المیہ جمعرات

المیہ جمعرات17%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104077 / ڈاؤنلوڈ: 4470
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

ہے کہ : حضرت علی (ع)ہی خلافت کے اصل مالک ووارث تھے ۔خواہ خلافت پر فائز ہوتے تو بھی ان کا حق تھا اور اگر انہوں نے کسی اور کو خلافت پر فائز ہونے دیا تو بھی یہ ان کا استحقاق تھا ۔البتہ اس مقام پر ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ انہوں نے اور لوگوں کی خلافت کو تسلیم کر لیا تھا اسی لیے ہم بھی ان کی اتباع کرتے ہوئے بزرگوں کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور جس پر علی (ع)راضی تھے ہم بھی اس پر راضی ہیں(۱)

تو اس فریق کے نظریہ کی تلخیص ان الفاظ میں کی جاسکتی ہے کہ یہ فریق حضرت علی علیہ السلام کو حضرت ابو بکر سے افضل مانتا ہے اور انہیں خلافت کا صحیح حقدار قرار دیتا ہے ۔البتہ ان کے لئے رسول اکرم (ص) کی طرف سے کسی نص کا قائل نہیں ہے ۔اس لحاظ سے صورت حال یہ ہوگی کہ شرعی تقاضوں کے تحت حضرت علی (ع) خلیفہ تھے اور حضرت ابو بکر چونکہ مخصوص حالات کی وجہ سے خلیفہ بن چکے تھے اور حضرت علی (ع) نے بھی مزاحمت نہیں کی تھی ۔ اسی لئے ان کی خلافت بھی درست ہے ۔

الغرض مسئلہ خلافت ہر دور میں اختلاف کا محور رہا ہے ۔اسی سے دوسرے اختلاف نے ہمیشہ جنم لیا ہے ۔وفات رسول (ص) سے لے کر آج تک یہ مسئلہ ہر دور میں نزاعی رہا ہے ۔مسئلہ خلافت کیلئے ہر فریق نے اپنی رائۓ کو درست قرار دیا اور دوسرے فریق کی رائے کو ہمیشہ جھوٹ اور بہتان کہہ کر ٹھکرایا ہے ۔

تاریخ کوئی شخص نص ووصیت کا انکار کرتا ہے تو پھر وہ اس بات کا قائل

____________________

(۱):- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ۲/۷۲ طبع اول مطبوعہ مصر ۔

۴۱

ہے کہ پیغمبر خدا کو امت اسلامیہ کے مستقبل کی کوئی فکر ہی نہیں تھی ۔اور آپ کو اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ امت کے کتنے ٹکڑے ہوجائیں گے اور امت کتنی زبوں حالی کا شکار ہوجائے گی ۔

جب کہ تاریخی حقائق اس نظریہ کو لغو اور باطل قرار دیتے ہیں ۔آپ حدیث قرطاس کو ہی لے لیں ۔جس پر ہم سابقہ اوراق میں کافی بحث کرچکے ہیں لیکن اس مقام پر بھی ہم مذکورہ حدیث کو پیش کرنا چاہتے ہیں ۔

حدیث قرطاس

ابن اثیر اپنی کتاب الکامل فی التاریخ جلد دوم صفحہ نمبر ۲۱۷ پر تحریر کرتے ہیں :-اشتد برسول الله مرضه وجعه فقال ایتونی بدواة وبیضاء اکتب لکم کتابا لاتضلون بعدی ابدا ،فتنازعوا ،ولا ینبغی عند نبی تنازع ،فقالوا ان رسول الله یهجر ،فجعلوا یعیدون علیه ،فقال دعونی فما انا فیه خیر مما تدعوننی الیه ،فاوصی بثلاث ،ان یخرج المشرکون من جزیرة العرب وان یجازی الوفد بنحو ما کان یجیزهم ،وسکت عن الثالثة عمدا وقال نسیتها "

جناب رسول خدا (ص) کی بیماری اور درد میں اضافہ ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ :-میرے پاس کاغذ اور قلم دوات لاؤ تاکہ میں تمہیں تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو گے ۔ یہ سن کر لوگوں نے جھگڑنا شروع کردیا جبکہ نبی کے پاس جھگڑا کرنا نامناسب تھا ۔ لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ رسول خدا ہذیان کہہ رہے ہیں اور بار بار یہی کہنے لگے ۔اس پر رسول خدا(ص)نے فرمایا : میں جس تکلیف میں ہوں وہ اس سے کہیں بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلانا چاہتے ہو ۔آپ نے تین امور کی وصیت کی ۔

۱:- مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دیا جائے ۔

۴۲

۲:- وفد بھیجنے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہیئے جیسا کہ میں بھیجا کرتا تھا اور تیسری وصیت کو جان بوجھ کر چھپایا گیا اور کہا کہ وہ مجھے بھول گئی ہے ۔امام بخاری نے اپنی صحیح میں اس روایت کو یوں نقل کیا ہے ۔

"حدّثنا سفیان عن سلیمان الاحول عن سعید بن جبیر قال قال ابن عباس ،اشتد برسول الله وجعه فقال ایتونی اکتب لکم کتابا لن تضلوا بعده ابدا فتنازعوا ولا ینبغی عند نبی تنازع ،فقالوا ماشانه اهجر ؟ استفهموه فذهبوا یرددون علیه فقال دعونی فالذی انا فیه خیر مما تدعوننی الیه ،واوصاهم بثلاث قال اخرجوا المشرکین من جزیرة العرب ،واجیزوا الوفد بنحو ما کنت اجیزهم ،وسکت عن الثالثة او قال نسیتها "

رسول خدا (ص) کی تکلیف میں اضافہ ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس کاغذ اور قلم دوات لاؤ تاکہ میں تمھارے لیئے ایسی تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے اس کے بعد لوگوں میں تنازعہ پیدا ہوگیا جب کہ نبی کے پاس تنازعہ نامناسب تھا ۔ پھر وہ لوگ کہنے لگے کہ کیا نبی ہذیان کہہ رہے ہیں اور بار بار اسی جملہ کا تکرار کرنے لگے ۔اس پر حضور اکرم (ص) نے فرمایا :" میں جس تکلیف میں ہوں وہ تمہاری دعوت سے کئی گنا بہتر ہے اور آپ نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی :

۱:- جزیرہ عرب سے مشرکین کو نکال دو

۲:- وفد بھیجنے کا سلسلہ اس طرح جاری رہنا چاہئیے جیسا کہ میں بھیجا کرتا تھا ۔روای نے تیسری وصیت کے متعلق خاموشی اختیار کرلی یا اس نے کہا :مجھے تیسری بات بھول گئی ہے ۔

امام بخاری نے ایک اور سند سے اسی حدیث کو یوں بیان کیا ہے"لمّا حضر رسول الله صلّی الله علیه وسلّم وفی البیت رجال ،فقال النبی هلموا اکتب لکم کتابا لاتضلوا بعده ،فقال بعضهم ان رسول الله قد غلب علیه الوجع وعندکم القرآن ،وحسبنا کتاب الله ،فاختلف اهل البیت واختصموا

۴۳

فلمّا اکثروا اللغو والاختلاف قال رسول الله قومو" ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضور کریم (ص) کا وقت آخر گھر میں بہت سے افراد موجود تھے ۔رسول خدا(ص) نے فرمایا : میں تمہیں ایسی تحریر لکھ کر دینا چاہتا ہوں کہ تم اس کے بعد گمراہ نہ ہوگے ۔تو ان میں سے بعض نے کہا رسول خدا(ص) پر درد کا غلبہ ہے اور تمھارے پاس قرآن موجود ہے ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے ۔گھر میں موجود افراد کا اس بات پر اختلاف ہوگیا اور وہ جھگڑنے لگے ۔جب حضور کریم کے پاس اختلاف اور بے ہودہ گوئی زیادہ بڑھی تو آپ نے فرمایا اٹھ کر چلے جاؤ ۔

اسی حدیث کو ابن سعد نے اپنی کتاب طبقات کبری جلد ۴ ص ۶۰-۶۱ پر اس طرح نقل کیا ہے ۔

"ان رسول الله عند ما حضر ته الوفاة و کان معه فی البیت رجال فیهم عمر بن الخطاب قال ، هلموا اکتب لکم کتابا لن تضلوا بعده ، فقال عمر ان رسول الله قد غلبه الوجع وعندکم القرآن حسبنا کتاب الله ،فاختلف اهل البیت واختصموا ،فلما کثر اللغط و الآختلاف قال النبی قوموا عنی "

حضور کریم (ص) کی وفات کے وقت گھر میں بہت سے افراد تھے ان میں عمر بن خطاب بھی موجود تھے ،حضور نے فرمایا تم کاغذ اور قلم دوات لاؤ ،میں تمہارے لئے تحریر لکھدوں جس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ۔حضرت عمر نے کہا اس وقت رسول خدا(ص) پر درد کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن موجود ہے ۔ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے ۔گھر میں بیٹھے ہوئے افراد کا آپس میں اختلاف ہوگیا اور جھگڑنے لگے ۔جب حضور اکرم (ص) کے پاس شوروغوغا بڑھ گیا تو آپ نے فرمایا :میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ ۔

اس حدیث کے پڑھنے کے بعد آپ خد اپنے ضمیر اور وجدان کی عدالت میں فیصلہ کریں رسول کریم (ص) کے فرمان کو سن کر حضرت عمر نے جو جواب دیا

۴۴

کیا وہ حضور اکرم (ص) کی شخصیت کے مطابق تھا؟ اور کیا آداب صحبت ایسے جواب کی اجازت دیتے ہیں ؟ اور کیا دین اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ حضور اکرم (ص) کے فرمان کو ہذیان کہہ کر ان کی توہین کی جائے ؟

آپ حضرت عمر کے جواب کو ملحوظ خاطر رکھیں اور قرآن مجید کی اس آیت کو بھی پڑھیں "وما ینطق عن الهوی ان هو الا وحی یوحی "(النجم ۳-۴)

رسول اپنی خواہش سے نہیں بولتے وہ تو وہی کہتے ہیں جو وحی کہتی ہے اس آیت کی موجود گی میں حضرت عمر کے جواب کی شرعی حیثیت کیا قراردپائی ہے ۔اس کا فیصلہ ہم اپنے منصف مزاج قارئین کے حوالہ کرتے ہیں ۔عجیب بات تو یہ ہے کہ صحابہ نے حضور اکرم (ص) سے بہت سے ایسے سوال بھی دریافت کیے تھے جو کہ مسئلہ خلافت سے بہت ہی کم اہمیت کے حامل تھے ۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ :- صحابہ نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کو غسل کون دے ؟ تو آپ نے فرمایا میرے خاندان کے قریبی افراد مجھے غسل دیں ۔ اور صحابہ نے آپ سے دریافت کیا آپ کا کفن کیسا ہونا چاہیے تو فرمایا مجھے میرے اپنے کپڑوں کا ہی کفن پہنایا جائے یا مصری کپڑے کا کفن دیا جائے یا یمنی پارچہ کا کفن بنایا جائے ۔صحابہ نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ کو قبر میں کون اتارے ؟ تو فرمایا کہ میرے خاندان کے افراد مجھے قبر میں اتاریں ۔

اس روایت کو پڑھنے کے بعد لگتی کہیئے کہ صحابہ کفن ،دفن اور قبر میں اتارنے والے کے متعلق پوچھتے رہے ،کیا انہوں نے آپ سے یہ نہیں پو چھا ہوگا کہ آپ کا جانشین کون ہوگا ؟ یا خود حضور کریم نے صحابہ کو نہیں بتایا ہوگا کہ میرا جانشین کون ہے ؟

ابن خلدون اسی صفحہ پر لکھتے ہیں کہ اس کے بعد رسول خدا نے فرمایا میرے پاس کاغذ اور قلم دوات لاؤ میں تمہیں ایسی تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم

۴۵

کبھی گمراہ نہ ہوگے ۔یہ سن کر لوگوں نے جھگڑنا شروع کردیا کچھ لوگوں نے کہا کہ حضور ہذیان کہہ رہے ہیں اور مسلسل فرمان پیغمبر کو ہذیان کہتے رہے آپ نے فرمایا : میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے کہیں بہتر ہے جس کی تم مجھے دعوت دے رہے ہو ۔(۱)

قارئین کرام !

اب آپ فیصلہ کریں کہ رسول کو تحریر کیوں نہ لکھنے دی اور یہ مزاحمت کیوں کی گئی اور اس ہنگامہ دار و گیر کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی ؟

کیا ایسا تو نہ تھا کہ حضور اکرم اپنی زندگی کے مختلف اوقات میں جس شخصیت کی جانشینی کا ذکر کرتے رہتے تھے ،آخری وقت میں اسے تحریری شکل میں لکھ دینا چاہتے تھے ؟

تاکہ کسی کو ان کی جانشینی کے متعلق کوئی شک وشبہہ نہ رہ سکے اور حضرت عمر بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے ۔حضور اکرم کا ارادہ بھانپ کر انہوں نے اس کی بھر پور مخالفت کی اور عجیب و غریب بات یہ ہے کہ محدثین کہتے ہیں کہ حضور نے تین چیزوں

کے متعلق وصیت فرمائی تھی ۔ دو وصیتیں تو بیان بھی کی گئی ہیں اور حضرت ابو بکر نے ان دونوں پر عمل بھی کیا تھا ۔لیکن تیسری وصیت راوی کو بھول جاتی ہے ۔یا وہ اسے جان بوجھ کر بیان نہیں کرتا ۔

اسی تیسری وصیت کو رسول خدا (ص) تحریری صورت میں لانا چاہتے تھے اور اس پر ہذیان کہہ کر حضور کریم کی شان میں گستاخی کی گئی ۔تعجب تو یہ ہے کہ کل وصیتیں تین تھیں دو وصیتیں کے وقت حضور اپنے ہوش وحواس میں تھے لیکن تیسری وصیت کے وقت ان پر ہذیان طاری ہوگا تھا ۔(نعوذ باللہ)

____________________

(۱):- تاریخ ابن خلدون ج ۲ ص ۲۹۷

۴۶

رسول خدا (ص) کیا لکھنا چاہتے تھے ؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخری وقت میں رسول خدا (ص) کیالکھنا چاہتے تھے ؟ اس سوال کا جواب خود حضرت عمر نے اپنی زبان سے دیا ہے ۔جسے احمد بن ابی طاہر نے تاریخ بغداد میں اپنی اسناد سے لکھا ہے ۔اور ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد ۳ ص ۹۷ پر نقل کیا ہے ۔جس کا خلاصہ یہ ہے :" حضرت عبداللہ بن عباس ،حضرت عمر کے ساتھ چل رہے تھے تو حضرت عمر نے ان سے کہا کہ ابن عباس !اگر تم نے اس بات کو چھپایا تو تم پر ایک اونٹ کی قربانی لازمی ہوگی ۔۔۔۔۔کیا اب بھی علی کے دل میں امر خلافت کے متعلق کوئی خلش باقی ہے ؟

ابن عباس نے کہا جی ہاں ! حضرت عمر نے کہا :کیا علی یہ سمجھتے ہیں کہ رسول خدا نے ان کی خلافت پر نص فرمائی تھی ؟

ابن عباس نے کہا جی ہاں ! تو حضرت عمر نے کہا کہ رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں متعدد مرتبہ ایسے اشارے ضرور کئے تھے لیکن ان میں بات کی وضاحت موجود نہ تھی ۔ رسول خدا نے اپنے مرض الموت میں اس خواہش کو لکھنا چاہا تھا اور ان کا پورا ارادہ ہوگیا تھا کہ علی کانام تحریری طور پر رکھ دیں ۔ میں نے اسلام ومسلمین کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا نہ کرنے دیا ۔

میری مخالفت کی وجہ سے رسول خدا(ص) بھی سمجھ گئے کہ میں ان کے مافی الضمیر کو تاڑ چکا ہوں اسی وجہ سے رسول خدا(ص) رک گئے ۔"

اگر یہ روایت درست ہے تو اس کامقصد یہ ہے کہ حضرت عمر کو جناب رسول خدا سے بھی زیادہ اسلام کا مفاد عزیز تھا ۔ اگر امر واقعہ یہی ہے تو پھر اللہ تعالی کو (نعوذ باللہ) چاہئیے تھا کہ وہ حضور اکرم کی بجائے حضرت عمر کو ہی نبوت عطا فرماتا ۔

۴۷

اگر ہم بحث وتحقیق کی سہولت کے مد نظر خلافت کے دنیاوی پہلو کو نظر انداز کردیں اور ان تاریخی حقائق سے بھی صرف نظر کرلیں جسے فریق اول پیش کرتا ہے اور ہم اپنے آپ کو صرف ان تاریخی حوالہ جات کا پابند بنالیں جسے فریق ثانی نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے تو بھی ہم کسی بہتر نتیجہ کو اخذ کرنے کے قابل رہیں گے ۔

اس مقام پر سوال یہ ہے کہ رسول خدا کی وفات کے بعد حضرت علی بر سر خلافت پر کیوں فائز نہ ہوسکے ؟

اس سوال کا اہل سنت کی کتابوں سے جواب دینے سے پہلے ہم یہ ضروری گزارش کریں گے کہ ہمارے یہ جوابات ،"اقناعی " ہوں گے ۔ کیونکہ اس موضوع کے متعلق اکثر تاریخی حقائق کو تلف کیا جاتا رہا ہے اور اموی اور عباسی دواقتدار میں ہر ممکن تحریف کی گئی ہے ۔

تاریخ میں ہم اس حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ وفات رسول (ص) کے بعد نسل ابو طالب کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا اور اس دور کی حکومتیں اہل بیت طاہرین سے بد ترین عناد رکھتی تھیں ۔ اور "الناس علی دین ملوکهم " کے تحت اس زمانہ کے اہل علم ،راوۃ و قضاۃ نے بھی آل محمد (ع) کی تنقیص کو طلب دنیا کا وسیلہ بنایا اور آل محمد (ص) کی عداوت کو سلاطین وحکام کیلئے ذریعہ تقرب قرار دیا اور آل محد(ع) کی جو فضیلت چھپانے کے باوجود نہ چھپ سکی تو اس جیسی روایت اغیار کیلئے وضع کی گئی ۔

اس کے باوجود آل محمد(ع) کی صداقت کا یہ معجزہ ہے کہ ان کے فضائل ومناقب آج بھی کتابوں میں موجود ہیں اور ان کی مظلومیت کی داستان بھی سیر وتواریخ میں وموجود ہے ۔

اس کتاب میں ہم بھی حتی المقدور مستند کتب تاریخ و سیر کے حوالے جات پیش کریں گے ۔

۴۸

دور معاویہ میں وضع حدیث

آل محمد(ع) اور بالخصوص حضرت علی علیہ السلام کی مظلومیت کیلئے درج ذیل واقعہ کو ملاحظہ فرمائیں :-

ابو الحسن علی بن محمد بن ابی سیف المدائنی اپنی کتاب "الاحداث" میں رقم طراز ہیں :-کتب معاویة الی عمّاله بعد عام الجماعة ان برئت الذمة ممّن روی شیا من فضل ابی تراب واهل بیته ،فقامت الخطباء فی کل کورة وعلی کل منبر یلعنون علیا و یبروؤن منه ویقعون فیه وفی اهل بیته و کتب معاویة الی عمّاله فی جمیع الافاق ،ان لایجیزوا لاحد من شیعة علی واهل بیته شهادة وکتب الیهم ان انظروا من قبلکم من شیعة عثمان و محبیه و اهل ولا یته و الذین یروون مناقبه وفضائله فادنوا مجالسهم وقربوهم واکرموهم واکتبوا لی بکل ما یروی کال رجل و اسمه و ابیه و عشریته ،ففعلوا ذالک حتی اکثروا فی فضائل عثمان ومناقبه لما کان یبعثه الیهم من الصّلات ثم کتب لی عمّاله ،ان الحدیث عن عثمان قد کثر فاذا جاء کم کتابی هذا فادعو االناس الی الروایة فی فضائل الصحابة والخلفاء الاولین ولا تترکوا خبرا یرویه احد من المسلمین فی ابی تراب الا واتو بمناقص له فی الصحابة فقرات کتابه علی الناس فرویت اخبار کثیرة فی مناقب الصحابة مفتعلة لاحقیقة لها ومضی علی ذالک الفقهاء والقضاة والولاة "

امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بعد معاویہ نے اپنے حکام کو لکھا کہ :جو شخص ابوتراب اور ان کے اہل بیت کی فضیلت کے متعلق کوئی روایت بیان کرے گا میں اس سے بری الذمہ ہوں ۔

اس خط کے بعد ہر مقام اور ہر منبر پر لوگ حضرت علی علیہ السلام پر لعنت کرنے

۴۹

لگے اور ان سے برائت کرتے اور ان کے اور ان کے خاندان کے عیوب بیان کرتے ۔

اس کے بعد معاویہ نے اپنے جملہ حکام کو لکھا کہ : علی اور ان کے اہل بیت کے ماننے والوں کی گواہی قبول نہ کی جائے ۔

اور پھر اپنے حکام کو مزید تحریر کیا کہ عثمان سے محبت رکھنے والے افراد اور ان کے فضائل ومناقب بیان کنے والے لوگوں کو اپنا مقرب بناؤ اور ان کا احترام کرو اور جو شخص عثمان کی فضیلت میں کوئی روایت بیان کرے تو اس شخص کانام ونسب اور بیان کردہ روایت میرے پاس بھیجو۔

حکام نے معاویہ کے ان احکام پر حرف بحرف عمل کیا اور فضائل عثمان بیان کرنے والوں کو گراں بہا انعامات سے نوازا گیا ۔اس کا نتیجہ نکلا کہ عثمان کے فضائل ومناقب بہت زیادہ ہوگئے ۔

پھر مستقبل کے خطرہ کو بھانپتے ہوئے معاویہ نے اپنے حکام کو تحریر کا کہ :فضائل عثمان کی حدیثیں بہت زیادہ ہوچکی ہیں اور جب تمھیں میرا یہ خط ملے لوگوں سے کہو کہ وہ اب صحابہ اور پہلے دوخلفاء کے فضائل کی احادیث تیار کریں اور ہاں اس امر کو ہمیشہ ملخوظ خاطر رکھنا کہ ابو تراب کی شان میں کوئی حدیث موجود ہو تو اس جیسی حدیث صحابہ کے لئے ضرور تیار کی جانی چاہیئے ۔

معاویہ کے یہ خطوط لوگوں کر پڑھ کر سنائے گئے ۔اس کے بعد صحابہ اور پہلے دونوں خلفاء کی شان میں دھڑا دھڑ حدیثیں تیار ہونے لگیں جن کا حقیقت س ے کوئی واسطہ نہ تھا ۔اس دور کے فقہاء ،قاضی اور حکام ان وضعی احادیث کو پھیلاتے رہے

اب مذکورہ سوال یعنی علی علیہ السلام سریر آرائے مسند خلافت کیوں نہ ہو سکے ؟

اس سوال کو حل کرنے کےلئے ہمیں حضرت علی کی سیرت اور زندگانی رسول میں ان کی فدا کاری اور ان کے صلح وجنگ کے فلسفہ کو مدنظر رکھنا ہوگا اور

۵۰

جب ان کی دور رسالت کی زندگی اور ان کا فلسفہ وصلح وجنگ ہمارے پیش نظر ہوگا تو ہم اس گتھی کو سلجھا سکیں گے ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس سوال کو سمجھنے کے لئے اسے دو بنیادی سوالوں میں تقسیم کردینا چاہیئے :-

۱:- کیا علی علیہ السلام کی اہلیت رکھتے تھے ؟

۲:- اگر رکھتے تھے تو انہیں خلافت سے محروم کیوں رکھا گیا ؟

پہلے سوال کے جواب کو سمجھنے کے لئے ہمیں علی کی زندگی کا مطالعہ کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ علی کے والدین کی فدا کاری وایثار کو بھی اپنے سامنے رکھنا ہوگا ۔

ابو طالب(ع) کی اسلامی خدمات

تاریخ اسلام کے معمولی طالب علم کو بھی اس حقیقت کا علم ہے کہ علی کے والد حضرت ابو طالب نے رسول خدا(ص) کی حفاظت کا فریضہ کس طرح سرانجام دیا ہے ۔اگر ہم حضرت ابو طالب کے ایثار کی داستان سنانا چاہیں تو اس کے لئے علیحدہ کتاب کی ضرورت ہوگی ۔

ذیل میں ہم سیرت ابن ہشام سے ابو طالب کی جان نثاری کا ہلکا سا نمونہ پیش کرتے ہیں :

جب رسول خدا(ص) نے تبلیغ دین شروع کی اور اہل مکہ توحید کی دعوت دی اور ان کے خود ساختہ معبودوں کی برائیاں بیان کیں تو قریش کو اس پر سخت غصہ آیا اور انہوں نے اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا کہ ابو طالب رسول خدا(ص) کے محافظ ونگران بنے ہوئے ہیں تو انہوں نے اشراف قریش اور ابو سفیان سرفہرست تھے ۔

قریش کا یہ وفد ابو طالب کے پاس گیا اور ان سے کہا : ابو طالب ! تمھار

۵۱

بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے اور ہمارے دین کے عیوب بیان کرتا ہے ۔آپ اسے بات سے روکیں یا آپ علیحدہ ہوجائیں ہم خود ہی نمٹ لیں گے ۔

ابو طالب نے ان لوگوں کو نرمی سے سمجھایا اور انہیں واپس بھیج دیا ۔چند دنوں کے بعد قریش دوبارہ ابو طالب کے پاس گئے ۔اس دفعہ بھی ابو طالب نے انہیں واپس بھیج دیا ۔ قریش کو جب یقین ہوگیا کہ ابو طالب محمد مصطفی کو ان کے حوالہ کرنے پر آمادہ نہیں ہیں تو وہ ایک خوبصورت نوجوان جس کانام عمارہ بن ولید تھا کو لے کر ابو طالب کے پاسے گئے ۔اور ان سے کہا ۔یہ عمارہ بن ولید ہے آپ اسے اپنے پاس ٹھہرا لیں اور اپنا بھتیجا ہمارے حوالے کردیں ۔

یہ سن کر ابو طالب نے کہا تم نے کتنا غلط فیصلہ کیا ہے ۔میں تو تمھارے بیٹے کو پالوں او راپنا تمہارے حوالے کردوں اور تم اسے قتل کردو۔ ابن سعد اپنی کتاب طبقات کبری جلد اول ص ۱۰۱ پر لکھتے ہیں : جب عبد المطلب کی وفات ہوئی تو ابو طالب نے رسول خدا کو اپنی گود میں لے لیا ۔ وہ رسول خدا(ص) سے اتنی محبت کرتے تھے جس کی نظیر نہیں ملتی ۔حد یہ ہے کہ انہیں اپنی اولاد سے بھی اتنی محبت نہیں تھی جتنی کہ وہ حضور اکرم (ص) سے کیا کرتے تھے ۔وہ رسول خدا(ص) کو اپنے پہلو میں سلایا کرتے تھے اور جہاں بھی جاتے رسول خدا (ص) کو اپنے ساتھ لے کر جاتے ۔

ابو طالب کو محمد مصطفی سے ایسا عشق تھا کہ انہیں کسی چیز سے ایسا عشق نہیں تھا ۔

شعب ابی طالب

اسی جان نثاری ک داستان کو ابن اثیر نے الکامل فی التاریخ کی جلد دوم ص ۵۹-۶۲ پر یوں بیان کیا ہے :

"جب قریش نے محسوس کیا کہ دین اسلام روز بروز ترقی کر رہا ہے اور ان

۵۲

کا قاصد عمرو بن العاص بھی نجاشی کے دربار سے ناکام ہوکر واپس آگیا ہے ۔تو انہوں نے اپنے سربراہوں کا اجلاس طلب کیا ۔ جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ بنی ہاشم کے ساتھ کسی قسم کا لین دین نہیں کریں گے اور ان کے ساتھ کوئی رشتہ ناتا نہیں کیا جائے گا ۔

انہوں نے اپنے اس فیصلہ کو لکھ کر کعبہ میں نصب کردیا ۔حضرت ابو طالب بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کو لے کر پہاڑ کی ایک گھاٹی میں چلے آئے ۔اس گھاٹی کو شعب ابی طالب کہا جاتا ہے ۔اس گھاٹی میں ابو طالب نے قریبا تین برس کا عرصہ گزارا ۔اس کے بعد اللہ تعالی نے رسول خدا (ص) کو وحی کے ذریعہ بتایا کہ صحیفہ کی عبارت کو دیمک چاٹ چکی ہے ۔اس میں صرف اللہ کانام باقی بچا ہے ۔آنحضرت (ص) نے اپنے چچا ابو طالب کو اس امر کی خبر دی ۔ابو طالب حضور اکرم کی کسی بات میں شک نہیں کرتے تھے ۔ جیسے ہی انہوں نے یہ خبر سنی تو فورا حرم میں آئے اور قریش سے کہا کہ تمہارے معاہدہ کو دیمک چاٹ چکی ہے ۔اس میں صرف اللہ کا نام باقی وہ گیا ہے ۔۔۔۔۔۔پھر انہوں نے فی البدیہہ یہ شعر پڑھے ۔

وقد کان فی امر الصحیفة عبرة متی ما یخبر غائب القوم یعجب

محاالله عنهم کفرهم وعقوقهموما نقموا من ناطق الحق معرب

فاصبح ما قالوا من الامر باطلا ومن یختلق مالیس بالحق یکذب

"صحیفہ کےمعاملہ سے عبرت حاصل کرو ۔جب ایک غیر موجود شخص خبر دے تو تعجب ہوتا ہے ۔اللہ نے ان کے کفر ونافرمانی کی عبارتوں کو مٹاڈالا ۔ان لوگوں کو حق کے داعی سے ناحق ضد تھی انہوں نے جو کچھ بھی کہا تھا باطل ہوگیا اور جو شخص جھوٹی بات بنائے گا وہ لازمی طور پر جھٹلایا جائے گا ۔"

جب تک ابو طالب زندہ رہے کسی کافر کی جراءت نہ تھی کہ وہ حضور(ص) کو اذیت دے سکتا ۔لیکن جب ان کی وفات ہوگئی تو کافروں کے لئے میدان صاف

۵۳

ہوگیا اور انہوں نے دل کھول کر نبی کریم (ص) کو تکلیفیں پہنچائیں ۔نبی کریم(ص) نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :-

"ما نالت قریش شیا منی اکرهه حتی مات ابو طالب " جب تک ابو طالب زندہ رہے قریش مجھے اذیت نہ دیتے تھے :(۱) ۔

ابو طالب کی فدا کاری اور جاں نثاری کو ہم مورخ ابن خلدون کے ان الفاظ سے ختم کرتے ہیں ۔

رسول خدا(ص)آٹھ برس کے تھے کہ ان کے دادا عبد المطلب کی وفات ہوئی ۔عبد المطلب نے اپنی وفات سے پہلے محمد مصطفی (ص) کو ابو طالب کے حوالہ کیا تھا ۔ ابو طالب نے احسن انداز میں نبی کریم (ص) کی پرورش فرمائی ۔ابو طالب رسول خدا کی زندگی کے تمام لمحات کو بغور دیکھا کرتے تھے ۔انہوں نے آپ کے لڑکپن اور جوانی کا بہت اچھا مشاہدہ کیا اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ رسول خدا دورجاہلیت کی تمام رسومات سے دور رہاکرتے تھے ۔ہجرت سے تین بر س قبل ابو طالب اور حضرت خدیجہ کی وفات ہوئی ۔شفیق چچا اور فدا کار زوجہ کی وفات رسول خدا(ص) کے لئے بہت بڑا صدمہ تھا ۔ابو طالب کے خوف سے سہمے ہوئے قریش نے حضور اکرم (ص) کو ستانا شروع کیا اور اپ کی جائے نماز پر غلاظت ڈالی گئی ۔(۲)

حضرت علی علیہ السلام کے والد ماجد کی فدا کاری کی یہ مختصر سی تاریخ تی اور حضرت علی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے رسول اسلام (ص) کی کیا خدمت سرانجام دی اوراق کتاب کی تنگ دامنی کی وجہ سے ہم اس کی تفصیل بتانے سے قاصر ہیں ۔ان کی عظمت کے لئے یہی بات ہی کافی ہے کہ جب ان کی وفات ہوئی تو رسول خدا(ص) نے ان کے کفن کے لئے اپنی قمیص اتار کردی اور جب قبر تیار ہوئی تو رسول خدا(ص) چچی کے جنازے سے پہلے خود لحد میں اترے ۔لحد کی مٹی کو اپنے ہاتھوں

____________________

(۱):- الکامل فی التاریخ جلد دوم ص ۵۹-۶۲

(۲):- تاریخ ابن خلدون جلد دوم ص ۱۷۱

۵۴

سے درست فرمایا اور کچھ دیر تک اپنی چچی اماں کے جنازہ کے ساتھ لحد میں لیٹے رہے(۱) ۔

ابو طالب جیسے عاشق رسول اور فاطمہ بنت اسد جیسی فداکار شخصیت کی گود میں حضرت علی (ع) پلے بڑھے اور جب ذرا بڑے ہوئے تو رسول خدا (ص) اور حضرت خدیجہ نے ان کی پرورش کی ۔

علی (ع) کی اسلامی خدمات

یہ علی علیہ السلام کا خاندانی پس منظر تھا اب آئیے دیکھیں کہ علی علیہ السلام کا ذاتی کردار کیا تھا ۔اور انہوں نے رسول اسلام(ص) کی کیا خدمات کی اور خود اسلام کی کس قدر انہوں نے خدمت کی ؟

جہاں تک علی او راسلام کے باہمی ارتباط کاتعلق ہے تو ہم اس مقام پر مصر کے اسکالر "عقاد"کے ساتھ ہم نوا ہوکر کہیں گے :

"انّ علیا کا المسلم الخالص علی سجیّته المثلی و انّ الدین الجدید لم یعرف قظّ اصدق اسلاما منه ولا اعمق نفاذا فیه ۔(۲)

علی (علیہ السلام) اپنی آئیڈیل فطرت کی وجہ سے مسلم خالص تھے اور نئے دین نے علی (ع) سے بڑھ کر کسی کے سچے اورگہرے اسلام کا مشاہدہ نہیں کیا تھا ۔

ڈاکٹر طہ حسین اپنی کتاب الفتنتہ الکبری ،عثمان بن عفان صفحہ ۱۰۱پر لکھتے ہیں :- جب رسول خدا(ص) نے اعلان نبوت فرمایا تو علی (ع) اس وقت بچے تھے ۔انہوں نے فورا اسلام قبول کیا اور اسلام کےبعد وہ رسول خدا (ص) اور حضرت خدیجۃ الکبری کی آغوش میں پرورش پاتے رہے ۔انہوں نے پوری زندگی میں کبھی بھی بتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا تھا ۔

سابقین اولین اور علی علیہ السلام میں سب سے واضح فرق یہ ہے کہ انہوں

____________________

(۱):-تاریخ ابن خلدون جلد دوم ص ۱۷۹-۱۸۰

(۲):-عبقریۃ الامام ۔ازاستاد عقاد ص ۱۳

۵۵

نے منزل وحی میں پرورش پائی اور یہ شرف ان کے علاوہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا ۔

اسی تربیت وکفالت کا اثر تھا کہ علی ایک عدیم المثال شخصیت بن کر ابھرے ۔بہر نوع علی علیہ السلام کی ذات کا مطالعہ علم النفس یا علم الاجتماع جس بھی حوالے سے کیاجائے علی ہر لحاظ سے لاجواب ،بینظیر اور لا شریک ہو کر سامنے آتے ہیں ۔

علی علیہ السلام کی ذات کو سمجھنے کے لئے درج ذیل مثالوں کو مدنظر رکھیں ۔علی علیہ السلام کی جانثاری اور فداکاری کیلئے شب ہجرت کے واقعات کا تصور کریں ۔

۱:- شب ہجرت

ابن ہشام لکھتے ہیں :- جب قریش نے دیکھا کہ اسلام روزبروز ترقی کر رہا ہے اور اسلام کے پیرو اب مکہ کے علاوہ دیگر شہروں بالخصوص یثرب میں بھی ہیں اور حضور کے کافی پیروکار ہجرت کرکے یثرب روانہ ہوچکے ہیں ۔اس کے ساتھ انہیں یہ یقین ہوگیا کہ رسول خدا (ص) بھی مکہ چھوڑ کر کسی وقت یثرب چلے جائیں گے ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے انہوں نے اپنے بزرگوں کو دارالندوہ میں دعوت دی ۔

کفار مکہ کے سربراہوں میں عتبہ ،شیبہ اور ابو سفیان بھی تھے ۔دوران بحث یہ مشورہ دیا گیا کہ حضور اکرم (ص)کو قید کیا جائے یا انہیں یہاں سے نکال دیا جائے ۔لیکن ان کے دونوں باتوں کو کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا ۔

چنانچہ رائے یہ قرار پائی کہ مکہ کے ہر قبیلہ کا ایک ایک فرد لیا جائے اور ایک مخصوص شب میں حضور (ص) کو قتل کردیا جائے ۔قتل میں زیادہ قبائل کی موجود گی کا یہ فائدہ ہوگا کہ عبد مناف کی اولاد بدلہ نہیں لے سکے گی ۔اور یوں ان کا خوف رائگاں ہوجائیگا ۔جب حضور نے متفرق قبائل کے افراد کو اپنے دروازے پہ دیکھا تو علی ابن ابی طالب کو حکم دیا کہ وہ ان کے بستر پر انہی کی چادر تان کر سوجائیں(۱) ۔

____________________

(۱):- سیرت ابن ہشام جلد دوم ص ۹۵

۵۶

ابو طالب کے فرزند کے لئے قتل گاہ قریش گل تھی ۔جب رسولخدا(ص) نے فرمایا کہ میری جان کو خطرہ ہے تم میرے بستر پر سوجاؤ تو اس وقت علی (ع) نے بڑے جذباتی انداز میں پوچھا : یا رسول اللہ کیا میرے سونے سے آپ کی جان بچ جائیگی ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! پھر حضور اکرم (ص) نے علی(ع) کو حکم دیا کہ وہ اہل مکہ کی تمام امانتیں ان تک پہنچائیں ۔

حضرت علی (ع) رسول خدا (ص) کی ہجرت کے بعد تین دن تک مکہ میں رہے اور کفار ومشرکین کی امانتیں واپس کیں ۔جب اس فریضہ سے فارغ ہوگئے تو پیادہ پا چلتے ہوئے مدینہ آئے اور پیدل چلنے کی وجہ سے انکے پاؤں متورم ہوچکے تھے(۱) ۔

۲:-موخات

ہجرت کے بعد رسول خدا (ص) نے مہاجرین وانصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔

جب علی علیہ السلام نے موخات کا یہ منظر دیکھا تو آبدیدہ ہوگئے ۔رسول خدا (ص) نے ان سے رونے کاسبب دریافت کیا تو انہوں نے عرض کیا آپ نے اپنے اصحاب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا ۔ تو رسول خدا(ص) نے فرمایا "انت اخی فی الدنیا و الآخرۃ " تو دنیا اور آخرت میں میر ا بھائی ہے(۲) ۔

۳:- جنگ احد اور علی (علیہ السلام)

جنگ احد میں جب اسلامی لشکر کو پسپائی ہوئی اور صحابہ کرام پہاڑوں پر چڑھ رہے تھے تو اس وقت حضرت علی (ع) پوری جانفشانی سے لڑتے رہے اور کوہ

____________________

(۱):- تاریخ ابن خلدون جلد دوم ص ۱۸۷ و ابن اثیر الکامل فی التاریخ جلد دوم ص ۷۵

(۲):-سیرت ابن ہشام جلد دوم ص ۹۵-۱۱۱

۵۷

استقامت بن کر دشمنوں سے نبرد آزمائی کرتے رہے ۔ الغرض ابو طالب کا بیٹا پورے میدان پر چھا گیا اسی مقام پر ہاتف غیبی نے ندا دی تھی "لا سیف الّا ذولفقار ولا فتی الاّ علی " اگر تلوار ہے تو ذولفقار ہے اور اگر جواں مرد ہے تو حیدر کرار ہے ۔

الغرض اسلام اور رسول اسلام کی حفاظت کے بعد جب واپس گھر آئے تو اپنی زوجہ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو اپنی تلوار پکڑاتے ہوئے یہ شعر کہے :-

افاطم هاک السیف غیر ذمیم فلست برعدیر ولا بملیم

لعمری لقد قاتلت فی حب احمدوطاعة رب بالعباد رحیم

فاطمہ ! یہ تلوار لو ،یہ تلوار تعریف کے قابل ہے ۔میدان جنگ میں میں ڈرنے اور کانپنے والا نہیں ہوں ۔

مجھے اپنی زندگی کی قسم میں نے محمد مصطفی کی محبت اور مہربان اللہ کی اطاعت میں جہاد کیا ہے(۱) ۔

۴:- علی(ع) اور تبلیغ براءت

محمد بن حسین روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ احمد بن مفضل نے بیان کیا وہ کہتے ہیں یہ روایت اسباط نے سدی سے کی ہے سعدی کہتے ہیں :-

جب سورہ براءۃ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو رسول خدا نے حضرت ابو بکر کو امیر حج بنایا اور وہ آیات بھی ان کے حوالے فرمائیں اور ارشاد فرمایا کہ تم حج کے اجتماع میں یہ آیات پڑھ کرسناؤ ۔

ابو بکر آیات لے کر روانہ ہوئے ،جب وہ مقام ذی الحلیفہ کے درختوں کے قریب پہنچے تو پیچھے سے علی (ع) ناقہ رسول پر سوار ہو کر آئے اور آیات ابو بکر سے لے لیں ۔حضرت ابو بکر رسول خدا(ص) کی خدمت میں واپس آئے اور عرض کیا

____________________

(۱):- تاریخ طبری جلد سوم ص ۱۵۴ ومروج الذہب مسعودی جلد دوم ص ۲۸۴۔

۵۸

یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا میرے متعلق کوئی آیت نازل ہوئی ؟ آپ نے فرمایا نہیں ۔میری طرف سے پیغام کو یا میں خود پہنچاسکتا ہوں یا علی (ع) پہنچاسکتے ہیں ۔(۱)

۵:- علی (ع) تبلیغ اسلام کے لیے یمن جاتے ہیں

رسول خدا نے یمن میں تبلیغ اسلام کے لئے خالد بن ولید کوروانہ فرمایا لیکن اس کی دعوت پر کوئی بھی شخص مشرف بہ اسلام نہ ہوا ۔تو اس کے بعد حضور اکرم(ص) نے حضرت علی (ع) کو اسلام کو مبلغ بنا کر یمن روانہ کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ خالد اور اس کے ساتھیوں کو واپس بھیج دیں ۔

حضرت علی نے جاتے ہی خالد کو اس کے دوستوں سمیت واپس روانہ کردیا اور اہل یمن کے سامنے رسول خدا(ص) کا خط پڑھ کرسنایا ۔جس کے نتیجہ میں قبیلہ ہمدان ایک ہی دن میں مسلمان ہوگیا(۲) ۔

۶:- ہارون محمدی

حضرت علی (ص) غزوہ تبوک کے علاوہ باقی تمام جنگوں میں شریک ہوئے اور غزوہ تبوک کے موقع پر بھی جناب رسولخدا(ص) نے انہیں مدینہ میں اپنا جانشین بنا کر ٹھہرایا ۔

امام مسلم بن حجاج نے اس واقعہ کو یوں نقل کیا ہے :

حدثنا یحیی التمیمی وابو جعفر محمد بن الصباح وعبد الله القواریری وسریح بن یونس عن سعید بن المسیب عن عامر بن سعد بن ابی وقاص عن ابیه قال قال رسول الله (ص) لعلی (ع) انت منی بمنزلة هارون من

____________________

(۱):- تاریخ طبری جلد سوم ص ۱۵۴

(۲):- ابن اثیر الکامل فی التاریخ جلد دوم ص ۳۵

۵۹

موسی غیر انه لانبی بعدی

وحدثنا ابوبکر بن شبیه عن سعد بن ابی وقاص قال خلف رسول الله (ص) علیا ،فی غزوه تبوک فقال یارسول الله (ص)تخلفنی فی النساء والصبیان ؟ قال اما ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسی غیر انه لانبی بعدی

سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے علی (ع) سے فرمایا تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی ۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔

سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا نے غزوہ تبوک کے موقع پر علی (ع) کو مدینہ میں ٹھہرنے کا حکم دیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں ٹھہرکر جارہے ہیں ؟

رسول خدا(ص) نے فرمایا : کیا تم اس اس بات پر راضی نہیں کہ تم کہ مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔

۷:- فاتح خیبر

جب صحابہ کرام خیبر فتح کرنے میں ناکام ہوئے اور لشکر یہود کے سامنے کئی دفعہ پشت دکھائی رسولخدا(ص) نے اعلان فرمایا :-لاعطین هذه الرّایة رجلا یحب الله ورسوله ویحبه الله ورسوله یفتح الله علی یدیه ۔"

"کل میں اسے علم دونگا جو مرد ہوگا ۔اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور اللہ اور رسول بھی اس سے محبت کرتے ہوں گے ۔اللہ اس کے ہاتھ سے خیبر فتح کرائے گا "۔

حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے پوری زندگی میں بس اس دن امارت کی

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

جناب ابوبکر کی اس حدیث کی تائید کردی ((ص) )_

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس مباحثے میں بھی حضرت زہراء (ع) غالب آئیں اور دلائی و برہان سے ثابت کردیا کہ وہ حدیث جس کا تم دعوی کر رہے ہو وہ صریح قرآنی نصوص کے خلاف ہے اور جو حدیث بھی قرآن کی صریح نص کے خلاف ہو وہ معتبر نہیں ہوا کرتی جناب ابوبکر مغلوب ہوئے اور آپ کے پاس اس کے سوا کوئی علاج نہ تھا کہ جناب فاطمہ (ع) کے جواب میں اسی سابقہ جواب کی تکرار کریں_

یہاں پر قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ یہی جناب عائشےہ جنہوں نے اس جگہ اپنے باپ کی بیان کردہ وضعی حدیث کی تائید کی ہے جناب عثمان کی خلافت کے زمانے میں ان کے پاس گئیں اور پیغمبر (ص) کی وراثت کا ادعا کیا_ جناب عثمان نے جواب دیا کیا تم نے گواہی نہیں دی تھی کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ ہم پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے؟ اور اسی سے تم نے جناب فاطمہ (ع) کو وراثت سے محروم کردیا تھا، اب کیسے آپ خود رسول (ص) کی وراثت کا مطالبہ کر رہی ہیں(۲) _

خلیفہ سے وضاحت کا مطالبہ

جناب زہراء (ع) پہلے مرحلہ میں کامیاب ہوئیں اور اپنی منطق اور برہان سے اپنے مد مقابل کو محکوم

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ س ۱۰۴_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۵_

۱۸۱

کردیا قرآن مجید کی آیات سے اپنی حقانیت کو ثابت کیا اور اپنے مد مقابل کو اپنے استدلال سے ناتواں بنادیا، آپ نے دیکھا کہ _ مد مقابل اپنی روش کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ہر قسم کے عمل کو بجالانے کے لئے حتی کہ حدیث بناکر پیش کرنے کی بھی پرواہ نہیں کرتا اور دلیل و برہان کے مقابلے میں قوت اور طاقت کا سہارا ڈھونڈتا ہے_

آپ نے تعجب کیا اور کہا عجیب انہوں نے میرے شوہر کی خلافت پر قبضہ کرلیا ہے_ یہ آیات قرآن کے مقابل کیوں سر تسلیم خم نہیں کرتے؟ کیوں اسلام کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں؟ کیوں جناب ابوبکر تو مجھے تحریر لکھ کر دیتے ہیں لیکن جناب عمر اسے پھاڑ ڈالتے ہیں؟ اے میرے خدا یہ کسی قسم کی حکومت ہے اور یہ کسی قضاوت ہے؟ تعجب در تعجب: جناب ابوبکر رسول خدا(ص) کی جگہ بیٹھتے ہیں، لیکن حدیث از خود بناتے ہیں تا کہ میرے حق کو پائمال کریں؟ ایسے افراد دین اور قرآن کے حامی ہوسکتے ہیں؟ مجھے فدک اور غیر فدک سے دلچسپی نہیں لیکن اس قسم کے اعمال کو بھی تحمل نہیں کرسکتی بالکل چپ نہ رہوں گی اور مجھے چاہیئے کہ تما لوگوں کے سامنے خلیفہ سے وضاحت طلب کروں اور اپنی حقانیت کو ثابت کروں اور لوگوں کو بتلادوں کہ جس خلیفہ کا تم نے انتخاب کیا ہے اس میں صلاحیت نہیں کہ قرآن اور اسلام کے دستور پر عمل کرے اپنی مرضی سے جو کام چاہتا ہے انجام دیتا ہے_ جی ہان مسجد جاؤں گی اور لوگوں کے سامنے تقریر کروں گی_

یہ خبر بجلی کی طرح مدینہ میں پھیل گئی اور ایک بم کی طرح پورے شہر کو ہلاک رکھ دیا، فاطمہ (ع) جو کہ پیغمبر(ص) کی نشانی ہیں چاہتی ہیں کہ تقریر کریں؟ لیکن

۱۸۲

کس موضوع پر تقریر ہوگی؟ اور خلیفہ اس پر کیا رد عمل ظاہر کرے گا؟ چلیں آپ کی تاریخی تقریر کو سنیں_

مہاجر اور انصار کی جمعیت کا مسجد میں ہجوم ہوگیا، بنی ہاشم کی عورتیں جناب زہراء (ع) کے گھر گئیں اور اسلام کی بزرگ خاتون کو گھر سے باہر لائیں، بنی ہاشم کی عورتیں آپ کو گھیرے میں لئے ہوئے تھیں، بہت عظمت اور جلال کے ساتھ آپ چلیں، پیغمبر(ص) کی طرح قدم اٹھا رہی تھیں، جب مسجد میں داخل ہوئیں تو پردہ آپ کے سامنے لٹکا دیاگیا، باپ کی جدائی اور ناگوار حوادث نے جناب فاطمہ (ع) کو منقلب کردیا کہ آپ کے جگر سے آہ و نالہ بلند ہوا اور اس جلا دینے والی آواز نے مجمع پر بھی اثر کیا اور لوگ بلند آواز سے رونے لگے_

آپ تھوڑی دیر کے لئے ساکت رہیں تا کہ لوگ آرام میں آجائیں اس کے بعد آپ نے گفتگو شروع کی، اس کے بعد پھر ایک دفعہ لوگوں کے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں آپ پھر خاموش ہوگئیں یہاں تک کہ لوگ اچھی طرح ساکت ہوگئے اس وقت آپ نے کلام کا آغاز کیا اور فرمایا:

جناب فاطمہ (ع) کی دہلا اور جلادینے والی تقریر

میں خدا کی اس کی نعمتوں پر ستائشے اور حمد بجالاتی ہوں اور اس کی توفیقات پر شکر ادا کرتی ہوں اس کی بے شمار نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا بجالاتی ہوں وہ نعمتیں کہ جن کی کوئی انتہانہیں اور نہیں ہوسکتا کہ

۱۸۳

ان کی تلافی اور تدارک کیا جاسکے ان کی انتہا کاتصور کرنا ممکن نہیں، خدا ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کو جانیں اور ان کا شکریہ ادا کریں تا کہ اللہ تعالی نعمتوں کو اور زیادہ کرے_ خدا ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کو جانیں اور ان کا شکرہ ادا کریں تا کہ اللہ تعالی مقامی نعمتوں کو اور زیادہ کرے_ خدا نے ہم سے حمد و ثنا کو طلب کیا ہے تا کہ وہ اپنی نعمتوں کو ہمارے لئے زیادہ کرے_

میں خدا کی توحید اور یگانگی گواہی دیتی ہوں توحید کا وہ کلمہ کہ اخلاص کو اس کی روح اور حقیقت قرار دیا گیا ہے اور دل میں اس کی گواہی دے تا کہ اس سے نظر و فکر روشن ہو، وہ خدا کہ جس کو آنکھ کے ذریعے دیکھا نہیں جاسکتا اور زبان کے ذریعے اس کی وصف اور توصیف نہیں کی جاسکتی وہ کس طرح کا ہے یہ وہم نہیں آسکتا_ عالم کو عدم سے پیدا کیا ہے اور اس کے پیدا کرنے میں وہ محتاج نہ تھا اپنی مشیئت کے مطابق خلق کیا ہے_ جہان کے پیا کرنے میں اسے اپنے کسی فائدے کے حاصل کرنے کا قصد نہ تھا_ جہان کو پیدا کیا تا کہ اپنی حکمت اور علم کو ثابت کرے اور اپنی اطاعت کی یاد دہانی کرے، اور اپنی قدرت کا اظہار کرے، اور بندوں کو عبادت کے لئے برانگیختہ کرے، اور اپنی دعوت کو وسعت دے، اپنی اطاعت کے لئے جزاء مقرر کی اور نافرمانی کے لئے سزا معین فرمائی_ تا کہ اپنے بندوں کو عذاب سے نجات دے اور بہشت کی طرف لے جائے_

میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے والد محمد(ص) اللہ کے رسول اور اس کے بندے ہیں، پیغمبری کے لئے بھیجنے سے پہلے اللہ نے ان کو چنا اور قبل

۱۸۴

اس کے کہ اسے پیدا کرے ان کا نام محمّد(ص) رکھا اور بعثت سے پہلے ان کا انتخاب اس وقت کیا جب کہ مخلوقات عالم غیب میں پنہاں اور چھپی ہوئی تھی اور عدم کی سرحد سے ملی ہوئی تھی، چونکہ اللہ تعالی ہر شئی کے مستقبل سے باخبر ہے اور حوادث دہر سے مطلع ہے اور ان کے مقدرات کے موارد اور مواقع سے آگاہ ہے ، خدا نے محمّد(ص) کو مبعوث کیا تا کہ اپنے امر کو آخر تک پہنچائے اور اپنے حکم کو جاری کردے، اور اپنے مقصد کو عملی قرار دے_ لوگ دین میں تفرق تھے اور کفر و جہالت کی آگ میں جل رہے تھے، بتوں کی پرستش کرتے تھے اور خداوند عالم کے دستورات کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے_

پس حضرت محمّد(ص) کے وجود مبارک سے تاریکیاں چھٹ گئیں اور جہالت اور نادانی دلوں سے دور ہوگئی، سرگردانی اور تحیر کے پردے آنکھوں سے ہٹا دیئے گئے میرے باپ لوگوں کی ہدایت کے لئے کھڑے ہوئے اور ان کو گمراہی سے نجات دلائی اور نابینا کو بینا کیا اور دین اسلام کی طرف راہنمائی فرمائی اور سیدھے راستے کی طرف دعوت دی، اس وقت خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کی مہربانی اور اس کے اختیار اور رغبت سے اس کی روح قبض فرمائی_ اب میرے باپ اس دنیا کی سختیوں سے آرام میں ہیں اور آخرت کے عالم میں اللہ تعالی کے فرشتوں اور پروردگار کی رضایت کے ساتھ اللہ تعالی کے قرب میں زندگی بسر کر رہے ہیں، امین اور وحی کے لئے چتے ہوئے پیغمبر پر درود ہو_

آپ نے اس کے بعد مجمع کو خطاب کیا اور فرمایا لوگو تم اللہ تعالی

۱۸۵

کے امر اور نہی کے نمائندے اور نبوت کے دین اور علوم کے حامل تمہیں اپنے اوپر امین ہونا چاہیئےم ہو جن کو باقی اقوام تک دین کی تبلیغ کرنی ہے تم میں پیغمبر(ص) کا حقیقی جانشین موجود ہے اللہ تعالی نے تم سے پہلے عہد و پیمان اور چمکنے والانور ہے اس کی چشم بصیرت روش اور رتبے کے آرزومند ہیں اس کی پیروی کرنا انسان کو بہشت رضوان کی طرف ہدایت کرتا ہے اس کی باتوں کو سننا نجات کا سبب ہوتا ہے اس کے وجود کی برکت سے اللہ تعالی کے نورانی دلائل اور حجت کو دریافت کیا جاسکتا ہے اس کے وسیلے سے واجبات و محرمات اور مستحبات و مباح اور شریعت کے قوانین کو حاصل کیا جاسکتا ہے_

اللہ تعالی نے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا ہے___ اللہ نے نماز واجب کی تا کہ تکبر سے روکاجائے_ زکوة کو وسعت رزق اور تہذیب نفس کے لئے واجب قرار دیا_ روزے کو بندے کے اخلاص کے اثبات کے لئے واجب کیا_ حج کو واجب کرنے سے دین کی بنیاد کو استوار کیا، عدالت کو زندگی کے نظم اور دلوں کی نزدیکی کے لئے ضروری قرار دیا، اہلبیت کی اطاعت کو ملت اسلامی کے نظم کے لئے واجب قرار دیا اور امامت کے ذریعے اختلاف و افتراق کا سد باب کیا_ امر بالمعروف کو عمومی مصلحت کے ماتحت واجب قرار دیا، ماں باپ کے ساتھ نیکی کو ان کے غضب سے مانع قرار دیا، اجل کے موخر ہونے اور نفوس کی زیادتی کے لئے صلہ رحمی کا دستور دیا_

۱۸۶

قتل نفس کو روکنے کے لئے قصاص کو واجب قرار دیا_ نذر کے پورا کرنے کو گناہوں گا آمرزش کا سبب بنایا_ پلیدی سے محفوظ رہنے کی غرض سے شراب خوری پر پابندی لگائی، بہتان اور زنا کی نسبت دینے کی لغت سے روکا، چوری نہ کرنے کو پاکی اور عفت کا سبب بتایا_ اللہ تعالی کے ساتھ شرک، کو اخلاص کے ماتحت ممنوع قرار دیا_

لوگو تقوی اور پرہیزگاری کو اپناؤ اور اسلام کی حفاظت کرو اور اللہ تعالی کے اوامر و نواحی کی اطاعت کرو، صرف علماء اور دانشمندی خدا سے ڈرتے ہیں_

اس کے بعد آپ نے فرمایا، لوگو میرے باپ محمد(ص) تھے اب میں تمہیں ابتداء سے آخر تک کے واقعات اور امور سے آگاہ کرتی ہوں تمہیں علم ہونا چاہیئےہ میں جھوٹ نہیں بولتی اور گناہ کا ارتکاب نہیں کرتی_

لوگو اللہ تعالی نے تمہارے لئے پیغمبر(ص) جو تم میں سے تھا بھیجا ہے تمہاری تکلیف سے اسے تکلیف ہوتی تھی اور وہ تم سے محبت کرتے تھے اور مومنین کے حق میں مہربان اور دل سوز تھے_

لوگو وہ پیغمبر میرے باپ تھے نہ تمہاری عورت کے باپ، میرے شوہر کے چچازاد بھائی تھے نہ تمہارے مردوں کے بھائی، کتنی عمدہ محمّد(ص) سے نسبت ہے_ جناب محمد(ص) نے اپنی رسالت کو انجام دیا اور مشرکوں کی راہ و روش پر حملہ آور ہوئے اور ان کی پشت پر سخت ضرب وارد کی ان کا گلا پکڑا اور دانائی اور نصیحت سے خدا کی طرف دعوت دی، بتوں کو توڑا اور ان کے سروں کو سرنگوں کیا کفار نے شکست کھائی اور شکست کھا کر

۱۸۷

بھاگے تاریکیاں دور ہوگئیں اور حق واضح ہوگیا، دین کے رہبر کی زبان گویا ہوئی اور شیاطین خاموش ہوگئے، نفاق کے پیروکار ہلاک ہوئے کفر اور اختلاف کے رشتے ٹوٹ گئے گروہ اہلبیت کی وجہ سے شہادت کا کلمہ جاری کیا، جب کہ تم دوزخ کے کنارے کھڑے تھے اور وہ ظالموں کا تر اور لذیذ لقمہ بن چکے تھے اور آگ کی تلاش کرنے والوں کے لئے مناسب شعلہ تھے_ تم قبائل کے پاؤں کے نیچے ذلیل تھے گندا پانی پیتے تھے اور حیوانات کے چمڑوں اور درختوں کے پتوں سے غذا کھاتے تھے دوسروں کے ہمیشہ ذلیل و خوار تھے اور اردگرد کے قبائل سے خوف و ہراس میں زندگی بسر کرتے تھے_

ان تمام بدبختیوں کے بعد خدا نے محمد(ص) کے وجود کی برکت سے تمہیں نجات دی حالانکہ میرے باپ کو عربوں میں سے بہادر اور عرب کے بھیڑیوں اور اہل کتاب کے سرکشوں سے واسطہ تھا لیکن جتنا وہ جنگ کی آگ کو بھڑکاتے تھے خدا سے خاموش کردیتا تھا، جب کوئی شیاطین میں سے سر اٹھاتا یا مشرکوں میں سے کوئی بھی کھولتا تو محمد(ص) اپنے بھائی علی (ع) کو ان کے گلے میں اتار دیتے اور حضرت علی (ع) ان کے سر اور مغز کو اپنی طاقت سے پائمال کردیتے اور جب تک ان کی روشن کی ہوئی آگ کو اپنی تلوار سے خاموش نہ کردیتے جنگ کے میدان سے واپس نہ لوٹتے اللہ کی رضا کے لئے ان تمام سختیوں کا تحمل کرتے تھے اور خدا کی راہ میں جہاد کرتے تھے، اللہ کے رسول کے نزدیک تھے_ علی (ع) خدا دوست تھے، ہمیشہ جہاد کے لئے آمادہ تھے، وہ تبلیغ اور جہاد کرتے تھے اور تم اس حالت میں آرام اور خوشی میں خوش و خرم زندگی گزار

۱۸۸

رہے تھے اور کسی خبر کے منتظر اور فرصت میں رہتے تھے دشمن کے ساتھ لڑائی لڑنے سے ا جتناب کرتے تھے اور جنگ کے وقت فرار کرجاتے تھے_

جب خدا نے اپنے پیغمبر کو دوسرے پیغمبروں کی جگہ کی طرف منتقل کیا تو تمہارے اندرونی کینے اور دوروئی ظاہر ہوگئی دین کا لباس کہنہ ہوگیا اور گمراہ لوگ باتیں کرنے لگے، پست لوگوں نے سر اٹھایا اور باطل کا اونٹ آواز دیتے لگا اور اپنی دم ہلانے لگا اور شیطان نے اپنا سرکمین گاہ سے باہر نکالا اور تمہیں اس نے اپنی طرف دعوت دی اور تم نے بغیر سوچے اس کی دعوت قبول کرلی اور اس کا احترام کیا تمہیں اس نے ابھارا اور تم حرکت میں آگئے اس نے تمہیں غضبناک ہونے کا حکم دیا اور تم غضبناک ہوگئے_

لوگو وہ اونٹ جو تم میں سے نہیں تھا تم نے اسے با علامت بناکر اس جگہ بیٹھایا جو اس کی جگہ نہیں تھی، حالانکہ ابھی پیغمبر(ص) کی موت کو زیادہ وقت نہیں گزرا ہے ابھی تک ہمارے دل کے زخم بھرے نہیں تھے اور نہ شگاف پر ہوئے تھے، ابھی پیغمبر(ص) کو دفن بھی نہیں کیا تھا کہ تم نے فتنے کے خوف کے بہانے سے خلافت پر قبضہ کرلیا، لیکن خبردار رہو کہ تم فتنے میں داخل ہوچکے ہو اور دوزخ نے کافروں کا احاطہ کر رکھا ہے_ افسوس تمہیں کیا ہوگیا ہے اور کہاں چلے جارہے ہو؟ حالانکہ اللہ کی کتاب تمہارے درمیان موجود ہے اور اس کے احکام واضح اور اس کے اوامر و نواہی ظاہر ہیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تمہارا ارادہ ہے کہ قرآن سے اعراض اور روگردانی

۱۸۹

کرلو؟ یا قرآن کے علاوہ کسی اور ذریعے سے قضاوت اور فیصلے کرتا چاہتے تو؟ لیکن تم کو علم ہونا چاہیئے کہ جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو اختیار کرے گا وہ قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا، اتنا صبر بھی نہ کرسکے کہ وہ فتنے کی آگ کو خاموش کرے اور اس کی قیادت آسان ہوجائے بلکہ آگ کو تم نے روشن کیا اور شیطان کی دعوت کو قبول کرلیا اور دین کے چراغ اور سنت رسول خدا(ص) کے خاموش کرنے میں مشغول ہوگئے ہو_ کام کو الٹا ظاہر کرتے ہو اور پیغمبر(ص) کے اہلبیت کے ساتھ مکر و فریب کرتے ہو، تمہارے کام اس چھری کے زخم اور نیزے کے زخم کی مانند ہیں جو پیٹ کے اندر واقع ہوئے ہوں_

کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ ہم پیغمبر(ص) سے میراث نہیں لے سکتے، کیا تم جاہلیت کے قوانین کی طرف لوٹنا چاہتے ہو ؟ حالانکہ اسلام کے قانون تمام قوانین سے بہتر ہیں، کیا تمہیں علم نہیں کہ میں رسول خدا(ص) کی بیٹی ہوں کیوں نہیں جانتے ہو اور تمہارے سامنے آفتاب کی طرح یہ روشن ہے_ مسلمانوں کیا یہ درست ہے کہ میں اپنے باپ کی میراث سے محروم ہوجاؤں؟ اے ابوبکر آیا خدا کی کتاب میں تو لکھا ہے کہ تم اپنے باپ سے میراث لو اور میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رہوں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں کہتا کہ سلیمان داود کے وارث ہوئے_

''ورث سلیمان داؤد''

کیا قرآن میں یحیی علیہ السلام کا قول نقل نہیں ہوا کہ خدا سے انہوں نے عرض کی پروردگار مجھے فرزند عنایت فرما تا کہ وہ میرا وارث

۱۹۰

قرار پائے او آل یعقوب کا بھی وارث ہو_

کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ بعض رشتہ دار بعض دوسروں کے وارث ہوتے ہیں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ اللہ نے حکم دیا کہ لڑکے، لڑکیوں سے دوگنا ارث لیں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ تم پر مقرر کردیا کہ جب تمہارا کوئی موت کے نزدیک ہو تو وہ ماں، باپ اور رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے کیونکہ پرہیزگاروں کے لئے ایسا کرنا عدالت کا مقتضی ہے_

کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں باپ سے نسبت نہیں رکھتی؟ کیا ارث والی آیات تمہارے لئے مخصوص ہیں اور میرے والد ان سے خارج ہیں یا اس دلیل سے مجھے میراث سے محروم کرتے ہو جو دو مذہب کے ایک دوسرے سے میراث نہیں لے سکتے؟ کیا میں اور میرا باپ ایک دین پر نہ تھے؟ آیا تم میرے باپ اور میرے چچازاد علی (ع) سے قرآن کو بہتر سمجھتے ہو؟

اے ابوبکر فدک اور خلافت تسلیم شدہ تمہیں مبارک ہو، لیکن قیامت کے دن تم سے ملاقات کروں گی کہ جب حکم اور قضاوت کرنا خدا کے ہاتھ میں ہوگا اور محمد(ص) بہترین پیشوا ہیں_

اے قحافہ کے بیٹھے، میرا تیرے ساتھ وعدہ قیامت کا دن ہے کہ جس دن بیہودہ لوگوں کا نقصان واضح ہوجائے گا اور پھر پشیمان ہونا فائدہ نہ دے گا بہت جلد اللہ تعالی کے عذاب کو دیکھ لوگے آپ اس کے بعد انصار کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا:

اے ملت کے مددگار جوانو اور اسلام کی مدد کرنے والو کیوں حق

۱۹۱

کے ثابت کرنے میں سستی کر رہے ہو اور جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اس سے خواب غفلت میں ہو؟ کیا میرے والد نے نہیں فرمایا کہ کسی کا احترام اس کی اولاد میں بھی محفوظ ہوتا ہے یعنی اس کے احترام کی وجہ سے اس کی اولاد کا احترام کیا کرو؟ کتنا جلدی فتنہ برپا کیا ہے تم نے؟ اور کتنی جلدی ہوی اور ہوس میں مبتلا ہوگئے ہو؟ تم اس ظلم کے ہٹانے میں جو مجھ پر ہوا ہے قدرت رکھتے ہو اور میرے مدعا اور خواستہ کے برلانے پر طاقت رکھتے ہو_ کیا کہتے ہو کہ محمد(ص) مرگئے؟ جی ہاں لیکن یہ ایک بہت بڑی مصیبت ہے کہ ہر روز اس کا شگاف بڑھ رہا ہے اور اس کا خلل زیادہ ہو رہا ہے_ آنجناب(ص) کی غیبت سے زمین تاریک ہوگئی ہے سورج اور چاند بے رونق ہوگئے ہیں آپ کی مصیبت پر ستارے تتربتر ہوگئے ہیں، امیدیں ٹوٹ گئیں، پہاڑ متزلزل اور ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں پیغمبر(ص) کے احترام کی رعایت نہیں کی گئی، قسم خدا کی یہ ایک بہت بڑی مصیبت تھی کہ جس کی مثال ابھی تگ دیکھی نہیں گئی اللہ کی کتاب جو صبح اور شام کو پڑھی جا رہی ہے آپ کی اس مصیبت کی خبر دیتی ہے کہ پیغمبر(ص) بھی عام لوگوں کی طرح مریں گے، قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ محمد(ص) بھی گزشتہ پیغمبروں کی طرح ہیں، اگر آپ(ص) مرے یا قتل کئے گئے تو تم دین سے پھر جاوگے، جو بھی دین سے خارج ہوگا وہ اللہ پر کوئی نقصان وارد نہیں کرتا خدا شکر ادا کرنے والوں کو جزا عنایت کرتا ہے(۱) _

اے فرزندان قبلہ: آیا یہ مناسب ہے کہ میں باپ کی میراث سے محروم

____________________

۱) سورہ آل عمران_

۱۹۲

رہوں جب کہ تم یہ دیکھ رہے ہو اور سن رہے ہو اور یہاں موجود ہو میری پکار تم تک پہنچ چکی ہے اور تمام واقعہ سے مطلع ہو، تمہاری تعداد زیادہ ہے اور تم طاقت ور اور اسلحہ بدست ہو، میرے استغاثہ کی آواز تم تک پہنچتی ہے لیکن تم اس پر لبیک نہیں کہتے میری فریاد کو سنتے ہو لیکن میری فریاد رسی نہیں کرتے تم بہادری میں معروف اور نیکی اور خیر سے موصوف ہو، خود نخبہ ہو اور نخبہ کی اولاد ہو تم ہم اہلبیت کے لئے منتخب ہوئے ہو، عربوں کے ساتھ تم نے جنگیں کیں سختیوں کو برداشت کیا، قبائل سے لڑے ہو، بہادروں سے پنجہ آزمائی کی ہے جب ہم اٹھ کھڑے ہوتے تھے تم بھی اٹھ کھڑے ہوتے تھے ہم حکم دیتے تھے تم اطاعت کرتے تھے اسلام نے رونق پائی اور غنائم زیادہ ہوئے اور مشرکین تسلیم ہوگئے اور ان کا جھوٹا وقار اور جوش ختم ہوگیا اور دین کا نظام مستحکم ہوگیا_

اے انصار متحیر ہوکر کہاں جارہے ہو؟ حقائق کے معلوم ہو جانے کے بعد انہیں کیوں چھپانے ہو؟ کیوں ایمان لے آنے کے بعد مشرک ہوئے ہو؟ برا حال ہو ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے ایمان اور عہد اور پیمان کو توڑا ڈالا ہو اور ارادہ کیا ہو کہ رسول خدا(ص) کو شہر _ بدر کریں اور ان سے جنگ کا آغاز کریں کیا منافقین سے ڈرتے ہو؟ حالانکہ تمہیں تو صرف خدا سے ڈرنا چاہیئے تھا_ لوگو میں گویا دیکھ رہی کہ تم پستی کی طرف جارہے ہو، اس آدمی کو جو حکومت کرنے کا اہل ہے اسے دور ہٹا رہے ہو اور تم گوشہ میں بیٹھ کر عیش اور نوش

۱۹۳

میں مشغول ہوگئے ہو زندگی اور جہاد کے وسیع میدان سے قرار کر کے راحت طلبی کے چھوٹے محیط میں چلے گئے ہو، جو کچھ تمہارے اندر تھا اسے تم نے ظاہر کردیا ہے اور جو کچھ پی چکے تھے اسے اگل دیا ہے لیکن آگاہ رہو اگر تم اور تمام روئے زمین کے لوگ کافر ہوجائیں تو خدا تمہارا محتاج نہیں ہے_

اے لوگو جو کچھ مجھے کہنا چاہیئے تھا میں نے کہہ دیا ہے حالانکہ میں جانتی ہوں کہ تم میری مدد نہیں کروگے_ تمہارے منصوبے مجھ سے مخفی نہیں، لیکن کیا کروں دل میں ایک درد تھا کہ جس کو میں نے بہت ناراحتی کے باوجود ظاہر کردیا ہے تا کہ تم پر حجت تمام ہوجائے_ اب فدک اور خلافت کو خوب مضبوطی سے پکڑے رکھو لیکن تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس میں مشکلات اور دشواریاں موجود ہیں اور اس کا ننگ و عار ہمیشہ کے لئے تمہارے دامن پہ باقی رہ جائے گا، اللہ تعالی کا خشم اور غصہ اس پر مزید ہوگا اور اس کی جزا جہنم کی آگ ہوگی اللہ تعالی تمہارے کردار سے آگاہ ہے، بہت جلد ستم گار اپنے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے_ لوگو میں تمہارے اس نبی کی بیٹی ہوں کہ جو تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتا تھا_ جو کچھ کرسکتے ہو اسے انجام دو ہم بھی تم سے انتقام لیں گے تم بھی انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں(۱) _

____________________

۱) احتجاج طبرسی، طبع نجف ۱۳۸۶ ھ ج ۱ ۱۳۱_۱۴۱ _ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۱_ کتاب بلاغات النسائ، تالیف احمد بن طاہر، متولد ۲۰۴ ہجری ص ۱۲_ کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۶_

۱۹۴

خلیفہ کا ردّ عمل

حضرت زہرا (ع) نے اپنے آتشین بیان کو ہزاروں کے مجمع میں جناب ابوبکر کے سامنے کمال شجاعت سے بیان کیا اور اپنی مدلل اور مضبوط تقریر میں جناب ابوبکر سے فدک لینے کی وضاحت طلب کی اور ان کے ناجائز قبضے کو ظاہر کیا اور جو حقیقی خلیفہ تھے ان کے کمالات اور فضائل کو بیان فرمایا_

لوگ بہت سخت پریشان ہوئے اور اکثر لوگوں کے افکار جناب زہراء (ع) کے حق میں ہوگئے_ جناب ابوبکر بہت کشمکش__ _ میں گھر گئے تھے، اگر وہ عام لوگوں کے افکار کے مطابق فیصلہ دیں اور فدک جناب زہراء (ع) کو واپس لوٹا یں تو ان کے لئے دو مشکلیں تھیں_

ایک: انہوں نے سوچاگہ اگر حضرت زہراء (ع) اس معاملے میں کامیاب ہوگئیں اور ان کی بات تسلیم کرلی گئی تو ''انہیں اس کا ڈر ہوا کہ'' کل پھر آئیں گی اور خلافت اپنے شوہر کو دے دینے کا مطالبہ کریں گی اور پھر پر جوش تقریر سے اس کا آغاز کریں گے_

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ میں نے علی بن فاروقی سے جو مدرسہ غربیہ بغداد کے استاد تھے عرض کی آیا جناب فاطمہ (ع) اپنے دعوے میں سچی تھیں یا نہ، انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود کہ جناب ابوبکر انہیں سچا جانتے تھے ان کو فدک واپس کیوں نہ کیا؟ استاد ہنسے اور ایک عمدہ جواب دیا اور کہا اگر اس دن فدک فاطمہ (ع) کو واپس کردیتے تو دوسرے دن وہ واپس آتیں اور خلافت کا اپنے شوہر کے لئے مطالبہ کردیتیں اور جناب ابوبکر

۱۹۵

کو خلافت کے مقام سے معزول قرار دے دیتیں کیونکہ جب پہلے سچی قرار پاگئیں تو اب ان کے لئے کوئی عذر پیش کرنا ممکن نہ رہتا(۱) _

دوسرے: اگر جناب ابوبکر جناب فاطمہ (ع) کی تصدیق کردیتے تو انہیں اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑتا اس طرح سے خلافت کے آغاز میں ہی اعتراض کرنے والوں کا دروازہ کھل جاتا اور اس قسم کا خطرہ حکومت اور خلافت کے لئے قابل تحمل نہیں ہوا کرتا_

بہرحال جناب ابوبکر اس وقت ایسے نظر نہیں آرہے تھے کہ وہ اتنی جلدی میدان چھوڑ جائیں گے البتہ انہوں نے اس قسم کے واقعات کے رونما ہونے کی پہلے سے پیشین گوئی کر رکھی تھی آپ نے سوچا اس وقت جب کہ موجودہ حالات میں ملت کے عمومی افکار کو جناب زہراء (ع) نے اپنی تقری سے مسخر کرلیا ہے یہ مصلحت نہیں کہ اس کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے لیکن اس کے باوجود اس کا جواب دیا جانا چاہیئے اور عمومی افکار کو ٹھنڈا کیا جائے، بس کتنا___ اچھا ہے کہ وہی سابقہ پروگرام دھرایا جائے اور عوام کو غفلت میں رکھا جائے اور دین اور قوانین کے اجراء کے نام سے جناب فاطمہ (ع) کو چپ کرایا جائے اور اپنی تقصیر کو ثابت کیا جائے، جناب ابوبکر نے سوچا کہ دین کی حمایت اور ظاہری دین سے دلسوزی کے اظہار سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کیا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعے ہر چیز کو یہاں تک کہ خود دین کو بھی نظرانداز کرایا جاسکتا ہے_ جی ہاں دین سے ہمدردی کے مظاہرے سے دین کے ساتھ دنیا میں مقابلہ کیا جاتا ہے_

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۸۴_

۱۹۶

جناب ابوبکر کا جواب

رسول اللہ (ص) کی بیٹی کے قوی اور منطقی اور مدلل دلائل کے مقابلے میں جناب ابوبکر نے ایک خاص رویہ اختیار کیا اور کہا کہ اے رسول خدا(ص) کی دختر آپ کے باپ مومنین پر مہربان اور رحیم اور بلاشک محمّد(ص) آپ کے باپ ہیں اور کسی عورت کے باپ نہیں اور آپ کے شوہر کے بھائی ہیں اور علی (ع) کو تمام لوگوں پر ترجیح دیا کرتے تھے، جو شخص آپ کو دوست رکھے گا وہی نجات پائے گا اور جو شخص آپ سے دشمنی کرے گا وہ خسارے میں رہے گا، آپ پیغمبر(ص) کی عترت ہیں، آپ نے ہمیں خیر و صلاح اور بہشت کی طرف ہدایت کی ہے، اے عورتوں میں سے بہترین عورت اور بہتر پیغمبر(ص) کی دختر، آپ کی عظمت اور آپ کی صداقت اور فضیلت اور عقل کسی پر مخفی نہیں ہے_ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ آپ کو آپ کے حق سے محروم کرے، لیکن خدا کی قسم میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان سے تجاوز نہیں کرتا جو کام بھی انجام دیتا ہوں آپ کے والد کی اجازت سے انجام دیتا ہوں قافلہ کا سردار تو قافلے سے جھوٹ نہیں بولتا خدا کی قسم میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ فرما رہے تھے کہ ہم پیغمبر(ص) سوائے علم و دانش اور نبوت کے گھر اور جائیدار و وراثت میں نہیں چھوڑتے جو مال ہمارا باقی رہ جائے وہ مسلمانوں کے خلیفہ کے اختیار میں ہوگا، میں فدک کی آمدنی سے اسلحہ خریدتا ہوں اور کفار سے جنگ کرونگا، مبادا آپ کو خیال ہو کہ میں نے تنہا فدک پر قبضہ کیا ہے بلکہ اس اقدام میں تمام مسلمان میرے

۱۹۷

موافق اور شریک ہیں، البتہ میرا ذاتی مال آپ کے اختیار میں ہے جتنا چاہیں لے لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں، کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے والد کے دستورات کی مخالفت کروں؟

جناب فاطمہ (ع) کاجواب

جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبکر کی اس تقریر کا جواب دیا_ سبحان اللہ، میرے باپ قرآن مجید سے روگردانی نہیں کرسکتے اور اسلام کے احکام کی مخالفت نہیں کرتے کیا تم نے اجماع کرلیا ہے کہ خلاف واقع عمل کرو اور پھر اسے میرے باپ کی طرف نسبت دو؟ تمہارا یہ کام اس کام سے ملتا جلتا ہے جو تم نے میرے والد کی زندگی میں انجام دیا_ کیا خدا نے جناب زکریا کا قول قرآن میں نقل نہیں کیا جو خدا سے عرض کر رہے تھے،

فهب لی یرثنی و یرث من آل یعقوب (۱) _

خدایا مجھے ایسا فرزند دے جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کا وارث ہو_ کیا قرآن میں یہ نہیں ہے_

ورث سلیمان داؤد (۲) _

سلیمان داؤد کے وارث ہوئے_ کیا قرآن میں وراثت کے احکام موجود نہیں ہیں؟ کیوں نہیں، یہ تمام مطالب قرآن میں موجود ہیں اور تمہیں بھی اس

____________________

۱) سورہ مریم آیت۶_

۲) سورہ نمل آیت ۱۶_

۱۹۸

کی اطلاع ہے لیکن تمہارا ارادہ عمل نہ کرنے کا ہے اور میرے لئے بھی سواے صبر کے اور کوئی چارہ نہیں_

جناب ابوبکر نے اس کا جواب دیا کہ خدا رسول (ص) اور تم سچ کہتی ہو، لیکن یہ تمام مسلمان میرے اور اپ کے درمیان فیصلہ کریں گے کیونکہ انہوں نے مجھے خلافت کی کرسی پر بٹھایا ہے اور میں نے ان کی رائے پر فدک لیا ہے(۱) _

جناب ابوبکر نے ظاہرسازی اور عوام کو خوش کرنے والی تقریر کر کے ایک حد تک عوام کے احساسات اور افکار کو ٹھنڈا کردیا اور عمومی افکار کو اپنی طررف متوجہ کرلیا_

جناب خلیفہ کا ردّ عمل

مجلس در ہم برہم ہوگئی لیکن پھر بھی اس مطلب کی سر و صدا خاموش نہ ہوئی اور اصحاب کے درمیان جناب زہراء (ع) کی تقریر کے موضوع پر گفتگو شروع ہوگئی اور اس حد تک یہ مطلب موضوع بحث ہوگیا کہ جناب ابوبکر مجبور ہوگئے کہ ملت سے تہدید اور تطمیع سے پیش آئیں_

لکھا ہے کہ جناب زہراء (ع) کی تقریر نے مدینہ کو جو سلطنت اسلامی کا دارالخلافة تک منقلب کردیا_ لوگوں کے اعتراض اور گریہ و بکا کی آوازیں بلند ہوئیں لوگ اتنا روئے کہ اس سے پہلے اتنا کبھی نہ روئے تھے_

____________________

۱) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۴۱_

۱۹۹

جناب ابوبکر نے جناب عمر سے کہا تم نے فدک فاطمہ (ع) کو دے دینے سے مجھے کیوں روکا اور مجھے اس قسم کی مشکل میں ڈال دیا؟ اب بھی اچھا ہے کہ ہم فدک کو واپس کردیں اور اپنے آپ کو پریشانی میں نہ ڈالیں_

جناب عمر نے جواب دیا _ فدک کے واپس کردینے میں مصلحت نہیں اور یہ تم جان لو کہ میں تیرا خیرخواہ اور ہمدرد ہوں_ جناب ابوبکر نے کہا کہ لوگوں کے احساسات جو ابھرچکے ہیں ان سے کیسے نپٹا جائے انہوں نے جواب دیا کہ یہ احساسات وقتی اور عارضی ہیں اور یہ بادل کے ٹکڑے کے مانند ہیں_ تم نماز پڑھو، زکوة دو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو، مسلمانوں کے بیت المال میں اضافہ کرو اور صلہ رحمی بجالاؤ تا کہ خدا تیرے گناہوں کو معاف کردے، اس واسطے کہ خدا قرآن میں فرماتا ہے، نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں_ حضرت ابوبکر نے اپنا ہاتھ جناب عمر کے کندھے پر رکھا اور کہا شاباش تم نے کتنی مشکل کو حل کردیا ہے_

اس کے بعد انہوں نے لوگوں کو مسجد میں بلایا اور ممبر پر جاکر اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد کہا، لوگو یہ آوازیں اور کام کیا ہیں ہر کہنے والا آرزو رکھتا ہے، یہ خواہشیں رسول(ص) کے زمانے میں کب تھیں؟ جس نے سنا ہو کہے اس طرح نہیں ہے بلکہ یہ اس کا مطالبہ اس لومڑی جیسے ہے کہ جس کی گواہ اس کی دم تھی_

اگر میں کہنا چاہوں تو کہہ سکتا ہوں اور اگر کہوں تو بہت اسرار واضح کردوں، لیکن جب تک انہیں مجھ سے کوئی کام نہیں میں ساکت رہوں گا، اب لڑی سے مدد لے رہے ہیں اور عورتوں کو ابھار رہے ہیں_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333