المیہ جمعرات

المیہ جمعرات17%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 106258 / ڈاؤنلوڈ: 4808
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

نتیجہ مساوی نکلا،دونوں راضی ہوگئےاخر جواب تو وہی نکلا جو بابا اور نانا نے دیا تھااور ہم نہیں چاہتے تھے کہ اپ کا یہ دانہ توڑ دیںتو مادر گرامی نے فرمایا: اسے تم نے نہیں توڑا بلکہ خدا کے حکم سے جبرئیل امین ؑنے دوبرابر حصہ کیااور جسے خدا نے توڑا ہو وہ اس جیسے لاکھ دانے سے بہتر ہے

بچوّں کے درمیان مساوات

نعمان بن بشیر کہتا ہے کہ ایک دن میرے والد نے مجھے ایک تحفہ دیا،لیکن دوسرے بھائیوں کو نہیں دیا تو میری ماں(عمرہ بنت رواحہ )نے میرے باپ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: میں اس برتاؤ پر راضی نہیں ہوں جب تک تیرے اس عمل کی رسول خدا (ص) تائید نہ کریںمیرے باپ نے عاجزانہ طور پر ماجرابیان کیا:تو اپﷺ نے فرمایا: کیا سب کو دیدیے؟ کہا نہیںتو اپﷺ نے فرمایا: پس خدا سے ڈرواور اولادوں کیساتھ مساوات و برابری سے پیش اؤمیں اس ظالمانہ رفتار پر گواہی نہیں دیتا(1)

والدین نظم و حقوق کا خیال رکھیں

امیر المؤمنین(ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اسلام(ص)میرے گھر پر ارام فرمارہے تھے، امام حسن (ع)نے پانی مانگا اپ اٹھے اور کچھ دودھ لے کر ائے اور امام حسن (ع)کو پیش کیا،امام حسین (ع)نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور کاسہ خود لے کر پینا چاہا پیغمبر اسلام (ص)نے امام حسن(ع) کی حمایت کی اور امام حسین(ع) کو نہیں دیایہ منظر حضرت زہرا(س) دیکھ رہی تھیں،کہنے لگیں: یا رسول اللہ(ص)!کیا حسن(ع)سے زیادہ محبت ہے؟تو فرمایا:نہیں بلکہ اس لئے حسن(ع) کا دفاع کررہا ہوں کہ اس نے پہلے پانی مانگا تھامیں نے اس کی نوبت کا خیال کیا ہے

--------------

(1):- بحار الانوار ،ج23،ص273

۴۱

ایک شخص رسول خداﷺ کی خدمت میں اپنے دو بچوّں کیساتھ حاضر ہوا،ایک بچےّ کو پیار کیا دوسرے سے کوئی محبت کا اظہار نہیں کیا تو اپ نے فرمایا: یوں اپنے بچوّں میں غیر عادلانہ رفتار نہ کرو،بلکہ ان کے ساتھ اسی طرح مساوات اوربرابری کا رویہ اختیار کرو جس طرح دوسرے تمہارے ساتھ رویہ اختیار کرنا چاہتے ہیں(1)

بچےّ کو خدا شناسی کا درس دیں

بیٹے کے حقوق  کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: 

وَ امَّا حَقُّ وَلَدِكَ فَانْ تَعْلَمَ انَّهُ مِنْكَ وَ مُضَافٌ الَيْكَ فِي عَاجِلِ الدُّنْيَا بِخَيْرِهِ وَ شَرِّهِ وَ انَّكَ مَسْئُولٌ عَمَّا وَلِيتَهُ مِنْ حُسْنِ الْادَبِ وَ الدَّلَالَةِ عَلَ ی رَبِّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ الْمَعُونَةِ عَلَ ی طَاعَتِهِ فَاعْمَلْ فِي امْرِهِ عَمَلَ مَنْ يَعْلَمُ انَّهُ مُثَابٌ عَلَ ی الْاحْسَانِ الَيْهِ مُعَاقَبٌ عَلَ ی الْاسَاءَةِ الَيْه‏ (2)

یعنی بیٹے کا حق باپ پر یہ ہے کہ وہ اسے اپنی اولاد سمجھے اور اس دنیا میں اس کی نیکی اور بدی کو تمہاری طرف نسبت دی جائے گی،اور تم ہی اس کا ولی ہوگا، اور تم پر لازم ہے کہ اسے با ادب بناؤ اسے اصول دین کا سبق سکھاؤ اور خدا کی اطاعت اور بندگی کی راہ پر لگاؤ اور اس سلسلے میں اس کی مدد کرو تاکہ خدا کے نزدیک تم سرخ رو ہو سکے اور اجر پا سکو، اگر ان امور میں سستی کی تو تم نے عذاب الہٰی کو اپنے لئے  امادہ کیا ہے، پس ضروری ہے کہ اسے  کچھ اس طرح تربیت دو کہ تیرے مرنے کے بعد جب لوگ اسے دیکھیں تو تمہیں اچھے نام سے یاد کریں، اور تم بھی خداکے سامنے جواب دہ ہو اور اجر وثواب پا سکو

شیخ شوشتری(رض) جو اپنے زمانے کے نامور عرفاء میں سے تھے 80 سال کی عمر میں 283ھ میں وفات پاچکے ہیں، کہتے ہیں: میں تین سال کا تھا کہ دیکھا میرے ماموں محمد بن سواد رات کے وقت نماز شب میں مصروف ہیںمجھ سے کہا بیٹا کیا اپنے خدا کو یاد نہیں کروگے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے؟ میں نے کہا: کیسے اسے یاد کروں؟ تو جواب دیا جب سونے کا وقت ائے تو 3بار دل سے کہو:

--------------

(1):- بحار الانوار ،ج23،ص113

(2):-من‏ل ايحضره‏ الفقيه    ج2 ، ص 621  ، حقوق اسل امی،ص ۱۵۶

۴۲

(خدا میرے ساتھ ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے اور میں اس کے حضور میں ہوں)

کچھ راتیں گزر گئیں پھر مجھ سے کہا اس جملے کو سوتے وقت 7 مرتبہ پڑھ لیا کرومیں نے ایسا کیا تو اس ذکر کی لذت اور مٹھاس کو میں محسوس کرنے لگاایک سال کے بعد مجھ سے کہا اسے اپنی پوری زندگی پڑھا کرویہی ذکر تمیںس دنیا و اخرت دونوںمیں سرخ رو کریگااس طرح میرے پورے وجود میں بچپنے میں ہی خدا پر ایمان مضبوط ہوگیا تھا(1)

کاشف الغطا اور بیٹے کی تربیت

حضرت ایةاللہ شیخ جعفر کاشف الغطاء(رح) اپنے بچےّ کی تربیت کرنے کے لئے ایک مؤثر طریقہ اپناتے ہیں، وہ یہ ہے: اپ چاہتے ہیں کہ اپ کا بیٹا بھی سحر خیزی اور نماز شب کا عادی ہوجائےاور اخر عمر تک اس عمل کو انجام دیتا رہےایک رات اذان صبح سے پہلے بیٹے کے بستر کے قریب ائے اور بالکل ارام سے اسے بیدار کرنے لگے اور کہا عزیزم !اٹھو حرم مولا علی (ع)چلیں

بیٹے نے کہا:بابا اپ جائیں میں بعد میں اؤں گا کہا نہیں بیٹا میں منتظر رہوں گابیٹا اٹھا اور حرم کی طرف وضو کرکے روانہ ہوئےایک فقیرحرم مطہر کے سامنے بیٹھ کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا رہا تھا

اس وقت ایةاللہ کاشف الغطاء (رح) نے کہا: بیٹا ! یہ شخص کس لئے یہاں بیٹاا ہے؟

کہا: بھیک مانگنے کے لئے

کہا:اسے  کتنے درہم ملتے ہونگے؟

بیٹا:شاید کچھ رقم ملتی ہوگی اور واپس جاتا ہوگا

کیا یقینا اسے دینار ملتا ہوگا؟

بیٹا:البتہ یقینا تو پیش بینی نہیں کرسکتا لیکن کچھ نہ کچھ تو ضرور ملتا ہوگا یا ممکن ہے خالی ہاتھ بھی جاتا ہوگا

--------------

(1):-  الگوہای تربیت کودکان ونوجوانان،ص49

۴۳

یہاں جس نکتے کی طرف اپ بچےّ کو متوجہ کرانا چاہتے تھے ٹھیک اسی جگہ پر اگئے اوراپنا مطلب کے لئے زمینہ فراہم ہوگیااور فرمایا: بیٹا دیکھ یہ گدا گر کمانے کے لئے سویرے سویرے یہاں اتا ہے جبکہ اسے سوفیصد  یقین تونہیں پھر بھی اتنی جلدی نیند سے بیدار ہوکر اتا ہے؛ لیکن تیںر  تو اس ثواب پر پورا پورا یقین ہے کہ جو خدا تعالیٰٰ نے سحر خیزی کے لئے معین کیا ہے اور ائمہ طاہرین (ع)کے فرامین پر بھی یقین رکھتے ہو، پس کیوں سستی کرتے ہو؟!!

اس خوبصورت تمثیل نے اتنا اثر کیا کہ بیٹے نے زندگی کے اخری لمحات تک نماز شب کو ترک نہیں کیا(1)

ہمیں بھی یہی درس ملتا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہںد کہ ہمارے بچےّ بھی سحر خیز ہوں تو پہلے ہم خود اس پر عمل پیرا ہوںچنانچہ رسول اللہ(ص)کے پاس ایک ماں  اپنے بیٹے کو لے ائی کہ اسے نصیحت کریں کہ وہ خرما نہ کھائےکیونکہ حکیموں نے اس کے لئے  منع کیا ہےیا رسول اللہ (ص) اسے نبوت کی مبارک زبان سے سمجھائیں ممکن ہے وہ باز اجائےاپ نے فرمایا:بہت اچھا اج اسے لے جائیں کل لے ائیںدوسرے دن جب ائی تو بڑی نرمی سے نصیحت کی: بیٹا ماں کی باتوں کو سنا کرو اور کھجور کھانے سے پرہیز کرو تاکہ تمہاری بیماری ٹھیک ہوجائے اور بعد میں تم زیادہ  کھجور کھا سکواور زیادہ کھیل کود کر سکواور خوش وخرم زندگی بسر کرسکو اور تمہاری ماں بھی تم پر راضی ہوسکےبچےّ نے اپ(ص) کی باتوں کو قبول کرلیا اور کہا: اب بات سمجھ میں ائی کہ کیوں کھجور نہ کھاؤںاب میں دلیل سمجھ گیا جب باتیں ختم ہوئیں تو ماں نے تشکر بھرے لہجے میں کہا:یا رسول اللہ (ص)یہی باتیں کل بھی تو اپ بتا سکتے تھے

فرمایا: کیونکہ کل میں خود کھجور کھا چکا تھا اچھی بات اس وقت مؤثر ہوتی ہے جب خود اس پر عمل کرو(2)

--------------

(1):- الگوہای تربیت کودکان ونوجوانان ،ص208

(2):- الگوہای تربیت کودکان ونوجوانان ،ص316

۴۴

امام خمینی اور بچوّں کی تربیت

امام خمینی ؒ کی بیٹی نقل کرتی ہے کہ امام خمینی(رح) بچوّں پر بہت مہربان تھےہم گھر میں بڑے مہر ومحبت  کیساتھ رہتے تھے لیکن ہم جب کوئی برا کام کرتے تو سختی سے منع کرتے تھےعملی طور پر ہمیں سمجھادیا گیا تھا کہ کوئی کام ان کی مرضی کے خلاف نہیں کریں گےہم بھی فروعی کاموں میں ازاد لیکن اصولی کاموں میں سخت پابند تھےہم میں سے کسی کی مجال نہیں تھی کہ مخالفت کرےہمیشہ ہمیں پابند رکھتے تھے کہ کوئی گناہ نہ کریں اوراداب اسلامی کی پابندی کریںاس کے علاوہ ہم جتنا شوروغل مچائیں کچھ نہیں کہتے تھے اور نہ کوئی اعتراض کرتےہاں اگر کسی پڑوسی کی طرف سے کوئی شکایت اتی  تو سختی سے اعتراض کرتے تھےہم گھر کے صحن میں کھیل کود میں مصروف ہوتے تھےنماز کے وقت بھی اگر کھیلتے تو کبھی نہیں کہتے،بچو اذان کا وقت ہوگیا ہے اؤ وضو کریں نماز پڑھیںبلکہ خود اذان سے ادھا گھنٹہ پہلے مصلّی پر کھڑے ہو جاتے تھے اوراپ کو دیکھ کر ہم بھی نماز کے لئے تیار ہوجاتےاور جب بھی ہمیں کسی کام سے روکتے تھے زندگی بھر میں  وہ کام انہیں انجام دیتے ہوئے ہم نے نہیں دیکھا،حجاب اور پردے کے بارے میں سخت حساس تھے، اور گھر میں کوئی بھی غیر اخلاقی باتیں جیسے غیبت،جھوٹ،کسی بڑے کی بے احترامی یا کسی مسلمان کی توہین نہیں کرنے دیتے تھے اپ معتقد تھے کہ بچےّ ازادانہ کھیل کود کریںفرماتے تھے اگر بچےّ شرارت نہ کریں تو وہ بیمار ہیں ان کا علاج کرنا چاہئے

اپ کے بیٹے سید احمد خمینی(رح) سے جب انٹرویو لیا گیا تو فرمایا: میری بیوی گھریلو عادت کے مطابق بچی کو میٹھی اور گہری  نیند سے نماز صبح کے لئے اٹھایا کرتی تھیجب امام خمینیؓ کو یہ معلوم ہوا تو پیغام بھیجا کہ: اسلام کی مٹھاس کو بچےّ کے لئے تلخ نہ کرو! یہ بات اس قدر مؤثر تھی کہ میری بیٹی اس دن کے بعد خود تاکید کرتی تھی کہ انہیں نماز صبح کے لئے ضرور جگایا کریں اس وقت میں نے لااکراہ فی الدین  کو سمجھا(1)

--------------

(1):- خاطرات فریدہ خانم مصطفوی ،پابہ پای افتاب،100

۴۵

بچوّں کومستحبات پر مجبور نہ کریں

والدین کو چاہئے کہ ان پر سختی نہ کریں اور مستحبات پر مجبور نہ کریں، کیونکہ اس کا نتیجہ منفی ہوگا جیسا کہ اس مسیحی کا قصہ مشہور ہے کہ مسلمان بھائی نے اسے صبح سے لے کر رات تک مسجد میں قید رکھا،دوسرے دن جب اسے جگانے گیا تو اس نے کہا: بھائی مجھے بال بچےّ بھی پالنا ہے تم کسی اور بے کار ادمی کو تلاش کرو اس طرح وہ دوبارہ مسیحیت کی طرف چلاگیا

ایک جوان کہتا ہے کہ ہمارے والد صاحب ہم تمام بہن بھائیوں کو نماز شب کے لئے جگایا کرتے تھےمیں بہت چھوٹا تھا نیند سے اٹھنا میرے لئے سخت ہوتاتھا، جب مجھے اواز دیتے تھے، حسن اٹھوتو میں بستر میں لیٹ کر ہی زور سے ولا الضالین کہتا تھا(1)

بچوّں کی تربتت اور والدین کی رفتار

یہ بھی واضح ہے کہ بچوّں کے لئے سب سے نزدیک ترین عملی نمونہ اس کے والدین ہیں، بچوّں کو زبان سے نصیحت کرنے، زبانی تعلیم دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے والدین کی رفتار سے وہ ادب سیکھتے ہیں اور یہی بہترین روش تعلیم بھی ہے:

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع انَّهُ قَالَ كُونُوا دُعَاةَ النَّاسِ بِاعْمَالِكُمْ وَ لَا تَكُونُوا دُعَاةً بِالْسِنَتِكُم‏ (2)

 امام صادق نے فرمایا:لوگو! تم ،لوگوں کو اپنے کردار کے ذریعے نیکی کی طرف دعوت دو نہ کہ  زبانی

شاعر کہتا ہے:اولاد بداخلاق ہو یا خوش اخلاق،یہ استاد اور معلم کے سکھانے اور تربیت دینے کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ ماں  کی تربیت گاہ سے اسے ورثے میں ملا ہےاور یہ بھی معلوم ہے کہ اچھی اولاد کی تربیت نادان ماں کے لئے ممکن نہیں اسی طرح عورت اگر پاک دامن اور خوش خلق ہو تو یہ تاریک راتوں میں چمکنے والے درخشان ستاروں کی مانند ہے فرزندان ملت کی خوش بختی اور سعادت ایسی باشعور ماؤں کے ہاتھ میں ہے

--------------

(1):- قصص العلما،ص185

(2):-بح ار ال انو ار     5 ،ص198  ب اب 7- الهد اية و ال اضل ال و التوفيق

۴۶

کودک ہر انچہ دارد از اغوش مادر است             زشتخوی باشد و گر نیک محضر است

در دفتر معلم و اموزگار نیست             ان تربیت کہ زادہ دامان مادر است

فرزند خوب، مادر نادان نپرورد             این نکتہ نزد مردم دانا مقرّر است

زن چون عفیف باشد و دانا و نیکخوی             در تیرگی جہل چو تابندہ اختر است

در دست مادرانِ خردمندِ و باہنر             خوشبختی و سعادت ابناء کشور

بچوّں کےحضور میں دعا مانگیں

والدین کا بچوّں کے لئے نمونہ بننے کے لئے صرف برے کاموں سے بچنا کافی  نہیں ہے بلکہ اچھے اور نیک کاموں کو انجام دینا بھی ضروری ہے کیونکہ نیک کاموں کے بہت سارے نمونے اور مصداق ہیں،جیسے نماز پڑھنا کہ اگر ہم جلدی جلدی پڑھیں تو ہمارے بچےّ بھی جلدی جلدی پڑھیں گےاور اگر ہم اہستہ اہستہ پڑھیں تو وہ بھی اہستہ پڑھیں گے اسی طرح ہم صرف اپنی مشکلات کی دوری کے لئے دعا کرتے ہیں یا دوسروں کے لئے بھی دعا کرتے ہیں اس میں بھی نمونہ بن سکتے ہیں چنانچہ روایت ہے:

 عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ اخِيهِ الْحَسَنِ قَالَ رَايْتُ امِّي فَاطِمَةَ ع قَامَتْ فِي مِحْرَابِهَا لَيْلَةَ جُمُعَتِهَا فَلَمْ تَزَلْ رَاكِعَةً سَاجِدَةً حَتَّ ی اتَّضَحَ عَمُودُ الصُّبْحِ وَ سَمِعْتُهَا تَدْعُو لِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ تُسَمِّيهِمْ وَ تُكْثِرُ الدُّعَاءَ لَهُمْ وَ لَا تَدْعُو لِنَفْسِهَا بِشَيْ‏ءٍ فَقُلْتُ لَهَا يَا امَّاهْ لِمَ لَا تَدْعُوِنَّ لِنَفْسِكِ كَمَا تَدْعُوِنَّ لِغَيْرِكِ فَقَالَتْ يَا بُنَيَّ الْجَارُ ثُمَّ الدَّارُ (1)

امام حسن(ع) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ  شب جمعہ کو میں نے اپنی مادر گرامی کو دیکھا کہ محراب عبادت میں اپ کھڑی ہیں مسلسل نمازیں پڑھی جارہی ہیں یہاں تک کہ صبح کا وقت اگیا اپ مؤمنین مردوں اور عورتوں کے حق میں نام لے لے کر دعا مانگتی رہیں لیکن اپنے لئے کوئی دعا نہیں مانگںا میں نے عرض کیا مادر گرامی !اپ نے کیوں اپنے لئے دعا نہیں  مانگںک؟ تو میری ماں نے کہا: بیٹا پہلے پڑوسی پھر اہل خانہ

--------------

(1):-وس ائل‏ الشيعة، 7،ص112، ب اب استحب اب اختي ار ال انس ان الدع

۴۷

یہ ایک درس اور نمونہ ہے ہمارے لئے جو امام حسن مجتبیٰ (ع)کے ذریعے جناب فاطمہ(س) ہمیں دے رہی ہیں اور ہمیں بھی چاہئے کہ اپنی اولاد کے لئے ایسا درس دیں جو اپنی دعاؤں میں دوسرے مؤمنین کو بھی یاد کریں تاکہ لاکھوں گنازیادہ ثواب زیادہ ملے

چنانچہ روایت میں ہے کہ اگر کوئی اپنے کسی مؤمن بہن اور بھائی کے لئے ان کی غیر موجودگی میں دعا کرے، اس کے لئے پہلے اسمان سے ندا ائے گی کہ اے بندہ خدا اس کے عوض میں  اللہ تعالیٰٰ نے تمہیں ایک لاکھ کے برابر اجر عطا کیا، دوسرے اسمان سے اواز ائے گی دو برابر اجر عطا کیا ، تیسرے اسمان سے ندا ائے گی تین لاکھ کےبرابر اسی طرح ساتویں اسمان سے ندا ائے گی سات لاکھ  کے برابر اجر عطا کیا

بچوّں کی تربیت میں معلم کا کردار

ابوسفیان کا بیٹا معاویہ نے 41ھ میں مسند خلافت پر انے کے بعد یہ ٹھان لی کہ علی (ع)کو لوگوں کے سامنے منفورترین ادمی کے طور پر  تعارف کرائے اس مکروہ ہدف کے حصول کے لئے علی (ع)کے دوستوں کو تلوار اور نیزوں کے ذریعے فضائل علی (ع)بیان کرنے سے منع کیا گیا، دوسری طرف علی (ع)کے دشمنوں کو بیت المال میں سے جی بھر کے مال و زر دیا گیا تاکہ اپ کے خلاف پیغمبر(ص) کی طرف سے احادیث گڑم لیںاس کے علاوہ پورے عالم اسلام میں یہ حکم جاری کردیا گیاکہ نمازجمعہ کے بعد ہر مسجد سے ان پر لعن کیا جائےیہ عملی بھی ہوا اور بچےّ باتوں باتوں میں اپ پر لعن کرنے لگےعمر بن عبد العزیز جو اموی خلفاء میں سے ہے،بچپن میں دوسرے بچوّں کے ساتھ علی(ع) پر لعن کر رہا تھا اس وقت وہاں سے اس کے استاد جو ایک مؤمن اور صالح انسان تھے کا گزر ہواوہاں سے تو خاموش نکل گیا،لیکن جب مدرسہ کا وقت ہوا اور عمر ایا تو استاد نماز میں مشغول ہوا نماز کو طول دینا شروع کیا، عمر سمجھ گیا کہ نماز تو صرف بہانہ ہے

عمر نے پوچھا:حضرت استاد کیا میں ناراضگی کی علت دریافت کر سکتا ہوں؟

تو استاد نے کہا: بیٹا کیا اج تم نے علی پر لعن کاا؟

کہا: ہاں

۴۸

کب سے تمہیں معلوم ہوا کی اہل بدر پر خدا غضبناک ہوا ہے؟ جبکہ ان پر خدا راضی ہےکیا علی اہل بدر میں سے نہیں تھے؟

 کہا: کیا بدر اور اہل بدر کے لئے ان کے صالح اعمال کے سوا کوئی اور چیزباعث افتخار ہے؟

عمر نے کہا:میں اپ کے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ اج کے بعد زندگی بھر ان پرلعن نہیں کرونگا کئی سال اسی طرح گزر گئےایک دن اس کا والد جو حاکم مدینہ تھا نماز جمعہ کا خطبہ فصیح وبلیغ انداز میں دے رہا تھالیکن جب علی پر لعن کرنے کا وقت ایا تو اس کی زبان میں لکنت پیدا ہوئی جس سے عمر کو بہت تعجب ہوا

کہا:بابا جان! میں نہیں جانتا کہ کیوں کر اپ کی فصاحت وبلاغت ادھر اکر ماند پڑ گئی اور زبان بند ہوگئی ؟!

کہا:میرے بیٹے! اس پر تم متوجہ ہوا؟!

بیٹے نے کہا:جی ہاں

باپ نے کہا:میرے بیٹے صرف تمہیں اتنا بتادوں کہ اگر اس مردالٰہی (علی(ع)) کے فضائل میں سے جتنا میں جانتا ہوں ان لوگوں کو پتہ چل جائے تو یہ سب ان کی اولادوں کے پروانے بن جائیں گے اور ہمارے پیچھے کوئی نہیں ائیں گے

جب عمر بن عبدالعزیز نے یہ سنا تو اپنے استاد کی نصیحت پربھی یقین ہوگیااس وقت اس نے یہ عدں کرلیا کہ اگر کبھی برسر اقتدار ایا تو ضرور اس نازیبا عمل کو روک دوں گا اور جب 99ھ میں یہ برسر اقتدار ایا تو سب سے پہلا کام یہی کیا کہ علی ؑپر لعن طعن کو ممنوع قرار دیا اس لعن کے بدلےانّ الله یأمر بالعدل والاحسان کی تلاوت کرنے  کا حکم دیا

دینی تعلیم دینا واجب

روایت میں ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا: افسوس ہواخری زمانے کی اولادوں پر کہ ان کے والدین انہیں دینی تعلیم نہیں دیں گے، کسی نے سوال کیا اپ کی مراد مشرک والدین ہے ؟ فرمایا: نہیں، بلکہ میری مراد مؤمن والدین ہیں جو اپنے بچوّں کو دینی تعلیم نہیں دلائیں گے اور اگر بچےّ کوئی چیز سیکھنا چاہیں تو منع کریں گے اور دنیا کی معمولی چیز انہیں دے کر اپنے اوپر راضی رہیں گے، میں ایسے والدین سے بیزار ہوں

۴۹

بچوّں کو تعلیم دینے کا ثواب

پیغمبر اسلامﷺ نے فرمایا: جب استاد بچےّ کو تعلیم دیتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہلاتا ہے تو اس وقت خدا وند اس بچےّ اور اس کے والدین اور معلّم کو اتش جہنم سے رہائی کا پروانہ عطا کرتا ہے(1) امام صادق (ع)نے رسول خداﷺسے روایت کی ہے: ایک دن حضرت عیسی ٰ(ع) ایک قبر کے قریب سے گزرے اس صاحب قبر پر عذاب ہورہا تھا دوسرے سال جب وہاں سے گزرے تو عذاب ٹل چکا تھا

سوال کیا پروردگارا!کیا ماجراہے؟

وحی ائی اس کے بیٹے نے ایک راستے کی مرمت کی اور ایک یتیم کو پناہ دی، اس نیک عمل کی وجہ سے اسے عذاب سے نجات مل گئی

امام حسین(ع) اور معلم کی قدردانی

عبد الرحمن سلمی نے امام حسین(ع)  کے بیٹے کو سورۂ حمد یاد کرایا تو امام  نے معلم کی قدر دانی کرتے ہوئے  اسےکچھ جواہرات ، اورکپڑے دیے  تو وہاں پر موجود لوگوں نے تعجب کیساتھ کہا: اتنا زیادہ انعام؟!تو امامؑ  نے فرمایا: کہاں یہ مالی انعام اس معلم کی عطا (تعلیم)کے برابر ہوسکتا ہے؟(2)

والدین سے زیادہ استاد کا حق

سکندر اپنے استاد کا بہت زیادہ احترام کرتا تھا، جب اس سے وجہ پوچھی تو کہا: میرےباپ نے مجھے عالم ملکوت سے زمین پر لایا اور استاد نے زمین سے اٹھا کراسمان پر لے گیا(3)

--------------

(1):-   جامع احادیث شیعہ،ج15،ص9    (2):- مستدرک الوسائل،ج1،ص290

(3):- کشکول شیخ بہائی،ص27

۵۰

امام سجاد (ع)فرماتے ہیں: تیرے استاد کا تجھ پر یہ حق ہے کی تو اسے محترم سمجھے اور مجالس میں اس کا احترام کرے اس کی باتیں غور سے سنے اور ان پر توجہ دے اپنی اواز ان کی اواز  سے زیادہ اونچی نہ کرے اور اگر کوئی شخص ان سے کچھ پوچھے تو تم جواب نہ دے اور لوگوں کو اس سے استفادہ کرنے دے اس کے پاس کسی کی غیبت نہ کرے اور جب کوئی تیرے سامنے اس کی برائی کرے توتم اس کا دفاع کرے، تم  ان کے عیوب پر پردہ ڈالے اور ان کی اچھائیاں ظاہر کرے ان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر نہ بیٹھے اور ان کے دوستوں سے دشمنی کا اغاز نہ کرے  اگر تو ا یسا کرے گا تو خدا تعالیٰٰ کے فرشتے گواہی دینگے کہ تم نے ان کی  جانب توجہ دی ہے اور تم نے علم لوگوں کی توجہ مبذ ول کرانے کے لئے نہیں بلکہ خدا کے لئے حاصل کیا ہےاور شاگردوں کا حق تجھ پر یہ ہے کہ تم یہ جان لے کہ خدا تعالیٰٰ نے تجھے جو علم بخشا ہے اور اس کی جو راہیں تجھ پر کھولی ہیں اس کے سلسلے میں تجھے ان کا سرپرست قرار دیا ہے لہذا اگر تو انہیں اچھی  طرح پڑھائے اور نہ انہیں ڈرائے اور نہ ہی ان پر غضبناک ہو تو خدا تعالیٰٰ اپنے فضل سے تیرا علم بڑھائے گا اور اگر تو لوگوں کو اپنے علم سے دور رکھے اور جب وہ تجھ سے اس کی خواہش کریں تو انہیں ڈرائے او ران پر غضبناک ہو تو عین مناسب ہوگا کہ خدا تعالیٰٰ تجھ سے علم کی روشنی چھین لے اور لوگوں کے دلوں میں تیری حیثیت گھٹادے(1)

والدین کی ظلم وستم اور فراری بچےّ

یہ ایک ستم رسیدہ بچی کا خط ہے جواس نے  اپنے باپ کے ظلم وستم سے دل برداشتہ ہوکر گھر سے فرار ہونے سے پہلے لکھا تھا:بابا یہ پہاہ اور اخری خط ہے جسے غور سے پڑھ لو تو شاید اپ کا ضمیر جو مردہ ہوچکا ہے بیدا ر ہوجائے اور سمجھ لو کہ کس قدر خود خواہ اور پست فطرت انسان ہو!بابا میں تم سے متنفر ہوں دوبارہ تیرا منحوس چہرہ نہیں دیکھوں گی، تم اس قابل نہیں کہ تمہیں باپ کہہ کر پکاروںبلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تو باپ ہونے کے لئے کبھی پیدا نہیں ہواتم ایک پلید اور کثیف بلا ہوتم نے مجھے بچپن سے لے کر اب تک ساری چیزوں سے محروم رکھا،

--------------

(1):- مکارم الاخلاق،ص484

۵۱

میری پیاری ماں کو طلاق دیکر خوشی اور نشاط کا دروازہ مجھ پر بند کردیاجبکہ میرے لئے میری ماں کے علاوہ کوئی نہ تھا ایک بیٹی کے لئے ماں سے بڑھ کر اور کون دل سوز ہوسکتا ہے؟ میں کبھی بھی اس دن کو فراموش نہیں کروں گی جس دن تم نے میری ماں کو طلاق دی اور وہ مجھے اخری بار اپنی اغوش میں لے کرگرم انسؤں سے میرے چہرے کو تر کرکے چلی گئی اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں چلی گئی  وہ زندہ ہے یا مردہ؟لیکن اس دن جب تم نے مجھے اواز دی بیٹی میں تیرے لئے خوش خبری لایا ہوں، کہ تیری ماں مر گئی ہےیہ کہہ کر قہقہہ لگانا شروع کیا اس دن ماں سے ملنے کی امید بالکل ختم ہوگئی اور جب میں اپنی ماں کی جدائی میں رونے لگی تو تم نے مجھے ٹھوکر ماری اور میں بیہوش ہوگئی اور میں نہ جان سکی کہ میں کہاں کھڑی ہوں؟!بابا کیا مجھے ماں کی جدائی میں رونے کا بھی حق نہ تھا؟ ارے بابا !اب میں وہ نو سالہ نہیں رہی اب میں تمہارا اس وحشی رویے کو برداشت اور تحمل نہیں کرسکتی یہ رات کے ساڑھے گیارہ  بج چکے ہیں جب کہ تم اور تمہاری بیوی ابھی تک فلم ہال سے گھر واپس نہیں لوٹے کل صبح میں اس جہنم سے ہمیشہ کے لئے نکل جاؤں گیاور دنیا والوں کو بتادوں گی کہ ایسے ظالم،بے رحم اور سنگدل باپ بھی دنیا میں موجود ہیں مگر لوگوں کو یقین نہیں ائے گا(1)

اولاد صالح  خدا کی بہترین نعمت

حسن بن سعید کہتاہے کہ خدا نے ہمارے دوستوں میں سے ایک دوست کو بیٹی عطا کی تو وہ بہت افسردہ حالت میں امام صادق (ع) کی خدمت میں ایاامام(ع)نے فرمایا:کیوں غمگین ہو؟اگر خداتعالیٰٰ تجھ پر وحی نازل کرے اور کہے کہ میں تمہارے بارے میں فیصلہ کروں یا تم فیصلہ کروگے؟ تو تم کیا جواب دوگے؟اس نے عرض کیا: میں کہوں گا بار خدایا! جو تو انتخاب کرے وہی میرے لئے ٹھیک ہےامامؑ نے قران کی اس ایہ کی تلاوت فرمائی جس میں حضرت خضر(ع) کی داستان ذکر ہوئی ہے، کہ حضرت خضر (ع) نے ایک لڑکے کو پکڑ کر مارڈالا جس پر حضرت موسی (ع)نے سخت اعتراض کیا تھا،جس کی علت یوں بتائی:فَارَدْنَا ان يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكَاةً وَاقْرَبَ رُحْمًا (2)

--------------

(1):-  الگوئی تربیت کودکان و نوجوانان،ص248

(2):-  الکہف،81

۵۲

"تو میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دیدے جو پاکیزگی اور  صلئہ رحم میں بھی اس سے بہترہو"

خدا تعالیٰٰ نے اس بیٹے کے بدلے میں انہیں ایک بیٹی عطا کی جس کی نسل سے (70)ستّر پیغمبران الٰہی وجود میں ائے(1)

دوران جاہلیت میں بچیوں کی ولادت پر ماں باپ بہت غمگین ہوجاتے تھےایک دن امیر اسحاق بن محمد کو خبر ملی کہ ان کے ہاں بیٹی ہوئی ہے،تو وہ بہت غمگین ہوگیا اور کھانا پینا بھی چھوڑ دیابہلول عاقل نے جب یہ خبر سنی تو کہا: اے امیر! کیا خدا نے سالم اور بے عیب ونقص بیٹی عطا کی اس لےں تم غمگین ہوگئے ہو؟!کیا تمہارا دل چاہتا تھا کہ مجھ جیسا ایک پاگل بچہ تجھے عطا ہوجاتا؟!اسحاق بے اختیار ان حکیمانہ باتوں کو سن کرمسکرانے لگا اور خواب غفلت سے بیدار ہوا(2)

 بیٹی کی عظمت

رسول خدا(ص)نے فرمایا:جو بھی بازار جائے اور کوئی تحفہ اپنے گھر والوں کے لئے خریدے تو ایسا ہے کہ مستحق افراد میں صدقہ دیا ہواس تحفہ کو تقسیم کرتے وقت بیٹیوں کو بیٹوں پر مقدم رکھےکیونکہ جو بھی اپنی بیٹی کو خوش کرے تو ایسا ہے جیسے اولاد اسماعیل(ع) میں سے ایک غلام ازاد کیا ہواور اگر بچےّ کو خوش کیا تو خوف خدا میں گریہ کرنے کا ثواب ہےاور جو بھی خوف خدا میں روئے وہ بہشتی ہے(3)

--------------

(1):-   سفينة البح ار،ج1،ص108   

(2):- مجموعہ قصص و حکایات بہلول عاقل

(3):- اثار الصادقین،ج15،ص310

۵۳

اسی لئے بیٹے سے زیادہ بیٹی کو اسلام نے  توجہ کا مرکز قرار دیا ہے:شاعر کہتا ہے:

بیٹا ہوسکتا نہیں بیٹی سے خدمت میں سوا     ہے یہ تاریخ کے صفحات پہ اب تک لکھا

بیٹوں نے زر کے لئے باپ کا کاٹا ہے گلا    ہاتھ سے بیٹی کے چھوٹا نہیں دامان وفا

پھوڑدیں بیٹوں نے جب شاہجہاں کی انکھیں    بیٹی ہی بن گئی اس سوختہ جاں کی انکھیں

ہوئی سو بار جہاں میں یہ حقیقت روشن   بیٹی کردیتی ہے ماں باپ کی تربت روشن

کون کہتا ہے  کہ بے وزن وبہا ہے بیٹی    ادمیت کے لئے حق کی عطا ہے بیٹی

کیا خبر کتنے نبیوں کی دعا ہے بیٹی   شمع اغوش رسول دوسرا ہے بیٹی

جس کے دامن میں یہ غنچہ ہو اسی سے پوچھو

قیمت اس گل کی رسول عربیﷺ سے پوچھو

بیٹی کیا چیز ہے یہ قلب نبی سے پوچھو     جذبہء الفت شاہ مدنی سے پوچھو

فاطمہ اور نہ خاتون جنان  کہتے تھے    اپنی بیٹی کو نبی پیار سے ماں کہتے تھے(1)

بچوّں پر  والدین کے حقوق

اللہ تعالیٰٰٰ نے انسانوں بلکہ ہر ذی روح کے لئے دنیا  میں  ماں  باپ سے زیادہ مہربان اور دلسوز مولمق کو  وجود نہیں بخشا خصوصا بنی نوع انسان  کے لئے ماں باپ کی محبت اور شفقت جو خدا تعالیٰٰٰ نے ان کے دلوں میں  ڈالی ہے، ناقابل بیان ہے، یعنی اسے  بیان کرنے سے زبان قاصر  ہے اب چونکہ یہ اپنی اولاد کے لئے اپنا ارام وسکون کھو بیٹھتے ہیں ؛ تو اس کے مقابلے میں اولاد پر بھی(هل جزاء الاحسان الّا الاحسان) کے مطابق  خدا وند حکیم نے  ان کا احترام واجب قرار دیاہے  بلکہ اپنی عبادت اور بندگی کا حکم دینے کے فورا بعد والدین پر احسان کرنے کا حکم دیاہے

--------------

(1):- کتاب والفجر،ص۱۴۰

۵۴

والدین کا چہرہ دیکھنا عبادت

اس بارے میں رسول گرامی اسلام ﷺ سے روایت ہے:

قَالَ رَسُولُ اللهِ ص مَا مِنْ رَجُلٍ يَنْظُرُ الَ ی وَالِدَيْهِ نَظَرَ رَحْمَةٍ الَّا كَتَبَ اللهُ لَهُ بِكُلِّ نَظْرَةٍ حَجَّةً مَبْرُورَةً قِيلَ يَا رَسُولَ اللهِ وَ انْ نَظَرَ الَيْهِ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ قَالَ وَ انْ نَظَرَ الَيْهِ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ الْفِ مَرَّةٍ (1)

ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے  والدین کے چہرے  پر مہربان اور احسان کے ساتھ نظررحمت کرے گا، اس کے لئے  خدا تعالیٰٰٰ ہر  ایک نگاہ  کے بدلے  ایک مقبول حج لکھ  دیتا ہے کسی نے سوال کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! اگر دن میں سو مرتبہ  نظر کرے  تب بھی؟! تو اپ ﷺ نے فرمایا: اگر ایک لاکھ مرتبہ دیکھے تو  بھی ایک لاکھ حج مقبول اس کے لئے لکھ دیگا

بچوّں پر باپ کے حقوق

وَ امَّا حَقُّ ابِيكَ فَانْ تَعْلَمَ انَّهُ اصْلُكَ فَانَّكَ لَوْلَاهُ لَمْ تَكُنْ فَمَهْمَا رَايْتَ مِنْ نَفْسِكَ مَا يُعْجِبُكَ فَاعْلَمْ انَّ ابَاكَ اصْلُ النِّعْمَةِ عَلَيْكَ فِيهِ فَاحْمَدِ اللهَ وَ اشْكُرْهُ عَلَ ی قَدْرِ ذَلِكَ وَ لَا قُوَّةَ الَّا بِالله (2)

اولاد پر باپ کا حق یہ ہےکہ جان لو وہ تمہاری اصل اور جڑ ہے اور تم اس کی فرع اورشاخ اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی نہ ہوتے اور خدا کی تھک پر نعمتوں کے موجب وہ تھے، اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرو

--------------

(1):-مستدرك‏ الوس ائل،ج 15 ، ص 204    جملة من حقوق الو الدين

(2):-من‏ل ايحضره‏ الفقيه،ج2 ، ص621ب اب الحقوق ،ص 618

۵۵

اور کوئی بھی طاقت خدا  کی طاقت سے زیادہ نہیں  ہے اور یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ہر انسان یہ شعور رکھتا ہے کہ اس کے مہربان باپ نے اسے بہت ساری مشکلات اور سختیوں سے نجات دلائی ہے اور محفوظ رکھا ہے، ہمارے بچپنے کازمانہ لیجئے کہ ہماری جسمانی طور پر پرورش  کرنے کے لئےہمارے والدین  دن رات زحمتیں اٹھاتےہیں اور اپنا سکون اور چین کھو دیتے ہیںاسی لئے ہمیں چاہئے کہ خدا کی عبادت اور شکر گزاری کے بعد والدین کی شکر گزاری  بھی ضرور کریںلیکن حدیث شریف کی روشنی میں پھر بھی کما حقّہ ان کا شکر ادا نہیں کرسکتے:

عَنْ حَنَانِ بْنِ سَدِيرٍ عَنْ ابِيهِ قَالَ قُلْتُ لِابِي جَعْفَرٍ ع هَلْ يَجْزِي الْوَلَدُ وَالِدَهُ فَقَالَ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ الَّا فِي خَصْلَتَيْنِ انْ يَكُونَ الْوَالِدُ مَمْلُوكا فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ اوْ يَكُونَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَيَقْضِيَهُ عَنْه (1)

حنان بن سدیر نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ امام محمد باقر (ع) سے سوال کیا کہ کیا بیٹا اپنے باپ کا حق ادا کرسکتا ہے یا نہیں؟! تو فرمایا: صرف دو صورتوں میں ممکن  ہے: پہلا یہ کہ اگر باپ کسی کا غلام ہو اور اسے بیٹا خرید کر ازاد کردے، یا اگر باپ کسی کا مقروض ہو اور بیٹا اس کا قرض ادا کرے

باپ کا احترام واجب

قران مجید کی ایتوں کے علاوہ روایات اسلامی میں بھی ماں باپ کے حقوق اور احترام کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے، اور ساتھ ہی احترام کرنے کا ثواب اور اثر اوراحترام نہ کرنے کا گناہ اور برا اثر بھی جگہ جگہ ملتا ہے: 

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ قَالَ انَّ يُوسُفَ لَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِ الشَّيْخُ يَعْقُوبُ دَخَلَهُ عِزُّ الْمُلْكِ فَلَمْ يَنْزِلْ الَيْهِ فَهَبَطَ جَبْرَئِيلُ فَقَالَ يَا يُوسُفُ ابْسُطْ رَاحَتَكَ فَخَرَجَ مِنْهَا نُورٌ سَاطِعٌ فَصَارَ فِي جَوِّ السَّمَاءِ فَقَالَ يُوسُفُ يَا جَبْرَئِيلُ مَا هَذَا النُّورُ الَّذِي خَرَجَ مِنْ رَاحَتِي فَقَالَ نُزِعَتِ النُّبُوَّةُ مِنْ عَقِبِكَ عُقُوبَةً لِمَا لَمْ تَنْزِلْ الَ ی الشَّيْخِ يَعْقُوبَ فَلَا يَكُونُ مِنْ عَقِبِكَ نَبِيٌّ  (2)

---------------

(1):-  بحار الانوار ، ج ۱۷، ص ۶۶

(2):-الك افي ، ج 2 ، ص 311    

۵۶

چنانچہ امام صادق(ع) سے منقول ہے کہ جب حضرت یعقوب (ع) مصر میں وارد ہوئے تو حضرت یوسف (ع)بھی بہت سارے لوگوں کے ساتھ ان کے استقبال کے لئے نکلے جب نزدیک ہوئے تو مرتبہ و جلالت شہنشاہی سبب بنی کہ اپ سواری سے نیچے نہیں اترے(اگرچہ یہ بعید نظر اتا ہے کہ خدا کا نبی ایسا کرے ! بہرحال روایت کے صحیح ہونے یا نہ ہونے  میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے) تو جبرئیل امین (ع)نے کہا: اے یوسفؑ!  ہاتھ کھولیےاور جب یوسفؑ نے اپنی مٹھی کھولی تو اس میں سے ایک نور اسمان کی طرف رہا ہونے لگاتو حضرت یوسف(ع)نے سوال کیا :جبرئیل یہ کیا ہے؟! جبرئیل نے کہا: یہ نبوت کا نور تھا کہ تیری نسل سے خارج ہوگیااور یہ اس لئے تیری نسل سے خارج ہوگیا کہ تم اپنے باپ کے احترام میں سواری سے نیچے نہیں اترےاسی لئے سلسلہ نبوت اپ کے بھائی کے صلب سے جاری ہوا پیغمبر اسلام ﷺ کے ایک قریبی رشتہ دار نے سوال کیا: میرے ماں باپ فوت ہوچکے ہیں اور ان کا میرے اوپر حق ہے کیسے اسے اتاروں؟ تو فرمایا: ان کے لئے نماز پڑھو، مغفرت طلب کرو، اور ان کی وصیت پر عمل کرو، اور ان کے دوستوں کا احترام کرو، اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک رکھو،اور فرمایا: ماں کا حق باپ کےحقوق سے دوگنا زیادہ ہے(1)

فریضہ است زحق بر تو احترام پدر              پس از خداو پیمبر بُوَد مقام پدر

اگر چہ حرمت مادر نگاہ باید داشت             بحکم شرع بود واجب احترام پدر

بچوّں پر ماں کے حقوق

وَ امَّا حَقُّ امِّكَ فَانْ تَعْلَمَ انَّهَا حَمَلَتْكَ حَيْثُ لَا يَحْتَمِلُ احَدٌ احَدا وَ اعْطَتْكَ مِنْ ثَمَرَةِ قَلْبِهَا مَا لَا يُعْطِي احَدٌ احَدا وَ وَقَتْكَ بِجَمِيعِ جَوَارِحِهَا وَ لَمْ تُبَالِ انْ تَجُوعَ وَ تُطْعِمَكَ وَ تَعْطَشَ وَ تَسْقِيَكَ وَ تَعْرَ ی وَ تَكْسُوَكَ وَ تَضْحَ ی وَ تُظِلَّكَ وَ تَهْجُرَ النَّوْمَ لِاجْلِكَ وَ وَقَتْكَ الْحَرَّ وَ الْبَرْدَ لِتَكُونَ لَهَا فَانَّكَ لَا تُطِيقُ شُكْرَهَا الَّا بِعَوْنِ اللهِ وَ تَوْفِيقِه‏ (2)

--------------

(1):-ترجمه رس الة الحقوق،ص۱۳۹

(2):-من‏ل ايحضره‏ الفقيه ، ج2 ، ب اب الحقوق  ص621

۵۷

تیری ماں کا حق تجھ پر یہ ہے کہ تو جان لے کہ وہ تجھے اٹھاتی رہی کہ کوئی بھی کسی کو اس طرح نہیں اٹھاتااور اپنےدل کا پھل کھلاتی رہی  کہ اج تک کسی نے کسی کو نہیں کھلایااور وہ اپنی پوری طاقت اور پورے وجود کے ساتھ تمہاری حفاظت کرتی رہیاور اپنی بھوک اور پیاس کی پروانہیں کی لیکن تجھے وہ سیر اور سیراب کرتی رہیاور خود برہنہ رہی لیکن تیرے لباس کا بندوبست کرتی رہی اور خود کو دھوپ میں اورتجھے اپنی محبت کےسایہ میں رکھتی رہی،اور خود اپنی رات کی نیند اور ارام کی پروا نہیں لیکن تمہاری نیند اور ارام وسکون کا خیال ورتمہیں گرمی اور سردی سے بچاتی رہی، تاکہ تو اس کا بن کے رہے،  پس تم کسی بھی صورت میں اس کی شکرگزاری نہیں کرسکتےہو مگر یہ کہ خدا تجھے اس کی توفیق دے

امام سجاد(ع)کے کلام میں باپ کے حقوق  پر  ماں کے حقوق کو مقدم کیا گیاہے، شاید اس کی وجہ  یہ  ہوسکتی ہے کہ بیٹے کی شخصیت سازی میں ماں کا زیادہ  کردار ہوتا ہےاور وہ زیادہ زحمتیں اور مشقتیں  برداشت کرتی ہےاور یہ دین مبین اسلام کا طرّہ امتیاز ہے  وگرنہ  دوسرے  مکاتب فکر اور ادیان والے اتنی عظمت اور احترام کے قائل نہیں  ہیں

عورت کو ماں کی حیثیت سے جو حقوق اسلام نے دیا ہے وہ مغربی دنیا میں اس کا تصور بھی  نہیں کر سکتا وہاں جب بچہ قانونی طور پر حد بلوغ کو پہنچتا ہے تو گھر چھوڑ جاتا ہےاور ماں باپ سے بالکل الگ زندگی گزارنے کی فکر میں رہتا ہےاور ایسا رویہ گھریلو ماحول کو بالکل بے مہر و محبت ماحول میں تبدیل کر دیتا ہےکئی کئی سال گزرجاتے ہیں لیکن اولاد اپنے والدین کو دیکھنے اور ملنے بھی نہیں اتی اور حکومت بھی مجبور ہو جاتی ہے کہ ایسے والدین کو بوڑھوں کے گھر (old house)منتقل کریں

افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیگانوں کی اندھی تقلید نے اسلامی معاشرے میں بھی یہ حالت وکیفیت پیدا کردی ہےجہاں والدین گھر کے چشم و چراغ ہیں وہاں اہستہ اہستہ انہیں گھر سے دور اور الگ کرتے جارہے ہیںاور بوڑھوں کے گھر بھیجنا شروع کر دیا ہے

قران مجید نے اس غلط ثقافت پر مہر بطلان لگادی ہے اور ماں باپ کے حقوق کے بارے میں سختی سے تاکید کی ہے یہاں تک کہ اپنی عبادت کا حکم دینے کیساتھ ساتھ ماں باپ پر احسان اور نیکی کرنے کا حکم دیا ہےیعنی اللہ کی عبادت کے فورا بعد والدین کے حقوق کا خیال کرنے کا حکم دیا گیا ہےان حقوق کو ہم چند قسموں میں بیان کریں گے

۵۸

حق احسان

متعدد ایات میں یکتا پرستی کی طرف دعوت کیساتھ ساتھ ماں باپ پر احسان کرنے کا بھی حکم ایا ہے:

وَاعْبُدُوا اللهَ وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ احْسَانًا(1)

 خدا کی عبادت کرو اور اس کیساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھرھاؤ اور والدین کیساتھ احسان کرودوسری جگہ فرمایا:

قُلْ تَعَالَوْا اتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ الا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ احْسَانًا (2)

 کہہ دیجئے کہ اؤ ہم تمہیں بتائیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا کیا حرام کیا ہےخبردار کسی کو اس کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا

وَاذْ اخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي اسْرَائِيلَ لا تَعْبُدُونَ الا اللهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ احْسَانا وَذِي الْقُرْبَی وَالْيَتَامَی وَالْمَسَاكِينِ(3)

"اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ قرابتداروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا"

اور احسان سے مراد کچھ محدود چیزیں نہیں بلکہ سب نیک اور شائستہ کام مراد ہیں جو انسان کسی دوسرے کے لئے انجام دیتا ہےاولاد پر والدین  کا بہت بڑا حق ہے

احسان کرنابہترین عبادت

قَالَ قُلْتُ لِابِي عَبْدِ اللهِ ع ايُّ الْاعْمَالِ افْضَلُ قَالَ الصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا وَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ وَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ (4)

--------------

(1):- نساء ۳۶

 (2):- انعام ۱۵۱

(3):- بقرہ ۸۳

(4):-وس ائل‏ الشيعة    ،ج  15، ص 19

۵۹

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادق (ع)سے سوال کیا: کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ تو  امام نے فرمایا:نماز کا اول وقت  پر  پڑھنا، والدین کے ساتھ نیکی کرنا  اور  خدا  کی راہ  میں  جہاد  کرنا

کافروالدین پربھی احسان!

عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنِ الرِّضَا ع فِي كِتَابِهِ الَ ی الْمَامُونِ قَالَ وَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ وَاجِبٌ وَ انْ كَانَا مُشْرِكَيْنِ وَ لَا طَاعَةَ لَهُمَا فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ وَ لَا لِغَيْرِهِمَا فَانَّهُ لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ (1)

فضل بن شاذان ؓ امام رضا (ع)سے روایت کرتے ہیں کہ اپ نے مامون کو خط لکھا جس میں والدین کی اطاعت کو واجب قرار دیا، اگرچہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو ؛ سوائےمعصیت خدا  کے کیونکہ معصیت الہٰی  میں مخلوق  کی اطاعت جائز نہیں ہے

عَنْ ابِي جَعْفَرٍ ع قَالَ ثَلَاثٌ لَمْ يَجْعَلِ اللهُ لِاحَدٍ فِيهِنَّ رُخْصَةً ادَاءُ الْامَانَةِ الَ ی الْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ وَ الْوَفَاءُ بِالْعَهْدِ لِلْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ وَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ بَرَّيْنِ كَانَا اوْ فَاجِرَيْنِ (2)

امام صادق (ع)سے روایت ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں خدا نے کسی کے لئے بھی رخصت نہیں دی ہے:

1.  امانت کا واپس کرنا اگرچہ انسان فاسق ہو یا نیک ہو 2.   وعدہ وفا کرنا خواہ اچھا انسان ہو یا برا

3.  والدین کے ساتھ احسان کرنا، خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں

 خصوصا  ماں کا حق اولاد کے اوپر زیادہ ہے جیسا کہ  امام صادق(ع) فرماتے ہیں: ایک شخص رسول خدا (ص)کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں ایک ایسا جوان ہوں جو خدا کی راہ میں جہاد کرنے کی خواہش رکھتا ہوں لیکن میری ماں اس کام کی طرف ہرگز مائل نہیںرسول اکرم(ص) نے فرمایا: واپس جاؤ اور اپنی ماں کے پاس رہو اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق پر مبعوث فرمایا ہے ایک رات ماں کی خدمت کرنا خدا کی راہ میں ایک سال جہاد کرنے سے بہتر ہے(3)

--------------

(1):-وس ائل‏ الشيعة    ، ج 16 ، ص 155

(2):-وس ائل‏ الشيعة    ، ج 21 ، ص490

(3):- جامع السعادات،ج2،ص261

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

صرف حکومت کے حصول کی تمنا تھی ۔خون عثمان کو حصول مقصد کے لئے اس نے صرف ایک ذریعہ بنایا ہواتھا ۔ حضرت علی (ع) کے موقف کو ابن حجر عسقلانی یوں بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا :-

"سب سے پہلی بات یہ ہے کہ معاویہ اور اس کے ساتھی سرکشی کی راہ چھوڑ کر میری بیعت کریں بعد ازاں عثمان بن عفان کے خون کا وارث ان کے خون کا دعوی میری عدالت میں دائر کرے اس کے بعد میں احکام شرع کے تحت فیصلہ کرو ں گا ،"(۱)

جنگ صفین کے بعد حضرت علی نے مختلف شہروں میں ایک گشتی مراسلہ روانہ کیا جس کی تحریر یہ تھی ۔

"وکان بدء امرنا انّا التقینا والقوم من اهل الشام "

ابتدائی صورت حال یہ تھی کہ ہم اور شام والے آمنے آئے ۔ اس حالت میں کہ ہمارا اللہ ایک ، نبی ایک اور دعوت اسلام ایک تھی ۔ نہ ہم ایمان باللہ اور اس کے رسول کی تصدیق میں ان سے کچھ زیادتی چاہتے تھے اور نہ وہ ہم سے اضافہ کے طالب تھے ، بالکل اتحاد تھا ۔ سوا اس اختلاف کے جو ہم میں خون عثمان کے بارے میں ہوگیا اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سے بالکل بری الذمہ تھے ۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ آؤ فتنہ کی آگ بجھا کر اور لوگوں کا جوش ٹھنڈا کرکے اس مرض کا وقتی مداوا کریں ،جس کا پورا ستیصال ابھی نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ صورت حال استوار وہموار ہوجائے اور سکون واطمینان حاصل ہوجائے اس وقت ہمیں اس کی قوت ہوگی ہم حق کو اس جگہ پررکھ سکیں لیکن ان لوگوں نے کہا ہم اس کا علاج جنگ و جدل سے کریں گے ۔"(۲)

____________________

(۱):- الاصابہ فی تمییز الصحابہ ۔جلد دوم ۔ ص ۵۰۱-۵۰۲

(۲):- نہج البلاغہ ۔جلد دوم ۔مکتوب نمبر ۔۵۸۔ص ۶۵۱

۲۴۱

معاویہ کا خروج دراصل اس موروثی عداوت کا مظہر تھا جو اس کے خاندان کو بنی ہاشم سے تھی ۔بنی امیہ اور نبی ہاشم میں قبل اسلام بھی عداوت موجود تھی اور بنی امیہ نے ہمیشہ بنی ہاشم کو اپنے ظلم وجور کا نشانہ بنایا تھا ۔

حضرت عبدالمطلب کے زمانہ میں ان کا ایک یہودی غلام تھا جو کہ تجارت کرتا تھا ۔ یہ بات معاویہ کے دادا کو ناگوار گزری ۔چنانچہ حرب بن امیہ نے قریش کے چند نوجوانوں کو اس کے قتل اور اس کا مال لوٹنے پر آمادہ کیا ۔ اس کے بہکاوے میں آکر عامربن عبد مناف بن عبد الدار اور حضرت ابو بکر کے داد صخر بن حرب بن عمرو بن کعب التیمی نے اسے قتل کردیا اوراسکا مال لوٹ لیا تھا ۔(۱)

جنگ صفین

حضرت علی (ع) جنگ جمل سے فارغ ہوکر کوفہ تشریف لائے اور جریر بن عبداللہ بجلی کو اپنا قاصد بنا کر معاویہ کے پاس روانہ کی اور اسے اپنی خلافت وامارت کے تسلیم کرنے کی دعوت دی ۔

جریر حضرت علی (ع) کا خط لے کر معاویہ کے پاس گئے اور معاویہ نے کافی دن تک اسے ملاقات کا وقت تک نہ دیا ۔ عمرو بن العاص سے مشورہ کیا کہ ہم کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے ؟

عمرو بن العاص نے اسے مشورہ دیا کہ اہل شام کا ایک اجتماع بلانا چاہئیے اور اس میں علی (ع) کو عثمان کا قاتل کہہ کر اس سے خون عثمان کا بدلہ لینے کی تحریک پیش کی جائے ۔اسی اثناء میں نعمان بن بشیر حضرت عثمان کی خون آلود قمیص مدینہ سے لے کے دمشق پہنچ گیا ۔

معاویہ نے خون آلود قمیص کو منبر پہ رکھا اور اہل شام کو قمیص دکھا کر

____________________

(۱):- ابن اثیر الکامل فی التاریخ ۔جلد دوم ص ۹

۲۴۲

ایک جذباتی تقریر کی ۔اہل شام نے معاویہ کے سامنے قسم کھائی کہ جب تک وہ خون عثمان کا بدلہ نہ لیں گے اس وقت تک اپنی بیویوں سے مقاربت نہ کریں گے اور نرم بستر پر نہ سوئیں گے ۔ جریر دمشق سے واپس آئے اور حضرت علی (ع) کو اہل شام کی بغاوت اور ان کے اعلان جنگ کی اطلاع دی ۔

حضرت علی بھی اپنا لشکر لے کر چل پڑے اور مقام نخیلہ میں قیام کیا اور مالک اشتر کو مقدمۃ الجیش کا سالار مقرر کرکے آگے روانہ کیا اور انہیں نصیحت کی کہ :-

"جنگ میں پہل نہ کرنا اور مخالف لشکر کے اتنا زیادہ قریب نہ ہونا کہ وہ یہ سمجھ لیں کہ یہ ہم پر حملہ کرنا چاہتے ہیں ۔ نیز مخالف لشکر سے اتنا دوربھی نہ ہونا کہ وہ یہ سمجھ لیں کہ وہ ہم سے خوف زدہ ہوکر بھاگ گئے ہیں ۔ میرے آنے کا انتظار کرنا جب تک میں نہ آؤں جنگ نہ کرنا "۔

معاویہ کے لشکر نے فرات کے گھاٹ پر قبضہ کرلیا اور حضرت علی(علیہ السلام) کے لشکر کو پانی بھرنے سے روک دیا ۔ جب حضرت علی (علیہ السلام) آئے تو لشکر نے اپنی پیاس کی شکایت کی ۔حضرت علی (علیہ السلام ) نے صعصعہ بن صوحان کو معاویہ کے پاس بھیجا ۔،انہوں نے اس سے کہا کہ ہم تم سے بلاوجہ جنگ کرنا پسند نہیں کرتے مگر تم نے پانی بند کرکے ہمیں جنگ کی بالواسطہ دعوت دی ہے پانی پہر ہر جاندار کا حق ہے ۔تم اپنے فوجیوں کو حکم دو کہ وہ گھاٹ خالی کردیں تاکہ ہر شخص آزادی سے پانی پی سکے ۔معاویہ اپنی ضد پر اڑارہا ۔حضرت علی (ع) نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ :-معاویہ کی فوج کو گھاٹ سے دھکیل دیا جائے ۔

حضرت علی (ع) کی فوج نے معاویہ کی فوج پر حملہ کیا اور انہیں گھاٹ سے دور بھگا دیا اور پانی پر حضرت علی (ع) کی فوج کا قبضہ ہوگیا ۔ انہوں نے معاویہ کی فوج کو پانی دینے سے انکار کردیا ۔مگر حضرت علی (ع) کے سینہ میں ایک دردمند دل تھا انہوں نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ پانی سے کسی کو نہ روکا جائے ۔

۲۴۳

اگر معاویہ بھی پانی بند کرے اور علی (ع) بھی پانی بند کرے تو علی (ع) اور معاویہ میں کیا فرق رہ جائے گا ؟

حضرت علی نے ابو عمر ،بشیر بن محصین الانصاری ،سعید بن قیس الھمدانی ،اور شبث بن ربعی التمیمی کو بلایا اور انہیں فرمایا کہ تم معاویہ کے پاس جاؤ اور اسے اطاعت امام اور جماعت میں شامل ہونے کی دعوت دو ۔

یہ افراد معاویہ کے پاس گئے ،بشیر بن محصین الانصاری نے کہا:-

"معاویہ ! میں تمہیں خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ بغاوت سے باز آجاؤ اور امت اسلامیہ کی تفریق سے بچو اور امت کی خون ریزی سے پر ہیز کرو " معاویہ نے کہا :- کیا ہم عثمان کا خون رائیگان جانے دیں ؟ خدا کی قسم میں ایسا کبھی نہیں کروں گا ۔

شبث بن ربعی التمیمی نے کہا :- معاویہ ! تیرے مطالبہ کا مقصد ہمیں خوب معلوم ہے ۔لوگوں کو گمراہ کرنے اور اپنی طرف مائل کرنے اور اپنی حکومت کے قیام کے لئے تو نے یہ نعرہ لگا یا ہے کہ تمہارا امام مظلم ہو کر مارا گیا ہے ۔ اور ہم اس کے خون کا بدلہ چاہتے ہیں ۔

ہمیں بخوبی علم ہے کہ تو نے عثمان کی کوئی مدد نہیں کی تھی اور تو نے جان بوجھ کر ان کی نصرت سے تاخیر کی تھی ۔ تم درحقیقت یہی چاہتے تھے کہ وہ قتل ہوجائیں اور ان کے قتل کو تو اپنی سیاست کے لئے استعمال کے سکے ۔

معاویہ ! خدا کا خوف کرو اور خلیفۃ المسلمین کی اطاعت کرو ۔

معاویہ نے اسے سخت سست کہا اور کہا کہ تم لوگ واپس چلے جاؤ اب ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار ہی فیصلہ کرے گی ۔

اس کے بعد سنہ ۳۶ ھ میں حضرت علی اور معاویہ کے درمیان عارضی جنگ بندی

۲۴۴

ہوئی اور معاہدہ ہوا کہ ماہ محرم کے احترام کے پیش نظر جنگ بندی سے پرہیز کیا جائے ۔

معاویہ نے اس عارضی جنگ بندی سے سوء استفادہ کیا اور اپنے لشکر کی تعداد بڑھانی شروع کی ۔حضرت علی (ع) نے اس دوران معاویہ کے پاس قاصد روانہ کئے اور اسے جنگ سے باز رہنے کی تلقین کی ۔لیکن معاویہ نے ہر سفارت کو ناکام لوٹا دیا ۔

معاویہ کی حرکات کی وجہ سے جنگ ناگزیر ہوگئی ۔جنگ کے آغاز سے پہلے حضرت علی (ع) نے اپنے لشکر کو خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا :-

"جنگ کی ابتدا تمہاری طرف سے نہیں ہونی چاہیئے ۔تم لوگ دلیل وحجت پر ہو اور تمہاری طرف سے جنگ کی ابتدا نہ کرنا تمہاری حجت ہے اورجب تم دشمن کو شکست دے دو تو کسی بھاگنے والا کا تعاقب نہ کرنا ۔کسی زخمی کو قتل نہ کرنا اور کسی مقتول کا حلیہ نہ بگاڑنا ۔کسی کی پردہ دری نہ کرنا ۔کسی مخالف کے گھر میں داخل نہ ہونا اور کسی عورت پہ ہاتھ نہ اٹھانا خواہ وہ تمہیں اور تمہارے حکام کو سب وشتم بھی کرے ۔

درج بالا واقعات سے یہ نتائج مستنبط ہوتے ہیں ۔

۱:- اما م عالی مقام نے تمام ممکنہ ذرائع سے معاویہ کو دعوت اتحاد دی اور اسے مرکزی حکومت کی اطاعت میں شامل ہونے کی تلقین کی ۔

۲:-معاویہ کو تفریق بین المسلمین سے باز رکھنے کی ہرممکن کوشش کی ۔

۳:- قتل عثمان کے قصہ کے متعلق حضرت عثمان کے وارث ان کےپاس آکر اپنے خون کا مقدمہ دائر کریں اور ضرور ی تحقیق کے بعد مجرمین کو سزادی جائے ۔

۴:- معاویہ نے عثمان کی خون آلود قمیص لہرا کر مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کی ۔

۲۴۵

۵:-شامی لشکر کو ملا کر مرکز پر آورہوا ۔

۶:- دریائے فرات کے گھاٹ پر قبضہ کرکے حضرت علی (ع) کے ساتھیوں کو پانی سے محروم کردیا اس سے معاویہ کے غیر انسانی رویوں کا بخوبی اظہار ہوتا ہے ۔

۷:- حضرت علی (ع) کے لشکر نے بزور شمشیر گھاٹ خالی کرالیا ۔لیکن علی (ع) کی انسان دوستی ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے پانی سے کسی کو نہ روکا ۔

۸:- کربلا میں آل محمد (ع) کا جو پانی بند کیا گیا تھا وہ بھی کردار معاویہ کا ایک تسلسل تھا۔

۹:-حوصلہ شکن حالات کے باوجود بھی حضرت علی (ع) نے فریضہ دعوت کو فراموش نہیں کیا ۔معاویہ کے پاس معززین کا ایک وفد روانہ کیا اور اسے جنگ سے باز رہنے کی دعوت دی ۔

۱۰:- معاویہ نے علی (ع) کے فرستادہ وفد کے دو ارکان سعید اور شبث کے درمیان دورجاہلیت کی عصبیت کو برانگیختہ کیا ۔

۱۱:- جنگ صفین میں باطل اور نور کے مقابلہ میں ظلمت کو شکست ہوئی اور معاویہ نے محسوس کیا کہ اب اس کی زندگی کا چراغ بجھنے ہی والا ہے ۔تو اس نے فطری روباہی سے کام لیتے ہوئے نیزوں پرقرآن بلند کئے اور کہا کہ اہل عراق جنگ بند کردو ۔ہم اور تم قرآن کے مطابق اپنے تنازعات کا فیصلہ کریں ۔

۱۲:- معاویہ کی یہ مکاری کامیاب رہی ۔ حضرت علی (ع) کے لشکر میں پھوٹ پڑگئی اور خوارج نے جنم لیا اور امام عالی مقام (ع) ان کے ہاتھ سے شہید ہوگئے ۔

درج بالا نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم دوبارہ یہ کہیں گے کہ حضرت علی (ع) اور معاویہ کی جنگ دوایسے افراد کے درمیان جنگ تھی جو کہ ہر لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد تھے ۔

معاویہ کی سرشت یہ تھی کہ اپنے ہدف کے حصول کے لئۓ جائز اور ناجائز

۲۴۶

ذرائع کی اس کے پاس کوئی تخصیص نہ تھی ۔اپنے ہدف کے حصول کے لئے اس نے ہر قسم کے حربے آزمائے ،زہر دے کر اپنے مخالفین کو قتل کرایا ۔ ہر طرح کی عہد شکنی کی ۔مجہول النسب افراد کو ابو سفیان کا بیٹا بنایا ۔اعاظم صحابہ کو قتل کیا مثلا ۔حضرت عمار بن یاسر ۔حضرت اویس قرنی ،حضرت خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین جیسے افراد اور حضرت حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو ناحق قتل کیا ۔

معاویہ کی نگاہ میں اخلاق عالیہ اور انسانی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ معاویہ کے پاس طمع ولالچ کا ہتھیار تھا ۔ جب کہ حضرت علی کے پاس اسلامی اقدار کا ہتھیار تھا ۔ معاویہ کے سامنے ایک وسیع میدان تھا کیونکہ اس کی نگاہ میں جائز اور ناجائز کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ اس کے ہاں اگر اہمیت تھی تو صرف اور صرف اپنے مقصد کے حصول کی تھی ۔ جبکہ حضرت علی کے سامنے میدان بڑا تنگ تھا ۔علی علیہ السلام صرف وہی کرسکتے تھےجس کی اسلام اجازت دیتا تھا ۔

معاویہ کے مقربین اور حضرت علی کے مقربین میں بھی فرق تھا ۔

معاویہ کے مقرب بننے کا معیار استحصالی ہونا تھا اور حضرت عیل کا مقرب بننے کے لئۓ اسلامی تعلیمات کا عامل بننا ضروری تھا ۔

معاویہ کے احباب میں عمرو بن العاص اور بسر بن ارطاۃ جیسے افراد نمایاں تھے ۔ حضرت علی (ع) کے احباب میں حضرت عمّار یا سر اور اویس قرنی اور حضرت حجر بن عدی جیسے قائم اللیل اور صائم النہار افراد نمایاں تھے ۔

احباب کی طرح پیروکاروں کا بھی فرق تھا ۔

معاویہ کے پیروکاروں میں ایسے افراد شامل تھے جنہیں اونٹ اور اونٹنی کے فرق کا علم نہیں تھا ۔

اور اس کے برعکس حضرت علی علیہ السلام کے پیروکار اکثر فقیہ اور محدث تھے ۔ البتہ ایک صفت ایسی ضرور تھی جس میں معاویہ کو تفوق حاصل تھا اور وہ

۲۴۷

صفت یہ تھی ۔ کہ معاویہ کا لشکر اس کا مثالی اطاعت گزار تھا ۔ جب کہ حضرت کے لشکر میں ٹال مٹول کرنے والے کافی افراد موجودتھے ۔

اہل شام کی اطاعت کی انتہا یہ ہے کہ معاویہ نے بدھ کے دن نماز جمعہ پڑھائی تو کسی نے بھی اعتراض نہ کیا(۱) ۔

معاویہ نے اپنی رعایا میں جہالت کو رائج کیا اور ایک طویل عرصہ تک اہل شام کی جہالت ضرب المثل بنی رہی ۔

مسعودی نے ایک دلچسپ حکایت لکھی ہے :-

"ایک اہل علم نے مجھے بتایا کہ اہل علم کی ایک جماعت ابو بکر وعمر اور علی ومعاویہ کے متعلق بحث کررہی تھی ۔ ایک عقل مند اور دور اندیش شامی نے کہا کہ تم علی ومعاویہ کی بحث کس لئے کررہے ہو ؟

ایک اہل علم نے اس سے پوچھا کہ تم علی (ع) کو جانتے ہو ؟

شامی نے کہا کیوں نہیں ؟ جنگ حنین میں علی رسول (ص) کے ساتھ شہید ہوگیا تھا ۔"

اہل شام کی جہالت کی ایک اور مثال پیش خدمت ہے :

مروان الحمار کی تلاش میں عبداللہ بن علی اپنا لشکر لے کر دمشق گیا ۔ اس نے دمشق سے چند بزرگ اور معزز افراد کو ابو العباس سفاح کے پاس بھیجا ۔جنہوں نےسفاح عباسی کے سامنے قسم کھا کر کہا کہ " تمہاری حکومت آنے سے پہلے ہمیں کوئی علم نہیں تھا کہ بنی امیہ کے علاوہ بھی رسول خدا (ص) کے کوئی رشتہ دار ہیں ۔ہمیں تو آج تک بنی امیہ نے یہی باور کرایا تھا کہ وہی رسول خدا (ص) کا خاندان اور ان کے وارث ہیں ۔"(۲)

____________________

(۱):- المسعودی ۔مروج الذھب ومعادن الجوہر ۔جلددوم ۔ص ۳۳۴

(۲):- المسعودی ۔مروج الذھب معادن الجوہر۔جلد دوم ۔ ص ۵۱

۲۴۸

معاویہ نے اپنے اقتدار کو مستحکم رکھنے کے لئے عوام میں جہالت کو فروغ دیا اور امت اسلامیہ کی نظریاتی سرحدوں کو کمزور کرنے کےلئے "وضع حدیث " سے کام لیا اور اس کے حکم وترغیب کی وجہ سے فضائل ثلاثہ کی ہزاروں احادیث وضع کی گئیں اور ابو ہریرہ اور اس کے ہم نوا دن رات حدیث سازی میں مصروف ہوگئے اور حدیث سازی کو باقاعدہ "صنعت" کا درجہ حاصل ہوگیا اور اس بہتی گنگا میں ہزاروں افراد نے ہاتھ دھوئے ۔

اپنے مخالفین کو زہر دےکر ختم کرانا معاویہ کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اس نے حضرت علی (ع)کے حاکم مصر مالک اشتر کو ایک زمیندار کے ہاتھ سے زہر دلوایا اور زمیندار سے خراج کی معافی کا وعدہ کیا گیا ۔ معاویہ کے بہکاوے میں آکر اس زمیندار نے حضرت مالک کو کھانے کی دعوت دی اور شہد میں انہیں زہر دیا گیا ۔ جس کی وجہ سے حضرت مالک اشتر شہیدہوگئے ۔

اس واقعہ کے بعد معاویہ اور عمر وبن العاص بیٹھ کر کہا کرتے تھے کہ شہد بھی اللہ کا ایک لشکر ہے ۔

معاویہ نے امام حسن مجتبی علیہ السلام کو ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث کے ذریعہ زہر دلوایا ۔

معاویہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے بعض اوقات خوشامد اور چاپلوسی سے کام لیتا تھا اور بعض اوقات اپنے مخالفین کے خلاف فوجی قوت کو بے دریغ استعمال کرتا تھا ۔

معاویہ نے اپنے ایک شقی القلب ساتھی بسر بن ارطاۃ کو ایک بڑا لشکر دے کر بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ وہ حضرت علی کے زیر نگیں علاقے میں جاکر فوجی کاروائی کرے ۔

بسر نے حضرت علی (ع) کی مملکت میں بہت زیادہ خون ریزی کی ۔مسلمانوں

۲۴۹

کے اموال کو لوٹا اہل مدینہ کو خوف زدہ کیا اور ان سے معاویہ کی جبری بیعت لی ۔

پھر وہ بدبخت یمن گیا حاکم یمن اس کی آمد کی خبر سن کر فرار ہوگیا ۔چنانچہ بسر نے یمن میں بے دریغ قتل عام کیا اور ہل یمن سے بھی معاویہ کی بیعت لی ۔

اس نے عبید اللہ بن عباس کے دو چھوٹے بچوں کو قتل کردیا ۔ حضرت علی (ع) کو ان واقعات کی اطلاع ملی تو انہوں نے جاریہ بن قدام کو بسر کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا ۔

حضرت علی (ع) کے فوجی دستہ کا سن کر وہ لعین شام بھاگ گیا ۔

جاریہ نے اہل یمن کو حضرت علی (ع) کی بیعت کی دعوت دی جو انہوں نے بخوشی قبول کرلی ۔پھر جاریہ مکہ مکہ آیا تو اسے معلوم ہوا کہ اسلام کا محافظ علی (ع) شہید ہوگیا ہے ۔(۱)

درج بالا حالات س معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ میں انسانیت کی بہ نسبت حیوانیت اور درندگی کا عنصر زیادہ پایا جاتا تھا اور اس کی حیوانیت کے تحت ہمیشہ بدلتی رہتی تھی ۔ کمزور افراد کو بھیڑئیے کی طرح چیر دیتا اور طاقت ور افراد کے سامنے روباہیت سے کام لیتا تھا ۔

اس کے برعکس حضرت علی کی زندگی خوف خدا ، انسان دوستی اور احکام شرع کی پابندی سے عبارت تھی ۔ حضرت علی (ع) عدالت کے داعی تھے ۔

مختصر الفاظ میں ان دونوں کی زندگی کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے :- جس قدر معاویہ میں خامیاں تھیں ۔اسی قدر علی علیہ السلام میں خوبیاں تھیں اور معاویہ کے پاس ظلم کا جتنا ذخیرہ تھا ،علی کے پاس اتنی ہی مقدار میں عدل تھا ۔ حضرت علی (ع) بخوبی جانتے تھے کہ بنی امیہ امت اسلامیہ کی تقدیر کے مالک بن جائیں گے اور اسی

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسیس مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔۱۵۰

۲۵۰

کی پیش گوئی کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا "اما والذی نفسی بیده ۔۔۔۔۔"

"اس ذات برحق کی قسم جس کے اختیار میں میری جان ہے ! یہ لوگ تم پر غالب آجائیں گے ۔وہ اس لئے غالب نہیں ہونگے کہ وہ بر حق پر ہیں ۔ ان کے غلبہ کی وجہ ہے کہ وہ اپنے باطل کی بھی پیروی پر کمر بستہ رہتے ہیں جب کہ تم حق کے لئے بھی سستی اور تساہل سے کام لیتے ہو۔

حالت یہ ہے کہ رعایا کو اپنے استحکام کا خوف ہوتا ہے ۔لیکن آج میں اپنی رعایا کے ظلم سے خوف زدہ ہوں "۔

ایک اورمقام پر آپ نے اصحاب کی تساہل پسندی کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا "احمد الله علی ماقضی من امر وقدر من فعل وعلی ابتلائی بکم ۔۔۔۔"

"میں اللہ کی حمد وثناء کرتا ہوں ہر اس امر پر جس کا اس نے فیصلہ کیا اور اس کام پر جو اس کی تقدیر نے طے کیا ہو اس آزمائش پر جو تمہارے ہاتھوں اس نے میری کی ہے ۔

اے لوگو! کہ جنہیں کوئی حکم دیتا ہوں تو نافرمانی کرتے ہیں اور پکارتا ہوں کہ تو میری آواز پر لبیک نہیں کہتے ۔اگر تمہیں (جنگ سے ) کچھ مہلت ملتی ہے تو ڈینگیں مارنے لگتے ہو اور اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو بزدلی دکھاتے ہو اور جب لوگ امام پر ایکا کرلیتے ہیں تو تم طعن وتشنیع کرنے لگتے ہو اور اگر تمہیں (جکڑ باندھ کر ) جنگ کی طرف لایا جاتا ہے تو الٹے پیروں لوٹ جاتے ہو۔تمہارے دشمنوں کا برا ہو ۔تم اب نصرت کے لئے آمادہ ہونے اور اپنے حق کے لئے جہاد کرنے میں کس چیز کے منتظر ہو ۔موت کے یا اپنی ذلت ورسوائی کے ؟ خدا کی قسم ! اگرمیری موت کا دن آئے گا اور البتہ آکر رہے گا تو وہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دےگا ۔درآنحالیکہ میں تمہاری ہم نشینی سے بیزار اور (تمہاری کثرت کے باوجود )اکیلا ہوں ۔ اب تمہیں اللہ ہی اجر دے ۔کیا کوئی دین تمہیں ایک مرکز پر

۲۵۱

جمع نہیں کرتا اور غیرت تمہیں (دشمن کی روک تھام پر) آمادہ نہیں کرتی ۔کیا یہ عجیب بات نہیں کہ معاویہ چند تند مزاج اوباشوں کو دعوت دیتا ہے اور وہ بغیر کسی امداد واعانت اور بخشش وعطا کرے اس کی پیروی کرتے ہیں ۔اور میں تمہیں امداد کے علاوہ تمہارے معیّنہ عطیوں کے ساتھ دعوت دیتا ہوں مگر تم مجھ سے پراکندہ ،منتشر ہوجاتے ہو اور مخالفتیں کرتے ہو حالانکہ تم اسلام کے رہے سہے افراد اور مسلمانوں کا بقیہ ہو ۔تم تو میرے کسی فرمان پر راضی ہوتے اور نہ اس پر متحد ہوتے ہو چاہے وہ تمہارے جذبات کے موافق ہو یا مخالف ۔میں جن چیزوں کا سامنا کرنے والا ہوں ۔ ان میں سے سب سے زیادہ محبوب مجھے موت ہے میں نے تمہیں قرآن کی تعلیم دی اوردلیل وبرہان سے تمہارے درمیان فیصلے کئے اور ان چیزوں سے تمہیں روشناس کیا جنہیں تم نہیں جانتے تھے اور ان چیزوں کو تمہارے لئےخوشگوار بنایا جنہیں تم تھوک دیتے تھے ۔کاش کہ اندھے کو کچھ نظرآئے اور سونے والا (خواب غفلت سے بیدار ہو ۔وہ قوم اللہ کے احکام سے کتنی جاہل ہے کہ جس کا پیشرو معاویہ اور معلم نابغہ کا بیٹا ہے ۔"

ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا ۔

تم نے میری بیعت اچانک نہیں کی اور میرا اور تمہارا معاملہ یکساں نہیں ہے ، میں تمہیں اللہ کے لئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنی ذات کے لئے چاہتے ہو ۔

اے لوگو!تم اپنے نفس کے خلاف میری مدد کرو ۔خدا کی قسم ! میں مظلوم کو ظالم سے انصاف دلاؤں گا اور میں ظالم کو بالوں سے پکڑ کر اسے گھسیٹا ہوا حق کے گھاٹ پر لاؤں گا۔ اگر چہ اس کو ناپسند کرتا ہو۔

۲۵۲

فصل ششم

تحکیم ۔مارقین ۔شہادت

حضرت علی نے جنگ سے بچنے کی ہرممکن کوشش کی لیکن معاویہ جنگ کے شعلے کا خواہش مند تھا ۔ آخر کار فریقین میں جنگ چھڑ گئی ۔ جب معاویہ نے محسوس کیا کہ اس کا لشکر شکست کھانے والا ہے تو اس نے عمرو بن العاص سے کہا کہ : تمہارے ذہن میں کوئی ایسی ترکیب موجود ہے جس سے ہمارہ لشکر متحد ہوسکے اور ہمارے مخالفین منتشر ہوسکیں ؟

عمرو بن العاص نے کہا : جی ہاں ۔

معاویہ نے کہا :- تم وہ ترکیب یہ ہے تا کہ ہم حتمی شکست سے بچ جائیں ۔

عمرو بن العاص نے کہا کہ : ترکیب یہ ہے کہ قرآن مجید کو نیزوں پہ بلند کیا جائے اور اہل عراق سے کہا جائے کہ جنگ بند کردیں ۔قرآن کے مطابق فیصلہ کریں ۔اس سے اہل عراق میں انتشار پیدا ہوگا اور شامی لشکر مضبوط ہوجائے گا ۔

چنانچہ شامی لشکر نے قرآن مجید کو نیزوں پہ بلند کرکے کہا : اہل عراق ! لڑائی بند کرو اللہ کی کتاب کو فیصل قراردو۔

حضرت علی (ع) کی فوج نے جب قرآن مجید کو دیکھا توکہا ۔ہم اللہ کی کتاب کو لبیک کہتے ہیں ۔ حضرت علی نے فرمایا : بندگان خدا: اپنے حق پر قائم رہو اور اپنے حق کے اثبات کیلئے جنگ کرتے رہو ۔معاویہ ،عمرو بن العاص اور ابن ابی معیط نہ تو دیندار ہیں اور نہ ہی اہل قرآن ہیں ۔ میں تمہاری بہ نسبت ان لوگوں کو زیادہ بہتر جانتا ہوں ۔ میں انہیں بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی اور جوانی سے اس عمر تک بخوبی جانتا ہوں ۔انہوں نے قرآن کو صرف دھوکہ دینے کی غرض سے بلند کیا ہے ۔

حضرت علی (ع) کی فوج کی اکثریت نے کہا : یہ بات نازیبا ہے کہ مخالف

۲۵۳

ہمیں قرآن کی دعوت دے او رہم اس دعوت کو قبول نہ کریں ۔

حضرت علی (ع) نے فرمایا : میں بھی تو ان سے اسی لئے جنگ کررہا ہوں تاکہ یہ لوگ قرآنی فیصلوں کو تسلیم کریں یہ لوگ احکام خداوندی کی نافرمانی کرچکے ہیں ۔

مگر اہل عراق کی اکثریت نے ہتھیار ڈال دیئے اور جنگ کرنے سے انکار کردیا ۔

حضرت علی کو مجبورا جنگ روکنا پڑی ۔

طے یہ ہوا کہ فریقین اپنا ایک ایک نمائندہ منتخب کریں اور فریقین کے نمائندے جو فیصلہ کریں وہ دونوں کوقبول ہوگا ۔

معاویہ کی طرف سے عمرو بن العاص نمائندہ مقرر ہوا اور اہل عراق نے ابو موسی اشعری کے تقرر کی خواہش کی ۔ حضرت علی نے فرمایا تم جنگ بند کرکے میری نافرمانی کرچکے ہیں اب دوسری مرتبہ میری نافرمانی مت کرو مجھے ابو موسی اشعری پہ اعتماد نہیں ہے ۔میری طرف سے میرا فرزند حسن نمائندگی کرے گا ۔

اہل عراق نے اس پہ اعتراض کیا کہ وہ آپ کا فرزند ہونے کے ناطے خود ایک فریق ہے ۔حضرت علی نے فرمایا اگر تم بیٹے پر راضی نہیں ہو تو پھر میری نمائندگی عبداللہ بن عباس کرےگا ۔

مگر اہل عراق کے عقل پر پتھر برس چکے تھے انہوں نے کہا کہ وہ بھی آپ کے ابن عم ہیں ،ابو موسی ہر لحاظ سے غیر جانبدار ہے ۔

حضرت علی (ع) نے فرمایا کہ ابو موسی بھروسہ کے قابل نہیں ہے یہ ہمیشہ میری مخالفت میں پیش پیش رہا ہے اور لوگوں کو مجھ سے علیحدہ کرتارہا ہے مگر اہل عراق نے ابو موسی پر اصرار کیا ۔

مجبورا حضرت علی نے فرمایا پھر جو تمہارا جی چاہے کرتے رہو ۔

اس کے بعد حکمین کے لئے شرائط نامہ لکھا گیا جس کے چیدہ نکات

۲۵۴

درج ذیل تھے :

یہ معاہدہ علی بن ابی طالب اورمعاویہ بن ابی سفیان کے درمیان ہے ۔

۱:- ہم اللہ کے فرمان کی پابندی کریں گے ۔

۲:- ہم کتاب اللہ کی پابندی کریں گے ۔

۳:- حکمین کتاب اللہ پر خوب غور وخوص کرکے اس کے مطابق فیصلہ کریں گے ۔

۴::- کتاب اللہ میں اگر انہیں اس نزاع کا حل نہ مل سکے تو پھر "سنت جامعہ غیر مفرقہ" کی روشنی میں اس نزاع کا حل تلاش کریں گے ۔

پھر حکمین نے فریقین سے پنی جان ومال کی حفاظت کا وعدہ لیا(۱) ۔

معاہدہ پر حضرت علی اور معاویہ کے گروہوں میں سے سربرآوردہ افراد نے دستخط کئے اور اس کے ساتھ یہ طے ہوا کہ حکمین مقام "دومۃ الجندل " میں ملاقات کریں گے اور وہیں اپنے فیصلہ کا اعلان کریں گے ۔

حضرت علی اپنے لشکر کو لے کر کوفہ چلے آئے اور معاویہ دمشق روانہ ہوا ۔

جب مذکورہ تاریخ پر دومۃ الجندل کے مقام پر حکمین کی ملاقات ہوئی تو عمرو بن العاص نے ابو موسی اشعری سے کہا کہ تو معاویہ کو خلافت کیون نہیں سونپ دیتا ؟

ابو موسی اشعری :- نے کہا کہ معاویہ خلافت کے لائق نہیں ہے ۔

عمروبن العاص : کیا تجھے علم نہیں ہے کہ عثمان مظلوم ہو کر قتل ہوئے ہیں ؟

ابو موسی اشعری :جی ہاں !

عمرو بن العاص : معاویہ عثمان کے خون کا طالب ہے ۔

ابو موسی اشعری : عثمان کا بیٹا عمرو موجود ہے اس کی موجودگی میں معاویہ عثمان کا وارث نہیں بن سکتا ۔

____________________

(۱):- ابن اثیر /الکامل فی التاریخ ۔جلد سوم ۔ص ۱۶۰ ۔۱۶۸

۲۵۵

عمرو بن العاص :اگر آپ میرا کہنا مان لیں تو اس سے عمربن الخطاب کی سنت زندہ ہوجائےگی ۔ آپ میرے فرزند عبداللہ کو خلیفہ بنائیں ۔

ابو موسی اشعری : تیرے بیٹے کو خلیفہ بنانے کی بجائے عبداللہ بن عمر کو کیوں نہ خلیفہ نامزد کیا جائے ؟

عمر بن العاص : عبداللہ بن عمر خلافت کے لائق نہیں ۔خلافت کے لئے ایسے شخص کی ضرورت ہے جس کی دو داڑھیں ہوں ۔ایک داڑھ سے خود کھائے اور دوسری سے لوگوں کو کھلائے ۔

ابو موسی اشعری :" میں یہ چا ہتا ہوں کہ ہم علی (ع) اور معاویہ دونوں کو معزول کردیں اور مسلمانوں کو کھلی چھٹی دے دیں و ہ جسے چاہیں اپنا خلیفہ منتخب کریں ۔"

عمر و بن العاص :- مجھے آپ کی یہ بات پسند ہے ۔اور اسی میں لوگوں کی بھلائی ہے ۔آپ چلیں اور مجمع عام میں اپنے اس فیصلہ کا اعلان کریں ۔

حکمین باہر آئے اور ابو موسی نے تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا ۔ ہم دونوں ایک نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں اور ہم خلوص دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں امت کی بھلائی ہے ۔

عمرو بن العاص نے کہا : بے شک آپ سچ کہتے ہیں ۔

حضرت عبداللہ بن عباس نے ابو موسی اشعری کو کہا کہ احتیاط کرو ، اگر تم نے کوئی متفقہ فیصلہ کرلیا ہے تو پہلے عمرو بن العاص سے کہو کہ وہ آکر حاضرین کے سامنے اپنا فیصلہ بیان کرے تم بعد میں گفتگو کرنا ۔ تمہیں شاید علم نہیں ہے کہ تمہارا واسطہ ایک مکار اور عیار شخص سے ہے ۔ لہذا اس پر ہرگز اعتماد نہ کرو اور بولنے میں سبقت نہ کرو ۔

ابو موسی نے عمرو بن العاص سے کہا کہ پہلے تم آؤ اور فیصلے کا اعلان کرو لیکن مکار عمرو بن العاص نے کہا کہ آپ رسول خدا (ص) کے برگزیدہ صحابی ہیں میری

۲۵۶

کیا مجال کہ میں آپ پر سبقت کروں آپ ہی اعلان میں پہل فرمائیں ۔

ابو موسی اشعری اس کے دھوکے میں آگیا اور اعلان کیا :- اے بندگان خدا! ہم نے اس مسئلہ پر تفصیلی غور کیا ہے اور ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہم علی (ع) اور معاویہ دونوں کو معزول کردیں ۔ اسے کے بعد لوگ جسے چاہیں اپنا خلیفہ مقرر کریں ۔میں علی اور معاویہ دونوں کو معزول کرتا ہوں ۔

یہ اعلان کرکے ابو موسی اشعری پیچھے ہٹ گیا اور عمرو بن العاص نے آکر کہا : جو کچھ ابو موسی اشعری نے کہا ہے وہ تم نے سن لیا ہے اس نے اپنے ساتھی علی کو معزول کیا میں بھی اسے معزول کرتا ہوں اور میں اپنے ساتھی معاویہ کو خلافت پر بحال کرتاہوں کیوں کہ وہ عثمان بن عفان کا وارث اور اس کے خون کے بدلہ کا طالب ہے اور وہی اس کی نیابت کے قابل ہے ۔

ابو موسی اشعری : -عمرو بن العاص !خدا تجھے غارت کرے تو نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی تیری مثال کتے کی جو ہر حالت میں بھونکتا رہتا ہے ۔

عمرو بن العاص ؛- تیری مثال گدھے کی ہے جس پر کتابوں کا بو جھ لدا ہو ۔

اہل شام نے ابو موسی کی زبان درازی پر اسے سزا دینی چاہی اور اسے تلاش کیا ابو موسی چھپ گيا اور بعد ازاں مکہ چلا گیا ۔

حکمین کے اس فیصلہ کو کسی صورت بھی قرین عد ل نہیں کہا جا سکتا اس فیصلہ میں حق وصداقت کو قتل کیا گیا ہے ۔ابو موسی نے اس فیصلہ میں برادر حضرت علی (ع) سے اپنی دشمنی کا اظہار کیا ہے اور اپنی سادگی اور جہالت کی وجہ سے عمروبن العاص سے دھوکا بھی کھایا ہے اس لئے حضرت علی (ع) نے قرآن بلند کرنے کے وقت ہی فرمایا تھا کہ :- یہ دشمن کی چال ہے تم اس کے دام فریب میں مت پھنسو اور مزید یہ کہ معاویہ ،عمروبن العاص اور ابن ابی معیط کا قرآن سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کا دین سے کوئی تعلق ہے ۔

۲۵۷

عمر بن العاص کی شخصیت

تحکیم کی بحث سے پہلے ہم عمرو بن العاص کی شخصیت کے متعلق کچھ معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ قارئین کرام کو معاویہ کے "دست راست" کے متعلق زیادہ معلومات حاصل ہوسکیں ۔عمرو کا باپ عاص السہمی ان لوگوں میں شامل تھا جو حضور کریم کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور انہیں کے متعلق اللہ تعالی نے سورۃ کوثر میں ارشاد فرمایا : انّ شائنک ھو الابتر" بے شک تیرا دشمن ہی بے نام ونشان ہوگا ۔(۱)

"مستہزئین" یعنی حضور اکرم (ص) کا ٹھٹھہ مذاق اڑانے والی جماعت کے دوسرے افراد کا ذکر کرتے ہوئے ابن خلدون لکھتے ہیں :- جب قریش نے دیکھا کہ رسول خدا کا چچا اور ان کا خاندان محمد مصطفی (ص)کی کھلم کھلا حمایت کرتے ہیں اوروہ کسی بھی قیمت پر رسول خدا (ص) پر آنچ نہیں آنے دیتے تو انہوں نے یہ وطیرہ بنایا کہ باہر سے جو بھی شخص مکہ آتا وہ اس کے پاس پہنچ جاتے اور اسے بتاتے کہ ہمارے ہاں ایک جادوگر ،شاعر اور مجنون موجود ہے ۔تم اس کی باتوں میں نہ آنا ۔(نعوذ باللہ)

اور رسول خدا کی اذیت وجماعت کے لئے ایک پوری جماعت تشکیل دی گئی جس میں ربیعہ کے دو بیٹے عتبہ اور شبہ اور عقبہ بن ابی المعیط اور ابو سفیان اور حکم بن امیہ اور عاص بن وائل اور اس کے دو چچا زاد نبیہ اور منبہ شامل تھے ۔

یہ لوگ ہر جگہ رسولخدا (ص)کا مذاق اڑایا کرتے تھے ۔اور اگر کبھی موقع پاتے تو حضور اکرم کو اپنے ہاتھوں سے بھی اذیت پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے تھے ۔

عمرو بن العاص کی ماں اپنے زمانہ کی مشہور بدکردار عورت تھی جو اہل ثروت کے بستر کی زینت بنا کرتی تھی اور اس کے گھر پر اس دور کے دستور کے مطابق

____________________

(۱):- ابن اثیر ۔ الکامل فی التاریخ ۔جلد دوم ۔ص ۴۹-۵۰

۲۵۸

جھنڈا بندھا رہتا تھا

جب عمرو کی پیدائش ہوئی تو اس پر عاص اور ابو سفیان کا جھگڑا ہوا ، دونوں اسے اپنے نطفہ کا ثمر قرار دیتے تھے ۔چنانچہ جب ان کے درمیان اختلاف بڑھا تو فیصلہ کے لئے اس کی ماں کی رائے دریافت کی گئی اس نے کہا کہ یہ عاص کا بیٹا ہے ۔

جب اس عورت سے پوچھا گیا کہ تو نے اپنے بیٹے کا الحاق ابو سفیان کی بجائے عاص سے کیوں کیا ؟ تو اس نے کہا کہ ابو سفیان کنجوس ہے جب کہ عاص مجھ پر بے تحاشہ دولت لٹا تا ہے ۔

ماں کی گود بچہ کا پہلا مدرسہ ہوتی ہے ۔اور ماں کی شخصیت بچہ پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ عمرو اسی ماں کا دودھ پی کر بڑھا اور دشمن رسول (ص) باپ کی تربیت میں رہا ۔جب ماں اس قماش کی ہو اور باپ کا طرز عمل یہ ہو تو اولاد کب نجیب ہو سکتی ہے ۔(۱)

عمر وبن العاص عنفوان شباب میں اسلام کا بد ترین دشمن تھا اور غزوہ احد میں کفار کے ساتھ شامل تھا اور غزوہ احد کیلئے اس کے شعر بھی بڑے مشہور ہیں ۔

جب عمرو نے دیکھا کہ رسول خدا(ص) ہر مقام پر فاتح بن رہے ہیں تو اسے اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا ۔اس نے کھلم کھلا دشمنی کے بجائے دغا بازی اور مکاری سے کام کیا ۔

ابن ہشام عمرو کی زبانی نقل کرتے ہیں ۔

جب ہم غزوہ احزاب سے بے نیل ومرام واپس آئے تو میں نے قریش کے ان چند سرکردہ افراد کو جمع کیا جو میری بات سنتے اور مانتے تھے ۔

میں نے ان سے کہا کہ : میں دیکھ رہا ہوں کہ محمد کا امرروز بروز ترقی کررہا

____________________

(۱):- ابن خلدون ۔کتاب العبرودیوان المبتداوالخبر ۔جلد دوم ۔ص ۱۷۷

وعبدالفتاح عبدالمقصود ۔الامام علی بن ابی طالب ۔جلد دوم ۔ص ۲۷۰

۲۵۹

ہے ،میرا خیال یہ ہے کہ ہم نجاشی کے پاس چلے جائیں اگر محمد ہماری قوم پر غالب آگئے تو ہمارے لئے محمد کی غلامی کی بہ نسبت نجاشی کی غلامی ہزار گنا بہتر ہوگی اور اگر ہماری قوم محمد غالب آگئی تو ہم اپنی قوم کا ساتھ دیں گے ۔(۱)

عمرو بن العاص وہی شخص ہے جس نے عثمان بن عفان کو عبیداللہ بن عمر پر جاری کرنے سے منع کیا تھا ۔ اور انہیں کہا تھا کہ ہرمزان اور جفینہ کا بدلہ آپ پر واجب ہی نہیں ہے کیونکہ جس وقت عبیداللہ نے ان کو قتل کیا تھا اس وقت آپ حاکم نہیں تھے ۔(۲)

ہمیں عمرو بن العاص پر تعجب ہے کہ اس نے حضرت عثمان کو ہرمزان اورجفینہ کے قتل کے بدلہ سے اس لئے بری قراردیا تھا کہ جب مذکورہ افراد قتل ہوئے تو اس وقت حضرت عثمان کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی لیکن قتل عثمان کے بعد حضرت علی سے قصاص عثمان کا مطالبہ کرنے میں یہ شخص پیش پیش تھا تو کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جب عثمان قتل ہوئے اس وقت حضرت علی کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی ۔

عمرو بن العاص ،معاویہ کے پاس

عمرو بن العاص کے متعلق ہم سابقہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں کہ موصوف حضرت عثمان کے شدید ترین مخالفوں میں سے ایک تھے اور اپنے ہر ملنے والے کو حضرت عثمان کے خلاف برانگیختہ کیا کرتے تھے اور اپنے قول کے مطابق "میں نے جس چرواہے سے بھی ملاقات کی ۔اسے عثمان کے خلاف برانگیختہ کیا ۔"

موصوف نے معاویہ بن ابی سفیان کا ساتھ مفت میں نہیں دیا تھا اس کی

____________________

(۱):- سیرت ابن ہشام ۔جلد دوم ص ۱۷۷

(۲):- عبدالفتاح عبدالمقصود ۔الامام علی بن ابی طالب ۔جلد چہارم ۔ص ۸۳

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333