المیہ جمعرات

المیہ جمعرات23%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104083 / ڈاؤنلوڈ: 4470
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

كيا اس صورتحال ميں حفصہ سے رسول خدا كى شادى ايك بيوہ كى نفسياتى شكست اور عثمان و ابوبكر سے ازردگى ختم كرنے كيلئے نہيں تھى ؟

اسى زمانے ميں دوسرى خواتين جيسے ام سلمہ جو بڑى عمر كى اور صاحب اولاد تھيں اور ان كے شوھر جنگ احد ميں مارے گئے تھے ،شھر غربت ميںكيا كر سكتى تھيں كيا ان كے لئے ايسا ممكن تھا كہ اسى خانوادے ميں واپس جائيں جنكے تشدد سے تنگ اكر انھوں نے حبشہ كى طرف فرار كيا تھا _

يا وہ دوسرى خاتون زينب بنت خزيمہ جنكى رسول خدا سے پہلے دو مرد وں سے شادياں ہوئي تھيں اور دوسرے شوہر جنگ احد ميں شھيد ہوئے تھے ، وہ اپنى زندگى كے دن كيسے كاٹ سكتى تھيں ؟

اسى طرح ابو سفيان كى بيٹى ام حبيبہ جو اپنے خاندان كى سختيوں سے تنگ اكر اپنے شوہر كے ساتھ حبشہ بھاگ گئي تھيں ، وہاں ان كے شوہر كا انتقال ہوگيا انكى بيچارگى كا درمان سوائے اس كے اور كيا تھا كہ رسول كے زير سايہ اجائيں ام حبيبہ اسى ابو سفيان كى بيٹى ہيں جس نے اسلام كا نام و نشان مٹانے اور رسول خدا كو ذليل كرنے كيلئے كوئي پاپ نہيں چھوڑا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف جو بھى سركشى كا پرچم بلند ہوا اسكا بانى مبانى ابو سفيان ، اپ نے اسى ابو سفيان كى ابرو كا اسطرح تحفظ فرمايا كہ جسكا گمان بھى نہيں كيا جاسكتا تھا ، ہاں ، اگر قريش نے ابو سفيان كى سر كشى ميں يہ كوشش كى تھى كہ اپ كى بيٹيوں كو طلاق دلا كر انكے گھر واپس كرديا جائے اج وہى پيغمبر ہيں ، اسى ابو سفيان كى بيٹى كو حبشہ سے نكاح نامے كے ساتھ اپنى زوجہ بنا ليا ، انھيں اعزاز و اكرام كے ساتھ مدينہ بلوايا ، يعنى انھيں عرب كے شريف ترين شخص كى خاتون بنا ليا ، رسول خدا خانوادہ ء عبد المطلب سے جو تھے يہى وہ بات تھى كہ ابو سفيان جھومنے لگا ، اور ايسا جملہ زبان سے نكالا جو ہميشہ كيلئے ضرب المثل بن گياذالك الفحل لا يقدع انفه _

يہ وہ مرد ہے كہ اسكى ناك نہيں رگڑى جا سكتى اسكے دماغ پر ہتھوڑا نہيں لگايا جا سكتا ، ايسى كردار كى عظمت كا رد عمل تمام بنى اميہ كے افراد خاندان ميں كيا تھى جو كچھ گذشتہ صفحات ميں نقل كيا گيا اسكى مثال ميرے علم ميں تو نہيں ہے ليكن اس واقع كى نطير جو مجھے معلوم ہے قبيلہ بنى المصطلق كے سردار كى بيٹى كى شادى كا واقعہ ، تفصيلى انداز ميں نظر اتا ہے

۴۱

قبيلہ بنى المصطلق خزائمہ كى ايك شاخ تھا ، اور مدينے سے پانچ منزل پر رہتا تھا ، اسكا سردار حارث رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ كرنے كيلئے قبائل عرب كو ملا كر ايك بڑا لشكر تيار كر چكا تھا كہ ناگہان رسول خدا نے اچانك ان پر حملہ كر ديا ،

اس وقت دوسرے قبائل جو اسكى كمك ميں ائے تھے سبھى بھاگ گئے ، رسول خدا نے ان سے اسلام قبول كرنے كو كہا ، انھوں نے قبول نہيں كيا ، جنگ بھڑك اٹھى ، حارث كے قبيلے نے شكست كھا كر ہتھيار ڈال دئے ، قيديوں ميں خود حارث كى بيٹى بھى تھى ، جس انصارى نے اسے اسير كيا تھا رسول خدا نے اسكو خريد كر ازاد كر ديا ، پھر اس سے خود ہى عقد كر ليا ، اور اپنى ازواج ميں شامل كر ليا ، حالانكہ اگر چاہتے تو بطور كنيز اس سے ہم بستر ہوتے ، مسلمانوں نے اس ازدواج كے احترام ميں اپنے تمام قيديوں كو ازاد كر ديا ، اس اعلى ظرفى كى خبر حارث كو ملى تو مدينے ايا اور اسلام قبول كر ليا اسكے بعد تمام قبيلے والے مسلمان ہو گئے ، صلح حديبيہ كے زمانے ميں اسكا قبيلہ اور خزائمہ كا قبيلہ جس طرح قريش ہم پيمان ہوئے تھے يہ بھى ہم پيمان ہوئے _

يہيں سے جنگ زدہ عرب كے قبائل كى حكمت پر نظر جاتى ہے ، وہ لوگ جب چاہتے تھے كہ صلح و اشتى قائم ہو تو ظالم قبيلہ مظلوم قبيلے كو اپنى بيٹى ديديتا تھا ، اور اس طرح شادى بياہ كے ذريعے سياسى رابطہ بر قرار ہو جاتا تھا ، واضح بات ہے كہ رسول خدا كى تمام شادياں اس قاعدے سے مستثنى نہيں تھيں ، مثلاً صفيہ سے اپكا نكاح جو خيبر كے يہودى سردار كى بيٹى تھيں يا ريحانہ جو بنى نظير كے يہوديوں ميں سے تھيں اور اسكا شوہر بنو قريظہ كا يہودى تھا _

اس طرح كى شاديوں سے رسول خدا كا مقصد واضح ہوتا ہے كہ اپ سركش قبائل سے رشتہ قائم كرنا چاہتے تھے ، اس حكمت كى وضاحت اس سے بھى ہوتى ہے كہ اپ نے كوئي ايك رشتہ بھى انصار سے قائم نہيں كيا ، كيونكہ انصار كى بيوہ عورتيں خود اپنے گھر اور ٹھكانے ميں تھيں ، اپنے خاندان ميں تھيں ، ان كو كسى سرپرستى يا معاشى تعاون كى ضرورت نہيں تھى ، بلكہ انصار ہى نے مكہ كے مہاجروں كى مالى مدد كى ، انھيں گھر ، لباس اور كھانا ديا ، ان تمام شاديوں سے رسول خدا كى حكمت عملى روشن ہے صرف دو مواقع ہيں جنكے تجزيے كى ضرورت ہے ، پہلى تو عائشه سے اپ كى شادى ، كيونكہ رسول خدا نے ان سے نو سال پورے ہوتے ہى ازدواج فرمايا ،اور خود ہى يہ رواج موجودہ عادات كے مخالف ہے ،اور جو لوگ شھرى زندگى بسر كرتے ہيں ان كے خصوصيات سے ميل نہيں كھاتا _

اس اعتراض كے جواب ميں اول تو ہم يہ كہيں گے كہ اس عہد كے زمانى و مكانى حالت كو اج كے زمانى و مكانى حالت پر قياس كرنا غلط ہے ، ہم يہ بھى كہيں گے كہ خود رسول ہى نے ايسى كم عمر ميں شادى نہيں كى ، بلكہ اپ نے بھى اپنى پيارى بيٹى كا عقد نو سال ہى كى عمر ميں كيا ،اور يہ بات اسلامى قانونى لحاظ سے صحيح ہے دوسرے يہ كہ انسان كى فطرت ہے كہ گرم شہروں ميں جلد بالغ ہو جاتا ہے اور جلد ہى ٹوٹ پھوٹ بھى جاتا ہے ، يہ چيز اج ہندوستان ميں ديكھى

۴۲

جا سكتى ہے ، وہاں كى اكثر لڑكياں جلد بالغ اور بچے والى ہو جاتى ہيں اور جلد ہى بوڑھى بھى ہوجاتى ہيں ، اسى كے مقابل تبتى كہساروں معاملہ اس كے الٹا ہے ، جيسا كہ كہا جاتا ہے وہاں مردوں كا سن كبھى كبھى دو سو سال تك پہونچ جاتا ہے اور سو سال ميں وہ جوان نظر اتا ہے _

دوسرا واقعہ زينب بنت جحش كے نكاح كا ہے ، جو رسول كے منھ بولے بيٹے اسامہ كى مطلقہ تھيں ، اس ازدواج كى حكمت ميں نے وہيں بيان كى ہے _

ان تمام تجزيوں سے رسول خدا كى متعدد ازواج كى حكمت واضح ہے پھر ان كے بارے ميں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ اخر كيا بات ہوتى كہ رسول خدا كے خلاف بد گمانى اور غلط فہمى تعدد ازواج كے بارے ميں پيدا ہو گئي ، اس سوال كا جواب يہ ہے كہ جس وقت ہم نے حديث و سيرت كے تجزيے كئے تو ہم نے ديكھا كہ تمام غلط فہمياں صرف اور صرف ان حديثوں سے رسول خدا كے عورت باز ہونے كى نشان دہى ہوتى ہے ، اور خود يہى اہم ترين مسئلہ اس كتاب كے لكھنے كا سبب بنا ہے _

ايندہ فصلوں ميں ہم بعض روايات پر بحث كريں گے _

عائشه رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر ميں

رشك، و غيرت

ہم نے بتايا كہ عائشه نفسياتى اعتبار سے بلند پرواز جاہ طلب ، تند خو اور شوھر كے لئے دل ميں رشك برتنے والى تھيں ، وہ شوہر كے دل ميں دوسرے كو جاگزيں نہيں ديكھ سكتى تھيں _

ان كے شديد غيرت و حسد كا نمونہ اس وقت نظر اتا ہے جب رسول خدا نے وقتى مصلحت كے تحت دوسرى شادى كى _

عائشه كا حسد اس وقت سامنے اتا ہے جب ام سلمہ زينب اور دوسرى خواتين رسول كے گھر ميں ائيں ، اس دور ميں ان لوگوں كا نام درميان ميں اتا ہے اور بے جھجھك اپنے اندرونى احساسات كو بغير كسى پردہ پوشى كے ظاہر كيا ہے ، اور اپنى شديد غيرت كو لچر اور بے بنياد خيالات ميں بيان كيا ہے _ خاص كر ان راتوں ميں جب رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا عبادت كے لئے گھر سے نكلتے ہيں ، رسول خدا اندھيرى راتوں ميں جس وقت كے تمام دينا سكون و اطميان سے سو رہى ہوتى

۴۳

اپنے خدا سے راز و نياز ميں مصروف ہو جاتے ، كچھ رات گذرتى تو خداسے خلوت و عبادت كرتے ، اس قسم كى عبادت كا اقدام اسطرح ہوتا كہ رسول خدا كى ہر رات كسى زوجہ كيلئے مخصوص ہوتى ، يہى وجہ تھى كہ كچھ رات گذرنے كے بعد گھر سے باہر نكلتے جيسے مسجد ميں يا بقيع كے قبرستان ميں جاتے ، اور وہيں عبادت كرتے ، اسى طرح ايك رات جبكہ عائشه كى بارى تھى ، رسول خدا كو انھيں كے گھر رہنا تھا ، جس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے كچھ رات گذرنے كے بعد عبادت كے لئے گھر سے قدم نكالا عائشه كى نسوانى رشك و غيرت بھڑك اٹھى ، انھوں نے رسول خدا كا تعاقب كيا ، ان كے پيچھے پيچھے چليں تاكہ يہ ديكھيں كہ رسول خدا كہاں جا رہے ہيں اور كيا كر رہے ہيں ؟

عائشه نے خود ہى مختلف مواقع اور مختلف راتوں ميں اس تعاقب كے نمونے بيان كئے ہيں ، ايئےم انھيں كى زبانى سنيں _

راتوں كا تعاقب

عائشه كہتى ہيں ، ايك رات ميں نے محسوس كيا كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنے بستر پر نہيں ہيں ، ميرے غم و غصے سے بھرے و سوسے اور خيالات نے اس گمان پر مجبوركيا كہ يقينى طور سے كسى دوسرى عورت كے يہاں گئے ہيں ، يہ سوچكر ميں اپنى جگہ سے اٹھى اور انھيں تلاش كرنے لگى كہ ناگاہ انھيں مسجد ميں پايا ، وہ مسجد ميں پڑے فرما رہے تھے _

ربّ اغفرلى (خدا يا مجھے بخش دے )(۲) _

ايك اور جگہ فرماتى ہيں :

ميں نے ايك رات ديكھا كہ پيغمبر اپنے بستر پر نہيں ہيں ميں نے دل ميں سوچا كہ يقينا كسى دوسرى زوجہ كے يہاں گئے ہيں ، كان كھڑے كر كے ادھر ادھر تلاش كرنے لگى ناگہاں ديكھا كہ بارگاہ خدا وندى ميں ركوع كر رہے ہيں(۳)

ان كا يہ بھى بيان ہے كہ ميں نے ايك رات اپ كو اپنے بستر پر نہيں پايا ، انھيں ڈھونڈھنے كيلئے اپنى جگہ سے اٹھى اور

____________________

۲_ مسند احمد ج۶ /ص ۱۴۷

۳_ مسند احمد ج۶ص ۱۵۱

۴۴

تاريك رات ميں ہر طرف بے اختيار ہاتھ چلانے لگى اچانك ميرا ہاتھ ان كے تلوے پر پڑ گيا ، وہ مسجد كے اندر بارگاہ خدا وندى ميں سجدہ كى حالت ميں فرما رہے تھے(۴) _

اسى طرح وہ فرماتى ہيں :

ايك رات ميرى بارى تھى كہ رسول خدا ميرے گھر رات بسر كريں ، اپ نے عباء دوش سے اتار كر ايك طرف ڈالا ، جوتے ڈھونڈ ھكر بستر كے نزديك پيروں كے پاس ڈالا اسوقت اپنے چادر منھ پر ڈالى اور ليٹ گئے ، دير تك ايسے ہى رہے اس حد تك كہ اندازہ كر ليا كہ ميں سو گئي ہوں پھر اپ اپنى جگہ سے اٹھے دھيرے سے اپنى عبا اٹھائي اسطرح جوتے پہنے كہ اواز نہ ہو ، پھر اپ نے كواڑكھولى اور گھر سے اسطرح نكلے كہ پيروں كى چاپ بھى نہ سنائي دے ، ميں بغير كچھ سونچے اپنى جگہ سے اٹھى ، اپنے كپڑے پہنے ، اوڑھنى سر پر ڈالى اس پر عبا كھينچ كر تيزى كے ساتھ گھر سے نكلى اور ان كا پيچھا كرنے لگى ،ميں نے انھيں بقيع كے قبرستان ميں پايا ، رسول خدا وہاں بيٹھے اور كافى دير ٹھرے رہے پھر ميں نے ديكھا كہ تين بار ہاتھوں كو اسمان كى طرف بلند كيا ،پھر واپس ہوئے ميں بھى واپس ہوئي ،وہ تيز بڑھنے لگے ،ميں بھى تيز چلنے لگى ،وہ اور تيزى سے قدم بڑھائے ميں نے بھى ايسا ہى كيا ، وہ دوڑنے لگے تو ميں بھى دوڑى ، اخر كار ان سے پہلے گھر ميں اگئي اور بس اتنى دير كہ اپنے كپڑے اتار لے اور ليٹ گئي ، اتنے ميں رسول خدا اگئے ، اس وقت ميرى سانس پھول رہى تھى رسول خدا نے فرمايا ، اس طرح تيز سانسيں كيوں لے رہى ہو؟

كچھ نہيں ، اے خدا كے رسول

تم خود كہو گى يا ميرا واقفكار خدا اس راز سے اگاہ كرے گا ؟

ميرے ماں باپ فدا ہوں ، بات اصل ميں ايسى اور ايسى تھي

اچھا تو وہ سياہى جو ميرے اگے اگے تھى وہ تم تھيں ؟

جى ہاں _اسوقت رسول خدا نے ہتھيلى سے ميرى پشت پر اسقدر زور سے مارا كہ درد ہونے لگا _

تو نے ايسا گمان كيا تھا كہ خدا و رسول تيرے اوپر ظلم كريں گے ؟(۵)

____________________

۴_ مسند احمد ج۶ ص۵۸ و ج۶ ص۲۰۱

۵_ مسند احمد ج۶ ص۲۱ ۲

۴۵

يہ بھى بيان ہے :

ايك رات رسول خدا ميرے پاس سے نكل كھڑے ہوئے ميرى غيرت اور حسد خويش ميں ايا ، غصے ميں بھر گئي ، جب انحضڑت واپس ائے اور ميرا حال ديكھا تو وجہ پوچھى ، اور فرمايا عائشه تجھے كيا ہوگيا ہے پھر بھى تو حسد اور غصہ كرتى ہے _

اخر ميرے جيسى اپ جيسے كى حسد كيوں نہ كرے _

تو پھر اپنے شيطان كے جال ميں پھنس گئي ہے(۶)

يہ بھى بيان ہے :

جب كچھ رات گذر گئي ، رسول خدا اٹھے اور گھر سے نكل گئے ميں نے گمان كيا كہ كسى زوجہ كے گھر گئے ہوں گے _

پھر ميں اٹھى اور دھيرے دھيرے ان كا پيچھا كرنے لگى ، يہاں تك كہ اپ بقيع كے قبرستان ميں گئے ، وہاں اپ بيٹھ گئے ، اور ان مومنوں سے جو ابدى نيند سوئے ہوئے تھے خطاب فرمايا :

اے گروہ مومنين تم پرصلوات

اچانك اپ مڑے تو مجھے اپنا پيچھا كرتے پايا تو فرمايا :

وائے ہو اس پر ، اگر قابو چلے تو كيا كيا كر گذرے(۷)

عائشه اور ديگر ازواج رسول (ص)

مد بھيڑ _سوتاپا

ام المومنين عائشه سے رنگ و صورت سے رشك و حسد اور نسوانى غيرت ، اور بد خلقى ظاہر ہوئي ہے ، جس كے نمونے دوسرى ازواج رسول كے لئے اپے سے باہر ہونے ، برتن توڑنے اور كھانوں كو پھينكنے ، چال ڈھال كے ڈھنگ اور مد بھيڑوں ميں نظر اتے ہيں ، ميں نے ان دونوں باتوں كى الگ الگ طريقے سے بحث و تحقيق كى ہے ، پہلے عائشه كے رد عمل كو پيش كرونگا كہ دوسرى خواتين نے رسول خدا كے لئے كھانا تيار كر كے خدمت ميں حاضر كيا تو عائشه كا رد عمل كيا ہوا ، اسكے بعد دوسرى ازواج رسول سے انكى مد بھيڑوں كو مورد بحث و تحقيق قرار دوں گا _

____________________

۶_مسند احمد ج۶ ص ۱۱۵

۷_ مسند احمد ,ج۶صفحات ۸۶ و ۱۱۱, بروايت قاسم مسند طيالمى حديث ۱۴۲۹

۴۶

بد حواسياں

فلما رايت الجاريه اخذتنى رعدة حتى استقلنى افكل ، فضربت القصعة فرميت بها

ميں نے جيسے ہى كھانے لئے ہوئي كنيز كو ديكھا تو ميں تھر تھر كانپنے لگى ، پھر تو ميں نے بد حواسى ميں كھانے كا برتن تھاما اور دور پھينك ديا _

اتفاق ايسا ہوا كہ انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عائشه كے گھر ميں تھے ، ايك دوسرى زوجہ نے اپ كے لئے كھانا تيار كر كے بھيجا اس وقت ام المومنين قابو سے باہر ہو گئيں اور شديد رد عمل ميں ايسا غصہ دكھايا كہ اسكے نمونے يہاں پيش كئے جاتے ہيں

عائشه اور ام سلمہ كى غذا

ايك دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عائشه كے گھر ميں تھے ام سلمہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے كھانا تيار كر كے ايك برتن ميں ركھ كر بھيجا ، عائشه كو پہلے يہ ام سلمہ كى ہى يہ خوش خدمتى معلوم ہو گئي تھى وہ خود كو عبا ميں لپيٹے ہوئي تھيں ، ہاتھ ميں پتھر تھا ،اسى پتھر سے كھانے كے برتن كو ايسا مارا كہ برتن ٹوٹ گيا ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عائشه كى يہ حركت ديكھى تو اس برتن كے بدلے دوسرا برتن ام سلمہ كے لئے بھيج ديا(۸)

عائشه اور حفصہ كا كھانا

خود ہى عائشه كا بيان ہے:

ميں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے لئے كھانا تيار كيا تھا ، اتنے ميں مجھے خبر ملى كہ حفصہ نے بھى ايسا ہى كيا ہے ، ميں نے اپنى كنيز كو حكم ديا كہ تيار رہو اگر ديكھنا كہ حفصہ مجھ سے پہلے كھانا لے ائي ہے تو اس سے چھين كر دور پھينك دينا ، كنيز حكم بجا لائي اور ايسا ہى كيا ، نتيجے ميں حفصہ كے كھانے كا برتن ٹوٹ گيا اور جو كچھ برتن ميں تھا چرمى دستر خوان پر بكھر گيا ،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بذات خود گرے ہوئے كھانے كو جمع كر كے مجھ سے فرمايا :

اپنا برتن لائو اور حفصہ كے ٹوٹے برتن كے بدلے اسے بھيج دو(۹)

____________________

۸ _ صحيح مسلم باب الغيرة

۹_ مسند احمد ج۶ /۱۱۱،و كنزالعمال ج۴ ,ص۴۴

۴۷

عائشه اور صفيہ كا كھانا

صفيہ كا تعارف گذشتہ صفحات ميں كيا گيا ، اب ذرا ام المومنين عائشه كے بارے ميں بھى سنئے ، خود عائشه كى زبانى كھانے كا برتن دور پھينكنا اور صفيہ كا برتن ٹوٹنا ملاحظہ فرمايئے عائشه كہتى ہيں :

ايك دن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ميرے گھر ميں تھے ، صفيہ نے كھانا پكا كر انحضرت كى خدمت ميں بھيجا ، جب ميں نے كھانا لئے ہوئے كنيز كو ديكھا تو ميرے جسم مين لرزہ پڑ گيا يہاں تك كہ ميں نے بد حواسى ميں كھانے كا برتن چھين كر دور پھينك ديا ، ميں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى انكھيں غصے سے لال ديكھيں ان كے تمام وجود سے غم و غصہ جھلك رہا تھا ، ميں نے فوڑاً كہا :

رسول خدا كے غصے سے حضرت كى پناہ چاہتى ہوں ، مجھے اميد ہے كہ نفرين نہ فرمائيں گے ، تو بہ كرو _

اب ميں اس عمل كى تلافى كيسے كروں ؟

ويسا ہى كھانا بھيجو اور ويسا ہى برتن فراہم كر كے بدلے ميں بھيجو(۱۰) _

مد بھيڑيں

تغار على قلب زوجها ، فلا تريد ان تشاركها فيه انثى غيرها

عائشه اپنے شوہر پر بہت حاسد تھيں يہ حداست تھا كہ اپنے سوا دوسرى عورت كے لئے شوہر كے دل ميں ذرا گنجائشے نہيں ديكھ سكتى تھيں اب موقع ہے كہ ديگر ازواج رسول سے ام المومنين عائشه كى تند مد بھيڑوں اور گرما گرم اقدامات كا مطالبہ كيا جائے_

عائشه و صفيہ

عائشه اور صفيہ ايك گھر يلو مد بھيڑ ميں ايك دوسرے كے ساتھ بد كلامى كرنے لگيں طعنہ زنى كے ساتھ مار پيٹ كرنے لگيں _

جب رسول خدا كو ان دونوں كے جھگڑے اور دعوے كى خبر ہوئي تو صفيہ سے فرمايا جو عائشه كى ملامت اور ڈينگو ں سے سخت رنجيدہ تھيں تم نے يہ كيوں نہ كہا كہ ميرے باپ ہارون تھے اور چچا حضرت موسى تھے ؟(۱۱)

____________________

۱۰_ مسند احمد ج ۶ ص ۲۷۷ ،۱۴۴_ نسائي ج۲ ص ۱۵۹، سيرة حلبيہ ۲۸۳ ،۲۸۴

۱۱_ طبقات ابن سعد ج,۸

۴۸

خود عائشه كا بيان ہے :

ميں نے رسول خدا سے شكايت كرتے ہوئے كہا كہ صفيہ ايسى اور ويسى ہے ، ميں نے اسكى بڑى مذمت كى رسول خدا نے ميرا جواب ديا :

صفيہ كے بارے ميں تم نے ايسى باتيں كہى ہيں كہ اس سے سمندر بھى گندہ ہو جائے(۱۲)

صفيہ كا بيان ہے :

ميں رسول خدا كى خدمت ميں روتى ہوئي پہونچى ،مجھے روتے ہوئے ديكھا تو فرمايا :

جس كى بيٹى كيو ں رورہى ہو؟

ميں نے سنا ہے كہ عائشه و صفيہ بيٹھ كر ميرى برائياں كرتى ہيں(۱۳)

سودہ كے ساتھ

ام المومنين عائشه كا سودہ كے ساتھ دعوى اور تھپڑ بازى كا قصہ يوںپيش ايا كہ ايك دن عائشه نے سودہ كوشعر گنگنا تے ہوئے سن ليا ،عدى و تيم تبتغى من تحالف_

عدى اور تيم (دونوں كے نام ہيں ) اس بات كے در پے ہيں كہ ايك دوسرے كے ساتھ تعاون كے ہم پيمان ہوں _

سودہ سے يہ شعر سن كر ام المومنين لال بھبھوكا سرخ انگارہ ہوگئيں _

عمر كى بيٹى حفصہ سے كہا :

سودہ اپنے شعر سے ميرى اور تمھارى مذمت كر رہى ہے(۱۴) ميں اس بد تميزى كى سزا دونگى جب تم ديكھنا كہ ميں سودہ كا گلا دبا ديا ہے تو ميرى مدد كو اجانا _

پھر وہ اٹھيں اور سودہ كے پاس پہونچى ان كا گريبان پكڑ ليا ، اور ان كے اوپر گھونسے اور لاتيںبرسانے لگيں ، حفصہ بھى ام المومنين كى پشتيبانى ميں كھڑى تھيں ، ام سلمہ نے يہ منظر ديكھا تو سودہ كى مدد كرنے پہونچ گئيں _

____________________

۱۲_ ترمذى بحوالہ زر كشى اجابہ ص۷۳

۱۳_ مستدرك الصحيحين ج۴ ، ص۲۹

۱۴_ جيسا كہ بيان كيا گيا عائشہ قبيلہء تيم سے تھيں اور حفصہ قبيلہء عدى سے يہ دونوں تيم و عدى قبيلے الگ الگ قريش كے قبيلے تھے

۴۹

اب تو چار عورتيں غصے اور كينہ توزى كا مظاہرہ كر رہى تھيں ، نتيجے ميں گھوسے بازى سے اواز تيز ہوتى گئي ، لوگوں نے رسول خدا كو خبر دى كہ اپ كے ازواج جان لينے دينے پر امادہ ہيں ، انحضرت تشريف لائے اور ان سے خطاب فرمايا :

تم سب پر افسوس ہے اخر تم لوگوں كو كيا ہو گيا ہے ؟

عائشه نے جواب ديا :

خدا كے رسول اپ نے سنا نہيں كہ سودہ يہ شعر پڑھ رہى ہے عدى و تيم تبتغى من تحالف _

وائے ہو تم پر ، اس شعر مين تمھارے قبيلہ تيم كى طرف نہيں ہے نہ حفصہ كے قبيلہ عدى كى طرف اشارہ ہے ، بلكہ يہ تو بنى تيم كے دو قبيلوں كى طرف اشارہ ہے _

بے مہر يہ عورتوں كے ساتھ

عائشه كا بيان ہے:

ايسى عورتوں پر جو بغير مہر لئے اپنے كو رسول خدا كيلئے پيش كرتيں اور اپ كى زوجہ بننے كى خواہشمند ہوتيں ، ميرا خون

جوش مارنے لگتا ، مارے غصے كے ميں ان سے كہتى ، كيا ازاد اور اہميت والى عورت بھى خود كو دوسروں كے لئے بخشتى ہے ؟

خاص طور سے ايسے وقت جبكہ يہ آيت نازل ہوئي ،اپنى ازواج ميں سے جسے چاہو الگ كردو اور جسے چاہو اپنے لئے ركھو ، تمھارے اوپر كوئي گناہ نہيں (سورہ احزاب آيت ۵۰_ ۵۱)

ميں نے رسول خدا كى طرف رخ كر كے كہا ، ميں ديكھ رہى ہوں كہ خدا بھى اپ كى خواہش كے مطابق آيت اتار ديتا ہے(۱۵)

ابن سعد نے اپنى طبقات ميں تفصيلى طور سے خواتين كے بارے ميں جنھوں نے بغير مہر لئے اپنے كو رسول كے لئے پيش كيا ، اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زوجہ بننے كى خواہش كى ان كے بارے ميں قلم فرسائي كى ہے ، خاص طور سے اس خاتون كے لئے جن كے بارے ميں ابھى اشارہ كيا گيا ، اسكا نام شريك اورغزيہ بتايا ہے(۱۶) اسى بات كو ابن حجر نے بھى كتاب اصابہ ميں تفصيل سے لكھا ہے(۱۷)

____________________

۱۵_ صحيح بخارى تفسير سورہ احزاب ميں ج۳ ص۱۱۸_ صحيح مسلم ج۴ ص ۲۷۴

۱۶_ طبقات بن سعدج ۸ص ۱۵۴_۱۵۶

۱۷_ اصابہ ابن حجر ج۴ ص ۳۶۱و ۱۷۴

۵۰

ليكن بطور كلى علماء نے ان متذكرہ خاتون كے بارے ميں جسكى طرف قران نے اشارہ كيا ہے ، اختلاف كيا ہے ، اور يہ اختلاف اس صورت سے ہے كہ جس خاتون يا جن خواتين نے اپنے كو بے مہر لئے خدمت رسالت ميں پيش كيا اور ام المومنين عائشه كے غم و غصے كا شكار ہوئيں وہ ايك ہيں يا كئي عورتيں ہيں ، اگر چہ آيت صرف ايك عورت كے بارے ميں نازل ہوئي ہے ، افسوسناك بات تو يہ ہے كہ اس خاتون كے نام كى اج تك نشاندہى نہيں ہو سكى _

ليكن اس دليل سے كہ عائشه نے جن خواتين كيلئے غم و غصہ ظاہر كيا اسے جمع كے لفظ سے بيان كيا ہے (كنت انحا ء على اللائي و هبن )

( ميں ان عورتوں پر جو بے مہر لئے )اس سے ثابت ہوتا ہے كہ وہ كئي خواتين تھيں امام احمد نے اپنى مسند ميں اس بات كو جمع كى ضمير كے ساتھ ام المومنين كى طرف نسبت دى ہے _

وہ (عائشه )ان عورتوں كو ملامت كرنے لگيں جنہوں نے اپنے كو بغير مہر لئے رسول كى خدمت ميں پيش كيا(۱۸)

مسلم نے اپنى صحيح ميں ھشام كى روايت نقل كى ہے كہ خولہ بنت حكيم ان عورتوں ميں تھيں جنھوں نے بغير مہر لئے رسول

سے ازدواج كى خواہش ظاہر كى ، اور اپنے كو رسول كے لئے بخشا ، عائشه اس بات پر بہت غصہ ہوئيں اور كہاكيا يہ عورت كيلئے شرمناك نہيں ہے كہ خود كو كسى مرد كيلئے بخشے اور بغير مہر كے ازدواج كى خواہش كرے(۱۹)

مليكہ كے ساتھ

رسول خدا نے فتح مكہ كے بعد مليكہ بنت كعب سے عقد فرمايا ، مليكہ كے باپ كعب فتح مكہ كے موقع پر خالد كے ہاتھوں قتل ہوئے تھے _

كہتے ہيں كہ مليكہ انتہائي حسين و خوبصورت عورت تھى ، گويا اس وصال سے عائشه كا نفرت و عناد بر انگيختہ ہونا بنيادى بات ہو سكتى ہے كيونكہ عائشه اپنى خاص موقع شناسى اور نسوانى تندى احساس لئے ہوئے مليكہ سے مليں اور كہا ، تمھيں شرم نہيں اتى كہ اپنے باپ كے قاتل كو شوہر بنا ليا ہے ؟

____________________

۱۸_ مسند احمد ج۴ ص ۱۳۴ _ صحيح بخارى ج۴ ص ۱۶۲ - ابن ھشام ج۴ ص ۳۲۵ _

۱۹_ صحيح مسلم ج۳ ص ۱۶۳

۵۱

مليكہ اسانى سے عائشه كى اس سرزنش كا شكار ہوگئيں اور ايسا دھوكہ كھايا كہ رسول خدا سے الگ ہو گئيں ، رسول خدا نے بھى انھيں طلاق ديدى اس كے رشتہ دار رسول خدا كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور كہا كہ :

اے خدا كے رسول وہ ابھى نوجوان ہے ، وہ دھوكہ كھا گئي ہے ، اس سے جو رد عمل ظاہر ہوا ہے اس كى اپنى رائے سے نہيں ہوا ہے اسے معاف كر ديجئے اور واپس بلا ليجئے ، ليكن رسول خدا نے اسے قبو ل نہ فرمايا(۲۰)

اسماء كے ساتھ

اسماء بنت لقمان قبيلہ كندہ كى خاتون تھيں ، وہ خاص طور سے عائشه كے رشك و حسد كا شكار ہوئيں ، رسول خدا نے اسماء سے عقد فرمايا عائشه تو اس قسم كى باتوں ميں سخت حساس ہو ہى جاتى تھيں اسكى مسافر ت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قبضے ميں كر ليا اور طعنہ ديا كہ ،

( اب دوسرى بار اوارہ وطن ہے اور انھيں بھى ہم سے چھين كر اپنے لئے خاص ، ہم سے لے لى )

قبيلہ كندہ كا ايك وفد جسميں اسماء كا باپ لقمان بھى تھا ، رسول خدا كى خدمت ميں ايا رسول خدا نے ان سے اسماء كى خواستگارى كى جب رسول كى ازواج نے اسماء كو ديكھا تو رشك كرنے لگيں اور رسول كى نظر سے گرانے كے لئے مكارى سے بوليں ،اگر خوش قسمت بننا چاہتى ہو تو جسوقت رسول خدا تمھارے پاس ائيں ان سے كہو ،تم سے خدا كى پناہ چاہتى ہوں اسماء اسانى سے دھوكہ كھا گئي ، جيسے ہى رسول خدا نے كمرے ميں قدم ركھا اور اس كى طرف بڑھے ، اسماء نے كہا :

تم سے خدا كى پناہ چاہتى ہوں

جو بھى خدا كى پناہ طلب كرے ، وہ اسكى امان ميں ہے ، اب تم اپنے گھر واپس جائو ، اپ غصے ميں بھرے كمرے سے باہر نكل ائے اسماء كا واقعہ حمزہ بن ابواسيد ساعدى اپنے باپ سے روايت كرتے ہوئے اسطرح نقل كرتے ہيں ، رسول خدا نے قبيلہ جون و كندہ كى اسماء بنت نعمان سے عقد كيا ، مجھے بھيجا كہ اسے جاكر لے ائوں وہ ائي تو عائشه و حفصہ نے سازش كى كہ اسے ايك خضاب كرے اور دوسرى سر ميں كنگھى كرے اسى درميان دونوں ميں سے كسى نے ايك نے اسماء سے كہا :

____________________

۲۰_ طبقات ابن سعد ج۸ ص ۱۴۸_ تاريخ ذھبى ج۱ ص ۳۳۵ _ تاريخ ابن كثيرہ ج۵ ص ۱۹۹ _ اصابہ ج۴ ص ۳۹۲

۵۲

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس عورت سے خوش ہوتے ہيں جو كہتى ہے كہ ميں خدا كى پناہ طلب كرتى ہوں ، تم بھى اگر انكى پيارى بننا چاہتى ہو تو ايسا ہى كہو ،رسول خدا اسماء كے پاس ائے تو جيسا اسے پڑھايا گيا تھا اس نے رسول خدا سے كہا ، اپ سے خدا كى پناہ طلب كرتى ہوں ،يہ سنتے ہى رسول خدا نے استين سے اپنا منھ چھپا كر تين بار فرمايا:

تو نے سب سے بڑى پناہ پكڑى ، پھر اپ كمرے سے باہر اگئے اور مجھ سے فرمايا :

ابو اسيد اسكو اسكے خاندان ميں واپس پہونچا دو اور دو روٹى بھر كے تھيلے بطور تحفہ ديدينا اسماء اس اچانك واقعے سے سناٹے ميں تھى ، جو فريب ديا گيا تھا ،اسكى وجہ سے بہت رنجيدہ تھى عمر بھر اس واقع كو ياد كرتى رہى ، وہ كہتى تھى اب مجھے اسماء نہ كہا كرو بلكہ بد بخت كہا كرو اور اسطرح پكا را كرو ادعونى الشقية (ميرے لئے بد بخت كو بلا دو )(۲۱)

اس واقع سے معلوم ہوتا ہے كہ جن خواتين نےام المومنين كے سكھانے پڑھانے سے خدا كى پناہ طلب كى وہ ايك سے زيادہ تھيں _

____________________

۲۱_ ذيل المذيل طبرى ج۱۲ ص۷۹ و مستدرك حاكم ج۷ ص۳۴ _ استيعاب ج۲ ص ۷۰۳ _ اصابہ ج۳ ص ۵۳۰ ۹۵ ميں ہے كہ اسماء تمام عمر خون تھوكتى رہى اسے دق ہو گئي تھى اور وہ مر گئي _

۵۳

ماريہ كے ساتھ

اسكندريہ كے حكمراں مقوقس ۷ھ اپنے بوڑھے بھائي مابور كے ساتھ ماريہ اور اسكى بہن شيريں كو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے ايلچى حاطب(۱) بن بلتعہ كے ساتھ انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں ہديہ بھيجا ، انھيں كے ساتھ ہزار مثقال سونا ، بيس ريشمى كپڑے ، مشھور خچر دلدل اور عفير نام كا گدھا روانہ كيا ، حاطب نے راستے ميں ماريہ اور شيريں كو اسلام قبول كرنے كيلئے كہا ان دونوں نے خوشى سے اسلام قبول كر ليا ، ليكن مابور مدينہ پہونچنے تك اپنے دين پر باقى تھا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ماريہ كو اپنے لئے مخصوص فرماليا اور انھيں محلہ عاليہ(۲) كے ايك گھر جو اج مشربہ ام ابراہيم كے نام سے مشھور ہے ركھا ازاد عورتوں كى طرح انھيں حجاب ميں ركھا اور ان سے ازدواج فرمايا ،ماريہ كو حمل ٹھرا اور اسى گھر ميں لڑكا پيدا ہوا جس وقت ابراہيم پيدا ہوئے انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى كنيز سلمى(۳) نے دايہ كے فرائض انجام دئے ، سلمى كے شوہر ابو رافع نے جب انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو فرزند ابراہيم كے ولادت كى خوشخبرى سنائي تو اپ نے خوشى ميں انھيں انعام ديا _

ابراہيم كى ولادت ۸ھ ميں ہوئي ، انصار كو اس سے بڑى خوشى ہوئي تھى انھوں نے ماريہ كى ضرورت پورى كرنے ميں ايك دوسرے سے بارى لے جانے كى كوشش كى اور بوجھ بٹانے كى ہر ممكن سعى كى ، كيونكہ وہ ماريہ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كا والہانہ تعلق ديكھ رہے تھے _

اس لئے دوسرى ازواج كو جب ولادت ابراہيم كى خبر معلوم ہوئي تو ماريہ سے ان كا رشك و حسد بڑھ گيا ، وہ جل بھن گئيں ، انھوں نے اعتراض و شكايت كى زبانيں بھى كھول ديں ، ليكن اس طعن و ميں كوئي بھى عائشه سے اگے نہ بڑھ سكا _(۴)

____________________

۱_ حاطب كا نام عمر بن عمير اور كنيت ابو عبد اللہ تھى _ قبيلہ لخم كے تھے رسول نے انہيں ۶ھ ميں مقوقس كے پاس بھيجا _ مقوقس نے ماريہ اور شيريں و ديگر ہدايا كے ساتھ روانہ كيا _ حاطب كى ۳۱ھ ميں مدينہ ميں وفات ہوئي _ عثمان نے انكى نماز جنازہ پڑھائي _ اسد الغابہ _ اصابہ اور استيعاب ديكھئے

۲_ مدينے كے بالائي حصہ كو عاليہ كہتے _ وہاں قبيلہ بنى نظير رہتا تھا

۳_ زوجہء رسول صفيہ كى كنيز سلمى تھيں_ وہ جنگ خيبر ميں موجود تھيں حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ عليھا كى دايہ كے فرائض بھى انجام دئے تھے _ انہوں نے غسل فاطمہ ميں بھى شركت كى تھى

۴_ طبقات بن سعد ج۱ ص ۱۳۴

۵۴

خود عائشه كا بيان :

مجھے ماريہ سے زيادہ كسى عورت پر رشك و حسد نہيں ہوا ، ماريہ بہت حسين تھى ، اسكے بال گھونگھريالے تھے ، جو ديكھتا ديكھتا ہى رہ جاتا ، اس پر مزيد يہ كہ رسول خدا اس سے بہت محبت كرتے تھے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شروع ميں ماريہ كو حارثہ(۵) بن نعمان كے گھر ميں ركھا اور جب ميں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى اس سے والہانہ محبت ديكھى تو ماريہ كى مخالفت ميں جٹ گئي ، اس قدر ستايا كہ ماريہ نے مجھ سے تنگ اكر رسول سے شكايت كى ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بھى اسے عاليہ كے مكان ميں منتقل كر ديا اور وہيں اسكے پاس جاتے ،يہ تو ميرے اوپر اور بھى گراں گذرا خاص طور سے ميرى اتش رنج اور جلن اتنى بڑھى كہ خدا نے اسے لڑكا بھى ديديا ، حالانكہ خدا نے مجھے اولاد سے محروم ركھا وہ يہ بھى كہتى ہيں _

جب ابراہيم پيدا ہوئے ايك دن رسول خدا بچے كو ميرے پاس لائے اور فرمايا :

_ذرا ديكھوتو مجھ سے كس قدر شباھت ركھتا ہے

_ نہيں ، ہرگز ايسا نہيں ، ميں تو كوئي شباہت نہيں ديكھتي

_ كيا تم اسے ميرى طرح گورا نہيں ديكھ رہى ہو ،بالكل ميرے بدن كى طرح ہے_

_ ارے جسے بھى بكرى كا دودھ پلايا جائے گا سفيد اور موٹا ہوہى جائےگا_

عائشه اور حفصہ كى انہيں حركتوں اور سخت جلن كى وجہ سے خدا نے ماريہ كى برائت ميں سورہ تحريم نازل فرمائي موثق روايات كى بناء پر رسول خدا نے حفصہ كے گھر ميں ماريہ سے ہمبسترى فرمائي _ جب حفصہ كو اس كى خبر ہوئي تو بھڑك اٹھيں _لگيں انحضرت سے چلّا چلا كر گلا شكايتيں كرنے ، اس قدر اسمان سر پر اٹھا يا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حفصہ كى دلجوئي اور خوشنودى كے لئے ماريہ كو اپنے اوپر حرام كر ليا ، ليكن اسى كے ساتھ حفصہ سے كہا كہ يہ بات كسى سے نہ كہنا ، اور اس راز كو كسى دوسرے سے بيان نہ كرنا حفصہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تمام تاكيدوں كو قطعى نظر انداز كر ديا ، اس راز كو عائشه سے بيان كر ڈالا ، وہ بھى ايك تحريك ميں معاون ہو گئيں پھر تو دونوں كى عيارياں اور كج رفتارياں بڑھتى گئيں ، اخر كار ان دونوں كى سرزنش ميں سورہ تحريم نازل ہوئي اور خدا نے اس راز سے پردہ اٹھا يا _(۶)

____________________

۵_ حارثہ قبيلہ بنى نجار سے تھے _ جنگ بدر اور بعد كى دوسرى جنگوں ميں شريك رہے حارثہ كى خلافت معاويہ كى زمانے ميں وفات ہوئي _ اسد الغابہ ج۱ ص ۳۵۸ _ اصابہ ج۱ ص ۱۵۳۲

۶_ طبقات بن سعد ج۸ ص ۱۳۴

۵۵

سورہ تحريم

خدا كے نام سے جو بخشنے والا اور مہربان ہے

اے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم كيوں اس چيز كو حرام كرتے ہو جسے خدا نے تمھارے لئے حلال كى ہے ، تم اپنى بيويوں كى خوشى چاہتے ہو ؟اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے _

اللہ نے تم لوگوں كے لئے اپنى قسموں كى پابندى سے نكلنے كا طريقہ مقرر كر ديا ہے ، اللہ تمھارا مولا ہے اور وہى دانا اور حكيم ہے _

اور جس وقت پيغمبر نے اپنى ايك بيوى (حفصہ ) سے راز كى ايك بات كہى تھى ، پھر جب اس بيوى نے اس راز كو (عائشه )پر راز ظاہر كر ديا ، خدا نے اس افشائے راز كو پيغمبر سے باخبر كر ديا (پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى ) اس پر كسى حد تك جو عائشه اور حفصہ كے درميان گذرى تھى تذكرے كے انداز ميں حفصہ سے بيان كيا اور بعض سے در گزر كيا ، پھر جب پيغمبر نے اس افشائے راز كى بات بتائي تو حفصہ نے پوچھا اپ كو اس كى كس نے خبر دى ؟ پيغمبر نے حفصہ كے جواب ميں فرمايا ، مجھے اس نے خبر دى ہے جو سب كچھ جانتا ہے اور اچھى طرح با خبر ہے

اگر تم دونوں (عائشه و حفصہ )خدا كى طرف واپس اتى ہو اور توبہ كرتى ہو تو تمہارے دل سيدھى راہ سے ہٹ گئے ہيں ، اور اگر پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مقابلے ميں تم نے باہم جتھہ بندى كى تو جان ركھو كہ اللہ اس كا مولى ہے اور اس كے بعد جبرئيل اور مومنوں ميں مرد صالح ہے ، اور سب ملائكہ اسكے ساتھى اور مددگار ہيں ،بعيد نہيں كہ اگر پيغمبر تم سب بيويوں كو طلاق ديدے تو اللہ اسے ايسى بيوياں تمہارے بدلے ميں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں ، سچى مسلمان ، با ايمان ، اطاعت گذار ، توبہ والى ، عبادت گذار اور روزہ دار ہوں خواہ شوہر ديدہ ہوں يا باكرہ _

۵۶

اے لوگو جو ايمان لائے ہو بچائو اپنے اپ كو اور اپنے اہل و عيال كو اس اگ سے جسكا ايندھن انسان اور پتھر ہوں گے ، جس پر نہايت تند خو اور سخت گير فرشتے مقرر ہوں گے ، جو كبھى اللہ كے حكم كى نافرمانى نہيں كرتے اور جو حكم بھى انھيں ديا جاتا ہے اسے بجالاتے ہيں _

اے كافرو اج معذرتيں پيش نہ كرو تمھيں تو ويسا ہى بدلہ ديا جا رہا ہے جيسے تم عمل كر رہے تھے _

اے لوگو جو ايمان لائے ہو ، اللہ سے توبہ كرو ، خالص توبہ ، اميد ہے كہ اللہ تمہارى برائياں تم سے دور كر دے اور تمھيں ايسى جنتوں ميں داخل فرمادے جن كے نيچے نہر يں بہہ رہى ہوں گى ، يہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے پيغمبر كو اور ان لوگوں كو جو اس كے ساتھ ايمان لائے ہيں رسوا نہ كرے گا ان كا نور ان كے اگے اگے اور ان كے دائيں جانب دوڑ رہا ہو گا ، اور وہ كہہ رہے ہوں گے كہ اے ہمارے پروردگار ، ہمارا نور ہمارے لئے مكمل كر دے اور ہم سے درگزر فرما ، تو ہر چيز پر قدرت ركھتا ہے _

اے رسول ، كفار اور منافقين سے جہاد كرو اور ان كے ساتھ سختى سے پيش ائو ، ان كا ٹھكانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھكانا ہے _

اللہ كافروں كے معاملے ميں نوح اور لوط كى بيويوں كو بطور مثال پيش كرتا ہے وہ ہمارے دو صالح بندوں كى زوجيت ميں تھيں ، مگر انھوں نے اپنے شوھروں سے خيانت كى اور اللہ كے مقابلے ميں ان كے كچھ بھى نہ كام اسكے ، دونوں سے كہہ ديا گيا كہ جائو اگ ميں جانے والوں كے ساتھ تم بھى چلى جائو اور اہل ايمان كے مقابلے ميں اللہ فرعون كے بيوى كى مثال پيش كرتا ہے جبكہ اس نے دعا كى ،اے ميرے رب ، ميرے لئے اپنے يہاں جنت ميں ايك گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس كے عمل سے بچالے اور ظالم قوم سے مجھے نجات دے اور عمران كى بيٹى مريم كى مثال ديتا ہے جس نے اپنى عفت كى حفاظت كى پھر ہم نے اس كے اندر اپنى طرف سے روح پھونك دى اور اس نے اپنے رب كے ارشادات اور اسكى كتابوں كى تصديق كى اور وہ اطاعت گزار لوگوں ميں سے تھى _

سورہ تحريم ام المومنين عائشه بنت ابو بكر اور حفصہ بنت عمر بن خطا ب كے بارے ميں نازل ہوئي ہے ، اس سلسلے ميں سيكڑوں حديثيں ابن عباس كے طريق سے اور خود عمر بن خطاب كے طريق سے وار د ہوئي ہيں جن سے اس حقيقت كا پتہ چلتا ہے_(۷)

اور ميں انشاء اللہ بعد كے صفحات ميں جہاں ام المومنين عائشه كى احاديث پر بحث كروں گا ، وہيں تفصيلى تبصرہ كروں گا _

____________________

۷_صحيح بخارى مطبوعہ مصر سال ۳۶_۳۷ جلد ۳/ ص۱۳۷ ،تفسير سورہء تحريم ، كتاب فضائل القران جلد ۳ / ص۱۳۸ ، اور باب موعظہ الرجل جلد ۳/ ص ۱۴۷ ،كتاب المظالم جلد ۴/ ص۴۷ ، صحيح مسلم الرضاع جلد ۱/ ۵۰۹ صحيح ترمذى ج۲ / ۴۰۹ ، مطبوعہ ہندوستان ، صحيح نسائي ج۱/ ص ۳۰۲ ، اسكے علاوہ تفسير طبرى اور در منثور بھى ديكھى جا سكتى ہے

۵۷

عائشه اور خديجہ كى ياديں

عائشه كا بيان ہے :

ازواج رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ميں خديجہ سے زيادہ مجھے كسى پر بھى رشك و حسد نہيں ہوا ، وجہ يہ تھى كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا انھيں بہت يا د كرتے تھے ہر وقت تعريف كرتے رہتے ، خصوصيت يہ تھى كہ خدا وند عالم نے اپنے پيغمبر كو وحى كے ذريعے خبر دى تھى كہ خديجہ كے لئے جنت ميں ايك پر شكوہ اور سجا سجايا محل عطا فرمايا ہے _(۸)

يہ بھى بيان ہے كہ_ حالانكہ ميں نے خديجہ كو نہيں ديكھا تھا ، پھر خديجہ سے زيادہ كسى پر بھى رشك و حسد نہيں ہوا ، كيونكہ اكثر ايسا ہوتا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خديجہ كى اچھائيوں كو ياد كرتے ، انكى تعريف و ستائشے كرتے ، اكثر اپ ايك گوسفند ان كے نام سے قربانى كرتے ،اسكى بوٹياں كركے تقسيم فرما ديتے(۹)

يہ بھى حكايت كرتى ہيں كہ :

ايك دن خديجہ كى بہن ہالہ بنت خويلد نے رسول خدا سے ملاقات كى اجازت مانگى ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے جيسے ہى ہالہ كى اواز سنى ، خديجہ كى ياد اگئي اپ كى حالت شدت سے متغير ہوگئي اور بے اختيار فرمايا :

ہائے ميرے خدا ، ہالہ

يہ سنكر ميرى تو خديجہ سے جلن بھڑك اٹھى تھى ، فوراً كہا اپ اس بے دانت كى بڑھيا كو كتنا ياد كرتے رہتے ہيں ؟

زمانہ ہوا كہ وہ مر گئي اور خدا نے اس سے بہتر اپ كو عطا فرما ديا(۱۰)

ايك دوسرى روايت ميں يہى بات يوں بيان كى ہے _

ميرے اس اعتراض پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كو ميں نے ديكھا كہ چہرہ بھڑك اٹھا ، چہرے كى حالت متغير ہو كر ويسى ہو گئي

____________________

۸_ بخارى ج۲ ص۲۷۷

۹_ بخارى ج۲ ص۲۱۰

۱۰_ حضرت خديجہ كے حالات زندگى ، فداكارياں ، امتيازى اور اہم ترين اخلاقى خصوصيات پر مستقل كتاب كى ضرورت ہے _ اپ كے حالات طبقات بن سعد ، استيعاب ، اسد الغابہ اور اصابہ كے علاوہ وہ بہت سى كتابيں ديكھنے كى ضرورت ہے _

۵۸

جيسى وحى نازل ہوتے وقت ہوتى ، جب اپ اسمانى حكم كے منتظر ہوتے كہ پيغام رحمت نازل ہوتا ہے يا عذاب(۱۱)

ايك دوسرى روايت ميں ہے _

عائشه كہتى ہيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ، نہيں ہرگز خدا وند عالم نے مجھے اسكے بدلے اس سے اچھى عورت نہيں دى ، كيونكہ جسوقت تمام لوگ ميرا انكار كررہے تھے ، وہ مجھ پر ايمان لائيں ، لوگ جب مجھے جھوٹا سمجھ رہے تھے ، خديجہ نے ميرى تصديق كى ، جب لوگوں نے مجھے مالى پريشانيوں ميں ڈالا تو انھوں نے اپنى بے حساب دولت ميں مجھے شريك كيا ، خدا نے دوسرى عورتوں سے مجھے اولاد نہيں دى ،خديجہ سے مجھے اولاد عطا فرمائي(۱۲)

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ہميشہ اپنى اس پہلى رفيقہ حيات كى اچھائيوں كو ياد كرتے ، انكى يادوں اور ياد گاروں كى تجديد فرماتے ، ان كے رشتہ داروں كے ساتھ حسن سلوك فرماتے ، انھيں دوسروں پر مقدم كرتے انكى ياديں تمام زندگى پر محيط رہيں ، يہى وجہ تھى كہ ام المومنين كا سينہ ان كى نفرت و حسد و جلن سے بھر گيا تھا ، اسى وجہ سے جب بھى خديجہ كا نام اتا ، اپ انھيں ياد كرتے تو يہ اعتراض كى زبان كھول ديتيں سب سے بد تر يہ كہ وہ خديجہ كى تعريف سنكر اندوہ سے پاگل ہو جاتيں اپنے كو سرزنش و مذمت كا سزاوار پاتيں ، انھيں باتو ں كى وجہ سے خديجہ كى بيٹى حضرت فاطمہ اور ان كے بچوں سے روابط خراب تھے ، كيونكہ رسول خدا ان سے والہانہ پيار كرتے _

اسى دشمنى اور اندرونى نفرت كے اثرات كا اندازہ مسند احمد بن حنبل كى روايت سے ہوتا ہے جسے نعمان بن بشير نے بيان كيا ہے _

ايك دن ابو بكر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات كى اجازت چاہى اسى وقت انھوں نے كمرے سے عائشه كى اواز سنى جو چلا رہى تھيں _

خدا كى قسم ، ميں اچھى طرح جانتى ہوں كہ اپ على كو ميرے باپ سے زيادہ چاہتے ہيں

____________________

۱۱_ مسند احمد ج۶ ص ۱۵۰، ۱۵۴

۱۲_ مسند احمد ج۶ ص۱۱۷ ،وسنن ترمذى ص۲۴۷

۵۹

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے بارے ميں نفرت و عناد كا ايك گوشہ ايك تقرير ميں بيان فرمايا ، ليكن وہ ...عائشه ، اس نے عورتوں كے مزاج كے مطابق عقل كو طاق پر ركھ ديا ہے ، كينہ و عناد كے شرارت اپنے دل ميں اسطرح بھڑكا لئے ہيں جيسے لوہاروں كى بھٹى دھونكى جاتى ہے ، اگر اس سے كہا جائے كہ جو سلوك ،ميرے ساتھ كرتى ہے دوسرے كے ساتھ بھى كرے تو ہرگز پسند نہ كر يگى نہ مانے گى اخر امير المومنين نے بات اس پر ختم كى _

اسكے باوجود اسكے سابقہ احترامات محفوظ ہيں ، اسكے كرتوتوں كا بدلہ خدا ديگا ، وہ جسے چاہتا ہے بخش ديتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب ديتا ہے _

ابن ابى الحديد كى عبارت

و كانت تكثر الشكوى من عائشه ، و يغشا ها نساء المدينه فينقلن اليها كلمات عن عائشه _

فاطمہ كا دل عائشه كے طعنوں سے بھر اہوا تھا كيونكہ مدينے كى عورتيں اپ كے پاس اتيں اور طعنوں بھرى باتيں عائشه كى پہونچاتى رہتى تھيں ابن ابى الحديد :

حضرت على بن ابى طالبعليه‌السلام كے بيان كينہ ء عائشه كے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے كہ ابن ابى الحديد معتزلى كے بيان و شرح كو بھى بيان كيا جائے كيونكہ يہ بيان غور طلب ہے ، وہ لكھتے ہيں :

ميں جس وقت علم كلام كى تحصيل ميں مشغول تھا ، ميں نے امام كے اس خطبے كو اپنے استاد شيخ ابو يعقوب يوسف بن اسماعيل لمعانى كے سامنے پڑھا ، اور ان سے خواہش ظاہر كى كہ اس كے راز سے مطلع فرمايئے ، شيخ نے ميرى خواہش قبول كى ، انھوں نے جو اس خطبے كى تشريح فرمائي اسكو بطور خلاصہ يہاں نقل كر رہا ہوں ، كيو نكہ انكى پورى بات اس وقت ميرے حافظے ميں نہيں ، پورى تفصيل كو اختصار كے ساتھ پيش كر رہا ہوں _

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

حضرت ابوبکر نے اپنے لشکر کو نصیحت کی تھی کہ جب تم کسی منزل پر قیام کرو تو وہاں اذان دو ، اگر مخالف بھی اذان دیں تو انہیں کچھ نہ کہو اور اگر وہ اذان نہ دیں تو ان سے جنگ کرو ۔اگر وہ اذان دیں تو ان سے زکواۃ کے متعلق سوال کرو اور اگر وہ زکواۃ کی فرضیت کا اقرار کریں تو ان کی بات قبول کرو اور اگر وہ زکواۃ کا انکار کریں تو ان سے جنگ کرو ۔

جب خالد اپنا لشکرلے کر وہاں پہنچا اور انہوں نے اذان دی تو اس کے جواب میں مالک کے قبیلہ نے بھی اذان دی اور نماز پڑھی اور اس امر کی گواہی خالد کے ایک فوجی ابو قتادہ نے بھی دی ۔

خالد کے لشکر نے اس مسلمان قبیلہ پر شب خون مارا ، دونوں طرف سے تلواریں چلنے لگیں ۔ مالک کے قبیلہ والوں نے حملہ آوروں سے پوچھا کہ تم کون ہو؟

انہوں نے کہا ہم مسلمان ہیں ۔تو مالک کے قبیلہ نے بھی کہا کہ ہم بھی مسلمان ہیں لہذا لڑائی کیسی ؟

خالد کے لشکر نے انہیں ہتھیار ڈالنے کو کہا انہوں نے مسلمانوں پر اعتماد کرتے ہوئے ہتھیارڈال دئیے تو خالد نے حکم دیا کہ انہیں گرفتار کرلو ۔انہیں گرفتار کرکے خالد کے پاس لایا گیا ۔ گرفتار شدہ گان میں مالک بن نویرہ بھی تھا ۔ اس کی بیوی اسے ملنے آئی وہ بڑی خوبصورت عورت تھی ۔خالد نے اسے دیکھا ا س وقت مالک نے بیوی سے کہا کہ "کاش تو نہ آتی تو ہم بچ جاتے ۔ اب خالد نے تجھے دیکھ لیا ہے اور اس کی للچائی ہوئی نظریں دیکھ کر میں سمجھتاہوں کہ یہ تجھے حاصل کرنے کے لئے ہمیں قتل کردے گا ۔"

وہ ایک سرد اور تاریک رات تھی ۔قیدی بے چارے سردی میں ٹھٹھر رہے تھے ۔ خالد نے منادی کو حکم دیا کہ اس نے بلند آواز میں ندا دی "ادفوو سراکم " بنی کنانہ کی لغت کے مطابق اس جملے کا ترجمہ یہ ہے کہ اپنے قیدیوں کو قتل کردو ۔

۱۴۱

خالد کے فوجی اٹھے اور اس مسلمان قبیلے کے نمازی افراد کو بے گناہ تہ تیغ کردیا ۔

ابھی مقتولین کی لاشیں تڑپ رہی تھیں کہ خالد نے مالک کی بیوی ام عتیم سے شادی کرلی ۔یہی منظر دیکھ کر ابو قتادہ مدینہ آیا اور حضرت ابو بکر کو واقعہ کی اطلاع دی یہ خبر سن کر حضرت عمر نے کہا کہ خالد کی تلوار میں اسراف آگیا ہے لہذا اسے معزول کرکے سزا دیں ۔

حضرت ابو بکر نے کہا کہ اس نے تاویل کی اور اس سے ایک غلطی سرزد ہوگئی۔ خالد تواللہ کی تلوار ہے ۔تم خالد کے متعلق اپنے منہ سے کچھ نہ کہو ۔چند دنوں بعد خالد بھی مدینہ آیا اور حضرت ابوبکر کے سامنے اپنی غلطی کی معذرت کی ۔حضرت ابوبکر نے اسے معاف کردیا اور اس کی شادی کوبھی جائز قرار دیا ۔

مالک بن نویرہ کا بھائی متمم بن نویرہ حضرت ابوبکر کے پاس آیا اور مطالبہ کیا کہ اس کے بھائی کو خالد نے ناحق قتل کیا ہے اور ہمارے افراد کو ناحق قید کرکے مدینے لایا ہے ۔ لہذا مجھے قانون شریعت کے مطابق خالد سے قصاص دلایا جائےاور ہمارے قبیلہ کے قیدیوں کو رہا کیا جائے ۔ حضرت ابوبکر نے قیدیوں کو فی الفور رہا کردیا اور خالد پر قصاص نافذ کرنے کی بجائے بیت المال سے مالک کا خون بہا ادا کیا

متمم بن نویرہ اپنے بھائی مالک کے ہمیشہ مرثیے کہا کرتا تھا ۔ اس کے مرثیے ادب عربی میں آج بھی شہ پاروں کی حیثیت رکھتے ہیں(۱) ۔

واقعہ مالک کا تجزیہ

۱:- یہ لشکر کشی خلیفہ کے حکم اور اطلاع کے بغیر کی گئی ۔

۲:- خلیفہ کی طرف سے لشکر کو حکم تھا کہ وہ اذان دیں ، اگر جواب میں مخالفین

____________________

(۱):-الکامل فی التاریخ جلد دوم ۔ص ۲۴۲-۲۴۳

۱۴۲

بھی اذان دیں تو ان سے جنگ نہ کی جائے ۔ان سے زکواۃ کے متعلق دریافت کیا جائے کہ آیا وہ اس کی فرضیت کے قائل ہیں ؟ اگر وہ قائل ہوں تو ان سے کسی قسم کی چھیڑ خانی نہ کی جائے ۔

آخر مالک اور اس کے قبلہ کا جرم کیا تھا ؟ انہوں نے اذان دی اور نماز پڑھی ۔جس کی گواہی صحابی رسول ابو قتادہ نے دی ۔ اس کے باوجود بھی انہیں قتل کردیا گیا ۔آخر کیوں؟

۳:- خالد نے بھی ان کے قتل کا حکم جن الفاظ سے دیا وہ الفاظ ذومعنی تھے ۔ اس حملے کا ایک مطلب یہ بنتا تھا کہ "اپنے قیدیوں کو گرم کرو" اور لغت بنی کنانہ میں اس جملے کا مطلب تھا کہ "اپنے قیدیوں کو قتل کردو ۔"خالد نے دراصل یہ سمجھا کہ میں ان الفاظ کے ذریعے سے قیدیوں کو قتل کرادوں گا۔اور خلیفہ کی طرف سے سختی ہوئی تو میں کہہ کر بری الذمہ ہوجاؤں گا ۔کہ میں نے تو قیدیوں کو گرم کرنے کا حکم دیا تھا ۔ قتل کرنے کا حکم تو میں نے جاری نہیں کیا تھا ۔فوجیوں نے میرے الفاظ کا مطلب غلط سمجھا ۔لہذا اس پورے واقعہ میں میں با لکل بے گناہ سمجھاؤں گا ۔

۴:- اگرخالد کو نماز اور ذان کے باوجود بھی ان کے اسلام میں شک تھا تو انہیں خلیفہ کے پاس مدینہ بھیج دیتے ۔انہیں اس طرح سے قتل کرنے کا اختیار کس نے دیا تھا ؟

۵:-شوہر کی لاش ! ابھی تڑپ رہی تھی اور خالد نے اس کی بیوی کو اپنی بیوی بنالیا ۔خالد کا یہ فعل ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے ۔اس کی اجازت نہ تو دین اسلام دیتا ہے اورنہ ہی انسانیت اس کو جائز سمجھتی ہے ۔

۶:- حضرت ابو بکر خالد کے اتنے بڑے کو کیوں معاف فرمایا جبکہ حضرت عمر بھی خالد کو مجرم قرار دے کر حد شرعی کا مطالبہ کررہے تھے ؟

۱۴۳

۷:- خالد نے بھی خلیفہ کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرکے معذرت طلب کی تھی اور خلیفہ صاحب نے معاف کردیا تھا ۔کیا اسلامی شریعت میں کوئی ایسی شق موجود ہے کہ مجرم اپنے گناہ کا اقرار کرکے معذرت کرے اس پر حد شرعی نافذ نہ کی جائے ۔

۸:-کیا نص کی موجودگی میں اجتہاد کی گنجائش ہے ؟

غالبا یہی وجہ تھی کہ حضرت علی (ع) نے سیرت شیخین کی شرط کو ٹھکراکر کہا تھا میری اپنی ایک بصیرت ہے ۔

۹:- حضرت ابو بکر کا طرز عمل بھی خالد کے غلط کار ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے ۔کیونکہ انہوں نے قیدیوں کو رہا کردیا تھا اور مالک کا خون بہا مسلمانوں کے بیت المال سے ادا کیا گیا ۔لیکن ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ خالد کے گناہ کے لئے مسلمانوں کے بیت المال پر کیوں بوجھ ڈالا گیا ؟ اس واقعہ کے بعد ابو قتادہ نے قسم کھالی تھی کہ آیندہ پوری زندگی خالد کے لشکر میں کبھی شامل نہ ہوں گے اور اس ظلم کو دیکھ کر وہ لشکر میں کبھی شامل نہ ہوں گے اور اس ظلم کو دیکھ کر وہ لشکر کو چھوڑ کر مدینہ آگئے اور حضرت ابوبکر کو تمام ماجرے کی خبر دی اور کہا کہ میں نے خالد کو مالک کے قتل سے منع کیا تھا لیکن اس نے میری بات نہیں مانی ۔اس نے اعراب کے مشورہ پر عمل کیا جن کا مقصد صرف لوٹ مار کرنا تھا۔

ابو قتادہ کی باتیں سن کر حضرت عمر نے کہا کہ اس سے قصاص لینا واجب ہوگیا ہے(۱) ۔اور جب خالد مدینہ آئے تو حضرت عمر نے کہا : اے اپنی جان کے دشمن ! تو نے ایک مسلمان پر چڑھائی کی اور اسے ناحق قتل کردیا اور تو نے اس کی بیوی کو ہتھیالیا ۔یہ صریحا زنا ہے ۔خدا کی قسم ہم تجھے سنگسار کریں گے ۔

____________________

(۱):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد چہارم ۔ص ۱۸۴

۱۴۴

مورخین لکھتے ہیں کہ جب حضرت عمر بر سر اقتدار ہوئے تو انہوں نے مالک کے خاندان کے بقیہ السیف افراد کو جمع کیا اور پھر مسلمانوں کو حکم دیا کہ اس خاندان کا لوٹا ہوا مال و متاع فی الفور واپس کیا جائے ۔ حضرت عمر نے یہاں تک کیا کہ ان کی جن خواتین کو اس وقت کنیزیں بنا کر فروخت کردیا گيا تھا ان سب عورتوں کو لوگوں سے واپس کرایا اور ان میں سے بعض حواتین حاملہ بھی تھیں ان عورتوں کو سابق شوہروں کے حوالے کیا گیا ۔

علاوہ ازیں خالد وہی شخصیت ہیں جنہوں نے حضرت ابو بکر کے اواخر خلافت میں سعد بن عبادہ کو علاقہ شام میں رات کی تاریکی میں قتل کردیا تھا اور بعدمیں یہ مشہور کیا گیا کہ انہیں جنات نے قتل کیا ہے ۔

خالد بن ولید کے یہی کارنامے تھے جن کی وجہ سے حضرت عمر نے انہیں فوج کی سالاری سے معزول کردیا تھا ۔

ابن اثیر لکھتے ہیں کہ حضرت عمر نے حکومت سنبھالتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ انہوں نے اپنے سالار ابو عبیدہ کو خط لکھا کہ وہ خالد کا لشکر سنبھال لیں ۔ کیوں کہ میں نے اسے معزول کردیا ہے اور جب تمہیں میرا یہ خط پہنچے تو خالد کے سر سے پگڑی اتار لینا او راس کا مال تقسیم کردینا(۱) ۔

درج بالا واقعات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں :- دینی اور دنیاوی لحاظ سے سیرت شیخین کوئی منظم اور مدوّن چیز ہی نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ کیونکہ حضرت علی یہ سمجھتے

____________________

(۱):- الکامل فی التاریخ جلد ۔جلد سوم ۔ص ۲۹۳

۱۴۵

تھے کہ اسلامی حکومت کی بنیاد کتاب وسنت ہے ۔علاوہ ازیں کسی لاحقہ کی ضرورت نہیں ہے ۔علی موجود دور کے سیاست دان نہیں تھے کہ اقتدار کے لئے کسی ناجائز شرط کو تسلیم کرلیتے ۔

اس کے برعکس حضر ت عثمان نے تینوں شرائط کو قبول کرنے کا وعدہ کیاتھا ۔مگر تاریخ بتاتی ہے کہ وہ نہ تو کتاب وسنت پر کما حقہ عمل کرسکے اور نہی عمل سیرت شیخین پر عمل پیرا ہوئے ۔

۱۴۶

سقیفہ کا تیسرا چہرہ

۳:- حضرت عثمان بن عفان:-

فقام ثالث القوم نافجا حفنیه بین نشیله و معتلفه وقام معه بنو ابیه یخصمون مال الله خصمة الابل نبتة الربیع الی ان انتکت قتله واجهز علیه عمله وکبّت به بطنته فماراعنی الا والناس کعرف الضبع الی ینثالون علی من کیل جانب حتی لقد وطئی الحسنان وشق عطفای مجتمعین حولی کربیضة الغنم ۔۔۔۔۔۔(الامام علی بن ابی طالب علیہ السلام)

"پھر اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑاہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے ۔جو مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصل ربیع کا چارہ چرتا ہے ۔

یہاں تک کہ وہ وقت آگیا جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل گئے اور اس کی بد اعمالیوں نے اس کا کام تمام کردیا اور شکم پری نے اسے منہ کے بل کرادیا ۔اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کردیا جو میری جانب بجو کے ایال کی طرف سے لگا تار بڑھ رہا تھا ۔یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسن اور

۱۴۷

حسین کچلے جارہے تھے اور میری ردا کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے ۔مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی ،دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کرلیا ۔گویا انہوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ "یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لئے قراردیا ہے جو دنیا میں نہ بے جا بلندی چاہتے ہیں اور نہ فساد پھیلاتے ہیں اور اچھا انجام پرہیزگاروں کیلئے ہے ۔"

ہاں ہاں خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس کو سنا تھا اور یاد کیا تھا ۔لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا اوراس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا ۔ دیکھو اس ذات کی قسم ! جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے ۔کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون وقرار سے نہ بیٹھی تو میں خلافت کی باگ دوڑ اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سےسیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اول کو سیراب کیا تھا اور تم اپنی دنیا کومیری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ قابل اعتنا نہ پاتے(۱) ۔"

حضرت عمر کی وفات کے بعد عبدالرحمن بن عوف کی "خصوصی عنایت " کے ذریعے سے حضرت عثمان بر سر اقتدار آئے ۔

اقتدار پر فائز ہوتے ہی انہوں نے پہلا کا یہ کیا کہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں بنی امیہ اور آل ابی معیط کو حکومت کے کلیدی عہدوں پر فائز کردیا ۔ان میں ایسے حکام بکثرت تھے جنہوں نے اسلام اور رسول اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا ۔ان کے دلوں میں تعلیمات اسلام کی بجائے امیہ بن عبدالشمس اور حرب اور

____________________

(۱):-نہج البلاغہ خطبہ شقشقیہ سے اقتباس۔

۱۴۸

ابو سفیان اور ہند بنت عتبہ اور معاویہ کی تعلیمات جاگزیں تھیں ۔

حضرت عثمان نے امور مملکت کے لئے اسلام دشمن عناصر اورمردان بن حکم جیسے لوگوں کی خدمات حاصل کیں اور یوں ان لوگوں کے ہاتھوں اسلامی تعلیمات مسخ ہوگئیں ۔

اموی اقتدار نے عالم عرب میں فساد وفسق کی تخم ریزی کی ۔ان کے اقتدار کے نتیجہ میں لوگوں میں ہوس زر پروان چڑھی اور احقاق حق اور ابطال باطل کے اسلامی جذبات کے بجائے قبائلی اور خاندانی عصبیوں نے جنم لیا ۔

اس مقام پر ہم عالم عرب پر اموی اقتدار کے منحوس نتائج پر بحث نہیں کرنا چاہتے بلکہ ہم اپنی اس بحث کو خلیفہ ثالث کے عہد تک محدود رکھنا چاہتے ہیں کہ اس دور میں بنی امیہ پر کیا کیا نوازشات ہوئیں اور ان نوازشات کی وجہ سے گمنام خاندان نے کس طرح اپنی حیثیت تسلیم کرائی ، اور کس طرح سے انہوں نے آئندہ کے لئے اپنی راہ ہموار کی ۔لیکن اس سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بنی امیہ کی اسلام دشمنی کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جائے ۔

بنی امیہ کی اسلام دشمنی

جنگ بدر

جنگ بدر کا معرکہ بنی امیہ کی اسلام دشمنی کی بولتی ہوئی تصویر ہے ۔اس میں معاویہ کا بھائی حنظلہ بن ابی سفیان بن حرب بن امیہ بن عبدالشمس قتل ہوا ۔

حضرت عثمان کے قریبی اعزا میں سے عاص بن سعید عاص اور عبیدہ بن سعید بن عاص اور ولید بن عقبہ بن ربیعہ بن عبدالشمس اوریہ معاویہ بن ابی

۱۴۹

سفیان کا ماموں تھا اور اس کی جگر خوار ماں ہند کا بھائی تھا اور شبیہ بن ربیعہ بن عبدالشمس اور عقبہ بن ابی معیط جو کہ حضرت عثمان کے مادری بھائی ولید کا باپ تھا ، یہ سب اموی قتل ہوئے تھے ۔ علاوہ ازیں بہت سے اموی جنگ بدر میں قیدی بھی ہوئے تھے جن میں ابو العاص بن ربیع بع بعدالعزی بن عبد الشمس اور حرث بن وجزہ بن ابی عمر بن امیہ بن عبد الشمس سرفہرست تھے اور ان کے علاوہ معاویہ کا بھائی عمر و بن ابی سفیان جو کہ عقبہ بن ابی معیط کا داماد تھا "وہ بھی قیدیوں میں شامل تھا ۔

ابو سفیان کے کسی ساتھی نے اسے مشورہ دیا کہ اپنے بیٹے کو چھڑانے کے لئے فدیہ ادا کرو ۔ابو سفیان نے کہا کیا میرے ہی گھرانے قتل ہوا ہے اور فدیہ بھی میں نے ہی دینا ہے ؟ میرے ایک بیٹے حنظلہ کو قتل کیا جاچکا ہے اور اب میں دوسرے بیٹے کا فدیہ دے کر محمد (ص) کو مالی طورپر مضبوط کروں ؟ کوئی بات نہیں مینن اپنے بیٹے کرے لئے فدیہ ادا نہیں کروں گا ۔اسی اثناء میں ایک مسلمان جس کا نام سعد بن نعمان اکال تھا وہ اپنے بیٹے کے بدلے قید کرلیا اور کہا کہ مسلمان اس کی آزادی کے بدلہ میں جو فدیہ مجھے دیں گے میں وہی فدیہ دے کر اپنے بیٹے کو آزاد کراؤں گا اور اس سلسلہ میں ابو سفیان کے شعر بھی مشہور ہیں ۔

معاویہ کا نانا عتبہ جنگ بدر میں قتل ہوا تھا ۔اس کی بیٹی اور معاویہ کی ماں ہند اپنے مقتول باپ پر یہ مرثیہ پڑھا کرتی تھی ۔

یریب علینا دهرنا فیسوؤنا ویا بی فما ناتی بشی نغالمه

فابلغ اباسفیان عنی مالکا فان القه یوما فسوف اعاتیه

۱۵۰

فقد کان حرب یسعر الحرب انه لکل امری فی الناس مولی یطالبه

"آج زمانے ک گردش ہماری مخالف ہوچکی ہے اور ہمارے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم زمانے کی گردش پہ غالب آسکیں ۔"

ابو سفیان !میری طرف سے مالک تک یہ پیغام پہنچادو اگر میں اس سے کسی دن ملی تو اسے ملامت کروں گی ۔

حرب تو جنگ کی آگ بھڑکا یا کرتا تھا اور یاد رکھ لو ہر شخص کا کوئی نہ کوئی وارث ہوتا ہے جو اس کے قصاص کا مطالبہ کرتا ہے "۔

جنگ بدر میں بنی امیہ کا بے تحاشا جانی اور مالی نقصان ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کی عداوت کے شعلے مزید بھڑک اٹھے تھے اور دلی کدورتوں کو مزید جلا مل گئی تھی اور وہ ہمیشہ بدر کا انتقام لینے کی سوچتے رہتے تھے ۔ دشمنان مصطفی میں ابو سفیان سر فہرست تھا ، اس نے کفار قریش کو ایک نئی جنگ کے لئے آمادہ کیا اور باقی عرب کو ہم نوا بنانے کے لئے افراد کو سفیر بنایا گیا ۔ جن میں عمرو بن عاص پیش پیش تھا ۔جنگ احد کے لئے ابو سفیان اپنے ساتھ کفار کا ایک لشکر لے کر روانہ ہو اور کفار کو مزید ترغیب دینے کے لئے عورتوں کو بھی ساتھ لایا گیا تھا ۔

جن میں معاویہ کی ماں ہند اور خالد بن ولید کی بہن فاطمہ بنت ولید اور عمر وعاص کی بیوی ریطہ بنت منبہ شامل تھیں ۔ یہ عورتیں دف بجا کر مردوں کو لڑنے کی ترغیب دیتی تھیں اور اپنے مقتولین پر مرثیہ خوانی کرتی تھیں ۔

دوران سفر ہند کا گزر جب بھی" وحشی " کے پاس سے ہوتات تو کہتی :" ابو دسمہ" میرے جذبات کو ٹھنڈا کر اور تو بھی آزادی حاصل کر "۔

خالد بن ولید سواروں کی ایک جماعت کا سالار تھا اور ابو سفیان لات و

۱۵۱

عزی کو اٹھا کر لایا تھااور ان کے پیچھے ہند دل سوز آواز مین دف کی تال پر جنگی گانے گارہی تھی جس کے چند فقرات یہ ہیں ۔"

نحن بنات طارق نمشی علی النمارق

ان تقبلوا نعائق ونفرش النمارق

او تدبروا نفارقفراق غیر وافق

ہم ستاروں کی بیٹیاں ہیں ۔ نرم ونازک قالینوں پر چلنے والیاں ہیں ۔

آج تم اگر جنگ کروگے تم ہم تمہیں گلے لگائیں گی اور تمہارے لئے قالین بچھائیں گی

اور اگر آج تم نے پشت دکھائی تو ہم تم سے جدا ہوجائیں گی اور تم ہم سے ہماری کوئی رسم و راہ نہ ہوگی ۔"

جنگ احد میں عمر بن عاص بھی رجز پڑھ رہا اور شعر وشاعری کے ذریعے کفار کی ہمت افزائی میں پیش پیش تھا ۔

جنگ احد میں مسلمان تیر اندازوں کی غلطی کی وجہ سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ خالد بن ولید مسلمان فوج کے عقب میں حملہ آور ہوا ،مسلمان فوج کے قدم اکھڑگئے ، صفیں منتشر ہوگئیں اور بہت سے جانبازان اسلام شہید ہوئے ۔جن میں رسول خدا کے پیارے چچا حضرت امیر حمزہ بھی شامل تھے۔

جنگ کے اختتام پر امیر معاویہ کی "والدہ ماجدہ" نے شہدا ئے احد کی لاشوں کی بے ادبی کی ۔شہدائے اسلام کے ناک اور کان کاٹے ان سے ہار تیار کیا اور گلے میں پہنا ۔اس پر بھی اس کی آتش انتقام ٹھنڈی نہ ہوئی تو حضرت حمزہ کا سینہ چاک کرکے ان کے جگر کو چبانا شروع کردیا جگر چبانے کے بعد ایک چٹان پر کھڑی ہوکر کہا :

۱۵۲

"آج ہم نے بدرکا بدلہ لے لیا ہے ۔آج میں نے اپنے باپ ،بھائی اور چچا کا انتقام لے لیا ہے ۔"

حلیس بن زبان کی روایت ہے کہ میں نے احد میں ابو سفیان کو دیکھا وہ امیر حمزہ کے مردہ جسم کو ٹھوکریں مار کر کہتا تھا میری ٹھوکروں کا مزہ چکھ۔

وہاں سے جاتے وقت پھر ابو سفیان نے اعلان کیا کہ آیندہ سال ہم پھر بدر کے مقام پر تم سے جنگ کریں گے ۔

اس کے بعد ابو سفیان نے اسلام اوررسول اسلام کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی اور ابو سفیان کی بدولت ہی جنگ خندق پیش آئی۔ابو سفیان نے مسلمانوں کے مرکز مدینہ طیبہ کو تباہ کرنے کے لئے مدینہ کے یہودیوں سے سازباز کی ۔

یہی ابو سفیان ہی تھا جس نے مہاجرین حبشہ کو نجاشی کے ملک سے نکالنے کے لئے عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ پر مشتمل سفارت روانہ کی ۔

الغرض ہر طرح کی حرکتیں کرنے کے باوجود بھی جب بنی امیہ اسلام کو نہ مٹاسکے تو انہوں نے اسلام کو مٹانے کی ایک او رتدبیر کی اور سوچا کہ ہماری مخالفت کے باوجود اسلام ختم نہیں ہوا تو ہمیں چاہئیے کہ ہم مسلمان ہوجائیں اور اس طرح سے دو فائدے حاصل کرسکیں گے ۔اول اپنی جان بچائیں گے دوم مستقبل میں اسلام کےپیکر پر کاری ضرب لگانے کے بھی قابل ہوجائیں گے یعنی ان کی سوچ صرف یہی تھی کہ اگر بیرونی جارحیت کی وجہ سے ہم اسلام کو نقصان نہیں پہنچاسکے تو اندرونی سازشوں کے ذریعے سے اسلام سے انتقام لیا جاسکتا ہے اور فتح مکہ کے وقت انہوں نے اپنی تدبیر پر حرف بہ حرف عمل کیا ۔

۱۵۳

بنی امیہ کا اسلام

کفار مکہ کا قائد فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوگیا اور اس کے اسلام لانے کا واقعہ یہ ہے کہ جب جناب رسول خدا (ص) بھاری جمعیت لے کر مکہ سے باہر پہنچے تو اس وقت قریش کسی قسم کی مزاحمت کے قابل نہ تھے ابو سفیان نے رسولخدا(ص) کے چچا عباس کو مجبور کیا کہ وہ انہیں رسولخدا(ص) کی خدمت میں لے جائے ۔ جب عباس اسے لے کر حضور اکرم کی خدمت میں پہنچے تو رسول خدا (ص) نے فرمایا : " ابو سفیان کیا تمہارے لئے ابھی و ہ وقت نہیں آیا کہ تم اللہ کی وحدانیت کی گواہی دو؟"

ابو سفیان نے کہا ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔آپ کتنے شریف اور بردبار اورکریم ہیں ۔ اس چیز کے لئے میرے دل میں کچھ شک ہے ۔

عباس نے کہا : ابو سفیان اگر آج جان بچانی ہے تو مسلمان ہوجاؤ چنانچہ ابو سفیان مسلمان ہوگیا(۱) ۔

اسلام قبول کرنے کے بعد ابو سفیان نے اپنے کفر پر پروان چڑھنے والے اعصاب پر بظاہر کنٹرول کیا اور لوگوں کو دکھانے کے لئے بت پرستی چھوڑ ا اور نئے دین کا اعتراف کرنے لگا ۔لیکن رگوں میں رچی ہوئی بے دینی اور کفر کا گاہے گاہے اس سے اظہار بھی ہوجاتا تھا ۔

فتح مکہ کے بعد ایک کافر جس کا نام حرث بن ہشام تھا اس نے

____________________

(۱):- تاریخ ابن خلدون ۔ جلد دوم ۔ص ۲۳۴

۱۵۴

ابو سفیان سے کہا:- اگر میں محمد (ص) کو رسول مان لیتا تو اس کی ضرور پیروی کرتا ۔

ابو سفیان نے اس سے کہا :- میں کچھ کہنا نہیں چاہتا کیونکہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اگر آج میں کچھ کہوں گا تو یہ پتھر بھی میرے خلاف گواہی دیں گے(۱) ۔

عبارت بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو سفیان کا اسلام منافقت پر مبنی تھا اگر وہ دل سے مسلمان ہوچکا ہوتا تو کافر کو منہ توڑ جواب دیتا

فتح مکہ کے وقت ابو سفیان کی جگر خوار بیوی ہندہ نے بھی بامر مجبوری اسلام قبول کیا تھا ۔

جب رسول خدا(ص) نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت فرمایا کہ تم میری اس بات پر بیعت کرو کہ اپنی اولاد کو قتل نہ کروگی ۔

یہ سن کر ہند نے کہا:- ہم نے تو انہیں پال کر جوان کیا تھا لیکن تم نے بدر میں انہیں قتل کردیا ۔

رسول خدا(ص) نے فرمایا :- تم میری بیعت کرو کہ تم زنا نہیں کروگی ۔

ہند نے کہا:- کیا آزاد عورت بھی زنا کرتی ہے ؟

جب رسول خدا نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب سنا تو عباس کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے ۔

اسلام دشمنی میں بنی امیہ کی مثال ڈھونڈ نے پر بھی کہین نہیں ملتی ۔

بنی امیہ جو حضرت عثمان کا خاندان تھا اس کے پیرو جواں غرضیکہ جن پر بھی نظر پڑتی ہے وہ اسلام دشمنی سے بھرا ہوا نظر آتا ہے ۔مروان کا باپ "حکم " رسول خدا (ص) کی نقلیں اتارا کرتا تھا ۔ اسی لئے رسول خدا (ص) نے اسے مدینہ سے جلاوطن کر کے طائف بھیج دیا تھا ۔

بلاذری لکھتے ہیےں :- حکم بن عاص بن امیہ حضرت عثمان کا چچا تھا ۔دور

____________________

(۱):- سیرت ابن ہشام ۔جلد چہارم ۔ ص ۳۳

۱۵۵

جاہلیت میں رسول خدا کا پڑوسی تھا اور آپ کا بد ترین ہمسایہ تھا اور اسلام قبول کرنے کے بعد بھی رسول خدا کو سخت اذیت پہنچایا کرتا تھا ۔ وہ بدبخت حضور کے پس پشت ان کی نقلیں اتارا کرتا تھا ۔"

ایک دفعہ رسول خدا اپنی کسی گھر والی کے حجرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے اس اپنی نقل کرتے ہوئے دیکھ لیا ۔آپ باہر آئے اور فرمایا کہیہ اور اسکی اولاد میرے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔ اس کے بعد آپ نے اسے اولاد سمیت طائف کی طرف جلاوطن کردیا ۔ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور میں بھی وہ جلا وطن ہی رہا ۔جب عثمان بنے تو انہوں نے اپنے چچا کو وہاں سے مدینہ بلالیا(۱) ۔

حضرت عثمان کا ایک انتہائی معتمد ابن ابی سرح تھا اور یہ وہ شخص ہے جو کتابت وحی کیا کرتا تھا۔ اس نے وحی کی کتابت میں تحریف کی تو رسول خدا نے اسے واجب القتل قرار دیا ۔ حضرت عثمان کے دور حکومت میں ان کے مادری بھائی ولید بن ابی معیط کو بڑا رتبہ حاصل تھا اور یہ وہ شخص ہے جسے رسول خدا (ص) نے بنی مصطلق سے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ موصوف جب اس خاندان کی آبادی کے قریب گئے تو ان سے ملے بغیر واپس چلے آئے اور رسول خدا کو بتایا کہ وہ لوگ تومیرے قتل کے درپے ہوگئے تھے ۔ مقدر اچھا تھا کہ میں بھاگ نکلا ۔

رسول خدا نے ان لوگوں کے خلاف فوج کشی کا ارادہ فرمایا ۔

اسی اثناء میں اس خاندان کے معزز افراد رسول خدا کے پاس آئے اور آکر بتایا کہ آپ کا عامل آیا تھا ۔ جب ہم نے اس کی آمد کی اطلاع سنی تو اس کے استقبال کے لئے آگے آئے لیکن آپ کا عامل ہم سے ملے بغیر واپس چلا گیا ۔

اللہ تعالی نے اس پر یہ آیت فرمائی "یا ایها الذین آمنوا ان جاءکم فاسق بنباء فتبینوا "

____________________

(۱):- بلاذری ۔انساب الاشراف جلد ۵ ص ۲۲

۱۵۶

"ایمان والو! جب کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔"(۱)

اللہ تعالی نے حضرت عثمان کے اس مادری بھائی کو قرآن مجید میں لفظ "فاسق" سے یاد فرمایا ہے ۔

ابو سفیان اور اس کے ہم نوا افراد کو دوسرے مسلمان "طلقاء" کے نام سے یاد کیا کرتے تھے ۔اور جب معاویہ کا ذکر ہوتا تو اس وقت کے مسلمان فرمایا کرتے تھے کہ معاویہ جو قائد المشرکین ابوسفیان کا بیٹا ہے اور وہ معاویہ جو ہند جگر خوار کا نور نظر ہے(۲) ۔

زبیر بن بکار نے "موبقات میں مغیرہ بن شعبہ کی زبانی لکھا ہے کہ :- حضرت عمر نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی اپنی کانی آنکھ سے بھی کچھ دیکھا ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔

حضرت عمر نے کہا :- خدا کی قسم بنو امیہ تیری آنکھ کی طرح اسلام کو بھی کانا بنائیں گے اور پھر اسلام کو مکمل اندھا بنادیں گے کسی کو معلوم نہ ہوسکے گا کہ اسلام کہا ں سے آیا اور کہا ں چلا گیا ۔

امام بخاری اپنی صحیح میں لکھتے ہیں کہ :- ایک شخص نے رسول خدا (ص) سے پوچھا کہ کیا ہمارے ان اعمال کا بھی ہم سے محاسبہ ہوگا جو ہم نے دور جاہلیت میں سرانجام دئیے تھے ؟

آپ (ص) نے فرمایا نہیں ۔جس نے اسلام لاکر اچھے عمل کئے اس کا مواخذہ نہیں ہوگا اور جس نے اسلام لانے کے بعد بھی برےعمل کئے تو اس سے اگلے اور پچھلے اعمال کا محاسبہ ہوگا(۳) ۔ حضرت عثمان کی مالی پالیسی خالصتا اقربا ءپروری پر مشتمل تھی ۔ انہوں نے بنی امیہ پر بیت المال کا منہ کھول دیا ۔

____________________

(۱):-الحجرات ۔۶۔

(۲):-ڈاکٹر طہ حسین ۔علی وبنوہ ۔ص ۱۵۵

(۳):- صحیح بخاری ۔جلد ہشتم ص ۴۹

۱۵۷

بنی امیہ پر نوازشات

حضرت عثمان نے مروان بن حکم کو دولاکھ دینار عطا فرمائے اور مروان کی بیٹی عائشہ کی شادی کے موقع پر اس کی بیٹی کو بھی دو لاکھ دینار عطا فرمائے ۔ علاوہ ازیں مروان کو بھاری جاگیریں بھی عطا فرمائیں ۔

حالت یہ ہوئی کہ بیت المال کے خازن زید بن ارقم نے استعفاء دے دیا ۔ مذکورہ بالا عطا تو حضرت عثمان کی انتہائی قلیل عطاؤں میں سے ہے ۔

انہوں نے خلافت سنبھالتے ہی ابو سفیان کو ایک لاکھ درہم عطا کئے(۱) ۔

اپنے ایک اور رشتہ دار کو بھاری رقم لکھ کر بیت المال کے خازن کے پاس بھیجا ۔خازن ایمان دار شخص تھا ۔ اس نے اتنی رقم دینے سے انکار کردیا ۔

حضرت عثمان نے خازن سے بار بار مطالبہ کیا کہ اسے مطلوبہ رقم خزانہ سے فراہم کی جائے لیکن خازن اپنی بات پرا ڑارہا ۔

حضرت عثمان نے اسے ملامت کرتے ہوئے کہا کہ تیری کیا حیثیت ہے ؟

تو بس ایک خزانچی ہے ۔لیکن اس نے کہا :- میں مسلمانوں کے بیت المال کا خزانچی ہوں ۔آپ کا ذاتی خزانچی نہیں ہوں ۔پھر اس نے خزانے کی چابیاں لاکر رسول خدا(ص) کے منبر پر رکھ دیں(۲)

بلاذری اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں :-

عبداللہ بن ارقم بیت المال کے خازن تھے ۔ حضرت عثمان نے ان سے ایک لاکھ درہم کی رقم طلب کی اور ابھی رقم نکلی ہی تھی کہ مکہ سے عبداللہ بن اسید بن ابی العیص اپنے ساتھ افراد کو لے کر حضرت عثمان کے پاس آیا ۔حضرت

____________________

(۱):-عبداالفتاح عبدالمقصود ۔الامام علی بن ابی طالب جلد دوم ص ۲۰-۲۱

(۲):-ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔ الفتنۃ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص ۹۴

۱۵۸

عثمان نے عبداللہ کے لئے تین لاکھ درہم اور اس کے تمام ساتھیوں کے لئے ایک ایک لاکھ درہم دینے کا حکم صادر فرمایا ۔

خازن ہے تجھے انکار کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔

خازن نے کہا :- جناب ! میں مسلمانوں کےبیت المال کا خازن ہوں اور آپ کا ذاتی خازن آپ کا غلام ہے ۔میں آپ کے اس رویہ کی وجہ سے استعفاء دے رہا ہوں ۔پھر اس نے چابیاں منبر رسول (ص) پر رکھ دیں اور خود ملازمت سے علیحدہ ہوگیا ۔

حضرت عثمان نے اسے منانے کے لئے اس کے پاس تین لاکھ درہم بھیجے لیکن اس نے لینے سے انکار کردیا ۔

حضرت عثمان کی سخاوت کی داستانیں لوگوں کے گوش گزار ہوئیں اس سے لوگوں میں نفرت کے جذبات پیدا ہونے لگے اور چند دنوں کے بعد لوگوں میں یہ افواہ پھیلی کہ بیت المال میں انتہائی قیمتی جواہر کا ہار موجود تھا جو حضرت عثمان نے اپنے کسی رشتہ دار کے حوالے کردیا ۔ لوگوں نے اس بات کا برا منایا اور حضرت عثمان سے شدید احتجاج کیا ۔اس احتجاج پر حضرت عثمان سخت ناراض ہوئے اور اعلان کیا ہم اپنی ضرورتوں کی تکمیل اس بیت المال سے کریں گے ۔اگر کسی کادل جلتا ہے تو جلتا رہے ۔اگر اس سے کسی کی ناک رگڑتی ہے تو رگڑتی رہے ۔حضرت عمار بن یاسر نے یہ سن کر کہا :- میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں اس اس فعل پرراضی نہیں ہوں ۔

حضرت عثمان نے کہا :- اسے گھٹیا شخص !تیری یہ جراءت کہ تو مجھ پر جسارت کرے؟ پھر پولیس کے افراد سے کہا اسے فورا پکڑلو۔

حضرت عمار کو پکڑ لیا گیا اور انہیں اتنا مارا گیا کہ وہ بے ہوش ہوگئے ۔

۱۵۹

انہیں اٹھا کر حضرت ام سلمہ کے حجرہ میں لایا گیا ۔حضرت عمار سارا دن بے ہوش رہے اور اسی بے ہوشی کی وجہ سے ان کی ظہر ،عصر اور مغرب کی نمازیں قضا ہوگئیں جب انہیں ہوش آیا تو وضو کرکے انہوں نے نماز ادا کی اور کہا :- اللہ کا شکر ہے آج پہلی دفعہ مجھے اللہ کے دین کے لئے نہیں مارا گیا ۔

حضرت ام سلمہ یا حضرت عائشہ میں سے ایک بی بی نے رسول خدا کا لباس اور ان کی نعلین نکال کر اہل مخاطب کرکے کہا لوگو ! یہ رسول خدا کا لباس اور ان کا موئے مبارک اور نعلین ہے ۔ ابھی تک تو رسول خدا کا لباس بھی پرانا نہیں ہوا تم نے ان کی سنت کو تبدیل کردیا ۔

اس موقعہ کی وجہ سے حضرت عثمان کو خاصی شرمندگی اٹھانی پڑی اور ان سے اس کا جواب نہ بن آیا(۱)

اگر یہ روایت درست ہے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ حضرت عثمان نے بیک دوغلطیاں کیں :

۱:- بنو امیہ کو مسلمانوں کا مال ناحق دیا گیا ۔

۲:-رسول خدا(ص) کے ایک جلیل القدر صحابی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

حضرت عثمان کی "سخاوت "کی مثال نہیں ملتی

آپ نے مروان بن حکم کو افریقہ کا سارا خمس عطا فرمایا اور "حکم" کے دوسرے بیٹے حارث کو تین لاکھ درہم عطا فرمائے۔

عبداللہ بن خالد بن اسید اموی کو تین لاکھ درہم عطا فرمائے ۔

اس کے وفد میں شامل ہر شخص کو ایک ایک لاکھ درہم دیا گیا ۔

زبیر بن عوام کو چھ لاکھ درہم دئیے گئے

طلحہ بن عبیداللہ کو ایک لاکھ درہم دیا گیا

____________________

(۱):-ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔ "عثمان بن عفان" ۔بلاذری ۔انساب الاشراف جلد پنجم ص ۴۸

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333