افسانہ عقد ام کلثوم

افسانہ عقد ام کلثوم66%

افسانہ عقد ام کلثوم مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 105

افسانہ عقد ام کلثوم
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 105 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32352 / ڈاؤنلوڈ: 3720
سائز سائز سائز
افسانہ عقد ام کلثوم

افسانہ عقد ام کلثوم

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

الزام لگایا جائے صاحب عقل اور آشنا ئے تہذیب وتمیڑ اس شخص کو صحیح الداماغ سمجھے گا جو ساٹھ سال کی عمر میں اپنی صغیر سن پر نواسی سے شادی رچا کر بازاروں میں لوگوں سے مطالبہ کرتا پھرے کہ اس شادی پر اسے مبارک باد پیش کرو ۔کیا یہ اپنے جرم کی رسوائی نہ ہوگی ؟ یہ تمام قصہ واہیات ہے اور اس کا حقیقت ہے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔

عائشہ :- نہیں مس عالیہ یہ محض تمھارا قیاس ہے اور محض ذاتی نظرئیے سے روایات کا ابطال نہیں ہوسکتا ہے جبکہ ایسی روایات تم شیعوں کی کتابوں میں بھی ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ یہ نکاح ہوا ۔

عالیہ :- دیکھئے بہن ۔ہم شیعہ تو ایسے اتہام کو گالی گلوج میں شمار کرتے ہیں ۔ہمارے نزدیک جناب ام کلثوم بنت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نہ ہی حضرت میں آئیں اور نہ ہی آسکتی تھیں ۔کوئی بھی صاحب عقل سلیم اس بات کو قبول نیں کرتا کہ حضرت عمر جیسا زیرک شخص ایسا خود رفتہ ہو کہ سن و سال اور فطرت سب کا خیال برطرف کرکے ایسے بے جوڑ ازدواج کی طرف متوجہ ہوا ۔

آپ لوگوں کو ہم پرشکوہ ہے کہ ہم حضرت عمر کو اچھا نہیں سمجھتے لیکن آپ لوگ خود اس بات کو فرض کرکے حضرت عمر کی سیرت پرایسا دھبہ لگاتے ہیں کہ اگر ہم اس کو اپنی زبان پر لائیں تو آپ برا مان جائیں ۔بہتر یہ ہے کہ اس قصّہ کو ترک کردیجئے ۔ورنہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنی معروضات پیش کروں ۔

عائشہ :- تم بڑے شوق سے اپنے خیالات کا اظہار کرو ۔مگربلا نفسانیت اور طعن وتشنیع۔

عالیہ:- میں پوری کوشش کروں گی کہ رواداری سے بعد اختیار نہ ہو اور تمھارے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ لگے ۔تاہم اگر دوران گفتگو کوئی کلام ناگوار

۲۱

گزرے تو افہام وتفہیم کی خاطر درگزر کرلینا ۔بڑی مہربانی ہوگی ۔جان من! یہ قصّہ ایسا بے ہودہ اور ناگفتہ بہ ہے کہ اگر معاذاللہ تمھارے کہے سے صحیح مان لیا جائے تو اسلام کے دوبڑے ارکان کی سیرت داغدار ہوجاتی ہے اور ان کی ایسی توہین وتذلیل ہوتی ہے کہ جو شخص سنے گا وہ ان کے کردار بلکہ نام سے بھی نفرت کرے گا ۔جس کی ایک زندہ مثال مس ایلزبتھ تمھارے سامنے بیٹھی ہے ۔اگر تم واقعی اس قصّہ واہی پر زور دینا چاہتی ہو تو پھر تمھیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ حضرت عمر ایک بڑے بے حیا ،بے غیرت اور حرصی ہوس پرست آدمی تھے انھوں نے اپنی آخری عمر میں ایسے غیر معقول کا م کی خواہش کی جس کا تصور کرنا بھی ذلالت ہے ۔اب اگر پہاڑ کو کھودنا ہی چاہتی ہو تو اس سے بر آمد ہونے والا چوہا بھی نرالا ہوگا ۔غیر مسلمانوں کے لئے تو یہ بحث ناٹک ہوگا ۔ یعنی سنی المذہب لوگ جو حضرت عمر کا بڑا عالی وقار ،بلند خیال اور پاکیزہ کردار اعتقاد کرتے ہیں جب اس بات کو ثابت کریں گے تو یہ کوشش حضرت عمر کو بد ترین بے حیا اور انتہائی بے غیرت ثابت کرنے کی ہوگی کہ ایسے سفیہ النفس تھے کہ جس لڑکی کو ان کی بیٹی نواسی کہتی تھی اس سے ساٹھ سا ل کی عمر میں شادی کی خواہش تھی جبکہ شیعہ جن پر دشمن عمر ہونے کا الزام ہے وہ اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ حضرت عمر ایسے برے آدمی نہ تھے ۔تم خود غور کرو ۔اگر آج کوئی نیچ سے نیچ قوم کا بڈھا بھی اپنی بیٹی کی نواسی سے بیاہ کرنے کی خواہش کا اظہار کردے تو لوگ اس کو کیا کہیں گے ؟

اگرنعوذ با للہ یہ قصّہ سچ ہے تو حضرت حفصہ پر بھی افسوس ہے کہ انھوں نے اپنے پدر بزرگوار کو یہ نہ سمجھایا کہ ابا جان آپ کی مت کیا ہوئی کہ میری نواسی سے شادی کرتے ہوئے کچھ بھی حیا نہیں آتی۔ایسی بے ہودگی نہ صرف ہند وپاکستان

۲۲

میں قابل مذمت ہے بلکہ اہل عرب میں بھی یہ بات سخت مذموم ہے اور پھر جب ہم ان روایات کو دیکھتے ہیں تو اور بھی رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور حضرت عمر کے خلاف نفرت کے جذبات مین تیزی سے اضافہ ہوتا ہے ۔

۲۳

میں کیا کروں رام مجھے بڈھا مل گیا

عائشہ:-ایسی روایات کونسی ہیں؟۔

عالیہ :- وہ ایسی توہین آمیز روایات ہیں کہ جن کو بیان کرنا بھی مانع شرم وحیا ہے لیکن اس بے ہودگی کی وضاحت اور ان موضوع روایات کی حقیقت روایت ودرایت کے انکشاف کے لئے میں تمھیں چند منقولہ حوالہ جات اپنی ڈائری سے پڑھوادیتی ہوں ۔ انھیں پڑھ کر خود فیصلہ کرنا کہ اس نکاح کے قائل سنی حضرات کتنی زبردست گستاخی شان عمر میں کرتے ہیں ۔

عالیہ اٹھتی ہے اور اپنے صندوق سے ایک ڈائری نکال کر لاتی ہے اور مطلوبہ صفحہ نکال کر عائشہ کی طرف بڑھا کر دعوت مطالعہ دیتی ہے اور کہتی ہے اس کا مطالعہ آرام سے کرو ۔باقی گفتگو کل ہوگی ۔ڈائری میں مرقوم ہے کہ

بے ہودہ روایات:-

ا:- حضرت عمر نے حضرت علی سے ان کی دختر ام کلثوم کا رشتہ طلب کیا ۔حضرت علی نے فرمایا ابھی وہ کمسن ہے پس عمر نے کہا نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہے بلکہ آپ مجھ کو رشتہ نہیں دینا چاہتے اگر وہ کمسن ہے تو اس کو میرے پاس بھیجدو ۔پس حضرت علی نے ام کلثوم کو بلا کر ایک پوشاک دی اور کہا یہ عمر کے پے لے جاؤ اور ان سے کہہ دو میرے والد کہتے ہیں کہ یہ پوشاک کیسی ہے ؟ پس وہ پوشاک لے کر عمر کے پاس آئیں اور پیغام دیا تو عمر نے ام کلثوم کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ۔ام کلثوم نے کہا میرا بازو چھوڑ دو ۔پس انھوں نے چھوڑ دیا اور کہا بڑی اچھی پاکدامن لڑکی ہے جاکر باپ سے کہدے کہ کتنی حسین اور کتنی خوبصورت ہے ایسی نہیں ہے جیسا کہ تم نے کہا تھا ۔ پس پھر علی نے ام کلثوم کی عمر سے شادی کردی (ذخائر العقبی ص ۱۶۸)۔

۲۴

۲:- عمر نے ام کلثوم کارشتہ کیا تو انھوں نے کہا وہ ابھی چھوٹی بچی ہیں ۔عمر نے کہا کہ میری اس سے شادی کردیں ۔ میں اس کی فضیلت طلب کرنا چاہتا ہوں جس کو کوئی بھی طلب کرنے والا نہیں ۔حضرت علی نے کہا میں ام کلثوم کو تمھارے پاس بھیجتا ہوں اگر تم اس کو پسند کرلو تو میں نے اس کی شادی تم سے کردی ۔پس حضرت علی نے اس کو ایک چادر دے کر بھیجا اور کہا اس سے کہدینا کہ یہی و ہ چادر ہے جو میں نے تم سے کہی تھی ۔ام کلثوم نے جا کر عمر سے یہ بات کہی تو عمر نے کہا ،اللہ تم سے راضی ہو میں نے پسند کر لی ۔پس عمر نے ام کلثوم کی پنڈلی کی طرف ہاتھ بڑھا یا اور اس کو کھول دیا ۔ ام کلثوم نے کہا تم ایسا کرتے ہو اگر تم امیر المومنین نہ ہوتے تو میں تمھاری ناک توڑ دیتی پھر ام کلثوم واپس گئیں اور حضرت علی سے واقعہ بیان کیا اور کہا آپ نے مجھے بد کار بڈھے کی طرف بھیج دیا ۔حضرت علی نے فرمایا ۔اے بیٹی وہ تمھارا شوہر ہے ۔پھر مہاجرین کی محفل میں آئے اور کہا مجھے مبارک کہو ۔انھوں نے کہا کس لئے ؟ کہا میں نے ام کلثوم بنت علی سے شادی کرلی ۔(استیعاب جلد ۴ ص ۴۶۷)

عا ئشہ جوں جوں راویات پڑھ رہی ہے فرط ندامت سے پانی پانی ہورہی ہے دل ہی دل میں کڑھتی ہے اس کا ضمیر ضمیر بار بار اسے جھنجھوڑ رہا ہے کہ اگر واقعی یہ بزرگ اس کردار کے تھے تو ان کو ہرگز ہرگز مذہبی پیشوا تسلیم نہیں کرنا چاہئیے ۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک باپ ایسا بے غیرت ہو کہ اپنی صغیر سن بیٹی کو خود ہی ایک بڈھے امیدوار کے گھر بھیجدے کہ وہ امتحان کرے ۔ توبہ توبہ یہ گھٹیا حرکت تو کوئی رذیل سے رذیل بھی کرنے پر موت کو ترجیح دینا گوارہ کریگا چہ جائیکہ اسلام کے مہروماہ بزرگ کے بارے میں ایسا اتہام تجویز کیا جائے اور پھر وہ شخص جو ضعیف العمری میں نابالغ لڑکی سے بیاہ کرنے پر ضد ہے کسقدر درندہ صفت اور کمینہ ہے کہ معصوم بچی سے نازیبا حرکت کر رہا ہے جبکہ ابھی تک وہ اس کے حبالہ عقد میں بھی نہیں ۔الامان ۔ایسا کردار ہمارے پیشواؤں کا ہرگز نہیں ہوسکتاہے ۔

اسی خیالی کشمکش میں عائشہ ورق گردانی کر رہی ہے اور اب وہ تیسری روایت دیکھ رہی ہے ۔اس کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اگر کہیں ایلزبتھ یہ کار وائی پڑھ لے گی تو ہاتھ آیا شکار لمحہ بھر میں نکل جائے گا ۔ساری محنت اکارت ہوگی تاہم وہ ذہنی خلفشار میں گرفتار مطالعہ میں مصروف ہے ۔

۳:- عمر بن خطاب نے حضرت علی سے ام کلثوم کا رشتہ مانگا تو انھوں نے کہا کہ وہ صغیرہ ہے ۔حضرت عمر سے کہا گیا کہ حضرت علی نے آپ کو رشتہ دینے سے جواب دے دیا ہے پس انھوں نے پھر طلب کیا تو حضرت علی نے کہا میں ام کلثوم کو تمھاری طرف بھیجوں گا اگر تم کو پسند آگئی تو وہ تمھاری بیوں ہے پس علی نے ام کلثوم کو بھیجدیا اور عمر نے ان کی پنڈلی کھولی ۔ام کلثوم نے کہا ہٹ جا اگر امیر المومنین نہ ہوتا تو میں تیری آنکھوں پر تھپڑ ماردیتی (اصابہ جلد ۲ ص ۴۶۲)

اس روایت کے پڑھنے پر عائشہ کو ان ظالم حکمرانوں کا خیال آتا ہے جو

۲۵

رعایا کی بہو بیٹیوں کو اپنی خواب گاہوں کی زینت بنا نے کے لئے بزور شمشیر اغوا کرلیتے تھے اور اسی طرح کا کردار اسے اپنے خلیفہ دوم فاروق اعظم کا نظر آتا ہے کہ لڑکی کا باپ بوجہ صغیر سنی رشتہ دینے سے گریز کر رہا ہے اور وہ مجبور کررہے ہیں ۔لاچار باپ درندہ صفت حاکم کے محل میں اپنی بیٹی روانہ کرتا ہے اور وہ ننگ شرافت اس بچی کی پنڈلی کھول کر جبر کرنے کا ارادہ کرتا ہے کہ بچی کراہیت شدید کر کے مزاحمت کرتی ہے اور اعتراف کرتی ہے کہ اگر تو بادشاہ نہ ہوتا تو تجھے تھپڑ رسید کردیتی ۔ کیا اسلامی تعلیمات یہی ہیں جو اسلام کے دو رہنماؤں کے کردار وں سے اس روایت کے مطابق ظاہر ہوتی ہے اگر یہی اسلام ہے تو پھر کفر اس سے لاکھ درجے اچھا ہے ،یقینا یہ حکایات موضوع اور بے ہودہ ہیں ۔

ایسے ہی ذہنی چڑھاؤ میں مبتلا عائشہ اگلی روایت کا مطالعہ کرتی ہے ۔

۴:-عمر بن خطاب نے حضرت علی سے ان کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ طلب کیا تو انھوں نے کہا اے امیر المومنین ابھی وہ بچی ہے عمر نے کہا کہ خدا کی قسم ایسی بات نہیں مگر مجھے علم ہے کہ آپ کے دل میں کیا ہے ؟پس علی نے حکم دیا او ربچی کو سجا یا سنورا گیا اور ایک چادر اس کو اوڑھائی گئی اور آپ نس کہا خلیفہ سے جاکر میرا سلام کہہ دے اور کہہ دے اگر یہ چادر پسند آئے تو رکھ لو ۔ ورنہ واپس کردو جب وہ بچی آئی تو عمر نے کہا اللہ تجھ میں اور تمھارے باپ میں برکت لائے ہمیں پسند ہے ۔پس وہ باپ کے پا س واپس گئی اورکہا اس نے چادر نہیں کھولی بلکہ مجھے دیکھا پس آپ نے اس کی شادی کردی ۔اور اس سے ایک لڑکا زید پیدا ہوا ۔(طبقات ابن سعد جلد ۸ ص ۴۶۴)

عائشہ نے محسوس کیا کہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی کا باپ رشتہ دینے پر دل سے آمادہ نہیں ہے ۔بہر حال اگلی روایت پڑھتی ہے

۲۶

۵:- حضرت علی نے حکم دیا اور ام کلثوم کو آراستہ کیا گیا اور حضرت عمر کے پاس بھیجا گیا جب عمر نے اس کو دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور لڑکی کو اپنی آغوش میں لے لیا اور بوسے دیئے اور دعا کی اور جب وہ اٹھنے لگی تو پنڈلی سے پکڑ لیا اور کہا ۔باپ سے کہدینا میں بلکل راضی ہوں جب وہ اپنے باپ کے پاس واپس آئی اور ان کو سارا واقعہ سنایا تو علی نے ان کا نکاح عمرسے کردیا ۔(صواعق محرقہ جلد ۱ ص ۱۵۹)

یہ روایت دیکھ کر عائشہ اس عالم میں نظر آرہی ہے اگر زمین جگہ دے تو زندہ دفن ہوجائے ۔فاروق اعظم کی کتنی شرمناک انداز میں توہین کی گئی ہے ایسی رنگ رلی تو محمد شاہ رنگیلے کے باب میں بھی نہیں مل سکتی ہے ۔ امیر المومنین خلیفہ المسلمین ،صحابی رسول ساٹھ سالہ بزرگ ایک غیر محرم نابالغ بچی کو نکاح کرے بغیر گودہی میں کھینچ کر بو س و کنار کرتا ہے پھر پنڈلی کی طرف دست درازی کرتا ہے یہ خلیفہ راشد کا کردار ہے یا کسی اوباش وعیاش فاسق وفاجر بادشاہ کی بد کرداری کا نمونہ ہے ۔

۶:- جب عمر نے علی سے رشتہ مانگا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ مجھے بھی رسول خدا کا نسب وسبب حاصل وہ تو علی نے حسن اور حسین سے کہا تم اپنی بہن کی شادی اپنے چچا عمر سے کردو ۔انھوں نے کہاوہ عورت ہے اپنے لئے خود اختیار کرےگی ۔پس علی غصّہ میں کھڑے ہوگئے اور حسن نے ان کا کپڑا پکڑ لیا اور کہا اے ابا جان آپ کی ناراضگی ناقابل برداشت ہے پس حسن وحسین نے ام کلثوم کی شادی کردی ۔(صواعق محرقہ ص۱۵۵)

عائشہ نے اس روایت کا جھوٹ خود ہی اپنی عقلی مہارت سے تلاش کرلیا کیونکہ نابالغ بچی یا بالغ عاقلہ عورت کے نکاح کااختیار شرعی ولی کو ہے ۔ کوئی عورت اپنے

۲۷

شرعی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کرسکتی جیسا کہ امام مالک نے موطاء میں لکھا ہے جب ام کلثوم کے شرعی والی یعنی والد حضرت علی خود موجود تھے تو ان کو حسن وحسین سے شادی کی درخواست کرنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ شرعا تزویج حق ان ہی کا تھا ۔ اس دلیل پر عائشہ نے اس روایت کو مردود ٹھہرایا ۔ اور اگلی روایت کا مطالعہ کیا ۔

۷:- عمر نے علی سے ان کی بیٹی ام کلثوم بنت فاطمہ کارشتہ طلب کیا علی نے کہا مجھ پر کچھ امراء ہیں ۔ ان سے اجازت مانگ لوں پس آپ اولاد فاطمہ کے پاس آئے اور ان سے تذکرہ کیا انھوں کہا شادی کردیں ۔آپ نے ام کلثو م کو بلایا جبکہ وہ صبیہ (نابالغ بچی)تھیں ۔ اور کہا جاکر عمر س ے کہدے کہ میں نے تیری مطلوبہ حاجت پوری کردی ۔جب ام کلثوم یہ پیغام لے کر عمر کے پاس گئیں تو انھوں نے ام کلثوم کو پکڑ کر سینہ سے چمٹا لیا اور کہا میں نے اس کے باپ سے رشتہ مانگا تھا تو انھوں نے اس سے میری شادی کردی (ذخائر العقبی ص۱۶۹)۔

عائشہ اس بے سروپا روایت پر سیخ پا نظر آتی ہے ۔ پیچ و تاب کھائی ہوئی غور فکر میں مصروفہے اس نے سوچا کہ کبھی اولاد کو بھی کوئی باپ امراء کہتا ہے حضرت علی کو کیا ہوا جو اولاد فاطمہ کو امراء کہکر خلاف اخلاق بات کررہے ہیں ۔پھر جب شادی پر رضا مندی ہوگئے تو محض رضامندی نکاح کے لئے کافی نہ ہوگی بلکہ صیغہ ایجاب وقبول رکن ہیں ۔ گواہوں کی موجودگی ضروری ہے لیکن یہاں بلا عقد ہی لڑکی روانہ ہوگئی اور دولھا صاحب بغیر نکاح ہی لڑکی کو سینے سے چمٹاکر شادی کا اعلان کررہے ہیں ۔ یہ بالکل بکواس ہے کیونکہ حضرت فاروق شرعی مسائل سے واقف تھے اور ایسا وہ نہیں کرسکتے تھے ۔ یہ قطعا جھوٹ ہے ۔

۲۸

نتائج

صحاح ستّہ کی خاموشی:-

رات کافی گزر چکی ہے بارش بھی تھم گئی ہے عالیہ اور ایلزبتھ دونوں اپنی اپنی مسہریوں پر گھوڑے بیچ کر سوچکی ہیں ۔

عائشہ بھی اب تھکن محسوس کر رہی ہے اسے صبح کالج بھی جانا ہے ۔ لہذا وہ ڈائری کر سرہانے رکھ دیتی ہے اور کمرہ کی ٹیوب بند کرکے سونے کی تیاری کرتی ہے ۔لیکن آج اس کی نیند اڑی ہوئی لگتی ہے ۔ذہن پر ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے سونا چاہتی ہے مگر سونہیں سکتی کروٹ بدلتی ہے مگر کسی کروٹ بھی نیند آنے کا نام نہیں لیتی وہ سوچ وبچار میں غرق ہوجاتی ہے ۔اسے احساس ہوتا ہے کہ ہماری صحاح ستہ میں تو اس نکاح کا کہیں ذکر تک نہیں ملتا ہے حالانکہ حضرت عمر کے فضائل اور مناقب سے یہ چھ کتابیں بھر پور ہیں مگر ایسا واقعہ کسی جگہ نہیں مل جاتا ہے وہ جی میں ہی جی میں ان منقولہ روایات کا سرسری جائزہ لے رہی ہے اور اس کے ذہین میں یہ نتائج پیدا ہوئے ہیں کہ

عمر نے علی کو جھوٹا قراردیا :-

(ا) :- حضرت عمر ساٹھ سال کی عمر میں حضرت علی سے ایک کمسن اور بروائتی صبیہ یعنی دودھ پیتی بچی کا رشتہ طلب کرتے ہیں حضرت مرتضی یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ وہ بچی ابھی چھوٹی ہے شادی کے لائق نہیں ہے مگر خلیفہ باپ کو جھٹلا دیتے ہیں اور خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ تمھارے دل میں اس سے واقف ہوں یعنی قسم کھا کر حضرت عمر نے حضرت علی جھوٹا قراردیا ہے جبکہ دونوں بزرگ ایک دوسرے پر کامل بھروسہ رکھتے تھے حسب العقیدہ ۔

۲۹

انوکھی شادی:-

(ب) :- پھر یہ شادی بھی بڑی انوکھی ہے ۔عقد نکاح کے لئے کوئی محفل مسنون منعقد نہ ہوئی اکابر صحابہ مہاجرین وانصار میں سے کسی کو مدعو نہیں کیا جاتا ہے بلکہ شرفاء کی عادت کے خلاف باپ کہہ رہا ہے کہ میں لڑکی کو تمھارے ہاں روانہ کروں گا ۔اگر تم نے پسند کر لی تو وہ تمھاری بیوی ہوگی ۔استغفر اللہ ایسی بے غیرتی تو ایک گھسیارہ بھی نہیں کرسکتا ہے اور پھر اسلامی تعلیمات کے مطابق تو یہ طریقہ شادی قطعا لغو اور باطل ہے ۔

بلا نکاح دست درازی :-

(ج):- اف اللہ ۔توبہ ،توبہ ۔یہ پہلو کسقدر شرمناک ہے کہ ایک اسلامی خلیفہ ،صحابی رسول ،غیر شرعی طور پر ایک نامحرم ،نابالغ خاندان رسول کی بچی سے دست درازی کررہا ہے ۔بازو کھینچتا ہے ، پنڈلی کھولتا ہے ، سینے سے چمٹا تا ہے ، بو س وکنار کرتا ہے ، وہائی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس وقت آسمان کیوں نہ گرگیا ۔ زمین شق کیوں نہ ہوئی ۔جب وہ معصوم بچی غصّہ میں آکر کہتی ہے کہ اگر تم بادشاہ نہ ہوتے تو تمھاری ناک توڑ دیتی ۔یا آنکھ پھوڑ دیتی ۔

مجرمانہ حملہ :-

(د) :- حاکم بدھن اگر یہ ساری روایات صحیح ہیں تو پھر یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ حضرت عمر نے ساٹھ سال کی عمر میں ایک محرم ،کمسن بچی پر مجرمانہ حملہ کیا اور اگر کوئی دوسرا فرد ایسا کرتا تو اس کو عبرت ناک سزا دی جاتی مگر جب حاکم وقت نے یہ وحشیانہ قدم اٹھایا تعزیری کا روائی ساکت رہی ۔ان روایات سے تو صریحا حضرت عمر کا ظالم ۔فاسق وفاجر ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ایسے فحش الزامات ک موجودگی میں تو واقعہ و بیاہ کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے ٹھیک ہے جو عالیہ اس نکاح کی منکر

۳۰

ہے تو وہ ہرگز غلطی پر نہیں ہے لیکن اب ایلزبتھ کو کیسے مطمئن کیا جائے ۔

عائشہ ان ہی خیالات میں کھوئی رہی کہ رات بیت چکی ۔صبح کی آذان ہوئی عالیہ بھی بیدار ہوئی اور ایلزبتھ بھی جاگ گئی ۔عائشہ وعالیہ نے اپنے اپنے طریقوں سے نماز فجر ادا کی اور کالج جانے کی تیاری کرنے میں مصروف ہوگئیں ۔مگر عائشہ کے چہرے پر بے خوابی پوری طرح جھلک رہی ہے ۔اس میں وہ پہلے سا انہماک نہیں پایا جاتا ہے ۔سکون و آرام کا بہترین ذریعہ تو نیند ہی ہوتا ہے اگر نیند غائب ہوجائے تو قرار باقی نہیں رہتا ہے ۔عالیہ عائشہ کا روگ سمجھتی ہے مگر دونوں کی خواہش یہ ہے کہ ایلزبتھ سے یہ کیفیت پوشیدہ رکھی جائے ۔اترا چہرہ ، آنکھوں کی سوجن ،پیشانی پر شکنیں، اڑی رنگت ۔الجھے بال ،پریشان حال دیکھ کر ایلزبتھ نے عائشہ سے پوچھا ۔

ایلزبتھ :- مس عائشہ کیا بات ہے آج بہت وریڈ دکھائی دیتی ہو ؟

عائشہ :- نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ۔بس یونہی رات کو نیند پوری نہیں ہوئی طبیعت بوجھل سی محسوس ہوتی ہے ۔تم لوگ ایسے سوئے کہ آنکھ جھپک کر بھی نہ دیکھا ۔

ایلزبتھ :- کوئی ہم سے ناراضگی تو نہیں ؟۔

عائشہ :- نہیں نہیں قطعا نہیں تم جیسی سویٹ دوست سے بھلا کس طرح ناراضگی ہوسکتی ہے ۔

عالیہ :- واقعی عائشہ تمھارا چہرہ علیل دکھائی دے رہا ہے ۔ویسے بھی باہر سردی ہے اور آج کالج میں پڑھائی ہونے کا امکان کم ہی نظر آتا ہے تم تو آج آرام ہی کرو ۔چھٹی لے لو ۔

عائشہ :- یہ تم نے دل کی بات کہی ۔میرا بھی ایسا ہی ارادہ تھا ۔ تم میری عرضی دیدینا ۔

۳۱

عالیہ اور ایلزبتھ اپنی اپنی کتابیں تیار کرتی ہیں اور ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد کالج روانہ ہوجاتی ہیں عائشہ پر اب نیند کا غلبہ ہے ۔وہ کمرے کا دروازہ بند کرکے لحاف اوڑھ کر سوجاتی ہے ۔اور دو تین گھنٹے کی کچی نیند لینے کے بعد بیدار ہوتی ہے اور رات والی ڈائری کا پھر سے مطالعہ شروع کردیتی ہے اب وہ ان روایات کی تحقیق کرنا چاہتی ہے ، اور ان کے راویوں کا اقتدار معلوم کرنے کی خواہشمند ہے ۔

روایوں کا اقتدار :-

اس نے دیکھا کہ روایت نمبر ۱ کو ابن اسحاق نے عاصم بن عمر بن قتادہ سے روایت کیا ہے ۔

محمد بن اسحاق :-

جس کی روایت ذخائری العقبی میں درج ہے اس کے بارے میں یحیی قطان نے کہا ہے کہ "اسحاق کذاب ہے " ۔مالک نے کہا "ابن اسحاق دجّال ہے "۔ سلیمان تمیمی نے کہا "ابن اسحاق کذاب ہے "۔ دار قظنی نے کہا کہ قابل احتجاج نہیں لے ۔(میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۲۱)

روایت نمبر ۲ کو ابو عمرو نے زبیر بن بکار سے روایت کیا ہے ۔

زبیر بن بکار:-

زبیر بن بکار حدیث گھڑتا تھا اس کی حدیث ناقابل قبول ہے (میزان الاعتدال جلد ۱ ص ۳۴۰)

تیسری نمبر ۳ روایت سفیان نے عمرو بن دینار سے روایت کی ہے ۔

عمرو بن دینار:-

امام احمد نے کہا ہے کہ ابن دینار ضعیف ہے ۔امام نسائی اور مّرہ نے بھی ضعیف کہا ہے ۔(میزان الاعتدال جلد نمبر ۲ ص ۲۸۷)

چھوتھی نمبر ۴ روایت ابن سعد نے محمد بن عمر واقدی سے روایت کی ہے ،

محمد بن عمرواقدی:-

امام نسائی نے کہا ہے کہ واقدی کذاب ہے اور بغداد میں اپنی کذب بیانی کی وجہ سے مشہور ہے (تہذیب التہذیب جلد ۹ ص ۳۶۶)

۳۲

امام بخاری نے کہا ہے کہ واقدی متروک الحدیث ہے ۔مرّہ نے کہا ہے کہ واقدی کوئی شے نہیں ہے یحیی بن معین نے کہا واقدی ضعیف ہے ۔ابن مدائنی کا قول ہے کہ واقدی کی بیس ہزار حدیثیں بے اصل ہیں ۔امام شافعی نے کہاواقدی کی تمام کتب جھوٹ کا انبار ہے اسی واقدی کی کتابوں یورپین حضور کی شان میں گستاخیاں کرنے کا مواد تلاش کیا ہے اور اسکی فضولیات اورلغو باتوں سے اسلام کو نقصان پہنچا ہے ۔(روزنامہ امروز لاہور ص ۱ ۱۹ اپریل سنہ ۱۹۷۸ عیسوی)

پانچویں روایت کی سند معلوم نہیں ہے چھٹی روایت بہیقی کی ہے جس پر جرح کی جاچکی ہے اسی طرح ساتویں روایت پر بھی بحث ہوچکی ہے یہ روایت عموما مجہول الحال رواۃ سے مروی ہیں جن کے احوال بھی کتب رجال میں نہیں ملتے ہیں مثلا ابن سعد نے انس بن عیاض لیثی ۔عمار بن ابی عامر ،۔ابو حصین اور ابو خالد اسماعیل وغیرہ سےروایت کی میزان ا عتدال میں ان تمام روایوں کو مجہول الحال لکھا گیا ہے ۔ملاحظہ کریں میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۳۹۵۔

اسی طرح ہشام بن سعد بھی راوی ہے جسے نسائی نے ضعیف کہا ہے (میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۲۵۴) ۔اسماعیل بن عبدالرحمان سدی کو یحیی بن معین نے ضعیف لکھا ہے ۔لیث نے کاذب قرار دیا ہے ۔(میزان الاعتدال جلد ۲ ص ۱۱۰) عطا بن مسلم خراسانی کو بخاری نے ضعیف قرار دیا ہے ۔اس کی حدیث سے احتجاج باطل ہے ۔(میزان الاعتدال جلد ۲ ص ۱۱۹) عبید اللہ بن موسی کوامام احمد بن حنبل صاحب تخلیط کہا ہے ۔اس کی حدیث بری ترین ہیں (میزان الاعتدال جلد ۲ ص ۱۷۰) عبدالرحمان بن زید

۳۳

بن اسلم کو امام نسائی نے ضعیف کہا ہے ۔(میزان الاعتدال جلد ۲ ص ۱۰۵)

اسی طرح ابن شہاب زہری کا ناصبی ہونا اور دشمن علی ہونا مشہور ہے ا لغرض یہ واقعہ ناقابل اعتبار روایوں کی روایات پر انحصار کرتا ہے جن کا علم رجال کی روشنی میں حال بیان کیا گیا ہے ۔یہ احوال پڑھ کر عائشہ دل سے مطمئن ہے کہ یہ بے بنیاد روایات محض صحابہ کی زبر دست توہین اور ہتک اسلام کرنے کے لئے دشمنان دین نے گھڑی ہیں اور ان کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق ثابت نہیں ہوتا ہے ۔اور جب عائشہ نے ڈائری میں یہ بھی پڑھا کہ خود علمائے اہل سنت نے ان مردود روایات کو ٹھکراردیا ہے تو اسے مزید سکون محسوس ہوا ۔ چنانچہ اس نے دیکھا کہ اہل سنۃ کے جلیل القدر شیخ الاسلام امام سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الا متہ ص ۳۳۱ پر ان روایات کےبارے میں با ایں الفاظ تبصرہ کیا ہے ۔

سبط ابن جوزی کا تبصرہ :-

میرے نانا نے کتاب المنتظم میں ذکر کیا ہے کہ علی نے ام کلثوم کو عمر کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس کو دیکھیں اور عمر نے ان کی پنڈلی کھولدی اور ان کو ہاتھ سے چھوا ۔میں کہتاہوں کہ خدا کی قسم یہ بد ترین بات ہے اگر یہاں کوئی کنیز بھی ہوتی تو عمر اس سے یہ بد سلوکی نہ کرتے کیونکہ با اجماع المسلمین اجنبی عورت کو مس کرنا حرام ہے ۔لہذا یہ بات حضرت عمر کی طرف کیسے منسوب کی جائے "۔

۳۴

افسانوی نکاح کا شرعی حیثیت سے ابطال :-

علامہ سبط ابن جوزی کے اس تبصرہ کے بعد ڈائری میں مرقوم وہ بحث جس کے مطابق اہل سنت کے مذاہب اربعہ کی فقہ میں روایات مندرجہ بالا کی روشنی میں اس نام نہاد فرضی نکاح کو باطل

۳۵

ثابت کیا گیا یہے ۔عائشہ بغور پڑھ رہی ہے اس بحث میں حنفی ،شافعی ،جنبلی اور مالکی فقہ کے مطابق ٹھوس دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ یہ نکاح ہر صورت میں باطل ہے اور شریعت اسلامیہ کی کھلی مخالفت ہے ۔

پہلی دلیل:-

ان روایات سے ثابت ہے کہ عقد مفروضہ میں ایجاب وقبول واقع نہیں ہوا اور نہ ہی اس میں گواہ بیٹھے نظر آتے ہیں ۔مذہب اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایجاب وقبول نکاح کا رکن ہے ۔کسی مسلمان کا نکاح بغیر دو عادل آزاد ،بالغ مسلمان گواہوں کی موجودگی کے منعقد نہیں ہوسکتا پس چونکہ اس افسانوی نکاح میں یہ شرائط مفقود ہیں اس لئے یہ نکاح قطعا باطل اور غیر اسلامی ہے ۔

دوسری دلیل:-

روایات بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑکی کے ولی یعنی حضرت علی نے فرمایا "میں ام کلثوم کو تمھارے پاس بھیجوں گا اگر تم کو پسند آگئی تو اس کی شادی تم سے کردوں گا" (استیعاب جلد ۴ ص ۲۶۷) یا یہ کہا کہ "میں اس کو تمھارے پا س بھیجوں گا اگر تم نے پسند کرلی تو وہ تمھاری بیوی ہے "(استیعاب جلد ۴ ص ۴۶۹)

"اگر"کے لفظ پر منحصر عقد اصطلاح میں "عقد معلق"کہلواتا ہے ۔اور مالکیوں ،شافعیوں ،اور حنفیوں کے نزدیک نکاح معلق باطل ہے بلکہ نکاح کو "منجز "ہونا چاہئے ۔

تیسری دلیل :-

روایات منقولہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ام کلثوم اس وقت کو سن اور نا بالغ تھیں مگر ان روایات میں نکاح کے صیغے جاری ہونے کا کسی جگہ تذکرۃ نہیں ملتا ہے اگر چہ نابالغ بچی کے نکاح میں ایک وکیل اور ایک گواہ کا ہونا کافی ہے تب بھی مذہب حنفی کے مطابق باپ کی موجودگی شرط ہے ۔ اگر باپ غائب ہے تو نکاح ناجائز ہوگا ۔

۳۶

اگر فرض کیا جائے کہ ام کلثوم کی عمر اس نکاح کے وقت دس گیارہ بر س کی تھی تو یہ مفروضہ اور خطر ناک ہوگا کہ روایات یہ ثابت کرنے سے قاصر ہیں کہ ام کلثوم سے حضرت عمر کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت طلب کی گئی ہو بلکہ واضح طور پر روایات میں مذکور ہے کہ حضرت عمر کی دست درازی کے بعد ان کو بتا یا گیا کہ"اے بیٹی وہ تمھار شوہر ہے "۔(استیعاب جلد ۴ ص ۴۶۷)یعنی اس بد تمیزی سے قبل لڑکی بالکل بے خبر ہے ۔جبکہ اہل سنت کے ہاں امر مسلمہ ہے کہ حرہ بالغہ عاقلہ کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف کرنا جائز نہیں ہے ۔ اور نہ ہی ولی کے لئے جائز ہے کہ وہ بالغہ اور نا کتخدا کو کسی سے نکاح کرنے پر مجبور کرے لہذا دونوں صورتوں میں نکاح درست قرار نہیں پاتا ہے تو پھر حضرت عمر کے لئے ایسا ناجائز نکاح تجویز کر کے ان کو توہین وتذلیل کیوں کی جاتی ہے ۔برادران اہل سنت کو اس کا سختی سے لحاظ رکھنا چاہئیے ۔

چوتھی دلیل:-

ان بے ہودہ روائیوں سے پوری طرح واضح ہے کہ اس نکاح کو صحابہ رسول (ص) سے مخفی رکھا گیا ان کو اس عقد کی خبر تک نہ ہوئی جب ام کلثوم ناراض ہو کر واپس گئیں تو حضرت عمر نے لوگوں سے مبارک باد ی کا مطالبہ کیا ۔جب صحابہ نے وجہ دریافت کی تو انھوں نے ام کلثوم سے شادی کی خبر دی ۔ حلبی نے اپنی سیرت میں تو شرافت کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دئیے ہیں انھوں نے روایت لکھی ہے کہ " حضرت عمر نے مجلس مہاجرین میں جا کر یہ کہا کہ "مجھے مجامعت کرائیے ۔صحابہ نے کہا کس سے تو عمر نے کہا میں نے ام کلثوم سے شادی کر لی ہے " (کتاب السیرت ص۴۶۳)

(ڈائری کی یہ عبارت پڑھ کر عائشہ نے اپنا منہ گریبان میں چھپا لیا اور" لا حول " پڑھنا شروع کیا ۔) اس کے بعد حلبی نے اظہار معذرت کیا کہ

۳۷

شاید ایسی بات کرنے کی حرمت صحابہ کو نہیں پہنچتی تھی ۔(بحوالہ کنز المکتوم ص ۴۶)

حالانکہ شریعت کا حکم ہے کہ نکاح کا بر سر عام کرو ۔یہاں تک ہے کہ دف بجاؤ تاکہ حرام وحلال کا فرق معلوم ہوسکے خود حضرت عمر کا قول ہے کہ نکاح کا پہلے اعلان کیا جائے حضرت عمر کے دوسرے سارے نکاح بھی بر سر عام ہوئے اور دیگر کسی بھی صحابی نے چوری چھپے نکاح نہیں کیا ہے ،پس یہ پو شیدہ نکاح خود اپنے آپ کو افسانوی ثابت کرنے کا بین ثبوت ہے ۔

پانچویں دلیل:-

ابن سعد کی طبقات میں اور دیگر کتابوں میں یہ مرقوم ہے کہ ام کلثوم کا حق مہر چالیس ہزار درہم مقرر ہوا ۔یہ رقم حضرت عمر کے اپنے ہی قول کے خلاف بات ہے ۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے "ازالتہ الخفا"جلد دوم ص ۱۱۲ میں تحریر کیا ہے ۔حضرت عمر نے فرمایا "حق مہر زیادہ نہ ہو" چونکہ رسول اللہ (ص) نے اپنی بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہ مقرر فرمایا "اسی طرح شاہ ولی اللہ کے فرزند شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے تحفہ اثنا عشریہ میں لکھا ہے کہ حق مہر کا بڑھانا خلاف اصول پیغمبر ہے چونکہ صحیح احادیث میں حق مہر بڑھانے کی ممانعت وارد ہے اور حدیث میں ہے حق مہر آسان باندھو ۔(تحفہ اثنا عشری ص ۵۹۱ فارسی)

مولی شبلی نعمانی نے الفاروق ص ۵۷۰ پر اسی رقم مہر یعنی ۴۰ ہزار کا ذکر کیا ہے جو سراسر مخالفت سنت رسول (ص) بلکہ خود حضرت عمر کا اپنے قول و اصول سے انحراف ہے کہ دوسروں کو تو وہ زیادہ مہرباندھنے پر روکتے تھے اور خود ساٹھ سال کی عمر میں کمسن دلھن کا چالیس ہزار مہر دینے پر آمادہ ہوگئے ۔

چھٹی دلیل :-

زیر بحث روایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سنہ ۱۷ ہجری میں حضرت عمر کی نویلی دلہن کی عمر چار پانچ برس کی تھی اور بعض مورخین کے

۳۸

نزدیک صبیہ یعنی دودھ پیتی تھی یا پھر صغیرہ ونابالغہ تھیں اور ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں منقول روایت کے تحت وہ بہت چھوٹی تھیں ورنہ ان کے باپ ان کو عمر کے پاس نہ بھیجتے ۔ شہاب الدین دولت آبادی کے نزدیک ان کو عمر پانچ بر س کی تھی ۔

یاسین موصلی نے المہذب ص ۹۸ پر اور عمر رضا کحالہ نے اعلام النساء ص ۲۵۶ پر تحریر کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ذیقعدہ سنہ ۱۸ ھ میں یہ شادی کی شادی کے ایک سال بعد دخول کیا حالانکہ نابالغ بچی سے دخول کرنا فعل حرام ہے خواہ وہ منکوحہ ہی کیوں نہ ہو ۔ اب صاف ظاہر ہے کہ جب بوقت نکاح عمر چار پانچ برس تھی تو ایک سال بعد بالغ ہونا ممکن نہیں ہے پس روائتی لحاظ سے یہ نکاح بالکل من گھڑت افسانہ ہے ۔

عائشہ پوری دلچسپی سے یہ ڈائری مطالعہ کر رہی ہے اسے یہ احساس ہےکہ اس نے اپنی سہیلی ایلزبتھ پر اسلام کی تعلیمات کو محض اس دلیل کے بل بوتے پر فوقیت دی ہے کہ اس کے احکام سائنٹفک ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کے محافظ بھی ہیں اس نے شارح علیہ السلام کی سیرت طیبہ اور اخلاق محمدیہ کے بیشتر نمونے بطور مثال پیش کرکے ایلزبتھ کے عقیدے میں ڈگمگا ہٹ پیدا کردی ہے ۔ تہذیب اسلام اور اصول دین کی جامعیت پر مدلل مباحثے کر کے اسلام کو ایک عالم گیر ضابطہ حیات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اب وہ خوف زدہ ہے اسے ڈرہے کہ اس واقعہ دل سوزکی روشنی میں اگر ایلزبتھ نے کہہ دیا کہ اسلام کے دانت ہاتھی کے مانند دیکھنے کے اور کھانے کے اور ۔یہ تو ایسا کالا مذہب ہے کہ ایک ستون اسلام بزرگ جو پیغمبر کا خلیفہ ونائب اعتقاد کیا جاتا ہے اور جسے تاریخ میں فاروق اعظم

۳۹

لکھا جاتا ہے اس نے اٹھاون برس کے سن میں تین بیویوں کے ہوتے ہوئے اپنی بیٹی کی سوتیلی نواسی سے شادی رچائی ۔بلکہ بلا نکاح اس سے ایسی حرکات ناشائستہ کیں جو کوئی بھی شریف شخص نہیں کرسکتا ۔اور دوسرے ستون اسلام نے اپنی بیٹی کو بازاری سودے کی طرح بطور نمونہ اس کے پاس بھیجدیا تو میرے پاس ان معقول اعتراضات کا کیا تسلی بخش جواب ہوگا ؟ اگر خدا نخوستہ یہ روایات سچی ہیں تو بنی آدم کی تاریخ میں ایسی مذموم مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں مل سکتی ہے ۔اے میرے پروردگار ! میں نے تو تیرے دین حقہ کی اشاعت کے لئے خلوص نیت سے دعوت تبلیغ کی کوشش کی تھی اب مجھے اس خلفشار سے بچا ۔ میرے دل کو تویہ اطمینان ہے کہ یہ قصہ بالکل واہیات اور مہمل ہے اور محض اسلام کو بدنام کرنے کے لئے بزرگان اسلام کو بے آبرو بنانے کی خاطر دشمنان دین نے اسے گڑھا ہے ۔تاکہ دین کو محض عیاشی و شہوت پرستی کا ضابطہ بنا کردنیا کے سامنے ذلیل کردیا جائے ۔اور اس مصطفی مذہب کو نفرت آمیز جامہ پہنا دیا جائے یہ روایات تو خلفائے راشدین کی سیرت پر ایسا بد نما داغ لگا تی ہیں جسے صاف کرنا ممکن نظر نہیں آتا ہے ۔اے رب العزت ! میری رہنمائی فرما اور اپنے معزز دین کی عزت و توقیر کو بحال رکھ مجھے اس مشکل سے نکال ۔بے شک یہ قصہ عقلا ونقلا شرعا وشرفا بالکل بے سروپا اور بے بنیاد ہے ۔لیکن ایلزبتھ کو کس طرح مطمئن کیا جاسکتا ہے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی بچ جائے ۔

عالیہ اور ایلزبتھ کالج سے واپس آگئی ہیں لیکن عائشہ ابھی اس موضوع پر ایلزبتھ سے گفتگو کرنا پسند نہیں کرتی ہے جب کہ وہ خود کو مکمل طور پر اس

۴۰

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105