المیہ جمعرات

المیہ جمعرات0%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
زمرہ جات:

صفحے: 333
مشاہدے: 87615
ڈاؤنلوڈ: 2635

تبصرے:

المیہ جمعرات
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 87615 / ڈاؤنلوڈ: 2635
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

ہے کہ : حضرت علی (ع)ہی خلافت کے اصل مالک ووارث تھے ۔خواہ خلافت پر فائز ہوتے تو بھی ان کا حق تھا اور اگر انہوں نے کسی اور کو خلافت پر فائز ہونے دیا تو بھی یہ ان کا استحقاق تھا ۔البتہ اس مقام پر ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ انہوں نے اور لوگوں کی خلافت کو تسلیم کر لیا تھا اسی لیے ہم بھی ان کی اتباع کرتے ہوئے بزرگوں کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں اور جس پر علی (ع)راضی تھے ہم بھی اس پر راضی ہیں(۱)

تو اس فریق کے نظریہ کی تلخیص ان الفاظ میں کی جاسکتی ہے کہ یہ فریق حضرت علی علیہ السلام کو حضرت ابو بکر سے افضل مانتا ہے اور انہیں خلافت کا صحیح حقدار قرار دیتا ہے ۔البتہ ان کے لئے رسول اکرم (ص) کی طرف سے کسی نص کا قائل نہیں ہے ۔اس لحاظ سے صورت حال یہ ہوگی کہ شرعی تقاضوں کے تحت حضرت علی (ع) خلیفہ تھے اور حضرت ابو بکر چونکہ مخصوص حالات کی وجہ سے خلیفہ بن چکے تھے اور حضرت علی (ع) نے بھی مزاحمت نہیں کی تھی ۔ اسی لئے ان کی خلافت بھی درست ہے ۔

الغرض مسئلہ خلافت ہر دور میں اختلاف کا محور رہا ہے ۔اسی سے دوسرے اختلاف نے ہمیشہ جنم لیا ہے ۔وفات رسول (ص) سے لے کر آج تک یہ مسئلہ ہر دور میں نزاعی رہا ہے ۔مسئلہ خلافت کیلئے ہر فریق نے اپنی رائۓ کو درست قرار دیا اور دوسرے فریق کی رائے کو ہمیشہ جھوٹ اور بہتان کہہ کر ٹھکرایا ہے ۔

تاریخ کوئی شخص نص ووصیت کا انکار کرتا ہے تو پھر وہ اس بات کا قائل

____________________

(۱):- شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ۲/۷۲ طبع اول مطبوعہ مصر ۔

۴۱

ہے کہ پیغمبر خدا کو امت اسلامیہ کے مستقبل کی کوئی فکر ہی نہیں تھی ۔اور آپ کو اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ امت کے کتنے ٹکڑے ہوجائیں گے اور امت کتنی زبوں حالی کا شکار ہوجائے گی ۔

جب کہ تاریخی حقائق اس نظریہ کو لغو اور باطل قرار دیتے ہیں ۔آپ حدیث قرطاس کو ہی لے لیں ۔جس پر ہم سابقہ اوراق میں کافی بحث کرچکے ہیں لیکن اس مقام پر بھی ہم مذکورہ حدیث کو پیش کرنا چاہتے ہیں ۔

حدیث قرطاس

ابن اثیر اپنی کتاب الکامل فی التاریخ جلد دوم صفحہ نمبر ۲۱۷ پر تحریر کرتے ہیں :-اشتد برسول الله مرضه وجعه فقال ایتونی بدواة وبیضاء اکتب لکم کتابا لاتضلون بعدی ابدا ،فتنازعوا ،ولا ینبغی عند نبی تنازع ،فقالوا ان رسول الله یهجر ،فجعلوا یعیدون علیه ،فقال دعونی فما انا فیه خیر مما تدعوننی الیه ،فاوصی بثلاث ،ان یخرج المشرکون من جزیرة العرب وان یجازی الوفد بنحو ما کان یجیزهم ،وسکت عن الثالثة عمدا وقال نسیتها "

جناب رسول خدا (ص) کی بیماری اور درد میں اضافہ ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ :-میرے پاس کاغذ اور قلم دوات لاؤ تاکہ میں تمہیں تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو گے ۔ یہ سن کر لوگوں نے جھگڑنا شروع کردیا جبکہ نبی کے پاس جھگڑا کرنا نامناسب تھا ۔ لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ رسول خدا ہذیان کہہ رہے ہیں اور بار بار یہی کہنے لگے ۔اس پر رسول خدا(ص)نے فرمایا : میں جس تکلیف میں ہوں وہ اس سے کہیں بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلانا چاہتے ہو ۔آپ نے تین امور کی وصیت کی ۔

۱:- مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دیا جائے ۔

۴۲

۲:- وفد بھیجنے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہیئے جیسا کہ میں بھیجا کرتا تھا اور تیسری وصیت کو جان بوجھ کر چھپایا گیا اور کہا کہ وہ مجھے بھول گئی ہے ۔امام بخاری نے اپنی صحیح میں اس روایت کو یوں نقل کیا ہے ۔

"حدّثنا سفیان عن سلیمان الاحول عن سعید بن جبیر قال قال ابن عباس ،اشتد برسول الله وجعه فقال ایتونی اکتب لکم کتابا لن تضلوا بعده ابدا فتنازعوا ولا ینبغی عند نبی تنازع ،فقالوا ماشانه اهجر ؟ استفهموه فذهبوا یرددون علیه فقال دعونی فالذی انا فیه خیر مما تدعوننی الیه ،واوصاهم بثلاث قال اخرجوا المشرکین من جزیرة العرب ،واجیزوا الوفد بنحو ما کنت اجیزهم ،وسکت عن الثالثة او قال نسیتها "

رسول خدا (ص) کی تکلیف میں اضافہ ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس کاغذ اور قلم دوات لاؤ تاکہ میں تمھارے لیئے ایسی تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے اس کے بعد لوگوں میں تنازعہ پیدا ہوگیا جب کہ نبی کے پاس تنازعہ نامناسب تھا ۔ پھر وہ لوگ کہنے لگے کہ کیا نبی ہذیان کہہ رہے ہیں اور بار بار اسی جملہ کا تکرار کرنے لگے ۔اس پر حضور اکرم (ص) نے فرمایا :" میں جس تکلیف میں ہوں وہ تمہاری دعوت سے کئی گنا بہتر ہے اور آپ نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی :

۱:- جزیرہ عرب سے مشرکین کو نکال دو

۲:- وفد بھیجنے کا سلسلہ اس طرح جاری رہنا چاہئیے جیسا کہ میں بھیجا کرتا تھا ۔روای نے تیسری وصیت کے متعلق خاموشی اختیار کرلی یا اس نے کہا :مجھے تیسری بات بھول گئی ہے ۔

امام بخاری نے ایک اور سند سے اسی حدیث کو یوں بیان کیا ہے"لمّا حضر رسول الله صلّی الله علیه وسلّم وفی البیت رجال ،فقال النبی هلموا اکتب لکم کتابا لاتضلوا بعده ،فقال بعضهم ان رسول الله قد غلب علیه الوجع وعندکم القرآن ،وحسبنا کتاب الله ،فاختلف اهل البیت واختصموا

۴۳

فلمّا اکثروا اللغو والاختلاف قال رسول الله قومو" ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضور کریم (ص) کا وقت آخر گھر میں بہت سے افراد موجود تھے ۔رسول خدا(ص) نے فرمایا : میں تمہیں ایسی تحریر لکھ کر دینا چاہتا ہوں کہ تم اس کے بعد گمراہ نہ ہوگے ۔تو ان میں سے بعض نے کہا رسول خدا(ص) پر درد کا غلبہ ہے اور تمھارے پاس قرآن موجود ہے ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے ۔گھر میں موجود افراد کا اس بات پر اختلاف ہوگیا اور وہ جھگڑنے لگے ۔جب حضور کریم کے پاس اختلاف اور بے ہودہ گوئی زیادہ بڑھی تو آپ نے فرمایا اٹھ کر چلے جاؤ ۔

اسی حدیث کو ابن سعد نے اپنی کتاب طبقات کبری جلد ۴ ص ۶۰-۶۱ پر اس طرح نقل کیا ہے ۔

"ان رسول الله عند ما حضر ته الوفاة و کان معه فی البیت رجال فیهم عمر بن الخطاب قال ، هلموا اکتب لکم کتابا لن تضلوا بعده ، فقال عمر ان رسول الله قد غلبه الوجع وعندکم القرآن حسبنا کتاب الله ،فاختلف اهل البیت واختصموا ،فلما کثر اللغط و الآختلاف قال النبی قوموا عنی "

حضور کریم (ص) کی وفات کے وقت گھر میں بہت سے افراد تھے ان میں عمر بن خطاب بھی موجود تھے ،حضور نے فرمایا تم کاغذ اور قلم دوات لاؤ ،میں تمہارے لئے تحریر لکھدوں جس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ۔حضرت عمر نے کہا اس وقت رسول خدا(ص) پر درد کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن موجود ہے ۔ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے ۔گھر میں بیٹھے ہوئے افراد کا آپس میں اختلاف ہوگیا اور جھگڑنے لگے ۔جب حضور اکرم (ص) کے پاس شوروغوغا بڑھ گیا تو آپ نے فرمایا :میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ ۔

اس حدیث کے پڑھنے کے بعد آپ خد اپنے ضمیر اور وجدان کی عدالت میں فیصلہ کریں رسول کریم (ص) کے فرمان کو سن کر حضرت عمر نے جو جواب دیا

۴۴

کیا وہ حضور اکرم (ص) کی شخصیت کے مطابق تھا؟ اور کیا آداب صحبت ایسے جواب کی اجازت دیتے ہیں ؟ اور کیا دین اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ حضور اکرم (ص) کے فرمان کو ہذیان کہہ کر ان کی توہین کی جائے ؟

آپ حضرت عمر کے جواب کو ملحوظ خاطر رکھیں اور قرآن مجید کی اس آیت کو بھی پڑھیں "وما ینطق عن الهوی ان هو الا وحی یوحی "(النجم ۳-۴)

رسول اپنی خواہش سے نہیں بولتے وہ تو وہی کہتے ہیں جو وحی کہتی ہے اس آیت کی موجود گی میں حضرت عمر کے جواب کی شرعی حیثیت کیا قراردپائی ہے ۔اس کا فیصلہ ہم اپنے منصف مزاج قارئین کے حوالہ کرتے ہیں ۔عجیب بات تو یہ ہے کہ صحابہ نے حضور اکرم (ص) سے بہت سے ایسے سوال بھی دریافت کیے تھے جو کہ مسئلہ خلافت سے بہت ہی کم اہمیت کے حامل تھے ۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ :- صحابہ نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کو غسل کون دے ؟ تو آپ نے فرمایا میرے خاندان کے قریبی افراد مجھے غسل دیں ۔ اور صحابہ نے آپ سے دریافت کیا آپ کا کفن کیسا ہونا چاہیے تو فرمایا مجھے میرے اپنے کپڑوں کا ہی کفن پہنایا جائے یا مصری کپڑے کا کفن دیا جائے یا یمنی پارچہ کا کفن بنایا جائے ۔صحابہ نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ کو قبر میں کون اتارے ؟ تو فرمایا کہ میرے خاندان کے افراد مجھے قبر میں اتاریں ۔

اس روایت کو پڑھنے کے بعد لگتی کہیئے کہ صحابہ کفن ،دفن اور قبر میں اتارنے والے کے متعلق پوچھتے رہے ،کیا انہوں نے آپ سے یہ نہیں پو چھا ہوگا کہ آپ کا جانشین کون ہوگا ؟ یا خود حضور کریم نے صحابہ کو نہیں بتایا ہوگا کہ میرا جانشین کون ہے ؟

ابن خلدون اسی صفحہ پر لکھتے ہیں کہ اس کے بعد رسول خدا نے فرمایا میرے پاس کاغذ اور قلم دوات لاؤ میں تمہیں ایسی تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم

۴۵

کبھی گمراہ نہ ہوگے ۔یہ سن کر لوگوں نے جھگڑنا شروع کردیا کچھ لوگوں نے کہا کہ حضور ہذیان کہہ رہے ہیں اور مسلسل فرمان پیغمبر کو ہذیان کہتے رہے آپ نے فرمایا : میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے کہیں بہتر ہے جس کی تم مجھے دعوت دے رہے ہو ۔(۱)

قارئین کرام !

اب آپ فیصلہ کریں کہ رسول کو تحریر کیوں نہ لکھنے دی اور یہ مزاحمت کیوں کی گئی اور اس ہنگامہ دار و گیر کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی ؟

کیا ایسا تو نہ تھا کہ حضور اکرم اپنی زندگی کے مختلف اوقات میں جس شخصیت کی جانشینی کا ذکر کرتے رہتے تھے ،آخری وقت میں اسے تحریری شکل میں لکھ دینا چاہتے تھے ؟

تاکہ کسی کو ان کی جانشینی کے متعلق کوئی شک وشبہہ نہ رہ سکے اور حضرت عمر بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے ۔حضور اکرم کا ارادہ بھانپ کر انہوں نے اس کی بھر پور مخالفت کی اور عجیب و غریب بات یہ ہے کہ محدثین کہتے ہیں کہ حضور نے تین چیزوں

کے متعلق وصیت فرمائی تھی ۔ دو وصیتیں تو بیان بھی کی گئی ہیں اور حضرت ابو بکر نے ان دونوں پر عمل بھی کیا تھا ۔لیکن تیسری وصیت راوی کو بھول جاتی ہے ۔یا وہ اسے جان بوجھ کر بیان نہیں کرتا ۔

اسی تیسری وصیت کو رسول خدا (ص) تحریری صورت میں لانا چاہتے تھے اور اس پر ہذیان کہہ کر حضور کریم کی شان میں گستاخی کی گئی ۔تعجب تو یہ ہے کہ کل وصیتیں تین تھیں دو وصیتیں کے وقت حضور اپنے ہوش وحواس میں تھے لیکن تیسری وصیت کے وقت ان پر ہذیان طاری ہوگا تھا ۔(نعوذ باللہ)

____________________

(۱):- تاریخ ابن خلدون ج ۲ ص ۲۹۷

۴۶

رسول خدا (ص) کیا لکھنا چاہتے تھے ؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخری وقت میں رسول خدا (ص) کیالکھنا چاہتے تھے ؟ اس سوال کا جواب خود حضرت عمر نے اپنی زبان سے دیا ہے ۔جسے احمد بن ابی طاہر نے تاریخ بغداد میں اپنی اسناد سے لکھا ہے ۔اور ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد ۳ ص ۹۷ پر نقل کیا ہے ۔جس کا خلاصہ یہ ہے :" حضرت عبداللہ بن عباس ،حضرت عمر کے ساتھ چل رہے تھے تو حضرت عمر نے ان سے کہا کہ ابن عباس !اگر تم نے اس بات کو چھپایا تو تم پر ایک اونٹ کی قربانی لازمی ہوگی ۔۔۔۔۔کیا اب بھی علی کے دل میں امر خلافت کے متعلق کوئی خلش باقی ہے ؟

ابن عباس نے کہا جی ہاں ! حضرت عمر نے کہا :کیا علی یہ سمجھتے ہیں کہ رسول خدا نے ان کی خلافت پر نص فرمائی تھی ؟

ابن عباس نے کہا جی ہاں ! تو حضرت عمر نے کہا کہ رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں متعدد مرتبہ ایسے اشارے ضرور کئے تھے لیکن ان میں بات کی وضاحت موجود نہ تھی ۔ رسول خدا نے اپنے مرض الموت میں اس خواہش کو لکھنا چاہا تھا اور ان کا پورا ارادہ ہوگیا تھا کہ علی کانام تحریری طور پر رکھ دیں ۔ میں نے اسلام ومسلمین کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا نہ کرنے دیا ۔

میری مخالفت کی وجہ سے رسول خدا(ص) بھی سمجھ گئے کہ میں ان کے مافی الضمیر کو تاڑ چکا ہوں اسی وجہ سے رسول خدا(ص) رک گئے ۔"

اگر یہ روایت درست ہے تو اس کامقصد یہ ہے کہ حضرت عمر کو جناب رسول خدا سے بھی زیادہ اسلام کا مفاد عزیز تھا ۔ اگر امر واقعہ یہی ہے تو پھر اللہ تعالی کو (نعوذ باللہ) چاہئیے تھا کہ وہ حضور اکرم کی بجائے حضرت عمر کو ہی نبوت عطا فرماتا ۔

۴۷

اگر ہم بحث وتحقیق کی سہولت کے مد نظر خلافت کے دنیاوی پہلو کو نظر انداز کردیں اور ان تاریخی حقائق سے بھی صرف نظر کرلیں جسے فریق اول پیش کرتا ہے اور ہم اپنے آپ کو صرف ان تاریخی حوالہ جات کا پابند بنالیں جسے فریق ثانی نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے تو بھی ہم کسی بہتر نتیجہ کو اخذ کرنے کے قابل رہیں گے ۔

اس مقام پر سوال یہ ہے کہ رسول خدا کی وفات کے بعد حضرت علی بر سر خلافت پر کیوں فائز نہ ہوسکے ؟

اس سوال کا اہل سنت کی کتابوں سے جواب دینے سے پہلے ہم یہ ضروری گزارش کریں گے کہ ہمارے یہ جوابات ،"اقناعی " ہوں گے ۔ کیونکہ اس موضوع کے متعلق اکثر تاریخی حقائق کو تلف کیا جاتا رہا ہے اور اموی اور عباسی دواقتدار میں ہر ممکن تحریف کی گئی ہے ۔

تاریخ میں ہم اس حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ وفات رسول (ص) کے بعد نسل ابو طالب کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا اور اس دور کی حکومتیں اہل بیت طاہرین سے بد ترین عناد رکھتی تھیں ۔ اور "الناس علی دین ملوکهم " کے تحت اس زمانہ کے اہل علم ،راوۃ و قضاۃ نے بھی آل محمد (ع) کی تنقیص کو طلب دنیا کا وسیلہ بنایا اور آل محمد (ص) کی عداوت کو سلاطین وحکام کیلئے ذریعہ تقرب قرار دیا اور آل محد(ع) کی جو فضیلت چھپانے کے باوجود نہ چھپ سکی تو اس جیسی روایت اغیار کیلئے وضع کی گئی ۔

اس کے باوجود آل محمد(ع) کی صداقت کا یہ معجزہ ہے کہ ان کے فضائل ومناقب آج بھی کتابوں میں موجود ہیں اور ان کی مظلومیت کی داستان بھی سیر وتواریخ میں وموجود ہے ۔

اس کتاب میں ہم بھی حتی المقدور مستند کتب تاریخ و سیر کے حوالے جات پیش کریں گے ۔

۴۸

دور معاویہ میں وضع حدیث

آل محمد(ع) اور بالخصوص حضرت علی علیہ السلام کی مظلومیت کیلئے درج ذیل واقعہ کو ملاحظہ فرمائیں :-

ابو الحسن علی بن محمد بن ابی سیف المدائنی اپنی کتاب "الاحداث" میں رقم طراز ہیں :-کتب معاویة الی عمّاله بعد عام الجماعة ان برئت الذمة ممّن روی شیا من فضل ابی تراب واهل بیته ،فقامت الخطباء فی کل کورة وعلی کل منبر یلعنون علیا و یبروؤن منه ویقعون فیه وفی اهل بیته و کتب معاویة الی عمّاله فی جمیع الافاق ،ان لایجیزوا لاحد من شیعة علی واهل بیته شهادة وکتب الیهم ان انظروا من قبلکم من شیعة عثمان و محبیه و اهل ولا یته و الذین یروون مناقبه وفضائله فادنوا مجالسهم وقربوهم واکرموهم واکتبوا لی بکل ما یروی کال رجل و اسمه و ابیه و عشریته ،ففعلوا ذالک حتی اکثروا فی فضائل عثمان ومناقبه لما کان یبعثه الیهم من الصّلات ثم کتب لی عمّاله ،ان الحدیث عن عثمان قد کثر فاذا جاء کم کتابی هذا فادعو االناس الی الروایة فی فضائل الصحابة والخلفاء الاولین ولا تترکوا خبرا یرویه احد من المسلمین فی ابی تراب الا واتو بمناقص له فی الصحابة فقرات کتابه علی الناس فرویت اخبار کثیرة فی مناقب الصحابة مفتعلة لاحقیقة لها ومضی علی ذالک الفقهاء والقضاة والولاة "

امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بعد معاویہ نے اپنے حکام کو لکھا کہ :جو شخص ابوتراب اور ان کے اہل بیت کی فضیلت کے متعلق کوئی روایت بیان کرے گا میں اس سے بری الذمہ ہوں ۔

اس خط کے بعد ہر مقام اور ہر منبر پر لوگ حضرت علی علیہ السلام پر لعنت کرنے

۴۹

لگے اور ان سے برائت کرتے اور ان کے اور ان کے خاندان کے عیوب بیان کرتے ۔

اس کے بعد معاویہ نے اپنے جملہ حکام کو لکھا کہ : علی اور ان کے اہل بیت کے ماننے والوں کی گواہی قبول نہ کی جائے ۔

اور پھر اپنے حکام کو مزید تحریر کیا کہ عثمان سے محبت رکھنے والے افراد اور ان کے فضائل ومناقب بیان کنے والے لوگوں کو اپنا مقرب بناؤ اور ان کا احترام کرو اور جو شخص عثمان کی فضیلت میں کوئی روایت بیان کرے تو اس شخص کانام ونسب اور بیان کردہ روایت میرے پاس بھیجو۔

حکام نے معاویہ کے ان احکام پر حرف بحرف عمل کیا اور فضائل عثمان بیان کرنے والوں کو گراں بہا انعامات سے نوازا گیا ۔اس کا نتیجہ نکلا کہ عثمان کے فضائل ومناقب بہت زیادہ ہوگئے ۔

پھر مستقبل کے خطرہ کو بھانپتے ہوئے معاویہ نے اپنے حکام کو تحریر کا کہ :فضائل عثمان کی حدیثیں بہت زیادہ ہوچکی ہیں اور جب تمھیں میرا یہ خط ملے لوگوں سے کہو کہ وہ اب صحابہ اور پہلے دوخلفاء کے فضائل کی احادیث تیار کریں اور ہاں اس امر کو ہمیشہ ملخوظ خاطر رکھنا کہ ابو تراب کی شان میں کوئی حدیث موجود ہو تو اس جیسی حدیث صحابہ کے لئے ضرور تیار کی جانی چاہیئے ۔

معاویہ کے یہ خطوط لوگوں کر پڑھ کر سنائے گئے ۔اس کے بعد صحابہ اور پہلے دونوں خلفاء کی شان میں دھڑا دھڑ حدیثیں تیار ہونے لگیں جن کا حقیقت س ے کوئی واسطہ نہ تھا ۔اس دور کے فقہاء ،قاضی اور حکام ان وضعی احادیث کو پھیلاتے رہے

اب مذکورہ سوال یعنی علی علیہ السلام سریر آرائے مسند خلافت کیوں نہ ہو سکے ؟

اس سوال کو حل کرنے کےلئے ہمیں حضرت علی کی سیرت اور زندگانی رسول میں ان کی فدا کاری اور ان کے صلح وجنگ کے فلسفہ کو مدنظر رکھنا ہوگا اور

۵۰

جب ان کی دور رسالت کی زندگی اور ان کا فلسفہ وصلح وجنگ ہمارے پیش نظر ہوگا تو ہم اس گتھی کو سلجھا سکیں گے ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس سوال کو سمجھنے کے لئے اسے دو بنیادی سوالوں میں تقسیم کردینا چاہیئے :-

۱:- کیا علی علیہ السلام کی اہلیت رکھتے تھے ؟

۲:- اگر رکھتے تھے تو انہیں خلافت سے محروم کیوں رکھا گیا ؟

پہلے سوال کے جواب کو سمجھنے کے لئے ہمیں علی کی زندگی کا مطالعہ کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ علی کے والدین کی فدا کاری وایثار کو بھی اپنے سامنے رکھنا ہوگا ۔

ابو طالب(ع) کی اسلامی خدمات

تاریخ اسلام کے معمولی طالب علم کو بھی اس حقیقت کا علم ہے کہ علی کے والد حضرت ابو طالب نے رسول خدا(ص) کی حفاظت کا فریضہ کس طرح سرانجام دیا ہے ۔اگر ہم حضرت ابو طالب کے ایثار کی داستان سنانا چاہیں تو اس کے لئے علیحدہ کتاب کی ضرورت ہوگی ۔

ذیل میں ہم سیرت ابن ہشام سے ابو طالب کی جان نثاری کا ہلکا سا نمونہ پیش کرتے ہیں :

جب رسول خدا(ص) نے تبلیغ دین شروع کی اور اہل مکہ توحید کی دعوت دی اور ان کے خود ساختہ معبودوں کی برائیاں بیان کیں تو قریش کو اس پر سخت غصہ آیا اور انہوں نے اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا کہ ابو طالب رسول خدا(ص) کے محافظ ونگران بنے ہوئے ہیں تو انہوں نے اشراف قریش اور ابو سفیان سرفہرست تھے ۔

قریش کا یہ وفد ابو طالب کے پاس گیا اور ان سے کہا : ابو طالب ! تمھار

۵۱

بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے اور ہمارے دین کے عیوب بیان کرتا ہے ۔آپ اسے بات سے روکیں یا آپ علیحدہ ہوجائیں ہم خود ہی نمٹ لیں گے ۔

ابو طالب نے ان لوگوں کو نرمی سے سمجھایا اور انہیں واپس بھیج دیا ۔چند دنوں کے بعد قریش دوبارہ ابو طالب کے پاس گئے ۔اس دفعہ بھی ابو طالب نے انہیں واپس بھیج دیا ۔ قریش کو جب یقین ہوگیا کہ ابو طالب محمد مصطفی کو ان کے حوالہ کرنے پر آمادہ نہیں ہیں تو وہ ایک خوبصورت نوجوان جس کانام عمارہ بن ولید تھا کو لے کر ابو طالب کے پاسے گئے ۔اور ان سے کہا ۔یہ عمارہ بن ولید ہے آپ اسے اپنے پاس ٹھہرا لیں اور اپنا بھتیجا ہمارے حوالے کردیں ۔

یہ سن کر ابو طالب نے کہا تم نے کتنا غلط فیصلہ کیا ہے ۔میں تو تمھارے بیٹے کو پالوں او راپنا تمہارے حوالے کردوں اور تم اسے قتل کردو۔ ابن سعد اپنی کتاب طبقات کبری جلد اول ص ۱۰۱ پر لکھتے ہیں : جب عبد المطلب کی وفات ہوئی تو ابو طالب نے رسول خدا کو اپنی گود میں لے لیا ۔ وہ رسول خدا(ص) سے اتنی محبت کرتے تھے جس کی نظیر نہیں ملتی ۔حد یہ ہے کہ انہیں اپنی اولاد سے بھی اتنی محبت نہیں تھی جتنی کہ وہ حضور اکرم (ص) سے کیا کرتے تھے ۔وہ رسول خدا(ص) کو اپنے پہلو میں سلایا کرتے تھے اور جہاں بھی جاتے رسول خدا (ص) کو اپنے ساتھ لے کر جاتے ۔

ابو طالب کو محمد مصطفی سے ایسا عشق تھا کہ انہیں کسی چیز سے ایسا عشق نہیں تھا ۔

شعب ابی طالب

اسی جان نثاری ک داستان کو ابن اثیر نے الکامل فی التاریخ کی جلد دوم ص ۵۹-۶۲ پر یوں بیان کیا ہے :

"جب قریش نے محسوس کیا کہ دین اسلام روز بروز ترقی کر رہا ہے اور ان

۵۲

کا قاصد عمرو بن العاص بھی نجاشی کے دربار سے ناکام ہوکر واپس آگیا ہے ۔تو انہوں نے اپنے سربراہوں کا اجلاس طلب کیا ۔ جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ بنی ہاشم کے ساتھ کسی قسم کا لین دین نہیں کریں گے اور ان کے ساتھ کوئی رشتہ ناتا نہیں کیا جائے گا ۔

انہوں نے اپنے اس فیصلہ کو لکھ کر کعبہ میں نصب کردیا ۔حضرت ابو طالب بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کو لے کر پہاڑ کی ایک گھاٹی میں چلے آئے ۔اس گھاٹی کو شعب ابی طالب کہا جاتا ہے ۔اس گھاٹی میں ابو طالب نے قریبا تین برس کا عرصہ گزارا ۔اس کے بعد اللہ تعالی نے رسول خدا (ص) کو وحی کے ذریعہ بتایا کہ صحیفہ کی عبارت کو دیمک چاٹ چکی ہے ۔اس میں صرف اللہ کانام باقی بچا ہے ۔آنحضرت (ص) نے اپنے چچا ابو طالب کو اس امر کی خبر دی ۔ابو طالب حضور اکرم کی کسی بات میں شک نہیں کرتے تھے ۔ جیسے ہی انہوں نے یہ خبر سنی تو فورا حرم میں آئے اور قریش سے کہا کہ تمہارے معاہدہ کو دیمک چاٹ چکی ہے ۔اس میں صرف اللہ کا نام باقی وہ گیا ہے ۔۔۔۔۔۔پھر انہوں نے فی البدیہہ یہ شعر پڑھے ۔

وقد کان فی امر الصحیفة عبرة متی ما یخبر غائب القوم یعجب

محاالله عنهم کفرهم وعقوقهموما نقموا من ناطق الحق معرب

فاصبح ما قالوا من الامر باطلا ومن یختلق مالیس بالحق یکذب

"صحیفہ کےمعاملہ سے عبرت حاصل کرو ۔جب ایک غیر موجود شخص خبر دے تو تعجب ہوتا ہے ۔اللہ نے ان کے کفر ونافرمانی کی عبارتوں کو مٹاڈالا ۔ان لوگوں کو حق کے داعی سے ناحق ضد تھی انہوں نے جو کچھ بھی کہا تھا باطل ہوگیا اور جو شخص جھوٹی بات بنائے گا وہ لازمی طور پر جھٹلایا جائے گا ۔"

جب تک ابو طالب زندہ رہے کسی کافر کی جراءت نہ تھی کہ وہ حضور(ص) کو اذیت دے سکتا ۔لیکن جب ان کی وفات ہوگئی تو کافروں کے لئے میدان صاف

۵۳

ہوگیا اور انہوں نے دل کھول کر نبی کریم (ص) کو تکلیفیں پہنچائیں ۔نبی کریم(ص) نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :-

"ما نالت قریش شیا منی اکرهه حتی مات ابو طالب " جب تک ابو طالب زندہ رہے قریش مجھے اذیت نہ دیتے تھے :(۱) ۔

ابو طالب کی فدا کاری اور جاں نثاری کو ہم مورخ ابن خلدون کے ان الفاظ سے ختم کرتے ہیں ۔

رسول خدا(ص)آٹھ برس کے تھے کہ ان کے دادا عبد المطلب کی وفات ہوئی ۔عبد المطلب نے اپنی وفات سے پہلے محمد مصطفی (ص) کو ابو طالب کے حوالہ کیا تھا ۔ ابو طالب نے احسن انداز میں نبی کریم (ص) کی پرورش فرمائی ۔ابو طالب رسول خدا کی زندگی کے تمام لمحات کو بغور دیکھا کرتے تھے ۔انہوں نے آپ کے لڑکپن اور جوانی کا بہت اچھا مشاہدہ کیا اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ رسول خدا دورجاہلیت کی تمام رسومات سے دور رہاکرتے تھے ۔ہجرت سے تین بر س قبل ابو طالب اور حضرت خدیجہ کی وفات ہوئی ۔شفیق چچا اور فدا کار زوجہ کی وفات رسول خدا(ص) کے لئے بہت بڑا صدمہ تھا ۔ابو طالب کے خوف سے سہمے ہوئے قریش نے حضور اکرم (ص) کو ستانا شروع کیا اور اپ کی جائے نماز پر غلاظت ڈالی گئی ۔(۲)

حضرت علی علیہ السلام کے والد ماجد کی فدا کاری کی یہ مختصر سی تاریخ تی اور حضرت علی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے رسول اسلام (ص) کی کیا خدمت سرانجام دی اوراق کتاب کی تنگ دامنی کی وجہ سے ہم اس کی تفصیل بتانے سے قاصر ہیں ۔ان کی عظمت کے لئے یہی بات ہی کافی ہے کہ جب ان کی وفات ہوئی تو رسول خدا(ص) نے ان کے کفن کے لئے اپنی قمیص اتار کردی اور جب قبر تیار ہوئی تو رسول خدا(ص) چچی کے جنازے سے پہلے خود لحد میں اترے ۔لحد کی مٹی کو اپنے ہاتھوں

____________________

(۱):- الکامل فی التاریخ جلد دوم ص ۵۹-۶۲

(۲):- تاریخ ابن خلدون جلد دوم ص ۱۷۱

۵۴

سے درست فرمایا اور کچھ دیر تک اپنی چچی اماں کے جنازہ کے ساتھ لحد میں لیٹے رہے(۱) ۔

ابو طالب جیسے عاشق رسول اور فاطمہ بنت اسد جیسی فداکار شخصیت کی گود میں حضرت علی (ع) پلے بڑھے اور جب ذرا بڑے ہوئے تو رسول خدا (ص) اور حضرت خدیجہ نے ان کی پرورش کی ۔

علی (ع) کی اسلامی خدمات

یہ علی علیہ السلام کا خاندانی پس منظر تھا اب آئیے دیکھیں کہ علی علیہ السلام کا ذاتی کردار کیا تھا ۔اور انہوں نے رسول اسلام(ص) کی کیا خدمات کی اور خود اسلام کی کس قدر انہوں نے خدمت کی ؟

جہاں تک علی او راسلام کے باہمی ارتباط کاتعلق ہے تو ہم اس مقام پر مصر کے اسکالر "عقاد"کے ساتھ ہم نوا ہوکر کہیں گے :

"انّ علیا کا المسلم الخالص علی سجیّته المثلی و انّ الدین الجدید لم یعرف قظّ اصدق اسلاما منه ولا اعمق نفاذا فیه ۔(۲)

علی (علیہ السلام) اپنی آئیڈیل فطرت کی وجہ سے مسلم خالص تھے اور نئے دین نے علی (ع) سے بڑھ کر کسی کے سچے اورگہرے اسلام کا مشاہدہ نہیں کیا تھا ۔

ڈاکٹر طہ حسین اپنی کتاب الفتنتہ الکبری ،عثمان بن عفان صفحہ ۱۰۱پر لکھتے ہیں :- جب رسول خدا(ص) نے اعلان نبوت فرمایا تو علی (ع) اس وقت بچے تھے ۔انہوں نے فورا اسلام قبول کیا اور اسلام کےبعد وہ رسول خدا (ص) اور حضرت خدیجۃ الکبری کی آغوش میں پرورش پاتے رہے ۔انہوں نے پوری زندگی میں کبھی بھی بتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا تھا ۔

سابقین اولین اور علی علیہ السلام میں سب سے واضح فرق یہ ہے کہ انہوں

____________________

(۱):-تاریخ ابن خلدون جلد دوم ص ۱۷۹-۱۸۰

(۲):-عبقریۃ الامام ۔ازاستاد عقاد ص ۱۳

۵۵

نے منزل وحی میں پرورش پائی اور یہ شرف ان کے علاوہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا ۔

اسی تربیت وکفالت کا اثر تھا کہ علی ایک عدیم المثال شخصیت بن کر ابھرے ۔بہر نوع علی علیہ السلام کی ذات کا مطالعہ علم النفس یا علم الاجتماع جس بھی حوالے سے کیاجائے علی ہر لحاظ سے لاجواب ،بینظیر اور لا شریک ہو کر سامنے آتے ہیں ۔

علی علیہ السلام کی ذات کو سمجھنے کے لئے درج ذیل مثالوں کو مدنظر رکھیں ۔علی علیہ السلام کی جانثاری اور فداکاری کیلئے شب ہجرت کے واقعات کا تصور کریں ۔

۱:- شب ہجرت

ابن ہشام لکھتے ہیں :- جب قریش نے دیکھا کہ اسلام روزبروز ترقی کر رہا ہے اور اسلام کے پیرو اب مکہ کے علاوہ دیگر شہروں بالخصوص یثرب میں بھی ہیں اور حضور کے کافی پیروکار ہجرت کرکے یثرب روانہ ہوچکے ہیں ۔اس کے ساتھ انہیں یہ یقین ہوگیا کہ رسول خدا (ص) بھی مکہ چھوڑ کر کسی وقت یثرب چلے جائیں گے ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے انہوں نے اپنے بزرگوں کو دارالندوہ میں دعوت دی ۔

کفار مکہ کے سربراہوں میں عتبہ ،شیبہ اور ابو سفیان بھی تھے ۔دوران بحث یہ مشورہ دیا گیا کہ حضور اکرم (ص)کو قید کیا جائے یا انہیں یہاں سے نکال دیا جائے ۔لیکن ان کے دونوں باتوں کو کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا ۔

چنانچہ رائے یہ قرار پائی کہ مکہ کے ہر قبیلہ کا ایک ایک فرد لیا جائے اور ایک مخصوص شب میں حضور (ص) کو قتل کردیا جائے ۔قتل میں زیادہ قبائل کی موجود گی کا یہ فائدہ ہوگا کہ عبد مناف کی اولاد بدلہ نہیں لے سکے گی ۔اور یوں ان کا خوف رائگاں ہوجائیگا ۔جب حضور نے متفرق قبائل کے افراد کو اپنے دروازے پہ دیکھا تو علی ابن ابی طالب کو حکم دیا کہ وہ ان کے بستر پر انہی کی چادر تان کر سوجائیں(۱) ۔

____________________

(۱):- سیرت ابن ہشام جلد دوم ص ۹۵

۵۶

ابو طالب کے فرزند کے لئے قتل گاہ قریش گل تھی ۔جب رسولخدا(ص) نے فرمایا کہ میری جان کو خطرہ ہے تم میرے بستر پر سوجاؤ تو اس وقت علی (ع) نے بڑے جذباتی انداز میں پوچھا : یا رسول اللہ کیا میرے سونے سے آپ کی جان بچ جائیگی ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! پھر حضور اکرم (ص) نے علی(ع) کو حکم دیا کہ وہ اہل مکہ کی تمام امانتیں ان تک پہنچائیں ۔

حضرت علی (ع) رسول خدا (ص) کی ہجرت کے بعد تین دن تک مکہ میں رہے اور کفار ومشرکین کی امانتیں واپس کیں ۔جب اس فریضہ سے فارغ ہوگئے تو پیادہ پا چلتے ہوئے مدینہ آئے اور پیدل چلنے کی وجہ سے انکے پاؤں متورم ہوچکے تھے(۱) ۔

۲:-موخات

ہجرت کے بعد رسول خدا (ص) نے مہاجرین وانصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔

جب علی علیہ السلام نے موخات کا یہ منظر دیکھا تو آبدیدہ ہوگئے ۔رسول خدا (ص) نے ان سے رونے کاسبب دریافت کیا تو انہوں نے عرض کیا آپ نے اپنے اصحاب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ۔لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا ۔ تو رسول خدا(ص) نے فرمایا "انت اخی فی الدنیا و الآخرۃ " تو دنیا اور آخرت میں میر ا بھائی ہے(۲) ۔

۳:- جنگ احد اور علی (علیہ السلام)

جنگ احد میں جب اسلامی لشکر کو پسپائی ہوئی اور صحابہ کرام پہاڑوں پر چڑھ رہے تھے تو اس وقت حضرت علی (ع) پوری جانفشانی سے لڑتے رہے اور کوہ

____________________

(۱):- تاریخ ابن خلدون جلد دوم ص ۱۸۷ و ابن اثیر الکامل فی التاریخ جلد دوم ص ۷۵

(۲):-سیرت ابن ہشام جلد دوم ص ۹۵-۱۱۱

۵۷

استقامت بن کر دشمنوں سے نبرد آزمائی کرتے رہے ۔ الغرض ابو طالب کا بیٹا پورے میدان پر چھا گیا اسی مقام پر ہاتف غیبی نے ندا دی تھی "لا سیف الّا ذولفقار ولا فتی الاّ علی " اگر تلوار ہے تو ذولفقار ہے اور اگر جواں مرد ہے تو حیدر کرار ہے ۔

الغرض اسلام اور رسول اسلام کی حفاظت کے بعد جب واپس گھر آئے تو اپنی زوجہ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو اپنی تلوار پکڑاتے ہوئے یہ شعر کہے :-

افاطم هاک السیف غیر ذمیم فلست برعدیر ولا بملیم

لعمری لقد قاتلت فی حب احمدوطاعة رب بالعباد رحیم

فاطمہ ! یہ تلوار لو ،یہ تلوار تعریف کے قابل ہے ۔میدان جنگ میں میں ڈرنے اور کانپنے والا نہیں ہوں ۔

مجھے اپنی زندگی کی قسم میں نے محمد مصطفی کی محبت اور مہربان اللہ کی اطاعت میں جہاد کیا ہے(۱) ۔

۴:- علی(ع) اور تبلیغ براءت

محمد بن حسین روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ احمد بن مفضل نے بیان کیا وہ کہتے ہیں یہ روایت اسباط نے سدی سے کی ہے سعدی کہتے ہیں :-

جب سورہ براءۃ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو رسول خدا نے حضرت ابو بکر کو امیر حج بنایا اور وہ آیات بھی ان کے حوالے فرمائیں اور ارشاد فرمایا کہ تم حج کے اجتماع میں یہ آیات پڑھ کرسناؤ ۔

ابو بکر آیات لے کر روانہ ہوئے ،جب وہ مقام ذی الحلیفہ کے درختوں کے قریب پہنچے تو پیچھے سے علی (ع) ناقہ رسول پر سوار ہو کر آئے اور آیات ابو بکر سے لے لیں ۔حضرت ابو بکر رسول خدا(ص) کی خدمت میں واپس آئے اور عرض کیا

____________________

(۱):- تاریخ طبری جلد سوم ص ۱۵۴ ومروج الذہب مسعودی جلد دوم ص ۲۸۴۔

۵۸

یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا میرے متعلق کوئی آیت نازل ہوئی ؟ آپ نے فرمایا نہیں ۔میری طرف سے پیغام کو یا میں خود پہنچاسکتا ہوں یا علی (ع) پہنچاسکتے ہیں ۔(۱)

۵:- علی (ع) تبلیغ اسلام کے لیے یمن جاتے ہیں

رسول خدا نے یمن میں تبلیغ اسلام کے لئے خالد بن ولید کوروانہ فرمایا لیکن اس کی دعوت پر کوئی بھی شخص مشرف بہ اسلام نہ ہوا ۔تو اس کے بعد حضور اکرم(ص) نے حضرت علی (ع) کو اسلام کو مبلغ بنا کر یمن روانہ کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ خالد اور اس کے ساتھیوں کو واپس بھیج دیں ۔

حضرت علی نے جاتے ہی خالد کو اس کے دوستوں سمیت واپس روانہ کردیا اور اہل یمن کے سامنے رسول خدا(ص) کا خط پڑھ کرسنایا ۔جس کے نتیجہ میں قبیلہ ہمدان ایک ہی دن میں مسلمان ہوگیا(۲) ۔

۶:- ہارون محمدی

حضرت علی (ص) غزوہ تبوک کے علاوہ باقی تمام جنگوں میں شریک ہوئے اور غزوہ تبوک کے موقع پر بھی جناب رسولخدا(ص) نے انہیں مدینہ میں اپنا جانشین بنا کر ٹھہرایا ۔

امام مسلم بن حجاج نے اس واقعہ کو یوں نقل کیا ہے :

حدثنا یحیی التمیمی وابو جعفر محمد بن الصباح وعبد الله القواریری وسریح بن یونس عن سعید بن المسیب عن عامر بن سعد بن ابی وقاص عن ابیه قال قال رسول الله (ص) لعلی (ع) انت منی بمنزلة هارون من

____________________

(۱):- تاریخ طبری جلد سوم ص ۱۵۴

(۲):- ابن اثیر الکامل فی التاریخ جلد دوم ص ۳۵

۵۹

موسی غیر انه لانبی بعدی

وحدثنا ابوبکر بن شبیه عن سعد بن ابی وقاص قال خلف رسول الله (ص) علیا ،فی غزوه تبوک فقال یارسول الله (ص)تخلفنی فی النساء والصبیان ؟ قال اما ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسی غیر انه لانبی بعدی

سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے علی (ع) سے فرمایا تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی ۔ فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔

سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا نے غزوہ تبوک کے موقع پر علی (ع) کو مدینہ میں ٹھہرنے کا حکم دیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں ٹھہرکر جارہے ہیں ؟

رسول خدا(ص) نے فرمایا : کیا تم اس اس بات پر راضی نہیں کہ تم کہ مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔

۷:- فاتح خیبر

جب صحابہ کرام خیبر فتح کرنے میں ناکام ہوئے اور لشکر یہود کے سامنے کئی دفعہ پشت دکھائی رسولخدا(ص) نے اعلان فرمایا :-لاعطین هذه الرّایة رجلا یحب الله ورسوله ویحبه الله ورسوله یفتح الله علی یدیه ۔"

"کل میں اسے علم دونگا جو مرد ہوگا ۔اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور اللہ اور رسول بھی اس سے محبت کرتے ہوں گے ۔اللہ اس کے ہاتھ سے خیبر فتح کرائے گا "۔

حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں نے پوری زندگی میں بس اس دن امارت کی

۶۰