المیہ جمعرات

المیہ جمعرات17%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104076 / ڈاؤنلوڈ: 4470
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

یہی ارادہ ہے کہ وہ تم سے ہر طرح کی ناپاکی کو دور رکھے اور تمہیں اس طرح سے پاک بنائے جیسا کہ پاکیزگی کا حق ہے(۱)

حضرت ابو بکر کا حق تھا کہ حضرت سیدہ کے دعوی کے بےچون وچرا تسلیم کرلیے ۔کیونکہ تاریخ وحدیث کا مشہور واقعہ ہے کہ کہ حضور کے ساتھ ایک اعرابی نے ناقہ کے متعلق تنازعہ کیا ۔ ہردو فریق ناقہ کی ملکیت کے دعویدار تھے ۔اعرابی نے رسول خدا (ع) سے گواہ طلب کیا تو حضرت خزیمہ بن ثابت نے حضور کے حق کے متعلق گواہی دی ۔ اور جب حضرت خزیمہ سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ گواہی بغیر علم کے کیوں دے دی ہے ؟

تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم محمد کی نبوت اور وحی کی بھی تو گواہی دیتے ہیں جب کہ ہم نے جبریل امین کو اپنی آنکھوں سے اترتے نہیں دیکھا ۔جب ہم نبوت ورسالت جیسے عظیم منصب کی ان دیکھے گواہی دے دیتے ہیں تو کیا ہم اپنے نبی کے لئے ایک اونٹنی نہیں دیں گے ؟ رسول خدا (ص) نے حضرت خزیمہ کی شہادت کو صحیح قراردیا اور انہیں "ذو الشہادتین " یعنی دو گواہیوں والا قراردیا ۔

حضرت خزیمہ کی طرح اگر حضرت ابو بکر بھی حضرت سیدہ کی روایت ہبہ کو بدون شہود تسلیم کر لیتے تو یہ ان کے لئے زیادہ مناسب تھا ۔اس کے برعکس حضرت ابو بکر کی "لاوارثی" حدیث کے متعلق جناب زہرا (س) نے ان سے گواہ نہیں مانگے تھے ۔جب کہ حضرت سیدہ اس روایت کی صحت سے بھی منکر تھیں ۔

اور علی (ع) جیسے صدیق اکبر کی گواہی رد کرنے کا بھی حضرت ابو بکر کے پاس کوئی جواز نہیں تھا ۔اور ام ایمن جو کہ رسولخدا (ص) کی دایہ تھیں جن کی پوری زندگی اسلام اور رسول اسلام کی خدمت میں گزری تھی ، ان کی گواہی کو رد کرنے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی تھی ۔

____________________

(۱):- الاحزاب

۱۰۱

خلیفۃ المسلمین کا عملی تضاد

حضرت ابو بکر کا موقف میراث انتہائی عجیب وغریب ہے ۔

۱:- انہوں نے رسول خدا کی تلوار ان کی نعلین اور دستانے مبارک علی (ع) کے پاس رہنے دی تھی اور اس کے متعلق نہ تو انہوں نے علی (ع) سے کوئی تنازعہ کیا اور نہ ہی علی سے گواہ طلب کیے ۔

۲:-علاوہ ازیں رسول خدا (ص) نے مرض الموت میں حضرت علی (ع) کو اپنی تلوار اور انگشتری عطا فرمائی تھی ۔ حضرت ابو بکر نے علی (ع) سے ان دونوں چیزوں کی واپسی کا کوئی تقاضا نہیں کیا ۔

اگر تلوار اور انگشتری ہبہ ہوسکتی ہے اور خلیفہ اسے واپس نہیں لیتے اسی طرح سے فدک بھی تو ہبہ ہوچکا تھا ۔ اس کی واپسی کے لئے یہ ساری تگ و دو کیوں کی گئی ؟

۳:- جس لباس میں حضور اکرم نے وفات پائی تھی ،لباس حضرت فاطمہ (س) نے اپنے پاس رکھ لیا تھا ۔حضرت ابوبکر نے لباس رسول (س) کی واپسی کا مطالبہ بھی نہیں کیا تھا ۔

۴:- ازواج رسول (ص) سے بھی رسولخدا (ص) کے مکان خالی کرنے کامطالبہ نہیں کیا گیا۔

۵:-عامل بحرین علاء بن حضرمی سے خلیفہ صاحب کے پاس مال بھیجا ۔حضرت جابر نے خلیفہ صاحب سے کہا کہ رسول خدا(ص) نے وعدہ کیا تھا کہ جب بھی میرے پاس مال آیا تو میں تمہیں اتنا مال دون گا ۔اب جب کہ رسول خدا کی وفات ہوچکی ہے اورآپ اس وقت خلیفۃ المسلمین ہیں ۔لہذا مجھے اتنا مال دیں ۔ حضرت ابو بکر نے ان سے کسی گواہ کا مطالبہ نہیں کیا ان کی زبان پر اعتماد کرتے

۱۰۲

ہوئے انہیں مطلوبہ مال فراہم کیا(۱) ۔

تو کیا حضرت خاتو ن جنت (س) جابر جتنی بھی صادق اللہجہ نہ تھیں ؟

۶:- جب خلیفہ صاحب کے پاس مال بحرین آیا تو ابو بشیر المازنی ان کے پاس گئے اور کہا کہ حضور اکرم (ص) نے فرمایا تھا جب بحرین سے مال آیا تو میں تجھے دوں گا ۔حضرت ابو بکر نے اس کی بات سن کر تین تھیلیاں بھر کر انہیں مال دیا ۔

تاریخ کا طالب علم اس وقت انتہائی پریشان ہوجاتا ہے کہ جب کہ جب وہ یہ دیکھتا ہے کہے ایک گم نام صحابی اگر مطالبہ کرے تو اس کی بات کو سچ سمجھا جا تا ہے اور اگر بنت رسول (س) اپنا حق مانگیں تو ان سے گواہ طلب کیئے جاتے ہیں اور ستم یہ ہے کہ گواہوں کی گواہی کو بھی ٹھکرا دیا جاتا ہے اور رسول خدا (ص) کی خاتون جنت بیٹی کو خالی ہاتھ لوٹا دیا جاتا ہے ۔

اگر "لاوارثی"حدیث کو صحیح مان لیا جائے تو اس سے بڑی قباحتیں لازم آئیں گی ۔اس حدیث کے تحت رسول خدا (ص) کو ان کے مکان میں دفن نہیں کیا جاسکتا ۔کیونکہ رسول خدا(ص) کی وفات کی وجہ سے ان کا تمام ترکہ صدقہ بن جاتا ہے اور وہ عوامی ملکیت میں بد جاتا ہے ۔اب جب کہ آپ کی وفات ہوئی تو مکان بھی تو صدقہ میں شامل ہوگیا ۔رسول خدا (ص) کا اس مکان سے کوئی واسطہ نہیں رہا اور جس مکان سے ان کا کوئی واسطہ ہی نہ وہ تو اس میں دفن کیسے ہوں گے ؟

اور عجیب بات یہ ہے کہ خود حضرت ابو بکر ہی دوسری حدیث کے راوی ہیں کہ "انبیاء کی جہاں وفات ہوتی ہے وہ وہاں ہی دفن ہوتے ہیں " اگر انبیاء اپنی جائے وفات پر دفن ہوتے ہیں تو وہ جگہ ان کی ہوتی ہے یا صدقہ کا مال ہوتا ہے ۔؟

اب اگر وہ مال وترکہ صدقہ ہوتا ہے تو انبیائے کرام کی وہاں تدفین صحیح نہیں ہے اور اگر تدفین صحیح اور درست ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ ان کا ترکہ

____________________

(۱):- صحیح بخاری سوم –ص ۱۸۰

۱۰۳

صدقہ میں تبدیل نہیں ہوتا ۔

تعجب ہے کہ ان دونوں حدیثوں میں جو واضح تناقض و تضاد ہے کیا حضرت ابو بکر کو اپنی ہی بیان کردہ دونوں حدیثوں کے تضاد کا ادراک نہیں ہوا تھا ؟

اگر مزید وضاحت کرنا چاہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے حدیث پڑھی کہ " نبی جہاں وفات پاتے ہیں ۔اسی جگہ ہی دفن ہوتے ہیں "

تو نبی کی جائے وفات دو میں سے ایک جگہ تو ضرور ہوگی ۔

۱:- یا تونبی اپنی ملکیت میں وفات پائے گا ۔

۲:- یا کسی غیر کی ملکیت میں وفات پائے گا ۔

اگر اپنی ملکیت میں نبی وفات پاتا ہے تو اس کی وفات پر وہ جگہ تو صدقہ بن گئی اور جو چیز مرنے والے سے متعلق ہی نہ ہو اس میں دفن ہونا ہی غلط ہے ۔

اگر بالفرض نبی کسی غیر کی زمین پر وفات پاتا ہے تو وہ زمین تو پہلے سے ہی غیر کی ہے اس میں تو دفن ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

لہذا اگر لاوارثی حدیث کو صحیح مان لیا جائے تو پھر ہمیں بتایا جائے کہ آخر انبیاء کو کہاں دفن ہونا چاہئیے ؟

علاوہ ازیں حضرت ابو بکر کو یہ حق کس نے تفویض کیا تھا کہ وہ رسول خدا (ص) کے پہلو میں دفن ہونے کی وصیت کریں ۔ جب کہ وہ زمین خود رسول خدا (ص) کی ملکیت سے نکل کر صدقہ میں تبدیل ہوچکی تھی ؟ اور اس مقام پر یہ تسلیم کیاجائے کہ وہ حجرہ حضور اکرم (ص) کی ملکیت ہی تھا اور وہ وفات کے بعد بھی "بیت النبی " ہی تھا تو بیت النبی کے داخلہ کے لئے اللہ نے پہلی شرط یہ عائد کی ہے کہ پہلے نبی سے اجازت لی جائے بعد ازاں ان کے گھر میں قدم رکھا جائے تو کیا حضرت ابو بکر رسول خدا کی زندگی میں ان سے دفن ہونے کی اجازت حاصل کرچکے تھے ؟

یا رسول خدا(ص) اپنی زندگی میں یہ کہہ کر گئے تھے کہ خلیفہ اول کو میرے پہلو

۱۰۴

میں دفن کیا جائے ؟

الغرض "لاوارثی " حدیث کو صحیح تسلیم کرنے سے یہ تمام قباحتیں جنم لیتی ہیں اور اس سے بھی زیادہ عجیب وغریب بات یہ ہے کہ اہل سنت مفسرین نے انبیاء کی میراث حاصل کرنے کی آیات کے متعلق ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا کہ ان آیات سے میرا ث علمی مراد ہے ۔اور ہماری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آسکی کہ علم وفضل کب سے میراث بنا ہے اگر علم وفضل میراث ہوتا تو ہر عالم باپ کا بیٹا عالم ہوتا ہے اور ہر جاہل باپ کا بیٹا جاہل ہوتا ہے ۔علم نفس اور علم اجتماع اس مفروضہ کی تردید کرتے ہیں اور طرفہ یہ کہ حضرت ابو بکر نے جناب سیدہ (س) کو محروم الارث کرکے بزعم خویش اس حدیث پر عمل کیا جس کے وہ واحد راوی تھے ۔

اور اپنی منفرد حدیث پر عمل کرتے وقت عالم اسلام کی اس مستند و موثق حدیث کو بھول گئے جس کی صحت کا انہیں خود بھی اقرار تھا ۔

رسول اکرم (ص) کی مشہور ترین حدیث ہے :-"فاطمة بضعة منّی من اذاها فقد آذانی ،ومن آذانی فقد آذی الله "(۱) ۔

"فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس سے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی "۔

اور حضرت سیدہ کو محروم رکھتے وقت حضرت ابو بکر کو ابو العاص بن ربیع کا واقعہ بھی مد نظر رکھنا چاہیۓ تھا ۔

اس واقعہ کی تفصیل مورخ ابن اثیر نے یوں بیان کی ہے :-

"جنگ بدر کے قیدیوں میں ابو العاص بن ربیع بن عبدالعزی بن عبد الشمس بھی تھا ۔یہ شخص زینب بنت خدیجہ (رض) کا شوہر تھا ۔

مکہ کے تمام جنگی قیدیوں نے فدیہ دے کر رہائی حاصل کی ۔زینب بنت

____________________

(۱):- درج بالا حدیث کا مفہوم صحیح بخاری میں موجود ہے ۔

۱۰۵

خدیجہ نے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے اپنا وہ ہار بھیجا جو ان کی ماں حضرت خدیجہ الکبری نے انہیں دیا تھا ۔

جب جناب رسول خدا (ص) نے اس بار کو دیکھا تو انہیں حضرت خدیجہ کی یاد آئی اور خدیجہ کی یاد سے بڑے متاثر ہوئے اور مسلمانوں سے فرمایا :-" اگر تم زینب کے قیدی کو رہا کرسکو اور اس کا بھیجا ہوا فدیہ بھی واپس کر سکتے ہوتو کرو ۔مسلمانوں نے ابو العاص کو حضرت زینب بنت خدیجہ کی وجہ سے رہا کردیا اور ان کا فدیہ بھی واپس کردیا ۔

فتح مکہ سے پہلے ایک دفعہ ابو العاص بن ربیع اپنا اور باقی قریش کے چند افراد کا مال لے کر شام جارہا تھا ۔راستہ میں مسلمانوں کے ایک سریہ سے مڈبھیڑ ہوگئی ۔مسلمانوں نے اس کا سامان لوٹ لیا اور جب رات ہوئی تو وہ اپنی بیوی زینب بنت خدیجہ کے پاس آگیا ۔اور جب رسول خدا نماز صبح کے لئے مسجد جارہے تھے تو زینب نے آواز دی لوگو!" میں ابو العاص بن ربیع کو پناہ دے چکی ہوں ۔"

رسول خدا نے لوگوں سے فرمایا کہ اگر تم مناسب سمجھو تو اس کا مال اسے واپس کر دو یہ میری خواہش ہے اور تم مال واپس نہ کرو پھر بھی تم پر کوئی گناہ نہ ہوگا ۔

لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کی خواہش کے سامنے ہم اپنی گردن جھکائے دیتے ہیں اور ہم اس کا مال واپس کردیتے ہیں ۔ مسلمانوں نے اس کا تمام سامان حتی کہ اس کے ہاتھ کی لکڑی بھی اسے واپس کردی(۱) ۔"

درج بالا واقعہ میں آپ نے ملاحظہ کیا کہ مسلمانوں نے وہ مال غنیمت جو کہ ان کا شرعی حق تھا ۔وہ بھی رسول خدا (ص) کی پروردہ جناب زینب کی وجہ سے ابو العاص بن ربیع کو واپس کردیا ۔اگر خدا نخواستہ بالفرض حضرت ابو بکر یہ سمجھتے تھے کہ حضرت سیدہ (س) کی میراث نہیں ہے تو بھی انہیں ابو العاص کے واقعہ کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت سیدہ کی رضامندی کو مقدم رکھنا چاہئیے تھا ۔

یا حضرت ابو بکر کا یہ کردار سنت رسول کے مطابق تھا ؟

____________________

(۱):- ابن اثیر ۔الکامل فی التاریخ ۔جلد دوم ۔ص ۹۳-۹۴

۱۰۶

سقیفائی حکومت کا دوسرا چہرہ

ب :- حضرت عمر بن الخطاب

اما والله لقد تقمّصها ابن ابی قحافة و انّه لیعلم انّ محلّی منها محلّ القطب من الرحی ینحدر عنی السیل ولا یرقی الی الطیر فسدلت درنها ثوبا وطویت عنها کشحا وطفقت ارتای بین ان اصول بید جذآء او اصبر علی طخیه عمیاء یهرم فیها الکبیر و یشب فیها الصغیر ویکدح فیها مومن حتی یلقی ربّه فرایت انّ الصبر علی هاتا اجحی فصبرت وفی العین قذی وفی الحلق شجا اری تراثی نهیا حتی مضی الاول لسبیله فادلی بها الی ابن الخطاب بعده ثم تمثل بقول الاعشی "

شتّان ما یومی علی کورها ویوم حیّان اخی جابر

فیا عجبا بینا هو یستقیلها فی حیاته اذ عقدها لاخر بعد وفاته لشد ماتشطرّا ضرعیها "(۱)

خدا کی قسم ؛ فرزند ابو قحافہ نے پیراہن خلافت پہن لیا ۔حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جوچکی کے اندر اس کی کیلی کا ہوتا ہے ۔میں وہ (کوہ بلند) ہوں جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گراجاتا ہے اور مجھ تک پرندہ پر نہیں مارسکتا ۔(اس کے باجود ) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کر لی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہوجاتا ہے اور مومن اس میں جد وجہد کرتاہوا اپنے

____________________

(۱):-نہج البلاغہ ۔خطبہ شقشقیہ ۔

۱۰۷

پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے ۔مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرین عقل نظر آیا ۔ لہذا میں کیا ۔حالانکہ آنکھوں میں غبار اندوہ کی خلش تھی اور حلق میں غم ورنج کے پھندے لگے ہوئے تھے ۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابن خطاب کو دے گیا ۔پھر حضرت نے بطور تمثیل اعشی کا یہ شعر پڑھا :

"کہاں یہ دن جو ناقہ ی پالا ن پہ کٹتا ہے اور کہا وہ دن جو حیان برادر جابر کی صحبت میں گزرتا تھا ۔"

تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کے لئے استوار کرتا گیا ۔ بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا "۔

تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کے لیے استوار کرتا گیا ۔بے شک ان دو نوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا "۔

بے شک ایسا ہی ہوا ۔حضرت عمر کی محنت سے جو خلافت ابوبکر کو ملی تھی ۔انہوں نے وہ خلافت حضرت عمر کے حوالے کی ۔

حضرت عمر کی نا مزدگی سے پہلے انہوں نے حضرت عثمان بن عفان اور عبد الرحمان بن عوف کو بلایا اور ان سے حضرت عمر کی باقاعدہ نامزدگی کے لیے مشورہ طلب کیا ۔تو عبدالرحمان بن عوف نے کہا " آپ اس کے متعلق جو سوچتے ہیں وہ اس سے بہتر ہیں "عبدالرحمان یہ جانتے تھے کہ خلیفہ اول کے دور میں بھی مرکزی کردار عمر ہی ادا کرتے رہے ۔جب کہ وہ حضرت ابو بکر کے تصورات سے بھی زیادہ بہتر تھے یعنی چہ معنی دارد؟ اور حضرت عثمان بن عفان کا جواب یہ تھا کہ "ان کا باطن ان کے ظاہر سے بہتر ہے اور ہماری بزم میں ان جیسا کوئی اور نہیں ہے ۔"

اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عثمان نے بالکل بجا فرمایا ہے کیوں کہ سقیفائی حکومت کے کرداروں میں خلیفہ ثانی لاجواب شخصیت کے حامل تھے ۔

۱۰۸

ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ ان دونوں مشیروں نے یہ مشورہ اپنے ضمیر کی آواز پر دیا تھا یا خلیفہ صاحب کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انہوں نے یہ مشورہ دیا تھا ؟

خلیفہ اول کی حضرت عمر کے لئے وصیت

بہر نوع حضرت ابو بکر نے حضرت عثمان کو حکم دیا کہ وہ حضرت عمر کی نامزدگی کی وصیت تحریر کریں ۔

مورخین رقم طراز ہیں کہ حضرت ابو بکر اپنی وصیت تحریر کراتے گئے اور حضرت عثمان لکھتے گئے ۔ابھی حضرت عمر کا نام تحریر نہیں ہوا تھا کہ وہ بے ہوش ہوگئے اور حضرت عثمان نے اپنی فہم و فراست سے حضرت عمر کا نام تحریر کردیا اور جب حضرت ابو بکر کو ہوش آیا تو حضرت عثمان نے انہیں حضرت عمر کا نام پڑھ کر سنایا جسے حضرت ابوبکر نے درست قراردیا اور مذکورہ نام لکھنے پر حضرت عثمان کو آفرین وتحسین کہی ۔

۱:- آج تک ہم سے یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ حضرت عثمان نے متوفی کی وصیت میں از خود حضرت عمر کا نام داخل کیوں کیا ؟

۲:- اور کیا یہ کارنامہ ان کی اولیات میں شمار کیا جائے گا ؟

۳:- اور کیا اگر ہم فرض کرلیں کہ حضرت ابو بکر اسی بے ہوشی کے دورہ سے ہی جانبرد نہیں ہوئے تھے تو اس وصیت نامہ کی شرعی حیثیت کیا قرار پائے گی ؟

۴:- حضرت عمر کی نامزدگی کے لئے پوری جماعت صحابہ میں سے صرف دوافراد وکو ہی مشہورہ کے قابل کیوں سمجھا گیا ؟

۵:- ان دونوں بزرگواروں میں آخر وہ کون سی خاصیت تھی جس سے دوسرے صحابہ محروم تھے ؟

۶:- حضرت ابو بکر کے اس اقدام کے متعلق یہ کہہ کر امت اسلامیہ کو مطمئن

۱۰۹

کردیا جاتا ہے کہ انہوں نے امت اسلامیہ کی ہمدردی کے لئے ایسا کیا ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا رسول خدا کو اپنی امت س اتنی ہمدردی بھی نہ تھی جتنی حضرت ابو بکر کو تھی ؟

۷:-حضرت ابو بکر عالم نزع میں حضرت عمر کی نامزدگی تحریر کرائیں وہ تو درست ہے اور اگر جناب رسول خدا(ص) اپنے مرض موت میں کوئی وصیت تحریر کرانا چاہیں تو اسے ہذیان کہا جائے ؟

۸:- اگر سینکڑوں بر س بعد کوئی شخص یہ کہنے کی جسارت کرے کہ وہ وصیت نامہ حضرت ابو بکر کی بے ہوشی اور ہذیان کی حالت میں تحریر کیا گیا تھا ۔ تو کیا ایسا کہنے والے شخص کو دین اسلام کا دوست کہا جائے گا یا دشمن ؟ اور اس کے ساتھ امت اسلامیہ یہ فیصلہ بھی کرے کہ اگر کوئی شخص یہی الفاظ رسول خدا (ص) کے متعلق کہے تو اس کے لئے کیا کہاجائے ؟

۹:- حضرت ابو بکر و عمر کا نظریہ یہ تھا کہ رسول خدا نے کسی کو خلافت کے لئے نامزد نہیں کیا تھا اور اگر حضرت ابو بکر بھی رسول خدا کی پیروی کرتے ہوئے کسی کو اپنا جانشین نامزد نہ کرتے تو کیا یہ عمل سنت رسول کی اتباع نہ کہلاتا ؟

۱۰:-اگر حضرت علی کے لئے مشورہ کرلیا جاتا اور اس کے لئے مہاجرین و انصار سے رائے طلب کی جاتی تو اس میں آخر کیا قباحت تھی ؟

ان تمام سوالات کا سادہ سا اور حقیقت پسندانہ جواب یہی ہے کہ حضرت ابوبکر کو خلیفہ بنانے میں حضرت عمر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا ۔

حضرت ابو بکر اس طرح سے حضرت عمر کے مقروض احسان تھے ۔چنانچہ انہوں نے یہ قرض اپنی وفات کے وقت ادا کردیا ۔

۱۱۰

شوری

حتیّ اذا مضی الثانی لسبیله جعلها فی جماعة زعم انی احدهم فیا لله و للشوری حتی اعترض الریب فی مع الاول منهم حتی صرت اقرن الی هذه النظائر لکنی اسغفت اذا اسفوا وطرت اذا طارو فصغی رجل منهم لضغنه ومال الاخر لصهر مع هن وهن (الامام علی بن ابی طالب )

اور دوسرا جب جانے لگا تو خلافت کو ایک جماعت میں محدود کرگیا اور مجھے بھی اسی جماعت کا ایک فرد خیال کیا ۔اے اللہ مجھے اس شوری سے کیا لگاؤ ؟استحقاق وفضیلت میں کب شک تھا جو اب ان لوگوں میں بھی شامل کرلیا ہوں ۔مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ویسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں ۔یعنی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں ۔ان میں سے ایک شخص تو کینہ وعناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہوگیا اور دوسرا دامادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا "(۱) ۔

ابن اثیر عمربن میمون کی زبانی شوری کی داستان یوں بیان کرتے ہیں :-

جب حضرت عمر قاتلانہ حملہ کی وجہ سے زخمی ہوئے تو انہیں کہا گیا کہ آپ کسی کو اپنا جانشین بنائیں ۔ تو انہوں نے کہا کسے اپنا جانشین بناؤں ؟

اگر آج ابو عبیدہ زندہ ہوتا تو میں اسے جانشین بنا تا اور اپنے رب کے حضور عرض کرتا کہ پروردگار میں اسے جانشین بنا کر آیاہوں جس کے متعلق میں نے تیرے حبیب سے سنا تھا کہ ابو عبیدہ میر ی امت کا امین ہے ۔

____________________

(۱):- نہج البلاغہ ۔خطبہ شقشقیہ سے اقتباس ۔

۱۱۱

اگر آج سالم مولی حذیفہ زندہ ہوتا تو میں اسے اپنا جانشین بناتا اور اگر میرا رب مجھ سے پوچھتا تو میں عرض کرتا کہ خداوند ا! میں نے اسے جانشین بنا کر آیا جس کے متعلق میں نے تیرے رسول (ص) سے سنا تھا کہ سالم اللہ سے بڑی محبت کرنے والا ہے "(۱) ۔

ہاں ہمیں بھی یقین ہے کہ اگر ابو عبیدہ زندہ ہوتے تو حضرت عمر انہیں ہی خلیفہ بناتے ۔شاید امین امت کی وجہ سے تو نہ بناتے البتہ اس لئے انہیں خلیفہ ضرور بناتے کہ وہ ان کے ساتھ سقیفہ میں شامل تھے اور اگر ایسا ہوتا تو خلفائے راشدین کی تعداد بھی اج چار کی بجائے پانچ ہوتی ۔بشرطیکہ خلافت اگر حضرت علی (علیہ السلام )کو ملتی۔

تاریخ کا طالب علم اس روایت کو دیکھ کر انتہائی متعجب ہوتا ہے کہ حضرت عمر کی زندگی کے آخری لمحات میں تو مسلمانوں نے ان ے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ ہمیں بے وارث چھوڑ کرم ت جائیں لیکن رسول خدا (ص) کی خدمت میں کسی نے یہ درخواست نہیں کی کہ آپ بھی اپنا جانشین بناکر جائیں ۔

اور اہل سنت کے نظریہ کے مطابق جناب رسول خدا (ص) کو امت کے مستقبل کی کوئی فکر ہی نہیں تھی ۔اسی لئے انہوں نے خلیفہ کا انتخاب امت کے افراد کے کاندھوں پہ ڈال دیا تھا اور انہیں اس بات سے قطعا سروکار نہ تھی کہ اس حساس مسئلہ کی وجہ سے امت میں کتنی خون ریز لڑائیاں ہوں گی اور امت کتنے فرقوں میں بٹ جائے گی ۔

ہاں اللہ بھلا کرے شیخین حضرات کا کہ انہوں نے اس مسئلہ کا بروقت ادراک کرلیا تھا اور امت کوممکنہ تباہی سے بچالیا ۔اگر ابو عبیدہ بن جراح یا سالم مولی حذیفہ اتنے ہی لائق وفائق تھے تو حضرت عمر نے سقیفہ مین انہیں خلیفہ کیوں نہ بنالیا تھا ؟ اور ان کا حق تھا کہ انصار سے کہتے کہ تم ابو عبیدہ کی بیعت کرو اور سب

____________________

(۱):- ابن اثیر۔الکامل فی التاریخ ۔جلد سوم ۔ص ۳۴۔

۱۱۲

سے پہلے میں بھی اس کی بیعت کرتاہوں کیونکہ رسول خدا (ص) نے انہیں اس امت کا امین قرار فرمایا تھا ؟

یا ان کی بجائے سالم مولی حذیفہ کی بیعت کر لیتے اور فرماتے کہ یہ اللہ سے شدید محبت رکھنے والے بزرگ ہیں؟

آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ رسول خدا(ص) نے ابو عبیدہ کو "امین الامت " قرار دیا تھا جب کہ حضرت ابو بکر کے لئے اس قسم کا کوئی لقب موجود نہ تھا تو پھر افضل کو چھوڑ کر مفضول کی بیعت کیوں کی گئی ؟اور اگر سقیفہ میں یہ کار خیر نہ ہوسکا تھا تو حضرت ابو بکر جب حضرت عمر کو نامزد کر رہے تھے تو حضرت عمر کا حق تھا کہ وہ خلیفہ اول کی خدمت میں عرض کردیتے کہ آپ میری بجائے ابو عبیدہ کو اپنا جانشین مقرر فرمائیں کیونکہ وہ " امین الامت "ہیں ۔

علاوہ ازیں حضرت عمر نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ اگر سالم زندہ ہوتے تو میں آج انہیں اپنا جانشین بناتا ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر نے سقیفہ میں ایک حدیث پڑھی تھی اور اسی کی وجہ سے انصار کے لئے خلافت کو شجرہ ممنوعہ قرار دیا تھا ، اس حدیث کے الفاظ یہ تھے :- الائمۃ من قریش" امام قریش سے ہوں گے ۔

تو کیا حضرت سالم کا تعلق بھی قریش سے تھا ؟

اگر نہیں تھا تو حضرت عمر نے ان کی خلافت کیلئے اپنی حسرت کا اظہار کیوں فرمایا تھا ؟

اگر سالم کا تعلق قریش سے نہ تھا تو حضرت عمر کی اس حسرت سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کے لئے قریشی ہونا غیر ضروری ہے تو کیا اس صورت دونوں خلفاء کا موقف جداگانہ نہ تھا ؟ اور اگر دونوں کا موقف الگ الگ تھا تو ان میں سے کس کا موقف صحیح تھا اور کس کا موقف غلط تھا ؟۔

۱۱۳

حضرت سالم کے خلیفہ بنانے کی حسرت اس لئے تھی کہ وہ اللہ سے شدید محبت رکھتے تھے ۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استحقاق خلافت صرف اسے حاصل ہے جو اللہ سے شدید محبت رکھتا ہو ۔

آیا حضرت عمر کے ذہن سے اس وقت یہ حدیث محو ہوچکی تھی جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ۔

"لااعطین هذه الرّایة غدا رجلا یحب الله ورسوله ویحبه الله ورسوله یفتح الله علی یدیه "

کل میں علم اسے عطا کروں گا جو مرد ہوگا ۔اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا ہوگا اور اللہ اور رسول کا محبوب ہوگا ۔اللہ اس کے ہاتھ پر خیبر فتح کرے گا(۱) ۔

اس حدیث میں رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے محب ہیں اور اللہ اور رسول (ص) کے محبوب ہیں ۔حضرت سالم کے متعلق تو صرف یہی حدیث تھی کہ وہ محب خدا ہیں لیکن ان کے محبوب خدا ہونے کی گواہی کسی حدیث میں نہیں ملتی ۔جب سالم صرف محب خدا ہونے کی وجہ سے مستحق خلافت قرار پائے تو علی (ع) جو کہ محب خدا بھی تھے اور محبوب خدا بھی تھے انہیں حضرت عمر نے اپنا خلیفہ نامزد کیوں نہ کیا ؟ بہر نوع حضرت عمر نے ایک شوری تشکیل دی جس میں حضرت علی (ع) ،حضرت عثمان ،سعد ابن اب وقاص اور عبدالرحمان بن عوف اور زبیر بن عوام کے ساتھ طلحہ بن عبیداللہ کو شامل کیا گیا ۔اور ان سے فرمایا میری وفات کے بعد تم تین دن مشورہ کرنا اور اسی دوران صہیب لوگوں کو نماز پڑھا ئیں گے ۔چوتھے دن تمہارا امیر ضرور ہونا

____________________

(۱):-صحیح مسلم ۔جلد دوم ۔ص ۲۲۴

۱۱۴

چاہئیے۔میرا بیٹا عبداللہ بن عمر تمہارے اجلاس میں بطور مشیر شریک ہوگا لیکن اس کا خلافت میں کوئی حصہ نہ ہوگا ۔بعد ازاں حضرت عمر نے ابوطلحہ انصاری کو بلا کر فرمایا کہ :- "تم پچاس افراد کا گروہ لے کر افراد شوری کی نگہبانی کرتے رہنا ۔یہاں تک کہ یہ لوگ کسی کو اپنا میر بنالیں ۔"

اس کے بعد مقداد بن اسود کو بلا کر فرمایا کہ :-

"میری تدفین کے بعد تم ان لوگوں کو اکٹھا کرنا یہاں تک کہ وہ اپنا حاکم مقرر کرلیں ۔اگر پانچ افراد ایک رائے پر جمع ہوں اور ایک انکار کررہا ہو تم تم تلوار سے اس کا سر قلم کردینا اور اگرچار ایک رائے ہوں اور دو مخالف ہوں تو دو کے سر قلم کردینا اور اگر ایک طرف بھی تین افراد ہوں اور دوسری طرف بھی تین ہوں تو میرے فرزند عبداللہ بن عمر کو حکم بنالینا ، اور اگر وہ لوگ میرے فرزند کے فیصلے کو قبول نہ کریں تو جس طرف عبدالرحمن بن عوف ہوں ،تم اسی کی حمایت کرنا اور دوسرے تین افراد کو قتل کردینا ۔

قارئین کرام سے درخواست ہے کہ اس مقام پر تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جائیں اور سوچیں کہ حضرت عمر نے اپنی وصیت میں فرمایا کہ خلیفہ کا انتخاب میری تدفین کے بعد کیا جائے ۔تو کیا حضرت عمر نے رسول خدا کی وفات کے وقت بھی ایسا ہی کیا تھا ؟

جب کہ اسلامی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ رسول خدا(ص) کا جسد اطہر ابھی گھر میں ہی موجود تھا کہ سقیفہ کی کاروائی شروع ہوگئی ۔

تو جو شخصیت خلیفہ کے انتخاب کو اتنا اہم تصور کرتی تھی کہ رسول خدا کی تدفین پر بھی اسے فوقیت حاصل ہے ۔اپنی باری آنے پر انہیں سقیفائی تعجیل کا حکم کیوں نہ دیا ؟

یہ ایک جملہ معترضہ تھا ۔اب واقعات تاریخ کی جانب آئیں ۔اسکے بعد

۱۱۵

حضرت عمر کی وفات ہوگئی اور صہیب نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ۔جب حضرت عمر دفن ہوگئے تو مقداد نے اصحاب شوری کو جمع کیا جن میں طلحہ غیر حاضر تھے ۔

شوری کی کاروائی

شوری کی کاروائی شروع ہوئی ۔عبدالرحمن بن عوف نے کہا :- تم میں سے کوئی جو اپنے آپ کو خلافت سے علیحدہ کرلے اور اپنے سے بہتر شخص کا انتخاب کرے " عبدالرحمن کی تجویز پر کسی نے بھی لبیک نہ کی ۔انہوں نے خود کہا کہ میں اپنے آپ کو خلافت سے علیحدہ کررہا ہوں ۔ حضرت عثمان نے کہا :- "میں تمہارے اس اقدام کو بنظر استحسان دیکھتا ہوں " باقی لوگوں نے کہا کہ ہم بھی عبدالرحمن کے اس کام پر راضی ہیں ۔ اس دوران علی( علیہ السلام )خاموش بیٹھے یہ سب دیکھتے اور سنتے رہے ۔ عبدالرحمن نے حضرت علی (علیہ السلام) سے کہا :- ابو الحسن ! آپ کیا کہتے ہیں ؟ حضرت علی نے فرمایا " پہلے تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم حق کو ترجیح دوگے اور خواہشات کی اتباع نہ کروگے اور امت اسلامیہ کی پوری خیر خواہی کروگے ۔"

"عبد الرحمن بن عوف نے ان باتوں کا حضرت علی (علیہ السلام ) سے وعدہ کر لیا ۔"(۱)

اس طویل بحث ومباحثہ کے بعد ابن عوف نے حضرت علی (علیہ السلام ) کی طرف دیکھ کر کہا کہ :- " میں آپ کی بیعت کرتاہوں اس کے لئے آپ کو اللہ کی کتاب ، رسول خدا (ص) کی سنت اور سیرت شیخین پر عمل کرنا ہوگا ۔

حضرت علی (علیہ السلام ) نے فرمایا :- " میں اللہ کی کتاب اور سنت رسول (ص) اور اپنے ذاتی اجتہاد پر عمل کروں گا "-

اس کے بعد عبدالرحمن بن عوف نے حضرت عثمان سے کہا کہ میں آپ کی بیعت کرتاہوں مگر آپ کو اللہ کی کتاب ،سنت رسول (ص) اور سیرت شیخین

____________________

(۱):- ابن اثیر ۔الکامل فی التاریخ ۔جلد سوم ۔ص ۳۵-۳۶

۱۱۶

پر عمل کرنا ہوگا ۔انہوں نے کہا مجھے یہ تینوں شرائط منظور ہیں ۔

عبدالرحمن بن عوف نے تین مرتبہ حضرت علی کے سامنے اپنی شرائط پیش کیں لیکن حضرت علی (علیہ السلام) نے ہر مرتبہ سیرت شیخین ماننے سے انکار کردیا ۔

جب عبدالرحمن کو یقین ہوگیا کہ علی سیرت شیخین کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تو اس نے حضرت عثمان کی بیعت کرلی اورکہا :- السلام علیک یا امیر المومنین "۔

یہ دیکھ کر حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے علم تھا کہ تجھے خلیفہ گر کا کردار اسی لئے سونپا گیا تھا اور تو نے پہلے سے طے شدہ منصوبہ پر حرف بحرف عمل کیا(۱) ۔

چند سوال

اس مقام پر چند سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ

۱:- کیا عبدالرحمن نے اتفاقی طورپر حضرت عثمان کی بیعت کی تھی یا پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت انہوں نے ایسا کیا تھا ؟

۲:-کیا سیرت شیخین کا لاحقہ شامل کرنے کا مقصد حضرت علی کو خلافت سے علیحدہ کرنا تھا یا اس کا کوئی اور مقصد بھی تھا ؟

اس مقام پر ہم شوری پر وارد ہونے والے سوالات سے قبل دو امور کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں :

۱:-مورخ طبری رقم طراز ہیں کہ "جب حضرت عمر زخمی تھے تو انہیں ابو عبیدہ اور سالم کی بے وقت موت کا شدید احساس تھا اور بار بار اس حسرت کا انہوں نے ذکر بھی کیا کہ کاش اگر وہ زندہ ہوتے تو ان میں سے کسی ایک کو خلافت کی مسند پر متمکن کردیتے ۔صحابہ کی ایک جماعت ان کی عیادت کیلئے آئی ،ان میں حضرت

____________________

(۱):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد اول ۔ص ۵۰-۶۷

۱۱۷

علی (علیہ السلام ) بھی موجود تھے ۔ حضرت عمر نے عیادت کرنے والوں سے کہا :میں چاہتاتھا کہ میں کسی ایسے شخص کو حاکم بنا کر جاؤں جو تم لوگوں کو حق کی راہ پر چلاسکے ۔یہ کہہ کر انہوں نے علی کی طرف اشارہ کیا ۔

پھر مجھے نیند آئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص باغ میں داخل ہوا اور اس مین پودے لگائے اورپودوں پر لگنے والے پھولوں کو اس نے چن چن کر اپنے رکھنا شروع کیا ۔ اس خواب کی تعبیر میں نے یہ لی کہ اللہ عنقریب عمر کو موت دینے والا ہے ۔

اب میں زندہ اور مردہ تمہارا بوجھ کیسے اٹھا سکتا ہوں ؟لہذا اب تم میرے میں اسے خلافت کے امیداواروں میں داخل نہیں کرنا چاہتا ۔ویسے میرا خیال یہ ہے کہ حکومت عثمان یا علی (ع) میں سے کسی ایک کو ملے گی ۔

اگر عثمان حاکم بن گئے تو ان میں نرمی بہت ہے ۔

اور اگر علی (ع) حاکم بن گئے تو ان میں مزاح ہے لیکن وہ لوگوں کو حق پر چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں(۱)

ارکان شوری کے متعلق حضرت عمر کی رائے

۲:- ایک اور مورخ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر نے ایک دفعہ طلحہ ۔زبیر۔ سعد،عبدالرحمن ،عثمان ،اور علی (علیہ السلام) کو بلایا اور کہا :

زبیر!تو کیا چیز ہے؟ایک دن انسان ہے اور دوسرے دن شیطان ۔

____________________

(۱):-مورخ طبری ۔تاریخ الامم والملوک ۔جلد دوم ۔ص ۳۴-۳۵

۱۱۸

طلحہ ! تو کیا ہے ؟رسول خدا (ص) تیری اس گفتگو کی وجہ سے تجھ سے وقت وفات تک ناراض تھے اور تیری گفتگو کی وجہ سے ہی ازواج محمد(ص)کے ساتھ نکاح کی حرمت والی آیت نازل ہوئی ۔

ایک اور دوسری روایت کے لفظ یہ ہیں۔

طلحہ! کیا تو وہی شخص نہیں ہے جس نے یہ کہا تھا کہ اگر محمد کی وفات ہوگئی تو میں ان کی بیویوں سے شادی کروں گا ۔اللہ نے محمد(ص) کو ہماری چچا زاد لڑکیوں کا ہم سے زیادہ وارث نہین بنایا ۔اور تیری اسی گستاخی کی وجہ سے اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی تھی :-ما کان لکم ان توذوا رسول الله ولا ان تنکحوا ازواجه من بعده ابدا " تمہیں رسول خدا کو اذیت نہیں دینی چاہیے اورنہ ہی ان کی بیویوں سے تم کبھی نکاح کرسکتے ہو(۱)

"ہمارے شیخ ابو عثمان جاحظ کہاکرتے تھے کہ کہ کاش اس وقت کوئی شخص حضرت عمر سے کہہ دیتا کہ جب ان ہستیوں کی حقیقت یہ تھی تو پھر آپ نے ان کے متعلق یہ کیوں فرمایا تھا کہ رسول خدا (ص) بوقت وفات ان سے راضی تھے ؟ اور اگر ایسا ہوتا تویقینا حضرت عمر لاجواب ہوجاتے ۔

بعد ازاں سعد ابن ابی وقاص کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا ۔تو تو لوٹنے والی جماعت کا امیر ہے ،تو ایک شکاری شخص کے تیر کمان سے کھیلنے والل انسان ہے ۔قبیلہ زہرہ کا خلافت اور عوام کے امور سے کیا تعلق ہے ؟

پھر عبد الرحمن بن عوف کی جانب متوجہ ہوکر کہا :" جس شخص میں تمہاری جتنی کمزوری پائی جائے وہ خلافت کے لئے ناموزوں ہوتا ہے اور پھر "زہرہ" کا خلافت سے تعلق ہی کیا ہے ؟"

پھر علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو کر کہا :اگر تمہارے اندر مزاح نہ ہوتی

____________________

(۱):- الاحزاب ۔۵۳

۱۱۹

تو خدا کی قسم ! تم ہی خلافت کے حق دار تھے ۔ خدا کی قسم ! اگر حاکم بن گئے تو لوگوں کو واضح اور روشن راہ پر چلاؤگے ۔

پھر حضرت عثمان کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا : میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ قریش تمہیں حاکم بنالیں گے اور تم کنبہ پرور انسان ہو ۔ تم بنی امیہ اور ابی معیط کی اولاد کو لوگوں کی گردنوں پر سوار کروگے اور مسلمانوں کا بیت المال ان کے ہی حوالہ کردوگے(۱) ۔"

بزم شوری میں حضرت علی (علیہ السلام)کا احتجاج

اس موقعہ پر حضرت علی(ع) نے ارکان شوری کے سامنے اپنے حق کے اثبات کے لئے طویل احتجاج فرمایا اور ان سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا :- "میں تمہیں اس خدا کا واسطہ دیتا ہوں جو تمہارے صدق وکذب سے باخبر ہے ۔مجھے بتاؤ کہ

۱:- تمہارے اندر میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے بھائی کو اللہ نے جنت میں دو پر دئیے ہیں ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۲:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جس کا چچا سیدالشہدا ہو ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۳:- کیا میرے علاوہ کسی کی زوجہ سیدہ نساء العالمین ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۴:- کیا میرے علاوہ کسی کے بیٹوں کو رسول اللہ کا بیٹا اللہ نے قرار دیا ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

____________________

(۱):-ابن ابی الحدید ۔شرح نہیج البلاغہ ۔جلد سوم ص ۱۷۰

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

اس سے دل لگانا صحیح ہے ؟

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(مالی وللدنیا،انما مَثَلی کمثل راکبٍ مرّللقیلولة فی ظلّ شجرة فی یوم صائف ثم راح وترکها )( ۱ )

''دنیا سے میرا کیا تعلق ؟میری مثال تو اس سوار کی سی ہے جوتیز ہوائوں کے تھپیڑوں کے درمیان آرام کی خاطر کسی درخت کے نیچے لیٹ جاتا ہے اور پھر اس جگہ کو چھوڑکر چل دیتا ہے ''

امیر المومنین حضرت علی نے اپنے فرزند امام حسن کو یہ وصیت فرمائی ہے :

(یابنیّ انی قدأنباتک عن الدنیا وحالها،وزوالها،وانتقالها،وأنبأتک عن الآخرةومااُعدّ لأهلها فیها،وضربتلک فیهماالأمثال،لتعتبربها، وتحذو علیها،انمامثل من خبرالدنیاکمثل قوم سفرنبا بهم منزل جذیب فأمّوا منزلاًخصیباً، وجناباً مریعاً،فاحتملواوعثاء الطریق،وفراق الصدیق،وخشونةالسفرومَثَل من اغترّبهاکمثل قوم کانوابمنزل خصیب فنبابهم الیٰ منزل جذیب،فلیس شیء أکره الیهم ولاأفضع عندهم من مفارقة ماکانوا فیه الیٰ مایهجمون علیه ویصیرون الیه )( ۲ )

''۔۔۔اے فرزند میں نے تمہیں دنیااوراسکی حالت اوراسکی بے ثباتی و ناپائیداری سے خبردار کردیا ہے ۔اور آخرت اور آخرت والوں کے لئے جو سروسامان عشرت مہیّاہے اس سے بھی آگاہ کردیا ہے اور ان دونوں کی مثالیںبھی تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ ان سے عبرت حاصل کرو

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۱۹۔

(۲)نہج البلاغہ مکتوب ۳۱۔

۲۴۱

اور ان کے تقاضے پر عمل کرو۔جن لوگوں نے دنیا کو خوب سمجھ لیا ہے ان کی مثال ان مسافروںکی سی ہے جن کا قحط زدہ منزل سے دل اچاٹ ہوا،اور انھوں نے راستے کی دشواریوں کو جھیلا، دوستوںکی جدائی برداشت کی،سفر کی صعوبتیںگواراکیں،اور کھانے کی بد مزگیوںپر صبر کیاتاکہ اپنی منزل کی پہنائی اور دائمی قرارگاہ تک پہنچ جائیں ۔اس مقصد کی دھن میں انھیں ان سب چیزوں سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔اور جتنا بھی خرچ ہوجائے اس میں نقصان معلوم نہیں ہوتا۔انھیں سب سے زیادہ وہی چیز مرغوب ہے جو انہیں منزل کے قریب اور مقصدسے نزدیک کردے اور اسکے برخلاف ان لوگوں کی مثال جنہوں نے دنیا سے فریب کھایاان لوگوں کی سی ہے جو ایک شاداب سبزہ زار میں ہوں اور وہاں سے دل برداشتہ ہوجائیں اور اس جگہ کا رخ کرلیں جو خشک سالیوں سے تباہ ہو۔ان کے نزدیک سخت ترین حادثہ یہ ہوگا کہ وہ موجودہ حالت کو چھوڑکرادھر جائیںکہ جہاں انھیں اچانک پہنچناہے اور بہر صورت وہاںجاناہے ۔۔۔ ''

حضرت عمر ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا آپ ایک بورئیے پر آرام فرمارہے ہیں اور آپ کے پہلو پر اسکا نشان بن گیاہے توعرض کی اے نبی خدا:

(یانبیّ ﷲ،لواتخذت فراشاً أوثر منه؟فقال صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :مالی وللدنیا،مامَثلی ومثَل الدنیا الاکراکب سارفی یوم صائف فاستظلّ تحت شجرة ساعة من نهار،ثم راح وترکها )( ۱ )

اگر آپ اس سے بہتربستر بچھالیتے تو کیا تھا ؟پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''دنیا سے میرا کیا تعلق؟میری اور دنیا کی مثال ایک سوار کی سی ہے جوتیز ہوائوں کے درمیان چلا جارہا ہو اور دن میں تھوڑی دیر آرام کرنے کے لئے کسی سایہ داردرخت کے نیچے رک جائے اور پھر اس جگہ کوچھوڑ کرآگے بڑھ جائے''

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۳ص۱۲۳۔

۲۴۲

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(ان الدنیالیست بدارقرارولامحلّ اقامة،انّما أنتم فیهاکرکب عرشوا وارتاحوا،ثم استقلّوا فغدوا وراحوا،دخلوهاخفافاً،وارتحلواعنها ثقالاً،فلم یجدواعنهانزوعاً،ولاالی ما ترکوبهارجوعاً )( ۱ )

''یہ دنیا دار القرار اور دائمی قیام گا ہ نہیں ہے تم یہاں سوار کی مانند ہو 'جنہوں نے کچھ دیرکیلئے خیمہ لگایا اور پھر چل پڑے پھر دوسری منزل پر تھوڑا آرام کیا اور صبح ہوتے ہی کوچ کر گئے ، ہلکے پھلکے (آسانی سے)اترے اور لاد پھاندکر مشکل سے روانہ ہوئے نہ انہیں اسکا کبھی اشتیاق ہوا اور جس کو ترک کرکے آگئے نہ اسکی طرف واپسی ممکن ہوئی ''

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا :انسان دنیا میں کیسے زندگی بسر کرے ؟آپ نے فرمایا جیسے قافلہ گذرتا ہے۔ دریافت کیا گیا اس دنیا میں قیام کتنا ہے ؟آپ نے فرمایا جتنی دیر قافلہ سے چھوٹ جانے والا رہتا ہے ۔دریافت کیا گیا! دنیا وآخرت میں فاصلہ کتنا ہے ؟آپ نے فرمایا پلک جھپکنے کا۔( ۲ ) اور اس آیۂ کریمہ کی تلاوت فرمائی :

(کأنّهم یوم یرون ما یوعدون لم یلبثوا الاساعة من نهار )( ۳ )

''تو ایسا محسوس کرینگے جیسے دنیا میں ایک دن کی ایک گھڑی ہی ٹھہرے ہیں ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الدنیاظلّ الغمام،وحلم المنام )( ۴ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ص۱۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۲۔

(۳)سورئہ احقاف آیت ۳۵۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۰۲۔

۲۴۳

''دنیا بادل کا سایہ اورسونے والے کا خواب ہے ''

امام محمد باقر نے فرمایا :

(انّ الدنیاعند العلماء مثل الظل )( ۱ )

''اہل علم کے نزدیک دنیا سایہ کے مانند ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(ألاوان الدنیادارلایسلم منها الافیها،ولاینجیٰ بشی ء کان لها،اُبتلی الناس فیها فتنة فماأخذوه منهالهاأخرجوامنه وحوسبواعلیه،وماأخذوهُ منها لغیرها، قدموا علیه وأقاموا فیه،فانهاعند ذوی العقول کفیٔ الظلّ بینا تراه سابغاً حتیٰ قلص،وزائداً حتیٰ نقص )( ۲ )

''یاد رکھو یہ دنیا ایسا گھر ہے جس سے سلامتی کا سامان اسی کے اندر سے کیا جاسکتا ہے اور کوئی ایسی شے وسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہے جو دنیا ہی کے لئے ہو۔لوگ اس دنیا کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں جو لوگ دنیا کا سامان دنیا ہی کے لئے حاصل کرتے ہیں وہ وہاں جاکر پالیتے ہیں اور اسی میں مقیم ہوجاتے ہیں ۔یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل کی نظر میں ایک سایہ جیسی ہے جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا ہے اور پھیلتے پھیلتے کم ہوجاتا ہے ''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۶۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۶۳۔

۲۴۴

دنیا ایک پل

دین اسلام مسلمان کو دنیا کے بارے میں ایک ایسے نظریہ کا حامل بنانا چاہتا ہے کہ اگر اسکے دل میں یہ عقیدہ و نظریہ راسخ ہوجائے توپھر دنیا کو ایک ایسے پل کے مانند سمجھے گا جس کے اوپر سے گذر کر اسے جانا ہے اور اس مسلمان کی نگاہ میں یہ دنیا دار القرار نہیں ہوگی ۔جب ایسا عقیدہ ہوگا تو خود بخود مسلمان دنیا پرفریفتہ نہ ہوگا اور اسکی عملی زندگی میں بھی اس کے نتائج نمایاں نظر آئیںگے۔

حضرت عیسیٰ کا ارشاد ہے :

(انما الدنیا قنطرة )( ۱ )

''دنیا ایک پل ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے :

(أیهاالناس انماالدنیادارمجازوالآخرة دار قرار،فخذوامن ممرّکم لمقرّکم،ولاتهتکواأستارکم عند من یعلم أسرارکم )( ۲ )

''اے لوگو !یہ دنیا گذر گاہ ہے اور آخرت دار قرارہے لہٰذا اپنے راستہ سے اپنے ٹھکانے کے لئے تو شہ اکٹھا کرلواور جو تمہارے اسرار کو جانتا ہے اس کے سامنے اپنے پردوں کو چاک نہ کرو ''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(الدنیا دارممرّولادار مقرّ،والناس فیهارجلان:رجل باع نفسه فأوبقها، ورجل ابتاع نفسه فأعتقها )( ۳ )

''دنیا گذرگاہ ہے دارالقرار نہیں اس میں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں کچھ وہ ہیں جنھوں نے دنیا کے ہاتھوں اپنا نفس بیچ دیا تو وہ دنیا کے غلام ہوگئے کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنے نفس کوخرید لیااور دنیا کو آزاد کردیا''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۴ص۳۱۹۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۲۰۳۔

(۳)شرح نہج البلاغہ ج۱۸ص۳۲۹۔

۲۴۵

اسباب ونتائج کا رابطہ

اسلامی فکر کا امتیاز یہ ہے کہ وہ انسانی مسائل سے متعلق اسباب و نتائج کو ایک دوسرے سے لاتعلق قرار نہیں دیتی بلکہ انھیں آپس میں ملاکر دیکھنے اور پھراس سے نتیجہ اخذ کرنے کی قائل ہے جب ہم انسانی اسباب و نتائج کے بارے میں غورکرتے ہیں تو ان مسائل میں اکثر دو طرفہ رابطہ نظر آتا ہے یعنی دونوں ایک دوسرے پراثر انداز ہوتے ہیں ۔انسانی مسائل میںایسے دوطرفہ رابطوں کی مثالیں بکثرت موجود ہیں مثلاًآپ زہد اور بصیرت کو ہی دیکھئے کہ زہد سے بصیرت اور بصیرت سے زہد میں اضافہ ہوتا ہے ۔

یہاں پر ہم ان دونوں سے متعلق چند روایات پیش کر رہے ہیں ۔

زہد وبصیرت

(أفمن شرح ﷲصدرہ للاسلام فھوعلیٰ نورٍمِن ربَّہِ)کی تفسیر کے ذیل میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(ان النوراذاوقع فی القلب انفسح له وانشرح)،قالوا یارسول ﷲ:فهل لذٰلک علامةیعرف بها؟قال:(التجافی من دارالغرور،والانابة الیٰ دارالخلود، والاستعداد للموت قبل نزول الموت )

''قلب پر جب نور کی تابش ہوتی ہے تو قلب کشادہ ہوجاتا ہے اور اس میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے عرض کیا گیا یا رسول ﷲ اسکی پہچان کیا ہے ؟

۲۴۶

آپ نے فرمایا :

''دار الغرور(دنیا)سے دوری ،دارالخلود(آخرت)کی طرف رجوع اور موت آنے سے پہلے اسکے لئے آمادہ ہوجانا ہے ''( ۱ )

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(أحقّ الناس بالزهادة،من عرف نقص الدنیا )( ۲ )

''جو دنیا کے نقائص سے آگاہ ہے اسے زیادہ زاہد ہونا چاہئے''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(من صوّرالموت بین عینیه،هان أمرالدنیا علیه )( ۳ )

''جس کی دونوں آنکھوں کے سامنے موت کھڑی رہتی ہے اس کے لئے دنیا کے امور آسان ہوجاتے ہیں ''

نیز آپ نے فرمایا :(زهدالمرء فیمایفنیٰ،علی قدر یقینه فیما یبقیٰ )( ۴ )

''فانی اشیائ(دنیا)کے بارے میں انسان اتناہی زاہد ہوتا ہے جتنا اسے باقی اشیاء (آخرت )کے بارے میں یقین ہوتا ہے ''

زہدو بصیرت کا رابطہ

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوذر (رح)سے فرمایا :

(یاأباذر:مازهد عبد فی الدنیا،الاأنبت ﷲ الحکمة فی قلبه،وأنطق بهالسانه ،ویبصّره عیوب الدنیا وداء ها ودواء ها،وأخرجه منهاسالماًالی دارالسلام )( ۵ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۲۔

(۲)غررالحکم۔

(۳)غررالحکم ۔

(۴)بحارالانوار ج۷۰ص۳۱۹۔

(۵)بحارالانوار ج۷۷ص۸۔

۲۴۷

''اے ابوذر جو شخص بھی زہداختیار کرتاہے ﷲ اس کے قلب میں حکمت کا پودا اگا دیتا ہے اور اسے اسکی زبان پر جاری کر دیتا ہے اسے دنیا کے عیوب ،اوردرد کے ساتھ انکاعلاج بھی دکھا دیتا ہے اور اسے دنیا سے سلامتی کے ساتھ دارالسلام لے جاتا ہے ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(من یرغب فی الدنیا فطال فیهاأمله،أعمیٰ ﷲ قلبه علیٰ قدررغبته فیها، ومن زهد فیها فقصُرأمله أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیً بغیرهدایة،وأذهب عنه العماء وجعله بصیراً )( ۱ )

جو دنیا سے رغبت رکھتا ہے اسکی آرزوئیں طویل ہوجاتی ہیں اوروہ جتنا راغب ہوتا ہے اسی مقدار میں خدا اسکے قلب کوا ندھا کر دیتا ہے اور جو زہد اختیار کر تا ہے اسکی آرزوئیں قلیل ہوتی ہیں ﷲ اسے تعلیم کے بغیرعلم اور رہنما ئی کے بغیرہدایت عطا کرتا ہے اور اس کے اند ھے پن کو ختم کر کے اسے بصیر بنا دیتا ہے ''

ایک دن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے درمیان آئے اور فرمایا:

(هل منکم من یریدأن یؤتیه ﷲ علماًبغیرتعلّم،وهدیاًبغیرهدایة؟هل منکم من یریدأن یذهب عنه العمیٰ و یجعله بصیراً؟ألاانه من زهد فی الدنیا،وقصرأمله فیها،أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیاً بغیرهدایة )( ۲ )

''کیا تم میں سے کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ ﷲ اسے تعلیم کے بغیر علم اور رہنمائی کے بغیرہدایت دیدے۔ تم میں سے کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ ﷲ اس کے اندھے پن کو دور کر کے اسے بصیر بنادے ؟آگاہ ہو جائو جو شخص بھی دنیا میں زہدا ختیار کر ے گااور اپنی آرزوئیں قلیل رکھے گا

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۲۶۳۔

(۲)درالمنثورج۱ص۶۷۔

۲۴۸

ﷲاسے تعلیم کے بغیرعلم اور رہنمائی کے بغیرہدایت عطاکر ے گا ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

(یاأباذراذارأیت أخاک قدزهد فی الدنیا فاستمع منه،فانه یُلقّیٰ الحکمة )( ۱ )

''اے ابوذراگر تم اپنے کسی بھائی کو دیکھو کہ وہ دنیا میں زاہد ہے تو اسکی باتوںکو(دھیان سے ) سنو کیونکہ اسے حکمت عطا کی گئی ہے ''

ان روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ زہد وبصیرت میں دو طرفہ رابطہ ہے ،یعنی زہد کا نتیجہ بصیرت اور بصیرت کا نتیجہ زہد ہے ۔اسی طرح زہد اور قلتِ آرزو کے مابین بھی دو طرفہ رابطہ ہے زہد سے آرزووں میں کمی اور اس کمی سے زہد پیدا ہوتا ہے زہد اورقلت آرزو کے درمیان رابطہ کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :(الزهدیخلق الابدان،ویحدّدالآمال،ویقرّب المنیة،ویباعدالاُمنیة،من ظفر به نصب،ومن فاته تعب )( ۲ )

'' زہد،بدن کو مناسب اور معتدل ،آرزووں کو محدود،موت کو نگاہوں سے نزدیک اور تمنائوں کو انسان سے دور کردیتا ہے جو اسکو پانے میں کامیاب ہوگیا وہ خوش نصیب ہے اور جو اسے کھو بیٹھا وہ در دسر میں مبتلاہوگیا''

آرزووں کی کمی اورزہد کے رابطہ کے بارے میں امام محمد باقر کا ارشاد ہے:

(استجلب حلاوة الزهادة بقصرالامل )( ۳ )

''آرزو کی قلت سے زہد کی حلاوت حاصل کرو''

ان متضاد صفات کے درمیان دو طرفہ رابطہ کا بیان اسلامی فکر کے امتیازات میں سے ہے

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۷ص۸۰ ۔

(۲)بحارالانوارج ۷۰ص۳۱۷۔

(۳)بحارالانوار ج۷۸ص۱۶۴۔

۲۴۹

زہد وبصیرت یا زہد وقلتِ آرزو کے درمیان دو طرفہ رابطہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کے اندر ایک دوسرے کے ذریعہ اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس سے انسان ترقی کرتا رہتا ہے۔ اس طرح کہ بصیرت سے زہد کی کیفیت پیدا ہو تی ہے اور جب انسان زاہد ہو جاتا ہے تو بصیرت کے اعلیٰ مراتب حاصل ہو جاتے ہیں نیزبصیرت کے ان اعلیٰ مراتب سے زہد میں اضافہ ہوتا ہے اور اس زہد سے پھر بصیرت کے مزید اعلیٰ مراتب وجود پاتے ہیں۔اسطرح انسان ان دونوں صفات وکمالات کے ذریعہ بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے۔

مذموم دنیا اور ممدوح دنیا

۱۔مذموم دنیا

اس سے قبل ہم نے ذکر کیا تھا کہ دنیا کے دو چہرے ہیں:

( ۱ ) ظاہری

( ۲ ) باطنی

دنیا کا ظاہر ی چہرہ فریب کا سر چشمہ ہے ۔یہ چہرہ انسانی نفس میں حب دنیا کا جذبہ پیدا کرتا ہے جبکہ باطنی چہرہ ذریعۂ عبرت ہے یہ انسان کے نفس میں زہدکا باعث ہوتا ہے روایات کے مطابق دنیا کا ظاہری چہرہ مذموم ہے اور باطنی چہرہ ممدوح ہے ۔

ایسا نہیں ہے کہ واقعاً دنیا کے دو چہرے ہیں یہ فرق در حقیقت دنیا کو دیکھنے کے انداز سے پیدا ہوتا ہے ورنہ دنیا اور اسکی حقیقت ایک ہی ہے ۔فریب خور د ہ نگاہ سے اگر دنیا کو دیکھا جائے تو یہ دنیا مذموم ہوجاتی ہے اور اگر دیدئہ عبرت سے دنیا پر نگاہ کی جائے تو یہی دنیاممدوح قرار پاتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لذات وخواہشات سے لبریز دنیا کا ظاہری چہرہ ہی مذموم ہے ۔

یہاں پر دنیا کے مذموم رخ کے بارے میں چند روایات پیش کی جارہی ہیں ۔

۲۵۰

امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا:

(الدنیا سوق الخسران )( ۱ )

''دنیا گھاٹے کا بازار ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مصرع العقول )( ۲ )

''دنیا عقلوں کا میدان جنگ ہے ''

آپ کا ہی ارشاد ہے :

(الدنیا ضحکة مستعبر )( ۳ )

''دنیا چشم گریاں رکھنے والے کے لئے ایک ہنسی ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مُطَلَّقةُ الاکیاس )( ۴ )

''دنیاذہین لوگوں کی طلاق شدہ بیوی ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا معدن الشرور،ومحل الغرور )( ۵ )

''دنیا شروفسا دکا معدن اور دھوکے کی جگہ ہے''

____________________

(۱)غررا لحکم ج ۱ص۲۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۴۵۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۲۶۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۷۳۔

۲۵۱

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیالا تصفولشارب،ولا تفی لصاحب )( ۱ )

''دنیا کسی پینے والے کے لئے صاف وشفاف اور کسی کے لئے باوفا ساتھی نہیں ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مزرعة الشر )( ۲ )

''دنیا شروفسا دکی کا شت کی جگہ ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مُنیة الاشقیائ )( ۳ )

''دنیا اشقیا کی آرزوہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الد نیا تُسْلِمْ )( ۴ )

''دنیا دوسرے کے حوالے کر دیتی ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا تُذِلّْ )( ۵ )

''دنیا ذلیل کرنے والی ہے''

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص ۸۵۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۲۶۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۳۷۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۱۱۔

۲۵۲

دنیا سے بچائو

امیر المو منین حضرت علی ہمیں دنیا سے اس انداز سے ڈراتے ہیں :

(أُحذّرکم الدنیافانّهالیست بدارغبطة،قدتزیّنت بغرورها،وغرّت بزینتهالمن ان ینظرالیها )( ۱ )

''میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ یہ فخرومباہات کاگھر نہیں ہے ۔یہ اپنے فریب سے مزین ہے اور جو شخص اسکی طرف دیکھتا ہے اسے اپنی زینت سے دھوکے میں مبتلاکردیتی ہے ''

ایک اور مقام پر آپ کا ارشاد گرامی ہے :

(أُحذّرکم الدنیافانها حُلوة خضرة،حُفّت بالشهوات )( ۲ )

''میں تمہیں اس دنیا سے بچنے کی تاکید کرتا ہوں کہ یہ دنیا سرسبز وشیریں اورشہوتوں سے گھری ہوئی ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(احذروا هذه الدنیا،الخدّاعة الغدّارة،التی قد تزیّنت بحلیّها،وفتنت بغرورها،فأصبحت کالعروسة المجلوة،والعیون الیها ناظرة )( ۳ )

''اس دھو کے باز مکار دنیا سے بچو یہ دنیا زیورات سے آراستہ اور فتنہ ساما نیوں کی وجہ سے سجی سجائی دلہن کی مانندہے کہ آنکھیں اسی کی طرف لگی رہتی ہیں ''

ب :ممدوح دنیا

دنیا کا دوسرا رخ اوراس کے بارے میں جو دوسرانظر یہ ہے وہ قابل مدح وستائش ہے البتہ

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ ص۲۱۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۹۶۔

(۳)بحارالانوارج۷۳ص۱۰۸۔

۲۵۳

یہ قابل ستائش رخ اس دنیا کے باطن سے نکلتا ہے جو قابل زوال ہے جبکہ مذموم رخ ظاہری دنیا سے متعلق تھا ۔

بہر حال یہ طے شدہ بات ہے کہ دنیا کے دورخ ہیں ایک ممدوح اور دوسرا مذموم ۔ممدوح رخ کے اعتبار سے دنیا نقصان دہ نہیں ہے بلکہ نفع بخش ہے اورمضر ہونے کے بجائے مفید ہے اسی رخ سے دنیا آخرت تک پہو نچانے والی ،مومن کی سواری ،دارصدق اوراولیاء کی تجارت گاہ ہے۔لہٰذادنیا کے اس رخ کی مذمت صحیح نہیں ہے روایات کے آئینہ میں دنیا کے اس رخ کوبھی ملا حظہ فرما ئیں ۔

۱۔دنیا آخرت تک پہو نچانے والی

امام زین العابدین نے فرمایا :

(الدنیا دنیاءان،دنیابلاغ،ودنیاملعونة )( ۱ )

''دنیا کی دو قسمیں ہیں ؟دنیا ئے بلاغ اور دنیا ئے ملعونہ ''

دنیائے بلاغ سے مراد یہ ہے کہ دنیا انسان کو آخرت تک پہو نچاتی ہے اور خدا تک رسائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔بلاغ کے یہی معنی ہیں اوریہ دنیا کی پہلی قسم ہے ۔

دوسری دنیا جو ملعون ہے وہ دنیا وہ ہے جوانسان کو ﷲسے دورکرتی ہے اس لئے کہ لعن بھگانے اور دور کرنے کو کہتے ہیں اب ہرانسان کی دنیااِنھیں دومیں سے کوئی ایک ضرورہے یاوہ دنیا جو خدا تک پہونچاتی ہے یاوہ دنیا جو خدا سے دور کرتی ہے ۔

اسی سے ایک حقیقت اور واضح ہو جاتی ہے کہ انسان دنیا میں کسی ایک مقام پر ٹھہر انہیں رہتا ہے بلکہ یا تووہ قرب خداکی منزلیں طے کرتا رہتا ہے یا پھر اس سے دور ہوتا جاتا ہے ۔

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۳ص۲۰۔

۲۵۴

(لاتسألوافیها فوق الکفاف،ولاتطلبوامنها أکثرمن البلاغ )( ۱ )

''اس دنیا میں ضرورت سے زیادہ کا سوال مت کرو اور نہ ہی کفایت بھر سے زیادہ کا مطالبہ کرو ''

اس طرح اس دنیا کا مقصد (بلاغ)ہے اور انسان دنیا میں جو بھی مال ومتاع حاصل کرتا ہے وہ صرف اس مقصد تک پہونچنے کیلئے ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے اس طرح انسان کی ذمہ داری ہے کہ دنیا میں صرف اتنا ہی طلب کرے جس سے اپنے مقصود تک پہنچ سکے لہٰذا اس مقدار سے زیادہ مانگنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی وسیلہ کو مقصد بنانا چا ہئے اور یہ یادر کھنا چاہئے کہ دنیا وسیلہ ہے آخری مقصد نہیں ہے بلکہ آخری مقصد آخرت اور خدا تک رسائی ہے ۔

امیرا لمو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الدنیاخلقت لغیرها،ولم تخلق لنفسها )( ۲ )

''دنیا اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے غیر (آخرت تک رسائی )کیلئے خلق کی گئی ہے''

وسیلہ کو مقصد قرار دے دیاجائے یہ بھی غلط ہے اسی طرح واسطہ کو وسیلہ اور مقصد(دونوں ) قرار دینا بھی غلط ہے اسی لئے امیرالمو منین نے فر مایا ہے کہ دنیاکو صرف اس مقدارمیںطلب کرو جس سے آخرت تک پہونچ سکو ۔

لیکن خود حصول دنیا کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ صرف بقدر ضرورت سوال کرو ۔امام کے اس مختصر سے جملے میں حصول رزق کے لئے سعی و کو شش کے سلسلہ میں اسلام کا مکمل نظریہ موجود ہے ۔چونکہ مال و متاع ِ دنیا آخرت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے لہٰذا کسب معاش اور تحصیل رزق ضروری ہے لیکن اس تلاش و جستجو میں ''بقدر ضرورت ''کا خیال رکھنا ضروری ہے اور ''بقدر ''ضرورت سے مراد وہ

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۳ص۸۱۔

(۲)نہج البلاغہ حکمت ۴۵۵۔

۲۵۵

مقدار ہے کہ جس کے ذریعہ دنیاوی زندگی کی ضرورتیں پوری ہو تی رہیں اور آخرت تک رسائی ہو سکے

انسا نی ضرورت واقعی اور ضروری بھی ہو تی ہے اور غیر واقعی یا وہمی بھی ۔یعنی اسے زندہ رہنے اور آخرت تک رسائی کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ حقیقی ضرورتیں ہیں ۔اوران کے علاوہ کچھ غیر ضروری چیزیں بھی احتیاج وضرورت کی شکل میں انسان کے سامنے آتی ہیںجو در حقیقت حرص و طمع ہے اوران کا سلسلہ کبھی ختم ہو نے والا نہیں ہے اگر انسان ایک مرتبہ ان کی گرفت میں آگیا تو پھر ان کی کو ئی انتہا ء نہیں ہوتی ۔ان کی راہ میں جد وجہد کرتے ہوئے انسان ہلاک ہو جاتا ہے مگر اس جد و جہد سے اذیت و طمع میں اضافہ ہی ہوتا ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق نے اپنے جد بزرگوار حضرت علی کا یہ قول نقل فرمایاہے:

یابن آدم:ان کنت ترید من الدنیامایکفیک فان أیسرما فیهایکفیک،و ان کنت انما ترید مالیکفیک فان کل ما فیهایکفیک ( ۱ )

''اے فرزند آدم اگر تو دنیا سے بقدر ضرورت کا خواہاں ہے تو تھوڑا بہت ،جو کچھ تیرے پاس ہے وہی کا فی ہے اور اگر تو اتنی مقدار میں دنیا کا خواہاں ہے جو تیری ضرورت سے زیادہ ہے تو پھر دنیا میں جو کچھ ہے وہ بھی نا کافی ہے ''

دنیا کے بارے میں یہ دقیق نظریہ متعدد اسلامی روایات اور احا دیث میں وارد ہوا ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے:

ألا وان الدنیادار لا یُسلَم منها الا فیها،ولاینجیٰ بشی ء کان لها،ابتلی الناس بها فتنة،فما أخذوه منها لهااُخرجوا منه وحوسبوا علیه،

____________________

(۱)اصول کافی ج۲ص۱۳۸۔

۲۵۶

وما أخذوه منهالغیرها قدمواعلیه وأقاموا فیه )( ۱ )

''آگاہ ہو جا ئو کہ یہ دنیا ایسا گھرہے جس سے سلامتی کا سامان اسی کے اندر سے کیا جاسکتا ہے اور کو ئی ایسی شئے وسیلۂ نجات نہیں ہو سکتی ہے جو دنیا ہی کے لئے ہو ۔لوگ اس دنیا کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں ۔جو لوگ دنیا کا سامان ،دنیا ہی کیلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسے چھوڑکر چلے جاتے ہیں اور پھر حساب بھی دینا ہوتا ہے اور جولوگ یہاں سے وہاںکیلئے حاصل کرتے ہیں وہ وہاں جاکر پالیتے ہیں اور اسی میں مقیم ہوجاتے ہے یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل کی نظر میں ایک سایہ جیسی ہے جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا ہے اور پھیلتے پھیلتے کم ہوجاتا ہے ''

ان کلمات میں اختصار کے باوجود بے شمار معانی ومطالب پائے جاتے ہیں (دارلایسلم منها اِلا فیها )اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان سے فرار اور خدا تک رسائی کے لئے دنیا مومن کی سواری ہے اس کے بغیر اسکی بارگاہ میں رسائی ممکن نہیں ہے عجیب وغریب بات ہے کہ دنیا اور لوگوں سے کنا رہ کشی کرنے والا قرب خدا کی منزل مقصود تک نہیں پہونچ سکتا بلکہ ﷲ یہ چاہتا ہے کہ بندہ اسی دنیا میں رہ کر اسی دنیا کے سہارے اپنی منزل مقصود حاصل کرے۔لہٰذا ان کلمات سے پہلی حقیقت تو یہ آشکار ہوئی ہے کہ دنیا واسطہ اور وسیلہ ہے اس کو نظر انداز کرکے مقصدحاصل نہیںکیاجاسکتا۔

لیکن یہ بھی خیال رہے کہ دنیا مقصد نہ بننے پائے۔ اگر انسان دنیا کو وسیلہ کے بجائے ہدف اور مقصد بنالے گا تو ہرگز نجات حاصل نہیں کرسکتا (ولاینجی لشی کان لھا) اس طرح اگر انسان نے دنیا کواس کی اصل حیثیت ''واسطہ ووسیلہ''سے الگ کردیا اور اسی کو ہدف بنالیا تو پھر دنیاشیطان سے نجات اور خدا تک پہنچانے کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے یہ دوسری حقیقت ہے جوان

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۶۲ ۔

۲۵۷

کلمات میں موجود ہے ۔

اور پھراگر انسان دنیا کو خدا ،قرب خدا اور رضائے الٰہی حاصل کرنے کے بجائے خود دنیا کی خاطر اپناتا ہے تو یہی دنیا اسکو خدا سے دور کردیتی ہے ۔اس دنیا کا بھی عجیب و غریب معاملہ ہے یعنی اگر انسان اسے وسیلہ اور خدا تک رسائی کا ذریعہ قرار دیتا ہے تو یہ دنیا اس کے لئے ذخیرہ بن جاتی ہے اور اس کے لئے باقی رہتی ہے نیز دنیا وآخرت میں اس کے کام آتی ہے لیکن اگر وسیلہ کے بجائے اسے مقصد بنالے تو یہ ﷲ سے غافل کرتی ہے ۔خدا سے دور کردیتی ہے موت کے بعدانسان سے جدا ہوجاتی ہے اور بارگاہ الٰہی میں اسکا سخت ترین حساب لیا جاتاہے ۔

یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ فرق کمیت اور مقدار کا نہیں ہے بلکہ کیفیت کا ہے اور عین ممکن ہے کہ انسان وسیع و عریض دنیا کا مالک ہو لیکن اسکا استعمال راہ خدا میں کرتا ہو اس کے ذریعہ قرب خدا کی منزلیں طے کرتا ہو ایسی صورت میں یہ دنیا اس کے لئے ''عمل صالح''شمار ہوگی اس کے برخلاف ہوسکتا ہے کہ مختصر سی دنیا اور اسباب دنیاہی انسان کے پاس ہوں لیکن اسکا مقصد خود وہی دنیا ہو تو یہ دنیا اس سے چھین لی جائے گی اسکا محاسبہ کیا جائے گا ۔یہ ہے ان کلمات کا تیسرا نتیجہ۔

اگر خود یہی دنیا انسان کے مد نظر ہوتو اسکی حیثیت ''عاجل''''نقد''کی سی ہے جو کہ اسی دنیا تک محدود ہے اور اس کا سلسلہ آخرت سے متصل نہ ہوگابلکہ زائل ہو کر جلد ختم ہوجائے گی لیکن اگر دنیا کو دوسرے (آخرت )کے لئے اختیار کیا جائے تو اسکی حیثیت''آجل''''ادھار''کی سی ہوگی کہ جب انسان حضور پروردگار میں پہونچے گا تو وہاںدنیا کو حاضر وموجود پائے گا ۔ایسی دنیا زائل ہونے والی نہیں بلکہ باقی رہے گی''وماعندﷲ خیر وأبقی''امیر المومنین کے اس فقرہ''وماأخذ وہ منھا لغیرھا قدموا علیہ وأقاموا فیہ'' سے یہ چوتھا نتیجہ برآمد ہوتا ہے ۔

۲۵۸

زیارت امام حسین سے متعلق دعا میں نقل ہوا ہے:

(ولاتشغلنی بالاکثارعلیّ من الدنیا،تلهینی عجائب بهجتها،وتفتننی زهرات زینتها،ولا بقلالٍ یضرّ بعملی،ویملأ صدری همّه )( ۱ )

''کثرت دنیا سے میرے قلب کو مشغول نہ کردینا کہ اسکے عجائبات مجھے تیری یاد سے غافل کردیں یا اسکی زینتیں مجھے اپنے فریب میں لے لیں اور نہ ہی دنیا میں میرا حصہ اتنا کم قرار دینا کہ میرے اعمال متاثر ہوجائیں اور میرا دل اسی کے ہم وغم میں مبتلا رہے ''

دنیا اوراس سے انسان کے تعلق، بقاء و زوال ،اسکے مفید ومضر ہونے کے بارے میں اس سے قبل جو کچھ بیان کیا گیا وہ کیفیت کے اعتبار سے تھا کمیت ومقدار سے اسکا تعلق نہیں تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کمیت و مقدار بھی اس میں دخیل ہے کثرت دنیا اور اسکی آسا ئشیںانسان کو اپنے میں مشغول کرکے یاد خدا سے غافل بنادیتی ہیں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دنیا میں بڑاحصہ ہونے کے باوجود انسان دنیا میں گم نہ ہو یا یہ زیادتی اسے خدا سے دور نہ کردے اسکے لئے سخت جد وجہد درکار ہوتی ہے اور اسی طرح اگر دنیا وی حصہ کم ہو،دنیا روگردانی کر رہی ہو تو یہ بھی انسان کی آزمائش کا ایک انداز ہوتا ہے کہ انسان کا ہم وغم اور اس کی فکریں دنیا کے بارے میں ہوتی ہیں اور وہ خدا کو بھول جاتا ہے اسی لئے اس دعا میں حد متوسط کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ نہ تو اتنی کثرت ہو جس سے انسان یاد خدا سے غافل ہوجائے اور نہ اتنی قلت ہوکہ انسان اسی کی تلاش میں سرگرداں رہے اور خدا کو بھول بیٹھے۔

۲۔دنیا مومن کی سواری

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(لاتسبّوا الدنیا فنعمت مطیة المؤمن،فعلیها یبلغ الخیر وبها ینجو من الشر )( ۲ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۰۱ ص۲۰۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۷ص۱۷۸۔

۲۵۹

''دنیا کو برا مت کہو یہ مومن کی بہترین سواری ہے اسی پر سوار ہوکر خیر تک پہنچاجاتا ہے اور اسی کے ذریعہ شرسے نجات حاصل ہوتی ہے ''

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ دنیا سواری کی حیثیت رکھتی ہے جس پر سوار ہوکر انسان خدا تک پہونچتا اور جہنم سے فرار اختیار کرتا ہے ۔

یہ دنیاکاقابل ستائش رخ ہے اگر دنیانہ ہوتی توانسان رضائے الٰہی کے کام کیسے بجالاتا ، کیسے خدا تک پہونچتا ؟اولیاء خدا اگر قرب خداوند ی کے بلند مقامات تک پہونچے ہیں تو وہ بھی اسی دنیا کے سہارے سے پہونچے ہیں ۔

۳۔دنیا صداقت واعتبار کا گھر ہے ۔

۴۔دنیا دار عافیت۔

۵۔دنیا استغنا اور زاد راہ حاصل کرنے کی جگہ ہے ۔

۶۔دنیا موعظہ کا مقام ہے ۔

۷۔دنیا محبان خدا کی مسجدہے ۔

۸۔دنیا اولیاء الٰہی کے لئے محل تجارت ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی نے جب ایک شخص کو دنیا کی مذمت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا :

(أیهاالذام للدنیاالمغترّبغرورهاالمنخدع بأباطیلها!أتغتر بالدنیاثم تذمّها،أنت المتجرّم علیهاأم هی المتجرّمةعلیک؟متیٰ استهوتک؟أم متیٰ غرّتک؟ )( ۱ )

''اے دنیا کی مذمت کرنے والے اور اسکے فریب میں مبتلا ہوکر اسکے مہملات میں دھوکا کھا

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۱۲۶۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333