المیہ جمعرات

المیہ جمعرات11%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104064 / ڈاؤنلوڈ: 4470
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

سعید بن عاص کو ایک لاکھ درہم ملے

سعید بن عاص نے اپنی چار صاحبزادیوں کی شادی کی تو اس کی ایک ایک بیٹی کو بیت المال سے ایک ایک لاکھ درہم دئیے گئے ۔ان واقعات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بلاذری رقم طراز ہیں ۔ سنہ ۲۷ھ میں اسلامی لشکر نے افریقہ فتح کیا اور وہاں سے بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا ۔ اس مال غنمیت کا خمس مروان بن حکم کو دیا گیا ۔علاوہ ازیں سنہ ۲۷ ھ میں عبداللہ بن ابی سرح جو کہ حضرت عثمان کے رضاعی بھائی تھے کی زیر سرکردگی افریقہ پر حملہ کیاگیا ۔مسلمان فوج نے افریقہ فتح کرلیا ۔فوج کے سالار نے ایک لاکھ درہم کے بدلے سارا خمس خرید لیا اور بعداز اں حضرت عثمان س انہوں نے مذکورہ رقم معاف کرنے کی درخواست کی ۔حضرت عثمان نے انہیں رقم معاف کردی۔

زکواۃ کے اونٹ مدینہ لائے گئے ۔حضرت عثمان نے تمام اونٹ حارث بن حکم بن ابی العاص کو عطا کردئیے۔

حضرت عثمان نے حکم بن عاص کو بنی قضاعہ کی زکواۃ کا عامل مقرر کیا اور وہاں سے تین لاکھ درہم کی وصولی ہوئی ۔وہ ساری رقم انہیں دے دی گئ‏۔

حارث بن حکم بن ابی العاص کو تین لاکھ درہم دیئے گئے ۔

اور زید بن ثابت انصاری کو ایک لاکھ درہم دئیے گئے ۔

بیت المال کا یہ استحصال حضرت ابو ذر سے نہ دیکھا گیا اور انہوں نے مدینہ کے بازاروں اور گلیوں میں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھنی شروع کی :-والذین یکنزون الذھب والفضۃ ۔۔۔۔۔۔الایۃ "

"جو لو گ سونا چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے آپ انہیں دردناک عذاب کی بشارت دیں ۔یہی سونا اور چاندی دوزخ کی آگ میں گرم کرکے ان کی پیشانیوں اور پہلوؤں میں داغا جائے گا اور ان

۱۶۱

سے کہا جائے گا کہ یہ تمہارا وہ خزانہ ہے جسے تم جمع کیا کرتے تھے(۱)

"حضرت ابو ذر کے اس طرز عمل کی مروان نے حضرت عثمان کے پاس شکایت کی حضرت عثمان نے انہیں کہلا بھیجا کہ تم اس حرکت سے باز آجاؤ ۔

حضرت ابو ذر نے کہا: عثمان مجھے اللہ کی کتاب کی تلاوت سے باز رکھنا چاہتا ہے ؟ خدا کی قسم میں عثمان کی ناراضگی برداشت کرسکتا ہوں لیکن اللہ کی ناراضگی برادشت نہیں کرسکتا ۔

آپ نے حضرت عثمان کی مالی پالیسی ملاحظہ فرمائی ۔چند لمحات کے لئے اس مقام پر ٹھہر جائیں اور اس کے بر عکس حضرت علی (ع) کی مالی پالیسی کا بھی ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں ۔کیونکہ ۔

بضدها تتبین الاشیاء

حضرت علی (ع) کی مالی پالیسی

حضرت علی (ع) کے دور خلافت میں حضرت حسین (ع) کا ایک مہمان آیا ۔انہوں نے ایک درہم ادھار لے کر روٹی خریدی ۔سالن کے لئے ان کے پاس رقم موجود نہ تھی ۔انہوں نے اپنے غلام قنبر کو حکم دیا کہ یمن سے جو شہد آیا ہے اس میں سے ایک رطل کی مقداد میں شہد دیں ۔قنبر نے حکم کی تعمیل کی اور ایک رطل شہد انہیں لاکر دی ۔چند دنوں کے بعد حضرت علی نے تقسیم خاطر وہ شہد منگایا اور شہد کی مشک کو دیکھ کر فرمایا ۔میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کچھ کمی ہوئی ہے ۔ قنبر نے عرض کی :- جی ہاں ! آپ کے فرزند حسین (ع) نے ایک مہمان کی خاطر ایک رطل شہد مجھ سے لی تھی ۔

یہ سن کر حضرت علی (ع) نا راض ہوئے اور فرمایا کہ حسین (ع) کو بلاؤ۔جب

____________________

(۱):- التوبہ ۳۴

۱۶۲

حسین (ع) آگئے تو حضرت علی نے فرمایا :- حسین بیٹے ! تقسیم سے پہلے تم نے ایک رطل شہد بیت المال سے کیوں لی ہے ؟

حسین (ع) نے عرض کی :-بابا جان ! جب تقسیم ہوجائے گی تو میں اپنے حصہ سے اتنی مقدار واپس کردوں گا ۔

اس پر حضرت علی (ع) نے فرمایا :- یہ درست ہے کہ اس میں تمہارا بھی حصہ ہے لیکن تقسیم سے پہلے تم شہد لینے کے مجاز نہیں تھے ۔ بعد ازآں قنبر کو ایک درہم دے کر فرمایا کہ اس درہم سے بہترین شہد خرید کر دوسرے سہد میں شامل کردو ۔

حضرت علی (ع) کے عدل کے لئے عقیل کا واقعہ ہی کافی ہے ۔

اس واقعہ کو عقیل نے خود معاویہ بن ابی سفیان کے دربار میں اس وقت سنایا جب وہ علی (ع) ک عدل سے بھاگ کر وہاں پہنچے تھے کہ مجھے شدید غربت نے اپنی لپیٹ میں لیا تو میں اپنے بچوں کو اپنے ساتھ لے کر اپنے بھائی علی (ع) کے پاس گیا ۔میرے بچوں کے چہروں پر غربت ویاس چھائی ہوئی تھی اور بھوک کی وجہ سے ان کے چہرے زرد ہوچکے تھے ۔

میرے بھائی علی (ع) نے کہا کہ تم آج شام میرے پاس آنا ۔چنانچہ شام کے وقت میرا ایک بیٹا ہاتھ پکڑے ہوئے ان کے پاس لےگیا ۔انہوں نے میرے بچے کو مجھ سے ہٹا دیا اور مجھے کہا کہ اور قریب آجاؤ ۔میں سمجھا کہ علی مجھے زرد دولت کی تھیلی دیں گے لیکن انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر آگ کی طرح گرم لوہے رکھا اور اس کی وجہ سے میں یوں گرا جیسا کہ بیل قصاب کے ہاتھ سے گرتا ہے(۱) ۔

اس واقعہ کو خود حضرت علی (ع) نے اپنے ایک خطبہ میں ان الفاظ سے بیان فرمایا ہے ۔

"رایت عقیلا وقد املق حتی استما حنی مین برّکم صاعا ورایت

____________________

(۱):- ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغہ

۱۶۳

صبیانه شعث الشعور ، غیر الالوان من فقرهم ،عاودنی موکّدا وکرّرا علیّ القول مرددا ۔۔۔۔۔"(الامام علی بن ابی طالب)

"بخدا میں نے عقیل کو سخت فقر وفاقہ کی حالت میں دیکھا ۔یہاں تک کہ وہ تمہارے حصہ کے گیہوں میں ایک صاع مجھ سے مانگتے تھے اور میں نے ان کے بچوں کو بھی دیکھا جن کے بال بکھر ہوئے تھے اور فقر بے نوائی سے رنگ تیرگی مائل ہوچکے تھے گویا ۔ان کے چہرے نیل چھڑک کرسیاہ کردئیے گئے ہیں وہ اصرار کرتے ہوئے میرے پاس آئے اور اس بات کو باربار دہرایا ۔میں نے ان کی باتوں کو کان دے کر سنا تو انہوں نے یہ خیال کیا کہ میں ان کے ہاتھوں اپنا دین بھیج ڈالوں گا اور اپنی روش چھوڑ کر ان کی کھینچ تان پر ان کے پیچھے ہوجاؤں گا مگر میں نے یہ کیا کہ ایک لوہے کے ٹکڑے کو تپایا پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ عبرت حاصل کریں ۔چنانچہ وہ اس طرح سے چیخے جس طرح بیمار درد وکرب سے چیختا ہے اور قریب تھا کہ ان کا جسم اس داغ دینے سے جل جائے ۔ پھر میں نے ان سے کہا :- اسے عقیل ! رونے والیاں تم پر روئیں کیا تم لوہے کے اس ٹکڑے سے چیخ اٹھے ہو جسے ایک انسان نے ہنسی مذاق میں بغیر جلانے کی نیت کے تپا یا ہےاور مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہو جسے خدائے قہار نے اپنے غضب س بھڑکایا ہے ۔تم اذیت سے چیخو اور میں جہنم کے شعلوں سے نہ چلاؤں ۔"(۱)

ہمیں علی علیہ السلام کی زندگی صداقت اور انسانی عزت نفس کابلند ترین نمونہ نظر آتی ہے ۔

آپ جانتے ہیں کہ خوارج سے حضرت علی علیہ السلام کو کتنی نفرت تھی ۔آپ انہیں باطل پر سمجھتے تھے ۔ اس کے باوجود حضرت علی (ع) کا ان سے طرز عمل کیا تھا ۔اس کے لئے ڈاکٹر طہ حسین مصری کے بیان کردہ واقعہ کو پڑھیں :-

____________________

(۱):-نہج البلاغہ کے خطبہ ۲۲۱ سے اقتباس ۔

۱۶۴

"حضرت علی (ع)کے پاس حریث بن راشد السامی خارجی آیا اور کہا اللہ کی قسم میں نہ تو آپ کا فرمان مانوں گا اور نہ ہی آپ کے پیچھے نماز پڑوں گا ۔اس کے ان جملوں پر حضرت نے ناراضگی کا اظہار نہ کیا اور نہ ہی اسے اس پر کوئی سزا دی ۔آپ نے اسے بحث و مباحثہ کی دعوت دی اور فرمایا تم مجھ سے بحث کر لو تاکہ تمارے سامنے واضح ہوجائے اس نے دوسرے دن آنے کا وعدہ کیا اور آپ نے قبول کرلیا "(۱) ۔

ایک خارجی کے ساتھ حضرت علی (ع) کا سلوک ملاحظہ فرمائیں اور اس کے ساتھ ساتھ حضرت عمار کے ساتھ حضرت عثمان کا بھی سلوک ملاحظہ فرمائیں ۔ تاکہ آپ خود فیصلہ کر سکیں کہ علی (ع) کیا تھے اور عثمان کیا تھے ؟

حضرت عثمان نے اسلامی خزانہ کو صرف اپنے اقرباء پر ہی نہیں لٹایا بلکہ اس دور کے مشاہیر کو بھی اس سے وافر حصہ دیا ۔حضرت عثمان نے زبیر بن عوام کو چھ لاکھ عطا کئے ۔طلحہ بن عبیداللہ کو ایک لاکھ عطا کئے اور تمام قرضہ بھی معاف کردیا ۔

ایک طرف سے اپنے رشتہ داروں پر یہ نوازشات جاری تھیں ۔جب کہ دوسری طرح عامتہ المسلمین بھوک وافلاس اور شدید ترین غربت کا شکار تھے ۔

کیونکہ بیت المال کا اکثر حصہ تو بنی امیہ اور مقربین کی نذر ہوگیا ۔غریب عوام کو دینے کے لئے خزانہ خالی تھا ۔

چند مشاہیر کی دولت

حضرت عثمان کے دور خلافت میں اشرافیہ طبقہ کی جائیداد کی ایک ہلکی سی جھلک مسعودی نے یوں بیان کی ہے ۔

صحابہ کی ایک جماعت اس زمانہ میں بڑی مالدار بن گئی اور انہوں نے

____________________

(۱):- الفتنتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص ۱۲۵

۱۶۵

بڑی بڑی جاگیریں خریدلیں اور عظیم الشان محلات تعمیر کرلئے ۔ ان میں سے زبیر بن عوام نے بصرہ میں اپنا محل تعمیر کرایا جو اس وقت ۳۳۲ ہجری میں بھی اپنی اصل حالت میں پورے جاہ وجلال کے ساتھ موجود ہے ۔ اس میں تاجر اور سرمایہ دار آکر ٹھہرا کرتے ہیں ۔

اس کے علاوہ انہوں نے مصر ،کوفہ اور سکندریہ میں بھی عالی شان محل تعمیر کرائے ۔اسکے علاوہ اس کی دوسری جاگیروں کے متعلق بھی اہل علم جانتے ہیں ۔ زبیر کی وفات کے وقت اس کے گھر سے نقد سرمایہ پچاس ہزار دینار برآمد ہوئے ۔علاوہ ازیں انہوں نے اپنے پیچھے ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار لونڈیاں چھوڑیں ۔

طلحہ بن عبیداللہ التمیمی نے بھی کوفہ میں عظیم الشان محل تعمیر کیا اور عراق سے طلحہ کے غلہ کی یومیہ آمدنی ایک ہزار دینار تھی ۔جب کہ دوسر ے مورخین اس سے بھی زیادہ بیان کرتے ہیں ۔عراق کے علاوہ باقی علاقوں سے اس کی کمائی اس سے بھی زیادہ تھی ۔ اس نے مدینہ میں ایک مثالی محل تعمیر کرایا جس میں جص اور ساج استعمال کیا گیا تھا ۔

عبدالرحمن بن عوف زہری نےبھی فلک بوس محل تعمیر کرایا اور اسے وسعت بھی دی ۔اس کے اصطبل میں ایک ہزار گھوڑے ہر وقت بندھے رہتے تھے ۔ اس کے پاس ہزار اونٹ اور دس ہزار بکریاں تھیں ۔ وفات کے وقت ان کی چار بیویا ں تھیں اور ہر بیوی کو چوارسی ہزار (۸۴۰۰۰) دینار ملے ۔"(۱)

"اہل جنت " کے سرمایہ کی آپ نے ہلکی سی جھلک مشاہدہ فرمائی ۔جب حاکم ہی بیت المال کو دونوں ہاتھوں سے لٹا رہا ہو تو آپ رعایا سے صبر وقناعت کی امید کیسے کریں گے ۔ اس دور کے عمّال وحکام سے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ

____________________

(۱):- مسعودی ۔مروج الذہب ومعادن الجوہر ۔جلد ۲ ص ۲۲۲

۱۶۶

انہوں نے اسی بہتی گنگا سے ہاتھ نہیں دھوئے ہوں گے ؟

حضرت عثمان نے بنی امیہ کو صرف درہم ودینار دینے پر ہی کتفاء نہیں کی بلکہ انہیں بڑی بڑی جاگیریں بھی عطا فرمائیں ۔ ممکن ہے کہ اس مقام پر حضرت عثمان کے بہی خواہ اہل سنت اور معتزلہ ان کی صفائی میں یہ کہین کہ انہوں نے یہ زمینیں اس لئے دی تھیں تا کہ زمینیں آباد ہوجائیں ۔

اس کے جواب میں شیعہ یہ کہتے ہیں کہ یہ جواب تو حضرت عثمان نے بھی خود نہیں دیا تھا ۔یہ جواب ناقص اور " مدعی سست اور گواہ چست "والا معاملہ ہے ۔ اس کے جواب میں شیعہ یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ جاگیریں صرف بنی امیہ کو ہی کیوں دی گئی تھیں ؟ کیا بنی امیہ زمینوں کے اسپیشلسٹ تھے(۱) ؟

ڈاکٹر صاحب کے اس بیان کے بعد یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ حضرت عثمان کی اس مالیاتی پالیسی کے دو نتیجے نکلے اور دونوں ایک دوسرے سے خراب تر تھے ۔

۱:- مسلمانوں کے مال کو ناحق خرچ کیا گیا ۔

۲:- اور اس کی وجہ سے ایک نو دولتیے طبقہ نے جنم لیا جن کا مطمع نظر دوسروں کے حقوق کو غصب کرنا اور اپنی دولت میں بے پناہ اضافہ کرنا تھا ۔ اور یہ نو دولتیہ طبقہ اپنی دولت بچانے کے لئے کسی بھی برے سے برے حاکم کی اطاعت پر بھی کمربستہ ہوسکتا تھا اور مذکورہ طبقہ ایک خاص امتیاز اکا بھی خواہش مند تھا اور اپنی دولت کو تحفظ دینے کے لئے ہر اس حکومت کو خوش آمدید کہنے پر آمادہ تھا جو کہ مسلمانوں کے لئۓ مضر لیکن ان کے لئے مفید ہو ۔

حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت میں یہی سرمایہ دار طبقہ ہی ان کی مخالفت میں پیش پیش تھا ۔ انہوں نے حضرت علی کی مخالفت اپنے سرمایہ اور جاگیروں کے تحفظ کے لئے کی تھی ۔

____________________

(۱):-ڈاکٹر طہ حسین ۔مصری الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ص ۱۹۳۔۱۹۴

۱۶۷

حضرت عثمان کی مالیاتی پالیسی کے بنیادی خدوخال آپ نے مشاہدہ کئے اور آئیے دیکھیں کہ ان کی دیگر حکومتی پالیسیاں کیا تھیں ؟

حضرت عثمان کی حکومتی پالیسی

حضرت عثمان کی دوسری حکومتی پالیسی کے متعلق یہ کہنا درست ہے کہ ان کی کوئی ذاتی پالیسی سرے سے تھی ہی نہیں ۔ انہوں نے ہمیشہ بنی امیہ پر انحصار کیا اور اپنے سسرال اور دیگر رشتہ داروں کی بات کوانہوں نے ہمیشہ اہمیت دی تھی ۔

عثمانی دور میں مروان بن حکم کو خصوصی اہمیت حاصل تھی ۔انہوں نے ہمیشہ مروان کے مشوروں کو درخور اعتنا سمجھا اور بنی امیہ کو مسلمانوں کی گردن پر سوار کیا ۔

بنی امیہ جیسے ہی حاکم بنے انہوں نے امت مسلمہ میں ظلم وستم کو رواج دیا ۔ ان کی وجہ سے ملت اسلامیہ شدید مشکلات کا شکار ہوگئی ۔مگر ظالم وجابر حکام پورے اطمینان سے مسلمانوں کا استحصال کرتے رہے انہیں امت اسلامیہ کے افراد کی کوئی پراہ تک نہ تھی ۔ کیونکہ خلیفۃ المسلمین ان سے خوش تھا اور دوسرے مسلمانوں کی ناراضگی کی انہیں کوئی فکر ہی نہیں تھی۔

حضرت عثمان ک شخصیت کا الم ناک پہلو یہ ہے کہ وہ بنی امیہ پر جس قدر مہربان تھے ، دوسرے صحابہ اور عامۃ المسلمین کے لئے وہ اتنے ہی سخت تھے ۔ انہوں نے عبداللہ بن مسعود اور ابو ذر غفاری اور عما بن یاسر جیسے جلیل القدر صحابہ تک سے ہتک آمیز سلوک کیا ۔ان جلیل القدر صحابہ کو ان کے حکم سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور حضرت ابوذر غفاری پر صرے تشددہی نہیں بلکہ انہیں جلا وطن کرکے ربذہ کے بے آب وگیاہ میدان میں مرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیاگیا ۔

۱۶۸

ان اجلہ صحابہ کا جر صرف یہی تھا کہ وہ بنی امیہ کی لوٹ کھسوٹ اور بداعمالیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے تیار نہ تھے ۔

بلاذری بیان کرتے ہیں کہ :-

"حضرت عثمان نے بنی امیہ کے ان افراد کو عامل مقرر کیا جنہیں رسول خدا (ص) کی صحبت میسر نہ تھی اور نہ ہی اسلام میں انہیں کوئی مقام حاصل تھا ۔ اور جب لوگ ان کی شکایت کرنے آتے تو حضرت عثمان عوامی شکایات کو کئی اہمیت نہیں دیتے تھے اور انہیں معزول نہیں کرتے تھے ۔اپنی حکومت کے آخری چھ برسوں میں انہوں نے اپنے چچا کی اولاد کو حاکم مقررکیا ۔

اسی دور میں عبداللہ بن سعد بن ابی سرح مصر کا حاکم مقرر ہوا ۔ وہ کئی برس تک مصر میں رہا ۔مصر کے لوگ اس کے ظلم کی شکایت کرنے کے لئے حضرت عثمان کے پاس آئے اور حضرت عثمان نے ان کے کہنے پر اسے ایک خط بھی تحریر کیا جس میں اسے غلط کاریوں سے باز رہنے کی تلقین کی گئی تھی لیکن اس نے حضرت عثمان کے خط پر کوئی عمل نہ کیا اور شکایت کرنے والوں پر بے پناہ تشدد کیا ۔ جس کی وجہ سے ایک شخص موقع پر ہی دم توڑگیا ۔

اس کے بعد اہل مصر کا ایک اور وفد ابن ابی سرح کے مظالم کی شکایت کرنے کے لئے مدینہ آیا اور اوقات نماز میں انہوں نے صحابہ سے ملاقات کی اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی ان لوگوں کو داستان سنائی ۔چنانچہ طلحہ حضرت عثمان کے پاس گئے اور ان سے سخت لہجہ میں احتجاج کیا ۔ بی بی عائشہ نے بھی عثمان کے پاس پیغام روانہ کیا کہ ان لوگوں کو اپنے عامل سے انصاف دلاؤ۔

کبار صحابہ جن میں حضرت علی (ع) مقداد اور طلحہ وزبیر شامل تھے ۔ انہوں نے حضرت عثمان کے نام ایک خط تیار کیا جس میں اس کے عمال کے مظالم کی تفصیل بیان کی گئی تھی اور خط کے ذریعے سے حضرت عثمان کو تنبیہ کی گئی تھی ۔

۱۶۹

کہ اگر انہوں نے اپنے رویے کو درست نہ کیا تو پھر انہیں خلافت کرنے کا حق حاصل ہوگا ۔ عمار نے وہ خط لیا اور حضرت عثمان کے سامنے پیش کیا ۔جب حضرت عثمان نے اسکی ایک سطر پڑھی تو انہیں بہت غصہ آیا اور عمار سے کہا :- تیری یہ جراءت کہ تو ان کا خط میرے سامنے لائے ؟

عمار نے کہا :- میں خط اس لئے لایا ہوں کہ میں آپ کا زیادہ خیر خواہ ہوں ۔حضرت عثمان نے کہا :- سمیہ کا فرزند تو جھوٹا ہے ۔

حضرت عمار نے کہا :- خدا کی قسم میں اسلام کی پہلی شہید خاتون سمیہ اور یاسر کا بیٹا ہوں ۔

حضرت عثمان نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ اسے پکڑ کر لٹائیں ۔ نوکروں نے انہیں پکڑکر لٹادیا ۔حضرت عثمان نے جناب عمار کو اپنے پاؤں سے ٹھوکریں ماریں ۔ضربات اتنی شدید تھیں کہ انہیں "فتق" کا عارضہ لاحق ہوگیا ۔ اور بے ہوش ہوگئے ۔"(۱)

جب حضرت عثمان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تویہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی مالیاتی اور حکومتی پالیسیوں کا مقصد امت اسلامیہ کے مقدر سے کھیلنا اور دین اسلام کے بہی خواہوں کو کمزور کرنا اور دشمنان اسلام بالخصوص بنی امیہ کے لئے مستقبل بنی امیہ کے لئے مستقبل کی حکومت کی راہ ہموار کرنا تھا ۔

حضرت عثمان کی پالیسی نہ یہ کہ قرآن وسنت سے علیحدہ تھی بلکہ بلکہ سیرت شیخین سے بھی جدا گانہ تھی ۔

واقدی بیان کرتے ہیں کہ :-

"جب حضرت عثمان نے سعید بن العاص کو ایک لاکھ درہم دئیے تو لوگوں نے اس پر تنقید کی اور اسے غلط قرار دیا ۔حضرت علی (ع) اور ان کے ساتھ دیگر صحابہ نے مل کر حضرت عثمان سے اس سلسلہ میں گفتگو کی تو حضرت عثمان نے کہا وہ

____________________

(۱):- بلاذری ۔انساب الاشراف ۔جلد پنجم ۔ص ۲۵ ۔ ۲۶

۱۷۰

میرا قریبی رشتہ دار ہے ۔صحابہ نے کہا تو کیا ابو بکر وعمر کے اس جہان میں کوئی رشتہ دارنہیں تھے ؟

حضرت عثمان نے کہا کہ وہ اپنے رشتہ داروں کو محروم کرکے خوش ہوتے تھے جب کہ میں اپنے رشتہ داروں کو دے کر خوش ہوتا ہوں ۔"(۱)

حضرت عثمان کی یہ روش کسی طرح سے بھی سیرت شیخین سے مطابقت نیں رکھتی تھی اور ان کی اس روش کاروح اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا ۔

عثمانی عمّال کی سیرت

آئیے چند لمحات کے لئے عثمانی عمال پر بھی نظر ڈال لیں ۔ اس حقیقت میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے کہ حضرت عثمان نے امور سلطنت کے لئے اپنے اقرباء پر ہی انحصار کیا تھا ۔اور خدا گواہ ہے کہ ہم اتنے تنگ نظر نہیں ہیں کہ ہم صرف رشتہ داری کی وجہ سے کسی پر اعتراض کریں ۔ہم جانتے ہیں کہ سلاطین کا قدیم الایام س یہی وطیرہ رہا ہے کہ وہ اہم مناصب پر اپنے بااعتماد اور باصلاحیت رشتہ داروں کو فائز کرتے رہے ہیں ۔

اگر رشتہ دار با صلاحیت ہوں تو انحصار کیا تھا کیا وہ باصلاحیت اور صاحب سیرت افراد تھے ؟

حضرت عثمان نے اپنی قرابت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے افراد کو بھی اہم عہدوں پر فائز کیا جن کے فسق وفجور اور نفاق وکذب کی اللہ نے قرآن میں گواہی دی تھی ۔

ذیل میں ہم بطور نمونہ اپنے قارئین کے لئے چند افراد کی سیرت کا تذکرہ

____________________

(۱):- بلاذری ۔انساب الاشراف ۔بحوالہ واقدی جلد ص ۔ص ۲۷۔

۱۷۱

کرتے ہیں ۔لیکن ان واقعات کو "مشتے ازخردارے" کی حیثیت حاصل ہے ۔اگر ہم عمال عثمانی کی بد کرداریوں کی تفصیل بیان کرنے لگیں تو اس کے لئے علیحدہ کتاب کی ضرورت ہے ۔

ولید بن عقبہ

عثمان عمال کا حقیقی چہرہ دکھانے کے لئے ہم ولید بن عقبہ بن ابی معیط سے ابتدا کرتے ہیں ۔ حضرت عثمان نے انہیں کوفہ کا والی مقرر کیا تھا ۔

اس "اموی ستارہ " کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ حضرت رسول کریم (ص) نے اسے بنی مصطلق سے صدقات وصول کرنے کے لئے روانہ کیا ۔ یہ صاحب ان سے ملے بغیر واپس آگئے اور کہا کہ ان لوگوں نے مجھے قتل کرنا چاہا اور صدقات دینے سے انکار کردیا ۔ رسول خدا(ص) نے مذکورہ قبیلہ کے خلاف فوج کشی کا ارادہ کرلیا ۔ اس اثناء میں ان کا ایک وفد رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ ! ہم نے آپ کے قاصد کی آمد کا سنا تھا اس کی تعظیم وتکریم کے لئے باہر آئے لیکن آپ کا قاصد ہمیں دیکھ کر دور سے ہی واپس چلاگیا ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید کی یہ آیت نازل فرمائی :-یا ایها الذین آمنوا ان جاءکم فاسق بنباء فتبینوا ان تصیبوا قوما بجهالة فتصبحوا علی ما فعلتم نادمیین "(۱) ۔

"ایمان والو!اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو ۔ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو تکلیف پہنچاؤ اور بعد میں اپنے کیے پر تمہیں ندامت اٹھانی پڑے ۔"

ولید وہ "شخص "ہیں کہ ایک دفعہ اس کی بیوی رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے شوہر کی شکایت کی کہ وہ اسے ناحق مارتا پیٹتا ہے ۔

____________________

(۱):- الحجرات ۔۶۔

۱۷۲

رسول خدا (ص) نے اسے فرمایا کہ جا کر اپنے شوہر سےکہہ دو کہ مجھے رسول خدا(ص) نے امان دی ہے ۔ وہ بے چاری چلی گئی اور رسولخدا(ص) کا پیغام سنایا ۔

دوسرے دن عورت پھر حاضر ہوئی اور عرض کی :- یا رسول اللہ ! اس نے آپ کا پیغام سن کر مجھے مارا۔

رسول خدا(ص) نے اس کے کپڑے کا ایک حصہ پھاڑا اور کہا جاکر شوہر سے کہو کہ رسول خدا نے بطور نشانی اس کپڑے کو پھاڑا ہے ۔ لہذا مجھے مت مارو۔

وہ عورت چلی گئی ۔تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ روتی ہوئی رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی :- یا رسول اللہ ! میں نے آپ کا فرمان اسے سنا یا اور نشانی بھی دکھائی لیکن اس نے مجھے پہلے سے بھی زیادہ پیٹا(۱) ۔

کوفہ میں ولید شراب نوشی

حضرت عثمان نے اسی ولید کو کوفہ کا والی مقرر کیا اور یہ "بزرگوار" اپنے ہم پیالہ ساتھیوں کے ساتھ ساری ساری رات شراب پیا کرتا تھا ۔ ایک دفعہ صبح کی آذان ہوئی تو یہ صاحب نشہ میں دھت تھے اور نماز پڑھانے کے لئے مسجد میں چلے گئے اور فجر کی نماز دورکعت کی بجائے چاررکعت پڑھائی ۔اور پھر مقتدیوں کی طرف منہ کرکے کہا :- اگر ارادہ ہوتو اور زیادہ پڑھادوں ؟

بعض راوی بیان کرتے ہیں کہ جب وہ سجدہ میں تھے توکہہ رکہے تھے کہ :- خود بھی پیو اور مجھے بھی جام پلاؤ ۔

پہلی صف میں کھڑے ہوئے ایک نمازی نے کہا:- مجھے تجھ پر کوئی حیرت نہیں ہے ۔مجھے تو اس پر تعجب آتا ہے جس نے تجھ جیسے شخص کو ہمارا والی بنا کر بھیجا ۔ولید نے ایک دفعہ خطبہ دیا تو لوگوں نے اس پر پتھراو کیا ۔صاحب

____________________

(۱):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد چہارم ۔ص ۱۹۵

۱۷۳

موصوف پتھراو سے گھبرا کر اپنے محلے میں چلے گئے ۔

ولید زانی تھا ۔ شراب پیا کرتا تھا ۔ ایک دفعہ شراب پی کر مسجد میں نماز پڑھانے آیا تو اس نے محراب میں قے کردی اور قے میں شراب کا رنگ نمایاں تھا قے کرنے کے بعد اس نے یہ شعر پڑھا ۔

علّق القلب الربابا بعد ما شابت و شابا

"میرا دل رباب سے اٹک گیا ۔ جب وہ جوان ہوگئی اور میں بھی جوان ہوگیا ۔"

اہل کوفہ نے حضرت عثمان کے پاس اس کی شکایت کی اورحد شرعی کا مطالبہ کیا ۔ناچار حضرت عثمان نے ایک شخص کو حد جاری کرنے کے لئے کہ ۔ جب وہ شخص درہ اٹھا کرولید کے قریب گیا تو ولید نے حضرت عثمان سے کہا :- آپ کو اللہ اور اپنی قرابت کا واسطہ دیتا ہوں کہ کہ مجھے معاف کردیں ۔حضرت عثمان نے اسے چھوڑدیا اور پھر خیال کیا کہ دنیا یہ کہے گی کہ عثمان نے حد شرعی کو چھوڑ دیا ہے اس خیال کے تحت انہوں نے خود ہی اسے اپنے ہاتھ سے دوچار کوڑے مار کر چھوڑ دیا ۔

اہل کوفہ دوبارہ ولید کی شکایت لے کر حضرت عثمان کے پاس آئے تو حضرت عثمان اہل کوفہ پر سخت ناراض ہوئے اور کہا :- تم لوگ جب بھی کسی امیر پر ناراض ہوتے ہو تو اس پر تمہتیں تراشتے ہو ۔

ان لوگوں نے حضرت عائشہ کے پاس جاکر پناہ لی ۔جب حضرت عثمان نے دیکھا کہ ان لوگوں کو ام المومنین نے پناہ دے رکھی ہے تو کہا :- عراق کے فاسق اور بدمعاشوں کو عائشہ کا گھر ہی پناہ دیتا ہے ۔یہ الفاظ بی بی عائشہ نے سنے تو رسول خدا کی نعلین بلند کرکے کہا :- تو نے اس تعلین کے مالک کی سنت کو چھوڑ دیا ہے(۱) ۔

____________________

(۱):- المسعودی ۔مروج الذہب ۔جلد دوم ۔ص ۲۲۴

۱۷۴

ولید کو والی کوفہ کیوں بنایا گیا

ولید کے والی کوفہ بننے کی داستان بھی عجیب ہے ۔

راوی کہتے ہیں کہ حضرت عثمان جس تخت پر بیٹھا کرتے تھے ۔اس پر ایک اور شخص بیٹھنے کی گنجائش بھی موجود تھی ۔

حضرت عثمان کے ساتھ صرف چار افرادہی بیٹھا کرتے تھے اور وہ عباس بن عبدالمطلب ،ابو سفیان بن حرب ،حکم بن ابی العاص اور ولید بن عقبہ تھے ۔

ایک دن ولید حضرت عثمان کے ساتھ تخت پر بیٹھا ہوا تھا کہ حکم بن ابی العاص آگیا تو حضرت عثمان نے ولید کو کھڑا ہونے کا اشارہ کیا تاکہ حکم کو بٹھایا جاسکے ۔جب کچھ دیر بعد حکم چلا گیا تو ولید نے کہا:- آپ نے چچا کو اپنے چچا زاد پر ترجیح دی ہے اور اس کی وجہ سے میں نے دو شعر تخلیق کئے ہیں ۔

واضح رہے کہ مروان کا باپ حکم حضرت عثمان کا چچا تھا اور بنی امیہ کا بزرگ تھا اور ولید حضرت عثمان کا مادری بھائی تھا ۔

حضرت عثمان نے کہا وہ شعر مجھے سناؤ ۔

رایت لعمّ المرء زلفی قرابة دوین اخیه حادثا لم یکن قدما

فاملت عمرا ان یشبّ وخالدا لکی یدعوانی یوم نائبة عمّا

"میں نے دیکھا لیا ہے کہ بھائی کی نسبت لوگ چچا کا زیادہ احترام کرتے ہیں ۔ پہلے یہ بات رائج نہ تھی ۔ آپ کے دونوں فرزندوں یعنی عمر اور خالد کی عمر دراز ہو تاکہ وہ بھی ایک دن مجھے چچا کہہ کر مخاطب کریں ۔"

یہ شعر سن کر حضرت عثمان نے کہاکہ تم بھی کیا یاد رکھو گے ۔میں نے تمہیں کوفہ کا گورنر بنایا ۔

جی ہاں ! یہ وہی ولید ہے جسے قرآن میں فاسق کہا گیا ۔یہی وہ ولید ہے

۱۷۵

جس نے رسول خدا(ص) کے فرمان کو تسلیم نہیں کیا تھا ۔

گورنری کا پروانہ لے کر ولید کوفہ پہنچا اور والی کوفہ سعد سے ملاقات کی سعد نے پوچھا کہ تم یہاں سیروسیاحت کرنے آئے ہو یا یہاں کے حاکم بن کے آئے ہو؟

ولید نے کہا:- میں یہاں کا حاکم بن کر آیا ہوں ۔یہ سن کر سعد نے کہا خدا کی قسم مجھے علم نہیں ہورہا کہ میں پاگل ہوگیا ہوں یا تو دانا ہوگیا ہے ؟ ولید نے کہا :- نہ تو آپ پاگل ہوئے ہیں اور نہ ہی میں دانا ہوا ہوں ، جن کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہے یہ انہی کا فیصلہ ہے ۔(۱)

حضرت عثمان کے دیگر عمال کے متعلق بھی کتب تاریخ بھری ہوئی ہیں حضرت عثمان نے عبداللہ بن عامر کو بصرہ کا والی مقررکیا ۔اس وقت اس کی عمرپچیس برس تھی ۔ جب کہ اس وقت کبار صحابہ اور تجربہ کا ر افراد بھی موجود تھے ۔

عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو مصر کا حاکم مقرر کیا گیا ۔یہ وہی شخص ہے جسے اللہ اور رسول خدا نے واجب القتل قرار دیا تھا اور فتح مکہ کے دن اعلان فرمایا تھا کہ ہر شخص کو امان ہے مگر عبداللہ بن ابی سرح کیلئے کوئی امان نہیں ہے ۔یہ شخص اگرغلاف کعبہ سے بھی چمٹا ہوا ہو تو بھی اسے قتل کردیا جائے ۔(۲)

____________________

(۱):-ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ص ۱۸۷

(۲):- عبدالفتاح عبد المقصود ۔الامام علی بن ابی طالب جلد دوم ص ۳۳

۱۷۶

حضرت عثمان کا صحابہ سے سلوک

بنی امیہ کے ظالم حکام نے مسلمان سے جو سلوک کیا وہ تاریخ کا ایک حصہ ۔لیکن حضرت عثمان نے بذات خود جو اجلہ صحابہ سے سلوک کیا وہ کسی طرح سے بھی مستحسن نہیں ہے ۔

تاریخ کے قارئین جانتے ہیں کہ عامۃ المسلمین کے ساتھ بنی امیہ نے اتنی بد سلوکی نہیں کی جتنی کہ حضرت عثمان نے جلیل القدر صحابہ کے ساتھ کی ۔

جب صحابہ کرام کی ممتاز جماعت نے حضرت عثمان کے عمال کی ان کے پاس شکایت کی اور یہ مطالبہ کیا کہ ایسے کہ ایسے قماش کے حکمرانوں کو معزول کیا جائے تو حضرت عثمان نے حسن تدبیر کی جگہ اکابر صحابہ کو تشدد کا نشانہ بنایا ۔

حضرت عثمان کے تشدد کا نشانہ بننے والے افرادمیں حضرت عبداللہ بن مسعود شامل ہیں ۔قرآن مجید کی جمع وتدوین کے وقت ان کاآپس میں تنازعہ ہوا تو حضرت عثمان نے انہیں مطمئن کرنے کی بجائے انہیں درے مارنے کا حکم دیا ۔حضرت عثمان کے غلاموں نے ان پر بے تحاشہ تشدد کیا انہیں اٹھا کر زمین پر پٹکا گیا جس کی وجہ سے ان کی پسلیاں ٹوٹ گئیں اور اتنا تشدد کرکے بھی انہیں تسیکن نہ ہوئی تو انہوں نے ان کا وظیفہ بند کردیا ۔حضرت ابوذر غفاری کے ساتھ اس سے بھی زیادہ برا سلوک کیا گیا ۔

حضرت ابو ذر غفاری رسالت مآب کے عظیم المرتبت صحابی ہیں اور رسول خدا (ص) نے ان کے متعلق فرمایا تھا کہ :- جنت ابو ذر کی مشتاق ہے ۔ جناب رسول خدا(ص) نے ابو ذر غفاری کے زہد وتقوی کی تشبہیہ حضرت عیسی بن مریم علیہما السلام ے دی تھی ۔ اور ان کے متعلق رسول خدا(ص) کی مشہور حدیث وارد ہے :- " مااظلّت الخضرآء ولا اقلّت الغبراء اصدق من ذی لھجۃ من ابی ذر " آسمان نے

۱۷۷

سایہ نہیں کیا اور زمین نے اپنی پشت پر کسی ایسے انسان کو نہیں بٹھایا جو ابو ذر سے زیادہ سچا ہو ۔"

حضرت عثمان کے دور میں سرمایہ داری نظام کے عروج کو دیکھ کر حضرت ابو ذر اس کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے اور سارا دن مدینہ کے بازاروں میں سرمایہ داری کی مخالفت کیا کرتے تھے ۔ اور سورۃ توبہ کی آیت کی تلاوت فرماتے تھے ۔" والذین یکنزون الذھب والفضۃ ۔۔۔۔۔۔" یعنی جو لوگ سونا چاندی کے ڈھیر اکٹھے کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ،انہیں دردناک عذاب کی بشارت دو ۔جس دن دوزخ کی آگ میں سونا چاندی کو تپایا جائے گا اور ان کی پیشانیوں ،پہلوں اور پشتوں کو داغا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا یہ تمہارا ذخیرہ کردہ مال ہے ان کا مزہ چکھو ۔"

حضرت عثمان نے محسوس کیا کہ ابو ذر کی تعلیمات سے مدینہ کے غریب طبقہ کے لوگ متاثر ہورہے ہیں تو انہیں جلاوطن کرکے شام بھیج دیا گیا اور شام کے والی معاویہ بن ابی سفیان کو ان پر کڑی نظر رکھنے کا حکم دیاگیا ۔

حضرت ابو ذر کا شام میں بھی وہی رویہ وہا جو کہ مدینہ میں تھا ۔آخرالامر معاویہ نے انہیں درشت اونٹ پر سوار کرکے مدینہ روانہ کیا اور حضرت عثمان نے انہین مدینہ میں رہنے کی اجازت نہ دی ۔ان کو عرب کے صحرائے ربذہ میں جلاوطن کیاگیا ۔ جہاں ان کے فرزند ذر کی وفات ہوگئی اور وہ اور ان کی بیٹی صحرا میں اکیلے رہ گئے ۔ چند دنوں کے بعد عالم غربت میں ان کی وفات ہوئی ۔اہل عراق کا ایک قافلہ وہاں سے گزرا تو انہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کے اس جلیل القدر صحابی کی تجہیز وتکفین کی ۔

بلاذری بیان کرتے ہیں کہ جب خلیفہ عثمان کو حضرت ابو ذر کی وفات کی خبر ملی تو حضرت عثمان نے کہا : اس پر اللہ کی رحمت ہو ۔

۱۷۸

حضرت عمار نے فرمایا :- اس کے جلا وطن کرنے والے کے متعلق کیا خیال ہے ؟ تو حضرت عثمان نے بڑے تیز وتند لہجے میں عمار سے کہا:- کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ میں ابو ذر کو جلاوطن کرکے نادم ہوں ۔

اس کے بعد حضرت عثمان نے جناب عمار بن یاسر کی جلاوطنی کے احکام جاری کئے اورکہا کہ تو بھی ربذہ چلا جا ۔

حضرت عمار نے جلاوطنی کے لئے اپنی تیاریاں مکمل کرلی تو ان کے قبیلے بنو مخزوم کے افراد داد رسی کے لئے حضرت علی (ع) کے پاس آئے ۔ حضرت علی (ع) عثمان کے پاس گئے اور فرمایا :- خدا کا خوف کر تو نے پہلے ہی ایک صالح مسلمان کو جلاوطن کیا ہے ۔اور وہ بے چارہ جلاوطنی میں فوت ہوچکا ہے اور پھر تو اس واقعہ کو دہرانے کا خواہش مند ہے ۔ان دونوں کے درمیان کافی تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ خلیفہ عثمان نے حضرت علی سے کہا :- عمار کے بجائے جلاوطنی کا زیادہ حقدار تو ہے ۔

حضرت علی (ع) ن ےفرمایا اگر تجھ میں جراءت ہے تو ایسا کرکے بھی دیکھ لے ۔بعد از اں مہاجرین جمع ہوکر خلیفہ کے پاس آئے اور کہا:- جب بھی کسی شخص نے تم سے گفتگو کی ہے تم نے اسے جلاوطن کردیا ہے ۔تمہاری یہ روش اچھی نہیں ہے ۔(۱)

حضرت عمار کی جلاوطنی کے احکام انہیں مجبورا واپس لینے پڑے ۔حضرت عمار جیسے جلیل القدر صحابی کو جس وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس کی مزید تفصیل علامہ عبد الفتاح عبد المقصود کی زبانی سماعت فرمائیں ۔" بہت سے صحابہ نے بنی امیہ کے ظالم عمال کی شکایات کے لئے ایک مشترکہ خط تحریر کیا ۔ حضرت عمار وہ خط لے کر خلیفہ صاحب کے پاس گئے ۔جب عمار خلیفہ عثمان کے دربار میں پہنچے تومروان نے حضرت عثمان سے کہا ۔ یہ کالا حبشی غلام لوگوں کو آپ کے خلاف

____________________

(۱):- انساب الاشراف ۔جلد پنجم ص ۵۴-۵۵

۱۷۹

برانگیختہ کررہا ہے ۔اگر آج آپ اسے قتل کردیں تو آیندہ کے فتنہ سے محفوظ ہوجائیں گے ۔"

حضرت عثمان نے مروان کی رائے کو پسند کیا اور عصا اٹھا کر حضرت عمار کو بے تحاشا مارا ۔خلیفہ کے خاندان کے افراد نے بھی انہین مارنے میں کوئی کسرباقی نہ اٹھا رکھی ۔

ان ظالمانہ ضربات کی وجہ سے انہیں "فتق" کا عارضہ لاحق ہوگیا ۔

حضرت عمار بے ہوش ہوگئے ۔خلیفہ کے نوکروں نے انہیں پکڑ کر برستی ہوئی بارش اور ٹھنڈے موسم میں سڑک کے کنارے ڈال دیا(۱) " اسی دور میں عدل اجتماعی ختم ہوچکا تھا اور اسلامیہ پر ظلم وجور کے سائے منڈلارہے تھے ۔

محقق معاصر ڈاکٹر طہ حسین نے بالکل درست لکھا ہے کہ :- دور عثمانی کے لئے اہل سنت اور معتزلہ کو حضرت عثمان کے عمال کی ہی صفائی نہیں دینی پڑے گی بلکہ انہیں حضرت عثمان کے اعمال کی بھی وجہ دینی ہوگی انہوں نے عظیم المرتبت صحابہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عمار بن یا سر کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ کسی طور پر صحیح نہیں ہے ۔

حضرت عمار کو اتنا مارا گیا کہ انہیں "فتق "لاحق ہوگیا اور حضرت عبداللہ بن مسعود کو بے عزت کرکے مسجد سے نکالا گیا اور تشدد کے ذریعے ان کی پسلیاں توڑ ڈالی گئیں ۔

ان دو عظیم المرتبت انسانوں کے ساتھ حضرت عثمان نے جو سلوک کیا تھا صرف اپنے عمال کی زبان پراعتماد کیاگیا تھا ۔ ان دونوں بزرگواروں پر باقاعدہ کوئی مقدمہ چلایا گیا تھا اور نہ ہی فریقین سے بیان لئے گئے تھے اور کسی واضح اور ٹھوس ثبوت کے بغیر ان کو وحشیانہ

____________________

(۱):- عبدالفتاح عبدالمقصود ۔الامام علی بن ابی طالب ۔جلددوم ۔ص ۳۴

۱۸۰

تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔

یقینا حضرت عثمان کو ایسا کرنے کا کوئی قانونی اور شرعی اختیار حاصل نہ تھا ۔ حضرت ابو ذر کی مثال کو ہی لے لیں ۔ ان کا جرم صرف یہی تھا کہ انہوں نے ان کی مالیاتی پالیسی بالخصوص اقرباء پروری یعنی بنی امیہ نوازی کو ہدف تنقید بنایا تو انہیں اس کی پاداش میں مدینہ سے نکال دیاگیا ۔

حضرت عثمان نے صرف اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنے حکام و عمال کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ جس کو چاہیں جلاوطن کریں اس کی اجازت کے ملنے کے بعد ان کے عمال کبھی اپنے مخالفین کو کوفہ سے شام جلاوطن کرنے لگے اور کبھی شام سے بصرہ اور کبھی بصرہ سے مصر جلاوطن کرتے تھے ۔ گویا جلاوطن کرکے معاویہ کے پاس بھیجتا تھا ۔ اور معاویہ لوگوں کو جلاوطن کرکے سعید کے پاس بھیجتا اور سعید عبدالرحمن بن خالد کی طرف جلاوطن کردیتا تھا ۔ مظلوم لوگوں کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا اور نہ ہی انہیں کسی عدالت میں پیش کیا جاتا تھا اور ان کو کسی قسم کی صفائی کا موقع بھی فراہم نہیں کیا جاتا تھا(۱) ۔

عبداللہ بن مسعود کی داستان مظلومیت

حضرت عبداللہ بن مسعود کی داستان مظلومیت خاصی عبرت انگیز ہے ۔ان کے مصائب کی ابتداء اس وقت ہوئی جب حضرت عثمان کا مادری بھائی ولید بن عقبہ کوفہ کا گورنر بن کے آیا ۔ جناب عبداللہ بن مسعود اس وقت کوفہ کے بیت المال کے خازن تھے ۔

ولید نے ان سے ایک بڑی رقم بطور قرض مانگی انہوں نے دے دی ۔چند دنوں کے بعد ولید نے ایک اور بھاری رقم نکالنے کا حکم دیا ۔ تو انہوں نے انکار

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔ الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ص ۱۹۸-۱۹۹

۱۸۱

کردیا ۔ولید نے حضرت عثمان کی طرف ایک خط لکھا جس میں بیت المال کے خازن کے اس طرز عمل کی شکایت کی ۔

حضرت عثمان نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو خط لکھا کہ تم ہمارے مال کے خازن ہو ۔لہذا تم ولید کو مال لینے سے منع نہ کرو

حضر ت عبداللہ بن مسعود نے یہ خط پڑھ کر چابیاں پھینک دیں اور کہا کہ :- میں اپنے آپ کو مسلمانوں کا خازن تصور کرتا تھا اور اگر مجھے تمہارا خازن بننا ہے تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔

بیت المال کو چھوڑنے کے بعد وہ کوفہ میں مقیم رہے ۔

ولید نے سارا واقعہ خط میں لکھ کر حضرت عثمان کو روانہ کیا ۔حضرت عثمان نے ولید کو لکھا کہ اسے کوفہ سے نکال کر مدینہ بھیج دو ۔حضرت ابن مسعود نے کوفہ چھوڑا اور اہل کوفہ نے ان کی مشایعت کی اور ابن مسعود نے انہیں اللہ کے تقوی اور تمسک بالقرآن کی وصیت کی ۔اہل کوفہ نے ان سے کہا ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔آپ نے ہمارے جاہلوں کو تعلیم دی اور دین کی سمجھ عطا کی ۔

ابن مسعود مدینہ آئے اس وقت حضرت عثمان منبر رسول پر خطبہ دے رہے تھے ۔جب ان کی نظر ابن مسعود پر پڑی تو کہا:- وہ دیکھو برائی کا کیڑا تمہارے پاس آیا ہے ۔

ابن مسعود نے کہا :- میں ایسا نہیں ہوں میں تو پیغمبر اکرم کا صحابی ہوں ۔حضرت عثمان نے اپنے درباریوں کو حکم دیا کہ اسے مسجد سے ذلت کے ساتھ باہر نکال دیں اور عبداللہ بن زمعہ نے انہیں اٹھا کر پوری قوت کے ساتھ زمین پہ پٹکادیا ۔ جس کی وجہ سے ان کی پسلیاں ٹوٹ گئی ۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود مدینہ میں رہے ۔عثمان انہیں مدینہ سے باہر

۱۸۲

جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔

قتل عثمان سے دو برس قبل ان کی وفات ہوئی وفات سے چند روز قبل حضرت عثمان ان کی عیادت کے لئے آئے تو پوچھا ۔

عثمان :- آپ کو کونسی بیماری کی شکایت ہے ؟

ابن مسعود :- اپنے گناہوں کی ۔

عثمان :- کیا میں طبیب کو بلاؤں ؟

ابن مسعود :- طبیب نے تو بیماری دی ہے

عثمان :- آپ کیا چاہتے ہیں ؟

ابن مسعود :- اپنے رب کی رحمت ۔

عثمان :- کیا میں تمہار وظیفہ جاری کردوں ؟

ابن مسعود:- جب مجھے ضرورت تھی تو تم نے روک لیا تھا ۔ اب جبکہ میں موت کے استقبال کے لئے آمادہ ہوں تو میں وظیفہ لے کر کیا کروں گا؟

عثمان:- وظیفہ سے آپ کی اولاد کی گزر بسر اچھی ہوگی ۔

ابن مسعود :- ان کا رازق اللہ ہے ۔

عثمان :- عبدالرحمان کے ابا! میری بخشش کے لئے اللہ سے دعا مانگیں ۔

ابن مسعود :- میری خدا سے درخواست ہے کہ تجھ سے میرا حق وصول کرے ۔

حضرت ابن مسعود وصیت کرکے گئے تھے کہ ان کی نماز جنازہ میں عثمان شامل نہ ہوں(۱) -

حضرت عثمان کے طرز عمل پر لوگوں نے اعتراضات کئے ہیں ۔ کچھ اعتراضات تو ان واقعات کی وجہ سے ہوئے ہیں جو ہر لحاظ سے روح اسلام ،سنت نبوی اور سیرت شیخین کے خلاف تھے ۔

____________________

(۱):- البلاذری ۔انساب الاشراف ۔جلد چہارم ۔ص ۲۷

۱۸۳

صحابہ کرام نے حضرت عثمان کے دوسرے تصرفات پر بھی اعتراض کیا۔ ان میں سے کچھ کا تعلق قرآن وسنت کی مخالفت کی وجہ سے تھا ۔ ان تمام اعتراض کا جامع خلاصہ ڈاکٹر طہ حسین نے یوں بیان کیا ۔

مخالفین کے حضرت عثمان پر الزامات

حضرت عثمان کے مخالفین ان پر الزام عائد کرتے تھے کہ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی اللہ کی بیان کردہ حد شرعی کو معطل کیا ۔

۱:- انہوں نے حضرت عمر کے بیٹے عبیداللہ پر حد جاری نہیں کی تھی ۔جب کہ ان نے اپنے باپ کے قتل کے بدلے ہرمزان ،جفینہ اور ابو لولو کی بیٹی کو قتل کردیا تھا ۔ حالانکہ حق یہ تھا کہ وہ اپنے والد کے قتل کا مقدمہ عدالت میں پیش کرتے اور عدالت اس کے باپ قاتل کو سزادیتی ۔ اس نے عدالت سے رجوع کرنے کی بجائے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور ایک قاتل کے بدلے میں تین بے گناہ افراد کو قتل کردیا تھا۔جب کہ ہرمزان مسلمان تھا اور جفینہ اور ابولولو کی بیٹی اسلامی ریاست کے ذمی تھے ۔اور اسلام مسلمانوں اور ذمیوں کے خون کا تحفظ کرتا ہے ۔صحابہ کی ایک جماعت نے حضرت عثمان سے مطالبہ کیا تھا ۔ کہ حضرت عمر کے بیٹے سے قصاص لینا فرض ہے اور اس اسلامی قانون کو کسی صورت بھی معطل نہیں ہونا چاہیۓ ۔حضرت عثمان نے کوئی قصاص نہ لیا اور کہا کہ "کل اس کا باپ قتل ہوا اور آج اس کے بیٹے کومیں قتل کروں ؟ "چنانچہ انہوں نے حضرت عمر کے بیٹے کو معاف کردیا ۔اس دور کے مسلمانوں نے اس بات پر شدید احتجاج کیا تھا اور کہا تھا کہ قصاص نہ لینا قرآن وسنت کی عملی نفی ہے اور مزید یہ "سیرت شخین" کی بھی کھلم مخالفت ہے ۔

۲:-انہوں نے منی میں نماز پوری پڑھی ۔جب کہ رسول خدا(ص) اور شیخین نے

۱۸۴

وہاں نماز قصر تھی اور خود حضرت عثمان بھی کئی برس تک وہاں نماز قصرپڑھتے تھے ۔

صحابہ کرام کو اس مقام پر پوری نماز دیکھ کر دکھ ہوا تھا ۔ کیونکہ وہ اسے سنت نبوی کی مخالفت سمجھتے تھے اور بالخصوص مہاجرین کی نظر میں یہ ایک انتہائی خطرناک چیزتھی ۔کیونکہ رسول خدا(ص) نے جب مکہ سے ہجرت کی تو انہوں نے مدینہ کو ہی اپنے لیئے "دار اقامت " قرار دیا تھا ۔ اور مکہ کو اپنے لئے اجنبی شہر قرار دیا تھا ۔

اسی لئے رسول خدا(ص) اور ان کے اصحاب جب بھی مکہ آتے تو نماز ہمیشہ قصر پڑھا کرتے تھے ۔تاکہ ہرشخص سمجھ لے کہ وہ مکہ کو اپنا وطن نہیں سمجھتے اور نہ ہی وہاں دوبارہ آباد ہونا چاہتے ہیں ۔ حضور اکرم کو یہ بات پسند نہ تھی کہ ہجرت کے بعد کوئی صحابی مکہ میں فوت ہو ۔

۳:- صحابہ کرام نے حضرت عثمان کے دور کی زکاۃ پر بھی اعتراض کیا تھا۔ کیونکہ حضرت عثمان نے گھوڑوں پر بھی زکواۃ وصول کی ،جب کہ رسول خدا(ص) نے گھوڑوں کو زکواۃ سے مستثنی کیا تھا اور حضرات شیخین کے عہد حکومت میں بھی گھوڑوں کی زکواۃ وصول نہیں کی جاتی تھی ۔

۴:- صحابہ کرام نے چراگاہوں پر حضرت عثمان کے قبضہ کی مخالفت کی تھی ۔ کیونکہ اللہ اور رسول نے پانی ،ہوا اور چراگاہوں کو تمام لوگوں کی ملکیت قراردیا ہے ۔

۵:- حضرت عثمان کے دور میں زکواۃ کو جنگ میں بھی خرچ کیا جاتا تھا ۔ اسی لئے بہت سے صحابہ نے اس کی مخالفت کی تھی اور ان کی دلیل یہ تھی کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مصارف زکواۃ کی تفصیل بیان کردی ہے اور مذکورہ مصارف کے علاوہ زکواۃ کو کسی اور مصرف میں خرچ نہیں کیا جاسکتا ۔

۶:- قرآن مجید کی جمع وتدوین کے وقت بھی صحابہ کرام کی ایک جماعت نے ان پر سخت اعتراضات کئے تھے اور ان کا موقف یہ تھا کہ تدوین قرآن کے لئے جو

۱۸۵

کمیٹی قائم کی گئی ہے وہ چند منظور نظر افراد پر مشتمل ہے ۔جب کہ اس وقت قرآن کے قراء وحفاظ کی معتد بہ ایسی جماعت بھی موجود تھی جو ہر لحاظ سے کمیٹی ممبران سے قرآن مجید کا زیادہ علم رکھتی تھی ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی (ع) جیسی شخصیات کو قرآن کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا تھا ۔ واضح ہو کہ حضرت عبداللہ بن مسعود قرآن مجید کے بہت بڑے قاری تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں نے رسول خدا (ص) سے ستر سورتیں اس وقت سنی تھیں جب زید بن ثابت ابھی بالغ بھی نہیں ہوئے تھے اور حضرت علی (ع) وہ عظیم شخصیت ہیں جن کے متعلق اللہ نے خود فرمایا "ومن عندہ علم الکتاب " اور جس کے پاس کتاب کا علم ہے ۔" اتنی بڑی شخصیات کو چھوڑ کر زید بن ثابت اور ان کے دوستوں تدوین قرآن کیلئے مقرر کرنا درست نہیں تھا ۔

۷:- قرآن مجید کے باقی نسخوں کو نذر آتش کرنا بھی صحیح اقدام نہ تھا ۔

۸:- حضرت عثمان کے مخالفین ان پر اعتراض بھی کیا کرتے تھے کہ انہوں نے اپنے طرید رسول چچا حکم اور اس کے بیٹے مروان کو مدینہ واپس آنے کی اجازت دی ۔ جب کہ رسول خدا (ص) نے اسے مدینہ سے جلاوطن کیا تھا ۔

۹:- دور جاہلیت میں حکم بن ابی العاص کا گھر رسول خدا(ص) کے گھر کے قریب تھا اور وہ آپ کا بدترین ہمسایہ تھا ۔ ہمیشہ حضور اکرم (ص) کو اذیتیں دیا کرتا تھا ۔

فتح مکہ کے بعد اس نے اپنی جان بچانے کے لئے اسلام قبول کیا اور مدینہ آکر بھی وہ اپنی حرکات سے باز نہ آیا ۔ یہاں وہ جناب رسول خدا (ص) کی نقلیں اتارا کرتا تھا۔ ایک دفعہ رسول خدا نے اسے آپنی آنکھوں سے یہ حرکت کرتے ہوئے دیکھ لیا تو فرمایا کہ حکم اور اس کی اولاد میرے ساتھ ایک شہر میں نہیں رہ سکتی ۔بعد ازاں اسے طائف جلاوطن کردیا گیا ۔حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور میں بھی وہ بدستور جلاوطن رہا ۔ حضرت عثمان نے اقتدار پر آتے ہی اپنے چچا اور اس کی

۱۸۶

اولاد کو مدینہ بلالیا صحابہ کرام کہا کرتے تھے کہ جس منحوس صورت کو رسول خدا (ص) اپنی زندگی میں دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے ۔عثمان کو بھی چاہئے تھا کہ وہ مدینے بلاکر حضور کی اذیت کا موجب نہ بنتا ۔

۱۰:- حضرت عثمان نے طرید رسول چچا کو صرف مدینہ لانے پر ہی بس نہ کی بلکہ مسلمانوں کے بیت المال سے اسے لاکھوں دینا بھی عطا کئے تو کیا یہ انعام رسول خدا کو اذیت دینے کے صلہ میں دیا گیا تھا یا کوئی اور وجہ تھی ؟

۱۱:- حکم کے بیٹے مروان بن الحکم کو اپنا مشیر مقرر کیا ۔تو کیا اس دور میں مروان کے علاوہ کوئی صالح مسلمان باقی نہیں رہا تھا؟

۱۲:- حارث بن حکم کو امور مدینہ کا انچارج مقرر کیا گیا ۔ اس نے وہ طرز عمل اختیار کیاجو کسی طور بھی امانت ودیانت کے تقاضوں کے مطابق نہ تھا ۔ اس سے خیانت کی باز پرس کی بجائے خصوصی نوازشات سے نوازا گیا(۱) ۔

اپنوں کی طوطا چشمی

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

حضرت عثمان کی سیاست اس وقت دم توڑنے لگی جب ان کے اپنوں نے بھی ان سے آنکھیں چرانی شروع کی ۔کثرت زر اور شکم سیری نے انہیں یہ روز بد دکھا یا کہ خود ان کے افراد خانہ اور ان کے مقربین اور جنہوں نے ان کو خلیفہ بنانے میں کردار ادا کیا تھا وہ بھی ان کی مخالفت کرنے لگے ۔

محمد بن ابی حذیفہ کی مثال آپ کے سامنے ہے اسے ان سے یہ شکوہ پیدا ہوا کہ حضرت عثمان ان پر اپنے دیگر افراد خاندان کو ترجیح دیتے ہیں ۔ چنانچہ وہ عزوہ روم سے واپس آنے والوں سے گفتگو کرتا اور کہتا کہ : کیا تم جہاد سے واپس

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ص – ۱۷۵ ۔ ۱۷۶

۱۸۷

آرہے ہو؟

وہ کہتے کہ جی ہاں! حجاز کی طرف وہ انگلی کا اشارہ کرکے کہتا تھا ۔ ہمیں اس وقت تو عثمان سے جہاد کرنے کی ضرورت ہے

یہ "حضرت" مزید نفرتیں پھیلانے کے لئے مصر گئے ۔وہاں مخالفین عثمان کو منظم کرنے لگا اور ان سے کہتا تھا :- مصرو الو! اگر جہاد کرنا ہے تو مدینہ چلو اور عثمان سےجہاد کرو ۔

حضرت عثمان نے اس کا منہ بند کرنے کے لئے اس کے پاس تیس ہزار درہم اور شاہی خلعت روانہ کی ۔ اس نے مذکورہ رقم اور خلعت کو مسجد میں لاکے رکھا اور کہا لوگو! رہنا عثمان ان سکوں کے عوض میرے دین اور ضمیر کو خرید نا چاہتا ہے ۔مگر میں بکنے والا شخص نہیں ہوں ۔

اس واقعہ سے مصر میں حضرت عثمان کی مخالفت زیادہ پروان چڑھی ۔

ایک "زود پشیمان " کی پشیمانی

حضرت عثمان کی اقرباء نوازی اور غیر منصفانہ طرز عمل کو دیکھ کر انہیں خلافت دینے والا شخص عبدالرحمن بن عوف بھی ان کا مخالف ہوگیا اور کہتا تھا ۔ اگرمیں بعد والے کو پہلے لاتا تو عثمان کو میری جوتی کا تسمہ بھی خلیفہ نہ بناتا ۔

عبدالرحمن عالم نزع میں کہہ رہے تھے ۔ اسے باز رکھو ، اسے روکنے کی جلدی کرو ۔ایسا رہو کہ اس کی حکومت مزید مستحکم ہوجائے ۔

بلاذری بیان کرتے ہیں :- حضرت ابو ذر کی المناک وفات کے بعد حضرت علی (ع) نے عبدالرحمن بن عوف سے فرمایا :- یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے ۔تم نے ہی اس کو حکومت دی تھی اور اس حکومت کی وجہ سے بے گناہ صحابی پر اتنے

____________________

(۱):- عبدالفتاح عبدالمقصود ۔الامام علی بن ابی طالب ۔جلد دوم ص ۷۲

۱۸۸

مظالم ڈھائے گئے ہیں ۔ اس کے اصل مجرم تم ہو۔

عبدالرحمن نے کہا:- اگر آپ چاہیں تو میں اپنی تلوار اٹھا لیتا ہوں اور آپ اپنی تلوار اٹھالیں ۔دونوں مل کر اس سے جنگ کریں ۔اس نے میرے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کا لحاظ نہیں رکھا ۔

عبدالرحمن یہ وصیت کرکے مرے تھے کہ :- ان کے جنازے میں عثمان شریک نہ ہوں ۔

عمرو بن العاص اور حضرت عثمان

حضرت عثمان نے عمر بن العاص کو مصر کی گورنری سے معزول کردیا ۔

اس لئے عمرو بن العاص بھی ان کا مخالف بن گیا اور اس نے لوگوں کو خلیفہ کے خلاف بھڑکانا شروع کیا اور ایک مرتبہ حضرت عثمان کے سامنے اس نے جراءت کرکے کہا تھا کہ :- تم نے لوگوں پر ظلم کئے اور ہم بھی ان مظالم میں تمہارے شریک تھے لہذا تم بھی توبہ کرو اور ہم بھی تیرے ساتھ توبہ کریں گے ۔

جب عمرو بن العاص نے دیکھا کہ اب حالات حضرت عثمان کے کنٹرول میں نہیں رہے اور ان کا منطقی نتیجہ ظاہر ہونے ہی والا ہے تو وہ فلسطین میں اپنی جاگیر پر چلا گیا اور مدینہ کی خبروں کا انتظار کرنے بیٹھ گیا ۔

فلسطین کی جاگیر میں عمر بن العاص اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ رہائش پزیر تھا کہ اسے حضرت عثمان کے قتل کی خبر ملی تو اس نے اپنے بیٹے عبداللہ کو مخاطب کرکے کہا :- عبداللہ ! میں تیرا باپ ہوں ۔میں نے آج تک جس زخم کو کریدا تو اس سے خون ضرور نکالا ۔

اسے جملے سے وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ میں نے عثمان کے قتل کی راہ ہموار کی

۱۸۹

چنانچہ وہ اب قتل بھی ہوگیا ۔(۱)

عمرو بن عاص خود راوی ہیں کہ :-میں نے عثمان کے خلاف لوگوں کو برانگیختہ کیا یہاں تک کہ میں نے چرواہوں کو بھی عثمان کی مخالفت پرآمادہ کیا(۲) ۔

باغیوں ک جانب سے حضرت عثمان کا جو پہلا محاصرہ ہوا اس موقع پر عمرو بن العاص حضرت عثمان کے پاس گیا اور کہا :- تم نے لوگوں پر بہت ظلم کئے ہیں ۔ خدا سے ڈرو اور توبہ کرو۔

حضرت عثمان نے کہا :- اے نابغہ کے فرزند ! لوگوں کو میرے خلاف جمع کرنے میں تیرا بڑا حصہ ہے کیوں کہ میں نے تجھے حکومت مصر سے معزول کیا ہے ۔

اس کے بعد عمرو بن العاص فلسطین آیا اور لوگوں کو حضرت عثمان کے خلاف بھڑکاتا رہا اور جب اس نے حضرت عثمان کے قتل کی خبر سنی توکہا :- میں عبداللہ کاباپ ہوں ۔میں نے آج تکاجس بھی زخم کو کریدا تو اس سے خون ضرور جاری وہا(۳) ۔

حضرت عثمان اور ام المومنین عائشہ

تمام امہات المومنین میں حضرت عائشہ نے حضرت عثمان کی بہت زیادہ مخالفت کی ۔

جب حضرت عثمان نے جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود کو برابھلا کہا تو اس وقت پردہ کی اوٹ سے ام المومنین نے حضرت عثمان کو خوب کھری باتیں سنائیں ۔

____________________

(۱):-ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنہتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص ۶۷۔۶۸

(۲):-عباس محمودا لعقاد ۔عبقریتہ الامام ۔ص ۸۳

(۳):-البلاذری ۔انساب الاشراف ۔جلد پنجم ۔ص ۷۴

۱۹۰

حضرت عثمان اور ان کے عمّال پر دل کھول کر تنقید کیا کرتی تھیں اور لوگ مخالفین عثمان میں ام المومنین کو سب سے بڑا مخالف تصور کرتے تھے ۔(۱)

ایک دفعہ حضرت عائشہ نے رسول خدا(ص) کی قمیص اٹھا کر مسجد میں دکھائی اور حاضرین مسجد سے فرمایا کہ دیکھ لو رسول خدا (ص) کی تو قمیص پرانی نہیں ہوئی لیکن عثمان نے ان کی سیرت کو پرانا کردیا ہے ۔" نعثل " کو قتل کرڈالو ۔اللہ نعثل کو قتل کرے(۲) ۔

حضرت عائشہ نے لوگوں کو حضرت ک عثمان کے خلاف برانگیختہ کیا اور لوگوں کو متعدد مرتبہ ان کے قتل کا حکم دیا اور جب ستم زدہ عوام نے ان کے گھر کا محاصرہ کیا تو حضرت عائشہ حج وعمرہ کا بہانہ کرکے مکہ چلی گئیں اور اپنی لگائی ہوئی آگ کو انہوں نے بجھانے کی کوئی کو شش نہیں کی اور مکہ میں رہائش کے دوران ہروقت مدینہ کی خبر منتظر رہتی تھیں ۔

ایک دفعہ ایک جھوٹی خبر ان کے گوش گزار ہوئی کہ :- حضرت عثمان نے محاصرہ کرنے والے مخالفین کو قتل کرادیا ہے اور شورش دم توڑگئی ہے ۔ یہ سن کر بربی بی صاحبہ نے سخت غصہ میں فرمایا ۔یہ تو بہت برا ہوا ۔حق کے طلبگاروں کو قتل کردیا اور ظلم کے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔(۳)

ایک دفعہ حضرت عثمان اور حضرت عائشہ میں کافی تلخ کلامی ہوئی تو حضرت عثمان نے کہا امور سلطنت کے ساتھ تیرا کیا واسطہ ہے ؟ اللہ نے تجھے گھر میں بیٹھنے کا حکم دیا ہے ۔

یہ الفاظ سن کر انہیں سخت غصّہ آیا اور رسول خدا کے چند بال اور ایک

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص ۲۹

(۲):- ابن ابی الحدید معتزلی ۔ شرح نہیں البلاغہ ۔جلدچہارم ۔ص ۴۰۸

(۳):- عبدالفتاح عبدالمقصود ۔الامام علی ابن ابی طالب ۔جلد دوم ۔ص ۲۷۶-۲۷۷

۱۹۱

لباس اور نعلین مبارک نکال کر فرمایا :- رسول خدا (ص) کے بال لباس اور ان کی نعلین تک بوسیدہ نہیں ہوئی تم نے ان کی سنت کو چھوڑ دیا ہے(۱) ۔

ام المومنین اور کبار صحابہ تمام ملت اسلامیہ میں مخالفت کی لہر دوڑ گئی اور باقی ممالک محروسہ کی نسبت حجاز ،مصر اور عراق میں مخالفت ک شدت زیادہ تھی ۔ اور تعجب خیز امر یہ ہے کہ حضرت عثمان کو مخالفت کی اس شدید لہر کا احساس نہیں تھا اور کبار صحابہ کے پر خلوص مشوروں کو درخور اعتنا نہ سمجھا ۔انہوں نے ہمیشہ مروان بن حکم اور اپنے دوسرے عمّال کے مشوروں کو اہمیت دی ۔ جب کہ تمام مشکلات ومسائل انہیں کے پیدا کردہ تھے۔

بنی امیہ کا اجلاس

جب چاروں طرف سے حضرت عثمان پر تنقید ہونے لگی تو انہوں نے اپنی کابینہ کا خصوصی اجلاس بلایا ۔ جس میں معاویہ بن ابی سفیان ،عبداللہ بن ابی سرح ، عبداللہ بن عامر اور سعید بن عاص نمایاں تھے ۔

حضرت عثمان نے معتمدین کے اس اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا :- ہر سربراہ کے وزیر کرتے ہیں اور تم لوگ میرے وزیر ہو ۔ موجودہ خلفشار تمہارے سامنے ہے ۔ اس سے نمٹنے کیلئے مجھے تمہارے مشوروں کی ضرورت ہے ۔

معاویہ نے تو صرف یہی جواب دیا کہ تمام عمال کو ان کے علاقوں میں بھیج دیا جائے اور وہاں کے تمام شرپسند افراد سے نمٹنے کی ان کو کھلی چھٹی دی جائے اور عمال کو چائیے کہ وہ کسی حکومت مخالف فرد کو مدینہ آنے کی اجازت نہ دیں ۔

____________________

(۱):- البلاذری ۔انساب الاشراف ۔ص ۴۸-۴۹

۱۹۲

سعید بن العاص نے کہا :- شورش کے سربراہوں کو قتل کردیا جائے ۔ عبداللہ بن ابی سرح نے کہا :- قتل کرنے سے ہماری حکومت مزید بدنام ہوگی بیت المال سے ان لوگوں کو بھاری رقمیں دے کر خاموش کرادیا جائے ۔عبداللہ بن عامر نے کہا کہ :- لوگوں کو جہاد میں مشغول کیا جائے اور انہیں سرحدی علاقوں میں بھیج کر اس مشکل سے جان چھڑائی جائے ۔(۱)

مشیروں کے درج بالا مشوروں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اصل حقیقت کے ادراک سے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں ۔ اور وہ کسی ایک نتیجہ پر بھی نہیں پہنچے تھے اور انہوں نے اقرباء پروری اور مالی بدعنوانیوں کو ختم کرنے کی بجائے لوگوں کو بیرونی جنگوں میں الجھانے کا مشورہ دیا اور مذکورہ اجلاس میں حضرت عثمان بھی اپنی کوئی رائے پیش کرنے سے قاصر رہے تھے اور مشکلات کے وقتی اور دائمی خاتمہ کے لئے ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں تھا ۔

اس وقت ہمیں یہ دیکھ کر انتہائی حیرت ہوئی ہے کہ جب چند صحابہ نے انہیں پر خلوص مشورہ دیا تو انہوں نے ان سے کہا کہ :- ہر امت کے لئے کوئی نہ کوئی آفت ومصیبت ہوتی ہے اور اس امت کی آفت مجھ پر نکتہ چینی کرنے والے افراد ہیں ۔

اے گروہ مہاجرین وانصار ! تم کیسے لوگ ہو تم میرے ایسے کاموں پر بھی اعتراض کیا ہے جنہیں عمر بن خطاب بھی کیا کرتے تھے ۔ لیکن تم نے اس پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اب تم مجھ پر تم معترض ہوتے ہو ۔ تم عمر کے سامنے اس لئے اعتراض نہیں کرتے تھے کیونکہ اس نے تمہاری باگیں کھینچ رکھی

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ص ۲۰۶-۲۰۷

۱۹۳

تھیں تمہیں جان لینا چاہئیے کہ ابن خطاب کا خاندان چھوٹا خاندان تھا جب کہ میرا خاندان بہت بڑا ہے ۔

حضرت عثمان کی اس گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کا ان سے مطالبہ یہی تھا کہ وہ اپنی حکومت کو قرآن وسنت اور سیرت شیخین کے مطابق چلائیں ۔مگر صحابہ کے اس جائز اور فطری مطالبہ کے جواب میں حضرت عثمان نے انہیں لالچی اور عیب جو قراردیا ۔جبکہ ان القاب کی بجائے ان کا حق یہ تھا کہ وہ اپنی اور اپنے عمال کی صفائی پیش کرتے اور بیت المال کو جس طرح سے بنی امیہ پر لٹا یا گیا تھا ۔ اس کا حساب پیش کرتے اور عجیب ترین امر یہ ہے کہ حضرت عثمان نے اپنے اعمال کی صفائی دینے پر تو چنداں توجہ نہیں دی بلکہ انہیں طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ یہی کام تو عمر بھی کیا کرتے تھے لیکن تمہاری زبانیں اس وقت خاموش رہتی تھیں اور خلیفہ صاحب نے اپنے خطبہ کا اختتام ڈرانے دھمکانے پر کیا ۔انہی بے تدبیریوں کی وجہ سے آہستہ آہستہ لشکر میں بھی ان کی مخالفت سرایت کرتی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چنگاری شعلوں کی صورت اختیار کر گئی ۔یہی وجہ ہے جب عبداللہ بن عامر رومیوں کے بحری بیڑے کو شکست دے کر واپس آیا تو محمد ابن ابی حذیفہ اس کے لشکر کو اس کا مخالف بنا چکا تھا ۔کیوں کہ وہ لشکر گاہ میں لوگوں سے کہتا تھا کہ :- ہمیں مدینہ جاکر عثمان سے جہاد کرنا ہے ۔اصحاب رسول (ص) کو کلیدی عہدوں سے ہٹا کر فاسق اور خائن قرابت داروں کو ان عہدوں پر فائز کرچکا ہے ۔تم لوگ اپنے اسی حاکم اور قائد جہاد کو ہی دیکھ لو ۔

۱۹۴

قرآن نے اس کے کفر کی تائید کی ہے اور رسول خدا(ص) نے اسے واجب القتل ٹھہرایا ہے ۔لیکن اس کے باوجود عثمان نے اسے تمہار حاکم مقرر کیا ہے کیوں کہ یہ اس کا رضاعی بھائی ہے ۔(۱)

الغرض اس وقت حضرت عثمان کے خلاف ایک ایسا محاذ بن گیا جہاں ان کے خلاف سینہ بہ سینہ خبریں جنم لیتی تھیں اور زبان زد عام وخاص ہوجاتی تھیں ۔لیکن ان خبروں کے اصل ذرائع کا لوگوں کو علم نہیں ہوتا تھا۔

حضرت عثمان نے مسجد نبوی کی توسیع کی تو اس وقت لوگوں کی زبانوں پر یہ عبارت جاری تھی کہ :- دیکھو رسول (ص) کی مسجد کی توسیع ہورہی ہے ۔لیکن ان کی سنت سے انحراف کیا جارہا ہے ۔

حضرت عثمان کے دور میں کبوتر زیادہ ہوگئے ۔مسجد نبوی مدینہ کے گھر اور اکثر چھتیں کبوتروں سے بھری ہوئی نظر آنے لگیں تو حضرت عثمان نے کبوتروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا تو اس وقت لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ :- پناہ حاصل کرنے والے بے چارے کبوتروں کو تو ذبح کرایا جارہا ہے اور طرید رسول (ص) حکم بن ابی العاص اور اس کے بیٹے مروان کو گھر میں بسایا جارہا ہے ۔(۲)

بلاذری نے یہی روایت سعید بن مسیب سے کی ہے کہ حضرت عثمان نے کبوتروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا تو لوگوں نے کہا کہ بے چارے پرندوں کو ذبح کرارہا ہے اور جن کو رسول خدا(ص) نے مدینہ سے نکالا تھا انہیں پناہ دی جارہی ہے(۳) ۔

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔ الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ ص ۱۶۸

(۲):- ایضا

(۳):- انساب الاشراف ۔جلد پنجم ۔ص ۲۲

۱۹۵

ایک سوال جس کا جواب ضروری ہے

اس مقام پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور اس کا جواب تلاش کرنا بھی بڑا ضروری ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ :-

حضرت عثمان کی سیاست کی مخالفت کہاں سے پیدا ہوئی ؟

کیا تحریک مخالفت خلافت کے مرکز مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئی تھی ؟

یا

دوسرے شہروں میں اس تحریک نے جنم لیا اور پھر اس نے مدینہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ؟

واضح الفاظ میں یہ سوال ان الفاظ کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے کہ :-

حضرت عثمان کی تحریک مخالفت مہاجرین وانصار میں پہلے پہل پیدا ہوئی اور پھر وہاں سے دوسرے شہروں کو منتقل ہوئی؟

یا

یہ تحریک پہلے فوج میں پیدا ہوئی اور وہاں سے سفر کرکے مدینہ پہنچی اور مہاجرین وانصار کو اپنی طرف مائل کرلیا ؟

ہم جانتے ہیں کہ اندھی عقیدت رکھنے والے افراد کے لئے اس سوال کا جواب دینا بڑا مشکل ہے ۔

کیونکہ اگر پہلی صورت کو تسلیم کیاجائے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عثمان کی سیاست کا انکار سب سے پہلے مہاجرین وانصار صحابہ نے کیا بعد ازاں دوسرے لوگوں نے ان کا اتباع کیا ۔

اور اگر دوسری صورت کو کم ضرر رساں سمجھ کر اختیار کیا جائے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت عثمان کی سیاسی ناہمواریوں کو دیکھ کر ان کے جانثار

۱۹۶

لشکر نے ان کی مخالفت کا آغاز کیا اور صحابہ نے مخالفین کی پیروی کی ۔ لیکن ہمیں اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی ہوگی کہ کیا جلیل القدر صحابہ عام افراد کی باتوں میں آسکتے تھے اور ان کے ہاتھوں کھلونا بن سکتے تھے ؟

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عثمان کے خلاف جو تحریک چلی تھی اس کی ابتداء مدینہ سے ہوئی تھی ۔ اس تحریک مخالفت کا سرچشمہ مدینہ میں ہی تھا اور مدینہ سے یہ تحریک باقی شہروں تک پہنچی(۱) ۔

ہمارے پاس اپنے اس جواب کی صداقت کے لئے بزرگ صحابہ کرام کا طرز عمل موجود ہے ۔

ہم جانتے ہیں کہ حضرت عثمان نے حضرت ابو ذر کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا اور اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ حضرت عثمان نے عبداللہ بن مسعود اور حضرت عمار یا سر پر کتنا تشدد روارکھا تھا ؟ اسلامی تاریخ میں حضرت عثمان کے اس "حسن سلوک " کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور اسی وجہ سے صحابہ کرام بھی ان کی مخالفت پراتر آئے تھے ۔

بلاذری کی زبانی جبلہ بن عمرو الساعدی کی گفتگو سماعت فرمائیں :" جس زمانے میں لوگوں میں حضرت عثمان کی مخالفت عام ہوچکی تھی ۔ انہی ایام میں حضرت عثمان جبلہ بن عمر الساعدی کے مکان کے پاس سے گزرے اس وقت جبلہ اپنے دروازے پر کھڑا ہوا تھا تو اس نے حضرت عثمان سے کہا :- اے نعثل ! اللہ کی قسم میں تجھے قتل کروں گا یا تجھے جلاوطن کرکے خارش زدہ کمزور اونٹنی پر سوار کروں گا ۔تو نے حارث بن الحکم کو بازار کا مالک بنایا ہے اور تو نے فلاں فلاں غلط کا م کئے ہیں ۔"(۲)

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفنتہہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ص ۱۳۶

(۲):- البلاذری ۔انساب الاشراف ۔جلد پنجم ۔ص۴۷

۱۹۷

واضح ہو کہ حارث بن الحکم مروان کا بھائی تھا اور اس نے بازار مدینہ میں اندھیر مچایا ہوا تھا ۔ اسی لئے جبلہ بن عمرو الساعدی نے اعتراض کیا تھا ۔اور کسی نے حضرت جبلہ سے کہا کہ آپ اس مسئلہ میں حضرت عثمان کی مخالفت ترک کردیں تو انہوں نے کہا تھا کہ مجھے کل اپنے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور میں یہ نہیں کہنا چاہنا :- " انّا اطعنا سادتنا وکبرآءنا فاضلّونا السبیلا "(الاحزاب)۶۷

"پروردگار ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کی اطاعت کی تو انہوں نے ہمیں گمراہ کیا ۔"

قتل عثمان

حضرت عثمان کے رشتہ داروں نے اسلامی مملکت میں وہ ادھم مچایا کہ خدا کی پناہ ۔غریب ومظلوم عوام نے وفد تشکیل دئیے اور انہیں مدینہ بھیجا شاید کہ اصلاح احوال کی کوئی صورت نکل آئے ۔ لیکن مروان بن الحکم نے حضرت عثمان کو ہمیشہ غلط مشورے دئیے اور وفد کے ارکان انصاف سے مایوس ہوکر اپنے اپنے علاقوں کو واپس چلے گئے ۔

حضرت عثمان کی زندگی کے آخری ایام میں بہت بڑا حادثہ یہ ہوا کہ مصر کے لوگ اپنے والی کی شکایت کرنے آئے اور حضرت عثمان سے مطالبہ کیا کہ اسے معزول کرکے کوئی اچھا سا حاکم مقرر کریں ۔

آخر کا ایک لمبی بحث وتمحیص کے بعد حضرت عثمان نے ان کا مطالبہ مان لیا ۔ایک نئے حاکم کا تقرر عمل میں لایا گیا اور سابق والی کی معزول کا فرمان بھی جاری کیا ۔

اہل مصر خوش ہوکر اپنے وطن جارہے تھے ۔ لیکن ابھی وہ لوگ ارض کنانہ تک پہنچے تھے کہ انہوں نے ایک اونٹنی سوار دیکھا جو معروف راستے سے

۱۹۸

ہٹ کر جارہا ہے ۔ انہیں اونٹنی والے پر شک گزرا چنانچہ اس کا تعاقب کرکے اسے پکڑ لیا گیا ۔ اس کی تلاشی لی گئی تو اس کے مشکیزے سے موم میں لپٹا ہوا ایک خط برآمد ہوا ۔ وہ خط حضرت عثمان کی جانب سے والی مصر کو لکھا گیا تھا ۔ جس میں اسے حکم دیا گیا تھا کہ جب یہ مفسد تیرے پاس آئیں تو ان کے سرغنوں کو قتل کردینا اور دوسروں کو سخت سزا دینا ۔

ان لوگوں نے اس حبشی غلام اور اونٹنی کو اپنے قبضہ میں لے لیا ۔حبشی غلام حضرت عثمان کا خادم تھا اور اونٹنی بھی بیت المال کی تھی ۔ خط کے نیچے حضرت عثمان کی مخصوص مہر بھی لگی ہوئی تھی۔

اہل مصر غلام اور اونٹنی سمیت واپس مدینہ آئے اور خلیفہ صاحب سے کہا کہ تم نے ہمارے ساتھ کیوں کیا ۔ تو خلیفہ صاحب نے حلفیہ طور پر کہا کہ یہ خط میں نے تحریر نہیں کیا ۔

ان لوگوں نے دریافت کی کہ کیا آپ س حبشی کو جانتے ہیں ؟ فرمایا ! جی ہاں یہ میرا خادم ہے ۔

انہوں نے پھر پوچھا اس اونٹنی کو بھی پہنچانتے ہیں ؟

خلیفہ صاحب نے فرمایا !جی ہاں یہ مہر بھی میری ہی ہے ۔

ان لوگوں نے کہا! جناب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اونٹنی بھی آپ کی ہو ۔غلام بھی آپ کا ہو اور مہر بھی آپ کی ہو لیکن خط آپ نے نہ لکھا ہو ۔

حضرت عثمان نے فرمایا ! خط میں نے نہیں لکھا ، یہ مروان کی کاروائی ہے ۔ ان لوگوں نے اس وقت نہایت معقول مطالبہ کیا کہ :-ہم آپ کی بات کو تسلیم کرتے ہیں ۔آپ بالکل بے گناہ ہیں ۔ سارا قصور مروان کا ہے ۔ آپ مروان کو ہمارے حوالے کردیں ۔اس کے بعد ہمارا آپ سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔

حضرت عثمان نے ان لوگوں کے اس مطالبہ کو بھی پائے حقارت سے

۱۹۹

ٹھکرادیا انہوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا اور یہ محاصرہ ایک ماہ سے بھی زیادہ دیر تک رہا ۔ اس دوران حضرت عثمان کے اقرباء میں سے کسی نے بھی ان کی مدد نہ کی اور نہ ہی مدینہ میں کسی صحابی نے ان کی جان بچانے کی قابل ذکر حمایت کی ۔ آخر کار طویل محاصرہ کے بعد ان لوگوں نے حضرت عثمان کے گھر میں گھس کر انہیں قتل کردیا(۱) ۔

قتل عثمان کے بعد بنی امیہ کی سازشیں

حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے ذکر سے پہلے ہم معاویہ اور مروان کی سازشوں کاذکر کرنا چاہتے ہیں ۔

حضرت عثمان کے قتل کے ساتھ ہی بنی امیہ نے حضرت علی علیہ السلام کی حکومت ختم کرنے کی سازشیں شروع کردی تھیں ۔

حضرت علی (ع) کے خلاف مسلحانہ تحریک شروع کرنے کے لئے انہوں نے مختلف افراد کو خط تحریر کئے ۔جن میں سے چند خطوط ہم اپنے قارئین کی نذر کرتے ہیں ۔:

قتل عثمان کے بعد مروان بن الحکم نے معاویہ بن ابی سفیان کو خط لکھا کہ :

"میں آپ کو یہ خط قتل عثمان کے بعد تحریر کر رہاہوں ۔باغیوں نے اس پر حملہ کیا اور ناحق قتل کردیا اور باغی ابر کی طرح کھل کر برسے ۔اور بعد ازاں ٹڈی دل کی طرح علی ابن ابی طالب کے پاس چلے گئے ۔

لہذا تم بنی امیہ کو اپنے ارد گرد جمع کرو اور ثریا ستاروں کے جھرمٹ میں تم ۔

____________________

(۱):-اس واقعہ کی تفصیلات کے لئے الاصابہ فی تمیز الصحابہ کے صفحات ۴۰۰سے ۴۰۶ کا مطالعہ کیا جائے ۔ہم انے یہ واقعہ تلخیص کرکے نقل کیا ہے۔ علاوہ ازیں تمام کتب تاریخ میں یہی واقعہ لکھا ہوا ہے ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333