المیہ جمعرات

المیہ جمعرات11%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104075 / ڈاؤنلوڈ: 4470
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

پانچويں فصل: تقصير

يہ عمرہ كے واجبات ميں سے پانچواں ہے _

مسئلہ ۳۱۱_ سعى كو مكمل كرنے كے بعد تقصير واجب ہے اور اس سے مراد ہے سر، داڑھى يا مونچھوں كے كچھ بالوں كا كاٹنا يا ہاتھ يا پاؤں كے كچھ ناخن اتارنا _

مسئلہ ۳۱۲_ تقصير ايك عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت واجب ہے جو احرام كى نيت ميں ذكر ہوچكى ہيں_

مسئلہ ۳۱۳_ عمرہ تمتع سے مُحل ہونے كيلئے سر كا منڈانا تقصير سے كافى نہيںہے بلكہ اس سے محل ہونے كيلئے تقصير ہى ضرورى ہے پس اگر تقصير سے

۱۴۱

پہلے سرمنڈا لے تو اگر اس نے جان بوجھ كر ايسا كيا ہو تو نہ فقط يہ كافى نہيں ہے بلكہ سرمنڈانے كى وجہ سے اس پر ايك بكرى كا كفارہ دينا بھى واجب ہے ليكن اگر اس نے عمرہ مفردہ كيلئے احرام باندھا ہو تو حلق اور تقصير كے درميان اسے اختيار ہے _

مسئلہ ۳۱۴_ عمرہ تمتع كے احرام سے مُحل ہونے كيلئے بالوں كو نوچنا تقصير سے كافى نہيں ہے بلكہ اس سے محل ہونے كيلئے تقصير ہى ضرورى ہے جيسے كے گزرچكا ہے پس اگر تقصير كى بجائے اپنے بالوں كو نوچے تو اگر اسے جان بوجھ كر انجام دے تو نہ فقط يہ كافى نہيں ہے بلكہ اس پر بال نوچنے كا كفارہ بھى ہوگا _

مسئلہ ۳۱۵_ اگر حكم سے لاعلمى كى وجہ سے تقصير كى بجائے بالوں كو نوچے اور حج كو بجالائے تو اس كا عمرہ باطل ہے اور جو حج بجالايا ہے وہ حج افراد واقع ہوگا اور اس وقت اگر اس پر حج واجب ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اعمال حج ادا كرنے كے بعد عمرہ مفردہ بجالائے پھر آئندہ سال عمرہ تمتع اور حج

۱۴۲

بجالائے اور يہى حكم ہے اس بندے كا جو حكم سے لاعلمى كى وجہ سے تقصير كے بدلے اپنے بال مونڈ دے اور حج بجالائے _

مسئلہ ۳۱۶_ سعى كے بعد تقصير كى انجام دہى ميں جلدى كرنا واجب نہيں ہے _

مسئلہ ۳۱۷_ اگر جان بوجھ كر يا لاعلمى كى وجہ سے تقصير كو ترك كر كے حج كا احرام باندھ لے تو اقوى يہ ہے كہ اس كا عمرہ باطل ہے اور اس كا حج حج افراد ہوجائيگا اور احوط وجوبى يہ ہے كہ حج كے بعد عمرہ مفردہ كو بجالائے اور اگر اس پر حج واجب ہو تو آئندہ سال عمرہ اور حج كا اعادہ كرے _

مسئلہ ۳۱۸_ اگر بھول كر تقصير كو ترك كردے اور حج كيلئے احرام باندھ لے تو اس كا احرام ، عمرہ اور حج صحيح ہے اور اس پر كوئي شے نہيں ہے اگر چہ اسكے لئے ايك بكرى كا كفارہ دينا مستحب ہے بلكہ احوط اس كا ترك نہ كرنا ہے _

مسئلہ ۳۱۹_ عمرہ تمتع كى تقصير كے بعد اس كيلئے وہ سب حلال ہوجائيگا جو

۱۴۳

حرام تھا حتى كہ عورتيں بھى _

مسئلہ ۳۲۰_ عمرہ تمتع ميں طواف النساء واجب نہيں ہے اگر چہ احوط يہ ہے كہ رجاء كى نيت سے طواف النساء اور اسكى نماز كو بجالائے ليكن اگر اس نے عمرہ مفردہ كيلئے احرام باندھا ہو تو اس كيلئے عورتيں حلال نہيںہوںگى مگر تقصير يا حلق كے بعد طواف النساء اور نماز طواف كو بجالانے كے بعد اور اس كا طريقہ اور احكام طواف عمرہ سے مختلف نہيں ہيں كہ جو گزرچكا ہے _

مسئلہ ۳۲۱_ ظاہر كى بناپر ہر عمرہ مفردہ اور ہر حج كيلئے الگ طور پر طواف النساء واجب ہے مثلا اگر دو عمرہ مفردہ بجالائے يا ايك حج اور عمرہ مفردہ بجالائے تو اگر چہ اس كيلئے عورتوں كے حلال ہونے ميں ايك طواف النساء كا كافى ہونا بعيد نہيں ہے مگر ان ميں سے ہر ايك كيلئے الگ طواف النساء واجب ہے _

۱۴۴

دوسرا حصہ:

اعمال حج كے بارے ميں

۱۴۵

پہلى فصل :احرام

يہ حج كے واجبات ميں سے پہلا واجب ہے _ شرائط ، كيفيت ، محرمات، احكام اور كفار ات كے لحاظ سے حج كا احرام عمرہ كے احرام سے مختلف نہيںہے مگر نيت ميں پس اسكے ساتھ اعمال حج كو انجام دينے كى نيت كريگا اور جو كچھ عمرہ كے احرام كى نيت ميں معتبر ہے وہ سب حج كے احرام كى نيت ميں بھى معتبر ہے اور يہ احرام نيت اور تلبيہ كے ساتھ منعقد ہوجاتا ہے پس جب حج كى نيت كرے اور تلبيہ كہے تو اس كا احرام منعقد ہوجائيگا _ ہاں احرام حج بعض امور كے ساتھ مختص ہے جنہيں مندرجہ ذيل مسائل كے ضمن ميں بيان كرتے ہيں :

۱۴۶

مسئلہ ۳۲۲_ حج تمتع كے احرام كا ميقات مكہ معظمہ ہے اور افضل يہ ہے كہ حج تمتع كا احرام مسجدالحرام سے باندھے اور مكہ معظمہ كے ہر حصے سے احرام كافى ہے حتى كہ وہ حصہ جو نيا بنايا گيا ہے _ ليكن احوط يہ ہے كہ قديمى مقامات سے احرام باندھے ہاں اگر شك كرے كہ يہ مكہ كا حصہ ہے يا نہيں تو اس سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے _

مسئلہ ۳۲۳_ واجب ہے كہ نوذى الحج كو زوال سے پہلے احرام باندھے اس طرح كہ عرفات ميں وقوف اختيارى كو پاسكے اور اسكے اوقات ميں سے افضل ترويہ كے دن( آٹھ ذى الحج) زوال كا وقت ہے _ اور اس سے پہلے احرام باندھنا جائز ہے بالخصوص بوڑھے اور بيمار كيلئے جب انہيں بھيڑ كى شدت كا خوف ہو _ نيز گزرچكا ہے كہ جو شخص عمرہ بجالانے كے بعد كسى ضرورت كى وجہ سے مكہ سے خارج ہونا چاہے تو اس كيلئے احرام حج كو مقدم كرنا جائز ہے _

مسئلہ ۳۲۴_ جو شخص احرام كو بھول كر عرفات كى طرف چلاجائے تو اس

۱۴۷

پر واجب ہے كہ مكہ معظمہ كى طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر وقت كى تنگى يا كسى اور عذر كى وجہ سے يہ نہ كرسكتا ہو تو اپنى جگہ سے ہى احرام باندھ لے اور اس كا حج صحيح ہے اور ظاہر يہ ہے كہ جاہل بھى بھولنے والے كے ساتھ ملحق ہے _

مسئلہ ۳۲۵_ جو شخص احرام كو بھول جائے يہاں تك كہ حج كے اعمال مكمل كرلے تو اس كا حج صحيح ہے _ اور حكم سے جاہل بھى بھولنے والے كے ساتھ ملحق ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ لاعلمى اور بھولنے كى صورت ميں آئندہ سال حج كا اعادہ كرے _

مسئلہ ۳۲۶: جو شخص جان بوجھ كر احرام كو ترك كردے يہاں تك كہ وقوفبالعرفات اور وقوف بالمشعر كى فرصت ختم ہوجائے تو اس كا حج باطل ہے _

مسئلہ ۳۲۷_ جس شخص كيلئے اعمال مكہ كو وقوفين پر مقدم كرنا جائز ہو اس پر واجب ہے كہ انہيں احرام كى حالت ميں بجالائے پس اگر انہيں بغير احرام كے بجالائے تو احرام كے ساتھ ان كا اعادہ كرنا ہوگا _

۱۴۸

دوسرى فصل :عرفات ميں وقوف كرنا

يہ حج كے واجبات ميں سے دوسرا واجب ہے اور عرفات ايك مشہور پہاڑ ہے كہ جسكى حد عرنہ ، ثويہ اور نمرہ كے وسطسے ليكر ذى المجاز تك اور ما زمين سے وقوف كى جگہ كے آخر تك اور خود يہ حدود اس سے خارج ہيں_

مسئلہ ۳۲۸_ وقوف بالعرفات عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت واجب ہے كہ جو احرام كى نيت ميں گزرچكى ہيں_

مسئلہ ۳۲۹_ وقوف سے مراد اس جگہ ميں صرف حاضر ہونا ہے چاہے سوار ہو يا پيدل يا ٹھہرا ہوا_

مسئلہ ۳۳۰_ احوط يہ ہے كہ نوذى الحج كے زوال سے غروب شرعى

۱۴۹

(نماز مغرب كا وقت) تك ٹھہرے اور بعيد نہيں ہے كہ اسے زوال كے اول سے اتنى مقدار مؤخر كرنا جائز ہو كہ جس ميں نماز ظہر ين كو انكے مقدمات سميت اكٹھا ادا كيا جاسكے_

مسئلہ ۳۳۱_ مذكورہ وقوف واجب ہے ليكن اس ميںسے ركن صرف وہ ہے جس پر وقوف كا نام صدق كرے اور يہ ايك ياد و منٹ كے ساتھ بھى ہوجاتا ہے اگر اس مقدار كو بھى اپنے اختيار كے ساتھ ترك كردے تو حج باطل ہے اور اگر اتنى مقدار وقوف كرے اور باقى كو ترك كردے يا وقوف كو عصر تك مؤخر كردے تو اس كا حج صحيح ہے اگرچہ جان بوجھ ايسا كرنے كى صورت ميں گناہ گار ہے _

مسئلہ ۳۳۲_ غروب سے پہلے عرفات سے كوچ كرنا حرام ہے پس اگر جان بوجھ كر كوچ كرے اور عرفات كى حدود سے باہر نكل جائے اور پلٹے بھى نہ تو گناہ گار ہے اورايك اونٹ كا كفارہ دينا واجب ہے ليكن اس كا حج صحيح ہے اور اگر اونٹ كا كفارہ دينے سے عاجز ہو تو اٹھارہ روزے ركھے اور احوط

۱۵۰

يہ ہے كہ اونٹ كو عيد والے دن منى ميں ذبح كرے اگر چہ اسے منى ميں ذبح كرنے كا معين نہ ہونا بعيد نہيں ہے اور اگر غروب سے پہلے عرفات ميں پلٹ آئے تو كفارہ نہيں ہے _

مسئلہ ۳۳۳_ اگر بھول كر يا حكم سے لاعلمى كى وجہ سے غروب سے پہلے عرفات سے كوچ كرے تو اگر وقت گزرنے سے پہلے متوجہ ہوجائے تو اس پر واجب ہے كہ پلٹے اور اگر نہ پلٹے تو گناہ گارہے ليكن اس پر كفارہ نہيں ہے ليكن اگر وقت گزرجانے كے بعد متوجہ ہو تو اس پر كوئي شے نہيں ہے _

۱۵۱

تيسرى فصل :مشعرالحرام ( مزدلفہ) ميں وقوف كرنا

يہ حج كے واجبات ميں سے تيسرا ہے اور اس سے مراد غروب كے وقت عرفات سے مشعر الحرام كى طرف كوچ كرنے كے بعد اس مشہور جگہ ميں ٹھہرنا ہے_

مسئلہ ۳۳۴_ وقوف بالمشعر عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت معتبر ہے جو احرام كى نيت ميں ذكر ہوچكى ہيں_

مسئلہ ۳۳۵_ واجب وقوف كا وقت دس ذى الحج كو طلوع فجر سے طلوع آفتاب تك ہے اوراحوط يہ ہے كہ عرفات سے كوچ كرنے كے بعد رات كو وہاں پہنچ كر وقوف كى نيت كے ساتھ وہاں وقوف كرے _

۱۵۲

مسئلہ ۳۳۶_ مشعر ميں طلوع فجر سے ليكر طلوع آفتاب تك باقى رہنا واجب ہے ليكن ركن اتنى مقدار ہے جسے وقوف كہا جائے اگر چہ يہ ايك يا دو منٹ ہو _اگر اتنى مقدار وقوف كرے اور باقى كو جان بوجھ كر ترك كردے تو اس كا حج صحيح ہے اگر چہ فعل احرام كا مرتكب ہوا ہے ليكن اگر اپنے اختيار كے ساتھ اتنى مقدار وقوف كو بھى ترك كردے تو اس كا حج باطل ہے _

مسئلہ ۳۳۷_ عورتوں ، بچوں، بوڑھوں ،كمزوروں اور صاحبان عذر_ جيسے خوف يا بيماري_ كيلئے اتنى مقدار وقوف كرنے كے بعد كہ جس پر وقوف صدق كرتا ہے عيد كى رات مشعر سے منى كى طرف كوچ كرنا جائز ہے اسى طرح وہ لوگ جو ان كے ہمراہ كوچ كرتے ہيں اور انكى احوال پرسى كرتے ہيں جيسے خدام اور تيمار دارى كرنے والے _

تنبيہ : وقوفين ميں سے ايك يادونوں كو درك كرنے كے اعتبار سے اور اختياراً يا اضطراراً جان بوجھ كر، لاعلمى سے يا بھول كر فرداً يا تركيباً بہت سارى تقسيمات ہيں كہ جو مفصل كتابوں ميں مذكور ہيں_

۱۵۳

چوتھى فصل :كنكرياں مارنا

يہ حج كے واجبات ميں سے چوتھا اور منى كے اعمال ميں سے پہلا ہے _ دس ذى الحج كو جمرہ عقبہ ( سب سے بڑا) كوكنكرياں مارناواجب ہے _

كنكرياں مارنے (رمي) كى شرائط

كنكرياں مارنے (رمي) ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول: نيت اپنى تمام شرائط كے ساتھ جيسے كہ احرام كى نيت ميں گزرچكا ہے_

دوم: يہ كہ رمى اسكے ساتھ ہو جسے كنكرياں كہا جائے پس نہ اتنے

۱۵۴

چھوٹے كے ساتھ صحيح ہے كہ وہ ريت ہو اور نہ اتنے بڑے كے ساتھ كہ جو پتھر ہو _

سوم : يہ كہ رمى عيدوالے دن طلوع آفتاب اورغروب آفتاب كے درميان ہو البتہ جس كيلئے يہ ممكن ہو _

چہارم: يہ كہ كنكرياں جمرے كو لگيں پس اگر نہ لگے يا اسے اسكے لگنے كا گمان ہو تو يہ شمار نہيں ہوگى اور اسكے بدلے دوسرى كنكرى مارنا واجب ہے اور اس كا لگے بغير صرف اس دائرے تك پہنچ جانا جو جمرے كے اردگرد ہے كافى نہيں ہے_

پنجم: يہ كہ رمى سات كنكريوں كے ساتھ ہو

ششم: يہ كہ پے در پے كنكرياں مارے پس اگر ايك ہى دفعہ مارے تو صرف ايك شمار ہوگى چاہے سب جمرے كو لگ جائيں يا نہ _

مسئلہ ۳۳۸_ جمرے كو رمى كرنا جائز ہے اس پر لگے ہوئے سيمنٹ سميت_ اسى طرح جمرہ كے نئے بنائے گئے حصے پر رمى كرنا بھى جائز ہے

۱۵۵

البتہ اگر عرف ميں اسے جمرہ كا حصہ شمار كيا جائے_

مسئلہ ۳۳۹_ اگر متعارف قديمى جمرہ كے آگے اور پيچھے سے كئي ميٹر كا اضافہ كر ديں تو اگر بغير مشقت كے سابقہ جمرہ كو پہچان كر اسے رمى كرنا ممكن ہو تو يہ واجب ہے ورنہ موجودہ جمرہ كى جس جگہ كو چاہے رمى كرے اور يہى كافى ہے _

مسئلہ ۳۴۰_ ظاہر يہ ہے كہ اوپر والى منزل سے رمى كرنا جائز ہے اگرچہ احوط اس جگہ سے رمى كرنا ہے جو پہلے سے متعارف ہے_

كنكريوں كى شرائط:

كنكريوں ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول : يہ كہ وہ حرم كى ہوں اور اگر حرم كے باہر سے ہوں تو كافى نہيں ہيں_

دوم: يہ كہ وہ نئي ہوں كہ جنہيں پہلے صحيح طور پر نہ ماراگيا ہو اگرچہ گذشتہ سالوں ميں _

۱۵۶

سوم: يہ كہ مباح ہوں پس غصبى كنكريوں كا مارنا جائز نہيں ہے اور نہ ان كنكريوں كا مارنا جنہيں كسى دوسرے نے جمع كيا ہو اسكى اجازت كے بغير ہاں كنكريوں كا پاك ہونا شرط نہيں ہے _

مسئلہ ۳۴۱_ عورتيں اور كمزور لوگ _ كہ جنہيں مشعر الحرام ميں صرف وقوف كا مسمى انجا م دينے كے بعد منى كى طرف جانے كى اجازت ہے اگر وہ دن كو رمى كرنے سے معذور ہوں تو ان كيلئے رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے بلكہ عورتوں كيلئے ہر صورت ميں رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے البتہ اگروہ اپنے حج كيلئے رمى كر رہى ہوں يا ان كا حج نيابتى ہو ليكن اگر عورت صرف رمى كيلئے كسى كى طرف سے نائب بنى ہو تو رات كے وقت رمى كرنا صحيح نہيں ہے اگر چہ دن ميں رمى كرنے سے عاجز ہو بلكہ نائب بنانے والے كيلئے ضرورى ہے كہ وہ ايسے شخص كو نائب بنائے جو دن كے وقت رمى كر سكے اگر اسے ايسا شخص مل جائے _اور ان لوگوں كى ہمراہى كرنے والا اگر وہ خود معذور ہو تو اس كيلئے رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے ورنہ اس پر واجب

۱۵۷

ہے كے دن وقت رمى كرے _

مسئلہ ۳۴۲ _ جو شخص عيد والے دن رمى كرنے سے معذور ہے اس كيلئے شب عيد يا عيد كے بعد والى رات ميں رمى كرنا جائز ہے اور اسى طرح جو شخص گيارہويں يا بارہويں كے دن رمى كرنے سے معذور ہے اسكے لئے اسكى رات يا اسكے بعد والى رات رمى كرنا جائز ہے _

پانچويں فصل :قربانى كرنا

يہ حج كے واجبات ميں سے پانچواں اورمنى كے اعمال ميں سے دوسرا عمل ہے

مسئلہ ۳۴۳_ حج تمتع كرنے والے پر قربانى كرنا واجب ہے اور قربانى تين جانوروں ميں سے ايك ہوگى اونٹ ، گائے اور بھيڑ بكرى اور ان جانوروں ميں مذكر اور مونث كے درميان فرق نہيں ہے اور اونٹ افضل ہے اورمذكورہ جانوروں كے علاوہ ديگر حيوانات كافى نہيں ہيں_

مسئلہ ۳۴۴_ قربانى ايك عبادت ہے كہ جس ميں ان تمام شرائط كے ساتھ نيت شر ط ہے كہ جو احرام كى نيت ميں گزر چكى ہيں_

۱۵۸

مسئلہ ۳۴۵_ قربانى ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول: سن: اونٹ ميں معتبر ہے كہ وہ چھٹے سال ميں داخل ہو اور گائے ميں معتبر ہے كہ وہ تيسرے سال ميں داخل ہو احوط وجوبى كى بناپر_ اور بكرى گائے كى طرح ہے ليكن بھيڑ ميں معتبر ہے كہ وہ دوسرے سال ميں داخل ہو احوط وجوبى كى بناپر _مذكورہ حد بندى چھوٹا ہونے كى جہت سے ہے پس اس سے كمتر كافى نہيں ہے ليكن بڑا ہونے كى جہت سے تو مذكورہ حيوانات ميںسے بڑى عمر والا بھى كافى ہے _

دوم : صحيح و سالم ہونا

سوم: يہ كہ بہت دبلا نہ ہو

چہارم: يہ كہ اسكے اعضا پورے ہوں پس ناقص كافى نہيں ہے جيسے خصى اور يہ وہ ہے كہ جسكے بيضے نكال ديئےائيں ہاں جسكے بيضے كوٹ ديئے جائيں وہ كافى ہے مگر يہ كہ خصى كى حد كو پہنچ جائے _ اور دم كٹا ، كانا ، لنگڑا ، كان كٹا اور جس كا اندر كا سينگ ٹوٹا ہوا ہو وہ كافى نہيںہے _ اسى طرح اگر

۱۵۹

پيدائشےى طور پر ايسا ہو تو بھى كافى نہيںہے پس دہ حيوان كافى نہيں ہے كہ جس ميں ايسا عضو نہ ہو جو اس صنف كے جانوروں ميںعام طور پر ہوتا ہے اس طرح كے اسے اس ميں نقص شمار كيا جائے _

ہاں جس كا باہر كا سينگ ٹوٹا ہوا ہو وہ كافى ہے ( باہر كا سينگ اندر والے سينگ كے غلاف كے طور پر ہوتا ہے ) اور جسكا كان پھٹا ہوا ہو يا اسكے كان ميں سوراخ ہو اس ميں كوئي حرج نہيںہے _

مسئلہ ۳۴۶_ اگر ايك جانور كو صحيح و سالم سمجھتے ہوئے ذبح كرے پھر اس كے مريض يا ناقص ہونے كا انكشاف ہو تو قدرت كى صورت ميں دوسرى قربانى كو ذبح كرنا واجب ہے _

مسئلہ ۳۴۷_ احوط يہ ہے كہ قربانى جمرہ عقبہ كو كنكرياں مارنے سے مؤخر ہو _

مسئلہ ۳۴۸_ احوط وجوبى يہ ہے كہ اپنے اختيار كے ساتھ قربانى كو روز عيد سے مؤخر نہ كرے پس اگر جان بوجھ كر ، بھول كر يا لاعلمى كى وجہ سے كسى

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

آگے بڑھ رہی ہے ۔

لوگوں کے مختلف طبقات پر نگاہ ڈال کر دیکھو تو تمہیں ایسے فقیر نظر آئیں گے جو اپنے فقر کی شکایات کرتے ہوں گے اور تمہیں ایسے دولت مند نظر آئیں گے جو اللہ کی نعمتوں کا انکار کررہے ہوں گے ۔تمہیں ایسے بخیل نظر آئیں گے جو حقوق الہی میں کنجوسی کرتے ہوں گے اور ایسے سرکش نظر آئیں گے جن کے کان مواعظ کے سننے سے بہرے ہوچکے ہوں گے ۔ اللہ کی لعنت ہو ان لوگوں پر جو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور خود اس پر عمل نہیں کرتے ۔اور برائی سے ورکتے ہیں لیکن خود اس پر عمل کرتے ہیں ۔

۱۸:- مومن کی زبان اس کے دل کے پیچھے اور منافق کا دل ان کی زبان کے پیچھے ہوتا ہے ۔کیونکہ مومن جب کوئی بات کرنا چاہتا ہے تو پہلے اس پر خوب غور وخوص کرتا ہے ۔اگر بات اچھی ہوتی ہے تو اسے ظاہر کرتا ہے اگر بات اچھی نہ ہو تو اسے چھپا لیتا ہے ۔اور منافق ہر وہ بات کہتا ہے جو اس کی زبان پر آتی ہے اور وہ اس بات کی کبھی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کا فائدہ کس بات میں ہے اور نقصان کس بات میں ہے ۔

۱۹:- خدا کی قسم ! معاویہ مجھ سے زیادہ دانا نہیں ہے لیکن وہ غداری اور مکر وفریب سے کام لیتاہے ۔

حسن علیہ السلام کو وصیت

۲۰:- صفّین سے واپسی پر اپنے فرزند حسن مجتبی کو درج ذیل وصیت لکھائی ،جس کے چیدہ چیدہ نکات ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں :

یہ وصیت ہے اس باپ کی جو فنا ہونے والا اور زمانے کی چیرہ دستیوں کا اقرار کرنے والا ہے ۔ جس کی عمر پیٹھ پھرائے ہوئے ہے اور جو زمانے کی سختیوں

۳۰۱

سے لاچار ہے اور دنیا کی برائیوں کو محسوس کرچکا ہے اور مرنے والوں کے گھروں میں مقیم اور کل کو یہاں سے رخت سفر باندھ لینے والا ہے ۔

اس بیٹے کے نام ۔جو نہ ملنے والی باتوں کا آرزو مند ،جادہ عدم کا راہ سپار ،بیماریوں کا ہدف ۔زمانے کے ہاتھ گروی ،مصیبتوں کا نشانہ ، دنیا کا پابند اور اس کی فریب کاریوں کا تاجر ، موت کا قرض دار ،اجل کا قیدی غموں کا حلیف ،حزن وملال کا ساتھی ،آفتوں میں مبتلا ،نفس سے عاجز اور مرنے والوں کا جانشین ہے ۔

میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا ،اس کے احکام کی پابندی کرنا اور اس کے ذکر سے قلب کو آباد رکھنا اور اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا ۔تمہارے اور اللہ کے درمیان جو رشتہ ہے اس سے زیادہ مضبوط اور رشتہ ہو بھی کیا سکتاہے ؟

بشرطیکہ مضبوطی سے اسے تھامے رہو ۔وعظ وپند سے دل کو زندہ رکھنا اور زہد سے اس کی خواہشوں کو مردہ اور یقین سے اسے سہار دینا اور حکمت سے اسے پر نور بنانا ۔موت کی یادہ سے اسے قابو میں کرنا ۔فنا کے اقرار پر اسے ٹھہرانا ۔ دنیا کے حادثے اس کے سامنے لانا ۔گردش روزگار سے اسے ڈرانا ۔ گزرے ہوؤں کے واقعات اس کے سامنے رکھنا ۔تمہارے والے لوگوں پر جو بیتی ہے اسے یاد لانا ۔ان کے گھروں اور کھنڈروں میں چلنا پھرنا ۔

اپنی اصل منزل کا انتظام کرو اور اپنی آخرت کا دنیا سے سودا نہ کرو اور جس بات کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے اس کے بارے میں زبان نہ ہلاؤ اور جس راہ میں بھٹک جانے کا اندیشہ ہو اس راہ میں قدم نہ اٹھاؤ ۔نیکی کی تلقین کرو تاکہ خود بھی اہل خیر میں محسوب ہو ۔ہاتھ اور زبان کے ذریعہ سے برائی کو روکتے رہو اور جہاں تک ممکن ہو بروں سے الگ رہو ۔خدا کی راہ میں جہاد کا حق ادا کرو اور اس کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اثر نہ لو ۔حق جہاں ہو ۔

۳۰۲

سختیوں میں پھاند کر اس تک پہنچ جاؤ ۔دین میں سوجھ بوجھ پیدا کرو سختیوں کو جھیل لے جانے کے خو گر بنو ۔اپنے ہر معاملہ میں اللہ کے حوالے کردو ۔

میرے فرزند! میری وصیت کو سمجھو اور یہ یقین رکھو کہ جس کے ہاتھ میں موت ہے اسی کے ہاتھ میں زندگی بھی ہے اور جو پیدا کرنے والا ہے ۔وہی مارنے والا بھی ہے ۔اور جو نیست ونابود کرنے والا ہے ،وہی دوبارہ پلٹانے والا بھی ہے ، اورجو بیمار کرنے وال ہے وہی صحت عطا کرنے والا بھی ہے ۔

اے فرزند ! اپنے اور دوسروں کے درمیان ہر معاملہ میں اپنی ذات کو میزان قراردو اورجو اپنے لئے پسند کرتے ہو ،وہی دوسروں کے لئے پسند کرو اور جو اپنے لئے نہیں چاہتے ، وہ دوسروں کے لئے بھی نہ چاہو ۔ جس طرح چاہتے ہو کہ تم پرزیادتی نہ ہو ۔یو نہی دوسروں پر بھی زیادتی نہ ہو۔ اور جس طرح چاہتے ہو کہ تمہارے ساتھ حسن سلوک ہو ،یونہی دوسروں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آؤ دوسروں کی جس چیز کو برا سمجھتے ہو اسے اپنے میں بھی ہو تو برا سمجھو اور لوگوں کے ساتھ تمہارا جو رویہ ہو اسی رویہ کو اپنے لئے بھی درست سمجھو ۔دوسروں کے لئے وہ بات نہ کہو ۔جو اپنے لئے سننا پسند نہیں کرتے ۔دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے محنت مزدوری کرلینا بہتر ہے ۔جو زیادہ بولتا ہے وہ بے معنی باتیں کرنے لگتا ہے ۔اور سوچ وبچار سے کام لینے والا صحیح راستہ دیکھ لیتا ہے ۔نیکوں سے میل جول رکھوگے تو تم بھی نیک ہوجاؤ گے ۔ بروں سے بچے رہوگے تو ان کے اثرات سے محفوظ رہو گے ۔

بد ترین کھانا وہ ہے جو حرام اور بد ترین ظلم وہ ہے جو کسی کمزور اور ناتوان پر کیا جائے ۔خبردار امیدوں کے سہارے پر نہ بیٹھنا ۔کیونکہ امیدیں احمقوں کا سرمایہ ہوتی ہیں ۔ تجربوں کو محفوظ رکھنا عقل مندی ہے ۔بہترین تجربہ وہ

۳۰۳

ہے جو پندو نصیحت دے ۔ جو تم سے حسن ظن رکھے ،اس کے حسن ظن کو سچا ثابت کرو ۔باہمی روابط کی بنا پر اپنے کسی بھائی کی حق تلفی نہ کرو کیونکہ پھروہ بھائی کہاں رہا جس کا حق تم تلف کرو ۔یہ نہ ہونا چاہیئے کہ تمہارے گھر والے تمہارے ہاتھوں دنیا جہاں میں سب سے زیادہ بد بخت ہوجائیں ۔جو تم سے تعلقات قائم رکھنا پسند ہی نہ کرت ہو۔ اس کے خواہ مخواہ پیچھے نہ پڑو تمہار دوست قطع تعلق کرے ۔تو تم رشتہ محبت جوڑنے میں اس پر بازی لے جاؤ اور وہ برائی سے پیش آئے تو تم حسن سلوک میں اس سے بڑھ جاؤ ۔

اے فرزند ! یقین رکھو رزق دو طرح کا ہوتاہے ۔ایک وہ جس کی تم جستجو کرتے ہو اور ایک ہو جو تمہاری جستجو میں لگا ہوا ہے ۔ اگر تم اس کی طرف نہ جاؤگے تو بھی وہ تم تک آکر رہے گا ۔

پردیسی وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو ۔ اور جو حق سے تجاوز کرجاتا ہے اس کا راستہ تنگ ہوجاتا ہے ۔ جو اپنی حیثیت سے آگے نہیں بڑھتا ۔اس کی منزلت برقرار رہتی ہے ۔ جاہل سے علاقہ توڑنا ، عقل مند سے رشتہ جوڑنے کے برابر ہے ۔جو دنیا پر اعتماد کرکے مطمئن ہوجاتا ہے ۔ دنیا اسے دغا دے جاتی ہے جو اسے عظمت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے وہ اسے پست وذلیل کرتی ہے ۔

راستے سے پہلے شریک سفر اور گھر سے پہلے ہمسایہ کے متعلق پوچھ گچھ کرلو ۔ خبردار ! اپنی گفتگو میں ہنسانے والی باتیں نہ لاؤ ۔اگر چہ وہ نقل قول کی حیثیت سے ہوں ۔عورتوں سے ہرگز مشورہ نہ لو کیونکہ ان کی رائے کمزور اور ارادہ سست ہوتا ہے ۔انہیں پردہ میں بٹھا کران کی آنکھوں کو تاک جھانک سے روکو ۔کیونکہ پردہ کی سختی ان کی عزت وآبرو کو برقرار رکھنے والی ہے ۔ان کا گھر وں سے نکلنا اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا کسی ناقابل اعتماد کو گھر میں آنے دینا اور اگر بن پڑے تو ایسا کرنا تمہارے علاوہ کسی اور کو وہ پہچانتی ہی نہ ہو ۔

۳۰۴

عورت کو اس کے ذاتی امور کے علاوہ دوسرے اختیارات نہ سونپو کیونکہ عورت ایک پھول ہے وہ کارفرما اور حکمران نہیں ہے ۔

۲۱:- انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے ۔

۲۲:- جو شخص اپنی قدر ومنزلت کو نہیں پہنچانتا وہ ہلاک ہوجاتا ہے ۔

۲۳:- جو شخص بدنامی کی جگہوں پر اپنے کو لے جائے تو پھر اسے برا نہ کہے جو اس سے بد ظن ہو ۔

۲۴:- جو خود رائی سے کام لے گا وہ تباہ وبرباد ہوگا اور جو دوسروں سے مشورہ لے گا وہ ان کی عقلوں میں شریک ہوجائے گا ۔

۶- حضرت علی (ع) اور انطباق آیات

حضرت علی علیہ السلام کے حق میں قرآن مجید کی بہت سے آیات نازل ہوئیں ۔بقول ابن عباس ان کے حق میں تین سو ساٹھ آیات نازل فرمائیں ۔

حضرت علی (ع) کی زندگی پر درج ذیل آیات مکمل طورپر منطبق ہوتی ہیں :

۱:-ومن یطع الله والرسول فاولآءک مع الذین انعم الله علیهم من النبین والصدیقین والشهداء والصالحین وحسن اولآءک رفیقا

اور جو کوئی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے تعمتیں نازل فرمائیں یعنی انبیاء اور صدّیقین اور شہداء اور صالحین اور وہ بہت اچھے رفیق ہیں (سورۃ النساء)

۲:-ان الذین قالوا ربنا الله ثم استقاموا تتزل علیهم الملائکة الّا تخافوا ولا تحزنو! وابشروا بالجنة التی کنتم توعدون نحن اولیاء وکم فی الحیاة الدنیا وفی الآخرة ولکم فیها ما تشتهی انفسکم ولکم فیها ما تد عون ۔"

۳۰۵

بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر جم گئے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں ( اور کہتے ہیں کہ ) تم نہ ڈرو اور نہ گھبراؤ اور تمہیں اس جنت کی بشارت ہو جس کا تم سے وعدہ کیاجاتا تھا ۔ ہم دنیا اور آخرت کی زندگی میں تمہارے دوست ہیں ۔ اور تمہارے لئے جنت میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی خواہش تمہارے دل کریں اور جو کچھ تم پکارو وہ سب موجود ہے (سورۃ فصّلت )

۳:- "واما من خاف مقام ربه ونهی النفس عن الهوی فانّ الجنة هی الماوی

اور جو کوئی اپنے رب کے مقام عظمت سے خوف کرے اور نفس کو خواہشات سے روک لے تو بے شک جنّت (اسکا ) ٹھکانہ ہے (سورۃ النازعات)

۳۰۶

فصل ہشتم

کردار معاویہ کی چند جھلکیاں

حضرت علی علیہ السلام کے طرز زندگی کے بعد ہمیں اس بات کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ ہم ان کے حریفوں کے کردار کا تذکرہ کریں کیونکہ "تعرف الاشیاء باضدادھا "چیزوں کی پہچان ا ن کے متضاد سے ہوتی ہے ۔

اسی قاعدہ کے پیش نظر ہم امیر المومینین کے بد ترین مخالف کے کردار کی تھوڑی جھلکیاں پیش کرنا چاہتے ہیں ۔کیونکہ اگر شب تاریک کی ہولناکی نہ ہو تو روز روشن کی عظمت واضح نہیں ہوسکتی اور اگر کسی نے تپتی ہوئی دھوپ کو سرے سے دیکھا ہی نہ ہو تو اس کے لئے نخلستان کی ٹھنڈی چھاؤں کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل ہوجائے گا ۔

اسی طرح سے جس کو ابو جہل کی خباثت کا علم نہ ہو اسے محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ سلم رافت کا صحیح علم نہ ہوسکے گا اور جب تک کردار معاویہ پیش نظر نہ ہو اس وقت تک علی علیہ السلام کی عدالت اجتماعی کی قدر منزلت کاپتہ نہیں لگ سکے گا ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ علی کا معاویہ سے موازنہ کرنا ضدین کے مابین موازنہ قرار پاتا ہے اور حضرت علی (ع) اور معاویہ کے کردار میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔

مختصر الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی زندگی جس قدر عدل اجتماعی کے لئے وقف تھی ۔ویسے ہی معاویہ کی پوری زندگی بے اصولی اور لوٹ مار اور بے گناہوں کے قتل عام کے لئے وقف تھی ۔ حضرت علی علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحیح جانشین تھے ۔ اسی طرح سے معاویہ اپنے باپ کے کردار وفضائل کا صحیح جانشین تھا ۔

۳۰۷

حضرت علی علیہ السلام حضرت فاطمہ بنت اسد (رض) اور حضرت خدیجہ (رض) کی صفات جمیلہ کے وارث تھے جبکہ معاویہ اپنی ماں ہند جگر خوار کی خوانخوار عادات کا وارث تھا ۔

معاویہ نے مکر وفریب سے اپنا مقصد کیا اور امت اسلامیہ آج تک اس کے منحوس اثرات سے نجات حاصل نہیں کرسکی ۔

معاویہ نے قبائلی عصبیتوں کو ازسرنو زندہ کیا اور مجرمانہ ذہنیت کو جلا بخشی جس کے شعلوں کی تپش آج بھی امت اسلامیہ اپنے بدن میں محسوس کررہی ہے ۔ ہم نے اس فعل میں اس کے کردار کی چند جھلکنا پیش کی ہیں تاکہ انصاف پسند اذہان علی علیہ السلام اور معاویہ کی سیاست کے فرق کو سمجھ سکیں

وبضدّها تتبین الاشیاء

حضرت حجر بن عدی کا المیہ

مورخ ابن اثیر تاریخ کامل لکھتے ہیں :-

۵۱ ہجری میں حجر بن عدی اور ان کے اصحاب کو قتل کیا گیا ۔ اور اس کا سبب یہ کہ معاویہ نے ۴۱ ہجری میں مغیرہ بن شعبہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور اسے ہدایت کی کہ :- " میں تجھے بہت سی نصیحتیں کرنا چاہتا تھا لیکن تیری فہم وفراست پر اعتماد کرتے ہوئے میں زیادہ نصحیتیں نہیں کروں گا لیکن ایک چیز کی خصوصی طور پر تجھے نصیحت کرتا ہوں ۔ علی کی مذمت اور سبّ وشتم سے کبھی باز نہ آنا اور عثمان کے لئے دعا ئے خیر کو کبھی ترک نہ کرنا اور علی کے دوستوں پر ہمیشہ تشدد کرنا اور عثمان کے دوستوں کو اپنا مقرب بنانا اور انہیں عطیات سے نوازنا "

مغیرہ نے معاویہ کے حکم پر پورا عمل کیا وہ ہمیشہ حضرت علی علیہ السلام پر سب و شتم کرتا تھا اور حضرت حجر بن عدی اسے برملا ٹوک کر کہتے تھے کہ

۳۰۸

لعنت اور مذمت کا حق دار تو اور تیرا امیر ہے اور جس کی تم مذمت کررہے ہو وہ فضل وشرف کا مالک ہے ۔مغیرہ نے حجر بن عدی اور اس کے دوستوں کے وظائف بند کردئیے حضرت حجر کہا کرتے تھے کہ بندہ خدا ! تم نے ہمارے عطیات ناحق روک دئیے ہیں تمہیں ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ہمارے عطیات بحال کرو ۔

مغیرہ مرگیا اور اس کی جگہ زیاد بن ابیہ کوفہ کا گورنر مقرر ہوا ۔ زیادہ نے بھی معاویہ اور مغیرہ کی سنت پر مکمل عمل کیا اور وہ بد بخت امیرالمومنین علیہ السلام پر سبّ وشتم کرتا تھا ۔ حجر بن عدی ہمیشہ حق کا دفاع کرتے تھے ۔زیاد نے حجر بن عدی اور ان کے بارہ ساتھیوں کو گرفتار کرکے زندان بھیج دیا اور ان کے خلاف ان کے "جرائم" کی تفصیل لکھی اور چار گواہوں کے دستخط لئے اور حضرت حجر بن عدی کی مخالفت میں جن افراد نے دستخط کئے تھے ان میں طلحہ بن عبیداللہ اکے دو بیٹے استحاق اور موسی اور زبیر کا بیٹا منذرعماد بن عقبہ بن ابی معیط سر فہرست تھے پھر زیادہ نے قیدیوں کو وائل بن حجر الحضرمی اور کثیر بن شہاب کے حوالے کرکے انہیں شام بھیجا۔

زیاد کے دونوں معتمد قیدیوں کو لے کر شام کی طرف چل پڑے جب "مقام غریین" پر یہ قافلہ پہنچا تو شریح بن بانی ان سے ملا اور وائل کو خط لکھ کر دیا کہ یہ خط معاویہ تک پہنچا دینا ۔ قیدیوں کا قافلہ شام سے باہر" مرج عذرا" کے مقام پر پہنچا تو قیدیون کو وہاں ٹھہرایا گیا اور وائل اور کثیر زیاد کا خط لے کر معاویہ کے پاس گئے اور معاویہ کو زیاد کا خط دیا جس میں زیاد نے تحریر کیا تھا کہ حجر بن عدی اور اس کے ساتھی آپ کے شدید دشمن ہیں اور ابو تراب کے خیر خواہ ہیں اور حکومت کے کسی فرمان کو خاطر میں نہیں لاتے یہ لوگ کوفہ کی سرزمین کو آپ کے لئے تلخ بنانا چاہتے ہیں لہذا آپ جو مناسب سمجھیں انہیں سزا دیں تاکہ دوسرے لوگوں کو عبرت حاصل ہوسکے ۔

۳۰۹

اس کے بعد وائل نے شریح بن ہانی کا خط معاویہ کے حوالے کیا جس میں تحریر تھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے زیاد نے اپنے محضر نامہ میں میری گواہی بھی لکھی ہے اور حجر کے متعلق میری گواہی یہ ہے کہ یہ ان لوگوں میں سے ہے جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکواۃ دیتے ہیں اور حج وعمرہ کرتے ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں ۔ اس کا خون اور مال تم پر حرام ہے ۔

زیادنے جن محبان علی کو گرفتار کیا تھا ان کے نام درج ذیل ہیں

۱):- حجر بن عدی کندی ۲):- ارقم بن عبداللہ کندی ۳):- شریک بن شداد حضرمی ۴):- صیفی بن فسیل شیبانی۵):- قبیصہ بن صنیع عبسی ۶):- کریم بن عفیف خثمی ۷):- عاصم بن عوف بجلی ۸) :- ورقا بن سمی بجلی ۹):- کدام بن حسان عنزی ۱۰):- عبدالرحمن بن حسان غزی ۱۱):- محرر بن شہاب تمیمی (۱۲:- عبداللہ بن حویہ سعدی ۔

درج بالا بارہ افراد کو پہلے گرفتار کیا گیا تھا اس کے بعد دو افراد عتبہ بن اخمس سعد بن بکر اور سعد بن نمران ہمدانی کو گرفتار کرے کے شام بھیجا گیا تو اس طرح سے ان مظلوموں کی تعداد چودہ ہوگئی ۔

حضرت حجر بن عدی کے واقعہ کو مورخ طبری نے یوں نقل کیا ہے :-

قیس بن عباد شیبانی زیاد کے پاس آیا اور کہا ہماری قوم بنی ہمام میں ایک شخص بنام صیفی بن فسیل اصحاب حجر کا سرگروہ ہے اور آپ کا شدید ترین دشمن ہے ۔زیاہ نے اسے بلایا ۔جب وہ آیا تو زیاد نے اس سے کہا کہ "دشمن خدا تو ابو تراب کے متعلق کیا کہتا ہے "؟

اس نے کہا کہ میں ابو تراب نام کے کسی شخص کو نہیں پہنچاتا ۔

زیاد نے کہا!کیا تو علی ابن ابی طالب کو بھی نہیں پہچانتا ؟

صیفی نے کہا:- جی ہاں میں انہیں پہچانتا ہوں ۔

۳۱۰

زیاد نے کہا ! وہی ابو تراب ہے ۔

صیفی نے کہا!ہرگز نہیں وہ حسن اور حسین کے والد ہیں ۔

پولیس افسر نے کہا کہ امیر اسے ابو تراب کہتا ہے اور تو اسے والد حسنین کہتا ہے؟ حضرت صیفی نے کہا کہ تیرا کیا خیال ہے اگر امیر جھوٹ بولے تو میں بھی اسی کی طرح جھوٹ بولنا شروع کردوں ؟

زیاد نے کہا ! تم جرم پر جرم کررہے ہو ۔میرا عصا لایا جائے ۔

جب عصا لایا گیا تو زیاد نے ان سے کہا کہ اب بتاؤ ابو تراب کے متعلق کیا نظریہ رکھتے ہو؟

صیفی نے فرمایا ! میں ان کے متعلق یہی کہوں گا کہ وہ اللہ کے صالح ترین بندوں میں سے تھے ۔

یہ سن کر زیادہ نے انہیں بے تحاشہ مارا اور انہیں بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور جب زیاد ظلم کرکے تھک گیا تو پھر حضرت صیفی سے پوچھا کہ تم اب علی کے متعلق کیاکہتے ہو؟

انہوں نے فرمایا ! اگرمیرے وجود کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردئیے جائیں تو بھی میں ان کے متعلق وہی کہوں گا جو اس سے پہلے کہہ چکا ہوں ۔ زیاد نے کہا تم باز آجاؤ ورنہ میں تمہیں قتل کردوں گا ۔

حضرت صیفی نے فرمایا کہ اس ذریعہ سے مجھے درجہ شہادت نصیب ہوگا اور ہمیشہ کی بد بختی تیرے نامہ اعمال میں لکھ دی جائے گی ۔

زیاد نے انہیں قید کرنے کا حکم کردیا ۔چنانچہ انہیں زنجیر پہنا کر زندان بھیج دیا گیا ۔بعد از اں زیاد نے حضرت حجر بن عدی اور ان کے دوستوں کے خلاف فرد جرم کی تیار کی اور ان مظلوم بے گناہ افراد کے خلاف حضرت علی علیہ السلام کے بدترین دشمنوں کے اپنے دستخط ثبت کئے ۔

۳۱۱

ابو موسی کے بیٹے ابو بردہ اپنی گواہی میں تحریر کیا کہ " میں رب العالمین کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ حجر بن عدی اور اس کے ساتھیوں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی اور امیر کی اطاعت سے انحراف کیا ہے اور لوگوں کو امیر المومنین معاویہ کی بیعت توڑنے کی دعوت دیتے ہیں اور انہوں نے لوگوں کو ابو تراب کی محبت کی دعوت دی ہے ۔

زیادہ نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ باقی افراد بھی اسی طرح کی گواہی تحریر کریں ۔میری کوشش ہے کہ اس خائن احمق کی زندگی کا چراغ بجھا دوں ۔

عناق بن شر جیل بن ابی دہم التمیمی نے کہا کہ میری گواہی بھی ثبت کرو ۔مگر زیاد نے کہا ! نہیں ہم گواہی کے لئے قریش کے خاندان سے ابتدا کریں گے اور اس کے ساتھ ان معززین کی گواہی درج کریں گے جنہیں معاویہ پہچانتا ہو ۔

چنانچہ زیاد کے کہنے پر اسحاق بن طلحہ بن عبیداللہ اور موسی بن طلحہ اور اسماعیل بن طلحہ اور منذر بن زبیر اور عمارہ بن عقبہ بن ابی معیط ،عبدالرحمان بن ہناد ،عمربن سعد بن ابی وقاص ،عامر بن سعود بن امیہ ،محرز بن ربیعہ بن عبدالعزی ابن عبدالشمس ،عبیداللہ بن مسلم حضرمی ، عناق بن وقاص حارثی نے دستخط کئے

ان کے علاوہ زیاد نے شریح قاضی اور شریح بن ہانی حارثی کی گواہی بھی لکھی قاضی شریح کہتا ہے تھا کہ زیاد نے مجھ سے حجر کے متعلق پوچھا تو میں نے کہا تھا کہ وہ قائم اللیل اور صائم النہار ہے ۔

شریح بن ہانی حارثی کو علم ہوا کہ محضر نامہ میں میری بھی گواہی شامل ہے تو وہ زیاد کے پاس آیا اور اسے ملامت کی اور کہا کہ تو نے میری اجازت اور علم کے بغیر میری گواہی تحریر کردی ہے میں دنیا وآخرت میں اس گواہی سے بری ہوں ۔ پھروہ قیدیوں کے تعاقب میں آیا اور وائل بن حجر کو خط لکھ دیا کہ میرا یہ خط

۳۱۲

معاویہ تک ضرور پہچانا ۔اس نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ نے حجر بن عدی کے خلاف میری گواہی بھی درج کی ہے تو معلوم ہو کہ حجر کے متعلق میری گواہی یہ کہ وہ نماز پڑھتا ہے ،زکواۃ دیتا ہے ، حج وعمرہ بجا لاتا ہے ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہے ، اس کی جان ومال انتہائی محترم ہے ۔

قیدیوں کو دمشق کے قریب "مرج عذرا " میں ٹھہرا یا گیا اور معاویہ کے حکم سے ان میں سے چھ افراد کو قتل کردیاگیا ۔ ان شہیدان راہ حق کے نام یہ ہیں –

۱):- حجربن عدی رضی اللہ عنہ ۲):- شریک بن شداد حضرمی ۳):- صیفی بن فسیل شیبانی ۴):- قبیصہ بن ضبیعہ عبسی ۵):- محرز بن شہاب السعدی ۶):- کدام بن حیان الغزی رضی اللہ عنھم اجمعین ۔

اس کے علاوہ عبدالرحمن بن حسان عنزی کو دوبارہ زیاد کےپاس بھیجا گیا اور معاویہ نے زیاد کو لکھا کہ اسے بد ترین موت سے ہمکنار کرو ۔زیاد نے انہیں زندہ دفن کرادیا(۱) ۔

خدا کی رحمت کند این عاشقان پاک طینت را

حضرت حجر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر ہند بنت زید نے یہ مرثیہ پڑھا تھا :-

ترفع ایها القمر المنیر تبصر هل تری حجر الیسیر

یسیر الی معاویة بن حرب لیقتله کما زعم الامیر

الا یا حجر حجر بن عدی ترفتک السلامة والسرور

یری قتل الخیار علیه حقا له شر امته وزیر

"اے قمر منیر! دیکھو تو سہی حجر جارہا ہے ۔حجر معاویہ بن حرب کے پاس جارہا ہے ۔امیر زیاد کہتا ہے کہ معاویہ اسے قتل کرےگا ، اے حجر بن عدی !

____________________

(۱):- تاریخ طبری ۔جلد ششم –ص ۱۵۵

۳۱۳

تجھے ہمیشہ سلامتی اور خوشیاں نصیب ہوں ،معاویہ شریف لوگوں کو قتل کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے اور امت کا بد ترین شخص اس کا وزیر ہے ۔"

ڈاکٹر طہ حسین لکھتے ہیں :-

ایک مسلمان حاکم نے اس گناہ کامباح اور اس بدعت کو حلال سمجھا اپنے لئے کہ ایسے لوگوں کو موت کی سزا دیدے جس کے خون کی اللہ نے حفاظت چاہی تھی اور پھر موت کا حکم بھی حاکم نے ملزموں کو بلا دیکھے اور ان کی کچھ سنے اور ان کو اپنے دفاع کا کچھ حق دیئے بغیر دیدیا ۔حالانکہ انہوں نے باربار مطلع کیا کہ انہوں نے حاکم کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا ۔

اس سانحہ نے دور دور کے مسلمانوں کے دل ہلادیئے ۔حضرت عائشہ کو جب معلوم ہوا کہ اس جماعت کو شام بھیجا جا رہا ہے تو انہوں نے عبدالرحمن بن حارث ابن ہشام کو معاویہ کے پاس بھیجا کہ ان کے بارے میں اس سے گفتگو کریں ۔ لیکن جب عبدالرحمن پہنچے تو یہ جماعت شہید ہوچکی تھی ۔

اسی طرح عبداللہ بن عمر کو جب اس دردناک واقعہ کی اطلاع ملی تو انہوں نے عمامہ سر سے اتارکر لوگوں سے اپنا رخ پھیر لیا اور رونے لگے اور لوگوں نے ان کے رونے کی آواز سنی ۔

حجر کا قتل ایک سانحہ ہے ۔ اس دور کے بزرگوں میں سے کسی نے اس بات پر شک نہیں کیا کہ کہ یہ قتل اسلام کی دیوار میں ایک شگاف تھا اور معاویہ کو بھی اس کا اعتراف تھا چنانچہ وہ اسے اپنے آخری دنوں تک حجر کو نہ بھول سکا اور مرض الموت میں سب سے زیادہ اسے یاد کیا ۔مورخوں اور راویوں کا بیان ہے کہ معاویہ مرض الموت میں کہتا تھا :-حجر تو نے میری آخرت خراب کردی ۔ ابن عدی کے ساتھ میرا حساب بہت لمبا ہے ۔"(۱)

____________________

(۱):- الفتنتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص ۲۴۳

۳۱۴

غدر معاویہ کے دیگر نمونے

معاویہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے انسانی قدروں کو پامال کرنےمیں کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا ۔

اس نے حضرت مالک اشتر کے متعلق سنا کہ حضرت علی نے انہیں محمد بن ابی بکر کی جگہ مصر کا گورنر مقررکیا ہے تو اس نے ایک زمین دار سے ‎ سازش کی کہ اگر تو نے مصر پہنچنے سے پہلے مالک کو قتل کردیا تو تیری زمین کا خراج نہیں لیا جائے گا ۔

چنانچہ جب حضرت مالک اس علاقے سے گزرے تو اس نے انہیں طعام کی دعوت دی اور شہد میں زہر ملا کر انہیں پیش کیا ۔جس کی وجہ سے حضرت ومالک شہید ہوگئے۔

اس واقعہ کے بعد معاویہ اور عمرو بن العاص کہا کرتے تھے کہ شہد بھی اللہ کا لشکر ہے ۔امام حسن مجتبی علیہ السلام سے معاہدہ کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی اور حضرت حسن علیہ السلام کی زوجہ جعدہ بنت اشعث سے ساز باز کی کہ اگر وہ انہیں زہر دے کر شہید کردے تو اسے گراں قدر انعام دیاجائے گا اور اس کی شادی یزید سے کی جائے گی ۔

امام حسن علیہ السلام کی بیوی نے معاویہ کی انگیخت پر انہیں زہر دیا جس کی وجہ سے وہ شہید ہوئے ۔

مورخ مسعودی لکھتے ہیں کہ ابن عباس کسی کام سے شام گئے ہوئے تھے اور مسجد میں بیٹھے تھے کہ معاویہ کے قصر خضرا ء

سے تکبیر کی آواز بلند ہوئی ۔آواز سن کر معاویہ فاختہ بنت قرظہ نے پوچھا کہ آپ کو کونسی خوشی نصیب ہوئی ہے ۔ جس کی وجہ سے تم نے تکبیر کہی ہے ؟ تو معاویہ نے کہا ! حسن کی موت کی

۳۱۵

اطلا ع ملی ہے ۔ اسی لئے میں نے باآواز بلند تکبیر کہی ہے ۔(۱)

زیاد بن ابیہ کا الحاق

زیاد ایک ذہین اور ہوشیار شخص تھا ۔ حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت میں ان کا عامل تھا ۔ معاویہ اپنی شاطرانہ سیاست کے لئے زیاد کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا تھا اور اس نے زیاد کو خط لکھا کہ تم حضرت علی علیہ السلام کو چھوڑ کر میرے پاس آجاؤ کیونکہ تم میرے باپ ابو سفیان کے نطفہ سے پیدا ہوئے ہو ۔

زیاد کے نسب نامہ میں اس کی ولدیت کا خانہ خالی تھا ۔اسی لئے لوگ اسے زیاد بن ابیہ ۔یعنی زیاد جو اپنے باپ کا بیٹا ہے ، کہہ کر پکارا کرتے تھے ۔

حضرت علی علیہ السلام کو جب معاویہ کی اس مکاری کا علم ہوا تو انہوں نے زیاد کو ایک خط تحریر کیا تھا جس میں انہوں نے لکھا ۔

مجھے معلوم ہوا ہے کہ معاویہ تمہاری طرف خط لکھ کر تمہاری عقل کو پھسلانا اور تمہاری دھار کو کند کرنا چاہا ہے ۔ تم اس سے ہوشیار رہو کیونکہ وہ شیطان ہے جو مومن کے آگے پیچھے اور داہنی بائیں جانب سے آتا ہے تاکہ اسے غافل پاکر اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کی عقل پر چھاپہ مارے ۔واقعہ یہ ہے کہ عمر بن خطاب کے زمانہ میں ابو سفیان کے منہ سے بے سوچے سمجھے ایک بات نکل گئی تھی جو شیطان وسوسوں میں سے ایک وسوسہ تھی ۔ جس سے نہ نسب ثابت ہوتا ہے اور نہ وارث ہونے کا حق پہنچتا ہے ۔ جو شخص اس بات کا سہارا لے کر بیٹھے وہ ایسا ہے جیسے بزم مے نوشی میں مبتلا بن بلائے آنے والا کہ اسے دھکے دے کر باہر کیا جاتا ہے یا زین فرس میں لٹکے ہوئے اس پیالے کی مانند جو ادھر سے ادھر تھرکتا رہتا ہے(۲) ۔

____________________

(۱):- مروج الذہب ومعادن الجوہر ۔جلد دوم ۔ص ۳۰۷

(۲):- نہج البلاغہ مکتوب ۴۴

۳۱۶

مسعودی ذکر کرتے ہیں کہ :-

۴۰ ہجری میں معاویہ نے زیاد کو اپن بھائی بنا لیا اور گواہی کے لئے زیاد بن اسماء مالک بن ربیعہ اور منذر بن عوام نے معاویہ کے دربار میں زیاد کے سامنے گواہی دی کہ ہم نے ابو سفیان کی زبانی سنا تھا کہ زیاد نے میرے نطفہ سے جنم لیا ہے ۔اور ان کے بعد ابومریم سلولی نے درج ذیل گواہی دی کہ زیاد کی ماں حرث بن کلدہ کی کنیز تھی اور عبید نامی ایک شخص کے نکاح میں تھی طائف کے محلہ "حارۃ البغایا" میں بدنام زندگی گزار تی تھی اور اخلاق باختہ لوگ وہاں آیا جایا کرتے تھے اور ایک دفعہ ابو سفیان ہماری سرائے میں آکر ٹھہرا اور میں اس دور میں مے خانہ کا ساقی تھا ۔ ابو سفیان نے مجھ سے فرمائش کی کہ میرے لئے کوئی عورت تلاش کرکے لے آؤ ۔

میں نے بہت ڈھونڈھا مگر حارث کی کنیز سمیہ کے علاوہ مجھے کوئی عورت دستیاب نہ ہوتی ۔ تو میں نے ابو سفیان کو بتایا کہ ایک کالی بھجنگ عورت کے علاوہ مجھے کوئی دوسری عورت نہیں ملی ۔ تو ابو سفیان نے کہا ٹھیک ہے وہی عورت ہی تم لاؤ ۔

چنانچہ میں اس رات سمیہ کو لے کر ابو سفیان کے پاس گیا اور اسی رات کے نطفہ سے زیادکی پیدائش ہوئی ۔ اسی لئے میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ معاویہ کا بھائی ہے ۔ اس وقت سمیہ کی مالکہ صفیہ کے بھائی یونس بن عبید نے کھڑے ہو کر کہا ۔

معاویہ ! اللہ اور رسول کا فیصلہ ہے کہ " بچہ اسی کا ہے جس کے گھر پیدا ہو اور زانی کے لئے پتھر ہیں " اور تو فیصلہ کررہا ہے کہ بیٹا زانی کا ہے ۔یہ صریحا کتاب خدا کی مخالفت ہے ۔عبدالرحمن بن ام الحکم نے اس واقعہ کو دیکھ کریہ شعر کہے تھے :-

۳۱۷

الا بلغ معاویه بن حرب مغلغة من الرجل الیمانی

اتغضب ان یقال ابوک عف--- وترضی ان یقال ابوک زانی

فاشهد ان رحمک من زیاد کرحم الفیل من ولد الاتان

" ایک یمنی آدمی کا پیغام معاویہ بن حرب کو پہنچادو ۔ کیا تم اس بات پر غصّہ ہوتے ہو کہ تمہارے باپ کو پاک باز کہا جائے اور اس پر خوش ہوتے ہو کہ اسے زانی کہا جائے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا زیاد سے وہی رشتہ ہے جو ہاتھی کا گدھی کے بچے سے ہوتا ہے ۔"

ابن ابی الحدید نے اپنے نے اپنے شیخ ابو عثمان کی زبانی ایک خوبصورت واقعہ لکھا ہے :

"جب زیاد معاویہ کی طرف سے بصرہ کا گورنر تھا اور تازہ تازہ ابو سفیان کا بیٹا بنا تھا اس دور میں زیاد کا گزر ایک محفل سے ہوا جس میں ایک فصیح وبلیغ نابینا ابو العریان العددی بیٹھا تھا ۔ ابو العریان نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون لوگ گزرے ہیں ؟

تو لوگوں نے اسے بتایا زیاد بن ابی سفیان اپنے مصاحبین کے ساتھ گزرا ہے ۔ تو اس نے کہا ! اللہ کی قسم ابو سفیان نے تو یزید ،معاویہ ،عتبہ، عنبہ ،حنظلہ اور محمد چھوڑے ہیں ۔ یہ زیاد کہاں سے آگیا ؟

اس کی یہی بات زیاد تک پہنچی تو زیاد ناراض ہوا ۔کسی مصاحب نے اسے مشورہ دیاکہ تم اسے ‎ سزا نہ دو بلکہ اس کا منہ دولت سے بند کردو۔

زیاد نے دوسو دینار اس کے پاس روانہ کئے ۔ دوسرے دن زیاد اپنے مصاحبین سمیت وہاں سے گزرا اور اہل محفل کو سلام کیا ۔

نابینا ابو العریان اسلام کی آواز سن کر رونے لگا۔ لوگوں نے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے کہا ! زیاد کی آواز بالکل ابو سفیان جیسی ہے(۱) ۔

____________________

(۱):- شرح نہج البلاغہ ۔جلد چہارم ۔ص ۶۸

۳۱۸

حسن بصری کہا کرتے تھے کہ معاویہ میں چار صفات ایسی تھیں کہ اگر ان میں سے اس میں ایک بھی ہوتی تو بھی تباہی کے لئے کافی تھی ۔

۱:- امت کے دنیا طلب جہال کو ساتھ ملاکر اقتدار پر قبضہ کیا جبکہ اس وقت صاحب علم و فضل صحابہ موجود تھے ۔

۲:- اپنے شرابی بیٹے یزید کو ولی عہد بنایا جو کہ ریشم پہنتا تھا اور طنبور بجاتا تھا ۔

۳:- زیاد کو اپنا بھائی بنایا ۔ جب کہ رسول خدا کا فرمان ہے کہ لڑکا اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو اور زانی کے لئے پتھر ہیں ۔

۴:- حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو ناحق قتل کیا(۱) ۔

اقوال معاویہ

معاویہ نے اپنی مرض موت میں یزید کو بلایا اور کہا کہ دیکھو میں نے تمہارے لئے زمین ہموار کردی ہے ار سرکشان عرب وعجم کی گردنوں کو تمہارے لئے جھکا دیا ہے اور میں نے تیرے لئے وہ کچھ کیا جو کوئی باپ بھی اپنے بیٹے کے لئے نہیں کرسکتا ۔مجھے اندیشہ ہے کہ امر خلافت کے لئے قریش کے یہ چار افراد حسین بن علی ۔عبداللہ بن عمر ،عبدالرحمن بن ابو بکر اور عبداللہ بن زبیر تیری مخالفت کریں گے ۔

ابن عمر سے زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اگر باقی لوگ بیعت کرلیں گے تو وہ بھی تیری بیعت کرے گا ۔

حسین بن علی کو عراق کے لوگ اس کے گھر سے نکالیں گے اور تجھے ان سے جنگ کرنا پڑے گی ۔

عبد الرحمن بن ابو بکر کی ذاتی رائے نہیں ہے وہ وہی کچھ کرے گا جو اس

____________________

(۱):- الفتنتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص ۲۴۸

۳۱۹

کے دوست کریں گے ، وہ لہو ولعب اور عورتوں کا دلدادہ ہے ۔ لیکن ابن زبیر سے بچنا وہ شیر کی طرح تجھ پر حملہ کرے گا اور لومڑی کی طرح تجھے چال بازی کرے گا ۔ اگر تم اس پر قابو پاؤ تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کردینا(۱) ۔

۲:- طبری نے مختلف اسناد سے ابو مسعودہ فرازی کی روایت نقل کی ہے کہ :- معاویہ نے مجھ سے کہا :- ابن مسعدہ ! اللہ ابو بکر پر رحم کرے نہ تو اس نے دنیا کو طلب کیا اور نہ ہی دنیا نے اسے طلب کیا اور ابن حنتمہ کو دنیا نے چاہا لیکن اس نے دنیا کو نہ چاہا ۔عثمان نے دنیا طلب کی اور دنیا نے عثمان کو طلب کیا اور جہاں تک ہمارا معاملہ ہے تو ہم تو دنیا میں لوٹ پوٹ چکے ہیں ۔

۳:- جب معاویہ کی سازش سے حضرت مالک اشتر شہید ہوگئے تو معاویہ نے کہا! علی کے دو بازو تھے ایک ( عمّار یاسر) کو میں نے صفین میں کاٹ دیا اور دوسرے بازو کو میں نے آج کاٹ ڈالا ہے ۔

۴:-معاویہ کو رسولخدا (ص) نے بد دعا دی تھی کہ اللہ اس کے شکم کو نہ بھرے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بد دعا نے پورا اثر دکھایا تھا ۔ چنانچہ معاویہ دن میں سات مرتبہ کھانا کھاتا تھا اور کہتا تھا کہ خدا کی قسم پیٹ نہیں بھرا البتہ میں کھاتے کھاتے تھک گیا ہوں ۔

بنی ہاشم اور بنی امیہ کے متعلق حضرت علی (ع) کا تبصرہ

ہم اپنی کتاب کا اختتام بنی ہاشم اور بنی امیہ کے باہمی فرق کے بیان پر کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے ہم نے حضرت علی علیہ السلام کے ایک خط کا نہج البلاغہ سے انتخاب کیا ہے ۔ یہ خط آپ نے معاویہ کے خط کے جواب میں تحریر فرمایا تھا اور اس کے متعلق جامع نہج البلاغہ سید رضی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے

____________________

(۱):-الکامل فی التاریخ ۔جلد سوم ۔ ص ۲۵۹-۲۶۰

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333