شیعہ کافر -تو- سب کافر

شیعہ کافر -تو- سب کافر0%

شیعہ کافر -تو- سب کافر مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 101

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 101 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27533 / ڈاؤنلوڈ: 2519
سائز سائز سائز
شیعہ کافر -تو- سب کافر

شیعہ کافر -تو- سب کافر

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

شیعہ کافر

----تو----

سب کافر

مصنف :

علی اکبر شاہ

نیٹ ورک: شبکہ امامین حسین علیھما السلام

۳

بڑھتی ہوئی جواں امنگوں سے کام لو

ہاں تھام لو حسین (ع) کے دامن کو تھام لو

عفریت ظلم کانپ رہا ہے ، اماں نہ پائے

دیوفساد ہانپ رہا ہے ،اماں نہ پائے

(جوش)

۴

ماہنا مہ اقراء بینات او رہفت روزہ تکبیر

کا

جواب

تحریر: علی اکبر شاہ

۵

پہلی اشاعت سنہ ۱۹۸۸ء

دوسری اشاعت سنہ ۱۹۸۹ء

تیسری اشاعت سنہ ۱۹۹۱ء

چوتھی اشاعت سنہ۱۹۹۲ ء

پانچویں اشاعت سنہ ۱۹۹۳ء

۶

نقش آغاز

فروری سنہ ۱۹۸۸ء میں اقراء ڈائجسٹ کا "شیعیت نمبر " اور بینات کا ایک "خصوصی نمبر شائع ہوا ۔دونوں ہی نے مولا نا منظور نعمانی کی ایک کتاب کہ جو "الفرقان لکھنو" کے خاص نمبر کی صورت میں شائع ہوئی تھی ،دوبارہ من وعن شائع کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ اقراء میں شیعوں کے خلاف او ربھی مضامین ہیں خاص طور سے مفتی ولی ٹونکی کا " نقش آغاز" قابل ذکر ہے کہ جس میں اس نے شیعیت کے خلاف جی بھر کے زہر اگلا ہے ۔

"الفرقان لکھنو " کے خاص نمبر کے شروع میں "نگاہ اولین "کا عنوان ہے اس میں شیعیت کو سب سے بڑا فتنہ قراردکے کر عام مسلمانوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ متحد ہو کر اس فتنہ کا قلع قمع کردیں ۔ اور اس کے مقدمہ میں بر صغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ شیوں سے جنگ جہاد اکبر ہے اور ان سے جنگ میں ہمارا جو آدمی مارا جائے گا وہ شہید ہوگا کیونکہ یہ کافروں میں سے ہے لہذا ان پر تلوار اٹھانا جائز ہے ۔ان کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں اور جو شک کرے وہ خود بھی کافر ہے ۔۔۔۔۔یہ تھی اس زہریلے مقدمہ کی ایک جھلک ۔

مولانا منظور نعمانی کے اس مقدمہ کے بعد "استفتاء" ہے جس میں شیعہ اثناعشریہ کے موجب کفرتین عقائد کا خاص طور سے اور بڑی تفصیل کے

۷

ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے ار انھیں عقائد کی بنیاد پر جہلا دین سے فتوے طلب کئے گئے ہیں ۔ وہ تینوں عقیدے یہ ہیں

۱:- حضرات شیخین کے بارے میں کہ وہ کافر ومنافق تھے اور ان دونوں کی بیٹیاں حضرت عا‏ئشہ و حضرت حفصہ بھی کافرہ اور منافقہ تھیں ۔

۲:- قرآن کے بارے میں کہ اس میں ہر قسم کی تحریف ہوئی ہے ۔

۳:- ختم نبوت کے بارے میں کہ یہ اس کے منکر ہیں ۔

موجب کفر عقائد کی تفصیلی بحث کے بعد شیعہ اثناعشریہ کے بارے میں متقدمین اور متاخرین اکابر علماء امت اور فقہائے کرام (بقول منظور نعمانی) کے فیصلے اور فتوے ہیں ۔ ان کےنام ملاحظہ ہوں ۔

۱:- امام ابن حزم اندلسی متوفی سنہ ۴۵۶ ھ ۔ ۲:- قاضی عیاض مالکی متوفی سنہ ۵۴۴ھ ۔ ۳:- شیخ عبدالقادر جیلانی متوفی سنہ ۵۶۱ ھ ۔ ۴:- امام ابن تیمیہ جنبلی متوفی سنہ ۷۳۸ ھ ۔ ۵:- علامہ علی قاری متوفی سنہ ۱۰۱۴ ھ ۔ ۶:- علامہ بحرالعلوم لکھنوی ۔۷:- علامہ کمال الدین المعروف با بن الحام ۔۸:- فتاوی عالمگیر ی (جسے اورنگ زیب کے حکم سے ملاؤں کی ایک جماعت نے مرتب کیا )۔۹:- علامہ ابن عابد ین شامی ۔۱۰:- مولانا عبد الشکور فاروقی لکھنوی (لکھنو کے شیعہ فسادات کی جڑ ۔۔۔کہ جس کو مرے ابھی کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا )۔

اس کے بعد دور حاضر کے ہندوستان کے اصحاب فتوی اور دینی مدارس کے فتاوی وتصدیقات ہیں جن کی طویل فہرست کو یہاں نقل کرنا ممکن نہیں ۔ پھر پاکستان کے ممتاز مراکز افتا اور اصحاب علم فتوی کے فتوے اور تصدیقات درج ہیں ۔

ہم صرف پاکستانی جہلا دین کے فتوی اور تصدیقات کا عکس پیش کررہے

۸

ہیں کیونکہ سب فتوے پیش کئے گئے تو اس میں تقریبا ۱۰۰ صفحات ہوجائیں گے جس کی گنجائش نہیں ۔

ہم پہلے باب میں اقراء ڈائجسٹ کے نقش آغاز اور اصل کتاب (جوکہ اقراء اور بینات میں شائع کی گئی ہے ) کے نقش اولین کا جواب دیں گے اور پھر ان تین عقائد پر گفتگو کریں گے جن کی وجہ سے شیعہ اثناعشریہ کو کافر قرار دیاگیا ہے ۔

یہ بیوقوف شیشہ کے گھر میں بیٹھ کر مضبوط اور مستحکم قلعے پر پتھر پھینکتے ہیں جب ان پر شیعہ دشمنی کا دورہ پڑتا ہے تویہ خانہ خدا کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھتے ۔خانہ خدا کے دروازے کو ایسے بینروں اور پوسٹروں سے سجاتے ہیں کہ جن پر فساد پھیلانے کی ترغیب اور شیعیت پر الزامات اور بہتان تراشیاں ہوتی ہیں ۔ ۔۔۔کچھ تو تفنن طبع کا ثبوت بھی دیتے ہیں ۔مقدس امام بارگاہوں کو " ایمان بگاڑئے " لکھتے ہیں اور مزید کرم فرماتے ہوئے انھیں عیاشی کے اڈے قراردیتے ہیں ۔۔۔۔ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ کہاں مسجد کا دروازہ اور کہاں بیہودہ باتیں ۔ ۔۔۔مگر یہ تو ہم سوچ رہے ہیں حقیقت تویہ ہے کہ اس مسجد اور مدرسہ کے در ودیوار ان باتوں سے مانوس ہیں ۔

میر تقی میر نے شاعرانہ ترنگ میں مجازا ایک بات کہہ دی تھی ۔

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

اور انھیں میر صاحب کی یہ بات اتنی پسند آئی کہ گرہ میں باندھ لی اور غالبا یہ کسی رافضی کی پہلی بات تھی کہ جو انھیں اچھی لگی اور نوبت یہ آئی کہ

۹

ان سے بھی پیروی میر ہو ا کرتی ہے

یہ بھی عطار کے لونڈے سے دوالیتے ہیں

اور قیامت یہ ہے کہ گواہی مسجد اور مدرسہ کے حجرے دیتے ہیں ۔

جہاں تک امام بارگاہوں کاسوال ہے تو ان کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے ہوئے ہیں ۔وہاں کوئی تقریب ایسی نہیں ہوتی کہ جس میں کسی کے آنے پر پابندی مجلس ہوتی ہے تو خوتین کے لئے علیحدہ انتظام ہوتا ہے اگر صرف تبرکات کی زیارت کاسلسلہ ہوتا ہے تو عورتوں اور مردوں کی الگ قطاریں لگتی ہیں ۔ ہزاروں لاکھوں کے جلوس کے ساتھ ہزاروں خواتین بھی ساتھ ہوجاتی ہیں مگر مجال نہیں کہ ذرا بھی بے حرمتی ہوجائے ۔

یہ فسادی اپنی تخریبی سوچ اورمخصوص حلئے سے پہچانے جاتے ہیں ۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ فی سبیل اللہ فساد پھیلا ؤ اور اپنے چھوٹے چھوٹے قدوں کو بڑا کرو اور پھر اس فساد کا معاوضہ ڈالر اور ریال کی شکل میں وصول کرو ۔۔۔۔۔ ذرا غور تو فرمائیے کہ فتنہ کی جڑ مولوی عبد الشکور لکھنوی (جو واصل جہنم ہوچکا ہے ) کے اگلے ہوئے لقموں کو چبانے والے مولوی منظور نعمانی کی فتنہ سامانی کو ایک تواتر کے ساتھ لکھنو (ہندوستان) سے پاکستان درآمد کیا جارہا ہے ۔مگر یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے ؟شیعہ تو پہلے بھی بر صغیر پاک وہند میں رہتے تھے اور انہی تیوروں سے اب بھی رہ رہے ہیں کہ جیسے پہلے رہتے تھے ۔اب کوئی نئی بات تو نہیں ہوئی سوائے انقلاب ایران کے ۔۔۔۔مگر یہ انقلاب ایران ہی تو ہے کہ جو شہنشاہیت پر قیامت بن کے ٹوٹا ہے اب سعودی شہنشاہیت اس کی زد میں ہے ۔خلیجی ریاستوں کے شيخ پریشان ہیں ۔ انھیں ایسے ایجنٹوں کی بہت ضرورت ہے

۱۰

کہ جو ایران کے طاقتور پڑوس میں ان کےمفادات کےلئے کام کرسکیں چنانچہ پاکستان یمں سواد اعظم کا ٹولہ سعودی آقاؤں کی ایما پر پاکستان کے شیعوں کے خلاف یہاں کے عوام کو ورغلا نے کے کام پر لگا ہوا ہے تاکہ ایرانی انقلاب کی حمایت کے ایک طاقت ور عنصر کو کمزور کردیا جائے اور ساتھ ساتھ آقائے خمینی اور ایرانی انقلاب کے خلاف بھی مہم جاری ہے تاکہ وہ سنی مسلمان کہ جو ایرانی انقلاب سے متاثر ہیں بد ظن ہوجائیں ۔

یہ اپنی مکروہ سوچ کے علاوہ اپنے مکروہ حلیئے سے بھی پہچانے جاسکتے ہیں ۔ ان کے سرگنجے ہوتے ہیں اور کجھور کی یا کپڑے کی بنی ہوئی چھوٹی چھوٹی گول ٹوپیاں پہنتے ہیں اور جب فیشن کے موڈ میں ہوتے ہیں تو کلف لگی ہوئی چوگوشی ٹوپیوں کو سروں پر کھڑا کرلیتے ہیں ۔ بڑی سر سبز اور شاداب دارھیاں رکھتے ہیں اور مونچھوں کی جگہ پر روز استرا پھیرتے ہیں ۔ کندھے پر ریشمی خانہ دار رومال پڑا رہتا ہے ۔پیٹ عام طور سے بھاری ہوتاہے ۔گھٹنوں تک سفید کرتا اور اس کے نیچے اونچی واٹنگی شلوار پہنتے ہیں ۔ہمارا مشاہدہ ہے کہ جس مولوی کی شلوار جتنی اونچی ہوتی ہے اتنا ہی وہ شقی القلب ہوتا ہے ۔

مومن صادق کی پہچان یہ کہ کہ خشیت الہی سے اس کا چہرہ زردی مائل رہتا ہے مگر ان کا چہرا خاصا کھایا پیا لگتا ہے ۔چنانچہ جوش ملیح آبادی کو ان کے یہ چہرہ اچھا لگا اور انھیں کہنا پڑا ۔

وضو کے فیض سے سر سبز داڑھی

خدا کے خوف سے چہرہ گل تر

آخر میں ہماری تجویز ہے کہ ہمارے صدر صاحب اس مخلوق کو ایک بحری جہاز میں بھرکر سعودی عرب کی طرف روانہ کردیں اور اگر سعودی حکومت انھیں

۱۱

قبول کرنے پر تیار نہ ہو تو واپسی میں کراچی کی بندرگاہ آنے سے پہلے ہی جہاز کے پیندے میں بڑا سوراخ کردیا جائے ۔۔۔۔۔

ہم نے" اقراء" اور " بینات " کا جواب ختم ہی کیا تھا کہ کہ ۴ اپریل سنہ ۱۹۸۸ کا" ہفت روزہ تکبیر " سامنے آیا ۔جس میں ایک نام نہاد اسکالر کا بے شرمی سے لبریز انٹرویو چھپا ہے ۔چنانچہ اس کا جواب بھی شامل کیا جارہا ہے

علی اکبر شاہ

مئی سنہ ۱۹۸۸ء

۱۲

فتنہ سامانیاں

اقراء ڈائجسٹ " شیعیت نمبر " کے نقش آغاز اور ماہ نامہ فرقان کی "نگاہ اولین "سے اقتباسات :-

"اسلام کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں اور فتنوں سے بعض فتنے انتہائی شدید اور خطرناک تھے مگر ان میں بھی روافض کا فتنہ سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا ۔اس فتنہ کی جڑیں مضبوط گہری اور بہت لمبی ہیں ۔ اس فتنہ کا بانی ابن سبا تھا ۔ جس نے اہل بیت کےفضائل بیان کرکے ان کا سہارا لینے کی کوشش کی ۔اسی نے صحابہ کرام اور اہلبیت اطہار کو الگ الگ طبقہ ثابت کرنے کی کوشش کی ۔

جس طرح دوسرے فتنوں کا مقابلہ علمائے دیوبند نے کیا اسی طرح اس فتنہ کی سرکوبی بھی اللہ تعالی نے اسی علماء حق کے قافلے کے نام لکھ دی ہے حضرت مولانا عبدالشکور لکھنوی فاروقی نے جس طرح اس فتنہ کے عقائد وعزائم کا اظہار کیا ۔ ان کے کفریات کا ظاہر کیا ۔اس پر وہ امام اہلسنت اور قائد اہلسنت کہلائے جاتے ہیں ۔ ان کو اللہ تعالی نے اس فتنہ کے مقابلے کا خاص ذوق اور ایک درد عطا کیا تھا ۔حضرت مولانا قدس سرہ نے ساٹھ سال پہلے ان کے کفر کافتوی دیا تھا اور دیوبند کے بڑے بڑے علماء نے اس پر دستخط فرما کر اس کی تصدیق کی ۔

۱۳

آج کے اس دور میں جب فتنہ روافض نے خمینی کی شہ پر سرابھارا تو اللہ تعالی نے دیوبند کے ایک فرزند کو اس کام کے لئے کھڑا کیا "

"ہم اپنے تمام قارئین اور سنی علماء سے یہ گذارش کریں گے کہ وہ اس استفتا اور فتوی کا بغور مطالعہ فرمائیں اور روافض کے عقائد سے آگاہی حاصل کریں ۔ یہ ایک بہت بڑا فتنہ ہے جس کی بنیاد اسلام دشمنی اور مکر وفریب پررکھی گئی ہے ۔اس کی سازشوں سے خود بھی محفوظ رہیں اور دوسروں کو بھی اس کا شکار نہ ہونے دیں ۔

اس موقع پر ہم ارباب اقتدار سے یہ بھی گزارش کریں گے کہ اس نے مسلسل شیعہ نوازی کاجو رویہ اختیار کا ہوا ہے اسے چھوڑدے اور سنی مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب نہ بنے اور شیعوں کے ساتھ وہ معاملہ کرے جو کسی اقلیت کےساتھ کیا جاتا ہے ۔ان شیعوں کو نوازنے کی پالیسی چھوڑ کر ان کو لگام دے "

(نقش آغاز ،۔اقراء کا خصوصی شیعیت نمبر )

"اسلام کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والا ہرشخص جانتا ہے ہے کہ جن داخلی فتنوں اور منافقانہ تحریکوں سے اسلام اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے ان کا سرچشمہ اور ان میں سب سے زیادہ طویل العمر اور سخت جان فتنہ شیعیت ہے ، جسے ہماری شامت اعمال کے طور پر اس زمانہ میں نئی زندگی ملی ہے لیکن شاید یہ نئی زندگی مستقبل میں اس کے لئے " افاقتہ الموت" ثابت ہو ،البتہ اس کا انحصار سنت اللہ کے مطابق اس باپ پر ہے کہ کتنی جلدی ہماری قوم اس فتنہ کی سنگینی کو صحیح طور پر سمجھتی ہے ، اور اس کے شرسے اپنی حفاظت کیلئے کتنے عزم وارادہ ،کتنی غیرت وحمیت اور کتنی چستی وبیداری کا ثبوت دیتی ہے ۔

۱۴

امت مسلمہ کو اس پر انے اور مکار دشمن کی حقیقت سے صحیح طور پر باخبر کرنے اور غیرت وجراءت مندی کےساتھ اس فتنہ کے فیصلہ کن مقابلہ پر اسے آمادہ کرنے کے لئے کی جانے والی کوششوں کے سلسلے کی ایک کڑی الفرقان کیا یہ خاص نمبر ہے جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے " (نقش اولیں)

شاید آپ "فتنہ "اور ظلم کے خلاف مزاحمت میں فرق کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ آپ کے خیال میں ظالم کو ظالم کہتے رہنا فتنہ پروری ہے ۔

آپ کے خیال میں شیعیت وہ فتنہ ہے جس کی جڑیں مضبوط ،گہری اور لمبی ہیں " آپ سمجھتے ہیں کہ شیعیت اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں میں سب سے زیادہ "طویل العمر اور سخت جان " ہے مگر آپ کو یہ نہیں معلوم کہ فتنہ تو شجر ملعونہ "ہے کہ جس کی جڑیں گہری نہیں ہوتیں اور عمر بھی طویل نہیں ہوتی ۔شیعیت تو "شجر طیبہ "ہے کہ جس کی جڑیں گہری ہیں اور شاخیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں ۔شیعیت کی جڑوں کی مضبوطی ،گہرائی ،طویل العمری اور سخت جانی ہی تو اس کے حق ہونے کی دلیل ہے ۔

اب تو مدتیں گزرگئیں ابن سبا کا تذکرہ کرتے ہوئے ۔آپ کب تک اس بیجان افسانوی کردار کو شیعیت کے خلاف استعمال کرتے رہیں گے کیا افسانوی کردار کو شیعیت کے خلاف استعمال کرتے رہیں گے کیا افسانوی کردار سے تاریخ کی حقیقتیں چھپ سکتی ہیں ؟

آئیے ہم آپ کو بتائیں کہ شیعیت کا بانی ابن سبا نہیں تھا بلکہ شیعیت کا جود تو اتنا ہی قدیم ہے کہ خود جتنا اسلام کواور" صحابہ کرام"

اور"اہلبیت" کو الگ الگ طبقہ ثابت کرنے کی کوشش بے چارے ابن سبا نے نہیں کی ہے بلکہ یہ تونام ہی ظاہر ہے کہ طبقے الگ الگ تھے اور تقسیم فطری تھی ۔

جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی دفعہ اعلان نبوت

۱۵

کیا تو آپ کی رفیقہ حیات جناب خدیجہ نے فورا صدق دل سے تصدیق فرمائی اور اپنے شوہر کے مشن کی خاطر ہر قربانی دینے پر کمر بستہ ہوگئیں اور اس گھر میں پرورش پانے والا ایک بچہ کو جو آنحضرت کا عم زاد تھا ۔ ان کے پیچھے اس طرح چلتا جیسے اونٹنی کا بچہ اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہے ۔اعلان نبوت کےبعد بھی اس طرح چلتا رہا ۔ یہ بچہ علی رسول کے چچا ابو طالب کا بیٹا تھا ۔خدیجہ نے اپنی ساری دولت شوہر کے مشن پر قربان کردی اور عرب کی یہ ملکہ اپنے شوہر کے دکھ درد میں شریک ہوگئی اور علی ابن ابی طالب اپنے بھائی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد ونصرت کرنے لگے ۔

آنحضرت باہر نکلتے تو کفار کے بچے پتھر مارتے اور علی علیہ السلام ان کو مار بھگاتے ۔

دعوت ذوالعشیرہ میں بھی صرف اسی بچے نے رسول اللہ سے نصرت کا وعدہ کیا جب کہ اس دعوت میں بڑے بڑے بزرگ موجود تھے ۔

خدیجہ اورعلی بس یہی تھے ابتدائی اہلبیت ۔پیکر ایثار ووفا اور پھر یہ دعوت اسلام گھر سے باہر گئی تو غیروں نے اسے قبول کرنا شروع کیا اور تھوڑے ہی دنوں میں کچھ لوگ مسلمان بن گئے اور یہی اغیار ابتدائی قسم کے صحابہ کہلاتے ہیں مگر ان میں اسلام کے لئے یکساں جذبات نہ تھے کوئی انتہائی مخلص تھا اور صدق دل سے اسلام لایا تھا تو کسی کے آگے اپنی مصلحتیں تھیں اور اس بات کو زمانے نے بھی ثابت کردیا ۔

یہ تھی صحابہ اور اہلبیت کی فطری تقسیم کیونکہ جگر جگر ہے ۔ ديگر دیگر ہے اور ابن سبا کے افسانہ کا جو زمانہ بتا یا جاتاہے وہ بہت بعد کا ہے ۔یہ تقسیم تو بالکل شروع سے چلی آرہی ہے لہذا ابن سبا سے اس تقسیم کا کوئی افسانوی تعلق بھی قائم نہیں ہوسکتا ۔

۱۶

لوگ شامل ہوتے رہے اور کارواں بنتا رہا ۔صحابہ کرام کی تعداد بڑھتی رہی ۔ ادھر رسول کی پیاری بیٹی کی جو سیرت وکردار میں اپنی ماں خدیجہ (رض) کیطرح تھی کا عقد علی ابن ابی طالب (علیھما السلام) سے ہوا اور قدرت نے آنحضرت کو دو نواسے عطا کئے اور اس طرح سے اہلبیت کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ۔

صحابہ کرام میں سے وہ بزرگ کہ جن میں رضائے الہی کے حصول کے سوا کوئی اور جذبہ نہ تھا انھوں نے رسول کےساتھ ساتھ اولا رسول سے بھی عشق کیا اور ہمیشہ ان سے مخلص رہے ۔ ان مخلص صحابہ میں سلمان فارسی ابو ذر ،عمار یاسر اور مقداد سرفہرست ہیں اور سلمان تو اتنے قریب ہوئے کہ ایک روایت کے مطابق رسول اللہ نے انھیں اپنے اہل بیت میں داخل فرمالیا

یہ اور اس طرح کے دوسرے صحابہ کرام کو جو اہلبیت کے کبھی مقابل نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ ان کے جانثار بنے رہے ابتدائی شیعہ ہین جیسے جیسے اہل بیت کے مخالف نمایاں ہوتے گئے ان حضرات کی شیعیت بھی نمایاں ہوتی گئی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد جب صحابہ کا ایک گروہ اہلبیت کا سیاسی حریف بن کر سامنے آیا تو اہل بیت کے دامن سے وابستہ صحابہ کرام کی شیعیت بالکل واضح ہوگئی ۔

تاریخ کا گہرا مطالعہ کرنے والے ہرشخص کویہ جاننا چاہئیے کہ شیعیت کی تاریخ محبت و ایثار اور قربانیوں کی تاریخ ہے ،فتنہ پروری کی نہیں ۔ڈاکٹر علی شریعتی کے مطابق "شیعیت ایک ایسا اسلام ہے کہ جس نے علی (ع) جیسے عظیم انسان کی ایک "نہیں" نے اپنے آپ کو پہچنوایا اور تاریخ اسلام میں اپنی راہ متعین کی ۔ علی وارث محمد (ص) تھے اور ایسے اسلام کا مظہر جس میں

۱۷

عدل تھا اور حق ۔یہ"نہیں " کی آواز خلافت کی انتخابی کمیٹی کے سامنے بلندہوئی تھی یہ عبدالرحمن بن عوف کاجواب تھا اور یہ شخص جاہ پرستی اورمصلحت پسندی کا مظہر تھا "

عبدالرحمن بن عوف کا علی (ع) سے صرف اتنا سوال تھا کہ اگر تم سیرت شیخین پر چلنے کا وعدہ کرو تو خلافت تمہارے حوالے کردی جائے مگر علی (ع) کی ایک "نہیں" نے علی کی سیرت وکردار کو پوری دنیا پر واضح کردیا اور شیعیت کی راہ ہمیشہ کے لئے معین کردی ۔اس "نہیں " کے نتیجہ میں حضرت علی تیسری مرتبہ اپنے جائز حق سے محروم کردیئے گئے ۔اور بنوامیہ کے ایک بزرگ حضرت عثمان "ہاں" کرکے مسند رسول پر بیٹھ گئے ۔شیعہ صحابی جناب مقداد مسجد نبوی میں پکارا ٹھے کہ کاش ہمارے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ ہم اہل بیت کو ان کا حق دلا سکتے ۔ اگر ہمت ہو تو کہہ دیجئے کہ حضرت مقداد رضی اللہ تعالی عنہ فتنہ پھیلانے کی کوشش کی ۔

حضرت عثمان کے خلیفہ بننے کے بعد اہلبیت اور اسلام کا دشمن قبلیہ بنوامیہ مسلمانوں کے امور کا مالک بن گیا ۔لوگوں کے حقوق غصب کئےجانے لگے اورحکمرانوں طبقہ نے وہ تمام باتیں اختیار کرلیں کہ جنھیں مٹانے کے لئے اسلام آیا تھا پھر ایک شیعہ صحابی جناب ابو ذر کھڑے ہوگئے اور حکومت وقت کی پالیسیوں پرنکتہ چینی شروع کردی۔خلیفہ نے گبھرا کر انھیں شام کے اموی گورنر معاویہ کے پاس بھیج دیا ۔ یہ معاویہ کون تھا ؟ دشمن رسول (ص) ابو سفیان اور امیر حمزہ (رض) کا کلیجہ چبانے والی کا بیٹا ۔۔۔۔۔تاریخ گواہ ہے کہ اس نے قیصر وکسری کی روش اختیار کر رکھی تھی ۔ ابو ذر نے یہاں چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز دیکھا تو تڑپ اٹھے ۔وہ مسجد میں ہوتے یا گلی کوچے

۱۸

میں اس فتنہ کے خلاف آواز اٹھاتے ۔لوگوں کو اسلام کی اصل روح سے آگاہ کرتے ۔ چنانچہ انھیں یہاں سے ایک بے کجادہ اونٹ پرسوار کرکے خلیفہ کے پاس روانہ کردیا گیا ۔جب آپ مدینہ پہنچے تو آپ ی رانیں زخمی تھیں ۔اب پھر خلیفہ کو ابوذر کی نکتہ چینی کاسامنا تھا ۔ لہذا انھوں نے ان کو ایک ویران مقام "ربذہ " کی طرف جلاوطن کردیا ۔ وہیں یہ صحابی رسول عالم مسافرت میں اس دنیا سے رخصت ہوا ۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں خلیفہ وقت نے ایک اور شیعہ صحابی حضرت عمار یاسر کو بھی تشدد کانشانہ بنایا ۔

دراصل یہ اور دوسرے مخلص صحابہ کرام تھے کہ جو اسلام کی تعلیمات کو مسخ ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے اور اس بات کا گہرا شعور رکھتے تھے کہ یہ سب کچھ محض اس لئے ہورہا ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد خلافت ان کے اصل جانشین سے جدا کردی گئی تھی ۔تیسری خلافت کے دوران نوبت یہان تک پہنچی کہ کوفہ کے گورنے ولید بن عتبہ نے نشہ کی حالت میں صبح کی نماز دو کے بجائے چار رکعت پڑھادی اور پھر ایک مرتبہ جھوم کر نمازیوں کی طرف متوجہ ہوا کہ کہو تو دورکعت اور پڑھا دوں ۔بیت المال کو جو کبھی اللہ کا مال سمجھا جاتا تھا اب خلیفہ کو ذاتی ملکیت بن چکا تھا اور پھر ستم یہ کہ اس داد ہش کادائرہ صرف بنو امیہ تک محدود تھا ۔۔۔۔ مروان بن حکم کہ جسے اور اس کے باپ کو رسول اللہ نے مدینہ سے نکال دیا تھا ۔ اب پھر واپس بلالئے گئے خلیفہ نے مروان جیسے سیاہ کارکو اپن مشیر خاص بنالیا (تاریخ گواہ ہے کہ یہی مروان خلیفہ کو لے ڈوبا )یہ وہ صورت حالات تھی کہ جس پر عوامی رد عمل ہونا ضروری تھا کیونکہ ابھی ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی کہ جنھوں نے رسول اللہ کازمانہ دیکھا تھا اور وہ اسلام کی اصل روح کو سمجھتے تھے

۱۹

اور پھر وہ صحابہ کرام کہ جنھیں اہلبیت کی طرف رجحان رکھنے کے سبب شیعہ صحابہ کہا جاسکتا ہے اس عوامی رد عمل میں پیش پیش تھے مگر ابن سبا کہ جو اسی دور کی شخصیت بتائی جاتی ہے کے بارے میں اس عوامی رد عمل کے حوالے سے بات کیجاتی ہے تو اس کا کردار افسانوی لگتا ہے ۔۔۔خلیفہ سوم یا ان کے عمال کے خلاف جتنی شورشیں ہوتیں ان میں ابن سبا نام کا کوئی شخص نظر نہیں آتا ۔ہر جگہ مالک اشتر ،عمرو بن الحمق ،محمد بن ابی بکر (رضی اللہ علیھم) ہی پیش پیش نظرآتے ہیں ۔

حضرت عثمان کے بعد مسلمان حضرت علی (ع) کے ہاتھ پر بیعت کے لئے ٹوٹ پڑے اور جب پہلی مرتبہ صحیح خلافت قائم ہوگئی تو وہی گروہ اس کے خلاف سرگرم ہوگیا کہ جو شروع ہی سے نہیں چاہتا تھا کہ خلافت کی مسند پر علی (ع) نظر آئیں،چنانچہ قصاص خون عثمان کا نعرہ لگا کر پہلے عائشہ بنت ابی بکر دختر خلیفہ اول حضرت علی (ع) کے مقابلہ پر آئیں اور پھر کچھ عرصہ کے بعد شام کے گورنر معاویہ بن سفیان نے ان سے جنگ کی ۔ ان دونوں جنگوں میں عام مسلمانوں کے علاوہ شیعہ صحابہ کرام کثیر تعداد میں اپنے امام کے ہمرکاب تھے ۔ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد ان کے بڑے بیٹے جناب حسن علیہ السلام منصب امامت پر فائز ہوئے تو شیعہ ان سے وابستہ ہوگئے اور جب آپ نے معاویہ سے صلح کرلی تو بھی شیعہ آپ سے وابستہ رہے ۔

حضرت امام حسن علیہ السلام جب تک زندہ رہے معاویہ کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے اور آخر کار اس نے ان کی جان لے کر ہی چھوڑ دی ۔علی الاعلان کچھ نہیں کرسکتا تھا تو زہر دغا سے شہید کردیا اور یہ سمجھ لیا کہ اب بادشاہت اس کی ہے ۔چنانچہ مرنے سے کچھ پہلے اپنے منحوس فرزند یزید لعنت اللہ

۲۰