المیہ جمعرات

المیہ جمعرات23%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104102 / ڈاؤنلوڈ: 4472
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

مرکزی ستارہ بن جاؤ ۔ اے ابو عبدالرحمن ! اگر تم عثمان کا بدلہ لینا چاہو تو تم اس کے لئۓ ہر طرح سے موزوں ہو "

جب یہ خط معاویہ کے پاس پہنچا تو اس نے لوگوں کو جمع کیا اور پر درد تقریر کی ۔ تقریر سن کر لوگ بے ساختہ رونے لگے اور ان کی آہ وفغاں کی آوازیں بلند ہوئیں ۔معاویہ کی تقریر اتنی موثر ثابت ہوئی کہ عورتوں نے بھی جنگ میں حصہ لینے کی پیش کش کی ۔

اس کے بعد معاویہ نے طلحہ بن عبیداللہ ،زبیر بن العوام ،سعید بن العاص ،عبداللہ بن عامر ،ولید بن عقبہ اور یعلی بن امیہ کو خطوط تحریر کئے ۔

معاویہ نے طلحہ کو درج ذیل خط لکھا ۔

"اما بعد تو اپنے چہرے کی خوبصورتی اور سخاوت وفصاحت کی وجہ سے قریش میں منفرد مقام رکھتا ہے ۔ تجھے اسلام میں سبقت کا شرف حاصل ہے ۔تو ان افراد میں شامل ہے جنہیں جنت کی بشارت دی گئی تھی ۔ احد کی لڑائی میں تجھے خاص شرف وفضیلت حاصل ہوئی تھی ۔ اس وقت رعیت جو تجھے منصب عطا کرے تو وہ منصب قبول کرلے اور اس منصب کی قبولیت کی وجہ نے اللہ تجھ سے راضی ہوگا ۔ میں اپنی جانب سے معاملہ تیرے لئے مستحکم کروں گا ۔زبیر تم سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا ۔تم دونوں میں سے جو بھی امام بن جائے صحیح ہے ۔

دوسرے فرد کو اس کا ولی عہد بن جانا چاہئیے ۔"

معاویہ نے زبیر کو درج ذیل خط تحریر کیا ۔

"اما بعد زبیر ! تو رسول خدا کی پھوپھی کا فرزند ہے ۔رسول کریم کا صحابی ہے اور حضرت ابو بکر کا داماد ہے اور مسلمانوں کا شہسوار ہے ۔

تمہیں معلوم ہوا چاہئے کہ اس وقت رعیت متفرق بھیڑوں کی مانند ہوچکی ہے اس کا کوئی چرواہا موجود نہیں ہے ،تمہیں چاہیئے کہ لوگوں کی جانیں بچاؤ۔

۲۰۱

میں اپنی طرف سے معاملہ خلافت کو تیرے اور تیرے ساتھی کے لئے مستحکم کرنا چاہتا ہوں ۔تم میں سے ایک امیر بن جائے اور دوسرا وزیر بن جائے ۔"

اس کے بعد معاویہ نے مروان بن الحکم کو درج ذیل خط تحریر کیا :-

"مجھے تمہارا خط موصول ہوچکا کہے ۔تمہارے خط کی وجہ سے امیر المومنین کے حالات کی اطلاع ملی ہے ۔جب تمہیں یہ خط پہنچے تو تم چیتے کی سی پھرتی پیدا کرنا ۔دھوکے سے شکار پھانسنا اور لومڑی کی طرح محتاط ہوجانا اور بچ بچ کرراہ چلتے رہنا اور ان حالات میں اپنے آپ کو اس طرح سے چھپانا جس طرح سے خار پشت کسی کے ہاتھوں کے لمس کو محسوس کرکے اپنا سرچھپا لیتا ہے ۔ اس وقت اپنے آپ کو یوں حقیر وبو سیدہ قراردے دو جس طرح وہ شخص اپنے آپ کو حقیر بنا لیتا ہے جو قوم کی امداد سے مایوس ہوچکا ہوتا ہے ۔ تم حجاز چھوڑ کر شام چلے آؤ ۔"

معاویہ نے سعید بن العاص کو درج ذیل خط لکھا ۔:-

" بنی امیہ ! تمہاری ذلت وخواری کے دن آگئے ہیں ۔ تمہیں معمولی رزق کے حصول کے لئے دور دراز کی مسافت طے کرنی ہوگی ۔ تمہارے واقف بھی تمہارے لئے ان جان بن جائیں گے ۔ تم سے تعلق رکھنے والے بھی تم سے جدا ہوجائیں گے ۔میں اپنی آنکھوں سے بنی امیہ کا یہ مستقبل دیکھ رہا ہوں کہ وہ پہاڑوں کی گھاٹیوں میں سر چھپاتے پھر رہے ہوں گے ۔تم لوگوں کو اپنی معاش کی فکر پڑجائے گی۔

امیر المومنین پر لوگ تمہاری وجہ سے ہی ناراض ہوئے تھے اور تمہاری وجہ سے ہی وہ قتل ہوئے ہیں ۔ اب تم نے اس کی مدد سے خاموشی کیوں اختیار کرلی ہے اور اس کے خون کے انتقام میں سستی کیوں روا رکھی ہے ؟

تم لوگ تو مقتول کے قریبی رشتہ دار ہو اور تم ہی اس کے خون کے وارث ہو ۔جب کہ تم نے معمولی متاع دنیا میں اپنے آپ کو مشغول کردیا ہے ۔

۲۰۲

وہ تمام مال ومتاع جو تم نے امیر المومنین کی وساطت سے حاصل کیا تھا ۔ عنقریب تم سے چھن جائے گا ۔

علاوہ ازیں معاویہ نے عبداللہ بن عامر کو درج ذیل خط تحریر کیا :-

"بنی امیہ ! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم جلاوطن ہوکر اونٹوں کی پشت پر سوار ہو ۔ فساد پھیلنے سے پہلے تم مخالفین پر حملہ کردو۔

احتیاط کو اپنی سب سے بڑی ضرورت قرار دو اور ترغیب کے ہتھیار کو تیز کرو اور کانے مخالفین سے اپنی آنکھیں علیحدہ رکھو ۔جھگڑالو افراد سے کنارہ کشی کرو ۔دور رہنے والوں پر شفقت کرو ۔اپنے ساتھیوں کے حوصلوں کو بلند کرو"۔

ولید بن عقبہ کویہ خط لکھا گیا :-

"اگر اقتدار تمہارے مخالفین کے ہاتھ میں چلا گیا تو تم شتر مرغ کی طرح ریت کے ٹیلوں میں سر چھپاتے پھروگے ۔ تمہیں گدلا پانی پینا پڑے گا اور خوف کا لباس زیب تن کرنا ہوگا ۔"

یعلی بن امیہ کو درج ذیل خط لکھا گیا :-

"مقتول خلیفہ پر جتنے الزامات عائد کئے گئے ہیں ان میں سر فہرست الزام یہی تھا کہ اس نے تجھے یمن کا حاکم بنایا تھا اور اتنے طویل عرصہ تک حکومت پر فائز رکھا تھا ۔ تجھ جیسے افراد کی وجہ سے لوگ خلیفہ پر ناراض ہوئے ۔انہیں قتل کردیا گیا ۔جب کہ وہ روزہ دار تھے اور قرآن کی تلاوت میں مصروف تھے ۔

تو جانتا ہے کہ مقتول خلیفہ کی بیعت کا قلادہ ہماری گردنوں میں پڑا ہوا ہے اور ان کا انتقام لینا ہمارا فریضہ ہے ۔ تو عراق میں داخل ہونے کی تیاری کر۔

میں نے شام میں اپنی حکومت مستحکم کرلی ہے تجھے شام سے بے فکر ہوجانا چاہئیے اور میں نے طلحہ بن عبیداللہ کو خط لکھا ہے کہ وہ مکہ میں تجھ سے ملاقات کرے ۔میں چاہتا ہوں کہ تم دونوں اپنی دعوت کے اظہار اور خون ناحق کے انتقام کے لئے

۲۰۳

کوئی مناسب منصوبہ بندی کرو۔میں نے عبداللہ بن عامر کو بھی لکھ دیا ہے کہ وہ تمہارے لئے عراق کی زمین کو ہموار کرے ۔علاوہ ازیں تجھے یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ لوگ تجھ سے تیرا تمام مال عنقریب اگلوالیں گے ۔"

مروان نے معاویہ کے خط کے جواب میں تحریر کیا :-

"قوم کے محافظ عزتوں کے نگہبان معاویہ کو معلوم ہو کہ میں اپنی نیت کی درستگی اورعزم وارادہ کی پختگی اور رشتوں کی تقدیس پر قائم ہوں ۔ تمہاری طرح میرا خون بھی جوش مار رہا ہے ۔ لیکن میں کسی قول وفعل میں تم پر سبقت نہیں کرسکتا ۔

تو فرزند حرب ،انتقام لینے والا اور خود دار شخص ہے اور میں اس وقت اس گرگٹ کی طرح ہر وقت بھیس بدل رہا ہوں جو سخت گرمی میں تڑپ رہا ہو اور بڑی گہری نگاہوں سے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہوں ۔میری حالت اس وقت اس درندے کی سی ہے جو شکاری کے جال سے کسی طرح بچ گیا ہو اور اپنی ہی آواز سے خوف زدہ ہو ۔

میں تمہارے عزم وارادہ کامنتظر ہوں اور تمہارے احکام کے لئے گوش برآواز ہوں ۔ میں ہر حالت میں تمہارے حکم کی تعمیل کرنا چاہتا ہوں "۔

عبداللہ بن عامر نے معاویہ کے خط کے جواب میں تحریر کیا :-

"بلا شبہ امیر المومنین ہم پر سایہ کرنے والے پر کی طرح اور چھوٹے بچے اس کی پناہ لیا کرتے تھے ۔ لیکن افسوس ہے جب دشمنوں نے اس پناہ گاہ پر تیر چلائے تو ہم بھاگے ہوئے شتر مرغ کی طرح ان سے علیحدہ ہوگئے ۔میں تمہیں اس حقیقت سے باخبر کرنا چاہتا ہوں کہ اس تحریک میں دس میں سے نو افراد آپ کے ہم نوا ہیں اور ایک آپ کا مخالف ہے ۔

خدا کی قسم ! ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے اور تو " حرب " کا فرزند ہے ۔ تو جنگوں کا جواں مرد ہے ۔بنی عبد شمس کی عظمت کا تو نگراں ہے ۔

۲۰۴

اس وقت تمام تر تحریک تیری ذات سے ہی وابستہ ہے اور قبیلہ کو عزت دینے والا تو ہے اور عثمان کے بعد بنی امیہ کی امیدیں تجھ سے ہی وابستہ ہیں ۔ میں تمہارے حکم کا منتظر رہوں گا ۔"

ولید بن عقبہ نے معاویہ کو تحریر کیا :-

" تو عقل کے اعتبار سے قریش کا شیر ہے ۔فہم وفراست میں تو سب سے ممتاز ہے اور رائے کے لحاظ سے تو سب سے پختہ کار ہے ۔ تیرے پاس حسن سیرت کی دولت ہے اور تو ہی حکومت کی لیاقت رکھتا ہے ۔کیونکہ توجس بھی گھاٹ پر اترتا ہے تو دانش مندی سے اتر تا ہے اورجب تو کوئی گھاٹ چھوڑتا ہے تو علم وبصیرت سے چھوڑتا ہے ۔

نرمی کا تو سوال پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔عار نقص ہے ۔۔۔۔۔کمزوری ذلت ہے ۔میں نے اپنے نفس کو موت کے لئے آمادہ کرلیا ہے اور اسے زنجیروں میں جکڑ کر قابو کیا ہوا ہے جس طرح سے اونٹ کو باندھ دیا جاتا ہے ۔اب میں یا تو عثمان کی طرح قتل ہوجاؤں گا یا اس کے قاتل کو قتل کروں گا ۔

اس کے ساتھ ساتھ میرا عمل آپ کی رائے کے تابع ہوگا ۔کیونکہ ہم آپ کے ساتھ وابستہ ہیں اور آپ کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں ۔"

یعلی بن امیہ نے اپنے خط میں لکھا :-

"ہم گروہ بنی امیہ اس پتھر کی طرح ہیں جو گارے کے بغیر اس دوسرے پر رکھا نہیں جاسکتا اور ہم تیغ بّراں ہیں ۔ مجھے وہ روئے جس کا میں بیٹا ہوں اگر میں عثمان کے انتقام کو فراموش کربیٹھوں ۔عثمان کے قتل کے بعد میں زندگی کو کڑوا محسوس کررہا ہوں ۔"

سعید بن العاص کا جواب مذکورہ خطوط سے مختلف تھا ۔(۱)

____________________

(۱):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔ جلد ہشتم ۔ص ۸۴

۲۰۵

فصل سوم

خلافت امیرالمومنین علیہ السلام

"الحمد الله علی احسانه لقد رجع الحق الی مکانه"

"اللہ کے احسان پر اسی کی حمد ہے ۔حق اپنے مقام پر واپس آگیا "

(الامام علی بن ابی طالب )

حضرت علی (ع) توفیق ایزدی سے مؤید تھے اور اس کے پورے خیر خواہ تھے ۔ انہوں نے ہر مصیبت پر صبر کیا اور اپنے حق کو تاراج ہوتا دیکھ کر بھی انہوں نے مسلمانوں کی خیر خواہی سے کبھی منہ نہ موڑا ۔

انہوں نے اسلام کے وسیع مفاد کے لئے خلفائے ثلاثہ سے جنگ نہ کی ۔ بلکہ جہاں اسلامی مفادات کا سوال ہوتا تھا حضرت علی (ع) اپنے قیمتی مشوروں سے بھی انہیں نوازا کرتے تھے ۔

فطری تقاضا تھا کہ حضرت عثمان کے قتل کے بعد حضرت علی (ع) اپنے آپ کو خلافت کے لئے پیش کرتے اور اس کے لئے ضروری گٹھ جوڑ کرتے ۔مگر حضرت علی اتنے عظیم انسان تھے کہ انہوں نے اس موقع پر بھی خلافت وحکومت کے حصول کے لئے کسی طرح کی کوئی تگ ودو نہ کی کہ جس وقت امت اسلامیہ نے آپ کو خلافت کے لئے مجبور کیا ۔تو گویا علی (ع) کو خلافت کی ضرورت نہ تھی بلکہ خلافت کو علی (ع) ک ضرورت تھی ۔

خلافت علی (ع) کی داستان طبری نے یوں بیان کی ہے :-

"جب حضرت عثمان قتل ہوئے تو مہاجرین وانصار جمع ہوئے ۔ ان میں طلحہ اور زبیر بھی موجود تھے ۔پھر تمام افراد حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں ۔

۲۰۶

آپ نے فرمایا :-مجھے تمہاری حکومت کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ تم لوگ جس بھی منتخب کروگے ۔میں اسے تسلیم کرلوں گا ۔

انہوں نے کہا :- ہم آپ کے علاوہ کسی اور کا انتخاب نہیں کریں گے ۔

حضرت علی (ع) نے اس پیشکش کو مسترد کردیا ۔

بعد ازاں مہاجرین وانصار کئی مرتبہ حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور باربار خلافت سنبھالنے کی درخواست کی ۔

اٹھارہ ذی الحجہ کے دن حضرت علی (ع) بازار گئے تو لوگ آپ کے پیچھے لگ گئے اور خلافت سنبھالنے کی التجا کی ۔

حضرت علی (ع) اس سے بے نیاز ہوکر بنی عمرو بن مبذول کے باغ میں چلے گئے ۔اس باغ کے ارد گرد بہت بڑی دیوار تھی ۔حضرت علی (ع) نے ابی عمرہ بن عمر بن محصن کو حکم دیا کہ دروازہ بند کردو مگر تمام لوگ دروازے پر جمع ہوگئے اور دستک دینی شروع کی ۔

دروازہ کھلا تو مہاجرین وانصار کا مجمع اندر آیا ۔طلحہ وزبیر نے حضرت علی (ع) سے خلافت سنبھالنے کی پھر درخواست کی اور بیعت کیلئے ہاتھ بڑھانے کی التجا کی ۔

مہاجرین وانصار کے مسلسل اصرار پر آپ نے ہاتھ بڑھایا تو سب سے پہلے طلحہ نے بیعت کی اس کے بعد زبیر نے بیعت کی ۔

طلحہ کا ایک ہاتھ شل تھا اور جب وہ بیعت کر رہا تھا تو حبیب بن ذئیب نے کہا :- بیعت کی ابتداء مشلول ہاتھ سے ہوئی ہے(۱) ۔"

بیعت لینے کے بعد حضرت علی (ع) نے اپنے پہلے خطبہ میں اپنی حکومت کے خدوخال بیان کرتے فرمایا :-

اللہ تعالی نے ہدایت دینے والی کتاب نازل فرمائی ۔اس میں خیر وشر کا بیان موجود ہے ۔تم خیر کو اپناؤ اور شر کو چھوڑدو اور فرائض ادا کرو ۔

____________________

(۱):- تاریخ الامم والملوک۔جلد پنجم ۔ص ۱۵۲۔۱۵۳

۲۰۷

بندگان خدا! اللہ کے بندوں اور شہروں کیلئے اللہ سے ڈرو تم سے ان کے متعلق باز پرس کی جائیگی اور تم سے تمہارے جانوروں تک کے متعلق بھی پوچھا جائیگا(۱)

حضرت علی (ع) کا یہ خطبہ چند مختصر جملوں پر مشتمل ہے ۔ لیکن ان مختصر جملوں میں آپ نے رعایا کے تمام حقوق وفرائض بیان کردئیے ہیں ۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت علی (ع) اقتدار کے قطعی حریص نہ تھے انہوں نے بارحکومت اٹھانے سے کئی دفعہ معذرت کی اور جب لوگوں کا شدید اصرار ہوا تو فرمایا :-

"دعونی والتمسوا غیری فانّا مستقبلون امرا له وجوه والوان لاتقوم له القلوب ولا تشبت علیه العقول و انّ الافاق قد اغامت والمحجة قد کثرت واعلموا انی ان اجبتکم رکیت بکم ما اعلم ولم اصغر الی قول القائل وعتب العاتب

"مجھے چھوڑو میرے علاوہ کسی اور کو تلاش کرو کیونکہ ہمارے سامنے ایسا امر ہے جس کے بہت سے چہرے اور مختلف رنگ ہیں ۔ جن پر دل قائم نہ رہ سکیں گے اور عقل اس پر ثابت نہ رہ سکے گی اس وقت آفاق ابر آلود ہوچکے ہیں اور راستے کا نشان مٹ چکا ہے اور تمہیں یہ بھی جاننا چائیے اگر میں نے تمہاری دعوت کو قبول کرلیا تومیں تمہیں اپنے علم کے مطابق چلاؤں گا اور کسی گفتگو کرنے والے کی بات پر کان نہیں دھروں گا اور کسی ناراض ہونے والے کی ناراضگی کو خاطر میں نہ لاؤنگا ۔"(۲)

اس کے باوجود بھی لوگوں کا اصرار کم نہ ہوا تو حضرت علی نے اپنی دینی ذمہ داری کو قبول کرلیا اور درج ذیل جملے فرما کر لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیکا کہ :- میں اپنے قول کا ضامن ہوں گا ۔جو عبرت آشنا ہو اسے تقوی شبہات میں نہیں پڑتےدیتا ۔یاد رکھو آج سے تمہاری آزمائش پھر اسی طرح شروع ہوگئی جس طرح اسلام کی ابتدائی تبلیغ کے وقت ہوئی تھی ۔

جناب رسول خدا(ص) کو مبعوث بہ رسالت بنانے والے کی قسم ! تم سے

____________________

(۱):-ابن ابی الحدید۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد سوم ص ۱۵۷

(۲):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البالاغہ ۔ جلد دوم ص ۱۷۰

۲۰۸

سخت امتحان لیا جائے گا اور تمہیں آزمائش کی چھلنی میں سے گزارا جائے گا اور قضا وقدر کا کوڑا تم پر مسلط ہوگا ۔یہاں تک کہ تمہارے اسفل ،اعلی بن جائیں گے اور تمہارے طبقہ کے اعلی افراد اسفل بن جائیں گے اور پیچھے رہ جانے والے آگے بڑھ جائیں گے اور آگے بڑھنے والے پیچھے ہوجائیں گے ۔(۱)

امام عالی مقام نے مذکورۃ الصدر جملے اس لئے فرمائے کیونکہ آپ کو علم تھا کہ لوگوں میں حق پرستی کا سابقہ جذبہ نہیں رہا ہے اور لوگ زرودولت کےپجاری بن چکے ہیں اور وہ آپ کی شرعی عدالت کے متحمل نہیں ہونگے اور شرعی عدالت کی وجہ سے ان کے مفادات ختم ہونگے تو وہ آپ کی مخالفت کریں گے مگر آپ کو اپنے "خط" سے ہٹا نہیں سکیں گے ۔

آپ نے لوگوں کے اصرار اور اپنے انکار کی تصویر کشی ان الفاظ سے کی ہے ۔" وبسطتم یدی ۔۔۔۔۔۔"یعنی تم نے میرے ہاتھ کو کھولا تومیں نے اپن ہاتھ سمیٹ لیا ، تم نے میرے ہاتھ کو پھیلانا چاہا تو میں نے اسے بند کرلیا ۔ پھر تم میرے پاس یوں کشاں کشاں چلے آئے جیسے پیاسے اونٹ پانی پینے کے دن اپنے گھاٹ پر جاتے ہیں ۔

تمہارے ازدحام کی وجہ سے میرا جوتا پھٹ گیا ،چادر گر گئی اور کمزور پامال ہوا ۔ "(۲)

اس مفہوم کو آپ نے دوسرے خطبہ میں ان الفاظ سے بیان فرمایا :-

"تمہارے ازدحام کی وجہ سے حسنین پامال ہوئے ۔میرےپہلو زخمی ہوئے اور تم بکریوں کے ریوڑ کی طرح میرے گرد جمع ہوگئے اور جب میں نے منصب سنبھالا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور ایک گروہ حلقہ اطاعت سے نکل گیا اور ایک گروہ حق سے تجاوز کرگیا ۔"(۳)

____________________

(۱):-ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد اول ۔ص ۹۰

(۲):- ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ ۔جلد سوم ۔ص ۱۸۱

(۳):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد اول ص ۶۷

۲۰۹

فصل چہارم

ناکثین (بیعت شکن)

یہ حقیقت ہے ہر قسم کے شک وشبہ سے بالا ہے کہ ام المومنین عائشہ اور طلحہ اور زبیر نے لوگوں کو حضرت عثمان کی مخالفت پر برانگیختہ کیا اور ایسے حالات پیدا کردئیے جو کہ حضرت عثمان کے قتل پر منتج ہوئے تھے ۔

ان مخالفین میں زبیر بن عوام سب سے پیش پیش تھے اور طلحہ بن عبید اللہ اول الذکر کی بہ نسبت کچھ کم مخالف تھے ۔

حضرت عثمان نے بھی ایک دفعہ طلحہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا :-ویلی من طلحه ! اعطیته کذا ذهبا وهو یروم اللهم لا تمتعه به ولقه عواقب بغیه "

مجھے طلحہ پر سخت افسوس ہے میں نے اسے اتنا سونا دیا تھا اور وہ آج مجھے قتل کرنا چاہتا ہے پروردگا ر ! اسے دولت سے لطف اندوز نہ کرنا اور اسے بغاوت کے انجام بد تک پہنچا نا ۔ "(۱) ۔

حضرت عثمان کے قتل کے بعد مذکورہ تینوں افراد نے خون بدلہ کا جو ڈھونگ رچایا تھا وہ صرف اس لئے تھا کہ لوگوں کو مغالطہ میں مبتلا کیا جائے ورنہ حضرت عثمان کے قتل کے محرک یہ خود ہی تھے ۔

جن دنوں حضرت عثمان اپنے گھر میں محصور تھے ، حضرت علی نے طلحہ سے کہا تھا : تجھے اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ ان بلوائیوں کو عثمان سے ہٹاؤ ۔یہ سن کر طلحہ نے کہا ! خدا کی قسم میں اس وقت تک ایسا نہیں کروں گا جب تک بنی امیہ امت اسلامیہ کا لوٹا ہوا مال واپس نہ کردیں ۔

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین ۔الفنتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص ۸

۲۱۰

طبری لکھتے ہیں : حضرت عثمان نے طلحہ پچاس ہزار درہم کا قرض دیا تھا ۔ ایک دفعہ عثمان مسجد جارہے تھے ۔ راستے میں طلحہ سے ملاقات ہوئی تو طلحہ نے کہا ۔ میں نے قرض کی رقم اکٹھی کرلی ہے آپ جب بھی چاہیں مجھ سے لے لیں ۔حضرت عثمان نے کہا ۔ابو صحرا میں نے وہ رقم تمہیں معاف کردی ۔ایام محاصرہ میں طلحہ کے کردار کو دیکھ کر حضرت عثمان کہا کرتے تھے ۔ اس نے مجھے وہ جزا دی جو چور کسی شخص کو دیا کرتے ہیں ۔

مدائنی "قتل عثمان " میں تحریر کرتے ہیں : طلحہ نے حضرت عثمان کی لاش کو تین دن تک دفن نہیں ہونے دیا ۔ اور جب حکیم بن حزام اور جبیر بن مطعم ان کی لاش کو اٹھا کر جارہے تھے تو طلحہ نے راستے میں ایسے افراد کھڑے کر رکھے تھے جنہوں نے ان کی لاش پر پتھر پھینکے ۔"(۱)

ڈاکٹر طہ حسین رقم طراز ہیں ۔

طلحہ کی بلوائیوں سے ہمدردیاں پوشیدہ نہ تھیں اور انہیں برانگیختہ کرنے میں بھی ان کی کاوشیں شامل تھیں ۔اور حضرت عثمان طلحہ کے اس طرز عمل کی خلوت وجلوت میں شکایت کیا کرتے تھے ۔

ثقہ راوۃ کا بیان ہے کہ حضرت عثمان نے ایک دفعہ حضرت علی سے درخواست کی کہ وہ ان بلوائیوں کو اسی طرح سے واپس بھجوائیں ۔

حضرت علی طلحہ کے پاس گئے تو انہوں نے بلوائیوں کی ایک بڑی جماعت کو طلحہ کے پاس دیکھا ۔حضرت علی نے طلحہ سے فرمایا کہ تم انہیں واپس بھیج دو ۔ لیکن طلحہ نے انہیں واپس بھیجنے سے انکار کردیا تھا ۔(۲)

قتل عثمان میں حضرت عائشہ کا کردار تو بالکل اظہر من الشمس ہے

____________________

(۱):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد دوم ص ۵-۶ طبع مصر

(۲):- الفتنۃ الکبری ۔ علی وبنوہ ص ۸

۲۱۱

حضرت عائشہ ہی وہ خاتون تھیں جنہوں نے کئی دفعہ رسول خدا (ص) کی قمیص دکھا کر حضرت عثمان کو کہا تھا کہ : رسول خدا کی ابھی قمیص بھی بو سیدہ نہیں ہوئی مگر تم نے ان کی سنت کو ترک کر دیا ۔

"اور کئی مرتبہ پردہ کے پیچھے سے کھڑے ہوکر انہوں نے فرمایا تھا ۔ "اقتلوا نعثلا " تم نعثل کو قتل کرو"۔

امّ المومنین کے متعلق یہ بلکل درست ہوگا کہ آپ حضرت عثمان کی سب سے بڑی مخالف تھیں ۔ سابقہ صفحات میں آپ یہ روایت پڑھ چکے ہوں گے کہ جب مکہ میں کسی نے حضرت عائشہ تک ایک افواہ پہنچائی تھی کہ حضرت عثمان نے بلوائیوں کو قتل کردیا ہے اور اب شورش ختم ہوگئی ہے ، تویہ سن کر بی بی نے سخت الفاظ میں اپنے طرز عمل کا اظہار فرمایا تھا :" یہ کہاں کا انصاف ہے کہ حق مانگنے والوں کو قتل کیاجائے اور ستم رسیدہ لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے تلوار کے گھاٹ اتارا جائے ۔"

او رحضرت علی کے تخت نشین ہوتے ہی حضرت عائشہ خون عثمان کی دعودیدار بن کر کھڑی ہوگئیں اور طلحہ وزبیر کے کہنے بصرہ کی تیاریوں میں مشغول ہوگئیں ۔اسی اثناء میں سعید بن العاص ام المومنین کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ آپ کیا چاہتی ہیں ؟ بی بی نے کہا : میں بصرہ جانا چاہتی ہوں سعید نے پھر پوچھا ۔آپ وہاں کیوں جانا چاہتی ہیں ؟ بی بی نے فرمایا :- عثمان کے خون کے مطالبہ کے لئے جارہی ہوں ۔

یہ سن کر سعید بن العاص نے کہا : ام المومنین ! عثمان کے قاتل تو آپ کے ساتھ ہیں ۔(۱)

تاریخی حقائق کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں جنگ جمل کے محرکین ہی

____________________

(۱):- عبدالفتاح عبدالمقصود ۔الامام علی بن ابی طالب ۔ جلد سوم ۔ص ۴۲۷

۲۱۲

حضرت عثمان کے سب سے بڑے مخالف تھے ۔ اور حضرت عثمان کے خون کے چھینٹیں ان کے دامن پر لگے ہوئے تھے ۔ اور اس وقت مسلمانوں کی اکثریت بھی بخوبی جانتی تھی کہ قاتلین عثمان کون ہیں ؟

اس تاریخی حقیقت کے ادراک کے بعد ایک دل چسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جنگ جمل کے "ہیرہ"ہی دراصل قاتلین عثمان تھے ۔ تو پھر انہوں نے خون عثمان کا مطالبہ کیوں کیا تھا ؟ اور لوگوں کو علی (ع) کی مخالفت پر کمر بستہ کیوں کیا ؟

اور کیا اس وقت کچھ ایسے مخفی عوامل تھے جن کی وجہ سے قمیص عثمان کو بہانہ بنا کر حکومت وقت کی مخالفت کی گئی ؟

اور پھر طلحہ وزبیر نے حضرت علی کی بیعت کیوں کی ؟

اور اگر خون عثمان کے مطالبہ میں کوئی وزن تھا تو کیا اس کا طریقہ یہی تھا کہ حکومت کے خلاف بغاوت کردی جائے اور کیا حضرت عثمان اس دنیا سے "لاولد" ہوکر گئے تھے جب کہ ان کا بیٹا عمر موجود تھا ؟

ام المو منین اور طلحہ وزبیر کو قصاص عثمان کا اختیار کس قانون کے تحت حاصل ہواتھا ؟

قصاص عثمان کے لئے بصرہ کا انتخاب کیوں کیا گیا ؟ اور بصرہ کی بجائے مصر کو اس "کارخیر " کے لئے منتخب کیوں نہ کیا گیا جب کہ بلوائیوں کی اکثریت کا تعلق بھی مصر سے تھا ؟

۲۱۳

عائشہ کو علی سے پرانی عداوت تھی

تاریخ کے قارئین سے یہ امر مخفی نہیں ہے کہ حضرت عائشہ جناب علی سے حیات رسول (ص) میں ہی حسد کیا کرتی تھیں اور حضرت علی کی مخالفت ان کے رگ وریشہ میں سمائی ہوئی تھی ۔ام المومنین کے حسد کی دو وجوہات تھیں :

۱:- غزوہ بنی مصطلق کے وقت حضرت عائشہ پر جو تہمت لگی تھی ۔اس میں حضرت علی نے بی بی صاحبہ کے حامی کر کردار ادا نہیں کیا تھا ۔

۲:- بی بی عائشہ اپن بانجھ پن کی وجہ سے حضرت علی سے حسد کیا کرتی تھیں کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ رسالت مآب کی اولاد حضرت فاطمہ زہرا (س) کے بطن سے جاری ہوئی تھی۔ جب کہ حضرت عائشہ کی گود خالی تھی ۔ اسی لئے بی بی عائشہ وقتا فوقتا رسول خدا (ص) کی محبوب بیوی حضرت خدیجہ کی بھی مذمت کرنے سے باز نہیں رہتی تھیں ۔اور کئی دفعہ ام المومنین نے حضرت فاطمہ زہرا (س) کے سامنے بھی ان کی مرحومہ والدہ کا شکوہ کرکے ان کے دل کو زخمی کیا تھا ۔

واقعہ افک کی تفصیل ام المومنین نے اس طرح بیان کی ہے :- رسول خدا (ص) جب سفر کرتے تو اپنی ازواج میں قرعہ اندازی کرتے تھے ۔جس کا قرعہ نکلتا تھا ۔ آپ اسے اپنے ہمراہ لے جاتے تھے ۔جب بنی مصطلق کا غزوہ ہوا تو قرعہ میں میرا نام نکلا ۔رسول خدا مجھے اپنے ساتھ لے گئے ۔

واپسی پر مدینہ کے قریب رات کے وقت ایک منزل پر قیام کیا ۔میں حوائج ضروریہ کے لئے باہر گئی ۔اس وقت میری گردن میں ایک ہار تھا ۔جب میں نے حوائج سے فراغت حاصل کرلی تو میرا ہار گم ہوگیا ۔میں اسے ڈھونڈ نے لگ گئی ۔اور دوسری طرف سے کوچ کا نقارہ بج گیا ۔

لوگ جانے لگے مگر میں ہار ڈھونڈتی رہی ۔ہار تو آخر کا مجھے مل گیا لیکن

۲۱۴

جب میں پڑاؤ پر آئی تو وہاں کوئی شخص موجود نہ تھا میں چادر اوڑھ کر لیٹ گئی ۔

میں لیٹی ہوئی تھی کہ صفوان بن معطل سلمی جو کسی کا م کی وجہ سے پیچھے رہ گیا تھا وہ آیا ۔جب اس نے مجھے دیکھا تو پہچان لیا کہ کیونکہ آیت حجاب کے نزول سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا ۔

وہ اپنے اونٹ کو میرے قریب لایا اور مجھے اونٹ پر سوار کیا اور اس نے مجھے تیزی سے اونٹ ہنکا کر مجھے مدینہ پہنچایا اور مدینہ میں میرے خلاف چہ مگوئیوں کیا ایک سلسلہ چل نکلا اور یہ سرگوشیاں رسول خدا (ص) اور میرے والدین کے کانوں تک بھی پہنچ گئیں ۔

اس کے بعد میں نے رسول خدا (ص) کے رویہ میں تبدیلی محسوس کی ۔ ان کی شفقت و مہربانی میں مجھے کمی نظر آئی ۔ تو میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے والدین کے گھر چلی جاؤں ؟ میری طبیعت ناساز ہے ، وہاں میری والدہ میری تیمار داری کرنے کے لئے موجود ہے ۔

رسول خدا (ص) نے اجازت دی تو میں نے اپنے والدین کے گھر آگئی ۔

رسول خدا (ص) نے اس معاملہ کے لئے علی ابن ابی طالب کو بلایا اور ان سے مشورہ کیا تو علی نے کہا ۔ یا رسول اللہ ! آپ کے لئے عورتوں کی کوئی کمی نہیں اس کے بدلے آپ کسی اور عورت سے بھی شادی کرسکتے ہیں ۔ آپ کنیز سے سوال کریں وہ آپ کو بتا سکے گی ۔

رسول خدا نے بریرہ کو بلایا تو علی (ع) نے اسے سخت زد وکوب کیا اور کہا کہ رسول خدا (ص) کو سچی سچی بات بتا دے

خدا کی قسم ! رسول خدا ابھی اس مجلس سے اٹھنے نہ پائے تھے کہ ان پر وحی کی کیفیت طاری ہوگئی ۔کچھ دیر بعد آپ پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے اٹھے اور فرمایا عائشہ ! تمھیں مبارک ہو اللہ نے تمہاری برائت نازل کی ہے ۔ پھر مسطح

۲۱۵

بن اثاثہ ، حسان بن ثابت اور حمنہ بن جحش اور ان کے ہم نوا افراد پر حد قذف جاری کی گئی ۔"(۱)

درج بالا روایت سے درج ذیل امور کا اثبات ہونا ہے :

۱:- غزوہ بنی مصطلق میں ام المومنین عائشہ رسول خدا کے ساتھ تھیں ۔

۲:- واپسی میں جب لشکر ایک پڑاؤ پر ٹھہر اہوا تھا ۔ وہ کسی کو بتائے بغیر حوائج ضروریہ کے لئے چلی گئیں ۔

۳:- فراغت حاصل کرنے کے بعد پھر پڑاؤ پر واپس تشریف لائی ہی تھیں کہ انہیں ہار کی گم شدگی کا احساس ہوا

۴:- ہار کو تلاش کرنے کے لئے دوبارہ اسی مقام تک گئیں ۔ہار مل گیا لیکن جب واپس آئیں تو پورا لشکر کوچ کرکے چلا گیا تھا ۔

۵:- مایوس ہو کر چادر اوڑھ کر آپ سوگئیں ۔حسن اتفاق سے صفوان اپنے ناقہ پر آرہا تھا اور اس نے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ وہ آیت حجاب کے نزول سے پہلے انہیں دیکھ چکا تھا ۔

۶:- صفوان کی نگاہ خوب کا م کرتی تھی کہ اس نے رات کی تاریکی میں چادر کے اندر سے ہی دیکھ کر پہچان لیا تھا ۔

۷:- صفوان نے ام المومنین کو اپنی ناقہ پر بٹھا کر مدینہ لایا اور حسان بن ثابت اور چند دیگر افراد نے ام المومنین پہ تہمت لگائی ۔

۸:- جب رسول خدا نے علی (ع) سے مشورہ کیا تو انہوں نے ام المومنین کو طلاق دینے کا مشورہ دیا ۔

امام بخاری نے بھی اس روایت کو تفصیل سے لکھا ہے :- حضرت عائشہ کہتی ہیں :- جب رسو خدا درپیش سفر ہوتا تو آپ اپنی ازواج میں قرعہ ڈالتے

____________________

(۱):-طبری ۔تاریخ الامم و الملوک ۔جلد سوم ۔ص ۷۶-۷۷

۲۱۶

تھے ۔جس بی بی کا قرعہ نکلتا وہ آپ کے ساتھ سفر میں جاتی تھی ۔

ایک جنگ میں قرعہ فال میرے نام کا نکلا ۔میں حضور کریم کے ساتھ روانہ ہوئی ۔رسول خدا جنگ سے فارغ ہو کر مدینہ کی طرف آرہے ھتے کہ مدینہ کے قریب ایک مقام پر اسلامی لشکر نے پڑاؤ کیا ۔

جب کوچ کا اعلان ہوا تو میں حوائج ضروریہ کے لئے باہر چلی گئی اور میں لشکر سے دور چلی گئی ۔قضائے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد اپنے محمل تک آئی میں نے محسوس کیا کہ میرا ہار ٹوٹ گئی اور اسے ڈھونڈنے میں مصروف رہی ۔

اس اثناء میں میرے محمل کو اٹھانے والے افراد آئے اور میرے محمل کو اٹھا کر اونٹ پر رکھ یدا اور ان کا خیال تھا کہ میں اس میں موجود ہوں ۔

اس زمانے میں عورتین بڑی ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھیں ۔ ان پر گوشت نہیں چڑھا تھا کیونکہ بہت قلیل مقدار میں انہیں کھانا نصیب ہوتا تھا ۔ اس وجہ سے میرے محمل اٹھانے والوں کو بھی وہم نہ ہوا کہ میں اس میں موجود نہیں ہوں میں اس وقت کم سن لڑکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔لشکر کے جانے کے بعد مجھے ہار مل گیا ۔اور جب میں پڑاؤ پر پہنچی تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا تھا اورنہ ہی کوئی جواب دینے والا ۔میں اسی جگہ پر بیٹھ گئی ۔مجھے بیٹھے بیٹھے نیند آگئی ۔

کچھ دیر بعد صفوان بن معطل سلمی ثم الذکوانی لشکر کے پیچھے تا ۔جب میرے قریب آیا تو اس نے ایک سوئے ہوئے انسان کا ہیولا دیکھا تو مجھے پہچان لیا ۔ اس نے مجھے آیت حجاب کے نزول سے پہلے دیکھا ہوا تھا ۔ اس نے انّا للہ کی آیت زور سے پڑھی تو میں بیدار ہوگئی ۔اس نے اپنی ناقہ پہ مجھے سوار کیا اور مدینہ لے آیا "۔(۱)

____________________

(۱):- صحیح بخاری جلد سوم ۔ص ۱۵۴-۱۵۶

۲۱۷

بخاری کی روایت سے درج ذیل امور ثابت ہوتے ہیں ۔

۱:- ام المومنین کی روانگی کے وقت پڑاؤ سے نکلی تھیں اور اس وقت کوچ کا نقارہ بج چکا تھا ۔

۲:-باہر نکالتے وقت انہوں نے کسی کو بتایا بھی مناسب نہیں سمجھا تھا ۔

۳:-پورے لشکر میں سے کسی نے انہیں جاتے ہوئے بھی نہیں دیکھا تھا ۔

۴:-محمل اٹھانے والوں کو بھی آپ کا پتہ نہ چل سکا کیونکہ اس زمانے میں تمام عورتیں بشمول ام المومنین کمزور و نحیف ہوا کرتی تھیں ۔

۵:- قلت خوراک اور کم سنی کی وجہ سے بی بی صاحبہ کا وزن کچھ تھا ہی نہيں ۔

۶:- ام المومنین نے جب میدان خالی دیکھا تو وہیں چادر اوڑ کر سوگئیں ۔

۷:- صفوان لشکر کے پیچھے تھا وہ آیا تو اس نے نیند میں پڑے ہوئے انسان کو دور سے ہی دیکھ کر پہچان لیا تھا ۔ کیونکہ وہ آیت حجاب سے پہلے آپ کو دیکھ چکا تھا ۔

۸:- صفوان نے ام المومنین کو ناقہ پہ بٹھایا اور مدینہ لے آیا ۔

حضرت ام المومنین اور مولا علی علیہ السلام کے درمیان حسد کی وجوہات میں واقعہ افک کا بھی دخل ہے اس کے علاوہ کچھ اور غیر ) indirect effects )

مستقیم عوامل بھی تھے جن کی وجہ سے ام المومنین ، بنت پیغمبر اور علی مرتضی سے حسد کیا کرتی تھیں ۔

جناب عائشہ کی خواہش رہتی تھی کہ وہ رسول خدا (ص) کے محبوب بن جائیں ۔ حضرت عائشہ میں سوکن پن کا حسد اتنا تھا کہ کئی دفعہ رسول خدا(ص) کے سامنے ان کی مرحوم بیوی جناب خدیجۃ الکبری پر بھی اعتراضات کئے تھے اور رسول خدا (ص) کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ خدیجہ ایک بڈھی عورت تھی جس کے دانت

۲۱۸

ٹوٹے ہوئے تھے ۔اور اللہ نے اسکے بدلہ میں آپ کو نواجوان باکرہ بیوی دی ہے ۔

رسول خدا(ص) نے یہ الفاظ سن کر جناب عائشہ کو ڈانٹ دیا تھا کہ حضرت خدیجہ نے اس وقت میری تصدیق کی جب کہ لوگوں نے میری تکذیب کی تھی ۔ اس نے اپنا تمام مال اس وقت میرے قدموں میں نچھاور کیا تھا ۔جب لوگوں نے مجھے محروم کیا تھا اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اللہ نے اسے میری نسل کی ماں بنایا اور یہ عظیم شرف اس کے علاوہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا ۔

جی ہاں ! حضرت عائشہ اور حفصہ یہ وہی بی بیاں ہیں جن کے متعلق سورۃ تحریم نازل ہوئی اور ان دونوں کو مخاطب کرکے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :ان تتوبا الی الله فقد صغت قلوبکما وان تظاهرا علیه فانّ الله هو مولاه وجبریل وصالح المومنین و الملائکة بعد ذالک ظهیرا " تم دونوں اگر توبہ کر لو تو بہتر کیونکہ تم دونوں کے دل حق سے منحرف ہوچکے ہیں اور اگر تم دونوں نبی کے خلاف چڑھائی کرو گی تو اللہ اس کا مدد گار ہے ۔ جبریل اور نیک مومن اس کے مدد گار ہیں اور اس کے بعد تمام فرشتے اس کے پشت پناہ ہیں ۔

سورۃ تحریم کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دو ازواج نے رسول خدا کے خلاف کوئی ایسا محاذ ضرور تیار کیا تھا کہ جس کے لئے اللہ نے اپنی اور جبریل اور صالح المومنین اور ملائکہ کی مدد کا ذکر کیا ہے ۔

اس مقام پر اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کوئی محاذ نہیں تھا تو پھر اس سے پوچھنا چاہیئے کہ جب حالات بالکل اطمینان بخش تھے تو اللہ نے اتنے بڑے لشکر کا ذکر کیوں فرمایا اور ان دونوں بیویوں کو طلاق کی دھمکی کیوں دی اور ان کے دلوں کو حق سے منحرف کیوں قراردیا ؟

حضرت عائشہ کو اللہ تعالی نے اولاد سے محروم رکھا تھا ۔جب وہ حضرت سیدہ بنت رسول کو دیکھتی تھیں تو ان کے دل میں زنانہ حسد انگڑائیاں لیا کرتا تھا ۔

۲۱۹

طلحہ وزبیر کی مخالفت کی وجہ

طلحہ وزبیر کی مخالفت کی وجوہ بھی چشم تاریخ سے مخفی نہیں ہیں ۔طلحہ وزبیر دونوں خلافت کے امید وار تھے اور چند دن پہلے ہی حضرت عمر نے ان دونوں کو شوری میں شامل کیا تھا ۔ لیکن شوری کے ذریعہ سے انہیں خلافت نہیں ملی تھی اور حضرت عثمان خلیفہ عثمان خلیفہ بن گئے تھے ۔ ان دونوں نے حضرت عثمان کی خلامت کے اوائل میں ان سے خوب مفادات حاصل کئے ۔

اور جب ان دونوں نے دیکھا کہ اب ہوا کا رخ بدل چکا ہے تو انہوں نے بھی اپنا رخ ہوا کی جانب کرلیا ۔ اور ان کا خیال یہ تھا کہ اگر ہم نے حضرت عثمان کی مخالفت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تو ان کے بعد خلافت ہمیں نصیب ہوگی ۔لیکن

اے بسا آرزو کہ خاک شد

حضرت عثمان کے قتل کے بعد انہیں کسی نے خلافت کے قابل نہ سمجھا ،خلافت کی مسند پہ حضرت علی فائز ہوگئے ۔

یہ دیکھ کر ان کے غصّہ کی کوئی انتہا نہ رہی اور پھر انہوں نے نے اپنی سابقہ روش اپنائی ۔حضرت علی سے کوفہ اور بصرہ کی حکومت کا مطالبہ کیا جسے حضرت علی نے مسترد کردیا ۔

علاوہ ازیں حضرت علی (ع) کی مالی پالیسی خلفائے ثلاثہ سے بالکل جدا گانہ تھی ۔علی کسی کی شخصیت سے کبھی مرعوب نہیں ہوتے تھے ۔اور مشہور شخصیات کو جاگیر یں دے کر اپنے ساتھ ملانے پر یقین نہیں رکھتے تھے ۔ جب کہ یہ دونوں بزرگوار بڑی بڑی جاگیریں حاصل کرنے کے عادی ہوچکے تھے ۔

عثمانی دور میں ان دونوں نے بیت المال سے جو حصہ لیا تھا ۔ اس کی

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' اپنی زبان کو قابو اور اس کی حفاظت کر یہ نفس کے لئے بہترین ہدیہ ہے_ انسان صحیح اور حقیقی ایمان تک نہیں پہنچتا مگر یہ کہ وہ اپنی زبان کی نگاہ داری اور حفاظت کرے_(۴۲۱)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تین چیزیں فہم اور فقہ کی علامت ہیں تحمل اور بردباری _ علم اور سکوت_ ساکت رہنا دانائی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے_ ساکت رہنا محبت کا سبب ہوتا ہے اور ہر نیکی کی دلیل ہے_(۴۲۲)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' جب عقل کامل ہوتی ہے تو گفتگو ہو جاتی ہے_(۴۲۳)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے ''کوئی بھی عبادت ساکت رہنے اور خانہ کعبہ کی طرف پیدل جانے سے افضل نہیں ہے_(۴۲۴)

رسول خدا نے جناب ابوذر سے فرمایا کہ '' میں تجھے زیادہ ساکت رہنے کی سفارش کرتا ہوں اس واسطے کہ اس وسیلے سے شیطن تم سے دور ہوجائے گا_ دین کی حفاظت کے لئے ساکت رہنا بہتر مددگار ہے_(۴۲۵)

خلاصہ انسان سالک اور عارف پر ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان پر پوری طرح کنٹرول کرے اور سنجیدہ اور سوچ سمجھ کر بات کرے اور زیادہ اور بیہودہ باتیں کرنے سے پرہیز کرے دنیاوی امور میں ضرورت کے مطابق باتیں کرے جو اسے زندگی کرنے کے لئے ضروری ہیں اور اس کے عوض اللہ تعالی کا ذکر اور ورد اور علمی مطالب اور فائدہ مند اور اجتماع کے لئے مفید گفتگو کرنے میں مشغول رہے _ ہمارے بزرگاور عارف ربانی استاد علامہ طباطبائی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ساکت رہنے کے گراں قدر آثار مشاہدہ کئے ہیں_ چالیس شب و روز ساکت رہنے کو اختیار کیجئے اور سوائے ضروری کاموں کے باتیں نہ کریں اور فکر اور ذکر خدا میں مشغول رہیں تا کہ تمہارے لئے نورانیت اور صفاء قلب حاصل ہو سکے_

۲۴۱

چھٹی رکاوٹ

اپنی ذات اور اپنے اپ سے محبت ہے اگر عارف انسان نے تمام رکاوٹیں دور کر لی ہوں تو پھر اس کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ سامنے آتی ہے اور وہ ہے اس کا جب ذات یعنی اپنی ذات سے محبت کرنا_ وہ متوجہ ہوگا کہ اس کے تمام کام اور حرکات یہاں تک کہ اس کی عبادت و غیرہ کرنا سب کے سب اپنی ذات کی محبت کیوجہ سے انجام پارہے ہیں_ عبادت ریاضت ذکر اور دعا نماز اور روزے اس لئے انجام دے رہا ہے تا کہ اپنے نفس کو کامل کرے اور اسے ان کی اجزاء آخرت میں دی جائے گرچہ اس طرح کی عبادت کرنا بھی انسان کو بہشت اور آخرت کے ثواب تک پہنچا دیتی ہے لیکن وہ ذکر اور شہود کے بلند و بالا مقام اور رتبہ تک نہیں پہنچاتی جب تک اس کا نفس حب ذات کو ترک نہ کرے اور وہ اللہ تعالی کے بے مثال جمال کا مشاہدہ نہیں کر سکے گا جب تک تمام حجاب اور موانع یہاں تک کہ حب ذات کا حجاب اور مانع بھی ترک نہ کرے اس صورت میں وہ انوار الہی کا مرکز بننے کی قابلیت اور استعداد پیدا نہیں کر سکے گا_ لہذا عارف اور سالک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ریاضت اور مجاہدہ کر کے اپنے آپ کو حب ذات کی حدود سے باہر نکالے اپنی ذات کی محبت کو خدا کی محبت میں تبدیل کر دے اور تمام کاموں کو صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے بجا لائے اگر غذا کھاتا ہے تو اس غرض سے کھائے کہ اس کے محبوب نے زندہ رہنے کے لئے اسے ضروری قرار دیا ہے اور اگر عبادت کرتا ہے تو اسے اس نیت سے بجالائے کہ ذات الہی ہی عبادت اور پرستش کی سزاوار اور مستحق ہے_ اس طرح کا انسان نہ دینا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے اور نہ آخرت کا بلکہ وہ صرف خدا کا طلب کرنے والا ہوتا ہے_ یہاں تک کہ وہ کشف اور کرامت کا طلبکار بھی نہیں ہوتا اور سوائے حقیقی معبود کے اس کا کوئی اور مطلوب اورمنظور نظر نہیں ہوتا_ اگر کوئی اس مرحلے کو طے کر لے یہاں تک کہ اپنی شخصیت اور ذات کو اپنے آپ سے جدا کردے تو وہ مقام توحید میں

۲۴۲

قدم رکھ لے گا اور شہود اور لقاء اللہ کے بلند اور بالا مقام تک ترقی کر جائیگا اور بارگاہ مقعد صدق عند ملیک مقتدر میں نازل ہوجائیگا_

ساتویں رکاوٹ

کمال اور عرفان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اور شاید یہ سابقہ تمام رکاوٹوں سے بھی زیادہ ہو وہ ہے ارادہ کا ضعیف ہونا_ اور حتمی فیصلے کرنے کی قدرت نہ رکھنا _ یہ رکاوٹ اور مانع انسان کو عمل شروع کرنے سے روک دیتی ہے_ شیطن اور نفس کرتا ہے کہ انسان کو ظاہر ی ذمہ داری اور وظائف شرعی کی بجالانے کو کافی قرار دے گرچہ اس میں حضور قلب اور توجہہ نہ بھی ہو_ شیطن انسان کو کہتا ہے کہ تو صرف انہیں عبادت کے بجالانے کے سوا اور کوئی شرعی وظیفہ نہیں رکھتا تجھے حضور قلب اور توجہہ اور ذکر سے کیا کام ہے؟ اور اگر کبھی انسان اس کی فکر کرنے بھی لگے تو اسے سینکٹروں حیلے اور بہانوں سے روک دیتا ہے اور کبھی اس مطلب کو اس کرے لئے اتنا سخت نمایاں کرتا ہے کہ انسان اس سے مایوس اور نامید ہوجاتا ہے لیکن اس انسان کے لئے جو کمال حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہے ضروری ہے کہ وہ شیطن اور نفس امارہ کے ایسے وسوسوں کے سامنے رکاوٹ بنے اور احادیث اور آیات اور اخلاق کی کتابوں کے مطالعے کرنے سے معلوک کرے کہ سیر اور سلوک کے لئے حضور قلب اور ذکر و شہود کی کتنی ضرورت اور اہمیت ہے اور جب اس نے اس کی اہمیت کو معلوم کر لیا اور اپنی ابدی سعادت کو اس میں دیکھ لیا تو پھر حتمی طور سے اس پر عمل کرے گا اور مایوسی اور ناامیدی کو اپنے سے دور کردے گا اور اپنے آپ سے کہے گا کہ یہ کام گرچہ مشکل ہے اور چونکہ اخروی سعادت اس سے وابستہ ہے لہذا ضرور مجھے اس پر عمل کرنا چاہئے_ اللہ تعالی فرماتا ہے جو ہمارے راستے

۲۴۳

میں کوشش اور جہاد کرتے ہیں ہم اس کو اپنے راستوں کی راہنمائی کر دیتے ہی_

و الذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا (۴۲۶)

ہماری یہ ساری بحث اور کلام تکامل اور تقرب الہی کے پہلے وسیلے اور ذریعے میں تھی یعنی اللہ تعالی کے ذکر میں تھی _ بحث کی طوالت پر ہم معذرت خواہ ہیں_

۲۴۴

دوسرا وسیلہ

فضائل اور مکارم اخلاق کی تربیت

نفس کے کمال تک پہنچنےاور قرب الہی کے حاصل کرنے کے لئے ایک وسیلہ ان اخلاقی کی جو انسان کی فطرت اور سرشت میں رکھ دیئے گئے ہیں پرورش اور تربیت کرنا ہے_ اچھے اخلاق ایسے گران بہا امور ہیں کہ جن کا ربط اور سنخیت انسان کے ملکوتی روح سے ہے ان کی تربیت اور پرورش سے انسان کی روح کامل سے کاملتر ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے بلند و بالا مقام قرب تک پہنچتا ہے_ اللہ تعالی کی مقدس ذات تمام کمالات کا منبع اور سرچشمہ ہے_ انسان چونکہ عالم بالا سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنی پاک فطرت سے کمالات انسانی کو کہ جن کی عالم بالا سے مناسبت ہے انہیں خوب پہچانتا ہے اور فطرتا ان کی طرف مائل ہے اسی لئے تمام انسان تمام زمانوں میں نیک اخلاق کو جانتے اور درک کرتے ہیں جیسے عدالت_ ایثار_ سچائی_ امانتداری _ احسان _ نیکی_ شجاعت_ صبر اور استقامت علم خیر خواہی مظلوموں کی مدد شکریہ احسان شناسی سخاوت اور بخشش_ وفا

۲۴۵

عہد_ توکل_ تواضع اور فروتنی_ عفو اور درگزر_ نرمی مزاجی _ خدمت خلق و غیرہ ان تمام کو ہر انسان خوب پہچانتے اور جانتے ہیں خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتاہے_ کہ قسم نفس کی اور اس کی کہ اسے نیک اور معتدل بنایا ہے اور تقوی اور منحرف ہوجانے کا راستہ اسے بتلایا ہے کامیاب وہ ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک بنایا اور نقصان میں ہوگا وہ کہ جس نے اپنے نفس کو آلودہ اور ناپاک بنایا_(۴۳۷)

جب اخلاقی کام بار بار انجام دیئے جائیں تو وہ نفس میں راسخ اور ایک قسم کا ملکہ پیدا کر لیتے ہیں وہی انسان کو انسان بنانے اور اپنا نے اور ہوجانے میں موثر اور اثر انداز ہوتے ہیں اسی واسطے اسلام اخلاق کے بارے میں ایک خاص طرح کی اہمیت قرار دیتا ہے_ اسلام کا ایک بہت بڑا حصہ اخلاقیات پر مشتمل ہے_ سینکٹروں آیات اور روایات اخلاق کے بارے میں وارد ہوئی ہیں_ قرآن مجید کی زیادہ آیتیں اخلاق کے بارے میں اور اخلاقی احکام پر مشتمل ہیں یہاں تک کہ اکثر قرآن کے قصوں سے غرض اور غایت بھی اخلاقی احکام امور ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید ایک اخلاقی کتاب ہے _ قاعدتا پیغمبروں کے بھیجنے کی ایک بہت بڑی غرض اور غایت بھی نفس کو پاک اور صاف بنانا اور اخلاق کی اور پرورش کرنا ہے_ ہمارے پیغمبر علیہ السلام نے بھی اپنی بعثت اور بھیجے جانے کی غرص اخلاق کی تکمیل کرنا اور نیک اخلاق کی تربیت کرنا بتلائی ہے اور فرمایا ہے کہ '' میں اللہ تعالی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں تا کہ نیک اخلاق کو پورا اور تمام کروں_(۴۲۸)

پیغمبر اسلام لوگوں سے فرماتے تھے کہ '' میں نیک اخلاق کی تمہیں نصیحت اور وصیت کرتا ہوں کیونکہ خداوند عالم نے مجھے اسی غرض کے لئے بھیجا ہے_(۴۲۹)

نیز پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں اخلاق حسنہ سے کوئی چیز افضل ہو نہیں رکھی جائیگی_(۴۳۰)

۲۴۶

تیسرا وسیلہ

عمل صالح

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد انسان کے تکامل کا وسیلہ اعمال صالح ہیں کہ جن کی وجہ سے انسان قرب خدا اور درجات عالیہ کو حاصل کر سکتا ہے اور اپنی اخروی زندگی کو پاک و پاکیزہ بنا سکتا ہے_ قرآن مجید میں ہے کہ '' جو شخص نیک اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو یا عورت جب کہ ایمان رکھتا ہو ہم اس کو ایک پاکیزہ میں اٹھائیں گے اور اسے اس عمل سے کہ جسے وہ بجا لایا ہے_ بہتر جزاء اور ثواب دیں گے_(۴۳۱)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لئے دنیا کی زندگی کے علاوہ ایک اور پاک و پاکیزہ زندگی ہے اور وہ نئی زندگی اس کے ایمان اور عمل صالح کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے_ قرآن فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ خداوند عالم کی طرف لوٹیں یہی وہ لوگ ہیں جو مقامات اور درجات عالیہ پر فائز ہوتے ہیں_(۴۳۲)

خداوند عالم فرماتا ہے کہ '' جو انسان اللہ تعالی کی ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے نیک عمل بجالانا چاہئے اور عبادت میں خدا کا کوئی شریک قرار نہ دینا چاہئے_(۴۳۳)

نیز اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو شخص عزت کا طلبکار ہے تو تمام عزت اللہ تعالی کے

۲۴۷

پاس ہے کلمہ طیبہ اور نیک عمل اللہ تعالی کی طرف جاتا ہے_(۴۳۴)

اللہ تعالی اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام عزت اور قدرت اللہ کے لئے مخصوص ہے اسی کے پاس ہے اور کلمہ طیبہ یعنی موحد انسان کی پاک روح اور توحید کا پاک عقیدہ ذات الہی کی طرف جاتا ہے اور اللہ تعالی نیک عمل کو اپنے پاس لے جاتا ہے_ نیک عمل جب خلوص نیت سے ہو تو انسان کی روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے ترقی اور کمال دیتا ہے_ قرآن مجید سے معلوم ہوتاہے کہ آخرت کی پاک و پاکیزہ زندگی اور اللہ تعالی سے قرب اور القاء کا مرتبہ ایمان اور عمل صالح کے ذریعے حاصل ہوتا ہے_ قرآن مجید نے نیک اعمال کے بجا لانے پر بہت زیادہ زور دیا ہے خدا سعادت اور نجات کا وسیلہ صرف عمل صالح کو جانتا ہے نیک عمل کا معیار اور میزان اس کا شریعت اور وحی الہی کے مطابق ہونا ہوا کرتا ہے_ خداوند عالم جو انسان کی خصوصی غرض سے واقف ہے اس کی سعادت اور تکامل کے طریقوں کو بھی جانتا ہے اور ان طریقوں کو وحی کے ذریعے پیغمبر اسلام کے سپرد کر دیا ہے تا کہ آپ انہیں لوگوں تک پہنچا دیں اور لوگ ان سے استفادہ حاصل کریں_

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں جب خدا اور اس کا رسول تمہیں کسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی عطا کرتی ہیں تو اسے قبول کرو_(۴۳۵)

نیک اعمال شرعیت اسلام میں واجب اور مستحب ہوا کرتے ہیں_ عارف اور سالک انسان ان کے بجالانے سے اللہ تعالی کی طرف سیر و سلوک کرتے ہوئے قرب الہی کے مقام تک پہنچ سکتا ہے اور یہی تنہا قرب الہی تک پہنچنے کا راستہ ہے اور دوسرے جتنے راستے ہیں وہ عارف کو اس مقصد تک نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ ٹیڑھے راستے ہیں_ عارف انسان کو مکمل طور سے شرعیت کا مطیع اور فرمانبردار ہونا چاہئے اور سیر و سلوک کے لیے شرعیت کے راستے کے علاوہ اور کوئی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے اور ان اذکار اور اوراد اور حرکت سے کہ جس کا شرعیت اسلام میں کوئی مدرک اور

۲۴۸

ذکر موجود نہ ہو اس سے اجتناب اور پرہیز کرنا چاہئے نہ صرف وہ مقصد تک نہیں پہنچاتے بلکہ وہ اس کو مقصد سے دور بھی کر دیتے ہیں کیونکہ شرعیت سے تجاوز کرنا بدعت ہوا کرتا ہے_ عارف اور سالک انسان کو پہلے کوشش کرنی جاہئے کہ وہ واجبات اور فرائض دینی کو صحیح اور شرعیت کے مطابق بجالائے کیونکہ فرائض اور واجبات کے ترک کردینے سے مقامات عالیہ تک نہیں پہنچ سکتا گرچہ وہ مستحبات کے بجالائے اور ورد اور ذکر کرنے میں کوشاں بھی رہے_ دوسرے مرحلے میں مستحبات اور ذکر اور ورد کی نوبت آتی ہے_ عارف انسان اس مرحلے میں اپنے مزاجی استعداد اور طاقت سے مستحبات کے کاموں کا بجا لائے اور جتنی اس میں زیادہ کوشش کرے گا اتنا ہی عالی مقامات اور رتبے تک جا پہنچے گا_ مستحبات بھی فضیلت کے لحاظ سے ایک درجے میں نہیں ہوتے بلکہ ان میں بعض دوسرے بعض سے افضل ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں بہتر اور جلدی مقام قرب تک پہنچاتے ہیں جیسے احادیث کی کتابوں میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے_ عارف انسان نمازیں دعائیں ذکر اور اوراد کتابوں سے انتخاب کرے اور اس کو ہمیشہ بجا لاتا رہے جتنا زیادہ اور بہتر بجا لائیگا اتنا صفا اور نورانیت بہتر پیدا کرے گا اور مقامات عالیہ کی طرف صعود اور ترقی کرے گا ہم یہاں کچھ اعمال صالح کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور باقی کو کتابوں کی طرف مراجعہ کرنے کا کہتے ہیں لیکن اس کا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ فرائض اور نوافل ذکر اور ورد اس صورت میں عمل صالح ار موجب قرب ہونگے جب انہیں بطور اخلاص بجا لایا جائے_ عمل کا صالح اور نیک اور موجب قرب ہونا اخلاص اور خلوص کی مقدار کے لحاظ سے ہوگا لہذا پہلے ہم اخلاص اور خلوص میں بحث کرتے ہیں پھر کچھ تعداد اعمال صالح کی طرف اشارہ کریںگے_

اخلاص

اخلاص کا مقام اور مرتبہ تکامل اور سیر و سلوک کے اعلی ترین مرتبے میں سے ایک ہے اور خلوص کی کی وجہ سے انسان کی روح اور دل انوار الہی کا مرکز بن جاتا ہے

۲۴۹

اور اس کی زبان سے علم اور حکمت جاری ہوتے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خدا کے لئے چالیس دن خالص اور فارغ ہوجائے تو اس کے دل سے حکمت اور دانائی کے چشمے ابلتے اور جاری ہوجاتے ہیں_(۴۳۶)

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' کہاں ہیں وہ لوگ جو اپنے اعمال کو خدا کے لئے خالص بجالاتے ہیں اور اپنے دلوں کو اس لئے کہ اللہ تعالی کی وجہ کا مرکز پاک رکھتے ہیں_(۴۳۷)

حضرت زہراء علیہا السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص خالص عبادت اللہ تعالی کی طرف بھیجے اللہ تعالی بھی بہترین مصلحت اس پر نازل فرماتا ہے_(۴۳۸)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے '' بندوں کا پاک دل اللہ تعالی کی نگاہ کا مرکز ہوتا ہے جس شخص نے دل کو پاک کیا وہ اللہ تعالی کا مورد نظر قرار پائیگا_(۴۳۹)

پیغمبر علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام سے نقل کیا ہے اور اس نے اللہ تعالی سے نقل کیا ہے کہ '' خلوص اور اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ جس شخص کو میں دوست رکھتا ہوں اس کے دل میں یہ قرار دے دیتا ہوں_(۴۴۰)

خلوص کے کئی مراتب اور درجات ہیں_ کم از کم اس کا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی عبادت کو شرک اور ریاء اور خودنمائی سے پاک اور خالص کرے اور عبادت کو صرف خدا کے لئے انجام دے خلوص کی اتنی مقدار تو عبادت کے صحیح ہونے کی شرط ہے اس کے بغیر تو تقرب ہی حاصل نہیں ہوتا عمل کی قیمت اور ارزش اس کے شرک اور ریاء سے پاک اور خالص ہونے پر موقوف ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم تمہاری شکل اور عمل کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے_(۴۴۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں بہترین شریک ہوں جو شخص کسی دوسرے کو عمل میں شریک قرار دے (تو تمام عمل کو اسی

۲۵۰

کے سپرد کر دیتا ہوں) میں سوائے خالص عمل کے قبول نہیں کرتا _(۴۴۲) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم لوگوں کو قیامت میں ان کی نیت کے مطابق محشور کرے گا_(۴۴۳)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' خوش نصیب ہے وہ شخص جو عبادت اور دعا کو صرف خدا کے لئے انجام دیتا ہے اور اپنی آنکھوں کو ان میں مشغول نہ کرے جو آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کی وجہ سے جو اس سے کان پر پڑتا ہے اللہ تعالی کے ذکر کو فراموش نہ کرے اور جو چیزیں دوسروں کو دی گئی ہیں ان پر غمگین نہ ہو_(۴۴۴)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے_ ''عمل میں خلوص سعادت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے_(۴۴۵) اللہ تعالی کے ہاں وہ عبادت قبول ہوتی ہے اور موجب قرب اور کمال ہوتی ہے جو ہر قسم کے ریاء اور خودپسندی اور خودنمائی سے پاک اور خالص ہو اور صرف اور صرف خدا کے لئے انجام دی جائے عمل کی قبولیت اور ارزش کا معیار خلوص اور اخلاص ہے جتنا خلوص زیادہ ہوگا اتناہی عمل کامل تر اور قیمتی ہوگا_ عبادت کرنے والے کئی طرح کے ہوتے ہیں_

ایک وہ لوگ جو اللہ تعالی کے عذاب اور جہنم کی آگ کے خوف اور ڈر سے عبادت بجا لاتے ہیں_

دوسرے وہ لوگ ہیں جو بہشت کی نعمتوں اور آخرت کے ثواب کے لئے اوامر اور نواہی کی اطاعت کرتے ہیں ان کا اس طرح کا عمل اس کے صحیح واقع ہونے کے لئے تو مضر نہیں ہوتا ان کا ایسا عمل صحیح اور درست ہے اور موجب قرب اور ثواب بھی ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث میں لوگوں کو راہ حق کی ہدایت اور ارشاد اور تبلیغ کے لئے غالبا انہیں دو طریقوں سے استفادہ کیا گیا ہے بالخصوص پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء اللہ خداوند عالم کے عذاب سے ڈرتے تھے اور جزع اور فزع کیا کرتے تھے اور بہشت اور اس کی نعمتوں کے لئے شوق اور امید کا اظہار کیا کرتے تھے_

۲۵۱

تیسرے وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانہ کے لئے اللہ تعالی کی پرستش اور عبادت کیا کرتے ہیں اس طرح کا عمل بجا لانا اسکے منافی نہیں جو عمل کے قبول ہونے میں خلوص شرط ہے اسی واسطے احادیث میں لوگوں کو عمل بجالانے کی ترغیب اور شوق دلانے میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے تا کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالی کے احکام کی اطاعت کریں بلکہ خود پیغمبر علیہ السلام اور ائمہ اطہار نے عبادت میں انہماک اور کوشش کرنے کا سبب یہ بتلایا ہے کہ کیا ہم اللہ کے شکر گزار بندے قرار نہ پائیں(افلا اکون عبدا شکورا)گر چہ ان تینوں کے اعمال قابل قبول واقع ہوتے ہیں لیکن تیسرے قسم کے لوگ ایک خاص امتیاز اور قیمت رکھتے ہیں کیونکہ ان میں خلوص زیادہ ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں وہ تین قسم کے ہوتے ہیں ایک قسم وہ ہے جو آخرت کے ثواب حاصل کرنے کے لئے خدا کی عبادت کرتے ہیں_ ان لوگوں کا کردار تاجروں والا ہے دوسری قسم وہ ہے جو جہنم کے خوف سے اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں یہ اطاعت اور عبادت غلاموں اور نوکر والی ہے_ تیسری قسم وہ ہے جو اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکرانے کے ادا کرنے کے لئے عبادت کرتے ہیں یہ عبادت آزاد مردوں والی عبادت ہے_(۴۴۶)

چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جو نفس کی تکمیل اور روح کی تربیت کے لئے عبادت کرتے ہیں اس طرح کا م قصد بھی اس خلوص کو جو عبادت کے صحیح ہونے میں شرط ضرر نہیں پہنچاتا_

پانچویں قسم اللہ کے ان ممتاز اور مخصوص بندوں کی ہے کہ جنہوں نے خدا کو اچھی طرح پہنچان لیا ہے اور جانتے ہیں کہ تمام کمالات اور نیکیوں کا منع اور سرچشمہ خدا ہے اس کی عبادت کرتا ہے اور چونکہ وہ اللہ کی بے انتہا قدرت اور عظمت کی طرف متوجہ ہیں اور اس ذات کے سوا کسی اور کو موثر نہیں دیکھتے صرف اسی ذات کو پرستش اور عبادت کے لائق سمجھتے ہیں اسی لئے خدا کو دوست رکھتے ہیں اور اس کی قدرت اور

۲۵۲

عظمت کے سامنے خضوع اور خشوع کرتے ہیں اور یہ اخلاص اور خلوص کا اعلی ترین درجہ اور مرتبہ ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ عبادت کرنے والے تین گروہ ہیں_ ایک گروہ ثواب کی امید میں عبادت کرتا ہے یہ عبادت حریص لوگوں کی ہے کہ جن کی غرض طمع ہوتا ہے دوسرا گروہ وہ ہے جو دوزخ کے ڈر سے عبادت کرتا ہے_ یہ عبادت غلاموں کی عبادت ہے کہ خوف اس کا سبب بنتا ہے لیکن میں چونکہ خدا کو دوست رکھتا ہوں اسی لئے اس کی پرستش اور عبادت کرتا ہوں یہ عبادت بزرگوں اور اشراف لوگوں کی ہے اس کا سبب اطمینان اور امن ہے اللہ تعالی فرماتا ہے (و ہم فزع یومئسذ امنون کہ وہ قیامت کے دن امن میں ہیں_ نیز اللہ فرماتا ہے ''قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله و یغفر لکم ذنوبکم _(۴۴۷) امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے '' اے میرے مالک_ میں تیری عبادت نہ دوزخ کے خوف سے اور نہ بہشت کے طمع میں کرتا ہے بلکہ میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں کے تجھے عبادت اور پرستش کے لائق جانتا ہوں_(۴۴۸)

یہ تمام گروہ مخلص ہیں اور ان کی عبادت قبول واقع ہوگی لیکن خلوص اور اخلاص کے لحاظ سے ایک مرتبے میں نہیں ہیں بلکہ ان میں کامل اور کاملتر موجود ہیں پانچویں قسم اعلی ترین درجہ پر فائز ہے لیکن یہ واضح رہے کہ جو عبادت کے اعلی مرتبہ پر ہیں وہ نچلے درجہ کو بھی رکھتے ہیں اور اس کے فاقد نہیں ہوتے بلکہ نچلے درجے کے ساتھ اعلی درجے کو بھی رکھتے ہیں_ اللہ تعالی کے مخلص اور صدیقین بندے بھی اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں اور ان کے لطف اور کرم کی امید رکھتے ہیں اللہ تعالی کی نعمتوں کے سامنے شکر ادا کرتے ہیں اور معنوی تقرب اور قرب کے طالب ہوتے ہیں لیکن ان کی عبادت کا سبب فقط یہی نہیں ہوتا اور چونکہ وہ خدا کی سب سے اعلی ترین معرفت رکھتے ہیں اسی لئے اس کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں یہ اللہ تعالی کے ممتاز اور منتخب بندے ہیں مقامات عالیہ کے علاوہ نچلے سارے درجات رکھتے ہیں کیونکہ جو انسان تکامل

۲۵۳

کے لئے سیر و سلوک کرتا ہے جب وہ اعلی درجے تک پہنچتا ہے تو نچلے درجات کو بھی طے کر کے جاتا ہے_

اب تک جو ذکر جو ذکر ہوا ہے وہ عبادت میں خلوص اور اخلاص تھا لیکن خلوص صرف عبادت میں منحصر نہیں ہوتا بلکہ عارف انسان تدریجا ایک ایسے مقام تک جا پہنچتا ہے کہ وہ خود اور اس کا دل اللہ تعالی کے لئے خالص ہو جاتا ہے اور تمام غیروں کو اپنے دل سے اس طرح نکال دیتا ہے کہ اس کے اعمال اور حرکات اور افکار خداوند عالم کے ساتھ اختصاص پیدا کر لیتے ہیں اور سوائے اللہ تعالی کی رضایت کے کوئی کام بھی انجام نہیں دیتا اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور خدا کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتا_ اس کی کسی سے دوستی اور دشمنی صرف خدا کے لئے ہوا کرتی ہے اور یہ اخلاص کا اعلی ترین درجہ ہے_

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس کا عمل اور علم محبت اور بغض کرنا اور نہ کرنا بولنا اور ساکت رہنا تمام کا تمام خدا کے لئے خالص ہو_(۴۴۹)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جس شخص کی محبت اور دشمنی خرچ کرنا اور نہ کرنا صرف خدا کے لئے ہو یہ ان انسانوں میں سے ہے کہ جس کا ایمان کامل ہوتا ہے_(۴۵۰) امام جعفر صادق علیہ السلام نے ''فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے جس بندے کے دل میں سوائے خدا کے اور کوئی چیز نہ رکھی ہو تو اس کو اس سے اور کوئی شریف ترین چیز عطا نہیں کی_(۴۵۱)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کہاں ہے وہ دل جو اللہ تعالی کو بخش دیا گیا ہو اور اس کی اطاعت کا پیمان اور عہد بناندھا گیا ہو_(۴۵۲)

جب کوئی عارف انسان اس مرتبے تک پہنچ جائے تو خدا بھی اس کو اپنے لئے خالص قرار دے دیتا ہے اور اپنی تائید اور فیض اور کرم سے اس کو گناہوں سے محفوظ

۲۵۴

کر دیتا ہے اس طرح کا انسان مخلص پہچانا جاتا ہے اور مخلص انسان اللہ تعالی کے ممتاز بندوں میں سے ہوتے ہیں_

خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے کہ '' ہم نے ان کو آخرت کی یاد کے لئے خالص قرار دے دیا ہے_(۴۵۳)

قرآن کریم حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' یقینا و ہ خالص ہوگیا ہے اور رسول اور پیغمبر ہے_(۴۵۴)

اللہ تعالی کے خالص بندے ایک ایسے مقام تک پہنچتے ہیں کہ شیطن ان کو گمراہ کرنے سے ناامید ہوجاتا ہے قرآن کریم شیطن کی زبان نقل کرتا ہے کہ اس نے خداوند عالم سے کہا کہ '' مجھے تیری عزت کی قسم کہ میں تیرے تمام بندوں کو سوائے مخلصین کے گمراہ کروں گا اور مخلصین کے گمراہ کرنے میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے_(۴۵۵) بلکہ اخلاص کے لئے روح اور دل کو پاک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور عبادت کرنے میں کوشش اور جہاد کرنا ہوتا ہے_ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''عبادت کا نتیجہ اور ثمر اخلاص ہوتا ہے_(۴۵۶)

جیسے کہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ چالیس دن تک عبادت اور ذکر کو برابر بجا لانا دل کے صفا اور باطنی نورانیت اور مقام اخلاص تک پہنچنے کے لئے سبب اور موثر اورمفید ہوتاہے نہ صرف ایک دفعہ بلکہ تدریجا اور اخلاص کے باطنی مراحل طے کرتے رہنے سے ایسا ہو سکتا ہے_

۲۵۵

کچھ نیک اعمال

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کو تکامل تک پہچانے اور قرب اور ارتقاء کے مقام تک لے جانے کا راستہ صرف اور صرف وحی الہی اور شرعیت کی پیروی کرنے میں منحصر ہے اور یہی وہ راستہ ہے کہ جسے انبیاء علیہم السلام نے بیان کیا ہے او رخود اس پر عمل کیا ہے اور اسے واجبات اور مستحبات سے بیات کیا ہے یہی عمل صالح ہے_ عمل صالح یعنی واجبات اور مستحبات جو اسلام میں بیان کئے گئے ہیں اور انہیں قرآن اور احادیث اور دعاؤں کی کتابوں میں لکھا گیا ہے آپ انہیں معلوم کر سکتے ہیں اور ان پر عمل کر کے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن ہم یہاں پر ان میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہیں_

اول: واجب نمازیں

قرب الہی اور سیر و سلوک معنوی کے لئے نماز ایک بہترین سبب اور عامل ہے_ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر پرہیزگار انسان کے لئے نماز قرب الہی کا وسیلہ ہے_(۴۵۷)

معاویہ بن وھب نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ بہترین وسیلہ جو بندوں کو خدا کے نزدیک کرتا ہے اور خدا اسے دوست رکھتا ہے کیا ہے؟ آپ نے فرمایا

۲۵۶

اللہ کی معرفت کے بعد میں نماز سے بہتر کوئی اور کسی چیز کو وسیلہ نہیں پاتا کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی کے نیک بندے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' خدا نے مجھے جب تک زندہ ہوں نماز اور زکوة کی سفارش ہے_(۴۵۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اللہ تعالی کے نزدیک نماز محبوب ترین عمل ہے_ انبیاء کی آخری وصیت نماز ہے_ کتنا ہی اچھا ہے کہ انسان غسل کرے اور اچھی طرح وضوء کرے اس وقت ایک ایسے گوشہ میں بیٹھ جائے کہ اسے کوئی نہ دیکھے اور رکوع اور سجود میں مشغول ہوجائے جب انسان سجدے میں جائے اور سجدے کو طول دے تو شیطن داد اور فریاد کرتا ہے کہ اس بندے نے خدا کی اطاعت کی اور سجدہ کیا اور میں نے سجدے کرنے سے انکار کر دیا تھا_(۴۵۹)

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' ایک بندہ کی خدا کے نزدیک ترین حالت اس وقت ہوتی ہے جب وہ سجدے میں ہوتا اس واسطے کہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ واسجد و اقترب_(۴۶۰)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ''جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو آسمان سے اس پر اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوتی ہے اور اس کے ارد گرد ملائکہ گھیرا کر لیتے ہیں ایک فرشتہ کہتا ہے کہ اگر یہ نماز کی ارزش اور قیمت کو جانتا تو کبھی نماز سے روگردانی نہ کرتا_(۴۶۱)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے '' جب مومن بندہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خداوند عالم نماز سے فارغ ہونے تک اس کی طرف نگاہ کرتا ہے اور آسمان سے اللہ تعالی کی رحمت اسے گھیر لیتی ہے اور فرشتے اس کے اردگرد گھیرا ڈال دیتے ہیں خداوند اس پر ایک فرشتے کو معین کر دیتا ہے جو اسے کہتا ہے کہ اے نماز پڑھتے والے اگر تو جان لیتا کہ تو کس کی توجہ کا مرکز ہے اور کس سے مناجات کر رہا ہے تو پھر تو کسی دوسری چیز کی طرف ہرگز توجہ نہ کرتا اور کبھی یہاں سے باہر نہ جاتا_(۴۶۲)

۲۵۷

نماز میں حضور قلب

نماز ایک ملکوتی اور معنوی مرکب ہے کہ جس کی ہر جزو میں ایک مصلحت اور راز مخفی ہے_ اللہ تعالی سے راز و نیاز انس محبت کا وسیلہ اور ارتباط ہے_ قرب الہی اور تکامل کا بہترین وسیلہ ہے_ مومن کے لئے معراج ہے برائیوں اور منکرات سے روکنی والی ہے_ معنویت اور روحانیت کا صاف اور شفاف چشمہ ہے جو بھی دن رات میں پانچ دفعہ اس میں جائے نفسانی آلودگی اور گندگی سے پاک ہو جاتا ہے اللہ تعالی کی بڑی امانت اور اعمال کے قبول ہونے کا معیار اور ترازو ہے_

نماز آسمانی راز و اسرار سے پر ایک طرح کا مرکب ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ اس میں روح اور زندگی ہو_ نماز کی روح حضور قلب اور معبود کی طرف توجہہ اور اس کے سامنے خضوع اور خشوع ہے_ رکوع اور سجود قرات اور ذکر تشہد اور سلام نماز کی شکل اور صورت کو تشکیل دیتے ہیں_ اللہ تعالی کی طرف توجہ اور حضور قلب نماز کے لئے روح کی مانند ہے_ جیسے جسم روح کے بغیر مردہ اور بے خاصیت ہے نماز بھی بغیر حضور قلب اور توجہ کے گرچہ تکلیف شرعی تو ساقط ہو جاتی ہے لیکن نماز پڑھنے والے کو اعلی مراتب تک نہیں پہنچاتی نماز کی سب سے زیادہ غرض اور غایت اللہ تعالی کی یاد اور ذکر کرنا ہوتا ہے_ خداوند عالم پیغمبر علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ '' نماز کو میری یاد کے لئے برپا کر_( ۴۶۴)

قرآن مجید میں نماز جمعہ کو بطور ذکر کہا گیا ہے یعنی '' اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو موجب نماز جمعہ کے لئے آواز دی جائی تو اللہ تعالی کے ذکر کی طرف جلدی کرو_(۴۶۵)

نماز کے قبول ہونے کا معیار حضور قلب کی مقدار پر قرار پاتا ہے جتنا نماز میں حضور قلب ہوگا اتنا ہی نماز مورد قبول واقع ہوگی_ اسی لئے احادیث میں حضور قلب کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے_ جیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے ''کبھی آدھی نماز قبول ہوتی ہے اور کبھی تیسرا حصہ اور کبھی چوتھائی اور کبھی پانچواں حصہ

۲۵۸

اور کبھی دسواں حصہ_ بعض نمازیں پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر نماز پڑھنے والے کے سرپر مار دی جاتی ہے_ تیری نماز اتنی مقدر قبول کی جائیگی جتنی مقدار تو خدا کی طرف توجہ کرے گا_( ۴۶۶) امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خدا اس کی طرف توجہہ کرتا ہے اور اپنی توجہ کو اس سے نہیں ہٹاتا مگر جب تین دفعہ وہ خدا سے غافل ہو جائے اس وقت خداوند عالم بھی اس سے اعراض اور روگردانی کر لیتا ہے_(۴۶۷)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سستی اور بیہودہ حالت میں نماز نہ پڑھو_ نماز کی حالت میں اپنی فکر میں نہ رہو کیونکہ تم خدا کے سامنے کھڑے ہو_ جان لو کہ نماز سے اتنی مقدار قبول ہوتی ہے جتنی مقدار تیرا دل اللہ کی طرف توجہ کرے گا_(۸ ۴۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' جو بندہ نماز کی حالت میں خدا کے علاوہ کسی کی طرف متوجہ ہو تو خدا اس سے کہتا ہے کہ اے میرے بندے کس کا ارادہ کیا ہے اور کس کو طلب کرتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو خالق اور حفاظت کرنے والا ڈھونڈتے ہو؟ کیا میرے علاوہ کسی کو بخشنے والا طلب کرتے ہو؟ جب کہ میں کریم اور بخشنے والوں سے زیادہ کریم اور بخشنے والا ہوں اور سب سے زیادہ عطا کرنے والا ہوں میں تمہیں اتنا ثواب دونگا کہ جسے شمار نہیں کیا سکے گا میری طرف توجہ کر کیونکہ میں اور میرے فرشتے تیری طرف توجہ کر رہے ہیں اگر نمازی نے خدا کی طرف توجہ کی تو اس دفعہ اس کے گزرے ہوئے گناہ مٹ جاتے ہیں اور اس نے دوسری دفعہ خدا کے علاوہ کسی طرف توجہہ کی تو خداوند عالم دوبارہ اسے سابقہ گفتگو کی طرح خطاب کرتا ہے اگر اس نے نماز کی طرف توجہ کر لی تو اس کا غفلت کرنے والا گناہ بخشنا جاتا ہے اور اس کے آثار زائل ہوجاتے ہیں اور اگر تیسری دفعہ نماز سے توجہہ ہٹا لے خدا

۲۵۹

پھر بھی پہلے کی طرح اسے خطاب کرتا ہے اگر اس دفعہ نماز کی توجہ کر لے تو اس دفعہ اس کا غفلت والا گناہ بخش دیا جاتا ہے اور اگر چوتھی دفعہ نماز سے توجہ ہٹا لے تو خدا اور اس کے ملائکہ اس سے توجہ ہٹا لیتے ہیں_ خدا اس سے کہتا ہے کہ تجھے اسی کی طرف چھوڑے دیا ہے کہ جس کی طرف توجہ کر رہا ہے_(۴۶۹)

نماز کی ارزش اور قیمت خدا کی طرف توجہ اور حضور قلب سے ہوتی ہے توجہ اور حضور قلب کی مقدار جتنا اسے باطنی صفا اور تقرب الی اللہ حاصل ہوتا ہے_ بلا وجہ انبیاء علیہم السلام اور ائمہ اطہار اور اولیاء کرام نماز کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے_ امیر المومنین علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھا تو آپ کے بدن پر لزرہ طاری ہوجاتا تھا اور آپکے چہرے کا رنگ بدن جاتا تھا_

آپ سے تبدیلی اور اضطراب کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا ''کہ اس وقت اس امانت کے ادا کرنے کا وقت آپہنچا ہے جو آسمان اور زمین پر ڈالی گئی تھی لیکن وہ ڈرگئے تھے اور اس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا لیکن انسان نے اس بڑے امانت کے اٹھانے کو قبول کر لیا تھا میرا خوف اس لئے ہے کہ آیا میں اس امانت کو ادا کر لونگا یا نہ؟(۴۷۰)

امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے احوال میں کہا گیا ہے کہ نماز کے وقت ان کے چہرے کا رنگ زرد اور سرخ ہو جاتا تھا اور نماز کی حالت میں اس طرح ہوتے تھے کہ گویا اس گفتگو کر رہے ہیں کہ جسے وہ دیکھ رہے ہیں_(۴۷۱)

امام زین العابدین کے حالات میں لکھا ہے کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو آپ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا تھا اور ایک حقیر بندے کی طرح خدا کے سامنے کھڑے ہوتے تھے آپ کے بدن کے اعضاء خدا کے خوف سے لرزتے تھے اور آپ کی نماز ہمیشہ و داعی اور آخری نماز کی طرح ہوا کرتی تھی کہ گویا آپ اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھ سکیں گے_(۴۷۲)

حضرت زہرا علیہا السلام کے بارے میں ہے کہ نماز کی حالت میں سخت خوف کی

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333