المیہ جمعرات

المیہ جمعرات17%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104073 / ڈاؤنلوڈ: 4470
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پہلامحور

آیہء مباہلہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ

پہلی بحث یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مباہلہ کے سلسلہ میں اپنے ساتھ لے جانے کے لئے کن افرادکودعوت دینی چاہئے تھی،اس سلسلہ میں ایہء شریفہ میں غوروخوض کے پیش نظردرج ذیل چندمسائل ضروری دکھائی دیتے ہیں:

الف:”ابنائنا“اور”نسائنا“سے مرادکون لوگ ہیں؟

ب:”انفسنا“کامقصودکون ہے؟

۔۔۔( تعالوا ندع اٴبنائناو اٴبنا ئکم ) ۔۔۔

ابناء ابن کاجمع ہے یعنی بیٹے،اورچونکہ”ابناء کی“ضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“ کی طرف نسبت دی گئی ہے(۱) اوراس سے مرادخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں،اس لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکم ازکم تین افراد،جوان کے بیٹے شمارہوں،کومباہلہ کے لئے اپنے ہمراہ لاناچاہئے۔

۔۔۔( ونسائنا ونسائکم ) ۔۔۔

”نساء“اسم جمع ہے عورتوں کے معنی میں اورضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“کی طرف اضافت دی گئی ہے۔اس کاتقاضایہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھرانے میں موجود تمام عورتوں(چنانچہ جمع مضاف کی دلالت عموم پرہوتی ہے) یاکم ازکم تین عورتوں کو)جوکم سے

____________________

۱۔اس آیہء شریفہ میں استعمال کئے گئے متکلم مع الغیر والی ضمیریں،معنی کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں۔”ندع“میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورطرف مباہلہ وآنحضرت علیہ السلام یعنی نصاریٰ مقصودہے،اور”ابناء“،”نساء“و”انفس“اس سے خارج ہیں۔اور”ابنائنا،”نسائنا“اور”انفسنا“میں خودپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقصودہیں اورطرف مباہلہ اورابناء،نسائ اور انفس بھی اس سے خارج ہیں۔”نبتھل“ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور طرف مباہلہ اور ابناء،نساء اورانفس سب داخل ہیں۔

۴۱

کم جمع کی مقدار اور خاصیت ہے)مباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے۔

اس بحث میں قابل ذکرہے،وہ”ابنائناونسائناوانفسنا“کی دلالت کااقتضاہے اوربعدوالے جوابات محورمیں جومباہلہ کے ھدف اورمقصدپربحث ہوگی وہ بھی اس بحث کاتکملہ ہے۔

لیکن”ابناء“اور”نساء“کے مصادیق کے عنوان سے کتنے اورکون لوگ مباہلہ میں حاضرہوئے،ایک علیحدہ گفتگوہے جس پرتیسرے محورمیں بحث ہوگی۔

( وانفسنا وانفسکم ) ۔۔۔

انفس،نفس کی جمع ہے اورچونکہ یہلفظ ضمیرمتکلم مع الغیر”نا“(جس سے مقصودخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات ہے)کی طرف مضاف ہے،اس لئے اس پر دلالت کرتاہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو)جمع کے اقتضاکے مطابق)کم ازکم تین ایسے افراد کومباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے جوآپ کے نفس کے زمرے میں آتے ہوں۔ کیا”انفسنا“خودپیغمبراکرم) ص)پرقابل انطباق ہے؟

اگر چہ”انفسنا“ میں لفظ نفس کا اطلاق اپنے حقیقی معنی میں صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نفس مبارک پرہے،لیکن آیہء شریفہ میں موجود قرائن کے پیش نظر”انفسنا“میں لفظ نفس کوخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پراطلاق نہیں کیاجاسکتا ہے اور وہ قرائن حسب ذیل ہیں:

۴۲

۱ ۔”انفسنا“جمع ہے اورہرفرد کے لئے نفس ایک سے زیادہ نہیں ہوتاہے۔

۲ ۔جملہء( فقل تعالواندع ) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواس کے حقیقی معنی میں دعوت دینے کاذمہ دارقراردیتا ہے اورحقیقی دعوت کبھی خودانسان سے متعلق نہیں ہوتی ہے،یعنی انسان خودکودعوت دے،یہ معقول نہیں ہے۔

اس بنائ پر،بعض لوگوں نے تصورکیاہے کہ”فطوّعت لہ نفسہ“یا”دعوت نفسی“جیسے استعمال میں ”دعوت“)دعوت دینا )جیسے افعال نفس سے تعلق پیداکرتے ہیں۔یہ اس نکتہ کے بارے میں غفلت کانتیجہ ہے کہ یہاں پریا تو یہ”نفس“خودانسان اوراس کی ذات کے معنی میں استعمال نہیں ہواہے،یا”دعوت سے مراد “(دعوت دینا)حقیقی نہیں ہے۔بلکہ”فطوّعت لہ نفسہ قتل اخیہ“کی مثال میں نفس کامقصودانسان کی نفسانی خواہشات ہے اوراس جملہ کا معنی یوں ہے ”اس کی نفسانی خواہشات نے اس کے لئے اپنے بھائی کوقتل کرناآسان کردیا“اور”دعوت نفسی“کی مثال میں مقصوداپنے آپ کوکام انجام دینے کے لئے مجبوراورآمادہ کرناہے اوریہاں پردعوت دینا اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہے کہ جونفس سے متعلق ہو۔

۳ ۔”ندع“اس جہت سے کہ خودپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرمشتمل ہے اس لئے نفس پردلالت کرتاہے اوریہ ضروری نہیں ہے،کہ دوسروں کودعوت دینے والا خودمباہلہ کا محورہو،اوروہ خودکوبھی دعوت دے دے۔

۴۳

دوسرامحور:

مباہلہ میں اہل بیت رسول (ص)کے حاضر ہونے کامقصد

پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکیوں حکم ہوا کہ مباہلہ کر نے کے واسطے اپنے خاندان کوبھی اپنے ساتھ لائیں،جبکہ یہ معلوم تھاکہ مباہلہ دوفریقوں کے درمیان دعویٰ ہے اوراس داستان میں ایک طرف خودپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسری طرف نجران کے عیسائیوں کے نمائندے تھے؟

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ترین رشتہ داروں کے میدان مباہلہ میں حاضر ہونے کامقصدصرف آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سچی ہونے اوران کی دعوت صحیح ہونے کے سلسلہ میں لوگوں کواطمینان ویقین دکھلانا تھا،کیونکہ انسان کے لئے اپنے عزیز ترین اشخاص کو اپنے ساتھ لاناصرف اسی صورت میں معقول ہے کہ انسان اپنی بات اوردعویٰ کے صحیح ہونے پرمکمل یقین رکھتاہو۔اوراس طرح کااطمینان نہ رکھنے کی صورت میں گویا اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیزوں کوخطرے میں ڈالناہے اورکوئی بھی عقلمند انسان ایسااقدام نہیں کرسکتا۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام رشتہ داروں میں سے صرف چنداشخاص کے میدان مباہلہ میں حاضرہونے کے حوالے سے یہ توجیہ صحیح نہیں ہوسکتی ہے،کیونکہ اس صورت میں اس خاندان کامیدان مباہلہ میں حاضرہونااور اس میں شرکت کرناان کے لئے کسی قسم کی فضیلت اورقدرمنزلت کاباعث نہیں ہوسکتاہے،جبکہ آیہء شریفہ اوراس کے ضمن میں بیان ہونے والی احادیث میں غوروخوض کرنے سے معلوم یہ ہوتاہے کہ اس ماجرامیں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ جانے والوں کے لئے ایک بڑی فضیلت ہے۔

۴۴

اہل سنت کے ایک بڑے عالم علامہ زمخشری کہتے ہیں:

وفیه دلیل لاشیئ اقویٰ منه علی فضله اصحاب الکساء(۱)

”آیہء کریمہ میں اصحاب کساء)علیہم السلام)کی فضیلت پرقوی ترین دلیل موجود ہے“

آلوسی کاروح المعانی میں کہناہے:

و دلالتها علی فضل آل اللّٰه و رسوله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ممّا لایمتری فیهامؤمن والنصب جازم الایمان(۲)

”آیہ کریمہ میں ال پیغمبر (ص)کہ جو آل اللہ ہیں ان کی فضیلت ہے اوررسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فضیلت،ایسے امور میں سے ہے کہ جن پرکوئی مؤمن شک و شبہ نہیں کر سکتا ہے اور خاندان پیغمبر (ص)سے دشمنی اور عداوت ایمان کونابودکردیتی ہے“

اگرچہ آلوسی نے اس طرح کی بات کہی ہے لیکن اس کے بعد میں آنے والی سطروں میں اس نے ایک عظیم فضیلت کو خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے موڑ نے کی کوشش کی ہے۔(۳)

اب ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند متعال نے کیوں حکم دیاکہ اہل بیت علہیم السلام پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مباہلہ کر نے کے لئے حاضر ہوں؟اس سوال کے جواب کے لئے ہم پھرسے آیہء شریفہ کی طرف پلٹتے ہیں ۔۔۔( فقل تعالوا ندع اٴبناء ناو اٴبناء کم و نساء نا و نسائکم واٴنفسنا واٴنفسکم ثمّ نبتهل فنجعل لعنة اللّٰه علی الکاذبین )

آیہء شریفہ میں پہلے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے’ابناء“،”نسا ء“ اور”انفس“کودعوت دینااورپھردعاکرنااورجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردینابیان ہواہے۔

____________________

۱۔تفسیرالکشاف،ج۱،ص۳۷۰،دارالکتاب العربی ،بیروت۔

۲۔روح المعانی،ج۳،ص۱۸۹،دارئ احیائ التراث العربی ،بیروت۔

۳۔اس کے نظریہ پراعتراضات کے حصہ میں تنقید کریں گے۔

۴۵

آیہء مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کی فضیلت وعظمت کی بلندی

مفسرین نے کلمہ”ابتھال“کودعامیں تضرع یانفرین اورلعنت بھیجنے کے معنی میں لیاہے اوریہ دونوں معنی ایک دوسرے سے منا فات نہیں رکھتے ہیں اور”ابتھال“کے یہ دونوں معافی ہوسکتے ہیں۔

آیہء شریفہ میں دوچیزیں بیان کی گئی ہیں،ایک ابتھال جو”نبتھل“کی لفظ سے استفادہ ہو تاہے اوردوسرے ”ان لوگوں پرخدا کی لعنت قراردیناجواس سلسلہ میں جھوٹے ہیں“( فنجعل لعنةالله علی الکاذبین ) کاجملہ اس پردلالت کرتاہے اوران دونوں کلموں میں سے ہرایک کے لئے خارج میں ایک خاص مفہوم اورمصداق ہے دوسرا فقرہ جوجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردیناہے پہلے فقرے ابتہال پر”فاء“کے ذریعہ کہ جو تفریع اور سببیت کے معنی میں ہے عطف ہے۔

لہذا،اس بیان کے پیش نظرپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کا تضرع)رجوع الی اللہ)ہے اورجھوٹوں پرخداکی لعنت اورعقوبت کامرتب ہونا اس کامعلول ہے،اوریہ ایک بلند مقام ہے کہ خداکی طرف سے کافروں کوہلاک کرنااورانھیں سزادیناپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ انجام پائے۔یہ مطلب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت)علیہم السلام)کی ولایت تکوینی کی طرف اشارہ ہے،جوخداوندمتعال کی ولایت کے برابر ہے۔

اگرکہاجائے کہ:( فنجعل لعنةالله ) میں ”فاء“اگرچہ ترتیب کے لئے ہے لیکن ایسے مواقع پر”فاء“کے بعدوالاجملہ اس کے پہلے والے جملہ کے لئے مفسرقرار پاتاہے اور وہ تر تیب کہ جس پر کلمہ ”فاء“ دلالت کرتا ہے وہ تر تیب ذکری ہے جیسے:

( ونادیٰ نوح ربّه فقال ربّ إنّ ابنی من اٴهلی ) )ہود/۴۵)

”اورنوح نے اپنے پروردگارکو آواز دی کہ پروردگارامیرافرزندمیری اہل سے ہے۔“

۴۶

یہاں پرجملہء”فقال۔۔۔“جملہ ”فنادیٰ“ کوبیان )تفسیر)کرنے والاہے۔جواب یہ ہے:

اولاً:جس پرکلمہ”فاء“دلالت کرتاہے وہ ترتیب وتفریع ہے اوران دونوں کی حقیقت یہ ہے کہ”جن دوجملوں کے درمیان”فاء“نے رابطہ پیداکیاہے،ان دونوں جملوں کا مضمون ہے کہ دوسرے جملہ کامضمون پہلے جملہ پرمترتب ہے“

اوریہ”فاء“کاحقیقی معنی اورتفریع کالازمہ ہے۔یعنی ترتیب ذکری پر”فاء“کی دلالت اس کے خارج میں دومضمون کی ترتیب کے معنی میں نہیں ہے،بلکہ لفظ اور کلام میں ترتیب ہے لہذا اگراس پرکوئی قرینہ مو جودنہ ہوتوکلام کواس پرحمل نہیں کر سکتے۔اس صورت میں ایہء شریفہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کے لئے ایک عظیم مر تبہ پردلالت رہی ہے کیونکہ ان کی دعاپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا کے برابرہے اورمجموعی طور پریہ دعااس واقعہ میں جھوٹ بولنے والوں پر ہلاکت اورعذاب ا لہٰی نازل ہو نے کا باعث ہے۔

دو سرے یہ کہ:جملہء”فنجعل لعنة اللّٰہ“میں مابعد”فاء“جملہء سابق یعنی ”نبتھل“کے لئے بیّن اورمفسّرہونے کی صلاحیت نہیںرکھتاہے،کیونکہ دعاکرنے والے کا مقصدخداسے طلب کر ناہے نہ جھوٹوں پرلعنت کر نا۔اس صفت کے پیش نظراس کو لعنت قرار دینا )جو ایک تکوینی امر ہے) پہلے پیغمبراسلام (ص)اورآپکے اہل بیت علیہم السلام سے مستندہے اوردوسرے”فاء“تفریع کے ذریعہ ان کی دعاپر متو قف ہے۔گویااس حقیقت کا ادراک خودنجران کے عیسائیوں نے بھی کیاہے۔اس سلسلہ میں ہم فخررازی کی تفسیر میں ذکرکئے گئے حدیث کے ایک جملہ پرتوجہ کرتے ہیں:

۴۷

”۔۔۔فقال اٴسقف نجران: یامعشرالنصاریٰ! إنّی لاٴری وجوهاً لوساٴلو الله اٴن یزیل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها فلا تباهلوا فتهلکوا ولایبقی علی وجه الاٴرض نصرانّی إلیٰ یوم القیامة ۔“(۱)

”نجران کے) عسائی)پادریان نورانی چہروں کودیکھ کرانتہائی متائثرہوئے اور بو لے اے نصرانیو!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگروہ خدا سے پہاڑ کے اپنی جگہ سے ٹلنے کا٘ مطالبہ کریں تووہ ضرور اپنی جگہ سے کھسک جا ئیں گے۔اس لئے تم ان سے مباہلہ نہ کرنا،ورنہ ھلاک ہوجاؤگے اورزمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔“

غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آیہء شریفہ کے مضمون میں درج ذیل امورواضح طور پربیان ہوئے ہیں:

۱ ۔پیغمبراکرم (ص)،اپنے اہل بیت علیہم السلام کواپنے ساتھ لے آئے تاکہ وہ آپ کے ساتھ اس فیصلہ کن دعامیں شر یک ہوں اورمباہلہ آنحضرت (ص)اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے مشترک طور پر انجام پائے تاکہ جھوٹوں پرلعنت اورعذاب نازل ہونے میں مؤثرواقع ہو۔

۲ ۔آنحضرت (ص)اورآپکے اہل بیت (ع)کاایمان و یقین نیز آپ کی رسالت اور دعوت کا مقصد تمام لوگوں کے لئے واضح ہوگیا۔

۳ ۔اس واقعہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کا بلند مرتبہ نیز اہل بیت کی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قربت دنیاوالوں پرواضح ہوگئی۔

اب ہم یہ دکھیں گے کہ پیغمبراسلام)ص)”ابنائنا“)اپنے بیٹوں)”نسائنا“)اپنی عورتوں)اور”انفسنا“)اپنے نفسوں)میں سے کن کواپنے ساتھ لاتے ہیں؟

____________________

۱۔التفسیر الکبیر،فخر رازی،ج۸،ص۸۰،داراحیائ التراث العربی۔

۴۸

تیسرامحور

مباہلہ میں پیغمبر (ص)اپنے ساتھ کس کو لے گئے

شیعہ اور اہل سنّت کااس پراتفاق ہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مباہلہ کے لئے علی، فاطمہ، حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کسی اورکواپنے ساتھ نہیں لائے۔اس سلسلہ میں چندمسائل قابل غورہیں:

الف:وہ احادیث جن میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کامیدان مباہلہ میں حاضرہونابیان کیاگیاہے۔

ب:ان احادیث کا معتبراورصحیح ہونا۔

ج۔اہل سنّت کی بعض کتابوں میں ذکرہوئی قابل توجہ روایتیں۔

مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کے حاضر ہونے کے بارے میں حدیثیں ۱ ۔اہل سنّت کی حد یثیں:

چونکہ اس کتاب میں زیادہ تر روئے سخن اہل سنّت کی طرف ہے لہذااکثرانھیں کے منابع سے احادیث نقل کی جائیں گی۔نمو نہ کے طورپراس حوالے سے چنداحادیث نقل کی جا رہی ہیں:

پہلی حدیث:

صحیح مسلم(۱) سنن ترمذی(۲) اورمسنداحمد(۳) میں یہ حدیث نقل ہوئی ہےجس کی متفق اور مسلم لفظیں یہ ہیں:

____________________

۱۔صحیح مسلم،ج۵،ص۲۳کتاب فضائل الصحابة،باب من فضائل علی بن ابیطالب،ح۳۲،موسسئہ عزالدین للطباعةوالنشر

۲۔سنن ترمذی،ج۵،ص۵۶۵ دارالفکر ۳۔مسنداحمد،ج،۱،ص۱۸۵،دارصادر،بیروت

۴۹

”حدثنا قتیبة بن سعید و محمد بن عباد قالا: حدثنا حاتم) و هو ابن اسماعیل) عن بکیر بن مسمار، عن عامر بن سعد بن اٴبی وقاص، عن اٴبیه، قال: اٴمر معاویه بن اٴبی سفیان سعدا ًفقال: ما منعک اٴن تسب اٴبا التراب؟ فقال: اٴماّ ما ذکرتُ ثلاثاً قالهنّ له رسواللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فلن اٴسبّه لاٴن تکون لی واحدة منهنّ اٴحبّ إلیّ من حمرالنعم

سمعت رسول للّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول له لماّ خلّفه فی بعض مغازیه فقال له علیّ: یا رسول اللّٰه، خلّفتنی مع النساء والصبیان؟ فقال له رسول اللّٰه( ص) :اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی إلاّ انه لانبوة بعدی؟

و سمعته یقول یوم خیبر: لاٴُعطیّن الرایة رجلاً یحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله قال: فتطاولنا لها فقال: اُدعو الی علیاً فاٴُتی به اٴرمد، فبصق فی عینه ودفع الرایة إلیه،ففتح اللّٰه علیه

ولماّنزلت هذه الایة( فقل تعا لواندع ابنائناوابنائکم ) دعا رسول اللّٰه-صلی اللّٰه علیه وسلم –علیاًوفاطمةوحسناًوحسیناً فقال:اللّهمّ هؤلائ اٴهلی“

”قتیبةبن سعید اور محمد بن عبادنے ہمارے لئے حدیث نقل کی،-- عامربن سعدبن ابی وقاص سے اس نے اپنے باپ)سعد بن ابی وقاص)سے کہ معاویہ نے سعدکوحکم دیااورکہا:تمھیں ابوتراب)علی بن ابیطالب علیہ السلام)کودشنام دینے اور برا بھلا کہنے سے کو نسی چیز مانع ہوئی)سعدنے)کہا:مجھے تین چیزیں)تین فضیلتیں)یادہیں کہ جسے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے،لہذامیں انھیں کبھی بھی برابھلا نہیں کہوں گا۔اگرمجھ میں ان تین فضیلتوں میں سے صرف ایک پائی جاتی تووہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے محبوب ترہوتی:

۵۰

۱ ۔میں نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے ایک جنگ کے دوران انھیں)حضرت علی علیہ السلام)مدینہ میں اپنی جگہ پررکھاتھااورعلی(علیہ السلام)نے کہا:یارسول اللہ!کیاآپمجھے عورتوں اوربچوں کے ساتھ مدینہ میں چھوڑرہے ہیں؟ )آنحضرت (ص)نے) فرمایا:کیاتم اس پرراضی نہیں ہوکہ میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہوجو ہارون کی)حضرت)موسی)علیہ السلام )کے ساتھ تھی،صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبرنہیں ہو گا؟

۲ ۔میں نے)رسول خدا (ص))سے سنا ہے کہ آپ نے روز خیبر علی کے با رے میں فرمایا:بیشک میں پرچم اس شخص کے ہاتھ میں دوں گاجوخدا ورسول (ص)کو دوست رکھتاہے اورخداورسول (ص)اس کو دوست رکھتے ہیں۔)سعدنے کہا):ہم)اس بلندمرتبہ کے لئے)سراٹھاکر دیکھ رہے تھے)کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس امر کے لئے ہمیں مقررفرماتے ہیںیانہیں؟)اس وقت آنحضرت (ص)نے فرمایا: علی (علیہ السلام) کو میرے پاس بلاؤ ۔ علی (علیہ السلام) کو ایسی حالات میں آپکے پاس لایا گیا، جبکہ ان کی آنکھوں میں دردتھا،آنحضرت (ص)نے اپنا آب دہن ان کی آنکھوں میں لگا یااورپرچم ان کے ہاتھ میں تھمادیااورخدائے متعال نے ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کوفتح عطاکی۔

۳ ۔جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی( : قل تعالو اندع اٴبناء نا و اٴبنائکم و نسائنا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم ) ۔۔۔ توپیغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین) علیہم السلام )کوبلاکرفرمایا:خدایا!یہ میرے اہل بیت ہیں۔“

اس حدیث سے قابل استفادہ نکات:

۱ ۔حدیث میں جوآخری جملہ آیاہے:”الّٰلہمّ ھٰؤلاء ا ھلی“خدایا!یہ میرے اہل ہیں،اس بات پردلالت کرتاہے”ابناء“”نساء“اور”انفس“جوآیہء شریفہ میں ائے ہیں،وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل ہیں۔

۵۱

۲ ۔”ابناء“”نساء“و”انفس“میں سے ہرایک جمع مضاف ہیں)جیساکہ پہلے بیان کیاگیا)اس کا اقتضایہ ہے کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواپنے خاندان کے تمام بیٹوں،عورتوں اور وہ ذات جو آپ کا نفس کہلاتی تھی،سب کومیدان مباہلہ میں لائیں،جبکہ آپ نے”ابناء“میں سے صرف حسن وحسیںعلیہما السلام کواور”نساء“سے صرف حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکواور”انفس“سے صرف حضرت علی علیہ السلام کواپنے ساتھ لایا۔اس مطلب کے پیش نظرجوآپ نے یہ فرمایا:”خدایا،یہ میرے اہل ہیں“اس سے معلوم ہوتاہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل صرف یہی حضرات ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اس معنی میں اپکے اہل کے دائرے سے خارج ہیں۔

۳ ۔”اہل“اور”اہل بیت“کے ایک خاص اصطلاحی معنی ہیں جوپنجتن پاک کہ جن کوآل عبااوراصحاب کساء کہاجاتاہے،ان کے علاوہ دوسروں پر اس معنی کااطلاق نہیں ہو تاہے۔یہ مطلب،پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی احا دیث سے کہ جو آیہء تطہیر کے ذیل میں ذکر ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ دوسری مناسبتوں سے بیان کی ہیں گئی بخوبی استفادہ کیا جاسکتاہے۔

دوسری حدیث:

فخررازی نے تفسیرکبیرمیں ایہء مباہلہ کے ذیل میں لکھاہے:

”روی اٴنّه - علیه السلام - لماّ اٴورد الدلائل علی نصاری نجران،ثمّ إنّهم اٴصروا علی جهلهم، فقال - علیه السلام - إنّ اللّٰه اٴمرنی إن لم تقبلوا الحجّة اٴن اٴباهلکم فقالوا: یا اٴبا القاسم، بل نرجع فننظر فی اٴمرنا ثمّ ناٴتیک

فلمّا رجعوا قالوا للعاقب - وکان ذاراٴیهم - :یا عبدالمسیح، ماتری؟ فقال: و اللّٰه لقد عرفتم یا معشر النصاری اٴنّ محمداً نبیّ مرسل و لقد جاء کم بالکلام الحق فی اٴمر صاحبکم و اللّٰه ما باهل قوم نبیاً قط فعاش کبیرهم و لا نبت صغیرهم! و لئن فعلتم لکان الا ستئصال ، فإن اٴبیتم إلاّ الإصرار علی دینکم و الإقامة علی ما اٴنتم علیه فوادعوا الرجل و انصرفوا إلی بلادکم

۵۲

و کان رسول اللّٰه( ص) خرج وعلیه مرط من شعراٴسود، وکان قد احتضن الحسین واٴخذ بید الحسن، و فاطمه تمشی خلفه وعلی - علیه السلام - خلفها، و هو یقول:إذا دعوت فاٴمّنوا فقال اٴسقف نجران: یا معشر النصاری! إنّی لاٴری وجوها ًلو ساٴلوا اللّٰه اٴن یزیل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها! فلا تباهلوا فتهلکوا، و لا یبقی علی وجه الاٴض نصرانیّ إلی یوم القیامة ثمّ قالوا: یا اٴبا القاسم! راٴینا اٴن لا نباهلک و اٴن نقرّک علی دینک فقال:- صلوات اللّٰه علیه - فإذا اٴبیتم المباهلة فاسلموا یکن لکم ما للمسلمین، و علیکم ما علی المسلمین، فاٴبوا، فقال: فإنیّ اٴُناجزکم القتال، فقالوا مالنا بحرب العرب طاقة، ولکن نصالک علی اٴن لا تغزونا و لاتردّنا عن دیننا علی اٴن نؤدّی إلیک فی کل عام اٴلفی حلّة:اٴلفاٴ فی صفر و اٴلفافی رجب، و ثلاثین درعاً عادیة من حدید، فصالحهم علی ذلکوقال: والّذی نفسی بیده إنّ الهلاک قد تدلّی علی اٴهل نجران، ولولاعنوالمسخوا قردة و خنازیر و لاضطرم علیهم الوادی ناراً ولاستاٴ صل اللّٰه نجران واٴهله حتی الطیر علی رؤس الشجر و لما حالا لحوال علی النصاری کلّهم حتی یهلکوا و روی اٴنّه - علیه السلام -لمّ خرج فی المرط الاٴسود فجاء الحسن -علیه السلام - فاٴدخله، ثمّ جائ الحسین -علیه السلام - فاٴدخله ،ثمّ فاطمة - علیها السلام - ثمّ علی - علیه السلام - ثمّ قال:( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) واعلم اٴنّ هذه الروایة کالمتّفق علی صحّتها بین اٴهل التّفسیر والحدیث“(۱)

”جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں پردلائل واضح کردئے اور انہوں نے اپنی نادانی اورجہل پراصرارکیا،تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:خدائے متعال نے مجھے حکم دیاہے اگرتم لوگوں نے دلائل کوقبول نہیں کیا تو تمہارے ساتھ مباہلہ کروں گا۔“)انہوں نے)کہا:اے اباالقاسم!ہم واپس جاتے ہیں تاکہ اپنے کام کے بارے میں غوروفکرکرلیں،پھرآپکے پاس آئیں گے۔

____________________

۱۔تفسیرکبیرفخر رازی،ج۸،ص،۸،داراحیائ التراث العربی۔

۵۳

جب وہ)اپنی قوم کے پاس)واپس چلے گئے،انھوں نے اپنی قوم کے ایک صاحب نظر کہ جس کا نام”عاقب“تھا اس سے کہا:اے عبدالمسیح!اس سلسلہ میں آپ کانظریہ کیا ہے؟اس نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!تم لوگ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوپہنچانتے ہواورجانتے ہووہ ا للہ کے رسول ہیں۔اورآپ کے صاحب)یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام)کے بارے میں حق بات کہتے ہیں۔خداکی قسم کسی بھی قوم نے اپنے پیغمبرسے مباہلہ نہیں کیا،مگر یہ کہ اس قوم کے چھوٹے بڑے سب ہلاک ہو گئے ۔چنانچہ اگرتم نے ان سے مباہلہ کیاتو سب کے سب ہلاک ہوجاؤگے۔ اس لئے اگراپنے دین پرباقی رہنے کے لئے تمھیں اصرار ہے توانہیں چھوڑکراپنے شہر واپس چلے جاؤ۔پیغمبراسلام (ص))مباہلہ کے لئے)اس حالت میں باہرتشریف لائے کہ حسین(علیہ السلام)آپکی آغوش میں تھے،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے تھے،فاطمہ (سلام اللہ علیہا)آپکے پیچھے اورعلی(علیہ السلام)فاطمہ کے پیچھے چل رہے تھے۔آنحضرت (ص)فرماتے تھے:”جب میں دعامانگوں تو تم لوگ آمین کہنا“نجران کے پادری نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگرخداسے دعا کریں کہ پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے تو وہ اپنی جگہ چھوڑ دے گا ۔لہذاان کے ساتھ مباہلہ نہ کرنا،ورنہ تم لوگ ہلاک ہوجاؤگے اور روی زمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔اس کے بعد انہوں نے کہا: اے اباالقاسم! ہمارا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے مباہلہ نہیں کریں گے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اب جبکہ مباہلہ نہیں کررہے ہوتومسلمان ہوجاؤتاکہ مسلمانوں کے نفع ونقصان میں شریک رہو۔انہوں نے اس تجویزکوبھی قبول نہیں کیا۔

۵۴

آنحضرت (ص)نے فرمایا:اس صورت میں تمھارے ساتھ ہماری جنگ قطعی ہے۔انہوں نے کہا:عربوں کے ساتھ جنگ کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔لیکن ہم آپ کے ساتھ صلح کریں گے تاکہ آپ ہمارے ساتھ جنگ نہ کریں اورہمیں اپنادین چھوڑنے پرمجبورنہ کریں گے،اس کے بدلہ میں ہم ہرسال آپ کودوہزارلباس دیں گے،ایک ہزار لباس صفرکے مہینہ میں اورایک ہزارلباس رجب کے مہینہ میں اورتیس ہزارآ ہنی زرہ اداکریں گے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس تجویزکوقبول کر لیااس طرح ان کے ساتھ صلح کرلی۔اس کے بعدفرمایا:قسم اس خداکی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،اہل نجران نابودی کے دہانے پرپہو نچ چکے تھے،اگرمباہلہ کرتے توبندروں اورسوروں کی شکل میں مسنح ہوجاتے اورجس صحرامیں سکونت اختیار کر تے اس میں آگ لگ جاتی اورخدا وندمتعال نجران اوراس کے باشندوں کو نیست و نابود کر دیتا،یہاں تک کہ درختوں پرموجودپرندے بھی ہلاک ہوجاتے اورایک سال کے اندراندرتمام عیسائی صفحہء ہستی سے مٹ جاتے۔روایت میں ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)، اپنی پشمی کالی رنگ کی عبا پہن کر باہرتشریف لائے)اپنے بیٹے)حسن(علیہ السلام)کوبھی اس میں داخل کر لیا،اس کے بعدحسین(علیہ السلام) آگئے انہیں بھی عبا کے نیچے داخل کیا اس کے بعدعلی و فاطمہ )علیہما السلام) تشریف لائے اس کے بعد فرمایا:( إنّمایریداللّه ) ۔۔۔ ”پس اللہ کاارادہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر طرح کی کثافت وپلیدی سے دوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔“علامہ فخر رازی نے اس حدیث کی صحت و صدا قت کے بارے میں کہا ہے کہ تمام علماء تفسیر و احادیث کے نزدیک یہ حدیث متفق علیہ ہے۔“

۵۵

حدیث میں قابل استفادہ نکات:

اس حدیث میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں:

۱ ۔اس حدیث میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت کاحضور اس صورت میں بیان ہواہے کہ خودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آگے آگے)حسین علیہ السلام)کوگود میں لئے ہوئے ،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے جوحسین(علیہ السلام)سے قدرے بڑے ہیں اورآپکی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہاآپکے پیچھے اوران کے پیچھے(علیہ السلام) ہیں۔یہ کیفیت انتہائی دلچسپ اور نمایاں تھی۔کیو نکہ یہ شکل ترتیب آیہء مباہلہ میں ذکرہوئی تر تیب و صورت سے ہم آہنگ ہے۔اس ہماہنگی کا درج ذیل ابعادمیں تجزیہ کیاجاسکتاہے:

الف:ان کے آنے کی ترتیب وہی ہے جوآیہء شریفہ میں بیان ہوئی ہے۔یعنی پہلے ”ابناء نا“اس کے بعد”نسائنا“اورپھرآخرپر”ا نفسنا“ہے۔

ب:یہ کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چھوٹے فرزندحسین بن علی علیہماالسلام کوآغوش میں لئے ہوئے اوراپنے دوسرے فرزندخورد سال حسن بن علی علیہماالسلام کاہاتھ پکڑے ہوئے ہیں،یہ آیہء شریفہ میں بیان ہوئے”بناء نا“ کی عینی تعبیرہے۔

ج۔بیچ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کاقرارپانااس گروہ میں ”نساء نا“کے منحصربہ فردمصداق کے لئے آگے اورپیچھے سے محافظ قرار دیا جا نا،آیہء شریفہ میں ”نساء نا“کی مجسم تصویر کشی ہے۔

۲ ۔اس حدیث میں پیغمبراکرم (ص)نے اپنے اہل بیت علیہم السلام سے فرمایا:اذادعوت فاٴ منوا “یعنی:جب میں دعاکروں توتم لوگ آمین(۱) کہنااوریہ وہی

____________________

۱۔دعا کے بعد آمین کہنا،خدا متعال سے دعا قبول ہونے کی درخواست ہے۔

۵۶

چیزہے جوآیہء مباہلہ میں ائی ہے:( نبتهل فنجعل لعنةالله علی الکاذبین )

یہاں پر”ابتھال“)دعا)کوصرف پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت دی گئی ہے،بلکہ”ابتھال“پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دعاکی صورت میں اورآپ کے ہمراہ آئے ہوئے اعزّہ واقر باکی طرف سے آمین کہنے کی صورت میں محقق ہونا چاہئے تاکہ )اس واقعہ میں )جھوٹوں پرہلاکت اورعقوبت الہٰی واقع ہونے کاسبب قرارپائے،جیساکہ گزر چکا ہے۔

۳ ۔گروہ نصارٰی کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کی عظمت وفضیلت کا اعتراف یہاں تک کہ ان کے نورانی و مقدس چہروں کو دیکھنے کے بعد مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا۔

تیسری حدیث:

ایک اورحدیث جس میں ”ابنائنا“،”نسائنا“اور”انفسنا“کی لفظیں صرف علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام پر صادق آتی ہیں،وہ حدیث”مناشد یوم الشوری“ہے۔اس حدیث میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام،اصحاب شوریٰ)عثمان بن عفان،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ،زبیراورسعدبن ابی وقاص) سے کہ جس دن یہ شورٰی تشکیل ہوئی اورعثمان کی خلافت پرمنتج و تمام ہوئی،اپنے فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرماتے ہیں۔اس طرح سے کہ ان تمام فضیلتوں کو یاد دلاتے ہوئے انہیں خداکی قسم دیتے ہیں اور ان تمام فضیلتوں کو اپنی ذات سے مختص ہونے کاان سے اعتراف لیتے ہیں۔حدیث یوں ہے:

۵۷

”اٴخبر نا اٴبو عبد اللّٰه محمد بن إبرهم، اٴنا ابوالفضل اٴحمد بن عبدالمنعم بن اٴحمد ابن بندار، اٴنا اٴبوالحسن العتیقی، اٴنا اٴبوالحسن الدارقطنی، اٴنا اٴحمد بن محمد بن سعید، اٴنا یحی بن ذکریا بن شیبان، اٴنا یعقوب بن سعید، حدثنی مثنی اٴبو عبداللّٰه،عن سفیان الشوری، عن اٴبن إسحاق السبیعی، عن عاصم بن ضمرةوهبیرة و عن العلاء بن صالح، عن المنهال بن عمرو، عن عبادبن عبداللّٰه الاٴسدی و عن عمروبن و اثلة قالوا: قال علیّ بن اٴبی طالب یوم الشوری: واللّٰه لاٴحتجنّ علیهم بمالایستطیع قُرَشیّهم و لا عربیّهم و لا عجمیّهم ردّه و لا یقول خلافه ثمّ قال لعثمان بن عفان ولعبدالرحمن بن عوف و الزبیر و لطلحة وسعد - و هن اٴصحاب الشوری و کلّهم من قریش، و قد کان قدم طلحة - اُنشدکم باللّٰه الذی لا إله إلّاهو، اٴفیکم اٴحد وحّد اللّٰه قبلی؟ قالوا:اللّهمَّ لا قال: اٴنشدکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد اٴخو رسول اللّٰه - صلی اللّٰه علیه وسلم - غیری، إذ آخی بین المؤمنین فاٴخی بینی و بین نفسه و جعلنی منه بمنزلة هارون من موسی إلّا اٴنی لست بنبیً؟قالوا:لاقال:اٴنشدکم باللّٰه،اٴفیکم مطهَّرغیری،إذسدّ رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٴبوابکم و فتح بابی و کنت معه فی مساکنه ومسجده؟ فقام إلیه عمّه فقال: یا رسول اللّٰه، غلّقت اٴبوابنا و فتحت باب علیّ؟ قال: نعم، اللّٰه اٴمر بفتح با به وسدّ اٴبوابکم !!! قالوا:اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد اٴحب إلی للّٰه و إلی رسوله منّی إذ دفع الرایة إلیّ یوم خیر فقال : لاٴعطینّ الرایة إلی من یحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله، و یوم الطائر إذ یقول: ” اللّهمّ ائتنی باٴحب خلقک إلیک یاٴکل معی“، فجئت فقال: ” اللّهمّ و إلی رسولک ، اللّهمّ و إلی رسولک“

۵۸

غیری؟(۱) قالوا:اللّهمّ لا قال:نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد قدم بین یدی نجواه صدقة غیری حتی رفع اللّٰه ذلک الحکم؟ قالوا: اللّهمّ لاقال:نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم من قتل مشرکی قریش و العرب فی اللّٰه و فی رسوله غیری؟ قالوا:اللّهمّ لاقال: نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد دعا رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فیالعلم و اٴن یکون اُذنه الو اعیة مثل ما دعالی؟ قالوا: اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، هل فیکم اٴحد اٴقرب إلی رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الرحم و من جعله و رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نفسه و إبناء اٴنبائه وغیری؟ قالوا:اللّٰهم لا“(۲)

اس حدیث کومعاصم بن ضمرةوہبیرةاورعمروبن وائلہ نے حضرت )علی علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے شوریٰ کے دن یوں فرمایا:

”خداکی قسم بیشک میں تمہارے سامنے ایسے استدلال پیش کروں گا کہ اھل عرب و عجم نیز قریش میں سے کوئی شخص بھی اس کومستردنہیں کرسکتااورمذھبی اس کے خلاف کچھ کہہ سکتا ہے۔میں تمھیں اس خداکی قسم دلاتاہوں جس کے سوا کوئی خدانہیں ہے،کیاتم لوگوں میں کوئی ایسا ہے جس نے مجھ سے پہلے خدائے واحدکی پرستش کی ہو۔؟ انہوں نے کہا: خدا شاہد ہے! نہیں۔ آپ(ع)نے فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھائی ہو،جب)آنحضرت (ص)نے)مؤمنین کے درمیان اخوت اوربرادری برقرارکی،اورمجھے اپنا بھائی بنایااور میرے بارے

____________________

۱۔شائدمقصودیہ ہوکہ”خداوندا!تیرے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے نزدیک بھی محبوب ترین مخلوق علی)علیہ السلام ہیں۔“

۲۔تاریخ مدینہ دمشق،ج۴۲،ص۴۳۱،دارالفکر

۵۹

میں یہ ارشاد فر ما یا کہ:” تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی جیسے ہارون کی موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میں نبی نہیں ہوں “۔

انہوں نے کہا:نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دے کر کہتاہوں کہ کیامیرے علاوہ تم لوگوں میں کوئی ایساہے جسے پاک وپاکیزہ قراردیاگیاہو،جب کہ پیغمبرخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمھارے گھروں کے دروازے مسجدکی طرف بندکردئیے تھے اورمیرے گھرکادروازہ کھلارکھا تھااورمیں مسکن ومسجدکے سلسلہ میں انحضرت (ص)کے ساتھ )اور آپ کے حکم میں )تھا،چچا)حضرت)عباس اپنی جگہ اٹھے اورکہا:اے اللہ کے رسول !ہمارے گھروں کے دروازے بند کر دئیے اورعلی) علیہ السلام )کے گھرکاادروازہ کھلارکھا؟

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:یہ خدائے متعال کی طرف سے ہے کہ جس نے ان کے دروازہ کوکھلارکھنے اورآپ لوگوں کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا؟

انہوں نے کہا:خداشاہدہے،نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دلاتاہوں،کیا تمہارے درمیان کوئی ہے جسے خدااوررسول مجھ سے زیادہ دوست رکھتے ہوں،جبکہ پیغمبر (ص)نے خیبرکے دن علم اٹھاکرفرمایا”بیشک میں علم اس کے ہاتھ میں دونگاجوخداورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کودوست رکھتاہے اورخدااوررسول اس کودوست رکھتے ہیں“اورجس دن بھنے ہوئے پرندہ کے بارے میں فرمایا:”خدایا!میرے پاس اس شخص کو بھیج جسے توسب سے زیادہ چاھتا ہے تاکہ وہ میرے ساتھ کھا نا کھائے۔“اوراس دعاکے نتیجہ میں ،میں اگیا۔میرے علاوہ کون ہے جس کے لئے یہ اتفاق پیش آیا ہو؟

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔

یقینا حضرت عثمان کو ایسا کرنے کا کوئی قانونی اور شرعی اختیار حاصل نہ تھا ۔ حضرت ابو ذر کی مثال کو ہی لے لیں ۔ ان کا جرم صرف یہی تھا کہ انہوں نے ان کی مالیاتی پالیسی بالخصوص اقرباء پروری یعنی بنی امیہ نوازی کو ہدف تنقید بنایا تو انہیں اس کی پاداش میں مدینہ سے نکال دیاگیا ۔

حضرت عثمان نے صرف اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنے حکام و عمال کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ جس کو چاہیں جلاوطن کریں اس کی اجازت کے ملنے کے بعد ان کے عمال کبھی اپنے مخالفین کو کوفہ سے شام جلاوطن کرنے لگے اور کبھی شام سے بصرہ اور کبھی بصرہ سے مصر جلاوطن کرتے تھے ۔ گویا جلاوطن کرکے معاویہ کے پاس بھیجتا تھا ۔ اور معاویہ لوگوں کو جلاوطن کرکے سعید کے پاس بھیجتا اور سعید عبدالرحمن بن خالد کی طرف جلاوطن کردیتا تھا ۔ مظلوم لوگوں کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا اور نہ ہی انہیں کسی عدالت میں پیش کیا جاتا تھا اور ان کو کسی قسم کی صفائی کا موقع بھی فراہم نہیں کیا جاتا تھا(۱) ۔

عبداللہ بن مسعود کی داستان مظلومیت

حضرت عبداللہ بن مسعود کی داستان مظلومیت خاصی عبرت انگیز ہے ۔ان کے مصائب کی ابتداء اس وقت ہوئی جب حضرت عثمان کا مادری بھائی ولید بن عقبہ کوفہ کا گورنر بن کے آیا ۔ جناب عبداللہ بن مسعود اس وقت کوفہ کے بیت المال کے خازن تھے ۔

ولید نے ان سے ایک بڑی رقم بطور قرض مانگی انہوں نے دے دی ۔چند دنوں کے بعد ولید نے ایک اور بھاری رقم نکالنے کا حکم دیا ۔ تو انہوں نے انکار

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔ الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ص ۱۹۸-۱۹۹

۱۸۱

کردیا ۔ولید نے حضرت عثمان کی طرف ایک خط لکھا جس میں بیت المال کے خازن کے اس طرز عمل کی شکایت کی ۔

حضرت عثمان نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو خط لکھا کہ تم ہمارے مال کے خازن ہو ۔لہذا تم ولید کو مال لینے سے منع نہ کرو

حضر ت عبداللہ بن مسعود نے یہ خط پڑھ کر چابیاں پھینک دیں اور کہا کہ :- میں اپنے آپ کو مسلمانوں کا خازن تصور کرتا تھا اور اگر مجھے تمہارا خازن بننا ہے تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔

بیت المال کو چھوڑنے کے بعد وہ کوفہ میں مقیم رہے ۔

ولید نے سارا واقعہ خط میں لکھ کر حضرت عثمان کو روانہ کیا ۔حضرت عثمان نے ولید کو لکھا کہ اسے کوفہ سے نکال کر مدینہ بھیج دو ۔حضرت ابن مسعود نے کوفہ چھوڑا اور اہل کوفہ نے ان کی مشایعت کی اور ابن مسعود نے انہیں اللہ کے تقوی اور تمسک بالقرآن کی وصیت کی ۔اہل کوفہ نے ان سے کہا ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔آپ نے ہمارے جاہلوں کو تعلیم دی اور دین کی سمجھ عطا کی ۔

ابن مسعود مدینہ آئے اس وقت حضرت عثمان منبر رسول پر خطبہ دے رہے تھے ۔جب ان کی نظر ابن مسعود پر پڑی تو کہا:- وہ دیکھو برائی کا کیڑا تمہارے پاس آیا ہے ۔

ابن مسعود نے کہا :- میں ایسا نہیں ہوں میں تو پیغمبر اکرم کا صحابی ہوں ۔حضرت عثمان نے اپنے درباریوں کو حکم دیا کہ اسے مسجد سے ذلت کے ساتھ باہر نکال دیں اور عبداللہ بن زمعہ نے انہیں اٹھا کر پوری قوت کے ساتھ زمین پہ پٹکادیا ۔ جس کی وجہ سے ان کی پسلیاں ٹوٹ گئی ۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود مدینہ میں رہے ۔عثمان انہیں مدینہ سے باہر

۱۸۲

جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔

قتل عثمان سے دو برس قبل ان کی وفات ہوئی وفات سے چند روز قبل حضرت عثمان ان کی عیادت کے لئے آئے تو پوچھا ۔

عثمان :- آپ کو کونسی بیماری کی شکایت ہے ؟

ابن مسعود :- اپنے گناہوں کی ۔

عثمان :- کیا میں طبیب کو بلاؤں ؟

ابن مسعود :- طبیب نے تو بیماری دی ہے

عثمان :- آپ کیا چاہتے ہیں ؟

ابن مسعود :- اپنے رب کی رحمت ۔

عثمان :- کیا میں تمہار وظیفہ جاری کردوں ؟

ابن مسعود:- جب مجھے ضرورت تھی تو تم نے روک لیا تھا ۔ اب جبکہ میں موت کے استقبال کے لئے آمادہ ہوں تو میں وظیفہ لے کر کیا کروں گا؟

عثمان:- وظیفہ سے آپ کی اولاد کی گزر بسر اچھی ہوگی ۔

ابن مسعود :- ان کا رازق اللہ ہے ۔

عثمان :- عبدالرحمان کے ابا! میری بخشش کے لئے اللہ سے دعا مانگیں ۔

ابن مسعود :- میری خدا سے درخواست ہے کہ تجھ سے میرا حق وصول کرے ۔

حضرت ابن مسعود وصیت کرکے گئے تھے کہ ان کی نماز جنازہ میں عثمان شامل نہ ہوں(۱) -

حضرت عثمان کے طرز عمل پر لوگوں نے اعتراضات کئے ہیں ۔ کچھ اعتراضات تو ان واقعات کی وجہ سے ہوئے ہیں جو ہر لحاظ سے روح اسلام ،سنت نبوی اور سیرت شیخین کے خلاف تھے ۔

____________________

(۱):- البلاذری ۔انساب الاشراف ۔جلد چہارم ۔ص ۲۷

۱۸۳

صحابہ کرام نے حضرت عثمان کے دوسرے تصرفات پر بھی اعتراض کیا۔ ان میں سے کچھ کا تعلق قرآن وسنت کی مخالفت کی وجہ سے تھا ۔ ان تمام اعتراض کا جامع خلاصہ ڈاکٹر طہ حسین نے یوں بیان کیا ۔

مخالفین کے حضرت عثمان پر الزامات

حضرت عثمان کے مخالفین ان پر الزام عائد کرتے تھے کہ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی اللہ کی بیان کردہ حد شرعی کو معطل کیا ۔

۱:- انہوں نے حضرت عمر کے بیٹے عبیداللہ پر حد جاری نہیں کی تھی ۔جب کہ ان نے اپنے باپ کے قتل کے بدلے ہرمزان ،جفینہ اور ابو لولو کی بیٹی کو قتل کردیا تھا ۔ حالانکہ حق یہ تھا کہ وہ اپنے والد کے قتل کا مقدمہ عدالت میں پیش کرتے اور عدالت اس کے باپ قاتل کو سزادیتی ۔ اس نے عدالت سے رجوع کرنے کی بجائے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور ایک قاتل کے بدلے میں تین بے گناہ افراد کو قتل کردیا تھا۔جب کہ ہرمزان مسلمان تھا اور جفینہ اور ابولولو کی بیٹی اسلامی ریاست کے ذمی تھے ۔اور اسلام مسلمانوں اور ذمیوں کے خون کا تحفظ کرتا ہے ۔صحابہ کی ایک جماعت نے حضرت عثمان سے مطالبہ کیا تھا ۔ کہ حضرت عمر کے بیٹے سے قصاص لینا فرض ہے اور اس اسلامی قانون کو کسی صورت بھی معطل نہیں ہونا چاہیۓ ۔حضرت عثمان نے کوئی قصاص نہ لیا اور کہا کہ "کل اس کا باپ قتل ہوا اور آج اس کے بیٹے کومیں قتل کروں ؟ "چنانچہ انہوں نے حضرت عمر کے بیٹے کو معاف کردیا ۔اس دور کے مسلمانوں نے اس بات پر شدید احتجاج کیا تھا اور کہا تھا کہ قصاص نہ لینا قرآن وسنت کی عملی نفی ہے اور مزید یہ "سیرت شخین" کی بھی کھلم مخالفت ہے ۔

۲:-انہوں نے منی میں نماز پوری پڑھی ۔جب کہ رسول خدا(ص) اور شیخین نے

۱۸۴

وہاں نماز قصر تھی اور خود حضرت عثمان بھی کئی برس تک وہاں نماز قصرپڑھتے تھے ۔

صحابہ کرام کو اس مقام پر پوری نماز دیکھ کر دکھ ہوا تھا ۔ کیونکہ وہ اسے سنت نبوی کی مخالفت سمجھتے تھے اور بالخصوص مہاجرین کی نظر میں یہ ایک انتہائی خطرناک چیزتھی ۔کیونکہ رسول خدا(ص) نے جب مکہ سے ہجرت کی تو انہوں نے مدینہ کو ہی اپنے لیئے "دار اقامت " قرار دیا تھا ۔ اور مکہ کو اپنے لئے اجنبی شہر قرار دیا تھا ۔

اسی لئے رسول خدا(ص) اور ان کے اصحاب جب بھی مکہ آتے تو نماز ہمیشہ قصر پڑھا کرتے تھے ۔تاکہ ہرشخص سمجھ لے کہ وہ مکہ کو اپنا وطن نہیں سمجھتے اور نہ ہی وہاں دوبارہ آباد ہونا چاہتے ہیں ۔ حضور اکرم کو یہ بات پسند نہ تھی کہ ہجرت کے بعد کوئی صحابی مکہ میں فوت ہو ۔

۳:- صحابہ کرام نے حضرت عثمان کے دور کی زکاۃ پر بھی اعتراض کیا تھا۔ کیونکہ حضرت عثمان نے گھوڑوں پر بھی زکواۃ وصول کی ،جب کہ رسول خدا(ص) نے گھوڑوں کو زکواۃ سے مستثنی کیا تھا اور حضرات شیخین کے عہد حکومت میں بھی گھوڑوں کی زکواۃ وصول نہیں کی جاتی تھی ۔

۴:- صحابہ کرام نے چراگاہوں پر حضرت عثمان کے قبضہ کی مخالفت کی تھی ۔ کیونکہ اللہ اور رسول نے پانی ،ہوا اور چراگاہوں کو تمام لوگوں کی ملکیت قراردیا ہے ۔

۵:- حضرت عثمان کے دور میں زکواۃ کو جنگ میں بھی خرچ کیا جاتا تھا ۔ اسی لئے بہت سے صحابہ نے اس کی مخالفت کی تھی اور ان کی دلیل یہ تھی کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مصارف زکواۃ کی تفصیل بیان کردی ہے اور مذکورہ مصارف کے علاوہ زکواۃ کو کسی اور مصرف میں خرچ نہیں کیا جاسکتا ۔

۶:- قرآن مجید کی جمع وتدوین کے وقت بھی صحابہ کرام کی ایک جماعت نے ان پر سخت اعتراضات کئے تھے اور ان کا موقف یہ تھا کہ تدوین قرآن کے لئے جو

۱۸۵

کمیٹی قائم کی گئی ہے وہ چند منظور نظر افراد پر مشتمل ہے ۔جب کہ اس وقت قرآن کے قراء وحفاظ کی معتد بہ ایسی جماعت بھی موجود تھی جو ہر لحاظ سے کمیٹی ممبران سے قرآن مجید کا زیادہ علم رکھتی تھی ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی (ع) جیسی شخصیات کو قرآن کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا تھا ۔ واضح ہو کہ حضرت عبداللہ بن مسعود قرآن مجید کے بہت بڑے قاری تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں نے رسول خدا (ص) سے ستر سورتیں اس وقت سنی تھیں جب زید بن ثابت ابھی بالغ بھی نہیں ہوئے تھے اور حضرت علی (ع) وہ عظیم شخصیت ہیں جن کے متعلق اللہ نے خود فرمایا "ومن عندہ علم الکتاب " اور جس کے پاس کتاب کا علم ہے ۔" اتنی بڑی شخصیات کو چھوڑ کر زید بن ثابت اور ان کے دوستوں تدوین قرآن کیلئے مقرر کرنا درست نہیں تھا ۔

۷:- قرآن مجید کے باقی نسخوں کو نذر آتش کرنا بھی صحیح اقدام نہ تھا ۔

۸:- حضرت عثمان کے مخالفین ان پر اعتراض بھی کیا کرتے تھے کہ انہوں نے اپنے طرید رسول چچا حکم اور اس کے بیٹے مروان کو مدینہ واپس آنے کی اجازت دی ۔ جب کہ رسول خدا (ص) نے اسے مدینہ سے جلاوطن کیا تھا ۔

۹:- دور جاہلیت میں حکم بن ابی العاص کا گھر رسول خدا(ص) کے گھر کے قریب تھا اور وہ آپ کا بدترین ہمسایہ تھا ۔ ہمیشہ حضور اکرم (ص) کو اذیتیں دیا کرتا تھا ۔

فتح مکہ کے بعد اس نے اپنی جان بچانے کے لئے اسلام قبول کیا اور مدینہ آکر بھی وہ اپنی حرکات سے باز نہ آیا ۔ یہاں وہ جناب رسول خدا (ص) کی نقلیں اتارا کرتا تھا۔ ایک دفعہ رسول خدا نے اسے آپنی آنکھوں سے یہ حرکت کرتے ہوئے دیکھ لیا تو فرمایا کہ حکم اور اس کی اولاد میرے ساتھ ایک شہر میں نہیں رہ سکتی ۔بعد ازاں اسے طائف جلاوطن کردیا گیا ۔حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور میں بھی وہ بدستور جلاوطن رہا ۔ حضرت عثمان نے اقتدار پر آتے ہی اپنے چچا اور اس کی

۱۸۶

اولاد کو مدینہ بلالیا صحابہ کرام کہا کرتے تھے کہ جس منحوس صورت کو رسول خدا (ص) اپنی زندگی میں دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے ۔عثمان کو بھی چاہئے تھا کہ وہ مدینے بلاکر حضور کی اذیت کا موجب نہ بنتا ۔

۱۰:- حضرت عثمان نے طرید رسول چچا کو صرف مدینہ لانے پر ہی بس نہ کی بلکہ مسلمانوں کے بیت المال سے اسے لاکھوں دینا بھی عطا کئے تو کیا یہ انعام رسول خدا کو اذیت دینے کے صلہ میں دیا گیا تھا یا کوئی اور وجہ تھی ؟

۱۱:- حکم کے بیٹے مروان بن الحکم کو اپنا مشیر مقرر کیا ۔تو کیا اس دور میں مروان کے علاوہ کوئی صالح مسلمان باقی نہیں رہا تھا؟

۱۲:- حارث بن حکم کو امور مدینہ کا انچارج مقرر کیا گیا ۔ اس نے وہ طرز عمل اختیار کیاجو کسی طور بھی امانت ودیانت کے تقاضوں کے مطابق نہ تھا ۔ اس سے خیانت کی باز پرس کی بجائے خصوصی نوازشات سے نوازا گیا(۱) ۔

اپنوں کی طوطا چشمی

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

حضرت عثمان کی سیاست اس وقت دم توڑنے لگی جب ان کے اپنوں نے بھی ان سے آنکھیں چرانی شروع کی ۔کثرت زر اور شکم سیری نے انہیں یہ روز بد دکھا یا کہ خود ان کے افراد خانہ اور ان کے مقربین اور جنہوں نے ان کو خلیفہ بنانے میں کردار ادا کیا تھا وہ بھی ان کی مخالفت کرنے لگے ۔

محمد بن ابی حذیفہ کی مثال آپ کے سامنے ہے اسے ان سے یہ شکوہ پیدا ہوا کہ حضرت عثمان ان پر اپنے دیگر افراد خاندان کو ترجیح دیتے ہیں ۔ چنانچہ وہ عزوہ روم سے واپس آنے والوں سے گفتگو کرتا اور کہتا کہ : کیا تم جہاد سے واپس

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ص – ۱۷۵ ۔ ۱۷۶

۱۸۷

آرہے ہو؟

وہ کہتے کہ جی ہاں! حجاز کی طرف وہ انگلی کا اشارہ کرکے کہتا تھا ۔ ہمیں اس وقت تو عثمان سے جہاد کرنے کی ضرورت ہے

یہ "حضرت" مزید نفرتیں پھیلانے کے لئے مصر گئے ۔وہاں مخالفین عثمان کو منظم کرنے لگا اور ان سے کہتا تھا :- مصرو الو! اگر جہاد کرنا ہے تو مدینہ چلو اور عثمان سےجہاد کرو ۔

حضرت عثمان نے اس کا منہ بند کرنے کے لئے اس کے پاس تیس ہزار درہم اور شاہی خلعت روانہ کی ۔ اس نے مذکورہ رقم اور خلعت کو مسجد میں لاکے رکھا اور کہا لوگو! رہنا عثمان ان سکوں کے عوض میرے دین اور ضمیر کو خرید نا چاہتا ہے ۔مگر میں بکنے والا شخص نہیں ہوں ۔

اس واقعہ سے مصر میں حضرت عثمان کی مخالفت زیادہ پروان چڑھی ۔

ایک "زود پشیمان " کی پشیمانی

حضرت عثمان کی اقرباء نوازی اور غیر منصفانہ طرز عمل کو دیکھ کر انہیں خلافت دینے والا شخص عبدالرحمن بن عوف بھی ان کا مخالف ہوگیا اور کہتا تھا ۔ اگرمیں بعد والے کو پہلے لاتا تو عثمان کو میری جوتی کا تسمہ بھی خلیفہ نہ بناتا ۔

عبدالرحمن عالم نزع میں کہہ رہے تھے ۔ اسے باز رکھو ، اسے روکنے کی جلدی کرو ۔ایسا رہو کہ اس کی حکومت مزید مستحکم ہوجائے ۔

بلاذری بیان کرتے ہیں :- حضرت ابو ذر کی المناک وفات کے بعد حضرت علی (ع) نے عبدالرحمن بن عوف سے فرمایا :- یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے ۔تم نے ہی اس کو حکومت دی تھی اور اس حکومت کی وجہ سے بے گناہ صحابی پر اتنے

____________________

(۱):- عبدالفتاح عبدالمقصود ۔الامام علی بن ابی طالب ۔جلد دوم ص ۷۲

۱۸۸

مظالم ڈھائے گئے ہیں ۔ اس کے اصل مجرم تم ہو۔

عبدالرحمن نے کہا:- اگر آپ چاہیں تو میں اپنی تلوار اٹھا لیتا ہوں اور آپ اپنی تلوار اٹھالیں ۔دونوں مل کر اس سے جنگ کریں ۔اس نے میرے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کا لحاظ نہیں رکھا ۔

عبدالرحمن یہ وصیت کرکے مرے تھے کہ :- ان کے جنازے میں عثمان شریک نہ ہوں ۔

عمرو بن العاص اور حضرت عثمان

حضرت عثمان نے عمر بن العاص کو مصر کی گورنری سے معزول کردیا ۔

اس لئے عمرو بن العاص بھی ان کا مخالف بن گیا اور اس نے لوگوں کو خلیفہ کے خلاف بھڑکانا شروع کیا اور ایک مرتبہ حضرت عثمان کے سامنے اس نے جراءت کرکے کہا تھا کہ :- تم نے لوگوں پر ظلم کئے اور ہم بھی ان مظالم میں تمہارے شریک تھے لہذا تم بھی توبہ کرو اور ہم بھی تیرے ساتھ توبہ کریں گے ۔

جب عمرو بن العاص نے دیکھا کہ اب حالات حضرت عثمان کے کنٹرول میں نہیں رہے اور ان کا منطقی نتیجہ ظاہر ہونے ہی والا ہے تو وہ فلسطین میں اپنی جاگیر پر چلا گیا اور مدینہ کی خبروں کا انتظار کرنے بیٹھ گیا ۔

فلسطین کی جاگیر میں عمر بن العاص اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ رہائش پزیر تھا کہ اسے حضرت عثمان کے قتل کی خبر ملی تو اس نے اپنے بیٹے عبداللہ کو مخاطب کرکے کہا :- عبداللہ ! میں تیرا باپ ہوں ۔میں نے آج تک جس زخم کو کریدا تو اس سے خون ضرور نکالا ۔

اسے جملے سے وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ میں نے عثمان کے قتل کی راہ ہموار کی

۱۸۹

چنانچہ وہ اب قتل بھی ہوگیا ۔(۱)

عمرو بن عاص خود راوی ہیں کہ :-میں نے عثمان کے خلاف لوگوں کو برانگیختہ کیا یہاں تک کہ میں نے چرواہوں کو بھی عثمان کی مخالفت پرآمادہ کیا(۲) ۔

باغیوں ک جانب سے حضرت عثمان کا جو پہلا محاصرہ ہوا اس موقع پر عمرو بن العاص حضرت عثمان کے پاس گیا اور کہا :- تم نے لوگوں پر بہت ظلم کئے ہیں ۔ خدا سے ڈرو اور توبہ کرو۔

حضرت عثمان نے کہا :- اے نابغہ کے فرزند ! لوگوں کو میرے خلاف جمع کرنے میں تیرا بڑا حصہ ہے کیوں کہ میں نے تجھے حکومت مصر سے معزول کیا ہے ۔

اس کے بعد عمرو بن العاص فلسطین آیا اور لوگوں کو حضرت عثمان کے خلاف بھڑکاتا رہا اور جب اس نے حضرت عثمان کے قتل کی خبر سنی توکہا :- میں عبداللہ کاباپ ہوں ۔میں نے آج تکاجس بھی زخم کو کریدا تو اس سے خون ضرور جاری وہا(۳) ۔

حضرت عثمان اور ام المومنین عائشہ

تمام امہات المومنین میں حضرت عائشہ نے حضرت عثمان کی بہت زیادہ مخالفت کی ۔

جب حضرت عثمان نے جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود کو برابھلا کہا تو اس وقت پردہ کی اوٹ سے ام المومنین نے حضرت عثمان کو خوب کھری باتیں سنائیں ۔

____________________

(۱):-ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنہتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص ۶۷۔۶۸

(۲):-عباس محمودا لعقاد ۔عبقریتہ الامام ۔ص ۸۳

(۳):-البلاذری ۔انساب الاشراف ۔جلد پنجم ۔ص ۷۴

۱۹۰

حضرت عثمان اور ان کے عمّال پر دل کھول کر تنقید کیا کرتی تھیں اور لوگ مخالفین عثمان میں ام المومنین کو سب سے بڑا مخالف تصور کرتے تھے ۔(۱)

ایک دفعہ حضرت عائشہ نے رسول خدا(ص) کی قمیص اٹھا کر مسجد میں دکھائی اور حاضرین مسجد سے فرمایا کہ دیکھ لو رسول خدا (ص) کی تو قمیص پرانی نہیں ہوئی لیکن عثمان نے ان کی سیرت کو پرانا کردیا ہے ۔" نعثل " کو قتل کرڈالو ۔اللہ نعثل کو قتل کرے(۲) ۔

حضرت عائشہ نے لوگوں کو حضرت ک عثمان کے خلاف برانگیختہ کیا اور لوگوں کو متعدد مرتبہ ان کے قتل کا حکم دیا اور جب ستم زدہ عوام نے ان کے گھر کا محاصرہ کیا تو حضرت عائشہ حج وعمرہ کا بہانہ کرکے مکہ چلی گئیں اور اپنی لگائی ہوئی آگ کو انہوں نے بجھانے کی کوئی کو شش نہیں کی اور مکہ میں رہائش کے دوران ہروقت مدینہ کی خبر منتظر رہتی تھیں ۔

ایک دفعہ ایک جھوٹی خبر ان کے گوش گزار ہوئی کہ :- حضرت عثمان نے محاصرہ کرنے والے مخالفین کو قتل کرادیا ہے اور شورش دم توڑگئی ہے ۔ یہ سن کر بربی بی صاحبہ نے سخت غصہ میں فرمایا ۔یہ تو بہت برا ہوا ۔حق کے طلبگاروں کو قتل کردیا اور ظلم کے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔(۳)

ایک دفعہ حضرت عثمان اور حضرت عائشہ میں کافی تلخ کلامی ہوئی تو حضرت عثمان نے کہا امور سلطنت کے ساتھ تیرا کیا واسطہ ہے ؟ اللہ نے تجھے گھر میں بیٹھنے کا حکم دیا ہے ۔

یہ الفاظ سن کر انہیں سخت غصّہ آیا اور رسول خدا کے چند بال اور ایک

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص ۲۹

(۲):- ابن ابی الحدید معتزلی ۔ شرح نہیں البلاغہ ۔جلدچہارم ۔ص ۴۰۸

(۳):- عبدالفتاح عبدالمقصود ۔الامام علی ابن ابی طالب ۔جلد دوم ۔ص ۲۷۶-۲۷۷

۱۹۱

لباس اور نعلین مبارک نکال کر فرمایا :- رسول خدا (ص) کے بال لباس اور ان کی نعلین تک بوسیدہ نہیں ہوئی تم نے ان کی سنت کو چھوڑ دیا ہے(۱) ۔

ام المومنین اور کبار صحابہ تمام ملت اسلامیہ میں مخالفت کی لہر دوڑ گئی اور باقی ممالک محروسہ کی نسبت حجاز ،مصر اور عراق میں مخالفت ک شدت زیادہ تھی ۔ اور تعجب خیز امر یہ ہے کہ حضرت عثمان کو مخالفت کی اس شدید لہر کا احساس نہیں تھا اور کبار صحابہ کے پر خلوص مشوروں کو درخور اعتنا نہ سمجھا ۔انہوں نے ہمیشہ مروان بن حکم اور اپنے دوسرے عمّال کے مشوروں کو اہمیت دی ۔ جب کہ تمام مشکلات ومسائل انہیں کے پیدا کردہ تھے۔

بنی امیہ کا اجلاس

جب چاروں طرف سے حضرت عثمان پر تنقید ہونے لگی تو انہوں نے اپنی کابینہ کا خصوصی اجلاس بلایا ۔ جس میں معاویہ بن ابی سفیان ،عبداللہ بن ابی سرح ، عبداللہ بن عامر اور سعید بن عاص نمایاں تھے ۔

حضرت عثمان نے معتمدین کے اس اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا :- ہر سربراہ کے وزیر کرتے ہیں اور تم لوگ میرے وزیر ہو ۔ موجودہ خلفشار تمہارے سامنے ہے ۔ اس سے نمٹنے کیلئے مجھے تمہارے مشوروں کی ضرورت ہے ۔

معاویہ نے تو صرف یہی جواب دیا کہ تمام عمال کو ان کے علاقوں میں بھیج دیا جائے اور وہاں کے تمام شرپسند افراد سے نمٹنے کی ان کو کھلی چھٹی دی جائے اور عمال کو چائیے کہ وہ کسی حکومت مخالف فرد کو مدینہ آنے کی اجازت نہ دیں ۔

____________________

(۱):- البلاذری ۔انساب الاشراف ۔ص ۴۸-۴۹

۱۹۲

سعید بن العاص نے کہا :- شورش کے سربراہوں کو قتل کردیا جائے ۔ عبداللہ بن ابی سرح نے کہا :- قتل کرنے سے ہماری حکومت مزید بدنام ہوگی بیت المال سے ان لوگوں کو بھاری رقمیں دے کر خاموش کرادیا جائے ۔عبداللہ بن عامر نے کہا کہ :- لوگوں کو جہاد میں مشغول کیا جائے اور انہیں سرحدی علاقوں میں بھیج کر اس مشکل سے جان چھڑائی جائے ۔(۱)

مشیروں کے درج بالا مشوروں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اصل حقیقت کے ادراک سے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں ۔ اور وہ کسی ایک نتیجہ پر بھی نہیں پہنچے تھے اور انہوں نے اقرباء پروری اور مالی بدعنوانیوں کو ختم کرنے کی بجائے لوگوں کو بیرونی جنگوں میں الجھانے کا مشورہ دیا اور مذکورہ اجلاس میں حضرت عثمان بھی اپنی کوئی رائے پیش کرنے سے قاصر رہے تھے اور مشکلات کے وقتی اور دائمی خاتمہ کے لئے ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں تھا ۔

اس وقت ہمیں یہ دیکھ کر انتہائی حیرت ہوئی ہے کہ جب چند صحابہ نے انہیں پر خلوص مشورہ دیا تو انہوں نے ان سے کہا کہ :- ہر امت کے لئے کوئی نہ کوئی آفت ومصیبت ہوتی ہے اور اس امت کی آفت مجھ پر نکتہ چینی کرنے والے افراد ہیں ۔

اے گروہ مہاجرین وانصار ! تم کیسے لوگ ہو تم میرے ایسے کاموں پر بھی اعتراض کیا ہے جنہیں عمر بن خطاب بھی کیا کرتے تھے ۔ لیکن تم نے اس پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اب تم مجھ پر تم معترض ہوتے ہو ۔ تم عمر کے سامنے اس لئے اعتراض نہیں کرتے تھے کیونکہ اس نے تمہاری باگیں کھینچ رکھی

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ص ۲۰۶-۲۰۷

۱۹۳

تھیں تمہیں جان لینا چاہئیے کہ ابن خطاب کا خاندان چھوٹا خاندان تھا جب کہ میرا خاندان بہت بڑا ہے ۔

حضرت عثمان کی اس گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کا ان سے مطالبہ یہی تھا کہ وہ اپنی حکومت کو قرآن وسنت اور سیرت شیخین کے مطابق چلائیں ۔مگر صحابہ کے اس جائز اور فطری مطالبہ کے جواب میں حضرت عثمان نے انہیں لالچی اور عیب جو قراردیا ۔جبکہ ان القاب کی بجائے ان کا حق یہ تھا کہ وہ اپنی اور اپنے عمال کی صفائی پیش کرتے اور بیت المال کو جس طرح سے بنی امیہ پر لٹا یا گیا تھا ۔ اس کا حساب پیش کرتے اور عجیب ترین امر یہ ہے کہ حضرت عثمان نے اپنے اعمال کی صفائی دینے پر تو چنداں توجہ نہیں دی بلکہ انہیں طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ یہی کام تو عمر بھی کیا کرتے تھے لیکن تمہاری زبانیں اس وقت خاموش رہتی تھیں اور خلیفہ صاحب نے اپنے خطبہ کا اختتام ڈرانے دھمکانے پر کیا ۔انہی بے تدبیریوں کی وجہ سے آہستہ آہستہ لشکر میں بھی ان کی مخالفت سرایت کرتی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چنگاری شعلوں کی صورت اختیار کر گئی ۔یہی وجہ ہے جب عبداللہ بن عامر رومیوں کے بحری بیڑے کو شکست دے کر واپس آیا تو محمد ابن ابی حذیفہ اس کے لشکر کو اس کا مخالف بنا چکا تھا ۔کیوں کہ وہ لشکر گاہ میں لوگوں سے کہتا تھا کہ :- ہمیں مدینہ جاکر عثمان سے جہاد کرنا ہے ۔اصحاب رسول (ص) کو کلیدی عہدوں سے ہٹا کر فاسق اور خائن قرابت داروں کو ان عہدوں پر فائز کرچکا ہے ۔تم لوگ اپنے اسی حاکم اور قائد جہاد کو ہی دیکھ لو ۔

۱۹۴

قرآن نے اس کے کفر کی تائید کی ہے اور رسول خدا(ص) نے اسے واجب القتل ٹھہرایا ہے ۔لیکن اس کے باوجود عثمان نے اسے تمہار حاکم مقرر کیا ہے کیوں کہ یہ اس کا رضاعی بھائی ہے ۔(۱)

الغرض اس وقت حضرت عثمان کے خلاف ایک ایسا محاذ بن گیا جہاں ان کے خلاف سینہ بہ سینہ خبریں جنم لیتی تھیں اور زبان زد عام وخاص ہوجاتی تھیں ۔لیکن ان خبروں کے اصل ذرائع کا لوگوں کو علم نہیں ہوتا تھا۔

حضرت عثمان نے مسجد نبوی کی توسیع کی تو اس وقت لوگوں کی زبانوں پر یہ عبارت جاری تھی کہ :- دیکھو رسول (ص) کی مسجد کی توسیع ہورہی ہے ۔لیکن ان کی سنت سے انحراف کیا جارہا ہے ۔

حضرت عثمان کے دور میں کبوتر زیادہ ہوگئے ۔مسجد نبوی مدینہ کے گھر اور اکثر چھتیں کبوتروں سے بھری ہوئی نظر آنے لگیں تو حضرت عثمان نے کبوتروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا تو اس وقت لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ :- پناہ حاصل کرنے والے بے چارے کبوتروں کو تو ذبح کرایا جارہا ہے اور طرید رسول (ص) حکم بن ابی العاص اور اس کے بیٹے مروان کو گھر میں بسایا جارہا ہے ۔(۲)

بلاذری نے یہی روایت سعید بن مسیب سے کی ہے کہ حضرت عثمان نے کبوتروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا تو لوگوں نے کہا کہ بے چارے پرندوں کو ذبح کرارہا ہے اور جن کو رسول خدا(ص) نے مدینہ سے نکالا تھا انہیں پناہ دی جارہی ہے(۳) ۔

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔ الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ ص ۱۶۸

(۲):- ایضا

(۳):- انساب الاشراف ۔جلد پنجم ۔ص ۲۲

۱۹۵

ایک سوال جس کا جواب ضروری ہے

اس مقام پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور اس کا جواب تلاش کرنا بھی بڑا ضروری ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ :-

حضرت عثمان کی سیاست کی مخالفت کہاں سے پیدا ہوئی ؟

کیا تحریک مخالفت خلافت کے مرکز مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئی تھی ؟

یا

دوسرے شہروں میں اس تحریک نے جنم لیا اور پھر اس نے مدینہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ؟

واضح الفاظ میں یہ سوال ان الفاظ کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے کہ :-

حضرت عثمان کی تحریک مخالفت مہاجرین وانصار میں پہلے پہل پیدا ہوئی اور پھر وہاں سے دوسرے شہروں کو منتقل ہوئی؟

یا

یہ تحریک پہلے فوج میں پیدا ہوئی اور وہاں سے سفر کرکے مدینہ پہنچی اور مہاجرین وانصار کو اپنی طرف مائل کرلیا ؟

ہم جانتے ہیں کہ اندھی عقیدت رکھنے والے افراد کے لئے اس سوال کا جواب دینا بڑا مشکل ہے ۔

کیونکہ اگر پہلی صورت کو تسلیم کیاجائے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عثمان کی سیاست کا انکار سب سے پہلے مہاجرین وانصار صحابہ نے کیا بعد ازاں دوسرے لوگوں نے ان کا اتباع کیا ۔

اور اگر دوسری صورت کو کم ضرر رساں سمجھ کر اختیار کیا جائے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت عثمان کی سیاسی ناہمواریوں کو دیکھ کر ان کے جانثار

۱۹۶

لشکر نے ان کی مخالفت کا آغاز کیا اور صحابہ نے مخالفین کی پیروی کی ۔ لیکن ہمیں اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی ہوگی کہ کیا جلیل القدر صحابہ عام افراد کی باتوں میں آسکتے تھے اور ان کے ہاتھوں کھلونا بن سکتے تھے ؟

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عثمان کے خلاف جو تحریک چلی تھی اس کی ابتداء مدینہ سے ہوئی تھی ۔ اس تحریک مخالفت کا سرچشمہ مدینہ میں ہی تھا اور مدینہ سے یہ تحریک باقی شہروں تک پہنچی(۱) ۔

ہمارے پاس اپنے اس جواب کی صداقت کے لئے بزرگ صحابہ کرام کا طرز عمل موجود ہے ۔

ہم جانتے ہیں کہ حضرت عثمان نے حضرت ابو ذر کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا اور اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ حضرت عثمان نے عبداللہ بن مسعود اور حضرت عمار یا سر پر کتنا تشدد روارکھا تھا ؟ اسلامی تاریخ میں حضرت عثمان کے اس "حسن سلوک " کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور اسی وجہ سے صحابہ کرام بھی ان کی مخالفت پراتر آئے تھے ۔

بلاذری کی زبانی جبلہ بن عمرو الساعدی کی گفتگو سماعت فرمائیں :" جس زمانے میں لوگوں میں حضرت عثمان کی مخالفت عام ہوچکی تھی ۔ انہی ایام میں حضرت عثمان جبلہ بن عمر الساعدی کے مکان کے پاس سے گزرے اس وقت جبلہ اپنے دروازے پر کھڑا ہوا تھا تو اس نے حضرت عثمان سے کہا :- اے نعثل ! اللہ کی قسم میں تجھے قتل کروں گا یا تجھے جلاوطن کرکے خارش زدہ کمزور اونٹنی پر سوار کروں گا ۔تو نے حارث بن الحکم کو بازار کا مالک بنایا ہے اور تو نے فلاں فلاں غلط کا م کئے ہیں ۔"(۲)

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفنتہہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ص ۱۳۶

(۲):- البلاذری ۔انساب الاشراف ۔جلد پنجم ۔ص۴۷

۱۹۷

واضح ہو کہ حارث بن الحکم مروان کا بھائی تھا اور اس نے بازار مدینہ میں اندھیر مچایا ہوا تھا ۔ اسی لئے جبلہ بن عمرو الساعدی نے اعتراض کیا تھا ۔اور کسی نے حضرت جبلہ سے کہا کہ آپ اس مسئلہ میں حضرت عثمان کی مخالفت ترک کردیں تو انہوں نے کہا تھا کہ مجھے کل اپنے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور میں یہ نہیں کہنا چاہنا :- " انّا اطعنا سادتنا وکبرآءنا فاضلّونا السبیلا "(الاحزاب)۶۷

"پروردگار ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کی اطاعت کی تو انہوں نے ہمیں گمراہ کیا ۔"

قتل عثمان

حضرت عثمان کے رشتہ داروں نے اسلامی مملکت میں وہ ادھم مچایا کہ خدا کی پناہ ۔غریب ومظلوم عوام نے وفد تشکیل دئیے اور انہیں مدینہ بھیجا شاید کہ اصلاح احوال کی کوئی صورت نکل آئے ۔ لیکن مروان بن الحکم نے حضرت عثمان کو ہمیشہ غلط مشورے دئیے اور وفد کے ارکان انصاف سے مایوس ہوکر اپنے اپنے علاقوں کو واپس چلے گئے ۔

حضرت عثمان کی زندگی کے آخری ایام میں بہت بڑا حادثہ یہ ہوا کہ مصر کے لوگ اپنے والی کی شکایت کرنے آئے اور حضرت عثمان سے مطالبہ کیا کہ اسے معزول کرکے کوئی اچھا سا حاکم مقرر کریں ۔

آخر کا ایک لمبی بحث وتمحیص کے بعد حضرت عثمان نے ان کا مطالبہ مان لیا ۔ایک نئے حاکم کا تقرر عمل میں لایا گیا اور سابق والی کی معزول کا فرمان بھی جاری کیا ۔

اہل مصر خوش ہوکر اپنے وطن جارہے تھے ۔ لیکن ابھی وہ لوگ ارض کنانہ تک پہنچے تھے کہ انہوں نے ایک اونٹنی سوار دیکھا جو معروف راستے سے

۱۹۸

ہٹ کر جارہا ہے ۔ انہیں اونٹنی والے پر شک گزرا چنانچہ اس کا تعاقب کرکے اسے پکڑ لیا گیا ۔ اس کی تلاشی لی گئی تو اس کے مشکیزے سے موم میں لپٹا ہوا ایک خط برآمد ہوا ۔ وہ خط حضرت عثمان کی جانب سے والی مصر کو لکھا گیا تھا ۔ جس میں اسے حکم دیا گیا تھا کہ جب یہ مفسد تیرے پاس آئیں تو ان کے سرغنوں کو قتل کردینا اور دوسروں کو سخت سزا دینا ۔

ان لوگوں نے اس حبشی غلام اور اونٹنی کو اپنے قبضہ میں لے لیا ۔حبشی غلام حضرت عثمان کا خادم تھا اور اونٹنی بھی بیت المال کی تھی ۔ خط کے نیچے حضرت عثمان کی مخصوص مہر بھی لگی ہوئی تھی۔

اہل مصر غلام اور اونٹنی سمیت واپس مدینہ آئے اور خلیفہ صاحب سے کہا کہ تم نے ہمارے ساتھ کیوں کیا ۔ تو خلیفہ صاحب نے حلفیہ طور پر کہا کہ یہ خط میں نے تحریر نہیں کیا ۔

ان لوگوں نے دریافت کی کہ کیا آپ س حبشی کو جانتے ہیں ؟ فرمایا ! جی ہاں یہ میرا خادم ہے ۔

انہوں نے پھر پوچھا اس اونٹنی کو بھی پہنچانتے ہیں ؟

خلیفہ صاحب نے فرمایا !جی ہاں یہ مہر بھی میری ہی ہے ۔

ان لوگوں نے کہا! جناب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اونٹنی بھی آپ کی ہو ۔غلام بھی آپ کا ہو اور مہر بھی آپ کی ہو لیکن خط آپ نے نہ لکھا ہو ۔

حضرت عثمان نے فرمایا ! خط میں نے نہیں لکھا ، یہ مروان کی کاروائی ہے ۔ ان لوگوں نے اس وقت نہایت معقول مطالبہ کیا کہ :-ہم آپ کی بات کو تسلیم کرتے ہیں ۔آپ بالکل بے گناہ ہیں ۔ سارا قصور مروان کا ہے ۔ آپ مروان کو ہمارے حوالے کردیں ۔اس کے بعد ہمارا آپ سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔

حضرت عثمان نے ان لوگوں کے اس مطالبہ کو بھی پائے حقارت سے

۱۹۹

ٹھکرادیا انہوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا اور یہ محاصرہ ایک ماہ سے بھی زیادہ دیر تک رہا ۔ اس دوران حضرت عثمان کے اقرباء میں سے کسی نے بھی ان کی مدد نہ کی اور نہ ہی مدینہ میں کسی صحابی نے ان کی جان بچانے کی قابل ذکر حمایت کی ۔ آخر کار طویل محاصرہ کے بعد ان لوگوں نے حضرت عثمان کے گھر میں گھس کر انہیں قتل کردیا(۱) ۔

قتل عثمان کے بعد بنی امیہ کی سازشیں

حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے ذکر سے پہلے ہم معاویہ اور مروان کی سازشوں کاذکر کرنا چاہتے ہیں ۔

حضرت عثمان کے قتل کے ساتھ ہی بنی امیہ نے حضرت علی علیہ السلام کی حکومت ختم کرنے کی سازشیں شروع کردی تھیں ۔

حضرت علی (ع) کے خلاف مسلحانہ تحریک شروع کرنے کے لئے انہوں نے مختلف افراد کو خط تحریر کئے ۔جن میں سے چند خطوط ہم اپنے قارئین کی نذر کرتے ہیں ۔:

قتل عثمان کے بعد مروان بن الحکم نے معاویہ بن ابی سفیان کو خط لکھا کہ :

"میں آپ کو یہ خط قتل عثمان کے بعد تحریر کر رہاہوں ۔باغیوں نے اس پر حملہ کیا اور ناحق قتل کردیا اور باغی ابر کی طرح کھل کر برسے ۔اور بعد ازاں ٹڈی دل کی طرح علی ابن ابی طالب کے پاس چلے گئے ۔

لہذا تم بنی امیہ کو اپنے ارد گرد جمع کرو اور ثریا ستاروں کے جھرمٹ میں تم ۔

____________________

(۱):-اس واقعہ کی تفصیلات کے لئے الاصابہ فی تمیز الصحابہ کے صفحات ۴۰۰سے ۴۰۶ کا مطالعہ کیا جائے ۔ہم انے یہ واقعہ تلخیص کرکے نقل کیا ہے۔ علاوہ ازیں تمام کتب تاریخ میں یہی واقعہ لکھا ہوا ہے ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333