المیہ جمعرات

المیہ جمعرات17%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 106250 / ڈاؤنلوڈ: 4808
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔

یقینا حضرت عثمان کو ایسا کرنے کا کوئی قانونی اور شرعی اختیار حاصل نہ تھا ۔ حضرت ابو ذر کی مثال کو ہی لے لیں ۔ ان کا جرم صرف یہی تھا کہ انہوں نے ان کی مالیاتی پالیسی بالخصوص اقرباء پروری یعنی بنی امیہ نوازی کو ہدف تنقید بنایا تو انہیں اس کی پاداش میں مدینہ سے نکال دیاگیا ۔

حضرت عثمان نے صرف اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنے حکام و عمال کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ جس کو چاہیں جلاوطن کریں اس کی اجازت کے ملنے کے بعد ان کے عمال کبھی اپنے مخالفین کو کوفہ سے شام جلاوطن کرنے لگے اور کبھی شام سے بصرہ اور کبھی بصرہ سے مصر جلاوطن کرتے تھے ۔ گویا جلاوطن کرکے معاویہ کے پاس بھیجتا تھا ۔ اور معاویہ لوگوں کو جلاوطن کرکے سعید کے پاس بھیجتا اور سعید عبدالرحمن بن خالد کی طرف جلاوطن کردیتا تھا ۔ مظلوم لوگوں کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا اور نہ ہی انہیں کسی عدالت میں پیش کیا جاتا تھا اور ان کو کسی قسم کی صفائی کا موقع بھی فراہم نہیں کیا جاتا تھا(۱) ۔

عبداللہ بن مسعود کی داستان مظلومیت

حضرت عبداللہ بن مسعود کی داستان مظلومیت خاصی عبرت انگیز ہے ۔ان کے مصائب کی ابتداء اس وقت ہوئی جب حضرت عثمان کا مادری بھائی ولید بن عقبہ کوفہ کا گورنر بن کے آیا ۔ جناب عبداللہ بن مسعود اس وقت کوفہ کے بیت المال کے خازن تھے ۔

ولید نے ان سے ایک بڑی رقم بطور قرض مانگی انہوں نے دے دی ۔چند دنوں کے بعد ولید نے ایک اور بھاری رقم نکالنے کا حکم دیا ۔ تو انہوں نے انکار

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔ الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ص ۱۹۸-۱۹۹

۱۸۱

کردیا ۔ولید نے حضرت عثمان کی طرف ایک خط لکھا جس میں بیت المال کے خازن کے اس طرز عمل کی شکایت کی ۔

حضرت عثمان نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو خط لکھا کہ تم ہمارے مال کے خازن ہو ۔لہذا تم ولید کو مال لینے سے منع نہ کرو

حضر ت عبداللہ بن مسعود نے یہ خط پڑھ کر چابیاں پھینک دیں اور کہا کہ :- میں اپنے آپ کو مسلمانوں کا خازن تصور کرتا تھا اور اگر مجھے تمہارا خازن بننا ہے تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔

بیت المال کو چھوڑنے کے بعد وہ کوفہ میں مقیم رہے ۔

ولید نے سارا واقعہ خط میں لکھ کر حضرت عثمان کو روانہ کیا ۔حضرت عثمان نے ولید کو لکھا کہ اسے کوفہ سے نکال کر مدینہ بھیج دو ۔حضرت ابن مسعود نے کوفہ چھوڑا اور اہل کوفہ نے ان کی مشایعت کی اور ابن مسعود نے انہیں اللہ کے تقوی اور تمسک بالقرآن کی وصیت کی ۔اہل کوفہ نے ان سے کہا ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔آپ نے ہمارے جاہلوں کو تعلیم دی اور دین کی سمجھ عطا کی ۔

ابن مسعود مدینہ آئے اس وقت حضرت عثمان منبر رسول پر خطبہ دے رہے تھے ۔جب ان کی نظر ابن مسعود پر پڑی تو کہا:- وہ دیکھو برائی کا کیڑا تمہارے پاس آیا ہے ۔

ابن مسعود نے کہا :- میں ایسا نہیں ہوں میں تو پیغمبر اکرم کا صحابی ہوں ۔حضرت عثمان نے اپنے درباریوں کو حکم دیا کہ اسے مسجد سے ذلت کے ساتھ باہر نکال دیں اور عبداللہ بن زمعہ نے انہیں اٹھا کر پوری قوت کے ساتھ زمین پہ پٹکادیا ۔ جس کی وجہ سے ان کی پسلیاں ٹوٹ گئی ۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود مدینہ میں رہے ۔عثمان انہیں مدینہ سے باہر

۱۸۲

جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔

قتل عثمان سے دو برس قبل ان کی وفات ہوئی وفات سے چند روز قبل حضرت عثمان ان کی عیادت کے لئے آئے تو پوچھا ۔

عثمان :- آپ کو کونسی بیماری کی شکایت ہے ؟

ابن مسعود :- اپنے گناہوں کی ۔

عثمان :- کیا میں طبیب کو بلاؤں ؟

ابن مسعود :- طبیب نے تو بیماری دی ہے

عثمان :- آپ کیا چاہتے ہیں ؟

ابن مسعود :- اپنے رب کی رحمت ۔

عثمان :- کیا میں تمہار وظیفہ جاری کردوں ؟

ابن مسعود:- جب مجھے ضرورت تھی تو تم نے روک لیا تھا ۔ اب جبکہ میں موت کے استقبال کے لئے آمادہ ہوں تو میں وظیفہ لے کر کیا کروں گا؟

عثمان:- وظیفہ سے آپ کی اولاد کی گزر بسر اچھی ہوگی ۔

ابن مسعود :- ان کا رازق اللہ ہے ۔

عثمان :- عبدالرحمان کے ابا! میری بخشش کے لئے اللہ سے دعا مانگیں ۔

ابن مسعود :- میری خدا سے درخواست ہے کہ تجھ سے میرا حق وصول کرے ۔

حضرت ابن مسعود وصیت کرکے گئے تھے کہ ان کی نماز جنازہ میں عثمان شامل نہ ہوں(۱) -

حضرت عثمان کے طرز عمل پر لوگوں نے اعتراضات کئے ہیں ۔ کچھ اعتراضات تو ان واقعات کی وجہ سے ہوئے ہیں جو ہر لحاظ سے روح اسلام ،سنت نبوی اور سیرت شیخین کے خلاف تھے ۔

____________________

(۱):- البلاذری ۔انساب الاشراف ۔جلد چہارم ۔ص ۲۷

۱۸۳

صحابہ کرام نے حضرت عثمان کے دوسرے تصرفات پر بھی اعتراض کیا۔ ان میں سے کچھ کا تعلق قرآن وسنت کی مخالفت کی وجہ سے تھا ۔ ان تمام اعتراض کا جامع خلاصہ ڈاکٹر طہ حسین نے یوں بیان کیا ۔

مخالفین کے حضرت عثمان پر الزامات

حضرت عثمان کے مخالفین ان پر الزام عائد کرتے تھے کہ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی اللہ کی بیان کردہ حد شرعی کو معطل کیا ۔

۱:- انہوں نے حضرت عمر کے بیٹے عبیداللہ پر حد جاری نہیں کی تھی ۔جب کہ ان نے اپنے باپ کے قتل کے بدلے ہرمزان ،جفینہ اور ابو لولو کی بیٹی کو قتل کردیا تھا ۔ حالانکہ حق یہ تھا کہ وہ اپنے والد کے قتل کا مقدمہ عدالت میں پیش کرتے اور عدالت اس کے باپ قاتل کو سزادیتی ۔ اس نے عدالت سے رجوع کرنے کی بجائے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور ایک قاتل کے بدلے میں تین بے گناہ افراد کو قتل کردیا تھا۔جب کہ ہرمزان مسلمان تھا اور جفینہ اور ابولولو کی بیٹی اسلامی ریاست کے ذمی تھے ۔اور اسلام مسلمانوں اور ذمیوں کے خون کا تحفظ کرتا ہے ۔صحابہ کی ایک جماعت نے حضرت عثمان سے مطالبہ کیا تھا ۔ کہ حضرت عمر کے بیٹے سے قصاص لینا فرض ہے اور اس اسلامی قانون کو کسی صورت بھی معطل نہیں ہونا چاہیۓ ۔حضرت عثمان نے کوئی قصاص نہ لیا اور کہا کہ "کل اس کا باپ قتل ہوا اور آج اس کے بیٹے کومیں قتل کروں ؟ "چنانچہ انہوں نے حضرت عمر کے بیٹے کو معاف کردیا ۔اس دور کے مسلمانوں نے اس بات پر شدید احتجاج کیا تھا اور کہا تھا کہ قصاص نہ لینا قرآن وسنت کی عملی نفی ہے اور مزید یہ "سیرت شخین" کی بھی کھلم مخالفت ہے ۔

۲:-انہوں نے منی میں نماز پوری پڑھی ۔جب کہ رسول خدا(ص) اور شیخین نے

۱۸۴

وہاں نماز قصر تھی اور خود حضرت عثمان بھی کئی برس تک وہاں نماز قصرپڑھتے تھے ۔

صحابہ کرام کو اس مقام پر پوری نماز دیکھ کر دکھ ہوا تھا ۔ کیونکہ وہ اسے سنت نبوی کی مخالفت سمجھتے تھے اور بالخصوص مہاجرین کی نظر میں یہ ایک انتہائی خطرناک چیزتھی ۔کیونکہ رسول خدا(ص) نے جب مکہ سے ہجرت کی تو انہوں نے مدینہ کو ہی اپنے لیئے "دار اقامت " قرار دیا تھا ۔ اور مکہ کو اپنے لئے اجنبی شہر قرار دیا تھا ۔

اسی لئے رسول خدا(ص) اور ان کے اصحاب جب بھی مکہ آتے تو نماز ہمیشہ قصر پڑھا کرتے تھے ۔تاکہ ہرشخص سمجھ لے کہ وہ مکہ کو اپنا وطن نہیں سمجھتے اور نہ ہی وہاں دوبارہ آباد ہونا چاہتے ہیں ۔ حضور اکرم کو یہ بات پسند نہ تھی کہ ہجرت کے بعد کوئی صحابی مکہ میں فوت ہو ۔

۳:- صحابہ کرام نے حضرت عثمان کے دور کی زکاۃ پر بھی اعتراض کیا تھا۔ کیونکہ حضرت عثمان نے گھوڑوں پر بھی زکواۃ وصول کی ،جب کہ رسول خدا(ص) نے گھوڑوں کو زکواۃ سے مستثنی کیا تھا اور حضرات شیخین کے عہد حکومت میں بھی گھوڑوں کی زکواۃ وصول نہیں کی جاتی تھی ۔

۴:- صحابہ کرام نے چراگاہوں پر حضرت عثمان کے قبضہ کی مخالفت کی تھی ۔ کیونکہ اللہ اور رسول نے پانی ،ہوا اور چراگاہوں کو تمام لوگوں کی ملکیت قراردیا ہے ۔

۵:- حضرت عثمان کے دور میں زکواۃ کو جنگ میں بھی خرچ کیا جاتا تھا ۔ اسی لئے بہت سے صحابہ نے اس کی مخالفت کی تھی اور ان کی دلیل یہ تھی کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مصارف زکواۃ کی تفصیل بیان کردی ہے اور مذکورہ مصارف کے علاوہ زکواۃ کو کسی اور مصرف میں خرچ نہیں کیا جاسکتا ۔

۶:- قرآن مجید کی جمع وتدوین کے وقت بھی صحابہ کرام کی ایک جماعت نے ان پر سخت اعتراضات کئے تھے اور ان کا موقف یہ تھا کہ تدوین قرآن کے لئے جو

۱۸۵

کمیٹی قائم کی گئی ہے وہ چند منظور نظر افراد پر مشتمل ہے ۔جب کہ اس وقت قرآن کے قراء وحفاظ کی معتد بہ ایسی جماعت بھی موجود تھی جو ہر لحاظ سے کمیٹی ممبران سے قرآن مجید کا زیادہ علم رکھتی تھی ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی (ع) جیسی شخصیات کو قرآن کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا تھا ۔ واضح ہو کہ حضرت عبداللہ بن مسعود قرآن مجید کے بہت بڑے قاری تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں نے رسول خدا (ص) سے ستر سورتیں اس وقت سنی تھیں جب زید بن ثابت ابھی بالغ بھی نہیں ہوئے تھے اور حضرت علی (ع) وہ عظیم شخصیت ہیں جن کے متعلق اللہ نے خود فرمایا "ومن عندہ علم الکتاب " اور جس کے پاس کتاب کا علم ہے ۔" اتنی بڑی شخصیات کو چھوڑ کر زید بن ثابت اور ان کے دوستوں تدوین قرآن کیلئے مقرر کرنا درست نہیں تھا ۔

۷:- قرآن مجید کے باقی نسخوں کو نذر آتش کرنا بھی صحیح اقدام نہ تھا ۔

۸:- حضرت عثمان کے مخالفین ان پر اعتراض بھی کیا کرتے تھے کہ انہوں نے اپنے طرید رسول چچا حکم اور اس کے بیٹے مروان کو مدینہ واپس آنے کی اجازت دی ۔ جب کہ رسول خدا (ص) نے اسے مدینہ سے جلاوطن کیا تھا ۔

۹:- دور جاہلیت میں حکم بن ابی العاص کا گھر رسول خدا(ص) کے گھر کے قریب تھا اور وہ آپ کا بدترین ہمسایہ تھا ۔ ہمیشہ حضور اکرم (ص) کو اذیتیں دیا کرتا تھا ۔

فتح مکہ کے بعد اس نے اپنی جان بچانے کے لئے اسلام قبول کیا اور مدینہ آکر بھی وہ اپنی حرکات سے باز نہ آیا ۔ یہاں وہ جناب رسول خدا (ص) کی نقلیں اتارا کرتا تھا۔ ایک دفعہ رسول خدا نے اسے آپنی آنکھوں سے یہ حرکت کرتے ہوئے دیکھ لیا تو فرمایا کہ حکم اور اس کی اولاد میرے ساتھ ایک شہر میں نہیں رہ سکتی ۔بعد ازاں اسے طائف جلاوطن کردیا گیا ۔حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور میں بھی وہ بدستور جلاوطن رہا ۔ حضرت عثمان نے اقتدار پر آتے ہی اپنے چچا اور اس کی

۱۸۶

اولاد کو مدینہ بلالیا صحابہ کرام کہا کرتے تھے کہ جس منحوس صورت کو رسول خدا (ص) اپنی زندگی میں دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے ۔عثمان کو بھی چاہئے تھا کہ وہ مدینے بلاکر حضور کی اذیت کا موجب نہ بنتا ۔

۱۰:- حضرت عثمان نے طرید رسول چچا کو صرف مدینہ لانے پر ہی بس نہ کی بلکہ مسلمانوں کے بیت المال سے اسے لاکھوں دینا بھی عطا کئے تو کیا یہ انعام رسول خدا کو اذیت دینے کے صلہ میں دیا گیا تھا یا کوئی اور وجہ تھی ؟

۱۱:- حکم کے بیٹے مروان بن الحکم کو اپنا مشیر مقرر کیا ۔تو کیا اس دور میں مروان کے علاوہ کوئی صالح مسلمان باقی نہیں رہا تھا؟

۱۲:- حارث بن حکم کو امور مدینہ کا انچارج مقرر کیا گیا ۔ اس نے وہ طرز عمل اختیار کیاجو کسی طور بھی امانت ودیانت کے تقاضوں کے مطابق نہ تھا ۔ اس سے خیانت کی باز پرس کی بجائے خصوصی نوازشات سے نوازا گیا(۱) ۔

اپنوں کی طوطا چشمی

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

حضرت عثمان کی سیاست اس وقت دم توڑنے لگی جب ان کے اپنوں نے بھی ان سے آنکھیں چرانی شروع کی ۔کثرت زر اور شکم سیری نے انہیں یہ روز بد دکھا یا کہ خود ان کے افراد خانہ اور ان کے مقربین اور جنہوں نے ان کو خلیفہ بنانے میں کردار ادا کیا تھا وہ بھی ان کی مخالفت کرنے لگے ۔

محمد بن ابی حذیفہ کی مثال آپ کے سامنے ہے اسے ان سے یہ شکوہ پیدا ہوا کہ حضرت عثمان ان پر اپنے دیگر افراد خاندان کو ترجیح دیتے ہیں ۔ چنانچہ وہ عزوہ روم سے واپس آنے والوں سے گفتگو کرتا اور کہتا کہ : کیا تم جہاد سے واپس

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ص – ۱۷۵ ۔ ۱۷۶

۱۸۷

آرہے ہو؟

وہ کہتے کہ جی ہاں! حجاز کی طرف وہ انگلی کا اشارہ کرکے کہتا تھا ۔ ہمیں اس وقت تو عثمان سے جہاد کرنے کی ضرورت ہے

یہ "حضرت" مزید نفرتیں پھیلانے کے لئے مصر گئے ۔وہاں مخالفین عثمان کو منظم کرنے لگا اور ان سے کہتا تھا :- مصرو الو! اگر جہاد کرنا ہے تو مدینہ چلو اور عثمان سےجہاد کرو ۔

حضرت عثمان نے اس کا منہ بند کرنے کے لئے اس کے پاس تیس ہزار درہم اور شاہی خلعت روانہ کی ۔ اس نے مذکورہ رقم اور خلعت کو مسجد میں لاکے رکھا اور کہا لوگو! رہنا عثمان ان سکوں کے عوض میرے دین اور ضمیر کو خرید نا چاہتا ہے ۔مگر میں بکنے والا شخص نہیں ہوں ۔

اس واقعہ سے مصر میں حضرت عثمان کی مخالفت زیادہ پروان چڑھی ۔

ایک "زود پشیمان " کی پشیمانی

حضرت عثمان کی اقرباء نوازی اور غیر منصفانہ طرز عمل کو دیکھ کر انہیں خلافت دینے والا شخص عبدالرحمن بن عوف بھی ان کا مخالف ہوگیا اور کہتا تھا ۔ اگرمیں بعد والے کو پہلے لاتا تو عثمان کو میری جوتی کا تسمہ بھی خلیفہ نہ بناتا ۔

عبدالرحمن عالم نزع میں کہہ رہے تھے ۔ اسے باز رکھو ، اسے روکنے کی جلدی کرو ۔ایسا رہو کہ اس کی حکومت مزید مستحکم ہوجائے ۔

بلاذری بیان کرتے ہیں :- حضرت ابو ذر کی المناک وفات کے بعد حضرت علی (ع) نے عبدالرحمن بن عوف سے فرمایا :- یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے ۔تم نے ہی اس کو حکومت دی تھی اور اس حکومت کی وجہ سے بے گناہ صحابی پر اتنے

____________________

(۱):- عبدالفتاح عبدالمقصود ۔الامام علی بن ابی طالب ۔جلد دوم ص ۷۲

۱۸۸

مظالم ڈھائے گئے ہیں ۔ اس کے اصل مجرم تم ہو۔

عبدالرحمن نے کہا:- اگر آپ چاہیں تو میں اپنی تلوار اٹھا لیتا ہوں اور آپ اپنی تلوار اٹھالیں ۔دونوں مل کر اس سے جنگ کریں ۔اس نے میرے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کا لحاظ نہیں رکھا ۔

عبدالرحمن یہ وصیت کرکے مرے تھے کہ :- ان کے جنازے میں عثمان شریک نہ ہوں ۔

عمرو بن العاص اور حضرت عثمان

حضرت عثمان نے عمر بن العاص کو مصر کی گورنری سے معزول کردیا ۔

اس لئے عمرو بن العاص بھی ان کا مخالف بن گیا اور اس نے لوگوں کو خلیفہ کے خلاف بھڑکانا شروع کیا اور ایک مرتبہ حضرت عثمان کے سامنے اس نے جراءت کرکے کہا تھا کہ :- تم نے لوگوں پر ظلم کئے اور ہم بھی ان مظالم میں تمہارے شریک تھے لہذا تم بھی توبہ کرو اور ہم بھی تیرے ساتھ توبہ کریں گے ۔

جب عمرو بن العاص نے دیکھا کہ اب حالات حضرت عثمان کے کنٹرول میں نہیں رہے اور ان کا منطقی نتیجہ ظاہر ہونے ہی والا ہے تو وہ فلسطین میں اپنی جاگیر پر چلا گیا اور مدینہ کی خبروں کا انتظار کرنے بیٹھ گیا ۔

فلسطین کی جاگیر میں عمر بن العاص اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ رہائش پزیر تھا کہ اسے حضرت عثمان کے قتل کی خبر ملی تو اس نے اپنے بیٹے عبداللہ کو مخاطب کرکے کہا :- عبداللہ ! میں تیرا باپ ہوں ۔میں نے آج تک جس زخم کو کریدا تو اس سے خون ضرور نکالا ۔

اسے جملے سے وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ میں نے عثمان کے قتل کی راہ ہموار کی

۱۸۹

چنانچہ وہ اب قتل بھی ہوگیا ۔(۱)

عمرو بن عاص خود راوی ہیں کہ :-میں نے عثمان کے خلاف لوگوں کو برانگیختہ کیا یہاں تک کہ میں نے چرواہوں کو بھی عثمان کی مخالفت پرآمادہ کیا(۲) ۔

باغیوں ک جانب سے حضرت عثمان کا جو پہلا محاصرہ ہوا اس موقع پر عمرو بن العاص حضرت عثمان کے پاس گیا اور کہا :- تم نے لوگوں پر بہت ظلم کئے ہیں ۔ خدا سے ڈرو اور توبہ کرو۔

حضرت عثمان نے کہا :- اے نابغہ کے فرزند ! لوگوں کو میرے خلاف جمع کرنے میں تیرا بڑا حصہ ہے کیوں کہ میں نے تجھے حکومت مصر سے معزول کیا ہے ۔

اس کے بعد عمرو بن العاص فلسطین آیا اور لوگوں کو حضرت عثمان کے خلاف بھڑکاتا رہا اور جب اس نے حضرت عثمان کے قتل کی خبر سنی توکہا :- میں عبداللہ کاباپ ہوں ۔میں نے آج تکاجس بھی زخم کو کریدا تو اس سے خون ضرور جاری وہا(۳) ۔

حضرت عثمان اور ام المومنین عائشہ

تمام امہات المومنین میں حضرت عائشہ نے حضرت عثمان کی بہت زیادہ مخالفت کی ۔

جب حضرت عثمان نے جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود کو برابھلا کہا تو اس وقت پردہ کی اوٹ سے ام المومنین نے حضرت عثمان کو خوب کھری باتیں سنائیں ۔

____________________

(۱):-ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنہتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص ۶۷۔۶۸

(۲):-عباس محمودا لعقاد ۔عبقریتہ الامام ۔ص ۸۳

(۳):-البلاذری ۔انساب الاشراف ۔جلد پنجم ۔ص ۷۴

۱۹۰

حضرت عثمان اور ان کے عمّال پر دل کھول کر تنقید کیا کرتی تھیں اور لوگ مخالفین عثمان میں ام المومنین کو سب سے بڑا مخالف تصور کرتے تھے ۔(۱)

ایک دفعہ حضرت عائشہ نے رسول خدا(ص) کی قمیص اٹھا کر مسجد میں دکھائی اور حاضرین مسجد سے فرمایا کہ دیکھ لو رسول خدا (ص) کی تو قمیص پرانی نہیں ہوئی لیکن عثمان نے ان کی سیرت کو پرانا کردیا ہے ۔" نعثل " کو قتل کرڈالو ۔اللہ نعثل کو قتل کرے(۲) ۔

حضرت عائشہ نے لوگوں کو حضرت ک عثمان کے خلاف برانگیختہ کیا اور لوگوں کو متعدد مرتبہ ان کے قتل کا حکم دیا اور جب ستم زدہ عوام نے ان کے گھر کا محاصرہ کیا تو حضرت عائشہ حج وعمرہ کا بہانہ کرکے مکہ چلی گئیں اور اپنی لگائی ہوئی آگ کو انہوں نے بجھانے کی کوئی کو شش نہیں کی اور مکہ میں رہائش کے دوران ہروقت مدینہ کی خبر منتظر رہتی تھیں ۔

ایک دفعہ ایک جھوٹی خبر ان کے گوش گزار ہوئی کہ :- حضرت عثمان نے محاصرہ کرنے والے مخالفین کو قتل کرادیا ہے اور شورش دم توڑگئی ہے ۔ یہ سن کر بربی بی صاحبہ نے سخت غصہ میں فرمایا ۔یہ تو بہت برا ہوا ۔حق کے طلبگاروں کو قتل کردیا اور ظلم کے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔(۳)

ایک دفعہ حضرت عثمان اور حضرت عائشہ میں کافی تلخ کلامی ہوئی تو حضرت عثمان نے کہا امور سلطنت کے ساتھ تیرا کیا واسطہ ہے ؟ اللہ نے تجھے گھر میں بیٹھنے کا حکم دیا ہے ۔

یہ الفاظ سن کر انہیں سخت غصّہ آیا اور رسول خدا کے چند بال اور ایک

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص ۲۹

(۲):- ابن ابی الحدید معتزلی ۔ شرح نہیں البلاغہ ۔جلدچہارم ۔ص ۴۰۸

(۳):- عبدالفتاح عبدالمقصود ۔الامام علی ابن ابی طالب ۔جلد دوم ۔ص ۲۷۶-۲۷۷

۱۹۱

لباس اور نعلین مبارک نکال کر فرمایا :- رسول خدا (ص) کے بال لباس اور ان کی نعلین تک بوسیدہ نہیں ہوئی تم نے ان کی سنت کو چھوڑ دیا ہے(۱) ۔

ام المومنین اور کبار صحابہ تمام ملت اسلامیہ میں مخالفت کی لہر دوڑ گئی اور باقی ممالک محروسہ کی نسبت حجاز ،مصر اور عراق میں مخالفت ک شدت زیادہ تھی ۔ اور تعجب خیز امر یہ ہے کہ حضرت عثمان کو مخالفت کی اس شدید لہر کا احساس نہیں تھا اور کبار صحابہ کے پر خلوص مشوروں کو درخور اعتنا نہ سمجھا ۔انہوں نے ہمیشہ مروان بن حکم اور اپنے دوسرے عمّال کے مشوروں کو اہمیت دی ۔ جب کہ تمام مشکلات ومسائل انہیں کے پیدا کردہ تھے۔

بنی امیہ کا اجلاس

جب چاروں طرف سے حضرت عثمان پر تنقید ہونے لگی تو انہوں نے اپنی کابینہ کا خصوصی اجلاس بلایا ۔ جس میں معاویہ بن ابی سفیان ،عبداللہ بن ابی سرح ، عبداللہ بن عامر اور سعید بن عاص نمایاں تھے ۔

حضرت عثمان نے معتمدین کے اس اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا :- ہر سربراہ کے وزیر کرتے ہیں اور تم لوگ میرے وزیر ہو ۔ موجودہ خلفشار تمہارے سامنے ہے ۔ اس سے نمٹنے کیلئے مجھے تمہارے مشوروں کی ضرورت ہے ۔

معاویہ نے تو صرف یہی جواب دیا کہ تمام عمال کو ان کے علاقوں میں بھیج دیا جائے اور وہاں کے تمام شرپسند افراد سے نمٹنے کی ان کو کھلی چھٹی دی جائے اور عمال کو چائیے کہ وہ کسی حکومت مخالف فرد کو مدینہ آنے کی اجازت نہ دیں ۔

____________________

(۱):- البلاذری ۔انساب الاشراف ۔ص ۴۸-۴۹

۱۹۲

سعید بن العاص نے کہا :- شورش کے سربراہوں کو قتل کردیا جائے ۔ عبداللہ بن ابی سرح نے کہا :- قتل کرنے سے ہماری حکومت مزید بدنام ہوگی بیت المال سے ان لوگوں کو بھاری رقمیں دے کر خاموش کرادیا جائے ۔عبداللہ بن عامر نے کہا کہ :- لوگوں کو جہاد میں مشغول کیا جائے اور انہیں سرحدی علاقوں میں بھیج کر اس مشکل سے جان چھڑائی جائے ۔(۱)

مشیروں کے درج بالا مشوروں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اصل حقیقت کے ادراک سے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں ۔ اور وہ کسی ایک نتیجہ پر بھی نہیں پہنچے تھے اور انہوں نے اقرباء پروری اور مالی بدعنوانیوں کو ختم کرنے کی بجائے لوگوں کو بیرونی جنگوں میں الجھانے کا مشورہ دیا اور مذکورہ اجلاس میں حضرت عثمان بھی اپنی کوئی رائے پیش کرنے سے قاصر رہے تھے اور مشکلات کے وقتی اور دائمی خاتمہ کے لئے ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں تھا ۔

اس وقت ہمیں یہ دیکھ کر انتہائی حیرت ہوئی ہے کہ جب چند صحابہ نے انہیں پر خلوص مشورہ دیا تو انہوں نے ان سے کہا کہ :- ہر امت کے لئے کوئی نہ کوئی آفت ومصیبت ہوتی ہے اور اس امت کی آفت مجھ پر نکتہ چینی کرنے والے افراد ہیں ۔

اے گروہ مہاجرین وانصار ! تم کیسے لوگ ہو تم میرے ایسے کاموں پر بھی اعتراض کیا ہے جنہیں عمر بن خطاب بھی کیا کرتے تھے ۔ لیکن تم نے اس پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اب تم مجھ پر تم معترض ہوتے ہو ۔ تم عمر کے سامنے اس لئے اعتراض نہیں کرتے تھے کیونکہ اس نے تمہاری باگیں کھینچ رکھی

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ص ۲۰۶-۲۰۷

۱۹۳

تھیں تمہیں جان لینا چاہئیے کہ ابن خطاب کا خاندان چھوٹا خاندان تھا جب کہ میرا خاندان بہت بڑا ہے ۔

حضرت عثمان کی اس گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کا ان سے مطالبہ یہی تھا کہ وہ اپنی حکومت کو قرآن وسنت اور سیرت شیخین کے مطابق چلائیں ۔مگر صحابہ کے اس جائز اور فطری مطالبہ کے جواب میں حضرت عثمان نے انہیں لالچی اور عیب جو قراردیا ۔جبکہ ان القاب کی بجائے ان کا حق یہ تھا کہ وہ اپنی اور اپنے عمال کی صفائی پیش کرتے اور بیت المال کو جس طرح سے بنی امیہ پر لٹا یا گیا تھا ۔ اس کا حساب پیش کرتے اور عجیب ترین امر یہ ہے کہ حضرت عثمان نے اپنے اعمال کی صفائی دینے پر تو چنداں توجہ نہیں دی بلکہ انہیں طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ یہی کام تو عمر بھی کیا کرتے تھے لیکن تمہاری زبانیں اس وقت خاموش رہتی تھیں اور خلیفہ صاحب نے اپنے خطبہ کا اختتام ڈرانے دھمکانے پر کیا ۔انہی بے تدبیریوں کی وجہ سے آہستہ آہستہ لشکر میں بھی ان کی مخالفت سرایت کرتی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چنگاری شعلوں کی صورت اختیار کر گئی ۔یہی وجہ ہے جب عبداللہ بن عامر رومیوں کے بحری بیڑے کو شکست دے کر واپس آیا تو محمد ابن ابی حذیفہ اس کے لشکر کو اس کا مخالف بنا چکا تھا ۔کیوں کہ وہ لشکر گاہ میں لوگوں سے کہتا تھا کہ :- ہمیں مدینہ جاکر عثمان سے جہاد کرنا ہے ۔اصحاب رسول (ص) کو کلیدی عہدوں سے ہٹا کر فاسق اور خائن قرابت داروں کو ان عہدوں پر فائز کرچکا ہے ۔تم لوگ اپنے اسی حاکم اور قائد جہاد کو ہی دیکھ لو ۔

۱۹۴

قرآن نے اس کے کفر کی تائید کی ہے اور رسول خدا(ص) نے اسے واجب القتل ٹھہرایا ہے ۔لیکن اس کے باوجود عثمان نے اسے تمہار حاکم مقرر کیا ہے کیوں کہ یہ اس کا رضاعی بھائی ہے ۔(۱)

الغرض اس وقت حضرت عثمان کے خلاف ایک ایسا محاذ بن گیا جہاں ان کے خلاف سینہ بہ سینہ خبریں جنم لیتی تھیں اور زبان زد عام وخاص ہوجاتی تھیں ۔لیکن ان خبروں کے اصل ذرائع کا لوگوں کو علم نہیں ہوتا تھا۔

حضرت عثمان نے مسجد نبوی کی توسیع کی تو اس وقت لوگوں کی زبانوں پر یہ عبارت جاری تھی کہ :- دیکھو رسول (ص) کی مسجد کی توسیع ہورہی ہے ۔لیکن ان کی سنت سے انحراف کیا جارہا ہے ۔

حضرت عثمان کے دور میں کبوتر زیادہ ہوگئے ۔مسجد نبوی مدینہ کے گھر اور اکثر چھتیں کبوتروں سے بھری ہوئی نظر آنے لگیں تو حضرت عثمان نے کبوتروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا تو اس وقت لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ :- پناہ حاصل کرنے والے بے چارے کبوتروں کو تو ذبح کرایا جارہا ہے اور طرید رسول (ص) حکم بن ابی العاص اور اس کے بیٹے مروان کو گھر میں بسایا جارہا ہے ۔(۲)

بلاذری نے یہی روایت سعید بن مسیب سے کی ہے کہ حضرت عثمان نے کبوتروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا تو لوگوں نے کہا کہ بے چارے پرندوں کو ذبح کرارہا ہے اور جن کو رسول خدا(ص) نے مدینہ سے نکالا تھا انہیں پناہ دی جارہی ہے(۳) ۔

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔ الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ ص ۱۶۸

(۲):- ایضا

(۳):- انساب الاشراف ۔جلد پنجم ۔ص ۲۲

۱۹۵

ایک سوال جس کا جواب ضروری ہے

اس مقام پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور اس کا جواب تلاش کرنا بھی بڑا ضروری ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ :-

حضرت عثمان کی سیاست کی مخالفت کہاں سے پیدا ہوئی ؟

کیا تحریک مخالفت خلافت کے مرکز مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئی تھی ؟

یا

دوسرے شہروں میں اس تحریک نے جنم لیا اور پھر اس نے مدینہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ؟

واضح الفاظ میں یہ سوال ان الفاظ کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے کہ :-

حضرت عثمان کی تحریک مخالفت مہاجرین وانصار میں پہلے پہل پیدا ہوئی اور پھر وہاں سے دوسرے شہروں کو منتقل ہوئی؟

یا

یہ تحریک پہلے فوج میں پیدا ہوئی اور وہاں سے سفر کرکے مدینہ پہنچی اور مہاجرین وانصار کو اپنی طرف مائل کرلیا ؟

ہم جانتے ہیں کہ اندھی عقیدت رکھنے والے افراد کے لئے اس سوال کا جواب دینا بڑا مشکل ہے ۔

کیونکہ اگر پہلی صورت کو تسلیم کیاجائے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عثمان کی سیاست کا انکار سب سے پہلے مہاجرین وانصار صحابہ نے کیا بعد ازاں دوسرے لوگوں نے ان کا اتباع کیا ۔

اور اگر دوسری صورت کو کم ضرر رساں سمجھ کر اختیار کیا جائے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت عثمان کی سیاسی ناہمواریوں کو دیکھ کر ان کے جانثار

۱۹۶

لشکر نے ان کی مخالفت کا آغاز کیا اور صحابہ نے مخالفین کی پیروی کی ۔ لیکن ہمیں اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی ہوگی کہ کیا جلیل القدر صحابہ عام افراد کی باتوں میں آسکتے تھے اور ان کے ہاتھوں کھلونا بن سکتے تھے ؟

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عثمان کے خلاف جو تحریک چلی تھی اس کی ابتداء مدینہ سے ہوئی تھی ۔ اس تحریک مخالفت کا سرچشمہ مدینہ میں ہی تھا اور مدینہ سے یہ تحریک باقی شہروں تک پہنچی(۱) ۔

ہمارے پاس اپنے اس جواب کی صداقت کے لئے بزرگ صحابہ کرام کا طرز عمل موجود ہے ۔

ہم جانتے ہیں کہ حضرت عثمان نے حضرت ابو ذر کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا اور اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ حضرت عثمان نے عبداللہ بن مسعود اور حضرت عمار یا سر پر کتنا تشدد روارکھا تھا ؟ اسلامی تاریخ میں حضرت عثمان کے اس "حسن سلوک " کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور اسی وجہ سے صحابہ کرام بھی ان کی مخالفت پراتر آئے تھے ۔

بلاذری کی زبانی جبلہ بن عمرو الساعدی کی گفتگو سماعت فرمائیں :" جس زمانے میں لوگوں میں حضرت عثمان کی مخالفت عام ہوچکی تھی ۔ انہی ایام میں حضرت عثمان جبلہ بن عمر الساعدی کے مکان کے پاس سے گزرے اس وقت جبلہ اپنے دروازے پر کھڑا ہوا تھا تو اس نے حضرت عثمان سے کہا :- اے نعثل ! اللہ کی قسم میں تجھے قتل کروں گا یا تجھے جلاوطن کرکے خارش زدہ کمزور اونٹنی پر سوار کروں گا ۔تو نے حارث بن الحکم کو بازار کا مالک بنایا ہے اور تو نے فلاں فلاں غلط کا م کئے ہیں ۔"(۲)

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفنتہہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ص ۱۳۶

(۲):- البلاذری ۔انساب الاشراف ۔جلد پنجم ۔ص۴۷

۱۹۷

واضح ہو کہ حارث بن الحکم مروان کا بھائی تھا اور اس نے بازار مدینہ میں اندھیر مچایا ہوا تھا ۔ اسی لئے جبلہ بن عمرو الساعدی نے اعتراض کیا تھا ۔اور کسی نے حضرت جبلہ سے کہا کہ آپ اس مسئلہ میں حضرت عثمان کی مخالفت ترک کردیں تو انہوں نے کہا تھا کہ مجھے کل اپنے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور میں یہ نہیں کہنا چاہنا :- " انّا اطعنا سادتنا وکبرآءنا فاضلّونا السبیلا "(الاحزاب)۶۷

"پروردگار ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کی اطاعت کی تو انہوں نے ہمیں گمراہ کیا ۔"

قتل عثمان

حضرت عثمان کے رشتہ داروں نے اسلامی مملکت میں وہ ادھم مچایا کہ خدا کی پناہ ۔غریب ومظلوم عوام نے وفد تشکیل دئیے اور انہیں مدینہ بھیجا شاید کہ اصلاح احوال کی کوئی صورت نکل آئے ۔ لیکن مروان بن الحکم نے حضرت عثمان کو ہمیشہ غلط مشورے دئیے اور وفد کے ارکان انصاف سے مایوس ہوکر اپنے اپنے علاقوں کو واپس چلے گئے ۔

حضرت عثمان کی زندگی کے آخری ایام میں بہت بڑا حادثہ یہ ہوا کہ مصر کے لوگ اپنے والی کی شکایت کرنے آئے اور حضرت عثمان سے مطالبہ کیا کہ اسے معزول کرکے کوئی اچھا سا حاکم مقرر کریں ۔

آخر کا ایک لمبی بحث وتمحیص کے بعد حضرت عثمان نے ان کا مطالبہ مان لیا ۔ایک نئے حاکم کا تقرر عمل میں لایا گیا اور سابق والی کی معزول کا فرمان بھی جاری کیا ۔

اہل مصر خوش ہوکر اپنے وطن جارہے تھے ۔ لیکن ابھی وہ لوگ ارض کنانہ تک پہنچے تھے کہ انہوں نے ایک اونٹنی سوار دیکھا جو معروف راستے سے

۱۹۸

ہٹ کر جارہا ہے ۔ انہیں اونٹنی والے پر شک گزرا چنانچہ اس کا تعاقب کرکے اسے پکڑ لیا گیا ۔ اس کی تلاشی لی گئی تو اس کے مشکیزے سے موم میں لپٹا ہوا ایک خط برآمد ہوا ۔ وہ خط حضرت عثمان کی جانب سے والی مصر کو لکھا گیا تھا ۔ جس میں اسے حکم دیا گیا تھا کہ جب یہ مفسد تیرے پاس آئیں تو ان کے سرغنوں کو قتل کردینا اور دوسروں کو سخت سزا دینا ۔

ان لوگوں نے اس حبشی غلام اور اونٹنی کو اپنے قبضہ میں لے لیا ۔حبشی غلام حضرت عثمان کا خادم تھا اور اونٹنی بھی بیت المال کی تھی ۔ خط کے نیچے حضرت عثمان کی مخصوص مہر بھی لگی ہوئی تھی۔

اہل مصر غلام اور اونٹنی سمیت واپس مدینہ آئے اور خلیفہ صاحب سے کہا کہ تم نے ہمارے ساتھ کیوں کیا ۔ تو خلیفہ صاحب نے حلفیہ طور پر کہا کہ یہ خط میں نے تحریر نہیں کیا ۔

ان لوگوں نے دریافت کی کہ کیا آپ س حبشی کو جانتے ہیں ؟ فرمایا ! جی ہاں یہ میرا خادم ہے ۔

انہوں نے پھر پوچھا اس اونٹنی کو بھی پہنچانتے ہیں ؟

خلیفہ صاحب نے فرمایا !جی ہاں یہ مہر بھی میری ہی ہے ۔

ان لوگوں نے کہا! جناب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اونٹنی بھی آپ کی ہو ۔غلام بھی آپ کا ہو اور مہر بھی آپ کی ہو لیکن خط آپ نے نہ لکھا ہو ۔

حضرت عثمان نے فرمایا ! خط میں نے نہیں لکھا ، یہ مروان کی کاروائی ہے ۔ ان لوگوں نے اس وقت نہایت معقول مطالبہ کیا کہ :-ہم آپ کی بات کو تسلیم کرتے ہیں ۔آپ بالکل بے گناہ ہیں ۔ سارا قصور مروان کا ہے ۔ آپ مروان کو ہمارے حوالے کردیں ۔اس کے بعد ہمارا آپ سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔

حضرت عثمان نے ان لوگوں کے اس مطالبہ کو بھی پائے حقارت سے

۱۹۹

ٹھکرادیا انہوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا اور یہ محاصرہ ایک ماہ سے بھی زیادہ دیر تک رہا ۔ اس دوران حضرت عثمان کے اقرباء میں سے کسی نے بھی ان کی مدد نہ کی اور نہ ہی مدینہ میں کسی صحابی نے ان کی جان بچانے کی قابل ذکر حمایت کی ۔ آخر کار طویل محاصرہ کے بعد ان لوگوں نے حضرت عثمان کے گھر میں گھس کر انہیں قتل کردیا(۱) ۔

قتل عثمان کے بعد بنی امیہ کی سازشیں

حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے ذکر سے پہلے ہم معاویہ اور مروان کی سازشوں کاذکر کرنا چاہتے ہیں ۔

حضرت عثمان کے قتل کے ساتھ ہی بنی امیہ نے حضرت علی علیہ السلام کی حکومت ختم کرنے کی سازشیں شروع کردی تھیں ۔

حضرت علی (ع) کے خلاف مسلحانہ تحریک شروع کرنے کے لئے انہوں نے مختلف افراد کو خط تحریر کئے ۔جن میں سے چند خطوط ہم اپنے قارئین کی نذر کرتے ہیں ۔:

قتل عثمان کے بعد مروان بن الحکم نے معاویہ بن ابی سفیان کو خط لکھا کہ :

"میں آپ کو یہ خط قتل عثمان کے بعد تحریر کر رہاہوں ۔باغیوں نے اس پر حملہ کیا اور ناحق قتل کردیا اور باغی ابر کی طرح کھل کر برسے ۔اور بعد ازاں ٹڈی دل کی طرح علی ابن ابی طالب کے پاس چلے گئے ۔

لہذا تم بنی امیہ کو اپنے ارد گرد جمع کرو اور ثریا ستاروں کے جھرمٹ میں تم ۔

____________________

(۱):-اس واقعہ کی تفصیلات کے لئے الاصابہ فی تمیز الصحابہ کے صفحات ۴۰۰سے ۴۰۶ کا مطالعہ کیا جائے ۔ہم انے یہ واقعہ تلخیص کرکے نقل کیا ہے۔ علاوہ ازیں تمام کتب تاریخ میں یہی واقعہ لکھا ہوا ہے ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

٢۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ ھ ) نے '' ابن مندہ '' ''ابو نعیم '' اور '' ابن عبد البر '' کے مطالب کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں بیان کیا۔

٣۔ ذہبی ( وفات ٧٤٨ ھ ) نے اسد الغابہ سے نقل کرکے اس کا خلاصہ اپنی کتاب '' تجرید''میں درج کیا ہے ۔

٤۔ ابن کثیر ( وفات ٧٧٤ھ) نے اس مطلب کو معجم طبرانی سے نقل کیا ہے لیکن بعض علماء نے اس روایت کے صحیح ہونے میں اور اس کے مآخذ پر شک کیا ہے ، جیسے :

١۔ عقیلی ( وفات ٣٢٢ ھ) نے کتاب '' الضعفاء '' میں ۔

٢۔ ابن عبد البر ( وفات ٤٦٣ھ ) نے اپنی کتاب '' استیعاب '' میں اس روایت کے جھوٹ ہونے اس کے راوی سہل بن یوسف بن سہل بن مالک کے صحیح نہ ہونے اور ایسے راویوں کے موجود نہ ہونے کی تاکید کی ہے ۔

لیکن اس نے گمان کیاہے کہ یہ سب آفتیں '' خالد بن عمرو '' کی وجہ سے واقع ہوئی ہیں اور مکتب خلفاء کے علماء کے اندر خالد کی شہرت کو دلیل کے طورپر پیش کرتے کرتے نتیجہ نکالا ہے کہ یہ روایت جھوٹی اور جعلی ہے ۔

برسوں گزرنے کے بعد نویں صدی ہجری میں ''ابن حجر '' (وفات ٨٥٢ھ) آتا ہے اور سہل بن مالک ( جد ) کے حالات کی تشریح کتاب '' اصابہ '' میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کی حیثیت سے اورسہل بن یوسف ( پوتا ) کے بارے میں اپنی دوسری کتاب '' لسان المیزان '' میں یوں لکھتا ہے :

۲۴۱

اس روایت کی صرف خالد بن عمرو نے روایت نہیں کی ہے بلکہ خالد سے برسوں پہلے ، اسی متن و سند کے ساتھ سیف بن عمر تمیمی نے اپنی کتاب فتوح میں درج کیا ہے ١

لیکن ابن حجر نے اس مطلب کی طرف توجہ نہیں کی ہے کہ درست اور صحیح نہیں جو خالد ایک صدی سیف کے بعد آیاہے اس نے بلاواسطہ کسی سے روایت نقل کی اس سے سیف نے ایک صدی پہلے روایت نقل کی ہے بلکہ ا سے کہناچاہئے تھا کہ: اس مطلب کو متخر شخص نے متقدم سے لیا ہے ۔مگر خالد جو کہ متأخر ہے اس نے متقدم کا نہ نام لیا اور نہ ہی منبع بیان کیا ہے۔

یہ مسئلہ اور اس جیسے سیکڑوں مسائل کے علاوہ سیف کے تعجب خیز تخلیقات آج تک علماء کی نظروں سے اوجھل رہی ہیں اور تاریخ اسلام کے سلسلے میں سیف کی اس قدر جنایتوں سے پردہ نہیں اٹھایا گیا تا کہ ابن حجر کو معلوم ہوجاتا کہ اس روایت اور ایسی سیکڑوں روایتوں اور راویوں کو گڑھنے اور خلق کرنے والا اصلی مجرم سیف بن عمر تمیمی ہے نہ کہ اور کوئی۔

اسی طرح تقریباً یقین کی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ ابن حجر ان دو راویوں ( بیٹا اور جد ) '' سہل بن یوسف '' اور ''یوسف بن سہل '' کے دوسری روایتوں میں داخل ہونے کے سلسلے میں متوجہ نہیں ہوا ہے تا کہ کتاب '' اصابہ '' میں سہل بن مالک ( جد ) اور کتاب '' لسان المیزان '' میں '' سہل بن یوسف'' ( پوتہ ) کے حالات پر روشنی ڈالتے وقت ان کے راویوں کے سلسلہ کے بارے میں سنجیدہ

____________________

١۔ اس کے برسوں گزرنے کے بعد '' سیوطی '' مذکورہ روایت کو اپنی کتاب جمع الجوامع میں سیف کی فتوح ، ابن مندہ ، طبرانی ، ابو نعیم ، خطیب بغدادی اور ابن عساکر سے نقل کرتا ہے متقی ہندی نے بھی انہیں مطالب کو سیوطی سے نقل کرکے اپنی کتاب '' کنزل العمال '' میں ثبت کیا ہے ( کنز العمال ١٢/١٠٠ ، اور ج١٢ ٢٣٩)

۲۴۲

طور پر بحث و تحقیق کرتا ! یعنی وہ کام انجام دیتا جو ہم نے جعلی راویوں کے سلسلہ میں انجام دیا ہے ۔

مآخذ کی تحقیق

سیف کے جعلی صحابی '' سہل بن مالک انصاری'' کا نام ایک ایسی روایت میں آیا ہے جسے سیف کے جعلی ( بیٹے ) '' سہل بن یوسف '' نے اپنے جعلی اور جھوٹے باپ '' یوسف بن سہل '' سے نقل کیاہے ۔ یعنی خیالی پوتے نے جعلی باپ سے اور اس نے اپنے افسانوی جد سے روایت کی ہے !!

بہر صورت ' ' سہل بن مالک انصاری '' کا نام اس کے خیالی بیٹے اور پوتے کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے ذکر نہیں ہوا ہے اس حدیث ساز خاندان کا نام ان معتبر منابع اور مصادر میں نہیں ملتا جنہوں نے سیف سے روایت نقل نہیں کی ہے۔

ہم نے ان راویوں پر مشتمل خاندان اور ان کی روایتوں کے بارے میں اپنی کتاب '' روات مختلقون '' (جعلی راوی) میں مفصل بحث کی ہے ۔ یہاں پر تکرار کی گنجائش نہیں ہے ۔

۲۴۳

خلاصہ

سیف بن عمر نے اپنے جعلی صحابی '' سہل بن مالک '' ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشہور شاعر کعب بن مالک انصاری کے بھائی کو بنی سلمہ خزرجی سے خلق کیا ہے اور اس کا نام ایک حدیث کے ذریعہ '' سہل بن یوسف '' نامی اس کے پوتے کی زبان پر جاری کیا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ اس قسم کے اشخاص کا نام دوسرے ایسے مصادر میں کہیں نہیں پایا جاتا جنہوں نے سیف بن عمر سے روایت نقل نہیں کی ہے ۔

مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے اس '' سہل بن مالک '' کو جعلی پوتے کی حدیث پر اعتماد کرکے اصحابِ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے شمار کیا ہے اور سیف سے نقل کرکے لکھا ہے کہ اس نے مہاجرین کے سرداروں کے فضائل خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنے ہیں ، جبکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یمانی انصار کا ذکر تک نہیں فرمایا ہے !

ہم خود جانتے ہیں کہ یہ روش اور طریقہ سیف کا ہے جو ایک حدیث جعل کرتا ہے اور ایک افسانہ گڑھ کر اپنے ضمیر کی ندا کا مثبت جواب دیتا ہے اور اپنے خاندان مضر کی طرفداری میں انکی تعریف و تمجید میں داد سخن دیتا ہے اور یمانی انصار کے بارے میں طعنہ زنی اور دشنام سے کام لیتا ہے اور ان پر کیچڑ اچھالتا ہے خواہ وہ صحابی ہوں یا تابعی!!

مزید ہم نے کہا ہے کہ چونکہ سیف نے حدیث کے مآخذ میں '' سہل بن مالک'' کو کعب بن مالک کے بھائی کے طور پر پیش کیا ہے اس لئے علماء نے بھی اسی سے استناد کرکے سہل بن مالک کے نسب کو کعب بن مالک کے نسب سے جوڑ دیا ہے جبکہ خود اس کے خالق سیف نے اس قسم کا کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے !

سیف نے سہل بن مالک سے مربوط روایت کو دوسری صدی کے آغاز میں اپنی کتاب فتوح میں لکھا ہے اس کے ایک سو سال گزرنے کے بعد خالد بن عمرو اموی ( وفات تیسری صدی ہجری) آتا ہے اور سیف کے مطالب کو اسی سہل کے بارے میں نقل کرتا ہے ۔

۲۴۴

خالد بن عمرو اس قلمی سرقت میں سیف اور اس کی کتاب کا نام لئے بغیر روایت کو براہ راست سہل بن یوسف سے نقل کرتا ہے یہی امر سبب بنا کہ بعض علماء نے تصور کیا ہے کہ خالد بن عمرو نے شخصاً اس حدیث کے راوی سہل بن یوسف کو دیکھا ہے اور مذکورہ روایت کو براہ راست اس سے سنا ہے ۔ا سی بناء پر کہا جاتا ہے کہ خالد بن عمرو اس حدیث کا تنہا راوی ہے ۔

اس طرح بعض علماء نے اس حدیث کے صحیح ہونے اور اس نسب کے راویوں ( سہل بن یوسف بن سہل بن مالک) کے وجود پر شک کیا ہے ، کیونکہ قبیلۂ خزرج سے بنی سلمہ اور انصار سے غیر بنی سلمہ حتی غیر انصار میں ان ناموں کا سراغ نہیں ملتا ہے ۔

۲۴۵

سر انجام ابن حجر آتا ہے اور اس روایت کے ، خالد سے برسوں پہلے ، سیف کی کتاب میں موجود ہونے کا انکشاف کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ابن ''حبان'' نے بھی اس مطلب کو سیف سے نقل کیا ہے لیکن خود ابن حجر نے اس بات کی طرف توجہ نہیں کی کہ اس روایت کو گڑھنے والا۔ '' سہل بن مالک '' اور اس کے راویوں کو جعل کرنے والا خود سیف بن عمر ہے ، جس نے سیکڑوں اصحاب اور تابعین کو خلق کیا ہے ، قصے اور افسانے گڑھ کر ان سے نسبت دی ہے ان کی زبان سے روایتیں اور احادیث جاری کی ہیں اور ان سب چیزوں کو بڑی مہارت کے ساتھ اسلام کی تاریخ میں داخل کیا ہے اور اس طرح علماء محققین کیلئے حقیقت تک پہچنے میں مشکل کرکے انھیں پریشان کررکھا ہے ۔

اسی طرح ابن حجر نے اس موضوع پر بھی غور نہیں کیا ہے کہ راویوں کے اس سلسلہ کے نام سیف کی دوسری روایتوں میں بھی ذکر ہوئے ہیں جن میں سے بعض کو طبری نے اپنی تاریخ میں اور بعض کو دوسرے علماء نے اصحاب کی زندگی پر روشنی ڈالتے وقت ذکر کیا ہے ان میں ''عبیدبن صخر '' کے حالات پر روشنی ڈالنے والے مصنفوں کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ اگر ابن حجر ان راویوں کے سیف کی دوسری روایتوں میں خودارادی کے طور پر وجود سے آگاہ ہوجاتا تو ''سہل بن مالک'' کتاب ''اصابہ'' میں سہل بن مالک (جو)کے حالات پر نیز لسان المیزان میں سہل بن یوسف کی زندگی پر روشنی ڈالتے وقت ان کی طرف اشارہ ضرور کرتا ۔

۲۴۶

اس افسانہ کا نتیجہ

سیف نے '' سہل بن مالک انصاری '' جیسے صحابی اور اس کے خاندان کو خلق کرکے درج ذیل مقاصد حاصل کئے ہیں :

١۔ گروہ مہاجرین میں خاندان مضر کے سرداروں کیلئے ایک افتخار کسب کیا ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی تعریف و تمجید کرائی ہے ۔

٢۔ حدیث و اخبار کے تین راویوں کو خلق کرکے انھیں دوسرے حقیقی راویوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔

٣۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شاعر کعب بن مالک انصاری کیلئے ایک بھائی خلق کر کے اس کانام ''سہل بن مالک ''رکھا ہے اور اس کا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر تعارف کرایا ہے ۔

٤۔ مہاجر اصحاب کی منقبت میں ایک تعجب خیز روایت جعل کی ہے تا کہ حدیث حسبِ ذیل کتابوں میں منعکس ہوجائے اور مآخذ کے طور پر سالہا سال ان سے استفادہ کیا جا تار ہے :

١۔ '' ابن حبان '' ( وفات ٣٥٤ھ ) نے اپنی کتاب '' الصحابہ '' میں سیف کی کتابِ '' فتوح '' سے نقل کرکے ۔

٢۔ طبرانی ( وفات ٣٦٠ھ) نے اپنی کتاب '' المعجم الکبیر ، عن الصحابة الکرام '' میں ۔

٣۔ ''دار قطنی ''( وفات ٣٨٥ھ) نے کتاب ''' الافراد ' میں یہ تصور کیا ہے کہ خالد اس روایت کو نقل کرنے والا تنہا شخص ہے ۔

٤۔ ''ابن شاہین''(وفات ٣٨٥ھ) نے مذکورہ حدیث کو بصورت مرسل نقل کیا ہے ۔

٥۔ ''ابن مندہ ''( وفات ٣٩٩ھ) اس بھی گمان کیاہے کہ خالد تنہا شخص ہے جس نے اس روایت کو نقل کیا ہے ۔

٦۔ ''ابو نعیم ''( وفات ٤٣٠ھ) نے کتاب '' معرفة الصحابہ '' میں ۔

٧۔ ''ابن عبد البر ''( وفات ٤٦٣ھ) نے کتاب '' استیعاب '' میں اس نے بھی تصور کیا ہے کہ خالد اس حدیث کا تنہا راوی ہے ۔

۲۴۷

٨۔ ''ابنوسی ''( وفات٥٠٥ھ) نے کتاب '' فوائد'' میں ۔ اس نے اسے خالد سے نقل کیا ہے۔

٩۔ ابن اثیر ( وفات ٦٣٠ ھ) نے کتاب '' اسد الغابہ '' میں ۔ ابن مندہ ، ابو نعیم اور ابن عبد البر سے نقل کیاہے ۔

١٠۔ ''ذہبی ''( وفات ٧٤٨ھ ) نے کتاب '' التجرید'' میں جو اسد الغابہ کا خلاصہ ہے ۔

١١١۔ ''مقدسی'' ( وفات ٦٤٣ھ نے '' کتاب المختارہ '' میں ۔ اس نے طبرانی پیروی کی ہے ۔

١٢۔ ''ابن حجر ''( وفات ٨٥٢ھ کتاب '' اصابہ '' میں حدیث کے متن سے پہلے اس کے بارے میں بحث کی ہے ۔

١٣۔ سیوطی ( وفات ٩١١ھ) نے کتاب ''جمع الجوامع'' میں ۔

١٤۔ متقی ( وفات ٩٧٥ھ) نے کتاب '' کنز ل العمال '' اور منتخب کنز العمال میں کتاب '''جمع الجوامع '' سے استفادہ کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

سہل بن مالک کے حالات

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب ''

٢۔ ذہبی کی ''تجرید''

٣۔ ابن اثیر کی اسد الغابہ

٤۔ ابن حجمہ کی '' اصابہ''

سہل بن یوسف کے حالات

١۔ ابن حجر کی لسان المیزان

۲۴۸

خالد بن عمرو کے حالات

١۔ '' رواة مختلقون '' اسی کتاب کے مؤلف کی تالیف

٢۔ ابن عساکر کی معجم الشیوخ

سہل بن مالک کے حالات پر تشریح کے ضمن میں حدیث پر ایک بحث

١۔ ابن حجر کی اصابہ

٢۔ متقی کی ' ' کنزل العمال'' باب سوم ، کتاب فضائل ، فصل دوم کے آخر میں (١٢ ١٥٥) ، اور فصل سوم کے آخر میں ( ١٢ ٢٣٩)

٣۔ متقی کی ''کنز ل العمال'' میں سیوطی سے نقل کرکے مذکورہ دونوں باب میں درج کیا ہے ۔

سیف بن عمر نے اپنی کتاب فتوح میں ، اس کے علاوہ ابن قانع، ابن شاہین ، ابن مندہ ، ابو نعیم ، ابن النجار اور ابن عساکر نے ذکر کیا ہے (گزشتہ حدیث کے آخرتک )

۲۴۹

باونواں جعلی صحابی اسعد بن یربوع انصاری خزرجی

ابن عبد البر نے کتاب '' استیعاب '' میں اس صحابی کی تشریح شرح حال لکھتے ہوئے مآخذ کا ذکر کئے بغیر لکھا ہے :

وہ یمامہ کی جنگ میں قتل ہوا ہے ۔

ابن اثیر نے ابن عبدالبر کی روایت کو نقل کرنے کے بعد اپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں رمز (ب) کا اضافہ کرکے لکھا ہے :

البتہ یہ ابن عبد البر کا کہنا ہے ۔ اس نے بھی '' اسید بن یربوع ساعدی ''نام کے صحابی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ یمامہ کی جنگ میں مارا گیا ہے ۔ یہ دو آدمی یا ایک دوسرے کے بھائی ہیں یا یہ کہ ان دو ناموں میں سے ایک دوسرے کی تصحیف ہے ۔ کیونکہ سیف بن عمر نے اسی صحابی کو اپنی کتاب فتوح میں '' اسعد '' کے عنوان سے پہنچوایا ہے ٢٩١۔

اور خدا بہتر جانتاہے ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )

اس سے پہلے ہم نے کہا ہے کہ حرف ''ب'' ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' کی مختصر علامت ہے جسے ابن اثیر اور دیگر علماء نے اپنے درمیان رمز کے طور پر قرار دیا ہے ۔

ذہبی نے بھی اپنی کتاب '' تجرید'' میں لکھا ہے کہ '' اسعد بن یربوع '' اسید '' نام کے ایک مجہول شخص کا بھائی ہے جو یمامہ کی جنگ میں قتل ہوا ہے ۔

ابن حجر '' استیعاب '' کے مطالب نقل کرکے لکھتا ہے ۔

سیف نے کتاب ' ' فتوح '' میں اس کا نام لیا ہے اور ابو عمر، ابن عبد البر نے بھی روایت کو سیف سے نقل کیا ہے۔

کتاب '' نسب الصحابة '' کے مصنف نے بھی لکھا ہے کہ ' اسعد بن یربوع '' یمامہ کی جنگ میں مارا گیا ہے ۔

کتاب '' درّ السحابہ'' میں بھی آیا ہے کہ '' اسعد بن یربوع '' یمامہ کی جنگ میں قتل ہونے والوں میں سے تھا ۔

۲۵۰

خلاصہ یہ کہ علماء میں سے چھ افراد نے اس صحابی کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ان میں سے چار اشخاص نے کسی قسم کے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے ، جو حسب ذیل ہیں :

١۔ '' ابن عبدالبر ''

٢۔ ذہبی

٣۔ کتاب ''نسب الصحابہ ''کے مصنف اور

٤۔ کتاب ''دار السحابہ ''کے مصنف

ذہبی نے بھی تاکید کی ہے کہ '' اسید '' مجہو ل شخص ہے ۔

دو افراد نے صرف سیف کا نام لیا ہے اور اسے اپنے مطالب کے مآخذ کے طور پر پہنچوایا ہے ۔ جو یہ دوافراد ہیں : '' ابن حجر '' اور '' ابن اثیر ''

ہم نے حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں ، '' اسعد '' یا '' اسید بن یربوع ساعدی '' نامی انصاری صحابی کے بارے میں جستجو اور تلاش کی لیکن مذکوہ منابع میں سے کسی ایک میں ان کا سراغ نہ ملا اس لئے اسے سیف کی مخلوق میں شمار کیا ہے ۔

جیساکہ ہم نے پہلے کہا ہے کہ صرف دو دانشوروں نے اپنی روایت کے مآخذ کے طور پر سیف کا تعارف کرایا ہے اور دوسرے راویوں کا نام نہیں لیا ہے تا کہ ان کے بارے میں ہم بحث و تحقیق کرتے ۔

اسعد کے افسانہ کے نتائج

١۔ ایک انصاری ساعدی قحطانی صحابی کو خلق کرنا اور اسے یمامہ کی جنگ میں قتل ہوتے دکھانا۔

٢۔ میدان کارزار میں یمانی مقتولین کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرناتا کہ یہ دکھائے کہ وہ لیاقت اور تجربہ سے عار ی تھے اور اس طرح ان کی تذلیل کی جائے ۔ کیونکہ سیف کے نقطہ نظر کے مطابق لیاقت ، افتخار ، شجاعت اور بہادری کے مالک صرف مضری عدنانی ، خاص کر تمیم بنی سے اسیدہے جو خود سیف بن عمر کے قبیلہ سے ہے ۔

۲۵۱

مصادر و مآخذ

اسعد بن یربوع کے بارے میں درج ذیل منابع کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ؛

١۔ ابن عبد البر کی '' استیعاب '' ( ١ ٤١) نمبر: ٧١

٢۔ ابن اثیر کی '' اسد الغابہ ' '( ١ ٧٣)

٣۔ ذہبی کی '' تجرید '' ( ١ ١٥) نمبر : ١١٢

٤۔ ابن حجر کی '' اصابہ '' ( ١ ٥١) نمبر؛ ١١٦

٥۔ '' نسب الصحابہ من الانصار '' ص ١٠٧

٦۔ در السحابہ فی بیان وفیات الصحابہ

کتاب '' در السحابہ '' کے مصنف ابو العباس رضی الدین ، حسن بن محمد بن حسن صنعانی ( ٥٥٥۔ ٦٥٠ھ ) ہیں ، اس کتاب کا قلمی نسخہ مدینہ منورہ میں شیخ الاسلام لائبریری میں ہے او رمؤلف نے وہیں پر اس سے استفادہ کیا ہے ۔

ترپنواں جعلی صحابی مالک کی بیٹی سلمی

سلمی اور حوب کے کتے

ابن حجر اپنی کتاب '' اصابہ'' میں مالک کی بیٹی سلمی کا تعارف یوں کرتا ہے :

مالک بن حذیفہ بن بدر فزارّیہ کی بیٹی سلمی معروف بہ '' ام قرفۂ صغریٰ'' عیینہ بن حصن '' کی چچیری بہن ہے ۔ اسے مقام اور اثر و رسوخ کی وجہ سے اس کی ماں ، '' ام قرفۂ کبریٰ'' سے تشبیہ دیتے تھے۔

'' زید بن حارثہ '' نے ایک لشکر کشی کے دوران '' ام قرفہ ، کو قتل کر کے اور بنی فزارہ کے کچھ لوگوں کو قیدی بنا لیاتھا ، ان قیدیوں میں ' ام قرفہ '' کی بیٹی سلمی بھی موجود تھی جو مدینہ میں ام المؤمنین عائشہ کی خدمت میں پہنچی اور انہوں نے اسے آزاد کر دیا۔

ایک دن سلمیٰ عائشہ کی خدمت میں تھی اتنے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دروازے سے داخل ہوئے اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا:

تم میں سے ایک حوب کے کتوں کو بھونکنے پر مجبور کرے گی۔

۲۵۲

کہتے ہیں '' ام قرفہ ''کے گھر کی دیوار پر پچاس ایسی تلواریں لٹکائی گئی تھیں یہ جو پچاس ایسے شمشیر باز مردوں سے مربوط تھیں جو اس خاتون کے محرم تھے نہیں معلوم یہاں پر یہی ' ' ام قرفۂ '' ہے یا'' ام قرفۂ کبری '' (ز) ( ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

ابن حجر کا یہ بیان خبر کے لحاظ سے دو حصوں پر مشتمل ہے ایک حصہ میں سلمی کا نسب ہے اور دوسرا حصہ درج ذیل خبروں پر مشتمل ہے ۔

١۔ زید بن حارثہ کی لشکر کشی سے مربوط ہے کہ اس نے '' ام قرفہ '' کی سرکوبی کیلئے ماہ رمضان ٦ھ میں شہر مدینہ سے سات میل کی دوری پر ' 'وادی القریٰ'' کے علاقے پر فوج کشی کی تھی ۔

٢۔ حوب کے کتوں کی داستان

ام قرفہ کی داستان کے چند حقائق

ابن سعد نے اس لشکر کشی کے بارے میں اپنی کتاب '' طبقات'' میں یوں لکھا ہے :

زید بن حارثہ اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے کچھ اجناس لے کر تجارت کی غرض سے مدینہ سے شام کی طرف روانہ ہوا ' ' وادی القریٰ'' کے نزدیک قبیلہ '' بنی بدر '' سے تعلق رکھنے والے فزارہ کے ایک گروہ سے اس کی مڈ بھیڑ ہوئی انہوں نے جب ان کے ساتھ اس قدر مال و منال دیکھا تو زید پر حملہ کرکے تمام مال و منال لوٹ لے گئے ۔

کچھ مدت کے بعد جب زید کے زخم اچھے ہوئے تو وہ مدینہ واپس لوٹ کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو اور تمام ماجرا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بیان کیا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے مجاہدوں کے گروہ کی سرکردگی میں ان کی سرکوبی کیلئے ممور فرمایا۔

زید نے قبیلہ فزارہ کے کنٹرول والے علاقے میں پیش قدمی میں انتہائی احتیاط سے کام لیادن کو مخفی ہوجاتے تھے ااور رات کو پیش قدمی کرتے تھے اس دوران ''' بنو بدر'' کے بعض افراد زید اور اس کی لشکر کی کاروائی سے آگاہ ہوکر '' فزارہ '' کے لوگوں کو اس خبر سے آگاہ کرتے ہیں کہ زید کی سرکردگی میں اسلامی فوج ان کی سرکوبی کیلئے آرہی ہے ۔ ابھی فزارہ کے لوگ پوری طرح مطلع نہیں ہوئے تھے کہ ایک روز صبح سویرے زید اور اس کی فوج نے تکبیر کہتے ہوئے اچانک ان پر حملہ کر دیا ۔ پوری بستی کو محاصرہ میں لے کر ان کے بھاگنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رکھی۔

۲۵۳

فزارہ کے باشندوں نے مجبور ہوکر ہتھیار ڈالدئے، لہذا زید نے ان سب کو قیدی بنا لیا ان قیدیوں میں ربعہ بن بدر کی بیٹی '' ام قرفہ فاطمہ '' اور اس کی بیٹی '' جاریہ بنت مالک بن حذیفہ بن بدر '' بھی تھی۔

'' جاریہ '' کو '' سلمة بن اکوع '' نے لے کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اسے '' حزن ابن ابی وہب '' کو بخش دیا ۔

ابن سعد اس داستان کے آخر لکھتا ہے کہ زید اور اس کے ساتھیوں نے '' ام قرفہ '' اور فزارہ کے چھ مردوں کو قتل کر ڈالا ۔

یعقوبی نے بھی '' ام قرفہ '' کی داستان کو یوں نقل کیاہے :

'' امر قرفہ نے اپنے محارم میں سے چالیس جنگجو اور شمشیر باز مردوں کو حکم دیا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لڑنے کیلئے مدینہ پر حملہ کریں ۔

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس موضوع سے مطلع ہوئے اور زید بن حارثہ کو چند سواروں کے ہمراہ ان کے حملہ کو روکنے کیلئے بھیجا ۔ دونوں گروہ '' وادی القریٰ''میں ایک دوسرے روبرو ہوئے اور جنگ چھڑگئی۔

لیکن زید کے ساتھ مقابلہ کی تاب نہ لاسکے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے ۔ زید زخمی حالت میں اپنے آپ کو مشکل سے میدان کا رزار سے باہر لاسکا ۔ اس حالت میں اس نے قسم کھائی کہ اس وقت تک نہ نہائے گا اور نہ بدن پر تیل کی مالش کرے گا جب تک کہ ان سے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا انتقام نہ لے لے !

زید نے اس قسم کو پورا کرنے کیلئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دوبارہ جنگ کی اجازت طلب کی ، پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اسے فزارہ سے جنگ کرنے کیلئے دوبارہ ممور فرمایا اور ایک گروہ کی سرپرستی اور کمانڈ اسے سونپی (گزشتہ داستان کے آخر تک ١ )

ابن ہشام ، یعقوبی ، طبری اور مقریزی نے لکھا ہے کہ اسی جنگ میں '' سلمة بن عمر واکوع'' نے قرفہ کی بیٹی '' سلمیٰ'' کو قیدی بناکر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اسے اپنے ماموں '' حزن بن ابی وہب '' کو بخش دیا اور اس سے عبد الرحمان بن حزن پیدا ہوا ۔ پہلی خبر کی حقیقت یہی تھی جو ہم نے نقل کی ۔

١۔ محمد بن حبیب کتا ب '' محبّر'' کے ص ٤٩٠ میں لکھتا ہے ' 'ام قرفہ '' نے اپنے شوہر '' ابن حذیفہ '' سے تیرہ بیٹوں کو جنم دیا ہے جو شمشیر باز ، بلند ہمت اور بلند مقام والے تھے '' ام قرفہ '' بھی ایک بلند ہمت اور بانفوذ خاتون تھی ۔ وہ لوگوں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف اکساتی تھی اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنی رکھتی تھی کہتے ہیں ایک دن غطفان کے لوگوں میں اختلاف پیدا ہوا '' ام قرفہ '' نے اپنا دوپٹہ ان کے پاس بھیجدیا انہوں نے اسے نیزے پر بلند کیا ۔نتیجہ میں ان کے درمیان صلح و آشتی برقرار ہوگئی ۔

۲۵۴

'' ام قرفہ '' کا افسانہ اور حوب کے کتوں کی داستان

لیکن مذکورہ دوسری خبر کا سرچشمہ صرف سیف کے افکار اور ذہنی خیالات ہیں اس کے سوا کچھ نہیں ہے ، ملاحظہ فرمائیے :

طبری ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں قبائل '' ہوازن '' ، '' سلیم '' اور '' عامر'' کے ارتداد کے بارے میں سیف بن عمر سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں لکھتا ہے :

''بزاخہ '' کی جنگ سے فرار کرنے والے قبیلۂ '' غطفان '' کے لوگ جو پیغمبری کے مدعی '' طلیحہ'' کی حمایت میں لڑرہے تھے ، شکست کھاکر عقب نشینی کرنے کے بعد ''ظفر '' نامی ایک جگہ پر جمع ہوگئے ۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں '' مالک بن حذیفہ بن بدر فزاریہ ''' کی بیٹی '' ام زمل سلمیٰ '' کا کافی اثرو رسوخ تھا ۔ وہ شوکت ، وجلال اور کلام کے نفوذ میں ا پنی ماں '' ام قرفہ '' کی ہم پلہ تھی ۔

'' ام زمل'' نے مذکورہ فراریوں کی ملامت کی اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ سے فرار کرنے پر ان کی سخت سرزنش کی ۔ اس کے بعد ان کی ہمت افزائی کرکے پھر سے مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کی ترغیب دینے لگی ۔ خود ان کے بیچ میں جاکر ان کے ساتھ بیٹھ کر انھیں خالد کے ساتھ لڑنے کیلئے آمادہ کرتی تھی یہاں تک کہ قبائل '' غطفان '' ، ''ہوازن '' ، ' ' سلیم '' ، ''اسد'' اور '' طی ''' کے بہت سے لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے ۔

ام زمل ، سلمی اس منظم گروہ کی مدد سے فزارہ کی گزشتہ شکست ، اس کی ماں کے قتل ہونے اور اپنی اسارت کی تلافی کیلئے خالد سے جنگ پر آمادہ ہوئی ۔

سلمی کا یہ تیز اقدام اس لئے تھا کہ برسوں پہلے ، اس کی ماں '' ام قرفہ'' کے قتل ہونے کے بعد وہ خود اسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں قیدی بن کر عائشہ کے گھر میں پہنچ گئی تھی ۔لیکن عائشہ کی طرف سے ام زمل کو آزاد کئے جانے کے با وجود وہ عائشہ کے گھر میں زندگی کرتی تھی ۔کچھ مدت کے بعد وہ اپنے وطن واپس چلی گئی اور اپنے رشتہ داروں سے جاملی ۔

ایک دن جب ام زمل عائشہ کے گھر میں تھی ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر میں تشریف لائے جب ان دونوں کو دیکھا تو فرمایا:

تم میں سے ایک پر حوب کے کتے حملہ کرکے بھونکیں گے !

۲۵۵

اور یہ ام زمل کہ اس کے اسلام سے منہ موڑنے اور مرتد ہونے کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی ! کیونکہ جب ام زمل نے مخالفت پرچم بلند کیا اور فراری فوجیوں کو جمع کرنے کیلئے '' ظفر وحوب '' سے گزری تو حوب کے کتوں نے اس پر حملہ کیا اور بھونکنے لگے !!

بہر حال اس فزاری عورت کے تند اقداما ت اور لشکر کشی کی خبر جب خالدبن ولید کو پہنچی تو وہ فوراً اس کی طرف روانہ ہوا اور دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ چھڑگئی ۔ ام زمل نے اپنی ماں کے اونٹ پر سوار ہوکر جنگ کی کمانڈ خود سنبھالی اور بالکل ماں کی طرح اسی قدرت اور طاقت کے ساتھ حکم دیتی رہی اور لوگوں کو استقامت اور ڈت کے مقابلہ کرنے کی ' ' ترغیب '' اور ہمت افزائی کرتی رہی۔

خالد نے جب یہ حالت دیکھی تو اعلان کیاکہ جو بھی اس عورت کے اونٹ کو موت کے گھاٹ اتار ے گا اسے ایک سو اونٹ انعام کے طور پر ملیں گے !!! خالد کے سپاہیوں نے ام زمل کے اونٹ کا محاصرہ کیا اس کے سو سپاہیوں کو قتل کرکے اونٹ کو پے کہا اور بعد ام زمل کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔

اس جنگ میں قبائل '' خاسی ، وہاربہ اور غنم '' کے خاندان نابود ہوگئے اور قبیلہ کاہل کو ناقابل جبران نقصان پہنچا آخر میں خالد بن ولید نے اس فتحیابی کی نوید مدینہ منورہ میں خلیفہ کی خدمت میں پہنچادی ۔

افسانۂ ام زمل کے مآخذکی پڑتال

سیف نے مالک حذیفہ کی بیٹی ام زمل سلمی کے افسانہ کو '' سہل '' کی زبانی جسے وہ سہل بن یوسف بن سہل کہتا ہے بیان کیا ہے اس سے پہلے ہم نے اس کو سیف کے جعل کردہ راویوں کے طورپر پہچنوایا ہے خاص کر اسی فصل میں '' ٥١ویں جعلی صحابی '' کے عنواں کے تحت اس سلسلے میں تفصیل سے بحث کی ہے ۔

۲۵۶

ام زمل کے افسانہ کی اشاعت کرنے والے علما

جن علماء نے '' ام زمل '' کے افسانے کو سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں :

١۔ ''طبری'' نے براہ راست سیف سے نقل کرکے اس کے مآخذ بھی ذکر کئے ہیں ۔

٢۔ ''حموی '' نے اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں دو جگہ اس پر روشنی ڈالی ہے ۔ اس ترتیب سے کہ ایک جگہ لفظ '' حوب '' کے سلسلے میں حسب ذیل عبارت لکھی ہے :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں لکھا ہے کہ جنگ بزاخہ سے فرار کرنے والے (داستان کے آخری تک )

اور دوسری جگہ لفظ '' ظفر'' کی تشریح میں یوں لکھتا ہے :

''ظفر'' بصرہ و مدینہ کے درمیان ، '' حوب'' کے نزدیک ایک جگہ ہے وہاں پر بزاخہ کے فراری جمع ہوئے تھے۔

پھر بات کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

لیکن ، '' نصر '' نے لکھا ہے کہ ''ظفر'' مدینہ و شام کے درمیان '' شمیط'' کے کنا رے پر واقع ہے اور یہ جگہ فزارہ کی زمینوں میں شمار ہوتی ہے یہ وہی جگہ ہے جہاں پر '' ربیعہ بن بدر کی بیٹی ، '' ام قرفہ فاطمہ ، لوگوں کو پیغمبر خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف اکساتی تھی اور انھیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ کرنے کی ترغیب دیتی تھی اور وہ وہیں پر قتل ہوئی ہے ۔

ام قرفہ کے بارہ بیٹے تھے جوجنگجو اور دلاور تھے اور بزاخہ کی جنگ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دشمنی میں کافی سرگرم رہے ہیں ۔

خالد نے '' قرفہ '' اور طلیحہ کے فراری حامی جو مسلمانوں سے لڑنے کیلئے اس کے گرد جمع ہوئے تھے کو سخت شکست دی ۔ ام قرفہ کو قتل کرکے اس کے سر کو تن سے جد اکرکے خلیفہ ابو بکر کے پاس مدینہ بھیجدیا ۔ اور ابو بکر نے بھی حکم دیا کہ اس کے سر کو شہر کے دروازے پر لٹکادیا جائے ۔ کہتے ہیں اس کا سر اسلام میں پہلا سر تھا جسے لٹکایا گیا ہے ١ (حموی کی بات کا خاتمہ )

''حموی کے بیان کے مطابق '' ''نصر'' نے سیف کی دو خبروں کو آپس میں ملادیا ہے : پہلی خبر ام قرفہ کی سرکوبی کیلئے زید بن حارثہ کی لشکر کشی ہے ، سیرت لکھنے والوں نے یک زبان ہوکر کہا ہے کہ وہ لوگوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف اکساتی تھی ان میں سے بعض نے کہا ہے کہ زید نے اسے قتل کرنے کے بعد اس کا سر مدینہ بھیجا ہے ۔

۲۵۷

دوسری خبر کو سیف نے اس کی بیٹی '' ام زمل سلمی '' کے بارے میں جعل کیا ہے اور اس کا نام '' ام قرفہ صغری '' رکھا ہے اور کہا ہے کہ اس نے بزاخہ کی جنگ میں طلیحہ کے حامی فراری سپاہیوں کو اپنے گرد جمع کیااور انھیں خالد بن ولید کے خلاف جنگ کرنے کی ترغیب دی اور سر انجام خالد کے ہاتھوں ماری گئی ۔

'' نصر '' نے ان دونوں خبروں کو '' خبر ام قرفہ ''' کے عنوان سے آپس میں مخلوط کر دیا ہے اور اس کے بعد ایک تیسری خبر بنائی ہے اور اس کے تحت ' ظفر '' کے موضوع کی تشریح کی ہے جو در اصل سیف کی تخلیق ہے ۔

شاید '' نصر '' نے ان دو خبروں کو ا سلئے آپس میں ملایا ہے کہ سیف نے اپنی خیالی مخلوق پر سلمی کا

____________________

١۔ محمد بن حبیب نے کتاب '' محبر'' میں ابن کلبی اور طبری سے بقول اسحاق لکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قریش سے فرماتے تھے کہ اگر ام قرفہ قتل ہوجائے تو کیا ایمان لاؤ گے ؟ اور وہ جواب میں وہی بات کہتے تھے جو وہ ناممکن کام کے بارے میں کہتے تھے ،یعنی ، مگر یہ ممکن ہے ؟ برسوں گزرنے کے بعد اور زید بن حارثہ کے ہاتھوں ام فرقہ کے قتل ہونے کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر مدینہ کی گلیوں میں پھیرایا جائے تا کہ لوگ اپنی آنکھوں سے یہ واقعہ دیکھ کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صحیح پیشین گوئی پر ایمان لائیں ۔

۲۵۸

نام جوڑ کر اس کا '' ام قرفہ صغری'' نام رکھا ہے ۔ لیکن نصر اس مسئلہ سے غافل تھا کہ زید بن حارثہ کے ہاتھوں قتل کی جانے والی ' ام قرفہ '' اور سیف بن عمر کی مخلوق ' ام قرفہ '' کے درمیان زمین و آسمان کا فرق

ہے اس کے باوجود نصر نے ان دونوں کو ایک ہی جان کر ایک ساتھ ذکر کیا ہے ۔

'' ظفر''' کا محل وقوع بھی نصر اور حموی کو مکمل طور پر معلوم نہ ہوسکا ہے کیونکہ ایک کہتا ہے کہ ''ظفر''' شام کی راہ پر واقع ہے اور دوسر مدعی ہے کہ بصرہ کے راستہ پر واقع ہے بالکل دو مخالف جہتوں میں ، ایک شمال کی طرف اور دوسرا جنوب کی طرف۔

اسی طرح حموی اور نصر نے اپنی خبر کا مآخذ مشخص نہیں کیا ہے صرف حموی نے '' حوب '' کے سلسلے میں تشریح کرتے وقت اپنی روایت کے آغاز میں سیف بن عمر کا ذکر کیا ہے ۔

٣۔ ابن حجر نے سیف کی روایت پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی کتاب '' اصابہ '' میں سلمی کے حالات کی تشریح کیلئے خصوصی جگہ معین کرکے '' زنان رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' کے عنوان سے اس پر بھی روشنی ڈالی ہے لیکن روایت کے مآخذ کا ذکر نہیں کیا ہے اور اس کے بارے میں صرف اتنا کہا ہے کہ :

سلمی ، عیینہ بن حصن بن حذیفہ کی چچیری بہن تھی ۔

ابن حجر کے اس تعارف کا سرچشمہ یہ ہے کہ سیف نے اپنی مخلوق سلمی کو عیینہ کے چچا مالک بن حذیفہ کی بیٹی کی حیثیت سے خلق کیا ہے ۔

٤۔ ابن اثیر نے ام زمل کی روایت کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٥۔ ابن کثیر نے بھی روایت کو براہ راست طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیاہے

٦۔ ابن خلدون نے بھی طبری کی روایت نقل کرے '' ام زمل'' کی داستان کو اپنی کتاب میں درج کیاہے ۔

٧۔ میر خواند نے بھی سلمی کی داستاں کو طبری سے لیا ہے ۔

٨۔ حمیری نے بھی لفظ '' ظفر ''میں حموی کی '' معجم البلدان ' سے نقل کرکے ام زمل کی داستاں کو خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

۲۵۹

حدیث و داستان حوب کی حدیث اور داستان کے چند حقائق

سیف نے مالک کی بیتی '' ام زمل سلمیٰ '' معروف بہ '' ام قرفہ صغری'' کی روایت اس لئے گڑ ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث میں تحریف کرے جو آنحضرت نے حوب کے علاقہ کے کتوں کے ام المؤمنین عائشہ کے اونٹ پر بھونکنے کے بارے میں فرمائی ہے سیف نے اس طرح تاریخی حقائق اور اس خاتون کے زمانہ میں اسلامی سرداروں اور شخصیتوں کی روش پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

ہم یہاں پر حقائق کو واضح اور وشن کرنے کیلئے حوب کے کتوں کے بھونکنے کی روایت کو اسی طرح بیان کرتے ہیں جیسا کہ واقعہ پیش آیا ہے اور سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں درج ہوا ہے ۔ توجہ فرمائیے :

ایک دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام بیویاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا:

تم میں سے کون ہے جو پر پشم اونٹ پر سوار ہوگی اور حوب کے کتے اس پر بھوکیں گے، اسکی راہ میں بہت سے انسان دائیں بائیں خاک و خون میں لت پت ہوجائیں گے اس کے اس دلخواہ حادثہ کے رونماہونے کے بعد اس قتل گاہ سے خود زندہ بچ نکلے گی ؟

عائشہ ہنس پڑیں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے مخاطب ہوکرفرمایا:

اے حمیرا ہوشیار رہنا کہیں وہ عورت تم نہ ہو ! اس کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

تم علی سے جنگ کروگی جب کہ تم ہی پرظالم ہوگی ۔

سیرت اور تاریخ لکھنے والوں نے اس کے بعد لکھا ہے :

جب عائشہ بصرہ کی طرف جاتے ہوئے حوب کے پانی کے نزدیک پہنچی تو اس علاقہ کے کتوں نے اس پر چھلانگ لگاتے ہوئے بھونکنا شروع کیا ۔ عائشہ نے پوچھا :

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333