المیہ جمعرات

المیہ جمعرات17%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 104068 / ڈاؤنلوڈ: 4470
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نے سقیفہ میں تشکیل پانے والی حکومت سے پنجہ آزمائی نہیں کی ۔علی اسلام اور قرآن کے تحفظ کی خاطر خاموش ہوگئے ۔بلکہ جہاں اسلام اور امت اسلامیہ کی مصلحت کو دیکھتے تھے تو وہاں اپنے صائب مشوروں سے بھی نوازا کرتے تھے ۔

علی نے اسی صلح وآشتی کی پالیسی کو نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں یوں بیان فرمایا :-

"اما بعد ۔اللہ تعالی نے حضرت محمد مصطفی (ص) کو تمام جہانوں کے لیے نذیر بنا کر بھیجا اور جب ان کی وفات ہوئی تو مسلمانوں نے امر خلافت میں جھگڑا کیا ۔

خدا کی قسم! میرے وہم وگمان میں بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ عرب امر خلافت کو خاندان نبوت سے علیحدہ کریں گے اور میں نے کبھی یہ سوچا تک نہیں تھا ۔لوگ مجھے چھوڑ کر کسی اور کو حاکم بنا لیں گے ۔جب میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ ایک شخص کی بیعت کررہے ہیں ،تو میں نے بھی ان سے کوئی جھگڑا کرنا پسند نہیں کیا ۔کیوں کہ میں جانتا تھا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو لوگوں کی اکثریت اسلام کو ہی چھوڑ جائے گی ۔۔۔۔۔۔

ان حالات میں میں نے یہ محسوس کیا کہ میرا ذاتی نقصان ہوتا ہے تو ہوتا رہے مگر اسلام کا تحفظ کرنا چاہئیے ۔میں چند روزہ دنیا کی حکومت لے کر اسلام کو صدمات سے دوچار کرنا نہیں چاہتا تھا ۔کیونکہ حکومت حاصل نہ ہونے کے صدمہ کی بہ نسبت مجھے اسلام کا نقصان زیادہ ضرررساں نظر آتا تھا(۱) ۔" حضرت علی (ع) کی صلح پسندی کا اس سے بڑھ کر اورثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ انہوں نے خلفائے ثلاثہ کے ادوار میں اگر اختلاف کیا تو فقط دینی امور کے متعلق ہی کیا تھا ۔

تاریخ عالم علی (ع) صلح پسند افراد کی نظیر پیش کرنے قاصر ہے کیونکہ علی نے اپنے حقوق کی پامالی اور اپنی زوجہ کے حق سے محرومی کے باوجود بھی اسلام

____________________

(۱):-ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۴۴ ص ۱۶۴-۱۶۵

۸۱

کے عظیم تر مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے جن سے اجتناب کیا ۔حضرت فاطمہ زہرا(س) کو حق میراث اور حق ہبہ فدک سے محروم کیا گیا ۔اس کے باوجود بھی علی (ع) نے امن وصلح کے دامن کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا ۔علاوہ ازیں حضرت ابوبکر کی خلافت کے ابتدائی ایام میں چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ حضرت عمربن خطاب اپنے ہم نواز افراد کو لے کر علی (ع) کے دروازے پر آئے اور لکڑیاں بھی اپنے ساتھ لائے اور گھر جلانے کی باتیں کیں ۔کیا لوگوں کی زبان کو ان تاریخی واقعات کے بیان کرنے سے روکا جاسکتا ہے(۱) ۔

واقعہ فدک

واقعہ فدک کاخلاصہ یہ ہے کہ فدک حجاز کا ایک قریہ ہے اور مدینہ کے قریب ہے ۔مدتوں وہاں یہودی آباد تھے اور وہاں کی زمین بڑی زرخیزتھی ۔وہاں یہود کھیتی باڑی کیا کرتے تھے ۔

۷ھ میں اہل فدک نے حضور اکرم (ص) کے رعب ودبدبہ سے مرعوب ہوکر فدک کی زمین ان کے حوالہ کردی تھی اور فدک خالص رسول خدا(ص) کی جاگیر تھی ۔کیوں کہ سورہ حشر میں اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔"ومآ آفاء الله علی رسوله منهم فما اوجفتم علیه من خیل ولارکاب ۔۔۔۔۔۔۔" ان میں سے اللہ جو رسول کو عطا کردے جس پر تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ۔لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہے مسلط کردے اور اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے ۔"

رسول خدا(ص) نے سر زمین فدک میں اپنے ہاتھ سے گیارہ کھجوریں بھی کاشت فرمائی تھیں ۔اس کے بعد آپ نے فدک کی ممکل کی مکمل جاگیر اپنی اکلوتی دختر حضرت فاطمہ زہرا کوہبہ فرمادی ۔فدک ہبہ ہونے کے بعد مکمل طورپر حضرت سیدہ

____________________

(۱):-عبدالفتاح بعد المقصود ۔الامام علی بن ابی طالب ۔جلد اول ص۲۱۶

۸۲

کے تصرف میں رہتا تھا ۔جب حضور اکرم کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر نے علی و فاطمہ کو اپنا سیاسی حریف سمجھتے ہوئے فدک پر قبضہ کرلیا ۔فدک خاندان محمد(ص) کے تصرف میں تھا ۔اس قبضہ اور تصرف کا ثبوت حضرت علی کے اس خط سے بھی ملتا ہے جو انہوں نے والی بصرہ عثمان بن حنیف کو تحریر کیا تھا ۔س خط کے ضمن میں آپ نے یہ الفاظ تحریر کیئے :

"بلی قد کانت فی ایدینا فدک من کل ما اظلته السمآء فشحت بها نفوس قوم وسخت عنها نفوس آخرین ۔۔۔۔۔۔"اس آسمان کے سایہ تلے لے دے کے ایک فدک ہمارے ہاتھوں تلے تھا ۔اس پر بھی لوگوں کے منہ سے رال ٹپکی اور دوسرے فریق نے اس کے جانے کی پروانہ کی ۔اور بہترین فیصلہ کرنے والا اللہ ہے ۔(۱) ۔

حضرت سیدہ فاطمہ زہرا (س) ہی شرعی لحاظ سے اس جاگیر کی بلاشرکت غیر ے مالک تھیں ۔

خلیفہ کافرض تھا کہ ہبہ رسول (ص) کو اصلی حالت پر رہنے دیتے اور اس میں کسی قسم کا تصرف نہ کرتے اور اگر بالفرض خلیفہ صاحب کو اس ہبہ پر کوئی قانونی اعتراض تھا تو بھی قانون کا تقاضہ یہ تھا کہ مقدمہ کے تصفیہ تک فدک کو حضرت سیدہ (س) کے تصرف میں رہنے دیا جاتا ۔

اور اس مقدمہ کا عجیب ترین پہلو یہ ہے کہ حضرت ابو بکر کا یہ موقف تھاکہ فدک کی جاگیر حضرت سیدہ کی نہیں ہے بلکہ عامۃ المسلمین کی ہے اور یہ قومی ملکیت ہے اسی لئے اس جاگیر پر انہوں نے بزور حکومت قبضہ کرلیا ۔تو حضرت سیدہ نے اپنا قبضہ واپس لینے کا مطالبہ حضرت ابو بکر سے کیا ۔تو اب صورت حال یہ ہے کہ حضرت سیدہ(س) مدعیہ تھیں اور اس مقدمہ میں حضرت ابوبکر مدعی علیہ تھے ۔

____________________

(۱):-ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ۔ص ۲۸ مکتوب ۴۵

۸۳

اس مقدمہ میں ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جو فریق ثانی تھا وہی منصف بھی تھا ۔حالانکہ سیدھی سی بات تھی کہ مقدمہ حضرت ابوبکر کرے خلاف تھا یا کم ازکم عوام الناس کے خلاف تھا جن کے سربراہ حضرت ابو بکر تھے تو ان دونوں صورتوں میں مقدمہ حضرت ابو بکر کے ہی خلاف تھا اب انہیں قانونی سطح پر اس مقدمہ کی سماعت کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا ۔اور نہ ہی انہیں اس مقدمہ میں منصفی کا حق حاصل تھا ۔

فدک مختلف ہاتھوں میں

مقدمہ فدک کی تفصیل سے پہلے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضرات شیخین کے دور اقتدار میں فدک قومی ملکیت میں رہا۔

خلیفہ ثالث کے دور میں فدک کی پوری جاگیر مروان بن حکم کو عطا کی گئی خدا را یہ بتایا جائے کہ حضرت ابو بکر وحضرت عمر کا طرز عمل صحیح تھا یا حضرت عثمان کا طرز عمل صحیح تھا ؟

علمائے اہل سنت اس مقام پر حضرت ابو بکر کے کردار کو مثالی بنا کر پیش کرتے ہیں "ان سے درخواست ہے کہ حضرت عثمان نے تو اس مسئلہ میں ان کے طرز عمل سے انحراف کیاتھا ۔اب ان دونوں خلفاء میں سے کون صحیح تھا اور کون غلط تھا ؟

فدک اگر بنت رسول (س) کے ہاتھ میں تو لوگوں کو اچھا نہ لگا اب جو مروان جیسے افراد کے ہاتھوں میں چلا گیا تو اس وقت امت اسلامیہ کیوں خاموش ہوگئی ؟جب کہ حضرت ابو بکر کہہ چکے تھے کہ فدک کسی فرد واحد کی نہیں پوری امت اسلامیہ کی ملکیت ہے ؟

اور جب معاویہ بن ابو سفیان کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے فدک کی جاگیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا ۔ایک تہائی مروان بن حکم طرید رسول کے پاس

۸۴

رہنے دی ۔ایک تہائی حضرت عثمان کے فرزند عمروبن عثمان بن عفان کو عطا کی گئی ۔ایک تہائی اپن بیٹے یزید بن معاویہ بن ابو سفیان کے حوالے کی گئی ۔

اور جب یزید کے بعد مروان کو حکومت ملی تو اس نے خلیفہ ثالث کے عمل کو حجت قراردیتے ہوئے اپنے دونوں شریکوں کو بے دخل کردیا اور خود سارے فدک پر قابض ہوگیا ۔

بعد ازاں یہی فدک اس کے بیٹے عبد العزیز کی ملکیت بنا اور جب عبدا لعزیز کا بیٹا حضرت عمر بن عبد العزیز بر سر اقتدار آیا تو اس نے فدک سےاپنے خاندان کو بے دخل کرکے اولاد فاطمہ کے حوالہ کردیا اورجب حضرت عمربن عبدالعزیز کی وفات ہوئی تو بنو امیہ میں سے یزید بر سر اقتدار آیا ۔اس نے اولاد فاطمہ سے فد ک چھین کر اولاد مروان کے حوالے کردیا ۔بنی امیہ کی حکومت کے خاتمہ تک فدک اولاد مروان کے پاس رہا ۔

اور جب بنی امیہ کی حکومت ختم ہوئی اور بنی عباس کا اقتدار شروع ہوا تو ابو العباس سفاح نے فدک اولاد فاطمہ کے حوالہ کیا ۔

منصور دوانیقی نے بنی فاطمہ سے چھین لیا ۔بعد از اں اس کے بیٹے مہدی نے فدک بنی فاطمہ کے حوالہ کیا ۔جسے ہادی اور رشید نے پھر واپس لے لیا ۔مامون الرشید عباسی نے فدک واپس کیا تھا جسے بعد میں معتصم نے واپس چھین لیا ۔ اس کے بعد کیا ہوا اس کے متعلق مورخین خاموش ہیں ۔

اس سے معلوم ہوتاہے کہ حکام کے ہاتھ میں فدک ایک ایسا کھلونا تھا ۔ جسے جب چاہتے وارثان بازگشت کو دے دیتے تھے اور جب چاہتے اپنے قبضہ میں لے لیا کرتے تھے ۔مامون الرشید عباسی نے فدک کی واپسی کے لئے جو تحریری احکام روانہ کیے تھے وہ انتہائی علمی قدروقیمت کے حامل ہیں ۔جس میں اس نے پوری تفصیل ووضاحت کے ساتھ وارثان فدک کی نشاندہی کی تھی ۔

۸۵

مامون کی واپسی فدک

مامون الرشید عباسی کے خط کو مورخ بلاذری نے نقل کیا ہے ۔

سن ۲۱۰ ہجری میں مامون الرشید نے فدک کی واپسی کے احکام جاری کیے اور اس نے مدینہ کے عامل قثم بن جعفر کو خط تحریر کیا

اما بعد ، فانّ امیرالمومنین بمکانة من دین الله وخلافة رسوله والقرابة به اولی من ستنّ سنته ونفذ امره و سلّم لمن منحه منحة وتصدّق علیه بصدقة منحته و صدقته وقد کان رسول الله اعطی فاطمة بنت رسول الله فدک وتصدّق بها علیها وکان امرا ظاهرا معروفا لا اختلاف فیه فرای امیرالمومنین ان یردها الی ورثتها و یسلمها الیهم تقرّبا الی الله باقامة حقه وعدله والی رسول الله بتنقیذ امره وصدقته الخ "

"امیر المومنین کو اللہ کے دین میں جو مقام حاصل ہے اور انہیں رسالت مآب کی جانشینی اور جو قرابت حاصل ہے ، ان تمام چیزوں کا تقاضا یہ ہے کہ وہ رسول خدا(ص) کی سنت پر عمل پیرا ہوں اور نبی اکرم کے فرامین کو نفاذ میں لائیں اور رسول خدا نے جسے جو کچھ عطا کیا تھا اس عطا کو اس تک پہنچائیں ۔

جناب رسول خدا نے اپنی دختر حضرت فاطمہ زہرا (س) کو فدک عطا کیا تھا ۔یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔

اسی لئے امیر االمومنین کی یہ رائے ہے کہ فدک اس کے وارثوں کو واپس کردیا جائے اور اس عمل کے ذریعہ سے امیر المومنین اللہ کی قربت کے خواہش مند ہیں اور عدل وانصاف کی وجہ سے رسول خدا کی سنت پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں ۔" بعداز اں مامون الرشید نے اپنے ملازمین کو حکم دیا کہ سرکاری ریکارڈ میں اس بات کو لکھا جائے ۔

۸۶

رسول خدا کی وفات کے بعد سے ہمیشہ ایام حج میں ی اعلان کیا جارہا ہے کہ رسول خدا (ص) نے جس کسی کو کوئی صدقہ یاجاگیر عطا کی ہو تو وہ آکر وصول کرے اس کی بات کو قبول کیا جائیگا ۔اس کے باوجود آخر خدا کی دختر کو ان کے حق سے محروم رکھنے کا کیا جواز ہے ؟

مامون الرشید نے اپنے غلام خاص مبارک طبری کو خط لکھا کہ فدک کی مکمل جاگیر کو جملہ حدود کے ساتھ اولاد فاطمہ کو واپس کیاجائے اور اس کام کی تکمیل کے لئے محمد بن یحیی بن زیدبن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب اور محمد بن یحیی اور محمد بن عبد اللہ سے مدد حاصل کی جائے اور فدک کے لئے ایسے انتظامات کیے جائیں جس کی وجہ سے وہاں زیادہ پیدا وار ہوسکے ۔

درج بالا خط ذی الحجہ ۲۱۰ ھ میں لکھا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔(۱) ۔

محاکمہ فدک

صبّت علیّ مصائب لوانها

صبّت علی الایام صرن لیالیا

مجھ پر اتنے مصائب آئے اگر وہ دنوں پر پڑتے تو وہ راتوں میں تبدیل ہوجاتے (ماخوذ از مرثیہ فاطمہ زہرا علیہا السلام )۔

جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی نے فدک کی جاگیر عطا فرمائی پھر آپ نے وہ جاگیر حکم خداوندی کے تحت اپنی اکلوتی دختر حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کو ہبہ فرمائی ۔ رسول خدا کی حیات مبارکہ جناب فاطمہ اس جاگیر پر تصرف مالکانہ رکھتی تھیں اورجب جناب رسول خدا کی وفات ہوئی تو حضرت ابو بکر نے حضرت فاطمہ کے ملازمین کو فدک سے بے دخل کردیا اور اسے

____________________

(۱):- البلاذری ۔فتوح البلدان ص ۴۶ -۴۷

۸۷

بحق سرکار ضبط کرلیا ۔جناب زہرا سلام اللہ علیہا کو اس واقعہ کی خبر ملی تو وہ اپنے حق کی بازیابی کے لئے حضرت ابو بکر کے دربار میں تشریف لے گئیں اور اپنے حق کا مطالبہ کیا ۔

جس کے جواب میں حضرت ابو بکر نے ایک نرالی حدیث پڑھی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :- نحن معاشر الانبیاء لل نرث ولا نورث ما ترکناہ صدقۃ " ہم گروہ انبیاء نہ تو کسی کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی ہمارا وارث ہوتا ہے ۔ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے ۔

"لاوارثی "حدیث اور قرآن

اس حدیث کے متعلق عرض ہے کہ اس حدیث کے واحد راوی حضرت ابو بکر ہیں اسی حدیث کی طرح حضرت ابو بکر سے ایک اور حدیث بھی مروی ہے ۔

جس وقت رسول خدا کی وفات ہوئی اور مسلمانوں میں اختلاف ہوا کہ حضور اکرم کو کہاں دفن کیا جائے تو حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ جناب رسول خدا کا فرمان ہے :-

"ما قبض نبی الا ودفن حیث قبض " جہاں کسی نبی کی وفات ہوئی وہ اسی جگہ ہی دفن ہوا ۔جب کہ مورخ طبری ہمیں بتاتے ہیں کہ بہت سے انبیاء کرام اپنی جائے وفات کے علاوہ دوسرے مقامات پر دفن ہوئے ہیں ۔

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اس حدیث کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔کیونکہ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ اگر انبیاء کی میراث ان کی اولاد کو نہیں ملتی تھی تو حق تویہ بنتا تھا کہ رسول خدا خود اپنی بیٹی سے کہہ دیتے کہ میری میراث تمہیں نہیں ملے گی ۔طرفہ یہ ہے کہ جس شخصیت کو میراث ملتی تھی اسے نہیں کہا اور چپکے سے یہ بات ایک غیر متعلقہ شخص کے کان میں کہہ دی گئی اور یہ "لاوارثی حدیث" حضرت علی نے بھی نہیں سنی تھی کیوں کہ اگر انہوں نے سنی ہوتی تو اپنی

۸۸

زوجہ کو حق میراث کے مطالبہ کی کبھی اجازت نہ دیتے ۔علاوہ ازایں اتنی اہم بات حضور اکرم نے صرف حضرت ابو بکر کو ہی کیوں بتائی دوسرے مسلمانوں کو اس سے بے خبر کیوں رکھا ؟

"لا وارثی حدیث"قرآن کے منافی ہے

مذکورہ حدیث لاوارثی حدیث کے متعلق حضرت فاطمہ (س) کا موقف بڑا واضح اور ٹھوس تھا ۔ انہوں نے اس حدیث کو یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ یہ حدیث قرآن کے منافی ہے ۔

۱:- قرآن مجید میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :یوصیکم الله فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین " اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے ۔بیٹےر کو بیٹی کی بہ نسبت دوحصے ملیں گے(۱) ۔

اس آیت میں کسی قسم کا استثناء نہیں ہے ۔

۲:-اللہ تعالی نے ہر شخص کی میراث کےمتعلق واضح ترین الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے : "ولکلّ جعلنا موالی ممّا ترک الوالدان و الاقربون" اور ہر کسی کے ہم نے وارث ٹھہرا دئیے اس مال میں جو ماں باپ اور قرابت چھوڑ جائیں(۲) ۔

قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ لفظ "ولکلّ" پر اچھی طرح سے غور فرمائیں اس آیت مجیدہ میں بڑی وضاحت سے "ہر کسی " کی میراث کا اعلان کیا گیا ۔

میراث سے تعلق رکھنے والی جملہ آیات کی تلاوت کریں ۔ آپ کو کسی بھی جگہ یہ نظر نہیں آئے گا کہ اللہ نے فرمایا ہو: کہ ہر کسی کے وارث ہوتے ہیں لیکن انبیاء کے نہیں ہوتے ۔میراث انبیاء کی اگر قرآن مجید میں کسی جگہ نفی وارد ہوئی ہے تو اس آیت مجیدہ کوبحوالہ سورت بیان کیا جائے اور قیامت تک تمام دنیا کو ہمارا یہ چیلنج ہے کہ اگر قرآن میں ایسی آیت ہے تو پیش کریں

____________________

(۱):-النساء ۱۱۔ (۲):- النساء ۳۳۔

۸۹

لاوارثی حدیث کے تین اجزاء ہیں :-

۱:-انبیاء کسی کے وارث نہیں ہوتے ۔

۲:- انبیاء کی اولاد وارث نہیں ہوتی ۔

۳:- انبیاء کا ترکہ صدقہ ہوتا ہے ۔

قرآن مجید مذکورہ بالا تینوں اجزا کی نفی کرتا ہے ۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :-" وورث سلیمان داؤد " سلیمان علیہ السلام ،داؤد علیہ السلام کے وارث بنے(۱) ۔

اگر نبی کسی کا وارث نہیں ہوتا تو سلیمان علیہ السلام اپنے والد حضرت داؤد کے وارث کیوں بنے ؟

معلوم ہوتا ہے کہ "لاوارثی " حدیث کا پہلا جز صحیح نہیں ہے ۔

علاوہ ازیں مذکورہ آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ سلیمان "داؤد کے وارث بنے ۔

اب جس کے سلیمان وارث بنے وہ بھی تو نبی تھے ۔ اگر "لاوارثی" حدیث کا دوسرا جز صحیح ہوتا یعنی نبی کا کوئی وارث نہیں ہوتا تو داؤد کی میراث کا اجراء کیوں ہوا ۔ ان کی میراث کو صدقہ کیوں قراردیا گیا ۔تو گویا یہ ایک آیت "لاوارثی " حدیث کے تینوں اجزا کو غلط ثابت کرتی ہے ۔

حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا قرآن مجید میں مذکور ہے :-

"قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيّاً (٤) وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِراً فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيّاً (٥) يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيّاً (٦) يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيّاً " زکریا نے کہا میرے رب میری

۹۰

ہڈیاں کمزورہوگئیں اور سربڑھاپے کی وجہ سے سفید ہوچکا اور اے رب میں تجھ سے دعا کرکے محروم نہیں ہوا اور میں اپنے پیچھے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری عورت بانجھ ہے مجھے اپنی طرف سے ایک وارث عطا کر جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کی جو میراث مجھے ملی ہے اس کا بھی وارث ہو اے میرے رب اسے نیک بنانا ۔اللہ تعالی نے کہا : اے زکریا ! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں جس کا نام یحیی ہے اس پہلے ہم نے کسی کا یہ نام نہیں رکھا(۱)

درج بالا آیت کو مکرر پڑھیں ،حضرت زکریا نے اللہ سے اپنا وارث مانگا اور اللہ نے انہیں وارث بھی دیا اور اس وارث کا نام بھی خود ہی تجویز فرمایا ۔

اگر انبیاء کی میراث ہی نہیں ہوتی تو حضرت زکریا علیہ السلام نے وارث کی درخواست کیوں کی ؟

اور اگر بالفرض انہوں نے وارث کے لئے دعا مانگ بھی لی تھی تو اللہ نے انہیں یہ کہہ کر خاموشی کیوں نہ کرا دیا کہ تم تونبی ہو ۔تم یہ کیا کہہ رہ ہو؟

نبی کی میراث ہی نہیں ہوتی ۔لہذا تمہیں وارث کی دعا ہی سرے سے نہیں مانگنی چاہیے ؟

اگر انبیاء کی میراث ہی نہیں ہوتی تو اللہ تعالی نے انہیں وارث کیوں عطا فرمایا اور اس وارث کا نام بھی خود ہی تجویز کیوں کیا؟

حضرت سیدہ سلام اللہ علیھا نے مذکورہ بالا آیات کی اور ان آیات سے "لا وارثی " حدیث کی تردید فرمائی ۔

لیکن حضرت ابوبکر نے تمام آیات سن کربھی حضرت سیدہ کو حق دینے سے انکار کردیا ۔

پھر حضرت سیدہ نے آخر میں فرمایا :-

____________________

(۱):- مریم :۴-۷

۹۱

فدونکها مخطومة مرحومة نلقاک یو حشرک فنعم الحکم الله والموعد القیامة وعند الساعة یخسر المبطلون ۔

"اب تم اپنی خلافت کو نکیل ڈال کر اس پر سوار رہو ۔اب قیامت کے دن تجھ سے ملاقات ہوگی ۔اس وقت فیصلہ کرنے والا اللہ ہوگا اور وعدہ کا مقام قیامت ہے اور قیامت کے روز باطل پرست خسارہ اٹھائیں گے "

یابن ابی قحافة افی کتاب الله ان ترث اباک ولا ارث ابی لقد جیت شیا فریا افعلی عمد ترکتم کتاب الله ونبذتموه ورآء اظهرکم ؟

الم تسمع قوله تعالی واولوالارحام بعضهم اولی ببعض فی کتاب الله اخصّکم الله بایة اخرج ابی منها ؟ ام تقولون اهلی ملّتین لایتوارثان ؟

اولست انا وابی من ملّة واحدة ؟ اانتم اعلم بخصوص القرآن وعمومه من ابی وابن عمّی ؟

"ابو قحافہ کے فرزند ! کیا اللہ کی کتاب کا یہی فیصلہ ہے کہ تم تو اپنے باپ کے وارث بنو اور میں اپنے والد کی میراث سے محروم رہوں ؟ تم ایک عجیب چیز لائے ہو ۔

تو کیا تم نے جان بوجھ کر اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا اور اسے پس پشت ڈال دیا ؟اور کیا تم نے اللہ تعالی کا یہ فرمان نہیں سنا کہ :رشتہ دار ہی ایک دوسرے کے اللہ کی کتاب میں وارث ہیں ؟ اور کیا اللہ نے تمہیں میراث کے لئے مخصوص کرنے کے لئے کوئی آیت نازل فرمائی ہے جس سے میرے والد کو مستثنی قرار دیا ہے ؟ یا تم یہ کہتے ہو کہ دو ملت والے افراد ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے ؟تو کیا میں اور میرے والد ایک ہی ملت سے تعلق نہیں رکھتے ؟ اور کیا تم میرے والد اور میرے چچا زاد کی بہ نسبت قرآن کے عموم وخصوص کو زیادہ جانتے ہو؟

۹۲

ان دلائل قاہرہ اور آیات قرآنیہ پڑھنے کے بعد حضرت سیدہ نے ملاحظہ کیا کہ ان باتوں کا خلیفہ پر کوئی اثر مرتب نہین ہوا تو ناراض ہو کرروتی ہوئی واپس آئیں ۔

حضرت سیدہ کو پہلے سے ہی علم تھا کہ خلیفہ انہیں فدک کبھی بھی واپس نہیں کرے گا ۔آپ فقط اتمام حجت کے لئے تشریف لے گئی تھیں اور عملی طور پر دنیا کو دکھایا کہ جب چند روز پہلے میرے والد حدیث لکھانا چاہتے تھے تو اسی گروہ نے کہا تھا : ہمیں حدیث کی ضرورت نہیں ہمیں قرآن کافی ہے ۔اور جب حضرت سیدہ نے اپنی میراث کے لیے قرآن پڑھا تو مقابلہ میں "لاوارثی "حدیث پڑھ کر سیدہ کو محروم کردیا گیا ۔

تو گویا حضرت سیدہ نے دربار میں جاکر کا ئنات کو اس دوغلے پن سے آگاہ کیاکہ کل جو حدیث کا انکار کررہے تھے آج وہ قرآنی آیات کے تسلیم کرنے سے بھی انکار کررہے ہیں ۔ جناب سیدہ کو پہلے سے علم تھا کہ مجھے میرا حق فدک نہیں دیا جائے گا ۔کیونکہ جن لوگوں نے چند روز پہلے ان کے شوہر کی خلافت چھین لی تھی ،وہ ان سے فدک بھی چھین سکتے ہیں ۔

۹۳

"لاوارثی " حدیث اور عقل ونقل کے تقاضے

آئیے !حضرت ابوبکر کی بیان کردہ حدیث کو سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں دیکھیں ۔

رسول خدا(ص) نے اپنے آپ کو شریعت طاہرہ کے احکام سے کبھی بھی مستثنی نہیں فرمایا ۔

۱:- جس طرح سے یہ کہنا غلط ہوگا کہ : ہم گروہ انبیاء نہ تو نماز پڑھیں گے اور نہ ہی روزہ رکھیں گے (نعوذ باللہ )

۹۴

مذکورہ فقرہ اس لئے غلط ہے کہ نبی احکام شریعت سے مستثنی نہیں ہوتا ۔

تو جس طرح نبی نماز روزہ اور اسلام کے دیگر احکام سے مستثنی نہیں ہوتا ۔اسی طرح سے وہ اسلام کے احکام میراث سے بھی مستثنی نہیں ہوتا ۔

۲:- کیا فدک کا مسئلہ جو کہ خالص شرعی مسئلہ تھا ، اس کے نہ دینے میں کوئی سیاسی اغراض تو کار فرما نہیں تھیں ؟

۳:- کیا حضرت سیدہ کو محروم ورارث رکھ کر خلیفہ صاحب اپنے سیاسی حریف علی اور اس کے خاندان کو اپنے سرنگوں تو نہیں کرنا چاہتے تھے ؟

۴:- اور کیا اس مسئلہ کا تعلق اقتصادیات سے تو نیں تھا ؟

یعنی اس ذریعہ سے علی (ع) اور ان کے خاندان کو نان شبینہ سے محروم رکھنا تو مقصود نہ تھا ؟

۵:- اور کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ علی (ع) کی مالی حالت کمزور کرکے انہیں خلافت کا امیدوار بننے سے روکنا مقصود ہو؟

۶:- اور کیا فدک چھین لینے میں یہ حکمت عملی تو مد نظر نہ تھی کہ جن لوگوں نے حضرت ابو بکر کی خلافت کا انکار کیا تھا ۔انہیں مرتد اور مانعین زکواۃ کہہ کر ان پر لشکر کشی کی گئی تھی ۔ تو کیا فدک کے چھین لینے میں یہ تصور تو کار فرما نہ تھا کہ اگر فدک علی کے پاس ہوگا تو ممکن ہے کہ وہ ہمارے مخالفین کی مالی امداد کریں ؟

۷:- کیا فدک چھیننے میں یہ فلسفہ تو مضمر نہ تھا کہ آل محمد کے وقار کو لوگوں کی نگاہوں میں گرادیا جائے لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ :خود رسول خدا(ص) ان لوگوں کو اپنی میراث سے محروم کرگئے ہیں ؟

تو جن لوگوں کو رسول خدا کی میراث کا حق نہیں ہے انہیں ان کی خلافت کا حقدار کیسے سمجھاجائے ؟

۸:- کیا سلب فدک میں بہت سے عوامل کا فرما تھے ؟

۹۵

۹:- اور اگر حضرت ابو بکر کی بیان کردہ حدیث کو درست بھی مان لیا جائے تو اس حدیث کا اطلاق صرف پیغمبر اکرم کے لئے ہوگا یا دوسرے انبیاء پر بھی اس کا انطباق ہوگا ؟

۱۰:-آخر رسول خدا اپنی پیاری دختر کو محروم ارث کیوں رکھنا چاہتے تھے ؟

۱۱:- کیا خدانخواستہ حضور کریم کو یہ اندیشہ تھا کہ ان کے بعد ان کی بیٹی اور داماد فدک کی کمائی کو غلط مصرف میں لائیں گے ؟

۱۲:- اگر حضور کریم کو یہی اندیشہ تھا تو انہوں نے اپنی حیات مبارکہ میں اپنی دختر کی تحویل میں کیوں دے دیا تھا ؟

۱۳:- اور کیا یہ "خدشہ اس لیے پیدا ہوا تھا کہ حضرت سیدہ نے اپنے والد کی حیات طیبہ میں اس جاگیر سے سو استفادہ کیا تھا ؟

۱۴:- اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو کب اور کیسے ؟

علامہ ابن ابی الحدید معتزلی نے اسی مسئلہ کے متعلق قاضی القضاۃ اور علم الہدی سید مرتضی کا ایک خوبصورت مباحثہ نقل کیا ہے ۔قاضی القضاۃ وراثت انبیاء کی نفی کرتے تھے ۔جبکہ سید مرتضی میراث انبیاء کا اثبات کرتے تھے ۔

قاضی القضاۃ کا موقف یہ تھا کہ قرآن مجید میں انبیاء کی میراث کا جو تذکرہ کیا گیا ہے اس سے علم وفضل کی میراث مراد ہے ۔مالی مراد نہیں ہے ۔

علم الہدی سید مرتضی کا موقف تھا کہ میراث کا اطلاق پہلے مال ودولت اور زمین پر ہوتا ہے ۔اور یہ اطلاق حقیقی ہوتا ہے ۔علم وفضل کے لئے مجازی طور پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے اور اصول قرآن یہ ہے کہ مجازی معنی صرف اس وقت درست قرار پاتا ہے جب کہ حقیقی معنی متعذر ومحال ہو ۔ انبیاء اگر مالی میراث حاصل کریں تو اس سے کونسی شرعی اور عقلی قباحت لازم آتی ہے کہ ہم حقیقی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔اور اگر قاضی

۹۶

القضاۃ کی بات کو تسلیم بھی کرلیاجائے کہ انبیاء کی میراث مالی کی بجائے معنوی یعنی علم وفضل پر مشتمل ہوتی ہے تو اس کا مقصد یہ بھی ہوگا کہ آل نبی پیغمبر کے علم وفضل کے وارث ہیں ۔

اور اگر آل نبی پیغمبر کے علم وفضل کے وارث ہیں تو ان وارثان علم وفضل کی موجودگی میں حضرت ابو بکر کی خلافت کا جواز کیاتھا(۱) ۔

فدک بعنوان ہبہ

جناب سیدہ نے فدک کا مطالبہ بطور ہبہ بھی کیا تھا جس پر خلیفہ صاحب نے گواہوں کا مطالبہ کیا ۔حضرت سیدہ کی طرف سے حضرت علی ، حضرت حسن اورحضرت حسین (علیھم السلام) اور حضرت ام ایمن نے گواہی دی ۔

مگر خلیفہ صاحب نے اس گواہی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ نصاب شہادت مکمل نہیں ہے ۔کیونکہ علی سیدہ کے شوہر ہیں ۔اور امام حسن اور امام حسین (علیھما السلام ) سیدہ کے فرزند اور ام ایمن ایک کنیز ہے ۔

حالانکہ شہادت ہر لحاظ سے کامل و اکمل تھی ۔

حضرت علی علیہ السلام کی گواہی کس قدر مستند ہے ۔اس کے لیے سورہ آل عمران کی اس آیت مجیدہ کی تلاوت کریں :-

شهد الله انه لا اله الا هو و الملائکة و اولو العلم قآئما بالقسط لا اله الا هو العزیز الحکیم ۔

"اللہ خود اس بات کا گواہ ہے کہ اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں اور ملائکہ اوروہ اہل علم جو عدل پر قائم ہیں کہ اس غالب اور صاحب حکمت اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے ۔"

____________________

(۱):- شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ۔ص ۷۸-۱۰۳

۹۷

اس آیت میں توحید کے گواہوں میں خود اللہ تعالی اور ملائکہ اور عدل پر قائم رہنے والے اہل علم کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔

وہ اہل علم جو عدل پر قائم ہیں وہ توحید کے گواہ ہیں ۔اورعدل پر قائم رہنے والے علماء میں علی (ع) سر فہرست ہیں کیونکہ علی (ع) کے علم کے متعلق رسول خدا کی مشہور حدیث ہے ۔"انا مدینة العلم وعلی بابها " میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں ۔

اور جہاں تک عادل ہونے کاتعلق ہے تو علی جیسا عادل چشم فلک نے نہیں دیکھا ۔جب علی توحید کے گواہ ہیں تو پھر فدک گواہ کیوں نہیں ہوسکتے ؟عجیب بات ہے ہے کہ توحید کی شہادت کے لئے تو علی کی گواہی مستند مانی جائے اور تھوڑی سی جائیداد کے لئے ان کی گواہی کو ٹھکرا دیا جائے ؟ علی صرف توحید کے گواہ نہیں ہیں وہ رسالت محمدیہ کے بھی گواہ ہیں ۔جیسا کہ سورہ رعد کی آخری آیت میں ارشاد خداوندی ہے :- "ویقول الذین کفروا لست مرسلا قل کفی باللہ شھیدا بینی وبینکم ومن عندہ علم الکتاب ۔"

اور کافر کہتے ہیں کہ تو رسول نہیں ہے ۔کہ دیں کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے اللہ کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا مکمل علم موجود ہے ۔قول اصح کے مطابق "من عندہ علم الکتاب "سے مراد حضرت علی (ع) ہیں۔

اس آیت مجیدہ میں حضرت علی علیہ السلام کو رسالت کا گواہ قرار دیا گیا ۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو علی (ع) رسالت محمدیہ کے گواہ ہیں ۔ان کی گواہی کو فدک کے لیے معتبر کیوں نہیں تسلیم کیا گیا ؟

۹۸

فرع کی اصل کے لئے گواہی

حسنین کریمین کی گواہی یہ کہہ کر رد کر دی گئی کہ یہ گواہی "فرع" کی "اصل" کے لیے ہے ۔ یعنی امام حسن اورامام حسین (علیھما السلام) چونکہ حضرت سیدہ کے فرزند ہیں اور اولاد کی گواہی والدین کے لئے قابل قبول نہیں ہے ۔

جب کہ قرآن مجید کی سورہ مریم میں میں حضرت عیسی کی پیدائش اور حضرت مریم کی پریشانی کا ذکر موجود ہے اورجب حضرت مریم کے نو مولود فرزند حضرت عیسی نے ہی اپنی نبوت اور اپنی ماں کی پاکدامنی کی گواہی دی تھی ۔

اب اگر اولاد کی گواہی والدین کے حق میں قابل نہیں ہے تو اللہ نے حضرت عیسی کی زبانی ان کی ماں کی پاکدامنی کی گواہی کیوں دلائی ؟ اگر اس فارمولے کو تسلیم کرلیا جائے کہ ماں باپ کے حق میں اولاد کی گواہی قابل قبول نہیں ہے تو آپ ان روایات کے متعلق کیا کہیں گے جو حضرت عائشہ کی زبانی ان کے والد کے حق میں مروی ہیں ؟ خلیفہ صاحب کے دربار میں چار عظیم شخصیات موجود تھیں جن میں سے ایک مدعیہ تھیں کہ اور تین شحصیات گواہ تھیں ۔

اب ان چاروں شخصیات کی گواہی کتنی معتبر ہے ؟ اس کیلئے واقعہ مباہلہ کو مد نظر رکھیں ۔

مباہلہ کی گواہی

جب عیسائی علماء دلائل نبوی سن کر مطئمن نہ ہوئے تو اللہ تعالی نے آیت مباہلہ نازل کی اور ارشاد فرمایا :-"فمن حاجّک فیه من بعد ما جآ ء ک من العلم فقل تعالوا ندع ابنا ءنا وابناءکم و نساءنا ونساءکم وانفسنا وانفسکم ثم نبتهل

۹۹

فنجعل لعنة الله علی الکاذبین "(۱) ۔

"جو علم آنے کے بعد تم سے جھگڑا کرے تو کہ دو کہ آؤ ہم اپنے بیٹے بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ او ر ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو بلاؤ اور ہم اپنی جانوں کو لائیں اور تو اپنی جانوں کو لاؤ پھر دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں ۔"

جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو رسول خدا (ص) علی (ع) کے گھر تشریف لائے اور علی و فاطمہ اور حسن وحسین (علیھم السلام ) کو اپنی چادر پہنائی اور کہا پروردگار یہ میرے اہل بیت ہیں ۔

رسول خدا نہی عظیم شخصیات کو لے کر مباہلہ کے لئے روانہ ہوئے جب عیسائی علماء نے ان نورانی چہروں کو دیکھا تو جزیہ دینا قبول اور مباہلہ سے معذرت کرلی ۔

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار شخصیات پورے اسلام کی گواہ ہیں اور ان کی گواہی کا عیسائیوں نے بھی احترام کیا تھا ۔

مباہلہ کے چند ہی دن بعد یہی چاروں شخصیات خلیفہ صاحب کے دربار میں گئیں ۔ان میں ایک مدعیہ تھیں اور تین گواہ تھے ۔

انسانی ذہن کو انتہائی تعجب ہوتا ہے کہ جن شخصیات کو اللہ نے پوری امت اسلامیہ میں سے بطور نمونہ جماعت صادقین بنا کر غیر مسلموں کے مقابلہ میں بھیجا تھا ، ان شخصیات کی گواہی کو خلیفۃ المسلمین نے رد کردیا ؟

علاوہ ازیں ان ذوات طاہرہ کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ نے ان کی طہارت کا قرآن مجید میں ان الفاظ سے ذکر فرمایا :-انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا : اے اہل بیت ! اللہ کا تو بس

____________________

(۱):- آل عمران ۔

۱۰۰

اس کی عمارت کو قصر کی اینٹو ں کو توڑ کر بنایا گیا جو مقام ''حیرة ''میں کسری کی طرح تھا اور قصر کے آخر میں قبلہ کی طرف بیت المال قرار دیا گیا۔ اس طرح مسجد کا قبلہ قصر کے داہنی طرف تھا اور اسکی عمارت مرمری تھی جس کے پتھر کسری سے لائے گئے تھے۔(طبری ،ج٤ ، ص٦٤)مسجد کے قبلہ کی طرف ٤راستے بنائے گئے اور اس کے پچھم ، پورب٣٣سڑکی ں بنائی گئی ں ۔مسجد اور بازار سے ملی ہوئی جگہ پر ٥سڑکی ں بنائی گئی ں ۔ قبلہ کی سڑک کی طرف بنی اسد نے مکان بنانے کے لئے انتخاب کیا۔ اسد اور نخع کے درمیا ن ایک راستہ تھا ، نخع اور کندہ کے درمیان ایک راستہ تھا ۔کندہ اور ازد کے درمیان ایک راستہ تھا۔صحن کے شرقی حصہ میں انصار اور مزینہ ر ہنے لگے، اس طرح تمیم اور محارب کے درمیان ایک راستہ تھا ۔ اسد اور عامر کے درمیان ایک راستہ تھا ۔ صحن کے غر بی حصہ میں بجلہ اور بجیلہ نے منزل کے لئے انتخاب کیا۔ اسی طرح جد یلہ اور اخلا ط کے درمیان ایک راستہ اور سلیمان و ثقیف کے درمیان دو راستے تھے جو مسجد سے ملے ہوئے تھے۔ہمدان ایک راستہ پر اور بجیلہ ایک راستہ پر تھے ، اسی طرح تمیم اور تغلب کا ایک راستہ تھا۔یہ وہ سڑکی ں تھی ں جو بڑی سڑکی ں کہی جاتی تھی ں ۔ ان سڑ کو ں کے برابر کچھ اور سڑکی ں بنائی گئی ں پھر ان کو ان شاہراہو ں سے ملا دیا گیا۔ یہ دوسری سڑکی ں ایک ذراع سے کم کے فا صلہ پر تھی ں ۔اسی طرح اس کے اطراف میں مسافرین کے ٹھہرنے کے لئے مکانات بنائے گئے تھے ۔وہا ں کے بازارمسجدو ں کی روش پر تھے جو پہلے آ کر بیٹھ جاتاتھا وہ جگہ اسی کی ہوجاتی تھی یہا ں تک کہ وہا ں سے اٹھ جائے یا چیزو ں کے بیچنے سے فارغ ہوجائے(طبری ،ج٤، ص ٤٥ ۔ ٤٦) اور تمام دفاعی نظام بھی بر قرار کئے گئے، منجملہ ٤ ہزار تیز رفتار گھوڑے بھی رکھے گئے۔ اس طرح شہر کو فہ مسلمانو ں کے ہا تھو ں تعمیر ہو ا۔

٥۔ نعمان مدینہ میں قبیلہ ء خزرج کی ایک فرد تھا ۔شیخ طوسی نے'' رجال'' میں ص٣٠ پر اسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے اصحاب میں شمار کیا ہے اور طبری نے ج ٤،ص ٤٣٠ پر اسے ان لوگو ں میں شمار کیا ہے جنہو ں نے عثمان کے قتل کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بیعت سے سر پیچی کی ہے۔اس کے بعد یہ معاویہ سے ملحق ہو گیا اور جنگ صفین میں اسی کے ہمراہ تھا۔ اس کے بعد معاویہ نے ایک فوج کے ساتھ اسے'' عین التمر''شب خون کے لئے بھیجا۔ اس مطلب کو طبری نے ٣٩ ھکے واقعات ج ٥، ص ١٣٣ پر لکھا ہے پھر ٥٨ھ میں معاویہ نے اسے کوفہ کا والی بنادیا ۔ یہ اس عہدہ پر باقی رہا یہا ں تک کہ معاویہ کیفر کر دار تک پہنچ گیا اور یزید نے مسند سنبھالی ۔ آخر کا ر اس کی جگہ پر یزید کی جانب سے ٦٠ ھمیں عبید اللہ بن زیاد نے گورنر ی کی با گ ڈور سنبھا لی۔اب نعما ن نے یزید کی راہ لی اور امام حسین علیہ السلام کے قتل ہو نے تک اسی کے پاس رہا ۔ پھر یزیدکے حکم پر اہل حرم کے ہمراہ مدینہ گیا (طبری ،ج٥،ص٤١٢) وہا ں سے شام لو ٹ کر یزید کے پاس رہنے لگا یہا ں تک کہ یزید نے اسے پھر مدینہ بھیجاتاکہ وہ انصار کو عبداللہ بن حنظلہ سے دور رہنے کا مشورہ دے اور یزیدکی مخالفت سے ا نہیں ڈرائے دھمکائے لیکن انصار نے ایک نہ سنی۔ (طبری ،ج٥،ص٤٨١ا)

۱۰۱

٦۔ ٢٠ھ میں عبیداللہ بن زیاد پیدا ہوا ۔(طبری، ج٥، ص ٢٩٧) ٤١ھ میں بسربن ارطاة نے بصرہ میں اسے اس کے دو بھائیو ں عباد اور عبدالرحمن کے ہمراہ قید کرلیا اور زیاد کے نام ایک خط لکھاکہ یا تم فورا ً تم معاویہ کے پاس جائویا میں تمہارے بیٹو ں کو قتل کردو ں گا۔(طبری ،ج٥ ،ص ١٦٨)٥٣ھ میں زیاد مر گیا ۔(طبری، ج٥،ص٢٨) اس کے بعد اس کا بیٹا عبید اللہ معاویہ کے پاس گیا ۔ معاویہ نے ٥٤ھ میں اسے خراسان کا گورنر بنادیا۔ (طبری ،ج ٥،ص٢٩٧) اس کے بعد ٥٥ھ میں بصرہ کا والی مقررکردیا ۔ خراسان سے نکل کر بصرہ جاتے وقت اس نے اسلم بن زرعہ کلابی کواپنا جا نشین بنا یا۔(طبری ،ج٥ ،ص٣٠٦) جس زمانے میں خراسان میں اس نے کوہ نجاری پر حملہ کیا اور اس کے دو شہر رامیشتہ اوربیر جند کو فتح کرلیا اسی وقت اپنے سپاہیو ں میں سے دوہزارتیر اندازو ں کو اس نے لیا اور ان کی تربیت کے بعد انہیں اپنے ساتھ لیکر بصرہ روانہ ہوگیا۔ (طبری، ج ٥،ص ٢٩٨) اس کا ایک بھائی عباد بن زیاد، سجستان کا گورنر تھا اوردوسرابھائی عبدالرحمن بن زیاد اپنے بھائی عبیداللہ ہی کے ہمراہ خراسان کی حکمرانی میں تھا ،وہ اس عہدہ پر دو سال تک رہا (طبری ،ج٥ ،ص٢٩٨) پھر کرمان کی حکومت کو بھی عبیداللہ بن زیاد نے ہی سنبھال لیا اور وہا ں اس نے شریک بن اعورحارثی ہمدانی کو بھیج دیا۔ (طبری، ج٥ ،ص٣٢١) یزید نے عباد کو سجستان سے اور عبدالرحمن کو خراسان سے معزول کرکے ان کے بھائی سلم بن زیاد کو گورنربنادیااورسجستان اس کے بھائی یزید بن زیاد کو بھیج دیا (طبری، ج٥ ،ص٤٧١)پھر اسے کو فہ کی گورنری بھی ٦٠ھ میں دیدی او بصرہ میں اس کے بھائی عثمان بن زیاد کو حاکم بنادیا۔ (طبری ،ج٥،ص٣٥٨) جب امام حسین کی شہادت ہوئی تو یہ ملعون ٤٠سال کا تھا اور اس عظیم واقعہ کے بعد یہ ١ ٦ھمیں پھر کوفہ سے بصرہ لوٹ گیا۔ جب یزید اوراس کا بیٹا معاویہ ہلاک ہوگیا تو بصرہ والو ں نے اس کی بیعت کرلی اور اسکو خلیفہ کہنے لگے لیکن پھر اس کی مخالفت کرنے لگے تویہ شام چلاگیا (طبری ،ج ٥،ص٥٠٣) اس سفر میں اس کے ساتھ اس کا بھائی عبداللہ بھی تھا۔ یہ ٦٤ھکا واقعہ ہے۔ (طبری ،ج ٥،ص ٥١٣) وہا ں اس نے مروان کی بیعت کی ور اس کو اہل عراق کے خلاف جنگ کے لئے اکسایا تو مروان نے اسے ایک فوج کے ساتھ عراقیو ں کے خلاف جنگ کے لئے بھیجا۔ (طبری ،ج٥،ص٥٣) وہا ں اس نے تو ابین سے جنگ کی اور ان کو ہرادیا یہ واقعہ ٦٥ھ کا ہے۔ (طبری، ج٥،ص ٥٩٨)پھر ٦٦ھ میں جناب مختار سے نبرد آزما ہوا (طبری ،ج٦، ص٨١) اور اسی میں اپنے شامی ہمراہیو ں کے ساتھ ٦٧ ھمیں قتل کردیا گیا۔ (طبری، ج ٦، ص ٨٧)

۱۰۲

لیکن یزید نے جب زمام حکومت سنبھالی تو اس کا سارا ہم و غم یہ تھا کہ ان لوگوں سے بیعت حاصل کرے جنہوں نے اس کے باپ معاویہ کی درخواست کو یزید کی بیعت کے سلسلے میں ٹھکرادیا تھا اور کسی طرح بھی یزید کی بیعت کے سلسلہ میں اپناہاتھ دینا نہیں چاہتے تھے ،لہٰذاآسودہ خاطرہونے کے لئے اس نے مدینہ کے گورنر ولید کو ایک خط اس طرح لکھا :'' بسم اللّه الرحمن الرحیم ، من یزید امیر المؤمنین الی الولید بن عتبه ...اما بعد: فان معاوية کان عبدامن عباداللّه ، اکرمه اللّه و استخلفه، و خوله و مکن له فعاش بقدر ومات باجل،فرحمه اللّه !فقد عاش محموداً! ومات برّاً تقیا! والسلام ''

یزید امیر المومنین کی طرف سے ولید بن عتبہ کے نام، امابعد ...حقیقت یہ ہے کہ معاویہ خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا جس کو خدا نے مورد احترام و اکرام قرار دیا اور خلافت و اقتدار عطا فرمایا اور بہت سارے امکانات دئیے ۔ان کی زندگی کی جتنی مد ت تھی انھوں نے اچھی زندگی بسر کی اور جب وقت آگیاتو دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔ خدا ان کو اپنی رحمت سے قریب کرے ۔انھوں نے بڑی اچھی زندگی بسر کی اورنیکی اور شائستگی کے ساتھ دنیا سے گزر گئے۔ والسلام

پھر ایک دوسر ے کا غذ پر جو چوہے کے کان کی طرح تھا یہ جملے لکھے :

'' اما بعد فخذ حسینا و عبد اللّه بن عمر و عبداللّه بن زبیر با لبیعة اخذا شدیدًالیست فیه رخصة حتی یبا یعوا، والسلام'' ( ١)

اما بعد ، حسین بن علی ، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سے سختی کے ساتھ مہلت دیئے بغیر فوراً بیعت حاصل کرو ۔ والسلام

معاویہ کی خبر مرگ پاتے ہی(٢) ولید نے فوراً مروان بن حکم(٣) کو بلوا یا تا کہ اس سلسلے میں اس سے مشورہ کر سکے ۔(٤)

____________________

١۔ طبری، ج٥،ص ٣٣٨ ، اس خبر کو طبری نے ہشام کے حوالے سے اور ہشام نے ابو مخنف کی زبانی نقل کیا ہے۔یہ ان متعدد روایتو ں میں سے پہلی روایت ہے جنہیں طبری نے آپس میں ملادیا ہے اور ہر روایت کے شروع میں ''قال '' کہا ہے۔ یہ تمام روایتی ں ابو مخنف کی طرف مستند ہیں ۔

طبری کی روایت میں ہشام کے حوالے سے ابو مخنف سے یہی جملہ نقل ہوا ہے جس میں فقط شدت اور سختی کا تذکر ہ ہے ، قتل کا ذکر نہیں ہے۔ہشام کے حوالے سے سبط بن جوزی کی روایت میں بھی یہی الفاظ نقل ہوئے ہیں ۔ (ص ٢٣٥) ارشاد کے ص ٢٠٠ پر شیخ مفید نے بھی اسی جملہ کا تذکرہ کیا ہے جس میں ہشام اور مداینی کا حوالہ موجود ہے لیکن یعقوبی نے اپنی تا ریخ میں ج ٢،ص ٢٢٩پر خط کا مضمون اس طرح نقل کیا ہے:

''اذ اتاک کتابی هذا فأ حضر الحسین بن علی ، وعبدالله بن زبیر فخذهما با لبیعة ، فان امتنعا فا ضرب أعنا قهماوابعث الیّ برؤوسهما،وخذ الناس بالبیعة ، فمن امتنع فأ نفذ فیه الحکم، وفی الحسین بن علی و عبدالله بن زبیر، والسلام''

۱۰۳

جیسے ہی تم کو میرا خط ملے ویسے ہی حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر کو حاضر کرو اور ان دونو ں سے بیعت حاصل کر! اگر انکار کری ں تو ان کی گر دن اڑادواور ان کے سر ہمارے پاس بھیج دو! لوگو ں سے بھی بیعت لو اور انکا ر کرنے پر ان کے ساتھ بتائے ہوئے حکم پر عمل کرو! وہی جو حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر کے بارے میں بتایا ہے ۔ والسلام

خوا رزمی نے اپنے مقتل کے ص١٨٠ پر ابن اعثم کے حوالے سے خط کو نقل کیا ہے ۔ یہ خط بعینہ طبری کی ہشام کے حوالے سے منقول روایت کی طرح ہے فقط اس جملہ کا اضافہ کیاہے : ...ومن ابی علیک منہم فاضرب عنقہ و ابعث الیّ براسہ ، ان میں سے جو انکا ر کرے اس کا سر کاٹ کر فوراً میرے پاس روانہ کرو !یزید کا یہ خط ولید کو ٢٦ جب شب جمعہ کو موصول ہوا تھا جیسا کہ امام حسین علیہ السلام کے مدینہ کو الوادع کہنے کی تا ریخ سے یہی اندازہ ہوتا ہے ۔

٢۔ مورخین نے اس بات کی صراحت نہیں فرمائی ہے کہ یزید نے یہ خط کب لکھا اور کب قاصد کو مدینہ کے لئے روانہ کیا تا کہ اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ شام سے مدینہ کی مسافت میں کتنا وقت لگا۔ ہا ں طبری نے (ج٥، ص، ٤٨٢)پر ہشا م کے حوالے سے ابو مخنف سے جو روایت نقل کی اس سے ہم کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں ، کیو نکہ عبد الملک بن مروان نے یزید کو جو خط لکھا تھا کہ ہم لوگ مدینہ میں محصورہیں لہٰذ ا فوج بھیجو جس کے نتیجے میں واقعہ حرہ سامنے آیا اس میں یہ ملتا ہے کہ قاصد کو آمدورفت میں ٢٤ دن لگے؛ بارہ دن جانے میں اور ١٢ دن واپس لوٹنے میں ۔ اس وقت یہ قاصد کہتا ہے کہ اتنے دنو ں کے بعد میں فلا ں وقت عبد الملک بن مروان کے پاس پہنچا، اس کے علاوہ طبری کے دوسرے بیان سے بھی کچھ اندازہ لگتا ہے کیو نکہ طبری نے ج ٥،ص ٤٩٨ پر واقدی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یزید ١٤ ربیع الاول ٦٤ ھ کوواصل جہنم ہوا اور مدینہ میں اس کی خبر مرگ ربیع الآ خر کے شروع میں موصول ہوئی۔ اس کا مطلب ہوا کہ یزید کی ہلاکت کی خبر ١٦ دنو ں بعد ملی ۔

٣۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس کے باپ حکم بن عاص کے ہمراہ مدینہ سے باہر نکال دیاتھا ،کیو نکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑایاکرتا تھا ، لیکن عثمان نے اسے اپنی حکومت میں جگہ دی اور اپنی بیٹی نائلہ کی اس سے شادی کردی اور افریقا سے مصالحت کے بعد جو ایک خطیر رقم آئی تھی جس کا ایک حصہ ٣٠٠ قنطار سو نا تھاوہ اسے دیدیا (طبری، ج٤،ص ٢٥٦) اور اسنے ان اموال کی مددسے نہر مروان کی خریداری کی جو تمام عراق میں پھیلی ہوئی تھی (طبری ،ج٤،ص٢٨٠) اس کے علا وہ مروان کو ١٥ ہزار دینار کی ایک رقم اور دی (طبری، ج٤، ص ٣٤٥) سب سے بری بات جو ہوئی وہ یہ کہ عثمان ، مروان کے ہاتھو ں کی کٹھ پتلی بن گئے۔ وہ جو چاہتا تھا یہ وہی کرتے تھے۔ اسی مسئلہ میں امیر المو منین علی علیہ السلام نے عثمان کوخیر خواہی میں سمجھا یا تھا ۔جب عثمان کا محا صرہ ہوا تو عثمان کی طرف سے اس نے لڑنا شروع کیا جس کے نتیجے میں خود اس پر حملہ ہوا پھر لوگو ں نے اس کے قتل کا ارادہ کیالیکن ایک بوڑھی دایہ جس نے اسے دودھ پلا یا تھا مانع ہو گئی اور بولی : اگر تم اس آدمی کو مارنا چاہتے ہو تو یہ مر چکا ہے اور اگر تم اس کے گوشت سے کھیلنا چاہتے ہو تو بری بات ہے (طبری ،ج٤ ،ص ٣٦٤) وہا ں سے اس کا غلام ابو حفصہ یمانی اسے اٹھا کر اپنے گھر لے گیا۔ (طبری، ج٤،ص ٣٨٠) اسی واقعہ کے بعد مروان کی گردن ٹیڑھی ہو گئی تھی اور آخر وقت تک ایسی ہی رہی۔ (طبری، ج٤،ص٣٩٤)

۱۰۴

یہ شخص جنگ جمل میں شریک تھا اور دونو ں نمازو ں کے وقت اذان دیا کر تاتھا۔ اسی نے طلحہ پر ایسا تیر چلا یا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گئے ۔خود بھی یہ جنگ میں زخمی ہوگیا تھا لہٰذا وہا ں سے بھاگ کر مالک بن مسمع غزاری کے یہا ں پہنچااور اس سے پناہ کی درخواست کی اور اس نے درخواست کوقبول کر لیا ۔(طبری ،ج ٤، ص ٥٣٦) جب وہا ں سے پلٹا تو معاویہ سے جاملا۔ (طبری ،ج ٤، ص ٥٤١) معاویہ نے بھی عام الجماعةکے بعد اسے مدینہ کا گورنر بنادیا ۔ ٤٤ھ میں اس نے مسجد میں پیش نماز کی خاص جگہ بنانے کی بدعت رائج کی۔ (طبری ،ج٥،ص٢١٥) اس کے بعد معاویہ نے فدک اس کے سپرد کر دیالیکن پھر واپس لے لیا (ج ٥،ص ٥٣١) ٤٩ھمیں معاویہ نے اسے معزول کر دیا ۔(طبری ،ج٥،ص ٢٣٢) ٥٤ھ میں ایک بار پھر مدینہ کی گو رنری اس کے سپرد کردی۔ ٥٦ھ میں معاویہ نے حج انجام دیا تو وہا ں اس نے چاہا کہ مروان یزید کی بیعت کی تو ثیق کردے (طبری، ج٥،ص٣٠٤) لیکن پھر معاویہ ٥٨ ھ تک اپنے اس ارادے سے منصرف ہو گیا ۔ ٥٦ھ میں ولید بن عتبہ بن ابو سفیان کو مدینہ کا گو رنر بنادیا۔یہی وجہ ہے کہ مروان اس سے ہمیشہ منہ پھلا ئے رکھتا تھا۔(طبری، ج ٥، ص ٣٠٩) جب اہل حرم شام وارد ہو رہے تھے تو یہ ملعون دمشق میں موجود تھا ۔(طبری، ج٥ ،ص ٤٦٥) ٦٢ھ میں واقعہ حرہ کے موقع پر یہ مدینہ ہی میں تھا۔ یہی وہ ملعون ہے جس نے حکو مت سے مدد مانگی تھی تو مدد کے طور پر یزید نے مسلم بن عقبہ المری کو روانہ کیا۔ (طبری، ج٥،ص ٤٨٢) جب اہل مدینہ مسلم بن عقبہ کے سامنے پہنچے تو بنی امیہ نے انہیں مروان کے گھر میں قید کر دیا جبکہ وہ ہزار آدمی تھے پھر ان کو مدینہ سے باہرنکال دیا اور اس نے اپنے اہل وعیال کو چو تھے امام حضرت زین العابدین علیہ السلام کے پاس مقام ینبع میں چھوڑ دیا امام علیہ السلام نے ان کی پر ورش و حمایت کی ذمہ داری لے لی ۔ امام علیہ السلام نے اس زمانے میں مدینہ کو چھو ڑدیا تھا تا کہ ان کے کسی جرم کے گواہ نہ بن سکی ں (طبری ،ج٥،ص ٤٨٥) پھر جب ٦٤ھمیں عبید اللہ بن زبیر اپنے بھائی عبداللہ بن زبیر کی حکو مت میں مدینہ کا گورنر بن گیا تو بنی امیہ مدینہ سے نکل بھاگے اور شام پہنچ کر مروان کے ہاتھو ں پر بیعت کرلی۔ (طبری ،ج٥، ص ٥٣٠) ٦٥ھ میں اس کو موت آگئی۔

٤۔ جب ولید گورنر کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد مدینہ پہنچا تو مروان ناراضگی کے اظہار کے ساتھ اس سے ملنے آیا۔جب ولید نے اسے اس حالت میں دیکھا تو اس نے اپنے افراد کے درمیان مروان کی بڑی ملامت کی؛ جب یہ خبر مروان تک پہنچی تو ان دونو ں کے آپسی رشتے اور رابطے تیرو تار ہو گئے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا یہا ں تک کہ معاویہ کی موت کی خبر لے کر نامہ بر آیا۔ چونکہ یہ موت ولید کے لئے بڑی صبرآزماتھی اور دوسری اہم مشکل جو اس کے سر پر تھی وہ یہ کہ اس خط میں حکم دیا گیا تھا کہ امام حسین علیہ السلام اور دیگر لوگو ں سے بیعت لی جائے لہذاایسی صورت میں اس نے مروان جیسے گھا گ آدمی کا سہارا لیا اور اسے بلوا بھیجا ۔(. طبری، ج٥،ص ٣٢٥)

۱۰۵

مروان سے مشورہ

مروان نے جب یزید کا خط پڑھا تو''انّا للّه وانّا الیه راجعون ''کہا اور اس کے لئے دعا ئے رحمت کی۔ ولید نے اس سے اس سلسلے میں مشورہ لیتے ہو ئے پو چھا : ''کیف تری ان نصنع'' تم کیا کہتے ہو ہمیں کیا کر نا چاہیے؟ اس پر مروان نے کہا : میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اسی وقت تم ایک آدمی کو ان لوگوں کے پاس بھیجو اور ان لوگوں سے بیعت طلب کرو اور کہو کہ فوراً مطیع ہو جائیں ؛ اگر وہ اس پر راضی ہو جائیں تو ان سے اسے قبول کرلو اور ان سے دست بر دارہو جاؤ لیکن اگر وہ انکار کریں تو قبل اس کے کہ انہیں معاویہ کی موت کی خبر ملے ان کے سرقلم کردو؛کیو نکہ اگر ان لوگوں کو معاویہ کی موت کی خبر ہو گئی تو ان میں سے ہر ایک ملک کے گو شہ و کنار میں شورش بر پا کر کے قیام کردے گا اور مخالفت کا بازار گرم ہو جا ے گا اور یہ لوگ عوام کو اپنی طرف بلا نے لگیں گے ۔(١)

قاصد بیعت

یہ سنتے ہی ولید نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان کو جو ایک نو جوان تھا(٢) امام حسین علیہ السلام اور عبداللہ بن زبیر کی طرف روانہ کیا ۔ اس نے تلاش کرنے کے بعد دونوں لوگوں کو مسجد میں بیٹھا ہواپایا۔ وہ ان دونوں کے پاس گیا اور ان کو ایسے وقت میں ولید کے دربار میں بلایا کہ نہ تو وہ و قت ولید کے عام جلسے کا تھا اورنہ ہی ولید کے پاس اس وقت جایاجاتاتھا۔(٣)

____________________

١۔طبری، ج ٥،ص ٣٩٩ ، اسی روایت کو ہشام نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے۔ خوارزمی نے بھی ص١٨١ پر اس کی روایت کی ہے۔

٢۔ یہ شخص٩١ھ تک زندہ رہا ، کیونکہ ولید بن عبد الملک نے جب مدینہ میں بعض قریشیو ں کا استقبال کیا تو یہ موجود تھا (طبری ،ج٦ ، ص٥٦٥) ''القمقام ''کے بیان کے مطابق اس کی وفات ٩٦ھ میں ہوئی اور اس کالقب مطرف تھا ۔(القمقام، ص ٢٧٠)عبدا للہ کا باپ عمرو جوخلیفہ سوم عثمان کا بیٹا ہے یعنی یہ قاصد عثمان کا پوتا تھا ۔اس کی ما ں کا نام ام عمرو بنت جندب ازدی تھا۔ (طبری ،ج٤،ص٤٢٠) طبری نے جلد ٥، ص ٤٩٤ پر لکھا ہے کہ اس کی ما ں قبیلۂ''دو س'' سے تھی ۔مسلم بن عقبہ نے واقعہ حرہ میں اسے بنی امیہ سے بے وفائی میں متہم کیا۔ جب اسے مسلم بن عقبہ کے پاس لایاگیاتو اس نے عبداللہ بن عمرو کی بڑی مذمت کی اور حکم دیا کہ اس کی داڑھی کو نوچ ڈالا جائے ۔

٣۔وقت کے سلسلے میں ابو مخنف کی خبر اس حد تک ہے کہ ''لم یکن الولید یجلس فیھا للناس'' ایسے وقت میں

۱۰۶

بلایا کہ جب کوئی عمومی جلسے کا وقت نہ تھا ، لیکن یہ رات کا وقت تھا یا دن کا اس کی کوئی تصریح نہیں ہے؛ لیکن اس روایت میں کچھ ایسے قرائن موجود ہیں جس سے وقت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ٢٦ رجب جمعہ کے دن صبح کا واقعہ ہے۔

(الف)۔ روایت کا جملہ یہ ہے''فارسل ..الیهما یدعو هما فآتاهما فوجد هما فی المسجد فقال : اجیبا ا لأ میر یدعوکما فقالا له : انصرف ، الأن ناتیه'' ۔ ولید نے اسے ان دونو ں کی طرف بلانے کے لئے بھیجا۔ قاصد نے تلاش کرتے ہوئے ان دونو ں کو مسجدمیں پایا تو کہنے لگا:امیر نے تم دونو ں کو بلا یا ہے۔ اس پر ان دونو ں نے کہاکہ تم چلوہم ابھی آتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونو ں کو ایک ہی وقت میں بلایا گیا تھا ۔ ابن زبیر سے ایک دوسری خبر میں یہ ہے کہ اس نے کہا : ہم ابھی آتے ہیں لیکن وہ وہا ں سے اٹھ کر اپنے گھر آیا اور چھپ گیا۔ ولید نے پھر دوبارہ قاصد کو بھیجا تو اسے اپنے ساتھیو ں کے درمیان پایا۔ اس نے مسلسل تین یا چار با قاصدو ں کو بھیج کر بے حد اصرار کیا تو اس پر ابن زبیر نے کہا : ''لاتعجلونی ، امھلونی فانی آتیکم'' ا تنی جلدی نہ کرو تھوڑی سی مہلت دو ،میں بس آہی رہا ہو ں ۔ اس پر ولید نے پانچوی ں مرتبہ اپنے گرگو ں کو بھیج کر اسے بلوایا ۔وہ سب آکر ابن زبیر کو برا بھلا کہنے لگے اور چیخ کر بولے :''یا بن الکاهلیه! واللّه لتاتینّ الامیر او لیقتلنّک' 'اے کاہلہ کے بیٹے تو فورا امیر کے پاس آجا ورنہ وہ تیرا سر کاٹ دے گا۔ اس کے بعد ابن زبیر نے وہ پورا دن اور رات کے پہلے حصے تک وہا ں جانے سے گریز کیا اور وہ ہر وقت یہی کہے جاتا تھا کہ ابھی آتا ہو ں ؛ لیکن جب لوگو ں نے اسے برانگیختہ کیا تو وہ بولا : خدا کی قسم میں اتنے قاصدو ں کی آمد سے پریشان ہوگیا ہو ں اور اس طرح پے در پے لوگو ں نے میرا جینا حرام کردیا ہے لہٰذاتم لوگ اتنی جلدی نہ کرو تاکہ میں امیر کے پاس ایک ایسے شخص کوبھیجو ں جو ان کا منشاء اور حکم معلوم کر آئے۔ اس کا م کے لئے اس نے اپنے بھائی جعفر بن زبیر کو روانہ کیا۔ جعفر بن زبیر نے وہا ں جا کر کہا : رحمک اللہ : اللہ آپ پر رحم کرے آپ عبداللہ سے دست بردار ہوجائیے ۔ آپ نے قاصدو ں کو بھیج بھیج کر ان کا کھانا پانی حرام کر دیا ہے،ان کا کلیجہ منہ کو آرہاہے، انشاء اللہ وہ کل خود آجائی ں گے۔ آپ اپنے قاصد کو لوٹالیجئے اور اس سے کہیے کہ ہم سے منصرف ہوجائے۔ اس پر حاکم نے شام کے وقت وہا ں سے لوگو ں کو ہٹالیا اور ابن زبیر راتو ں رات مدینے سے نکل گیا۔ گذشتہ سطرو ں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ولید کا قاصد صبح میں آیا تھا ، بلکہ واضح طور پر ذکر ہے کہ یہ سارے امور صبح میں انجام پائے کیونکہ عبارت کا جملہ یہ ہے : ''فلبث بذالک نھارہ و اول لیلہ '' اس کے بعد ابن زبیر دن بھر اور رات کے پہلے حصے تک تھما رہا چونکہ امام علیہ السلام اور ابن زبیر کو ایک ہی ساتھ بلایا گیا تھا لہٰذا امام علیہ السلام کو بلائے جانے کا وقت بھی وقت صبح ہی ہوگا ۔

(ب)روایت میں یہ جملہ موجود ہے ''فالحوا علیھما عشیتھما تلک و اول لیلھما '' ان لوگو ں کو شام کے وقت اور شب کے پہلے حصے میں پھر بلوایا گیا۔اس جملہ سے بعض لوگو ں نے یہ سمجھا کہ امام علیہ السلام کو عصر کے وقت بلایا گیا تھا؛ لیکن یہ ایک وہم ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اس جملہ میں جو ایک کلمہ موجود ہے وہ اس کی نفی کرتا ہے کیونکہ ، فألحواعلیھما''میں الحاح اصرار کے معنی میں استعمال ہواہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے صبح کے وقت بلا یا گیا پھر اصرار اور تکرار دعوت میں شام سے رات

۱۰۷

ہوگئی۔ خود یہ عبارت اس بات کوبیا ن کرتی ہے کہ یہ دعوت دن میں تھی، رات میں نہیں ۔

(ج) ابومخنف نے عبدالملک بن نوفل بن مساحق بن مخرمہ سے اور انھو ں نے ابو سعید مقبری سے نقل کیا ہے کہ ہم نے امام حسین علیہ السلام کو مسجد النبی میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ ابھی دو دن بھی نہ گذرے تھے کہ معلوم ہوا کہ آپ مکہ روانہ ہوگئے(طبری ،ج٥،ص ٣٤٢) اس مطلب کی تائید ایک دوسری روایت بھی کرتی ہے کیونکہ اس روایت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ابن زبیر اپنے گھر میں چھپ کر اپنے چاہنے والو ں کے درمیان پناہ گزی ں ہوگیا تھا۔اس کے بعد پورے دن اور رات کے پہلے حصہ تک ٹھہرا رہا لیکن پچھلے پہر وہ مدینہ سے باہرنکل گیا ۔جب صبح ہوئی اور ولید نے پھر آدمی کو بھیجا تو معلوم ہوا کہ وہ نکل چکا ہے۔اس پر ولید نے ٨٠گھوڑ سوارو ں کو ابن زبیر کے پیچھے دوڑایا لیکن کوئی بھی اس کی گرد پا نہ پا سکا۔ سب کے سب لوٹ آئے اور ایک دوسرے کو سست کہنے لگے یہا ں تک کہ شام ہو گئی (یہ دوسرا دن تھا) پھر ان لوگو ں نے شام کے وقت قاصد کو امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا توامام علیہ ا لسلام نے فرمایا :''اصبحواثم ترو ن و نری'' ذرا صبح تو ہولینے دو پھر تم بھی دیکھ لینا ہم بھی دیکھ لی ں گے۔ اس پر ان لوگو ں نے اس شب امام علیہ السلام سے کچھ نہ کہا اور اپنی بات پر اصرار نہ کیا پھر امام علیہ السلام اسی شب تڑکے نکل گئے ۔یہ یکشنبہ کی شب تھی اور رجب کے دو دن باقی تھے۔ (طبری، ج٥،ص ٣٤١)

نتیجہ ۔ان تمام باتو ں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ابن زبیر حاکم وقت کی طرف سے بلائے جانے کے بعددن بھر ہی مدینہ میں رہے اور راتو ں رات نکل بھاگے اور امام علیہ السلام دو دن رہے اور تیسرے دن تڑکے نکل گئے ۔ چونکہ امام علیہ السلام نے شب یکشنبہ مدینہ سے کوچ کیا،اس کا مطلب یہ ہو ا کہ روز جمعہ اور شب شنبہ اور روز شنبہ آپ مدینہ میں رہے اور یہ بلاوا جمعہ کے دن بالکل سویرے سویرے تھا۔ اس بنیاد پر روایت یہ کا جملہ کہ'' ساعة لم یکن الولید یجلس فیھا للناس'' (ایسے وقت میں بلا یا تھا جس وقت وہ عوام سے نہیں ملاکرتا تھا) قابل تفہیم ہوگا۔ ابن زبیر اور امام علیہ السلام جمعہ کے دن صبح صبح مسجد میں موجود تھے؛ شاید یہ نماز صبح کے بعد کاوقت تھا ۔مقبری کے حوالے سے ابو مخنف کی روایت کے مطابق امام حسین علیہ السلام ولید کے دربار سے لوٹنے کے بعد اپنے ان دو بھروسہ مند ساتھیو ں کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئے جن کے ہمراہ آپ ولید کے دربار میں گئے تھے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ کے دن صبح ہی میں ولید کا قاصد آیا تھا اور وہ رجب کی ٢٦وی ں تاریخ تھی، اسی لئے ولید اس دن عوام کے لئے نہیں بیٹھتاتھا کیونکہ وہ جمعہ کا دن تھا اور جمعہ کے دن دربار نہیں لگتا تھا ۔

۱۰۸

پس قاصد نے کہا : '' آپ دونوں کو امیر نے بلا یا ہے '' اس پر ان دونوں نے جواب دیا تم جاؤ ہم ابھی آتے ہیں ۔(١) ولید کے قاصد کے جانے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھااور ابن زبیر نے امام حسین علیہ السلام سے کہا : اس بے وقت بلائے جانے کے سلسلے میں آپ کیا گمان کرتے ہیں ؟ امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا :'' قد ظننت ان طاغیتهم قد هلک فبعث الینا لیا خذنا با لبیعة قبل ان یفشوا فی الناس الخبر '' میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ان کا سرکش حاکم ہلاک ہوچکا ہے لہٰذا ولید نے قاصد کو بھیجاتاکہ لوگوں کے درمیان خبر پھیلنے سے پہلے ہی ہم سے بیعت لے لی جا ئے ۔

____________________

١۔طبری ج ، ٤ص ٣٣٩ ہشام بن محمد نے ابو مخنف سے نقل کیا ہے۔ سبط ابن جوزی نے بھی ص ٢٠٣ پر اور خوارزمی نے ص ١٨١ پراس مطلب کو ذکر کیا ہے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہا ں دو ہی افراد کا ذکر ہے جب کہ خط میں تین لوگو ں کا تذکرہ تھا۔

روایت کے آخری ٹکڑے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فقط امام علیہ السلام اور عبداللہ بن زبیر کا ذکرکرنا اور عبد الر حمن بن ابو بکراور عبداللہ بن عمر کا ذکر نہ آنا شاید اس لئے ہے کہ پہلا یعنی پسر ابو بکر تو واقعہ سے پہلے ہی مر چکا تھااور دوسرا یعنی عبداللہ بن عمر مدینہ ہی میں نہیں تھا، جیسا کہ طبری نے واقدی سے روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٣٤٣)

۱۰۹

مقتل خوارزمی میں اعثم کوفی کے حوالے سے ص ١٨١ پراوراسی طرح سبط بن جوزی نے ص ٢٣٥ پر اس قاصد کا نام جو اُن دونوں کے پاس آیا تھا عمرو بن عثمان ذکر کیا ہے اور تاریخ ا بن عساکر،ج٤، ص٣٢پر اس کا نام عبدالرحمن بن عمروبن عثمان بن عفان ہے۔

اس پر ابن زبیر نے کہا:وما اظن غیرہ فما ترید ان تصنع ؟ میرا گمان بھی یہی ہے تو آپ اب کیا کرنا چاہتے ہیں ؟ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' اجمع فتیا نی الساعة ثم امشی الیہ فاذا ابلغت الباب احتبستھم علیہ ثم دخلت علیہ '' ، میں ابھی ابھی اپنے جوانوں کو جمع کرکے ان کے ہمراہ دربار کی طرف روانہ ہوجاؤں گا اور وہاں پہنچ کر ان کو دروازہ پر روک دوں گا اور تنہا دربار میں چلاجاؤں گا۔ابن زبیر : ''انی اخافہ علیک اذا دخلت'' جب آپ تنہا دربار میں جائیں گے تو مجھے ڈر ہے کہ آپ کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کیا جائے ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :'' لاآتیہ الا وانا علی الا متناع قادر'' تم فکر مت کرو میں ان کے ہر حربہ سے بے خوف ہوکر ان سے مقاومت کی قدرت رکھتا ہوں ۔ اس گفتگو کے بعد امام علیہ السلام اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے چاہنے والوں اور گھر والوں کو اکھٹا کر کے روانہ ہوگئے۔ دربار ولید کے دروازہ تک پہنچ کر اپنے اصحاب سے اس طرح گویا ہوئے :'' انی داخل ، فان دعوتکم او سمعتم صوته قد علا فاقتحموا علیّ باجمعکم والا فلاتبرحوا حتی أخرج الیکم ''میں اندر جا رہا ہوں اگرمیں بلاؤں یا اس کی آواز بلند ہو تو تم سب کے سب ٹوٹ پڑنا ور نہ یہیں پر ٹھہرے رہنا یہاں تک کہ میں خود آجاؤں ۔(١)

____________________

١۔شیخ مفید نے اس واقعہ کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے، ص ٢٠٠؛سبط بن جوزی ،ص ٢٣٦، خوارزمی ، ص ١٨٣۔

۱۱۰

امام حسین علیہ السلام ولید کے پاس

اس کے بعد امام علیہ السلام دربار میں داخل ہوئے ۔اس کو سلام کیا اور وہاں پر مروان کو بیٹھاہوا پایا جبکہ اس سے پہلے دونوں کے رابطہ میں دراڑپڑ گئی تھی ۔ امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کی موت سے انجان بنتے ہوئے فرمایا :''الصلة خیر من القطیعه'' رابطہ برقرار رکھنا توڑنے سے بہتر ہے۔

خدا تم دونوں کے درمیان صلح و آشتی برقرار فرمائے۔ ان دونوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ امام علیہ السلام آکر اپنی جگہ پربیٹھ گئے۔ ولید نے معاویہ کی خبر مرگ دیتے ہی فوراًاس خط کو پڑھ دیا اور آپ سے بیعت طلب کرنے لگا تو آپ نے فرمایا :''انا للّه وانّا الیه راجعون أمّا ما سأ لتنی من البیعة فان مثلی لا یعطی بیعته سرا'' تم نے جو بیعت کے سلسلے میں سوال کیا ہے تو میرے جیسا آدمی تو خاموشی سے بیعت نہیں کرسکتا'' ولا أراک تجتزی بها منی سرّاً دون ان تظهرها علی رؤوس الناس علانية'' ؟ میں نہیں سمجھتا کہ تم لوگوں میں اعلان عام کئے بغیر مجھ سے خاموشی سے بیعت لینا چاہوگے۔ولید نے کہا : ہاں یہ صحیح ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا :'' فاذاخرجت الی الناس فدعوتهم الی البیعةدعوتنا مع الناس فکان امراً واحداً'' (١) توٹھیک ہے جب باہر نکل کر لوگوں کو بیعت کے لئے بلاؤگے تو ہمیں بھی دعوت دینا تاکہ کام ایک بار ہوجائے۔امام علیہ السلام کے سلسلے میں ولید عافیت کو پسند کررہاتھا لہٰذا کہنے لگا : ٹھیک ہے اللہ کا نام لے کر آپ چلے جائیے جب ہم لوگوں کو بلائیں گے تو آپ کو بھی دعوت دیں گے ، لیکن مروان ولید سے فوراً بول پڑا :ّواللّه لئن فارقک الساعة ولم یبایع ؛لاقدرت منه علی مثلها أبداً ، حتی تکثر القتلی بینکم وبینه ! احبس الرجل ولا یخرج من عندک حتی یبایع أو تضرب عنقه! ''(٢)

____________________

١۔خوارزمی نے اس مطلب کو دوسرے لفظو ں میں ذکر کیا ہے ،ص١٨٣۔

٢۔خوارزمی نے اس مطلب کو ص١٨٤پر ذکر کیا ہے۔

۱۱۱

خدا کی قسم اگر یہ ابھی چلے گئے اور بیعت نہ کی تو پھر ایسا موقع کبھی بھی نہیں ملے گا یہاں تک کہ دونوں گروہ کے درمیان زبر دست جنگ ہو تم اسی وقت اس مرد کو قید کرلو اور بیعت کئے بغیر جا نے نہ دو یا گردن اڑادو ،یہ سنتے ہی امام حسین علیہ السلام غضبناک ہو کراٹھے اور فرمایا :''یابن الزرقاء (١) انت تقتلنی ام هو؟ کذبت والله واثمت'' (٢) اے زن نیلگوں چشم کے بیٹے تو مجھے قتل کرے گا یا وہ ؟ خدا کی قسم تو جھوٹا ہے اور بڑے دھوکے میں ہے۔ اس کے بعد امام علیہ السلام باہر نکل کر اپنے اصحاب کے پاس آئے اور ان کو لیکر گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔(٣)

____________________

١۔یہ زرقاء بنت موہب ہے۔ تاریخ کامل ،ج٤،ص ٧٥ کے مطابق یہ عورت برے کامو ں کی پرچمدار تھی ۔یہ امام علیہ السلام کی طرف سے قذف اور تہمت نہیں ہے کہ اسے برے لقب سے یاد کرنا کہاجائے بلکہ قرآن مجید کی تاسی ہے قرآن ولید بن مغیرہ مخزومی کی شان میں کہتا ہے:''عتل بعد ذالک زنیم'' زنیم کے معنی لغت میں غیر مشروع اولاد کے ہیں جس کو کوئی اپنے نسب میں شامل کرلے۔

٢۔مقتل خوارزمی، ص١٨٤ میں ان جملوں کا اضافہ ہے :''انا اهل بیت النبوه ومعدن الرسالة و مختلف الملائکةومهبط الرحمة، بنا فتح اللّه وبنا یختم، ویزید رجل فاسق ، شارب الخمر ، قاتل النفس، معلن بالفسق، فمثلی لا یبایع مثله ،ولکن نصبح و تصبحون وننظر و تنظرون أیناأحق بالخلافةو البیعة'' ہاں اے ولید !تو خوب جانتا ہے کہ ہم اہل بیت نبوت ، معدن رسالت ، ملائکہ کی آمد ورفت کی جگہ اور رحمت خدائی کے نزول و ھبوط کا مرکز ہیں ، اللہ نے ہمارے ہی وسیلہ سے تمام چیزوں کا آغاز کیااور ہمارے ہی ذریعہ انجام ہوگا ، جبکہ یزیدایک فاسق ، شراب خوار ، لوگوں کا قاتل اور کھلم کھلا فسق انجام دینے والا ہے،پس میرے جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا ؛لیکن صبح ہونے دو پھر تم بھی دیکھنا اور ہم بھی دیکھیں گے کہ ہم میں سے کون خلافت و بیعت کا زیادہ حقدار ہے۔ جیسے ہی امام علیہ السلام کی آواز بلند ہوئی تو جوانان بنی ہاشم برہنہ تلواروں کے ساتھ ٹوٹ پڑے؛ لیکن امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو روکا اور گھر کی طرف لے کر روانہ ہوگئے۔ مثیرالاحزان میں ابن نما(متوفیٰ٦٤٥ھ) نے اور لہوف میں سید ابن طائووس (متوفیٰ ٦١٣ھ) نے روایت کا تذکرہ کیاہے ۔

٣۔طبری نے اس روایت کو ہشام بن محمد کے حوالے سے ابی مخنف سے نقل کیا ہے۔ خوارزمی نے ص١٨٤پر خبر کا تتمہ بھی لکھا ہے کہ ولید سے مروان بولا :''عصیتنی لاوالله لا یمکنک من مثلها من نفسه ابداً'' تم نے میری مخالفت کی ہے تو خدا کی قسم تم اب کبھی بھی ان پر اس طرح قدرت نہیں پاؤگے ۔ولیدنے کہا:'' ویح غیرک یا مروان ..''اے مروان! یہ سرزنش کسی اور کو کر تو نے تو میرے لئے ایسا راستہ چنا ہے کہ جس سے میرا دین برباد ہوجائے گا ، خدا کی قسم اگر میرے پاس مال دنیا میں سے ہرو ہ چیز ہو جس پر خورشید کی روشنی پڑتی ہے اور دوسری طرف حسین کا قتل ہوتوحسین کا قتل مجھے محبوب نہیں ہے۔(سبط بن جوزی، ص٢٢٦)

سبحان اللہ ! کیا میں حسین کو فقط اس بات پر قتل کردوں کہ انھوں نے یہ کہا ہے کہ میں بیعت نہیں کروں گا ؟ خدا کی قسم میں گمان کرتا ہوں کہ جو قتل حسین کا مرتکب ہو گا وہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک خفیف المیزان ہوگا۔ (ارشاد ،ص ٢٠١)

مروان نے اس سے کہا : اگر تمہاری رائے یہی ہے تو پھر تم نے جو کیا وہ پالیا۔

۱۱۲

ابن زبیر کا موقف

ابن زبیر نے یہ کہا: میں ابھی آتا ہوں لیکن اپنے گھر آکر چھپ گئے ۔ ولید نے قاصد کودوبارہ اس کی طرف روانہ کیا ۔ اس نے ابن زبیر کو اپنے چاہنے والوں کی جھر مٹ میں پا یا جہاں وہ پناہ گزیں تھا۔ اس پر ولید نے مسلسل بلا نے والوں کے ذریعہ آنے پرتاکید کی ...آخر کا ر ابن زبیر نے کہا :''لا تعجلو نی فانی آتیکم امهلونی'' جلد ی نہ کرو میں ابھی آرہا ہوں ؛ مجھ کو تھوڑی سی مہلت دو ۔ اسکے بعد وہ دن اور رات کے پہلے پہر تک مدینہ میں رہا اور یہی کہتا رہا کہ میں ابھی آرہا ہوں ؛یہا ں تک کہ ولیدنے پھر اپنے گر گوں کو ابن زبیر کے پاس روانہ کیا ۔ وہ سب وہاں پہنچ کر اسے برا بھلا کہنے لگے اور چیخ کر بولے : ائے کا ہلہ کے بیٹے ! خدا کی قسم تو فوراً آجا ورنہ امیر تجھ کو قتل کر دے گا۔ لوگوں نے زبر دستی کی تو ابن زبیر نے کہا :خدا کی قسم ان مسلسل پیغام لانے والوں کی وجہ سے میں بے چین ہوں ؛ پس تم لوگ جلدی نہ کرومیں ابھی امیر کے پاس کسی ایسے شخص کو بھیجتا ہوں جو ان کی رائے معلوم کر کے آئے ، اس کے بعد فوراًاس نے اپنے بھائی جعفر بن زبیر کو روانہ کیا ۔ اس نے جا کر کہا : اللہ آپ کو سلامت رکھے ، عبداللہ سے دست بردار ہوجایئے، لوگوں کو بھیج بھیج کر آپ نے ان کو خوف زدہ کر رکھا ہے، وہ انشا ء اللہ کل آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں گے۔ اب آپ اپنے پیغام رساں سے کہئے کہ وہ ہمارا پیچھا چھوڑ دے، اس پر ولید نے آدمی بھیج کر قاصد کو جانے سے روک دیا ۔

ادھر ابن زبیر ٢٧ رجب کو شب شنبہ امام حسین علیہ السلام کے نکلنے سے پہلے ہی راتوں رات مدینے سے نکل گئے اور سفر کے لئے نا معلوم راستہ اختیار کیا۔سفر کا ساتھی فقط انکا بھائی جعفر تھا اور کوئی تیسرا نہیں تھا ۔ ان دونوں بھائیوں نے پکڑے جانے کے خوف سے عام راستے پر چلنے سے گریز کیا اور ناہموار راستے سے ہو تے ہوئے مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ (تذکرةالخواص ، ابن جوزی ،ص ٢٣٦)

جب صبح ہوئی تو ولید نے اپنے آدمیوں کو پھر بھیجا لیکن ابن زبیر نکل چکے تھے۔ اس پر مروان نے کہا : خدا کی قسم وہ مکہ روانہ ہواہے اس پر ولید نے فوراً لوگوں کو اس کے پیچھے دوڑایا؛ اس کے بعد بنی ا میہ کے ٨٠ گھوڑ سواروں کو ابن زبیرکی تلاش کے لئے بھیجا لیکن وہ سب کے سب خالی ہاتھ لو ٹے ۔

ادھر عبداللہ بن زبیر اپنے بھائی کے ہمراہ مشغول سفر ہیں ۔ چلتے چلتے جعفر بن زبیر نے'' صبرةالحنظلی'' کے شعر سے تمثیل کی:

وکل بنی أم سیمسون لیلة

ولم یبق من أعقابهم غیر واحد

اس پر عبداللہ نے کہا :سبحان اللہ !بھائی اس شعر سے کیا کہنا چاہتے ہو ؟جعفر نے جواب دیا : بھائی ! میں نے کوئی ایسا

۱۱۳

ارادہ نہیں کیا ہے جو آپ کے لئے رنجش خاطرکاباعث ہو ۔ اس پر عبداللہ نے کہا : خدا کی قسم مجھے یہ نا پسند ہے کہ تمہاری زبان سے کوئی ایسی بات نکلے جس کا تم نے ارادہ نہ کیا ہو۔ اس طرح ابن زبیر سفر کرتے رہے یہاں تک کہ مکہ پہنچ گئے۔ اس وقت مکہ کا حاکم عمرو بن سعید تھا۔ جب ابن زبیر وارد مکہ ہوئے تو عمرو بن سعیدسے کہا : میں نے آپ کے پا س پناہ لی ہے لیکن ابن زبیر نے کبھی ان لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی اور نہ ہی کوئی افاضہ کیا بلکہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک کنارے رہنے لگے اور نماز بھی تنہا پڑھنے لگے اور افاضہ بھی تنہا ہی رہا ۔(طبری ، ج٥،ص٣٤٣) اس واقعہ کو ہشام بن محمد نے ابی مخنف سے نقل کیا ہے۔ شیخ مفید نے ارشاد ،ص٢٠١، اور سبط ابن جوزی نے تذکرة الخواص ،ص٢٣٦پر بھی اس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے۔ وہاں یہ ملتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام آئندہ شب میں اپنے بچوں ، جوانوں اور گھر االوں کے ہمراہ مدینہ سے باہرنکل گئے اور ابن زبیر سے دور ہی رہے اور سبط ابن جوزی ص ٢٤٥ پر ہشام اور محمد بن اسحاق سے رویت نقل کرتے ہیں کہ دو شنبہ کے دن ٢٨ رجب کو امام علیہ السلام نکلے اورخوارزمی نے ص١٨٦پر لکھا ہے کہ آپ ٣ شعبان کومکہ پہنچے ۔

امام حسین علیہ السلام مسجد مدینہ میں

دوسرے دن سب کے سب عبداللہ بن زبیر کی تلاش میں لگ گئے اور امام حسین علیہ السلام کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا یہا ں تک کہ شام ہو گئی۔ شام کے وقت ولید نے کچھ لوگوں کو امام حسین کے پاس بھیجا ۔یہ٢٨ رجب سنییجر کا دن تھا۔ امام حسین نے ان سے فرما یا : صبح ہونے دو تم لوگ بھی کچھ سوچ لواور میں بھی سوچتا ہوں ۔ یہ سن کر وہ لوگ اس شب یعنی شب ٢٩ رجب امام حسین علیہ السلام سے دست بردار ہوگئے اور اصرار نہیں کیا ۔(١) ابو سعید مقبری کا بیا ن ہے کہ میں نے امام حسین علیہ السلام کو مسجد میں وارد ہوتے ہوئے دیکھا۔ آپ دولوگوں پر تکیہ کئے ہوئے چل رہے تھے، کبھی ایک شخص پر تکیہ کرتے تھے اور کبھی دوسرے پر؛اسی حال میں یزید بن مفرغ حمیری کے شعر کو پڑھ رہے تھے :

لاذعرت السوام فی فلق الصبح

مغیراً،و لا د عیت یزیداً

یوم اْعطی من المهابه ضیماً

والمنایا یرصدننی أن أحیدا(٢)

____________________

١۔طبری، ج٥ ، ص٣٣٨، ٣٤١، ہشام بن محمد نے ابو مخنف سے روایت نقل کی ہے اور شیخ مفید نے بھی اس کو ذکر کیا ہے۔(ارشاد، ص ٢٠١)

٢۔خوارزمی ،ص١٨٦

۱۱۴

میں سپیدہ سحری میں حشرات الارض سے نہیں ڈرتا نہ ہی متغیر ہوتاہوں اور نہ ہی اپنی مدد کے لئے یزید کو پکاروں گا ۔سختیوں کے دنوں میں خوف نہیں کھاتا جبکہ موت میری کمین میں ہے کہ مجھے شکارکرے ۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے جب یہ اشعار سنے تواپنے دل میں کہا : خدا کی قسم ان اشعار کے پیچھے کوئی ارادہ چھپاہواہے۔ابھی دو دن نہ گذرے تھے کہ خبر ملی کہ امام حسین علیہ السلام نے مکہ کا سفر اختیار کرکیا ہے۔(١)

محمدبن حنفیہ کا موقف(٢)

محمد حنفیہ کو جب اس سفر کی اطلاع ملی تو اپنے بھا ئی حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور فر مایا بھائی جان ! آپ میرے لئے دنیا میں سب سے زیاد ہ محبوب اور سب سے زیادہ عزیز ہیں میں اپنی نصیحت اور خیر خواہی کا ذخیرہ آپ کے علاوہ کسی دوسرے تک پہنچانا بہتر نہیں سمجھتا آپ یزید بن معاویہ کی بیعت نہ کیجئے اور کسی دور دراز علاقہ میں جاکر پناہ گزین ہو جائیے پھر اپنے نمائندوں کو لوگوں کے پاس بھیج کر اپنی طرف دعوت دیجئے اب اگر ان لوگوں نے آپ کی بیعت کر لی تو اس پر آپ خدا کی حمد وثنا کیجئے اور اگر لوگ آپ کے علاوہ کسی اور کی بیعت کر لیتے ہیں تو اس سے نہ آپ کے دین میں کمی آئے گی نہ عقل میں ، اس سے نہ آپ کی مروت میں کوئی کمی آئے گی اور نہ فضل وبخشش میں ۔مجھے اس بات کاخوف ہے کہ آپ ان شہروں میں سے کسی ایک شہر میں چلے جائیں اور کچھ لوگ وہا ں آکر آپ سے ملیں پھر آپس میں اختلاف کرنے لگیں ۔کچھ گروہ آپ کے ساتھ ہو جائیں اور کچھ آپ کے مخالف ۔اس طرح جنگ کا شعلہ بھڑک اٹھے اور آپ سب سے پہلے نیزوں کی باڑھ پر آجائیں ۔اس صورت میں وہ ذات جو ذاتی طور پر اور اپنے آبا ء واجد اد کی طرف سے اس امت کی باوقار ترین فرد ہے اس کا خون ضائع ہوگا اور ان کے اہل بیت ذلیل ہوں گے۔ امام علیہ السلام نے جواب دیا :بھائی میں جارہا ہوں !

____________________

١۔طبری، ج ٥،ص٣٤٢، ابومخنف کا بیان ہے کہ یہ واقعہ مجھ سے عبدالملک بن نوفل بن مساحق نے ابوسعید مقبری کے حوالے سے نقل کیا ہے ، جن کازندگی نامہ پہلے بیان ہوچکاہے۔تذکرةالخواص ،ص٢٣٧

٢۔ محمد حنفیہ کی ما ں خولہ بنت جعفر بن قیس ہیں جو قبیلہ ء بنی بکر بن وائل سے تعلق رکھتی ہیں ۔(طبری ،ج، ٥، ص ١٥٤)

۱۱۵

آپ جنگ جمل میں اپنے بابا علی مرتضیٰ علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ امام علی السلام نے آپ کے ہاتھوں میں علم دیا تھا (طبری ،ج ٥، ص ٤٤٥)آپ نے وہاں بہت دلیری کے ساتھ جنگ لڑی اور قبیلۂ ''ازد''کے ایک شخص کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جو لوگوں کو جنگ پر اکسارہا تھا ۔(طبری، ج ٤،ص ٤١٢) آپ جنگ صفین میں بھی موجودتھے اور وہاں عبید اللہ بن عمر نے ان کو مبارزہ کے لئے طلب کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے شفقت میں روکا کہ کہیں قتل نہ ہو جا ئیں ۔ (طبری ،ج٥، ص١٣) امام حسین علیہ السلام جب مکہ سے عراق جارہے تھے تو آپ مدینہ میں مقیم تھے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٩٤) مختار آپ ہی کی نمائند گی کا دعویٰ کر تے ہوئے کوفہ میں وارد ہوئے تھے۔ (طبری ،ج ٥،ص ٥٦١) ابن حنفیہ کو اس کی خبر دی گئی اور ان سے اس سلسلے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا : میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ خدا ئے متعال اپنے جس بندے کے ذریعہ چاہے ہمارے دشمن سے بد لہ لے۔جب مختار کو ابن حنفیہ کے اس جملہ کی اطلاع ملی تو انھوں نے جناب محمد حنفیہ کو امام مہدی کا لقب دیدیا ۔(طبری ،ج٦، ص ١٤) مختار ایک خط لیکرابراہیم بن مالک اشتر کے پا س گئے جو ابن حنفیہ سے منسوب تھا ۔(طبری ،ج ٦،ص ٤٦) اس کا تذکرہ ابن حنفیہ کے پاس کیا گیا تو انھوں نے کہا : وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ ہمارا چاہنے والا ہے اور قاتلین حسین علیہ السلام تخت حکومت پر بیٹھ کر حکم نا فذ کر رہے ہیں ۔مختار نے یہ سنا تو عمر بن سعداور اس کے بیٹے کو قتل کر کے ان دو نوں کا سر ابن حنفیہ کے پاس روانہ کر دیا۔ (طبری، ج ٦،ص ٦٢) مختار نے ایک فوج بھیج کر ابن حنفیہ کو برانگیختہ کرنا چاہا کہ وہ ابن زبیر سے مقابلہ کریں لیکن محمد حنفیہ نے روک دیا اور خون بہا نے سے منع کر دیا۔ (طبری،ج٦،ص٧٤) جب یہ خبر ابن زبیر کو ملی تو اس نے ابن حنفیہ اور ان کے ١٧رشتہ داروں کو کچھ کو فیوں کے ہمراہ زمزم کے پاس قید کردیا اور یہ دھمکی دی کہ بیعت کریں ورنہ سب کوجلادیں گے۔ اس حالت کو دیکھ کر محمد حنفیہ نے کو فہ کے تین آدمیوں کو مختار کے پاس روانہ کیا اور نجات کی درخواست کی ۔ خبر ملتے ہی مختار نے چار ہزار کا لشکرجو مال واسباب سے لیث تھا فوراً روانہ کیا ۔وہ لوگ پہنچتے ہی مکہ میں داخل ہوئے اور مسجدالحرام میں پہنچ کر فوراً ان لوگوں کو قید سے آزاد کیا ۔ آزاد کر نے کے بعد ان لوگوں نے محمدحنفیہ سے ابن زبیر کے مقابلہ میں جنگ کی اجازت مانگی تو محمد حنفیہ نے روک دیا اور اموال کو ان کے درمیان تقسیم کردیا ۔(طبری ،ج ٦،ص ٦٧) آپ شیعوں کو زیادہ روی سے روکا کرتے تھے۔ (طبری ،ج ٦،ص ١٠٦) ٦٨ ھ میں حج کے موقع پر آپ کے پاس ایک مستقل پر چم تھا اور آپ فرمایا کر تے تھے: میں ایسا شخص ہوں جو خود کو ابن زبیر سے دور رکھتا ہو ں اور جو میرے ساتھ ہے اس کو بھی یہی کہتا ہوں کیو نکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سلسلے میں دو لوگ بھی اختلاف کریں ۔(طبری ،ج٦،ص١٣٨) آپ جحاف کے سال تک زندہ رہے اور ٦٥سال کی عمر میں طائف میں اس دنیا سے جاں بحق ہو گئے۔ ابن عباس نے آپ کی نماز پڑھائی ۔(طبری ،ج ٥،ص ١٥٤)

۱۱۶

محمد حنفیہ نے کہا :اگرآپ جا ہی رہے ہیں تو مکہ میں قیام کیجئے گا۔اگروہ جگہ آپ کے لئے جا ئے امن ہو تو کیا بہتر اور اگرامن وسلامتی کو وہاں پر بھی خطرہ لاحق ہو تو ریگستانو ں ، پہاڑوں اوردرّہ کو ہ میں پناہ لیجئے گا او رایک شہر سے دوسرے شہر جاتے رہیئے گا تاکہ روشن ہو جائے کہ لوگ کس طرف ہیں ۔ ایسی

صورت میں آپ حالات کو اچھی طرح سمجھ کر فیصلہ کر سکیں گے ۔ میرے نزدیک آپ کے لئے بہترین راستہ یہی ہے۔اس صورت میں تمام امور آپ کا استقبال کریں گے اوراگر آپ نے اس سے منھ موڑ اتو تما م امور آپ کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوجائیں گے ۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :بھائی جان !آپ نے خیر خواہی کی ہے اور شفقت فرمائی ہے، امید ہے کہ آپ کی رائے محکم اور استوار ہو۔(١)

امام حسین علیہ السلام کا مدینہ سے سفر

امام حسین علیہ السلام نے ولید سے کہا ٹھہرجاؤتاکہ تم بھی غور کرلو اور ہم بھی غور کرلیں ، تم بھی دیکھ لواور ہم بھی دیکھ لیں ، ادھر وہ لوگ عبداللہ بن زبیر کی تلاش میں امام حسین علیہ السلام کو با لکل بھول گئے یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ اسی شام ولید نے کچھ لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا۔ یہ ٢٧ رجب شنبہ کا دن تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : صبح ہونے دو پھر تم بھی دیکھ لینا اور ہم بھی دیکھ لیں گے، اس پر وہ لوگ اس شب جو شب یکشنبہ یعنی شب ٢٨ رجب تھی رک گئے اور کسی نے اصرار بھی نہیں کیا۔ اسی رات امام حسین مدینہ سے خارج ہوئے جب کہ رجب کے فقط دو دن باقی تھے۔ آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند اور بھائی وبھتیجے موجود تھے بلکہ اہل بیت کے اکثر افراد موجود تھے،البتہ محمد حنفیہ اس کاروان کے ہمراہ نہیں تھے۔(٢)

____________________

١۔طبری ،ج ٥ ، ص٣٤١، ہشام بن محمد نے ابو مخنف سے یہ روایت کی ہے اور شیخ مفید نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ (ارشاد،ص٢٠٢، خوارزمی ، ص١٨٨،اور خوارزمی نے اعثم کوفی کے حوالے سے امام علیہ السلام کی وصیت ''امّا بعد فانّی لم اخرج ...''کا اضافہ کیا ہے ۔اور وصیت میں ''سیرة خلفاء الراشدین '' کا اضافہ کیا ہے ۔

٢۔طبری ، ج ٥،ص٢٤٠، ٢٤١و ٣٨١ پر بھی کوچ کرنے کی تاریخ یہی بیان کرتے ہیں جسے ابو مخنف نے صقعب بن زہیر کے حوالے سے اورانھو ں نے عون بن ابی حجیفہ کے توسط سے نقل کیا ہے۔'' ارشاد'' ، ص٢٠٩پر شیخ مفید اور تذکرة الخواص، ص٢٣٦پر سبط بن جوزی بیان کرتے ہیں : آئندہ شب امام حسین علیہ السلام اپنے جوانو ں اور اہل بیت کے ہمراہ مدینہ سے سفر اختیار کیا در حالیکہ لوگ ابن زبیر کی وجہ سے آپ سے دست بردار ہوگئے تھے، پھرص٢٤٥ پر محمدبن اسحاق اور ہشام سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ نے یکشنبہ کو جبکہ رجب کے تمام ہونے میں دو دن بچے تھے مدینے سے سفر اختیار کیا ،البتہ خوارزمی نے اپنے مقتل کے ص١٨٩ پر لکھا ہے کہ رجب کے تین دن باقی تھے ۔

۱۱۷

مدینہ سے سفر اختیار کرتے وقت امام حسین علیہ السلام اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے:( ''فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفاً يَتَرَقَّبُ قَالَ رَبِّ نَجِّنِی مِنَ الْقَوْمِ الْظَّالِمِيْنَ'' ) (١) اور جب مکہ پہنچے تویہ آیت تلا وت فر ما ئی( ''وَلَمَّاتَوَجَّهَ تِلْقَآ ئَ مَدْيَنَ قَالَ عَسَٰی رَبِّی أَنْ يَهْدِيَنِی سَوَائَ السَّبِيْلِ'' ) (٢)

____________________

١۔ قصص ، آیت٢١

٢۔ قصص ، آیت ٢٢، طبری ج٥،ص، ٣٤٣ پرہشام بن محمد ابو مخنف سے نقل کر تے ہیں ۔

۱۱۸

عبد اللہ بن عمر کا موقف :(۱) پھر ولید نے ایک شخص کو عبد اللہ بن عمر کے پاس بھیجا تو آنے والے نے ا بن عمر سے کہا : یزید کی بیعت کرو ! عبد اللہ بن عمر نے کہا : جب سب بیعت کرلیں گے تو میں بھی کرلوں گا۔(۲) اس پر ایک شخص نے کہا : بیعت کرنے سے تم کو کونسی چیز روک رہی ہے ؟ کیاتم یہ چاہتے ہو کہ لوگ اختلاف کریں اورآپس میں لڑبھڑکر فنا ہوجائیں اور جب کوئی نہ بچے تو لوگ یہ کہیں کہ اب تو عبداللہ بن عمر کے علاو ہ کو ئی بچانہیں ہے لہذا اسی کی بیعت کرلو ، عبداللہ بن عمر نے جواب دیا : میں نہیں چاہتاکہ وہ لوگ قتل ہوں ، اختلاف کریں اور فناہوجائیں لیکن جب سب بیعت کرلیں گے اور میرے علاو ہ کوئی نہیں بچے گا تو میں بھی بیعت کرلوں گا اس پر ان لوگوں نے ابن عمر کو چھوڑدیا کیونکہ کسی کو ان سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔

____________________

(١) طبری ، ج ٥، ص٣٤٢ میں یہ لفظ موجود ہے کہ ہشام بن محمد ابو مخنف سے نقل کرتے ہیں ...، پھر طبری کہتے ہیں کہ واقدی (متوفی ٢٠٧) کا گمان ہے کہ جب قاصد ،معاویہ کی موت کی خبر لے کر ولید کے پاس آیا تھا اس وقت ابن عمر مدینہ میں موجود ہی نہیں تھے اور یہی مطلب سبط بن جوزی نے بھی اپنی کتاب کے صفحہ ٢٣٧ پر لکھاہے۔ ہا ں ابن زبیر اور امام حسین علیہ السلام کو بیعت یزید کے لئے بلایا تو یہ دونو ں اسی رات مکہ کو روانہ ہوگئے ؛ا ن دونو ں سے ابن عباس اور ابن عمر کی ملاقات ہوئی،جو مکہ سے آرہے تھے تو ان دونو ں نے ان دونو ں سے پوچھا : آپ کے پیچھے کیا ہے ؟ تو ان دونو ں نے کہا : معاویہ کی موت اور یزید کی بیعت ، اس پر ابن عمر نے کہا : آپ دونو ں تقوائے الٰہی اختیار کیجئے اور مسلمین کی جماعت کو متفرق نہ کیجئے ! اس کے بعد وہ آگے بڑھ گیا اور وہیں چند دنو ں اقامت کی یہا ں تک کہ مختلف شہرو ں سے بیعت آنے لگی تو وہ اور ابن عباس نے پیش قدمی کی اور دونو ں نے یزید کی بیعت کر لی''۔

(٢) جیسا کہ معاویہ نے اپنی وصیت میں اور مروان نے ولید کو مشورہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ایسا ہوگا اورویسا ہی ہوا ۔

۱۱۹

امام حسین علیہ السلام مکہ میں

* عبد اللہ بن مطیع عدوی

* امام حسین علیہ السلام کا مکہ میں ورود

* کوفیوں کے خطوط

* امام حسین علیہ السلام کا جواب

* حضرت مسلم علیہ السلام کا سفر

* راستے سے جناب مسلم کا امام علیہ السلام کے نا م خط

* مسلم کو امام علیہ السلام کا جواب

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333