گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے60%

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 90

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 90 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 52352 / ڈاؤنلوڈ: 3544
سائز سائز سائز
گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے

گھر کو جنت بنانے کے چودہ مجّرب نسخے

مؤلف:
اردو


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

لئے آپ ان سے سب کچھ کروالیتی ہیں ۔

صبح سے رات مردوں کا مستقل کمانے کے لئے نکلے رہنا بھی مناسب نہںت بلکہ شوہر اور اولاد کو سمجھائیں کہ ہم صرف کمانے کے لئے دنیا میں نہیں آئے ،کچھ وقت دین خدا کو بھی دو ،اس کے لئے بھی کچھ وقت نکا لو ،مسجدوں میں جاؤ ،علما کے دروس میں شرکت کرو ،تبلیغات کے سلسلے میں کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں سے بھی تعاون کرو ۔

اور خود آپ بھی نمازوں اور تلاوت اور تسبیحات کے لئے وقت نکالیں اور یہ نہ سمجھیں کہ آپ کا کام ف‍قط کھانا پکانا ، اور گھر کی صفائی ہے ۔

انشا اللہ آپ کی اس طرح کی فکر ،دعاؤں اور اقدامات سے آپ خود آپ کا شوہر اور آپ کی اولاد نیک ہوجائے گی اور جہاں نیکیاں ہوں وہاں لڑائیاں جھگڑے اور فساد کی جگہ ہی کہاں ہوگی ؟

کیونکہ اگر آپ نیکو کارنہ بنیں اولاد و شوہر کا دین کے سلسلے میں خیال نہ کیا ، بقدر ضرورت علم دین حاصل نہ کیا تویاد رکھئیے ۔

----- ایسی جاہل ماؤں کی گود میں ایسے پھول نہیں کھلاتے ۔

----- فضول خرچ ٹہنیوں پر ایسے قیمتی پرندے نہیں بیٹھا کرتے ۔

----- ایسے نافرمان اور خود غرض گلدستوں پر امام خمینی جیسے گلاب نہیں کھلا کرتے ۔

----- دوسروں کے حقوق سے لا پرواہی کرنے والیوں کے ہاتھوں میں آقائے باقر الصدر جیسے نہیں سویا کرتے ۔

۴۱

----- خدا کی نعمتوں کے ناقد رداں ٹیلوں اور چوٹیوں پر آمنہ بنت الھدی جیسی ہستیوں کا رنگ نہیں بھرا جاسکتا ۔

----- ایسی اداس شاہراہوں اور بنجر علاقوں میں شہید اول اور شہید ثانی جیسی شخصیات نہیں آیا کرتیں ۔

----- نمازوں کو چھوڑنے اور بے پردہ پھرنے والیوں اور اپنے جسم کے اعضاء کی نمائش کرنے والیوں کے سینے سے حافظ محمد طباطبائی اور صادق وزیری جیسے دودھ نہیں پیا کرتے ۔

----- جو عالم کے انسانوں کو لچکنے اور بل کھانے کے انداز سکھاتیں ان کی آغوش ایسی ذات گرامی کے وطن نہیں بنا کرتے جن کا ذرّہ ذرّہ عظمت اور تقدس کا حامل ہوتاہے ۔جن کے ہاتھوں زمانہ نئی انگڑائی لیتا ہے ۔

چھینی ہوائے غرب نے فیشن کے نام پر

سیدانیوں کے سر سےردا یا علی مدد

----- جو شیعیت کی زندگی کے ہر شعبہ میں دوبارہ دین کی تازگی وشادابی کی بہار لانے کا سبب بنتے ہیں ، عالم ا سلام کی پیشانی پر تبسم کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔

----- عالم اسلام کی عورتیں اپنے نونہالوں کے نام ان کے نام پر رکھنے سے فخر محسوس کرتی ہیں ۔حوّا کی بیٹیاں بارگاہ الہی میں دعا کرتی ہیں الہی مجھے لخت جگر اور نور نظر ملے تو اس کا نام مرتضی (مطہری ) رکھوں گی صادق(وزیری)

۴۲

رکھوں گی ،زینب وکلثوم رکھوں گی ۔

محترمہ مومنہ! حوّا کی بیٹی ، ہر نئے نونہاں کی آغوش ۔آپ کی شاخ ۔آپ کی شاخ پر بھی ہم کسی ایسے ہی پھول کے منتظر ہیں ۔ آپ کی ہستی پر ہم کسی ایسی ہی چہچہاتی ہوئی مینا کے منتظر ہیں ۔ جس باغ کو رسول وآئمہ اور ان کی اولادوں نے اپنے خون سے سیراب کیا تھا آج اس باغ کے پھول مرجھانے کو ہیں ، اس کی گھاس کو کوئی خون تو کیا اپنے پسینے سے بھی سیراب کرنے والا نہیں ۔

ہے آپ میں سے کوئی جو اس باغ کو سیراب کرے ؟

٭ جب کوئی بندہ علم حاصل کرنے کے لئے گھر سے نکلتا ہے تو خدائے بزرگ وبرتر عرش سے ندا فرماتا ہے کہ مرحبا! اے میرے بندے کیا تجھے معلوم ہے کہ تو کس بلندی کو حاصل کرنا چاہتا ہے ۔تو نے کس منزلت کا ارادہ کیا ہے کیا تم مقرب فرشتوں کا طلبگار ہے کہ تو ان کا ہمسر بن جائے ۔ہاں میں تجھے تیری مراد تک پہنچادوں گا ۔(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

٭ حضرت علی علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ نیکی کی تعریف کیا ہے ؟آپ نے ارشاد فرمایا نیکی یہ نہیں ہے کہ تیرا مال کثیر ہو اور اولاد زیادہ ہو بلکہ نیکی یہ ہے کہ تو اپنے علم میں اضافہ کرے اور تیرا حلم (بردباری) عظیم ہو

۴۳

شوہر کے عمل کے لئے چودہ مجرب نسخے

نسخہ نمبر ۱

--{یہ بات طے کرلیں کہ بیوی ،ماں اور بہنوں کی ایک دوسرے کے خلاف بات نہیں سنیں گے }--

بیوی سے سنی ہوئی بات سے والدہ یا چھوٹے بھائی بہنوں کو کچھ نہ کہئے اور والدہ اور بہنوں کی شکایت سن کر بلا تحقیق بیوی کو کچھ نہ کہئے ۔

خدا را بیوی سے سنی ہوئی باتوں کی وجہ سے اپنی والدہ کو کبھی کچھ نہ کہئے گا والدہ کی آہ نکلنے سے دنیا وآخرت دونوں برباد ہونے کا اندیشہ ہے ۔ والدہ کی واقعی غلطی سامنے آبھی جائے توپیار ومحبت سے سمجھانے کی کوشش کریں یا بڑی بہن کے ذریعے والدہ کو سمجھائیں ۔بیوی کے ذریعے والدہ کو سمجھائیں ۔بیوی کے ذریعے والدہ کو تحفے دلوائیں ۔

حدیث میں بھی ہے کہ "تھادو اتحابوا"( ہدیہ لیا دیا کرو اس سے آپس میں محبت بڑھے گی )۔

آپ کے سامنے بیوی کی کتنی بڑی غلطی بھی بیان کی جائے یا والدہ ،بہنیں یا بھابیاں آپ کی شکایت لگائیں تو اس وقت قصدا کوئی عملی قدم نہ

۴۴

اٹھائیں اس وقت بیوی کو کچھ نہ کہیں ،کم از کم اتنا صبر کرلیں جس میں دو نمازوں کا وقت گزر جائے یعنی اگر کوئی بات ظہرین کے وقت سننے میں آتی ہے تو مغربین کے بعد سمجھائیں او راگر مغرب کے وقت سننے میں آتی ہے تو فجر کے بعد سمجھائیں ۔

اس تدبیر پر عمل کرنے سے انشا ءاللہ تعالی آپ کے گھر میں بہت زیادہ نمایاں تبدیلی رونما ہوگی ۔آپ کی بات کی قدر بھی ہوگی اور آپ کی بردباری اور عقلمندی کا سکہ جمے گا اور بیوی آپ کی بات پر عمل بھی کرے گی ۔

اگر سمجھانا بھی ہوتو کوشش کریں کہ براہ راست نہ سمجھائیں ہر گز فورا جا کر بیوی سےیہ نہ کہیں کہ تم نے کیوں کہا ؟ بہن یہ کہہ رہی تھیں ۔تمہیں ایسا نہیں کہنا چاہیئے تھا ؟وغیرہ غیرہ ۔بلکہ یادرکھئیے کہ رسول اسلام کے سمجھانے کی عادت یہ تھی کہ جب کوئی عیب کسی شخص میں دیکھتے تو اس کا نام نہ لیتے بلکہ یوں فرماتے کہ (ما بال الناس ) لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ وہ ایسا کرتے ہیں"۔

تو ہمیں بھی سیرت رسول پر عمل کرتے ہوئے عمومی بات کہنا چاہئے مثلا کہیں ،دیکھو بہت سی عورتوں کویہ بری عادت ہوتی ہے کہ وہ ادھر کی بات ادھر لگاتی ہیں یہ بہت نامناسب بات ہے کہ مجھے ایسا کرنے والیوں سے بہت چڑ ہوتی ہے لہذا تم اس سے ذرا بچنا ۔

ارے بھئی کوئی اپنے گھر کی بات دوسروں کو بتاتا ہے ۔یہ تو حد درجہ حماقت ہے تم کبھی ایسا نہ کرنا ۔۔۔ بلکہ مجھے تو تم پر پورا عتماد ہے کہ تم تو کبھی

۴۵

ایسا نہ کرتی ہوگی ۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔

ایک اہم بات اور یہ ہے کہ کبھی دوسروں کے سامنے بیوی ،ماں یا بہنوں کو نہ سمجھائیں نہ دوسروں کےسامنے ان کی توہین کریں ۔اور اکیلے سمجھاتے ہوئے بھی اس کو دوسری عورتوں کی مثالیں دے کر سمجھائیں ۔کہ دیکھو فلاں بھابی ۔۔۔ سب سے مل جل کر رہتی ہے ، میری بہن کو دیکھا بچوں کی کیسی اچھی تربیت کررہی ہے اور تم ؟۔۔۔

۔۔۔ اس طرح کہنے سے اصلاح نہیں ہوا کرتی ۔اصلاح کے لئے محبت ،اپنا ئیت ،نصیحت ، برداشت اور ہمدردی اور نرم کالامی ہونی چاہیے ،تلخ کلامی اور سخت بیانی سے وقت اصلاح اتنا ہی دور ہونا چاہیے جتنا مشرق ومغرب میں فاصلہ ہے ۔

نسخہ نمبر ۲

--{بیوی کے سلسلے مین اپنے معیار کونیچے لائیے}--

آپ کی اکثر سوچ یہ ہوتی ہے کہ بیوی میرے معیار پر پوری نہیں اتری ۔تو قصور اس غریب کانہیں بلکہ جناب عالی کےبلندمعیار کا ہے اوراس کا علاج فقط یہ ہے کہ آپ اپنے کو ذرا نیچے کیجئے ۔

۴۶

آپ جب گھر آتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ اس نے آپ کا پر جوش اسقبال نہیں کیا ۔کیا آپ کو احساس ہے کہ وہ بیچاری گھر گر ہستی کے کاموں میں کتنا مصروف رہی ؟

ذرا ایک دن گھر کا مکمل چارج سنبھال کردیکھئے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ آپ کے تمام کام مشین کی طرح انجام دیتی ہے ۔

آپ کھانا پکانے کے لئے ایک خانساماں رکھیئے ،گھر کی صفائی کے لئے ایک ملازم ،کپڑے دھونے کے لئے ایک لانڈری ،اور بچوں کی نگہداشت کے لئے ایک ملازمہ اور گھر کی نگرانی کے لئے ایک چوکیدار ۔۔۔۔۔۔۔مقرر کیجئے ۔

ان تمام ملازمین کی فوج کے باوجود گھر کا نظم و نسق ایسا نہیں چلے گا جیسا کہ یہ مشین چلارہی ہے لیکن آپ کے ذہنی معیار میں اس کی ان خدمات کی کوئی قیمت نہیں

سالہا سال گزرنے کے باوجود آپ نے اپنے خود ساختہ معیار کی بلندیوں سے نیچے اتر کر بیوی کے پوشیدہ کمالات کو جن کو خدا نے حیا کی چادر سے ڈھانک رکھا ہے ،کبھی جھانکا ہی نہیں ۔

آپ کبھی اپنے عرش سے نیچے اتر تے تو اس فرشی مخلوق کو سمجھتے ۔

٭ علم کے ذریعے اللہ کی اطاعت کی جاتی ہے ۔(حضرت علی علیہ السلام)

۴۷

نسخہ نمبر ۳

--{اخلاق میں بہترین اور اپنے گھر والوں کے حق میں نرم ترین بن جائیں }--

پیغمبر اسلام فرماتے ہیں کہ : مومنین میں کامل ترین ایمان والا و ہ ہے جو اخلاق میں بہترین ہو اور اپنے گھر والوں کے حق میں نرم ترین ہو"-

نیکی اور بزرگی کا معیار یہ نہیں ہے کہ دفتروں میں ، دوستوں کے مجمع میں ، مجالس میں ،مدرسوں اور مساجد میں کون کیسا نظرآتا ہے بلکہ یہ کہ بیوی اور گھر والوں کے ساتھ نرم برتاؤ کس کا ہے ،گھر کے اندر صبر وتحمل کا ثبوت کون دیتا ہے ۔

جلوت میں نہیں خلوت میں کون کیسا ہے ؟

یہ مسکرانا ،ہنسنا ،بولنا اس کی کوتاہیوں پر صبر کرنا ، اس کی غلطیوں کو معاف کرنا ،غصّہ برداشت کرنا ، اس کی تکالیف وراحت کی باتیں سننا ،دلجوئی کی باتوں سے اس کے دل کو خوش رکھنا ،اس کو شرعی حجاب کے ساتھ پاکیزہ تفریح کے لئے لے جانا ،اس کو جیب خرچ اپنی وسعت کے اعتبار سے دے کراس کا حساب نہ لینا کہ جہاں چاہے وہ خرچ کرے ۔یہ تمام باتیں بھی عبادت میں شامل ہیں ۔

۴۸

بیوی کو تھوڑا بہت تو روٹھنے کاحق ہے آخر وہ آپ کے سوا کس پر ناز کرے ؟غور کیجئے جب یہ بچی تھی تو اس کا منہ بسور ا دیکھ کر ماں باپ سو کام چھوڑ کر اس کو اٹھاتے تھے جب یہ بڑی ہوگئی اور کبھی اس کی طبیعت بجھی بجھی لگی توقریبی سہیلیاں اس کے دل کا راز جان کر اس کو تسلی دیتی تھیں ۔

اب ۔۔۔ یہ آپ کے پاس سب رشتے ناتوں سے دور ہوکر آئی ہے اگر وہ کوئی بات منوائے ،یا اپنی طرف آپ کو متوجہ کرنے یا صرف اپنے وجود کی آپ کے قلب ونظر میں مزید اہمیت اجاگر کرنے کے لئے روٹھتی ہے تو آپ اس کا ہرگز برانہ مانیں ۔

آخر وہ کس کے سامنے یہ چھوٹا موٹا ناز نخرہ کرے ‏؟ گھر والوں کو تو دور چھوڑآئی ہے ۔۔۔گال تھپتھپانے والا باپ

بال سنوارے والی ماں

مہندی لگانے والی ہمجولیاں تو اب بہت دور ہیں تو اب وہ کس سے اپنی قیمت پوچھو ائے ؟ کس کے سامنے منہ بسورے کہ کوئی اس کومنائے ؟۔۔۔

اے شوہر محترم! اب آپ ہی اس کا سب کچھ ہیں ۔ آپ کامیاب ترین شوہر ہوں گے اگر آپ نے اپنی بیوی کے مزاج کو سمجھ لیا اور اس کے مزاج کے مطابق اس کو چلانا آگیا ۔

۴۹

نسخہ نمبر ۴

--{"گڑنہ دیں تو گڑجیسی بات تو کریں" }--

آپ اس آسان نسخہ کا تجربہ تو کرکے دیکھئے انشااللہ آپ کی تمام خانگی پریشانیاں کافور ہوجائیں گی ۔ بیوی آپ سے دلی محبت کرنے لگے گی بچے بھی آپ کے لہجے اور میٹھی زبان سے متاثر ہوکر باہر بھی یہ ہی زبان استعمال کریں گے ،کتنا ہی اہم معاملہ ہو کوشش کریں کہ آپ کا نرم لہجہ چھوٹنے نہ پائے ۔

بڑی سے بڑی تادیبی کاروائی بعض اوقات اتنی مفید ثابت نہیں ہوتی جتنی خوشگوار اور نرم لہجے میں سمجھادینے سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔

آج ہی سے آپ اپنا نرم بنا لیجئے ۔اپنی زبان میٹھی بنالیجئے ۔وقتا فوقتا دوستوں ،اٹھنے بیٹھنے والوں اور بیوی وگھر والوں کو کہہ دیجئے کہ اگر میرا لہجہ سخت یازبان دلخراش ہو تو مجھے بعد میں بتا دینا پھر ان کے بتانے کے بعد اپنی اصلاح کی کوشش کرتے رہئے ۔

اپنے گھر کے ایک فرد ،مسلم معاشرے کے ایک رکن اور خاندان اہل بیت سے تمسک کے دعوی کرنے والوں پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں اور اپنے ساتھیوں کے لئے اپنا لہجہ نہایت ہی پر سکون اور پر مسرت رکھیں ۔

۵۰

کوّا کس کی دولت چھینتا ہے ؟

کوئل کسی کو کیا دیتی ہے؟

صرف شیریں کلامی کے باعث سب کادل موہ لیتی ہے

نسخہ نمبر ۵

--{بیوی کے کاموں کی اکثر تعریف کیجئے }--

سچ پوچھئے تو کام کی زیادتی سے بیوی اتنا نہیں تھکتی جتنا حوصلہ شکنی سے تھکتی ہے ۔ اس کا سارا جوش وولولہ ٹھنڈا پڑجاتا ہے اوراعصاب ڈھیلے پڑجاتے ہیں اور اس کی زندگی بے مصرف ،بے جان کولہو کی بیل کی طرح ہو کر رہ جاتی ہے ۔

جس کے دل میں ہی احساس ہو کہ بیوی کھانے پکانے کی جوخدمت انجام دے رہی ہے یہ اس کی شرعی ذمہ داری نہیں ہے ۔تو وہ اس کے کھانے پکانے اور گھر داری کی تعریف کرے گا ،اس کی ہمت بندھوائے گا اور اس کا حوصلہ بڑھائے گا ۔

لیکن جو شخص اپنی بیوی کو نوکرانی یا خادمہ سمجھتا ہو اس کو تو یہ کام ضرور انجام دینا ہیں ، کھانا پکانا اس کا فرض ہے ،اگر اچھا کھانا پکا رہی ہے تو اس پر اس کی

۵۱

تعریف کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ایسا شخص اس کی کبھی تعریف نہ کرے گا ،اچھا کھانا پکانے پر اور کسی معمولی کوتاہی پر ، نمک کی زیادتی یا چینی کی کمی پر گھر میں طوفان بد تمیزی برپا کرے گا اور لمبا چوڑا جھگرڑا شروع کردے گا ۔

یاد رکھئے ! یہ انسانی طبیعت ہے کہ اس کی اچھے کاموں کی حوصلہ ا‌فزائی کی جائے اور حوصلہ افزائی کی خواہش جب ہی زیادہ ابھرتی ہے جب کہ اس کی اعلانیہ حوصلہ شکنی ک جارہی ہو خصوصا دیوار انی ، جیٹھانی اور نندیں وغیرہ مسلسل اس کے کام میں رخنہ ڈال رہی ہوں اور ذرا ذرا سی بات پر اس کی پکڑ کی جاتی ہو ۔

یہ ایک ظلم کی کے مترادف ہے ، جس کام کی ستائش نہیں کی جاتی اور اس کو شاباش نہیں کہا جاتا یا ایک لفظ شکریہ کا ادا نہیں کیا جاتا اس کی دل شکنی کی جاتی ہے ،وہ اکثر ہمت چھوڑبیٹھتی ہے اور اس کی صلاحیتیں سلب ہوجاتی ہیں ۔

آج ہی سے اپنا معمول بنا لیجئے کہ چھوٹے چھوٹے کاموں پر بھی مثلا چائے بنانے پر ، پانی کا گلاس دینے پر ، دل وزبان سے اس کا شکریہ ادا کریں ۔ پھر دیکھئے کہ بیوی کیسے آپ کے قدرداں بنتی ہے اور گھر میں ہی جنت کا نمونہ بن جائے گا ۔

٭ علم کے ذریعے اللہ کی مغفرت حاصل ہوتی ہے (حضرت علی علیہ السلام)

۵۲

نسخہ نمبر ۶

--{بیوی کو دوست سمجھیں نوکر نہیں }--

یہ بات یادرکھیں کہ بیوی کے برابر دنیا میں مرد کا کوئی کارآمد دوست نہیں ۔ آپ غور کریں کہ آپ اپنے دوستوں پر ویسا رعب جماسکتے ہیں جیسا نوکروں پر جمایا جاتا ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ ایسا کرکے تو دیکھیں ،سارے دوست آپ کو چھوڑ کر الگ ہوجائیں گے ۔دوستوں کے ساتھ نوکروں جیسا برتاؤ کوئی عقلمند انسان نہیں کرسکتا ۔

پھر حیرت کی بات ہے کہ ایسا برتاؤ آپ اپنی بیوی کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں ۔جس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی دوست نہیں ہوسکتا ۔تجربہ ہے کہ فلاں ومحبت میں سب دوست واحباب الگ ہوجاتے ہیں ، رشتہ دار بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں مگر بیوی ہر حال میں اپنے شوہر کا ساتھ دیتے ہے ۔

اسی طرح بیماری میں جیسی راحت بیوی سے پہنچتی ہے ،کسی دوست سے تو کیا پہنچتی بعض اوقات اولاد سے بھی نہیں پہنچتی ۔لہذا ایسا رعب جمانا درست نہیں اگر آپ اپنی بیوی سے دوستوں جیسا سلوک روا کھیں گے تو کچھ ہی عرصہ میں آپ کو گھر میں ایک نمایاں خوشگوار تبدیلی کا احساس ہوگا ۔

۵۳

نسخہ تمبر ۷

--{بیوی کی خدمات کا احساس کریں}--

آپ نے دیکھا ہوگا کہ اگر عورت خود بھی بیمار پڑی ہو ، اٹھنے کی بھی طاقت نہ ہو اور ایس حالت میں شوہر بھی بیمار پڑجائے تو عورت اپنی بیماری بھول جاتی ہے ۔ اب اپنا آرام ۔۔۔۔اپنی راحت ،اپنی بیماری چھوڑ کر شوہر کی تیمارداری میں مشغول ہوجاتی ہے ۔

یہ تو عام بات ہے کہ عورتیں خود کھانا سب سے آخر میں کھاتی ہیں ۔ پہلے مردوں کو کھلاتی ہیں اور اگر اس وقت اچانک کوئی مہمان آجائے تو اپنا کھانا بھی مہمان کے لئے بھیج دیں گی ۔اگر شوہرآدھی رات کو سفر سے واپس آجائے تویہ وفا شعار عورت اپنا آرام اور اپنی نیند قربان کرکے ، اس کی خدمت میں لگ جائے گی ۔ اے شوہر محتر ! بیوی تو آپ پر اپنا سب کچھ قربان کردے اور آپ اس سے بے نیاز رہیں ۔ اس نے تھوڑی سی زبان چلادی اورآپ کبدلہ لینے پر اتر آئے اور اس کی دلداری چھوڑدی ۔آپ کے لئے یہ طریقہ کسی بھی طرح مناسب نہیں بلکہ اس کی ہر وقت خدمات کے صلے میں آپ کو بیوی کی نامناسب باتوں کو برداشت کرنا ہوگا ۔

۵۴

نسخہ تمبر ۸

--{اگر بیوی کی یہ کوتاہیاں آپ کی بہن یا بیٹی میں ہوتیں ۔۔تو؟}--

ان کی شکا یتیں ان کے سسرال سے آتیں تو جو عذر ان کے لئے یا جو آپ ان کی صفائی میں کہتے وہ بیوی کے لئے کیوں نہیں سوچتے صرف اس لئے کہ وہ آپ کی بیوی ہے ؟ اور کسی دوسرے کی بیٹی یا بہن ہے ؟

اس کی کوتاہیوں کے لئے بھی تو آپ کو عذر پیش کرنے چاہئیں کہ ابھی نئی نئی آئی ہے اتنی جلدی سسرال کے رنگ میں کیسے رنگ جائے ،بھول چوک ہوہی جاتی ہے ،برداشت کرنا چاہئیے وغیرہ وغیرہ ۔

بہن اور بیٹی کو بھی چھوڑیں ۔ذرا سوچیں کہ آپ جو دنیا کی ساری خوبیاں اپنی بیوی میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کا کردار ساری کوتاہیوں سے مبرّا دیکھنا چاہتے ہیں ۔سوچیں کہ جس نے آپ کو بیٹی دی ہے ۔ اگر وہ بھی اور دنیا میں بسنے والے تمام باپ اپنے داماد کے لئے کوئی ایسا معیار ذہن میں مقرر کرلیتے ہیں کہ :

لڑکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیّد ہو۔

۵۵

تقوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں مقدس اردبیلی جیسا ہو۔

دنیاوی تعلیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کم از کم ڈاکٹر عبد القدیر جتنی ہو ۔

اخلاق۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ملامحسن فیض کاشانی کی طرح ہو۔

علم دین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے اعتبار سے علامہ حلی جنتا علم رکھتا ہو ۔

دین ودنیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے اعتبار سے بو علی سینا جیسا ہو ۔

تو فرمائیے آپ محترم کس کے داماد بن سکتے تھے ؟ اگر لوگ اپنے بلند معیارات پر اپ کو پرکھنے لگیں اور جب آپ اس معیار پر پورا نہ اتریں تو وہ بات بات پر نکتہ چینی کرکے آپ کا جینا دوبھر کردیں تو آپ ان لوگوں کے متعلق کیا کہیں گے ؟۔۔۔۔۔۔اس کا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑ تے ہیں ۔

شوہر محترم!

یہی کچھ آپ کو بیوی کے ساتھ ہوتا ہے اس کے ہر عمل کو تنقیدی چشمہ لگا کر دیکھا جاتا ہے اور اچھائی میں کیڑے نکالے جاتے ہیں ۔اگر اس سے کوئی معمولی غلطی بھی سرزد ہوجائے تو گھر میں عدالت کا سا سماں ہوتا ہے ۔ ساس و سسر قاضی بن کر بیٹھ جاتے ہیں ، بھاوج اور بڑی نندیں وکیل بنتی ہیں اور گھر کی ماسی اور چھوٹی نندیں گواہ بن جاتی ہیں اور پھر اس کی معمولی غلطی کو ناقابل معافی جرم قراردے کر سینکڑوں طعنے اور دل چھلنی کرنے والےجملے سزا کے طور پر کہے جاتے ہیں اور اس پر بس نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے ساتھ اس معصوم کے ماں باپ ،بہن بھائی اس کے پورے خاندان کو بھی نشانہ بنا یا جاتا ہے ۔

۵۶

اب یہی تمام باتیں آپ کی بہن یا بیٹی کے ساتھ ہوتیں تو آپ ان شکوہ شکایات کرنے والوں کے متعلق کیارائے قائم کرتے ؟

نسخہ نمبر ۹

--{اپنے غصّہ کو برداشت کرنا سیکھئے }--

آج ہی سے فیصلہ کرلیں کہ میں دفتر ،دکان ،ملازمت وکاربار اور باہر والی زندگی کے مسئلے گھر سے باہر چھوڑ کرآؤں گا ۔ اگر کبھی کسی بات پر غصّہ آبھی جائے تو فورا خاموش ہوجائیں ۔

رسول اسلام(ص) فرماتے ہیں :

" جب تم میں سے کسی کو غصّہ آجائے تو وہ فورا خاموش ہو جائے "

یا وہاں سے اٹھ کر چلے جائیں اور تنہائی میں آجائیں ۔

غصّہ قابو کرنے کا ایک عجیب علاج یہ بھی ہے کہ ایک کاغذ پر ایک عبارت لکھ کر ایسی جگہ لگادی جائے جہاں بار بار اس پر نگا ہ پڑتی ہو ۔

"اللہ کو تجھ پر اس سے زیادہ قدرت ہے جتنی تجھ کو اپنے بیوی ،بچوں اور ماتحتوں پر قدرت ہے ۔"

۵۷

کیونکہ آدمی کوغصّہ اسی پر آتا ہے جس کو اپنے نے کمزور پاتا ہے اگر دوسرا طاقتور ہو تو غصہ نہیں آتا لہذا جب بار بار اس تحریر پرنگاہ پڑے گی تو دل ودماغ میں اللہ کی بڑائی کا استحضار ہوگا غصّہ کہاں آئے گا ؟

یاد رکھئیے کہ اگر میاں بیوی اور گھر والوں کی یہ تو تو ،میں میں اور بگ بگ ختم ہو جائے تویہ گھر کے معصوم بچوں پر بہت بڑا رحم ہوگا ۔ورنہ جھگڑوں کے ماحول میں گھٹ گھٹ کر پلنے والے بچے سہمے سہمے رہتے ہیں ،خود اعتمادی سے محروم ہوجاتے ہیں ۔

جس معصوم کے ذہن پر ہر وقت باپ کا طمانچہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماں کے بہتے ہوئے آنسو۔۔۔۔۔۔کا تصور رہتا ہو جس کے کانوں میں دادی اور پھوپھی کی جھڑکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باورچی خانے میں روتی ہوئی ماں کی سسکیاں ۔۔۔گونجتی رہیں تو اس بچہ کی خدا داد صلاحتیں اور قابلیت جن سے وہ نجانے دین ودنیا کے اعلی سے اعلی کیا کیا کام کرجائے ۔ختم ہوجاتی ہیں ۔ ٭ علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پرفرض ہے آگاہ ہو کہ اللہ تعالی طالب علم کو دوست رکھتا ہے ۔

۵۸

نسخہ نمبر ۱۰

--{اپنا مقام پہچانئے ،زن مرید نہ بنئے}--

یہ جو آپ سے بیوی سے نرم رویہ اختیار کرنے ، اس کی دلجوئی کرنے اور نامنا سب بات کی تحمل سے برداشت کرنے کی استدعا کی گئی ہے اس سے یہ نہ سمجھئے گا کہ بیوی آپ پر حاکم ہے ،آپ محکوم ہیں ، وہ آپ کو ڈانٹ سکتی ہے اور جھڑک سکتی ہے آپ کچھ نہیں سکتے اور آپ اس کے غلام ہیں ، ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ لہذا خدا را زن مرید نہ بنئے گا ۔ آپ کا ایک مردانگی والا مقام ہے گھر کے سربراہ والی ایک ذمہ داری ہے ۔

آپ کے ڈھیلے پن سے گھر کا نظام اندھیرنگری چوپٹ راج والا ہوسکتا ہے ۔ بچے کہیں کے کہیں نکل سکتے ہیں ۔

بیٹیاں آپ کے ہر وقت جی حضوری کے رویہ کو دیکھ کر اپنے شوہروں سے بھی ویسے ہی رویہ کی متمنی ہوجائین گی اور گھرانے کے گھرانے اجڑیں گے ۔جس کے صرف آپ ذمہ دار ہوں گے ۔

بے شک شفقت کا معاملہ رکھئیے کہ اس میں جو رعب ہے وہ ہر وقت کی ڈانٹ ڈاپٹ میں نہیں ہے ۔ بیوی سے ڈرے سہمے مت رہیں اللہ سے اپنا

۵۹

معاملہ صاف رکھیں گھر میں تعلیم عام کریں ۔

دنیا کی رغبتی اور آخرت کی ترقی کے تذکرے ضرور کریں ۔

تجربہ کار عالم دین بیوی کے گھر کے بڑوں سے بھی ضروری احوال کا مشورہ برائے گھریلو اصلاح (نہ کہ بطور شکایت یا غیبت )کرتے رہیں ۔

یہ بات یادرکھیئے کہ آپ ہاں جی ، والے غلام بنتے ہیں تو آپ کائنات کےنظام میں فساد کا بیج بورہے ہیں ۔

٭ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :" لوگ تین قسم کے ہیں ایک تم عالم ،دوسرے طالب علم ، تیسرے کوڑا کرکٹ (یعنی وہ لوگ جو نہ عالم ہیں نہ طالب علم ، وہ کوڑے کچرے کی طرح بے مقصد اور بیکار لوگ ہیں )۔"

نسخہ نمبر ۱۱

--{بیوی کو دیندار بنا ئیے مگر خود دینداری چھوڑ ے بغیر}--

یعنی طعنہ دے کر ،یاچڑ کر ،برا بھلا کہہ کر نہیں ۔ اپنی بات منوانا اصل کام نہیں بلکہ اسلامی ذہن بنانا اصل کام ہے ۔یعنی آپ اس کے دل کی زمین پر

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90