المیہ جمعرات

المیہ جمعرات23%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104103 / ڈاؤنلوڈ: 4472
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

۵:-کیا تم میں سے کسی کے بیٹے جوانان جنت کے سردار ہیں ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۶:- کیا تم میں مجھ سے زیادہ کوئی قرآن کے ناسخ وومنسوخ کا عالم ہے ؟

ارکان شوری نے کہا نہیں ۔

۷:- کیا تم میں سے کسی کے لئے آیت تطہیر نازل ہوئی ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۸:- کیا میرے علاوہ کبھی تم نے بھی جبریل امین کو دحیہ کلبی کی صورت میں دیکھا ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۹:- کیا میرے علاوہ کسی کے لئے "من کنت مولاه " کا اعلان کیا گیا ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۱۰:- کیا میرے علاوہ تم میں سے کسی کو رسولخدا (ص) ن ےاپنا بھائی بنایا ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۱۱:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی خندق کا فاتح ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۱۲:-کیا میرے علاوہ تم میں سے کسی کو ہارون محمدی کا اعزاز نصیب ہوا ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۱۳:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جسے اللہ نے قرآن کی دس آیات میں "مومن "کہا ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۱۴:- کیا میرے علاوہ شب ہجرت رسول خدا(ص) کے بستر پر تم میں سے کوئی سویا تھا ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۱۲۱

۱۵:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے کہ جنگ احد کے دن اس کے ساتھ فرشتے کھڑے ہوں ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۱۶:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے کہ جس کی گود میں رسول خدا(ص) کی وفات ہوئی ہو؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۱۷:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جس نے رسول خدا (ص) کو غسل دیا ہو اور ان کی تجہیز وتکفین کی ہو؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۱۸:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جس کے پاس رسول خدا (ص) کا اسلحہ ،علم ،اور انگشتری ہو؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۱۹:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جسے رسولخدا(ص) نے اپنے کندھوں پر سوار کیا ہو اور اس نے بت توڑے ہوں ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۲۰:- کیا میرے علاوہ ہاتف غیبی نے کسی کے لئے "لافتی الا علی لا سیف الا ذولفقار " کی ندا کی ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۲۱:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جس نے حضور (ص) کے ساتھ بھنے ہوئے پرندے کا گوشت کھایا ہو؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۲۲:- کیا میرے علاوہ کسی اور کے لئے رسول خدا نے کہا تھا کہ تو دنیا اور

۱۲۲

آخرت میں میرا علمدار ہوگا ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۲۳:- کیا میرے علاوہ تم میں سے کسی نے آیت نجوی پر عمل کیا تھا ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۲۴:-کیا میرے علاوہ تم میں سے کسی کو رسول خدا کا "خاصف النعل " ہونے کا شرف حاصل ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۲۵:- کیا میرے رسول خدا نے کسی اور کے لئے کہا تھا کہ تو مجھے ساری مخلوق سے زیادہ محبوب ہے اور میرے بعد سب سے زیادہ سچ بولنے والا ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۲۶:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جس نے سو کجھوروں کے عوض پانی کے سو ڈول نکال کر وہ کجھوریں رسول خدا (ص) کو کھلائی ہوں ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۲۷:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جسے بدر کے دن تین ہزار ملائکہ نے سلام کیا ہو؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۲۸:- کیا میرے علاوہ تم کوئی مسلم اول بھی ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۲۹:- کیا میرے علاوہ تمہارے اندرکوئی ایسا ہے کہ رسول خدا(ص) جس کے گھر سے سب سے آخر میں نکلتے اور سب سے پہلے اس کے گھر جاتے ہوں ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۳۰:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ہے جس کے متعلق نبی اکرم نے فرمایا ہو "تو ہی میرا پہلا مصدّق ہے اور حوض کوثر پر تو ہی میرے پاس سب سے پہلے آئے گا ؟

۱۲۳

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۳۱:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے کہ جس کے افراد خاندان کو رسول خدا مباہلہ میں لے گئے ہوں ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۳۲:-کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس نے حالت رکوع میں زکوۃ دی ہو اور اللہ نے اس کے حق میں "انّما ولیکم الله ورسوله " کی آیت نازل فرمائی ہو؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۳۳:- کیا میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جسکے متعلق سورۃ دہر نازل ہوئی ہو؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۳۴:- کیا میرے علاوہ تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جس کے متعلق اللہ نے "اجعلتم سقایة الحاج وعمارة المسجد الحرام کمن آمن بالله والیوم الآخر و جاهد فی سبیل الله لا یستوؤن عند الله " کی آیت نازل کی ہو؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۳۵:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جسے رسول خدا(ص) نے ایسے ایک ہزار کلمات تعلیم کئے ہوں کہ ان میں سے ہر کلمہ ایک ہزار کلمات کی چابی ہو؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۳۶:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جس کے ساتھ رسولخدا (ص) نے سرگوشی کی ہو اور معترضین کویہ کہہ کر خاموش کیا ہو کہ "میں نے اس سے سرگوشی نہیں بلکہ اللہ نے کی ہے "؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۳۷:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جس کے لئے پیغمبر نے فرمایا وہ"انت و شیعتک الفائزون یوم القیامة

۱۲۴

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۳۸:-کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جس کے متعلق پیغمبر نے فرمایا ہو۔"وہ جھوٹا ہے جو گمان کرے کہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور علی سے بغض رکھتا ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۳۹:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے؟ جس کے متعلق پیغمبر نے فرمایا ہو " جو میرے ٹکڑوں سے محبت کرے اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی ۔ آپ سے دریافت کیا کہ آپ کے ٹکڑے کون ہیں ؟تو فرمایا :- وہ علی ،فاطمہ ،حسن اور حسین (علیھم السلام) ہیں ۔

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۴۰:- کیا میرے تم میں کوئی ایسا ہے جسے نبی اکرم نے فرمایا ہو "انت خیر البشر بعد النبیّین ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۴۱:- کیا میرے علاوہ تم میں کو‏ئی ایسا ہے جسے رسول خدا(ص) نے حق وباطل کا میزان قرار دیا ہو؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۴۲:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جسے رسول خدا (ص) نے چادر تطہیر میں داخل کیا ہو ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۴۳:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جو غار ثور مین رسالت مآب کے لئے کھانا لے کر جاتا ہو؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۴۴:- کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے متعلق پیغمبر نے فرمایا ہو

۱۲۵

"انت اخی و وزیری وصاحبی من اهلی

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۴۵:-کیا تم میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے متعلق پیغمبر نے فرمایا ہو "انت اقدمهم سلما و افضلهم علما واکثرهم حلما

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۴۶:- کیا تم میں سے میرے علاوہ کسی نے مرحب یہودی کو قتل کیا تھا ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۴۷:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ہے جس نے خیبر کے ایسے وزنی دروازے کو جسے چالیس انسان مل کر حرکت دیتے تھے ۔اکھاڑا ہو ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۴۸:-کیا میرے علاوہ کسی کے سب وشتم کو سول خدا نے اپنی ذات پر سب وشتم قرار دیا ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۴۹:- کیا میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کی منزل جنت کے متعلق رسول خدا(ص) نے کہا ہو کہ تمہاری منزل میری منزل کے متصل ہوگی ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۵۰:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جس کے متعلق رسول کریم (ص) کا فرمان ہو کہ تو بروز قیامت عرش کے داہنی جانب ہوگا اور اللہ تجھے دو کپڑے پہنائے گا ایک سبز ہوگا اور دوسرا گلابی ہوگا ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۵۱:-کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جس نے تمام لوگوں سے سات برس قبل نماز پڑھی ہو‏؟

۱۲۶

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۵۲:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جس کی محبت کو رسول خدا نے اپنی محبت اور جس کی عداوت کو اپنی عداوت قرار دیا ہو؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۵۳:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جس کی ولایت کی تبلیغ اللہ نے اپنے رسول پر فرض کی ہو ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۵۴:- کیا میرے علاوہ تم میں سے کسی کو رسول خدا (ص) نے "یعسوب المومنین "کہا ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۵۵:- کیا میرے علاوہ تم میں سے کسی کے لئے رسول خدا(ص) نے "لابعثنّ الیکم رجلا امتحن الله قلبه للایمان " کہا ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۵۶:- کیا میرے علاوہ تم میں سے کسی کو رسول خدا (ص) نے جنت کا انا ر کھلایا تھا ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۵۷:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جس کے لئے رسول خدا نے فرمایا ہو " میں نے اپنے رب سے جو طلب کیا اس نے مجھے عطا کیا اور میں نے جو کچھ اپنے لئے طلب کیا وہی کچھ تیرے لئے طلب کیا ؟"

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۵۸:- کیا میرے علاوہ تم میں سے کسی کے لئے رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ "تو امر خداوندی پر قائم رہنے والا اور عہد خداوندی کو نبھانے والا اور تقسیم میں مساوات کا خیال رکھنے والا اور اللہ کی نظر میں زیادہ رتبہ والا ہے ؟"

۱۲۷

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۵۹:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ہے جس کے متعلق رسول اکرم (ص) نے فرمایا ہو کہ " اس امت میں مجھے وہی برتری حاصل ہےجوسورج کی چاند پر اور چاند کی دوسرے ستاروں پر ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۶۰:- کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے دوست کو جنت اور دشمن کو دوزخ کی بشارت دی گئی ہو؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۶۱:-کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ایسا ہے جس کے متعلق رسول خدا(ص) نے کہا ہو"لوگ مختلف درختوں سے ہیں اور میں اور تو ایک ہی درخت سے ہیں "؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۶۲:- کیا تم میں سے کسی کو رسول خدا(ص) نے "سید العرب "فرمایا ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۶۳:- کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جس کا جبرئیل مہمان ہو؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۶۴:- کیا میرے علاوہ تم میں کوئی ہے جس نے سورۃ براءت کی تبلیغ کی ہو؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

۶۵:-کیا میرے علاوہ تم میں کوئی جنت اور دوزخ کے بانٹنے والا ہے ؟

ارکان شوری نے کہا :-نہیں۔

اس کے بعد آپ نے ارکان شوری سے فرمایا جب تم میرے یہ فضائل جانتے ہو تو حق کو چھوڑ کر باطل کی پیروی نہ کرو ۔لیکن عبد الرحمن بن عوف اور اس کے ساتھیوں نے حضرت علی (علیہ السلام) کو خلافت سے محروم کردیا (الاحتجاج ۔من المترجم عفی عنہ )

۱۲۸

مجلس شوری کا تجزیہ

شوری اور شوری ممبران کے متعلق آپ نے حضرت عمر کے نظریات ملاحظہ فرمائے ۔انہون نےممبران کے متعلق اپنی رائے کا بھی کھل کر اظہار فرمایا ۔حضرت عمر نے محدود شوری تشکیل دی تھی جب کہ اس حساس مسئلہ کے لئے وسیع البنیاد شوری کی ضرورت تھی ۔

۱:- حضرت عمر نے شوری کو مشروط بنادیا تھا ، انہیں آزادی فکر کی اجازت نہیں دی گئی ۔

۲:- شوری کے ہاتھ پاؤں اس طرح سے باندھ دئیے گئے کہ محافظ کو یہ حکم صادر کیا گیا کہ ان میں سے جو بھی اکثریتی رائے سے اختلاف کرے ،اسے بلا تامل موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔

۳:- اگر دونوں طرف سے ممبران کی تعداد برابر ہو تو پھر عبدالرحمن بن عوف کی پارٹی کو ترجیح دی جائے آخر عبدالرحمن ابن عوف کی رائے کو ہی آخری اور حتمی رائے قراردینے کی کیا ضرورت تھی ؟

۴:-کیا عبد الرحمن بن عوف کی رائے کو اس لئے تو فیصلہ کن نہیں قرار دیا گیا کہ انہوں نے دس برس پہلے حضرت ابوبکر کے استفسار پرحضرت عمر کی حمایت کی تھی ؟

۵:- کیا قرآن وسنت میں اس بات کا کوئی ثبوت ملتا ہے کہ جو عبدالرحمن بن عوف کی رائے کی مخالفت کرے وہ واجب القتل ہے ؟

۶:- ایک مومن کے قتل کی سزا تو اللہ تعالی نے یہ بیان کی ہے "ومن یقتل مومنا متعمدا فجزاؤه جهنم خالدا فیها وغضب الله علیه ولعنه واعدله عذابا عظیما " جو کوئی جان بوجھ کر مومن قتل کرے ان کی جزا جہنم ہے وہ اس

۱۲۹

میں ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر ناراض ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہے "۔

جب کہ ایک عام مومن کے قتل کی یہ سزا یہے تو اصحاب رسول اور وہ بھی حضرت کے بقول جن سے رسول خدا راضی ہو کر دنیا سے رخصت ہوئے تھے ، ان کے قتل کی سزا کیا ہوگی ؟

۷:- برادران اہل سنت اکثر فرمایا کرتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا : میرے بعد صحابی ستاروں ک طرح ہیں ۔تم جس کی پیروی کروگے ہدایت پاؤگے ۔

توکیا مذکورہ حدیث حضرت عمر کے پیش نظر نہ تھی کہ ان ستاروں کا اختلاف امت اسلامیہ کے لئے نقصان دہ نہیں ہے ۔ آخر انہوں نے اختلافی ستاروں کو قتل کرنے کا فرمان صادر کیوں فرمایا ؟

۸:-کیا دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں حزب اختلاف کو قتل کرنا درست سمجھا جاتا ہے ؟

۹:- کیا عبدالرحمن بن عوف کی شخصیت حق وباطل کا معیار تھی کہ ان کی رائے سے اختلاف کرنے والا گردن زدنی قرار دیا جائے ؟

۱۰ :- حضرت عمر اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اس نظریہ کے قائل رہے تھے کہ خلیفہ مقرر نہ کرنا سنت رسول ہے اور حضرت ابو بکر کی سنت ہے ۔تو آخر وہ کونسی وجوہات تھیں کہ جن کی وجہ سے حضرت عمر نے رسول خدا(ص) کی سنت کو چھوڑ کر سنت ابو بکر کی پیروی کی؟

۱۱:-قرآن مجید میں رسول خدا کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور ان کے راستے سے انحراف کرنے سے منع کیاگیا ہے ۔اس کے باوجود وہ علل واسباب کیا تھے جن کی بنا پر اتباع رسول کو چھوڑنا پڑا ۔؟

۱۲:- خلافت کو صرف چھ افراد میں منحصر کرنے کی کیا ضرورت تھی اور ان

۱۳۰

کے علاوہ پوری امت اسلامیہ میں کوئی جوہر قابل نہیں تھا ؟

۱۳:- اگر جواب میں یہ کہا جائے کہ ان سے رسول خدا (ص) راضی ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے تھے ،تو ہمیں اس جواب کے تسلیم کرنے میں تامل ہوگا کیونکہ شوری ممبران میں سے طلحہ بن عبیداللہ کے متعلق خود حضرت عمر نے فرمایا تھا کہ :

تمہاری اس غلط گفتگو کی وجہ سے رسول خدا (ص) مرتے دم تک تجھ سے ناراض تھے ۔ جب ایسے فرد بھی شوری میں شامل تھے تو یہ کیسے تسلیم کرلیا جائے کہ ان افراد کی تعیین رضائے رسول کی وجہ سے عمل میں آئی تھی ؟

۱۴:- اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ان افراد سے رسول خدا (ص) راضی تھے تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان چھ افراد کے علاوہ حضور کریم باقی تمام صحابہ اور امت اسلامیہ سے ناراض تھے ؟

۱۵:- اگر کہا جائے کہ ایسا نہیں ہے تو پھر ان کی وجہ کیا قرارپائے گی کہ رسول خدا تو ہزاروں افراد سے راضی ہوکر دنیا سے رخصت ہوں اور خلافت کو صرف چھ افراد میں محدود کیا جائے ؟

۱۶:-سعید بن عمرو بن نفیل کے متعلق حضرت عمر نے خود اعتراف کیا کہ ان میں شوری کی شمولیت کی جملہ صفات موجود نہیں ہیں ۔اس کے باوجود انہیں شوری کا ممبر کیوں نہ بننے دیا گیا ؟

۱۷:- حضرت علی کے متعلق خلیفہ ثانی نے جو تبصرہ کیا کہ ان میں مزاح زیادہ ہے ۔تو کیا حضرت عمر کے علاوہ بھی کسی نے حضر ت علی کے متعلق یہ رائے دی تھی ؟

۱۸:- کیا حضرت علی کی زندگی کا مطالعہ صرف حضرت عمر کو ہی نصیب ہوا تھا ۔ان کے علاوہ حضرت علی کی زندگی باقی لوگوں سے اوجھل تھی ؟

اگر ان کی زندگی باقی لوگوں سے اوجھل نہ تھی تو باقی دنیا کو علی میں مزاح

۱۳۱

کا عیب آخر کیوں نظر نہ آیا ؟

اس کے لئے ابن عباس کا یہ قول بھی ہمیشہ مدنظر چاہئیے کہ حضرت علی (ع) اتنے بارعب تھے کہ ہم ان کے رعب ودبدبہ کی وجہ سے گفتگو کا آغاز کرنے سے گھبرایا کرتے تھے ۔

۱۹:-شوری کے لئے جن افراد کو چنا گیا ، کیا ان سب کی اسلامی خدمات یکساں تھیں یا ان میں کچھ فرق بھی تھا؟اوراگر فرق اور یقینا تھا تو پھر حضرت عمر نے ان سب کو ایک ہی صف میں کیوں لا کھڑا کیا ؟۔

۲۰:- کیا شوری ممبران کے ایک دوسرے سے خاندانی اور عائلی روابط تو نہ تھے ؟

۲۱:- اگر ان کے درمیان عائلی روابط موجود تھے تو کیا وہ قرابت داری کی وجہ سے کسی کی ناجائز حمایت بھی کرسکتے تھے یا نہیں ؟

۲۲:-کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ طلحہ کا تعلق حضرت ابو بکر کے خاندان بنی تمیم سے تھا اور اس خاندان کی علی سے تعلقات کی نوعیت پیچ پیچ تھی ؟

۲۳:- سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمن بن عوف کا تعلق بنی زہرہ سے تھا اور بنی زہرہ کے یہ دونوں چشم وچراغ بنی امیہ سے قریبی رشتہ داری رکھتے تھے ۔سعد بن ابی وقاص کی ماں حمنہ بنت سفیان تھی اور وہ حضرت عثمان کی بہن تھیں اور کیا اس نازک مرحلہ پر یہ امید کی جاسکتی تھی کہ عبدالرحمن اپنی بیوی کے بھائی کو چھوڑ کر کسی اور کی حمایت کریں گے؟

۲۴:- حضرت علی کے متعلق حضرت عمر کے ریمارکس کو اگر درست بھی

۱۳۲

تسلیم کرلیا جائے تو کیا حس مزاح کی وجہ سے کسی کو حق سے محروم ٹھہرانا درست ہے ؟

۲۵:- مورخ طبری کی روایت آپ صفحات میں پڑھ چکے ہیں کہ حضرت عمر نے خود کہا تھا کہ علی لوگوں کو حق پرچلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اگر یہ بات درست تھی اور یقینا درست بھی ہے تو پھر وہ کونسے عوامل تھے جس کی بنیاد پر علی (ع) کے انتخاب کو مشکوک بنایا گیا؟ علاوہ ازیں شوری کے اجلاس میں جو "پھرتیاں " دکھائی گئیں وہ بھی قابل توجہ ہیں ۔

۲۶:-عبد الرحمن بن عوف نے بڑی چالاکی دکھائی اور اپنے آپ کو خلافت کی امیدواری سے دستبراری کرلیا تا کہ لوگ ان کی غیر جانبداری پر کوئی تنقید نہ کرسکیں ۔

تو اس سلسلہ میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی دست برادری ایک اتفاقیہ امر تھی یا پہلے سے طے شدہ منصوبے کی ایک کڑی تھی ؟

۲۷:- عبدالرحمن نے اپنی دست برداری کے بعد اپنے قریبی عزیز کو منتخب نہیں کیا تھا ؟

۲۸:-کیا حضرت عثمان کے انتخاب میں اقرباء پروری کا جذبہ تو کار فرما نہ تھا ؟

۲۹:- عبد الرحمن بن عوف نے خلافت کیلئے تین شرائط عائد کی تھیں (۱)اللہ کی کتاب(۲)سنت رسول (۳)سیرت شیخین ۔ان شرائط میں کتاب اللہ اور سنت رسول (ص) کی موجودگی کے باوجود"سیرت شیخین" کا اضافہ کیوں کیا گیا ؟

۳۰:- سیرت شیخین اگر قرآن وسنت کی تعبیر وتفسیر ہے تو شرائط میں کتاب وسنت کی شرط تو پہلے سے موجود تھی ۔ اس کے باوجود اس شرط کو الگ کیوں رکھا گیا ؟

۳۱:- اور اگر سیرت شیخین قرآن وسنت کے علاوہ کوئی اور چیز تھی تو خلافت کے لئے اسے ایک شرط کے طور پر کیوں پیش کیا گیا ؟

۳۲:- کتب تاریخ میں ہمیں بہت سے ایسے مواقع نظر آتے ہیں جہاں حضرت

۱۳۳

ابو بکر کا موقف کچھ تھا اور حضرت عمر کا موقف کچھ اور تھا تو اب ان کے بعد میں آنے والا خلیفہ اگر سیرت شيخین کو قبول بھی کرلیتا تو جس مسئلہ میں خود شیخین کا باہمی اختلاف تھا۔ اس مسئلہ میں وہ کسی کی سیرت کو ترجیح دیتا اور کس کی سیرت سے انحراف کرتا؟ تاریخ وحدیث میں بہت سے ایسے مواقع ہیں جہاں حضرت عمر کا طرز عمل سیرت نبوی سے مختلف تھا۔

حضرت عمر کے بعض اجتہادات

۱:- جناب رسول خدا (ص) اور حضرت ابو بکر اپنے اپنے دور میں تمام مسلمانوں کو یکساں طورپر عطیات وروزینے دیا کرتے تھے اور حضرت ابو بکر نے سابقین اولین کو بھی زیادہ روزینہ انکار کردیا تھا۔ لیکن حضرت عمر نے اس مسئلہ میں ان دونوں کی مخالفت کی اور اپنے زمانہ خلافت میں یکساں وظیفہ دینے کے طریقے کو ختم کردیا اور کسی کا وظیفہ کم اور کسی کا زیادہ مقررکیا(۱)

حضرت عمر ایک عجیب نفسیات رکھتے تھے" کبھی سلام پہ ناراض اور کبھی دشنام پہ خوش " تو ان کے کردار کو خلافت کے لئے شرط قرار دینا کسی طرح سے بھی قرین دانش نہیں تھا ۔حضرت عمر کی اس سیمانی فطرت کے واقعات سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں ۔

۱:- ایک شخص ان کے پاس آیا اور فریاد کی ہے کہ : فلاں شخص نے مجھ پر ظلم کیا ہے آپ مجھے انصاف فراہم کریں ۔

حضرت عمر نے اپنا درہ فضا میں بلند کیا اور فریادی کے سر پر دے مارا اور کہا جب عمر نکما ہوتا ہے تو تم اس وقت نہیں آتے اور جب عمر امور مسلمین میں مصروف ہوتا ہے تو تم فریاد یں لے کر اس کے پاس آجاتے ہو۔

____________________

(۱):- عبدالفتاح عبدالمقصود۔الامام علی بن ابی طالب جلد دوم ۔ص ۹-۱۰

۱۳۴

فریادی بے چارہ آہ زاری کرتا ہوا چلا گیا ۔ کچھ دیر بعد انہوں نے کہا کہ اس فریادی کو دوبارہ لایا جائے اور جب وہ آیا تو درہ اٹھا کر اس ہاتھوں میں دیا اور کہا اب تم مجھ سے قصاص لے لو ۔

فریادی نے کہا میں نے اللہ اور تمہاری خاطر تمہیں معاف کیا ہے ۔

حضرت عمر نے کہا کہ : تم یا اللہ کے لئے معاف کردیا صرف مجھے میری خاطر معاف کرو ۔فریادی نے کہا تو پھر میں اللہ کے لئے تمہیں معاف کرتا ہوں ۔

اس کے بعد فریادی سے کہا کہ اب تم واپس چلے جاؤ(۱)

"عدل فاروقی " سیمابی کیفیت کا حامل تھا جہاں فریادی کو انصاف کی جگہ بعض اوقات کوڑے کھانا پڑتے تھے ۔

۲:- حضرت عمر نے نعمان بن عدی بن نفیلہ کو علاقہ "میسان" کا عامل مقرر کیا کچھ دنوں بعد حضرت عمر کو کسی نے نعمان کی ایک نظم سنائی ۔ جس میں رنگ تغزل وتشبیب نمایاں تھا۔ حضرت عمر نے انہیں لکھا کہ میں نے تجھے تیرے عہدہ سے معزول کردیا ہے ۔لہذا تم واپس آجاؤ ۔

جب وہ واپس آیا تو اس نے کہا کہ خدا کی قسم میں نے کبھی نہ تو شراب پی ہے اور نہ ہی کبھی عورتوں سے عشق لڑایا ہے ۔ یہ تو صرف شاعر انہ رنگ تھا جس کا اظہار میرے اشعار سے ہوا ہے ۔

حضرت عمر نے کہا درست ہے لیکن تم آج سے میری حکومت کے لئے کوئی کا م سرانجام نہیں دوگے ۔

۳:- ایک قریشی کو حضرت عمر نے عامل بنایا ۔اسکا ایک شعر حضرت عمر کو سنا یا گیا

اسقنی شربة تروی عظامی واسق بالله مثلها ابن هشام

مجھے ایک گھونٹ پلا جس سے میری ہڈیاں سیراب ہوں اور اس جیسا

____________________

(۱):- عبدالفتاح عبدالمقصود ۔الامام علی بن ابی طالب ۔جلد اول ۔ص ۲۰۰۔

۱۳۵

ایک پیالہ ابن ہشام کو بھی پلا ۔

شعر سن کر حضرت عمر نے بلا یا ۔شاعر صاحب بڑے کایاں تھے جب آئے تو حضرت عمر پوچھا ۔مذکورہ شعرتم نے کہاتھا؟

اس نے کہا جی ہاں !کیا اس کے ساتھ والا دوسرا شعر آپ نے نہیں سنا ؟

کہا نہیں ۔ شاعر نے کہاکہ اس کا دوسرا شعر یہ ہے ۔

عسلا باردا بمآء غمام اننی لااحب شرب المدام

بارش کے ٹھنڈے پانی میں شہد ملا کر مجھے پلا ۔میں شراب پینے کو پسند نہیں کرتا ۔

اس کی اس حاضر جوابی کو سن کر حضرت عمر بڑے محفوظ ہوئے اور کہا تم اپنے فرائض بدستور سرانجام دیتے رہو۔

۴:- حضرت عمر نے ایک عامل سے قرآن واحکام کے متعلق سوالات کئے تو اس نے تسلی بخش جواب دئیے تو اسے کہا تم اپنا کام سرانجام دیتے رہو ۔جاتے ہوئے وہ واپس آیا اور رات میں نے ایک خواب دیکھاہے کہ آپ اس کی تعبیر بتائیں ۔حضرت عمر نے کہا خواب بیان کرو ۔اس نے کہا ۔رات میں نے سورج اور چاند کو ایک دوسرے سے لڑتے دیکھا اور ہر ایک کے پاس لشکر بھی تھا ۔ حضرت عمر نے پوچھا تم کس لشکرمیں تھے ؟ اس نے کہا کہ میں چاند کے لشکر میں شامل تھا ۔

حضرت عمر نے کہا۔ میں نے تجھے معزول کردیا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے "وجعلنا اللیل والنهار ایتین فمحونا آیة اللیل وجعلنا آیة النها ر مبصرة " ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ۔ہم نے رات کی نشانی کو مٹایا اور دن کی نشانی کو روشن بنایا(۱)

____________________

(۱):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد سوم ۔ص ۹۸ ۔بنی اسرائیل ۱۲

۱۳۶

۵:- مقام حدیبیہ پر رسول خدا اور سہیل بن عمرو کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا جس میں ایک شرط یہ تھی کہ :مکہ کا جو فردمسلمانوں کے پاس جائے گا مسلمان اسے واپس کریں گے مسلمانوں کا کوئی شخص اگر مکہ والوں کے پاس پناہ لےگا تو واپس نہ کیا جائے گا ۔

اس شرط کو دیکھ کر حضرت عمر بہت ناراض ہوئے اور حضرت ابو بکر کے پاس گئے اور ان کے سامنے احتجاج کیا پھر رسول خدا کے پاس آکر بیٹھے اور کہا ۔آپ ہمیں دین میں کیوں رسوا کرنا چاہتے ہیں ؟

رسول خدا (ص) نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اس کی نافرمانی نہیں کرونگا ۔

حضرت عمر ناراض ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا خدا کی قسم !اگر آج میرے پاس مددگار ہوتے تو میں رسوائی کبھی برداشت نہ کرتا(۱)

حضرت عمر ایک رات عبدالرحمن بن عوف کو ساتھ لے کر شہر میں چل رہے تھے انہوں نے چند افراد کو شراب پیتے ہوئے دیکھ لیا ۔ عبدالرحمن سے کہا میں انہیں پہچان چکا ہوں ۔جب صبح ہوئی تو ان لوگوں کو بلا کر کہا ۔رات تم شراب نوشی کیوں کر رہے تھے ؟

ان میں سے ایک شخص نے کہا :- آپ کو کس نے بتایا ؟

حضرت عمر نے کہا:- رات میں نے تمہیں اپنی آنکھوں سے مے نوشی کرتے ہوئے دیکھا تھا ۔ اس شخص نے کہا ۔ کیا اللہ نے آپ کو تجسس سے قرآن میں منع نہیں کیا ؟حضرت عمر نے اسے معاف کردیا ۔

____________________

(۱):- ابن اثیر ۔الکامل فی التاریخ ۔جلد سوم ص ۳۰

۱۳۷

سیرت رسول اور سیرت عمر میں اختلاف

اس سے قبل ہم تقسیم غنائم اور صلح حدیبیہ کے متن میں حضرت عمر کے اختلاف کا تذکرہ کرچکے ہیں ۔ علاوہ ازیں مزید اختلافات بطور "مشتے از خردارے" نقل کرتے ہیں ۔سیرت کے اختلاف کی یہ چند مثالیں ہیں ورنہ :-

سفینہ چاہیئے اس بحر بے کراں کے لئے

۱:- فتح خیبر کے بعد رسول خدا (ص) نے یہود خیبر سے معاہدہ کیا تھا کہ خیبر کے باغات کی نگرانی کریں گے اور بٹائی میں انہیں آدھا حصہ دیاجائے گا ۔رسول خدا (ص) کی زندگی میں یہی ہوتا رہا ۔حضرت ابو بکر کے زمانہ خلافت میں بھی اسی معاہدہ پر عمل ہوتا رہا ۔حضرت عمر نے ان سے زمین وباغات واپس لے لئے اور انہیں جلاوطن کردیا ۔

۲:- رسول خدا نے وادی القری کو فتح کیا اور وہاں کے یہود سے بھی خیبر کے یہودیوں جیسا معاہدہ فرمایا ۔

حضرت عمر نے اپنے دور اقتدار میں انہیں جلاوطن کر کے شام بھیج دیا اور ان سے تمام زمین چھین لی(۱) ۔

سیرت شیخین کا باہمی تضاد

گزشتہ اوراق میں ہم کچھ اختلا فات کا تذکرہ کرچکے ہیں اور ان صفحات میں بطور نمونہ چند مزید اختلاف نقل کرتے ہیں اور صاحبان علم سے دریافت کرتے ہیں کہ جب ان دونوں بزرگوں کی سیرت ایک دوسرے سے ہی نہیں ملتی تھی تو سیرت شیخین کی اصطلاح وضع کیوں کی گئی اور اسے حصول خلافت کیلئے شرط کیوں قراردیا گیا ۔

____________________

(۱):- البلاذری ۔فتوح البلدان ۔ص ۳۶۔

۱۳۸

۱:- عیینہ بن حصین اور اقرع بن حابس حضرت ابو بکر کے پاس گئے اور ان سے عرض کی ! اے خلیفۃ الرسول ! ہمارے پاس بنجر زمین پڑی ہوئی ہے اس میں کسی قسم کی کوئی زراعت وغیرہ نہیں ہوتی ۔اگر آپ وہ زمین ہمیں عنایت کردیں تو ہم وہاں محنت کریں گے ممکن ہے کسی دن وہ ہمیں فائدہ بھی دے جائے ۔

حضرت ابو بکر نے ان کی درخواست سن کر حاضرین سے مشورہ لیا ۔

حاضرین نے زمین دینے کی حامی بھری ۔پھر حضرت ابوبکر نے انہیں اس زمین کی ملکیت تحریر کردی اور گواہوں نے بھی دستخط کردئیے ۔لیکن اس وقت حضرت عمر موجود نہ تھے ۔ راستے میں حضرت عمر کی ان سے ملاقات ہوگئی اور ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ زمین کی ملکیت کا گوشوارہ ہے حضرت عمر نے ان سے مذکورہ تحریر لے کر اسے پھاڑ ڈالا اور انہیں کہا : رسول خدا (ص) جس زمانے میں تمہاری تالیف قلب کیا کرتے تھے وہ اسلام کی ذلت کے دن تھے اور آج الحمدللہ اسلام ترقی کرچکا ہے ۔ہمیں تمہاری تالیف قلب کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔

یہ سن کر وہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور حضرت عمر کے سلوک کا شکوہ کیا ۔اتنے میں حضرت عمر بھی پہنچ گئے اور بڑے ناراض لہجہ میں حضرت ابو بکر سے پو چھا : آپ نے ان دونوں کو جو زمین دی ہے کیا وہ آپ کی ذاتی جاگیر ہے یا تمام مسلمانوں کی ہے ؟

حضرت ابو بکر نے کہا: یہ تمام مسلمانوں کی جاگیر ہے ۔پھر حضرت عمر نے کہا آپ نے جماعت مسلمین کے مشورہ کے بغیر انہیں زمین کیوں دے دی ؟

حضرت ابو بکر نے کہا میں نے ان حاضرین سے مشورہ کیا تھا اور ان کے مشورہ اور اجازت سے ہی میں نے ان کو زمین دی تھی ۔

حضرت عمر نے کہا: کیا مسلمانوں کا ہر فرد صحیح مشورہ دینے کا اہل ہوتا ہے ؟؟(۱)

____________________

(۱):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد سوم ۔ص ۱۰۸ طبع اول

۱۳۹

۲:- حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی سیرت کے اختلاف کو مالک بن نویرہ کے واقعہ میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔

مالک بن نویرہ کا واقعہ

یہ تاریخ اسلام کا ایک افسوس ناک واقعہ ہے ۔اس واقعہ میں خالد بن ولید نے اجتماعی اور دینی لحاظ سے بہت غلطیاں کیں ۔

۱:- خلیفہ کی اجازت کے بغیر خالد نے مالک بن نویرہ پر لشکر کشی کی۔

۲:- دینی اعتبار سے مالک پر لشکر کشی ناجائز تھی ۔

۳:- خالد نے مالک کے قتل کرنے کا جن الفاظ میں حکم دیا اسے "غدر "سے تعبیر کرنا زیادہ مناسب ہے ۔جس کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے ۔

۴:- ابھی مالک کی لاش بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی کہ خالد نے مالک کی بیوی سے نکاح کرلیا ۔قانون عفت ،انسانی وجدان اور اسلامی شریعت اس نکاح کی اجازت نہیں دیتے مگر ان تمام جرائم کو حضرت ابو بکر نے معاف کردیا ۔جب کہ حضرت عمر نے خالد کی اس حرکت کوناپسند کیا اور جب خلیفہ مقرر ہوئے تو خالد کو معزول کردیا ۔ اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے :

ابن اثیر رقم طراز ہیں کہ "جب خالد فزارہ ، اسد اور بنی طے کی لڑائی سے فارغ ہوا تو اس نے "بطاح" کا رخ کیا ۔اس وادی میں مالک بن نویرہ اور اس کی قوم رہائش پزیر تھی ۔ خالد کے کچھ ساتھیوں نے اس کا ساتھ دینے سے معذرت کی اور کہا کہ ہمیں خلیفہ نے یہ حکم نہیں دیا ہے ۔خلیفہ نے ہمیں کہا تھا کہ جب ہم "بزاحہ" سے فارغ ہوجائیں تو خلیفہ کے حکم ثانی کا انتظار کریں ۔خالد نےکہا : میں تمھارا سالار ہوں ۔ مالک بن نویرہ میرے پنجے میں پھنس چکا ہے اگر تم میرے ساتھ نہیں چلتے تو مت چلو میں اپنے ساتھ مہاجرین کا دستہ لے کرچلا جاؤں گا ۔"

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' اپنی زبان کو قابو اور اس کی حفاظت کر یہ نفس کے لئے بہترین ہدیہ ہے_ انسان صحیح اور حقیقی ایمان تک نہیں پہنچتا مگر یہ کہ وہ اپنی زبان کی نگاہ داری اور حفاظت کرے_(۴۲۱)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تین چیزیں فہم اور فقہ کی علامت ہیں تحمل اور بردباری _ علم اور سکوت_ ساکت رہنا دانائی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے_ ساکت رہنا محبت کا سبب ہوتا ہے اور ہر نیکی کی دلیل ہے_(۴۲۲)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' جب عقل کامل ہوتی ہے تو گفتگو ہو جاتی ہے_(۴۲۳)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے ''کوئی بھی عبادت ساکت رہنے اور خانہ کعبہ کی طرف پیدل جانے سے افضل نہیں ہے_(۴۲۴)

رسول خدا نے جناب ابوذر سے فرمایا کہ '' میں تجھے زیادہ ساکت رہنے کی سفارش کرتا ہوں اس واسطے کہ اس وسیلے سے شیطن تم سے دور ہوجائے گا_ دین کی حفاظت کے لئے ساکت رہنا بہتر مددگار ہے_(۴۲۵)

خلاصہ انسان سالک اور عارف پر ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان پر پوری طرح کنٹرول کرے اور سنجیدہ اور سوچ سمجھ کر بات کرے اور زیادہ اور بیہودہ باتیں کرنے سے پرہیز کرے دنیاوی امور میں ضرورت کے مطابق باتیں کرے جو اسے زندگی کرنے کے لئے ضروری ہیں اور اس کے عوض اللہ تعالی کا ذکر اور ورد اور علمی مطالب اور فائدہ مند اور اجتماع کے لئے مفید گفتگو کرنے میں مشغول رہے _ ہمارے بزرگاور عارف ربانی استاد علامہ طباطبائی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ساکت رہنے کے گراں قدر آثار مشاہدہ کئے ہیں_ چالیس شب و روز ساکت رہنے کو اختیار کیجئے اور سوائے ضروری کاموں کے باتیں نہ کریں اور فکر اور ذکر خدا میں مشغول رہیں تا کہ تمہارے لئے نورانیت اور صفاء قلب حاصل ہو سکے_

۲۴۱

چھٹی رکاوٹ

اپنی ذات اور اپنے اپ سے محبت ہے اگر عارف انسان نے تمام رکاوٹیں دور کر لی ہوں تو پھر اس کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ سامنے آتی ہے اور وہ ہے اس کا جب ذات یعنی اپنی ذات سے محبت کرنا_ وہ متوجہ ہوگا کہ اس کے تمام کام اور حرکات یہاں تک کہ اس کی عبادت و غیرہ کرنا سب کے سب اپنی ذات کی محبت کیوجہ سے انجام پارہے ہیں_ عبادت ریاضت ذکر اور دعا نماز اور روزے اس لئے انجام دے رہا ہے تا کہ اپنے نفس کو کامل کرے اور اسے ان کی اجزاء آخرت میں دی جائے گرچہ اس طرح کی عبادت کرنا بھی انسان کو بہشت اور آخرت کے ثواب تک پہنچا دیتی ہے لیکن وہ ذکر اور شہود کے بلند و بالا مقام اور رتبہ تک نہیں پہنچاتی جب تک اس کا نفس حب ذات کو ترک نہ کرے اور وہ اللہ تعالی کے بے مثال جمال کا مشاہدہ نہیں کر سکے گا جب تک تمام حجاب اور موانع یہاں تک کہ حب ذات کا حجاب اور مانع بھی ترک نہ کرے اس صورت میں وہ انوار الہی کا مرکز بننے کی قابلیت اور استعداد پیدا نہیں کر سکے گا_ لہذا عارف اور سالک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ریاضت اور مجاہدہ کر کے اپنے آپ کو حب ذات کی حدود سے باہر نکالے اپنی ذات کی محبت کو خدا کی محبت میں تبدیل کر دے اور تمام کاموں کو صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے بجا لائے اگر غذا کھاتا ہے تو اس غرض سے کھائے کہ اس کے محبوب نے زندہ رہنے کے لئے اسے ضروری قرار دیا ہے اور اگر عبادت کرتا ہے تو اسے اس نیت سے بجالائے کہ ذات الہی ہی عبادت اور پرستش کی سزاوار اور مستحق ہے_ اس طرح کا انسان نہ دینا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے اور نہ آخرت کا بلکہ وہ صرف خدا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے_ یہاں تک کہ وہ کشف اور کرامت کا طلبکار بھی نہیں ہوتا اور سوائے حقیقی معبود کے اس کا کوئی اور مطلوب اورمنظور نظر نہیں ہوتا_ اگر کوئی اس مرحلے کو طے کر لے یہاں تک کہ اپنی شخصیت اور ذات کو اپنے آپ سے جدا کردے تو وہ مقام توحید میں

۲۴۲

قدم رکھ لے گا اور شہود اور لقاء اللہ کے بلند اور بالا مقام تک ترقی کر جائیگا اور بارگاہ مقعد صدق عند ملیک مقتدر میں نازل ہوجائیگا_

ساتویں رکاوٹ

کمال اور عرفان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اور شاید یہ سابقہ تمام رکاوٹوں سے بھی زیادہ ہو وہ ہے ارادہ کا ضعیف ہونا_ اور حتمی فیصلے کرنے کی قدرت نہ رکھنا _ یہ رکاوٹ اور مانع انسان کو عمل شروع کرنے سے روک دیتی ہے_ شیطن اور نفس کرتا ہے کہ انسان کو ظاہر ی ذمہ داری اور وظائف شرعی کی بجالانے کو کافی قرار دے گرچہ اس میں حضور قلب اور توجہہ نہ بھی ہو_ شیطن انسان کو کہتا ہے کہ تو صرف انہیں عبادت کے بجالانے کے سوا اور کوئی شرعی وظیفہ نہیں رکھتا تجھے حضور قلب اور توجہہ اور ذکر سے کیا کام ہے؟ اور اگر کبھی انسان اس کی فکر کرنے بھی لگے تو اسے سینکٹروں حیلے اور بہانوں سے روک دیتا ہے اور کبھی اس مطلب کو اس کرے لئے اتنا سخت نمایاں کرتا ہے کہ انسان اس سے مایوس اور نامید ہوجاتا ہے لیکن اس انسان کے لئے جو کمال حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہے ضروری ہے کہ وہ شیطن اور نفس امارہ کے ایسے وسوسوں کے سامنے رکاوٹ بنے اور احادیث اور آیات اور اخلاق کی کتابوں کے مطالعے کرنے سے معلوک کرے کہ سیر اور سلوک کے لئے حضور قلب اور ذکر و شہود کی کتنی ضرورت اور اہمیت ہے اور جب اس نے اس کی اہمیت کو معلوم کر لیا اور اپنی ابدی سعادت کو اس میں دیکھ لیا تو پھر حتمی طور سے اس پر عمل کرے گا اور مایوسی اور ناامیدی کو اپنے سے دور کردے گا اور اپنے آپ سے کہے گا کہ یہ کام گرچہ مشکل ہے اور چونکہ اخروی سعادت اس سے وابستہ ہے لہذا ضرور مجھے اس پر عمل کرنا چاہئے_ اللہ تعالی فرماتا ہے جو ہمارے راستے

۲۴۳

میں کوشش اور جہاد کرتے ہیں ہم اس کو اپنے راستوں کی راہنمائی کر دیتے ہی_

و الذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا (۴۲۶)

ہماری یہ ساری بحث اور کلام تکامل اور تقرب الہی کے پہلے وسیلے اور ذریعے میں تھی یعنی اللہ تعالی کے ذکر میں تھی _ بحث کی طوالت پر ہم معذرت خواہ ہیں_

۲۴۴

دوسرا وسیلہ

فضائل اور مکارم اخلاق کی تربیت

نفس کے کمال تک پہنچنےاور قرب الہی کے حاصل کرنے کے لئے ایک وسیلہ ان اخلاقی کی جو انسان کی فطرت اور سرشت میں رکھ دیئے گئے ہیں پرورش اور تربیت کرنا ہے_ اچھے اخلاق ایسے گران بہا امور ہیں کہ جن کا ربط اور سنخیت انسان کے ملکوتی روح سے ہے ان کی تربیت اور پرورش سے انسان کی روح کامل سے کاملتر ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے بلند و بالا مقام قرب تک پہنچتا ہے_ اللہ تعالی کی مقدس ذات تمام کمالات کا منبع اور سرچشمہ ہے_ انسان چونکہ عالم بالا سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنی پاک فطرت سے کمالات انسانی کو کہ جن کی عالم بالا سے مناسبت ہے انہیں خوب پہچانتا ہے اور فطرتا ان کی طرف مائل ہے اسی لئے تمام انسان تمام زمانوں میں نیک اخلاق کو جانتے اور درک کرتے ہیں جیسے عدالت_ ایثار_ سچائی_ امانتداری _ احسان _ نیکی_ شجاعت_ صبر اور استقامت علم خیر خواہی مظلوموں کی مدد شکریہ احسان شناسی سخاوت اور بخشش_ وفا

۲۴۵

عہد_ توکل_ تواضع اور فروتنی_ عفو اور درگزر_ نرمی مزاجی _ خدمت خلق و غیرہ ان تمام کو ہر انسان خوب پہچانتے اور جانتے ہیں خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتاہے_ کہ قسم نفس کی اور اس کی کہ اسے نیک اور معتدل بنایا ہے اور تقوی اور منحرف ہوجانے کا راستہ اسے بتلایا ہے کامیاب وہ ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک بنایا اور نقصان میں ہوگا وہ کہ جس نے اپنے نفس کو آلودہ اور ناپاک بنایا_(۴۳۷)

جب اخلاقی کام بار بار انجام دیئے جائیں تو وہ نفس میں راسخ اور ایک قسم کا ملکہ پیدا کر لیتے ہیں وہی انسان کو انسان بنانے اور اپنا نے اور ہوجانے میں موثر اور اثر انداز ہوتے ہیں اسی واسطے اسلام اخلاق کے بارے میں ایک خاص طرح کی اہمیت قرار دیتا ہے_ اسلام کا ایک بہت بڑا حصہ اخلاقیات پر مشتمل ہے_ سینکٹروں آیات اور روایات اخلاق کے بارے میں وارد ہوئی ہیں_ قرآن مجید کی زیادہ آیتیں اخلاق کے بارے میں اور اخلاقی احکام پر مشتمل ہیں یہاں تک کہ اکثر قرآن کے قصوں سے غرض اور غایت بھی اخلاقی احکام امور ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید ایک اخلاقی کتاب ہے _ قاعدتا پیغمبروں کے بھیجنے کی ایک بہت بڑی غرض اور غایت بھی نفس کو پاک اور صاف بنانا اور اخلاق کی اور پرورش کرنا ہے_ ہمارے پیغمبر علیہ السلام نے بھی اپنی بعثت اور بھیجے جانے کی غرص اخلاق کی تکمیل کرنا اور نیک اخلاق کی تربیت کرنا بتلائی ہے اور فرمایا ہے کہ '' میں اللہ تعالی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں تا کہ نیک اخلاق کو پورا اور تمام کروں_(۴۲۸)

پیغمبر اسلام لوگوں سے فرماتے تھے کہ '' میں نیک اخلاق کی تمہیں نصیحت اور وصیت کرتا ہوں کیونکہ خداوند عالم نے مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے_(۴۲۹)

نیز پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں اخلاق حسنہ سے کوئی چیز افضل ہو نہیں رکھی جائیگی_(۴۳۰)

۲۴۶

تیسرا وسیلہ

عمل صالح

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد انسان کے تکامل کا وسیلہ اعمال صالح ہیں کہ جن کی وجہ سے انسان قرب خدا اور درجات عالیہ کو حاصل کر سکتا ہے اور اپنی اخروی زندگی کو پاک و پاکیزہ بنا سکتا ہے_ قرآن مجید میں ہے کہ '' جو شخص نیک اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو یا عورت جب کہ ایمان رکھتا ہو ہم اس کو ایک پاکیزہ میں اٹھائیں گے اور اسے اس عمل سے کہ جسے وہ بجا لایا ہے_ بہتر جزاء اور ثواب دیں گے_(۴۳۱)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لئے دنیا کی زندگی کے علاوہ ایک اور پاک و پاکیزہ زندگی ہے اور وہ نئی زندگی اس کے ایمان اور عمل صالح کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے_ قرآن فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ خداوند عالم کی طرف لوٹیں یہی وہ لوگ ہیں جو مقامات اور درجات عالیہ پر فائز ہوتے ہیں_(۴۳۲)

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' جو انسان اللہ تعالی کی ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے نیک عمل بجالانا چاہئے اور عبادت میں خدا کا کوئی شریک قرار نہ دینا چاہئے_(۴۳۳)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو شخص عزت کا طلبکار ہے تو تمام عزت اللہ تعالی کے

۲۴۷

پاس ہے کلمہ طیبہ اور نیک عمل اللہ تعالی کی طرف جاتا ہے_(۴۳۴)

اللہ تعالی اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام عزت اور قدرت اللہ کے لئے مخصوص ہے اسی کے پاس ہے اور کلمہ طیبہ یعنی موحد انسان کی پاک روح اور توحید کا پاک عقیدہ ذات الہی کی طرف جاتا ہے اور اللہ تعالی نیک عمل کو اپنے پاس لے جاتا ہے_ نیک عمل جب خلوص نیت سے ہو تو انسان کی روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے ترقی اور کمال دیتا ہے_ قرآن مجید سے معلوم ہوتاہے کہ آخرت کی پاک و پاکیزہ زندگی اور اللہ تعالی سے قرب اور القاء کا مرتبہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے حاصل ہوتا ہے_ قرآن مجید نے نیک اعمال کے بجا لانے پر بہت زیادہ زور دیا ہے خدا سعادت اور نجات کا وسیلہ صرف عمل صالح کو جانتا ہے نیک عمل کا معیار اور میزان اس کا شریعت اور وحی الہی کے مطابق ہونا ہوا کرتا ہے_ خداوند عالم جو انسان کی خصوصی غرض سے واقف ہے اس کی سعادت اور تکامل کے طریقوں کو بھی جانتا ہے اور ان طریقوں کو وحی کے ذریعے پیغمبر اسلام کے سپرد کر دیا ہے تا کہ آپ انہیں لوگوں تک پہنچا دیں اور لوگ ان سے استفادہ حاصل کریں_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں جب خدا اور اس کا رسول تمہیں کسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی عطا کرتی ہیں تو اسے قبول کرو_(۴۳۵)

نیک اعمال شرعیت اسلام میں واجب اور مستحب ہوا کرتے ہیں_ عارف اور سالک انسان ان کے بجالانے سے اللہ تعالی کی طرف سیر و سلوک کرتے ہوئے قرب الہی کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اور یہی تنہا قرب الہی تک پہنچنے کا راستہ ہے اور دوسرے جتنے راستے ہیں وہ عارف کو اس مقصد تک نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ ٹیڑھے راستے ہیں_ عارف انسان کو مکمل طور سے شرعیت کا مطیع اور فرمانبردار ہونا چاہئے اور سیر و سلوک کے لیے شرعیت کے راستے کے علاوہ اور کوئی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے اور ان اذکار اور اوراد اور حرکت سے کہ جس کا شرعیت اسلام میں کوئی مدرک اور

۲۴۸

ذکر موجود نہ ہو اس سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہئے نہ صرف وہ مقصد تک نہیں پہنچاتے بلکہ وہ اس کو مقصد سے دور بھی کر دیتے ہیں کیونکہ شرعیت سے تجاوز کرنا بدعت ہوا کرتا ہے_ عارف اور سالک انسان کو پہلے کوشش کرنی جاہئے کہ وہ واجبات اور فرائض دینی کو صحیح اور شرعیت کے مطابق بجالائے کیونکہ فرائض اور واجبات کے ترک کردینے سے مقامات عالیہ تک نہیں پہنچ سکتا گرچہ وہ مستحبات کے بجالائے اور ورد اور ذکر کرنے میں کوشاں بھی رہے_ دوسرے مرحلے میں مستحبات اور ذکر اور ورد کی نوبت آتی ہے_ عارف انسان اس مرحلے میں اپنے مزاجی استعداد اور طاقت سے مستحبات کے کاموں کا بجا لائے اور جتنی اس میں زیادہ کوشش کرے گا اتنا ہی عالی مقامات اور رتبے تک جا پہنچے گا_ مستحبات بھی فضیلت کے لحاظ سے ایک درجے میں نہیں ہوتے بلکہ ان میں بعض دوسرے بعض سے افضل ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں بہتر اور جلدی مقام قرب تک پہنچاتے ہیں جیسے احادیث کی کتابوں میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے_ عارف انسان نمازیں دعائیں ذکر اور اوراد کتابوں سے انتخاب کرے اور اس کو ہمیشہ بجا لاتا رہے جتنا زیادہ اور بہتر بجا لائیگا اتنا صفا اور نورانیت بہتر پیدا کرے گا اور مقامات عالیہ کی طرف صعود اور ترقی کرے گا ہم یہاں کچھ اعمال صالح کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور باقی کو کتابوں کی طرف مراجعہ کرنے کا کہتے ہیں لیکن اس کا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ فرائض اور نوافل ذکر اور ورد اس صورت میں عمل صالح ار موجب قرب ہونگے جب انہیں بطور اخلاص بجا لایا جائے_ عمل کا صالح اور نیک اور موجب قرب ہونا اخلاص اور خلوص کی مقدار کے لحاظ سے ہوگا لہذا پہلے ہم اخلاص اور خلوص میں بحث کرتے ہیں پھر کچھ تعداد اعمال صالح کی طرف اشارہ کریںگے_

اخلاص

اخلاص کا مقام اور مرتبہ تکامل اور سیر و سلوک کے اعلی ترین مرتبے میں سے ایک ہے اور خلوص کی کی وجہ سے انسان کی روح اور دل انوار الہی کا مرکز بن جاتا ہے

۲۴۹

اور اس کی زبان سے علم اور حکمت جاری ہوتے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خدا کے لئے چالیس دن خالص اور فارغ ہوجائے تو اس کے دل سے حکمت اور دانائی کے چشمے ابلتے اور جاری ہوجاتے ہیں_(۴۳۶)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' کہاں ہیں وہ لوگ جو اپنے اعمال کو خدا کے لئے خالص بجالاتے ہیں اور اپنے دلوں کو اس لئے کہ اللہ تعالی کی وجہ کا مرکز پاک رکھتے ہیں_(۴۳۷)

حضرت زہراء علیہا السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خالص عبادت اللہ تعالی کی طرف بھیجے اللہ تعالی بھی بہترین مصلحت اس پر نازل فرماتا ہے_(۴۳۸)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے '' بندوں کا پاک دل اللہ تعالی کی نگاہ کا مرکز ہوتا ہے جس شخص نے دل کو پاک کیا وہ اللہ تعالی کا مورد نظر قرار پائیگا_(۴۳۹)

پیغمبر علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام سے نقل کیا ہے اور اس نے اللہ تعالی سے نقل کیا ہے کہ '' خلوص اور اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ جس شخص کو میں دوست رکھتا ہوں اس کے دل میں یہ قرار دے دیتا ہوں_(۴۴۰)

خلوص کے کئی مراتب اور درجات ہیں_ کم از کم اس کا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی عبادت کو شرک اور ریاء اور خودنمائی سے پاک اور خالص کرے اور عبادت کو صرف خدا کے لئے انجام دے خلوص کی اتنی مقدار تو عبادت کے صحیح ہونے کی شرط ہے اس کے بغیر تو تقرب ہی حاصل نہیں ہوتا عمل کی قیمت اور ارزش اس کے شرک اور ریاء سے پاک اور خالص ہونے پر موقوف ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم تمہاری شکل اور عمل کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے_(۴۴۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں بہترین شریک ہوں جو شخص کسی دوسرے کو عمل میں شریک قرار دے (تو تمام عمل کو اسی

۲۵۰

کے سپرد کر دیتا ہوں) میں سوائے خالص عمل کے قبول نہیں کرتا _(۴۴۲) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم لوگوں کو قیامت میں ان کی نیت کے مطابق محشور کرے گا_(۴۴۳)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' خوش نصیب ہے وہ شخص جو عبادت اور دعا کو صرف خدا کے لئے انجام دیتا ہے اور اپنی آنکھوں کو ان میں مشغول نہ کرے جو آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کی وجہ سے جو اس سے کان پر پڑتا ہے اللہ تعالی کے ذکر کو فراموش نہ کرے اور جو چیزیں دوسروں کو دی گئی ہیں ان پر غمگین نہ ہو_(۴۴۴)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے_ ''عمل میں خلوص سعادت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے_(۴۴۵) اللہ تعالی کے ہاں وہ عبادت قبول ہوتی ہے اور موجب قرب اور کمال ہوتی ہے جو ہر قسم کے ریاء اور خودپسندی اور خودنمائی سے پاک اور خالص ہو اور صرف اور صرف خدا کے لئے انجام دی جائے عمل کی قبولیت اور ارزش کا معیار خلوص اور اخلاص ہے جتنا خلوص زیادہ ہوگا اتناہی عمل کامل تر اور قیمتی ہوگا_ عبادت کرنے والے کئی طرح کے ہوتے ہیں_

ایک وہ لوگ جو اللہ تعالی کے عذاب اور جہنم کی آگ کے خوف اور ڈر سے عبادت بجا لاتے ہیں_

دوسرے وہ لوگ ہیں جو بہشت کی نعمتوں اور آخرت کے ثواب کے لئے اوامر اور نواہی کی اطاعت کرتے ہیں ان کا اس طرح کا عمل اس کے صحیح واقع ہونے کے لئے تو مضر نہیں ہوتا ان کا ایسا عمل صحیح اور درست ہے اور موجب قرب اور ثواب بھی ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث میں لوگوں کو راہ حق کی ہدایت اور ارشاد اور تبلیغ کے لئے غالبا انہیں دو طریقوں سے استفادہ کیا گیا ہے بالخصوص پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء اللہ خداوند عالم کے عذاب سے ڈرتے تھے اور جزع اور فزع کیا کرتے تھے اور بہشت اور اس کی نعمتوں کے لئے شوق اور امید کا اظہار کیا کرتے تھے_

۲۵۱

تیسرے وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانہ کے لئے اللہ تعالی کی پرستش اور عبادت کیا کرتے ہیں اس طرح کا عمل بجا لانا اسکے منافی نہیں جو عمل کے قبول ہونے میں خلوص شرط ہے اسی واسطے احادیث میں لوگوں کو عمل بجالانے کی ترغیب اور شوق دلانے میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے تا کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالی کے احکام کی اطاعت کریں بلکہ خود پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار نے عبادت میں انہماک اور کوشش کرنے کا سبب یہ بتلایا ہے کہ کیا ہم اللہ کے شکر گزار بندے قرار نہ پائیں(افلا اکون عبدا شکورا)گر چہ ان تینوں کے اعمال قابل قبول واقع ہوتے ہیں لیکن تیسرے قسم کے لوگ ایک خاص امتیاز اور قیمت رکھتے ہیں کیونکہ ان میں خلوص زیادہ ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں وہ تین قسم کے ہوتے ہیں ایک قسم وہ ہے جو آخرت کے ثواب حاصل کرنے کے لئے خدا کی عبادت کرتے ہیں_ ان لوگوں کا کردار تاجروں والا ہے دوسری قسم وہ ہے جو جہنم کے خوف سے اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں یہ اطاعت اور عبادت غلاموں اور نوکر والی ہے_ تیسری قسم وہ ہے جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانے کے ادا کرنے کے لئے عبادت کرتے ہیں یہ عبادت آزاد مردوں والی عبادت ہے_(۴۴۶)

چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جو نفس کی تکمیل اور روح کی تربیت کے لئے عبادت کرتے ہیں اس طرح کا م قصد بھی اس خلوص کو جو عبادت کے صحیح ہونے میں شرط ضرر نہیں پہنچاتا_

پانچویں قسم اللہ کے ان ممتاز اور مخصوص بندوں کی ہے کہ جنہوں نے خدا کو اچھی طرح پہنچان لیا ہے اور جانتے ہیں کہ تمام کمالات اور نیکیوں کا منع اور سرچشمہ خدا ہے اس کی عبادت کرتا ہے اور چونکہ وہ اللہ کی بے انتہا قدرت اور عظمت کی طرف متوجہ ہیں اور اس ذات کے سوا کسی اور کو موثر نہیں دیکھتے صرف اسی ذات کو پرستش اور عبادت کے لائق سمجھتے ہیں اسی لئے خدا کو دوست رکھتے ہیں اور اس کی قدرت اور

۲۵۲

عظمت کے سامنے خضوع اور خشوع کرتے ہیں اور یہ اخلاص اور خلوص کا اعلی ترین درجہ اور مرتبہ ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عبادت کرنے والے تین گروہ ہیں_ ایک گروہ ثواب کی امید میں عبادت کرتا ہے یہ عبادت حریص لوگوں کی ہے کہ جن کی غرض طمع ہوتا ہے دوسرا گروہ وہ ہے جو دوزخ کے ڈر سے عبادت کرتا ہے_ یہ عبادت غلاموں کی عبادت ہے کہ خوف اس کا سبب بنتا ہے لیکن میں چونکہ خدا کو دوست رکھتا ہوں اسی لئے اس کی پرستش اور عبادت کرتا ہوں یہ عبادت بزرگوں اور اشراف لوگوں کی ہے اس کا سبب اطمینان اور امن ہے اللہ تعالی فرماتا ہے (و ہم فزع یومئسذ امنون کہ وہ قیامت کے دن امن میں ہیں_ نیز اللہ فرماتا ہے ''قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله و یغفر لکم ذنوبکم _(۴۴۷) امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' اے میرے مالک_ میں تیری عبادت نہ دوزخ کے خوف سے اور نہ بہشت کے طمع میں کرتا ہے بلکہ میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں کے تجھے عبادت اور پرستش کے لائق جانتا ہوں_(۴۴۸)

یہ تمام گروہ مخلص ہیں اور ان کی عبادت قبول واقع ہوگی لیکن خلوص اور اخلاص کے لحاظ سے ایک مرتبے میں نہیں ہیں بلکہ ان میں کامل اور کاملتر موجود ہیں پانچویں قسم اعلی ترین درجہ پر فائز ہے لیکن یہ واضح رہے کہ جو عبادت کے اعلی مرتبہ پر ہیں وہ نچلے درجہ کو بھی رکھتے ہیں اور اس کے فاقد نہیں ہوتے بلکہ نچلے درجے کے ساتھ اعلی درجے کو بھی رکھتے ہیں_ اللہ تعالی کے مخلص اور صدیقین بندے بھی اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں اور ان کے لطف اور کرم کی امید رکھتے ہیں اللہ تعالی کی نعمتوں کے سامنے شکر ادا کرتے ہیں اور معنوی تقرب اور قرب کے طالب ہوتے ہیں لیکن ان کی عبادت کا سبب فقط یہی نہیں ہوتا اور چونکہ وہ خدا کی سب سے اعلی ترین معرفت رکھتے ہیں اسی لئے اس کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں یہ اللہ تعالی کے ممتاز اور منتخب بندے ہیں مقامات عالیہ کے علاوہ نچلے سارے درجات رکھتے ہیں کیونکہ جو انسان تکامل

۲۵۳

کے لئے سیر و سلوک کرتا ہے جب وہ اعلی درجے تک پہنچتا ہے تو نچلے درجات کو بھی طے کر کے جاتا ہے_

اب تک جو ذکر جو ذکر ہوا ہے وہ عبادت میں خلوص اور اخلاص تھا لیکن خلوص صرف عبادت میں منحصر نہیں ہوتا بلکہ عارف انسان تدریجا ایک ایسے مقام تک جا پہنچتا ہے کہ وہ خود اور اس کا دل اللہ تعالی کے لئے خالص ہو جاتا ہے اور تمام غیروں کو اپنے دل سے اس طرح نکال دیتا ہے کہ اس کے اعمال اور حرکات اور افکار خداوند عالم کے ساتھ اختصاص پیدا کر لیتے ہیں اور سوائے اللہ تعالی کی رضایت کے کوئی کام بھی انجام نہیں دیتا اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور خدا کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتا_ اس کی کسی سے دوستی اور دشمنی صرف خدا کے لئے ہوا کرتی ہے اور یہ اخلاص کا اعلی ترین درجہ ہے_

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس کا عمل اور علم محبت اور بغض کرنا اور نہ کرنا بولنا اور ساکت رہنا تمام کا تمام خدا کے لئے خالص ہو_(۴۴۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جس شخص کی محبت اور دشمنی خرچ کرنا اور نہ کرنا صرف خدا کے لئے ہو یہ ان انسانوں میں سے ہے کہ جس کا ایمان کامل ہوتا ہے_(۴۵۰) امام جعفر صادق علیہ السلام نے ''فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے جس بندے کے دل میں سوائے خدا کے اور کوئی چیز نہ رکھی ہو تو اس کو اس سے اور کوئی شریف ترین چیز عطا نہیں کی_(۴۵۱)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کہاں ہے وہ دل جو اللہ تعالی کو بخش دیا گیا ہو اور اس کی اطاعت کا پیمان اور عہد بناندھا گیا ہو_(۴۵۲)

جب کوئی عارف انسان اس مرتبے تک پہنچ جائے تو خدا بھی اس کو اپنے لئے خالص قرار دے دیتا ہے اور اپنی تائید اور فیض اور کرم سے اس کو گناہوں سے محفوظ

۲۵۴

کر دیتا ہے اس طرح کا انسان مخلص پہچانا جاتا ہے اور مخلص انسان اللہ تعالی کے ممتاز بندوں میں سے ہوتے ہیں_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' ہم نے ان کو آخرت کی یاد کے لئے خالص قرار دے دیا ہے_(۴۵۳)

قرآن کریم حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' یقینا و ہ خالص ہوگیا ہے اور رسول اور پیغمبر ہے_(۴۵۴)

اللہ تعالی کے خالص بندے ایک ایسے مقام تک پہنچتے ہیں کہ شیطن ان کو گمراہ کرنے سے ناامید ہوجاتا ہے قرآن کریم شیطن کی زبان نقل کرتا ہے کہ اس نے خداوند عالم سے کہا کہ '' مجھے تیری عزت کی قسم کہ میں تیرے تمام بندوں کو سوائے مخلصین کے گمراہ کروں گا اور مخلصین کے گمراہ کرنے میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے_(۴۵۵) بلکہ اخلاص کے لئے روح اور دل کو پاک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور عبادت کرنے میں کوشش اور جہاد کرنا ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''عبادت کا نتیجہ اور ثمر اخلاص ہوتا ہے_(۴۵۶)

جیسے کہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ چالیس دن تک عبادت اور ذکر کو برابر بجا لانا دل کے صفا اور باطنی نورانیت اور مقام اخلاص تک پہنچنے کے لئے سبب اور موثر اورمفید ہوتاہے نہ صرف ایک دفعہ بلکہ تدریجا اور اخلاص کے باطنی مراحل طے کرتے رہنے سے ایسا ہو سکتا ہے_

۲۵۵

کچھ نیک اعمال

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کو تکامل تک پہچانے اور قرب اور ارتقاء کے مقام تک لے جانے کا راستہ صرف اور صرف وحی الہی اور شرعیت کی پیروی کرنے میں منحصر ہے اور یہی وہ راستہ ہے کہ جسے انبیاء علیہم السلام نے بیان کیا ہے او رخود اس پر عمل کیا ہے اور اسے واجبات اور مستحبات سے بیات کیا ہے یہی عمل صالح ہے_ عمل صالح یعنی واجبات اور مستحبات جو اسلام میں بیان کئے گئے ہیں اور انہیں قرآن اور احادیث اور دعاؤں کی کتابوں میں لکھا گیا ہے آپ انہیں معلوم کر سکتے ہیں اور ان پر عمل کر کے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن ہم یہاں پر ان میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہیں_

اول: واجب نمازیں

قرب الہی اور سیر و سلوک معنوی کے لئے نماز ایک بہترین سبب اور عامل ہے_ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر پرہیزگار انسان کے لئے نماز قرب الہی کا وسیلہ ہے_(۴۵۷)

معاویہ بن وھب نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ بہترین وسیلہ جو بندوں کو خدا کے نزدیک کرتا ہے اور خدا اسے دوست رکھتا ہے کیا ہے؟ آپ نے فرمایا

۲۵۶

اللہ کی معرفت کے بعد میں نماز سے بہتر کوئی اور کسی چیز کو وسیلہ نہیں پاتا کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی کے نیک بندے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا نے مجھے جب تک زندہ ہوں نماز اور زکوة کی سفارش ہے_(۴۵۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کے نزدیک نماز محبوب ترین عمل ہے_ انبیاء کی آخری وصیت نماز ہے_ کتنا ہی اچھا ہے کہ انسان غسل کرے اور اچھی طرح وضوء کرے اس وقت ایک ایسے گوشہ میں بیٹھ جائے کہ اسے کوئی نہ دیکھے اور رکوع اور سجود میں مشغول ہوجائے جب انسان سجدے میں جائے اور سجدے کو طول دے تو شیطن داد اور فریاد کرتا ہے کہ اس بندے نے خدا کی اطاعت کی اور سجدہ کیا اور میں نے سجدے کرنے سے انکار کر دیا تھا_(۴۵۹)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایک بندہ کی خدا کے نزدیک ترین حالت اس وقت ہوتی ہے جب وہ سجدے میں ہوتا اس واسطے کہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ واسجد و اقترب_(۴۶۰)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو آسمان سے اس پر اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوتی ہے اور اس کے ارد گرد ملائکہ گھیرا کر لیتے ہیں ایک فرشتہ کہتا ہے کہ اگر یہ نماز کی ارزش اور قیمت کو جانتا تو کبھی نماز سے روگردانی نہ کرتا_(۴۶۱)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے '' جب مومن بندہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خداوند عالم نماز سے فارغ ہونے تک اس کی طرف نگاہ کرتا ہے اور آسمان سے اللہ تعالی کی رحمت اسے گھیر لیتی ہے اور فرشتے اس کے اردگرد گھیرا ڈال دیتے ہیں خداوند اس پر ایک فرشتے کو معین کر دیتا ہے جو اسے کہتا ہے کہ اے نماز پڑھتے والے اگر تو جان لیتا کہ تو کس کی توجہ کا مرکز ہے اور کس سے مناجات کر رہا ہے تو پھر تو کسی دوسری چیز کی طرف ہرگز توجہ نہ کرتا اور کبھی یہاں سے باہر نہ جاتا_(۴۶۲)

۲۵۷

نماز میں حضور قلب

نماز ایک ملکوتی اور معنوی مرکب ہے کہ جس کی ہر جزو میں ایک مصلحت اور راز مخفی ہے_ اللہ تعالی سے راز و نیاز انس محبت کا وسیلہ اور ارتباط ہے_ قرب الہی اور تکامل کا بہترین وسیلہ ہے_ مومن کے لئے معراج ہے برائیوں اور منکرات سے روکنی والی ہے_ معنویت اور روحانیت کا صاف اور شفاف چشمہ ہے جو بھی دن رات میں پانچ دفعہ اس میں جائے نفسانی آلودگی اور گندگی سے پاک ہو جاتا ہے اللہ تعالی کی بڑی امانت اور اعمال کے قبول ہونے کا معیار اور ترازو ہے_

نماز آسمانی راز و اسرار سے پر ایک طرح کا مرکب ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ اس میں روح اور زندگی ہو_ نماز کی روح حضور قلب اور معبود کی طرف توجہہ اور اس کے سامنے خضوع اور خشوع ہے_ رکوع اور سجود قرات اور ذکر تشہد اور سلام نماز کی شکل اور صورت کو تشکیل دیتے ہیں_ اللہ تعالی کی طرف توجہ اور حضور قلب نماز کے لئے روح کی مانند ہے_ جیسے جسم روح کے بغیر مردہ اور بے خاصیت ہے نماز بھی بغیر حضور قلب اور توجہ کے گرچہ تکلیف شرعی تو ساقط ہو جاتی ہے لیکن نماز پڑھنے والے کو اعلی مراتب تک نہیں پہنچاتی نماز کی سب سے زیادہ غرض اور غایت اللہ تعالی کی یاد اور ذکر کرنا ہوتا ہے_ خداوند عالم پیغمبر علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ '' نماز کو میری یاد کے لئے برپا کر_( ۴۶۴)

قرآن مجید میں نماز جمعہ کو بطور ذکر کہا گیا ہے یعنی '' اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو موجب نماز جمعہ کے لئے آواز دی جائی تو اللہ تعالی کے ذکر کی طرف جلدی کرو_(۴۶۵)

نماز کے قبول ہونے کا معیار حضور قلب کی مقدار پر قرار پاتا ہے جتنا نماز میں حضور قلب ہوگا اتنا ہی نماز مورد قبول واقع ہوگی_ اسی لئے احادیث میں حضور قلب کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے_ جیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے ''کبھی آدھی نماز قبول ہوتی ہے اور کبھی تیسرا حصہ اور کبھی چوتھائی اور کبھی پانچواں حصہ

۲۵۸

اور کبھی دسواں حصہ_ بعض نمازیں پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر نماز پڑھنے والے کے سرپر مار دی جاتی ہے_ تیری نماز اتنی مقدر قبول کی جائیگی جتنی مقدار تو خدا کی طرف توجہ کرے گا_( ۴۶۶) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خدا اس کی طرف توجہہ کرتا ہے اور اپنی توجہ کو اس سے نہیں ہٹاتا مگر جب تین دفعہ وہ خدا سے غافل ہو جائے اس وقت خداوند عالم بھی اس سے اعراض اور روگردانی کر لیتا ہے_(۴۶۷)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سستی اور بیہودہ حالت میں نماز نہ پڑھو_ نماز کی حالت میں اپنی فکر میں نہ رہو کیونکہ تم خدا کے سامنے کھڑے ہو_ جان لو کہ نماز سے اتنی مقدار قبول ہوتی ہے جتنی مقدار تیرا دل اللہ کی طرف توجہ کرے گا_(۸ ۴۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو بندہ نماز کی حالت میں خدا کے علاوہ کسی کی طرف متوجہ ہو تو خدا اس سے کہتا ہے کہ اے میرے بندے کس کا ارادہ کیا ہے اور کس کو طلب کرتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو خالق اور حفاظت کرنے والا ڈھونڈتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو بخشنے والا طلب کرتے ہو؟ جب کہ میں کریم اور بخشنے والوں سے زیادہ کریم اور بخشنے والا ہوں اور سب سے زیادہ عطا کرنے والا ہوں میں تمہیں اتنا ثواب دونگا کہ جسے شمار نہیں کیا سکے گا میری طرف توجہ کر کیونکہ میں اور میرے فرشتے تیری طرف توجہ کر رہے ہیں اگر نمازی نے خدا کی طرف توجہ کی تو اس دفعہ اس کے گزرے ہوئے گناہ مٹ جاتے ہیں اور اس نے دوسری دفعہ خدا کے علاوہ کسی طرف توجہہ کی تو خداوند عالم دوبارہ اسے سابقہ گفتگو کی طرح خطاب کرتا ہے اگر اس نے نماز کی طرف توجہ کر لی تو اس کا غفلت کرنے والا گناہ بخشنا جاتا ہے اور اس کے آثار زائل ہوجاتے ہیں اور اگر تیسری دفعہ نماز سے توجہہ ہٹا لے خدا

۲۵۹

پھر بھی پہلے کی طرح اسے خطاب کرتا ہے اگر اس دفعہ نماز کی توجہ کر لے تو اس دفعہ اس کا غفلت والا گناہ بخش دیا جاتا ہے اور اگر چوتھی دفعہ نماز سے توجہ ہٹا لے تو خدا اور اس کے ملائکہ اس سے توجہ ہٹا لیتے ہیں_ خدا اس سے کہتا ہے کہ تجھے اسی کی طرف چھوڑے دیا ہے کہ جس کی طرف توجہ کر رہا ہے_(۴۶۹)

نماز کی ارزش اور قیمت خدا کی طرف توجہ اور حضور قلب سے ہوتی ہے توجہ اور حضور قلب کی مقدار جتنا اسے باطنی صفا اور تقرب الی اللہ حاصل ہوتا ہے_ بلا وجہ انبیاء علیہم السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء کرام نماز کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے_ امیر المومنین علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھا تو آپ کے بدن پر لزرہ طاری ہوجاتا تھا اور آپکے چہرے کا رنگ بدن جاتا تھا_

آپ سے تبدیلی اور اضطراب کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا ''کہ اس وقت اس امانت کے ادا کرنے کا وقت آپہنچا ہے جو آسمان اور زمین پر ڈالی گئی تھی لیکن وہ ڈرگئے تھے اور اس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن انسان نے اس بڑے امانت کے اٹھانے کو قبول کر لیا تھا میرا خوف اس لئے ہے کہ آیا میں اس امانت کو ادا کر لونگا یا نہ؟(۴۷۰)

امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے احوال میں کہا گیا ہے کہ نماز کے وقت ان کے چہرے کا رنگ زرد اور سرخ ہو جاتا تھا اور نماز کی حالت میں اس طرح ہوتے تھے کہ گویا اس گفتگو کر رہے ہیں کہ جسے وہ دیکھ رہے ہیں_(۴۷۱)

امام زین العابدین کے حالات میں لکھا ہے کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو آپ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا تھا اور ایک حقیر بندے کی طرح خدا کے سامنے کھڑے ہوتے تھے آپ کے بدن کے اعضاء خدا کے خوف سے لرزتے تھے اور آپ کی نماز ہمیشہ و داعی اور آخری نماز کی طرح ہوا کرتی تھی کہ گویا آپ اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھ سکیں گے_(۴۷۲)

حضرت زہرا علیہا السلام کے بارے میں ہے کہ نماز کی حالت میں سخت خوف کی

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333