہ میں ایک دن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ، کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ نو آدمی آئے ۔اور ابن عباس سے کہنے لگے تمھارا جی چاہے تو ہمارے ساتھ چلو یا پھر ان لوگوں سے الگ تنہائی میں بات سن لو۔ان دنوں ابن عباس تندرست تھے ان کی آنکھیں نہیں گئی تھیں انھوں نے کہا میں تمھارے ساتھ چلتا ہوں بعد اس کے ان کے ساتھ جاکر کچھ علیحدہ باتیں کیں ۔ میں (راوی) نہیں جانتا کہ ان لوگوں نے کیا کہا ۔جب ابن عباس پلٹ آئے تو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے کپڑے جھاڑتے ہیں اور اف و تف ان لوگوں پر کرتے ہیں اور (ابن عباس کہنے لگے یہ لوگ ایسے شخص کے پیچھے پڑے ہیں کہ جن کو اللہ تعالی نے دس (خصوصی ) باتیں دی ہیں (مگر یہ لوگ) اور ایسے شخص کو برا کہتے ہیں کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جو اللہ کو اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے اور اللہ اور رسول اس کو دوست رکھتے ہیں اللہ اس کو رسوا نہیں کرے گا ۔پس لوگوں نے اس کی طرف (یعنی جھنڈے (علم)کی طرف )جھانکا ۔حضور نے فرمایا ۔علی کہاں ہے ؟ عرض کیا گیا کہ وہ (علی) چکی پیس رہے ہیں ۔اور کوئی شخص ان سے پیشتر چکی نہیں پیستا تھا ۔پس آنحضرت نے ان(علی) کو بلوایا اور ان کی آنکھوں میں آشوب تھا کہ وہ کچھ نہیں دیکھ سکتے

۷۴

تھے حضور نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگا یا اور تین مرتبہ علم کو جنبش دے کر علی علیہ السلام کو دے دیا پس انھوں نے خیبر کو فتح کیا اور صفیہ بنت حی بن اخطب کو لے آئے ۔

اور ایک مرتبہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ،کو سورہ توبہ دے کر بھیجا اور بعد اس کے علی کو ان کے پیچھے روانہ کیا پس انھوں نے وہ سورت ابو بکر سے لے لی اور آنحضرت نے فرمایا اس سورت کو نہیں کوئی لے جا سکتا مگر اس شخص کے سوا جو میرے اہل بیت میں سے ہو ۔اور وہ مجھ سے ہو اور میں اس سے ہوں ۔اور ایک مرتبہ حضرت نے حسنین اور علی اور فاطمہ علیھم السلام کو بلا ان کے اوپر چادر اڑاھادی اور فرمایا خداوندا یہ میرے اہل بیت اور میرے خاص ہیں ۔تو ان سے نجاست دور رکھ اور ان کو پاک رکھ جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے ۔اور حضرت علی علیہ السلام ،حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا کے بعد سب سے پہلے اسلام لائے ۔اور ہجرت کی رات کو حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا لباس زیب تن فرما کر بستر رسول پر سورہے ۔ اور کفار یہ جانتے رہے کہ یہ (علی)رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورہے ہیں ۔بعد ازاں ابوبکر رضی اللہ عنہ ،آئے اور حضور کو پکار ا جناب امیر علیہ السلام نے جواب دیا کہ رسول خدا بیر میمون کی طرف تشریف لے گئے ہیں تم بھی ان کے پیچھے چلے جاؤ ۔پس وہ حضرت کے ساتھ غار میں دا خل ہوگئے اور مشرکین حضرت علی علیہ السلام کو صبح تک پتھر مارتے رہے اور آنحضرت جب غزوہ تبوک میں لشکر لے چلے علی علیہ السلام نے عرض کیا کہ میں بھی رکاب سعادت میں چلوں آپ نے فرمایا نہیں ۔حضور نے ارشاد فرمایا کہ تم راضی

۷۵

نہیں ہو کہ میری طرف سے تم ایسے مرتبے پر رہو جس مرتبہ پر ہارون موسی کی طرف سے تھے ۔فقط اتنا فرق ہے کہ تم نبی نہیں ہو ۔پھر ارشاد فرمایا تم سب مومنین میں میرے بعد میرے خلیفہ ہو ۔اور حضور کے حکم سے علی کے دروازہ کے سوا مسجد کے سب دروازے بند کرادئیے گئے اور علی بحالت جنب مسجد میں داخل ہوتے تھے وہی ان کا راستہ تھا اس کے سوا ان کا دوسرا راستہ نہیں تھا اور فرمایا حضرت نے جس کا میں ولی ہوں اس کا علی ولی ہے ۔

(اخرجه احمد و النسائی و ابن جریر الطبری و ابو یعلی و الحاکم و الخوارزمی و ابن عساکر و ابن ابی یو سف الکنجی فی کفایت المطالب و محب الطبری فی الریاض النفرة النفرة وجلال الدین السیوطی فی الجمع الجوامع بحواله ارجح المطالب ص ۸۵۱ مولوی عبید الله بسمل )

حضرت مظہر العجائب علیہ السلام کی تو صیف کہاں اور مجھ گنہگار کی استطاعت بیان کہاں ۔زمین وآسمان سے بھی زیادہ فرق ہے صرف اظہار عقیدت ہوسکتا ہے ۔وہ بھی ادھورا ۔اگر حسن عقیدت سے قطع نظر کرکے تھوڑی دیر کے لئے بنظر انصاف دیکھا جائے تو یہ رائے قائم کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آسکتی ہے کہ جس جلیل الشان یارنبی کا تذکرہ ہم کر رہے ہیں وہ صرف مذہبی پیشوا ہی نہیں بلکہ سلطنت کے تاریخی آسمان کا آفتاب ہے ۔دنیا میں جتنے بھی مشاہیر گزرے ہیں اور جس کی سوانح عمر یاں آب زر سے لکھی گئی ہیں ان میں سے سرکار امیر المومنین علیہ السلام ایسے فرد الافراد ہیں کہ ہر طبقہ کے مشاہیر میں سرآمد نظر آتے ہیں ۔

۷۶

مجمع سلاطین میں آب جلال الہی کا تا ج سر پر سجائے العلی سلطانا نصیرا ہیں ۔میدان کار زار میں آج تک نعرہ حیدری کی آواز گونجتی ہے ۔منبر کو آپ کی خطابت وفصاحت وبلاغت پر ناز ہے ،علم وفضل کی بھیک آپ کے دروازے ہی سے ملتی ہے ،ایسے سراپا علم ،حکمت وعلیم ہیں کہ انبیا ئے بنی اسرائیل کی شریعت کے رموز کو یونانی فلسفہ کے ساتھ بنی اسماعیل کی زبان میں بیان فرماتے ہیں ۔ہرساعت ان کی درسگاہ میں "سلونی سلونی "کی دعوت عام جاری ہے ۔مسند فقر پر آپ ایک منکسر المزاج فقیر ہیں اور چار بالشت امارت پر آپ ذی شوکت امیر ہیں ۔عدالت میں آپ نے نوشیروان کو بھلا دیا ۔شجاعت میں رستم کے نام کو زیر فرمایا ۔سخاوت میں حاتم کو شرمندہ کردیا ۔شہامت میں اپنا لوہا منوایا الغرض ایسے صفات میں متضادہ کابشر ابو البشر کی اولاد میں کوئی پیدا نہ ہو سکا ۔ان ہی کی صفات متضادہ اور متقابلہ سے دنگ رہ کر نصیریہ نے آپ کو خدا مان لیا ۔صوفیا ء نے خدا جانے کیاجان لیا مگر یہ حق ہے

ذات حیدر کو کوئی کیا جانے

یا نبی جانے یا خدا جانے

گنہگار وعاجز میں ایسی استطاعت کہاں او ر احقر کی بساط کیا کہ مولائے کائنات ،فخر موجودات ،استاد جبرئیل ،حاکم میکائیل مولائے اسرافیل ،ولی عزرائیل ،امام الملائکہ ،اسدا للہ ،حجۃ اللہ ،صفوۃ اللہ ،سیف اللہ ، وجہ اللہ، امیر المومنین

۷۷

امام المتقین ،سید الصادقین ،قائد الغر المحجلین ،یعسوب الدین ، صدیق الاکبر ،فاروق الاعظم ، خیر الوصیین ، شیخ الانصار و المهاجرین ،صالح المومنین ،قاتل الناکثین ، والقاسطین والمارقین ،غالب کل غالب ،ابو الریحانتین ،نفس الرسول ،زوج البتول ،منار الایمان ،کل ایمان ،قسیم النار والجنه ،مشکل کشا ،کاسر اصنام الکعبه ، مظهر العجائب والغرائب ،سیدنا ،مولانا ، حبیبنا ، وحبیب ربنا و رسولنا، ابو الحسن حضرت علی ابن ابی طالب علیه الصلواة والسلام کی توصیف بیان کرسکوں ۔جبکہ یہ کام فرشتوں سے بھی پو را نہ ہوا کہ ہر ساعت مباہات میں مصروف ہیں ۔کہاں مولا کے مناقب کا سمندر جہاں بڑے بڑے مشاق تیراک ہاتھ پیر مارتے نظر آتے ہیں مجھ جیسے اناڑی کی کیا مجال ہوسکتی ہے بس یہ مولا ہی کی توفیق ہے کہ ا س کی محبّت میں مست ہوں اور آپ ہی سے اپنے گناہوں کی شفاعت کا امید وارہوں ۔ نگاہ کرم کا مشتاق ہوں ۔میری لغزشیں یہ بھی اجازت نہیں دیتی ہیں کہ رب العزت کی جناب میں عفو تقصیرات کی التجا کروں مگر وصی رحمۃ للعالمین کی رحمت سے ہرگز مایوس نہیں ہوں ۔

کیونکہ یہ وہ در ہے جہاں دربدر کے ٹھکرائے ہوئے کو پناہ ملتی ہے اصل درپر کبھی کوئی گداگر نامراد واپس نہیں ہوا ہے ۔انسان تو رہے ایک طرف یہ درفرشتوں کا بھی آزمایا ہوا ہے ۔پس اے صاحب درحیدر !آپ ہی کے گھر سے ملی ہوئی بھیک کے یہ چند موتی آپ کی بارگاہ میں پیش کررہا ہوں ۔صدیق امت حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ ،سلمان آل محمد رضی اللہ عنہ

۷۸

مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ ،کے صدقہ میں میرا یہ نذرانہ قبول فرمائیں ۔یہی شرف میرے گناہوں کی شفاعت کے لئے سفارش ہے

مسرّت ہے شاہ نجف کی غلامی

زہے کا مرانی ،زہے شادمانی

ملے مجھ کو بھی مثل سلمان وبوذر

وہی خواجہ تاشی وہی نیک نامی

وہ بے خوف وغم کیوں نہ ہو ،بن گئے ہوں

حقیقت میں شیر خدا جس کے حامی

پہنچ کر درشاہ مرداں پہ اکثر

خصوصی شرف پاگئے ہم سے عامی

(حسرت موہانی)

ہم فاروق اعظم اہل سنت حضرات عمر بن خطاب کے اس قول پر اپنے اس بیان کو ختم کرتے ہیں کہ حضرت عمر باوجود ہزاروں اختلافات کے فرمایا کرتے تھے

"اب یہ نا ممکن ہے کہ کوئی ماں علی جیسا مولود پیدا کرسکے "(مناقب خوارزمی)

٭٭٭٭٭

۷۹

دوم یار نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت ابوذر الصدیق رضی اللہ عنہ

حضرت ابوذر غفاری رحمت اللہ علیہ اسلام کی ایسی عظیم شخصیت ہیں جنھوں نے اسلام نظریات کی ہر قدم پر جان جوکھوں میں ڈال کرحفاظت ونصرت فرمائی ۔آپ دین حق کے نڈر سپائی ،بے باک مبلغ ،عزم واستقلال کے پیکر مظلوم صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے۔ آپ کبھی لذت غم وشدائد کو عارضی خوشیوں کے ہاتھوں فروخت نہ فرمایا ۔آپ کے حوصلہ منداور جراءت افزاء جذبات ایمانی بڑی بڑی آزمائش میں غالب نظر آتے ہیں ۔اس میں شک نہیں اس حق گو اور صدیق امت ہستی کو اشاعت حق کی بھاری قیمت اداکرنی پڑی لیکن ایک لمحہ کے لئے بھی یہ سرفروش اسلام باطل کے سامنے سرنگوں نہ ہوا ہر طرح کی مصیبت کو ہنسی خوشی قبول کیا لیکن سچ کو آنچ نہ آنے دی ،عشق دین الہی کی مستی میں جابرسلطان سے ٹکراجانے والے اس بہادرصحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوجس طرح اس کی زندگی میں نشانہ ظلم وجور بنا گیا بعد ازوقت بھی ان سے بغض وکینہ کے تیز ہتھیاروں سے انتقام لینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی ۔قصیدہ خوانان حکومت نے آپ کے تاریخ وجود کے نقش ونگار کو محض حکمرانوں کی محبت وعقیدت میں دھندلاکر نے کی تمام کوششیں صرف کیں کبھی اس بزرگ عظیم کو اس کے آقا ومولا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

۸۰