المیہ جمعرات

المیہ جمعرات17%

المیہ جمعرات مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 333

المیہ جمعرات
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 333 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 106441 / ڈاؤنلوڈ: 4819
سائز سائز سائز
المیہ جمعرات

المیہ جمعرات

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

۶ ۔مردوں کے لئے خالص ریشم کے کپڑے کا استعمال حرام ہے خواہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں۔ ہاں اگر اس میں اتنا سوت وغیرہ ملا دیا جائے کہ وہ ریشمی نہ کہلائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۷ ۔ سونے کے توروں سے بنے ہوئے کپڑوں کا ستعمال مردوں کے لئے حرام ہے اسی طرح مردوں کے لئے سونے سے زینت اور آرائش بھی ناجائز ہے۔ جیسے سونے کی انگوٹھی ، چین ، چشمہ کا فریم ، گھڑی ، بٹن وغیرہ ۔ عورتوں کے لئے یہ تمام باتیں جائز ہیں۔

مردوں کے لئے سونے کا استعمال نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں حرام ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ سونے میں خالص کی قید نہیں بلکہ اگر مخلوط بھی ہے تو بھی ناجائز ہے۔ جب تک کہ اس میں تانبا یا کوئی دوسری دھات اتنی نہ ملا دی جائے کہ اسے سونا نہ کہہ سکیں۔

سوالات :

۱ ۔ نماز میں مرد اور عورت کو کتنا جسم چھپانا واجب ہے ؟

۲ ۔ نماز کے لباس کی تین شرطیں بیان کرو ؟

۳ ۔ نائلون کے کپڑے میں نماز کب ناجائز ہے ؟

۴۱

اکیسواں سبق

مکان

مکان سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کھڑے ہو کر انسان نماز ادا کرتا ہے اس جگہ کے لئے پاک ہونے کی کوئی قید نہیں ہے بلکہ نجس بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جگہ کی تری بدن اور کپڑے تک نہ پہونچ جائے مگر سجدہ کی جگہ کا پاک ہونا بہرحال ضروری ہے۔

مکان نماز میں حسب ذیل شرائط ضروری ہیں :

۱ ۔ مباح و جائز ہو ۔ دوسرے کی زمین پر یا مشتر کہ اراض میں بغیر مالک و شریک کی اجازت کے نماز باطل ہے۔ عام موقوفات یعنی مسجد وغیرہ میں جو پہلے جگہ لے لے اُسے اُس کی جگہ سے ہٹایا نہیں جا سکتا ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جائےگی۔ اجازت کے صریح بیان کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مالک کے راضی رہنے کا یقین ہونا کافی ہے۔

۲ ۔ نماز میں معصوم کی قبر کے آگے نہ ہونا چاہئے بلکہ پیچھے پڑھے یا زیادہ سے زیادہ برابر کھڑا ہو آگے ہونا خلاف ادب ہے ہاں اگر کافی ٖاصلہ ہو جائے یا درمیان میں کوئی چیز جائل ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

۳ ۔ نماز کی جگہ کو ساکن اور ٹھرا ہوا ہونا چاہئے۔ چلتی ہوئی گاڑی پر اس وقت تک نماز جائز ہے جبکہ آخر وقت تک اُتر کر یا رُکی ہوئی گاڑی میں نماز پڑھنا ممکن رہے۔

۴۲

یوں تو نماز کے لئے کوئی جگہ معین نہیں ہے لیکن مسجد کو دیگر مقامات پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے چاہے وہاں نماز جماعت ہو یا نہ ہو۔ جماعت کا ہونا مزید ثواب و برکت کا باعث ہے۔

مسجد کی عظمت یہ ہے کہ عام مسجدوں میں ایک نماز پچیس نمازوں کے برابر ہے اور جامع مسجد میں سو نمازوں کے برابر ہے۔ مسجد کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ مسجد کے پڑوسی کی نماز بغیر مسجد میں پڑھے مقبول نہیں ہو سکتی سوا اس کے کہ کوئی مجبوری ہو اور دوسری روایت یہ ہے کہ مسجد روز قیامت ان نمازوں سے فریاد کرےگی جو نماز پڑھتے تھے لیکن مسجد میں نہیں آتے تھے۔

سوالات :

۱ ۔ کیا نجس جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں ؟

۲ ۔ ریل پر نماز کیونکر پڑھی جائےگی ؟

۳ ۔ معصوم کی قبر کے آگے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

۴ ۔ گھر کی نماز اور عام مسجد کی نما میں کیا فرق ہے ؟ عام مسجد اور جامع مسجد کی نماز میں کیا فرق ہے ؟

۵ ۔ جامع مسجد مین ایک نماز کا ثواب کیا ہے ؟

۶ ۔ چلتی ہوئی گاڑی میں نماز جائز ہے یا نہیں ؟

۴۳

بائیسواں سبق

اذان و اقامت

اذان و اقامت صرف پنچگانہ نمازوں کے لئے مستحب ہے اور انتہائی تاکید کے ساتھ مستحب ہے۔ باقی نمازوں میں اذان و اقامت ناجائز ہے چاہے وہ واجب ہوں یا غیر واجب۔ اذان اور اقامت میں حسب ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے :

۱ ۔ نیت ۔ یعنی دونوں کو قربت کی نیت سے انجام سے اس لئے کہ کسی عبادت میں بغیر قصد قربت کے ثواب نہیں مل سکتا۔

۲ ۔ عقل ۔ دیوانے کی اذان و اقامت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

۳ ۔ بلوغ ، نابالغ کی اذان و اقامت ناکافی ہے۔

۴ ۔ ذکوریت ، عورت کی اذان و اقامت مرد کے لئے نا کافی ہے البتہ عورت کا اذان و اقامت کہنا عورتوں کے لئے کافی ہے۔

۵ ۔ ترتیب ۔ پہلے اذان اس کے بعد اقامت کہنا چاہئے۔

۶ ۔ موالات ۔ اذان کے بعد جلد ہی اقامت اور اقامت کے بعد فوراً نماز پڑھے۔ سلسلہ کے ٹوٹ جانے سے اذان و اقامت بیکار ہو جاتی ہے۔

۷ ۔ عربی ۔ اُردو میں یا غلط عربی میں اذان و اقامت درست نہیں ہے۔

۴۴

۸ ۔ وقت ۔

نماز کے وقت سے پہلے اس کا ادا کرنا غلط ہے البتہ قضا نماز پڑھی جا سکتی ہے اس لئے اس کا وقت ہر وقت رہتا ہے۔ اذان کے لئے طہارت ۔ قیام ۔ استقبال قبلہ مسجد ہے لیکن اقامت میں طہارت و قیام ضروری ہے۔ یہ رسم کہ اقامت کہتے کہتے قدقامت الصلوٰۃ پر کھڑے ہو گئے فرادی نماز میں بالکل نامناسب ہے اس طرح اقامت کا ثواب نہیں مل سکتا۔ اذان و اقامت دونوں میں ذکر رسولؐ اکرم کے بعد ذکر امیرالمومنین علیؐ ابن ابی طالبؐ ہونا چاہئے جو اذان کا جز نہیں ہے۔ لیکن حکم پیغمرؐ کی بنا پر مسحب ہے۔

اگر کوئی شخص اذان و اقامت دونوں بھول جائے اور نماز شروع کر دے تو اس کے لئے جائز ہے کہ رکوع میں پہونچنے سے پہلے نماز کو توڑ دے اور اذان و اقامت کہہ کر پھر نماز شروع کرے لیکن اگر صورف اقامت بھول گیا ہے تو الحمد شروع کرنے کے بعد نماز نہیں توڑ سکتا البتہ اس سے پہلے توڑ سکتا ہے۔ تنہا اذان کے بھول جانے سے نماز نہیں توڑی جا سکتی۔ اسی طرح کسی ایک کے بھی قصداً چھوڑ دینے پر نماز کا قطع کرنا حرام ہے۔

سوالات :

۱ ۔ نابالغ کی اذان و اقامت کیا کافی ہے ؟

۲ ۔ اقامت و نماز کے درمیان وقت کا فاصلہ کیا ہے ؟

۳ ۔ اگر نمازی اذان و اقامت بھول کر نماز شروع کر دے تو کیا حکم ہے ؟

۴ ۔ اقامت کی کوئی تین شرطیں بتاؤ ؟

۵ ۔ اذان اور اقامت میں جن باتوں کا لحاظ ضروری ہے وہ کتنی ہیں ؟

۴۵

تئیسواں سبق

واجبات نماز

نماز میں گیارہ چیزیں واجب ہیں اور انھیں کے مجموعہ کا نام نماز ہے۔

نیت : تکبیرۃ الاحرام ۔ قیام ۔ قرائت ۔ ذکر ۔ رکوع ۔ سجود ۔ تشہد ۔ سلام ۔ ترتیب ۔ موالات ۔ ان میں سے پانچ واجب کن ہیں یعنی ان کی کمی زیادتی بھولے سے بھی نماز کو باطل کر دیتی ہے۔ نیت تکبیرۃ الاحرام۔ قیام ۔ رکوع ۔ دونوں سجدے باقی سب غیر رکن ہیں یعنی ان کو قصداً چھوڑ دینے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ لیکن بھولے سے باطل نہیں ہوتی بلکہ ان کی قضا کرنا پڑتی ہے۔

نیت :

نیت رکن ہے اس کو ہمیشہ دل میں ہونا چاہئے زبان سے ادا کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ نماز احتیاط میں تو زبان سے ادا کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔

تکبیرۃ الاحرام ۔

نیت کے بعد اللہ اکبر کہنا رکن نماز ہے اور پوری نماز میں یہی ایک تکبیر واجب ہے اس کے علاوہ تمام تکبیریں سنت ہیں۔

قیام۔

انسان اپنے مکان بھر کھڑے ہوکر نماز پڑھے رونہ بیٹھ کر پڑھے اور اگ بیمار یا کمزور ہے تو جتنی دیر کھڑا رہ سکے ٹھرا رہے پھر اگر طاقت آ جائے تو پھر کھڑا ہو جائے اور جو بیٹھ بھی نہ سکے وہ لیٹ جائے داہنے یا بائیں کروٹ یا چت۔ بشرطیکہ قبلہ کی طرف اس کا چہرہ رہے۔ قیام ۔ الحمد اور سورہ ، پڑھتے وقت واجب ہے لیکن تکبیر کے وقت رکن ہے اور سورہ ، پڑھتے وقت واجب ہے لیکن تکبیر کے وقت رکن ہے اور اسی طرح رکوع سے پہلے بھی رکن ہے یعنی رکوع میں قیام سے جانا چاہئے یہی قیام متصل برکوع ہے۔ اس قیام کے رکن ہونے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر انسان حمد و سورہ کے بعد بھولے سے سجدہ کے لئے جھک گیا اور سجدہ کرنے سے پہلے یاد آیا کہ رکوع نہیں کیا ہے تو اب وہیں سے رکوع میں نہیں جا سکتا ورنہ نماز باطل ہو جائےگی بلکہ اسے چاہئے کہ سیدھے کھڑا ہو اور اس کے بعد رکوع میں جائے۔

۴۶

قرات ۔ تکبیر کے بعد پہلی دو رکعت میں الحمد اور اس کے بعد کوئی ایک سورہ پڑھنا واجب ہے۔ البتہ واجب سجدہوں والے سورے نہ پڑھے اور اتنے لمبے سورے نہ پڑھے کہ نماز کا وقت نکل جائے۔ جماعت کی حالت میں یہی دو سورے ماموم نہیں پڑھتا ہے ورنہ باقی نماز ماموم خود ادا کرےگا۔ آخری دو رکعتوں میں انسان کو اختیار ہے چاہے سورہ حمد پڑھے یا ایک مرتبہسُبحَانَ اللهِ وَ الحَمدُ لِلهِ وَ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ للهُ وَ اللهُ اَکبَر پڑھے۔ تین مرتبہ پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔

رکوع ۔ نماز کا ایک اہم رکن ہے اگر اتفاقاً کبھی رہ جائے یا ایک سے دو ہو جائے تو نماز باطل ہے۔ رکوع میں اتنا جھکنا چاہئے کہ ہتھیلی گٹھنے تک پہونچ سکے۔ گٹھنے پر ہتھیلی کا رکھنا واجب نہیں ہے۔ رکوع میں ایک مرتبہ سبحان ربی العظیم و بحمدہ یا تین مرتبہ سبحان اللہ کہنا ضروری ہے۔ اس کے بعد ان کلمات کو بار بار دھرانا افضل و مستحب ہے۔ رکوع ختم کرنے کے بعد سیدھے کھڑا ہو کر سجدہ میں جائے اس لئے کہ یہ قیام بھی واجب ہے۔ کھڑے ہونے کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ ۔ اللہ اکبر کہنا مستحب ہے۔

سجدہ ۔

یہ بھی نماز کا ایک رکن ہے لیکن دونوں ملاکر جس کا مطلب یہ ہے کہ دو کے چار ہو جائیں یا اتفاق سے کسی رکعت میں ایک بھی نہ ہو سکے تو نماز باطل ہو جائےگی۔ سجدہ میں سات اعضا ، کا زمین پر ٹکنا ضروری ہے۔ پیشانی ۔ دونوں ہتھیلیاں ۔ دونوں گٹھنے ۔ دونوں پیر کے انگوٹھے سجدہ کا ذکرسبحان ربی الا علیٰ و بحمده یا تین مرتبہسبحان الله ہے۔ سجدہ مٹی پر ہوگا یا جو چیزیں زمین سے اُگی ہوں ان پر ہوگا بشرطیکہ وہ کھانے اور پہننے میں کام نہ آتی ہوں۔ خاک کربلا پر سجدہ کرنے کا زیادہ ثواب ہے۔ اس لئے کہ یہ خاک اسلامی قربانیوں کو یاد دلانے والی اور مسلمانوں میں جوش عقیدت کو ابھارنے والی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سجدہ کا جو ازارسی خاک پاک میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہر پاک مٹی ، لکڑی ، پتے پر اپنے شرائط کے ساتھ سجدہ کیا جا سکتا ہے۔

۴۷

تشہد ۔

دوسری رکعت اور آخری رکعت میں دونوں سجدوں کے نعد تشہد واجب ہے جس کی صورت یہ ہےاَشهَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ وَ اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبدُهُ وَ رَسُولَهُ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ ٰالِ مُحَمَّد ! اگر کوئی شخص تشہد بھول جائے اور بھول کر کھڑا ہو جائے تو فوراً بیٹھ کر تشہد پڑھے اور نماز کے بعد دو سجدہ سہو کرے۔

سلام ۔

نماز کے خاتمہ پر ایک سلام واجب ہے چاہےاِلسِّلاِمُ عَلَینَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِینُ "یا "اَلسَّلاَم عَلَیکُم وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ بہر حال مستحب ہے۔ سلام نماز کا جز ہے۔

ترتیب ۔

نماز کو اپنی صحیح ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہئے مثلا نیت کر کے تکبیر کہے پھر سورہ حمد پڑھے دوسرا سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے۔ رکوع سے اُٹھ کر سجدہ میں جائے۔ ایک سجدہ سے اُٹھ کر پھر دوسرا سجدہ کریں پھر اسی طرح دوسری رکعت پڑھے۔ اگر دو ہی رکعت پڑھنا ہے تو سجدہ کے بعد تشہد و سلام پڑھ کر ختم کر دے ورنہ باقہ نماز اسی ترتیب سے ادا کرے۔

موالات ۔

نماز کے تمام اگعال کو پے در پے ہونا چاہئے۔ درمیان میں اتنا فاصلہ یا ایسی خاموشی نہ ہو جائے کہ صورت نماز ہی ختم ہو جائے۔

قنوت ۔

یہ دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے مستحب ہے اس میں ایک صلوات کا پڑھنا بھی کافی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ ارکان نماز کتنے ہیں اور ان کا کیا حکم ہے ؟

۲ ۔ کون سا قیام رکن ہے اور قیام متصل برکوع کا کیا مطلب ہے ؟

۳ ۔ واجب نماز کتنے ہیں ؟

۴ ۔موالات کسے کہتے ہیں ؟

۴۸

چوبیسواں سبق

مبطلات نماز

نو چیزیں ایسی ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اس کا دوبارہ ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔

۱ ۔ کسی ایسے حدث کا صادر ہو جانا جس سے وضو باطل ہو جاتا ہے یا غسل واجب ہو جاتا ہے اسلئے کہ ان چیزوں سے طہارت ختم ہو جاتی ہے اور طہارت کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی۔

۲ ۔ پورے بدن کا قبلہ سے منحرف ہو جانا یا تنہا چہرا کا اس قدر مڑ جانا جس سے پس پشت تک کی چیزیں دیکھ سکے، رہ گیا داہنے بائیں تھوڑا سا انحراف و التفات ہوتو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔

۳ ۔ حالت نماز میں ایسے کام انجام دینا جو جائز ہیں یا جن کے کرنے سے نماز کی صورت باقی نہیں رہتی۔ جیسے ناچنا ۔ گانا ۔ سینا پرونا وغیرہ

اسکے علاوہ ہاتھوں کو حرکت دینا کسی ضرورت سے جھکنا ۔ دو ایک قدم آگے پیچھے ۔ داہنے بائیں ہٹ جانا ۔ خطرہ میں سانپ بیچھو کا قتل کر دینا ۔ بچہ کو گود میں اٹھا لینا یا اس قسم کے دوسرے معمولی افعال سے نماز باطل نہیں ہوتی بشرطیہ حرکت کی حالت میں خاموش رہے کوئی ذکر وغیرہ کا خاص خیال رکھے۔بلا ضرورت یہ باتیں کسی طرح مناسب نہیں ہیں۔

۴۹

۴ ۔ کلام نماز کی حالت میں علاوہ ذکر و دعا کے کسی بھی لفظ کا استعمال کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ دعا وغیرہ میں بھی خطاب پروردگار عالم سے ہونا چاہئے کسی آدمی سے خطاب کر کے اسے دعا دینا ناجائز ہے۔نماز پڑھنے والے کو سلام کرنے کی ابتدا نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر کوئی سلام کر دی تو فوراً سلام علیکم کہہ کر جواب دینا چاہئے علیکم السلام کہہ کر نہیں۔ اگر پوری جماعت کو سلام کیا جائے تو ایک شخص کا جواب کافی ہے لیکن اگر سب جواب کو ٹال جائیں گے تو گناہ میں بھی سب شریک رہیںگے۔

ہندوستان کے رسمی سلام "اداب عرض " ہے۔ تسلیمات وغیرہ جیسے فقروں کا جواب واجب نہیں ہے بلکہ حالت نماز میں تو ان الفاظ کا ادا کرنا جائز بھی نہیں ہے۔

۵ ۔ نماز میں آواز کے ساتھ یا اتنی شدت سے ہنسنا کہ سارا چہرہ سرخ ہو جائے خواہ آواز نہ بھی نکلے نماز کو باطل کر دیتا ہے البتہ معمولی مسکراہٹ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہنسی سے جب چہرہ سرخ ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ نماز کو تمام کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔

۶ ۔ گریہ و بکا ۔ حالت نماز میں دنیاوی کاموں کے لئے رونا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر دفعتاً خود بخود رونا آ گیا اور انسان اس پر قابو نہ پا سکا جب بھی نماز باطل ہو جائےگی۔ سیدالشہدا پر گریہ کرنا خدا کی خوشنودی کی نیت سے جائز ہے۔

۵۰

۷ ۔ کھانا پینا ۔ نماز کی حالت میں کسی مقدار میں بھی کھانا پینا ناجائز ہے بلکہ مبطل نماز ہے ہاں اگر منھ میں شکر وغیرہ کے کچھ ریزے رہ گئے ہیں اور وہ پگھل کر اندر چلے جائیں تو اس سے کوئی اثر نماز پر نہیں پڑتا۔ اگر کوئی شخص درمیان نماز میں بھولے سے کھانے پینے میں مشغول ہو گیا تو اس کی نماز باطل نہ ہوگی بشرطیہ نمازی جانماز پر معلوم ہوتا ہو دسترخوان پر نہیں۔ اس حکم سے صرف وہ شخص آزاد ہے جو نماز وتر پڑھ رہا ہے اور صبح کے وقت اُسے روزہ رکھنا ہے۔ ایسے آدمی کو نہ اختیار رہے کہ نماز کی حالت میں پانی پی لے ۔ کھانا وہ بھی نہیں کھا سکتا۔ پانی پینے میں بھی قبلہ کا لحاظ انتہائی ضروری ہے۔

۸ ۔ تکفیر ۔ نماز میں ہاتھ باندھنا شریعت اسلام کی رو سے ناجائز ہے۔

۹ ۔ سورہ حمد کے خاتمہ پر عام مسلمانوں کی طرح آمین کہنا فقہ آل محمدؐ کی رو سے ناجائز بلکہ مبطل نماز ہے اتفاقی طور سے زبان سے نکل جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۵۱

یہ وہ مقامات ہیں جہاں نماز خود بخود باطل ہو جاتی ہے اس کے علاوہ کسی موقع پر بھی باطل ضرورت نماز کا قطع کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ ضرورت کے وقت ایسا ہو سکتا ہے چاہے وہ ضرورت دنیاوی ہو یا دینی بلکہ بعض حالات میں اگر جان و مال و آبرو کا خطرہ ہے تو نماز کا توڑ دینا واجب ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ نماز توڑتے وقت ایک سلام پڑھے۔

تنبیہ ۔

نماز یومیہ میں صبح ، مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعتیں بآواز پڑھی جائیںگی۔ ظہر و عصر مکمل اور مغربین کی آخری رکعتیں آہستہ پڑھی جائینگی لیکن یہ خیال رہے کہ بات صرف حمد و سورہ کے بارے میں ہے اس کے علاوہ پوری نماز کے بارے میں انسان کو اختیار ہے کہ چاہے آہستہ پڑھے یا بآواز۔ حمد و سورہ اور دیگر ذکر و دعا کے پڑھنے میں عربی قواعد کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ حمد و سورہ بآواز پڑھتے وقت ہر ہر حرف کا آواز سے پڑھنا واجب ہے۔ مثلا ضآلین کا نون بھی آواز سے ادا کرنا ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ حالت نماز میں سانپ ، بچھو کا مارنا کیسا ہے نماز صحیح رہے گی یا باطل ہو جائےگی ؟

۲ ۔ کیا مسکراہٹ سے نماز باطل ہو جائےگی ؟

۳ ۔ نماز میں پانی پینا کیسا ہے ؟

۴ ۔ تکفیر کے معنی کیا ہیں ؟

۵ ۔ مبطلات نماز بتلائیے ؟

۶ ۔ کیا حالت نماز میں آداب عرض ، یا تسلیمات عرض کہا جائے تو نماز صحیح ہوگی ؟

۵۲

پچیسواں سبق

آداب ذکر و قرائت

۱ ۔ نیت کے موقع پر بعض حضرات قربتہً الا اللہ کہہ دیتے ہیں حالانکہ یہ لفظ " الی اللہ " ہے۔

۲ ۔ صلوات میںاَللهُم سَلِّ سے کہہ دیا جاتا ہے حالانکہ یہ رسولؐ اکرم کے لئے بد دعا ہے اصل لفظصَلِّ صاد سے ادا ہوتا ہے۔

۳ ۔اَشهَدُ اَن لاَ اِلٰهَ اِلاَّ الله میں اَن کا نون گرا کر الف کو بعد کے لام سے ملا کراَلاَّ اِلٰهَ پڑھنا چاہئے۔

۴ ۔ صلوات میں محمدٍّ و آلِ محمد میں واؤ پر تشدید دیکر وال کو واؤ سے ملاکر پڑھنا چاہئے۔

۵ ۔ کفو احد مٰیں لفظ کفوا کو کُفُواً واؤ کے ساتھ اور کُفُواً ۔ کُفؤاً ہمزہ کے ساتھ چار طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔

۶ ۔ حی علی الصلوۃ اور قد قامت الصلوۃ میں "ت" کو "ہ" پڑھنا چاہئے اس لئے کہ وقف اور ٹھراؤ میں گول ۃ "ہ "سے بدل جاتی ہے۔

۷ ۔ تشہد میںاَشهَدُ اَنَّ مُحمَداً عَبدُهُ وَ رَسُولَهُ میں عَبدَہُ کے دال پر پیش ہونا چاہئے زبر غلط ہے۔

۸ ۔ سورہ حمد میں المستقیم پر ٹھہر بھی سکتے ہیں اور المستقیمَ پڑھ کر بعد سے ملا بھی سکتے ہیں۔

۹ ۔ نماز کی حالت میں جتنے بھی ذکر واجب یا مستحب ہیں سب کو سکون و اطمینان کی حالت میں ادا کرنا چاہئے حرکت و اضطراب میں سوائےبِحولِ الله وَ قُوتهِ اَقُومُ وَ اَقعُد کے کسی ذکر کا ادا کرنا مناسب نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کتنی چیزیں ایسی ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ؟

۲ ۔ نیت میں اِلا اللہ درست ہے یا اِلی اللہ صحیح ہے ؟

۳ ۔ نماز میں وہ کون سی چیز ہے جس کو حرکت کی حالت میں بھی پڑھ سکتے ہیں ؟

۵۳

چھبیسواں سبق

نماز قضا

اگر انسان سے اپنی نماز ترک ہو گئی ہے یا بڑے بیٹے پر باپ کی قضا نماز واجب ہو گئی ہے تو اس کا فریضہ ہے کہ ان سب کی قضا ادا کرے قضا نماز تمام احکام مین باطل ادا جیسی ہے اگر سفر کی قجا ہے تو گھر میں بھی قصر ہی ادا کی جائے گی اور اسی طرح بر عکس۔ اگر جہری ہے تو جہری رہےگی اخفاقی ہے تو اخفاقی رہےگی۔فرادی بھی ہو سکتی ہے جماعت سے بھی ہو سکتی ہے ترتیب کا لحاظ بھی ضروری ہوگا۔ مثلا پہلے ظہر کی پھر عصر کی پہلے مغرب کی پھر عشاء کی البتہ یہ ممکن ہے کہ صبح کی قضا نماز ظہرین کی ادا کے بعد پڑھے یا ظہرین کی قضا نماز مغربین کی ادا کے بعد پڑھے۔ قضا کا کوئی وقت معین نہیں ہے ہر نماز کی قضا ہر وقت پرھی جا سکتی ہے۔

والدین کی نماز اگر خود ادا ادا کرنے پر قادر نہیں ہے تو اجرت دے کر پڑھوائے اجرت پڑھنے والا مرنے والے کی طرف سے نیت کر کے ویسی نماز پڑھے جیسی نماز مرنے والے کی قضا ہوئی ہے۔ لیکن جہر و اخفات میں اپنا طاظ کرے گا یعنی اگر مرد عورت کی طرف سے پڑھ رہا ہے تب بھی جس نماز میں مرد سورے آواز سے پڑھتا ہے اس نماز میں آواز سے ہی پڑھےگا۔ بڑے بیٹے کے علاوہ قضاء والد کسی دوسرے پر واجب نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ بڑے بیٹے کی نالائقی یا اس کے نہ ہونے کی صورت میں دیگر اولاد و اعزاء کو ازراہ ہمدردی اس فیضہ کو ادا کر دینا چاہئے۔ عورت پر زمانہ حیض و نفاس میں چھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا واجب نہیں ہے البتہ اس زمانہ کے روزے کی قضا ضروری ہے۔

۵۴

مردے کی طرف سے اگر کوئی شخص ازخود نماز ادا کر دے تو وارث کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیمار آدمی قضائے عمری کو بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا بلکہ صحت کا انتظار کرےگا۔ ہاں اگر صحت سے مایوس ہو گیا ہے تو بیٹھ کر ہی ادا کرےگا۔عام طور سے جمعتہ الوداع کے دن چار رکعت نماز کو زندگی بھر کا کفارہ مشہور کر دیا گیا ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے بلکہ قضا کا ادا کرنا بہرحال ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ جہری نمازیں کون ہیں اور اخفائی کون ؟

۲ ۔ باپ کی نماز کس بیٹے پر واجب ہے ؟

۳ ۔ اجرت پر نماز پڑھنے والے کا کیا حکم ہے ؟

۵۵

ستائیسواں سبق

نماز کی غلطیاں

بھول

نماز مین غلطیوں کی دو صورتیں ہوتی ہیں ، بھول اور شک۔ بھول جانے کی صورت یہ ہے کہ انسان حالت نماز میں کسی واجب کے ادا کرنے سے غافل ہو جائے۔ ایسی صورت میں اگر بھولی بات اگلے رکن میں داخل ہونے سے پہلے یاد آ جائے تو فوراً پلٹ کر اسے بجا لائے اور اگر رکن میں داخل ہونے کے بعد یاد آئے جیسے رکوع میں پہونچکر سورہ حمد یا دوسرے سورہ کا بھول جانا یاد آیا تو ایسی حالت میں جس چیز کو بھولا ہے اگر وہ خود رکن نہیں ہے تو نماز کو آگے پڑھا دے اور بعد میں ہر بھولی ہوئی بات کے لئے دو سجدہ سہو کرے اور اگر بھولی ہوئی بات خود رکن تھی تو نماز باطل ہو گئی پھر سے پڑھے۔ اگر پلٹ کر واجب کو ادا کرنے میں کوئی زیادتی ہو گئی ہے تو اس زیادتی کے لئے بھی سجدہ سہو کرےگا۔ مثلا کھڑے ہو جانے کے بعد یاد آئے کہ تشہد نہیں پڑھا ہے تو فوراً بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرے اس لئے کہ کھڑا ہو کر پھر بیٹھنا پڑا اور تشہد کے بعد پھر کھڑا ہونا پڑا۔ اس زیادتی کے لئے سجدہ سہو کرنا ہوگا۔

۵۶

سجدہ سہو چھ اسباب سے واجب ہوگا۔

۱ ۔ بھولے سے درمیان نماز میں کلام کر لینا ایسے میں نماز باطل نہ ہوگی بلکہ سجدہ سہو کرےگا۔

۲ ۔ بے محل سلام پڑھ دینا۔

۳ ۔دوسرے سجدہ کے بعد چوتھی اور پانچویں رکعت یا حالت قیام میں چوتھی یا پانچویں یا یا پانچویں اور چھٹی رکعت میں شک کرنا۔

۴ ۔ ایک سجدہ کا بھول جانا دونوں کے بھولنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے اس لئے وہ رکن ہیں۔

۵ ۔ بے محل کھڑا ہو جانا جیسے کہ دوسری رکعت میں بجائے تشہد کے قیام کرنا۔ ایسے میں بیٹھ کر تشہد پڑھےگا۔ اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرےگا۔

۶ ۔ خود تشہد کا فراموش کر دینا اور بعد والی رکعت کے رکوع میں جاکر یاد آنا۔

سجدہ سہو کی ترکیب

نماز کے ختم ہوتے ہی قبلہ سے منحرف ہوئے بغیر فوراً دل میں نیت کرے کہ دو سجدہ سہو فلاں غلطی کی بنا پر کرتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ اور یہ قصد کر کے فوراً سجدہ میں جائے اور یہ ذکر کرے " "بِسمِ اللهِ وَ بِاللهِ اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ اَيهُّا النَّنِیُ وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُهُ " پھر سر اٹھا کر دوبارہ سجدہ کرے اور یہی ذکر پڑھے پھر سر اٹھا کر تشہد و سلام پڑھ کر کلام تمام کرے۔

اگر نماز میں ایک سجدہ یا تشہد بھول گہا تھا تو خاتمہ نماز پر پہلے اس سجدہ یا تشہد کی قضا کرے، اس کے بعد سجدہ سہو کرے۔

۵۷

شک

نماز میں شک پیدا ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ کبھی شک کا تعلق نماز کے

افعال سے ہوتا ہے اور کبھی نماز کی رکعتوں سے۔ افعال میں شک کا مطلبیہ ہے کہ دوران نماز تکبیر کہنے ، حمد یا سورہ پڑھنے ، رکوع یا سجدہ کونے وغیرہ میں شک ہو جائے ، ایسی صورت کا حکم یہ ہے کہ اگر بعد والے عمل میں داخل ہونے کے بعد کسی پہلے والے فعل میں شک ہوا ہے تو اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی جائےگی بلکہ نماز کو صحیح قرار دیا جائےگا مثلا کسی شخص کو قل ھو اللہ احد پڑھتے وقت سورہ حمد کے پڑھنے میں شک ہو گیا تو وہ بجائے پلٹنے کے نماز آگے پڑھتا رہےگا اور انشاء اللہ صحیح رہےگی۔

رکعات میں شک کا مطلب یہ ہے کہ رکعتوں کی صحیح تعداد یاد نہ رہے اس شک کی بظاہر بہت سی صورتیں ہیں لیکن صرف ۹ صورتوں میں نماز صحیح ہو سکتی ہے۔ باقی تمام صورتوں میں باطل ہوگی۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ شک پیدا ہوتے ہی دماغ پر زور دے کہ صحیح بات یاد کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگر کوئی فیصلہ نہ کر سکے تو شریعت کی تفصیل یہ ہے۔

ان قوانین کی تفصیل یہ ہے :

۱ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد یہ شک ہو کہ یہ سجدہ دوسری رکعت کا تھا یا تیسری رکعت کا۔ ایسی صورت میں تیسری سمجھ کر اسی حساب سے نماز تمام کرے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اس لئے کہ اگر واقعی دوسری رکعت تھی تو ایک ہی رکعت کی کمی ہوئی ہے۔

۵۸

۲ ۔تیسری اور چوتھی رکعت کے بارے میں کسی حالت میں شک ہو ۔ ایسے میں چوتھی قرار دے کر نماز تمام کرے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔

۳ ۔ دوسری سجدہ کے بعد دو اور چار میں شک ہو ۔ ایسے میں چوتھی رکعت ورار دے کر نمام تمام کرے اور دو رکعت نماز احتیاط پڑھے۔

۴ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد شک کرے کہ یہ رکعت دوسری تھی یا تیسری یا چوتھی ۔ ایسے میں چوتھی سمجھے اور پہلے دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پرھے پھر دو رکعت بیٹھ کر۔

۵ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد شک ہو کہ یہ رکعت چوتھی تھی یا پانچویں ۔ ایسے میں نماز وہیں پر تمام کرے اور دو سجدہ سہو کرے۔

۶ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ چوتھی ہے یا پانچویں ۔ ایسے میں فوراً بیٹھ کر نماز تمام کر دے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۷ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ تیسری ہے یا پانچویں ۔ ایسے میں بیٹھا کر نماز ختم کر دے اور دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔ اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۸ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ تیاری ہے یا چوتھی یا پانچویں ۔ ایسے میں بیٹھ کر نماز تمام کر دے اور دو رکعت کھڑے ہو کر اور دو رکعت بیٹھ کر نماز احتیاط پڑھے۔ اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۹ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ پانچویں ہے یا چھٹی ۔ ایسے میں بیٹھ کر نماز تمام کرے اور دو سجدہ سہو کرے۔ نیز بنا پر احتیاط واجب بےجا قیام کے لئے دو سجدہ مزید کرے۔

۵۹

شک کے بارے میں یہ بات ضرور ہیش نظر رہنی چاہے کہ یہ سارے احکام صرف اس نماز کے لئے ہیں جس میں چار رکعتیں ہوتی ہیں۔ سہ رکعتی نماز یعنی مغرب اور دو رکعتی نماز یعنی صبح اور حالت سفر کی ظہر و عصر و عشا کا حکم یہ ہے کہ شک پیدا ہوتے ہی کسی مقدار میں غور کرے اگر کوئی بات یاد آ جائے تو اس پر عمل کرے ورنہ نماز کو اسی جگہ سے توڑ دے اور دوبارہ چروع کرے۔

نماز احتیاط

اس نماز کا طریقہ یہ ہے کہ اصل نماز کے ختم کرنے کے بعد فوراً ہی بلا فاصلہ نیت کرے کہ نماز احتیاط ایک رکعت یا دو رکعت پڑھتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ اس نیت کا زبان سے ادا کرنا جائز ہے۔ اس کے بعد فقط سورہ حمد اور وہ بھی آہستہ پڑھ کر رکوع اور سجدہ کرے اگر ایک رکعتی ہے تو تشہد و سلام پڑھ کر نماز تمام کر دے ورنہ دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھے اور سجدوں کے بعد تشہد و سلام ادا کر کے نماز ختم کر دے۔ نماز احتیاط میں الحمد کے علاوہ دوسرا سورہ یا قنوت نہیں پڑھا جاتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر نماز میں کسی واجب کو ادا کرنا بھول جائے تو کیا کرے ؟

۲ ۔ سجدہ سہو کہاں واجب ہوتا ہے ؟

۳ ۔ سجدہ سہو اور نماز احتیاط کی ترکیب بتاؤ ؟

۴ ۔ شک کی کتنی صورتوں میں نماز صحیح رہےگی ؟

۵ ۔ نماز احتیاط یا سجدہ سہو چھوڑ کر کیا نماز دوبارہ پڑھی جا سکتی ہے ؟

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نے سقیفہ میں تشکیل پانے والی حکومت سے پنجہ آزمائی نہیں کی ۔علی اسلام اور قرآن کے تحفظ کی خاطر خاموش ہوگئے ۔بلکہ جہاں اسلام اور امت اسلامیہ کی مصلحت کو دیکھتے تھے تو وہاں اپنے صائب مشوروں سے بھی نوازا کرتے تھے ۔

علی نے اسی صلح وآشتی کی پالیسی کو نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں یوں بیان فرمایا :-

"اما بعد ۔اللہ تعالی نے حضرت محمد مصطفی (ص) کو تمام جہانوں کے لیے نذیر بنا کر بھیجا اور جب ان کی وفات ہوئی تو مسلمانوں نے امر خلافت میں جھگڑا کیا ۔

خدا کی قسم! میرے وہم وگمان میں بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ عرب امر خلافت کو خاندان نبوت سے علیحدہ کریں گے اور میں نے کبھی یہ سوچا تک نہیں تھا ۔لوگ مجھے چھوڑ کر کسی اور کو حاکم بنا لیں گے ۔جب میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ ایک شخص کی بیعت کررہے ہیں ،تو میں نے بھی ان سے کوئی جھگڑا کرنا پسند نہیں کیا ۔کیوں کہ میں جانتا تھا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو لوگوں کی اکثریت اسلام کو ہی چھوڑ جائے گی ۔۔۔۔۔۔

ان حالات میں میں نے یہ محسوس کیا کہ میرا ذاتی نقصان ہوتا ہے تو ہوتا رہے مگر اسلام کا تحفظ کرنا چاہئیے ۔میں چند روزہ دنیا کی حکومت لے کر اسلام کو صدمات سے دوچار کرنا نہیں چاہتا تھا ۔کیونکہ حکومت حاصل نہ ہونے کے صدمہ کی بہ نسبت مجھے اسلام کا نقصان زیادہ ضرررساں نظر آتا تھا(۱) ۔" حضرت علی (ع) کی صلح پسندی کا اس سے بڑھ کر اورثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ انہوں نے خلفائے ثلاثہ کے ادوار میں اگر اختلاف کیا تو فقط دینی امور کے متعلق ہی کیا تھا ۔

تاریخ عالم علی (ع) صلح پسند افراد کی نظیر پیش کرنے قاصر ہے کیونکہ علی نے اپنے حقوق کی پامالی اور اپنی زوجہ کے حق سے محرومی کے باوجود بھی اسلام

____________________

(۱):-ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۴۴ ص ۱۶۴-۱۶۵

۸۱

کے عظیم تر مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے جن سے اجتناب کیا ۔حضرت فاطمہ زہرا(س) کو حق میراث اور حق ہبہ فدک سے محروم کیا گیا ۔اس کے باوجود بھی علی (ع) نے امن وصلح کے دامن کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا ۔علاوہ ازیں حضرت ابوبکر کی خلافت کے ابتدائی ایام میں چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ حضرت عمربن خطاب اپنے ہم نواز افراد کو لے کر علی (ع) کے دروازے پر آئے اور لکڑیاں بھی اپنے ساتھ لائے اور گھر جلانے کی باتیں کیں ۔کیا لوگوں کی زبان کو ان تاریخی واقعات کے بیان کرنے سے روکا جاسکتا ہے(۱) ۔

واقعہ فدک

واقعہ فدک کاخلاصہ یہ ہے کہ فدک حجاز کا ایک قریہ ہے اور مدینہ کے قریب ہے ۔مدتوں وہاں یہودی آباد تھے اور وہاں کی زمین بڑی زرخیزتھی ۔وہاں یہود کھیتی باڑی کیا کرتے تھے ۔

۷ھ میں اہل فدک نے حضور اکرم (ص) کے رعب ودبدبہ سے مرعوب ہوکر فدک کی زمین ان کے حوالہ کردی تھی اور فدک خالص رسول خدا(ص) کی جاگیر تھی ۔کیوں کہ سورہ حشر میں اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔"ومآ آفاء الله علی رسوله منهم فما اوجفتم علیه من خیل ولارکاب ۔۔۔۔۔۔۔" ان میں سے اللہ جو رسول کو عطا کردے جس پر تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ۔لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہے مسلط کردے اور اللہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے ۔"

رسول خدا(ص) نے سر زمین فدک میں اپنے ہاتھ سے گیارہ کھجوریں بھی کاشت فرمائی تھیں ۔اس کے بعد آپ نے فدک کی ممکل کی مکمل جاگیر اپنی اکلوتی دختر حضرت فاطمہ زہرا کوہبہ فرمادی ۔فدک ہبہ ہونے کے بعد مکمل طورپر حضرت سیدہ

____________________

(۱):-عبدالفتاح بعد المقصود ۔الامام علی بن ابی طالب ۔جلد اول ص۲۱۶

۸۲

کے تصرف میں رہتا تھا ۔جب حضور اکرم کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر نے علی و فاطمہ کو اپنا سیاسی حریف سمجھتے ہوئے فدک پر قبضہ کرلیا ۔فدک خاندان محمد(ص) کے تصرف میں تھا ۔اس قبضہ اور تصرف کا ثبوت حضرت علی کے اس خط سے بھی ملتا ہے جو انہوں نے والی بصرہ عثمان بن حنیف کو تحریر کیا تھا ۔س خط کے ضمن میں آپ نے یہ الفاظ تحریر کیئے :

"بلی قد کانت فی ایدینا فدک من کل ما اظلته السمآء فشحت بها نفوس قوم وسخت عنها نفوس آخرین ۔۔۔۔۔۔"اس آسمان کے سایہ تلے لے دے کے ایک فدک ہمارے ہاتھوں تلے تھا ۔اس پر بھی لوگوں کے منہ سے رال ٹپکی اور دوسرے فریق نے اس کے جانے کی پروانہ کی ۔اور بہترین فیصلہ کرنے والا اللہ ہے ۔(۱) ۔

حضرت سیدہ فاطمہ زہرا (س) ہی شرعی لحاظ سے اس جاگیر کی بلاشرکت غیر ے مالک تھیں ۔

خلیفہ کافرض تھا کہ ہبہ رسول (ص) کو اصلی حالت پر رہنے دیتے اور اس میں کسی قسم کا تصرف نہ کرتے اور اگر بالفرض خلیفہ صاحب کو اس ہبہ پر کوئی قانونی اعتراض تھا تو بھی قانون کا تقاضہ یہ تھا کہ مقدمہ کے تصفیہ تک فدک کو حضرت سیدہ (س) کے تصرف میں رہنے دیا جاتا ۔

اور اس مقدمہ کا عجیب ترین پہلو یہ ہے کہ حضرت ابو بکر کا یہ موقف تھاکہ فدک کی جاگیر حضرت سیدہ کی نہیں ہے بلکہ عامۃ المسلمین کی ہے اور یہ قومی ملکیت ہے اسی لئے اس جاگیر پر انہوں نے بزور حکومت قبضہ کرلیا ۔تو حضرت سیدہ نے اپنا قبضہ واپس لینے کا مطالبہ حضرت ابو بکر سے کیا ۔تو اب صورت حال یہ ہے کہ حضرت سیدہ(س) مدعیہ تھیں اور اس مقدمہ میں حضرت ابوبکر مدعی علیہ تھے ۔

____________________

(۱):-ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ۔ص ۲۸ مکتوب ۴۵

۸۳

اس مقدمہ میں ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جو فریق ثانی تھا وہی منصف بھی تھا ۔حالانکہ سیدھی سی بات تھی کہ مقدمہ حضرت ابوبکر کرے خلاف تھا یا کم ازکم عوام الناس کے خلاف تھا جن کے سربراہ حضرت ابو بکر تھے تو ان دونوں صورتوں میں مقدمہ حضرت ابو بکر کے ہی خلاف تھا اب انہیں قانونی سطح پر اس مقدمہ کی سماعت کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا ۔اور نہ ہی انہیں اس مقدمہ میں منصفی کا حق حاصل تھا ۔

فدک مختلف ہاتھوں میں

مقدمہ فدک کی تفصیل سے پہلے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضرات شیخین کے دور اقتدار میں فدک قومی ملکیت میں رہا۔

خلیفہ ثالث کے دور میں فدک کی پوری جاگیر مروان بن حکم کو عطا کی گئی خدا را یہ بتایا جائے کہ حضرت ابو بکر وحضرت عمر کا طرز عمل صحیح تھا یا حضرت عثمان کا طرز عمل صحیح تھا ؟

علمائے اہل سنت اس مقام پر حضرت ابو بکر کے کردار کو مثالی بنا کر پیش کرتے ہیں "ان سے درخواست ہے کہ حضرت عثمان نے تو اس مسئلہ میں ان کے طرز عمل سے انحراف کیاتھا ۔اب ان دونوں خلفاء میں سے کون صحیح تھا اور کون غلط تھا ؟

فدک اگر بنت رسول (س) کے ہاتھ میں تو لوگوں کو اچھا نہ لگا اب جو مروان جیسے افراد کے ہاتھوں میں چلا گیا تو اس وقت امت اسلامیہ کیوں خاموش ہوگئی ؟جب کہ حضرت ابو بکر کہہ چکے تھے کہ فدک کسی فرد واحد کی نہیں پوری امت اسلامیہ کی ملکیت ہے ؟

اور جب معاویہ بن ابو سفیان کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے فدک کی جاگیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا ۔ایک تہائی مروان بن حکم طرید رسول کے پاس

۸۴

رہنے دی ۔ایک تہائی حضرت عثمان کے فرزند عمروبن عثمان بن عفان کو عطا کی گئی ۔ایک تہائی اپن بیٹے یزید بن معاویہ بن ابو سفیان کے حوالے کی گئی ۔

اور جب یزید کے بعد مروان کو حکومت ملی تو اس نے خلیفہ ثالث کے عمل کو حجت قراردیتے ہوئے اپنے دونوں شریکوں کو بے دخل کردیا اور خود سارے فدک پر قابض ہوگیا ۔

بعد ازاں یہی فدک اس کے بیٹے عبد العزیز کی ملکیت بنا اور جب عبدا لعزیز کا بیٹا حضرت عمر بن عبد العزیز بر سر اقتدار آیا تو اس نے فدک سےاپنے خاندان کو بے دخل کرکے اولاد فاطمہ کے حوالہ کردیا اورجب حضرت عمربن عبدالعزیز کی وفات ہوئی تو بنو امیہ میں سے یزید بر سر اقتدار آیا ۔اس نے اولاد فاطمہ سے فد ک چھین کر اولاد مروان کے حوالے کردیا ۔بنی امیہ کی حکومت کے خاتمہ تک فدک اولاد مروان کے پاس رہا ۔

اور جب بنی امیہ کی حکومت ختم ہوئی اور بنی عباس کا اقتدار شروع ہوا تو ابو العباس سفاح نے فدک اولاد فاطمہ کے حوالہ کیا ۔

منصور دوانیقی نے بنی فاطمہ سے چھین لیا ۔بعد از اں اس کے بیٹے مہدی نے فدک بنی فاطمہ کے حوالہ کیا ۔جسے ہادی اور رشید نے پھر واپس لے لیا ۔مامون الرشید عباسی نے فدک واپس کیا تھا جسے بعد میں معتصم نے واپس چھین لیا ۔ اس کے بعد کیا ہوا اس کے متعلق مورخین خاموش ہیں ۔

اس سے معلوم ہوتاہے کہ حکام کے ہاتھ میں فدک ایک ایسا کھلونا تھا ۔ جسے جب چاہتے وارثان بازگشت کو دے دیتے تھے اور جب چاہتے اپنے قبضہ میں لے لیا کرتے تھے ۔مامون الرشید عباسی نے فدک کی واپسی کے لئے جو تحریری احکام روانہ کیے تھے وہ انتہائی علمی قدروقیمت کے حامل ہیں ۔جس میں اس نے پوری تفصیل ووضاحت کے ساتھ وارثان فدک کی نشاندہی کی تھی ۔

۸۵

مامون کی واپسی فدک

مامون الرشید عباسی کے خط کو مورخ بلاذری نے نقل کیا ہے ۔

سن ۲۱۰ ہجری میں مامون الرشید نے فدک کی واپسی کے احکام جاری کیے اور اس نے مدینہ کے عامل قثم بن جعفر کو خط تحریر کیا

اما بعد ، فانّ امیرالمومنین بمکانة من دین الله وخلافة رسوله والقرابة به اولی من ستنّ سنته ونفذ امره و سلّم لمن منحه منحة وتصدّق علیه بصدقة منحته و صدقته وقد کان رسول الله اعطی فاطمة بنت رسول الله فدک وتصدّق بها علیها وکان امرا ظاهرا معروفا لا اختلاف فیه فرای امیرالمومنین ان یردها الی ورثتها و یسلمها الیهم تقرّبا الی الله باقامة حقه وعدله والی رسول الله بتنقیذ امره وصدقته الخ "

"امیر المومنین کو اللہ کے دین میں جو مقام حاصل ہے اور انہیں رسالت مآب کی جانشینی اور جو قرابت حاصل ہے ، ان تمام چیزوں کا تقاضا یہ ہے کہ وہ رسول خدا(ص) کی سنت پر عمل پیرا ہوں اور نبی اکرم کے فرامین کو نفاذ میں لائیں اور رسول خدا نے جسے جو کچھ عطا کیا تھا اس عطا کو اس تک پہنچائیں ۔

جناب رسول خدا نے اپنی دختر حضرت فاطمہ زہرا (س) کو فدک عطا کیا تھا ۔یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔

اسی لئے امیر االمومنین کی یہ رائے ہے کہ فدک اس کے وارثوں کو واپس کردیا جائے اور اس عمل کے ذریعہ سے امیر المومنین اللہ کی قربت کے خواہش مند ہیں اور عدل وانصاف کی وجہ سے رسول خدا کی سنت پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں ۔" بعداز اں مامون الرشید نے اپنے ملازمین کو حکم دیا کہ سرکاری ریکارڈ میں اس بات کو لکھا جائے ۔

۸۶

رسول خدا کی وفات کے بعد سے ہمیشہ ایام حج میں ی اعلان کیا جارہا ہے کہ رسول خدا (ص) نے جس کسی کو کوئی صدقہ یاجاگیر عطا کی ہو تو وہ آکر وصول کرے اس کی بات کو قبول کیا جائیگا ۔اس کے باوجود آخر خدا کی دختر کو ان کے حق سے محروم رکھنے کا کیا جواز ہے ؟

مامون الرشید نے اپنے غلام خاص مبارک طبری کو خط لکھا کہ فدک کی مکمل جاگیر کو جملہ حدود کے ساتھ اولاد فاطمہ کو واپس کیاجائے اور اس کام کی تکمیل کے لئے محمد بن یحیی بن زیدبن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب اور محمد بن یحیی اور محمد بن عبد اللہ سے مدد حاصل کی جائے اور فدک کے لئے ایسے انتظامات کیے جائیں جس کی وجہ سے وہاں زیادہ پیدا وار ہوسکے ۔

درج بالا خط ذی الحجہ ۲۱۰ ھ میں لکھا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔(۱) ۔

محاکمہ فدک

صبّت علیّ مصائب لوانها

صبّت علی الایام صرن لیالیا

مجھ پر اتنے مصائب آئے اگر وہ دنوں پر پڑتے تو وہ راتوں میں تبدیل ہوجاتے (ماخوذ از مرثیہ فاطمہ زہرا علیہا السلام )۔

جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی نے فدک کی جاگیر عطا فرمائی پھر آپ نے وہ جاگیر حکم خداوندی کے تحت اپنی اکلوتی دختر حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کو ہبہ فرمائی ۔ رسول خدا کی حیات مبارکہ جناب فاطمہ اس جاگیر پر تصرف مالکانہ رکھتی تھیں اورجب جناب رسول خدا کی وفات ہوئی تو حضرت ابو بکر نے حضرت فاطمہ کے ملازمین کو فدک سے بے دخل کردیا اور اسے

____________________

(۱):- البلاذری ۔فتوح البلدان ص ۴۶ -۴۷

۸۷

بحق سرکار ضبط کرلیا ۔جناب زہرا سلام اللہ علیہا کو اس واقعہ کی خبر ملی تو وہ اپنے حق کی بازیابی کے لئے حضرت ابو بکر کے دربار میں تشریف لے گئیں اور اپنے حق کا مطالبہ کیا ۔

جس کے جواب میں حضرت ابو بکر نے ایک نرالی حدیث پڑھی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :- نحن معاشر الانبیاء لل نرث ولا نورث ما ترکناہ صدقۃ " ہم گروہ انبیاء نہ تو کسی کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی ہمارا وارث ہوتا ہے ۔ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے ۔

"لاوارثی "حدیث اور قرآن

اس حدیث کے متعلق عرض ہے کہ اس حدیث کے واحد راوی حضرت ابو بکر ہیں اسی حدیث کی طرح حضرت ابو بکر سے ایک اور حدیث بھی مروی ہے ۔

جس وقت رسول خدا کی وفات ہوئی اور مسلمانوں میں اختلاف ہوا کہ حضور اکرم کو کہاں دفن کیا جائے تو حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ جناب رسول خدا کا فرمان ہے :-

"ما قبض نبی الا ودفن حیث قبض " جہاں کسی نبی کی وفات ہوئی وہ اسی جگہ ہی دفن ہوا ۔جب کہ مورخ طبری ہمیں بتاتے ہیں کہ بہت سے انبیاء کرام اپنی جائے وفات کے علاوہ دوسرے مقامات پر دفن ہوئے ہیں ۔

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اس حدیث کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔کیونکہ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ اگر انبیاء کی میراث ان کی اولاد کو نہیں ملتی تھی تو حق تویہ بنتا تھا کہ رسول خدا خود اپنی بیٹی سے کہہ دیتے کہ میری میراث تمہیں نہیں ملے گی ۔طرفہ یہ ہے کہ جس شخصیت کو میراث ملتی تھی اسے نہیں کہا اور چپکے سے یہ بات ایک غیر متعلقہ شخص کے کان میں کہہ دی گئی اور یہ "لاوارثی حدیث" حضرت علی نے بھی نہیں سنی تھی کیوں کہ اگر انہوں نے سنی ہوتی تو اپنی

۸۸

زوجہ کو حق میراث کے مطالبہ کی کبھی اجازت نہ دیتے ۔علاوہ ازایں اتنی اہم بات حضور اکرم نے صرف حضرت ابو بکر کو ہی کیوں بتائی دوسرے مسلمانوں کو اس سے بے خبر کیوں رکھا ؟

"لا وارثی حدیث"قرآن کے منافی ہے

مذکورہ حدیث لاوارثی حدیث کے متعلق حضرت فاطمہ (س) کا موقف بڑا واضح اور ٹھوس تھا ۔ انہوں نے اس حدیث کو یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ یہ حدیث قرآن کے منافی ہے ۔

۱:- قرآن مجید میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :یوصیکم الله فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین " اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے ۔بیٹےر کو بیٹی کی بہ نسبت دوحصے ملیں گے(۱) ۔

اس آیت میں کسی قسم کا استثناء نہیں ہے ۔

۲:-اللہ تعالی نے ہر شخص کی میراث کےمتعلق واضح ترین الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے : "ولکلّ جعلنا موالی ممّا ترک الوالدان و الاقربون" اور ہر کسی کے ہم نے وارث ٹھہرا دئیے اس مال میں جو ماں باپ اور قرابت چھوڑ جائیں(۲) ۔

قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ لفظ "ولکلّ" پر اچھی طرح سے غور فرمائیں اس آیت مجیدہ میں بڑی وضاحت سے "ہر کسی " کی میراث کا اعلان کیا گیا ۔

میراث سے تعلق رکھنے والی جملہ آیات کی تلاوت کریں ۔ آپ کو کسی بھی جگہ یہ نظر نہیں آئے گا کہ اللہ نے فرمایا ہو: کہ ہر کسی کے وارث ہوتے ہیں لیکن انبیاء کے نہیں ہوتے ۔میراث انبیاء کی اگر قرآن مجید میں کسی جگہ نفی وارد ہوئی ہے تو اس آیت مجیدہ کوبحوالہ سورت بیان کیا جائے اور قیامت تک تمام دنیا کو ہمارا یہ چیلنج ہے کہ اگر قرآن میں ایسی آیت ہے تو پیش کریں

____________________

(۱):-النساء ۱۱۔ (۲):- النساء ۳۳۔

۸۹

لاوارثی حدیث کے تین اجزاء ہیں :-

۱:-انبیاء کسی کے وارث نہیں ہوتے ۔

۲:- انبیاء کی اولاد وارث نہیں ہوتی ۔

۳:- انبیاء کا ترکہ صدقہ ہوتا ہے ۔

قرآن مجید مذکورہ بالا تینوں اجزا کی نفی کرتا ہے ۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :-" وورث سلیمان داؤد " سلیمان علیہ السلام ،داؤد علیہ السلام کے وارث بنے(۱) ۔

اگر نبی کسی کا وارث نہیں ہوتا تو سلیمان علیہ السلام اپنے والد حضرت داؤد کے وارث کیوں بنے ؟

معلوم ہوتا ہے کہ "لاوارثی " حدیث کا پہلا جز صحیح نہیں ہے ۔

علاوہ ازیں مذکورہ آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ سلیمان "داؤد کے وارث بنے ۔

اب جس کے سلیمان وارث بنے وہ بھی تو نبی تھے ۔ اگر "لاوارثی" حدیث کا دوسرا جز صحیح ہوتا یعنی نبی کا کوئی وارث نہیں ہوتا تو داؤد کی میراث کا اجراء کیوں ہوا ۔ ان کی میراث کو صدقہ کیوں قراردیا گیا ۔تو گویا یہ ایک آیت "لاوارثی " حدیث کے تینوں اجزا کو غلط ثابت کرتی ہے ۔

حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا قرآن مجید میں مذکور ہے :-

"قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيّاً (٤) وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِراً فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيّاً (٥) يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيّاً (٦) يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيّاً " زکریا نے کہا میرے رب میری

۹۰

ہڈیاں کمزورہوگئیں اور سربڑھاپے کی وجہ سے سفید ہوچکا اور اے رب میں تجھ سے دعا کرکے محروم نہیں ہوا اور میں اپنے پیچھے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری عورت بانجھ ہے مجھے اپنی طرف سے ایک وارث عطا کر جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کی جو میراث مجھے ملی ہے اس کا بھی وارث ہو اے میرے رب اسے نیک بنانا ۔اللہ تعالی نے کہا : اے زکریا ! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں جس کا نام یحیی ہے اس پہلے ہم نے کسی کا یہ نام نہیں رکھا(۱)

درج بالا آیت کو مکرر پڑھیں ،حضرت زکریا نے اللہ سے اپنا وارث مانگا اور اللہ نے انہیں وارث بھی دیا اور اس وارث کا نام بھی خود ہی تجویز فرمایا ۔

اگر انبیاء کی میراث ہی نہیں ہوتی تو حضرت زکریا علیہ السلام نے وارث کی درخواست کیوں کی ؟

اور اگر بالفرض انہوں نے وارث کے لئے دعا مانگ بھی لی تھی تو اللہ نے انہیں یہ کہہ کر خاموشی کیوں نہ کرا دیا کہ تم تونبی ہو ۔تم یہ کیا کہہ رہ ہو؟

نبی کی میراث ہی نہیں ہوتی ۔لہذا تمہیں وارث کی دعا ہی سرے سے نہیں مانگنی چاہیے ؟

اگر انبیاء کی میراث ہی نہیں ہوتی تو اللہ تعالی نے انہیں وارث کیوں عطا فرمایا اور اس وارث کا نام بھی خود ہی تجویز کیوں کیا؟

حضرت سیدہ سلام اللہ علیھا نے مذکورہ بالا آیات کی اور ان آیات سے "لا وارثی " حدیث کی تردید فرمائی ۔

لیکن حضرت ابوبکر نے تمام آیات سن کربھی حضرت سیدہ کو حق دینے سے انکار کردیا ۔

پھر حضرت سیدہ نے آخر میں فرمایا :-

____________________

(۱):- مریم :۴-۷

۹۱

فدونکها مخطومة مرحومة نلقاک یو حشرک فنعم الحکم الله والموعد القیامة وعند الساعة یخسر المبطلون ۔

"اب تم اپنی خلافت کو نکیل ڈال کر اس پر سوار رہو ۔اب قیامت کے دن تجھ سے ملاقات ہوگی ۔اس وقت فیصلہ کرنے والا اللہ ہوگا اور وعدہ کا مقام قیامت ہے اور قیامت کے روز باطل پرست خسارہ اٹھائیں گے "

یابن ابی قحافة افی کتاب الله ان ترث اباک ولا ارث ابی لقد جیت شیا فریا افعلی عمد ترکتم کتاب الله ونبذتموه ورآء اظهرکم ؟

الم تسمع قوله تعالی واولوالارحام بعضهم اولی ببعض فی کتاب الله اخصّکم الله بایة اخرج ابی منها ؟ ام تقولون اهلی ملّتین لایتوارثان ؟

اولست انا وابی من ملّة واحدة ؟ اانتم اعلم بخصوص القرآن وعمومه من ابی وابن عمّی ؟

"ابو قحافہ کے فرزند ! کیا اللہ کی کتاب کا یہی فیصلہ ہے کہ تم تو اپنے باپ کے وارث بنو اور میں اپنے والد کی میراث سے محروم رہوں ؟ تم ایک عجیب چیز لائے ہو ۔

تو کیا تم نے جان بوجھ کر اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا اور اسے پس پشت ڈال دیا ؟اور کیا تم نے اللہ تعالی کا یہ فرمان نہیں سنا کہ :رشتہ دار ہی ایک دوسرے کے اللہ کی کتاب میں وارث ہیں ؟ اور کیا اللہ نے تمہیں میراث کے لئے مخصوص کرنے کے لئے کوئی آیت نازل فرمائی ہے جس سے میرے والد کو مستثنی قرار دیا ہے ؟ یا تم یہ کہتے ہو کہ دو ملت والے افراد ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے ؟تو کیا میں اور میرے والد ایک ہی ملت سے تعلق نہیں رکھتے ؟ اور کیا تم میرے والد اور میرے چچا زاد کی بہ نسبت قرآن کے عموم وخصوص کو زیادہ جانتے ہو؟

۹۲

ان دلائل قاہرہ اور آیات قرآنیہ پڑھنے کے بعد حضرت سیدہ نے ملاحظہ کیا کہ ان باتوں کا خلیفہ پر کوئی اثر مرتب نہین ہوا تو ناراض ہو کرروتی ہوئی واپس آئیں ۔

حضرت سیدہ کو پہلے سے ہی علم تھا کہ خلیفہ انہیں فدک کبھی بھی واپس نہیں کرے گا ۔آپ فقط اتمام حجت کے لئے تشریف لے گئی تھیں اور عملی طور پر دنیا کو دکھایا کہ جب چند روز پہلے میرے والد حدیث لکھانا چاہتے تھے تو اسی گروہ نے کہا تھا : ہمیں حدیث کی ضرورت نہیں ہمیں قرآن کافی ہے ۔اور جب حضرت سیدہ نے اپنی میراث کے لیے قرآن پڑھا تو مقابلہ میں "لاوارثی "حدیث پڑھ کر سیدہ کو محروم کردیا گیا ۔

تو گویا حضرت سیدہ نے دربار میں جاکر کا ئنات کو اس دوغلے پن سے آگاہ کیاکہ کل جو حدیث کا انکار کررہے تھے آج وہ قرآنی آیات کے تسلیم کرنے سے بھی انکار کررہے ہیں ۔ جناب سیدہ کو پہلے سے علم تھا کہ مجھے میرا حق فدک نہیں دیا جائے گا ۔کیونکہ جن لوگوں نے چند روز پہلے ان کے شوہر کی خلافت چھین لی تھی ،وہ ان سے فدک بھی چھین سکتے ہیں ۔

۹۳

"لاوارثی " حدیث اور عقل ونقل کے تقاضے

آئیے !حضرت ابوبکر کی بیان کردہ حدیث کو سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں دیکھیں ۔

رسول خدا(ص) نے اپنے آپ کو شریعت طاہرہ کے احکام سے کبھی بھی مستثنی نہیں فرمایا ۔

۱:- جس طرح سے یہ کہنا غلط ہوگا کہ : ہم گروہ انبیاء نہ تو نماز پڑھیں گے اور نہ ہی روزہ رکھیں گے (نعوذ باللہ )

۹۴

مذکورہ فقرہ اس لئے غلط ہے کہ نبی احکام شریعت سے مستثنی نہیں ہوتا ۔

تو جس طرح نبی نماز روزہ اور اسلام کے دیگر احکام سے مستثنی نہیں ہوتا ۔اسی طرح سے وہ اسلام کے احکام میراث سے بھی مستثنی نہیں ہوتا ۔

۲:- کیا فدک کا مسئلہ جو کہ خالص شرعی مسئلہ تھا ، اس کے نہ دینے میں کوئی سیاسی اغراض تو کار فرما نہیں تھیں ؟

۳:- کیا حضرت سیدہ کو محروم ورارث رکھ کر خلیفہ صاحب اپنے سیاسی حریف علی اور اس کے خاندان کو اپنے سرنگوں تو نہیں کرنا چاہتے تھے ؟

۴:- اور کیا اس مسئلہ کا تعلق اقتصادیات سے تو نیں تھا ؟

یعنی اس ذریعہ سے علی (ع) اور ان کے خاندان کو نان شبینہ سے محروم رکھنا تو مقصود نہ تھا ؟

۵:- اور کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ علی (ع) کی مالی حالت کمزور کرکے انہیں خلافت کا امیدوار بننے سے روکنا مقصود ہو؟

۶:- اور کیا فدک چھین لینے میں یہ حکمت عملی تو مد نظر نہ تھی کہ جن لوگوں نے حضرت ابو بکر کی خلافت کا انکار کیا تھا ۔انہیں مرتد اور مانعین زکواۃ کہہ کر ان پر لشکر کشی کی گئی تھی ۔ تو کیا فدک کے چھین لینے میں یہ تصور تو کار فرما نہ تھا کہ اگر فدک علی کے پاس ہوگا تو ممکن ہے کہ وہ ہمارے مخالفین کی مالی امداد کریں ؟

۷:- کیا فدک چھیننے میں یہ فلسفہ تو مضمر نہ تھا کہ آل محمد کے وقار کو لوگوں کی نگاہوں میں گرادیا جائے لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ :خود رسول خدا(ص) ان لوگوں کو اپنی میراث سے محروم کرگئے ہیں ؟

تو جن لوگوں کو رسول خدا کی میراث کا حق نہیں ہے انہیں ان کی خلافت کا حقدار کیسے سمجھاجائے ؟

۸:- کیا سلب فدک میں بہت سے عوامل کا فرما تھے ؟

۹۵

۹:- اور اگر حضرت ابو بکر کی بیان کردہ حدیث کو درست بھی مان لیا جائے تو اس حدیث کا اطلاق صرف پیغمبر اکرم کے لئے ہوگا یا دوسرے انبیاء پر بھی اس کا انطباق ہوگا ؟

۱۰:-آخر رسول خدا اپنی پیاری دختر کو محروم ارث کیوں رکھنا چاہتے تھے ؟

۱۱:- کیا خدانخواستہ حضور کریم کو یہ اندیشہ تھا کہ ان کے بعد ان کی بیٹی اور داماد فدک کی کمائی کو غلط مصرف میں لائیں گے ؟

۱۲:- اگر حضور کریم کو یہی اندیشہ تھا تو انہوں نے اپنی حیات مبارکہ میں اپنی دختر کی تحویل میں کیوں دے دیا تھا ؟

۱۳:- اور کیا یہ "خدشہ اس لیے پیدا ہوا تھا کہ حضرت سیدہ نے اپنے والد کی حیات طیبہ میں اس جاگیر سے سو استفادہ کیا تھا ؟

۱۴:- اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو کب اور کیسے ؟

علامہ ابن ابی الحدید معتزلی نے اسی مسئلہ کے متعلق قاضی القضاۃ اور علم الہدی سید مرتضی کا ایک خوبصورت مباحثہ نقل کیا ہے ۔قاضی القضاۃ وراثت انبیاء کی نفی کرتے تھے ۔جبکہ سید مرتضی میراث انبیاء کا اثبات کرتے تھے ۔

قاضی القضاۃ کا موقف یہ تھا کہ قرآن مجید میں انبیاء کی میراث کا جو تذکرہ کیا گیا ہے اس سے علم وفضل کی میراث مراد ہے ۔مالی مراد نہیں ہے ۔

علم الہدی سید مرتضی کا موقف تھا کہ میراث کا اطلاق پہلے مال ودولت اور زمین پر ہوتا ہے ۔اور یہ اطلاق حقیقی ہوتا ہے ۔علم وفضل کے لئے مجازی طور پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے اور اصول قرآن یہ ہے کہ مجازی معنی صرف اس وقت درست قرار پاتا ہے جب کہ حقیقی معنی متعذر ومحال ہو ۔ انبیاء اگر مالی میراث حاصل کریں تو اس سے کونسی شرعی اور عقلی قباحت لازم آتی ہے کہ ہم حقیقی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔اور اگر قاضی

۹۶

القضاۃ کی بات کو تسلیم بھی کرلیاجائے کہ انبیاء کی میراث مالی کی بجائے معنوی یعنی علم وفضل پر مشتمل ہوتی ہے تو اس کا مقصد یہ بھی ہوگا کہ آل نبی پیغمبر کے علم وفضل کے وارث ہیں ۔

اور اگر آل نبی پیغمبر کے علم وفضل کے وارث ہیں تو ان وارثان علم وفضل کی موجودگی میں حضرت ابو بکر کی خلافت کا جواز کیاتھا(۱) ۔

فدک بعنوان ہبہ

جناب سیدہ نے فدک کا مطالبہ بطور ہبہ بھی کیا تھا جس پر خلیفہ صاحب نے گواہوں کا مطالبہ کیا ۔حضرت سیدہ کی طرف سے حضرت علی ، حضرت حسن اورحضرت حسین (علیھم السلام) اور حضرت ام ایمن نے گواہی دی ۔

مگر خلیفہ صاحب نے اس گواہی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ نصاب شہادت مکمل نہیں ہے ۔کیونکہ علی سیدہ کے شوہر ہیں ۔اور امام حسن اور امام حسین (علیھما السلام ) سیدہ کے فرزند اور ام ایمن ایک کنیز ہے ۔

حالانکہ شہادت ہر لحاظ سے کامل و اکمل تھی ۔

حضرت علی علیہ السلام کی گواہی کس قدر مستند ہے ۔اس کے لیے سورہ آل عمران کی اس آیت مجیدہ کی تلاوت کریں :-

شهد الله انه لا اله الا هو و الملائکة و اولو العلم قآئما بالقسط لا اله الا هو العزیز الحکیم ۔

"اللہ خود اس بات کا گواہ ہے کہ اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں اور ملائکہ اوروہ اہل علم جو عدل پر قائم ہیں کہ اس غالب اور صاحب حکمت اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے ۔"

____________________

(۱):- شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ۔ص ۷۸-۱۰۳

۹۷

اس آیت میں توحید کے گواہوں میں خود اللہ تعالی اور ملائکہ اور عدل پر قائم رہنے والے اہل علم کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔

وہ اہل علم جو عدل پر قائم ہیں وہ توحید کے گواہ ہیں ۔اورعدل پر قائم رہنے والے علماء میں علی (ع) سر فہرست ہیں کیونکہ علی (ع) کے علم کے متعلق رسول خدا کی مشہور حدیث ہے ۔"انا مدینة العلم وعلی بابها " میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں ۔

اور جہاں تک عادل ہونے کاتعلق ہے تو علی جیسا عادل چشم فلک نے نہیں دیکھا ۔جب علی توحید کے گواہ ہیں تو پھر فدک گواہ کیوں نہیں ہوسکتے ؟عجیب بات ہے ہے کہ توحید کی شہادت کے لئے تو علی کی گواہی مستند مانی جائے اور تھوڑی سی جائیداد کے لئے ان کی گواہی کو ٹھکرا دیا جائے ؟ علی صرف توحید کے گواہ نہیں ہیں وہ رسالت محمدیہ کے بھی گواہ ہیں ۔جیسا کہ سورہ رعد کی آخری آیت میں ارشاد خداوندی ہے :- "ویقول الذین کفروا لست مرسلا قل کفی باللہ شھیدا بینی وبینکم ومن عندہ علم الکتاب ۔"

اور کافر کہتے ہیں کہ تو رسول نہیں ہے ۔کہ دیں کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے اللہ کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا مکمل علم موجود ہے ۔قول اصح کے مطابق "من عندہ علم الکتاب "سے مراد حضرت علی (ع) ہیں۔

اس آیت مجیدہ میں حضرت علی علیہ السلام کو رسالت کا گواہ قرار دیا گیا ۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو علی (ع) رسالت محمدیہ کے گواہ ہیں ۔ان کی گواہی کو فدک کے لیے معتبر کیوں نہیں تسلیم کیا گیا ؟

۹۸

فرع کی اصل کے لئے گواہی

حسنین کریمین کی گواہی یہ کہہ کر رد کر دی گئی کہ یہ گواہی "فرع" کی "اصل" کے لیے ہے ۔ یعنی امام حسن اورامام حسین (علیھما السلام) چونکہ حضرت سیدہ کے فرزند ہیں اور اولاد کی گواہی والدین کے لئے قابل قبول نہیں ہے ۔

جب کہ قرآن مجید کی سورہ مریم میں میں حضرت عیسی کی پیدائش اور حضرت مریم کی پریشانی کا ذکر موجود ہے اورجب حضرت مریم کے نو مولود فرزند حضرت عیسی نے ہی اپنی نبوت اور اپنی ماں کی پاکدامنی کی گواہی دی تھی ۔

اب اگر اولاد کی گواہی والدین کے حق میں قابل نہیں ہے تو اللہ نے حضرت عیسی کی زبانی ان کی ماں کی پاکدامنی کی گواہی کیوں دلائی ؟ اگر اس فارمولے کو تسلیم کرلیا جائے کہ ماں باپ کے حق میں اولاد کی گواہی قابل قبول نہیں ہے تو آپ ان روایات کے متعلق کیا کہیں گے جو حضرت عائشہ کی زبانی ان کے والد کے حق میں مروی ہیں ؟ خلیفہ صاحب کے دربار میں چار عظیم شخصیات موجود تھیں جن میں سے ایک مدعیہ تھیں کہ اور تین شحصیات گواہ تھیں ۔

اب ان چاروں شخصیات کی گواہی کتنی معتبر ہے ؟ اس کیلئے واقعہ مباہلہ کو مد نظر رکھیں ۔

مباہلہ کی گواہی

جب عیسائی علماء دلائل نبوی سن کر مطئمن نہ ہوئے تو اللہ تعالی نے آیت مباہلہ نازل کی اور ارشاد فرمایا :-"فمن حاجّک فیه من بعد ما جآ ء ک من العلم فقل تعالوا ندع ابنا ءنا وابناءکم و نساءنا ونساءکم وانفسنا وانفسکم ثم نبتهل

۹۹

فنجعل لعنة الله علی الکاذبین "(۱) ۔

"جو علم آنے کے بعد تم سے جھگڑا کرے تو کہ دو کہ آؤ ہم اپنے بیٹے بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ او ر ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو بلاؤ اور ہم اپنی جانوں کو لائیں اور تو اپنی جانوں کو لاؤ پھر دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں ۔"

جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو رسول خدا (ص) علی (ع) کے گھر تشریف لائے اور علی و فاطمہ اور حسن وحسین (علیھم السلام ) کو اپنی چادر پہنائی اور کہا پروردگار یہ میرے اہل بیت ہیں ۔

رسول خدا نہی عظیم شخصیات کو لے کر مباہلہ کے لئے روانہ ہوئے جب عیسائی علماء نے ان نورانی چہروں کو دیکھا تو جزیہ دینا قبول اور مباہلہ سے معذرت کرلی ۔

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار شخصیات پورے اسلام کی گواہ ہیں اور ان کی گواہی کا عیسائیوں نے بھی احترام کیا تھا ۔

مباہلہ کے چند ہی دن بعد یہی چاروں شخصیات خلیفہ صاحب کے دربار میں گئیں ۔ان میں ایک مدعیہ تھیں اور تین گواہ تھے ۔

انسانی ذہن کو انتہائی تعجب ہوتا ہے کہ جن شخصیات کو اللہ نے پوری امت اسلامیہ میں سے بطور نمونہ جماعت صادقین بنا کر غیر مسلموں کے مقابلہ میں بھیجا تھا ، ان شخصیات کی گواہی کو خلیفۃ المسلمین نے رد کردیا ؟

علاوہ ازیں ان ذوات طاہرہ کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ نے ان کی طہارت کا قرآن مجید میں ان الفاظ سے ذکر فرمایا :-انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا : اے اہل بیت ! اللہ کا تو بس

____________________

(۱):- آل عمران ۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333