چار یار

چار  یار0%

چار  یار مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں
صفحے: 180

چار  یار

مؤلف: عبد الکریم مشتاق
زمرہ جات:

صفحے: 180
مشاہدے: 43587
ڈاؤنلوڈ: 2579

تبصرے:

چار یار
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 43587 / ڈاؤنلوڈ: 2579
سائز سائز سائز
چار  یار

چار یار

مؤلف:
اردو

کی طرح مجذوب ومجنون کہا گیا ،کبھی عذر پیری تراش کر اس کامل ہستی کے ادراک وفہم مصطفی پر رکیک حملے کئے گئے اور ستم بالائے ستم یہ کہ آج کے زمانے میں اہل قلم نے ان کو اشتراکیت کا بانی قرار دینا شروع کردیا ہے ،مارکسی نظریہ کا خالق سمجھا جانے لگا ہے ،مسلمانوں کی اس فرزند اسلام سے چشم پوشی یقینا اہل درد کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے کہ اہل علم وقلم احباب نے اس بطل جلیل زعیم عظیم یا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علیم سے یہ غیر منصفانہ صرف نظر کیوں روا رکھا ۔خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ راقم ناتواں کو یہ سعادت نصیب ہو رہی ہے کہ اس مومن کامل،عاشق آل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،محبوب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورحبیب رب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،نجم ہدایت یار نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اپنے عقیدت مند جذبات کا اظہار پیش کروں ۔میں کوشش کروں گا کہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کے خصوصی حالات پر مختصر مگر سیر حاصل روشنی ڈالوں کہ آپ کی علمی حیثیت اسلامی ،اقتصادی نظریہ ،فضائل ومناقب اور حالات مصائب سے عبوری واقفیت ہوجائے نیز اس شبہ و الزام کا بھی ازالہ ہو جائے کہ جناب ابوذر رضی اللہ عنہ اشتراکیت یا کمیونزم جیسے لغو نظریات کے خالق تھے ۔حالانکہ آپ خالص توحید پرست ،کٹر مومن اور حقیقی عاشق رسول واہلبیت رسول علیھم السلام تھے ۔ ان کے جسم مبارک کے ایک ایک قطرہ خون میں محبت اہل بیت (ع) رچی بسی تھی ان کے رگ وپے میں مؤدت والفت کا خون دوڑ رہا تھا وہ ثقلین رسول کے نظریہ پر ایمان رکھتے تھے اور انھیں کے نقش قدم پر دوڑتے تھے ۔حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے مطیع وپیروکار تھے اور ان ہی کے سکھائے ہوئے نظریات کا پرچار کیا کرتے تھے ۔اور یہی وجہ

۸۱

تھی جس کی پاداش میں انھیں سکھ کی سانس لینا نصیب نہ ہوسکا محبت دین کے جنون حقیقی میں انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام سے ٹکرلی اور انتہائی بے جگری سے مقابلہ کیا ۔ کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لائے اور جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کا واشگاف اعلان فرما کر جہاد الکبیر فرماتے رہے ۔اصولوں پر کسی سودا بازی پر امادہ نہ ہوئے اور صداقت کی راہ میں کھڑی ہوئی ہر دیوار سے ٹکراگئے ۔آپ نے استبدادی قوتوں کا مردانہ وار مقابلہ فرمایا ۔

اور آئین وفا کی ہر شق کے پابند رہے ۔حتی کہ آج ابوذر کی صداقت دہریوں اور بے دینوں نے بھی تسلیم کرلی ۔اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے کہ

گماں آباد ہستی میں یقین مرد مسلمان کا ----- بیاں باں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی

مٹایا قیصر وکسری کے استبداد کو جس نے ----- وہ کیا تھا‏؟ زور حیدر ،صدق بوذر فقر سلمانی

نام ونسب وحلیہ:-

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ میرا اصلی نام جندب بن جنادہ ہے لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میر ا نام عبداللہ رکھا ہے اور یہی نام مجھے پسند ہے چونکہ آپ کے فرزند اکبر کا نام" ذر" تھا لہذا جناب کی کنیت "ابوذر" تھی ۔ذر کے لغوی معنی خوشبو اور طلوع وظہور کے ہیں ۔

آپ جنادہ بن قیس ابن صغیر بن حزام بن غفاری کے چشم وچراغ تھے آپ کی والدہ محترمہ رملہ بنت ورفیعہ غفاریہ تھیں ۔آپ عربی النسل اور قبیلہ غفار سے تھے اسی لئے آپ کے نام کے ساتھ "غفاری" لکھا جاتا ہے ۔آپ گندمی رنگت کے طویل القد انسان تھے ،نحیف الجسم تھے ۔آپ کا چہرہ روشن تھا اور کنپٹیاں دھنسی ہوئی

۸۲

تھیں کمر خمیدہ ہوگئی تھیں ۔

عہد جاہلیت کے مختصر حالات :-

حضرت ابوذر غفاری رحمۃ اللہ علیہ کے قبل از اسلام کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ وہ دین اسلام سے نابلد تھے تاہم توفیق الہی نے اس وقت بھی انھیں وحدانیت کے نور سے منور کر رکھا تھا اس پرشرک زمانے میں بھی آپ توحید خداوندی کا تصور اپنے روشن قلب میں رکھتے تھے ۔انھوں نے خود اپنے ایک بھتیجا پر اس بات کا انکشاف فرمایا کہ ملاقات رسول سے تین برس پہلے انھوں نے خدا کی نماز ادا فرمائی اور بت پرستی سے اکثر اجتناب برتا ۔اس کی دجہ خود امام صادق علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جناب ابوذر اکثر تفکر خالق میں رہاکرتے تھے اور ان کی عبادت کی بنیاد تفکر خداوندی پر تھی ابن سعد نے اپنی طبقات میں اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ بات نقل کی ہے چنانچہ مولوی شبلی نعمانی اپنی سیرت النبی میں تحریر کرتے ہیں کہ ابوذر بت پرستی ترک کرچکے تھے ۔اور غیر معین طریقے سے جس طرح ان کے ذہن میں آتا تھا خدا کا نام لیتے تھے اور نماز ادا کرتے تھے جب حضور کا چرچا سنا تو اپنے بھائی کو آپ کی خدمت میں صحیح صورت حال معلوم کرنے کے لئے روانہ کیا جو آنحضرت کی خدمت میں آیا اور قرآن شریف کی کچھ سورتیں سنکر واپس جاکر ابو ذر سے کہا کہ میں نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جسے لوگ مرتد کہتے ہیں وہ مکارم اخلاق سکھا تا ہے اور جو کلام وہ سنا تا ہے وہ شعر وشاعری نہیں بلکہ کچھ اور ہی چیز ہے تمھارا طریقہ اس سے بہت ملتا جلتا ہے ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سخت قحط پڑا قبیلہ غفار کے گمان میں

۸۳

یہ خشک سالی ان کے بت معبودوں کی ناراضگی کے باعث تھی چنانچہ سرداران قوم نے فیصلہ کیا کہ بتوں کو راضی کیا جائے ۔انھوں نے "منات " بت کو منانے کے لئے طرح طرح کی قربانیاں دی اور خوب انکساری سے گڑاگڑا کر دعائیں مانگیں مگر ایک قطرہ بارش بھی نہ ٹپکا ۔حضرت ابوذر کے بھائی انیس ان کو بھی زبردستی منات کی پو جا کے لئے لے آئے تھے اور ان کی بے رغبتی دیکھکر بار بار ان کو بتوں کی توصیف سناتے اور ان سے خوف زدہ کرتے مگر آپ سنی ان سنی کرئے رہتے ان ہی قصہ کہانیوں میں کچھ ایسے قصے بھی آئے کہ لوگوں نے بتوں کی گستاخیاں کیں مگر ان کا بال تک بیکا نہ ہوا ۔حضرت ابوذر اپنے تفکرات میں کھوئے ہوئے یہ سب باتیں سنتے رہے حتی کہ لوگوں کو نیند آگئی مگر ابوذر بیدار رہے ۔اور سوچنے لگے کہ "منات" آخر ایک پتھر کا صنم ہی تو ہے ۔ جو نہ ہی ہدایت دے سکتا ہے اور نہ ہی گمراہ کرسکتا ہے ۔آپ چپکے سے اٹھے اور منات کو ایک پتھر مار ا۔منات ٹس سے مس نہ ہوا ۔پس ابوذر نے من میں کہا ۔"تو عاجز ہے قادر نہیں ،مخلوق ہے خالق نہیں ،نہ تجھ میں طاقت ہے نہ قوت تو ہرگز لائق عبادت نہیں ہوسکتا ۔بے شک میری قوم کھلی گمراہی میں ہے کہ تجھ پر قربانیاں چڑھاتے ہیں اور جانور ذبح کرتے ہیں "اسی تصورمیں آپ سوگئے ۔جب صبح طلوع ہوئی تو منات کے پجاری پھر اس کے گرد طواف کرنے کے لئے جمع ہوئے مگر ابوذر عجیب کیفیت میں اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر آسمان کی بلندی کی طرف عالم تصور میں ڈوب گئے ۔اور اجرام فلکی کی تخلیق میں غور فکر و تامل میں غرق رہے ۔ حتی کہ اطمینان قلب حدیقین تک آپہونچا ۔لوگ طواف کر کراکے

۸۴

روانہ ہوگئے اور جناب ابوذر کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ۔قافلہ چلتا رہا ۔ابوذر دریائے فکر میں غوطہ زن رہے ۔پہاڑوں کو دیکھتے تو خالق کی صناعی پر غور فرماتے ،زمین کی وسعت ،آسمان کی بلندی ،خلقت انسانیہ ،چاند ،سورج اور تارے آخر کوئی تو ان سب کا بنانے والا اور انتظام کرنے والا ہے ۔ اسی سوچ وبچار میں گھر آپہنچے تو سیدھے لیٹ گئے دل ہی دل میں کہا " بے شک آسمان کا پیدا کرنے والا آسمان سے بڑا ہے اور انسان کا خالق انسان سے بڑا ہے اس دنیا کو بنانے والا یقینا بہت ہی بڑا ہے وہی عبادت کے لائق ہے منات نہیں ، نہ لات وعزی ،نہ اساف ونائلہ اور سعد بلکہ صرف اسی کی ذات عبادت کے قابل ہے وہی خالق بدیع مصور وقادر ہے اور یہ بت محض پتھر ہیں جن میں نہ قدرت ہے نہ طاقت ۔پس اسی حالت یقین میں آپ سجدہ ریز ہوئے دل کو تسلی محسوس ہوئی اوراسی کیفیت میں آپ محوخواب ہوگئے ۔جب صبح اٹھے تو خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگے ۔اسی حالت میں حضرت کے بھائی انیس آئے تو ابوذر کو مؤدت انداز میں کھڑا پایا ۔ دریافت کیا کہ کیا ہورہا ہے جوابا فرمایا کہ اللہ کے لئے نماز پڑھ رہا ہوں ۔ انیس حیران ہوکر پوچھا کون اللہ؟۔نماز تو صرف منات یا نہم کے لئے ہے ۔آپ نے فرمایا میں کسی بت کی نماز نہیں پڑھتا بلکہ میں نے ایسے معبود کی معرفت پائی ہے جو تمھارے خداوؤں جیسا نہیں وہ عظیم ہے قادر مطلق ہے ۔عقل اس کو پانے سے قاصر ہے بس وہ ایک حقیقی طاقت ہے جسکی میں تعظیم کرتا ہوں انیس نے دریافت کیا اے میرے بھائی کیا ایسے خدا کی پرستش کرتا ہے جسے نہ تو

۸۵

دیکھ سکتا ہے نہ پاسکتا ہے ۔یہ عجیب حرکت ہے کہ تو اپنے سامنے کھڑے معبودوں کو چھوڑ رہا ہے جنھیں تو جب چاہے دیکھ لے اور جب مرضی پالے ۔جناب ابوذر نے فرمایا ۔اگر چہ میں اپنے معبود کو پا نہ سکا تاہم میں نے اس کی قدرت کی نشانیاں مشاہدہ کرلی ہے ۔یہ پتھر کے معبود تو گنگے ،بہرے اوراندھے ہیں نہ ان کو نفع پر اختیار ہے نہ نقصان پر۔انیس نے کہا کیا تو ہمارا اور اپنے اجداد کا مذاق اڑا رہا ہے ؟ جناب ابوذر نے جواب دیا کہ اے انیس ! میری کیاخطا ہے ! اگر میرے اسلاف غلطی پر تھے ، تمھارا دین مکڑی کے جالے کی تا ر سے بھی کمزور ہے ۔ذرا سوچ کر کہو کہ ہم میں سے جب کوئی سفر کرتا ہے اور قیام کرتا ہے تو دوچار پتھر جمع کرتا ہے جو پتھر اچھا لگتا ہے اس کو خدا بنالیتا ہے اور باقی سے چھو لھا بنا لیتا ہے ۔ذرا ہوش سے جواب دو کہ یہ پتھر کیسے معبود ہوسکتے ہیں ہمیں بھلا لگا تو عبادت کے لائق ہوگیا اگر بھائے نہیں تو آگ کے حوالے ۔یہ بڑی عجیب وغریب بات ہے ۔ انیس نے کہا کہ ہم تو بحالت سفر اس لئے کرتے ہیں کہ ہم کعبہ پر بھی ایسا ہی کرتے ہیں چنا ہو اپتھر کوئی اپنی ذات کی بنا پر تو نہیں پوجا جاتا بلکہ اساف ونائلہ (بت) کے قائم مقام کرکے پوجا جاتا ہے جوکعبہ میں رکھے گئے ہیں ۔جناب ابوذر جوش میں آئے اور فرمایا کہ اساف اور نائلہ دو زانی تھے کیا تم زانی کی عبادت کو پسند کرتے ہو ۔قصہ یوں ہے کہ اساف نائلہ پر عاشق تھا دونوں بغرض حج کعبہ آئے اور لوگوں کو غافل پاکر وہاں زنا کیا اسی وقت مسخ ہوکر پتھر بن گئے ۔اور بعد میں لوگوں نے ان کو پوجنا شروع کردیا انیس کو یہ بات ناگوار ہوئی اور کہا کہ تو پھر ان نشانیوں کے بارے میں تو کیا کہتا ہے

۸۶

جو ان سے ظاہر ہوئیں ۔ابوذر نے فرمایا ان سے تو کچھ بھی ظاہر وصادر نہ ہوسکا اور نہ ہوسکتا ہے ۔کیونکہ ان میں تو کچھ طاقت ہی نہیں ہے ابھی کا ہم منات کو منانے کے لئے گئے کہ وہ بارش برسائے اتنی منتیں سماجتیں کی گئیں مگر ایک بوند پانی بھی نہ بر سا ۔پس انیس نے کھسیا نہ ہو کر کہا کہ چپ رہ تو ہمارے دل میں شک ڈالنے لگا ہے مجھے خدشہ ہے کہ کہیں میں بھی تیرے عقیدے کی طرف مائل نہ ہوجاؤں ۔حضرت ابوذر نے تبسم فرمایا کہ میں تو یہی چاہتا ہوں کہ تم بھی ان بتوں سے تنگ آکر خالق ارض وسما کی طرف مائل ہوجاؤ ۔انیس نے کہا کہ کیا دین چھوڑنا اتنا آسان ہے کہ جتنا پرانا لباس اتارا دینا ؟ابوذر نے فرمایا ہاں انیس جبکہ یہ دین پھٹے پرانے کپڑے کی مانند ہے تو یہ بات ہمارے لئے یقینا آسان ہے ۔ اسی اثنا ء مین ان کی والدہ تشریف لاتی ہیں اور بچوں کو کہتی ہیں کہ ہم اس قحط سالی سے سخت تنگ آگئے ہیں لہذا تمھارے ماموں کے گھر چلتے ہیں حتی کہ "اللہ تعالی"حالت بدل دے چنانچہ یہ سفر پر روانہ ہوئے اور حسب عادت حضرت ابوذر اپنے خیالات میں مصروف غور رہے ۔چند روز انھوں نے اپنے ماموں کے گھر گزارے مگر ایک شرارت کے تحت ان کو مجبور ا یہ گھر چھوڑنا پڑا کیونکہ کسی بد بخت نے ان کے ماموں کو ورغلادیا کہ اس کا بھانجہ انیس اپنی ممانی پر فریفتہ ہے ۔حضرت ابوذر نے مقام "بطن مرو" میں رہائش اختیارفرمائی اور ایک روز بکریاں چرا رہے تھے کہ اچانک ایک بھیڑیا نمودار ہوا اور اس نے آپ کی داہنی طرف حملہ کردیا ۔جناب ابوذر نے اپنے عصا سے اسے بھگایا اور غصہ میں فرمایا "میں تجھ سے زیادہ خبیث برا بھیڑیا آج تک نہیں دیکھا "۔بااعجاز خداوندی بھیڑئیے کو قوت

۸۷

گویائی ملی ۔اور اس نے کہا " خدا کی قسم مجھ سے کہیں زیادہ بدتر "اہل مکہ "ہیں کہ خداوند نے ان کی طرف ایک نبی مبعوث فرمایا ہے اور وہ لوگ اس کو دروغ گو کہتے ہیں اور اس کے حق میں ناحق کلمات نا سزا استعمال کرتے ہیں " یہ آواز سنتے ہی حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے دل میں جستجو ئے حق کا جذبہ اور فروغ پاگیا چنانچہ بلا تاخیر انھوں نے اپنے بھائی انیس کو نبی مبعوث کے حالات معلوم کرنے کے لئے روانہ کردیا جب انیس واپس آئے تو جناب ابوذر نے بڑے اشتیاق سے رودراد دریافت فرمائی ۔انیس نے کہا ۔

"میں ایک ایسے شخص سے مل کر آیا ہوں جو یہ کہتا ہے کہ اللہ ایک ہے ۔اے بھائی اللہ نے تیرے مسلک کے لئے اسے بھیجا ہے ۔میں نے دیکھا ہے کہ وہ بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے لوگ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ شاعر ، ساحر اور کاہن ہے مگر وہ ہرگز شاعر نہیں کیوں کہ میں شعر ک تمام قسموں سے واقف ہوں ۔میں نے اس کی باتوں شاعری پر چانچا تو معلوم کیا کہ اس کا کلام شعر نہیں ہے نہ ہی وہ جادوگر ہے کیونکہ میں نے جادوگر کو بھی دیکھا ہے نہ ہی وہ کاہن ہے کہ میں بہت سے کاہنوں سے مل چکا ہوں اس کی باتیں کاہنوں جیسی نہیں ہیں۔وہ عجیب عجیب باتیں کہتا ہے ۔بخدا اس کا کلام بہت شیرین تھا مگر مجھے اس کے سوا کچھ نہیں رہا جو بتا چکا ہوں البتہ میں نے کعبہ کے قریب نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ اس کی ایک جانب ایک خوبصورت نوجوان جو ابھی بالغ نہیں کھڑا ہوا نماز پڑھ رہا ہے لوگ کہتے ہیں کہ اس کا چچیرا بھائی علی ابن ابی طالب ہے ۔اور اس کے پیچھے ایک جلیل القدر عورت کھڑی نماز پڑھ رہی ہے لوگوں

۸۸

نے اس معظمہ کےبارے میں مجھے بتایا وہ اس کی زوجہ خدیجہ ہے "

قبول اسلام:-

یہ اصول سن کر جناب ابوذر بے تاب ہوگئے اور فرمایا مجھے تمھاری گفتگو سے تشفی نہیں ہوئی میں خود اس کی خدمت میں حاظر ہوکر اس کی باتیں سنوں گا اس نے خبر دار کیا کہ آپ ضرور تشریف لے جائیں مگر اس کے خاندا والوں سے ہوشیار رہیں ۔چنانچہ حضرت ابوذر مکہ آئے اور مسجد الحرام کے قریب پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈ نے لگے مگر نہ ہی آپ کا کوئی تذکرہ سنا اور نہ ہی ملاقات کرسکے ۔رات چھپانے لگی اچانک حضرت علی علیہ السلام طواف کے لئے آئے اور حضرت ابوذر کے قریب سے گزرے جو وہاں اجنبی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے مسافر سمجھ کر جناب امیر علیہ السلام آپ کو اپنے گھر لےآئے ۔اور انتظام شب بسری فرمایا ۔صبح ہوتے ہی حضرت ابوذر نے پھر مسجد کا رخ کیا اور رسول کریم کو تلاش کرنے لگے مگر سارے دن کی جستجو کے باوجود زیارت رسول نصیب نہ ہوئی رات کو پھر حضرت علی علیہ السلام سے ملامات ہوئی ۔ آپ نے تعجب سے مقصد دریافت فرمایا ۔جناب ابوذر جھجکے مگر حضرت امیر نے یہ یقین دلایا کہ وہ بلاخوف اظہار کریں ان کے راز کی حفاظت کی جائے گی ۔جناب ابوذر نے کہا " مجھے معلوم ہوا ہے یہاں ایک نبی مبعوث ہوا ہے میں نے اپنے بھائی کو ان کی خدمت میں روانہ کیا مگر اس کی باتوں سے میری تسلی نہیں ہوئی لہذا میں خود ان سے ملاقات کرنے کو بے تاب ہوں۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا۔

"آپ ہدایت پاگئے ۔میں ان کی طرف جارہا ہوں ۔میرے پیچھے آئیے جہاں میں داخل ہوں وہاں آپ بھی داخل ہوجائیں اگر میں کوئی خطرہ محسوس کروں گا تو دیوار کے پا س کھڑا ہوکر اپنا جوتا درست کرنا شروع

۸۹

کردوں گا اور اگر ایسا کروں تو آپ واپس چلے آئیں " چنانچہ اس طرح حضرت امیر علیہ السلام کی معیت میں یہ عاشق رسولاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے عزم بے پایاں میں کامیاب ہوا ۔ نورمجسم کے چہرہ انور کی ایک مقدس جھلکی نے بے خود کردیا اور شرف قدم بوسی حاصل کیا ۔بس دانہ تسبیح میں پرولیا گیا ۔ سرکار ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضروری امور کی تلقین فرمائی اور کلمہ شہادت پڑھنے کا حکم دیا ۔

حضرت ابوذر فرماتے ہیں کہ سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نگاہ الفت سے مجھے دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ

"سنو ! زمانہ اسلام کا خاص دشمن ہے تم بہت محتاط رہنا تم اپنے وطن واپس چلے جاؤ اور جب تک میری نبوت زور پکڑے وہیں رہو ۔جاؤ تمھارے وطن پہنچنے سے قبل تمھارا ماموں انتقال کرچکا ہوگا اورچونکہ وہ بے اولاد ہے لہذا تم اس کی جائیداد مال کے وارث ہوگئے چنانچہ آپ حسب حکم وہاں سے واپس آئے اور اپنے ماموں کی جائیداد کے مالک ہوئے آپ نے ہجرت مدینہ تک وہیں قیام فرمایا اور ہجرت کے بعد مدینہ روانہ ہوئے ۔علماء نے لکھا ہے کہ حضور نے حضرت ابوذر کو ایمان پوشیدہ رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی یعنی تقیہ کی تعلیم دی تھی تاکہ دشمنوں کے مصائب وآلام سے محفوظ رہیں ۔لیکن عشق ومشک چھپنے والی چیزیں نہیں حضرت ابوذر نورایمان کو چھپا نہ سکے ۔جذبات ایمانیہ کا غلبہ ہوا ۔ اور حضور کی خدمت اقدس سے رخصت ہو کر مسجد کی طرف آئے اور قریش کے ایک گروہ کے سامنے چلا کر کہنے لگے "اے قریش سنو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں "

۹۰

یہ سنتے ہی قریش کے تن بدن میں آگ لگ گئ ۔بد حواس ہو کر انھوں نے جناب ابوذر کو گھیرے میں لے لیا اور اس قدر زدو کوب کیا کہ جناب ابوذر غش کھاگئے قریب تھا کہ آپ کی روح پرواز کرجاتی مگر اچانک حضرت عباس بن عبدالمطلب آئے اور وہ حضرت ابوذر کے اوپر لیٹ گئے ۔اور ان درندہ صفت لوگوں کو کہا کہ تمھیں کیا ہوگیا ہے یہ آدمی قبیلہ غفار کا ہے جس سے تم تجارت کرتے ہو اگر اس کچھ ہوا تو تمھیں لینے کے دینے پڑجائیں گے ۔یہ بات سن کر کفار حضرت ابوذر کے پاس سے ہٹ گئے آپ زخموں سے چور چور ہوگئے تھے ۔بڑی مشکل سے چاہ زم زم تک پہنچے اور اپنے جسم کو خون سے پاک کیا ۔پانی نوش فرمایا اور پھر بارگاہ رسالت مآب میں تشریف لائے ۔حضور نے آپ کی یہ حالت دیکھی تو سخت رنجیدہ ہوئے ۔پھر فرمایا "اے میرے صحابی ابوذر تم نے کچھ کھایا پیا ہے ؟ ابوذر نے جواب دیا سرکار آب زم زم پی کر سکون حاصل کرلیا ہے ۔حضور نے فرمایا "بے شک یہ سکون بخشنے والا ہے " اس کے بعد آنحضرت نے ابوذر کو تسلی دی اور انھیں کھانا کھلایا ۔

عشاقان حقیقی کے نزدیک حق کی راہوں میں سہی جانے والی مصبیتوں کاذائقہ ہی بہت لذیذ معلوم ہوتا ہے ۔اگر چہ جناب ابوذر ایک مرتبہ ایسے شدید مصائب کا مزا چکھ چکے تھے لیکن ان کے جذبہ ایمانی نے یہ گوارہ نہ فرمایا کہ خاموشی سے اپنے وطن کو واپس چلے جائیں ۔آپ کے عشق صادق اور ایمان کامل نے یہ مطالبہ کیا کہ نا ہنجاز قریش پر یہ واضح کردیا جائے کہ انسانی شعور شرک وبت پرستی کے اوہام کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے چنانچہ آپ اسی مضروب

۹۱

حالت میں دوبارہ مسجد کی طرف پلٹے ۔اور پھر وہی کلمات حق بآواز بلند دہرائے اب کی بار قریش آگ بگولہ ہوگئے اور انھوں نے شور مچایا کہ اس شخص کو قتل کردو ۔آپ پر ہر طرف سے حملہ کردیا گیا اور اس بے دردی سے مارا کہ قریب المرگ ہوگئے اس مرتبہ پھر عباس بن عبد المطلب نے آپ کی جان بچائی ۔حضرت ابوذر کی ان جراءت مندانہ تقریر نے قریش کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اسلام کی روشن کرنیں اب صفحہ ہستی پر پھیلنا شروع ہوگئی ہیں اور وہ دن دور نہیں کہ پتھر کے خداؤں کی شان وشوکت خاک میں مل جائے گی ۔

اب پھر حضرت ابوذر نے آب زم زم سے اپنا جسم پاک کیا اور خدمت رسول میں حاضر ہوئے چنانچہ حضور نے آپ کی حالت زار ملاحظہ فرما کر حکم دیا کہ " اے ابوذر اب تمھمیں میر ایہ امر ہے کہ تم فورا اپنے وطن واپس چلے جاؤ تمھارے پہنچنے سے پہلے تمہارا ماموں فوت ہوچکا ہوگا چونکہ تمھارے سوا اس کا اور کوئی وارث نہیں ہے لہذا اس کی جائیداد کے بھی تم مالک و وارث ہوگئے تم جاؤ اور مال حاصل کرنے بعد اسے تبلیغ اسلام پر صرف کرو ۔میں عنقریب یثرب کی طرف ہجرت کرکے چلا جاؤں گا ۔تم اس وقت تک وہیں اپنا کام کرنا جب تک میں ہجرت نہ کرلوں ۔حضرت ابوذر نے سرتسلیم جھکا کر عرض کیا کہ حضور میں عنقریب یہاں سے چلا جاؤں گا اور اسلام کی تبلیغ کرتا رہوں گا ۔

ابوذر کی تبلیغی خدمات:-

ایمان سے مالا مال ہوکر یہ یار پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے وطن واپس آگیا ۔دنیوی دولت نے بھی قدم چومے اور ترویج اسلام میں پوری سعی سعید شروع کردی ۔ سب سے پہلے اپنے بھائی انیس کو حلقہ

۹۲

بگوش اسلام کیا اور دونوں بھائی اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جنھوں نے بلا حیل وحجت کلمہ شہادت بڑھ لیا ۔ ماں او ربھائی کے ایمان لانے سے حضرت ابوذر کی حوصلہ افزائی ہوئی لہذا اہل قبیلہ کو راہ راست پر لانے کی تراکیب پر غور شروع کردیا اسی سوچ وبچار میں ایک روز حضرت ابوذر اپنے گھر سے نکل پڑے اور اپنی ماں وبھائی کے ساتھ کچھ دور جاکر اپنے حلقہ قبیلہ میں ایک جگہ خیمہ زن ہوئے جب رات ہوگئی تو اہل قبیلہ اپنے اپنے خیموں میں مختلف تذکرے کرنے لگے حضرت ابوذر نے جو کان لگایا تو کچھ لوگوں کو اپنے بارے میں گفتگو کرتے سنا ۔وہ کہہ رہے تھے قبیلہ کا مرد بہادر اب نظر نہیں آتا نہ کبھی بتوں کے پاس دکھائی دیا ہے اور نہ کسی سے میل جول ہے کسی نے کہا ابوذر کا میلان اللہ کی طرف ہے وہ آج کامکہ میں نبوت کے دعویدار شخص سے ملنے گیا ہوا ہے ۔ایک شخص نے کہا نہیں وہ مکہ سے واپس آگیا ہے اور یہاں قریب ہی اس نے خیمہ لگایا ہے چنانچہ اس بات پران لوگوں نے مشورہ کیا کہ ابوذر کے پاس جاکر معلوم کریں کہ وہ اہل قبیلہ سے کھچے کھچے کیوں رہتے ہیں ۔چنانچہ وہ ابوذر کے خیمہ کے پاس آئے اور آپ نے ملاقات کی ۔ان میں سے ایک نوجوان نے دریافت کیاکہ اے ابوذر آپ آخر ہم سے اس قدر دور دور کیوں رہتے ہیں ۔ آپ نے کہا ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے میرے دل میں تمھاری گہری محبت ہے میں تو راہ ہدایت کی تلاش میں سرگرداں رہا اور اب کامیاب ہواہوں کہ مقصود حاصل ہوگیا ۔اب میں بتوں کے بجائے اپنے تمام افعال اور جملہ امور میں خدائے تعالی کی جانب بڑھتا ہوں اور اسی

۹۳

ذات کی طرف رجوع کرتا ہوں جو ایسا واحد ہے کہ اس کا ہرگز کوئی شریک نہیں ہے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اس خدا ئے واحد کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے وہ تمام چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے ہمارہ اورتمھارا پروردگار ہے میں تم کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ اس کار خیر اور فکر عمل میں میرے شریک ہوجاؤ اور میری طرح وحدانیت کی شہادت دو۔

یہ تقریر سن کر ان لوگوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی ۔انھوں نے بتوں سے منسوب معجزات وکرامات کی جھوٹی کہانیاں دھرانا شروع کردیں ۔آپ نے محبت وخلوص سے ان کو بتوں کی بے بسی وعاجزی پر عقلی دلائل پیش کئے اور فرمایا کہ میں کمال تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ کہ پتھر کے اصنام کو مٹی میں ملا کر خدا ئے واحد کے سامنے سرتسلیم خم کرنا فطرت کا تقاضا اور انسانیت کا فروغ ہے ۔لیکن آپ کا یہ وعظ حسنہ مؤثر ثابت نہ ہوسکا ۔اور ان لوگوں نے کہا ہم اس خطرہ سے اپنے سردار قبیلہ کوآگاہ کرتے ہیں یہ کہ ابوذر اس مکی نبی کے جھانسے میں آگیا ہے جو ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہتاہے یہ سنکر حضرت ابوذر نے فرمایا ۔کہ میں نے حق بات کہہ دی ہے آگے تمھاری مرضی ہے جو جی میں آئے کرلو۔ مگر اتنا ضرور سن لو کہ وہ شخص جو مکہ میں نبوت کا مدعی ہے وہ حقیقت میں نبی ہے اس کو سارے عالم کے لئے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ۔وہ خالق حقیقی کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے بلا شبہ اس کایہ کہنا درست ہے کہ یہ آسمان وزمین ۔چاند ۔سورج ۔سیارے وستارے ۔دن ورات ۔خنکی وگرمی تمام اس ہی ذات واحد کی بنائی ہوئی چیزیں ہیں اور یہ تمام کی تمام

۹۴

قدرت خدائے ذوالجلال کی ذات کے لئے دلیل واضح ہے ۔نبی برحق خود تراشیدہ بتوں کے خلاف ہے اور اس کی یہ مخالفت اس لئے بجا ہے بے حس ۔آندھے ۔لاچار ومجبور ہیں پس ان لوگوں نے حضرت ابوذر کی یہ غیر متوقع باتیں سن کر کہا کہ تمھاری باتیں ہماری عقلوں میں نہیں آسکتی ہیں تم ہمارے آبائی معبودوں کی توہین کرتے ہو۔ہمارے آباؤ اجداد کی عقلوں کو ناقص وذلیل خیال کرتے ہو ۔ہم سردار قبیلہ کے پاس یہ سب کچھ پہنچائیں گے ۔یہ سنکر حضرت ابوذر کا چہرہ غصّہ سے متغیر ہوگیا مگر آپ خاموش رہے ۔اور کہا کہ سردار قبیلہ سمجھدار آدمی ہے اور وہ میری باتیں سنکر ان پر ضرور غور کرےگا ۔چنانچہ جلتے بھنتے یہ نوجوان راتوں رات "خفاف" سردار قبیلہ کے پاس گئے ۔اور سارا ماجرا بیان کیا ۔ خفاف نے ان نوجوانوں کو تسلی دی کہ اس معاملہ کو مجھ پر رہنے دو تم لوگ اب آرام کرو ۔میں خود اس پر غور کرتا ہوں نوجوان تو سونے کو چل دئیے مگر خفاف کی نیند ساتھ اڑالے گئۓ ۔ وہ ساری رات ابوذر کے بارے میں سوچتا رہا ۔ابوذر کی باتیں اس کے دل کو لگتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں ۔اسی سوچ وبچار میں اس کی عقل نے اس کی رہبری کی اور دل میں کہنے لگا کہ بے شک ابو ذر راہ حق پر ہیں کیوں کہ حکیم عرب نے ان کی تائید کی ہے ۔اور مجھے یقین ہے کہ حکیم عرب قیس بن ساعدہ غلط نہیں سمجھے گا ۔ اور خطا پر ایمان نہ لائے گا ۔ بے شک اس عالم نے کے لئے کسی نہ کسی مصلح کا ہونا ضروری ہے اور ایک ایسی صلاحیت سے محروم ہیں ،اے ابوذر کے خدا ہماری رہنمائی فرما اور ہمیں ہدایت کا راستہ دکھا کر گمراہی سے

۹۵

نکال لے ان ہی خیالات میں خفاف نے رات گزاردی ۔صبح ہوئی تو سارے قبیلہ میں یہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ ابوذر کا دماغ خراب ہوگیا ہے ۔ کس نے نیا دین قبول کرلیا ہے ۔ اون ہمارے خداؤں کو برابھلا کہتا ہے ۔لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ان کو قبیلہ کیا کہ ان کو قبیلہ سے خارج کردیا جائے مگر یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ ابوذر اپنے قبیلہ کے شجاع ترین آدمی تھے ۔لہذا طے پایا کہ معاملہ بزرگان قبیلہ کے سامنے بغرض غور پیش کیا جائے ۔چنانچہ کچھ عمر رسیدہ لوگوں کو بھڑکا کر سردار قبیلہ کے پاس بھیجا گیا کہ ابوذر کی سرگرمیوں کا سد باب ہو۔اشراف قبیلہ نے سردار سے کہا کہ ہمارے خیال میں ابوذر پاگل ہوگیا ہے اور مکے کے نئے نبی نے اس پر جادوچلا دیا ہے ۔ خفاف نے ٹھنڈے دل سے ان بزرگوں کی باتیں سنیں اور کہا کہ میرے رفیقو ! کسی پر الزام لگانا اچھا نہیں ہے میں نے تمھاری باتیں سن لی ہیں ۔ ابوذر معمولی آدمی نہیں بلکہ وہ قبیلہ کی بلند شخصیت ہے ۔میں انھیں بلاکر ان سے باتیں کرتا ہوں تاکہ صحیح نتیجہ اخذ کرسکوں ۔چنانچہ حضرت ابوذر کو بلایا گیاآپ نے اشراف قبیلہ کی موجودگی میں خفاف کے سامنے انتہائی مدلل تقریر فرمائی جس کے اثر میں خفاف مسلمان ہوگئے ،سردار قبیلہ کے مسلمان ہوتے ہی سارے قبیلہ کی کایا پلٹ گئی اور اکثریت نے کلمہ پڑھ لیا ۔جناب ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کی سعی جمیلہ وبلیغہ سے قبیلہ غفاری کی غالب اکثریت مسلمان ہوگئی اور نعرہ تکبیر کی آوازوں سے ساری فضا گونج اٹھی۔

جناب ابوذر قبیلہ غفاری میں اسلام کی شمع روشن کرنے کے بعد عسقان کی طرف متوجہ ہوئے کیونکہ یہ جگہ قریش کی گزرگاہ تھی اور آپ

۹۶

ابھی قریشیوں کے لگائے ہوئے زخموں کو بھول نہ سکے تھے لہذا وہ عموما قریش کی گھات میں رہتے تھے اور جو قریشی گروہ ادھر سے گذرتا آپ اسلام کو پیش کرتے یہاں تک کہ بہت سے قریشی آپ کے دست حق پرست پر حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔ادھر مدینہ کے دوبڑے قبیلے اوس وخزرج اسلام لے آئے ۔حضرت ابوذر کو زیارت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تشنگی اکثر محسوس ہوتی تھی او رآپ گن گن کردن گزاررہے تھے کہ کب ہجرت کاوقت آئے اور میں مدینہ جاکر قدم بوسی کروں ۔جب مدینہ میں اسلام کی روشنی کی خبر معلوم ہوئی تو آمادہ سفر ہوئے راستہ میں رافع بن مالک الزرمی سے ملاقات ہوئی اور ان سے اسلام و بانی اسلام کے حالات پر تبادلہ خیالات کیا ۔الغرض حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرما ہوئے ۔جب قبیلہ غفاریہ کو یہ خبر ملی تو بہت مسرور ہوئے ۔حضرت ابوذر انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے پر شادماں تھے آپ کی نگاہیں راہوں میں بچھی ہوئی تھیں ۔جب موج سعادت کو محسوس کرکے قلب مشتاق کو اطمینان نصیب ہوا ۔اچانک ایک اونٹ کوآتے دیکھا ۔اہل قبیلہ جناب ابوذر پر نگاہیں جمائے ہوئے تھے کہ اچانک آپ نے بلند آواز میں پکارا "واللہ وہ رسول اللہ تشریف لےآئے " بڑی تیزی سے حضرت ابوذر آگے ہوئے اور دوڑ کر اونٹنی کی مہار تھا م لی ۔ قبیلہ غفارکے مردوں عورتوں اور بچوں میں خوشی کی لہر دوڑگئی نعرہ تکبیر سے فضا گونج اٹھی جضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ناقہ سے اترے اور تلاوت قرآن فرما کر وعظ حسنہ فرمایا ۔لوگ حضور کی بیعت کے لئے بڑھے جبکہ جناب ابوذر بڑے فخر یہ انداز میں تبسم بہ لب ایستادہ رہے ۔اہل قبیلہ نے حضور سے عرض کہ ہمیں آپ کے

۹۷

شاگرد ابوذر نے گمراہی سے نکالا ہے ۔ آنحضرت یہ پرتپاک استقبال ملاحظہ کرکے خوشی سے پھولے نہ سمائے اورہاتھ بلند فرماکر دعا فرمائی کہ اللہ تعالی قبیلہ غفار کو بخشے ۔اس کے قبیلہ اسلم کے لوگ آئے۔چنانچہ حضور نے ان کے حق میں بھی سلامتی کی دعا فرمائی حضور یہاں مختصر قیام کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے اورابوذر وہاں رک گئے جنگ بدر ،احد اور خندق جیسی عظیم لڑائیاں گزر گئیں ۔ایک روز آپ مسجد میں مشغول عبادت تھے کہ ایک شخص کو ایک آیت کی تلاوت کرتے سنا جس میں جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب تھی اس سے اسقدر متاثر ہوئے کہ فورا مدینہ منورہ روانہ ہوکر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قدم بوسی کا شرف حاصل کیا ۔ساری رات آپ مسجد نبوی میں بسر کرتے ۔سارادن لوگوں سے ملتے جلتے ۔طعام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کرتے ۔حفظ حدیث پر پوری توجہ فرماتے اور زہد وتقوی سے اپنی مادی زندگی کو مالا مال فرماتے ۔آب وہوا کی تبدیلی کے باعث آپ کی طبیعت ناساز ہوئی ۔حضور نے عیادت فرمائی اور ہدایت کی کہ اس مقام پر بیرون مدینہ رہائش کرو جہاں مویشی چرتے ہیں اور صرف دودھ پیو ۔ حکم رسالت مآب کی تعمیل کی اور آپ تھوڑے دنوں بعد روبصحت ہوگئے صحتیابی کے بعد فریضہ زوجیت اداکیا ۔مگر وہاں غسل کے لئے پانی میسر نہ آیا ابھی تیمم نازل نہ ہوا تھا ادھر نماز کی فکر لگی ہوئی تھی اسی کشمکش میں ناقہ پر بیٹھ کرمدینہ آئے جوں ہی حضور کی نگاہ جناب ابوذر پر بڑی آنحضرت نے اس سے پہلے کہ ابوذر کچھ کہیں خود ہی فرمایا کہ ابوذر گھراؤ نہیں ۔ابھی تمھارے غسل کا انتظام ہوجاتا ہے ۔چنانچہ ایک کنیز پانی لائی اور آپ نے غسل کیا۔بعض مفسر ین نے یہ خیال کیا ہے

۹۸

کہ یہ واقعہ آیت تیمم کا سبب بنا اور حضور نے ابوذر کو یہ طریقہ تیمم تعلیم فرمایا ۔

حضرت ابوذر کو عبادت کا بہت شوق تھا سارادن اور رات مسجد میں مشغول عبادت رہتے تھے ۔ان کا شیوہ زندگی صرف یہ تھا کہ اللہ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی اور محمد وآل محمد علیہم السلام سے محبت ۔آپ کچھ تنہا پسند بھی تھے ۔ایک صحابی نے دریافت کیا کہ ابوذر تم زیادہ خاموش کیوں رہتے ہو اور تنہائی تمھمیں کیوں پسند ہے تو آپ نے جواب دیا کہ برے ساتھی سے تنہائی بہتر ہے ۔حافظ ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ابوذر زبردست عابد تھے ۔آپ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ اسلام لانے میں چوتھے شخص تھے جو قبول اسلام سے قبل ہی برائیوں سے کنارہ کش تھے ۔ دلیری میں ان کا انفرادی مقام تھا اور حق بات کہنے سے ہرگز کسی خطرہ کی پرواہ نہ کرتے تھے تحصیل علم کا بہت شوق تھا اکثر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مختلف قسم کے سوالات دریافت فرماتے رہتے تھے طبیعت مشقت پسند تھی او رذہن محققانہ پایا تھا ۔ علماء کا قول ہے کہ فلسفہ فناو بقا پر آپ نے سب سے پہلا وعظ کیا تھا۔

محبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مثالی واقعہ:-

سنہ ۹ ھ میں جنگ تبوک کے موقع پر حضرت ابوذر بھی لشکر اسلام کے ساتھ روانہ ہوئے چونکہ آپ کا اونٹ لاغر تھا لہذا وہ قافلہ سے بہت پیچھے رہ گیاتھا ۔آپ نے بہت کوشش کی کہ قافلہ کو جاپہنچے مگر تین دن کی مسافت سے بھی زیادہ فرق تھا چنانچہ شوق جہاد میں آپ ناقہ سے نیچے اتر آئے سارا ساماں اپنی پشت پر لاد کر پیدل سفر شروع کیا شدید گرمی کا موسم اور پیاس کی شدت کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے آپ

۹۹

پا پیا دہ عالم تشنگی میں مصروف سفر رہے کہ پیاس نے بے حال کیا ادھر ادھر پانی کی تلاش کی بڑی مشکل سے ایک گڑھا ملا جس میں بارش کا پانی جمع تھا جیسے ہی پانی کا چلو منہ کے قریب لائے نبی کریم کاخیال آیا دل میں سوچا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پہلے پانی نہیں پینا چاہیئے ۔بس ایک لوٹا بھرا اور پھر سفر شروع کردیا ۔جیسے ہی آپ تبوک کی سرحد پر پہنچے تو مسلمانوں کی نگاہ آپ پرپڑی مگر آپ کو پہچان نہ سکے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں ایک پریشان حال مسافر کی آمد کی خبر دی ۔حضور نے اطلاع پاتے ہی فرمایا کہ وہ میرا ابوذر ہے ۔بھاگ کرجاؤ وہ پیاسے ہیں ان کے لئے پانی لے جاؤ ۔اصحاب مشکیزہ آب لے کر پہنچے اور ابوذر کو سیراب کیا اور حضور کے پاس لے آئے ۔آپ نے مزاج پرسی فرمائی اور پوچھا اے ابوذر تمھارے پاس پانی تو ہے پھر تو پیاسا کیوں رہا ؟ ابوذر نے عرض کیا یا رسول اللہ پانی تو ہے مگر میں اسے پی نہیں سکتا تھا کیوں کہ یہ پانی میں نے راستہ میں ایک پتھر کے دامن میں پالیا تھا جو بہت ٹھنڈا تھا ۔لیکن میرے دل نے یہ گوارہ نہ کیا کہ اسے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے خود پی لوں ۔میں یہ آب خنک آپ کے لئے لایا ہوں ۔جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نوش فرمائیں گے تب میں اس کو منہ لگاؤں گا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سنکر ارشاد فرمایا "اے ابوذر !خدا تم پر رحم کرے گا ۔تم تنہا زندگی کروگے ۔تنہا دنیا سے اٹھو گے ۔تنہا مبعوث ہوگے ۔تنہا جنت میں داخل ہوگے اور اہل عراق کا ایک گروہ تمھارے سبب سے سعادت حاصل کرے گا ۔یعنی وہ تمھیں غسل دے گا ۔کفن پہنائے گا اور تم پر نماز پڑے گا"۔

۱۰۰