المیہ جمعرات

المیہ جمعرات11%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 106251 / ڈاؤنلوڈ: 4808
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

ہے کہ : حضرت علی (ع)ہی خلافت کے اصل مالک ووارث تھے ۔خواہ خلافت پر فائز ہوتے تو بھی ان کا حق تھا اور اگر انہوں نے کسی اور کو خلافت پر فائز ہونے دیا تو بھی یہ ان کا استحقاق تھا ۔البتہ اس مقام پر ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ انہوں نے اور لوگوں کی خلافت کو تسلیم کر لیا تھا اسی لیے ہم بھی ان کی اتباع کرتے ہوئے بزرگوں کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور جس پر علی (ع)راضی تھے ہم بھی اس پر راضی ہیں(۱)

تو اس فریق کے نظریہ کی تلخیص ان الفاظ میں کی جاسکتی ہے کہ یہ فریق حضرت علی علیہ السلام کو حضرت ابو بکر سے افضل مانتا ہے اور انہیں خلافت کا صحیح حقدار قرار دیتا ہے ۔البتہ ان کے لئے رسول اکرم (ص) کی طرف سے کسی نص کا قائل نہیں ہے ۔اس لحاظ سے صورت حال یہ ہوگی کہ شرعی تقاضوں کے تحت حضرت علی (ع) خلیفہ تھے اور حضرت ابو بکر چونکہ مخصوص حالات کی وجہ سے خلیفہ بن چکے تھے اور حضرت علی (ع) نے بھی مزاحمت نہیں کی تھی ۔ اسی لئے ان کی خلافت بھی درست ہے ۔

الغرض مسئلہ خلافت ہر دور میں اختلاف کا محور رہا ہے ۔اسی سے دوسرے اختلاف نے ہمیشہ جنم لیا ہے ۔وفات رسول (ص) سے لے کر آج تک یہ مسئلہ ہر دور میں نزاعی رہا ہے ۔مسئلہ خلافت کیلئے ہر فریق نے اپنی رائۓ کو درست قرار دیا اور دوسرے فریق کی رائے کو ہمیشہ جھوٹ اور بہتان کہہ کر ٹھکرایا ہے ۔

تاریخ کوئی شخص نص ووصیت کا انکار کرتا ہے تو پھر وہ اس بات کا قائل

____________________

(۱):- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ۲/۷۲ طبع اول مطبوعہ مصر ۔

۴۱

ہے کہ پیغمبر خدا کو امت اسلامیہ کے مستقبل کی کوئی فکر ہی نہیں تھی ۔اور آپ کو اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ امت کے کتنے ٹکڑے ہوجائیں گے اور امت کتنی زبوں حالی کا شکار ہوجائے گی ۔

جب کہ تاریخی حقائق اس نظریہ کو لغو اور باطل قرار دیتے ہیں ۔آپ حدیث قرطاس کو ہی لے لیں ۔جس پر ہم سابقہ اوراق میں کافی بحث کرچکے ہیں لیکن اس مقام پر بھی ہم مذکورہ حدیث کو پیش کرنا چاہتے ہیں ۔

حدیث قرطاس

ابن اثیر اپنی کتاب الکامل فی التاریخ جلد دوم صفحہ نمبر ۲۱۷ پر تحریر کرتے ہیں :-اشتد برسول الله مرضه وجعه فقال ایتونی بدواة وبیضاء اکتب لکم کتابا لاتضلون بعدی ابدا ،فتنازعوا ،ولا ینبغی عند نبی تنازع ،فقالوا ان رسول الله یهجر ،فجعلوا یعیدون علیه ،فقال دعونی فما انا فیه خیر مما تدعوننی الیه ،فاوصی بثلاث ،ان یخرج المشرکون من جزیرة العرب وان یجازی الوفد بنحو ما کان یجیزهم ،وسکت عن الثالثة عمدا وقال نسیتها "

جناب رسول خدا (ص) کی بیماری اور درد میں اضافہ ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ :-میرے پاس کاغذ اور قلم دوات لاؤ تاکہ میں تمہیں تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو گے ۔ یہ سن کر لوگوں نے جھگڑنا شروع کردیا جبکہ نبی کے پاس جھگڑا کرنا نامناسب تھا ۔ لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ رسول خدا ہذیان کہہ رہے ہیں اور بار بار یہی کہنے لگے ۔اس پر رسول خدا(ص)نے فرمایا : میں جس تکلیف میں ہوں وہ اس سے کہیں بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلانا چاہتے ہو ۔آپ نے تین امور کی وصیت کی ۔

۱:- مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دیا جائے ۔

۴۲

۲:- وفد بھیجنے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہیئے جیسا کہ میں بھیجا کرتا تھا اور تیسری وصیت کو جان بوجھ کر چھپایا گیا اور کہا کہ وہ مجھے بھول گئی ہے ۔امام بخاری نے اپنی صحیح میں اس روایت کو یوں نقل کیا ہے ۔

"حدّثنا سفیان عن سلیمان الاحول عن سعید بن جبیر قال قال ابن عباس ،اشتد برسول الله وجعه فقال ایتونی اکتب لکم کتابا لن تضلوا بعده ابدا فتنازعوا ولا ینبغی عند نبی تنازع ،فقالوا ماشانه اهجر ؟ استفهموه فذهبوا یرددون علیه فقال دعونی فالذی انا فیه خیر مما تدعوننی الیه ،واوصاهم بثلاث قال اخرجوا المشرکین من جزیرة العرب ،واجیزوا الوفد بنحو ما کنت اجیزهم ،وسکت عن الثالثة او قال نسیتها "

رسول خدا (ص) کی تکلیف میں اضافہ ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس کاغذ اور قلم دوات لاؤ تاکہ میں تمھارے لیئے ایسی تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے اس کے بعد لوگوں میں تنازعہ پیدا ہوگیا جب کہ نبی کے پاس تنازعہ نامناسب تھا ۔ پھر وہ لوگ کہنے لگے کہ کیا نبی ہذیان کہہ رہے ہیں اور بار بار اسی جملہ کا تکرار کرنے لگے ۔اس پر حضور اکرم (ص) نے فرمایا :" میں جس تکلیف میں ہوں وہ تمہاری دعوت سے کئی گنا بہتر ہے اور آپ نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی :

۱:- جزیرہ عرب سے مشرکین کو نکال دو

۲:- وفد بھیجنے کا سلسلہ اس طرح جاری رہنا چاہئیے جیسا کہ میں بھیجا کرتا تھا ۔روای نے تیسری وصیت کے متعلق خاموشی اختیار کرلی یا اس نے کہا :مجھے تیسری بات بھول گئی ہے ۔

امام بخاری نے ایک اور سند سے اسی حدیث کو یوں بیان کیا ہے"لمّا حضر رسول الله صلّی الله علیه وسلّم وفی البیت رجال ،فقال النبی هلموا اکتب لکم کتابا لاتضلوا بعده ،فقال بعضهم ان رسول الله قد غلب علیه الوجع وعندکم القرآن ،وحسبنا کتاب الله ،فاختلف اهل البیت واختصموا

۴۳

فلمّا اکثروا اللغو والاختلاف قال رسول الله قومو" ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضور کریم (ص) کا وقت آخر گھر میں بہت سے افراد موجود تھے ۔رسول خدا(ص) نے فرمایا : میں تمہیں ایسی تحریر لکھ کر دینا چاہتا ہوں کہ تم اس کے بعد گمراہ نہ ہوگے ۔تو ان میں سے بعض نے کہا رسول خدا(ص) پر درد کا غلبہ ہے اور تمھارے پاس قرآن موجود ہے ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے ۔گھر میں موجود افراد کا اس بات پر اختلاف ہوگیا اور وہ جھگڑنے لگے ۔جب حضور کریم کے پاس اختلاف اور بے ہودہ گوئی زیادہ بڑھی تو آپ نے فرمایا اٹھ کر چلے جاؤ ۔

اسی حدیث کو ابن سعد نے اپنی کتاب طبقات کبری جلد ۴ ص ۶۰-۶۱ پر اس طرح نقل کیا ہے ۔

"ان رسول الله عند ما حضر ته الوفاة و کان معه فی البیت رجال فیهم عمر بن الخطاب قال ، هلموا اکتب لکم کتابا لن تضلوا بعده ، فقال عمر ان رسول الله قد غلبه الوجع وعندکم القرآن حسبنا کتاب الله ،فاختلف اهل البیت واختصموا ،فلما کثر اللغط و الآختلاف قال النبی قوموا عنی "

حضور کریم (ص) کی وفات کے وقت گھر میں بہت سے افراد تھے ان میں عمر بن خطاب بھی موجود تھے ،حضور نے فرمایا تم کاغذ اور قلم دوات لاؤ ،میں تمہارے لئے تحریر لکھدوں جس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ۔حضرت عمر نے کہا اس وقت رسول خدا(ص) پر درد کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن موجود ہے ۔ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے ۔گھر میں بیٹھے ہوئے افراد کا آپس میں اختلاف ہوگیا اور جھگڑنے لگے ۔جب حضور اکرم (ص) کے پاس شوروغوغا بڑھ گیا تو آپ نے فرمایا :میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ ۔

اس حدیث کے پڑھنے کے بعد آپ خد اپنے ضمیر اور وجدان کی عدالت میں فیصلہ کریں رسول کریم (ص) کے فرمان کو سن کر حضرت عمر نے جو جواب دیا

۴۴

کیا وہ حضور اکرم (ص) کی شخصیت کے مطابق تھا؟ اور کیا آداب صحبت ایسے جواب کی اجازت دیتے ہیں ؟ اور کیا دین اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ حضور اکرم (ص) کے فرمان کو ہذیان کہہ کر ان کی توہین کی جائے ؟

آپ حضرت عمر کے جواب کو ملحوظ خاطر رکھیں اور قرآن مجید کی اس آیت کو بھی پڑھیں "وما ینطق عن الهوی ان هو الا وحی یوحی "(النجم ۳-۴)

رسول اپنی خواہش سے نہیں بولتے وہ تو وہی کہتے ہیں جو وحی کہتی ہے اس آیت کی موجود گی میں حضرت عمر کے جواب کی شرعی حیثیت کیا قراردپائی ہے ۔اس کا فیصلہ ہم اپنے منصف مزاج قارئین کے حوالہ کرتے ہیں ۔عجیب بات تو یہ ہے کہ صحابہ نے حضور اکرم (ص) سے بہت سے ایسے سوال بھی دریافت کیے تھے جو کہ مسئلہ خلافت سے بہت ہی کم اہمیت کے حامل تھے ۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ :- صحابہ نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کو غسل کون دے ؟ تو آپ نے فرمایا میرے خاندان کے قریبی افراد مجھے غسل دیں ۔ اور صحابہ نے آپ سے دریافت کیا آپ کا کفن کیسا ہونا چاہیے تو فرمایا مجھے میرے اپنے کپڑوں کا ہی کفن پہنایا جائے یا مصری کپڑے کا کفن دیا جائے یا یمنی پارچہ کا کفن بنایا جائے ۔صحابہ نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ کو قبر میں کون اتارے ؟ تو فرمایا کہ میرے خاندان کے افراد مجھے قبر میں اتاریں ۔

اس روایت کو پڑھنے کے بعد لگتی کہیئے کہ صحابہ کفن ،دفن اور قبر میں اتارنے والے کے متعلق پوچھتے رہے ،کیا انہوں نے آپ سے یہ نہیں پو چھا ہوگا کہ آپ کا جانشین کون ہوگا ؟ یا خود حضور کریم نے صحابہ کو نہیں بتایا ہوگا کہ میرا جانشین کون ہے ؟

ابن خلدون اسی صفحہ پر لکھتے ہیں کہ اس کے بعد رسول خدا نے فرمایا میرے پاس کاغذ اور قلم دوات لاؤ میں تمہیں ایسی تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم

۴۵

کبھی گمراہ نہ ہوگے ۔یہ سن کر لوگوں نے جھگڑنا شروع کردیا کچھ لوگوں نے کہا کہ حضور ہذیان کہہ رہے ہیں اور مسلسل فرمان پیغمبر کو ہذیان کہتے رہے آپ نے فرمایا : میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے کہیں بہتر ہے جس کی تم مجھے دعوت دے رہے ہو ۔(۱)

قارئین کرام !

اب آپ فیصلہ کریں کہ رسول کو تحریر کیوں نہ لکھنے دی اور یہ مزاحمت کیوں کی گئی اور اس ہنگامہ دار و گیر کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی ؟

کیا ایسا تو نہ تھا کہ حضور اکرم اپنی زندگی کے مختلف اوقات میں جس شخصیت کی جانشینی کا ذکر کرتے رہتے تھے ،آخری وقت میں اسے تحریری شکل میں لکھ دینا چاہتے تھے ؟

تاکہ کسی کو ان کی جانشینی کے متعلق کوئی شک وشبہہ نہ رہ سکے اور حضرت عمر بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے ۔حضور اکرم کا ارادہ بھانپ کر انہوں نے اس کی بھر پور مخالفت کی اور عجیب و غریب بات یہ ہے کہ محدثین کہتے ہیں کہ حضور نے تین چیزوں

کے متعلق وصیت فرمائی تھی ۔ دو وصیتیں تو بیان بھی کی گئی ہیں اور حضرت ابو بکر نے ان دونوں پر عمل بھی کیا تھا ۔لیکن تیسری وصیت راوی کو بھول جاتی ہے ۔یا وہ اسے جان بوجھ کر بیان نہیں کرتا ۔

اسی تیسری وصیت کو رسول خدا (ص) تحریری صورت میں لانا چاہتے تھے اور اس پر ہذیان کہہ کر حضور کریم کی شان میں گستاخی کی گئی ۔تعجب تو یہ ہے کہ کل وصیتیں تین تھیں دو وصیتیں کے وقت حضور اپنے ہوش وحواس میں تھے لیکن تیسری وصیت کے وقت ان پر ہذیان طاری ہوگا تھا ۔(نعوذ باللہ)

____________________

(۱):- تاریخ ابن خلدون ج ۲ ص ۲۹۷

۴۶

رسول خدا (ص) کیا لکھنا چاہتے تھے ؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخری وقت میں رسول خدا (ص) کیالکھنا چاہتے تھے ؟ اس سوال کا جواب خود حضرت عمر نے اپنی زبان سے دیا ہے ۔جسے احمد بن ابی طاہر نے تاریخ بغداد میں اپنی اسناد سے لکھا ہے ۔اور ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد ۳ ص ۹۷ پر نقل کیا ہے ۔جس کا خلاصہ یہ ہے :" حضرت عبداللہ بن عباس ،حضرت عمر کے ساتھ چل رہے تھے تو حضرت عمر نے ان سے کہا کہ ابن عباس !اگر تم نے اس بات کو چھپایا تو تم پر ایک اونٹ کی قربانی لازمی ہوگی ۔۔۔۔۔کیا اب بھی علی کے دل میں امر خلافت کے متعلق کوئی خلش باقی ہے ؟

ابن عباس نے کہا جی ہاں ! حضرت عمر نے کہا :کیا علی یہ سمجھتے ہیں کہ رسول خدا نے ان کی خلافت پر نص فرمائی تھی ؟

ابن عباس نے کہا جی ہاں ! تو حضرت عمر نے کہا کہ رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں متعدد مرتبہ ایسے اشارے ضرور کئے تھے لیکن ان میں بات کی وضاحت موجود نہ تھی ۔ رسول خدا نے اپنے مرض الموت میں اس خواہش کو لکھنا چاہا تھا اور ان کا پورا ارادہ ہوگیا تھا کہ علی کانام تحریری طور پر رکھ دیں ۔ میں نے اسلام ومسلمین کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا نہ کرنے دیا ۔

میری مخالفت کی وجہ سے رسول خدا(ص) بھی سمجھ گئے کہ میں ان کے مافی الضمیر کو تاڑ چکا ہوں اسی وجہ سے رسول خدا(ص) رک گئے ۔"

اگر یہ روایت درست ہے تو اس کامقصد یہ ہے کہ حضرت عمر کو جناب رسول خدا سے بھی زیادہ اسلام کا مفاد عزیز تھا ۔ اگر امر واقعہ یہی ہے تو پھر اللہ تعالی کو (نعوذ باللہ) چاہئیے تھا کہ وہ حضور اکرم کی بجائے حضرت عمر کو ہی نبوت عطا فرماتا ۔

۴۷

اگر ہم بحث وتحقیق کی سہولت کے مد نظر خلافت کے دنیاوی پہلو کو نظر انداز کردیں اور ان تاریخی حقائق سے بھی صرف نظر کرلیں جسے فریق اول پیش کرتا ہے اور ہم اپنے آپ کو صرف ان تاریخی حوالہ جات کا پابند بنالیں جسے فریق ثانی نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے تو بھی ہم کسی بہتر نتیجہ کو اخذ کرنے کے قابل رہیں گے ۔

اس مقام پر سوال یہ ہے کہ رسول خدا کی وفات کے بعد حضرت علی بر سر خلافت پر کیوں فائز نہ ہوسکے ؟

اس سوال کا اہل سنت کی کتابوں سے جواب دینے سے پہلے ہم یہ ضروری گزارش کریں گے کہ ہمارے یہ جوابات ،"اقناعی " ہوں گے ۔ کیونکہ اس موضوع کے متعلق اکثر تاریخی حقائق کو تلف کیا جاتا رہا ہے اور اموی اور عباسی دواقتدار میں ہر ممکن تحریف کی گئی ہے ۔

تاریخ میں ہم اس حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ وفات رسول (ص) کے بعد نسل ابو طالب کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا اور اس دور کی حکومتیں اہل بیت طاہرین سے بد ترین عناد رکھتی تھیں ۔ اور "الناس علی دین ملوکهم " کے تحت اس زمانہ کے اہل علم ،راوۃ و قضاۃ نے بھی آل محمد (ع) کی تنقیص کو طلب دنیا کا وسیلہ بنایا اور آل محمد (ص) کی عداوت کو سلاطین وحکام کیلئے ذریعہ تقرب قرار دیا اور آل محد(ع) کی جو فضیلت چھپانے کے باوجود نہ چھپ سکی تو اس جیسی روایت اغیار کیلئے وضع کی گئی ۔

اس کے باوجود آل محمد(ع) کی صداقت کا یہ معجزہ ہے کہ ان کے فضائل ومناقب آج بھی کتابوں میں موجود ہیں اور ان کی مظلومیت کی داستان بھی سیر وتواریخ میں وموجود ہے ۔

اس کتاب میں ہم بھی حتی المقدور مستند کتب تاریخ و سیر کے حوالے جات پیش کریں گے ۔

۴۸

دور معاویہ میں وضع حدیث

آل محمد(ع) اور بالخصوص حضرت علی علیہ السلام کی مظلومیت کیلئے درج ذیل واقعہ کو ملاحظہ فرمائیں :-

ابو الحسن علی بن محمد بن ابی سیف المدائنی اپنی کتاب "الاحداث" میں رقم طراز ہیں :-کتب معاویة الی عمّاله بعد عام الجماعة ان برئت الذمة ممّن روی شیا من فضل ابی تراب واهل بیته ،فقامت الخطباء فی کل کورة وعلی کل منبر یلعنون علیا و یبروؤن منه ویقعون فیه وفی اهل بیته و کتب معاویة الی عمّاله فی جمیع الافاق ،ان لایجیزوا لاحد من شیعة علی واهل بیته شهادة وکتب الیهم ان انظروا من قبلکم من شیعة عثمان و محبیه و اهل ولا یته و الذین یروون مناقبه وفضائله فادنوا مجالسهم وقربوهم واکرموهم واکتبوا لی بکل ما یروی کال رجل و اسمه و ابیه و عشریته ،ففعلوا ذالک حتی اکثروا فی فضائل عثمان ومناقبه لما کان یبعثه الیهم من الصّلات ثم کتب لی عمّاله ،ان الحدیث عن عثمان قد کثر فاذا جاء کم کتابی هذا فادعو االناس الی الروایة فی فضائل الصحابة والخلفاء الاولین ولا تترکوا خبرا یرویه احد من المسلمین فی ابی تراب الا واتو بمناقص له فی الصحابة فقرات کتابه علی الناس فرویت اخبار کثیرة فی مناقب الصحابة مفتعلة لاحقیقة لها ومضی علی ذالک الفقهاء والقضاة والولاة "

امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بعد معاویہ نے اپنے حکام کو لکھا کہ :جو شخص ابوتراب اور ان کے اہل بیت کی فضیلت کے متعلق کوئی روایت بیان کرے گا میں اس سے بری الذمہ ہوں ۔

اس خط کے بعد ہر مقام اور ہر منبر پر لوگ حضرت علی علیہ السلام پر لعنت کرنے

۴۹

لگے اور ان سے برائت کرتے اور ان کے اور ان کے خاندان کے عیوب بیان کرتے ۔

اس کے بعد معاویہ نے اپنے جملہ حکام کو لکھا کہ : علی اور ان کے اہل بیت کے ماننے والوں کی گواہی قبول نہ کی جائے ۔

اور پھر اپنے حکام کو مزید تحریر کیا کہ عثمان سے محبت رکھنے والے افراد اور ان کے فضائل ومناقب بیان کنے والے لوگوں کو اپنا مقرب بناؤ اور ان کا احترام کرو اور جو شخص عثمان کی فضیلت میں کوئی روایت بیان کرے تو اس شخص کانام ونسب اور بیان کردہ روایت میرے پاس بھیجو۔

حکام نے معاویہ کے ان احکام پر حرف بحرف عمل کیا اور فضائل عثمان بیان کرنے والوں کو گراں بہا انعامات سے نوازا گیا ۔اس کا نتیجہ نکلا کہ عثمان کے فضائل ومناقب بہت زیادہ ہوگئے ۔

پھر مستقبل کے خطرہ کو بھانپتے ہوئے معاویہ نے اپنے حکام کو تحریر کا کہ :فضائل عثمان کی حدیثیں بہت زیادہ ہوچکی ہیں اور جب تمھیں میرا یہ خط ملے لوگوں سے کہو کہ وہ اب صحابہ اور پہلے دوخلفاء کے فضائل کی احادیث تیار کریں اور ہاں اس امر کو ہمیشہ ملخوظ خاطر رکھنا کہ ابو تراب کی شان میں کوئی حدیث موجود ہو تو اس جیسی حدیث صحابہ کے لئے ضرور تیار کی جانی چاہیئے ۔

معاویہ کے یہ خطوط لوگوں کر پڑھ کر سنائے گئے ۔اس کے بعد صحابہ اور پہلے دونوں خلفاء کی شان میں دھڑا دھڑ حدیثیں تیار ہونے لگیں جن کا حقیقت س ے کوئی واسطہ نہ تھا ۔اس دور کے فقہاء ،قاضی اور حکام ان وضعی احادیث کو پھیلاتے رہے

اب مذکورہ سوال یعنی علی علیہ السلام سریر آرائے مسند خلافت کیوں نہ ہو سکے ؟

اس سوال کو حل کرنے کےلئے ہمیں حضرت علی کی سیرت اور زندگانی رسول میں ان کی فدا کاری اور ان کے صلح وجنگ کے فلسفہ کو مدنظر رکھنا ہوگا اور

۵۰

جب ان کی دور رسالت کی زندگی اور ان کا فلسفہ وصلح وجنگ ہمارے پیش نظر ہوگا تو ہم اس گتھی کو سلجھا سکیں گے ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس سوال کو سمجھنے کے لئے اسے دو بنیادی سوالوں میں تقسیم کردینا چاہیئے :-

۱:- کیا علی علیہ السلام کی اہلیت رکھتے تھے ؟

۲:- اگر رکھتے تھے تو انہیں خلافت سے محروم کیوں رکھا گیا ؟

پہلے سوال کے جواب کو سمجھنے کے لئے ہمیں علی کی زندگی کا مطالعہ کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ علی کے والدین کی فدا کاری وایثار کو بھی اپنے سامنے رکھنا ہوگا ۔

ابو طالب(ع) کی اسلامی خدمات

تاریخ اسلام کے معمولی طالب علم کو بھی اس حقیقت کا علم ہے کہ علی کے والد حضرت ابو طالب نے رسول خدا(ص) کی حفاظت کا فریضہ کس طرح سرانجام دیا ہے ۔اگر ہم حضرت ابو طالب کے ایثار کی داستان سنانا چاہیں تو اس کے لئے علیحدہ کتاب کی ضرورت ہوگی ۔

ذیل میں ہم سیرت ابن ہشام سے ابو طالب کی جان نثاری کا ہلکا سا نمونہ پیش کرتے ہیں :

جب رسول خدا(ص) نے تبلیغ دین شروع کی اور اہل مکہ توحید کی دعوت دی اور ان کے خود ساختہ معبودوں کی برائیاں بیان کیں تو قریش کو اس پر سخت غصہ آیا اور انہوں نے اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا کہ ابو طالب رسول خدا(ص) کے محافظ ونگران بنے ہوئے ہیں تو انہوں نے اشراف قریش اور ابو سفیان سرفہرست تھے ۔

قریش کا یہ وفد ابو طالب کے پاس گیا اور ان سے کہا : ابو طالب ! تمھار

۵۱

بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے اور ہمارے دین کے عیوب بیان کرتا ہے ۔آپ اسے بات سے روکیں یا آپ علیحدہ ہوجائیں ہم خود ہی نمٹ لیں گے ۔

ابو طالب نے ان لوگوں کو نرمی سے سمجھایا اور انہیں واپس بھیج دیا ۔چند دنوں کے بعد قریش دوبارہ ابو طالب کے پاس گئے ۔اس دفعہ بھی ابو طالب نے انہیں واپس بھیج دیا ۔ قریش کو جب یقین ہوگیا کہ ابو طالب محمد مصطفی کو ان کے حوالہ کرنے پر آمادہ نہیں ہیں تو وہ ایک خوبصورت نوجوان جس کانام عمارہ بن ولید تھا کو لے کر ابو طالب کے پاسے گئے ۔اور ان سے کہا ۔یہ عمارہ بن ولید ہے آپ اسے اپنے پاس ٹھہرا لیں اور اپنا بھتیجا ہمارے حوالے کردیں ۔

یہ سن کر ابو طالب نے کہا تم نے کتنا غلط فیصلہ کیا ہے ۔میں تو تمھارے بیٹے کو پالوں او راپنا تمہارے حوالے کردوں اور تم اسے قتل کردو۔ ابن سعد اپنی کتاب طبقات کبری جلد اول ص ۱۰۱ پر لکھتے ہیں : جب عبد المطلب کی وفات ہوئی تو ابو طالب نے رسول خدا کو اپنی گود میں لے لیا ۔ وہ رسول خدا(ص) سے اتنی محبت کرتے تھے جس کی نظیر نہیں ملتی ۔حد یہ ہے کہ انہیں اپنی اولاد سے بھی اتنی محبت نہیں تھی جتنی کہ وہ حضور اکرم (ص) سے کیا کرتے تھے ۔وہ رسول خدا(ص) کو اپنے پہلو میں سلایا کرتے تھے اور جہاں بھی جاتے رسول خدا (ص) کو اپنے ساتھ لے کر جاتے ۔

ابو طالب کو محمد مصطفی سے ایسا عشق تھا کہ انہیں کسی چیز سے ایسا عشق نہیں تھا ۔

شعب ابی طالب

اسی جان نثاری ک داستان کو ابن اثیر نے الکامل فی التاریخ کی جلد دوم ص ۵۹-۶۲ پر یوں بیان کیا ہے :

"جب قریش نے محسوس کیا کہ دین اسلام روز بروز ترقی کر رہا ہے اور ان

۵۲

کا قاصد عمرو بن العاص بھی نجاشی کے دربار سے ناکام ہوکر واپس آگیا ہے ۔تو انہوں نے اپنے سربراہوں کا اجلاس طلب کیا ۔ جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ بنی ہاشم کے ساتھ کسی قسم کا لین دین نہیں کریں گے اور ان کے ساتھ کوئی رشتہ ناتا نہیں کیا جائے گا ۔

انہوں نے اپنے اس فیصلہ کو لکھ کر کعبہ میں نصب کردیا ۔حضرت ابو طالب بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کو لے کر پہاڑ کی ایک گھاٹی میں چلے آئے ۔اس گھاٹی کو شعب ابی طالب کہا جاتا ہے ۔اس گھاٹی میں ابو طالب نے قریبا تین برس کا عرصہ گزارا ۔اس کے بعد اللہ تعالی نے رسول خدا (ص) کو وحی کے ذریعہ بتایا کہ صحیفہ کی عبارت کو دیمک چاٹ چکی ہے ۔اس میں صرف اللہ کانام باقی بچا ہے ۔آنحضرت (ص) نے اپنے چچا ابو طالب کو اس امر کی خبر دی ۔ابو طالب حضور اکرم کی کسی بات میں شک نہیں کرتے تھے ۔ جیسے ہی انہوں نے یہ خبر سنی تو فورا حرم میں آئے اور قریش سے کہا کہ تمہارے معاہدہ کو دیمک چاٹ چکی ہے ۔اس میں صرف اللہ کا نام باقی وہ گیا ہے ۔۔۔۔۔۔پھر انہوں نے فی البدیہہ یہ شعر پڑھے ۔

وقد کان فی امر الصحیفة عبرة متی ما یخبر غائب القوم یعجب

محاالله عنهم کفرهم وعقوقهموما نقموا من ناطق الحق معرب

فاصبح ما قالوا من الامر باطلا ومن یختلق مالیس بالحق یکذب

"صحیفہ کےمعاملہ سے عبرت حاصل کرو ۔جب ایک غیر موجود شخص خبر دے تو تعجب ہوتا ہے ۔اللہ نے ان کے کفر ونافرمانی کی عبارتوں کو مٹاڈالا ۔ان لوگوں کو حق کے داعی سے ناحق ضد تھی انہوں نے جو کچھ بھی کہا تھا باطل ہوگیا اور جو شخص جھوٹی بات بنائے گا وہ لازمی طور پر جھٹلایا جائے گا ۔"

جب تک ابو طالب زندہ رہے کسی کافر کی جراءت نہ تھی کہ وہ حضور(ص) کو اذیت دے سکتا ۔لیکن جب ان کی وفات ہوگئی تو کافروں کے لئے میدان صاف

۵۳

ہوگیا اور انہوں نے دل کھول کر نبی کریم (ص) کو تکلیفیں پہنچائیں ۔نبی کریم(ص) نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :-

"ما نالت قریش شیا منی اکرهه حتی مات ابو طالب " جب تک ابو طالب زندہ رہے قریش مجھے اذیت نہ دیتے تھے :(۱) ۔

ابو طالب کی فدا کاری اور جاں نثاری کو ہم مورخ ابن خلدون کے ان الفاظ سے ختم کرتے ہیں ۔

رسول خدا(ص)آٹھ برس کے تھے کہ ان کے دادا عبد المطلب کی وفات ہوئی ۔عبد المطلب نے اپنی وفات سے پہلے محمد مصطفی (ص) کو ابو طالب کے حوالہ کیا تھا ۔ ابو طالب نے احسن انداز میں نبی کریم (ص) کی پرورش فرمائی ۔ابو طالب رسول خدا کی زندگی کے تمام لمحات کو بغور دیکھا کرتے تھے ۔انہوں نے آپ کے لڑکپن اور جوانی کا بہت اچھا مشاہدہ کیا اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ رسول خدا دورجاہلیت کی تمام رسومات سے دور رہاکرتے تھے ۔ہجرت سے تین بر س قبل ابو طالب اور حضرت خدیجہ کی وفات ہوئی ۔شفیق چچا اور فدا کار زوجہ کی وفات رسول خدا(ص) کے لئے بہت بڑا صدمہ تھا ۔ابو طالب کے خوف سے سہمے ہوئے قریش نے حضور اکرم (ص) کو ستانا شروع کیا اور اپ کی جائے نماز پر غلاظت ڈالی گئی ۔(۲)

حضرت علی علیہ السلام کے والد ماجد کی فدا کاری کی یہ مختصر سی تاریخ تی اور حضرت علی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے رسول اسلام (ص) کی کیا خدمت سرانجام دی اوراق کتاب کی تنگ دامنی کی وجہ سے ہم اس کی تفصیل بتانے سے قاصر ہیں ۔ان کی عظمت کے لئے یہی بات ہی کافی ہے کہ جب ان کی وفات ہوئی تو رسول خدا(ص) نے ان کے کفن کے لئے اپنی قمیص اتار کردی اور جب قبر تیار ہوئی تو رسول خدا(ص) چچی کے جنازے سے پہلے خود لحد میں اترے ۔لحد کی مٹی کو اپنے ہاتھوں

____________________

(۱):- الکامل فی التاریخ جلد دوم ص ۵۹-۶۲

(۲):- تاریخ ابن خلدون جلد دوم ص ۱۷۱

۵۴

سے درست فرمایا اور کچھ دیر تک اپنی چچی اماں کے جنازہ کے ساتھ لحد میں لیٹے رہے(۱) ۔

ابو طالب جیسے عاشق رسول اور فاطمہ بنت اسد جیسی فداکار شخصیت کی گود میں حضرت علی (ع) پلے بڑھے اور جب ذرا بڑے ہوئے تو رسول خدا (ص) اور حضرت خدیجہ نے ان کی پرورش کی ۔

علی (ع) کی اسلامی خدمات

یہ علی علیہ السلام کا خاندانی پس منظر تھا اب آئیے دیکھیں کہ علی علیہ السلام کا ذاتی کردار کیا تھا ۔اور انہوں نے رسول اسلام(ص) کی کیا خدمات کی اور خود اسلام کی کس قدر انہوں نے خدمت کی ؟

جہاں تک علی او راسلام کے باہمی ارتباط کاتعلق ہے تو ہم اس مقام پر مصر کے اسکالر "عقاد"کے ساتھ ہم نوا ہوکر کہیں گے :

"انّ علیا کا المسلم الخالص علی سجیّته المثلی و انّ الدین الجدید لم یعرف قظّ اصدق اسلاما منه ولا اعمق نفاذا فیه ۔(۲)

علی (علیہ السلام) اپنی آئیڈیل فطرت کی وجہ سے مسلم خالص تھے اور نئے دین نے علی (ع) سے بڑھ کر کسی کے سچے اورگہرے اسلام کا مشاہدہ نہیں کیا تھا ۔

ڈاکٹر طہ حسین اپنی کتاب الفتنتہ الکبری ،عثمان بن عفان صفحہ ۱۰۱پر لکھتے ہیں :- جب رسول خدا(ص) نے اعلان نبوت فرمایا تو علی (ع) اس وقت بچے تھے ۔انہوں نے فورا اسلام قبول کیا اور اسلام کےبعد وہ رسول خدا (ص) اور حضرت خدیجۃ الکبری کی آغوش میں پرورش پاتے رہے ۔انہوں نے پوری زندگی میں کبھی بھی بتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا تھا ۔

سابقین اولین اور علی علیہ السلام میں سب سے واضح فرق یہ ہے کہ انہوں

____________________

(۱):-تاریخ ابن خلدون جلد دوم ص ۱۷۹-۱۸۰

(۲):-عبقریۃ الامام ۔ازاستاد عقاد ص ۱۳

۵۵

نے منزل وحی میں پرورش پائی اور یہ شرف ان کے علاوہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا ۔

اسی تربیت وکفالت کا اثر تھا کہ علی ایک عدیم المثال شخصیت بن کر ابھرے ۔بہر نوع علی علیہ السلام کی ذات کا مطالعہ علم النفس یا علم الاجتماع جس بھی حوالے سے کیاجائے علی ہر لحاظ سے لاجواب ،بینظیر اور لا شریک ہو کر سامنے آتے ہیں ۔

علی علیہ السلام کی ذات کو سمجھنے کے لئے درج ذیل مثالوں کو مدنظر رکھیں ۔علی علیہ السلام کی جانثاری اور فداکاری کیلئے شب ہجرت کے واقعات کا تصور کریں ۔

۱:- شب ہجرت

ابن ہشام لکھتے ہیں :- جب قریش نے دیکھا کہ اسلام روزبروز ترقی کر رہا ہے اور اسلام کے پیرو اب مکہ کے علاوہ دیگر شہروں بالخصوص یثرب میں بھی ہیں اور حضور کے کافی پیروکار ہجرت کرکے یثرب روانہ ہوچکے ہیں ۔اس کے ساتھ انہیں یہ یقین ہوگیا کہ رسول خدا (ص) بھی مکہ چھوڑ کر کسی وقت یثرب چلے جائیں گے ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے انہوں نے اپنے بزرگوں کو دارالندوہ میں دعوت دی ۔

کفار مکہ کے سربراہوں میں عتبہ ،شیبہ اور ابو سفیان بھی تھے ۔دوران بحث یہ مشورہ دیا گیا کہ حضور اکرم (ص)کو قید کیا جائے یا انہیں یہاں سے نکال دیا جائے ۔لیکن ان کے دونوں باتوں کو کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا ۔

چنانچہ رائے یہ قرار پائی کہ مکہ کے ہر قبیلہ کا ایک ایک فرد لیا جائے اور ایک مخصوص شب میں حضور (ص) کو قتل کردیا جائے ۔قتل میں زیادہ قبائل کی موجود گی کا یہ فائدہ ہوگا کہ عبد مناف کی اولاد بدلہ نہیں لے سکے گی ۔اور یوں ان کا خوف رائگاں ہوجائیگا ۔جب حضور نے متفرق قبائل کے افراد کو اپنے دروازے پہ دیکھا تو علی ابن ابی طالب کو حکم دیا کہ وہ ان کے بستر پر انہی کی چادر تان کر سوجائیں(۱) ۔

____________________

(۱):- سیرت ابن ہشام جلد دوم ص ۹۵

۵۶

ابو طالب کے فرزند کے لئے قتل گاہ قریش گل تھی ۔جب رسولخدا(ص) نے فرمایا کہ میری جان کو خطرہ ہے تم میرے بستر پر سوجاؤ تو اس وقت علی (ع) نے بڑے جذباتی انداز میں پوچھا : یا رسول اللہ کیا میرے سونے سے آپ کی جان بچ جائیگی ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! پھر حضور اکرم (ص) نے علی(ع) کو حکم دیا کہ وہ اہل مکہ کی تمام امانتیں ان تک پہنچائیں ۔

حضرت علی (ع) رسول خدا (ص) کی ہجرت کے بعد تین دن تک مکہ میں رہے اور کفار ومشرکین کی امانتیں واپس کیں ۔جب اس فریضہ سے فارغ ہوگئے تو پیادہ پا چلتے ہوئے مدینہ آئے اور پیدل چلنے کی وجہ سے انکے پاؤں متورم ہوچکے تھے(۱) ۔

۲:-موخات

ہجرت کے بعد رسول خدا (ص) نے مہاجرین وانصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔

جب علی علیہ السلام نے موخات کا یہ منظر دیکھا تو آبدیدہ ہوگئے ۔رسول خدا (ص) نے ان سے رونے کاسبب دریافت کیا تو انہوں نے عرض کیا آپ نے اپنے اصحاب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا ۔ تو رسول خدا(ص) نے فرمایا "انت اخی فی الدنیا و الآخرۃ " تو دنیا اور آخرت میں میر ا بھائی ہے(۲) ۔

۳:- جنگ احد اور علی (علیہ السلام)

جنگ احد میں جب اسلامی لشکر کو پسپائی ہوئی اور صحابہ کرام پہاڑوں پر چڑھ رہے تھے تو اس وقت حضرت علی (ع) پوری جانفشانی سے لڑتے رہے اور کوہ

____________________

(۱):- تاریخ ابن خلدون جلد دوم ص ۱۸۷ و ابن اثیر الکامل فی التاریخ جلد دوم ص ۷۵

(۲):-سیرت ابن ہشام جلد دوم ص ۹۵-۱۱۱

۵۷

استقامت بن کر دشمنوں سے نبرد آزمائی کرتے رہے ۔ الغرض ابو طالب کا بیٹا پورے میدان پر چھا گیا اسی مقام پر ہاتف غیبی نے ندا دی تھی "لا سیف الّا ذولفقار ولا فتی الاّ علی " اگر تلوار ہے تو ذولفقار ہے اور اگر جواں مرد ہے تو حیدر کرار ہے ۔

الغرض اسلام اور رسول اسلام کی حفاظت کے بعد جب واپس گھر آئے تو اپنی زوجہ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو اپنی تلوار پکڑاتے ہوئے یہ شعر کہے :-

افاطم هاک السیف غیر ذمیم فلست برعدیر ولا بملیم

لعمری لقد قاتلت فی حب احمدوطاعة رب بالعباد رحیم

فاطمہ ! یہ تلوار لو ،یہ تلوار تعریف کے قابل ہے ۔میدان جنگ میں میں ڈرنے اور کانپنے والا نہیں ہوں ۔

مجھے اپنی زندگی کی قسم میں نے محمد مصطفی کی محبت اور مہربان اللہ کی اطاعت میں جہاد کیا ہے(۱) ۔

۴:- علی(ع) اور تبلیغ براءت

محمد بن حسین روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ احمد بن مفضل نے بیان کیا وہ کہتے ہیں یہ روایت اسباط نے سدی سے کی ہے سعدی کہتے ہیں :-

جب سورہ براءۃ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو رسول خدا نے حضرت ابو بکر کو امیر حج بنایا اور وہ آیات بھی ان کے حوالے فرمائیں اور ارشاد فرمایا کہ تم حج کے اجتماع میں یہ آیات پڑھ کرسناؤ ۔

ابو بکر آیات لے کر روانہ ہوئے ،جب وہ مقام ذی الحلیفہ کے درختوں کے قریب پہنچے تو پیچھے سے علی (ع) ناقہ رسول پر سوار ہو کر آئے اور آیات ابو بکر سے لے لیں ۔حضرت ابو بکر رسول خدا(ص) کی خدمت میں واپس آئے اور عرض کیا

____________________

(۱):- تاریخ طبری جلد سوم ص ۱۵۴ ومروج الذہب مسعودی جلد دوم ص ۲۸۴۔

۵۸

یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا میرے متعلق کوئی آیت نازل ہوئی ؟ آپ نے فرمایا نہیں ۔میری طرف سے پیغام کو یا میں خود پہنچاسکتا ہوں یا علی (ع) پہنچاسکتے ہیں ۔(۱)

۵:- علی (ع) تبلیغ اسلام کے لیے یمن جاتے ہیں

رسول خدا نے یمن میں تبلیغ اسلام کے لئے خالد بن ولید کوروانہ فرمایا لیکن اس کی دعوت پر کوئی بھی شخص مشرف بہ اسلام نہ ہوا ۔تو اس کے بعد حضور اکرم(ص) نے حضرت علی (ع) کو اسلام کو مبلغ بنا کر یمن روانہ کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ خالد اور اس کے ساتھیوں کو واپس بھیج دیں ۔

حضرت علی نے جاتے ہی خالد کو اس کے دوستوں سمیت واپس روانہ کردیا اور اہل یمن کے سامنے رسول خدا(ص) کا خط پڑھ کرسنایا ۔جس کے نتیجہ میں قبیلہ ہمدان ایک ہی دن میں مسلمان ہوگیا(۲) ۔

۶:- ہارون محمدی

حضرت علی (ص) غزوہ تبوک کے علاوہ باقی تمام جنگوں میں شریک ہوئے اور غزوہ تبوک کے موقع پر بھی جناب رسولخدا(ص) نے انہیں مدینہ میں اپنا جانشین بنا کر ٹھہرایا ۔

امام مسلم بن حجاج نے اس واقعہ کو یوں نقل کیا ہے :

حدثنا یحیی التمیمی وابو جعفر محمد بن الصباح وعبد الله القواریری وسریح بن یونس عن سعید بن المسیب عن عامر بن سعد بن ابی وقاص عن ابیه قال قال رسول الله (ص) لعلی (ع) انت منی بمنزلة هارون من

____________________

(۱):- تاریخ طبری جلد سوم ص ۱۵۴

(۲):- ابن اثیر الکامل فی التاریخ جلد دوم ص ۳۵

۵۹

موسی غیر انه لانبی بعدی

وحدثنا ابوبکر بن شبیه عن سعد بن ابی وقاص قال خلف رسول الله (ص) علیا ،فی غزوه تبوک فقال یارسول الله (ص)تخلفنی فی النساء والصبیان ؟ قال اما ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسی غیر انه لانبی بعدی

سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے علی (ع) سے فرمایا تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی ۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔

سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا نے غزوہ تبوک کے موقع پر علی (ع) کو مدینہ میں ٹھہرنے کا حکم دیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں ٹھہرکر جارہے ہیں ؟

رسول خدا(ص) نے فرمایا : کیا تم اس اس بات پر راضی نہیں کہ تم کہ مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔

۷:- فاتح خیبر

جب صحابہ کرام خیبر فتح کرنے میں ناکام ہوئے اور لشکر یہود کے سامنے کئی دفعہ پشت دکھائی رسولخدا(ص) نے اعلان فرمایا :-لاعطین هذه الرّایة رجلا یحب الله ورسوله ویحبه الله ورسوله یفتح الله علی یدیه ۔"

"کل میں اسے علم دونگا جو مرد ہوگا ۔اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور اللہ اور رسول بھی اس سے محبت کرتے ہوں گے ۔اللہ اس کے ہاتھ سے خیبر فتح کرائے گا "۔

حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے پوری زندگی میں بس اس دن امارت کی

۶۰

تمنا کی تھی اور ساری رات نوافل میں گزاری کہ شاید صبح علم اسلامی مجھے مل جائے ۔

جب صبح ہوئی تو رسول خدا(ص) نے علی (ع) کو بلایا اور انہیں علم عطا فرمایا(۱) ۔

ان سب حقائق کے علاوہ منصب خلافت بلافصل کے لئے علی (ع)کی اہلیت کے لیے درج ذیل امور بھی مد نظر رکھنے چاہییں:-

الف :- حضرت علی (ع) دین اسلام کے جوہر کو خوب سمجھنے والے تھے ۔وہ ایمان کے جملہ اطراف وآفاق کا احاطہ رکھتے تھے ۔علی اکثر رسول خدا (ص) کے ساتھ خلوت میں بیٹھ کر گفتگو کیا کرتے تھے اور لوگوں کو اس گفتگو کوئی علم نہیں ہوتا تھا ۔

آپ قرآن مجید کے معانی ومفاہیم کے لئے رسول خدا(ص) سے زیادہ سے زیادہ استفسار کرتے تھے ۔

اور اگر علی سوال میں ابتدا نہ کرتے تو رسول خدا خود ہی ابتدا کردیتے ،جب کہ علی کے علاوہ باقی لوگ چند قسموں میں تقسیم تھے ۔

۱:- کچھ ایسے تھے کہ حضور اکرم سے سوال کرتے ہوئے گھبراتے تھے اور ان کی تمنا ہوتی تھی کہ کوئی اعرابی یا مسافر آکر حضور سے کچھ پوچھے اور وہ سن لیں ۔

۲:- کچھ ایسے تھے کہ حضور اکرم سے سوال کرتے ہوئے گھبراتے تھے اور ان کی تمنا ہوتی تھی کہ کوئی اعرابی یا مسافر آکر حضور سے کچھ پوچھے اور وہ سن لیں ۔

۳:- کچھ لوگ عبادت یا دنیاوی کاروبار کی وجہ سے فہم وادراک کی نعمت سنے خالی تھے ۔

۴:- کچھ اسلام سے عداوت وبغض کو چھپائے تھے اور وہ دینی مسائل کے یاد رکھنے کو وقت کا ضیاع تصور کرتے تھے ۔(۲) ۔

ب:- رسول خدا (ص) آپ کو جانشین بنانے کے لئے اور خود اعتمادی پیدا کرنے کی غرض سے آپ کو اہم مقامات پر روانہ کیا کرتے تھے ۔ جہاں سے آپ ہمیشہ مظفر

____________________

(۱):- صحیح مسلم جلد دوم ص ۳۲۴

(۲):- ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص ۱۷

۶۱

منصور ہوکر لوٹا کرتے تھے ۔

رسول خدا (ص) نے جب بھی کوئی مہم روانہ فرمائی تو اگر اس مہم میں علی (ع) شامل ہوتے تھے تو علی اس مہم کے امیر اور انچارج ہوا کرتے تھے ۔

رسول خدا (ص) کی پوری زندگی میں علی (ع) کسی کی ماتحتی میں کبھی روانہ نہیں ہوئے اور اس کے برعکس حضرت ابو بکر وحضرت عمر کو متعدد مرتبہ لوگوں کی ماتحتی میں روانہ کیا گیا ۔

تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ حضرت ابو بکر نے اپنے دور خلافت میں حضرت عمر کی ذہنی وعملی تربیت کی تھی ۔چنانچہ جس شخص کی انہوں نے خود تربیت کی تھی ۔اس کی خلافت کے لئے نامزدگی کا انہوں نے اعلان کردیا اور لوگوں نے بھی ان کی خلافت کو تسلیم کرلیا ۔ لیکن جس شخصیت کی تربیت معلم اعظم جناب رسول خدا نے کی انہیں لوگوں نے خلافت سے محروم کردیا ۔

ج:- جیش اسامہ :-

جناب رسول خدا(ص) اپنی وفات سے پہلے علی (ع۹ کی خلافت کے لئے میدان صاف کرنا چاہتے تھے اور جن لوگوں کے متعلق آپ کو مخالفت کا گمان تھا انہیں مدینہ سے باہر روانہ کرنا چاہتے تھے ۔ اس کے لئے جیش اسامہ کا حال ابن سعد کی زبانی سنیئے ۔:-

ماہ صفر کے اختتام میں چار راتیں باقی تھیں سوموار کادن ۱۱ھ کو جناب رسول خدا(ص) نے رومیوں پر حملہ کرنے کا حکم صادر فرمایا ۔

جب صبح ہوئی تو آپ نے اسامہ بن زید کو بلا کرفرمایا ۔تم لشکر لے کر وہاں چلے جاؤ جہاں تمہارے والد کو شہید کیا گیا تھا ۔اس علاقہ کو اپنے گھوڑوں س پامال کر دو ۔اہل ابنی پر صبح کے وقت یلغار کرنا اور اس بات کا خصوصی خیال رکھنا کہ وہ تمھارے آنے سے بے خبر رہنے چاہئیں اور اگر خدا تمہیں کا میابی عطا

۶۲

فرمائے تو وہاں زیادہ دیر نہ رکنا ۔اپنے ساتھ راہ دکھانے والے افراد اور جاسوسوں کو لے کر روانہ ہوجاؤ ۔

جب بدھ کا دن ہوا تو حضور اکرم (ص) سخت بیمار ہوگئے اور پھر جمعرات کے دن آپ نے اپنے ہاتھوں سے پر چم تیار کیا اور فرمایا :

اسامہ! اللہ کا نام لے کر چلے جاؤ اور خدا کے لئے جہاد کرو اور منکرین توحید سے جنگ کرو ۔

آپ نے وہ پر چم بریدہ بن حصیب اسلمی کے حوالہ فرمایا ۔اسامہ کا لشکر "جرف" کے مقام پر فروکش ہوا ۔اس لشکر میں مہاجرین وانصار کے سرکردہ افراد بھی شریک تھے ۔ جن میں ابو بکر ،عمر اور ابو عبیدہ بن جراح سرفہرست تھے لوگوں نے اسامہ کی سربراہی پر اعتراض کیا اور کہنے لگے کہ مہاجرین وسابقین پر بچہ کو سربراہ بنادیا گیا ۔

جب رسول خدا(ص) کو لوگوں کے اعتراضات کا پتہ چلا تو آپ سخت ناراض ہوئے ۔آپ سرپر پٹی باندھ کر گھر سے باہر آئے اور منبر بیٹھے اور فرمایا :

لوگو! میں یہ کیسی گفتگو سن رہا ہوں کہ تم لوگوں نے اسامہ کے امیر لشکر ہونے پر اعتراض کئے ہیں اور سن لو اعتراض کی یہ عادت تمہیں آج سے نہیں ہے ۔اس سے پہلے بھی تم نے اسامہ کے والد زید کی امارت پر اعتراض کیاتھا ۔

خدا کی قسم ! وہ امارت کے لائق تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا بھی امارت کے قابل ہے ۔اسامہ اوراس کے والد کا تعلق میرے محبوب ترین افراد سے ہے دونوں باپ بیٹے اچھے ہیں ۔تم لوگوں کو بھی ان سے اچھائی کرنے کی تلقین کرتا ہوں یہ تمہارے بہترین لوگوں میں سے ہے ۔

خدا کی قسم! وہ امارت کے لائق تھا اور اس کےبعد اس کا بیٹا بھی امارت کے قابل ہے ۔اسامہ اور اس کے والد کا تعلق میرے محبوب ترین افراد سے ہے دونوں باپ بیٹے اچھے ہیں ۔تم لوگوں کو بھی ان سے اچھائی کرنے کی تلقین کرتا ہوں یہ تمہارے بہترین لوگوں میں سے ہے ۔

اس کے بعد آپ نے خطبہ دیا اور اپنے بیت الشرف تشریف لے گئے آپ نے یہ خطبہ دس ربیع الاول بروز ہفتہ دیا تھا ۔

۶۳

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت زیادہ ناساز ہوگئی آپ بار بار فرماتے رہے ۔اسامہ کے لشکر کو روانہ کرو ۔

جب اتوار کا دن ہواتو رسول خدا(ص) کی تکلیف بڑھ گئی ۔اسامہ آپ سے الوداع کرنے کے لئے آئے تو اس وقت آپ کی طبیعت انتہائی ناساز ہوچکی تھی ۔ اسامہ سے زیادہ گفتگو نہ کرسکے ،اپنے ہاتھوں کو آسمان کی جانب بلند فرمایا اور اسامہ کے سرپر ہاتھ رکھا ۔

اسامہ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ آپ میرے لئے دعا فرمارہے ہیں ۔بعد ازاں اسامہ اپنے لشکر کے پاس آئے اور حکم دیا کہ خدا کا نام لے کرچل پڑوابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ حضور اکرم کی وفات ہوگئی(۱) ۔

ابن سعد کے بیان کردہ واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ :

۱:-حضور اکرم(ص) نے اپنی وفات سے چند ایام قبل شام وروم کی طرف ایک لشکر تیار فرمایا ۔

۲:- اسامہ بن زید جو کہ صغیر السن تھے ،انہیں اس لشکر کا امیر مقرر کیا گیا ۔

۳:-اسامہ کے لشکر میں سابقین اولین اور بالخصوص حضرات شیخین اور ابو عبیدہ بن جراح بھی شامل تھے ۔

۴:- جب لشکر نے تاخیری حربے شروع کئے تو رسول خدا ناسازی طبع کے باوجود سرپر پٹی باندھ کر مسجد میں تشریف لائے۔

۵:- امارت اسامہ پر اعتراض کرنے والوں پر کڑی تنقید فرمائی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہ ان کی پرانی عادت ہے ۔یہی معترضین اسامہ کے والد زید کی امارت پر بھی اعتراض کیا کرتے تھے ۔ مگر زید امارت کے حق دار تھے ۔ اسی طرح اعتراض کے باوجود بھی اسامہ امارت کے حقدار ہیں ۔

____________________

(۱):-طبقات ابن سعد جلد چہارم ص ۳-۴

۶۴

۶:-رسول خدا(ص) کی جانب سے باربار لشکر اسامہ کو روانہ کرنے کے حکم کے باوجود اہل لشکر نے تعمیل حکم نہ کی اور "جرف" میں ٹھہرے رہے ۔

۷:- اپنی زندگی کے آخری ایام میں رسول خدا بار بار اسامہ کے لشکر کو بھیجنے کے خواہش مند کیوں تھے ؟

۸:- حضرات شیخین اور بزرگ مہاجرین کو کمسن اسامہ کی ماتحتی میں بھیجنے کا آخر کیا مقصد تھا ؟

۹:- تاکیدی احکام سننے کے باوجود بھی لوگوں نے جانے میں تاخیر کی ؟

کہیں حقیقت یہ تو نہیں ہے کہ رسول خدا (ص) اپنی وفات سے پہلے ہر ممکنہ مزاحمت کو ختم کرنا چاہتے تھے اور مدینہ کی سرزمین کو علی (ع) کی خلافت کے لئے سازگار بنانا چاہتے تھے ؟

اور کیا جیش اسامہ کو روانہ کرنے اور کاغذ اور قلم دوات طلب کرنے میں کوئی باہمی ارتباط تو نہیں تھا ؟

اے کاش ! اگر شیخین تاخیری حربوں سے اسامہ متاثر نہ ہوتے اور لشکر کو لے کر روانہ ہوجاتے تو آج اسلامی تاریخ کسی اور طرح سے لکھی جاتی اور آج مسلمان قوم یوں زبوں حالی کا شکار نہ ہوتی ۔

۶۵

فصل دوم

سقیفہ کی کاروائی

۱:حضرت ابو بکر صدیق

سابقہ گفتگو کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ : حضرت علی (ع) پوری طرح سے خلافت بلافصل کی اہلیت وقابلیت رکھتے تھے ۔ کیونکہ علی (ع) کا رسول اسلام اور خود اسلام سے گہرا ارتباط تھا اور اسلام اور رسول اسلام بھی انہیں خلافت وامامت کے لائق سمجھتے تھے ۔

اگر بالفرض سقیفہ بنی ساعدہ میں مسلمان علی علیہ السلام کے حق کے لئے یوں دلیل دیتے کہ

(۱):-علی رسالت مآب کے سب سے قریبی ترین فرد ہیں ۔

(۲):-علی رسول خدا کی آغوش کے پروردہ ہیں ۔

(۳):- ہجرت کی شب امانتوں کے امین وہی تھے ۔

(۴):- رسول خدا نے انہیں اپنا بھائی مقرر کیا تھا ۔

(۵):- رسول خدا کے داماد ہیں ۔

(۶):-رسول خدا کی نسل ان کے صلب سے جاری ہوئی ۔

(۷):-رسول خدا کی تمام غزوات میں امیر لشکر اور علمدار تھے ۔

(۸):- وہ ہارون محمدی ہیں ۔

(۹) :- وہ شہر علی کا دروازہ ہیں ۔

(۱۰):-وہ بیت حکمت کا دروازہ ہے ۔

(۱۱):- وہ صفات انبیاء کے آینہ دار ہیں ۔

(۱۲):- نور نبوی کے وہ شریک ہیں ۔(۱۳):-وہ نبوت کے مربّی کے فرزند ہیں ۔

(۱۴):-انکی ولادت کعبہ میں ہوئی ۔(۱۵) :-ان کی پیشانی کبھی بتوں کے سامنے نہیں جھکی ۔

(۱۶) :- ان کی مودت اجر رسالت ہے ۔(۱۷) :- وہ مباہلہ میں صداقت اسلام کے گواہ ہیں ۔

(۱۸) :- وہ چادر تطہیر کے طاہر فرد ہیں ۔(۱۹) :- وہ صاحب علم الکتاب ہیں ۔

(۲۰) :- وہ اپنی جان کے بد لے مرضات خداوندی کے خریدار ہیں ۔

۶۶

الغرض اگر ایسا ہوتا اور مسلمان علی علیہ السلام کو ہی اپنی حکومت وزعامت کے لئے منتخب کرلیتے تو وہ انحراف ک شکار نہ ہوتے اور آج کے دور میں اسلامی تاریخ کو سنہری حروف سے لکھا جاتا ڈاکٹر طہ حسین نے اپنے موضوع سے انصاف کرتے ہوئے بالکل صحیح لکھا ہے :-

"علی اپنی قربت ،سبقت الی الاسلام ،اپنی فداکاریوں ،اپنی غیر منحرف سیرت ،دین سے تمسک ،کتاب وسنت کے علم اور استقامت رائے کے سبب بلاشبہ خلافت بلافصل کی صلاحیت رکھتے تھے(۱)

ابن حجر عقلانی امام علی علیہ السلام کے اہم خصائص بیان کرتے رقم طراز ہیں :-

"علی ابن ابی طالب اکثر اہل علم کے قول کے مطابق مسلم اول ہیں نبی اکرم کی آغوش میں تربیت پائی ۔کسی مرحلہ میں نبی سے جدا نہیں ہوئے ۔غزوہ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک رہے ۔اور غزوہ تبوک میں بھی وہ رسول خدا کے حکم کے تحت مدینہ میں ٹھہرے اور رسول خدا نے فرمایا تھا "اما ترضی یا علی ان تکون منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انہ لانبی بعدی " علی کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کی موسی سے تھی ۔مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔

اکثر غزوات میں حضرت علی ہی اسلامی لشکر کے علم بردار تھے ۔جب رسول خدا نے صحابہ میں مواخات قائم کی تو علی کو اپنا بھائی قرار دیا ۔آپ کے بے شمار مناقب ہیں ۔امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ :کسی صحابی کے لئے اتنی فضائل کی احادیث منقول نہیں ہیں ۔جتنی کہ علی کے لئے منقول ہیں(۲) ۔"

____________________

(۱):- الفتنتہ الکبری بن عفان ص ۱۰۲ -۱۰۳

(۲):- ابن حجر عسقلانی ۔الاصابہ فی تمیز الصحابہ ص ۵۰۱-۵۰۲

۶۷

بعض اہل علم کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی فضائل کی احادیث کی نشر واشاعت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ بنی امیہ کے سلاطین نے حضرت علی علیہ السلام کے فضائل ومناقب کو چھپانے کے لیے تمام حربے استعمال کئے ۔اسی لئے حفاظ حدیث نے اپنی دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے فضائل علی (ع) کی احادیث کی نشر واشاعت کی ۔چشم فلک نے آج تک علی علیہ السلام جیسا عالم اور مفتی نہیں دیکھا ۔غزوہ خیبر میں رسول خدا(ص) نے اعلان کیاتھا ۔ :- "کل میں اسے علم دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول (ص) سے محبت کرتا ہوگا اور اللہ اور رسول (ص) کا محبوب ہوگا ۔ اللہ اس کے ہاتھ پر خیبر فتح کرے گا ۔ " دوسرے روز آپ نے علم علی علیہ السلام کے حوالہ فرمایا ۔حضرت عمر کہا کرتے تھے کہ : مجھے صرف اسی دن ہی امارت کا شوق ہوا تھا ۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ براءت کی آیات دے کر علی علیہ السلام کو بھیجا اور فرمایا کہ قرآنی آیات کی تبلیغ یا تو میں خود کرسکتا ہوں یا وہ کرسکتا ہے جو مجھ سے ہو ۔

علاوہ ازیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "علی ولی فی الدنیا والآخرة " دنیا اور آخرت میں علی میرا جانشین ہے ۔

آپ نے علی وفاطمہ اور حسن وحسین علیھم السلام کو اپنی چادر میں داخل کرکے فرمایا :انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهرکم تطهیرا " اے اہل بیت ! اللہ کا بس یہی ارادہ ہے کہ تم سے رجس کو دور رکھے اور تم کو اس طرح پاک رکھے جیسا کہ پاکیزگی کا حق ہے ۔

علی علیہ السلام شب ہجرت رسول خدا کی چادر پہن کر ان کے بستر پر سوئے تھے اور رسول خدا کی جان بچائی تھی ۔

رسول خدا نے علی علیہ السلام سے فرمایا تھا :انت ولی کل مومن من بعدی " تم میرے بعد ہر مومن کے سردار ہو ۔

۶۸

رسول خدا (ص) نے مسجد میں کھلنے والے تمام دروازے بند کرادئیے لیکن علی علیہ السلام کا دروازہ کھلا رہنے دیا ۔علی (ع) حالت جنابت میں بھی مسجد سے گزرا کرتے تھے ، مسجد کے علاوہ علی (ع) کے گزرنے کا کوئی راستہ ہی نہیں تھا رسول کریم نے پالانوں ک منبر بنا کر لاکھوں افراد کے سامنے علی (ع) کا بازو بلند کرکے اعلان فرمایا :- "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے ۔

اور جب "فقل تعالوا ندع ابناءنا و ابناءکم ونساءنا ونسآءکم وانفسنا وانفسکم ثم نبتهل فنجعل لعنة الله علی الکاذبین "۔ علم آجانے کے بعد جو تم سے جھگڑا کرے تو کہہ دو کہ آؤ ہم اپنے بیٹے بلائیں اور تم اپنے بیٹے اور ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنی جانوں کو لے آئیں اور تم اپنی جانوں کو لے آؤ پھر ایک دوسرے کو بد دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں " کی آیت مجیدہ نازل ہوئی تو رسول اکرم (ص) نے علی وفاطمہ وحسن وحسین علیھم السلام کو بلایا اور فرمایا :-خداوندا ! یہ ہیں میرے اہلبیت ۔ امام ترمذی عمران بن حصین سے روایت کرتے ہیں رسول خدا (ص) نے فرمایا :-"ماتریدون من علی ؟ ان علیا منی وانا من علی وهو ولی کل مومن بعدی " آخر تم علی (ع) سے کیا چاہتے ہو ۔بلاشبہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں ۔میرے بعد ہر وہ مومن کا سردار ہے ۔

اب پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے مناقب وفضائل کے باوجود علی خلافت سے محروم کیوں رہے ؟۔

اس سوال کے جواب کے لئے ہمیں وفات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات کومد نظر رکھنا چاہیئے اور اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حضرت علی (ع) رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہز وتکفین ونماز جنازہ میں مصروف رہے ۔جب ان کے سیاسی حریف رسول خدا (ص) کے جنازہ کو چھوڑ کر سقیفہ

۶۹

بنی ساعدہ میں چلے گئے اور وہاں اپنی خلافت قائم کی(۱) ۔

حضرت علی کو خلافت سے محروم رکھنے کی ایک وجہ حضرت عمر نے یہ بیان کی تھی کہ عرب ایک ہی خاندان میں نبوت اور خلافت کا اجتماع برداشت نہیں کرسکتے ۔ اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ۱۱ھ میں رسولخدا (ص) نے وفات پائی اور حضرت علی رسول خدا(ص) کی تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ میں مشغول ہوگئے ۔

رسول خدا (ص) کے گھر سے باہر سیاسی فضا بڑی دھماکہ خیز تھی ۔جس میں سر فہرست خلیفۃ الرسول کا مسئلہ تھا ۔

سعد بن ابو عبادہ اوس وخزرج کے سرکردہ افراد کو لے کر سقیفہ بن ساعدہ میں آگئے ۔اور حضرت عمر اور ابو عبیدہ مسجد میں مسئلہ خلافت پر بحث کر رہے تھے ۔ اور اس کے علاوہ کئی اور گروہ دوسرے مقامات پر مصروف مشورہ تھے ۔

حضرت ابو بکر نے جب وفات رسول(ص) کی خبر سنی تو محلہ سخ سے رسول خدا (ص) کے گھر آئے اور حضرت عمر کو دیکھا کہ وہ دروازے پر تلوار ننگی کرکے کھڑے ہوئے تھے اور لوگوں کو دھمکیاں دے رہے تھے کہ جس نے رسول خدا (ص) کی وفات کی بات کی میں اسے قتل کردونگا ۔حضور کی وفات نہیں ہوئی ،وہ بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح آسمان پر چلے گئے ۔کچھ دنوں بعد واپس آئیں گے اورمنافقوں کے ناک اور کان کاٹیں گے ۔

اس سانحہ دلخراش کی وجہ سے حضرت عمر بظاہر اپنے ہوش وحواس کھو

____________________

(۱):- اس واقعہ کو مد نظر رکھتے ہوئے عارف رومی نے فرمایا تھا :-

"چوں صحابہ دنیا داشتند

مصطفی رابے کفن بگزاشتند "

حضرت بو علی قلندر پانی پتی نے حضرت علی(ع) کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا تھا ۔"امامی کہ روز وفات پیمبر خلافت گزارد بہ ماتم نشیند "

۷۰

بیٹھے تھے ۔عین سی وقت کسی آدمی نے انہیں سقیفہ کی کاروائی کی اطلاع دی ۔غم رسول میں "حواس باختہ " شخصیت فورا ہوش وحواس میں آگئی اور حضرت ابو بکر کے پاس ایک شخص کو بھیجا اور اس شخص نے حضرت ابو بکر سے کہا کہ عمر آپ سے ایک عظیم کام کے متعلق مشورہ کرنا چاہتے ہیں ۔

یہ اطلاع ملتے ہی حضرت ابو بکر گھر سے باہر نکل آئے اور پھر یہ دونوں بزرگوار سقیفہ بنی ساعدہ چلے گئے ۔جہاں اوس وخزرج کے سرکردہ افراد سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنانے پر تلے ہوئے تھے ۔

مگر ان حالات میں حضرت علی (ع) نے وہی کیا جو انہیں کرنا چاہئیے تھا ۔ حضرت علی رسول خدا(ص) کی تجہیز وتکفین کے معاملات میں مصروف رہے ۔رسول خدا (ص) کے چچا حضرت عباس وفات رسو(ص) کی وجہ سے بہت غمگین تھے مگر ان دردناک لمحات میں انہوں نے حضرت علی (ع) کی بیعت کرنے کاقصد کیا تھا جسے حضرت علی (ع) نے یہ کہ کہر ٹھکرادیا کہ :"ابھی تورسول کریم کا جسد مبارک بھی دفن نہیں ہوا میں خلافت کو کیسے قبول کرسکتا ہوں ؟"

ابو سفیان بن حرب تین دفعہ حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور ان کو خلافت سنبھالنے کی ترغیب دی اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو اس ناپسندیدہ حکومت کو ختم کرنے کے لئے میں مدینہ کی گلیوں کو اونٹوں اور پیادہ لوگوں سے بھر دوں ۔مگر حضرت علی علیہ السلام نے اسے سختی سے ڈانٹ دیا اور کہا : تم اسلام کے خیر خواہ کب تھے ؟

اب تم خلیفہ گر کا کردار ادا کرنا چاہتے ہو؟۔

سقیفہ کا اجتماع اگر چہ انصار نے ہی منعقد کیا تھا لیکن اس اجتماع سے فائدہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ۔اس کاروائی کی مختصرا روئیداد یہ ہے ۔:-

قبیلہ اوس وخزرج کے افراد سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے ۔ ان میں سعد بن عبادہ بھی موجود تھے ۔

۷۱

سعد بیمار تھے اور بلند آواز سے گفتگو کرنے سے قاصر تھے ۔انہوں نے اپنے ایک فرزند سے کہا کہ تم میری گفتگو سن کر سامعین کو اس سے آگاہ کرتے رہو چنانچہ بیٹا ان کی مدہم گفتگو کو سن کر بلند آواز سے لوگوں کوسناتا ۔سعد نے کہا :-

"اے گروہ انصار ! تمہارا دین میں بڑا مقام ہے اور تمہیں اسلام میں فضیلت حاصل ہے اور ایسی فضیلت پورے عرب میں کسی قبیلہ کو حاصل نہیں ہے ۔جناب رسولخدا(ص) کئی سال تک مکہ میں اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کرنے اور بت پرستی چھوڑنے کی دعوت دیتے رہے ۔چند افراد کے سوا باقی قوم نے ان کی شدید مخالفت کی ۔اللہ تعالی نے تمہیں اس عزت سے سرفراز کیا ۔اللہ نے اپنے نبی کو تمہارے پاس بھیج دیا اور اللہ نے تمہیں دین کی مدد کیلئے منتخب فرمایا ۔

تم دین کے دشمنوں پر سخت ثابت ہوئے اور دوسرے مسلمان کی بہ نسبت اسلام میں تمہاری قربانیوں زیادہ ہیں اللہ نے اپنے حبیب کو اس حال میں وفات دی کہ وہ تم سے راضی تھے ۔اپنے آپ کو مضبوط بناؤ ۔تمام لوگوں کی بہ نسبت تم حکومت کے زیادہ حقدار ہو"۔

یہی اطلاع غم رسول میں "حواس باختہ "شخصیت حضرت عمر کو ملی ۔اطلاع ملتے ہی وہ رسول خدا کے دروازے پر آئے اور حضرت ابو بکر کو بلایا اور یہ دونوں دوست سقیفہ کی طرف چلے گئے ۔وہاں حضرت ابو بکر نے خطاب کرتے ہوئے کہا :-

"ہم مہاجرین سب سے پہلے اسلام لائے اور ہم رسول خدا(ص) کا خاندان ہیں ۔اور تم لوگ اللہ کے مدد گار ہو اور کتاب خدا میں ہمارے بھائی ہو اور دین میں ہمارے شریک ہو۔تم ہمیں تمام لوگوں سے محبوب ہو اور تم ہمیں بڑے عزیز ہو اور تم لوگوں نے ہمیشہ ایثار سے کام لیا ہے اور میں اب بھی تم سے اسی ایثار کی توقع رکھتا ہوئن اس وقت تمہارے درمیان ابو عبیدہ اور عمربن خطاب موجود ہیں ۔ان دونوں میں سے تم جس کی بھی چاہو بیعت کر سکتے ہو میں ان دونوں کو اس کا م کے اہل سمجھتا ہوں "۔

۷۲

حضرت عمر اور ابو عبادہ نے کہا کہ آپ کے ہوتے ہوئے کوئی اور شخص مسند خلافت کو نہیں سنبھال سکتا ۔آپ ہی مستحق خلافت ہیں ۔اس وقت انصار میں سے حباب بن منذر نے کھڑے ہوکر کہا ۔

گروہ انصار ! اپنے اتفاق واتحاد کو قائم رکھو ۔تمہاری ہی سرزمین پہ کھل کر اللہ کی عبادت ہوئی ہے ۔تم نے ہی رسول کو پناہ دی تھی تم نے ہی ان کی نصرت کی تھی اور رسول خدا ہجرت کرکے تمہارے ہی پاس آئے تھے ۔۔۔۔۔اگر اس کے باوجود یہ لوگ تمہاری حکومت پر راضی نہیں تو پھر ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک ان میں سے ہو ۔

حضرت عمر نے کہا : ایسا ناممکن ہے ۔

بشیر بن سعد خزرجی نے دیکھا کہ انصار سعد بن سعادہ کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں تو اس کے ذہن میں اوس وخزرج کی سابقہ خانہ جنگیاں عود کر آئیں اور وہ سعد کو اس لئے ناپسند کرتا تھا کہ سعد کا تعلق اوس قبیلہ سے تھا اور بشیر نے سوچا کہ اگر حکومت اوس قبیلہ میں چلی گئی تو یہ ان کی نسلوں کے لئے اعزاز ثابت ہوگی ۔جب کہ خزرج کی کمزوری کا پیش خیمہ بنے گی ۔اسی لئے اس کے ذہن نے فیصلہ کیا کہ خلافت میرے قبیلہ میں تو ویسے ہی نہیں آسکتی تو اوس میں بھی نہیں جانی چاہئے ۔کیوں نہ کسی مہاجر کی حکومت کو تسلیم کرلیا جائے ۔

یہ سوچ کر وہ کھڑا ہوا اور حاضرین سے کہا :

گروہ انصار! یہ سچ ہے کہ ہم نے اسلام کی خدمت کی ۔لیکن یہ حقیقت بھی ہمیں پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ہمارے جہاد اور اسلام کا مقصود صرف اپنے اللہ کی رضا اور نبی کی اطاعت تھی ۔

محمد کا تعلق قریش سے تھا اور ان کی قوم ہی ان کی میراث کی حقدار ہے اللہ سے ڈرو اور ان سے مت جھگڑو۔

۷۳

حضرت ابو بکر نے کھڑے ہوکر کہا ! یہ عمر اور ابو عبادہ ہیں ۔ان میں سے تم جس کی بیعت کرنا چاہتے ہوکرلو ۔

ان دونوں نے کہا ! خدا کی قسم ہم آپ پر حکومت نہیں کریں گے ۔ آپ ہاتھ بڑھائیں ۔ہم بیعت کرتے ہیں ۔

حضرت ابو بکر نے ہاتھ بڑھایا ،حضرت عمر اور ابوعبادہ سے پہلے بشیر بن سعد نے ان کی بیعت کی ۔

حباب بن منذر نے اسے آوازدی "اے نافرمان اور قوم کے دشمن بشیر ! تو نے یہ سب کچھ اپنے چچا زاد کے حسد کی وجہ سے کیا ہے ۔خزرج کے سردار بشیر بن سعد کی بیعت کے بعد اوس قبیلہ نے سوچا کہ اگر ہم بیعت میں پیچھے رہ گئے تو خزرج قبیلہ حکومت کا مقرّب بن جائے گا ۔اسی لئے اوس میں اسے اسید بن حضیر نے خزرج ک ضد اور سعد بن عبادہ کی مخالفت کی وجہ س بیعت کی ،اس کے بعد اس کے قبیلہ نے بھی بیعت کرلی ۔

بیمار سعد بن عبادہ کو چار پائی پر لٹا کر گھر لے گئے اور انہوں نے مرتے دم تک بیعت نہیں کی تھی ۔

پھر حضرت سعد شام چلے گئے اور حضرت ابوبکر کی خلافت کے آخری ایام میں انہیں قتل کردیا گیا اور مشہور کیاگیا کہ رات کی تاریکی میں جنات نے انہیں تیر مار کر ہلاک کردیا ۔ جب کہ باخبر حلقے اس کو خالد بن ولید کی کارستانی قراردیتے ہیں ۔

اس بیعت کے کچھ دیر بعد براء بن عازب نبی اکرم کے گھر آئے ۔ابھی تک رسول خدا کا جسم بھی دفن نہیں ہوا تھا ۔ انہوں نے آتے ہی اطلاع دی کہ میں نے اپنی آنکھوں سے عمر اور ابو عبادہ کو دیکھا ہے کہ وہ ہر گزرنے والے کا ہاتھ پکڑ کر ابو بکر کے ہاتھ پر رکھ کر بیعت لے رہے ہیں(۱) ۔

____________________

(۱):-عبد الفتاح عبد المقصود ۔الامام علی بن ابیطالب جلد اول ص ۱۴۹

۷۴

واقعات سقیفہ کا تجزیہ

ہم سقیفہ کی کاروائی بلا کم وکاست اپنے قارئین کے حضور پیش کرچکے ہیں ۔

ان واقعات میں حضرت عمر کا جو کردار رہا ہے اس سے کوئی بھی صاحب نظر چشم پوشی نہیں کرسکتا ۔

۱:- خدارا ہمیں بتایا جائے کہ حضرت رسول خدا(ص) کے گھر میں تعزیت تسلی کے لئے کیوں نہیں گئے ۔اگر بالفرض انہیں علی (ع) اور اولاد علی (علیھم السلام) سے کوئی دلچسپی نہیں تھی تو اس دلخراش صدمہ کے وقت کم از کم اپنی بیوہ بیٹی کے سرپر ہی ہاتھ رکھنے کیلئے چلے جاتے اور یوں رسو لخدا(ص) کی تجہیز وتکفین میں شرکت کا اعزاز حاصل کرلیتے ۔

۲:-موصوف اگر غم زدہ خاندان کو تسلی دینا نہیں چاہتے تھے ۔تو جس وقت انہیں اوس وخزرج کے اجتماع کا علم ہوا تو اس وقت حضرت ابو بکر کو بلانے کے لئے خود اندر تشریف کیوں نہ لےگئے ؟

۳:- خود جانے کے بجائے انہوں نے کسی اور فرد کو حضرت ابو بکر کو بلانے کے لئے کیوں بھیجا اور خود دروازے پر کھڑے رہنے کو کیوں پسند فرمایا ؟

۴:- غم زدہ خاندان کے پاس اس وقت اور بھی اصحاب موجود ہوں گے اس کے باوجود حضرت عمر نے صرف حضرت ابوبکر کو ہی مشہورہ کیلئے طلب کیوں فرمایا ؟

۵:- ہمیں بتایا جائے کہ حضرت ابو بکر کا گھر کے اندرہونا اور حضرت عمر کا باہر دروازے پر کھڑا ہونا یہ محض ایک اتفاق تھا یا پہلے سے طے شدہ منصوبے کا حصہ تھا ؟

۶:- حضرت ابوبکر کے آنے سے پہلے حضرت عمر اور ابو عبیدہ کی جو باہمی گفتگو ہوئی تھی ۔اس میں کن نکات پر اتفاق ہواتھا ؟

۷:- حضرت ابوبکر نے مہاجرین کی جو فضیلت بیان فرمائی تھی ۔اس فضیلت

۷۵

میں تمام مہاجر برابر کے شریک تھے یا صرف حضرت عمر اور ابو عبیدہ ہی تمام فضیلت کے مالک تھے ؟

۸:-حضرت ابو بکر نےمہاجرین کے استحقاق خلافت کے لئے دو وجوہات بیان فرمائیں ۔

(الف):- انہیں اسلام میں سبقت کا شرف حاصل ہے ۔

(ب):- وہ حضور کریم کا خاندان ہیں

اگر مذکورہ بالا دو وجوہات ہی خلافت کا معیار ہیں تو اس معیار پر حضرت علی علیہ السلام زیادہ اترتے ہیں کیونکہ

(۱):- ان کی اسلام میں سبقت مسلم ہے ۔

(۲):- وہ حضرت ابو بکر کی بہ نسبت رسول خدا(ص) کے زیادہ قریب ہیں ۔

پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت ابو بکر کے بیان کردہ معیار کے مطابق علی علیہ السلام کو خلافت کا حق دار نہیں سمجھا گیا ؟

۹:- خلافت اگر مہاجرین کاہی حق ہے تو پھر حضرت ابو بکر نے مہاجرین میں صرف دو افراد یعنی حضرت عمر اور ابو عبیدہ کے نام ہی کیوں پیش کیے ؟

مذکورہ ناموں کی تخصیص کی کوئی وجہ بیان کی جاسکتی ہے ؟ اور کیا یہ "ترجیح بلا مرجح " تو نہیں تھی ؟

۱۰:-خلافت کو مہاجرین میں ہی محدود کرنا ضروری تھا تو کیا حضرت ابو بکر انصار کو یہ مشہورہ نہیں دے سکتے تھے کہ وہ جس مہاجر کو امیر بنانا چاہیں بنا لیں آخر ایسا کیوں نہیں کیا گیا ؟

۱۱:- بزم مہاجرین میں سے صرف دو افراد کے نام پیش کرنے میں کونسی حکمت تھی ؟طالبان تحقیق کے لئے اس حکمت کو آشکار کیا جائے ۔

۱۲:-حضرت عمر اور ابوعبیدہ نے اس پیش کش کو کیوں مسترد کردیا اور انہوں نے حضرت ابو بکر کی امارت کو کیوں ترجیح دی ؟ اس کی کوئی معقول وجہ بیان فرمائی جائے ۔

۷۶

۱۳:- سقیفہ کی کاروائی کی تمام کڑیاں اتفاقیہ انداز میں ملتی گئیں یا پہلے سے کسی طے شدہ منصوبہ کے تحت انہیں جوڑا گیا تھا ؟ علم تاریخ کے طلباء کے لئے اس سوال کا جاننا انتہائی ضروری ہے ۔

علمائے اہل سنت سے گزارش ہے کہ وہ اس سلسلہ میں تسلی بخش جواب دیں ۔

۱۴:- کیا سقیفہ کی کاروائی اور لشکر اسامہ کا بھی آپس میں کوئی تعلق ہے ؟ اور حضرت عمر اور ابو عبیدہ نے مسجد میں بیٹھ کر جو مشورہ کیا تھا ۔سقیفہ کا اس مشورہ سے بھی کوئی واسطہ تھا ؟۔

حضرت ابو بکر کی رفاقت میں دونوں شخصیات جب سقیفہ کی طرف روانہ ہوئیں ،تو کیا تینوں بزرگوں کی رفاقت تو سقیفہ میں کامیابی کا ذریعہ نہیں بنی ؟

۱۵:- جب چند افراد خلافت کے لئے سقیفہ میں جمع ہوئے تھے تو اس وقت دوسرے مہاجرین کہاں تھے ؟

۱۶:- اوس وخزرج کی پرانی دشمنیاں سقیفہ میں عود کرآئی تھیں ۔کیا ایسا اتفاقی طور پر ہوا تھا یا کوئی خفیہ ہاتھ اس دشمنی کو بھڑکانے پر تلے ہوئے تھے ؟

۱۷:- اور اگر اس آتش عداوت کو بھڑکانے میں خفیہ ہاتھ کارفرما تھے تو ان خفیہ ہاتھوں کی نشاندہی کرنا آپ پسند فرمائیں گے ؟

۱۸:- کیا خلیفہ کا انتخاف تدفین رسول سے بھی زیادہ ضروری تھا ؟۔

۱۹:- کیا حضرت ابو بکر رسول خدا (ص) کی تدفین تک مسلمانوں کو انتظار کرنے کا مشورہ نہيں دے سکتے تھے ؟

آخر ایسی جلدی بازی کی بھی کیا ضرورت تھی کہ اللہ تعالی کے آخری پیغمبر جو کہ رشتہ میں ان کے داماد بھی تھے ،دفن نہیں ہوئے تھے کم از کم ان کے دفن ہونے کا تو انتظار ہی کرلیتے اور کیا اتنی جلدی بازی کرکے انہوں نے اپنے داماد

۷۷

سے حق محبت ادا کرنے میں کوئی کوتاہی تو نہیں کی ؟

۲۰:- کیا سقیفہ کی اس پیچیدہ کاروائی اور کاغذ اور قلم دوات مانگنے کی حدیث اور جیش اسامہ کے واقعات کا کوئی باہمی ارتباط تو نہیں ہے ؟ تاریخ کے طلاب کے لئے درج بالا سوالات کے جواب انتہائی لازمی ہیں ۔میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس پوری کاروائی میں حضرت عمر نے مرکزی کردار ادا کیا ۔انہوں نے ہی ابو عبیدہ سے اس معاملہ میں پہلے مشہورہ کرلیا تھا ۔اور ایک منصوبہ تیار کرلیا تھا ۔جس کی تکمیل کے لئے حضرت ابوبکرکو بلایا گیا بعد ازاں اسلام کے ان "چاند تاروں" نے اثنائے راہ اپنے منصوبے کی باقی جزئیات طے کرلیں ۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو بکر فقط ان دو حضرات (عمر اور ابو عبیدہ)کو ہی پیش کرتے تھے اور یہ دونوں بزرگ حضرت ابو بکر کو پیش کرتے تھے ۔

تو کیا پوری ملت اسلامیہ نے انہیں اپنا نمائندہ بنا کر سقیفہ میں بھیجا تھا ؟۔جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ سقیفہ کے اجلاس میں امت کے افراد کا ایک عشر عشیر تک نہ تھا ۔

تو اتنی اقل القلیل تعداد کو امت اسلامیہ کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت کس نے دی تھی ؟

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت ابو بکر کو جب بلا یا گیا تو نہ تو اس سے پہلے اور نہ ہی بعد میں کسی مسلمان سے مشورہ کیا گیا تھا کہ اسلام کی قیادت کے لئے کون سی شخصیت سب سے زیادہ موزوں ہے ۔سقیفہ کی پوری کاروائی کو اتفاقی حادثہ سمجھ کر نظر انداز کرنا ممکن ہے یہ ایک طویل منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا نتیجہ ہے ۔جس میں حضرت عمر کا کردار سب سے نمایاں ہے ۔

اے باد صبا ایں ہمہ آوردہ تست

۷۸

حضرت علی خلافت سے محرومی کی ایک اور وجہ

وفات رسول اور حضرت ابو بکر کی خلافت کا حال تو آپ پڑھ چکے ہیں حضرت علی کو خلافت کیوں محروم کیا گیا‏‏؟

اس کا ایک اہم سبب حافظ نے بیان کیا ہے ۔ہم اسے اپنے منصف مزاج قارئین کی نذر کرتے ہیں :-

علی علیہ السلام کے قریش سے تعلقات انتہائی پیچیدہ تھے ۔قریش علی (ع) سے سخت کینہ رکھتے تھے ۔کیونکہ علی علیہ السلام نے ان کے بزرگوں کو غزوات میں قتل کیا تھا اور ان کی قوت کو ضعف میں تبدیل کردیا تھا ۔ان کی تمام ترشان وشوکت کو خاک میں ملادیا تھا اسلام قبول کرنے سے دلوں کے کینے اور نفرتیں ختم نہیں ہوا کرتیں ۔

اس کے لئے آپ یہ فرض کریں کہ آپ خدا نخواستہ سال دو سال پہلے مشرک ہوتے اور ایک مسلمان نے اسلامی جنگ میں آپ کے بیٹے یا بھائی کو قتل کردیا ہوتا اور پھر چند دنوں کے بعد آپ کے دل کی تمام رنجشیں اور کینہ ختم ہوجائے گا؟ اور کیا آپ اپنے بیٹے یا بھائی کے قاتل کو گلے لگالیں گے ؟ایسا کرنا انتہائی دشوار ہے ۔ایسا کرنا صرف اس صورت میں ممکن ہے جب آپ دل کی گہرائیوں سے مسلمان ہوجائیں ۔

لیکن اس کے برعکس اکثر عربوں نے یا تقلیدی طور پر اسلام قبول کیا یا کسی منفعت ومفاد کی خاطر انہوں نے ایسا کیا ۔

بہت سے لوگوں نے تو اپنے خون کے تحفظ کے لئے کلمہ پڑھا تھا اور بعض لوگوں نے اپنے مخالف قبیلہ کو مزید زچ کرنے کے لئے اسلام قبول کیا تھا ۔آپ کو یہ حقیقت ہمیشہ ذہن نشین کرنی چاہئیے کہ رسالت مآب کے زمانہ میں جتنے

۷۹

غزوات ہوئے اور وہ تمام کفار جو علی کی تلوار سے قتل ہوئے یا کسی اور مسلمان کی تلوار سے قتل ہوئے ان کے ورثاء نے اپنے تمام تر قتل کی ذمہ داری علی (ع)پر ڈال دی تھی اور وہ علی کو اپنا دشمن اور قاتل سمجھتے تھے ۔ اور اتفاق یہ ہوا کہ مقتول کفار کے ورثا نے بوجوہ اسلام قبول کرلیا ۔اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ان کے سینے صاف نہیں ہوئے تھے ۔علی کی دشمنی اور بغض کی آگ ان کے سینوں میں بھڑک رہی تھی اور وہ ہمیشہ علی (ع) سے اپنے انتقام کی پہلی قسط وصول کی تھی اور یہی جذبہ انتقام کربلا میں مکمل پروان چڑھ چکا تھا ۔ حضرت علی (ع) کے خاندان کو جس بے دردی سے کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر مارا گیا تھا وہ سب اسی انتقام کا شاخسانہ تھا(۱) ۔

اگر امت اسلامیہ کے سرکردہ افراد میں انصاف کی رمق ہوتی تو خلافت اور بیعت کے مسئلہ کو رسول خدا(ص) کی تجہیز وتکفین تک موخر کردیتے ۔آج درد دل رکھنے والا ہر انسان یہ سوچ کر غم زدہ ہوجاتا ہے کہ جس عظیم شخصیت کی جانشینی کی خاطر ساری تگ و دو کی گئی ۔اس سے حق محبت کو یوں ادا کیا گیا کہ اس کے جنازہ میں شرکت نہیں کی گئی اور اس کے غم زدہ پسماندگان کے سر پر کسی نے شفقت سے ہاتھ تک نہ پھیرا ۔حضور اکرم (ص) کی آنکھ بند ہوتے ہی وہ محبت ودوستی کیوں عنقا ہوگئی ؟۔

علی علیہ السلام کو جو حضور اکرم سے الفت ومحبت تھی ،انہوں نے اس محبت کا حق ادا کیا انہوں نے اس لمحہ میں حکومت کے حصول کی بجائے جنازہ رسول (ص) کو ترجیح دی ۔اس سے علی علیہ السلام کے سیاسی حریفوں نے فائدہ اٹھایا ۔علی صلح وآشتی کو پسند کرنے والے تھے ۔علی کی عظمت کا اس سے اندازہ لگائیں کہ انہوں

____________________

(۱):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد سوم ۔ص ۲۸۳ مطبوعہ مصر ۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333