المیہ جمعرات

المیہ جمعرات23%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104097 / ڈاؤنلوڈ: 4471
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

( کذّبوا بآیاتنافاقصص القصص لعلهم یتفکّرون ) ( ۱ )

''اور انھیں اس شخص کی خبرسنا ئیے جسکو ہم نے اپنی آیتیں عطا کیں پھر وہ ان سے بالکل الگ ہوگیا اور شیطان نے اسکا پیچھاپکڑلیا تو وہ گمراہوں میں ہو گیااور ہم چاہتے تو اسے انھیں آیتوں کے سبب بلند کردیتے لیکن وہ خود زمین کی طرف جھک گیا اور اس نے خواہشات کی پیروی اختیار کر لی تو اب اسکی مثال اس کتّے جیسی ہے کہ اس پر حملہ کرو تو بھی زبان نکالے رہے اور چھوڑدو تو بھی زبان نکالے رہے یہ اس قوم کی مثال ہے جس نے ہماری آیات کی تکذیب کی،تواب آپ ان قصوں کو بیان کریں کہ شاید یہ غور وفکر کر نے لگیں ''

ان آیات کی تفسیر یہ ہے کہ '' بلعم بن باعور ا'' بنی اسرائیل کا ایک بہت ہی بڑا اور مشہور عالم تھا اسکو خداوندعالم نے اپنی روشن آیات نیز علم ومعرفت سے اس حد تک نوازاتھا کہ اسے مستجاب الدعوات قرار دے دیا تھا اور جناب موسیٰ بعض معاملات میں اس سے مدد لیتے تھے۔۔۔مگر وہ اپنی ہویٰ وہوس کا اسیر ہو گیا۔

چنا نچہ ایسے افراد جب اپنی خواہشات کا شکار ہو تے ہیں تو عام طور سے اسکے دوہی اسباب ہو تے ہیں یا تو وہ اپنے علم کو ذاتی فا ئدہ کیلئے استعمال کر نے لگتے ہیں مثلاً علم کے ذریعہ شہرت وعزت یا عہدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیںاور لوگوںکے درمیان علم کے ذریعہ اپنی شخصیت کا اظہار کرتے ہیں یا یہ کہ دولت کی لا لچ میں اپنے علم سے اہل حکومت اورطاغوت کی خدمت شروع کردیتے ہیں اور علم کے بدلہ مال دنیا کماتے ہیںاس طرح دونوں صورتوں کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ علم ہویٰ وہوس اور خواہشات کا شکا ر ہو جا تا ہے ۔

کیونکہ کسی بھی عالم کی اہمیت کا معیار در اصل اسکے علم کی کثرت نہیں ہے ،جیسے اکثر کتب

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت۱۷۵۔۱۷۶۔

۶۱

خانوں میں اتنی زیادہ کتابیں ہوتی ہیں کہ علماء کی ایک کثیر تعداد مل کربھی انہیں نہ اٹھا سکے مگر اسکی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ علم کی قدروقیمت در اصل صاحب علم اور اس علم کے مصرف اور محل استعمال کو دیکھ کر لگا ئی جا تی ہے ۔ اگر عالم انبیاء کے دین اوراخلاق سے مزین ہو اور اس کاعلم لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی نیز انکی خدمت میں کام آئے تو یہ اس عالم کی قدروقیمت کاسبب ہے اور اگر خدا نخواستہ ایسا کچھ نہیں ہے تو پھراس عالم کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔

مو لا ئے کا ئنات نے خطبہ شقشقیہ میں عالم کی منزلت اور اسکی ذمہ دار یاں ان الفاظ میں بیان فرمائی ہیں:

(وما أخذ ﷲعلی العلماء أن لایقارّوا علی کظة ظالم ولاسغب مظلوم )

'' ﷲکا اہل علم سے یہ عہدہے کہ خبردار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گر سنگی پر چین سے نہ بیٹھنا۔۔۔''

لہٰذااگرعالم خدا سے کئے ہوئے عہد کو پوار کر نے کیلئے اٹھ کھڑا ہو تو اسکی قدر ومنزلت اور مقام ومرتبہ میںاضافہ ہوتاہے ۔

بلعم بن باعور(اگر ان آیات کی تفسیربیان کرنے والی روایات کے مطابق بلعم باعوراہی مراد ہو)ان لوگو ں میں سے تھا جنھوں نے اپنے علم کی لگام خواہشات کے سپردکر دی اور انھیں کے پیچھے چل پڑے اب قرآن مجید کے الفا ظ میں اس شخص کا انجام ملاحظہ فرما ئیے :

اگران روایات کو تسلیم کر لیا جائے تو آیۂ کر یمہ میں اگر چہ بلعم باعور کے قصہ کی طرف ہی اشارہ ہے لیکن یہ باتیں ہراس شخص کیلئے ہیں جو اپنے نفس کے اوپر اپنے خواہشات کو حاکم بنادے۔

۶۲

جیسا کہ امام محمد باقر کا ارشاد گرامی ہے :

(ن الاصل فی ذلک بلعم،ثم ضرب ﷲمثلاًلکل مؤثرهواه علی هدیٰ ﷲ،من أهل القبلة )( ۱ )

''یعنی یہ تذکرہ تو در اصل بلعم کا ہی ہے لیکن خداوندعالم نے اسمیں ہر اس مسلمان کی مثال بیان کر دی ہے جو اپنی خواہشات کو ﷲ تعالیٰ کی ہدایت پر ترجیح دیتا ہو ''

ایسے لوگوں کا انجام کیا ہوتاہے ہمیں قرآنی بیانات کی روشنی میں اس پر بھی غور کرنا چاہئے۔

۱۔زمین کی جانب رغبت

زمین کی طرف رغبت ،دنیاوی زندگی سے دلبستگی کو کہتے ہیں یعنی انسان دنیا کا ہو کر رہ جائے۔کیونکہ زمین دنیاہی کا دوسرا نام ہے اور زمین کی طرف جھکا ئو ،رغبت اس سے بیزاری کے ذریعہ رفعت و بلندی کے مقابلہ میں ہے جیسا کہ آیۂ کریمہ میں اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے :

( ولوشئنا لرفعناه بها ولکنه اخلد الیٰ الارض )

'' اگر ہم چا ہتے تو اسے انھیں آیات کے ذریعہ بلند کردیتے لیکن وہ خود زمین کی طرف جھک گیا ''

یعنی اس نے خود دنیا وی ذلت کو گلے لگا لیا ۔کیونکہ جس طرح سطح زمین سے بلندی کی طرف اوپر جا تے ہوئے زمین کی قوت جاذبہ اور کشش کا مقابلہ کر نے میںزحمت ومشقت ہوتی ہے مگر اس کے برعکس اوپر سے زمین کی طرف آتے وقت زمین کی کشش کا سہار ا مل جاتاہے ۔۔۔بالکل یہی حال زندگانی دنیا کی پستی اور بلندی کابھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی بلندیوں کا خواہاں ہے تو اسے اتنی ہی مشقتیں برداشت کرنا ہو نگی لیکن اگر کوئی پستیوںمیں جانا چاہتاہے تو اس میں کوئی زحمت نہیں ہے ۔

۲۔آیات خدا سے محرومی

(فانسلخ منہا )آیات الٰہیہ سے ''انسلاخ'' یعنی اسکے پاس آیات کی جومعرفت اورعلم

____________________

(۱)مجمع البیان تفسیرسورئہ اعراف آیت ۱۷۵۔۱۷۶۔

۶۳

و حکمت و بصیرت کی جو دولت تھی وہ اس سے واپس لے لی گئی۔

''انسلاخ'' ''ا لتصاق'' کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے التصاق اس وقت کہا جاتاہے کہ جب دوچیزیں آپس میں ملی ہوئی یاچپکی ہوتی ہیں اور جب ان کے در میان مکمل علاحدگی یابالکل جدا ئی ہو جائے تو اہل عرب اسکو'' انسلاخ ''کہتے ہیں لہٰذا جو لوگ اپنی شہو توں اور خواہشات کے تحت ،قدم اٹھا تے ہیں انکا ر ابطہ علم ومعرفت اور آیات الٰہیہ سے با لکل ختم ہو جاتا ہے اور جس طرح کسی مریض کا معدہ کھانے کوقبول کرنے کے بجائے اسے رد کردیتا ہے اسی طرح انکا نفس علم وحکمت جیسی پا کیزہ اورنفیس اشیا ء کوقبول نہیں کر پاتا ہے ۔

کیونکہ اگراسکا وجود ہو س اور خواہشات کا دلدا دہ ہو جائے تو پھر اسمیں آیات الٰہیہ ،علم و حکمت اوربصیرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی اور نہ ہی اسکے وجود میں اخلاقی اقدار وفضائل کا گذر ہوسکتا ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول ہے :

(حرام علیٰ کل قلب متولّه بالشهوات أن یسکنه الورع )( ۱ )

''یعنی جو دل بھی خواہشات کا دلداد ہ ہو اسکے اندر ورع و پرہیزگاری کا بسیرا حرام ہے '' آپ کا ہی ارشاد ہے :

(حرام علیٰ کل قلب اُغری بالشهوات أن یحل فی ملکوت السمٰوات )( ۲ )

''جودل خواہشات کا فریب خوردہ ہو اس کیلئے ''ملکوت السمٰوات''کی سکونت حرام ہے ' '

____________________

(۱)مجمو عہ ورا م تنبیہ خواطرص ۳۶۲۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

۶۴

(حرام علی کل قلب مغلول بالشهوة أن ینتفع بالحکمة )( ۱ )

''جو دل خواہشات کی زنجیروں سے جکڑاہو اسکے لئے حکمت سے استفادہ کر ناحرام ہے ۔''

کیونکہ دل ایک ظرف کی مانند ہے اور ایک ظرف میں خواہشات نفس اوریاد الٰہی ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ہیں لہٰذااسکے اندریا ذکر الٰہی رہے گا یا خواہشات رہیں گے کیونکہ( مَاجعل ﷲ لرجل من قلبین فی جوفه ) ( ۲ )

'' خداوندعالم نے ایک انسان کے جسم میں دو قلب نہیں بنا ئے ہیں ''

لہٰذا جب انسان اپنی خواہشات کا اتباع کرتا ہے تو پھر خود بخود اسکے دل سے یا دخدا نکل جاتی ہے اور اگر اسمیں یاد خدا آجا تی ہے تو پھر خواہشات کاامکان نہیں رہ جاتاہے۔

لہٰذا جس دل سے یاد خدا نکل جا ئے وہ خواہشات کے راستے پر چل پڑتا ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

( ولاتطع من أغفلنا قلبه عن ذکرنا واتّبع هواه وکان أمره فرطا ) ( ۳ )

''اور ہر گز اس کی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یادسے محروم کردیا ہے وہ اپنی خواہشات کا پیرو کار ہے اور اسکا کام سراسر زیادتی کرنا ہے ۔ ''

خواہشات کی پیروی کایہ دوسرا انجام ہے۔

۳۔شیطان کا تسلط

ارشاد رب العزت ہے :(فأتبعہ الشیطان )''اور شیطان نے اسکا پیچھا پکڑلیا ۔'' پہلے

____________________

(۱)غرر الحکم ج۱ص۳۴۴۔

(۲)سورئہ ا حزاب آیت ۴۔

(۳)سورئہ کہف آیت۲۸۔

۶۵

شیطان اس تک پہنچنے یا اس پر قبضہ کر نے سے عاجزتھا مگرخواہشات کی پیروی انسان پر شیطان کے قبضہ کو مستحکم بنادیتی ہے اور انسان جتنی زیادہ خواہشات کی پیروی کرے گا اس پر شیطان کا تسلط اور غلبہ بھی اتنا ہی زیادہ مستحکم ہو جائے گا اور یہ خواہشات کی پیروی کا تیسرا نتیجہ ہے ۔

۴۔ضلا لت و گمراہی

(فکان من الغاوین)''تو وہ گمراہوں میں ہوگیا ''ایسے لوگوں کے سلسلہ میں یہ ایک فطری چیز ہے کیونکہ جب انسان ہویٰ وہوس میں مبتلا ہو جاتاہے اور اس کے دل سے یاد الٰہی نکل جاتی ہے اس پر شیطان کا تسلط قائم ہوجاتاہے تو پھر اسکی ہدایت کا بھی کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا اور اسکی زندگی میںاصلاح کا امکان نہیں ہے لہٰذا وہ جس مقدار میں ہاتھ پیرمارتا ہے اتنا ہی پستیوں میں اترتا چلا جاتا ہے ۔اوریہ خواہشات کی پیروی کا چوتھا نتیجہ ہے۔

۵۔لالچ

ان لوگوں کے بارے میں ارشادا لٰہی ہے :

( فمثلُه کمثل الکلب اِنْ تحملْ علیه یَلْهَثْ او تترکه یلهثْ )

''تو اب اسکی مثال اس کتّے جیسی ہے کہ اس پر حملہ کرو تو بھی زبان نکالے رہے اور چھوڑدو تو بھی زبان نکالے رہے''

۶۶

زبان باہر نکلی رہنا یہ کتوں کی ایک مشہور بیماری ہے اور اسمیں کتے کو ہر وقت پیا س لگی رہتی ہے چنانچہ اسے چاہے جتنا پانی پلا یا جائے اسکی پیاس نہیں بجھ پاتی اور اسی لئے وہ ہمیشہ اپنی زبان باہر نکالے رہتا ہے اورچاہے کوئی اس پر حملہ کرے یا اسے اسی طرح چھوڑ دیا جائے ہر وقت اسکا ایک ہی حال رہتا ہے چنانچہ بالکل اسی صور تحال سے اہل ہوس بھی دوچار رہتے ہیں کہ دنیاوی لذتوں اور رنگینیوں میں غرق ہو نے کے باوجود انکی پیاس نہیںبجھتی چاہے وہ ما لدارہوں یا فقیر انہیں دنیا مل گئی ہو یانہ ملی ہو ان سب کا حال پیاس کے مریض اس کتے کی طرح رہتا ہے جسکی پیاس بہتے دریا بھی نہیں بجھا پاتے ہیں ۔

اسی بارے میں رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے :

( لوکان لابن آدم وادیان من ذهب لابتغیٰ وراء هما ثالثاً ) ( ۱ )

''اگر فرزند آدم کے پاس سونے سے بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تب بھی اسے تیسری وادی کی خواہش رہتی ہے''

امام جعفر صادق سے جب ایک آدمی نے اپنے اندر دنیا کی لا لچ اور اسکی طرف توجہ رہنے کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا :جو چیز تمہا رے لئے کافی ہے اوروہ تمھیں مستغنی بنادے تو اسکی معمولی مقدار بھی تمہیں مستغنی بنا سکتی ہے لیکن جو چیز تمہارے لئے کا فی ہے اگروہ تمہیں مستغنی نہ بنا سکے تو پھر پور ی دنیا بھی تمھیں مستغنی نہیں بنا سکتی ہے اور یہ اس کا پا نچواں نتیجہ ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱)مجمو عہ وارم تنبیہ خوا طرص ۱۶۳۔

(۲)اصول کافی ج۲ص۱۳۹

۶۷

خواہشات کا علاج

ہوس کی تخریبی طاقت

انسانی خو اہشات اس کیلئے جس مقدار میں مفید ہیں اس کے مطا بق انکے اندر قدرت اور طاقت بھی پا ئی جاتی ہے چنانچہ اگر یہ غلط راستے پر لگ جائیں تو پھر یہ اپنی طاقت کے اعتبار سے ہی انسانی زندگی کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیتی ہیں ۔۔۔انسانی نفس کے اندر اسکے یہ دونوں (مثبت اورمفید منفی اورمضر )پہلو بالکل طے شدہ ہیں اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجا ئش نہیں ہے کیونکہ خواہشات ہی دراصل انسان کی زندگی کے پہیوںکو گردش دینے والی قوت ہیں اور اگر خداوندعالم نے انسان کے

نفس میں جنسیات ،مال ،خود ی (حب ذات )،کھا نے پینے اور اپنے دفاع کی محبت نہ رکھی ہوتی تو قافلۂ انسانی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتاتھا ۔لہٰذا خواہشات کے اندر جتنے فا ئد ے ہیں انکے اندر اتنی ہی طاقت موجود ہے اور انکے اندر جتنی طاقت پائی جاتی ہے انکے بہک جانے کی صورت میں انکے نقصانات بھی اسی کے مطابق ہونگے جیسا کہ مولا ئے کا ئنات نے ارشاد فرمایا ہے:

۶۸

(الغضب مفسد للالباب ومبعد عن الصواب )( ۱ )

''غصہ عقلوں کو برباد اور راہ حق سے دور کر دینے والی چیز ہے ''

آپ نے یہ بھی فرما یا ہے :

(أکثرمصارع العقول تحت بریق المطامع )( ۲ )

''عقلوں کی اکثر قتل گاہیں طمع کی جگہوںکی چمک دمک کے آس پاس ہیں''

خواہشات کی پیروی پر روک اور انکی آزادی کے درمیان

یہی وجہ ہے کہ خواہشات کو ایکدم کچل کر رکھ دینا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ خواہش انسانی زندگی کیلئے ایک مفید طاقت ہے جس کے سہار ے کا روان حیات انسانی رواں دواںہے اور اس کو معطل اور نا کارہ بنا دینا یا اسکی مذمت کرنا اور اسکی اہمیت کا اعتراف نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کے ایک بڑے حصہ کا انکار کردیا جائے اور اسکو نقل و حرکت میں رکھنے والی اصل طاقت کو نا کار ہ قرار دیدیا جائے ۔

اسی طرح خواہشات اور ہوس کی لگام کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دینا اور انکے ہر مطالبہ کی تکمیل کرنا اور ان کی ہر بات میںہاں سے ہاں ملا نا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر ان کی رسی ڈھیلی چھو ڑدی جائے تو

____________________

(۱)غرر الحکم ج۱ص۶۷ ۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۹۸۔

۶۹

یہ فائد ہ مند ہو نے کے بجائے انسان کیلئے مضر بن جاتے ہیں ۔

لہٰذا ہمیں یہ اعتراف کر نا پڑیگا کہ شرعی اعتبار سے خواہشات کی محدود تکمیل کی بہت اہمیت ہے اور جس طرح انکو بالکل آزاد چھوڑ دینا صحیح نہیں ہے اسی طرح ہر بات میں انکی تکمیل بھی صحیح نہیں ہے ۔

اسی معیار پر اسلام نے خواہشات کے بارے میں اپنے احکام بنائے ہیں یعنی پہلے وہ خواہشات کو انسان کیلئے ضروری سمجھتا ہے اور اسے فضول چیز قرار نہیں دیتا جیسا کہ قرآن کریم میں پروردگار عالم کاارشاد ہے :

( زُیّن للناسِ حبُّ الشهواتِ من النسائِ والبنینَ والقناطیرِالمقنطرةِمن الذهبِ والفضة ِوالخیلِ المسوّمةِ والأنعام والحرثِ ) ( ۱ )

''لوگوں کے لئے خواہشات دنیا ،عورتیں،اولاد،سونے چاندی کے ڈھیر،تندرست گھوڑے یا چوپائے کھیتیاںسب مزین اور آراستہ کردی گئیں ہیں ''

دوسری آیت میں ارشاد ہے :

( ٔلمالُ والبنونَ زینة الحیاةِ الدنیا ) ( ۲ )

''مال اور اولاد، زندگانی دنیا کی زنیت ہیں ''

ان آیات میں نہ صرف یہ کہ خواہشات کی مذمت نہیں ہے بلکہ اسکو زینت اور جمال زندگانی قرار دیا گیاہے اور اسی اہم نکتہ سے خواہشات کے بار ے میں اسلام کا واضح نظر یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے ۔

دوسر ے مرحلہ پر اس نے ہمیں اپنی خواہشات کو پورا کر نے اور دنیاوی لذتوں سے بہرہ مند ہونے کا حکم دیا ہے :

____________________

(۱)آل عمر ان آیت۱۴۔

(۲) سورئہ کہف آیت۴۶ ۔

۷۰

( کلوا من طیبات مارزقناکم ) ( ۱ )

''تم ہمارے پاکیزہ رزق کو کھائو ''

یایہ ارشاد الٰہی ہے :

( ولا تنس نصیبک من الدنیا ) ( ۲ )

''اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جائو''

اور اسی طرح یہ بھی ارشاد ہے :

( قل من حرّم زینة ﷲ التی أخرج لعبادهِ والطیبات من الرزق ) ( ۳ )

''پیغمبر آپ ان سے پوچھئے کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے''

خواہشات کے بارے میں اسلام نے یہ دوسرا نظریہ پیش کیا ہے جس کے اندر نہ اپنی خواہشات کی تکمیل کی کھلی چھوٹ ہے کہ جس کا جس طرح دل چاہے وہ اپنی خواہشات کی پیاس بجھاتا رہے اور کسی قاعد ہ وقانون کے بغیر سر جھکا کر انھیں کے پیچھے چلتا رہے ۔

امام جعفر صادق نے فرما یا ہے :

(لاتدع النفس وهواها فن هواها رداها )( ۴ )

''اپنے نفس کو اسکے خواہشات کے اوپر نہ چھو ڑدو کیونکہ اسکے خواہشات میں اسکی پستی اور

____________________

(۱)سورئہ طہ آیت۸۱ ۔

(۲)سورئہ قصص آیت۷۷ ۔

(۳)سورئہ اعراف آیت ۳۲ ۔

(۴)اصول کافی ج۲ص۳۳۶۔

۷۱

ذلت ہے ''

ان تمام پا بند یوں اور سختیوں کے باوجود اسلام نے انسانی خواہشات کی تسلی کیلئے ایک نظام بنا کر خود بھی اس کے بیحد موا قع فراہم کئے ہیں جیسے اسلام نے جنسیات کو حرام قرار نہیں دیا ہے اور نہ اس سے منع کیا ہے اور نہ ہی اسے کوئی بر ایا پست کام کہا ہے بلکہ خود اسکی طرف رغبت دلا ئی ہے اور اسکی تاکید کی ہے البتہ اسکے لئے کچھ شرعی قواعد و ضوابط بھی بنائے ہیں اسی طرح مال سے محبت کرنے کونہ اسلام منع کر تاہے اور نہ اسے بر اکہتا ہے بلکہ یہ تمام انسانو ں کیلئے مباح ہے البتہ اسکے لئے بھی کچھ قو اعد وقوانین مرتب کردئے گئے ہیں تا کہ مالی یا جنسی خواہشات وغیرہ کی تسلی کیلئے ہر شخص کے سامنے مواقع موجود رہیں اور کوئی شخص بھی بے راہ رو ی کا شکار نہ ہو نے پا ئے یہ خواہشات کے بارے میں اسلامی نظر یہ کا تیسر ا نکتہ ہے۔

خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لئے ''عقل ''کا کردار

خواہشات کو بغاوت اور سر کثی سے روکنے اور ہرلحاظ سے انکی تکمیل سے منع کرنے اور اسی طرح انکی تسلی کی معقول حدبندی کیلئے انسانی عقل میدان عمل میں ہمیشہ فعال رہتی ہے اور شاید اسی لئے عربی زبان میں عقل کو عقل کہا جاتا ہے کہ عقل کسی کو لگام لگانے یا پھند ے کو کہتے ہیںاور خدا نے عقل کو یہی ذمہ دار ی سونپی ہے کہ وہ خواہشات کو لگام لگا کر اپنے قابو میں رکھے جیسا کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرما یا ہے :

(ن العقل عقال من الجهل،والنفس مثل أخبث الدواب )( ۱ )

''عقل جہالت سے بچانے والی لگام ہے اور نفس خبیث ترین چو پائے کی طرح ہے ''

روایات میں اسی مضمون کی طرف کثر ت سے اشارے موجود ہیں بطورنمونہ حضرت علی

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ص۱۱۷ ۔

۷۲

کے مندرجہ ذیل اقوال ملاحظہ فرما ئیں :

٭(فکرک یهدیک لی الرشاد )( ۱ )

''تمہار ی فکر تمہیں رشدو ہدایت کی طرف رہنما ئی کرتی ہے ''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهی ٰ)( ۲ )

''نفس کے اندر مختلف قسم کی خواہشات ابھرتی رہتی ہیں اور عقل ان سے منع کرتی رہتی ہے ''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجر منها )( ۳ )

''دلوں کے اندر برے خیالات پید ا ہو تے ہیں اور عقل ان سے بازر کھتی ہے ''

٭ (النفوس طلقة،لکن أیدی العقول تمسک اعنتها )( ۴ )

''نفس تو با لکل آزاد ہوتے ہیں لیکن عقلوں کے ہاتھ انکی لگام تھامے رہتے ہیں ''

٭ (ثمرةالعقل مقت الدنیا وقمع الهویٰ) ( ۵ )

''عقل کا پھل دنیا کی نا راضگی اور خو اہشات کی تا راجی ہے ''

مختصر یہ کہ انسانی زندگی میں اسکی عقل کا کار نامہ یہ ہے کہ وہ خواہشات کواپنے محدود تقاضو ں کے تحت کنٹرول کر تی ہے اور اس کی ہوس کو سر کشی اور بغا وت سے رو کتی رہتی ہے اور انسان کو اس کی خو اہشات کی تکمیل میں بے لگام نہیں رہنے دیتی لہٰذا جس کی عقل جتنی کامل اور پختہ ہو تی ہے وہ اپنی خو اہشات پر اتنی ہی مہارت اور آسانی سے غلبہ حا صل کر لیتا ہے ۔

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

(۲)تحف العقول ص۹۶۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۰۹۔

(۵)غررالحکم ج۲ص۳۲۳۔

۷۳

حضرت علی :

(العقل الکامل قاهرالطبع السوئ )( ۱ )

''عقل کا مل بری طبیعتوں پر غالب رہتی ہے ''

اور یہی نہیں بلکہ خواہشات پر کنڑول ہی انسان کی عقل سلیم کی پہچان ہے ۔

حضرت علی :

(حفظ العقل بمخالفة الهویٰ والعزوف عن الدنیا )( ۲ )

''خواہشات کی مخالفت اور دنیاسے بے رغبتی کے ذریعہ عقل محفوظ رہتی ہے ''

امام محمد باقر :

(لاعقل کمخالفة الهویٰ )( ۳ )

''خواہشات کی مخالفت سے بہتر کوئی عقل نہیں ہے''

حضرت علی :

(من جانب هواه صح عقله )( ۴ )

''جس نے اپنی خواہشات سے کنارہ کشی اختیار کرلی اسکی عقل صحیح وسالم ہو جا ئے گی ''

ان احادیث سے بھی یہ روشن ہوتا ہے کہ عقل اور خواہشات دونوں ہی انسان کی زندگی کے دو اہم ستون ہیں ان میںسے خواہشات، انسانی حیات کے سفینہ کی نقل وحرکت اور اسکی تعمیرو ترتی میں پتوار کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور عقل اسکو بغاوت وسر کشی اور فتنہ وفساد کے خطرناک نشیب وفرازسے

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ص۹۔

(۲)غرر الحکم ج۱ص۳۴۵۔

(۳)بحارالانوار ج۷۸ص۱۶۴۔

(۴)بحارالانوار ج۱ص۱۶۰۔

۷۴

نکال کر ساحل تک پہنچا نے کی اہم ذمہ داری ادا کرتی ہے ۔۔۔لہٰذا ہر انسان کے لئے جس طرح جسم وروح ضردری ہیں اسی طرح اس کے لئے ان دونوں کاوجودبھی ضروری ہے ۔

عقل اور دین

انسانی زندگی میں دین بھی وہی کردار ادا کرتا ہے جو عقل کا کر دار ہے یعنی جس طرح عقل ، خواہشات کو مختلف طریقوں سے اپنے قابو میں رکھتی ہے اسی طرح دین بھی انھیں بہکنے سے بچاتا رہتا

ہے یعنی عقل اور دین کے اندرہر طرح کی فکری اور عملی یکسانیت اور مطابقت پائی جاتی ہے کیونکہ دین ایک الٰہی فطرت ہے جیسا کہ آیۂ کر یمہ میں ارشاد ہے :

( فطرةﷲ التی فطرالناس علیهالاتبدیل لخلق ﷲذلک الدین القیم ) ( ۱ )

''دین وہ فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے یقینا یہی سید ھا اور مستحکم دین ہے ''

وہ فطرت جو انسان کے اوپر حکمراں ہو تی ہے اور عقل بھی اسی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ ''دین' 'ہے جسکے ذریعہ ﷲ تعالی نے حیات بشری کو دوام بخشا اور حیات بشری کے ذریعہ اسے قائم ودائم فرمایا لہٰذا دین بھی خواہشات کو کنڑول کر نے کے سلسلہ میں عقل کی امداد کرتاہے اور خود بھی اسی ذمہ داری کو ادا کرتاہے مختصر یہ کہ عقل اور دین ایک ہی سکے کے دورخ ہیں ۔

حضرت علی :

(العقل شرع من داخل،والشرع عقل من خارج )( ۲ )

''عقل بدن کی اندرونی شریعت اور شریعت بدن کے باہر موجود عقل کا نام ہے ''

____________________

(۱)سورئہ روم آیت ۳۰۔

(۲)کتاب جوان :آقا ئے محمد تقی فلسفی ج۱ص۲۶۵۔

۷۵

امام مو سیٰ کا ظم :

(ﷲ علی الناس حجتین :حجة ظاهرة وحجة باطنة، فاماالظاهرة فالرسل والانبیاء والائمة عليه‌السلام واماالباطنة فالعقول )( ۱ )

''لوگوں پر خدا وندعالم کی دوحجتیں (دلیلیں )ہیں ایک ظاہر ی حجت اور دوسری پوشیدہ اور باطنی حجت و دلیل۔ ظاہر ی دلیل انبیاء اور ائمہ ہیں جبکہ باطنی حجت عقل ہے ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(حجة ﷲعلیٰ العبادالنبی،والحجة فیما بین العباد وبین ﷲ العقل )( ۲ )

''بندوں کے اوپر خدا وندعالم کی حجت اسکے انبیاء ہیں اور خداوندعالم اور اسکے بندوں کے درمیان ،عقل حجت ہے ''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ص۱۳۷۔

(۲)اصول کافی ج۱ص۲۵۔

۷۶

عقل کے تین مراحل

انسانی زندگی میں عقل کے تین اہم کردار ہوتے ہیں :

۱۔ معرفت الٰہی۔

۲۔خداوندعالم نے جو کچھ اپنے بندوں پر واجب کیا ہے اسکی اطاعت کرنا کیونکہ ﷲتعالیٰ کی صحیح معرفت کا نتیجہ اسکی اطاعت اور بندگی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

۳۔تقوائے ا لٰہی: یہ خداوندعالم کی اطاعت وبندگی کا دوسرا رخ ہے کیونکہ خداوندعالم کی اطاعت وبندگی کی بھی دوقسمیں ہیں ۔

۱۔واجبات کو بجالانا اور محرمات سے پر ہیز کرنا اور تقویٰ درحقیقت نفس کو محرمات سے باز

رکھنے کا نام ہے ۔اور شاید مندرجہ ذیل روایت میں بھی عقل کے مذکورہ تینوں مرحلوں کی وضاحت موجود ہے:

۷۷

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(قُسّم العقل علیٰ ثلاثة أجزائ،فمن کانت فیه کمل عقله،ومن لم تکن فیه فلا عقل له:حسن المعرفة بﷲعزوجل،و حسن الطاعة ﷲ،وحسن الصبرعلیٰ أمره )( ۱ )

''عقل کے تین حصے کئے گئے ہیں لہٰذا جسکے اندر یہ تینوں حصے موجود ہوں اسکی عقل کامل ہے اور جسکے اندر یہ موجود نہ ہوں تواسکے پاس عقل بھی نہیں ہے !

۱۔حسن معرفت الٰہی (خداوندعالم کی بہتر ین شناخت ومعرفت اور حجت آوری)۔

۲۔ﷲکی بہترین اطاعت وبندگی ۔

۳۔اسکے احکامات پر اچھی طرح صبر کرنا ''

خدا کے احکام پر صبر کرنے کا دوسرا نام خواہشات پر قابو پانا ہے اور اس کو تقویٰ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ خواہشات پر قابو پانا اور انھیں اپنے کنڑول میں رکھنے کیلئے جتنا زیادہ صبر درکار ہے اتنا صبر کسی اور کام کیلئے درکار نہیں ہوتا ہے ۔

اب ان تینوں مراحل کی تفصیل ملا حظہ فرمائیں :

۱۔معر فت اور حجت آوری

عقل کی پہلی ذمہ داری معرفت اور شناخت ہے ۔کیونکہ اس دنیا کے حقائق اور اسرار سے پر دہ اٹھا نے کا ذریعہ(آلہ )عقل ہی ہے اگرچہ اہل تصوف اسکے مخالف ہیں اور وہ عقل کی معرفت اور

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۰۶۔

۷۸

شناخت کے قائل ہی نہیں ہیں انکا کہنا ہے کہ اس دنیا کے حقائق اور خداوندعالم اور اسی طرح غیب کی معرفت کے بارے میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہوتاہے ۔جبکہ اسلام عقل کی قوت تشخیص کا قائل ہے اور وہ اسے علم ومعرفت کا ایک آلہ قراردیتا ہے اور دنیا کے مادی یا غیر مادی تمام مقامات پریا اس دنیا کے خالق یا واجبات اور محرمات جیسے تمام مسائل میں اس کی مز ید تا ئید کرتا ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سلسلہ میں یہ ارشاد فرمایا ہے :

(نمایدرک الخیرکله فی العقل )( ۱ )

'' ہرخیر کو عقل میں تلاش کیا جاسکتا ہے ''

آپ ہی کا یہ ارشاد بھی ہے :

(استرشدوا العقل ترشدوا ولا تعصوه فتندموا )( ۲ )

''عقل سے رہنمائی حاصل کرو تو راستہ مل جائے گا اوراسکی نافرمانی نہ کرنا ورنہ شرمندگی اٹھانا پڑے گی ''

حضرت علی :

(العقل أصل العلم وداعیة الفهم )( ۳ )

''عقل ،علم کی بنیاد اور فہم (غوروفکر)کی طرف دعوت دینے والی ہے''

امام جعفر صادق :

(العقل دلیل المؤمن )( ۴ )

____________________

(۱)تحف العقول ص۵۴ ۔ بحارالانوا ر ج ۷۷ ص۱۵۸۔

(۲)اصول کافی ج۱ص۲۵۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۱۰۲۔

(۴)اصول کافی ج۱ص۲۵۔

۷۹

''عقل مومن کی رہنما ہے''

دنیا کے حقائق اور اسرار ورموز کی معرفت کیلئے عقل کی قدروقیمت اور اہمیت کیا ہے؟ اسکو روایات میں یوں بیان کیا گیا ہے:''خداوند عالم اپنے بندوں پر عقل کے ذریعہ ہی احتجاج (دلیل) پیش کریگا اور اسی کے مطابق ان کو جزا یا سزا دی جائیگی ''اس مختصر سے جملہ کے ذریعہ انسانی زندگی میں عقل کی قدروقیمت اور دین خدا میں اسکی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

امام موسی کاظم :

(أن ﷲ علیٰ الناس حجتین حجة ظاهرة وحجة باطنة،فأماالظاهرة فالرسل والانبیاء والائمة عليه‌السلام ،وأما الباطنة فالعقول )( ۱ )

''بندوں پر خداوند عالم کی دوحجتیں (دلیلیں)ہیں ایک کھلی ہوئی اور ظاہر ہے اور دوسری پوشیدہ ہے ظاہری حجت اسکے رسول، انبیاء اور ائمہ ہیں اور پوشیدہ حجت کا نام عقل ہے''

آپ ہی کا یہ ارشاد گرامی ہے:

(ان ﷲ عزوجل أکمل للناس الحجج بالعقول،وأفضیٰ لیهم بالبیان،ودلّهم علیٰ ربوبیته بالادلة )( ۲ )

''خداوند عالم نے عقلوں کے ذریعہ لوگوں پر اپنی سب حجتیں تمام کردی ہیں اوربیان سے ان کی وضاحت فرمادی اور دلیلوں کے ذریعہ اپنی ربوبیت کی طرف ان کی رہنمائی کردی ہے''

لہٰذاعقل ،انسان کے اوپر خداوند عالم کی حجت اور دلیل ہے جسکے ذریعہ وہ اپنے بندوں کا فیصلہ کرتا ہے اوراگر فہم وادراک کی اسی صلاحیت کی بناء پر اسلام نے عقل کو اس اہمیت اور عظمت سے

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ ص ۱۳۷۔

(۲)بحارالانوار ج۱ص۱۳۲۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

باقاعدہ معاویہ سے قیمت وصول کی تھی ۔عمرو بن العاص خلیفہ ثالث کے عہد میں مصر کا گورنر تھا ۔ لیکن حضرت عثمان نے انہیں گورنری سے معزول کرکے ابن ابی سرح کو وہاں کا حاکم بنایا ۔

عمرو بن العاص کو اس پر بہت غصہ آیا اور عثمان کے ساتھ اس کی اچھی خاصی جھڑپ ہوئی اور بعد ازاں اپنی جاگیر پر آیا اس کی جاگیر فلسطین میں واقع تھی ۔وہاں اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ رہنے لگا اور مقامی آبادی کو حضرت عثمان کے خلاف ابھارتا رہا ۔ آخر کار وہ وقت آیا جس کا اسے انتظار تھا اس کو اطلاع ملی کہ حضرت عثمان مارے گئے اور حضرت علی (ع) خلیفۃ المسلمین مقرر ہوئے ہیں اور معاویہ نے مرکزی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہوا ہے ۔

معاویہ نے اسے اپنے ساتھ شمولیت کی دعوت دی تو اس نے مصر کی حکومت کا تحریری وعدہ لکھ کر دینے کا مطالبہ کیا ۔ معاویہ نے اسے تحریر لکھ دی کہ اگر وہ مصر پر قابض ہوا تو وہاں گورنری اس کے حوالے کرے گا ۔

اس نے اپنے دونوں بیٹوں سے اپنے مستقبل کی سیاسی زندگی کے لئے مشورہ لیا ۔ عبداللہ نے کہا کہ اگر تجھے ہر صورت حصہ لینا ہی ہے تو پھرعلی (ع)جماعت میں شامل ہو جا ۔

عمرو نے بیٹے ے کہا : اگر میں علی (ع) کی جماعت میں شامل ہوجاؤں تو مجھے وہاں سے کوئی مفاد حاصل نہیں ہوگا ۔

علی (ع) میرے ساتھ عام مسلمان کا سابرتاؤ کریں گے اور اس کے برعکس اگرمیں معاویہ کے پاس چلا گیا تو وہ میری بڑی عزت کرے گا اور اپنا مشیر خاص بنائے گا اور حسب وعدہ مصر کی حکومت بھی میرے حوالے کرے گا ۔

اس کے دوسرے بیٹے محمد نے معاویہ کے پاس جانے کا مشورہ دیا ۔ عمرو بن العاص نے اپنے بیٹے عبداللہ کے متعلق کہا کہ : تو نے مجھے آخرت سنوارنے کا

۲۶۱

مشورہ دیا ہے اور میرے دوسرے بیٹے محمد نے مجھے دنیا سنوارنے ک مشورہ دیا ہے ۔ آخرت ادھار ہے اور دنیا نقد ہے ، عقلمند وہی ہے جو ادھار کو چھوڑ کر نقد کو اپنا ئے ۔

عمرو بن العاص ، معاویہ کے پاس آیا اور دوران ملاقات کہا کہ : معاویہ خدا لگتی بات یہی ہے کہ ہم علی (ع) سے افضل نہیں ہیں کہ اس کی مخالفت کریں ، ہم تو علی (ع) کی مخالفت حصول دنیا کی خاطر کررہے ہیں ۔(۱)

تحکیم میں معاویہ کا نمائندہ یہی عمرو بن العاص تھا ۔

حضرت علی کانمائندہ ابو موسی اشعری تھا اوروہ جب کوفہ کا والی تھا تو لوگوں کو حضرت علی (ع) کی حمایت سے منع کرتا تھا ،آخر کار حضرت علی نے مجبورا اسے معزول کردیا تھا ۔

تحکیم اور موقف علی (ع)

حضرت علی (ع) کے موقف تحکیم کو سمجھنے کے لئے تحکیم کی اصلیت وماہیت کا جاننا ضروری ہے ۔

دینی اعتبار سے پوری امت اسلامیہ کا مشترکہ عقیدہ ہے کہ باہمی مشاجرات وتنازعات کے حل کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئیے اور حضرت علی کا بھی روز اول سے یہی نظریہ تھا ۔

حضرت علی (ع) کی سیاست کی بنیاد ہی قرآن مجید پر تھی آپ نے ہمیشہ اپنوں اور غیروں سے وہی سلوک کیا جس کا قرآن حکم دیتا تھا ۔

اور اسی تمسّک بالقرآن اور عدل قرآنی پر سختی سے عمل کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ آپ کو چھوڑ کر مخالفین کے پاس چلے گئے تھے لیکن آپ نے عدل قرآنی کو ہمیشہ مقدّم رکھا ۔

____________________

(۱):-عباس محمود العقاد ۔"معاویہ بن ابی سفیان ۔ص ۵۳-۵۵

۲۶۲

حضرت علی قرآن کے فیصلہ کے حامی تھے قیام صفین میں حضرت علی نے تحکیم کی مخالفت صرف اس لئے فرمائی تھی کہ دشمن قرآن کو بلند کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا ۔

تحکیم کی دعوت ہی وہ افراد دے رہے تھے جنہوں نے ہمیشہ قرآن اور صاحب قرآن سے جنگیں کی تھیں اور تحکیم کی دعوت دینے والے وہ افراد تھے جنہوں نے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن کی کبھی پیروی نہ کی تھی ۔

عمرو بن العاص نے قرآن بلند کرنے کا مشورہ اتباع قرآن کے اشتیاق میں نہیں دیا تھا بلکہ اپنی حتمی شکست سے بچنے کے لئے دیا تھا ۔

قرآن مجید بلند کرنے کےلئے پورا پروگرام رات کی تاریکی میں مکمل کیا گیا ۔ دمشق کے مصحف اعظم کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے پانچ نیزوں کے ساتھ باندھا گیا ۔ علاوہ ازیں لشکر معاویہ میں جتنے قرآن مجید کے نسخے موجود تھے ، ان سب کو یکجا کیا گیا اور نیزوں کے ساتھ باندھا گیا ۔

صبح صادق کے وقت شامی قرآن اٹھا کر عراقی لشکر کے سامنے آیا ۔ روشنی پھیلنے سے قبل عراقی لشکر کو پتا ہی نہ چل سکا کہ شامی لشکر نے کیا بلند کیا ہوا ہے ۔

جیسے ہی صبح کی روشنی پھیلی تو لشکر شام کا ایک افسر ابو الاعور السلمی گھوڑے پر سوار ہو کر آگے بڑھا ، اس نے اپنے سر پر قرآن رکھا تھا اور یہ اعلان کررہا تھا :

"اے اہل عراق ! اللہ کی کتاب تمہارے اور ہمارے درمیان فیصلہ کرے گی یہ سن کر حضرت علی نے فرمایا ۔

بندگان خدا! میں سب سے پہلے کتاب اللہ تسلیم کرنے کا اعلان کرتاہوں لیکن یاد رکھو کہ یہ لوگ قرآن کی آڑ میں تمہیں دھوکا دینا چاہتے ہیں اب یہ لوگ جنگ سے تھک چکے ہیں اور چند حملوں کے بعد انہیں شکست فاش ہونے والی ہے

۲۶۳

یہ لوگ قرآن بلند کرکے قضائے مبرم کو ٹالنا چاہتے ہیں ۔

ان سب حقائق کے علم کے باوجود بھی میں کتاب اللہ کو بطور حکم تسلیم کرتاہوں میں نے اہل شام سے جنگ قرآن کی حاکمیت اعلی تسلیم کرانے کے لئے کی ہے ۔(۱)

حضرت علی (ع) نے نامناسب وقت اور حالات کے باوجود بھی قرآن کی حاکمیت اعلی کو تسلیم کیا اور ابو سفیان کے بیٹے کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا :

"بغاوت اور جھوٹ انسان کے دین ودنیا کو تباہ کردیتے ہیں اور مخالفین کے سامنے اس کے نقائص کے اظہار کا ذریعہ بنتے ہیں اور تجھے معلوم ہوا چاہیے کہ تیرے ہاتھ سے وقت اور موقع نکل چکا ہے ۔

جب کبھی لوگوں نے ناحق دعوے کئے اور کتاب خدا کو اپنے غلط دعوی کے اثبات کے لئے پیش کیا مگر اللہ نے انہیں جھٹلایا اور آج تو نے ہمیں قرآن کی دعوت دی میں جانتا ہوں کہ اہل قرآن نہیں ہے ۔ میں نے تیری بات کو تسلیم نہیں کیا ، میں نے قرآن کی حاکمیت اعلی کو تسلیم کیا ہے ۔"

حضرت علی (ع) نے ایک اور موقع پر معاویہ کو مخاطب کرکے کہا :- اللہ نے تیرے ذریعہ سے میری آزمائش کی اور میرے ذریعہ سے تیری آزمائش کی ہے ۔ہم اور مجھ سے اس چیز کا مطالبہ کیا ہے ۔جس میں میری زبان اور ہاتھ کا کوئی دخل نہیں ہے ۔

تو نے اہل شام کو اپنے ساتھ ملا کر میری نافرمانی کی ۔تمہارے علما نے تمہارے جہال کو گمراہ کیا اور مخالفت کرنے والوں نے گھر بیٹھے ہوئے افراد کو میری مخالفت پر آمادہ کیا ۔(۲)

____________________

(۱):- الدینوری ۔الاخبار الطوال۔ص ۱۹۱-۱۹۲

(۲):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد چہارم ۔ص ۱۱۳-۱۶۰

۲۶۴

درج بالا حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی (ع) قرآن کی حاکمیت اعلی کے خواہاں تھے لیکن جن حالات میں معاویہ نے دعوت تحکیم دی وہ حضرت علی (ع) کے لئے قابل قبول نہیں تھی اس کے علاوہ حضرت علی (ع) کو ابو موسی اشعری کے نمائندے بننے پر بھی اعتراض تھا ۔

عمرو بن العاص معاویہ کی نمائندگی کے لئے ہر طرح موزوں تھا ،جبکہ ابو موسی اشعری حضرت علی (ع) کی نمائیندگی کے لئے کسی طور بھی موزوں نہ تھا ۔مگر اہل عراق کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے آپ نے اسے بھی بادل نخواستہ قبول کر لیا اور آپ نے یہ سوچا کہ جب حکمین فیصلہ کے لئے اکٹھے ہوں گے تو ممکن ہے کہ ابو موسی اپنی سابقہ کوتاہیوں کی تلافی کرلے ۔

اور آپ کا یہ خیال کہ حکمین درج ذیل نکات پر بحث کریں گے ۔

۱:- کیا حضرت عثمان ناحق قتل ہوئے ہیں ؟

۲:- کیا معاویہ کو خون عثمان کے مطالبہ کا حق حاصل ہے ؟

۳:- اگر بالفرض عثمان مظلوم ہو کر مارے گئے ہیں تو اس کے خون کا بدلہ لینے کے لئے خلیفہ کو کیا اقدامات کرنے چاہئیں ؟

مگر حکمین نے اصل موضوع پر بحث ہی نہیں کی اور عمرو بن العاص نے ابو موسی کے کان میں یہ فسوں پھونکا کہ امت کی سلامتی اس میں ہے کہ دونوں کو رخصت کردیا جائے ۔ ابو موسی اشعری اپنی علی (ع) دشمنی اور سادگی کی وجہ سے عمرو بن العاص کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنستا چلا گیا اور آخر وقت تک اسے عمرو بن العاص کی چالاکی اور مکاری کا ادراک نہ ہوسکا ۔

اور عمرو بن العاص نے ایک سیدھے سادے بدو کی جہالت سے خوب فائدہ اٹھایا اور میدان میں ہاری ہوئی جنگ کا پانسہ پلٹ دیا ۔

۲۶۵

حضرت علی (ع) کی مشکلات

تحکمیم کے نتیجہ میں خوارج کا ظہور ہوا ۔ خوارج کا گروہ فرومایہ اور جذباتی افراد پر مشتمل تھا ۔ جن کی نظر میں دلیل ومنطق کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔

حضرت علی (ع) کی مشکلات بیان کرتے ہوے ڈاکٹر طہ حسین رقم طراز ہیں :-

"حضرت علی (ع) کے لئے خوارج درد سر بن گئے نہروان میں تمام خوارج کا خاتمہ نہیں ہوا تھا البتہ ان کی ایک جماعت قتل ہوگئی تھی لیکن وہ ابھی کوفہ میں آپ کے ساتھ رہتے تھے اور بصرہ میں آپ کے گورنر کے ساتھ علاوہ ازیں کوفہ وبصرہ کے قرب وجوار میں پھیلے ہوئے تھے ۔

یہ خارجی نہروان میں قتل ہونے والے اپنے بھائیوں کا قصاص دل سے بھلانہ سکے تھے اور نہروان کی شکست ان کے فکر ونظر کے کسی گوشہ میں کوئی تبدیلی پیدا نہ کرسکی بلکہ اس سے ان کی قوت میں اور اضافہ ہوا اور ان کو وہ مذموم اور ہولناک طاقت بھی ملی جس کا سرچشمہ بغض ،کینہ اور انتقام کے جذبات ہیں ۔

حالات و واقعات نے ان خارجیوں کے لئے ایک محاذ اور ایک پالیسی بنادی جس سے وہ اپنی طویل تاریخ میں کبھی منحرف نہیں ہوئے۔اور وہ محاذ اور پالیسی یہ تھی کہ خلفاء کے ساتھ مکاری اور فریب کیا جائے لوگوں کو ان کے خلاف ابھاراجائے ۔کسی بات میں ان کا ساتھ نہ دیا جائے اگڑ اقتدار اور قوت نہ ہو تو اپنے مسلک کی دعوت پیدا ہوجائے تو چھپ چھپا کر یا کھلے بندوں شہر سے دور باہر نکال کر ایک جگہ جمع ہوجائیں اور مقابلہ کی صورت میں اپنی نافرمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تلواریں بے نیام کرلیں ۔

چنانچہ کوفہ میں حضرت علی کے گرد وپیش یہ لوگ مکروفریب کی کاروائیاں

۲۶۶

کرتے رہے اور گھات میں لگے لوگوں کے خیالات اور دلوں کو پھراتے رہے ۔ آپ کے ساتھ نمازوں میں شریک ہوتے ،آپ کے خطابات اور آپ کی باتیں سنتے ،بعض اوقات خطبے اور گفتگو میں قطع کلامی بھی کرتے لیکن اس کے باوجود آپ کے انصاف سے مطمئن اور آپ کی گرفت سے بے خوف تھے ۔خوب جانتے تھ ےکہ جب تک پہل خود ان کی طرف سے نہ ہوگی ،آپ نہ ان پر ہاتھ اٹھائیں گے نہ ان کی پردہ دری کریں گے اور یہ مال غنیمت میں حصہ پاتے رہیں گے اور وقتا فوقتا جو کچھ ملتا رہے گا اس سے مقابلہ کی تیاری کریں گے ۔

حضرت علی (ع) کے اس عفو وعدل نے خارجیوں کے حوصلے بڑھا دیئے تھے ۔

آپ ان کے ارادوں سے پوری طرح باخبر اور اکثر اپنی داڑھی اور پیشانی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کرتے تھے کہ یہ ان سے رنگین ہورکر رہے گی چنانچہ جب آپ ساتھیوں کی نافرمانیوں سے اکتا جاتے تو خطبوں میں اکثر فرمایا کرتے "بد بخت نے کیوں دیر لگا رکھی ہے "

خوارج کا یہ حال تھا کہ کبھی کبھی آپ کے سامنے آجاتے اور بلاتردد اپنے خیالات کا اظہار کرتے چنانچہ ایک دن حریث بن راشد سامی آیا اور کہنے لگا :

خدا گواہ کہ میں نے نہ آپ کی اطاعت کی اور نہ آپ کے پیچھے نماز پڑھی آپ نے فرمایا : خدا تجھے غارت کرے تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ، اپنا عہد توڑا اور اپنے آپ کو دھوکا دیتا رکہا آخر تو ایسا کیوں کرتا ہے ؟

اس برملا مخالت کے باوجود بھی حضرت علی (ع) نہ تو اس پر خفا ہوئے اور نہ ہی اسے گرفتار کیا بلکہ اسے مناظرے کی دعوت دی شاید وہ حق کی طرف لوٹ سکے ۔

اس کے بعد وہ رات کی تاریکی میں کوفہ سے لڑائی کے ارادے سے نکل گیا ۔راستے میں اس کو اور اس کے ساتھیوں کو دو آدمی ملے جن سے ان کا مذہب پوچھا گیا ۔ ان میں سے ایک یہودی تھا ۔ اس نے اپنا مذہب بتا دیا ۔ اس کو ذمّی

۲۶۷

خیال کرکے چھوڑ دیا گیا اور دوسرا عجمی مسلمان تھا ۔جب اس نے اپنا مذہب بتایا تو اس سے حضرت علی (ع) کے بارے میں سوال پوچھا گیا ۔اس نے حضرت علی (ع) کی تعریف کی تو اس کے ساتھی اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کو قتل کردیا ۔(۱)

ناکثین ، قاسطین ، اور مارقین غرضیکہ یہ تینوں گروہ حضرت علی کے مخالفین تو تھے ہی لیکن حضرت علی کو غیروں کے علاوہ اپنوں کی طوطا چشمی کی بھی شکایت تھی ۔ عبداللہ بن عباس جو حضرت علی کی طرف سے بصرہ میں گورنر تھے اور حضرت علی (ع) کے ابن عم تھے اور ان کے پاس دین ودنیا کا بھی وسیع علم تھا اور انہیں قریش میں عمومی اور بنی ہاشم میں خصوصی مقام تھا وہ بھی حضرت علی (ع) کے مخلص نہ رہے ۔

ابو الاسود ؤلی بصرہ کے بیت المال کے خازن تھے انہوں نے عبداللہ بن عباس کی طرف سے مالی بے ضابطہ گیاں ملاحظہ کیں تو انہوں نے حضرت علی (ع) کو خط لکھ کر مطلع کیا حضرت علی (ع) نے ابن عباس کو خط لکھا جس میں تحریر کیا :

"مجھے تمہارے متعلق کچھ باتیں معلوم ہوئی ہیں اگر تم نے واقعی ایسا کیا ہے تو تم نے اپنے رب کو ناراض کیا اور اپنی امانت میں خیانت کی اور اپنے امام کی نافرمانی کی اور مسلمانوں کے مال میں خیانت کے مرتکب ہوئے لہذا تمہارا فرض ہے کہ اپنا حساب لے کرمیرے پاس آجاؤ اور یہ بھی جان لو کہ اللہ کا حساب لوگوں کے حساب سے سخت ہے ۔"

حضرت علی (ع) مالی بے ضابطگی کو کسی بھی صورت معاف کرنے کے عادی نہیں تھے اور مسلمانوں کے مال کے متعلق کسی مداہنت کے قائل نہیں تھے ۔

لیکن ابن عباس نے حساب دینے کے بجائے بصرہ کی گورنری کو چھوڑ دیا اور مکہ چلے گئے ،لیکن مقام افسوس تو یہ ہے کہ وہ بصرہ سے خالی ہاتھ نہیں گئے ۔

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص ۱۳۳

۲۶۸

بصرہ کے بیت المال کو صاف کرکے روانہ ہوئے اور بنی تمیم نے ان سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی حالات کے تغیر کو دیکھ کر ابن عباس نے اپنے ماموؤں یعنی بن ازد کی پناہ لی ۔ اور مذکورہ مال کی وجہ سے بنی ازد اور بنی تمیم میں جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی ۔آخر کا ابن عباس مال لے جانے میں کامیاب ہوگئے جب کہ ابن عباس کو بخوبی علم تھا کہ یہ مال ان کا نہیں ہے ۔(۱)

دن گزر نے کے ساتھ ساتھ حضرت علی کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ، گورنروں کی جانب سے خیانت سامنے آئی اور دشمنوں کی طرف سے جفائیں سامنے آئیں مگر ان حوصکہ شکن حالات میں بھی حضرت علی نے جادہ حق سے سرمو انحراف نہ کیا اور اپنی قرآنی سیاست سے ایک انچ ہونا گوارا نہ کیا ۔ یکے بعد دیگرے مشکلات بڑھتی گئیں مگر شیر خدا نے مشکلات میں گھبرانا نہیں سیکھا تھا ۔ حضرت علی (ع) نے زندگی کے آخری نفس تک حق وصداقت کے پر چم کو سرنگوں نہیں ہونے دیا اور انہوں نے ہمیشہ حق کی سربلندی کے لئے مصائب کے دریا عبور کیا یہاں تک کہ ابن ملجم لعین نے آپ کو شہید کردیا ، لیکن حضرت علی (ع) کے عدل کو ملاحظہ فرمائیں کہ اپنے قاتل کے لئے بھی حق سے ہٹنا قبول نہ کیا اور اپنی اولاد کو آخری وصیت میں ارشادفرمایا :" اپنے قیدی کو اچھا کھانا دینا ۔اگرمیں اس ضرب سے بچ گیا تو میں اپنے قصاص کا خود مالک ہوں مجھے اختیار ہوگا کہ اسے معاف کروں یا اس سے بدلہ لوں اور اگر میں شہید ہوجاؤں تو تم قاتل کو ایک ضرب سے زیادہ ضربیں نہ مارنا کیوں کہ اس نے مجھ پر ایک ضرب چلائی تھی اور قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کا حلیہ نہ بگاڑنا ۔اللہ حد سے زیادہ تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔"

____________________

(۱):- الفتنتہ الکبری ۔ علی وبنوہ ۔۱۲۹

۲۶۹

فصل ہفتم

سیرت امام (ع) سے چند اقتباسات

ہم سابقہ فصول میں بہت سے واقعات کی جانب اشارہ کرچکے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ امام عالی مقام کتاب اللہ اور سنت رسول (ص) کے کتنے شیدائی تھے اورآپ نے ہمیشہ کتاب اللہ اور سنت رسول (ص) کو اپنے لئے مشعل راہ بنایا تھا ۔

آپ کی صلح اور جنگ ہمیشہ احکام قرآنی کے تابع تھی اور آپ نے ہمیشہ اپنے دوستوں اور دشمنوں سے وہی سلوک کیاجس کا حکم قرآن مجید اور سنت رسول نے دیا تھا ۔

اس فصل میں ہم آپ کی سیرت کے چند ایسے گوشے اپنے قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں جنہیں عظیم مسلمان مورخین نے نقل کیا ہے ۔

۲۷۰

آئین حکومت

درج ذیل دستاویز کو مالک اشتر نخعی کے لئے تحریر فرمایا ۔قارئین کرام سے ہم التماس کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی (ع) کی اس دستاویز کا اچھی طرح سے مطالعہ کریں کیونکہ اس خط میں آپ نے اسلام کے آئین جہانبانی کی مکمل وضاحت کی ہے ۔

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

یہ ہے وہ فرمان جس پر کاربند رہنے کا حکم دیا ہے خدا کے بندے علی امیر المومینن نے مالک بن حارث اشتر کو جب مصر کا انہیں والی بنایا تاکہ وہ خراج جمع کریں اور دشمنوں سے لڑیں ،رعایا کی فلاح وبہبود اور شہروں کی آبادی کا انتظام کریں ۔انہیں حکم ہے کہ اللہ کا خوف کریں ، اس کی اطاعت کو مقدّم سمجھیں اورجن فرائض وسنن کا اس نے اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ،ان کا اتباع کریں کہ انہیں کی پیروی سے سعادت اور انہیں کے ٹھکرانے اور برباد کرنے سے بد بختی دامن گیر ہوتی ہے اور یہ کہ اپنے دل اپنے ہاتھ اور اپنی زبان سے اللہ کی نصرت میں لگے رہیں کیوں کہ خدائے بزرگ وبرتر نے ذمہ لیا ہے ،جو اس کی نصرت کرےگا اور جو اس کی حمایت کے لئے کھڑا ہوگا ، وہ عزت و سرفرازی بخشے گا ۔

اس کے علاوہ اہنین حکم ہے کہ وہ نفسانی خواہشوں کے وقت اپنے نفس کو کچلیں اور اس کی منہ زوریوں کے وقت اسے روکیں ۔کیونکہ نفس برائیوں ہی کی طرف لے جانے والا ہے مگر یہ کہ خدا کا لطف وکرم شامل حال ہو۔

اے مالک! اس بات کو جانے رہو کہ تمہیں ان علاقوں کی طرف بھیج رہا ہوں ۔جہاں تم سے پہلے عادل اور ظالم کئی حکومتیں گذر چکی اور تمہارے طرز عمل کو اسی نظر سے دیکھیں گے جس نظر سے تم اپنے اگلے حکمرانوں کے طور

۲۷۱

طریقے کو دیکھتے رہے ہو اور تمہارے بارے میں بھی وہی کہیں گے جو تم ان حکمرانوں کے بارے میں کہتے ہو۔

یہ یاد رکھو کہ خدا کے نیک بندوں کا پتہ اسی نیک نامی سے چلتا ہے جو انہیں بندگان الہی میں خدا نے دے رکھی ہے ۔ لہذا ہر ذخیرہے سے زیادہ پسند تمہیں نیک اعمال کا ذخیرہ ہونا چاہئیے تم اپنی خواہشوں پر قابو رکھو اور جو مشاغل تمہارے لئے حلال نہیں ہیں ۔ ان میں صرف کرنے سے اپنے نفس کےساتھ بخل کرو کیونکہ نفس کے ساتھ بخل کرنا ہی اس کے حق کو ادا کرنا ہے چاہے وہ خود اسے پسند کرے یا ناپسند ۔

رعایا کے لئے اپنے دل کے اندر رحم ودرافت اور لطف ومحبت کو جگہ دو اور ان کے لئے پھاڑ کھانے والا درندہ نہ بن جاؤ کہ انہیں نگل جانا غنیمت سمجھتے ہو اس لئے کہ رعایا میں دو قسم کے لوگ ہیں : ایک تو تمہارے دینی بھائی اور دوسرے تمہاری جیسی مخلوق خدا ۔ان کی لغزشیں بھی ہوں گی ۔خطاؤں سے بھی انہیں سابقہ پڑے گا اور ان کے ہاتھوں سے جان بوجھ کر بھولے چوکے سے غلطیاں بھی ہوں گی ۔تم ان سے اسی طرح عفودرگذر س کام لینا ۔جس طرح اللہ سے اپنے لئے عفودرگذر کر پسند کرتے ہو اس لئے کہ تم ان پر حاکم ہو ۔ اور تمہارے اوپر تمہارا امام حاکم ہے اور جس امام نے تمہیں والی بنایا ہے اس کے اوپر اللہ ہے اور اس نے تم سے ان لوگوں کے معاملات کی انجام دہی چاہی ہے اور ان کے ذریعہ تمہاری آزمائش کی ہے اور دیکھو خبردار ! اللہ سے مقابلہ کے لئے نہ اترنا اس لئے کہ اس کے غضبکے سامنے تم بے بس ہو ،اور اس کے عفو رحمت سے بے نیاز نہیں ہوسکتے تمہیں کسی معاف کردینے پر پچھتانا اور سزا دینے پر اترنا نہ چاہیے ۔

غصّہ میں جلد بازی سے کام نہ لو جبکہ اس کے ٹال دینے کی گنجائش ہو کبھی یہ نہ کہنا کہ میں حاکم بنایا گیا ہوں ۔لہذا میرے حکم کے آگے سر

۲۷۲

تسلیم خم ہونا چاہیے کیونکہ یہ تصور دل میں فساد پیدا کرنے ،دین کو کمزور بنانے اور برباد دیوں کو قریب لانے کاسبب ہے ۔

اور کبھی حکومت کی وجہ سے تم میں غرور و تمکنت پید ہو تو اپنے سے بالاتر اللہ کے ملک کی عظمت کو دیکھو اور خیال کرو کہ وہ تم پر قدرت رکھتا ہے کہ جو تم خود اپنے آپ پر نہیں رکھتے ،یہ چیز تمہاری رعونت وسرکشی کو دبا دے گی ۔اور تمہاری طغیانی کو روک دےگی ۔

خبردار! کبھی اللہ کے ساتھ اس کی عظمت میں ہ ٹکرو اور اس کی شان و جبروت سے ملنے کی کوشش نہ کرو ،کیونکہ اللہ ہر جبار و سرکش کو نیچا دکھاتا ہے اور ہرمغرور کے سر کا جھکا دیتا ہے ۔

اپنی ذات کے بارے میں اور اپنے خاص عزیزوں اور رعایا میں سے اپنے دل پسند افراد سے معاملے میں حقوق اللہ کو اور حقوق الناس کے متعلق بھی انصاف کرنا کیونکہ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ظالم ٹھہروگے اور جو خدا کے بندوں پر ظلم کرتاہے تو بندوں کے بجائے اللہ اس کا حریف ودشمن بن جاتا ہے ،اور جس کا اللہ حریف ودشمن ہو ،اس کی ہر دلیل کو کچل دے گا اور وہ اللہ سے بر سر پیکار رہے گا یہاں تک کہ بازآئے اور توبہ کر لے ،اور اللہ کی نعمتوں کو سلب کرنے والی ،اور اس کی عقوبتوں کو جلد بلاوا دینے والی کوئی چیز اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ ظلم پر باقی رہا جائے کیوں کہ اللہ مظلوموں کی پکار سنتا ہے اور ظالموں کیلئے موقع کا منتظر رہتا ہے ۔

تمہیں سب طریقوں سے زیادہ وہ طریقہ پسند ہونا چاہیئے جو حق کے لحاظ سے بہترین ،انصاف کے لحاظ سب کو شامل اور رعایا کے زیادہ سے زیادہ افراد کی مرضی کے مطابق ہو کیونکہ عوام کی ناراضگی خواص کی رضامندی کو بے اثر بنادیتی ہے اور خواص کی ناراضگی عوام کی رضامندی کے ہوتے ہوئے نظر انداز کی جاسکتی ہے ۔

اور یہ یاد رکھو ! کہ رعیت میں خواص سے زیادہ کوئی ایسا نہیں کہ جو

۲۷۳

خوش حالی کے وقت حاکم پر بوجھ بننے والا ، مصیبت کے وقت امداد سے کتراجانے والا ، انصاف پر ناک بھوں چڑھانے والا ،طلب وسوال کے موقعہ پر پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑجانے والا ، بخشش پر کم شکر گزار ہونے ہونے والا ،محروم کردئیے جانے پر بمشکل عذر سننے والا ، اور زمانہ کی ابتلاؤں پر بے صبری دکھانے والا ہو ۔ اور دین کا مظبوط سہارا ، مسلمانوں کی قوت اور دشمن کے مقابلہ میں سامان دفاع یہی امت کے عوام ہوتے ہیں ۔

لہذا تمہاری پوری توجہ اور تمہارا پورا رخ انہی کی جانب ہونا چاہئیے اور تمہاری رعایا میں تم سے سب سے زیادہ دور اور سب سے تمہیں زیادہ ناپسند وہ ہونا چاہیئے جو لوگوں کی عیب جوئی میں زیادہ لگا رہتا ہو ۔ کیونکہ لوگوں میں عیب تو ہوتے ہی ہیں ۔ حاکم کے لئے انتہائی شایان یہ ہے کہ ان پر پردہ ڈالے لہذا جو عیب تمہاری نظروں سے اورجھل ہوں ، انہیں نہ اچھالنا ۔کیونکہ تمہارا کا م انہی عیبوں کو مٹانا ہے کہ جو تمہارے اوپر ظاہر ہوں ،اور جو چھپے ڈھکے ہوں ، ان کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے ۔اس لئے جہاں تک بن پڑے ،عیبوں کو چھپاؤ تاکہ اللہ بھی تمہارے ان عیوب کی پردہ پوشی کے جنہیں تم رعیت سے پوشیدہ رکھنا چاہتے ہو۔

لوگوں سے کینہ کی ہر گرہ کو کھو ل دو اور دشمنی کی ہر رسی کاٹ دو اور ہر ایسے رویہ سے جو تمہارے لئے مناسب نہیں بے خبر بن جاؤ اور چغل خور کی جھٹ سے ہاں میں ہاں نہ ملاؤ کیونکہ وہ فریب کاراہوتا ہے اگر چہ خیر خواہوں کی صورت میں سامنے آتاہے ۔

اپنے مشورہ میں کسی بخیل کو شریک نہ کرنا کہ وہ تمہیں دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے سے روکے گا ، اور فقرو افلاس کاخطرہ دلائے گا اور نہ کسی بزدل سے مہمات میں مشورہ لینا کہ وہ تمہاری ہمت پست کردے گا اور نہ کسی لالچی سے مشورہ کرنا کہ وہ ظلم کی راہ سے مال بٹورنے کی تمہاری نظروں میں سج دے گا ۔

۲۷۴

یاد رکھو ! کہ بخل ،بزدلی ، اور حرص اگر چہ الگ الگ خصلتیں ہیں مگر اللہ سے بد گمانی ان سب میں شریک ہے ۔ تمہارے لئے سب سے بد تر وزیر وہ ہوگا ۔جو تم سے پہلے بد کرداروں کا وزیر اور گناہوں مں ان کا شریک رہ چکا ہے ۔ اس قسم کے لوگوں کو تمہارے مخصوصین میں سے نہ ہونا چاہئے کیونکہ وہ گنہگاروں کے معاون اور ظالموں کے ساتھی ہوتے ہیں ۔ ان کی جگہ تمہیں ایسے لوگ مل سکتے ہیں جو تدبیرو رائے اور کارکردگی کے اعتبار س ان کے مثل ہوں گے مگر ان کی طرح گناہوں کی گر انباریوں میں دبے ہوئے نہ ہوں ۔جنہوں نے نہ کسی ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کی ہو اور نہ کسی گنہگار کا اس کے گناہ میں ہاتھ بٹایا ہو ۔ان کا بو جھ تم پر ہلکا ہوگا اور یہ تمہارے بہترین معاون ثابت ہوں گے اور تمہاری طرف محبت سے جھکنے والے ہوں گے اورتمہارے علاوہ دوسروں سے ربط ضبط رکھیں گے ۔ انہی تو تم خلوت وجلوت میں اپنا مصاحب خاص ٹھہرانا ۔ پھر تمہارے نزدیک ان میں زیادہ ترجیح ان لوگوں کو ہونا چاہئے کہ جو حق کی کڑوی باتیں تم سے کھل کر کہنے والے ہوں اور ان چیزوں میں کہ جنہیں اللہ اپنے مخصوص بندوں کے لئے ناپسند کرتاہے ۔ تمہاری بہت کم مدد کرنے والے ہوں چاہے وہ تمہاری خواہشوں سے کتنی ہی میل کھاتی ہوں ۔پرہیزگاروں اور راست مازوں سے اپنے کو وابستہ رکھنا ۔پھر انہیں اس کا عادی بنانا کہ وہ تمہارے کسی کارنامہ کے بغیر تمہاری تعریف کرکے تمہیں خوش نہ کریں ۔کیونکہ زیادہ مدح سرائی غرور پیدا کرتی ہے اور سرکشی کی منزل سے قریب کردیتی ہے اور تمہارے نزدیک نیکوکار اور بد کردار دونوں برابر نہ ہوں ۔ اس لئے کہ ایسا کرنا نیکوں کو نیکی سے بے رغبت کرنا اور بدوں کوبدی پر آمادہ کرنا ہے ۔

ہر شخص کو اسی کی منزلت پر رکھو ،جس کاوہ مستحق ہے اور اس بات کو یاد رکھو کہ حاکم کو اپنی رعایا پر پورا اعتماد اسی وقت کرنا چاہیئے جب کہ وہ ان سے

۲۷۵

حسن سلوک کرتا ہو اور ان پر بوجھ نہ لادے اور انہیں ایسی ناگوار چیزوں پر مجبور نہ کرے ۔جو ان کے بس میں نہ ہوں ۔

تمہیں ایسا رویہ اختیار کرنا چاہئیے کہ اس حسن سلوک سے تمہیں رعیت پر پورا اعتماد ہوسکے ۔کیونکہ یہ اعتماد تمہاری طویل اندرونی الجھنوں کو ختم کردےگا اور سب سے زیادہ تمہارے اعتماد کے وہ مستحق ہیں جن کے ساتھ تم نے اچھا سلوک کیا ہو اور سب سے زیادہ اعتمادی کے مستحق وہ ہیں جن سے تمہارا برتاؤ اچھا نہ رہا ہو۔

اور دیکھو ! اس اچھے طور طریقے کو ختم نہ کرنا کہ جس پر اس امت کے بزوگ چلتے رہے ہیں اور جس سے اتحاد و یک جہتی بیدر اور رعیت کی اصلاح ہوئی ہو۔

اور ایسے طریقے ایجاد نہ کرنا جو پہلے طریقوں کو کچھ ضرر پہنچائیں اگر اینا کیا گیا تو نیک روش کے قائم کرجانے والوں کو ثواب تو ملتا رہے گا ۔مگر انہیں ختم کردینے کا گناہ تمہاری گردن پر ہوگا ۔اور اپنے شہروں کے اصلاحی امور کو مستحکم کرنے اور ان چیزوں کے قائم کرنے مں کہ جن سے اگلے لوگوں کے حالات مضبوط رہے تھ ےعلماء وحکماء کے ساتھ باہمی مشورہ اور بات چیت کرتے رہنا ۔

اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ رعایا میں کئی طبقے ہوتے ہیں جن کی سود و بہبود ایک دوسرے سے وابستہ ہوتی ہے ۔اور وہ ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں ہوسکتے ان میں ایک طبقہ وہ ہے جو اللہ کی راہ میں کام آنے والے فوجیوں کا ہے ۔

دوسرا طبقہ وہ ہے جو عمومی وخصوصی تحریروں کا کام انجام دیتاہے ۔ تیسرا طبقہ انصاف کرنے والے قضاۃ کا ہے ۔ چوتھا حکومت کے وہ عمال جن سے امن وانصاف قائم ہوتاہے ۔پانچواں خراج دینے والے مسلمانوں اور جزیہ دینے والے ذمیوں کا ۔چھٹا تجارت واہل حرفہ کا ۔ساتواں فقرا ء ومساکین کا وہ طبقہ ہے جو

۲۷۶

سب سے پست ہے ۔اوراللہ نے ہر ایک کا حق معین کردیا ہے اور اپنی کتاب یا سنت نبوی میں اس کی حد بندی کردی اور وہ دستور ہمارے پاس محفوظ ہے ۔

(پہلا طبقہ) فوجی دستے یہ بحکم خدا رعیت کی حفاظت کا قلعہ وفرمان رواؤں کی زینت ،دین ومذہب کی قوت اور امن کی راہ ہیں ۔ رعیت کا نظم ونسق انہی سے قائم وہ سکتا ہے اور فوج کی زندگی کا سہارا وہ خراج ہے جو اللہ نے ان کے لئے معین کیا ہے ۔کہ جس سے وہ دشمنوں سے جہاد کرنے میں تقویت حاصل کرتے اور اپنے حالات کو درست بناتے اور ضروریات کو بہم پہنچاتے ہیں ۔پھر ان دونوں طبقوں کے نظم وبقاء کے لئے تیسرے طبقے کی ضرورت ہے کہ جو قضاہ عمال اور منشیان دفاتر کا ہے جس کے ذریعہ باہمی معاہدوں کی مضبوطی اور خراج او ردیگر منافع کی جمع آوری ہوتی ہے اور معمولی اور غیر معمولی معاملوں میں ان کے ذریعے وثوق واطمینان حاصل کیا جاتا ہے اور سب کا دارو مدار سوداگروں اور صناعوں پر سے ان کی ضروریات کو فراہم کرتے ہیں ۔بازار لگاتے ہیں اور اپنی کاوشوں سے ان کی ضروریات کو مہیا کرکے انہیں خود مہیا کرنے سے آسودہ کردیتے ہیں اس کے بعد پھر فقیروں اور ناداروں کا طبقہ ہے جن کی اعانت ودستگیری ضروری ہے اللہ تعالی نے ان سب کے گزارے کی صورتیں پیدا کر رکھی ہیں اور ہر طبقے کا حاکم پر حق قائم ہے کہ وہ ان کے لئے اتنا مہیا کرے جو ان کی حالت درست کرسکے اور حاکم خدا کےان تمام ضروری حقوق سے عہدہ بر آ نہیں ہوسکتا مگر اسی صورت میں کہ پوری طرح کوشش کرے اور اللہ سے مدد مانگے اور اپنے کو حق پر ثابت وبرقرار رکھے اور چاہے اس کی طبیعت پر آسان ہو یا دشوار بہر حال اس کو برداشت کرے ۔فوج کا سردار اس کو بنانا جو اپنے اللہ کا اور اپنے رسول کااور تمھارے امام کا سب سے زیادہ خیر خواہ ہو سب سے زیادہ پاک دامن ہو ۔اور بردباری میں نمایاں ہو ۔جلد غصہ میں نہ آجاتا ہو عذر معذرت پر مطمئن ہوجاتا ہو ۔کمزوروں پر رحم کھاتا

۲۷۷

ہو اور طاقتوں کے سامنے اکڑجاتا ہو۔ نہ بد خوئی اسے جوش میں لے آتی ہو اور نہ پست ہمتی اسے بٹھادیتی ہو،پھر ہونا چاہئے کہ تم بلند خاندان ،نیک گھرانے اور عمدہ روایات رکھنے والے اور ہمت وشجاعت اور سخاوت کے مالکوں سے اپنا ربط وضبط بڑھاؤ کیونکہ یہی لوگ بزرگیوں کا سرمایہ اور نیکیوں کا سرچشمہ ہوتے ہیں ۔پھر ان کے حالات کی اسطرح دیکھ بھال کرنا جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کی دیکھ بال کرتے ہیں ۔ اگر ان کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کرو کہ جوان کی تقویت کا سبب ہو تو اسے بڑا نہ سمجھنا ،اور اپنے کسی معمولی کو بھی غیر اہم نہ سمجھ لینا (کہ اسے چھوڑ بیٹھو)کیونکہ اس حسن سلوک سے ان کی خیر خواہی کا جذبہ ابھرے گا اور حسن اعتماد میں اضافہ ہوگا اور اس خیال سے کہ تم نے ان کی بڑی ضرورتوں کو پورا کردیا ہے ۔کہیں ان کی چھوٹی ضرورتوں سے آنکھ بندنہ کرلینا کیونکہ یہ چھوٹی قسم کی مہربانی کی بات بھی اپنی جگہ فائدہ بخش ہوتی ہے اور وہ بڑی ضرورتیں اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں ۔ اور فوجی سرداروں میں تمہارے یہاں وہ بلند منزلت سمجھا جائے ،جو فوجیوں کی اعانت میں برابر کا حصہ لیتا ہو اوراپنے روپے پیسے سے اتنا سلوک کرتا ہو کہ جس سے ان کا اور ان کے پیچھے رہ جانے والے بال بچوں کا بخوبی گزار ہوسکتا ہو۔ تاکہ وہ ساری فکروں سے بے فکر ہو کر پوری یکسوئی کے ساتھ دشمن سے جہاد کریں ۔ اس لئے فوجی سرداروں کے ساتھ تمہارا مہربانی سے پیش آنا ان کے دلوں کو تمھاری طرف موڑدے گا ۔

حکمرانوں کے لئے سب سے بڑی آنکھوں کی ٹھنڈک اس میں ہے کہ شہروں میں عدل وانصاف برقرار رہے اور رعایا کی محبت ظاہر رہے اور ان کی محبت اسی وقت ظاہر ہوا کرتی ہے کہ جب ان کے دلوں میں میل نہ ہو اور ان کی خیر خواہی اسی صورت میں ثابت ہوتی ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے گرد حفاظت کیلئے گھیرا ڈالے رہیں ان کا اقتدار سر پر بو جھ نہ سمجھیں اور نہ ان کی حکومت

۲۷۸

کے خاتمے کے لئے گھڑیاں گئیں ۔ لہذا ان کی امیدوں میں وسعت وکشش رکھنا ،انہیں اچھے لفظوں سے سراہتے رہنا اور ان میں کے اچھی کارکردگی دکھانے والوں کے کارناموں کا تذکرہ کرتے رہنا ۔اس لئے ان کے اچھے کارنا موں کا ذکر بہادروں کو جوش میں لے آتا ہے اور پست ہمتوں کو ابھارتا ہے ۔جو شخص جس کارنامے کو انجام دے اسے پہچانتے رہنا اور ایک کا کارنامہ دوسرے کی طرف منسوب نہ کردینا اور اس کی حسن کارکردگی کا صلہ دینے میں کمی نہ کرنا اور کبھی ایسا نہ کرنا کسی شخص کی بلندی ورفعت کی وجہ سے اس کے معمولی کام کو بڑا سمجھ لو یا کسی کے بڑے کام کو اس کے خود پست ہونے کی وجہ سے معمولی قراردے لو۔

جب ایسی مشکلیں تمہیں پیش آئیں کہ جن کا حل نہ ہوسکے اور ایسےے معاملات کو جو مشتبہ ہوجائیں تو ان میں اللہ اور رسول (ص) کی طرف رجوع کرو ۔کیونکہ خدانے جن لوگوں کو ہدایت کرنا چاہی ہے ان کے لئے فرمایا ہے " اے ایماندارو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور ان کی جو تم میں صاحبان امر ہوں " تو اللہ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی کتاب کی محکم آیتوں پر عمل کیا جائے اور رسول (ص) کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے ان متفق علیہ ارشادات پر عمل کیا جائے جن میں کوئی اختلاف نہیں ۔

پھر یہ کہ لوگ معاملات کا فیصلہ کرنے کے لئے ایسے شخص کو منتخب کرو جو تمھارے نزدیک تمھاری رعایا میں سب سے بہتر ہو جو واقعات کی پیچید گیوں سے ضیق میں نہ پڑجاتا ہو ۔اور نہ جھگڑا کرنے والوں کے رویہ سے غصہ میں آتا ہو ۔نہ اپنے کسی غلط نقطہ نظر پر اڑتا ہو ۔نہ حق کو پہچان کر اس کے اختیار کرنے میں طبیعت پر بار محسوس کرتاہو نہ اس کا نفس ذاتی طمع پر جھک پڑتا ہو ، اور ہ بغیر پوری طرح چھان بین کئے ہوئے سرسری طور پر کسی معاملہ کو سمجھ لینے پر اکتفا کرتاہو ۔شک وشبہ کے موقعہ پر قدم روک لیتا ہو اور دلیل وحجت کو سب سے زیادہ

۲۷۹

اہمیت دیتاہو ۔ فریقین ک بخشا بخشی سے اکتا نہ جاتا ہو ۔معاملات کی تحقیق میں بڑے صبر وضبط سے کام لیتاہو ۔ اور جب حقیقت آئینہ ہوجاتی ہو تو بے دھڑک کردے ۔اگر چہ ایسے لوگ کم ملتے ہیں ۔ پھر یہ کہ تم خود ان کے فیصلوں کابار بار جائزہ لیتے رہنا ۔دل کھول کر انہیں اتنا دینا کہ جو ان کے ہر عذر کو غیر مسموع بنا دے اور لوگوں کی انہیں کوئی احتیاج ن رہے ۔اپنے ہاں انہیں ایسے باعزت مرتبہ پر رکھو کہ تمہارے دربار میں لوگ انہیں ضرر پہنچانے کاکوئی خیال نہ کرسکیں ،تاکہ وہ تمہارے التفات کی وجہ سے لوگوں ک سازش سے محفوظ رہیں ۔

اس بارے میں انتہائی بالغ نظری سے کام لینا ۔ کیونکہ (اس سے پہلے ) یہ دین بدکرداروں کے پنجے کا اسیر رہ چکا ہے جس میں نفسانی خواہشوں کی کارفائی تھی ۔اور اسے دنیا طلبی کا ذریعہ بنایا گیا تھا ۔

پھر اپنے عہدہ داروں کے بارے میں نظر رکھنا ۔ان کو خوب آزمائش کے بعد منصب دینا ۔کبھی صرف رعایا اور جانبداری کی بنا پر انہیں منصب عطانہ کرنا اس لئے کہ یہ باتیں ناانصافی اور بے ایمانی کا سرچشمہ ہیں ۔اور ایسے لوگوں کو منتخب کرنا جو آزمودہ اور غیرت مند ہوں ۔ ایسے خاندانوں میں سے جو اچھے ہوں اور جن کی خدمات اسلام کے سلسلہ میں پہلے سے ہوں ۔کیوں کہ ایسے لوگ بلند اخلاق اور بے داغ عزت والے ہوتے ہیں ،حرص وطمع کی طرف کم جھکتے ہیں اور عواقب ونتائج پر زیادہ نظر رکھتے ہیں پھر ان کی تنخواہوں کا معیار بلند رکھنا ۔کیونکہ اس سے انہیں اپنے نفوس کے درست رکھنے میں مددملےگی اور اس مال سے بے نیاز رہیں گے جو ان کے ہاتھوں میں بطور امانت ہوگا ۔ اس کے بعد بھی وہ تمہارے حکم ک خلاف ورزی یا امانت میں رخنہ اندازی کریں تم تمہاری حجت ان پر قائم ہوگی ،پھر ان کے کاموں کو دیکھتے بھالتے رہنا اور سچے اور وفادار مخبروں کو ان پر

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333