چار یار

چار  یار33%

چار  یار مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں
صفحے: 180

چار یار
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51165 / ڈاؤنلوڈ: 3985
سائز سائز سائز
چار  یار

چار یار

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدٍ خَيْراً زَهَّدَهُ فِي الدُّنْيَا وَ فَقَّهَهُ فِي الدِّينِ وَ بَصَّرَهُ عُيُوبَهَا وَ مَنْ أُوتِيَهُنَّ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَة (۲) ۔

یعنی جب خدا تعالی کسی کو دنیا و آخر ت کی نیکی دینا چاہتا ہے تو اسے دنیا میں زاہد اور دین میں فقیہ بنا دیتا ہے اور اپنے عیوب کو اسے دکھا دیتا ہے ۔ اور جس کو بھی یہ نصیب ہو جائے، اسے دنیا و آخرت کی خیر و خوبی عطا ہوئی ہے ۔

حدیث قدسی میں مذکور ہے :أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ فِي بَعْضِ كُتُبِهِ يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا حَيٌّ لَا أَمُوتُ أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ حَتَّى أَجْعَلَكَ حَيّاً لَا تَمُوتُ يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا أَقُولُ لِلشَّيْ‏ءِ كُنْ فَيَكُونُ أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ أَجْعَلْكَ تَقُولُ لِلشَّيْ‏ءِ كُنْ فَيَكُونُ (۳)

اے فرزند آدم !میں زندہ ہوں جس کیلئے موت نہیں ، جن چیزوں کا میں تجھے حکم دوں گا ان میں تو میری اطاعت کرو تاکہ میں تجھے بھی اپنی طرح ایسی زندگی دوں کہ تو نہ مرے ، اے فرزند آدم جو کچھ کہتا ہوں ہوجاؤ تو ہوجاتا ہے ۔ اگر تو چاہے کہ تو جو کچھ کہے ہوجائے ؛ تو میں جوکچھ تجھے حکم دونگا اس پر عمل کرو ۔

زینب کبری (س) بھی اپنی عبادت اور بندہ گی ،زہد وتقوی اور اطاعت خدا کی وجہ سے ان تمام روایتوں کا مصدا ق اتم اور ولایت تکوینی کی مالکہ تھیں۔ چنانچہ روایت میں آئی ہے کہ دربار شام میں خطبہ دینے سے پہلے بہت شور وغل تھا، انھیں خاموش کرنا ہر کسی کی بس کی بات نہ تھی ۔ لیکن جب آپ نے حکم دیا کہ خاموش ہوجاؤ؛ تو لوگوں کے سینے میں سانسیں رہ گئیں۔ اور بات کرنے کی جرات نہ کرسکے۔

معاشرے کی اصلاح کیلئےامام حسینعليه‌السلام نے ایک انوکھا اور نیا باب کھولا وہ یہ تھا کہ اپنے اس قیام اور نہضت کو دو مرحلے میں تقسیم کیا :

حدیث عشق دوباب است کربلا تاشام

یکی حسین رقم کردس و دیگری زینب(س)

____________________

۲ ۔ الكافي ،ج۲ ، ص۱۳۰ ، باب ذم الدنيا و الزهد فيها۔

۳ ۔ مستدرك‏الوسائل ،ج ۱۱ ، ص۲۵۸ ۔

۲۱

پہلا مرحلہ خون، جہاد اور شہادت کا مرحلہ تھا ۔

دوسرا مرحلہ پیغام رسانی ، بیدار گری، خاطرات اور یادوں کو زندہ رکھنے کا مرحلہ ۔

پہلے مرحلے کیلئے جان نثاراور با وفا اصحاب کو انتخاب کیا ۔ اس طرح یہ ذمہ داری مردوں کو سونپی گئی ۔ جنہوں نے جس انداز میں اپنی اپنی ذمہ داری کو نبھایا؛ تاریخ انسانیت میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ سب بہ درجہ شہادت فائز ہوگئے۔

اب رہا ،دوسرا مرحلہ ،کہ جسے زینب کبری (س) کی قیادت میں خواتین اور بچوں کے حوالے کئے۔ جسے خواتین نے جناب سیدہ زینب (س) کی نگرانی میں اپنے انجام تک پہنچانا تھا ۔ اس عہدے کو سنبھالنے میں حضرت زینب (س) نے بھی کوئی کسر نہیں رکھی۔جناب محسن نقوی نے یوں اس کردار کی تصویر کشی کی ہے :

قدم قدم پر چراغ ایسے جلاگئی ہے علی کی بیٹی

یزیدیت کی ہر ایک سازش پہ چھا گئی ہے علی کی بیٹی

کہیں بھی ایوان ظلم تعمیر ہوسکے گا نہ اب جہاں میں

ستم کی بنیاد اس طرح سے ہلا گئی ہے علی کی بیٹی

نہ کوئی لشکر نہ سر پہ چادر مگر نہ جانے ہوا میں کیونکر

غرورظلم وستم کے پرزے اڑا گئی ہے علی کی بیٹی

پہن کے خاک شفاکا احرام سر برہنہ طواف کرکے

حسین! تیری لحد کو کعبہ بنا گئی ہے علی کی بیٹی

یقین نہ آئے تو کوفہ و شام کی فضاؤں سے پوچھ لینا

یزیدیت کے نقوش سارے مٹا گئی ہے علی کی بیٹی

ابد تلک اب نہ سر اٹھاکے چلے گا کوئی یزید زادہ

غرور شاہی کو خاک میں یوں ملا گئی ہے علی کی بیٹی(۴)

____________________

۴ ۔ محسن نقوی؛موج ادراک،ص ۱۴۲۔

۲۲

زینب کبری (س) کو اس مسئولیت کیلیے تیار کرنا

اگرچہ زینب کبری (س) روحی اعتبار سے تحمل اور برداشت کی قدرت رکھتی تھیں ،لیکن پھر بھی یہ حادثہ اتنا دردناک اور مسئولیت اتنی سنگین تھی کہ آپ جیسی شیر دل خاتون کو بھی پہلے سے آمادہ گی کرنی پڑی ۔اسی لئے بچپن ہی سے ایسے عظیم سانحے کیلئے معصوم کے آغوش میں رہ کر اپنے آپ کو تیار کر رہی تھیں۔ چنانچہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے ایام نزدیک تھا ، آپ اپنے جد بزرگوار کی خدمت میں گئیں اور عرض کیا : اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کل رات میں نے خواب دیکھا کہ تند ہوا چلی جس کی وجہ سے پوری دنیا تاریک ہوجاتی ہے ۔ یہ تند ہوا مجھے ایک طرف سے دوسری طرف پہنچا دیتی ہے ،اچانک میری نظریں ایک تناور درخت پر پڑتی ہے ،تو میں اس درخت کے تلے پناہ لیتی ہوں ۔لیکن ہوا اس قدر تیز چلتی ہے کہ وہ درخت بھی ریشہ کن ہوجاتا ہے ۔ اور زمین پر گرتا ہے تو میں ایک مضبوط شاخ سے لپٹ کر پناہ لینے کی کوشش کرتی ہوں۔ لیکن ہوا اس شاخ کو بھی توڑ ڈالتی ہے ؛میں دوسری شاخ پکڑ کر پناہ لینے کی کوشش کرتی ہوں؛ اسے بھی توڑڈالتی ہے ۔سرانجام دو شاخیں ملی ہوئی ملتی ہے تو میں ان سے سہارا لیتی ہوں، لیکن ہوا ان دوشاخوں کو بھی توڑ ڈالتی ہے ، اسوقت میں نیند سے بیدار ہوجاتی ہوں۔!زینب کبری (س) کی باتوں کو سن کر پیامبر گرامی اسلام (ص)کے آنسو جاری ہوگئے۔ پھر فرمایا: اے نور نظر! وہ درخت آپ کے جد گرامی ہیں ؛ بہت جلد تند اور تیز ہوا اسے اجل کی طرف لے جائیگی۔اور پہلی شاخ آپ کے بابا اور دوسری شاخ آپ کی ماں زہرا(س) اور دو شاخیں جو ساتھ ملی ہوئی تھیں وہ آپ کے بھائی حسن اور حسینعليه‌السلام تھے ؛جن کی سوگ میں دنیا تاریک ہوجائے گی اور آپ کالے لباس زیب تن کریں گی(۵) ۔چھ سال بھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ جد گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے سوگ میں بیٹھنی پڑی ، پھر تھوڑی ہی مدت کے بعد مادر گرامی (س) کی مصیبت ، اس کے بعد امام حسن مجتبی اور امام حسین مظلومکربلاعليه‌السلام کی مصیبت برداشت کرنی پڑی ۔

جب مدینے سے مکہ ،مکہ سے عراق ،عراق سے شام کی مسافرت کی تفصیلات بیان کی تو بغیر کسی چون وچرا اور پیشنہاد کے اپنے بھائی کے ساتھ جانے کیلئے تیار ہوجاتی ہیں۔ اور اپنے بھائی کے ساتھ اس سفر پر نکلتی ہیں۔ گویا ایسا لگتا ہے کہ کئی سال پہلے اس سفر کیلئے پیشن گوئی کی گئی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی عقد نکاح میں بھی اپنے بھائی کے ساتھ سفر پر جانے کو مشروط قراردیا تھا(۶) ۔

اور جب قافلہ حسینیعليه‌السلام مدینے سے نکل رہا تھا ،عبداللہ بن جعفر الوداع کرنے آیا ، تو زینب کبری (س) نے کہا : اے عموزادہ عبداللہ! آپ میرے آقا ہو ۔اگر آپ اجازت نہ دے تو میں نہیں جاؤں گی ؛لیکن یہ یاد رکھنا کہ میں بھائی سے بچھڑ کر زندہ نہیں رہ سکونگی۔ تو جناب عبداللہ نے بھی اجازت دے دی اور آپ بھائی کے ساتھ سفر پر نکلی ۔

__________________

۵ ۔ ریاحین الشریعہ ،ج۳، ص۱۵۔

۶ ۔ اندیشہ سیاسی عاشورا،ش۴،سال ۱۳۸۱۔

۲۳

شب عاشور امام حسینعليه‌السلام کا آپ کو مشورہ دینا

قال الامام السجادعليه‌السلام :أَبِي يَقُولُ :

يَا دَهْرُ أُفٍّ لَكَ مِنْ خَلِيلٍ

كَمْ لَكَ بِالْإِشْرَاقِ وَ الْأَصِيلِ‏

مِنْ صَاحِبٍ وَ طَالِبٍ قَتِيلٍ

وَ الدَّهْرُ لَا يَقْنَعُ بِالْبَدِيلِ‏

وَ إِنَّمَا الْأَمْرُ إِلَى الْجَلِيلِ

وَ كُلُّ حَيٍّ سَالِكٌ سَبِيلِي‏

فَأَعَادَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثاً حَتَّى فَهِمْتُهَا وَ عَلِمْتُ مَا أَرَادَ فَخَنَقَتْنِيَ الْعَبْرَةُ فَرَدَدْتُهَا وَ لَزِمْتُ السُّكُوتَ وَ عَلِمْتُ أَنَّ الْبَلَاءَ قَدْ نَزَلَ وَ أَمَّا عَمَّتِي فَلَمَّا سَمِعَتْ مَا سَمِعْتُ وَ هِيَ امْرَأَةٌ وَ مِنْ شَأْنِ النِّسَاءِ الرِّقَّةُ وَ الْجَزَعُ فَلَمْ تَمْلِكْ نَفْسَهَا أَنْ وَثَبَتْ تَجُرُّ ثَوْبَهَا وَ هِيَ حَاسِرَةٌ حَتَّى انْتَهَتْ إِلَيْهِ وَ قَالَتْ وَا ثُكْلَاهْ لَيْتَ الْمَوْتَ أَعْدَمَنِيَ الْحَيَاةَ الْيَوْمَ مَاتَتْ أُمِّي فَاطِمَةُ وَ أَبِي عَلِيٌّ وَ أَخِيَ الْحَسَنُ يَا خَلِيفَةَ الْمَاضِي وَ ثِمَالَ الْبَاقِي فَنَظَرَ إِلَيْهَا الْحُسَيْنُ ع وَ قَالَ لَهَا يَا أُخْتَهْ لَا يَذْهَبَنَّ حِلْمَكِ الشَّيْطَانُ وَ تَرَقْرَقَتْ عَيْنَاهُ بِالدُّمُوعِ وَ قَالَ لَوْ تُرِكَ الْقَطَا لَيْلًا لَنَامَ فَقَالَتْ يَا وَيْلَتَاهْ أَ فَتَغْتَصِبُ نَفْسَكَ اغْتِصَاباً فَذَلِكَ أَقْرَحُ لِقَلْبِي وَ أَشَدُّ عَلَى نَفْسِي ثُمَّ لَطَمَتْ وَجْهَهَا وَ هَوَتْ إِلَى جَيْبِهَا وَ شَقَّتْهُ وَ خَرَّتْ مَغْشِيَّةً عَلَيْهَا فَقَامَ إِلَيْهَا الْحُسَيْنُ ع فَصَبَّ عَلَى وَجْهِهَا الْمَاءَ وَ قَالَ لَهَا يَا أُخْتَاهْ اتَّقِي اللَّهَ وَ تَعَزَّيْ بِعَزَاءِ اللَّهِ وَ اعْلَمِي أَنَّ أَهْلَ الْأَرْضِ يَمُوتُونَ وَ أَهْلَ السَّمَاءِ لَا يَبْقَوْنَ وَ أَنَ‏ كُلَّ شَيْ‏ءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى الَّذِي خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِهِ وَ يَبْعَثُ الْخَلْقَ وَ يَعُودُونَ وَ هُوَ فَرْدٌ وَحْدَهُ وَ أَبِي خَيْرٌ مِنِّي وَ أُمِّي خَيْرٌ مِنِّي وَ أَخِي خَيْرٌ مِنِّي وَ لِي وَ لِكُلِّ مُسْلِمٍ بِرَسُولِ اللَّهِ أُسْوَة (۱) ۔

امام سجادعليه‌السلام فرماتے ہیں کہ شب عاشور میری پھوپھی میری پرستاری کر رہی تھی میرے بابا اپنے خیمے میں یہ اشعار پڑھ رہے تھے : اے زمانہ تم پر تف ہو کہ تو کب تک اپنی آرزو اور تمنا رکھنے والوں کو خون میں آغشتہ کرتا رہے گا؟ و۔۔۔

____________________

۱ ۔ ۔ بحار ج۴۵، ص ۱۔۳

۲۴

یہ اشعار جب آپ نے سنی تو آپ آپے سے باہر ہوگئی اور فریاد کرنے لگی۔ اور بابا کے پاس تشریف لے گئی اور فرمایا: اے کاش مجھے موت آتی، آج کادن اس دن کی طرح ہے جس دن میری ماں ، میرے بابا ، اور بھائی حسنمجتبیعليه‌السلام اس دنیا سے رحلت فرماگئے ، اب تو آپ ہی ان بزرگوں کے وارث اور لواحقین کے پناہ گاہ ہو۔

امام حسینعليه‌السلام نے زینب کبری(س) کی طرف دیکھ کر فرمایا : میری بہن !ایسا نہ ہو کہ شیطان تیری حلم اور بردباری تجھ سے چھین لے۔

زینب کبری (س)نے کہا : بھیا! آپ کی اس بات نے میرے دل کو مزید جلادیا کہ آپ مجبور ہیں اور ناچار ہوکر شہید کئے جارہے ہیں!!اس وقت گریبان چاک کرکے اپنا سر پیٹنا شروع کیا ۔ اور بیہوش ہوگئیں ۔میرے بابا نے چہرے پر پانی چھڑکایا ؛جب ہوش آیا تو فرمایا: میری بہن ! خدا کا خوف کرو ، صبر اور حوصلے سے کام لو اور جان لو کہ سب اہل زمین و آسمان فنا ہونے والے ہیں سوائے خداتعالی کے۔ میرے بابا مجھ سے بہتر تھے اور ماں مجھ سے بہتر تھیں اور میرے بھائی اور میرے جد امجدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے افضل تھے ، جب وہ لوگ نہ رہیں تو میں کیسے رہ سکوں گا؟!

امام مظلومعليه‌السلام نے یوں اپنی بہن کو نصیحت کی کہ ایسا نہ ہو تفکر اور اندیشہ آپ کی احساسات کے تحت شعاع چلی جائے۔اور جناب زینب (س) نے بھی کیا خوب اس نصیحت پر عمل کیا ۔ جہاں تدبر اور تعقل سے کام لینا تھا وہاں برد وباری اور شکیبائی سے کام لیا اور جہاں احساسات کا مظاہرہ کرنا تھا وہاں بخوبی احساسات و عواطف کا مظاہرہ کیا ۔

اس طرح امامعليه‌السلام مختلف مقامات پر اپنی بہن کو صبر واستقامت کی تلقین کرتے رہے ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ زنیب کبری (س) نے اپنی پیغام رسانی میں کوئی کمی آنے نہ دیا ۔ جسے شاعر نے یوں بیان کیا ہے :

مہکا گئی جو اپنے چمن کی کلی کلی

جس نے حسینیت کو بچایا گلی گلی

کانٹوں بھرے سفر میں جہاں تک چلی چلی

لیکن سکھاگئی ہے جہاں کو علی علی

اسلا م بچ گیا یہ اسی کا کمال تھا

ورنہ خدا کے دین کا تعارف محال تھا(۲)

__________________

۲ ۔ محسن نقوی؛ موج ادراک،ص ۱۳۲۔

۲۵

زینب کبری (س) اپنے بھائی کے دوش بہ دوش

سفر کے دوران تمام حادثات اور واقعات میں اپنے بھائی کے شانے بہ شانے رہیں۔اور امام نے بھی بہت سارے اسرارسے آگاہ کیا ۔اس مطلب کو پیام اعظمی نے یوں بیان کیا ہے :

شریک کار رسالت تھے حیدر و زہرا

شریک کار امامت ہیں زینب و عباس

دیا ہے دونوں نے پہرا بتول کے گھر کا

حصار خانہ عصمت ہیں زینب و عباس

اپنے بیٹے کی شہادت

آپ کے دو بیٹے کربلا میں شہید ہوگئے(۱) لیکن آپ نے بے صبری سے کام لیتے ہوئے آہ وزاری نہیں کی، تاکہ اپنے بھائی کے دکھ اور غم واندوہ میں اضافہ نہ ہو۔ لیکن علی اکبرعليه‌السلام کے سرانے جاکر خوب رولیتی ہیں تاکہ اپنے بھائی کے غم واندوہ میں کمی آجائے ۔

آخری تلاش

امام حسینعليه‌السلام زندگی کے آخری لمحات میں دشمنوں کے تیر وتلوار کے ضربات کی وجہ سے لہو لہاں ہوچکے تھے اور مزید دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنے کی طاقت نہیں تھی۔کربلا کی زمین پر جب آئے تو لشکر ملعون عمر سعد چاروں طرف سے مختلف قسم کے ابزار اور اسلحے سے حملہ کرنے لگے اور زینب کبری (س) یہ منظر دیکھ رہی تھیں اور اپنے بھائی کا دفاع کرنا چاہتی تھیں ۔لیکن ہزاروں کے لشکر کے سامنے اکیلی خاتون کیا دفاع کرسکتی تھیں ؟ بہرصورت اپنی اس ذمہ داری کو بھی آپ نے انجام دیتے ہوئے عمر سعد ملعون سے کہا: اے عمر سعد ! اباعبداللہ کو اشقیاء شہید کررہے ہیں اور تو دیکھ رہا ہے؟!! یہ سن کر وہ ملعون رویا اور اپنا منہوس چہرہ زینب (س) کی طرف سے موڑ لیا۔(۲) زینب کبریٰ(س) نے اپنے بھائی کے بدن سے جدا ہوتے ہوئے جو عہد کیا ؛ اسے شاعر اہل بیت محسن نقوی مرحوم نے یوں بیان کیا ہے:

حسین کی لاش بے کفن سے یہ کہہ کے زینب جدا ہوئی ہے

جوتیرے مقتل میں بچ گیا ہے وہ کام میری ردا کرے گی

__________________

۱ ۔ بحار ج۴۴، ص۳۶۶۔

۲ ۔ بحار ج۴۵، ص ۵۵۔

۲۶

جب بھائی کی لاش پر پہنچی

لہوف اور ارشاد شیخ مفید میں لکھا ہے کہ جب امام حسینعليه‌السلام گھوڑے سے کربلا کی زمین پر آئے تو زینب کبریٰ (س)بیہوش ہوگئی اور جب ہوش میں آئی توفریاد کرتی ہوئی خیمے سے نکلی اور جب اپنے بھائی کا زخموں سے چور چور اور خاک و خون میں غلطان بدن کہ جس سے فوارے کی طرح خون بہہ رہا تھا ؛ دیکھا تو اپنے آپ کو اس زخمی بدن پر گرایا اور اسے سینے سے لگا کر فریاد کرنے لگی: ونادت وا اخا ہ ! وا سیداہ! لیت السماء اطبقت علی الارض و لیت الجبال اندکت علی السھل ۔ فنادت عمر ابن سعد : ویحک یا عمر! یقتل ابوعبد اللہ وانت تنظر الیہ؟ فلم یجبھا عمر بشیء فنادت : ویحکم اما فیکم مسلم؟ فلم یجبھا احد(۱) ۔

ہای میرے بھیا ہای میرے سردار !! اے کاش یہ آسمان زمین پر گر چکا ہوتا اور اے کاش پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر خاکستر ہوجاتی!!پھر عمر سعد کو آواز دی : اے عمر سعد افسوس ہو تجھ پر ! اباعبد اللہ الحسینعليه‌السلام کو زبح کئے جارہے ہیں اور تو تماشائی بن کر دیکھ رہے ہو؟! اس ملعون نے کوئی جواب نہیں دیا ،پھر فریاد کی : کیا تم میں کوئی مسلمان نہیں ؟!! پھر بھی کسی نے جواب نہیں دیا۔ پھر ندا دی:ءانت الحسین اخی؟! ءانت ابن امی؟! ءانت نور بصری ومھجۃ قلبی؟! ءانت رجائنا ؟!ءانت کہفنا؟! ءانت عمادنا؟! ءانت ابن محمد المصطفی؟!ءانت ابن علی المرتضیٰ ؟!ءانت ابن فاطمۃ الزہرا؟! اس قدر بدن مبارک زخموں سے چور چور ہوگیا تھا کہ مظلومہ بہن کو پہچاننے میں مشکل ہورہا تھا۔ فرمایا: کیا تو میرا بھائی حسین ہے؟ کیا تو میرا ماں جایا حسین ہے؟کیا تو میری آنکھوں کا نور ہے ؟ اور دل کی ٹھنڈک ہے؟ کیا تو ہماری امید گاہ ہے؟ کیا تو ہمارا ملجاو ماوا ہو؟ اور کیا تو ہمارا تکیہ گاہ ہے ؟ کیا تو محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بیٹا ہے؟ کیا تو علی مرتضیٰ اور فاطمہ زہرا(س)کا بیٹا ہے؟!!

ان کلمات کو حزین آواز میں بیان کرنے کے بعد کوئی جواب نہیں آیا کیونکہ امام حسینعليه‌السلام شدید زخموں کی وجہ سے غش کی حالت میں تھے ، جس کی وجہ سے جواب نہیں دے پارہے تھے؛ تو زینب کبری نے پھر گریہ و زاری کرنا شروع کیا ،فریاد کرتے کرتے آپ پر بھی غشی طاری ہوگئی ۔ اور جب ہوش آیا تو فرمایا : اخی بحق جدی رسول اللہ الا ماکلمتنی وبحق ابی امیر المؤمنین الا ما خاطبنی یا حشاش مھجتی بحق امی فاطمۃ الزہرا الا ما جاوبتنی یا ضیاء عینی کلمنی یا شقیق روحی جاوبنی ۔اے میرے بھیا حسین !میرے جد گرامی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا واسطہ مجھے جواب دو میرے بابا امیر المؤمنین کا واسطہ میرے ساتھ کلام کرو! اے میرے جگر کے ٹکڑے! میری ماں فاطمہ زہرا(س) کاواسطہ مجھے جواب دو ، اے میرے نور نظر ! میرے ساتھ بات کرو ، اے میری جان مجھے جواب دو۔ جب یہ کلمات ادا ہوئیں تو امامعليه‌السلام کو ہوش آیا اور فرمایا: اے میری پیاری بہن ! آج جدائی اور فراق کا دن ہے ۔ یہ وہی دن ہے جس کا میرے نانا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وعدہ کیا تھا کہ آج ان کے ساتھ ملاقات کرنے کا دن ہے

____________________

۱ ۔ الارشاد ، ج۲، ص ۱۱۱۔

۲۷

۔کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے منتظر ہیں ۔ ان کلمات کے ساتھ آپ پر غشی طاری ہوگئی تو حضرت زینب (س) نے آپ کو اپنے آغوش میں لیا اور سینے سے لگا یا ۔ اما م کچھ دیر بعد پھر ہوش میں آیااور فرمایا : بہن زینب !آپ نے میرا دل غموں سے بھر دیا ، خدا کے خاطر آپ خاموش ہوجائیں ۔

حضرت زینب (س)نے ایک چیخ ماری اور فرمایا : واویلاہ! اخی یا بن امی! کیف اسکن و اسکت و انت بھذہ الحالۃ تعالج سکرات الموت تقبض یمینا و تمد شمالا ، تقاسی منونا ً و تلاقی احوالا ً روحی لروحک الفدا و نفسی لنفسک الوقاء۔ افسوس ہو مجھ پر اے میرے بھائی! اے میرے ماں جایا حسین ! کیسے آرام کروں اور کیسے چپ رہوں ؟!جب کہ آپ اس سکرات الموت کی عالم میں ہو؛ اور اپنے خون میں لت پت ہو ؛ میری جان اور نفس آپ پر قربان ہوجائیں ۔ اتنے میں شمر ملعون آکر کہنے لگا کہ اپنے بھائی سے جدا ہوجاؤ ورنہ تازیانہ کے ذریعے جدا کروں گا ۔یہ سننا تھا زینب کبری (س) نے اپنے بھائی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہنے لگی : یا عدو اللہ لا اتنحی عنہ ان ذبحتہ فاذبحنی معہ ۔ اے دشمن خدا ! میں اپنے بھائی سے جدا نہیں ہوجاؤں گی ۔ اگر تو انہیں ذبح کرنا چاہتے ہو تو مجھے بھی ان کے ساتھ ذبح کرو ۔ اس وقت شمر لعین نے تازیانے کے ذریعے بہن کو بھائی سے جدا کیا ۔اور دھمکی دیتے ہوئے کہا:اگر قریب آجائے تو تلوار اٹھاؤں گا ۔اب یہ ملعون امام عالی مقام کے نزدیک جاتا ہے اور سینہ اقدس پر سوار ہوجاتا ہے ۔ یہ دیکھنا تھا جناب زینب (س) نے فرمایا :

یا عدو الله ارفق به لقد کسرت صدره و اثقلت ظهره اما علمت ان هذا الصدر تربی علی صدر رسول الله و علی و فاطمه ،ویحک هذا الذی ناغاه جبرائیل و هز مهده میکائیل بالله علیک الاّ امهلته ساعة ً لِاَتزوّد ویحک دعنی اُقبّله دعنی اغمضه دعنی انادی بناته یتزوّدون منه دعنی آتیه بابنته سکینة فانه یحبّة (۲) اے دشمن خدا ! میرے بھائی پر رحم کریں تو نے ان کی پسلیوں کو توڑا ہے اور ان پر اپنا بوجھ ڈالا ہے ! کیا تو جانتا ہے کہ یہ کس کا سینہ ہے ؟ یہ وہ سینہ ہے جو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علی اور فاطمہعليه‌السلام کے سینے پر آرام کیا کرتے تھے ۔ افسوس ہو تجھ پر یہ وہ ذات ہے کہ جبرئیل جس کا ہمدم ہے اور میکائیل ان کا جھولا جھلانے والا ہے ! خدا کیلئے تھوڑی سی ان کو مہلت دے تاکہ میں ان سے خدا حافظی کرلوں اور ان سےزاد راہ لے لوں ۔ افسوس ہو تجھ پر اے لعین ! مجھے موقع دو تاکہ میں ان کا بوسہ لوں اور ان کے چہرے کی زیارت کروں ۔ اور مہلت دو تاکہ میں ان کی بیٹیوں کوبھی بلاؤں۔ ان کی چھوٹی بیٹی سکینہ انہیں بہت چاہتی ہیں۔ اور امام کو اس سے بہت پیار ہے ؛ان کو بلاؤں ۔

__________________

۲ ۔ معالی السبطین ، مجلس دہم۔

۲۸

مقتل سے گذرتے وقت نانا کو خطاب

یا محمداه صلى عليك ملائكة السماء هذا الحسين مرمل بالدماء مقطع الأعضاء و بناتك سبايا إلى الله المشتكى و إلى محمد المصطفى و إلى علي المرتضى و إلى فاطمة الزهراء و إلى حمزة سيد الشهداء يا محمداه هذا حسين بالعراء تسفى عليه الصبا قتيل أولاد البغايا وا حزناه وا كرباه اليوم مات جدي رسول الله ص يا أصحاب محمداه هؤلاء ذرية المصطفى يساقون سوق السبايا (۱) ۔

اے محمد ! خالق آسمان اور زمین آپ پر سلام ودرود بھیجتا ہے اور یہ حسین ہے جو خون میں غلطان ہے اور ان کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہے اور تیری بیٹیان اسیر ہوئی ہیں ۔خدا کے پاس شکایت کروں گی اور محمد مصطفی وعلی مرتضی اور سید الشہدا حضرت حمزہعليه‌السلام سے شکایت کروں گی ۔ اے محمد! یہ حسین ہے جو میدان میں پڑے ہوئےہیں ۔ ہوااس کے بدن مبارک پر چل رہی ہے جسے زنازادوں نے قتل کیا ہے !!

ہای افسوس کتنی بڑی مصیبت ہے ! آج میرے نانا محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس دنیا سے چلے گئے ، اے محمد کے چاہنے والو ! یہ مصطفی کی اولاد ہیں جن کو اسیروں کی طرح گھسیٹے جارہے ہیں ۔

اپنے بھائی کے کٹے ہوئے سر سے خطاب

يَا هِلَالًا لَمَّا اسْتَتَمَّ كَمَالًا

غَالَهُ خَسْفُهُ فَأَبْدَا غُرُوبَا

مَا تَوَهَّمْتُ يَا شَقِيقَ فُؤَادِي

كَانَ هَذَا مُقَدَّراً مَكْتُوبَا

يَا أَخِي فَاطِمَ الصَّغِيرَةَ كَلِّمْهَا

فَقَدْ كَادَ قَلَبُهَا أَنْ يَذُوبَا

يَا أَخِي قَلْبُكَ الشَّفِيقُ عَلَيْنَا

َا لَهُ قَدْ قَسَى وَ صَارَ صَلِيبَا

يَا أَخِي لَوْ تَرَى عَلِيّاً لَدَى الْأَسْرِ

مَعَ الْيُتْمِ لَا يُطِيقُ وُجُوبَا

____________________

۱ ۔ اللهوف ، ص۱۳۰۔

۲۹

كُلَّمَا أَوْجَعُوهُ بِالضَّرْبِ نَادَاكَ

بِذُلٍّ يَغِيضُ دَمْعاً سَكُوبَا

يَا أَخِي ضُمَّهُ إِلَيْكَ وَ قَرِّبْهُ

وَ سَكِّنْ فُؤَادَهُ الْمَرْعُوبَا

مَا أَذَلَّ الْيَتِيمَ حِينَ يُنَادِي ِأَبِيهِ وَ لَا يَرَاهُ مُجِيبَا

اے میری چاند جو کامل ہوتے ہی اچانک گرہن لگی اور اسے غروب کردیا ۔ اے میرے دل کے ٹکڑے !میں نےکبھی یہ گمان بھی نہیں کی تھی کہ ایسا بھی ہوگا ۔ بھیا! اپنی چھوٹی بیٹی فاطمہ سے بات کرو جس کا دل ذوب ہونے والا ہے ۔ بھیا ! تیرے مہربان دل اس قدر سخت کیوں ہوا جو ہماری باتوں کا جواب نہیں دیتے؟ بھیا ! اے کاش اپنے بیٹے زین العابدین کو اسیری اور یتیمی کے عالم میں دیکھتے کہ کس قدر اپنی جگہ پر خشک پڑا ہے ؟ جب بھی اسے تازیانہ مار کر ظالم اذیت دیتے تو وہ تمھیں پکارتے۔ اے بھیا ! اس کی مدد کرو اور اسے تسلی دو ۔ ہای افسوس یتیمی کی مصیبت کس قدر سخت ہے کہ وہ اپنے بابا کوپکارے اور بابا جواب نہ دے(۲) ۔

شہادت امام حسینعليه‌السلام کے بعد زینب کبری(س) کی تین ذمہ داریاں

مظلوم کربلا اباعبداللہعليه‌السلام شہادت کے بعد زینب کبریٰ کی اصل ذمہ داری شروع ہوتی ہے ۔اگرچہ عصر عاشور سے پہلے بھی ذمہ داریاں انجام دے رہی تھیں۔ جن لوگوں کی سرپرستی آپ نے قبول کی تھی وہ ایسے افراد تھے کہ جن کا وجود اور زندگی خطرے میں تھے ۔ جن کا نہ کوئی گھر تھا جس میں وہ آرام کرسکے ، نہ کوئی کھانا ان کے ساتھ تھا؛ جس سے اپنی بھوک ختم کرسکے اور نہ کوئی پانی تھا ؛کہ جو ہر جاندار کی ابتدائی اور حیاتی ترین مایہ حیات بشری ہوا کرتا ہے ؛اور یہ سب ایسے لوگ تھے جن کے عزیز و اقارب ان کے نظروں کے سامنے خاک و خون میں نہلائے جا چکے تھے۔ ایسے افراد کی سرپرستی قبول کرنا بہت ہی مشکل کام تھا، اسی طرح خود ثانی زہرا (س)بھی اپنے بیٹوں اور بھائیوں کی جدائی سے دل داغدار تھی ؛کیسے برداشت کرسکتی تھیں ؟! یہی وجہ تھی کہ سید الشہد اعليه‌السلام نے آپ کے مبارک سینے پر دست امامت پھیرا کر دعا کی تھی کہ خداان تمام مصیبتوں کو برداشت کرنے کی انہیں طاقت دے ۔ اور یہی دعا کا ا ثر تھا کہ کربلا کی شیردل خاتون نے ان تمام مصیبتوں کے دیکھنے کے باوجود عصر عاشور کے بعد بھیا عباس کی جگہ پہرہ دار ی کی اور طاغوتی حکومت اور طاقت کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں۔اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر رکھ دیں :شہید محسن نقوی لکھتے ہیں:

____________________

۲ ۔ بحارالأنوار، ج۴۵، ص۱۱۵۔

۳۰

پردے میں رہ کے ظلم کے پردے الٹ گئی

پہنی رسن تو ظلم کی زنجیر کٹ گئی

نظریں اٹھیں تو جبر کی بدلی بھی چھٹ گئی

لب سی لئے تو ضبط میں دنیا سمٹ گئی(۳)

۱ ۔ امام سجادعليه‌السلام کی عیادت اور حفاظت

ہمارا اعتقاد ہے کہ سلسلہ امامت کی چوتھی کڑی سید السجادعليه‌السلام ہیں ،چنانچہ عبیداللہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو دستور دیا تھا کہ اولاد امام حسینعليه‌السلام میں سے تمام مردوں کو شہید کئے جائیں،دوسری طرف مشیت الہی یہ تھی کہ مسلمانوں کیلئے ولایت اور رہبری کایہ سلسلہ جاری رکھا جائے ، اس لئے امام سجادعليه‌السلام بیمار رہے اور آپ کا بیمار رہنا دوطرح سے آپ کا زندہ رہنے کیلئے مدد گار ثابت ہوئی۔

۱ ۔ امام وقت کا دفاع کرنا واجب تھا جو بیماری کی وجہ سے آپ سے ساقط ہوا ۔

۲ ۔ دشمنوں کے حملے اور تعرضات سے بچنے کا زمینہ فراہم کرنا تھا جو بیماری کی وجہ سے ممکن ہوا۔ پھر سوفیصد جانی حفاظت کا ضامن تو نہ تھا کیونکہ خدا تعالی نہیں چاہتا کہ ہر کام معجزانہ طور پر انجام پائے بلکہ جتنا ممکن ہو سکے طبیعی اور علل واسباب مادی اور ظاہری طور پر واقع ہو۔

صرف دو صورتوں میں ضروری ہے کہ خدا تعالی ائمہ طاہرینعليه‌السلام کی غیبی امداد کے ذریعے حفاظت اور مدد کرے :

۱ ۔ معجزے کے بغیر اسلام کی بقا عادی طور پر ممکن نہ ہو ۔

۲ ۔ دین کی حفاظت مسلمانوں کی قدرت میں نہ ہو۔

__________________

۳ ۔ موج ادراک،ص۱۳۵۔

۳۱

ایسا نہیں کہ کسی فداکاری اور قربانی اور مشکلات اور سختی کو تحمل کئے بغیر مسلمان اپنے دشمنوں کو نابود کرسکے ۔

چنانچہ جب مشرکان قریش پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قتل کے درپے ہوئے تو خدا تعالی نے وحی کے ذریعے قریش والوں کے مکروہ ارادے سے آگاہ کیا اور غار ثور کے دروازے پر مکڑی کا جال بنا کر ان کی اذہان کو منحرف کیا ، کیونکہ اولاً تو دین اسلام کی بقا اور دوام ،پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی اور حیات طیبہ پر منحصر تھا۔ ثانیا ً پیامبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دشمن کی پلانینگ سے آگاہ اور مشرکوں کے اذہان کو منحرف کرنا تھا؛ جو بغیر معجزے کے ممکن نہ تھا ۔ لیکن باقی امور کو رنج ومصیبتوں اور سختیوں کوتحمل کرکے نتیجے تک پہنچانا تھا ۔جیسا کہ حضرت علیعليه‌السلام پیامبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان بچانے کیلئے آپ بستر پر سوگئے تاکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو غار میں چھپنے کی مہلت مل جائے ۔ اور پیامبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی مدینے کی طرف جانے کے بجائے دوسری طرف تشریف لے گئے ، تاکہ کفار کے ذہنوں کو منحرف کیا جائے۔ اگر سنت الہی اعجاز دکھانا ہوتی تو یہ ساری زحمتیں ان بزرگواروں کو اٹھانی نہ پڑتیں ۔

امام سجادعليه‌السلام کی حفاظت اور دیکھ بال کرنا بھی اسی طرح تھا ؛ کہ زینب کبری (س) اس سختیوں کو اپنے ذمہ لے لے ۔اور پورے سفر کے دوران آپعليه‌السلام کی حفاظت اور مراقبت کی ذمہ داری آپ آپ ہی قبول کرلے ۔

۳۲

کہاں کہاں زینب (س) نے امام سجادعليه‌السلام کی حفاظت کی؟

جلتے ہوئے خیموں سے امام سجادعليه‌السلام کی حفاظت

تاریخ کا ایک وحشیانہ ترین واقعہ عمر سعد کا اھل بیت امام حسینعليه‌السلام کے خیموں کی طرف حملہ کر کے مال واسباب کا لوٹنا اور خیموں کو آگ لگانا تھا ۔ اس وقت اپنے وقت کے امام سید الساجدینعليه‌السلام سے حکم شرعی پوچھتی ہیں: اے کے وارث اور بازماندگان کے پناہ گاہ ! ہمارے خیموں کو آگ لگائی گئی ہے ، ہمارے لئے شرعی حکم کیا ہے ؟ کیا انہی خیموں میں رہ کر جلنا ہے یا بیابان کی طرف نکلنا ہے؟!

امام سجادعليه‌السلام نے فرمایا:آپ لوگ خیموں سے نکل جائیں۔ لیکن زینب کبری (س) اس صحنہ کو چھوڑ کر نہیں جاسکتی تھیں، بلکہ آپکا امام سجادعليه‌السلام کی نجات کیلئے رکنا ضروری تھا۔

راوی کہتا ہے کہ میں دیکھ رہا تھا خیموں سے آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے اور ایک خاتون بیچینی کےعالم میں خیمے کے در پر کھڑی چاروں طرف دیکھ رہی تھیں، اس آس میں کہ کوئی آپ کی مدد کو آئے ۔ پھر آپ ایک خیمہ کے اندر چلی گئی ۔ اور جب باہر آئی تو میں نے پوچھا : اے خاتون !اس جلتے ہوئے خیمے میں آپ کی کونسی قیمتی چیز رکھی ہوئی ہے ؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہی ہے کہ آگ کا شعلہ بلند ہورہا ہے؟!

زینب کبری (س)یہ سن کر فریاد کرنے لگیں :اس خیمے میں میرا ایک بیماربیٹا ہے جو نہ اٹھ سکتا ہے اور نہ اپنے کو آگ سے بچا سکتا ہے ؛جبکہ آگ کے شعلوں نے اسے گھیر رکھا ہے ۔آکر کار زینب کبری (س) نے امام سجادعليه‌السلام کو خیمے سے نکال کر اپنے وقت کے امام کی جان بچائی ۔

۳۳

شمر کے سامنے امام سجادعليه‌السلام کی حفاظت

امام حسینعليه‌السلام کی شہادت کے بعد لشکر عمر سعد خیمہ گاہ حسینی کی طرف غارت کے لئے بڑھے ۔ایک گروہ امام سجادعليه‌السلام کی طرف گئے ، جب کہ آپ شدید بیمار ہونے کی وجہ سے اپنی جگہ سے اٹھ نہیں سکتے تھے ۔ ایک نے اعلان کیا کہ ان کے چھوٹوں اور بڑوں میں سے کسی پربھی رحم نہ کرنا ۔دوسرے نے کہا اس بارے میں امیر عمر سعد سے مشورہ کرے ۔ شمر ملعون نے امامعليه‌السلام کو شہید کرنے کیلئے تلوار اٹھائی ۔ حمید بن مسلم کہتا ہے : سبحان اللہ ! کیا بچوں اوربیماروں کو بھی شہید کروگے؟! شمر نے کہا : عبید اللہ نے حکم دیا ہے ۔ حضرت زینب (س) نے جب یہ منظر دیکھا تو امام سجادعليه‌السلام کے قریب آئیں اور فریاد کی: ظالمو! اسے قتل نہ کرو۔ اگرقتل کرنا ہی ہے تو مجھے پہلے قتل کرو ۔

آپ کا یہ کہنا باعث بنا کہ امامعليه‌السلام کے قتل کرنے سے عمر سعد منصرف ہوگیا۔( ۱ )

____________________

۱ ۔ مقتل الحسین ، ص۳۰۱۔

۳۴

امام سجادعليه‌السلام کو تسلی دینا

جب اسیران اہل حرم کوکوفہ کی طرف روانہ کئے گئے ، تو مقتل سے گذارے گئے ، امامعليه‌السلام نے اپنے عزیزوں کو بے گور وکفن اور عمر سعد کے لشکر کے ناپاک جسموں کو مدفون پایا تو آپ پر اس قدر شاق گزری کہ جان نکلنے کے قریب تھا ۔ اس وقت زینب کبری (س) نے آپ کی دلداری کیلئے ام ایمن ؓ سے ایک حدیث نقل کی ،جس میں یہ خوش خبری تھی کہ آپ کے بابا کی قبر مطہر آیندہ عاشقان اور محبین اہلبیت F کیلئےامن اورامید گاہ بنے گی۔

لِمَا أَرَى مِنْهُمْ قَلَقِي فَكَادَتْ نَفْسِي تَخْرُجُ وَ تَبَيَّنَتْ ذَلِكَ مِنِّي عَمَّتِي زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيٍّ الْكُبْرَى فَقَالَتْ مَا لِي أَرَاكَ تَجُودُ بِنَفْسِكَ يَا بَقِيَّةَ جَدِّي وَ أَبِي وَ إِخْوَتِي فَقُلْتُ وَ كَيْفَ لَا أَجْزَعُ وَ أَهْلَعُ وَ قَدْ أَرَى سَيِّدِي وَ إِخْوَتِي وَ عُمُومَتِي وَ وُلْدَ عَمِّي وَ أَهْلِي مُضَرَّجِينَ بِدِمَائِهِمْ مُرَمَّلِينَ بِالْعَرَاءِ مُسَلَّبِينَ لَا يُكَفَّنُونَ وَ لَا يُوَارَوْنَ وَ لَا يُعَرِّجُ عَلَيْهِمْ أَحَدٌ وَ لَا يَقْرَبُهُمْ بَشَرٌ كَأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَ الدَّيْلَمِ وَ الْخَزَرِ فَقَالَتْ لَا يَجْزَعَنَّكَ مَا تَرَى فَوَ اللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لَعَهْدٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى جَدِّكَ وَ أَبِيكَ وَ عَمِّكَ وَ لَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ‏ مِيثَاقَ أُنَاسٍ مِنْ هَذِه الْأُمَّةِ لَا تَعْرِفُهُمْ فَرَاعِنَةُ هَذِهِ الْأَرْضِ وَ هُمْ مَعْرُوفُونَ فِي أَهْلِ السَّمَاوَاتِ أَنَّهُمْ يَجْمَعُونَ هَذِهِ الْأَعْضَاءَ الْمُتَفَرِّقَةَ فَيُوَارُونَهَا وَ هَذِهِ الْجُسُومَ الْمُضَرَّجَةَ وَ يَنْصِبُونَ لِهَذَا الطَّفِّ عَلَماً لِقَبْرِ أَبِيكَ سَيِّدِ الشُّهَدَاءِ لَا يَدْرُسُ أَثَرُهُ وَ لَا يَعْفُو رَسْمُهُ عَلَى كُرُورِ اللَّيَالِي وَ الْأَيَّامِ وَ لَيَجْتَهِدَنَّ أَئِمَّةُ الْكُفْرِ وَ أَشْيَاعُ الضَّلَالَةِ فِي مَحْوِهِ وَ تَطْمِيسِهِ فَلَا يَزْدَادُ أَثَرُهُ إِلَّا ظُهُوراً وَ أَمْرُهُ إِلَّا عُلُوّا (۲) ۔

خود امام سجادعليه‌السلام فرماتے ہیں : کہ جب میں نے مقدس شہیدوں کے مبارک جسموں کو بے گور وکفن دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا ۔یہاں تک کہ میری جان نکلنے والی تھی ، میری پھوپھی زینب(س) نے جب میری یہ حالت دیکھی تو فرمایا: اے میرے نانا ،بابا اور بھائیوں کی نشانی ! تجھے کیا ہوگیا ہے؟ کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ تیری جان نکلنے والی ہے ۔تو میں نے جواب دیا کہ پھوپھی اماں ! میں کس طرح آہ وزاری نہ کروں ؟جب کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے بابا اور عمو اور بھائیوں اور دیگر عزیزو اقرباء کو خون میں لت پت اور عریان زمین پر پڑے دیکھ رہا ہوں۔اور کوئی ان کو دفن کرنے والے نہیں ہیں۔ گویا یہ لوگ دیلم اور خزر کے خاندان والے ہیں ۔

____________________

۲ ۔ بحار ، ج۴۵، ص۱۷۹ ۱۸۰۔

۳۵

زینب (س) نے فرمایا: آپ یہ حالت دیکھ کر آہ وزاری نہ کرنا ۔خدا کی قسم ،یہ خدا کے ساتھ کیا ہوا وعدہ تھا جسے آپ کے بابا ، چچا ،بھائی اور دیگر عزیزوں نے پورا کیا ۔خدا تعالی اس امت میں سے ایک گروہ پیدا کریگا جنہیں زمانے کےکوئی بھی فرعون نہیں پہچان سکے گا ۔ لیکن آسمان والوں کے درمیان مشہور اور معروف ہونگے۔ان سے عہد لیا ہوا ہے کہ ان جدا شدہ اعضاء اور خون میں لت پت ٹکڑوں کو جمع کریں گے اور انہیں دفن کریں گے۔وہ لوگ اس سرزمین پر آپ کے بابا کی قبر کے نشانات بنائیں گےجسے رہتی دنیا تک کوئی نہیں مٹا سکے گا۔سرداران کفر والحاد اس نشانے کو مٹانے کی کوشش کریں گے، لیکن روز بہ روز ان آثار کی شان ومنزلت میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا ۔شاعر نے یوں کہا:

وقار مریم وحوا! سلام ہو تجھ پر

سلام ثانی زہرا! سلام ہو تجھ پر

گواہ ہے تیری جرئت پہ کربلا کی زمین

امام وقت کو کی تونے صبر کی تلقین

لٹاکے اپنی کمائی بچاکے دولت دین

بجھا کے شمع تمنا جلا کے شمع یقین ۔

۳۶

دربار ابن زیاد میں امام سجادعليه‌السلام کی حفاظت

قَالَ الْمُفِيدُ فَأُدْخِلَ عِيَالُ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا عَلَى ابْنِ زِيَادٍ فَدَخَلَتْ زَيْنَبُ أُخْتُ الْحُسَيْنِ ع فِي جُمْلَتِهِمْ مُتَنَكِّرَةً وَ عَلَيْهَا أَرْذَلُ ثِيَابِهَا وَ مَضَتْ حَتَّى جَلَسَتْ نَاحِيَةً وَ حَفَّتْ بِهَا إِمَاؤُهَا فَقَالَ ابْنُ زِيَادٍ مَنْ هَذِهِ الَّتِي انْحَازَتْ فَجَلَسَتْ نَاحِيَةً وَ مَعَهَا نِسَاؤُهَا فَلَمْ تُجِبْهُ زَيْنَبُ فَأَعَادَ الْقَوْلَ ثَانِيَةً وَ ثَالِثَةً يَسْأَلُ عَنْهَا فَقَالَتْ لَهُ بَعْضُ إِمَائِهَا هَذِهِ زَيْنَبُ بِنْتُ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ص فَأَقْبَلَ عَلَيْهَا ابْنُ زِيَادٍ وَ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَحَكُمْ وَ قَتَلَكُمْ وَ أَكْذَبَ أُحْدُوثَتَكُمْ فَقَالَتْ زَيْنَبُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَكْرَمَنَا بِنَبِيِّهِ مُحَمَّدٍ ص وَ طَهَّرَنَا مِنَ الرِّجْسِ تَطْهِيراً إِنَّمَا يَفْتَضِحُ الْفَاسِقُ ثُمَّ الْتَفَتَ ابْنُ زِيَادٍ إِلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فَقَالَ مَنْ هَذَا فَقِيلَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ فَقَالَ أَ لَيْسَ قَدْ قَتَلَ اللَّهُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ فَقَالَ عَلِيٌّ قَدْ كَانَ لِي أَخٌ يُسَمَّى عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ قَتَلَهُ النَّاسُ فَقَالَ بَلِ اللَّهُ قَتَلَهُ فَقَالَ عَلِيٌّ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَ الَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها فَقَالَ ابْنُ زِيَادٍ وَ لَكَ جُرْأَةٌ عَلَى جَوَابِي اذْهَبُوا بِهِ فَاضْرِبُوا عُنُقَهُ فَسَمِعَتْ عَمَّتُهُ زَيْنَبُ فَقَالَتْ يَا ابْنَ زِيَادٍ إِنَّكَ لَمْ تُبْقِ مِنَّا أَحَداً فَإِنْ عَزَمْتَ عَلَى قَتْلِهِ فَاقْتُلْنِي مَعَهُ فَنَظَرَ ابْنُ زِيَادٍ إِلَيْهَا وَ إِلَيْهِ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ عَجَباً لِلرَّحِمِ وَ اللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّهَا وَدَّتْ أَنِّي قَتَلْتُهَا مَعَهُ‏ دَعُوهُ فَإِنِّي أَرَاهُ لِمَا بِهِ فَقَالَ عَلِيٌّ لِعَمَّتِهِ اسْكُتِي يَا عَمَّةُ حَتَّى أُكَلِّمَهُ ثُمَّ أَقْبَلَ ع فَقَالَ أَ بِالْقَتْلِ تُهَدِّدُنِي يَا ابْنَ زِيَادٍ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ الْقَتْلَ لَنَا عَادَةٌ وَ كَرَامَتَنَا الشَّهَادَة( ۱) ۔

جب خاندان نبوت ابن زیاد کی مجلس میں داخل ہوئی ؛ زینب کبری دوسری خواتین کے درمیان میں بیٹھ گئیں ؛ تو ابن زیاد نے سوال کیا : کون ہے یہ عورت ، جو دوسری خواتین کے درمیان چھپی ہوئی ہے؟ زینب کبری نے جواب نہیں دیا ۔ تین بار یہ سوال دہرایاتو کنیزوں نے جواب دیا : اے ابن زیاد ! یہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اکلوتی بیٹی فاطمہ زہرا (س)کی بیٹی زینب کبری (س)ہے ۔ ابن زیاد آپ کی طرف متوجہ ہو کر کہا: اس خدا کا شکر ہے جس نے تمہیں ذلیل و خوار کیا اور تمھارے مردوں کو قتل کیا اور جن چیزوں کا تم دعوی کرتے تھے ؛ جٹھلایا ۔

ابن زیاد کی اس ناپاک عزائم کو زینب کبری (س)نے خاک میں ملاتےہوئے فرمایا:اس خدا کا شکر ہے جس نے اپنے نبی محمد مصطفیٰصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعے ہمیں عزت بخشی ۔ اورہرقسم کے رجس اور ناپاکی سے پاک کیا۔ بیشک فاسق ہی رسوا ہوجائے گا ۔

____________________

۱ ۔ بحار ،ج۴۵،ص۱۱۷،۱۱۸۔

۳۷

جب ابن زیاد نے علی ابن الحسینعليه‌السلام کو دیکھا تو کہا یہ کون ہے؟ کسی نے کہا : یہ علی ابن الحسینعليه‌السلام ہے ۔تو اس نے کہا ؛کیا اسے خدا نے قتل نہیں کیا ؟ یہ کہہ کر وہ بنی امیہ کا عقیدہ جبر کا پرچار کرکے حاضرین کے ذہنوں کو منحرف کرنا چاہتے تھے اور اپنے جرم کو خدا کے ذمہ لگا کر خود کو بے گناہ ظاہر کرنا چاہتا تھا ۔

امام سجادعليه‌السلام جن کے بابا او ر پوراخاندان احیاء دین کیلئے مبارزہ کرتے ہوئے بدرجہ شہادت فائز ہوئے تھے اور خود امام نے ان شہداء کے پیغامات کو آنے والے نسلوں تک پہنچانے کی ذمہ داری قبول کی تھی ، اس سے مخاطب ہوئے : میرا بھائی علی ابن الحسینعليه‌السلام تھا جسے تم لوگوں نے شہید کیا ۔

ابن زیاد نے کہا : اسے خدا نے قتل کیا ہے ۔

امام سجادعليه‌السلام نے جب اس کی لجاجت اور دشمنی کو دیکھا تو فرمایا: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ(۲) اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلالیتا ہے اور جو نہیں مرتے ہیں ان کی روحوں کو بھی نیند کے وقت طلب کرلیتا ہے ۔ اور پھر جس کی موت کا فیصلہ کرلیتا ہے ،اس کی روح کو روک لیتا ہے ۔ اور دوسری روحوں کو ایک مقررہ مدّت کے لئے آزاد کردیتا ہے - اس بات میں صاحبان فکر و نظر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں ۔

ابن زیاد اس محکم اور منطقی جوا ب اور استدلال سن کر لا جواب ہوا تو دوسرے ظالموں اور جابروں کی طرح تہدید پر اتر آیا اور کہنے لگا : تو نے کس طرح جرات کی میری باتوں کا جواب دے ؟! جلاد کو حکم دیا ان کا سر قلم کرو ۔ تو اس وقت زینب کبری (س) نے سید سجادعليه‌السلام کو اپنے آغوش میں لیا اور فرمایا:اے زیاد کے بیٹے ! جتنے ہمارے عزیزوں کو جو تم نے شہید کیا ہے کیا کافی نہیں؟!خدا کی قسم میں ان سے جدا نہیں ہونگی ۔ اگر تو ان کو شہید کرنا ہی ہے تو پہلے مجھے قتل کرو۔

یہاں ابن زیاد دوراہے پر رہ گیا کہ اس کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ؟ ایک طرف سے کسی ایک خاتون اوربیمار جوان کو قتل کرنا ۔ دوسرا یہ کہ زینب کبری (س)کو جواب نہ دے پانا۔ یہ دونوں غیرت عرب کا منافی تھا ۔

____________________

۲ ۔ زمر ۴۲۔

۳۸

اس وقت عمرو بن حریث نے کہا: اے امیر! عورت کی بات پر انہیں سزانہیں دی جاتی، بلکہ ان کی خطاؤں سے چشم پوشی کرنا ہوتا ہے ۔ اس وقت ابن زیاد نے زینب کبری(س) سے کہا: خدا نے تمھارے نافرمان اور باغی خاندان کو قتل کرکے میرے دل کو چین اور سکون فراہم کیا ۔اس معلون کی اس طعنے نے زینب کبری(س) کا سخت دل دکھا یااورلادیا ۔ اس وقت فرمایا: میری جان کی قسم ! تو نے میرے بزرگوں کو شہید کیا، اور میری نسل کشی کی ، اگر یہی کام تیرے دل کا چین اور سکون کا باعث بنا ہے تو کیا تیرے لئے شفا ملی ہے ؟! ابن زیاد نے کہا : یہ ایک ایسی عورت ہے جو قیافہ کوئی اور شاعری کرتی ہے ۔ یعنی اپنی باتوں کو شعر کی شکل میں ایک ہی وزن اور آہنگ میں بیان کرتی ہے ۔ جس طرح ان کا باپ بھی اپنی شاعری دکھایا کرتا تھا ۔

زینب کبری (س) نے کہا: عورت کو شاعری سے کیا سروکار؟! لیکن میرے سینے سے جو بات نکل رہی ہے وہ ہم قیافہ اور ہم وزن ہے(۳) ۔

آخر میں مجبور ہوا کہ موضوع گفتگو تبدیل کرے اور کہا: بہت عجیب رشتہ داری ہے کہ خدا قسم ! میرا گمان ہے کہ زینب چاہتی ہے کہ میں اسے ان کے برادر زادے کے ساتھ قتل کروں؛ انہیں لے جاؤ؛ کیونکہ میں ان کی بیماری کو ان کے قتل کیلئے کافی جانتاہوں۔

اس وقت امام سجادعليه‌السلام نے فرمایا : اے زیاد کے بیٹے ! کیا تو مجھے موت سے ڈراتے ہو ؟ کیا تو نہیں جانتا ، راہ خدا میں شہید ہونا ہمارا ورثہ اور ہماری کرامت ہے ۔

قدم قدم پہ مقاصد کی عظمتوں کا خیال

نفس نفس میں بھتیجے کی زندگی کا سوال

ردا چھنی تو بڑھا اور عصمتوں کا جلال

کھلے جو بال تو نکھرا حسینیت کا جمال

نقیب فتح شہ مشرقین بن کے اٹھی

نہ تھے حسین تو زینب حسین بن کے اٹھی(۴)

__________________

۳ ۔ ارشاد- ترجمه رسولى محلاتى ج‏۲ ص ۱۱۹

۴ ۔ پیام اعظمی ؛ القلم،ص۲۷۳۔

۳۹

۲ ۔ یتیموں کی رکھوالی اور حفاظت

یتیموں کی رکھوالی آپ کی دوسری اہم ذمہ داری تھی کہ جب خیمے جل کر راکھ ہوگئے اور آگ خاموش ہوئی تو زینب کبری (س) بیابان میں بچوں اور بیبیوں کو جمع کرنے لگیں۔جب دیکھا تو امام حسینعليه‌السلام کی دو بیٹیوں کو بچوں کے درمیان میں نہیں پایا ۔ تلاش میں نکلیں تو دیکھا کہ دونوں بغل گیر ہوکر آرام کررہی تھیں ؛ جب نزدیک پہنچیں تو دیکھا کہ دونوں بھوک وپیاس اور خوف وہراس کی وجہ سے رحلت کر چکی تھیں۔(۱)

بچوں کی بھوک اور پیاس کا خیال

اسیری کے دوران عمر سعد کی طرف سے آنے والا کھانا بالکل ناکافی تھا جس کی وجہ سے بچوں کو کم پڑتا تھا ۔ تو آپ اپنا حصہ بھی بچوں میں تقسیم کرتی تھیں اور خود بھوکی رہتی تھیں۔ جس کی وجہ سے آپ جسمانی طور پر سخت کمزور ہوگئی تھیں جس کے نتیجے میں آپ کھڑی ہوکر نماز شب نہیں پڑ سکتی تھیں۔(۲)

فاطمہ صغریٰ کی حفاظت

دربار یزید میں ایک مرد شامی نے جسارت کے ساتھ کہا : حسین کی بیٹی فاطمہ کو ان کی کنیزی میں دے دے ۔ فاطمہ نے جب یہ بات سنی تو اپنی پھوپھی سے لپٹ کر کہا : پھوپھی اماں ! میں یتیم ہوچکی کیا اسیر بھی ہونا ہے ؟!!

فَقَالَتْ عَمَّتِي لِلشَّامِيِّ كَذَبْتَ وَ اللَّهِ وَ لَوْ مِتُّ وَ اللَّهِ مَا ذَلِكَ لَكَ وَ لَا لَهُ فَغَضِبَ يَزِيدُ وَ قَالَ كَذَبْتِ وَ اللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لِي وَ لَوْ شِئْتُ أَنْ أَفْعَلَ لَفَعَلْتُ قَالَتْ كَلَّا وَ اللَّهِ مَا جَعَلَ اللَّهُ لَكَ ذَلِكَ إِلَّا أَنْ تَخْرُجَ مِنْ مِلَّتِنَا وَ تَدِينَ بِغَيْرِهَا فَاسْتَطَارَ يَزِيدُ غَضَباً وَ قَالَ إِيَّايَ تَسْتَقْبِلِينَ بِهَذَا إِنَّمَا خَرَجَ مِنَ الدِّينِ أَبُوكِ وَ أَخُوكِ قَالَتْ زَيْنَبُ بِدِينِ اللَّهِ وَ دِيْنِ أ بِي وَ دِيْنِ أَخِي اهْتَدَيْتَ أَنْتَ وَ أَبُوكَ وَ جَدُّكَ إِنْ كُنْتَ مُسْلِماً قَالَ كَذَبْتِ يَا عَدُوَّةَ اللَّهِ قَالَتْ لَهُ أَنْتَ أَمِيرٌ تَشْتِمُ ظَالِماً وَ تَقْهَرُ لِسُلْطَانِكَ فَكَأَنَّهُ اسْتَحْيَا وَ سَكَتَ وَ عَادَ الشَّامِيُّ فَقَالَ هَبْ لِي هَذِهِ الْجَارِيَةَ فَقَالَ لَهُ يَزِيدُ اعْزُبْ وَهَبَ اللَّهُ لَكَ حَتْفاً قَاضِياً فَقَالَ الشَّامِيُّ مَنْ هَذِهِ الْجَارِيَةُ فَقَالَ يَزِيدُ هَذِهِ فَاطِمَةُ بِنْتُ الْحُسَيْنِ وَ تِلْكَ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ الشَّامِيُّ الْحُسَيْنُ ابْنُ فَاطِمَةَ وَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ الشَّامِيُّ لَعَنَكَ اللَّهُ يَايَزِيدُ تَقْتُلُ عِتْرَةَ نَبِيِّكَ وَ تَسْبِي ذُرِّيَّتَهُ وَ اللَّهِ مَا تَوَهَّمْتُ إِلَّا أَنَّهُمْ سَبْيُ الرُّومِ فَقَالَ يَزِيدُ وَ اللَّهِ لَأُلْحِقَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَضُرِبَ عُنُقُهُ (۳) ۔

__________________

۱ ۔ معالی السبطین فی احوال الحسن والحسین ج۲ص۸۸،۸۹۔

۲ ۔ مھدی پیشوائی ، شام سرزمین خاطرہ ہا ،ص ۱۷۵۔

۳ ۔ بحار،ج۴۵ ص ۱۳۶،۱۳۷۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

کی طرح مجذوب ومجنون کہا گیا ،کبھی عذر پیری تراش کر اس کامل ہستی کے ادراک وفہم مصطفی پر رکیک حملے کئے گئے اور ستم بالائے ستم یہ کہ آج کے زمانے میں اہل قلم نے ان کو اشتراکیت کا بانی قرار دینا شروع کردیا ہے ،مارکسی نظریہ کا خالق سمجھا جانے لگا ہے ،مسلمانوں کی اس فرزند اسلام سے چشم پوشی یقینا اہل درد کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے کہ اہل علم وقلم احباب نے اس بطل جلیل زعیم عظیم یا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علیم سے یہ غیر منصفانہ صرف نظر کیوں روا رکھا ۔خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ راقم ناتواں کو یہ سعادت نصیب ہو رہی ہے کہ اس مومن کامل،عاشق آل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،محبوب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورحبیب رب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،نجم ہدایت یار نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اپنے عقیدت مند جذبات کا اظہار پیش کروں ۔میں کوشش کروں گا کہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کے خصوصی حالات پر مختصر مگر سیر حاصل روشنی ڈالوں کہ آپ کی علمی حیثیت اسلامی ،اقتصادی نظریہ ،فضائل ومناقب اور حالات مصائب سے عبوری واقفیت ہوجائے نیز اس شبہ و الزام کا بھی ازالہ ہو جائے کہ جناب ابوذر رضی اللہ عنہ اشتراکیت یا کمیونزم جیسے لغو نظریات کے خالق تھے ۔حالانکہ آپ خالص توحید پرست ،کٹر مومن اور حقیقی عاشق رسول واہلبیت رسول علیھم السلام تھے ۔ ان کے جسم مبارک کے ایک ایک قطرہ خون میں محبت اہل بیت (ع) رچی بسی تھی ان کے رگ وپے میں مؤدت والفت کا خون دوڑ رہا تھا وہ ثقلین رسول کے نظریہ پر ایمان رکھتے تھے اور انھیں کے نقش قدم پر دوڑتے تھے ۔حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے مطیع وپیروکار تھے اور ان ہی کے سکھائے ہوئے نظریات کا پرچار کیا کرتے تھے ۔اور یہی وجہ

۸۱

تھی جس کی پاداش میں انھیں سکھ کی سانس لینا نصیب نہ ہوسکا محبت دین کے جنون حقیقی میں انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام سے ٹکرلی اور انتہائی بے جگری سے مقابلہ کیا ۔ کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لائے اور جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کا واشگاف اعلان فرما کر جہاد الکبیر فرماتے رہے ۔اصولوں پر کسی سودا بازی پر امادہ نہ ہوئے اور صداقت کی راہ میں کھڑی ہوئی ہر دیوار سے ٹکراگئے ۔آپ نے استبدادی قوتوں کا مردانہ وار مقابلہ فرمایا ۔

اور آئین وفا کی ہر شق کے پابند رہے ۔حتی کہ آج ابوذر کی صداقت دہریوں اور بے دینوں نے بھی تسلیم کرلی ۔اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے کہ

گماں آباد ہستی میں یقین مرد مسلمان کا ----- بیاں باں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی

مٹایا قیصر وکسری کے استبداد کو جس نے ----- وہ کیا تھا‏؟ زور حیدر ،صدق بوذر فقر سلمانی

نام ونسب وحلیہ:-

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ میرا اصلی نام جندب بن جنادہ ہے لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میر ا نام عبداللہ رکھا ہے اور یہی نام مجھے پسند ہے چونکہ آپ کے فرزند اکبر کا نام" ذر" تھا لہذا جناب کی کنیت "ابوذر" تھی ۔ذر کے لغوی معنی خوشبو اور طلوع وظہور کے ہیں ۔

آپ جنادہ بن قیس ابن صغیر بن حزام بن غفاری کے چشم وچراغ تھے آپ کی والدہ محترمہ رملہ بنت ورفیعہ غفاریہ تھیں ۔آپ عربی النسل اور قبیلہ غفار سے تھے اسی لئے آپ کے نام کے ساتھ "غفاری" لکھا جاتا ہے ۔آپ گندمی رنگت کے طویل القد انسان تھے ،نحیف الجسم تھے ۔آپ کا چہرہ روشن تھا اور کنپٹیاں دھنسی ہوئی

۸۲

تھیں کمر خمیدہ ہوگئی تھیں ۔

عہد جاہلیت کے مختصر حالات :-

حضرت ابوذر غفاری رحمۃ اللہ علیہ کے قبل از اسلام کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ وہ دین اسلام سے نابلد تھے تاہم توفیق الہی نے اس وقت بھی انھیں وحدانیت کے نور سے منور کر رکھا تھا اس پرشرک زمانے میں بھی آپ توحید خداوندی کا تصور اپنے روشن قلب میں رکھتے تھے ۔انھوں نے خود اپنے ایک بھتیجا پر اس بات کا انکشاف فرمایا کہ ملاقات رسول سے تین برس پہلے انھوں نے خدا کی نماز ادا فرمائی اور بت پرستی سے اکثر اجتناب برتا ۔اس کی دجہ خود امام صادق علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جناب ابوذر اکثر تفکر خالق میں رہاکرتے تھے اور ان کی عبادت کی بنیاد تفکر خداوندی پر تھی ابن سعد نے اپنی طبقات میں اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ بات نقل کی ہے چنانچہ مولوی شبلی نعمانی اپنی سیرت النبی میں تحریر کرتے ہیں کہ ابوذر بت پرستی ترک کرچکے تھے ۔اور غیر معین طریقے سے جس طرح ان کے ذہن میں آتا تھا خدا کا نام لیتے تھے اور نماز ادا کرتے تھے جب حضور کا چرچا سنا تو اپنے بھائی کو آپ کی خدمت میں صحیح صورت حال معلوم کرنے کے لئے روانہ کیا جو آنحضرت کی خدمت میں آیا اور قرآن شریف کی کچھ سورتیں سنکر واپس جاکر ابو ذر سے کہا کہ میں نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جسے لوگ مرتد کہتے ہیں وہ مکارم اخلاق سکھا تا ہے اور جو کلام وہ سنا تا ہے وہ شعر وشاعری نہیں بلکہ کچھ اور ہی چیز ہے تمھارا طریقہ اس سے بہت ملتا جلتا ہے ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سخت قحط پڑا قبیلہ غفار کے گمان میں

۸۳

یہ خشک سالی ان کے بت معبودوں کی ناراضگی کے باعث تھی چنانچہ سرداران قوم نے فیصلہ کیا کہ بتوں کو راضی کیا جائے ۔انھوں نے "منات " بت کو منانے کے لئے طرح طرح کی قربانیاں دی اور خوب انکساری سے گڑاگڑا کر دعائیں مانگیں مگر ایک قطرہ بارش بھی نہ ٹپکا ۔حضرت ابوذر کے بھائی انیس ان کو بھی زبردستی منات کی پو جا کے لئے لے آئے تھے اور ان کی بے رغبتی دیکھکر بار بار ان کو بتوں کی توصیف سناتے اور ان سے خوف زدہ کرتے مگر آپ سنی ان سنی کرئے رہتے ان ہی قصہ کہانیوں میں کچھ ایسے قصے بھی آئے کہ لوگوں نے بتوں کی گستاخیاں کیں مگر ان کا بال تک بیکا نہ ہوا ۔حضرت ابوذر اپنے تفکرات میں کھوئے ہوئے یہ سب باتیں سنتے رہے حتی کہ لوگوں کو نیند آگئی مگر ابوذر بیدار رہے ۔اور سوچنے لگے کہ "منات" آخر ایک پتھر کا صنم ہی تو ہے ۔ جو نہ ہی ہدایت دے سکتا ہے اور نہ ہی گمراہ کرسکتا ہے ۔آپ چپکے سے اٹھے اور منات کو ایک پتھر مار ا۔منات ٹس سے مس نہ ہوا ۔پس ابوذر نے من میں کہا ۔"تو عاجز ہے قادر نہیں ،مخلوق ہے خالق نہیں ،نہ تجھ میں طاقت ہے نہ قوت تو ہرگز لائق عبادت نہیں ہوسکتا ۔بے شک میری قوم کھلی گمراہی میں ہے کہ تجھ پر قربانیاں چڑھاتے ہیں اور جانور ذبح کرتے ہیں "اسی تصورمیں آپ سوگئے ۔جب صبح طلوع ہوئی تو منات کے پجاری پھر اس کے گرد طواف کرنے کے لئے جمع ہوئے مگر ابوذر عجیب کیفیت میں اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر آسمان کی بلندی کی طرف عالم تصور میں ڈوب گئے ۔اور اجرام فلکی کی تخلیق میں غور فکر و تامل میں غرق رہے ۔ حتی کہ اطمینان قلب حدیقین تک آپہونچا ۔لوگ طواف کر کراکے

۸۴

روانہ ہوگئے اور جناب ابوذر کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ۔قافلہ چلتا رہا ۔ابوذر دریائے فکر میں غوطہ زن رہے ۔پہاڑوں کو دیکھتے تو خالق کی صناعی پر غور فرماتے ،زمین کی وسعت ،آسمان کی بلندی ،خلقت انسانیہ ،چاند ،سورج اور تارے آخر کوئی تو ان سب کا بنانے والا اور انتظام کرنے والا ہے ۔ اسی سوچ وبچار میں گھر آپہنچے تو سیدھے لیٹ گئے دل ہی دل میں کہا " بے شک آسمان کا پیدا کرنے والا آسمان سے بڑا ہے اور انسان کا خالق انسان سے بڑا ہے اس دنیا کو بنانے والا یقینا بہت ہی بڑا ہے وہی عبادت کے لائق ہے منات نہیں ، نہ لات وعزی ،نہ اساف ونائلہ اور سعد بلکہ صرف اسی کی ذات عبادت کے قابل ہے وہی خالق بدیع مصور وقادر ہے اور یہ بت محض پتھر ہیں جن میں نہ قدرت ہے نہ طاقت ۔پس اسی حالت یقین میں آپ سجدہ ریز ہوئے دل کو تسلی محسوس ہوئی اوراسی کیفیت میں آپ محوخواب ہوگئے ۔جب صبح اٹھے تو خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگے ۔اسی حالت میں حضرت کے بھائی انیس آئے تو ابوذر کو مؤدت انداز میں کھڑا پایا ۔ دریافت کیا کہ کیا ہورہا ہے جوابا فرمایا کہ اللہ کے لئے نماز پڑھ رہا ہوں ۔ انیس حیران ہوکر پوچھا کون اللہ؟۔نماز تو صرف منات یا نہم کے لئے ہے ۔آپ نے فرمایا میں کسی بت کی نماز نہیں پڑھتا بلکہ میں نے ایسے معبود کی معرفت پائی ہے جو تمھارے خداوؤں جیسا نہیں وہ عظیم ہے قادر مطلق ہے ۔عقل اس کو پانے سے قاصر ہے بس وہ ایک حقیقی طاقت ہے جسکی میں تعظیم کرتا ہوں انیس نے دریافت کیا اے میرے بھائی کیا ایسے خدا کی پرستش کرتا ہے جسے نہ تو

۸۵

دیکھ سکتا ہے نہ پاسکتا ہے ۔یہ عجیب حرکت ہے کہ تو اپنے سامنے کھڑے معبودوں کو چھوڑ رہا ہے جنھیں تو جب چاہے دیکھ لے اور جب مرضی پالے ۔جناب ابوذر نے فرمایا ۔اگر چہ میں اپنے معبود کو پا نہ سکا تاہم میں نے اس کی قدرت کی نشانیاں مشاہدہ کرلی ہے ۔یہ پتھر کے معبود تو گنگے ،بہرے اوراندھے ہیں نہ ان کو نفع پر اختیار ہے نہ نقصان پر۔انیس نے کہا کیا تو ہمارا اور اپنے اجداد کا مذاق اڑا رہا ہے ؟ جناب ابوذر نے جواب دیا کہ اے انیس ! میری کیاخطا ہے ! اگر میرے اسلاف غلطی پر تھے ، تمھارا دین مکڑی کے جالے کی تا ر سے بھی کمزور ہے ۔ذرا سوچ کر کہو کہ ہم میں سے جب کوئی سفر کرتا ہے اور قیام کرتا ہے تو دوچار پتھر جمع کرتا ہے جو پتھر اچھا لگتا ہے اس کو خدا بنالیتا ہے اور باقی سے چھو لھا بنا لیتا ہے ۔ذرا ہوش سے جواب دو کہ یہ پتھر کیسے معبود ہوسکتے ہیں ہمیں بھلا لگا تو عبادت کے لائق ہوگیا اگر بھائے نہیں تو آگ کے حوالے ۔یہ بڑی عجیب وغریب بات ہے ۔ انیس نے کہا کہ ہم تو بحالت سفر اس لئے کرتے ہیں کہ ہم کعبہ پر بھی ایسا ہی کرتے ہیں چنا ہو اپتھر کوئی اپنی ذات کی بنا پر تو نہیں پوجا جاتا بلکہ اساف ونائلہ (بت) کے قائم مقام کرکے پوجا جاتا ہے جوکعبہ میں رکھے گئے ہیں ۔جناب ابوذر جوش میں آئے اور فرمایا کہ اساف اور نائلہ دو زانی تھے کیا تم زانی کی عبادت کو پسند کرتے ہو ۔قصہ یوں ہے کہ اساف نائلہ پر عاشق تھا دونوں بغرض حج کعبہ آئے اور لوگوں کو غافل پاکر وہاں زنا کیا اسی وقت مسخ ہوکر پتھر بن گئے ۔اور بعد میں لوگوں نے ان کو پوجنا شروع کردیا انیس کو یہ بات ناگوار ہوئی اور کہا کہ تو پھر ان نشانیوں کے بارے میں تو کیا کہتا ہے

۸۶

جو ان سے ظاہر ہوئیں ۔ابوذر نے فرمایا ان سے تو کچھ بھی ظاہر وصادر نہ ہوسکا اور نہ ہوسکتا ہے ۔کیونکہ ان میں تو کچھ طاقت ہی نہیں ہے ابھی کا ہم منات کو منانے کے لئے گئے کہ وہ بارش برسائے اتنی منتیں سماجتیں کی گئیں مگر ایک بوند پانی بھی نہ بر سا ۔پس انیس نے کھسیا نہ ہو کر کہا کہ چپ رہ تو ہمارے دل میں شک ڈالنے لگا ہے مجھے خدشہ ہے کہ کہیں میں بھی تیرے عقیدے کی طرف مائل نہ ہوجاؤں ۔حضرت ابوذر نے تبسم فرمایا کہ میں تو یہی چاہتا ہوں کہ تم بھی ان بتوں سے تنگ آکر خالق ارض وسما کی طرف مائل ہوجاؤ ۔انیس نے کہا کہ کیا دین چھوڑنا اتنا آسان ہے کہ جتنا پرانا لباس اتارا دینا ؟ابوذر نے فرمایا ہاں انیس جبکہ یہ دین پھٹے پرانے کپڑے کی مانند ہے تو یہ بات ہمارے لئے یقینا آسان ہے ۔ اسی اثنا ء مین ان کی والدہ تشریف لاتی ہیں اور بچوں کو کہتی ہیں کہ ہم اس قحط سالی سے سخت تنگ آگئے ہیں لہذا تمھارے ماموں کے گھر چلتے ہیں حتی کہ "اللہ تعالی"حالت بدل دے چنانچہ یہ سفر پر روانہ ہوئے اور حسب عادت حضرت ابوذر اپنے خیالات میں مصروف غور رہے ۔چند روز انھوں نے اپنے ماموں کے گھر گزارے مگر ایک شرارت کے تحت ان کو مجبور ا یہ گھر چھوڑنا پڑا کیونکہ کسی بد بخت نے ان کے ماموں کو ورغلادیا کہ اس کا بھانجہ انیس اپنی ممانی پر فریفتہ ہے ۔حضرت ابوذر نے مقام "بطن مرو" میں رہائش اختیارفرمائی اور ایک روز بکریاں چرا رہے تھے کہ اچانک ایک بھیڑیا نمودار ہوا اور اس نے آپ کی داہنی طرف حملہ کردیا ۔جناب ابوذر نے اپنے عصا سے اسے بھگایا اور غصہ میں فرمایا "میں تجھ سے زیادہ خبیث برا بھیڑیا آج تک نہیں دیکھا "۔بااعجاز خداوندی بھیڑئیے کو قوت

۸۷

گویائی ملی ۔اور اس نے کہا " خدا کی قسم مجھ سے کہیں زیادہ بدتر "اہل مکہ "ہیں کہ خداوند نے ان کی طرف ایک نبی مبعوث فرمایا ہے اور وہ لوگ اس کو دروغ گو کہتے ہیں اور اس کے حق میں ناحق کلمات نا سزا استعمال کرتے ہیں " یہ آواز سنتے ہی حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے دل میں جستجو ئے حق کا جذبہ اور فروغ پاگیا چنانچہ بلا تاخیر انھوں نے اپنے بھائی انیس کو نبی مبعوث کے حالات معلوم کرنے کے لئے روانہ کردیا جب انیس واپس آئے تو جناب ابوذر نے بڑے اشتیاق سے رودراد دریافت فرمائی ۔انیس نے کہا ۔

"میں ایک ایسے شخص سے مل کر آیا ہوں جو یہ کہتا ہے کہ اللہ ایک ہے ۔اے بھائی اللہ نے تیرے مسلک کے لئے اسے بھیجا ہے ۔میں نے دیکھا ہے کہ وہ بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے لوگ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ شاعر ، ساحر اور کاہن ہے مگر وہ ہرگز شاعر نہیں کیوں کہ میں شعر ک تمام قسموں سے واقف ہوں ۔میں نے اس کی باتوں شاعری پر چانچا تو معلوم کیا کہ اس کا کلام شعر نہیں ہے نہ ہی وہ جادوگر ہے کیونکہ میں نے جادوگر کو بھی دیکھا ہے نہ ہی وہ کاہن ہے کہ میں بہت سے کاہنوں سے مل چکا ہوں اس کی باتیں کاہنوں جیسی نہیں ہیں۔وہ عجیب عجیب باتیں کہتا ہے ۔بخدا اس کا کلام بہت شیرین تھا مگر مجھے اس کے سوا کچھ نہیں رہا جو بتا چکا ہوں البتہ میں نے کعبہ کے قریب نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ اس کی ایک جانب ایک خوبصورت نوجوان جو ابھی بالغ نہیں کھڑا ہوا نماز پڑھ رہا ہے لوگ کہتے ہیں کہ اس کا چچیرا بھائی علی ابن ابی طالب ہے ۔اور اس کے پیچھے ایک جلیل القدر عورت کھڑی نماز پڑھ رہی ہے لوگوں

۸۸

نے اس معظمہ کےبارے میں مجھے بتایا وہ اس کی زوجہ خدیجہ ہے "

قبول اسلام:-

یہ اصول سن کر جناب ابوذر بے تاب ہوگئے اور فرمایا مجھے تمھاری گفتگو سے تشفی نہیں ہوئی میں خود اس کی خدمت میں حاظر ہوکر اس کی باتیں سنوں گا اس نے خبر دار کیا کہ آپ ضرور تشریف لے جائیں مگر اس کے خاندا والوں سے ہوشیار رہیں ۔چنانچہ حضرت ابوذر مکہ آئے اور مسجد الحرام کے قریب پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈ نے لگے مگر نہ ہی آپ کا کوئی تذکرہ سنا اور نہ ہی ملاقات کرسکے ۔رات چھپانے لگی اچانک حضرت علی علیہ السلام طواف کے لئے آئے اور حضرت ابوذر کے قریب سے گزرے جو وہاں اجنبی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے مسافر سمجھ کر جناب امیر علیہ السلام آپ کو اپنے گھر لےآئے ۔اور انتظام شب بسری فرمایا ۔صبح ہوتے ہی حضرت ابوذر نے پھر مسجد کا رخ کیا اور رسول کریم کو تلاش کرنے لگے مگر سارے دن کی جستجو کے باوجود زیارت رسول نصیب نہ ہوئی رات کو پھر حضرت علی علیہ السلام سے ملامات ہوئی ۔ آپ نے تعجب سے مقصد دریافت فرمایا ۔جناب ابوذر جھجکے مگر حضرت امیر نے یہ یقین دلایا کہ وہ بلاخوف اظہار کریں ان کے راز کی حفاظت کی جائے گی ۔جناب ابوذر نے کہا " مجھے معلوم ہوا ہے یہاں ایک نبی مبعوث ہوا ہے میں نے اپنے بھائی کو ان کی خدمت میں روانہ کیا مگر اس کی باتوں سے میری تسلی نہیں ہوئی لہذا میں خود ان سے ملاقات کرنے کو بے تاب ہوں۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا۔

"آپ ہدایت پاگئے ۔میں ان کی طرف جارہا ہوں ۔میرے پیچھے آئیے جہاں میں داخل ہوں وہاں آپ بھی داخل ہوجائیں اگر میں کوئی خطرہ محسوس کروں گا تو دیوار کے پا س کھڑا ہوکر اپنا جوتا درست کرنا شروع

۸۹

کردوں گا اور اگر ایسا کروں تو آپ واپس چلے آئیں " چنانچہ اس طرح حضرت امیر علیہ السلام کی معیت میں یہ عاشق رسولاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے عزم بے پایاں میں کامیاب ہوا ۔ نورمجسم کے چہرہ انور کی ایک مقدس جھلکی نے بے خود کردیا اور شرف قدم بوسی حاصل کیا ۔بس دانہ تسبیح میں پرولیا گیا ۔ سرکار ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضروری امور کی تلقین فرمائی اور کلمہ شہادت پڑھنے کا حکم دیا ۔

حضرت ابوذر فرماتے ہیں کہ سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نگاہ الفت سے مجھے دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ

"سنو ! زمانہ اسلام کا خاص دشمن ہے تم بہت محتاط رہنا تم اپنے وطن واپس چلے جاؤ اور جب تک میری نبوت زور پکڑے وہیں رہو ۔جاؤ تمھارے وطن پہنچنے سے قبل تمھارا ماموں انتقال کرچکا ہوگا اورچونکہ وہ بے اولاد ہے لہذا تم اس کی جائیداد مال کے وارث ہوگئے چنانچہ آپ حسب حکم وہاں سے واپس آئے اور اپنے ماموں کی جائیداد کے مالک ہوئے آپ نے ہجرت مدینہ تک وہیں قیام فرمایا اور ہجرت کے بعد مدینہ روانہ ہوئے ۔علماء نے لکھا ہے کہ حضور نے حضرت ابوذر کو ایمان پوشیدہ رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی یعنی تقیہ کی تعلیم دی تھی تاکہ دشمنوں کے مصائب وآلام سے محفوظ رہیں ۔لیکن عشق ومشک چھپنے والی چیزیں نہیں حضرت ابوذر نورایمان کو چھپا نہ سکے ۔جذبات ایمانیہ کا غلبہ ہوا ۔ اور حضور کی خدمت اقدس سے رخصت ہو کر مسجد کی طرف آئے اور قریش کے ایک گروہ کے سامنے چلا کر کہنے لگے "اے قریش سنو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں "

۹۰

یہ سنتے ہی قریش کے تن بدن میں آگ لگ گئ ۔بد حواس ہو کر انھوں نے جناب ابوذر کو گھیرے میں لے لیا اور اس قدر زدو کوب کیا کہ جناب ابوذر غش کھاگئے قریب تھا کہ آپ کی روح پرواز کرجاتی مگر اچانک حضرت عباس بن عبدالمطلب آئے اور وہ حضرت ابوذر کے اوپر لیٹ گئے ۔اور ان درندہ صفت لوگوں کو کہا کہ تمھیں کیا ہوگیا ہے یہ آدمی قبیلہ غفار کا ہے جس سے تم تجارت کرتے ہو اگر اس کچھ ہوا تو تمھیں لینے کے دینے پڑجائیں گے ۔یہ بات سن کر کفار حضرت ابوذر کے پاس سے ہٹ گئے آپ زخموں سے چور چور ہوگئے تھے ۔بڑی مشکل سے چاہ زم زم تک پہنچے اور اپنے جسم کو خون سے پاک کیا ۔پانی نوش فرمایا اور پھر بارگاہ رسالت مآب میں تشریف لائے ۔حضور نے آپ کی یہ حالت دیکھی تو سخت رنجیدہ ہوئے ۔پھر فرمایا "اے میرے صحابی ابوذر تم نے کچھ کھایا پیا ہے ؟ ابوذر نے جواب دیا سرکار آب زم زم پی کر سکون حاصل کرلیا ہے ۔حضور نے فرمایا "بے شک یہ سکون بخشنے والا ہے " اس کے بعد آنحضرت نے ابوذر کو تسلی دی اور انھیں کھانا کھلایا ۔

عشاقان حقیقی کے نزدیک حق کی راہوں میں سہی جانے والی مصبیتوں کاذائقہ ہی بہت لذیذ معلوم ہوتا ہے ۔اگر چہ جناب ابوذر ایک مرتبہ ایسے شدید مصائب کا مزا چکھ چکے تھے لیکن ان کے جذبہ ایمانی نے یہ گوارہ نہ فرمایا کہ خاموشی سے اپنے وطن کو واپس چلے جائیں ۔آپ کے عشق صادق اور ایمان کامل نے یہ مطالبہ کیا کہ نا ہنجاز قریش پر یہ واضح کردیا جائے کہ انسانی شعور شرک وبت پرستی کے اوہام کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے چنانچہ آپ اسی مضروب

۹۱

حالت میں دوبارہ مسجد کی طرف پلٹے ۔اور پھر وہی کلمات حق بآواز بلند دہرائے اب کی بار قریش آگ بگولہ ہوگئے اور انھوں نے شور مچایا کہ اس شخص کو قتل کردو ۔آپ پر ہر طرف سے حملہ کردیا گیا اور اس بے دردی سے مارا کہ قریب المرگ ہوگئے اس مرتبہ پھر عباس بن عبد المطلب نے آپ کی جان بچائی ۔حضرت ابوذر کی ان جراءت مندانہ تقریر نے قریش کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اسلام کی روشن کرنیں اب صفحہ ہستی پر پھیلنا شروع ہوگئی ہیں اور وہ دن دور نہیں کہ پتھر کے خداؤں کی شان وشوکت خاک میں مل جائے گی ۔

اب پھر حضرت ابوذر نے آب زم زم سے اپنا جسم پاک کیا اور خدمت رسول میں حاضر ہوئے چنانچہ حضور نے آپ کی حالت زار ملاحظہ فرما کر حکم دیا کہ " اے ابوذر اب تمھمیں میر ایہ امر ہے کہ تم فورا اپنے وطن واپس چلے جاؤ تمھارے پہنچنے سے پہلے تمہارا ماموں فوت ہوچکا ہوگا چونکہ تمھارے سوا اس کا اور کوئی وارث نہیں ہے لہذا اس کی جائیداد کے بھی تم مالک و وارث ہوگئے تم جاؤ اور مال حاصل کرنے بعد اسے تبلیغ اسلام پر صرف کرو ۔میں عنقریب یثرب کی طرف ہجرت کرکے چلا جاؤں گا ۔تم اس وقت تک وہیں اپنا کام کرنا جب تک میں ہجرت نہ کرلوں ۔حضرت ابوذر نے سرتسلیم جھکا کر عرض کیا کہ حضور میں عنقریب یہاں سے چلا جاؤں گا اور اسلام کی تبلیغ کرتا رہوں گا ۔

ابوذر کی تبلیغی خدمات:-

ایمان سے مالا مال ہوکر یہ یار پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے وطن واپس آگیا ۔دنیوی دولت نے بھی قدم چومے اور ترویج اسلام میں پوری سعی سعید شروع کردی ۔ سب سے پہلے اپنے بھائی انیس کو حلقہ

۹۲

بگوش اسلام کیا اور دونوں بھائی اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جنھوں نے بلا حیل وحجت کلمہ شہادت بڑھ لیا ۔ ماں او ربھائی کے ایمان لانے سے حضرت ابوذر کی حوصلہ افزائی ہوئی لہذا اہل قبیلہ کو راہ راست پر لانے کی تراکیب پر غور شروع کردیا اسی سوچ وبچار میں ایک روز حضرت ابوذر اپنے گھر سے نکل پڑے اور اپنی ماں وبھائی کے ساتھ کچھ دور جاکر اپنے حلقہ قبیلہ میں ایک جگہ خیمہ زن ہوئے جب رات ہوگئی تو اہل قبیلہ اپنے اپنے خیموں میں مختلف تذکرے کرنے لگے حضرت ابوذر نے جو کان لگایا تو کچھ لوگوں کو اپنے بارے میں گفتگو کرتے سنا ۔وہ کہہ رہے تھے قبیلہ کا مرد بہادر اب نظر نہیں آتا نہ کبھی بتوں کے پاس دکھائی دیا ہے اور نہ کسی سے میل جول ہے کسی نے کہا ابوذر کا میلان اللہ کی طرف ہے وہ آج کامکہ میں نبوت کے دعویدار شخص سے ملنے گیا ہوا ہے ۔ایک شخص نے کہا نہیں وہ مکہ سے واپس آگیا ہے اور یہاں قریب ہی اس نے خیمہ لگایا ہے چنانچہ اس بات پران لوگوں نے مشورہ کیا کہ ابوذر کے پاس جاکر معلوم کریں کہ وہ اہل قبیلہ سے کھچے کھچے کیوں رہتے ہیں ۔چنانچہ وہ ابوذر کے خیمہ کے پاس آئے اور آپ نے ملاقات کی ۔ان میں سے ایک نوجوان نے دریافت کیاکہ اے ابوذر آپ آخر ہم سے اس قدر دور دور کیوں رہتے ہیں ۔ آپ نے کہا ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے میرے دل میں تمھاری گہری محبت ہے میں تو راہ ہدایت کی تلاش میں سرگرداں رہا اور اب کامیاب ہواہوں کہ مقصود حاصل ہوگیا ۔اب میں بتوں کے بجائے اپنے تمام افعال اور جملہ امور میں خدائے تعالی کی جانب بڑھتا ہوں اور اسی

۹۳

ذات کی طرف رجوع کرتا ہوں جو ایسا واحد ہے کہ اس کا ہرگز کوئی شریک نہیں ہے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اس خدا ئے واحد کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے وہ تمام چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے ہمارہ اورتمھارا پروردگار ہے میں تم کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ اس کار خیر اور فکر عمل میں میرے شریک ہوجاؤ اور میری طرح وحدانیت کی شہادت دو۔

یہ تقریر سن کر ان لوگوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی ۔انھوں نے بتوں سے منسوب معجزات وکرامات کی جھوٹی کہانیاں دھرانا شروع کردیں ۔آپ نے محبت وخلوص سے ان کو بتوں کی بے بسی وعاجزی پر عقلی دلائل پیش کئے اور فرمایا کہ میں کمال تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ کہ پتھر کے اصنام کو مٹی میں ملا کر خدا ئے واحد کے سامنے سرتسلیم خم کرنا فطرت کا تقاضا اور انسانیت کا فروغ ہے ۔لیکن آپ کا یہ وعظ حسنہ مؤثر ثابت نہ ہوسکا ۔اور ان لوگوں نے کہا ہم اس خطرہ سے اپنے سردار قبیلہ کوآگاہ کرتے ہیں یہ کہ ابوذر اس مکی نبی کے جھانسے میں آگیا ہے جو ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہتاہے یہ سنکر حضرت ابوذر نے فرمایا ۔کہ میں نے حق بات کہہ دی ہے آگے تمھاری مرضی ہے جو جی میں آئے کرلو۔ مگر اتنا ضرور سن لو کہ وہ شخص جو مکہ میں نبوت کا مدعی ہے وہ حقیقت میں نبی ہے اس کو سارے عالم کے لئے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ۔وہ خالق حقیقی کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے بلا شبہ اس کایہ کہنا درست ہے کہ یہ آسمان وزمین ۔چاند ۔سورج ۔سیارے وستارے ۔دن ورات ۔خنکی وگرمی تمام اس ہی ذات واحد کی بنائی ہوئی چیزیں ہیں اور یہ تمام کی تمام

۹۴

قدرت خدائے ذوالجلال کی ذات کے لئے دلیل واضح ہے ۔نبی برحق خود تراشیدہ بتوں کے خلاف ہے اور اس کی یہ مخالفت اس لئے بجا ہے بے حس ۔آندھے ۔لاچار ومجبور ہیں پس ان لوگوں نے حضرت ابوذر کی یہ غیر متوقع باتیں سن کر کہا کہ تمھاری باتیں ہماری عقلوں میں نہیں آسکتی ہیں تم ہمارے آبائی معبودوں کی توہین کرتے ہو۔ہمارے آباؤ اجداد کی عقلوں کو ناقص وذلیل خیال کرتے ہو ۔ہم سردار قبیلہ کے پاس یہ سب کچھ پہنچائیں گے ۔یہ سنکر حضرت ابوذر کا چہرہ غصّہ سے متغیر ہوگیا مگر آپ خاموش رہے ۔اور کہا کہ سردار قبیلہ سمجھدار آدمی ہے اور وہ میری باتیں سنکر ان پر ضرور غور کرےگا ۔چنانچہ جلتے بھنتے یہ نوجوان راتوں رات "خفاف" سردار قبیلہ کے پاس گئے ۔اور سارا ماجرا بیان کیا ۔ خفاف نے ان نوجوانوں کو تسلی دی کہ اس معاملہ کو مجھ پر رہنے دو تم لوگ اب آرام کرو ۔میں خود اس پر غور کرتا ہوں نوجوان تو سونے کو چل دئیے مگر خفاف کی نیند ساتھ اڑالے گئۓ ۔ وہ ساری رات ابوذر کے بارے میں سوچتا رہا ۔ابوذر کی باتیں اس کے دل کو لگتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں ۔اسی سوچ وبچار میں اس کی عقل نے اس کی رہبری کی اور دل میں کہنے لگا کہ بے شک ابو ذر راہ حق پر ہیں کیوں کہ حکیم عرب نے ان کی تائید کی ہے ۔اور مجھے یقین ہے کہ حکیم عرب قیس بن ساعدہ غلط نہیں سمجھے گا ۔ اور خطا پر ایمان نہ لائے گا ۔ بے شک اس عالم نے کے لئے کسی نہ کسی مصلح کا ہونا ضروری ہے اور ایک ایسی صلاحیت سے محروم ہیں ،اے ابوذر کے خدا ہماری رہنمائی فرما اور ہمیں ہدایت کا راستہ دکھا کر گمراہی سے

۹۵

نکال لے ان ہی خیالات میں خفاف نے رات گزاردی ۔صبح ہوئی تو سارے قبیلہ میں یہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ ابوذر کا دماغ خراب ہوگیا ہے ۔ کس نے نیا دین قبول کرلیا ہے ۔ اون ہمارے خداؤں کو برابھلا کہتا ہے ۔لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ان کو قبیلہ کیا کہ ان کو قبیلہ سے خارج کردیا جائے مگر یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ ابوذر اپنے قبیلہ کے شجاع ترین آدمی تھے ۔لہذا طے پایا کہ معاملہ بزرگان قبیلہ کے سامنے بغرض غور پیش کیا جائے ۔چنانچہ کچھ عمر رسیدہ لوگوں کو بھڑکا کر سردار قبیلہ کے پاس بھیجا گیا کہ ابوذر کی سرگرمیوں کا سد باب ہو۔اشراف قبیلہ نے سردار سے کہا کہ ہمارے خیال میں ابوذر پاگل ہوگیا ہے اور مکے کے نئے نبی نے اس پر جادوچلا دیا ہے ۔ خفاف نے ٹھنڈے دل سے ان بزرگوں کی باتیں سنیں اور کہا کہ میرے رفیقو ! کسی پر الزام لگانا اچھا نہیں ہے میں نے تمھاری باتیں سن لی ہیں ۔ ابوذر معمولی آدمی نہیں بلکہ وہ قبیلہ کی بلند شخصیت ہے ۔میں انھیں بلاکر ان سے باتیں کرتا ہوں تاکہ صحیح نتیجہ اخذ کرسکوں ۔چنانچہ حضرت ابوذر کو بلایا گیاآپ نے اشراف قبیلہ کی موجودگی میں خفاف کے سامنے انتہائی مدلل تقریر فرمائی جس کے اثر میں خفاف مسلمان ہوگئے ،سردار قبیلہ کے مسلمان ہوتے ہی سارے قبیلہ کی کایا پلٹ گئی اور اکثریت نے کلمہ پڑھ لیا ۔جناب ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کی سعی جمیلہ وبلیغہ سے قبیلہ غفاری کی غالب اکثریت مسلمان ہوگئی اور نعرہ تکبیر کی آوازوں سے ساری فضا گونج اٹھی۔

جناب ابوذر قبیلہ غفاری میں اسلام کی شمع روشن کرنے کے بعد عسقان کی طرف متوجہ ہوئے کیونکہ یہ جگہ قریش کی گزرگاہ تھی اور آپ

۹۶

ابھی قریشیوں کے لگائے ہوئے زخموں کو بھول نہ سکے تھے لہذا وہ عموما قریش کی گھات میں رہتے تھے اور جو قریشی گروہ ادھر سے گذرتا آپ اسلام کو پیش کرتے یہاں تک کہ بہت سے قریشی آپ کے دست حق پرست پر حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔ادھر مدینہ کے دوبڑے قبیلے اوس وخزرج اسلام لے آئے ۔حضرت ابوذر کو زیارت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تشنگی اکثر محسوس ہوتی تھی او رآپ گن گن کردن گزاررہے تھے کہ کب ہجرت کاوقت آئے اور میں مدینہ جاکر قدم بوسی کروں ۔جب مدینہ میں اسلام کی روشنی کی خبر معلوم ہوئی تو آمادہ سفر ہوئے راستہ میں رافع بن مالک الزرمی سے ملاقات ہوئی اور ان سے اسلام و بانی اسلام کے حالات پر تبادلہ خیالات کیا ۔الغرض حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرما ہوئے ۔جب قبیلہ غفاریہ کو یہ خبر ملی تو بہت مسرور ہوئے ۔حضرت ابوذر انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے پر شادماں تھے آپ کی نگاہیں راہوں میں بچھی ہوئی تھیں ۔جب موج سعادت کو محسوس کرکے قلب مشتاق کو اطمینان نصیب ہوا ۔اچانک ایک اونٹ کوآتے دیکھا ۔اہل قبیلہ جناب ابوذر پر نگاہیں جمائے ہوئے تھے کہ اچانک آپ نے بلند آواز میں پکارا "واللہ وہ رسول اللہ تشریف لےآئے " بڑی تیزی سے حضرت ابوذر آگے ہوئے اور دوڑ کر اونٹنی کی مہار تھا م لی ۔ قبیلہ غفارکے مردوں عورتوں اور بچوں میں خوشی کی لہر دوڑگئی نعرہ تکبیر سے فضا گونج اٹھی جضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ناقہ سے اترے اور تلاوت قرآن فرما کر وعظ حسنہ فرمایا ۔لوگ حضور کی بیعت کے لئے بڑھے جبکہ جناب ابوذر بڑے فخر یہ انداز میں تبسم بہ لب ایستادہ رہے ۔اہل قبیلہ نے حضور سے عرض کہ ہمیں آپ کے

۹۷

شاگرد ابوذر نے گمراہی سے نکالا ہے ۔ آنحضرت یہ پرتپاک استقبال ملاحظہ کرکے خوشی سے پھولے نہ سمائے اورہاتھ بلند فرماکر دعا فرمائی کہ اللہ تعالی قبیلہ غفار کو بخشے ۔اس کے قبیلہ اسلم کے لوگ آئے۔چنانچہ حضور نے ان کے حق میں بھی سلامتی کی دعا فرمائی حضور یہاں مختصر قیام کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے اورابوذر وہاں رک گئے جنگ بدر ،احد اور خندق جیسی عظیم لڑائیاں گزر گئیں ۔ایک روز آپ مسجد میں مشغول عبادت تھے کہ ایک شخص کو ایک آیت کی تلاوت کرتے سنا جس میں جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب تھی اس سے اسقدر متاثر ہوئے کہ فورا مدینہ منورہ روانہ ہوکر حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قدم بوسی کا شرف حاصل کیا ۔ساری رات آپ مسجد نبوی میں بسر کرتے ۔سارادن لوگوں سے ملتے جلتے ۔طعام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کرتے ۔حفظ حدیث پر پوری توجہ فرماتے اور زہد وتقوی سے اپنی مادی زندگی کو مالا مال فرماتے ۔آب وہوا کی تبدیلی کے باعث آپ کی طبیعت ناساز ہوئی ۔حضور نے عیادت فرمائی اور ہدایت کی کہ اس مقام پر بیرون مدینہ رہائش کرو جہاں مویشی چرتے ہیں اور صرف دودھ پیو ۔ حکم رسالت مآب کی تعمیل کی اور آپ تھوڑے دنوں بعد روبصحت ہوگئے صحتیابی کے بعد فریضہ زوجیت اداکیا ۔مگر وہاں غسل کے لئے پانی میسر نہ آیا ابھی تیمم نازل نہ ہوا تھا ادھر نماز کی فکر لگی ہوئی تھی اسی کشمکش میں ناقہ پر بیٹھ کرمدینہ آئے جوں ہی حضور کی نگاہ جناب ابوذر پر بڑی آنحضرت نے اس سے پہلے کہ ابوذر کچھ کہیں خود ہی فرمایا کہ ابوذر گھراؤ نہیں ۔ابھی تمھارے غسل کا انتظام ہوجاتا ہے ۔چنانچہ ایک کنیز پانی لائی اور آپ نے غسل کیا۔بعض مفسر ین نے یہ خیال کیا ہے

۹۸

کہ یہ واقعہ آیت تیمم کا سبب بنا اور حضور نے ابوذر کو یہ طریقہ تیمم تعلیم فرمایا ۔

حضرت ابوذر کو عبادت کا بہت شوق تھا سارادن اور رات مسجد میں مشغول عبادت رہتے تھے ۔ان کا شیوہ زندگی صرف یہ تھا کہ اللہ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی اور محمد وآل محمد علیہم السلام سے محبت ۔آپ کچھ تنہا پسند بھی تھے ۔ایک صحابی نے دریافت کیا کہ ابوذر تم زیادہ خاموش کیوں رہتے ہو اور تنہائی تمھمیں کیوں پسند ہے تو آپ نے جواب دیا کہ برے ساتھی سے تنہائی بہتر ہے ۔حافظ ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ابوذر زبردست عابد تھے ۔آپ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ اسلام لانے میں چوتھے شخص تھے جو قبول اسلام سے قبل ہی برائیوں سے کنارہ کش تھے ۔ دلیری میں ان کا انفرادی مقام تھا اور حق بات کہنے سے ہرگز کسی خطرہ کی پرواہ نہ کرتے تھے تحصیل علم کا بہت شوق تھا اکثر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مختلف قسم کے سوالات دریافت فرماتے رہتے تھے طبیعت مشقت پسند تھی او رذہن محققانہ پایا تھا ۔ علماء کا قول ہے کہ فلسفہ فناو بقا پر آپ نے سب سے پہلا وعظ کیا تھا۔

محبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مثالی واقعہ:-

سنہ ۹ ھ میں جنگ تبوک کے موقع پر حضرت ابوذر بھی لشکر اسلام کے ساتھ روانہ ہوئے چونکہ آپ کا اونٹ لاغر تھا لہذا وہ قافلہ سے بہت پیچھے رہ گیاتھا ۔آپ نے بہت کوشش کی کہ قافلہ کو جاپہنچے مگر تین دن کی مسافت سے بھی زیادہ فرق تھا چنانچہ شوق جہاد میں آپ ناقہ سے نیچے اتر آئے سارا ساماں اپنی پشت پر لاد کر پیدل سفر شروع کیا شدید گرمی کا موسم اور پیاس کی شدت کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے آپ

۹۹

پا پیا دہ عالم تشنگی میں مصروف سفر رہے کہ پیاس نے بے حال کیا ادھر ادھر پانی کی تلاش کی بڑی مشکل سے ایک گڑھا ملا جس میں بارش کا پانی جمع تھا جیسے ہی پانی کا چلو منہ کے قریب لائے نبی کریم کاخیال آیا دل میں سوچا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پہلے پانی نہیں پینا چاہیئے ۔بس ایک لوٹا بھرا اور پھر سفر شروع کردیا ۔جیسے ہی آپ تبوک کی سرحد پر پہنچے تو مسلمانوں کی نگاہ آپ پرپڑی مگر آپ کو پہچان نہ سکے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں ایک پریشان حال مسافر کی آمد کی خبر دی ۔حضور نے اطلاع پاتے ہی فرمایا کہ وہ میرا ابوذر ہے ۔بھاگ کرجاؤ وہ پیاسے ہیں ان کے لئے پانی لے جاؤ ۔اصحاب مشکیزہ آب لے کر پہنچے اور ابوذر کو سیراب کیا اور حضور کے پاس لے آئے ۔آپ نے مزاج پرسی فرمائی اور پوچھا اے ابوذر تمھارے پاس پانی تو ہے پھر تو پیاسا کیوں رہا ؟ ابوذر نے عرض کیا یا رسول اللہ پانی تو ہے مگر میں اسے پی نہیں سکتا تھا کیوں کہ یہ پانی میں نے راستہ میں ایک پتھر کے دامن میں پالیا تھا جو بہت ٹھنڈا تھا ۔لیکن میرے دل نے یہ گوارہ نہ کیا کہ اسے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے خود پی لوں ۔میں یہ آب خنک آپ کے لئے لایا ہوں ۔جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نوش فرمائیں گے تب میں اس کو منہ لگاؤں گا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سنکر ارشاد فرمایا "اے ابوذر !خدا تم پر رحم کرے گا ۔تم تنہا زندگی کروگے ۔تنہا دنیا سے اٹھو گے ۔تنہا مبعوث ہوگے ۔تنہا جنت میں داخل ہوگے اور اہل عراق کا ایک گروہ تمھارے سبب سے سعادت حاصل کرے گا ۔یعنی وہ تمھیں غسل دے گا ۔کفن پہنائے گا اور تم پر نماز پڑے گا"۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180