شیعہ کافر -تو- سب کافر

شیعہ کافر -تو- سب کافر0%

شیعہ کافر -تو- سب کافر مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 101

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 101 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27859 / ڈاؤنلوڈ: 2739
سائز سائز سائز
شیعہ کافر -تو- سب کافر

شیعہ کافر -تو- سب کافر

مؤلف:
اردو

کے سلسلے میں کیوں خاموش ہیں ؟وفات رسول کے بعد تیس سال میں یہ نوبت پہنچ گئی کہ آزاد کردہ رسول ابو سفیان کےبیٹے معاویہ (جس کا شمار بھی طلقاء میں ہوتا ہے) سے نواسہ رسول مطالبہ کررہا ہے کہ میرے والد بزرگوار پر سرعام سب وشتم نہ کیا جائے اور جب یہ بات تسلیم نہیں کی گئی تو پھرکہا گیا کہ اچھا تو کم از کم میرے سامنے تو میرے بابا کو برانہ کہا جائے ۔۔۔۔۔مگر افسوس کے وعدہ کے باوجود اس بات پر بھی عمل نہیں کیا گیا ۔

اگر معاویہ کو صحابی اورفقیہہ ہونے کے باوجود اس جرم پرمعاف کیاجا سکتا ہے کہ انہوں نے ایک ایسے شخص پر سب وشتم کیا اور اپنے گورنروں کے ذریعہ پوری اسلامی مملکت میں اس قبیح حرکت کو پھیلا یا کہ جو صحابی رسول اور خلیفہ راشد ہی نہ تھا بلکہ رسول کے چچا کا بیٹا اور داماد بھی تھا جس پر رسول کی چاہتیں او رمحبتیں ختم تھیں تو پھر شیعوں کو بھی معاف کردیجئے کہ آج کا شیعہ تو ایک عام انسان ہے ،صحابی نہیں ۔اوریہ بھی ملحوظ رہے کہ شیعہ اگر صحابہ کے ایک گروہ سے اظہار براءت کرتے ہیں تو رسول اور آل رسول کی محبت کی وجہ سے ۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ جس دل میں رسول اور آل رسول کی محبت ہو اس دل میں ان کے دشمنوں کا بھی احترام ہو ۔ یہ تو سواد اعظم والوں کا کمال ہے کہ وہ ان لوگوں کا بھی احترام کرتے ہیں کہ جن کی آل رسول سے دشمنی کوئی ڈھکی چھپی شے نہیں ہے ۔مروان اور یزیدہی کو لیجئے کہ یہ لوگ انھیں بھی برا نہیں کہتے اور بعض تو ان دونوں دشمنان رسول وآل رسول کا احترام بھی کرتے ہیں ۔ یزید کی آل رسول سے دشمنی توبچہ بچہ پر ظاہر ہے ۔اس کے لئے کسی حوالہ کی بھی ضرورت نہیں ، لیکن مروان کے بارے میں عام لوگوں کی اطلاع کے لئے ہم حضرت شاہ ولی اللہ کے فرزند جناب شاہ عبدالعزیز دہلوی

۴۱

طبرسی کی کتاب "فصل الخطاب" اور سید نعمت اللہ الموسوی الجزائری کی کتاب "الانوار النعمانیہ " کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔

۶:- مولانا منظور نعمانی کی رائے ہے کہ جو شیعہ علماء ومجتہدین تحریف قرآن کے عقیدے سے انکار کرتے ہیں اور موجودہ قرآن پر ہم اہلسنت ہی کی طرح ایمان کا اظہار کرتے ہیں ان کے ان رویہ کی کوئی معقول اور قابل قبول توجیہہ اس کے سوا کچھ نہیں کی جاسکتی کہ یہ ان کا تقیہ ہے ۔مولانا نعمانی تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں شیعہ علماء ومجتہدین نے بھی بالعموم تحریف کے عقیدے سے انکار کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے ۔

۷:-شیعہ اثنا عشریہ کا اصل قرآن وہ ہے کہ جو حضرت علی علیہ السلام نےمرتب کیا تھا ۔ اس مختصر کتاب میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ کسی طویل بحث میں الجھا جائے اوریہ موضوع کچھ ایسا ہی ہے ، چنانچہ ہم نے منظور نعمانی کی خاصی طویل بحث کو مختصرا چند نکات میں پیش کیا ہے اور اب ہم انہی کا نکتہ بہ نکتہ او رمختصر جواب دے رہے ہیں ۔

۱-۲ تحریف قرآن والی روایتوں کی مخالفت بڑے بڑے شیعہ علماء نے کی ہے جن کی فہرست بڑی طویل ہے ،ہم صرف دو مجتہدین عظام کی آراء پیش کرتے ہیں تو پہلے اثناعشریہ ک ےمرجعہ تقلید مجتہد اعظم آقائے سیدابو القاسم خوئی کی رائے پیش کی جاتی ہے ۔آپ زندہ سلامت ہیں اور عراق میں قیام پذیر ہیں ۔

"اس معنی میں تحریف کو موجودہ قرآن کچھ کلام غیر قرآن بھی ہے تو اس کے بطلان پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے (البیان مقدمہ تفسیر قرآں ص ۲۰۰) جن روایات سے تحریف کا اشارہ ملتا ہے وہ اخبار احاد ہیں جو کہ علم وعمل کے لئے مفید نہیں (البیان ص ۲۲۱)

اب دور اکبر وجہا نگیری کے قاضی نوراللہ شوستری کہ جو شیعہ اثناعشریہ

۴۲

میں انتہائی بلند مقام رکھتے ہیں اور شہید ثالث کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں کہ ' کی رائے ملاحظہ ہو۔

"قرآن اتنا ہی ہے جتنا موجود ہے جو اس سے زیادہ کہے وہ جھوٹا ہے ۔قرآن عہد رسالت میں مجموع ومولف اور ہزاروں صحابہ اسے حفظ ونقل کرتے تھے ۔ جمہور امامیہ عدم تغیر کے معتقد ہیں ۔زیادتی کی روایات احاد میں سے ہیں جو ناقابل اعتبار ہیں ، چنانچہ غیر موثق آدمیوں نے انہیں روایت کیا ہے " (مصائب النوائب ص ۱۰۵)

سترہ ہزار آیات والی روایت کےسلسلہ میں عرض ہے کہ تعداد آیات کے سلسلہ میں خود اہلسنت میں بھی اختلاف ہے ،آیت کسے کہتے ہیں اور اس کی ابتدا ء وانتہا کیا ہے ۔ اس میں بھی علماء اہلسنت میں اختلاف ہے ، لہذا تعین تعداد آیات میں آختلاف کو اہمیت نہیں دینا چا ہیئے سترہ ہزار آیات دالی روایت کے بارے میں شیخ صدوق کی رائے ملاحظہ ہو ، آپ فرماتے ہیں :

وحی کے ذریعہ سے قرآن کے علاوہ اتنے احکام او رنازل ہوئے ہیں کہ وہ سب قرآن کے ساتھ جمع کئے جائیں تو مجموعہ کی مقدار سترہ ہزار آیتوں تک پہنچ جائے گی ۔(اعتقاد یہ شیخ صدوق ص ۱۵۲ امامیہ مشن لاہور )شیخ صدوق نے اس کی بہت سی مثالیں بھی پیش کی ہیں کہ جنہیں یہاں نقل کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں

۳:- صاحب تفسیر صافی جناب ملافیض الکاشانی کی رائے ۔

"اگر قرآن مجید میں کمی وزیادتی تسلیم کرلی جائے تو کچھ اشکال دارد ہوتے ہیں ،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب قرآن محرف ومغیّر تسلیم کرلیا جائے تو قرآن مجید کی کسی شے پر بھی اعتماد نہیں رہ سکتا "(تفسیر صافی ص ۲۳)

۴:- چار حضرات (شیخ صدوق ،شریف مرتضی ۔ شیخ طوسی ۔طبرسی ) کا تذکرہ کرتے

۴۳

ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ قرآن کوعام مسلمانوں کی طرح محفوظ اور غیر محرف مانتے ہیں لیکن شیعہ دنیانے ان کی اس بات کو قبول نہیں کیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان حضرات سے پہلے شیعہ دنیا تحریف قرآن کی قائل تھی ۔

ان چار حضرات کے عقید ہ عدم تحریف قرآن کو تسلیم کرلینے کے بعد شیعہ اثناعشریہ کا عقیدہ یہ بتانا کہ وہ تحریف قرآن کے قائل ہیں ظلم کے سوا کچھ نہیں کیونکہ یہ چاروں ہستیاں شیعہ دنیا میں بہت بلند مقام رکھتی ہیں ۔ ان چار کے علاوہ ایک اور بلند ہستی شریف مرتضی کے استاد شیخ مفید کی تھی اوریہ بھی قرآن کو محفوظ او رغیر محرف مانتے تھے ۔

شیعہ اثناعشریہ کے ہاں حدیث کی چار کتابیں (اصول کافی ،من لایحضرہ الفقیہ ،تہذیب الا حکام ،استبصار ) وہی بنیادی مقام رکھتی ہی جو اہلسنت کے ہاں صحاح ستہ کو حاصل ہے اور شیخ صدوق ہی وہ بزرگ ہیں کہ جو ان چاروں میں سے ایک من لا یحضرہ الفقیہ کے اور شیخ طوسی وہ ہستی ہیں کہ جو ان میں سے دو تہذیب الاحکام اور استبصار کے مولف ہیں ۔

نام نہ بتانا اور صرف یہ کہہ دینا کہ ان سے پہلے شیعہ دنیا تحریف قرآن کی قائل تھی ۔غیر معقول بات ہے اوریہ بات اور زیادہ غیر معقول ہے کہ شیعہ دنیا نے ان کی اس بات کو قبول نہیں کیا ۔وہ علما ء کہ جو شیعت میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں ان کے بارے میں ایسی بات کہنا کہ شیعہ دنیا نے ان کی بات کو قبول نہیں کیا ۔ اور وہ بھی محض چند لوگوں کی آرا کی وجہ سے ظلم وزیادتی کے سوا کچھ نہیں ۔

۵:- اگر مختلف زمانوں میں بعض شیعہ علماء نے قرآن کے محرف ہونے کی موضوع پر کتابیں لکھی ہیں تو اسی زمانہ میں انہوں نے ان کی رد میں بھی کتابیں لکھی ہیں یہی صورت علامہ نوری کی فصل الخطاب کی ہے کہ اس کی مخالفت میں بہت سے

۴۴

جب کہ یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ ہمارے زمانہ کے شیعہ علماء عام طور سے قرآن کے غیر محرف ہونے کا اقرار کرتے ہیں ۔یہاں پر ہم یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ جو شیعہ علماء تحریف قرآن کے قائل ہیں وہ بھی کچھ کمی کے قائل ہیں ، مگر اس پر سب کا اجماع ہے کہ موجودہ قرآن تمام تر اللہ تعالی ہی کا کلام ہے اور اس میں ایک حرف بھی غیراللہ کا شامل نہیں ہے ۔

ہم یہ بات اچھی طرح سے واضح کئے دیتے ہیں کہ راقم السطور نے کبھی تقیہ سے کام نہیں لیا ۔اور اس کتاب میں بھی ہرجگہ بڑی صاف گوئی سے کام لیا ہے ۔اور یہاں بھی قرآن کےبارے میں شیعہ اثنا عشریہ کا عقیدہ واضح الفاظ میں بیان کئے دیتے ہیں ۔

شیعہ اثناعشریہ کا قرآن شریف کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ موجودہ قرآن وہی ہے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تھا ۔ اس میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی نہیں ہے اور یہ بات اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ قرآن شریف کی موجودہ ترتیب دہ نہیں ہے کہ جس ترتیب سے رسول اللہ پر نازل ہو ا تھا ۔ ۔۔۔۔ یہ بد فطرت مولوی شیعہ اثنا عشریہ پر صرف تحریف کے قائل ہونے کا الزام ہی نہیں لگاتے بلکہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ ان کے گھر وں میں کوئی اور قرآن پڑھا جاتا ہے ، لہذا ہم واضح کئے دیتے ہیں اثنا عشریہ کے ہر گھر میں وہی قرآن پڑھا جاتا ہے جو دوسرے مسلمانوں کے ہاں پڑھا جاتا ہے ۔اس میں زیرو زبر کا بھی فرق نہیں ہے ۔ صرف حاشیہ کی تفسیر اور ترجمہ کی زبان کا فرق ہے ،یہی فرق مسلمانوں کے دوسرے تمام فرقوں کے درمیان ہے ۔

مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق نیتوں کا حال جاننے والا تو صرف اللہ تعالی ہی ہے ، مگر دیوبند کا فتوے باز ملا کہتا ہے کہ نہیں ! ہم بھی جانتے ہیں خاص

۴۵

طور سے شیعوں کی نیت کا حال ۔

رسول اللہ کی سنت تویہ ہے کہ جس نے کلمہ پڑھ لیا اسے اپنے دامن میں جگہ دے دی ،حالانکہ بہت سوں کی حقیقت جانتے تھے مگر قبول کئے ہوئے تھے اور بعض تو آستین کے سانپ کی طرح پل رہے تھے ۔ مگر یہ اہلسنت کیسے ہیں کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ شیعہ اثنا عشریہ قرآن کے غیر محرف ہونے پر یقین کا اظہار کرتے ہیں انھیں کافر قراردیتے ہیں ۔

حضرت علی کے مرتب کردہ قرآن کا تذکرہ اس طرح کیا جاتا ہے کہ گویا وہ موجودہ قرآن سے الگ کوئی شے ہے ۔ حالانکہ اس قرآن کے بارے علماء نے جو کچھ کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے ۔

حضرت علی نے اپنے مصحف میں منسوخ آیات پہلے رکھیں اور ناسخ بعد میں آپ کا مرتب کیا ہوا قرآن نزول کے مطابق تھا ۔ شروع میں سورہ اقراء پھر سورہ مدثر پھر سورہ قلم اسی طرح پہلے مکی سورتین پھر مدنی ۔

حبیب السیر جلد ۱ صفحہ ۴ کے مطابق تو علی کا مرتب کردہ قرآن افادیت کے اعتبار سے بھر پور تھا ۔ اس کی عبارت ملاحظہ ہو ۔

"یعنی حضرت علی کا مصحف تاریخ نزول آیات کی ترتیب کے مطابق تھا اس میں شان نزول او ر اوقات نزول آیات اور تاویل متشابہات مذکور تھیں ناسخ ومنسوخ متعین او رعام وخاص کے ساتھ کیفیت قراءت بیان کی گئی تھی "

اس کا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ قرآن اور حضرت علی کے مرتب کردہ قرآن کے اصل متن میں کوئی فرق نہیں ہے مگر پھر بھی یہ کہا جاتا ہے کہ شیعہ اثنا عشریہ کا قرآن تو وہ ہے کہ جو حضرت علی علیہ السلام کے پاس تھا اور پھران کی اولاد میں منتقل ہوتا ہوا حضرت امام مہدی تک پہنچا اور جب وہ ظہور فرمائیں گے تو اصل قرآن پیش کرینگے ۔

۴۶

اگر شیعہ اثنا عشریہ کی خطا یہ ہے کہ مندرجہ بالا صفات کے حامل اس قرآن کے وجود پر یقین رکھتے کہ جو حضرت علی نے مرتب کیا تھا تو جنا ب ولی اللہ دہلوی بھی اس سلسلہ میں خطا وار ہیں کہ انہوں نے اپنی کتاب ازالۃ الخفا مقصد دوم میں فرمایا ہے کہ :-

ونصیب او از حیاء علوم دینہ آں است کہ جمع کرد قرآن را بحضور آنحضرت وترتیب دادہ بو آں را لیکن تقدیر مساعد شیوع آن نہ شد (ازالۃ الخلفاء مقصد ۲ ص ۲۷۳)

ترجمہ :- حضرت علی کا حصہ علوم دینہ کے زندہ کرنے میں یہ بھی ہے کہ آپ نے آنحضرت کے سامنے قرآن کو جمع مرتب کیا تھا مگر تقدیر نے اس کے شایع ہونے میں مدد نہ کی "

آخر میں شیعہ اثنا عشریہ کے عقیدے قرآں کے بارے میں علمائے مصر (اہلسنت )کی رائے :-

اخوان المسلمین کے ایک مفکر سالم البہساوی اپنی کتاب السنتہ المغتری علیہا ص ۶۰ پر لکھتے ہیں ۔

"جو قرآن ہم اہلسنت کے پاس موجود ہے بالکل وہی شیعہ مساجد اور گھروں میں موجود ہوتا ہے "

ڈاکٹر محمد ابو زہرہ اپنی کتاب الامام الصادق ، صفحہ ۲۹۶ میں لکھتے ہیں ۔

"ہمارے امامیہ برادران باوجودیکہ وہ بعض مسائل میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن قرآن کے بارے میں ان کا وہی نظریہ ہے جو ہر مومن کا ہے ۔

شیخ غزالی اپنی کتاب دفاع عن العقیدۃ والشریعۃ ضد المطاعن المستشرقین صفحہ ۲۶۴ پر لکھتے ہیں ۔

"میں نے محفل میں ایک شخص کو کتے ہوئے سنا کہ شیعوں کا ایک اور قرآن

۴۷

ہے جو ہمارے معروف قرآن سے کم وبیش ہے ،میں نے ان سے کہا ، وہ قرآن کہاں ہے ؟ عالم اسلام تین براعظموں پر پھیلا ہوا ہے اور رسول اکرم کی بیعثت سے لے کر آج تک چودہ صدیاں گذر چکی ہیں اور لوگوں کو صرف ایک ہی قرآن کا علم ہے ، جس کا آغاز واختتام اور سورت وآیات کی تعداد معلوم ہے ۔یہ دوسرا قرآن کہاں ہے ؟ اس طویل عرصہ میں کسی انسان اور جن کو اس کے کسی ایک نسخہ پر بھی اطلاع یا آگاہی کیوں نہیں ہوئی ۔اس سے اپنے بھائیوں اور اپنی کتاب کے بارے میں بداگمانیاں پھیلتی ہیں ۔ قرآن ایک ہی ہے جو اگر قاہرہ میں چھپتا ہے تو اسے نجف اشرف اور تہران میں بھی مقدسمجھا جاتا ہے ۔اور اس کے نسخے ان کے ہاتھوں اور گھروں میں ہوتے ہیں ۔ اس کتاب کو نازل کرنے والے اور اس کے مبلغ کے بارے میں سوائے عزت وتوقیر کے کوئی اوربات ان کے ذہن میں نہیں آتی ۔پھر ایسے بہتان لوگوں اور وحی پر کیوں باندھے جاتے ہیں ،ایسے بہتان ترشنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو یہ مشہور کرتے ہیں کہ شیعہ علی کی پیروی کرتے ہیں اور سنی محمد کی ۔شیعوں کا نظریہ یہ ہے کہ رسالت ونبوت کے لئے علی زیادہ سزا وار تھے اوریہ غلطی سے کسی اور کے پاس چلی گئی "۔

۳:- عقیدہ ختم نبوت سے انکار

شیعہ اثناعشریہ کو کافر قرار دینے کی تیسری اور آخری وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ اپنے عقیدہ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کے منکر ہیں ۔ اس سلسلہ میں جو کچھ کہاگیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے ۔

صرف یہی نہیں کہ شیعہ اثناعشریہ منصب نبوت کے تمام امتیازات اپنے بارہ اماموں سے منسوب کرتے ہیں بلکہ انہیں نبوت سے بالاتر درجات ومقامات عطاکرتے ہیں ۔یعنی یہ کہ وہ نبیوں کی طرح اللہ کی حجت ہیں معصوم ہیں ۔

۴۸

ترجمہ:- رسو ل اللہ صلعم نے فرمایا " اے خطاب کے بیٹے خدا کی قسم تم کو شیطان جس راستہ سے جاتے ہوئے دیکھتا ہے اس کو چھوڑ کر دوسرے راستہ سے چلنے لگتا ہے "

شیطان ہی گناہ پر آمادہ کرتا ہے اور جب شیطان عمر کردیکھتے ہی اپناراستہ بد ل دیتا ہے تو پھر آپ معصوم ہی ہوئے ۔اب دوحدیثیں اور ملاحظہ فرمائیے ۔

عن النبی اله صلی صلوة فقال ان الشیطان عرض لی فشد علی لیقطع الصلوة علی "(صحیح بخاری پارہ ۵ ص ۶۳۰)

ترجمہ :- جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ نے نماز پڑھنے کے بعد فرمایا کہ شیطان میرے پاس آیا اور اس نے میری نماز قطع کردینے کے لئے مجھ پر حملہ کیا ۔

قال ابن عباس فی امینة اذا حدث القی الشیطان فی حدیثه فیبطل الله مایلقی الشیطان ویحکم آیاته ( صحیح بخاری پارہ ۱۹ ص ۲۵۶)

ترجمہ: ابن عباس کہتے ہیں جب رسول اللہ صلعم خدا کا کوئی حکم بیان کرتے تو شیطان اس میں اپنی بات بھی ڈال دیتا تھا ۔ تب خدا یہ کرتا کہ شیطان کی ملائی ہوئی باتوں کو باطل کردیتا اور اپنی آیتوں کو محکم کردیتا ۔

ان دونوں حدیثوں کا مطلب یہ ہوا کہ سنی حضرات کے نزدیک حضرت عمر صرف معصوم نہ تھے بلکہ ان کادرجہ رسول اللہ سے بڑا تھا ۔ کیونکہ شیطان حضرت عمر کے نزدیک تو پھٹکتا نہ تھا مگر رسول اللہ کو نماز میں بھ نہیں چھوڑتا تھا اور ان پر اتنا دلیر تھا کہ حکم خدا بیان کرتے وقت بھی جان نہیں چھوڑتا تھا ۔

سنی حضرات کے نزدیک رسول اللہ پر حضرت عمر کی فضیلت اس طرح بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ کی رائے کے خلاف اور عمر کی رائے کے مطابق وحی نازل ہوتی تھی ۔ اس سلسلہ میں ابن ابی منافق کی نماز جنازہ پڑھانے اور اسیران بدر کے معاملہ میں حضرت عمر کی رائے کے مطابق رسول اللہ کی رائے

۴۹

کے خلاف نزول وحی کاتذکرہ تو خاص طور سے کیا جاتا ہے ۔

سنی حضرات کے نزدیک ابوبکر بھی معصوم تھے اور جناب رسول خدا سے افضل تھے ملاحظہ ہوں صواعق محرقہ سے دو روایتیں ۔

"(ابن زنجویہ کے مطابق) حضور علیہ السلام کے پاس جبرائیل علیہ السلام نے آکر اطلاع دی کہ اللہ تعالی نے آپ کو حضرت ابو بکر کے ساتھ مشورہ کرنے کا حکم دیا ہے ( بر ق سوزاں اردو ترجمہ صواعق محرقہ ص ۱۲۱)

"اللہ تعالی آسمان پر سے اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ ابو بکر زمین میں غلطی کرے ۔ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالی ناپسند کرتا ہے کہ ابو بکر غلطی کرلے ۔ اس روایت کے رجال ثقہ ہیں ( برق سوزاں ص ۲۵۱)

ذرا غور تو فرمائیے کہ ایسے شخص کا کیا مرتبہ ہوگا جس کے لئے اللہ تعالی چاہتا کہ وہ خطاء کرے اور پھر اپنے رسول کو حکم دے رہا ہے کہ "وہ اس معصوم بندے سے مشورہ کرے ۔ اس سے بڑھ کر ابو بکر کی عصمت پر کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ خود اللہ کو یہ منظور نہیں کہ ابوبکر خطا کریں ۔

اب ہم ان صفات آئمہ کی وضاحت کررہے ہیں کہ جو بد نیتی سے پیش کی گئیں مگر شیعہ عقائد میں داخل ہیں ۔

آئمہ اثناعشریہ نبیوں کی طرح اللہ کی حجت ہیں ، معصوم ہیں ، واجب الاطاعت ہیں ، ان پر ایمان لانا شرط ہے ۔ دنیا انہی کے دم سے قائم ہے ۔ کا ئنات کے ذرہ ذرہ پر ان کی تکوینی حکومت ہے ۔وہ دنیا وآخرت کے مالک ہیں اور اپنی موت کا وقت جانتے ہیں اور انہیں اس پر اختیار ہے ۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ شیعہ اپنے اماموں کو تمام انبیاء سے افضل سمجھتے ہیں سوائے خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے

۵۰

لہذا یہ معصوم بھی ہوئے اور واجب الاطاعات بھی وشرط ایمان بھی ۔۔۔۔۔۔یہ محاورہ تو عام ہے کہ یہ دنیا اللہ کے چند نیک بندوں کی وجہ سےقائم ہے تو پھر شیعہ اثناعشریہ کا امام جسے زمیں پر اللہ کی حجت سمجھا جاتا ہے اگر اس کے بارے میں بھی یہ کہا جائے کہ دنیا اسی کے دم سے قائم ہے تو کیا حرج ہے کائنات کے ذرہ ذرہ پر ان تکوینی حکومت کے سلسلہ میں ہم اتنا عرض کریں گے کہ "تکوینی " اضافہ ہے رہی حکومت کی بات تو عرض ہے کہ یہ حکومت تو اہلسنت کے نزدیک اولیاء اللہ کو بھی حاصل ہے تو پھر دنیا جسے مرکز ولایت سمجھتی ہے اگر اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے اورپھر جب دریائے نیکل حضرت عمر کا حکم بڑی خندہ پیشانی سے مان لیتا ہے (ایک سنی روایت کے مطابق )تو پھر رسول کی آغوش کے پالے ہوئے معصوموں کو (کہ جو خاتم الانبیاء کے صحیح جانشین تھے ) کا حکم کائنات کے ذرہ ذرہ کے لئے قابل قبول ہوسکتا ہے اورجب صورت حال یہ ہو تو انہیں دنیا وآخرت کا مالک کہنے میں کیا حرج ہے اور پھر موت کی کیا مجال کہ بغیر ان کی اجازت کے ان کے پیروں کو چھوسکے ۔

شیعہ اثنا عشریہ کے خلاف اس بنیاد پر کفر کا فتوی دینے والے دیوبندی بد معاش یقینا جانتے ہیں کہ ان میں سے بیشتر صفات خود اہلسنت حضرات اولیاء اللہ سے منسوب کرتے ہیں پھر شیعہ اثنا عشریہ پریہ عتاب کیوں ؟

عیسی ابن مریم کے لئے قوانین فطرت بدل سکتے ہیں تو محمد وآل محمد کے لئے بھی بد سکتے ہیں ۔اگر حضرت عیسی علیہ السلام بیمار کو صحت ،مردے کو زندگی اور اندھے کو آنکھیں عطا کرسکتے ہیں اور یہ سب کچھ حضرت عیسی کے لئے (اسلام کے مطابق)اللہ کی عطا تھی تو پھر اللہ کی مرضی سے خاتم الانبیاء اور ان کے

۵۱

بارہ جانیشوں کو بھی کائنات پر حق تصرف حاصل ہوسکتا ہے اور یہ عقیدہ بھی اسلام کے مطابق ہوگا ۔

اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ شیعہ اپنے ائمہ کو انبیاء سے افضل کیوں سمجھتے ہیں تو اس کا سیدھا سا جواب رسول کی اس حدیث میں مل جاتا ہے کہ جس کے مطابق رسول اللہ نے اپنی امت کے علماء کو بنی اسرائیل کے انبیاء سے افضل قرار دیا ہے ۔ اگر قلب سیاہ نہ ہوں تو بات بالکل صاف ہے کہ اگر امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء سے افضل ہوسکتے ہیں تو باب شہر علم خاتم الانبیاء اور اس کی معصوم اولاد جو کہ خاتم الانبیاء کے اصل وارث وجانشین ہیں تمام انبیاء و رسل سے (سوائے خاتم الانبیاء کے )کیوں افضل قرار نہیں دیئے جاسکتے ۔

عقل بھی اسی بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یہ مانا جائے کہ خاتم الانبیاء کے اوصیاء جو کہ اس آخری پیغام کے امین تھے جو رہتی دنیا تک کے لئے تھا ان پیغمبروں سے افضل ہو ں کہ جن کے پیغام ایک محدود وقت اور محدود علاقہ کے لئے تھا ۔

اگر ذہن کے شیطینت کے پاک کرکے عقیدہ امامت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس عقیدہ کی وجہ سے اثناعشریہ پر عقیدہ ختم نبوت کے انکار کے الزام کی گنجائش باقی نہ رہے گی ۔

شیعہ اثناعشریہ کے نزدیک امام وہ ہے کہ جو خدا کی جانب سے اپنے رسول کی نیابت کے لئے مقرر کیا گیا ہو اور یہ نیابت رسول درحقیقت زمین پر خلافت الہی ہے اور یہ زمین خلیفۃ اللہ سے کبھی خالی نہیں رہ سکتی ۔

نبی اور امام کے تقرر میں صرف اتنا فرق ہے کہ نبی کو اللہ براہ راست

۵۲

منتخب کرتا ہے اور نبی کے جانشین یعنی امام کو نبی کے ذریعہ منتخب کرتا ہے ار امام کو پہچاننا شرط ہے ۔حدیث رسول ہے کہ :-

"من مات ولم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة "

یعنی جو شخص مرگیا اور اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانا وہ جاہلیت کی موت مرا اثناء عشریہ کے امام میں بھی وہ تمام صفتیں ہونا چاہیں جو نبی میں تھیں ورنہ وہ حق نیابت ادا نہ کرسکے گا ۔ اس کی حیثیت صرف پاسبان شریعت کی سی ہوتی ہے وہ کوئی نئی شریعت نہیں لاتا ۔

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معلم قرآن وشارع اسلام تھے ۔آنحضرت کی وفات کےبعد صرف قرآن کا فی نہیں تھا ایک معلم قرآن اور پاسبان شریعت کی ضرورت تھی تاکہ وہ قرآن کو حدیث رسول کی روشنی میں بندوں تک پہنچا سکے اور شریعت میں رد وبدل نہ ہونے دے چنانچہ حضرت علی ابن ابی طالب کو جو سیرت وکردار میں اپنے بھائی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح تھے اور آنحضرت نے انھیں اپنا پورا علم عطا فرماکر شہر علم رسالت کا دروازہ قرار دیا تھا اور وفات رسول کے وقت وہی اس قابل تھے کہ جو نیابت رسول کا حق ادا کرسکیں ۔چنانچہ رسول خدا نے حکم خدا کے مطابق حضرت علی ابن ابی طالب کو اپنا خلیفہ اور امت کا امام "من کنت مولا فھذا علی مولا " کہہ کر بنایا اور یہی سلسلہ حکم خدا کے مطابق علی اور فاطمہ بنت رسول کی نسل میں صاحبان عظمت وطہارت میں منتقل ہوتا رہا ۔

حاصل کلام یہ ہے کہ آئمہ اہل بیت تمام صفات میں خاتم الانبیاء ہی کی طرح تھے ۔فرق صرف اتنا تھا کہ ان کی صفات حمیدہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ

۵۳

وسلم کی خطا تھیں ۔مثل مشہور ہے کہ بیٹا وہی بیٹا ہے کہ جو باپ کے نقش قدم پر چلے ہو بہو باپ کی تصویر ہو ۔چنانچہ خاتم الانبیاء کی ہمسری سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ شیعہ صرف برائے نام ختم نبوت کے قائل ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

آئمہ اثناعشریہ کی یہ صفات حق نیابت ادا کرنے کے لئے لازم وضروری تھیں ۔۔۔۔۔۔مزید برآں یہ آئمہ خاتم الانبیاء کی طرح نہ تو صاحب شریعت تھے اور نہ ہی انھیں شریعت محمدی میں کسی قسم کے تغیر وتبدل کا حق حاصل تھا ۔ یہ حرام محمد کو ہمیشہ کے لئے حرام وار حلال محمد کو ہمیشہ کے لئے حلال سمجھتے تھے ۔ یہ صرف معلم قرآن ،شارع اسلام (اقوال رسول کی روشنی میں ) اور پاسبان شریعت محمدی تھے ۔۔۔۔۔تو پھر اب کس بنیاد پریہ کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ اثنا عشریہ ،قادنیانیوں کی طرح ختم نبوت کی حقیقت کے منکر ہیں اور صرف نام کا فرق ہے یعنی نبی کے بجائے امام کہتے ہیں ۔

یہ کتنی ناحق شناس اور جاہل قوم ہے کہ خود تو رسول کی آنکھ بند ہوتے ہی مسند خلافت پر ناجائز قبضہ جمانے والوں اور شریعت محمدی میں تغیر وتبدل کرنے والوں اور حرام محمد کو حلال کرنے اور حلال محمد کو حرام کرنے والوں کو اپن خلیفہ اور ضرورت دین سمجھتی ہے اور ان آئمہ کے ماننے والوں کو جو ہمیشہ شریعت محمدی کے پاسبان بنے رہے اور انھوں نے شریعت میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں کی ،کو کافر کہا جاتا ہے ۔

تم بڑی بے شرمی سے شیعہ اثنا عشریہ کو ختم نبوت کا منکر قراردے رہے ہو، حالانکہ تم تحریک ختم نبوت میں شیعوں کے کردار سے اچھی طرح واقف ہو ۔ تحریک ختم نبوت میں ہر جگہ شیعہ علما تمہارے بزرگوں کے شانہ بشانہ نظرآتے ہیں ۔مگر تم بھول گئے تم نے کل کی باتیں بھلا دیں ۔ تم چودہ سوبرس پہلے کی باتیں کیا یاد رکھو گے مگرہمیں

۵۴

ہر چیز یا د رہے ۔ کال کی بھی اور چودہ سو سال پہلے کی بھی ۔

تحریک ختم نبوت میں پہلا نام علامہ السید علی الحائری مرحوم(شیعہ ) اور علامہ مرزا یوسف حسین مرحوم (شیعہ )کا ہے ۔علامہ مرزا یوسف حسین نے قادیانیوں کے مشہور مناظر ابو العطلا اور دوسرے قادیانیوں سے فیروز پور میں مناظرہ کیا اور انہیں شکست فاش دی ۔ اس مناظرہ کی روداد شائع ہوچکی ہے ۔

قیام پاکستان کے بعد مجلس عمل تحریک ختم نبوت میں علامہ کفایت حسین (شیعہ) نائب امیر تھے جب کہ مولانا ابوالحسنات امیر تھے ۔ان کی وفات کے بعد مولانا عطااللہ شاہ بخاری نے منصب امارت سبھالا تو حافظ صاحب نائب امیر رہے اور جناب مظفر علی شمسی (شیعہ) اور مولانا اظہر حسین زیدی (شیعہ) مرکزی رکن رہے ۔علامہ حافظ کفایت حسین کی وفات کے بعد جناب مظفر علی شمسی نائب امیر منتخب ہوئے ۔جب کہ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کے بعد شیخ الحدیث مولانا سید محمد یوسف بنوری مرحوم امیر ہوئے ۔

۱۹۷۳ ء میں قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی ۔اس وقت مولانا یوسف بنوری قائد تحریک تھے اور جناب مظفر شمسی ان کےشانہ بشانہ تھے مرکزی ارکان میں جناب علی غضنفر کراروی (شیعہ) اور مولانا ملک مہدی حسن (شیعہ) شامل تھے ۔

مولانا محمد اسماعیل دیوبندی ضلع فیصل آباد سے اور مولانا محمد حسین نجفی سرگودھا سے شیعوں کی قیادت کررہے تھے ۔ جب بھی کوئی خصوصی کنونش یا ملک گیر اجلاس ہوتا مولانا اسماعیل صف اول کے مقررین میں نظر آتے اور یہی شیعہ عالم مولانا اسماعیل دیوبندی قومی اسمبلی میں بڑی گھن گرج کے ساتھ نظر آتے ہیں ۔ ہوا یہ کہ جب قادیانی مسئلہ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو بریلوی مسلک کی نمائندگی مولانا

۵۵

شاہ احمد نورانی نے کی اور دیوبندی کی طرفسے مفتی محمود پیش ہوئے اور اہل حدیث کی طرف سے جناب معین الدین لکھنوی پیش ہوئے ۔ کیونکہ قومی اسمبلی میں صرف ممبران ہی تقرر کرسکتے تھے اور وہاں کوئی شیعہ عالم دین ممبر نہ تھا۔ لہذا جناب سید عباس حسین گردیزی ایم اے سے شیعہ نمائندگی کے لئے کہا گیا ۔ مگر گردیزی صاحب نے اپنی جگہ کسی شیعہ عالم دین کو پیش کرنے کی اجازت چاہی چنانچہ اجازت پر آپ نے جناب مظفر علی شمسی کے مشورے سے مولانا محمد اسماعیل کو پیش کیا ۔

مولانا محمد اسماعیل دیوبندی اپنی روایت کے مطابق کتابوں کا ڈھیر لئے گردیزی صاحب کے ہمراہ اسمبلی ہال میں داخل ہوئے ۔ ہال کچھا کھچ بھرا ہوا تھا ۔تھوڑی ہی دیر میں اعلان ہوا کہ شیعہ نمائندہ آگیا ہے ۔ اب وہ شیعہ نقطہ نظر سے رد مرزائیت میں دلائل پیش کرے گا ۔ چنانچہ مولانا موصوف اسپیکر کی اجازت سے کھڑے ہوئے اور خطبہ پڑھنا شروع کیا تو ہال پر سناٹا چھا گیا ۔خطبہ کےبعد مولانا نے اصل موضوع پر بولنا شروع کیا ۔سارا دن مولانا ہی کے لئے تھا ۔چنانچہ آپ نے اپنی تقریر ۹ بجے صبح شروع کرکے ۴ بجے شام کو ختم کی ۔ ذرا غور کیجئے کہ علی علیہ السلام کے اس غلام نے بولتے بولتے صبح سے شام کردی ۔اس دوران اس سے کیسی کیسی دلیلیں دی ہوں گی ، کیا کچھ نہ کہا ہوگا ۔

اب ہم ان بے حیا او رمحسن فتوے بازوں سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے بزرگ عطااللہ بخاری اور تمہارے پیرو مرشد مولانا یوسف بنوری (کہ جن کے نام پر جمشیدی روڈ کراچی پر تم نے ایک مسجد قائم کررکھی ہے ) نے شیعہ علماء کو تحریک ختم نبوت میں مؤثر نمائندگی اور اہم عہدے دیئے تو تمہیں اب شیعہ اثناعشریہ کو ختم نبوت کا منکر قراردیتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی اور جب مولانا

۵۶

اسماعیل شیعہ نقطہ نظر سے مرزائیت کے خلاف بول رہے تھے تو کیا کسی مرزائی نمائندہ نے یہ کہا تھا کہ حضور آپ تو خود ختم نبوت کے منکر ہیں آپ کس منہ سے ہمارے خلاف بو ل رہے ہیں ۔ یقینا تم اس قسم کی کوئی بات نہیں پیش کرسکتے اور اب ہم آخری بات تمہیں بتادیں گہ شیعہ اثناعشریہ کے کلمہ اور اذان میں ختم نبوت کا اعلان شامل ہے ۔محمد رسول اللہ کے فورا بعد علی ولی اللہ کہہ کر یہ بتا دیا جاتا ہے کہ اب نبوت ختم ہوئی اور ولایت کا سلسلہ شروع ہوا ۔

۵۷

فتوی تکفیر

اقراء کے شعیت نمبر اور بینات میں شیعہ اثنا عشریہ کے خلاف کفر کے فتووں کا انبار لگا ہوا ہے ۔اس میں عالم اسلام اور ہندو پاک کے قدیم وجدید ملاؤں کے فتوے ہیں ۔ ان سب فتوؤں کو اس مختصر سی کتاب میں پیش کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ضروری ،کیونکہ سب نے ہی راگ الاپہ ہے ۔ہم یہاں صرف پاکستانی ملاؤں کے فتوؤں کا عکس پیش کررہے ہیں تاکہ لوگ ان سے واقف ہوجائیں اور اس بات کو سمجھ لیں کہ یہ وہی گروہ ہے کہ جو پورے پاکستان میں فرقہ وارانہ آگ بھڑکانہ چاہتا ہے اور اس کوشش میں برسوں سے لگا ہوا ہے ۔ اسی گروہ نے سنہ ۱۹۸۳ ء میں یہ آگ کراچی میں بھڑکائی تھی جس کا سلسلہ مہینوں جاری رہا تھاے

دار الا فتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامیہ محمد یوسف بنوری ٹاون کراچی

الجواب

باسمہ تعالی

فاضل مستفتی نے شیعہ اثنا عشریہ کے جن حوالہ جات کا ذکر کیا ہے وہ ہم شیعہ کتابوں میں خود پڑھے ہیں ۔ بلکہ ان سے بڑھ کر شیعوں کی کتابوں میں ایسی عبارات صاف صاف موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ

الف :- وہ تمام جماعت صحابہ کو مرتد اور منافق سمجھتے ہیں یا ان مرتدین کے حلقہ بگوش ۔

ب:- وہ قرآن کریم کو (جو امت کے ہاتھوں میں موجود ہے ) بعینہ اللہ تعالی کا نارمل

۵۸

کردہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ اصل قرآن جو خدا کی طرف سے نازل ہوا تھا وہ امام غائب کے پاس غار میں موجود ہے اور موجودہ قرآن (نعوذ باللہ) محرف ومبدل ہے اس کا بہت سا حصہ (نعوذ باللہ ) حذف کردیا گیا ہے بہت سی باتیں اپنی طرف سے ملادی گئی ہیں ۔ قرآن شریف ضروریات دین میں سب سے اعلی وارفع چیز ہے اور شیعہ بلااختلاف ان کے متقدمین اور متاخرین سب کے سب تحریف قرآن کے قائل ہیں اور ان کی کتابوں میں زائد از دوہزار روایات تحریف قرآن کی موجود ہیں جن میں پانچ قسم کی تحریف بیان کی گئی ہے ۔۱:- کمی ۔۲:- بیشی ۔۳:- تبدل الفاظ ۔۴:- تبدل حروف ۔۵:- تبدل ترتیب سورتوں ،آیتوں اور کلمات میں بھی ۔

"اصول کافی " اور اس کا تتمہ الروضہ ،ملا باقر مجلسی کی کتابوں "جلاء العیون "حق الیقین " حیات القلوب " زادالمعاد "نیز حسین بن محمد تقی النوری الطبرسی کی کتاب "فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب " (جو ۲۹۸ صفحات پر مشتمل کتاب ہے ) میں قرآن کریم کا محرف ہوناثابت کیا گیا ہے ۔

مولف مذکور طبرسی نے بزعم خود بے شمار روایات سے قرآن کریم کی تحریف ثابت کی ہے

ج:- قادیانوں کی طرح وہ لفظی طور پر ختم نبوت کے قائل ہیں ۔ اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین مانتے ہیں ،لیکن انھوں نے نبوت محمدیہ کےمقابلہ میں ایک متوازی نظام عقیدہ امامت کےنام سے تصنیف کرلیا ہے ۔ان کے نزدیک امامت کا ٹھیک وہی تصور ہے جو اسلام میں نبوت کا تصور ہے ،چنانچہ امام نبی کی طرح منصوص من اللہ ہوتاہے ۔معصوم ہوتا ہے ،مفترض الطاعۃ ہوتاہے ،ان کو تحلیل وتحریم کے اختیار ہوتے ہیں اور یہ کہ بارہ امام تمام انبیاء کرام سے افضل ہیں

(اصول کا فی ۔تفسیر مقدمہ مراۃ الانوار )

۵۹

ان عقائد کے ہوتے ہوئے اس فرقہ کے کافر اور خارج از اسلام ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا صرف انہی تین عقائد کی تخصیص نہیں بلکہ بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ شیعیت اسلام کے مقابلہ میں بالکل ایک الگ اور متوازی مذہب ہے جس میں کلمہ طیبہ سے لے کر میت کی تجہیز وتکفین تک تمام اصول وفروع اسلام سے الگ ہیں۔ اس لئے شیعہ اثناعشریہ بلاشک وشبہ کافر ہیں علماء امت نے اثناعشریہ شیعوں کوہر زمانہ میں کافر قرار یدا لبتہ

(۱):- اس فتوی کی اشاعت نہیں ہوئی

(۲):- تقیہ اور کتمان کے دبیز پردوں میں شیعہ مذہب چھپا رہا ۔

(۳):-خمینی صاحب کے آنے کے بعد شیعہ اثناعشریہ نے بین الاقوامی طور پر وجوہ ثلاثہ سابقہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے مذہب کی خوب اشاعت کی خمینی صاحب خود کوامام غائب کانمائندہ سمجھتے ہیں اور اپنا حق سمجھتے ہیں کہ مذہب شیعہ کی اصل طور پر بلا کتمان اشاعت ہوااس لئے آب صورتحال مختلف ہوگئی ۔

فاضل مستفتی نے بڑی محنت سے استفتاء مرتب کیا ہے اوراس سے واضح ہو

۶۰