المیہ جمعرات

المیہ جمعرات17%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 106454 / ڈاؤنلوڈ: 4828
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

نہ کرتے ہوئے تبلیغ فرمائی تو اسی طرح سے اگر کچھ لوگ کاغذ اور قلم دوات لانے کے مخالف تھے تو آپ ان کی مخالفت سے بے نیاز ہو کر نوشتہ لکھ سکتے تھے ۔ مگر آپ نے ایسا کیوں نہ کیا ؟

تو اس کے جواب میں معترضین کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ اگر آپ کا یہ اعتراض صحیح بھی ہو تو اس کا نتیجہ زیادہ سے زیادہ یہی نکلتا ہے کہ نوشتہ کا لکھنا رسول پر واجب نہ تھا ممکن ہے کہ نوشتہ کا لکھنا رسول پر واجب نہ ہو مگر حاضرین پر کاغذ اور قلم دوات لانا واجب تھا کیونکہ اطاعت رسول کا تقاضا کتھا کہ کہ کاغذ اور قلم دوات لائی جائے اور رسول خدا نے اس کا فائدہ بھی بتا دیا تھا کہ اس ذریعہ سے گمراہی سے محفوظ ہوجاؤ گے اور ہمیشہ راہ ہدایت پر باقی رہوگے اور فقہ کا مسلمہ اصول یہی ہے کہ امر کا وجوب فی الواقع مامور سے متعلق ہوتا ہے امر سے متعلق نہیں ہوتا اور خصوصا جب کہ امر کا فائدہ مامور کو پہنچتا ہے ۔

لہذا اس قاعدہ کے تحت بحث یہ ہے کہ حاضرین پر امر کا بجا لانا واجب تھا یا نہیں ؟ محل بحث یہ نہیں ہے کہ رسول پر لکھنا واجب تھا یا نہیں ؟

علاوہ بریں یہ بھی ممکن ہے کہ رسول پر لکھنا تو واجب تھا لیکن لوگوں کی مخالفت اور یہ کہنے سے کہ " رسول ہذیان کہہ رہے ہیں " رسول سے وجوب ساقط ہوگیا ہو ۔

اگر ان حالات میں رسول لکھ بھی دیتے تو فتنہ وفساد میں ہی اضافہ ہوتا اور جو چیز فتنہ کا سبب ہو وہ رسول پر کیسے واجب ہوسکتی ہے ؟

بعض حضرات نے یہ عذر بیان کیا ہے کہ حضرت عمر حدیث کا مطلب نہیں سکے تھے ۔ان کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی کہ وہ نوشتہ است کے ہر فرد کے لئے گمراہی سے بچنے کا ایسا ذریعہ کیونکر ہوگا کہ قطعی طور پر کوئی گمراہ ہی نہ ہوسکے ۔

حضرت عمر نے "لن تضلوا بعدی " (تم میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے)

۲۱

کے جملہ کا یہ مطلب اخذ کیا کہ تم سب کے سب اور کل کے کل گمراہی پر مجتمع نہ ہوسکو گے ۔حضرت عمریہ پہلے ہی جانتے تھے کہ امت کا گمراہی پر اجتماع نہیں ہوگا اسی وجہ سے انہوں نے نوشتہ رسول کو " تحصیل حاصل " قرار دیا اور یہ تصور کرلیا کہ حضور اپنی شفقت کی وجہ سے ایک نوشتہ لکھنا چاہتے ہیں ۔ یہی سوچ کر حضرت عمر نے آپ کو مذکورہ جواب دیا ۔

حضرت عمر کی تندی طبع اورجلد بازی کی معذرت میں یہی باتیں بیان کی گئی ہیں ۔

مگر واقعہ یہ ہے کہ اگر نظر عائر سے دیکھا جائے تو یہ تمام جوابات انتہائی رکیک ومہمل ہیں ۔ کیونکہ رسول خدا کا "لن تضلوا بعدی" فرمانا اس امر کی قطعی اور محکم دلیل ہے کہ یہ امر وجوب کے علاوہ کسی اور مقصدکے تحت نہیں تھا۔

رسول خدا (ص) کا ان لوگوں پر غضب ناک ہونا بھی دلیل ہے کہ صحابہ نے ایک امر واجب کو تر ک کیا تھا ۔لہذا سب سے بہتر جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ صحابہ کی سیرت کے منافی تھا اور ان کی شان بعید تھا ۔ اس واقعہ میں صحابہ سے واقعی غلطی سرزد ہوئی تھی ۔

شیخ الازہر کا خط آپ نے پڑھا ۔ علامہ موصوف نے واضح الفاظ میں حضرت کے موقف کی نفی کی۔

مذکورہ خط کے جواب میں علامہ عبد الحسین شرف الدین عاملی نے مزید اتمام حجت اور اثبات حق وابطال باطل کی خاطر درج ذیل مکتوب تحریر فرمایا ۔جسے ہم اپنے قارئین کی نذر کرتے ہیں :-

آپ کے جیسے اہل علم کے لئے یہی زیبا ہے کہ حق بات کہیں اور درست بات زبان سے نکالیں ۔

واقعہ قرطاس کے متعلق آپ نے اپنے ہم مسلک علماء کی تاویلات کی تردید

۲۲

فرمائی ہے ۔ان تاویلات کی تردید میں اور بہت سےگوشے رہ گئے ہیں ۔جی چاہتا ہے کہ انہیں بھی عرض کردوں تاکہ اس مسئلہ میں آپ خود ہی فیصلہ فرمائیں ۔پہلا جواب یہ دیا گیا ہے رسول خدا نے صرف آزمائش کی خاطر کاغذ اور قلم دوات طلب فرمایا تھا آپ در اصل کچھ لکھنا نہیں چاہتے تھے ۔

آپ نے درج بالا مفروضہ کی خوبصورت تردید فرمائی ۔اس کے لئے میں یہ کہتا ہوں کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ کا دم آخر تھا اور وقت اختیار وامتحان کا نہ تھا ۔ بلکہ یہ وقت اعذار وانذار کا تھا اور ہر ضروری امر کے لئے وصیت کر جانے کا تھا اور امت کے ساتھ پوری بھلائی کرنے کا موقع تھا ۔

ذرا سوچیں جو شخص دم توڑ رہا ہو بھلا دل لگی اور مذاق سے اس کا کیا واسطہ ہوسکتا ہے ؟ اسے تو اپنی فکر پڑی ہوتی ہے ۔اہم امور پر اس کی توجہ ہوتی ہے ۔اپنے متعلقین کی مہمات میں اس کا دھیان ہوتا ہے اور خصوصا جب دم توڑنے والا نبی ہو اور اس نے اپنے پورے عرصہ حیات میں کبھی اختیار و امتحان بھی نہ لیا ہو تو وقت احتضار کیسا اختبار اور کیسا امتحان؟

علاوہ ازایں شور غل کرنے والوں کو رسول خدا نے "قوموا عنی" (میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ ) کہہ کر نکال دیا تھا ۔

حضور کریم کا ان لوگوں کو "راندہ بارگاہ کرنا"اس حقیقت کی بین دلیل ہے کہ رسول کریم کو ان لوگوں سے صدمہ پہنچا اور آپ رنجیدہ ہوئے اور اگر معترضین کا موقف صحیح ہوتا تو رسول خدا (ص) ان کے اس فعل کو پسند کرتے اور مسرت کا اظہار کرتے ۔

اگر آپ حدیث کے گرد وپیش پر نظر ڈالیں اور خصوصا ان لوگوں کے اس فقرے پر غور فرمائیں :-" هجر رسول الله (ص) "

(رسول ہذیان کہہ رہے ہیں ) تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت عمر اور ان کے ہوا خواہ جانتے تھے کہ رسول مقبول ایسی بات لکھنا چاہتے تھے جو انہیں پسند نہیں تھی ۔

۲۳

اسی وجہ سے مذکورہ فقرہ کہہ کر رسول مقبول کو اذیت پہنچائی گئی ۔ خوب اختلاف اچھالے گئے ۔

حضرت ابن عباس کا اس واقعہ کو یاد کرنا ،شدت سے گریہ کرنا اور اس واقعہ کو مصیبت شمار کرنا بھی اس جواب کے باطل ہونے کی بڑی قوی دلیل ہے ۔

معذرت کرنے والے کہتے ہیں کہ حضرت عمر مصلحتوں کے پہچاننے میں "موفق للصواب " تھے اور خدا کی جانب سے آپ پر الہام ہوا کرتا تھا ۔

یہ ایسی معذرت ہے جسے کسی طور بھی قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ اس معذرت سے تو معلوم ہو تا ہے کہ اس واقعہ میں حضرت عمر کا موقف صحیح اور حق پر مبنی تھا اور نعوذ باللہ رسول خدا (ص) کا موقف درست نہ تھا ۔ نیز حضرت عمر کا اس دن کا الہام اس وحی سے بھی زیادہ سچا تھا جسے روح الامین لے کر آئے تھے ۔ بعض حضرات نے حضرت عمر کی صفائی میں یہ معذرت پیش کی ہے کہ حضرت عمر جناب رسول خدا(ص) کی تکلیف کم کرنا چاہتے تھے ۔ بیماری کی حالت میں اگر رسول (ص) لکھتے تو انہیں زحمت ہوتی ،اور حضرت عمر رسول خدا(ص) کی زحمت برداشت نہ کرسکتے تھے ۔

مگر آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نوشتہ لکھنے میں قلب رسول (ص) کو راحت ہوتی ۔ آپ کی آنکھیں زیادہ ٹھنڈی ہوتیں اور امت کی گمراہی سے آپ زیادہ بے خوف ہوجاتے ۔رسول خدا(ص) کی فرمائش کا غذ اور قلم دوات کے متعلق تھی ۔کسی کاآپ کی تجویز کے خلاف قدم اٹھانا صحیح نہیں تھا ۔

ارشاد رب العزت ہے :"وما کان لمومن ولا مومنة اذا قضی الله و رسوله امرا ان یکون لهم الخیرة من امرهم ومن یعص الله ورسوله فقد ضل ضلالا مبینا " جب خدا اور رسول کسی بات کا فیصلہ کریں تو پھر کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو اس بات کی پسند اور ناپسند کا اختیار حاصل نہیں ہے اور جو کوئی اللہ اور رسول کی نافرمانی کرے گا وہ واضح گمراہی میں پڑجائے گا ۔

۲۴

حضرت عمر اور ان کے حامیوں کی طرف سے نوشتہ رسول کی مخالفت کرنا ، اس اہم ترین مقصد میں رکاوٹ ڈالنا اور رسول خدا کے سامنے شو روغل مچانا ،جھگڑا فساد کرنا یہ سب امور نوشتہ کی بہ نسبت حضور اکرم کی زحمت کا موجب تھے ۔

سوچنے کی بات ہے کہ حضرت عمر سے رسول خدا(ص) کی اتنی سی زحمت تو دیکھی نہ گئی آپ بیماری کی حالت میں نوشتہ تحریر فرمائیں ،مگر ایسا کرنے میں انہیں کوئی تامل نہ ہوا کہ رسول کاغذ اور قلم دوات مانگیں اور وہ تکرار کرنے لگیں اور قول رسول کو ہذیان ثابت کرنے پر تل جائیں ۔

اگر نوشتہ لکھنے سے حضور کو زحمت ہوتی تھی تو اپنے متعلق ہذیان کا جملہ سن کرکیا انہیں راحت پہنچی تھی ؟

حضرت عمر کے وکلاء دور کی ایک کوڑی یہ بھی لاتے ہیں کہ حضرت عمر نے سمجھا کہ کاغذ اور قلم دوات نہ لانا ہی بہتر ہے ۔

کیا کہنا اس معذرت کا غور فرمائیے کہ رسول خود حکم دیں کہ کاغذ اور قلم دوات لاؤ تو کاغذ اور قلم دوات نہ لانا کیسے بہتر قراردیا جاسکتا ہے ؟

تو کیا حضرت عمر یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ رسول ایسی چیز کا حکم دیا کرتے ہیں جس چیز کا ترک کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے ۔

حضرت عمر کی صفائی میں بعض حضرات نے یہ عذر تراشا ہے کہ حضرت عمر کو خوف ہوا کہ رسول مقبول (ص) کہیں ایسی بات نہ لکھ دیں جس پر لوگ عمل نہ کرسکیں اور نہ کرنے پر سزا کے حق دار ٹھہرے ۔

غور فرمائیے!رسول (ص)کہہ رہے ہیں کہ "تم گمراہ نہ ہوگے "تو اس قول کی موجودگی میں حضرت عمر کا ڈرنا کہاں تک درست تھا ؟

تو کیا حضرت عمر جناب رسول مقبول کی نسبت انجام سے زیادہ باخبر تھے اور حبیب خدا(ص) سے زیادہ محتاط تھے ؟

۲۵

بعض حضرات نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ حضرت عمر کو منافقین کی طرف سے اندیشہ تھا کہ وہ حالت مرض میں لکھے ہوئے نوشتہ کی صحت میں قدح کریں گے ۔مگر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ رسول مقبول نے نوشتہ کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا "لن تضلوا بعدی" (میرے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ) تو اس فرمان کے بعد اس اندیشہ کی ضرورت ہی باقی نہ رہی تھی ۔

اور اگر بالفرض حضرت عمر کو منافقین کی طرف سے اندیشہ تھا کہ وہ نوشتہ کی صحت میں قدح کریں گے تو حضرت عمر نے خود ہی ان کے لئے زمین کیوں ہموار کی ؟

رسول مقبول(ص) کی بات کا جواب دے کر ،لکھنے سے روک کر ،ہذیان کی تہمت لگا کر انہوں نے اسلام اور رسول اسلام کی کون سی خدمت کی؟ حضرت عمر کے ہواخواہ ان کے فقرہ "حسبنا کتاب الله "(ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے )کی تائید کے لئے عموما کہا کرتے ہیں کہ اس فقرہ کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتی ہے "ما فرطنا فی الکتاب من شیء۔۔۔۔" (ہم نے کتاب میں کوئی چیز اٹھا نیں رکھی ) نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔"الیوم اکملت لکم دینکم "(آج میں نے تمھارے دین کو مکمل کردیا )۔

اب اگر ان آیات کو مد نظر رکھ کر حضرت عمر نے مذکورہ فقرہ کہا تو اس میں کونسی قباحت تھی ؟

حضرت عمر کے حامیوں کی درج بالا دلیل درست نہیں ہے اور نہ ہی درج بالا آیات سے حضرت عمر کے مذکورہ فقرہ کی تائید ہوتی ہے ۔

درج بالا آیات کا ہرگز مفہوم یہ نہیں ہے کہ امت ہمیشہ کے لیے گمراہی سے محفوظ ہوگئی ہے ۔یہ آیات ہدایت خلق کی ضمانت فراہم نہیں کرتیں ۔ پھر ان آیات کا سہارا لے کر نوشتہ رسول(ص) سے اعراض کرنے کی کون سی تک تھی ؟

اگر قرآن کی موجودگی امت کی گمراہی دور کرنے کا موجب ہے تو آج بحمداللہ

۲۶

قرآن مجید امت کے پاس موجود ہے مگر اس کے باجود افراد امت میں گمراہی کیوں پائی جاتی ہے ؟

اورقرآن کی موجودگی میں امت کے اتنے فرقے کیوں ہیں اور باہمی انتشار وتفریق کیوں ہے ؟

حضرت عمر کی صفائی میں آخری جواب یہی دیا جاسکتا ہے وہ ارشاد رسول کا مطلب نہیں سمجھے ۔ان کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ نوشتہ امت کے ہر فرد کے لئے گمراہی سے بچنے کا سبب ہوگا ۔

حضرت عمر جناب رسول خدا (ص) کے اس فقرہ "لن تضلوا بعدی " کایہ مفہوم سمجھے کہ رسول کا نوشتہ گمراہی پر مجتمع نہ ہونے کا سبب بنے گا ۔اس نوشتہ کا فائدہ یہ ہوگا کہ امت والے گمراہی پر مجتمع اور متحد نہ ہوں گے ۔

حضرت عمر کو یہ بات پہلے سے ہی معلوم تھی کہ امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی لہذا لکھنا "تحصیل حاصل" کے مترادف ہوگا ۔

اسی وجہ سے انہوں نے یہ جواب دیا اور نوشتہ لکھنے سے مانع ہوئے ۔

میں عرض کرتا ہوں کہ حضرت عمر اس قدر نادان ہرگز نہ تھے کہ ایسی روز روشن حدیث ،جس کا مفہوم ہر چھوٹے بڑے ،شہری دیہاتی کے ذہن میں آسکتا ہے وہ اس حدیث کے مفہوم کو سمجھنے سے قاصر رہے ہوں ۔

حضرت عمر یقینی طور پر جانتے تھے کہ رسول مقبول کو امت سے اجتماعی گمراہی کا اندیشہ نہیں ہے ۔کیونکہ حضرت عمر رسول خدا(ص) کا یہ فرمان بار ہا سن چکے تھے کہ "میری امت گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی ،خطا پر مجتمع نہ ہوگی ۔"

"میری امت میں سے ہمیشہ ایک جماعت حق کی حمایتی ہوگی " نیز انہوں نے اللہ تعالی کا یہ ارشاد بھی سنا تھا ۔

وعد الله الذین امنوا منکم وعملوا الصالحات یستخلفنهم فی

۲۷

الارض ۔۔۔۔"تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک کا م کئے ان سے خداوند عالم نے وعدہ کررکھا ہے کہ وہ انہیں روئے زمین پر خلیفہ بنائے گا ۔جیسا کہ ان کے قبل کے لوگوں بنایا تھا ۔۔۔۔۔"اس طرح کی دوسری آیات بھی قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ اور اس کے ساتھ پیغمبر اکرم کی صریح احادیث بھی سن چکے تھے کہ " امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی " اسی لئے حضرت عمر نے بھی حدیث رسول سے وہی کچھ سمجھا جو کہ تمام دنیا نے سمجھا تھا مگر اس کے باوجود بھی وہ نوشتہ رسول میں مانع ہوئے ۔

رسول خدا کا اظہار ناگواری کرنا اور اپنے دربار سے نکال دینا یہ سب اس حقیقت کی بین دلیل ہے کہ جس بات کو ان لوگوں نے ترک کردیا تھا واجب تھی ۔ کاغذ اور قلم ودوات جو رسول (ص) نے مانگا تھا وہ لانا ضروری تھا ۔

اسے نہ لاکر انہوں نے حکم رسول(ص) کی مخالفت کی اور واجب کو ترک کیا ۔

اور اگر بالفرض میں یہ جان بھی لوں کہ یہ سب کچھ سمجھی اور غلط فہمی کی وجہ سے رونما ہوا ۔توایسی حالت میں جناب رسول کا یہ حق بنتا تھا کہ آپ ان کے شکوک وشبہات زائل کرتے یا جس بات کا حکم دیا تھا اس پر مجبور کرتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ رسول (ص) نے یہ سب کچھ نہیں کیا بلکہ اپنے پاس سے "قوموا عنی " کہہ کر اٹھا دیا ۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا (ص)جانتے تھے کہ حضرت عمر کی مخالفت غلط فہمی کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی اور جذبہ کے تحت وہ ایسا کہہ رہے تھے ۔ اسی لیے آپ نے انہیں اپنے گھر سے نکال دیا ۔

جناب ابن عباس کا گریہ فرمانا ،نالہ وفریاد کرنا یہ بھی ہمارے بیان کا موئد ہے انصاف تو یہ ہے کہ یہ حضرت عمر کی لائی ہوئی وہ زبردست مصیبت ہے جس میں کسی عذر کی گنجائش ہی نہیں ۔

حق بات تو یہ ہے کہ ان بزرگواروں نے نص کو اہمیت نہ دی اور اس کےمقابلہ میں اپنے اجتہاد سے کام لیا ۔

۲۸

اگر نص کے مقابلہ میں کیا جانے والا عمل اجتہاد کہلا سکتا ہے تو واقعی وہ لوگ مجتہد تھے ۔

مگر اس مقام پر اللہ اور رسول کی نص جدا ہے اور بزرگوں کی اجتہادی رائے جداہے ۔"

درج بالا تفصیلی مکتوب کے بعد شيخ الازہر نے درج ذیل مکتوب تحریر فرمایا :-

"آپ نے معذرت کرنے والوں کی تمام راہیں کاٹ دیں اور ان پر تمام راستے بند کردئیے آپ نے جو کچھ فرمایا اس میں شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی ۔۔۔۔۔"

ہم اس اجتہاد کے قائل ہیں جو کہ نصوص کے دائرہ میں رہ کر کیا جائے اور ہم ایسی کسی فکر ورائے کو اجتہاد تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں جو کہ نصوص صریحہ کی مخالفت پر مبنی ہو ۔

اس کتاب کی تالیف کامقصد تاریخ کے درست مطالعہ کو پیش کرنا ہے تاکہ تاریخ کے غیر جانبدارانہ سے انسان حقیقت کے سر چشموں تک پہنچ سکے اور مقام ہدایت تک رسائی حاصل کرسکے ۔ہم مشرق ومغرب میں رہنے والے تمام مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیے دین کی صحیح تعلیمات کو تلاش کریں اور اس حقیقت عظمی کی جستجو کریں جس کی پیغمبر اکرم منادی کیا کرتے تھے ۔

اور اگر ہم نے رسول اعظم (ص) کی سیرت وتعلیمات کو اپنے لیے مشعل راہ بنا لیا تو ہم کبھی گمراہ نہ ہوسکیں گے ۔

ہمیں اتباع مصطفی کی ضرورت ہے ۔اس کے علاوہ ہمیں کسی زید وبکر کے

۲۹

اجتہاد کی قطعاد احتیاج نہیں ہے ۔ اس لئے کہ مجتہدین سے خطا ممکن ہے اور رسول اعظم کی ذات والا صفات سے خطا کا صدور ممکن نہیں ہے ۔

اور اس مقام پر یہ کہنا بھی صحیح نہ ہوگا کہ ہم کیا کریں ہم تو تاریخی طور پر بہت بعد میں پیدا ہوئے اور اس کی وجہ سے ہم روح اسلامی سے بہت دور ہوگئے تو اس میں ہمارا کیا دوش ہے ۔

اس کے لئے ہم اپنے قارئین کی خدمت میں دوبارہ یہ عرض کریں گے کہ ان حالات کے باوجود ہمیں اپنی مساعی کو ترک نہیں کرنا چاہئیے ۔کیونکہ آج مغرب ہمیں ہر سطح پر تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے اور ہم روز بروز اس کے لئے تر لقمہ بنتے جارہے ہیں ۔ توکیا آپ نے کبھی اس پر توجہ فرمائی ہے کہ ہماری کمزوری کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟

میں سمجھتا ہوں کہ ہماری کمزوری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے آج تک اسلام کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ ہم نے ان نظریات کو اسلام سمجھ کر اپنایا ہوا ہے جو ہماری مصلحتوں اور اغراض وافکار کے مطابق ہیں ۔اگر اس کی بجائے ہم نے صحیح اسلامی روح کا ادراک کیا ہوتا تو آج استعماری بھیڑئیے ہم پر یوں مسلط نہ ہوتے ۔

قارئین محترم!

میں نے یہ کتاب کسی قسم کی شہرت یا کثرت لقب کی غرض سے تالیف نہیں کی ۔اس کی تالیف کا اول وآخر مقصد انسانوں کے اذہان تک صحیح تاریخی حقائق کا پہنچانا ہے ۔ کیونکہ انسانوں کی اکثریت صحیح تاریخی حقائق سے واقف نہیں ہے ۔ اور اس عدم واقفیت کا اہم سبب یہ ہے کہ ہر دور میں حقائق کو چھپایا گیا اور حقیقت کے رخ زیبا پر دبیز پردے ڈالے گئے اور ہر زمانے میں سراب کو آب بنانے کی سعی نا مشکور کی گئی اور حقائق کا منہ چڑایا جاتا رہا اور ملمع کاری سے نا خوب کو خوب بنانے

۳۰

کی جد وجہد کی گئی ۔

اسی لئے اکثریت کو آج تک حق وباطل کی تمیز نہ ہوسکی اور یوں رہنما اور رہزن کی تفریق نہ ہوسکی ۔

اندریں حالات میں نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے تاریخی حقائق پیش کرنے کی جسارت کی ہے اور امید وار ہوں کہ اللہ تعالی اس کتاب کو متلاشیان حق کے لئے منارہ نور بنائے گا اور شب تار میں اسے شمع فروزاں قرار دے گا ۔

اللہ تعالی سے درخواست ہے کہ وہ ہمیں معرفت کی نعمت عطا فرمائے اور ہمیں اہل معرفت میں شامل فرمائے اور جہل وتقلید کے مرض سے محفوظ رکھے اور ہماری لغزشوں سے در گزر فرمائے کیونکہ وہ سننے والا اور قبول کرنے والا ہے ۔

ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم و تب علینا انک انت التواب الرحیم

بجاه النبی و اهل بیته الطاهرین

اللهم صلّ علی محمدوآل محمد

٭٭٭٭٭

۳۱

فصل اول

مسئلہ وصیت

خلافت کے متعلق امت اسلامیہ میں دونظریئے پائے جاتے ہیں ۔مسلمانوں کا ایک گروہ خلافت کو بیک وقت دینی اور دنیاوی مسئلہ قراردیتا ہے ۔

خلافت کا تعلق دین سے تو یہ ہے کہ خلیفہ کو تمام امور میں احکام دین کی پیروی کرنی پڑتی ہے ۔اور خلیفہ کو بھی اپنے منیب کی طرح معصوم عن الخطا ہونا چاہئیے اور اسے تمام امور دین کا عالم ہونا چاہئے اور خلافت کا تعلق دنیا سے یہ ہے کہ خلیفہ بھی انسان ہی ہوتا ہے اور اس پر وحی تشریعی کا نزول نہیں ہوتا اور وہ بھی احکام دین کا اسی طرح سے مکلف ہوتا ہے جیسا کہ امت کے باقی افراد ہوتے ہیں ۔اور خلیفہ کا انتخاب خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کا اظہار نبی کے ذریعہ سے ہوتا ہے اور نبی کے بعد خلیفہ ہی دین اسلام کی تعلیمات کا محافظ ہوتا ہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی تعلیمات کا نفاذ بھی اسی کی ذمہ داری ہے اس نظریہ کے تحت نبوت کے بعد خلافت کا درجہ ہے اور خلافت کو بھی اتنا ہی پاک وپاکیزہ ہونا چاہئیے جتنی کہ نبوت پاک وپاکیزہ ہے ۔

اس نظریہ کے حامل گروہ کی رائے یہ ہے کہ اللہ نے اپنے نبی (ص) کو جانشین مقرر کرنے کا حکم دیا ہے اور نبی اکرم نے حکم خداوندی کے تحت حضرت علی (ع) کی امامت وخلافت کا اعلان کیا ہے ۔ لیکن حضور اکرم کی وفات کے بعد چند لوگوں نے انہیں ان کے اس حق سے محروم رکھا اور انہوں نے اپنی خود ساختہ خلافت قائم کی ۔

مگر اس کے باوجود رسول خدا کے حقیقی اور پہلے جانشین حضرت علی (ص)ہی تھے اگر چہ وہ ایک طویل عرصہ تک اپنے فرائض کی کما حقہ ادائیگی سے قاصر رہے لیکن اس میں ان کی ذات کا کوئی دوش نہیں تھا ۔ ساری غلطی ان کے حریفوں کی تھی ۔

۳۲

یہ گروہ مسئلہ امامت و خلافت کو دینی منصب ثابت کرنے کے لئے یہ استدلال کرتا ہے :

رسول خدا (ص) نے دین و دنیا کی تعلیم دی ہے اور حضور کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ مسلمانوں کے لئے کوئی رہبر و رہنما مقرر کرکے جائیں ۔تاکہ آپ کے بعد امت افتراق و انتشار کا شکار نہ ہو اور امت کی رہبری کے لئے کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو ہر لحاظ سے موزوں ہو اور دین ودنیا کے معاملات سے بخوبی آگاہ ہو اور وہ مکارم اخلاق کا بلند ترین نمونہ ہو ۔ دین اسلام صرف قبیلہ قریش یا صرف سرزمین حجاز کے لوگوں کے لئے نہیں آیا تھا بلکہ یہ دین پوری انسانیت کے لئے آیاتھا ۔تو اسی لئے ضروری ہے کہ کسی ایسے شخص کو نامزد کیا جائے جو ہر لحاظ سے لائق و فائق ہو ۔

۱:- اور مسئلہ خلافت کو امت کے سپرد کرکے چلے جانا کوئی معقول بات نہیں ہے اور اتنے اہم ترین مسئلہ کو لوگوں کی صوابدید پر چھوڑنا مناسب نہیں ہے کیونکہ اگر اس حساس مسئلہ کو بھی عوام الناس کی پسند وناپسند پر چھوڑدیا جائے تو اس سے بہت زیادہ پیچیدگیاں جنم لیں گی ۔اور اگر بالفرض عوام کو ہی حق انتخاب حاصل ہے تو پھر یہ حق تمام مسلمانوں کو حاصل ہے یا ایک مخصوص گروہ کو حاصل ہے ؟

۲:- اور اگر یہ مخصوص گروہ کا حق ہے تو اس گروہ کی وجہ استحقاق کیا ہے ؟

اور اس گروہ کی آخر وہ کون سی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے انہیں یہ امتیاز حاصل ہوا ہے ؟

۳:-اور کیا انتخاب خلیفہ کا حق صرف حضرت ابو بکر وحضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ اور ان دو چار انصار کو ہی حاصل ہے جو کہ سقیفہ میں موجود تھے ؟

۴:- اور کیا حضرت علی (ع)اور جملہ بنی ہاشم اور سعد بن عبادہ اور ان کے فرزند ،حضرت سلمان فارسی ،حضرت ابو ذر غفاری ،حضرت مقداد بن اسود ،حضر ت عمار

۳۳

بن یاسر، حضرت زبیر بن عوام ،حضرت خالد بن سعید اور حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت بریرہ جیسے بلند صحابہ کی مخالفت کے باوجود بھی سقیفائی خلافت کو درست سمجھا جاسکتا ہے ؟۔

۵:-اور کیا جب اتنے عظیم المرتبت افراد بھی مخالف ہوں تو اس کے باوجود بھی خلافت کو کامل الشروط سمجھنا درست ہوسکتا ہے ؟

۶:- اور اگر مسلمانوں کو ایک افضل فرد کے انتخاب کا حق بھی دے دیا جائے تو کیا وہ فی الحقیقت ایک افضل ترین فرد کا ہی انتخاب کریں گے جب کہ ان میں قبائلی عصبیت بھی موجود ہو؟۔

۷:-اور کیا جناب رسول خدا(ص) ان قبائلی عصبیتوں کو جانتے ہوئے بھی خلیفہ کا انتخاب اس لئے ان کے حوالے کرکے گئے تھے کہ آپ ان عصبیتوں کو مزید برانگیختہ کرنا چاہتے تھے ؟

۸:-اور اگر لکھنا ضروری ہے تو یہ بتایا جائے کہ اس دور میں کتنے افراد خواندہ تھے جب کہ ان لوگوں کو ان پڑھ ہونے کی وجہ سے "امیّین" کہا جاتا تھا؟ اور یہ بیان کیا جائے کہ یہ انتخاب کہاں عمل میں لایا جائے گا ۔

۱۰:- اور کیا تمام شہروں اور قصبوں میں اس کے لئے "پولنگ بوتھ" قائم کئے جائیں یا کوئی اور طریقہ اختیار کیا جائے گا ؟

۱۱:- اور امید وار کو اپنی پبلسٹی کا حق بھی دیا جائے گا یا نہیں ؟

۱۲:- اور یہ انتخاب کس طرح سے رو بہ عمل لایا جائے گا ؟

۱۳:- اور اس انتخاب کے لئے کتنے وقت کی ضرورت ہوگی ؟

۳۴

۱۴:- اور وفات رسول (ص) اور خلیفہ کے انتخاب کے درمیانی عرصہ میں مسلمانوں کے امور کس کے سپرد ہوں گے ؟

درج بالا سوالات کے جواب انتہائی ضروری ہیں ۔

خلافت علی (ع) کے دلائل

مسلمانوں کا وہ گروہ جو خلافت و امامت کو مخصوص من اللہ قرار دیتا ہے ۔ اس سلسلہ میں انکا موقف بڑا ٹھوس اور واضح ہے ۔وہ گروہ یہ کہتا ہے کہ رسول خدا(ص) نے ہجرت کے دسویں سال حج بیت اللہ کا ارادہ کیا اور تمام عرب میں اس کی منادی کرائی گئی ۔مسلمان پورے جزیرہ عرب سے سمٹ کر حج کے لئے آئے اور اس حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے ۔

جناب رسول خدا(ص) مناسک حج سے فراغت حاصل کرنے کے بعد مدینہ واپس آرہے تھے اور جب غدیر خم پر پہنچے اور یہ مقام جحقہ کے قریب ہے اور یہاں سے ہی مصر اور عراق کی راہیں جداہوتی ہیں ۔

اس مقام پر اللہ تعالی نے اپنے حبیب پر یہ آیت نازل فرمائی :- "یا ایها الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته والله یعصمک من الناس ان الله لایهدی القوم الکافرین "(المائدہ نمبر ۶۷)"

اے رسول ! اس حکم کو پہنچائیں جو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا کوئی پیغام ہی نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا ۔ بے شک اللہ منکر قوم کو ہدایت نہیں کرتا ۔

اس آیت مجیدہ کے نزول کے بعد آپ نے اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنوایا اور تمام لوگ جمع ہوگئے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیا اور حضرت علی کے بازو کو بلند کرکے

۳۵

اعلان کیا :-"ان الله مولای و انا مولی المومنین " اللہ میرا مولا ہے اور میں اہل ایمان کا مولا ہوں پھر فرمایا :- "من کنت مولاه فعلی مولاه "(۱) جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے ۔

اس کے بعد اللہ تعالی نے تکمیل دین کا اعلان کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی :- "الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا " (المائدہ)

آج میں نے تمھارے لئے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کیا ۔

جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے شکر کرتے ہوئے کہا

"الحمد الله علی اکمال الدین واتمام النعمة و الولایة لعلی " تکمیل دین اور تمام نعمت اور ولایت علی پر اللہ کی حمد ہے ۔

اس مقام پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقعہ کی یاد گار کے طور پر شیعہ عید غدیر کا جشن منانے لگے ۔مقریزی نے اس جشن کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

"جاننا چا ہئیے کہ اسلام کے ابتدائی ایام میں عید غدیر کے نام سے کوئی عید نہیں منائی جاتی تھی اور سلف صالحین سے بھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ۔یہ عید سب سے پہلے سن ۳۵۲ ھ میں معز الدولہ علی بن بابویہ کے دور میں عراق میں منائی گئی اور اس کی بنیاد اس حدیث پر تھی ۔جس کی روایت امام احمد نے اپنی مسند کبیر میں براء بن عازب کی زبانی کی ہے وہ کہتے ہیں :-

ہم رسول اللہ کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور مقام غدیر خم پر پہنچے تو "الصلواة جامعة " کی منادی ہوئی اور دو درختوں کے درمیان جھاڑو دی گئی اور

____________________

(۱):- تفصیلی حوالے کے لئے عبقات الانوار جلد حدیث ولایت کے مطالعہ فرمائیں

۳۶

حضور اکرم نے نماز ظہر آدا کی اور خطبہ دیا ۔ خطبہ کے دوران لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا :-الستم تعلمون انی اولی بالمو منین من انفسهم " کیا تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ میں مومنوں کی جان سے بھی زیادہ ان پر حق حکومت رکھتا ہوں ؟

سامعین نے کہا جی ہاں ! پھر آپ نے علی (ع) کا بازو پکڑ کر بلند فرمایا اور اعلان کیا :-من کنت مولاه فعلی مولاه ،اللهم وال من والاه وعادمن عاداه " جس کا میں ہوں اس کا علی مولا ہے ۔اے اللہ! جو اس سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ ۔اس کے بعد حضرت عمر ،حضرت علی (ع) کو ملے اور کہا :-هنیا لک یا بن ابی طالب اصبحت مولی کل مومن ومومنة " ابو طالب کے فرزند ! تمہیں مبارک ہو تم ہر مومن مرد وعورت کے مولا بن گئے ہو ۔

غدیر خم کا مقام جحفہ سے بائیں طرف تین میل کے فاصلے پر ہے وہاں پر ایک چشمہ پھوٹتا ہے اور اس کے ارد گرد بہت سے درخت ہیں ۔

اس واقعہ کی یاد کے طور پر شیعہ اٹھارہ ذی الحجہ کو عید مناتے تھے ۔ ساری رات نمازیں پڑھتے تھے اور دن کو زوال سے قبل دورکعت نماز شکر انہ ادا کرتے تھے ۔ساری رات نمازیں پڑھتے تھے اور دن کو زوال سے قبل دو رکعت نماز شکرانہ ادا کرتے تھے اور اس دن نیا لباس پہنتے تھے اور غلام آزاد کرتے تھے اور زیادہ سے زیادہ خیرات بانٹتے اور جانور ذبح کرکے اپنی خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے جب ۔شیعوں نے یہ عید منانی شروع کی تو اہل سنت نے ان کے مقابلہ میں پورے آٹھ دن بعد ایک عید منافی شروع کردی اور وہ بھی اپنی عید پر خوب جشن مناتے تھے اور کہتے تھے کہ اس دن رسول خدا (ص) اور حضرت ابو بکر غار میں داخل ہوئے تے(۱) ۔"

____________________

(۱):-کتاب المواعظ والاعتبار۔

۳۷

سواد اعظم کا نظریہ خلافت

مسلمانوں کے دوسرے فریق کے نظریہ کے مطابق خلافت کے لئے اگر چہ دینی تعلیمات کی پابندی ضروری ہے لیکن بایں ہمہ وہ اول وآخر دنیاوی معاملہ ہے ۔ اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلافت کے لئے نص نہیں فرمائی ۔کیونکہ یہ مسئلہ ضروریات دین میں سے نہیں تھا ۔

اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ رسول خدا کے فورا بعد کچھ مسلمان سقیفہ بنی ساعدہ(۱) میں خلیفہ کے لئےجمع ہوئے ۔انہوں نے یہ عظیم منصب حضرت ابو بکر کے حوالہ کیا ۔ انہوں نے حضرت عمر کو نامزد کیا ۔انہوں نے شوری قائم کی ،شوری نے حضرت عثمان کا انتخاب کیا اور ان کی وفات کے بعد لوگوں نے حضرت علی کا انتخاب کیا ۔ یہ چاروں بزرگواروں خلفائے راشدین کہلاتے ہیں اور دینی اعتبار سے بھی ان کی فضیلت کی ترتیب یہی ہے ۔ اس نظریہ کے حامل افراد یہ کہتے ہیں کہ وفات رسول تک یہ دینی احکام کی تکمیل ہوچکی تھی اور زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق ضروری ہدایت بھی مل چکی تھیں اسی لئے کسی آسمانی خلافت کی امت کو ضرورت نہیں رہی تھیں اسی نظریہ کی ترجمانی کرتے ہوئے استاد عبد الفتاح عبد المقصود اپنی کتاب "الامام علی بن ابی طالب " میں لکھتے ہیں :-

"اسلامی خلافت کا تعلق دنیاوی نظام زندگی سے ہے اور دنیا کے دیگر رائج نظریات حکومت کی طرح خلافت بھی ایک نظریہ ہے ۔خلافت رائے اور فکر کی پیداوار ہے اس کا نص سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ کیونکہ رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں کسی کو اپنی خلافت کیلئۓ صریح الفاظ میں نامزد نہیں فرمایا تھا ۔

____________________

(۱):-سقیفہ ایک جگہ تھی جہاں دور جاہلیت میں لوگ امور باطل کو سرانجام دینے کے لئے جمع ہوتے تھے اور مجازا بے ہودہ گفتگو کو بھی سقیفہ کہا جاتا ہے ۔غیاث اللغات طبع ہند مادہ "سقف"

۳۸

ہاں یہ درست ہے کہ آپ (ص) نے وقتا فوقتا ایسے اشارات ضرورکئے تھے لیکن صحابہ اس کی تاویل سے قاصر رہے اس کے ساتھ چند احادیث ایسی بھی ہین جن میں خلافت کے لئے صریح الفاظ کے ساتھ وضاحت کی گئی ہے ۔مثلا حدیث غدیر اور حدیث خاصف النعل ،تو ان جیسی احادیث کو صراحت استخلاف کے لئے پیش کیا جاسکتا ہے(۱)

معتزلہ کا نظریہ خلافت

اسی مسئلہ کے متعلق ایک تیسرا نظریہ بھی ہے جو کہ ان دونوں فریقوں کے نظریات کے "بین بین " ہے ۔

اس نظریہ کے حامل افراد اہل سنت کے اس نظریہ سے اتفاق کرتے ہیں کہ خلافت ہر لحاظ سے ایک دنیاوی معاملہ ہے اور رسول خدا (ص) نے اس کے لئے کوئی نص صریح نہیں فرمائی ۔لیکن اس کے باوجود علی علیہ السلام ،حضرت ابو بکر کی بہ نسبت خلافت کے زیادہ حقدار ہیں ۔کیونکہ علی علیہ السلام ہر لحاظ سے پوری امت مسلمہ کے افضل فرد ہیں ۔

اسی نظریہ کے حامل افراد میں سے ابن ابی الحدید کی رائے کو ہم ان کی کتاب شرح نہج البلاغہ سے نقل کرتے ہیں :-

"ہمارے تمام شیوخ کا اتفاق ہے کہ حضرت ابو بکر کی بیعت صحیح اور شرعی تھی اور ان کی خلافت نص پر قائم نہیں ہوئی تھی ۔

ان کی خلافت اجماع اور اجماع کے علاوہ دوسرے طریقوں کے تحت قائم ہوئی تھی ۔ ہمارے شیوخ کا تفصیل میں اختلاف ہے ۔

____________________

(۱):-خلافت کی نصوص صریحہ کے لئے علامہ امینی کی مشہور کتاب "الغدیر کا مطالعہ فرمائیں یہ کتب گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے ۔

۳۹

ابو عثمان اور عمرو بن عبید جیسے متقدمین کہتے ہیں کہ ابو بکر ،علی سے افضل ہیں ۔اور خلفا ئے راشدین کی فضلیت کی ترتیب وہی ہے جو کہ ان کی خلافت کی ترتیب ہے ۔ہمارے بغداد ی شیوخ خواہ متقدمین ہوں یا متاخرین ان سب کی متفقہ رائے یہ ہے کہ :-

علی علیہ السلام حضرت ابو بکر سے افضل ہیں ۔ اور بصرہ کے مندرجہ ذیل علما بھی اس مسئلہ میں ان کے موید ہیں ۔ابو علی محمد بن عبد الوہاب الجبائی ،شیخ ابو عبداللہ الحسین بن علی البصیری اور قاضی القضاۃ عبد الجبار بن احمد اور ابو محمد حس بن متویہ وغیرہ ۔

علاوہ ازیں ابو حذیفہ واصل بن عطاء اور ابی الھذیل محمد بن الہذیل العلاف کا نظریہ یہ ہے کہ حضرت علی (ع) اور حضرت ابوبکر کی تفصیل کے متعلق ہمیں خاموش رہنا چاہیئے البتہ علی علیہ السلام حضرت عثمان سے ہر لحاظ سے افضل تھے ۔

اور جہاں تک ہقا اپنا تعلق ہے تو ہم اپنے بغدادی شیوخ کے نظریہ کو تسلیم کرتے ہوئے حضرت علی کو باقی تمام لوگوں سے افضل وبہتر سمجھتے ہیں "۔

فرقہ معتزلہ کے یہ فاضل شخص شرح نہج البلاغہ میں ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ کافی بحث وتمحیص کے بعد فرقہ معتزلہ نے تفضیل کے متعلق یہ رائے قائم کی ہے :

"حضرت علی (ع) پوری امت اسلامیہ میں سے افضل ترین فرد تھے ۔ لوگوں نے چند مصلحتوں کی وجہ سے انہیں خلافت سے محروم رکھا ۔حضرت علی (ع) کی خلافت کے متعلق نصوص قطعیہ موجود نہ تھیں ہاں اگر نصوص موجود بھی تھیں تو بھی ان کے مفہوم میں اشتباہ موجود تھا ۔ حضرت علی علیہ السلام نے پہلے پہل حضرت ابوبکر کی حکومت سے اختلاف کیا لیکن پھر مصالحت کرلی ۔اگر علی (ع) سابقہ مخالفت پر ڈٹے رہتے تو ہم حضرت ابوبکر کی خلافت کو غلط قرار دیتے الغرض ہمارا نظریہ یہی

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

قرآن مجيد تھا انہوں نے قرآن دوسرے ہاتھ مےں لے ليا اور حسب سابق انہيں قرآنى حكومت كى دعوت دى مگر ان سنگدلوں نے ان كا دوسرا ہاتھ بھى قطع كرديا اور انہيں شہيد كرديا _ (۱۱)

۳_ حكومت قرآن كى دعوت دينے والے جوان مسلم كے قتل نے كشت وخون كا سد باب كرنے والے اقدامات سے حضرت علىعليه‌السلام كو مايوس كرديا _ آپعليه‌السلام نے آخرى مرتبہ عمار ياسر كو بھيجا يہ وہ بزرگ صحابى تھے جن كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ جو لوگ انہيں قتل كريں گے ان كا شمار ظالموں ميں ہوگا اور ان كے مقام و مرتبے نيز ايمان كے بارے ميں نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا: حق ہميشہ عمار كے ساتھ ہے اور عمار حق سے پيوستہ _''عمار'' نے بھى پند و نصيحت كے ذريعے سمجھانے كى كوشش كى انہوں نے دشمنوں كى سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا اے لوگو تم نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ انصاف كا رويہ اختيار نہ كيا تم نے اپنى عورتوں كو تو اپنے گھروں ميں محفوظ كرديا اور زوجہ مطہر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو گھر سے نكال كر نيزوں اور تلواروں كے روبرو لے آئے_

اس كے بعد وہ مزيد آگئے بڑھے اور عائشہ كے ہودج كے مقابل آكر ان سے گفتگو كى ان كى يہى كوشش تھى كہ وہ ان فتنہ انگيزوں كے ساتھ شريك نہ ہوں وہ ابھى گفتگو كرہى رہے تھے كہ دشمن كے تير ہر جانب سے ان كى طرف آنے لگے _ اگرچہ انہوں نے اپنے سر كو اس طرف يا اس طرف خميدہ كركے خود كو تيروں كى زد سے بچاليا اور قطع گفتگو كركے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور كہا كہ : جنگ كے علاوہ چارہ نہيں ہے_(۱۲)

۴_ ناكثين كى جانب سے شدت كے ساتھ مسلسل تير اندازى شروع ہوگئي ادھر سپاہ اسلام كا نعرہ بلند ہوا كہ : يا اميرالمومنينعليه‌السلام دشمن ہم پر تيروں كى بارش كر رہا ہے دفاع كا حكم صادر كيجئے_

اس وقت ايك مرد كا جنازہ اميرالمومنينعليه‌السلام كے روبرو لايا گيا جسے دشمن نے اپنے تيروں كا نشانہ بنايا تھا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے يہ حالت ديكھ كر رخ مبارك آسمان كى جانب كيا اور زبان حال سے فرمايا :خداوند تو عادل وداد گر ہے شاہد و گواہ رہنا _اس كے بعد اپنے ساتھيوں سے كہا كہ تم صبر

۱۴۱

كرو تاكہ دشمن پر حجت تمام ہوجائے اس كے بعد ايك جنازہ اور لايا گيا ، حضرت على عليه‌السلام نے اس مرتبہ بھى وہى بات دہرادى يہاں تك كہ صحابى بزرگ عبداللہ بن بديل اپنے فرزند كا جنازہ لے كر آئے اور اسے حضرت علىعليه‌السلام كے ربرو ركھ ديا اور عرض كيا كہ يا اميرالمومنينعليه‌السلام ہم كب تك صبر كريں دشمن ہمارے جوانوں كو يكے بعد ديگرے قتل كئے جارہا ہے _(۱۳)

حضرت علىعليه‌السلام مسلسل تين دن تك پورى كوشش كرتے رہے كہ جنگ وخون ريزى نہ ہو مگر افسوس انہيں اپنے اس ارادے ميں كاميابى نہ ہوئي چنانچہ آپ نے خود كو اس اقدام كے ربرو پايا جو پہلے كئي مرتبہ انجام پذير ہوا تھا اس كے بعد اميرالمومنينعليه‌السلام نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زرہ پہنى ، عمامہ سر مبارك پر ركھا _ ذوالفقار كمر ميں حمائل كى دلدل پر سوار ہوكر پرچم محمد بن حنفيہ كو ديا(۱۴) مجہز و مسلح ہوكر آپ نے لشكر كا معائنہ كيا جو كہ بيس ہزار پر مشتمل تھا_ طلحہ اور زبير نے بھى اپنے لشكر كا معائنہ كيا جس ميں تيس ہزار سے زيادہ نفوس شامل تھے اب دونوں لشكر پورى طرح جنگ كے لئے آمادہ و تيار تھے _

لشكر كے لئے دستورالعمل

دشمن پر حملہ كرنے سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے اپنى سپاہ كے لئے چند نكات صادر كئے اور فرمايا كہ جب دشمن كو شكست ہوجائے تو مجروحين سے جنگ نہ كريں ، قيديوں كو قتل نہ كياجائے، فرار كرنے والوں كا تعاقب نہ كياجائے _ عورتوں كو برہنہ نہ كياجائے_ مقتولين كے ناك كان قطع نہ كئے جائيں كسى كى پردہ درى نہ ہو ، فاتح سپاہى مفتوحےن كے مال كے پاس سے بھى نہ گذريں البتہ ميدان جنگ ميں اگر ہتھيار' گھوڑے ' غلام يا كنيز ہاتھ آجائيں ' تو انہيں غنيمت ميں لے ليں _(۱۵)

۱۴۲

دشمن كو متفرق كرنے كى آخرى كوشش

دونوں لشكر ايك دوسرے كے مقابل صف آرا ہوئے اس سے قبل كہ جنگ شروع ہو حضرت علىعليه‌السلام كو يہ موقع مل گيا كہ زبير ان كے سامنے آگئے _ اگر چہ حضرت علىعليه‌السلام نے ان سے چند ہى جملے كہے جن كا ان كے دل پر ايسا گہرا اثر ہوا كہ دشمن كے سرداروں ، فوج كى تشكيل كا شيرازہ منتشر ہوگيا جس وقت حضرت علىعليه‌السلام نے گفتگو كے دوران زبير كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حديث سنائي اور كہا كہ اے زبير كيا وہ دن ياد ہے جب كہ تو نے ميرى گردن ميں اپنا ہاتھ حمايل كر ركھا تھا اور پيغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ ديكھ كر تجھ سے پوچھا تھا كہ كياتجھے على سے بہت پيا ر ہے؟ اور تو نے جواب ديا تھا آخر كيوں نہ پيار كروں يہ ميرا ماموں زاد بھائي ہى تو ہے اس كے بعد پيغمبرا كرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا تو مستقبل قريب ميں اس سے جنگ كرے گا درحاليكہ تو ستمگر ہوگا _(۱۶) زبير نے جب يہ حديث سنى تو كہا''انا لله وانا اليه راجعون'' مجھے پورا واقعہ ياد آگيا ميں آپعليه‌السلام سے ہرگز جنگ نہ كروں گا اس كے بعد انہوں نے ديگر سرداران كى پر ہيجان اور وسوسہ انگيز باتوں كى جانب توجہ كئے بغير ميدان جنگ سے كنارہ كشى اختيار كرلى اور ''وادى اسباع''نالى مقام پر ''عمروبن جرموز'' كے ہاتھوں قتل ہوئے _(۱۷)

حضرت علىعليه‌السلام نے اس خيال سے كہ شايد طلحہ بھى جنگ سے باز رہيں اور نوبت خون ريزى كى نہ آئے ان سے بھى ملاقات كى اور فرمايا كہ وہ كون سا عامل تھا جس كے باعث تو نے شورش و سركشى كى _ انہوں نے جواب ديا كہ عثمان كے خون كا بدلہ ، اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا : خدا اس شخص كو پہلے قتل كرے جو اس گناہ ميں ملوث ہو _ پھر فرمايا : اچھا يہ بتا كہ عثمان كا قاتل كون ہے ميں يا تو ؟ كيا تو نے نہيں سنا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ميرے بارے ميں فرمايا تھا : خدايا تو اسے دوست ركھ جو علىعليه‌السلام كا دوست ہو اور اسے دشمن ركھ جو على سے دشمنى كرے كيا تو ان لوگوں ميں شامل نہ تھا جنہوں نے سب سے پہلے بيعت كي؟ طلحہ نے كہا ميں توبہ واستغفار كرتاہوں اس كے بعد وہ بھى كسى كى پند و نصيحت كے بغير ميدان جنگ سے چلے گئے _(۱۸)

ليكن ان كا بھى وہى انجام ہوا جس سے زبير دوچار ہوئے تھے_ مروان كيونكہ عائشہ كے لشكر

۱۴۳

ميں تھا اوراس نے ديكھ ليا تھا كہ حضرت على عليه‌السلام طلحہ كے ساتھ گفتگو ميں مشغول ہيں تو اسے يہ خوف لاحق ہوا كہ كہيں وہ بھى حضرت علىعليه‌السلام كى بصيرت افروز تقرير سے متاثر نہ ہوجائيں _ دوسرى طرف مروان كا يہ گمان تھا كہ عثمان كے قتل كى سازش ميں وہ بھى ملوث ہے چنانچہ اس نے اس موقع كو غنيمت جانا اور اس وقت جب كہ ہنگامہ كا ر زار گرم تھا مروان نے طلحہ كى پشت پر تير مارا اور انہيں زمين پر گراديا(۱۹)

فيصلہ كن جنگ

سرداران سپاہ كى اشتعال انگيز تقارير پر تيس ہزار سے زيادہ افراد پر مشتمل مسلح لشكر كى تيارى ' بعض سرداران قبائل كے نام تحرير و زبانى پيغام رساني، مختلف شہروں كے لوگوں كى شورش و سركشى ميں شركت ودعوت ، لشكر كشى كے ذريعے بصرہ پر قبضہ ، وہاں كے بعض مسلمانوں كا قتل اور ان كى شكنجہ كشى ايسے قرائن وشواہد ہيں جو اس پر دلالت كرتے ہيں كہ مخالف سرداروں ، گورنروں كا كشت وخون كا مقصد اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كو سرنگوں كرنے كے علاوہ كچھ نہ تھا ان حالات ميں حضرت علىعليه‌السلام كے ہمدردانہ پند ونصايح اور صلح پسندانہ اقدامات كا ان كے دلوں پر اثر نہ ہونا فطرى تھا اسى لئے انہوں نے پہلے تو حضرت علىعليه‌السلام كى لشكر كى جانب تير اندازى كى اس كے بعد چند سپاہيوں كو قتل كركے دائيں اور بائيں جانب سے حملہ شروع كرديا_

اميرالمومنينعليه‌السلام حضرت علىعليه‌السلام نے پرچمدار لشكر محمد حنفيہ كو حكم ديا كہ دشمن كى فوج كے قلب پر حملہ آور ہوں ليكن مسلسل تير اندازى كے باعث انكى نظروں كے سامنے چونكہ اندھيرا سا چھاگيا تھا اسى لئے حملہ كرنے ميں انہيں تردد ہوا اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ پيشقدمى كيوں نہيں كرتے ؟ محمد حنفيہ نے اس كى وجہ بتائي_

اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے پرچم ان كے ہاتھ سے لے ليا اور خود ہى غرائے شير كى مانند دشمن پر حملہ كرديا، حملہ كرنا تھا كہ دشمن كا لشكر اس طرح منتشر ہوگيا گويا تند و تيز ہوا كے جھونكے نے گرد وخاك

۱۴۴

كو ادھر ادھر بكھير ديا ہو _ (۲۰)

اس موقع پر ''ازد بنى ناجيہ'' اور'' بنى ضبہ'' جيسے عرب قبائل اونٹ كے گرد جمع ہوگئے جس پر لشكر كا كمانڈر سوار تھا اور بھڑكى ہوئي جنگ ميں غير معمولى فداكارى كا مظاہر كيا _

خلاف معمول عائشہ كے لشكر كے ساتھ پرچم نہ تھا البتہ پرچم كى جگہ لشكر سے آگے آگے اونٹ (جمل) چل رہا تھا اور يہى گويا ان كا پرچم تھا(۲۱) _ اور اسى سے ان كے سپاہيوں كى حوصلہ افزائي ہو رہى تھى اور جب تك يہ اونٹ اپنى جگہ قائم رہا دشمن نے خود ميں كسى قسم كى كمزورى يا شكست محسوس نہ كى _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے مالك اشتر كو حكم ديا كہ وہ دشمن كے بائيں بازو پر حملہ آور ہوں اور انہوں نے جسے ہى ميسرہ پر حملہ كيا لشكر دشمن كى صفيں يك لخت منتشر ہوگئيں اور انہوں نے اپنى عافيت راہ فرار ميں سمجھي_

اب جو لشكر باقى رہ گيا تھا وہ حسب سابق ''اونٹ'' اوراس كے سوار كا دفاع وتحفظ كر رہا تھا _ فطرى طور پر اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ نے بھى اپنى پورى طاقت اسى حصہ پر لگادى تھى _ چنانچہ اس ''اونٹ'' كے گرد شديد خونى جنگ شروع ہوگئي _(۲۲)

سرگردنوں سے جدا ہو كر ، ہاتھ جسموں سے كٹ كٹ كر فضا ميں بكھر رہے تھے نوك شمشير مسلسل دشمن كے شكموں كو چاك كئے جارہى تھيں مگر اس كے باوجود عائشہ كے سپاہى اس اونٹ ''جمل'' كى حفاظت آہنى فصيل كى مانند كر رہے تھے انہوں نے اس اونٹ كو اپنے حلقہ مےں لے ركھا تھا اور اس كا سختى سے دفاع كيا جارہا تھا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے سمجھ ليا كہ جب تك يہ اونٹ اپنے پيروں پر كھڑا رہے گا جنگ كا خاتمہ نہ ہوگا اس پر آپعليه‌السلام نے اپنے لشكر كو مخاطب كرتے ہوئے فرمايا كہ اس اونٹ كى ٹانگيں كاٹ دو كيونكہ جيسے ہى يہ اونٹ زمين پر گرے گا دشمن كا لشكر منتشر ہوجائے گا_(۲۳)

حضرت علىعليه‌السلام كے فرمان كے مطابق تلواريں بلند ہوئيں او ہر طرف سے تيروں كى بارش جمل كى

۱۴۵

جانب ہوگئي يہاں تك كہ تيروں كے پھل اس اونٹ كے پورے بدن ميں اتر گئے_

جن لوگوں نے اونٹ كى مہار اپنے ہاتھوں ميں سنبھال ركھى تھى وہ يكے بعد ديگرے زمين پر گرنے لگے ان ميں سب سے پہلے گرنے والا بصرہ كا مشہور و معروف قاضى ''كعب بن سور'' تھا اس نے قرآن مجيد اپنى گردن ميں حمايل كر ركھا تھا اس كے ايك ہاتھ ميں عصا اور دوسرے ميں اونٹ كى مہار اس كے بعد قريش نے پيش قدمى كى اور انہوں نے بھى مہار كو اپنے ہاتھ ميں تھاما يہاں تك كہ ستر افراد نے يكے بعد ديگرے دفاع كى خاطر جان دے دى ، قريش كے بعد بنى ناجيہ، بنى ضبہ اور ازد قبائل كے لوگوں نے بالترتيب اس كے مہار كو سنبھالا ليكن وہ بھى قتل ہوئے مختصر يہ كہ بقول زبير جس نے بھى اس اونٹ كى مہار كو تھاما وہ فوراً ہى مارا گيا _(۲۴)

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے ان گروہوں كے ہمراہ نخعى اور ہمدانى قبائل كے حامى و طرفدار تھے مركزى نقطے كى جانب شدت سے حملہ كركے دشمن كو منتشر و متفرق كرديا اور بجير نخعى سے فرمايا كہ اس وقت يہ اونٹ تمہارے دست اختيار ميں ہے اس كى ٹانگوں كى رگيں كاٹ دو ، بجير نے شمشير سے اس پر حملہ كيا اونٹ زور سے چيخا اور زمين پر گر پڑا جب وہ زمين پر گر گيا تو باقى لشكر بھى فرار ہوگيا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے سپاہيوں نے آپعليه‌السلام كے حكم سے عائشہ كے كجاوہ كو ايك طرف منتقل كيا پہلے تو اس اونٹ كو مار كر جلايا اور پھر اس كى راكھ كو فضا ميں منتشر كرديا_

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے اس حكم كے ثبوت نيز اس كى تائيد ميں كتاب خدا سے استشہاد پيش كرتے ہوئے فرمايا كہ اے لوگو يہ اونٹ بنى اسرائيل كے بچھڑے كى طرح منحوس و فتنہ انگيز حيوان تھا اس كے بعد آپ نے اس آيت كى تلاوت كى جو حضرت موسىعليه‌السلام نے سامرى سے خطاب كرتے ہوئے پڑھى تھى _

اپنے اس خدا كو ديكھو جس كى تم پرستش كرتے ہو كہ ہم اسے كس طرح جلاتے ہيں اور پھر اس كى راكھ كو دريا ميں بہاديں گے _(۲۵)

۱۴۶

اور اس طرح جنگ جمل تمام ہوئي ، حضرت على عليه‌السلام كى حكومت كو ابھى چھ ماہ كا عرصہ بھى نہيں گزر ا تھا كہ يہ جنگ آپ پر مسلط كردى گئي اور ماہ جمادى الاخر سنہ ۳۶ ھ ميں '' ناكثين'' كى مكمل شكست پر اس كا مكمل طور پر خاتمہ ہو گيا اور جانبين كا كثير جانى و مالى نقصان ہوا _

عام معافي

دشمن پر غلبہ حاصل كرنے كے بعد حضرت عليعليه‌السلام نے حكم ديا كہ جنگ سے قبل جو حكم ديا گيا تھا اسے سپاہيوں كے سامنے دوبارہ پڑھا جائے _

اس كے ساتھ ہى اعلان كيا گيا كہ كسى ايسى عورت سے جس كا شوہر جنگ ميں مارا گيا ہے فورا نكاح نہ كيا جائے بلكہ اسے موقع ديا جائے كہ عرصہ عدت كو پورا كرے _(۲۶)

عائشہ كے سلسلہ ميں بالخصوص محمد بن ابى بكر كو حكم ديا گيا كہ وہ اپنى بہن كے پاس جائيں اور ان كى دلجوئي كريں اگر ان كو تير لگا ہو يا جسم پر زخم آيا ہو تو اس كا علاج كر ديا جائے محمد كے جانے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام بذات خود عا يشہ كى خدمت ميں تشريف لے گئے اور عصا سے عا يشہ كے كجادہ كى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا كہ اے حميرا كيا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمہيں يہى كرنے كا حكم ديا تھا ؟ كيا آنحضرت نے يہ نہيں فرمايا تھا كہ تم اپنے گھر مےں بيٹھنا خدا كى قسم جو تمہيں گھر سے نكال كر باہر لائے ہيں انہوں نے تمہارے ساتھ انصاف نہيں كيا انہوں نے اپنى خواتين كو پس پردہ بٹھا ديا اور تمہيں وہ ميدان جنگ ميں لے آئے _

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے ان كے بھائي كو حكم ديا كہ وہ عا يشہ كو حرث بن ابى طلحہ كى بيٹى صفيہّ كے پاس لے جائےں جہاں چند روز آرام كريں جب حالات معمول پر آگئے تو حضرت عليعليه‌السلام نے عبداللہ بن عباس كو اس كام پر مقرر كيا كہ وہ عا يشہ كے پاس جائيں اور انھيں مدينہ واپس چلنے كے لئے آمادہ كريں _

عائشہ نے اگرچہ شروع ميں تو چلنے سے انكار كيا مگر جب ابن عباس نے ان سے بار بار كہا اور

۱۴۷

انھيں يہ بتايا كہ حضرت علي عليه‌السلام نے فيصلہ كر ليا ہے كہ آپ كو مدينہ لے جايا جائے تو مجبورا وہ تيار ہو گئيں _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے عا يشہ كے سفر كى تيارى شروع كى اور انھيں انكے بھائي عبدالرحمن ' تيس سپاہيوں اور قبيلہ القيس و ہمدان كى بيس عورتوں كى نگرانى ميں مدينہ كى جانب روانہ كى ان سب نے عائشہ كى انتہائي خدمت كى اور ان كے ساتھ پورے اعزاز و احترام كا سلوك كيا(۲۷) يہاں يہ بات بھى قابل توجہ و ذكر ہے كہ حضرت عليعليه‌السلام نے عائشہ كى پورى حفاظت اس بنا پر كى كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ انھيں كہيں راستے مےں كوئي گزند پہنچے حضرت عليعليه‌السلام كى جانب سے عا يشہ كے تحفظ كا مقصد يہ بھى ہو سكتا ہے كہ زوجہ مطہرہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مرتبہ كا پاس كر كے ان كا مقصد مقام رسالت كا احترام كيا جائے اس كے علاوہ حضرت علىعليه‌السلام كو يہ خدشہ تھا كہ اگر عائشہ كا قتل ہو گيا تو كہيں ايسا فتنہ بپانہ ہو جائے جو عثمان كے قتل كى وجہ سے رونما ہوا تھا چنانچہ عمر و عاص نے جنگ كے بعد عائشہ سے كہا تھا كہ : اے كاش تم جنگ ميں قتل كر دى گئي ہوتيں عا يشہ نے اس كا مطلب دريافت كيا تو اس نے كہا كہ اگر تم مارى جاتيں تو جنت ميں جاتيں اور ہم اس مسئلے كو حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف حملہ كرنے كا اہم ترين بہانہ بناليتے(۲۸) _

۱۴۸

سوالات

۱ _ '' ناكثين'' كى شورش كے بارے مےں اطلاع حاصل كرنے سے قبل حضرت علىعليه‌السلام كس شخص سے جنگ كرنے كيلئے تيار تھے اور آپ نے اپنا ارادہ كيوں بدل ديا ؟

۲ _ حضرت عليعليه‌السلام نے كس منزل پر اور كن افراد كو كوفہ كى جانب روانہ كيا وہاں انھيں كيسے كاميبابى حاصل ہوئي؟

۳ _ كشت و خون روكنے كيلئے حضرت علىعليه‌السلام نے كيا اقدامات كئے ؟ انكى تين مثاليں بيان كيجئے _

۴ _ فيصلہ كن جنگ كس طرح شروع ہوئي عا يشہ كے تحفظ و دفاع ميں كون سے قبائل پيش پيش اور سرگرم عمل تھے ؟

۵ _ جنگ كے بعد جو افراد باقى رہ گئے تھے انكے ساتھ حضرت عليعليه‌السلام بالخصوص عا يشہ كے ساتھ كيا سلوك رہا ؟

۶ _ جنگ جمل ميں كس جگہ كو مركزيت حاصل تھى اور حضرت عليعليه‌السلام نے اس كى كس طرح سركوبى كى ؟

۷_ حضرت عليعليه‌السلام نے عا يشہ كى حفاظت كے لئے كيوں اس قدر اہتمام كيا ؟

۱۴۹

حوالہ جات

والله لا اكون كالضبع تنام على طول اللّارم حتى يصل اليها طالبها و يختلها راصدها ولكننى اضرب بالمقبل الى الحق المدبر عنه و باالسامع المطيع العاصى المريب ابدا حتى ياتى على يؤمى

۱_ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/۲۳۳ ، ارشاد مفيد ۱۳۱_

۲_ الجمل للمفيد /۱۲۹ الامامة السياسة ج ۱/ ۵۳ ميں سہل كى بجائے قسم بن عباس كا ذكر ملتا ہے_

۳_ يہ جگہ ذات عرق كے قريب حجاز ومدينہ كے درميان تين روزہ راہ كى دورى پر واقع ہے (معجم البلدان ج ۳/۲۴ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۹ _ ۳۵۸

۴_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۹_ ۳۵۸

۵_ كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۲۶ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۸۰ ،تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۲ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۳۲۱_

۶_ الجمل للمفيد /۱۳۰ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۴/ ۹

۷_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۴۷۸ ، ۴۷۷ ، كامل ابن اثير ج ۳/ ۲۷۷ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۱۴/ ۹

۸_ ملاحظہ ہو مروج الذہب ج ۲/ ۳۵۹ ، والجمل / ۱۳۸، طبرى ج ۴/ ۵۰۰ اور ابن ابى الحديد نے ج ۱۴ /۲۱ پر ابى الطفيل سے نقل كيا ہے كہ اس سے قبل كہ سپاہ كوفہ پہنچے حضرت علىعليه‌السلام نے پيشن گوئي كردى تھى كہ كوفہ سے ايك ہزار ايك سپاہى آئيں گے اور ايسا ہى ہوا _ راوى كا كہنا ہے كہ ميں نے انہيں گنا ان ميں سے نہ كم تھا نہ ايك زيادہ_

۹_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۱ _ ۳۵۹ كا خلاصہ

۱۰_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۱''اللهم ان هؤلاء القوم قد خلعوا طاعتى بغوا على ونكثوا بيعتى اللهم احقن دماء المسلمين ''_

۱۱_ الجمل للمفيد / ۱۶۷

۱۲_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۱ ، الجمل للمفيد /۱۸۱ تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۰۹ _۵۱۱

۱۵۰

۱۳_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۲

۱۴_ الجمل للمفيد / ۱۸۲ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۹/۱۱ ، تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۲ ، ليكن تاريخ يعقوبى اورشرح ابن ابى الحديد ميں مقتول كو عبداللہ كا بھائي تحرير كيا گيا ہے _

۱۵ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۹ /۱۱۱

۱۶_ مروج الذہب ج ۲/ ۲۶۲ _ الجمل للمفيد /۱۸۲

۱۷_ اماانك ستحاربہ و انت ظالم لہ

۱۸_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۳ زبير كے سلسلے ميں يہ روايت بھى ملتى ہے كہ وہ بھى دوسروں كى طرح حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ آخرى لمحہ تك جنگ كرتے رہے ليكن جب اصحاب جمل كو شكست و ہزيمت ہوئي تو انہوں نے بھى راہ فرار اختيار كى جس وقت وہ فرار كررہے تھے تو اچانك جرموزے نے انہيں غافل پاكر قتل كرديا (سيرة الائمہ اثنى عشر ج ۱/ ۴۵۵)ان اقوال كے علاوہ يہ قول بھى ہے كہ جب زبير نے كنارہ كشى كا فيصلہ كرليا تو ان كے فرزند عبداللہ نے ان پر يہ الزام لگايا كہ وہ جنگ سے خوف زدہ ہوگئے ہيں اور انہيں قسم ياد لائي اور كفارہ دينے كو كہا زبير نے اپنے غلام كو آزاد كركے كفارہ ادا كيا اور بيٹے نے جو الزام لگايا تھا اسے دور كرنے كے لئے انہوں نے تلوار اٹھائي اور اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى لشكر پر حملہ آور ہوگئے ملاحظہ ہو تاريخ الفداء ج ۱/ ۱۷۴ _ ۱۷۳

۲۰_ مروج الذہب ج ۲/۳۶۴ تاريخ يعقوبى ج ۲/ ۱۸۲ ، انساب الاشراف ج ۲/ ۲۴۸ ، الجمل للمفيد / ۲۰۴ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۱۱۳

۲۱_ مروج الذہب ج ۲/ ۳۶۶ ، الجمل للمفيد / ۱۸۳ ، تاريخ طبرى ج ۴/ ۵۱۴ ، سيرة الائمہ اثنى عشر ج ۱/ ۴۵۷ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۲۵۷

۲۲_ تاريخ ابن اعثم / ۱۷۶ و شرح ابن ابى الحديد _

۲۳_ شرح ابن ابى الحديد ج / ۲۵۸

۲۴ _ اعقروا الجمل فانہ ان عقر تفرقوا (تاريخ طبرى ج۴ / ۵۱۹)_

۲۵ _ تاريخ طبرى ج / ۴/ ۵۱۹ ' اسد الغابہ ۳ / ۳۰۸ ' شرح ابن ابى الحديد ج۱ / ۲۶۵ _

۱۵۱

۲۶ _ سورہ طہ آيہ ۹۶ ملاحظہ ہو شرح ابن ابى الحديد ج۱ / ۲۶۶ _

۲۷ _ اس حكم كے جارى كرنے سے حضرت عليعليه‌السلام كا مقصد يہ تھا كہ دشمن كے افراد كے ساتھ وہى سلوك كيا جائے جو مسلمانوں كے ساتھ روا كھا جاتا ہے ان كے ساتھ كفار كا _ سا برتاؤ نہ كيا جائے _

۲۸ _ ملاحظہ ہو كامل ابن اثير ج۳ / ۲۵۸ ' خ ۲۵۵ ' تاريخ طبرى ج ۴ / ۴۴،۵ ۴،۵۳

۹ ۲ _ شرح ابن ابى الحديد ج۶ / ۳۲۲ _

۱۵۲

آٹھواں سبق

خلافت ظاہرى سے شہادت تك ۴

حضرت عليعليه‌السلام كى بصرہ ميں آمد

جنگ جمل كے ناخوشگوار نتائج

كوفہ ، دارالحكومت

كوفہ پہنچنے پر عليعليه‌السلام كے اقدامات

قاسطين

معاويہ كى تخريب كاري

امام عليعليه‌السلام كا نمايندہ معاويہ كى جانب

سركشى كے اسباب

مشہور و معروف اشخاص كو اپنانا

سوالات

حوالہ جات

۱۵۳

حضرت عليعليه‌السلام كى بصرہ كى آمد

جنگ جمل ختم ہونے كے بعد حضرت عليعليه‌السلام نے تين روز تك معركہ گاہ پر قيام فرمايا متقولين كى نماز جنازہ پڑھائي حكم ديا كہ دشمن كے مقتولين كو جمع كر كے انھيں دفن كيا جائے شہداء كو حضرت علىعليه‌السلام كے فرمان كے مطابق ان كے لباس ميں ہى دفن كيا گيا(۱) جسموں سے جو اعضاء الگ ہو گئے تھے انھيں يك جا ايك بڑى قبر مےں دفن كياگيا _

مال غنيمت كو (سوائے اس اسلحہ كے جس پر مہر خلافت ثبت تھى)سپاہ ميں مساوى تقسيم كيا خود بھى ايك حصہ اس مےں سے ليا باقى مال جو جنگ مےں ہاتھ آيا تھا اور اس كا شمار مال غنيمت مےں نہےں ہوتا تھا مسجد مےں لے جايا گيا تاكہ ان كے مالك يا وارثين كى تحويل ميں دے ديا جائے _(۲)

بصرہ پہنچنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام سيدھے مسجد مےں تشريف لے گئے جہاں آپ نے مفصل تقرير كى اہل بصرہ سے خطاب كرتے ہوئے آپ نے ان كى سرزنش كى اور فرمايا كہ اے كاہل لوگو اے وعدہ خلاف انسانوں تم نے تين مرتبہ اپنوں سے ہى خيانت كى اور چوتھى مرتبہ تم نے خدا پر اتہام لگايا تم نے پيروى بھى كى تو ايك عورت اور بے زبان جانور كى تم نے اس كى ايك آواز پر غوغا و فتنہ بپا كرديا اور جب اس حيوان كے پيروں كى رگيں كاٹ دى گئيں تو تم بھاگ نكلے اخلاقى اعتبار سے تم پست ہو تمہارے اعمال منافقانہ ہيں اور تمہارا دين و آئين باطل اور تفرقہ اندازى ہے_(۳)

اس كے بعد تمام افراد حتى مجروحين نے بھى آپ كے دست مبارك پر بيعت كي_ حضرت علىعليه‌السلام

۱۵۴

نے ابن عباس كو بصرہ كى صوبہ دارى اور زياد كو امور مالى وخراج كى وصول يابى كے عہدوں پر مقررومامور فرمايا _ (۴)

اس كے بعد حضرت علىعليه‌السلام خزانہ بيت المال تشريف لے گئے جس وقت آپ كى نظر مبارك سونے اور چاندى پڑى تو آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ :يا صفرا ء يا بيضا غريا غيري(اے زرد سونے اور سفيد چاندى كے سكو تم اپنى يہ دلربائي كسى اور كو دكھانا كسى اور كو تم اپنے دام فريب ميں لانا اس كے بعد آپ نے حكم ديا كہ جو مال موجود ہے اس كو پانچ سو اعداد ميں تقسيم كريں جس وقت سكوں كا شمار كيا گيا تو انكى تعداد كم و بيش ساٹھ لاكھہ درہم تھى چنانچہ آپ كے ساتھيوں ميں سے ہرشخص كے حصے ميں پانچ سو سكے آئے _ اسى وقت وہاں ايك شخص آپ كى خدمت ميں حاضر ہوا _ اس نے عرض كيا يا اميرالمومنينعليه‌السلام مجھے بھى كچھ عطا فرمايئے اگر چہ ميں كسى وجہ سے جنگ ميں شركت نہ كرسكا ليكن ميرى نيك خواہشات آپ كے ساتھ تھيں _ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنا حصہ اسے ديديا_(۵)

جنگ جمل كے ناخوشگوار نتائج

جنگ جمل كے جو اثرات و نتائج رونما ہوئے وہ نہايت ہى ناخواشگوار تھے ان ميں سے بعض كا ہم يہاں ذكر كرتے ہيں _

۱_ اس جنگ ميں دس ہزار سے زيادہ مسلمان قتل ہوئے _(۶) درحقيقت يہ افراد ''ناكثين'' كے حسد اور ان كے جذبہ جاہ طلبى پر قربان ہوئے _ مورخين نے لكھا ہے كہ دو لشكروں كے اتنے سپاہى زمين پر گرے كہ اگر ان كى لاشوں پر گھوڑے دوڑائے جاتے تو گھوڑوں كے سم ان كى لاشوں كے علاوہ كسى اور چيز نہ پڑتے _ لاشوں كے يہ انبار اس عظےم جنگ كا حاصل و ثمرہ تھا جو جمل كے نام سے مشہور ہوئي اس سے قبل بھى بيان كياجاچكا ہے كہ بيشتر افراد ناكثين كے ہاتھوں ہى مارے گئے_

۱۵۵

مقتولين كى اس كثير تعداد نے بہت سى اقتصادى مشكلات نيز جسمانى و نفسياتى دشوارياں مسلمانوں كے لئے پيدا كرديں _

۲_ اس جنگ كے بعد مسلمانوں ميں سے جذبہ اخوت و برادرى قطعى مفقود ہوگيا اور امت مسلمہ پر فتنہ وفساد كے دروازے كھل گئے اور جنگ صفين بھڑك اٹھى در حقيقت يہ دو جنگيں اس مضبوط رسى سے بندھى ہوئي تھيں جس كا پہلا سرا بصرہ ميں تھا اور دوسرا صفين ميں اگرچہ عائشہ كى عثمان سے قرابت دارى نہ تھى ليكن جنگ جمل نے معاويہ كے لئے اس بناپر شورش وسركشى كا راستہ ہموار كرديا كہ وہ خاندان اميہ كے فرد اور عثمان كے رشتہ دار تھے چنانچہ اس جنگ كے باعث معاويہ كے لئے يہ بہانہ پيدا ہوگيا كہ اس نے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف جنگ و جدل كرنے كے علاوہ خلافت كوا پنے خاندان ميں منتقل كرديا درحاليكہ يہ مقتول خليفہ كا ہى خاندان تھا اور يہيں سے خلافت نے موروثى شكل اختيار كرلى _

۳_جنگ جمل كے ضرر رسان نتائج جنگ صفين كے بعد بھى باقى رہے اور جنگ نہروان درحقيقت دو پہلى جنگوں (جنگ جمل و جنگ صفين)كا ہى نتيجہ تھى كيونكہ ان دو جنگوں كے باعث بعض تنگ نظر اور كوتاہ فكر لوگوں كے دلوں ميں بدگمانى كے جذبات ابھرنے لگے _ چنانچہ عملى طور پر وہ تشويش و اضطراب اور حالت تردد كا شكار ہو كر رہ گئے نيز معاشرے كى طرف سے وہ ايسے بدبين و بدظن ہوئے كہ ہر شخص دوسرے كو عداوت و دشمنى كى نگاہ سے ديكھنے لگے_

بعض وہ لوگ جو ''خوارج '' كہلائے اس رائے كے حامى و طرفدار تھے كہ چونكہ ''ناكثين'' كے سرداروں نے اپنے پيشوا يعنى حضرت علىعليه‌السلام كے خلاف شورش و سركشى كى ہے اس لئے ان كا شمار كفار ميں ہے اس كے بعد ان كے دلوں ميں يہ گمان پيدا ہوگيا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے چونكہ اپنى حكومت كے استحكام كى خاطر يہ جنگ كى اس لئے وہ بھى آئين دين اسلام سے خارج ہوگئے_

بعض لوگوں كى يہ رائے تھى كہ جنگ جمل ميں اگر چہ حضرت علىعليه‌السلام حق بجانب تھے ليكن آپعليه‌السلام نے چونكہ اہل بصرہ كى تمام دولت كو بطور مال غنيمت جمع نہيں كيا اور ان كى عورتوں كو قيد نہيں كيا اسى

۱۵۶

لئے يہ آپ سے غلطى سرزد ہوئي چنانچہ اسى بناپر وہ آپ عليه‌السلام كو ناشايستہ الفاظ سے ياد كرنے لگے_

انہيں ميں سے تيسرا گروہ ايسا بھى تھا جو ان دونوں گروہوں كو كافر سمجھتا تھا اور اس كا يہ عقيدہ تھا كہ يہ لوگ ہميشہ جہنم ميں رہيں گے _(۷)

كوفہ دارالحكومت

جنگ جمل كے مسائل اور بصرہ كى حكومت كے معاملات حل و منظم كرنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام نے مدينہ اور بصرہ كے لوگوں كو خطوط لكھے جن ميں آپعليه‌السلام نے جنگ جمل كے واقعات مختصر طور پر بيان كئے وہ خط جو اہل كوفہ كو لكھا تھا اس ميں آپعليه‌السلام نے مزيد يہ بھى مرقوم فرمايا تھا كہ ميں جلدى ہى كوفہ كى جانب آؤں گا(۸) اس ارادہ كے تحت آپعليه‌السلام جنگ جمل كے ايك يا دو ماہ بعد بصرہ سے كوفہ كى جانب روانہ ہوئے_

بصرہ كے بعض سربرآوردہ لوگ بھى حضرت علىعليه‌السلام كے ہمركاب تھے كوفہ كے لوگ بالخصوص قاريان قرآن حضرت علىعليه‌السلام كے استقبال كے لئے شہر سے باہر نكل آئے او رآپعليه‌السلام كے حق ميں انہوں نے دعائے خير كى _

حضرت علىعليه‌السلام بتاريخ ۱۲ رجب سنہ ۳۶ ھ ميں اس مقام پر فروكش ہوئے جو ''رحبہ(۹) '' كے نام سے مشہور تھا وہاں سے آپ سيدھے جامع مسجد تشريف لے گئے اور وہاں آپ نے دو ركعت نماز ادا كى _(۱۰)

كوفہ كے واقعات بيان كرنے سے قبل يہاں لازم ہے كہ ہم ان اسباب و علل كا جائزہ ليں جن كے باعث كوفہ كو اسلامى حكومت كا مركز قرار ديا _

كوفہ كو اسلامى حكومت كا مركز قرار ديئے جانے كے سلسلے ميں مورخين نے بہت سے اسباب وعلل بيان كئے ہيں _ ان ميں ايك وجہ يہ تھى كہ مالك اشتر او كوفہ كے ديگر سربرآوردہ لوگوں كا يہ اصرار تھا كہ اس شہر كو اسلامى حكومت كا مركز بنايا جائے دوسرى وجہ يہ تھى كہ جنگ جمل كے بعد بعض

۱۵۷

لوگ فرار كركے كوفہ كى جانب چلے آئے تھے اور اس بناء پر حضرت على عليه‌السلام نے مجبوراً فيصلہ كيا كہ ان كے فتنے كى سركوبى كے لئے كوفہ كى جانب روانہ ہوں _(۱۱)

ليكن جب ہم ان حوادث اور مسائل كا جائزہ ليتے ہيں جو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے اس وقت موجود تھے جب آپعليه‌السلام نے زمام حكومت سنبھالى تو ہم اس نتيجہ پر پہنچتے ہيں كہ وہ ديگر مسائل تھے جو حضرت علىعليه‌السلام كے لئے مركز حكومت منتقل كرنے كے محرك ہوئے_

اس سے پہلے بتايا جا چكا ہے كہ ''فتنہ ناكثين'' سے قبل حضرت علىعليه‌السلام كا خيال تھا كہ ايسى عسكرى طاقت منظم ہوجائے جس كے ذريعے معاويہ كا مقابلہ كياجاسكے مگر ناكثين كى شورش نے اس معاملے ميں تاخير پيدا كردى چنانچہ فطرى طور پر معاويہ نے اس معاملے كو غنيمت جانا اور اس نے حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف جنگ كرنے كى غرض سے كافى فوجى طاقت نيز اور ديگر وسائل فراہم كرليئے_ معاويہ نے شام كے لوگوں كو مطيع و فرمانبردار كرنے كے علاوہ اس نے عثمان كے خون كا بدلہ لينے كے بہانے سے لوگوں كے جذبات مشتعل كئے چنانچہ عراق كى جانب جو خطوط بھيجے اور جن صاحب اثر و رسوخ افراد كو روانہ كيا ان كا اصلى سبب يہ تھا كہ سرداران قبائل اور فرمانداران لشكر كو وہ اپنى جانب متوجہ كرلے_

معاويہ جانتا تھا كہ فتوحات اور اسلامى قلمرو كے وسعت پذير ہونے كے باعث شام كوفہ و بصرہ تين اہم مركز بن گئے ہيں اور حجاز فوجى طاقت كے اعتبار سے خاصا دور ہوگياہے_

يمن ميں بھى قابل توجہ و اعتنا عسكرى طاقت موجود نہ تھى چنانچہ جس وقت ''بسر بن ارطاة''نے اس منطقے ميں شورش و سركشى كى تو حضرت علىعليه‌السلام كا كارپرداز اس كے مقابل اپنا دفاع نہ كرسكا اور يا يہ كہ جنگ جمل ميں تقريبا سات سو افراد ہى حضرت علىعليه‌السلام كى مدد كےلئے ربذہ پہنچے اور اسى لئے حضرت علىعليه‌السلام نے ''ذى قار'' ميں توقف فرمايا تاكہ لشكر كوفہ وہاں آجائے_

يہى وہ مسائل تھے جو حضرت علىعليه‌السلام كى تيز بين و دور انديش نظروں سے پنہاں نہ رہ سكے آپعليه‌السلام كو علم تھا معاويہ نے شام ميں اس موقع سے فايدہ اٹھايا ہے _ چنانچہ عسكرى طاقت كے علاوہ اس

۱۵۸

نے ديگر وسائل جنگ بھى فراہم كرلئے ہيں اس بنا پر حضرت على عليه‌السلام كے لئے ضرورى تھا كہ وہ بھى عظےم مسلح لشكر تيار كريں تاكہ معاويہ سے نبرد آزمائي كى جاسكے اس كے علاوہ يہ بھى ضرورى تھا كہ دشمن كى نگرانى نزديك سے كى جائے كيونكہ اس سے كسى وقت بھى زور آزمائي ہوسكتى ہے_

ان دو مقاصد كے پيش نظر بصرہ اور كوفہ ميں سے كسى ايك شہر منتخب كيا جاسكتا تھا_ اب بصرہ بھى ايسى جگہ نہيں تھى جہاں زيادہ دن تك قيام كياجاسكے كيونكہ فتنہ جمل كى آگ سرد كرنے كے لئے وہاں بہت زيادہ خون بہايا گيا تھا اور جنگ كے بعد جو لوگ زندہ رہ گئے تھے انكے دلوں ميں حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كيلئے جوش وخروش نہيں تھا_ بلكہ وہ ايك اعتبار سے پست ہمت و كم حوصلہ ہوچكے تھے اسى بناپر وہ حضرت علىعليه‌السلام كے لئے بھى قابل اعتماد نہ تھے _ چنانچہ ان وجوہات كى بناء پر بہترين اور مناسب ترين شہر كوفہ ہوسكتا تھا _

چنانچہ معاويہ كى طرف سے جب تك خطرے كا امكان ہوسكتا تھا اس وقت تك حكومت كى مصلحت كا تقاضا يہى تھا كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كوفہ ميں ہى تشريف فرما رہيں _

كوفہ پہنچنے پر علىعليه‌السلام كے اقدامات

كوفہ پہنچنے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام سہر كى مسجد ميں تشريف لے گئے جہاں آپ نے لوگوں سے خطاب كيا اس موقع پر آپ نے اہل كوفہ كى قدر كرتے ہوئے ان كى حوصلہ افزائي كى كہ انہوں نے آپعليه‌السلام كى دعوت كو قبول كيا _ اپنے خطبے ميں آپ نے ہوا وہوس نيز لمبى لمبى آرزوں سے گريز كرنے كى ہدايت فرمائي اور ان لوگوں كو تنبيہہ كى جو آپعليه‌السلام كى مدد كرنے سے روگردان ہوگئے تھے_

اس كے بعد آپ نے ''جعدہ بن غيبرہ '' مخزومى كے مكان پر قيام فرمايا _(۱۳) بتاريخ ۱۶ رجب بروز جمعہ آپ مسجد ميں تشريف لے گئے جہاں پہلى مرتبہ آپ نے نماز جمعہ كى امامت فرمائي _(۱۴)

۱۵۹

اس كے بعد آپ نے امور حكومت كى جانب توجہ فرمائي ، اپنے اقدامات ميں حاكم آذربائيجان ''اشعث بن قيس'' اور ہمدان كے عامل و كار پرداز ''جرير ابن عبداللہ'' كو انكے مناصب سے برطرف كيا جو كہ عثمان كے مقرر كردہ واليان حكومت تھے ان دونوں كو اپنے پاس(۱۵) بلايا ،ا پنے ديگر كار پردازوں كو مختلف مناطق كى جانب روانہ كيا چنانچہ ''يزيد ابن قيس '' كو حكومت مدائن ، ''مخنف بن سليم'' كو حكومت اصفہان و ہمدان اور مالك اشتر كو موصل كى منصب دارى عطا كى _(۱۶)

قاسطين

ناكثين كا فتنہ دب جانے كے بعد ايسے ناہنجار حالات پيدا ہونے لگے كہ جن ميں خالص نسلى اور قبائلى محركات كارفرماتھے _ اب اس اسلامى فكر كو پيش كرنے كى كوشش كى جانے لگى جس ميں سے روح تو مفقود ہوچكى تھى بس ظاہرى خول باقى رہ گيا تھا _ اب اسلام كى قدرت كو بچانے كيلئے خليفہ مسلمين كى روز افزوں طاقت مسئلہ تھى اس لئے حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت كے راستے ميں جو دوسرا خطرہ تھا وہ ''قاسطين'' كا وجودتھا قاسطين كا مجمع در حقيقت ان عاملين اور جماعتوں كى منظم شكل تھى جنہيں حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت سے كسى نہ كسى طرح گزند پہنچى تھى اور انہيں يہ خطرہ لاحق تھا كہ اگر حضرت علىعليه‌السلام كى حكومت بر سر اقتدار رہى تو وہ اپنى نفسانى خواہشات كو پورا كرنے ميں كامياب نہ ہوسكيں گے_

ان تمام گروہوں اور جماعتوں كا سربراہ معاويہ تھا _ اس نے اپنے سياسى و اجتماعى موقف كى بناپر اپنے گرد بہت سے پيروكار جمع كرلئے تھے_

معاويہ ابن ابى سفيان نے فتح مكہ كے بعد دين اسلام قبول كيا تھا وہ ان افراد ميں شامل تھا جو جنگ كے دوران مسلمانوں كى حراست ميں آگئے تھے اور جنہيں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے يہ فرمايا كر آزاد كرديا تھا جاؤ تم سب آزاد ہو _(۱۷) سنہ ۱۲ھ ميں جس وقت ابوبكر نے ''يزيد ابن ابى سفيان'' كى

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333