شیعہ کافر -تو- سب کافر

شیعہ کافر -تو- سب کافر0%

شیعہ کافر -تو- سب کافر مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 101

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 101 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27788 / ڈاؤنلوڈ: 2688
سائز سائز سائز
شیعہ کافر -تو- سب کافر

شیعہ کافر -تو- سب کافر

مؤلف:
اردو

علیہ کو ولی عہد نامزد کردیا ۔اپنی زندگی ہی میں اس کی ولی عہدی پر بیعت لے لی مگر حسین ابن علی علیھما السلام سے ایسے مطالبہ کی جراءت نہ کرسکا ۔

معاویہ کی وفات کے بعد یزید تخت نشین ہوا اوراس نے مدینہ کے گور نر کو لکھا کہ حسین ابن علی (علیھما السلام) سےبیعت کامطالبہ کیا جائے کہاں نواسہ رسول حسین ابن علی (علیھماالسلام) اورکہاں ابو سفیان کے پوتے یزید بن معاویہ کی بیعت -

چہ نسبت خاک راباعالم پاک

نواسہ رسول نے بیعت یزید کو ٹھوکر مارا اور خطرات سے بے نیاز ہو کر نکل کھڑے ہوئے تویہاں بھی شیعہ ساتھ تھے ۔۔۔۔۔

بہتر جانوں نے اس طرح جام شہادت نوش کیا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی ۔غیرت وعقیدت کامسئلہ نہ ہوتا تو جان بھی بچتی اور انعام بھی ملتا ۔

حسین علیہ السلام شہید ہوگئے ۔ ہزاروں شیعہ مختلف وجوہ کی بنا پر نصرت امام نہ کرسکے ۔بعد شہادت حسین (ع) ،سلیمان بن صرد کی سرکردگی می روضہ حسین (ع) پر گئے اور رات بھر گریہ زاری کرتے رہے ۔صبح ہوئی تو اہلبیت کے دشمنوں سےٹکرانے کے لئے چل دئیے ۔ اس اندوہناک واقعہ نے ان کی ضمیر کو اس طرح جھنجھوڑ ا تھا کہ اب ان میں جینے کی خواہش ہی ختم ہوگئی تھی ۔چنانچہ وہ دشمن کے خاتمہ پر تل گئے اور اس وقت تک دشمن کامقابلہ کرتے رہے جب تک کہ خود ختم نہ ہوگئے اور اس وقت تک دشمن کامقابلہ کرتے رہے جب تک کہ خود ختم نہ ہوگئے ۔چند افراد کے علاوہ سب ہی نے جان دیدی

ممتاز شیعہ مختار ثقفی کہ جو شہادت حسین علیہ السلام کے وقت پابند سلاسل تھے کی بیڑیاں کٹیں تو انھوں نے بھی قاتلان حسین (ع) سے انتقام لینے کی ٹھانی اپنے گرد ہزاروں شیعہ اکٹھا کئے ۔پھر چن چن کر قاتلان حسین (علیہ السلام)کو تہہ تیغ کیا

۲۱

اس خونریزی کے دوران ہزاروں شیعوں نے جان ومال کی قربانی دی سانحہ کربلا کے بعد شیعیت کو ایک نئی زندگی ملی ۔قربانی کا ایک نیا جذبہ اور ولولہ ولائے اہلبیت کی بھر پور روشنی !

سانحہ کربلا کے تقریبا دوسال بدع یزید واصل جہنم ہوا ۔پھریزیدوں کی لائن لگ گئی ۔چہرے الگ الگ تھے مگر سب یزید ۔تاریخ کا کیسا جبر ہے کہ کس مسند رسالت پر خلیفہ رسول کے نام سے کیسے کیسے کوڑھی چہرے نظر آتے ہیں ۔ مردان بن حکم ،عبدالملک بن مروان ،ولید بن عبد الملک ہشام بن عبد الملک اور پھران کے خونین گورنروں کا سلسلہ ،سب سے بڑھ کر عراق کا گورنر حجاج بن یوسف ،جس کے بارے میں مولانا مودودی عاصم بن ابی النجود کا قول بیان کرتے ہیں کہ " اللہ کی حرمتوں میں کوئی حرمت ایسی نہیں رہ گئی جس کا ارتکاب اس شخص نے نہ کیا ہو اور پھر مولانا وموصوف حضرت عمربن عبدالعزیز کا قول بیان فرماتے ہیں کہ " اگر دنیا کی تمام قومیں خباثت کا مقابلہ کریں اور اپنے اپنے سارے خبیث لےآئیں تو ہم تنہا حجاج کو پیش کرکے ان پر بازی لے جاسکتے ہیں ۔(خلافت و ملوکیت ص ۱۸۵، ۱۸۶)

پھر آگے چل کر کہتے ہیں کہ یہ ظلم وستم اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں ایک مرتبہ حضرت عمربن عبدالعزیز چیخ اٹھے کہ۔

"عراق میں حجاج ،شام میں ولید مصر میں قرہ بن شریک ،مدینہ میں عثمان بن حیان ، مکہ میں خالد بن عبداللہ القسری ،خداوند تری دنیا ظلم سے بھر گئی ہے ، اب لوگوں کو راحت دے "۔(خلافت وملوکیت ۔۱۸۷ ۔ابن اثیر جلد ۴ ص ۱۳۷)

۲۲

کو مرتے وقت وصیت کی کہ حجاج بن یوسف کا ہمیشہ لحاظ کرتے رہنا ۔کیونکہ وہی ہے جس نے ہمارے لئے سلطنت ہموار کی ، دشمنوں کو مغلوب اور ہمارے لے خلاف اٹھنے والوں کو دبایا ۔"

(ابن اثیر جلد ۴ ص ۱۰۳ البدایہ جلد ۹ ص ۶۷ ،ابن خلدون جلد ۳ ص ۵۸)

ان یزون سے پہلے جن حضرات کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ تو غلطی کرتے نہیں تھے ۔ خطا اجتہادی کرتے تھے ،مگر ان وحشی درندوں کے بارے میں کہ جن کے مظالم پر عمر بن عبدالعزیز بے اختیار چیخ اٹھے کہ خداوند تری دنیا ظلم سے بھر گئی ،اب تو انھیں راحت دے ۔یہ مولوی کیوں خاموش ہے ؟ ان بے رحم خلیفوں اور ان کے درندہ صفت گورنروں کے ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے والے شیعہ کو تو اسلام دشمن اور فسادی کہا جاتا ہے مگر ان ظالموں کےبارے میں زبان خاموش ہے ۔۔۔۔۔۔بات یہ ہے کہ ظلم کی حمایت ان کی میراث ہے ۔

ہندوستان میں بھی شیعوں پر کچھ ظلم نہیں ڈھائے گئے ۔ اس سلسلہ میں فیروزشاہ تغلق کا نام خاص طور سے قابل ذکر ہے جس نے شیعوں کو قتل کرایا ۔مختلف نوعیت کی سزائیں دیں ۔ جزیہ تک عائد کردیا ۔

اور اب پاکستان میں سود اعظم اہلسنت کےنام سے ایک یزیدی گروہ پھر سرگرم عمل ہے ،

اس سلسلہ کلام کے آخر میں ہم یہ عرض کرتے ہوئے کہ شیعیت مظلومیت اور مظلوم کی حمایت کی تاریخ ہے مولانا مودودی کی تحریر پیش کرتے ہیں "

"بنو امیہ کے خلاف ان کےطرز حکومت کی وجہ سے عام مسلمان میں جو نفرت پھیلی اور اموی وعباسی دور میں اولاد علی (ع) اور ان کے حامیوں پر ظلم وستم کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں ہمدردی کے جو جذبات پیدا ہوئے انھوں نے شیعی دعوت کو غیر معمولی طاقت بخش دی " (خلافت وملوکیت ص ۲۱۱)

آپ کایہ فرمانا کہ فتنہ روافض نے خمینی کہ شہ پر سر ابھارا ہے ۔۔۔۔۔۔تو جناب یہ دبا ہوا کب تھا ،یہ تو آزادی کا دور ہے ۔بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میں بھی یہ سرابھارتا رہا ہے ۔اور کٹتا رہا ہے ۔ ۔۔۔۔پاکستان اور ہندوستان کے شیعوں نے کون سی نئی

۲۳

گستاخی کی ہے جس کی بنا پر سر " ابھارنے " کا محاورہ استعمال کیا جارہا ہے ۔مجلس ،ماتم اور جلوس جو پہلے تھا سواب بھی ہے اور اسی طرح سے ہے کہ جیسے پہلے تھا ۔۔۔۔۔۔دراصل آپ کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ شیعیت نے ایران کے اسلامی انقلاب کی وجہ سے عالمی سطح پر اپنے آپ کو پہچنوایا ہے ۔آپ کو تکلیف یہ ہے کہ اسلام اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ ہوا تو شیعہ کے ہاتھوں ۔اور صرف ایران ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر اس کے اثرات پڑے ہیں ۔خاص طور سے شیعوں میں ہر جگہ ایک انقلابی طبقہ وجود میں آگیا ہے ۔۔۔۔۔آپ کی پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کی وجہ سے عرب ریاستوں کے بد معاش شیخوں اور سعودی عرب کے شاہی لٹیروں کو خطرات لاحق ہیں ۔۔۔۔۔اور یہ سب آپ کے آقا ہیں ۔

آپ کے دلوں میں ابو سفیان والا اسلام نہ ہوتا تو آپ بھی اسلامی انقلاب سے عام مسلمانوں کی طرح خوش ہوتے ، مگرآپ خوش ہونے کے بجائے عام مسلمانوں کو آقائےخمینی اور اس انقلاب سے بد ظن کرنے کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کررہے ہیں ۔

آپ نے ارباب اقتدار سے بھی گزارش کی ہے کہ وہ شیعہ نوازی کا رویہ

۲۴

چھوڑیں اور شیعوں کے ساتھ وہ معاملہ کریں جو کسی اقلیت کے ساتھ کیاجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔کیا آپ کو نہیں معلوم کہ ارباب اقتدار تعلیم یافتہ ہیں وہ مسلمانوں کے ساتھ اقلیت کاسا سلوک کیسے کرسکتے ہیں ۔ پڑھے لکھے باشعور حکمراں تو اقلیتوں کے جذبات کازیاد ہ خیال رکھتے ہیں تاکہ انھیں یہ احساس نہ ہو کہ محض اقلیت ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے ۔ آئین کی رو سے بھی بلا امتیاز مذہب وعقیدہ تمام شہریوں کویکساں حقوق حاصل ہیں ۔ دراصل آپ کو شیعوں کے معاملے میں اقلتیں اس لئے یاد آئیں کہ آپ ذہنی طور سے اسی سڑے ہوئے زمانہ کی یادگار ہیں کہ اقلیتوں کی ذمی بنا کر ان سے غلاموں جیسا برتاؤ کیا جاتا تھا اور آپ شیعوں کو بھی دوسرے درجہ کا شہری بنانا چاہتے ہیں ۔

ہم آپ کو بتا دینا چاہتے ہیں اور پہلے بھی بتاتے رہے ہیں کہ ہوش میں آئیے ۔سعودی ریال کا اتنا نشہ اچھا نہیں ۔آپ اس نشہ میں اپنے گھر کو کیوں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ یہ آپ کسے اقلیت قرار دے رہے ہیں ؟ ملک کی چوتھائی آبادی کو اور وہ بھ کوئی آپ جیسے خرکاروں کی آبادی نہیں بلکہ دانشوروں ،ادیبوں ،فنکاروں ،سیاست دانوں اور اعلی عہدیداروں کی آبادی ہے ۔آپ اس کریم کو نکال دیں گے تو آپ کے پاس بچے گا کیا ؟ یاد رکھئیے کہ ان کی وفا داریاں ملک سے اسی وقت تک برقرار رہتی ہیں کہ جب تک انھیں اپنے مخصوص روایات کے ساتھ عزت و آبرو سے جینے دیا جائے ورنہ بغداد سے لالوکھیت تک ایک ہی کہانی ہے ۔۔۔۔۔بات زیادہ بڑھی تو پھر نہ کہیں جماعت اسلامی نظرآئے گی اور نہ سواد اعظم اور نہ ہی ہفت روزہ تکفیر ۔

۲۵

باعث تکفیر

دیوبند کے فتنہ پرداز منظور نعمانی نے شیعہ اثنا عشریہ کے تین خاص عقیدوں کا ثبوت (بزعم خود)ان کی بنیادی اور مستند کتابوں کے حوالہ سے پیش کرکے اصحاب فتوی سے ان کے بارے میں کفر کے فتوے لئے ہیں ۔ اس کے بقول ان تینوں عقیدوں کی نوعیت یہ ہے کہ ان سے دینی حقیقتوں کی تکذیب ہوتی ہے جنھیں علماء کی اصطلاح میں " قطعیات: اور "ضروریات دین" کہا جاتا ہے اور وہ تین عقیدے یہ ہیں ۔

۱:- شیعہ اثنا عشریہ "شیخین " یعنی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو کافر سمجھتے ہیں ۔

۲:- شیعہ اثناعشریہ قرآن میں ہرقسم کی تحریف کے قائل ہیں ۔

۳:- شیعہ اثنا عشریہ عقیدہ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کےمنکر ہیں ۔

۱:- عقیدہ تکفیر شیخین:

مسلمانوں کے ہاں طریقہ ہے کہ جب کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرنا چاہتا ہے تو اس سے کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت پڑھوایا جاتا ہے اور اس طرح سے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتاہے ۔پھر اسے ایمان وعقیدہ کی باتیں سکھائی جاتی ہیں ۔ایمان مفصل ومجمل کی تعلیم دی جاتی ہے ۔

۲۶

ایمان مفصل :-

آمنت باللہ وملآئکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر والقدر خیرہ وشرہ من اللہ تعالی والبعث بعد الموت ۔

میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کی کتابون پر ار اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے اور مرنے کے بعد ج اٹھنے پر ۔

یہاں کہیں نہیں ہے کہ میں ایمان لایا ابو بکر کے ایمان لانے پر اور میں ایمان لایا عمر کے ایمان لانے پر ۔۔۔۔۔۔تو پھر کسی مسلمان کو ان دونوں کی تکفیری پرکس اصول کے تحت کافر قرار دیا جاسکتا ہے ؟

ایمان مجمل:-

" آمنت بااللہ کما ھو باسمائہ وصفاتہ وقبلت جمیع احکامہ اقرار باللسان وتصدیق بالقلب "

میں ایمان لایا اللہ پر جیسا کہ وہ اپنے ناموں اور اپنی صفات کے ساتھ ہے اور میں نے اس کے سارے حکموں کو قبول کیا ۔زبان سے اقرار ہے اور دل سے یقین ہے ۔

یہاں پر بھی کہیں ابو بکر و عمر کا تذکرہ نہیں ہے ،تاہم سارے حکموں کو قبول کرنے والی بات قابل غور ہے ۔۔۔۔مگر پورے قرآن میں کہ یہ حکم خدا کو معلوم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے کہیں اشارۃ " بھی ابو بکر وعمر کا تذکرہ نہیں ہے ۔

دراصل یہ تاریخ کا مسئلہ ہے مگر دیوبند کے منظور نعمانی نے اسے قرآن

۲۷

کا مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ اثنا عشری شیعہ کو کافر قراردیا جاسکے اس سلسلہ میں اس نے قرآن کی بہت سی آیتیں اس دعوے کے ساتھ پیش کی ہیں کہ یہ آیتیں حضرات شیخین کے بارے میں نازل ہوئیں اور یہ ثابت کرے کی کوشش فرمائی ہے کہ شیخین کے ایمان سے انکار کا مطلب یہ ہے کہ ان دینی حقیقتوں کی تکذیب کی جارہی ہے کہ جنھیں علماء کی اصطلاح میں" قطعیات " اور "ضروریات دین" کہا جاتا ہے ۔

یہ بات ایک عام پڑھا لکھا آدمی بھی جانتا ہے کہ قطعی بات وہ کہلا تی ہے کہ جس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو اور ضروریات وہ ہوتی ہے ہیں کہ جن کے بغیر کہیں کوئی رخنہ پڑے ۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ قرآن میں دور رسالت کی صرف دوہستیوں کا ان کے نام کے ساتھ تذکرہ گیا گیا ہے ،ابو لہب و زید بن حارثہ ۔۔۔۔ ان کے علاوہ اس دور کا کوئی نام قرآن میں نظر نہیں آتا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض آیتیں ایسی ہیں کہ جن میں شیخین کےبارے میں بغیر نام لئے کچھ کہا گیا ہے ۔مگر جو کچھ کہا گیا ہے وہ قطعی نہیں ،چنانچہ مفسرین نے اپنے اپنے فہم وفراست اور رجحانات کے مطابق ان باتوں سے معافی ومطالب اخذ کئے ہیں ۔ ۔۔۔۔ اگر کسی آیت میں اللہ تعالی کا صحابہ کرام سے راضی ہوجانے کا تذکرہ ملتاہے تو ساتھ ساتھ اس "رضا " پر گفتگو کی بھی خاصی گنجائش ہے ۔۔۔۔غار والی آیت میں جہاں مفسرین حضرت ابو بکر کی فضیلت کا پہلو نکالتے ہیں وہاں ایسے مفسرین بھی ہیں کہ اسی آیت سے وزنی دلیلوں کےساتھ ان کے ایمان کی کمزوری کا پہلو بھی نکالتے ہیں ۔

۲۸

" ایمان اوراسلام اور کفر کی حقیقت اور ان کی حدود "کے عنوانات کے تحت منظور نعمانی نے ایک عبارت لکھی ہے اور اسے لکھ کر وہ خود آپ اپنے جال میں آگئے ۔۔۔۔۔۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے رسول کو دل سے اللہ کارسول مانا جائے جو وہ اللہ کی طرف سے بتلائیں اس سب کی تصدیق اور اس کو قبول کیا جائے اور اس پر ایسا یقین کیاجائے جس میں شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو ۔ ان کی کسی ایک بات کا انکار اور یقین نہ کرنا موجب کفر ہوگا ۔جن مسلمانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ نہیں پایا اور ان کوآپ کی تعلیم بالواسطہ پہنچی (جیسا کہ ہمارا حال ہے ) ان کے لئے یہ حیثیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف انھیں تعلیمات اور احکام کی ہوگی جو ایسے قطعی اور یقینی طریقہ سے ثابت ہیں جن میں شک وشبہ یا تاویل کی گنجائش نہیں ۔ مثلا یہ بات کہ حضور نے شرک وبت پرستی کے خلاف توحید کی تعلیم دی ، قیامت وآخرت ،جنت ودوزخ کی خبروں ، ایک مستقل مخلوق کی حیثیت سے فرشتوں کے وجود کی اطلاع دی ۔

قرآن پاک کو ہمیشہ محفوظ رہنے والی اللہ کی کتاب اور اپنے کو اللہ کا آخری نبی بتلا یا ۔جس کے بعد اللہ کی طرف سے کوئی نبی نہیں آئے گا ،اور مثلا پانچ وقت کی نماز ، رمضان کے روزوں اور زکواۃ وحج کےفرض ہونے کی تعلیم دی اور اس طرح کی بہت سی دینی حقیقتیں اور دینی احکام ہیں جن کے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہونے کے بارے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں تو کسی کے مومن ومسلم ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ایسی تمام باتوں کی اپنے علم کے مطابق (اجمالی یا تفصیلی )تصدیق کی جائے ۔ان کو دل سے مانا جائے ، قبول کیا جائے '۔

۲۹

اب اس تحریر کے بعد ایمان شیخین پرایمان لانے کی "قطعیات " میں شمار کرنے کی گنجائش رہ جاتی ہے ؟ ان کے بارے میں تو کوئی حکم ہی نہیں ہے نہ قطعی نہ غیر قطعی اللہ کے حکموں کو قبول کرنے ( ایمان مجمل کے مطابق) کا دوسرا بڑا ذریعہ حدیث ہے اور حدیث میں بھی کہیں یہ نہیں ہے کہ اللہ کا حکم ہے کہ خبردار شیخین کے ایمان پر شک نہ کرنا ورنہ تم کافر ہوجاؤگے ۔

اگر مطلب براری کے لئے ان حدیثوں کا سہار ا لیا جائے کہ جن میں شيخین کے فضائل بیان ہوئے ہیں تو یہ بات بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ دور بنی امیہ میں سیاسی ضرورت کے تحت شیخین کی فضیلت کے لئے بہت سی حدیثیں گھڑی گئی ہیں اور پھر ایسی حدیثیں بھی ہیں جن سے شیخین کی شخصیت کے تاریک پہلو سامنے آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی قطعی بات تونہ ہوئی ۔پھر ایمان شیخین پر یقین کو قطعیات کیسے کہہ سکتے ہیں ۔؟

آپ کے خیال میں صحابہ کرام پر ضروریات دین کی اصطلاح کا بھی اطلاق ہوتا ہے ۔کیونکہ "دین "صحابہ ہی کے ذریعہ سے مسلمانوں تک پہنچا ہے مگر ہم یہ عرض کریں گے کہ آپ نے تو حصول دین کے لئے خود اپنی پسند کاراستہ اختیار کیا ہے ۔۔۔۔یہ آپ کی پسند معاملہ ہے اسلام کا نہیں ۔۔۔۔آپ نے خود سنگین غلطی کی اور شیعوں سے کہتے ہیں کہ تم کیوں نہیں کرتے ؟ آپ نے ہر صحابی کو معتبر جانا ، محض اس لئے کہ وہ رسول اللہ پر ایمان لایا اور انھیں دیکھا حجتہ الوداع تک صحابہ کی تعداد کم از کم ایک لاکھ تک پہنچ گئی تھی تو کیا یہ ممکن ہے کہ ان میں سے ہر شخص "عادل" ہو ۔ پھر یہ کیا تماشہ ہے "الصحابہ کلھم عدول" یعنی تمام صحابہ عادل ہیں ،اور پھر اس کے آگے ایک او ر قیامت "اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم "

۳۰

یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ۔ ان میں سے جس کی اقتد کروگے راستہ پاؤگے ۔

ذرا سوچئے تو کہ آج کے دور میں اگر رسول اللہ صلعم کی بیعثت ہوئی تی تو کیا گدھے گاڑی والا ،بس کنڈیکٹر ،دھوبی ،نائی ،قصائی ،ڈاکٹر ،انجینئر پروفیسر اور تاجر محض رسول اللہ پر ایمان لانے اور آپ کی زیارت کی وجہ سے صحابی ہوجاتا اور ہر ایک اسلام سے وابستگی، ذہنی سطح ، علمی استعداد ،نیکی وپارسائی غرض ہر لحاض سے برابر ہوجاتا اور پھر اپنی مرضی پر ہوتا کہ جس کی چاہے اقتدا کرے ،چاہے گدھے گاڑی والے کو اپناہادی بنادلے اور چاہے تو پروفیسر کو بات ایک ہی ہے ۔

آپ تو دور دراز کے تعلق رکھنے والوں کو بھی شرف صحابیت سے نوازتے ہیں اور ہر ایک کو ہدایت ورہنمائی کے قابل سمجھتے ہیں مگر سچی بات تویہ ہے کہ رسول اللہ سے قریب اور بعض بہت ہی قریب رہنے والے صحابہ سےبھی ایسے افعال سرزد ہوئے کہ جن کی بناپر ہر شخص کوان کے بارے میں اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے ۔

تاریخ داں اچھی طرح جانتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کس نے رسول کی رسالت پر شک کیا اورگستاخانہ لہجہ میں بات کی ، اور کس نے دوران علالت انھیں سامان کتابت فراہم کرنے سے منع کیا اور کہا کہ یہ شخص ہذیان بک رہا ہے ،ہمیں کتاب خدا کافی ہے اور کس کس نے رسول اللہ کے حکم سے روگردانی کرتے ہوئے جیش اسامہ میں شامل ہونے سے پہلو تہی کی اور کتنے صحابی ایسے تھے کہ جو رسول اللہ صلعم کا جنازہ چھوڑ کر خلافت کا مسئلہ طے کرنے سقیفہ بنو ساعدہ چلے گئے تھے ۔

۳۱

وہ کون سے بزرگ تھے جو کہ احد کے دن جب مسلمانوں نے راہ فرار کی ، پہاڑ پر بزکوہی کی طرح کودتے پھرتے تھے اور وہ کون صاحب تھے کہ جو ایسا بھاگے کہ تین دن کے بعد واپس ہوئے ، اور وہ کون سے حضرات تھے کہ جنھوں نے خیبر سے راہ فرار اختیار کی ۔ کہاں تک لکھا جائے ،اس طرح کی بیسوں باتیں خاص اور عام صحابہ سے منسوب ہیں ۔ ۔۔۔۔۔یہ خالص تاریخی مسئلہ ہے ، اب جس کا دل چاہے ان باتوں پر یقین نہ کرے اور ان سب کواپنا ہادی بنالے اور جس کا دل چاہے ان باتوں پر یقین کرے اور انھیں چھوڑ دے اور اگر صحابہ ہی سے دلچسپی ہے تو ایسے صحابہ کو پکڑئیے کہ جن کا دامن صاف ہے اور "ضرورت دین" کا مسئلہ حل کرلیجئے ۔ ورنہ اصل " ضرورت دین " تو رسول اللہ کا گھرانہ ہے ۔رسول اللہ نے تو بتا بھی دیا تھا کہ میں اپنے بعد دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ۔ایک کتاب اور دوسرے اپنے اہلبیت ان سے متمسک رہوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے اور علم کا دروازہ بھی دکھا دیا تھا مگر مسلمانوں کی قسمت کہ انہوں نے اس دروازے کو خود اپنے اوپر بند کرلیا ، قرآن کو پکڑ لیا اور اہلبیت کو چھوڑ دیا ، اور شیعہ سے بھی یہی کہتے ہیں کہ تم بھی انھیں چھوڑ دو اور انہیں " ضروریات دین" سمجھو کہ جنہیں ہم سمجھتے ہیں ، ورنہ تم ٹھہرے کافر۔

اگر بعض صحابہ وامہات المومنین کو نہ ماننے کی وجہ سے آپ کسی کو کافر ٹھہرائیں تو ٹھیک ہے ! ٹھہر ائیے ۔ہم بھی کچھ حوالے حدیثوں سے اور کچھ شہادتیں تاریخ سے پیش کئے دیتے ہیں اور فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ دیکھیں کس کس کو کافر قراردینے کی جراءت کرتے ہیں ۔

اس تفصیل میں جائے بغیر کہ رسول کی لخت جگر بی بی فاطمہ زہرا کو شیخین کی طرف سے کیا کیا دکھ پہنچے ،ہم صرف اتنا بتائیں گے کہ بی بی انہی دکھوں

۳۲

کے سبب رسول اللہ کے انتقال کےبعد ۶ مہینے سے زیادہ زندہ نہ رہسکی اور اس پورے عرصہ میں فریاد کرتی رہی اے بابا جان ! آپ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد مجھ پر اتنے دکھ پڑے کہ اگر دن پر پڑتے تو رات ہوجاتا ۔ ہم ان دکھوں کی تفصیل میں اس لئے نہیں جارہے ہیں کہ مناظرے کی کتابون میں اس پر بڑی بحثیں ہوچکی ہیں اور اس چھوٹی سی کتاب میں اس کی گنجائش بھی نہیں ہے ۔ ہم یہاں صرف دوحقیقتوں کا تذکرہ کریں گے ۔

پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ فاطمہ بنت رسول (س) ابو بکر سے اس قدر ناراض تھیں کہ اپنی وفات تک ان سے کلام نہیں کیا اور وصیت فرماگئیں کہ ابو بکر ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں ۔اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ رسول نے ارشاد فرمایا تھا کہ جس نے فاطمہ (س) کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا ۔

حدیث شریف :-

"فوجدت فاطمة علی ابی بکر فی ذالک فهجد ته فلم تکلم حتی توفیت وعاست بعد النبی صلی الله علیه وسلم ستة اشهر فلما توفیت دفنها زوجها علی لیلا ولم یوذن بها ابا بکر وصلی علیها

(بخاری کتاب المغازی ،غزوہ خیبر)

ترجمہ :- تو حضرت فاطمہ اس مسئلہ میں ابو بکر سے ناراض ہوگئیں اور انہوں نے اپنی وفات تک حضرت ابو بکر سے گفتگو نہ کی ، حضرت فاطمہ آنحضرت کی وفات کے بعد ۶ ماہ زندہ رہیں ، جب ان کا انتقال ہوگیا تو ان کے شوہر حضرت علی (ع) نے انہیں رات ہی میں دفن کر دیا اور انہیں شریک ہونے کی اجازت دی اور خود ہی ان کی نماز جنازہ پڑھ لی ۔

"ابو الولید حدثنا ابن عینینه عن عمرو بن دینار عن ابن

۳۳

ابی ملیکة عن المسور ابن محزمه رضی الله عنها ان رسول الله صلی الله علیه وسلم قال فاطمة بضعة منی فمن اغضبها اغضبنی "(بخاری شریف ،کتاب الانبیاء حدیث نمبر۹۵۳)

ترجمہ:- ابو الولید ابن عینییہ ، عمر بن دینار ،ابن اب ملیکہ حضرت مسور ابن محزمہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فاطمہ (س) میرے گوشت کا ٹکڑا ہے ، جس نے فاطمہ کو غضبناک کیا اس نے مجھ کو غضبناک کیا ۔ اب غور فرمائیے کہ رسول اللہ کو غضب ناک کرنے والوں کا کہاں ٹھکانا ہے ؟ ایک اور مثال کہ جناب رسول خدا (ص) نے فاطمہ کے شوہر اور اپنے عم زاد کہ جنہیں مسلمان خلیفہ راشد سمجھتے ہیں سے بغض رکھنے والوں کےبارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے ۔ ازالۃ الخلفاء میں ہے کہ :-

سلمان فارسی سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے ان سے پوچھا ، تم حضرت کو کیوں چاہتے ہو ؟ انھوں کہا کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ جس نے علی علیہ السلام سے دوستی کی اس نے مجھ سے دوستی کی اور جس نے علی علیہ السلام سے بغض کیا اس نے مجھ سے بغض کیا ۔"

"عمار بن یاسر سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے سنا ۔آپ حضرت علی سے فرمارہے تھے کہ مبارک ہیں وہ جو تم کو دوست رکھتے ہیں اور تمہارے معاملہ میں سچ کہتے ہیں اور بربادی ہے ان کے لئے جو تم سے بغض رکھتے ہیں اور تمہاری بابت جھوٹ بولتے ہیں ۔

ترمذی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ ہم (انصار )منافقوں

۳۴

کو حضرت علی علیہ السلام کے بغض سے پہچانتے ہیں "

"ام سلمہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق حضرت علی علیہ السلام سے دوستی نہ کرے گا اور نہ کوئی مومن ان سے بغض رکھے گا "۔

یہ تمام روایتیں شاہ ولی اللہ دہلوی نے ازالۃ الخلفاء مقصد دوم مآثر علی ابن ابی طالب میں تحریر فرمائی ہیں ۔ اب یہ سواد اعظم والے جانیں کہ کیا شاہ ولی اللہ صاحب بھ کسی یہودی سازش کا شکار ہوگئے تھے کہ انہوں نے یہ روایتیں نقل کردیں ۔

ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رسول کی زندگی ہی میں لوگوں کے بغض کا شکار تھے اور بغض رکھنے والے ان روایات کی رو سے ظاہری مسلمان تھے ۔

رسول اللہ کی آنکھ بند ہوتے ہی حضرت علی مرتضی کے خلاف بغض وحسد کا اظہار ہونے لگا مگر آج سے چودہ سو برس بعد اس کا ادراک عام مسلمانوں کے لئے بڑا مشکل ہے ، مگر تاریخ میں ایک ایسا موڑ بھی آگیا کہ علی علیہ السلام کے خلاف تلواریں نکل آئیں ۔۔۔۔۔ تو اب کیا گنجائش رہ جاتی ہے کہ علی سے دشمنی رکھنے والوں کو نہ پہچانا جائے ۔

قول رسول ہے کہ کوئی مومن علی علیہ السلام سے بغض نہیں رکھے گا ،مگر اسے کیا کیجئے کہ ام المومنین صحابی رسول وخلیفہ راشد کے مقابلے پر ہزاروں مسلمانوں کو ساتھ لے کر میدان جنگ میں تشریف لے آئیں اور ایسی جنگ کی کہ جس کے نتیجہ میں ہزاروں مسلمانوں کے سرتن سے جدا ہوگئے ۔

یہ جنگ تاریخ میں "جنگ جمل " کے نام سے مشہور ہے ۔۔۔۔۔۔۔اب

۳۵

سواد اعظم کے سیاہ قلب مفتی بی بی عائشہ کے بارے میں کیا فتوی دیں گے ؟

قول رسول ہے کہ یاعلی بربادی ہے ان کے لئے جو تم سے بغض رکھتے ہیں اور تمہاری بابت جھوٹ بولتے ہیں ۔

معاویہ بن ابی سفیان کہ جنہیں بھی صحابی کادرجہ دیا جاتا ہے نے ہمیشہ علی سے بغض رکھا اور ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیا ۔ان جیسے خلیفہ راشد کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور صفین کے میدان مین ایک خونریز جنگ لڑی پھر جب شکست سے قریب ہونے لگے تر بڑے مکر کے ساتھ قرآن کو درمیان میں لائے اور علی علیہ السلام کو جنگ بند کرنے پر مجبور کردیا ۔اور پھر اپنی فریب کاریوں کے طفیل ایک خلیفہ راشد کی موجودگی میں اسلامی ریاست کے ایک بڑے علاقہ پر خود مختار حکمراں کی حیثیت سے قابض رہے اور اس پر بس نہیں کیا بلکہ حضرت علی علیہ السلام کی حدود ریاست میں شام کے بھیڑیا صفت سالار بسر بن ارطاۃ کو قتل وغارت گری کی چھوٹ دے رکھی تھی ۔ یہ بھیڑیا جب موقع ملتا بھیڑیوں کی فوج لے کر حضرت علی علیہ السلام کے علاقے میں گھس جاتا اور علی علیہ السلام کے فوجی دستے پہنچے تویہ فرار ہو جاتا اور اپنے پیچھے ظلم کی ایک نئی داستان چھوڑ جاتا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس درندے نے عبیداللہ ابن عباس کے دو معصوم بچوں کو بے جرم وخطا ذبح کر دیا ۔

معاویہ کے جرائم یہیں پر ختم نہیں ہوجاتے ہیں بلکہ یہ شخص تو صحابی رسول حجر بن عدی اور ان کسے ساتھیوں کوحب علی کے جرم میں قتل کرادیتا ہے ، معاویہ کی اس حرکت پر حضرت عائشہ بھی اظہار ناراضگی کرتی ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔ایسی روائتیں بھی ملتی ہیں کہ امام حسن علیہ السلام کی شہادت اس زہر دغا سے ہوئی کہ جس کا انتظام اسی شخص نے کیا تھا ۔

معاویہ کے جرائم کی فہرست بڑی طویل ہے اور اگر صرف صحابہ کرام کے

۳۶

ساتھ اس کے برتاؤ کو زیر بحث لایا جائے تو بھی ساری باتوں کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا لہذا اب ہم صرف حضرت علی علیہ السلام پر اس کی طرف سے ہونے والے سب وشتم کو زیر بحث لائیں گے ۔

صحابی رسول اورمسلمانوں کے خلیفہ راشد حضرت علی مرتضی پرسب وشتم کرنے اورباقاعدہ اس فعل قبیح کی رسم قائم کرنے والا شخص معاویہ ہے اور ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ خود بھی مسلمانوں کا "صحابی رسول " ہے یہ شخص خود بھی حضرت علی علیہ السلام پر سب وشتم کرتا ہے اور چاہتا کہ دوسرے صحابہ بھی ایسا ہی کریں ۔ اپنے عاملوں کو تو اس نے اس بارے میں خاص طور سے حکم دے رکھا تھا اور یہ عمال مستعدی سے اس کا حکم بجالاتے خاص طور سے جمعہ کے خطبات بغیر توہین علی علیہ السلام کے مکمل نہ ہوتے ۔

افسوس کہ سب علی علیہ السلام کا سلسلہہ حیات علی علیہ السلام تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ آپ کی شہادت کے بعد بھی جاری رہا ۔ یہاں تک کہ بنو امیہ کے واحد صالح حکمران عمربن عبد العزیز کا دور آیا اور اس نے اس رسم قبیح پر پابندی لگادی ۔

صحیح مسلم کتاب فضائل صحابہ باب فضائل علی میں ہے کہ

عن عامر بن سعد بن ابی وقاص عن ابیه قال امیر معاویه بن ابی سفیان سعد فقال ما منعک ان تسب اباتراب فقال اماما ذکرت ثلاثا قالهن رسول الله صلی الله علیه وسلم فلن اسبه "

ترجمہ:- عامر بن سعد بن ابی وقاص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان نے سعد کو حکم دیا پھر کہا کہ تجھے کس چیز نے روکا ہے کہ تو ابوتراب پر سب کرے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں رسول اللہ کے تین ارشادات کو یاد کرتا ہوں تو میں ہرگز علی علیہ السلام پر سب نہیں کرسکتا

۳۷

صحیح مسلم کے علاوہ صحیح ترمذی مسند احمد بن حنبل اور دوسری کتب حدیث میں بھی معاویہ کی جاری کردہ اس قبیح رسم کا تذکرہ موجود ہے ۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑا ستم یہ تھا کہ علی علیہ السلام پر سب وشتم ان کے چاہنے والوں کے سامنے کیا جاتا اور مکینگی کی انتہا یہ کہ عزیزوں اور بیٹیوں کی موجودگی کا بھی خیال نہ کیا جاتا ۔

جب صلح نامہ لکھا جارہا تھا تو حضرت امام حسن علیہ السلام نے ایک شرط یہ بھی لکھوانا چاہی کہ میرے والد پر سب وشتم نہ کیا جائے ،مگر معاویہ نے اسے تسلیم نہیں کیا تو امام حسن نے یہ مطالبہ کیا کہ کم از کم میرے سامنے ایسا نہ کیا جائے چنانچہ معاویہ نے یہ بات مان لی مگر اسے پورا نہیں کیا ۔تصدیق کے لئے ملاحظہ ہو طبری جلد نمبر ۴ ، البدایہ ابن کثیر جلد ۸ اور الکامل جلد ۳

معاویہ کایہ جرم کہ اس حضرت علی علیہ السلام پر سب وشتم کی رسم جاری کی روز روشن کی طرح عیال ہے اس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ، لہذا ہر دور کے جلیل القدر علماء نے معاویہ کے اس جرم کو تسلیم کیا ہے ۔

دور حاضر کے ممتاز عالم مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی کہ جن کا قیام بھارت میں ہے "تاریخ اسلام " جلد دوم میں لکھتے ہیں ۔

امیر معاویہ نے اپنے زمانہ میں بر سرمنبر حضرت علی پر سب وشتم کی مذموم رسم جاری کی تھی اور ان کے تمام عمال اس رسم کو ادا کرتے تھے ۔ مغیرہ بن شعبہ بڑی خوبیوں کے بزرگ تھے لیکن امیر معاویہ کی تقلید میں یہ بھی اس مذموم بدعت سے نہ بچ سکے ۔حجر بن عدی اور ان کی جماعت کو قدرتا اس سے تکلیف پہنچی تھی " (تاریخ اسلام جلد ۲)

۳۸

مولانا سید ابو اعلی مودودی فرماتے ہیں:

ایک نہایت مکروہ بدعت حضرت معاویہ کے عہد میں یہ شروع ہوئی کہ وہ خود اور ان کے حکم سے ان کے تمام گورنر خطبوں میں بر سر منبر حضرت علی علیہ السلام پر سب وشتم کی بو چھاڑ کرتے تھے ، حتی کہ مسجد نبوی منبر رسول پر عین روضہ نبوی کےسامنے حضور کے محبوب ترین عزیز کو گالیاں دی جاتی تھیں اور حضرت علی علیہ السلام کی اولاد اور ان کے قریب ترین رشتہ دار اپنے کانوں سے یہ گالیاں سنتے تھے کسی کے مرنے کے بعد اس کو گالیاں دینا ،شریعت تو درکنار ،انسانی اخلاق کے بھی خلاف تھا اور خاص طور پر جمعہ کے خطبہ کو اس گندگی سے آلودہ کرنا تو دین واخلاق کے لحاظ سے سخت گھناؤ نا فعل تھا ۔ حضرت عبدالعزیز نے آکر اپنے خاندان کی دوسری غلط روایات کی طرح اس روایت کو بھی بدلا اور خطبہ جمعہ میں سب علی کی جگہ یہ آیت پڑھنا شروع کردی ۔۔۔۔۔۔( خلافت وملوکیت ،مولانا ابو الاعلی مودودی ص ۱۷۵)

صحابی رسول حجر بن عدی شیعہ کی موجودگی میں مسجد کوفہ میں خطبہ کے دوران حضرت علی کرم اللہ پر سب وشتم کیا جاتا ۔ آپ نے اس کمینگی پر آواز اٹھائی تو گرفتار کر لئے گئے ۔پھر آپ کو معاویہ کے پاس شام بھیج دیاگیا اور معاویہ نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو علی سے محبت کرنے کے جرم میں قتل کرادیا ۔ اس سلسلہ میں ہم مولانا ابو اعلی مودودی کی ایک تحریر پیش کرتے ہیں ۔ آپ حجر بن عدی کے بارے میں لکھتے ہیں :

"ایک زاہد وعابد صحابی اورصلحائے امت میں ایک اونچے مرتبہ کے شخص تھے ۔حضرت معاویہ کے زمانہ میں جب منبروں پر خطبوں میں اعلانیہ حضرت علی علیہ السلام پر لعنت اور سب وشتم کا سلسلہ شروع ہوا ۔۔۔۔۔کوفہ میں حجر بن عدی رضی اللہ علیہ سے صبر

۳۹

نہ ہوسکا اور انہوں نے جواب میں حضرت علی علیہ السلام کی تعریف اور حضرت معاویہ کی مذمت شروع کردی ۔۔۔۔۔جب زیاد کی گورنری میں بصرے کے ساتھ کوفہ بھی شامل ہوگیا ۔۔۔۔وہ خطبے میں حضرت علی علیہ السلام کو گالیاں دیتا تھا اور یہ اٹھ کر اس کا جواب دینے لگتے تھے ۔ ۔۔۔۔ آخر کار اس نے انہیں اور ان کے بارہ ساتھیوں کو گرفتار کرلیا ، اور ان کے خلاف بہت سے لوگوں کی شہادتیں اس فرد جرم پر لیں کہ ۔۔۔۔۔۔ان کا دعوی ہے کہ خلافت آل ابی طالب کے سوا کسی کے لئے درست نہیں ہے ۔۔۔۔یہ ابو تراب (حضرت علی علیہ السلام ) کی حمایت کرتے ہیں ۔ ان پر رحمت بھیجتے ہیں اور ان کے مخالفین سے براءت کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

اس طرح یہ ملزم حضرت معاویہ کے پاسے بھیجے گئے اور انہوں نے ان کے قتل کا حکم دیا ۔قتل سے پہلے جلادوں نے ان کے سامنے جو بات پیش کی وہ یہ تھی کہ " ہمیں حکم دیا گيا ہے کہ اگر تم علی علیہ السلام سے براءت کا اظہار کرو اور ان پر لعنت بھیجو تو تمہیں چھوڑ دیا جائے " ان لوگوں نے یہ بات ماننے سے انکار کردیا اور حجر نے کہا " میں زبان سے وہ بات نہیں نکال سکتا جو رب کو ناراض کرے ۔ آخر کار وہ ان کے سات ساتھی قتل کردیئے گئے ۔ ان میں سے ایک صاحب عبدالرحمن بن حسان کو حضرت معاویہ نے زیاد کے پاس بھیج دیا ۔ اور اس کو لکھا کہ انھیں بدترین طریقہ سے قتل کرو ۔چنانچہ اس نے انہیں زندہ دفن کردیا "(خلافت وملوکیت ص ۱۴۶)

یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والوں کی شرم وغیرت کوکیا ہوا ؟ ان کی عقلوں پر کون سے دیز پردے پڑے ہوئے ہیں ؟ انھیں کیا چیز باطل کی حمایت پر کمربستہ کئے ہوئے ہے ؟ یہ ناموس صحابہ کے پاسباں نامو ‎ س رسول

۴۰