شیعہ کافر -تو- سب کافر

شیعہ کافر -تو- سب کافر0%

شیعہ کافر -تو- سب کافر مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 101

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 101 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27782 / ڈاؤنلوڈ: 2685
سائز سائز سائز
شیعہ کافر -تو- سب کافر

شیعہ کافر -تو- سب کافر

مؤلف:
اردو

جاتا ہے کہ تقریبا ہر دور میں شیعہ اثناعشری کو کافر قرار دیا گیا ہے اس استفتاء کی تحریر کردہ عبارتوں کے بعد جو اب استفتاء کے لئے مزید عبارت کی ضرورت ہیں ۔

تصدیقات علماء پاکستان

پاکستان کے کئی ممتاز علماء کرام نے حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی رئیس دار الافتاء جامعۃ العلو الاسلامیہ ،ومفتی اعظم پاکستان کے اسی فتوے پر اپنے تصدیقی دستخط ثبت فرمائے ہیں ۔ ان حضرات کے دستخط ذیل میں نقل کئے جارہے ہیں ۔

محمد عبدالستار تو فسوی عفی عنہ صدر تنظیم اہلسنت پاکستان

محمد یوسف لدھیانوی عفااللہ عنہ ، مدیر ماہنامہ ،بینات " جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی

سلیم اللہ خاں مہتمم وصدر المدرسین وشیخ الحدیث جامعۃ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی

نظام الدین شامزئی خادم دارالافتاء جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی

محمد عادل جامعہ فاروقیہ فیصل کالونی کراچی

محمد اکمل غفر لہ مفتی دار الافتاء جیکیب لائن کراچی

غلام محمد مفتی جامعہ حمادیہ شاہ فیصل کالونی نمبر ۲ کراچی

فداء الرحمن مہتمم جامعہ انوارالقرآن نارتھ کراچی

سیف الرحمن عفی عنہ ،نائب مہہتم جامع العلوم ضلع بھاولپور

محسن الدین احمد عفا اللہ عنہ ،موسس مدرسہ شریفیہ عالیہ بہالپور

(مقیم (حال نمبر ۱۳۷ بنگسال روڈ ڈھاکہ ۔بنگلہ دیش

عبدالقیوم محمد عبدالرزاق

محمد نعیم مہہتمم جامعہ بنوریہ کراچی نمبر ۱۶

۶۱

فتوی حضرت مولانا عبدالرشید نعمانی صاحب دامت برکاتہم

بسمہ اللہ الرحمن الرحیم

اہل قبلہ کی تکفیر میں علماء حق غایت درجہ کی احتیاط س کام لیتے ہیں لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اہل قبلہ میں سے جو فرقہ بھی ضروریات دین کا منکر ہو وہ قطعی کافر ہے خواہ وہ اپنے ایمان واسلام کا کتنے ہی زور شور سے دعوی کرتا رہے ۔فرقہ امامیہ اثنا عشریہ کے عقائد کے بارے میں فاضل علام حضرت مستفتی مولانا منظور نعمانی اطال اللہ بقاءہ و عم فیوضہ نے جس تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور ان کی مستند کتابوں کے جس کثرت سے حوالے پیش کئےہین ان کے مطالعہ کے بعد خواص تو کیا عوام کو بھی اس فرقہ ضالہ کے خارج از اسلام ہونے میں شک نہیں ہوسکتا ہے ۔

۶۲

بھلا جو فرقہ ختم نبوت کاقائل نہ ہو اپنے ائمہ کو جلی کا درجہ دے انھیں معصوم سمجھے ان کی اطاعت کو تمام انسانوں پر فرض قراردے ۔ ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ ان پر وحی باطنی ہوتی ہے اور وہ انبیاء اولوالعزم سے بھی افضل ہیں ۔ قرآن کریم محرف و مبدل ہے ،صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین جو بہ نص قرآن خیرامت ہیں اور جن کی جاں فشانی وجاں فروشی سے اسلام برپا ہوا اور دین اب تک باقی رہا ان ہی کو مرتد اور کافر کہے اور ان پر سب وشتم اور تبرا کو نہ صرف حلال بلکہ ثواب سمجھے ۔ایسا فرقہ لاکھ اپنے آپ کو مسلمان کہتا رہے اس کو اسلام وایمان اور قرآن ونبی صلواۃ والسلام سے کیا تعلق ؟ بقول شاعر

دشنام بمذہبے کہ طاعت باشد ۔۔۔۔۔ مذہب معلوم واہل مذہب معلوم

یاد رہے کہ تقیہ کے دبیز پردے اور اس فرقہ کی کتابوں کی اشاعت نہ ہونے کے باعث عام طور پر ہمارے علماء گذشتہ دور میں ان کے معتقدات سے بے خبر رہے لیکن اب جبکہ ان کی مستند کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ان کا کفر واضح ہوچکا ہے ۔ پہلے بھی جبکہ اس فرقہ کی تصانیف علماء حق کی دسترس سے باہر تھیں جن اکابر علماء نے ان کے افکار ونظریات پر کام کیا ہے ان کے کفر وزندقہ کی تصریح کی ہے ۔ چنانچہ فاضل مستفتی دامت برکاتہم نے استفتاء میں ان حضرات علماء کی تصریحات اس سلسلے میں نقل فرما دی ہیں ۔ جزاہ اللہ خیرا الجزا

۶۳

دار الافتاء والارشاد ،کراچی

الجواب

باسم طعم الصواب

شیعہ بلاشبہ کافر ہیں ۔ ان کے کفر میں ذرا تامل کی بھی گنجائش نہیں ، ان کی کتابیں کفریات سے لبریز ہیں ۔ جن میں سب سے بڑی وجہ تحریف قرآن ہے ، جو ان کے ہاں متواتر ومسلمات میں سے ہے ، اس مذہب کاجاہل ہر ہر فرد ہر مردوعورت بلکہ ہر بچہ یہی عقیدہ رکھتا ہے ،ان کے گھروں میں جو بچہ بھی جیسے ہی ہوش سنبھالتا ہے اس کے دل ودماغ میں مذہب کا یہ بنیادی عقیدہ زیادہ سے زیادہ راسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے ،ان کا چھوٹا بڑا ہر فرد اسے جزو ایمان بلکہ مدار ایمان سمجھتا ہے ، میں یہ بات کئی شہادتوں کے بعد پورے یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں ۔

اگر کوئی شخص تحریف قرآن سے انکار کرتا ہے تو وہ بطور تقیہ ایسا کرتا ہے اس کی کئی مثالیں خود انھیں کی کتابوں میں موجود ہیں ۔ جب ان پر ان کی کتابیں پیش کی جاتی ہیں تو جواب دیتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص مجتہد ہے ،اس لئے جس مصنف نے تحریف قرآن کا قول کیا ہے وہ اس کا اپنا اجتھاد ہے جو ہم پر حجت نہیں ۔ ایسی صورت میں ان کے تقیہ کا پول کھولنے کے دوطریقے ہیں ۔

۱:- عقیدہ تحریف قرآن "اصول کافی " میں بھی موجود ہے اور اس کتاب کے بارے میں شیعہ کا یہ عقیدہ ہے کہ امام مہدی نے اس کی تصدیق کی ہے یہ لوگ

۶۴

امام مہدی کی تصدیق اس کتاب کے ٹائٹل کی پیشانی پر چھاپتے ہیں ،اور ان کےعقیدہ کے مطابق امام غلطی سے معصوم اور عالم الغیب ہوتاہے اس لئے "اصول کافی " کے فیصلہ سے انکار کرنا امام کی عصمت اور اس کے علم غیب سے انکار کرنا ہے ۔

۲:- ان کے جن مصنفین اورمجتہدین نے تحریف قرآن کا قول کیا ہے یہ ان سب کو کافر کہیں اور ایسی تمام کتابیں جلاڈالیں ،اپنے اس قول وعمل کااخباروں میں اشتہاردیں میں دعوی سے کہتا ہوں کہ دنیا میں کوئی شیعہ بھی اس پر آمادہ نہیں ہوسکتا جو چاہے اس کا تجربہ کرکے دیکھ لے ،کیا اس کے بعد کسی کو اس حقیقت میں کسی قسم کے تامل کی کوئی گنجائش نظر آسکتی ہے کہ بلا استثناء شیعہ کا ہر فرد کافر ہے ۔

شیعہ کا کفر دوسرے کفار سے بھی زیادہ خطرنا ک ہے ،اس لئے کہ یہ بطور تقیہ مسلمانوں میں گھس کران کی دنیا وآخرت دونوں برباد کرنے کی تگ ودومیں ہر وقت مصروف کار رہتے ہیں ، اور اس میں کامیاب بھی ہورہے ہیں ،اللہ تعالی سب اہل اسلام کو ان کا دجل وفریب سمجھنے کی فہم عطاء فرمائیں ، اور ان کے شر سے حفاظت فرمائیں ان کے مذہب کی تفصیل میری کتاب "حقیقت شیعہ " میں ہے فقط واللہ تعالی اعلم

عبدالرشید رئیس دار الافتاء والارشاد ،ناظم آباد کراچی ۶ صفر سنہ ۱۴۰۷ ھ

الجواب صحیح عبدالرحیم نائب مفتی دارالافتاء والارشاد ۱۶ صفر سنہ ۱۴۰۷ ھ

۶۵

فتوی مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب

مدیر ہفت روزہ الاعتصام لاہور

بسم اللہ الرحمن الرحیم

استفتاء میں شیعہ اثناعشریہ کے جو عقائد تفصیل سے خو دان کی مستند کتابوں سے نقل کئے گئے ہیں جن کی رو سے شیعوں کے نزدیک

قرآن کریم محرف ہے اور اس میں ہر قسم کی تبدیلی کی گئی ہے ۔

٭ صحابہ کرام (نعوذ باللہ ) منافق اور مرتد ہیں بالخصوص حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق شیطان سےبھی زیادہ خبیث اور سب کافر وں سےبڑھ کر ہیں اور جہنم میں سب سے زیادہ عذاب بھی انہین کو مل رہاہے اور ملے گا ۔

٭ ان کے بارہ امام نبیوں کی طرح نہ صرف معصوم ہیں بلکہ انبیاء ئے سابقین سے افضل ہیں ۔ نیز "امامت" نبوت سے افضل ہے ۔ علاوہ ازیں ائمہ کو کائنات میں تکوینی تصرف کرنے کے اختیارات حاصل ہیں اور عالم ماکان و ما یکون ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔

ان مذکورہ عقائد میں سے ہر ایک عقیدہ کفریہ ہے ۔کوئی ایک عقیدہ بھی ان کی تکفیر کے لئے کافی ہے چہ جائیکہ ان کے عقائد مجموعہ کفریات ہوں ۔ بنابریں مذکورہ عقائد کے حامل شیعہ حضرات کو قطعا مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا ۔اگر وہ مسلمان ہیں تو اس کا مطلب صحابہ کرام سمیت تمام اہلسنت کی تکفیر ہوگا ۔ شیعہ تو صحابہ کرام اور اہل سنت کے

۶۶

بارے میں یہی رائے رکھتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہیں ۔لیکن کیا اہلسنت کے عوام وخواص کو شیعوں کی اس رائے سے اتفاق ہے ؟ اگر نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو پھر ایسے کفریہ اعقائد کے حامل شیعوں کو مسلمان سمجھنا بھی کسی لحاظ سے صحیح نہیں ۔ اہل سنت اس نکتے کو جتنی جلد سمجھ لیں ان کے حق میں بہتر ہوگا ۔

وماعلینا الا البلاغ

حافظ صلاح الدین یوسف

ہفت روزہ الاعتصام لاہور ، ۷ جون ۱۹۸۷ ء

جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ

شیعہ اثناعشریہ رافضیہ کا فر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ کیونکہ یہ غالی فرقہ ان مسائل کا انکار کرتا ہے ، جو قطعی الثبوت ،قطعی الدلالت اور ضروریات دین میں ہیں جس کی مختصر سی تشریح یوں ہے کہ :-

دین کے مسائل دو قسم کے ہوتے ہیں:-

البتہ قطعیات محضہ جو شہرت میں اس درجہ کو نہیں پہنچے ان کا انکار اگر بے خبری کی بنا پر کیا جائے تو کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا ۔

شیعہ اثنا عشریہ رافضیہ چونکہ موجودہ قرآن کا انکار کرتے ہیں ۔ جو ضروریات دین میں سے ہے ۔ اور خلافت راشدہ کا بھی انکار کرتے ہیں جس پر امت کا اجماع ہے اور اسی طرح صحابہ کرام کا انبیاء کے بعد تمام انسانوں سے افضل واعلی اور عدل وثقہ ہوتا اور اللہ تعالی کا ان سے راضی ہوتا ۔ اور ان کے لئے جنت کی خوشخبری کا بھی انکار کرتے ہیں ۔جو قرآن وحدیث کی نصوص سے ثابت ہونے کی بنا پر قطعیات اسلام میں سے ہے ۔

نیز صحابہ کرام کے متعلق تویہ بد ترین عقیدہ رکھتے ہیں کہ معاذاللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سواۓ تین حضرات (مقداد بن اسود ، سلمان فارسی ، عمار بن یاسر )کے باقی تمام صحابہ دین چھوڑ کر اللہ اور رسول کے بے وفا ہوگئے تھے ۔ لہذا یہ فرقہ مذکورہ کفریہ عقائد کی بنا پر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔

محمدعلی جانباز خادم جامعہ ابراھیمیہ

سیالکوٹ (مہر جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ)

۶۷

جواب فتوی

منظور نعمانی خود بھی دیوبندی حنفی ہے اور زیادہ تر فتوے باز بھی حنفی المسلک ہیں مگر شیعہ اثناعشریہ کےبارے میں ابو حنیفہ کی کوئی رائے نہیں پیش کی گئی اور اگر پیش کی گئی ہے تو امام مالک اور امام ابن تیمیہ کی ۔وجہ صرف یہ ہے کہ ابو حنیفہ کی رائے منظور نعمانی کی مرضی کے خلاف ہے ملاحظہ ہو کہ شرح فقہ اکبر ابو حنیفہ میں ہے :-

" جو کفر سے متعلق اگراس میں ۹۹ احتمالات کفر کے ہوں اور ایک احتمال یہ ہو کہ اس کا مقصد کفر نہیں ہے تو مفتی او ر قاضی کے لئے اولی ہے کہ وہ اس احتمال پر فتوی دے کیونکہ ایک ہزار کافروں کو اسلام میں رکھ لینا آسان ہے لیکن ایک مسلمان کو اسلام سے خارج کرنے کی غلطی بہت اشد ہے "۔

عقیدہ طحاویہ میں امام طحاوی نے ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں سے منقول عقائد بیان کئے ہیں ۔چنانچہ عقیدہ طحاویہ میں ہے ۔

"بندہ خارج ازایمان نہیں ہوتا مگر اس چیز کے انکار سے جس کے اقرار نے اسے داخل ایمان کیا تھا "

ملاحظہ ہو کہ ابوحنیفہ تویہ کہہ رہےہیں کہ اگر ایک فیصد بھی یہ احتمال ہو کہ اس کامقصد کفر نہیں تو اس ایک فیصد احتمال پرفتوی دینا چاہیے مگر یہ دیوبندی حنفی شیعہ اثناعشریہ کے خلاف تحقیق کرکرکے کفر کی وجہیں دریافت کررہے ہیں

۶۸

ڈھونڈ ڈھونڈ کر دلیلیں لارہے ہیں ۔کہ تم تحریف قرآن کے قائل ہو ، ہرشیعہ عالم قولا عملا ثابت کررہا ہے کہ ہم تحریف کےقائل نہیں ہیں مگر یہ کہتے ہیں کہ تم جھوٹ بولتے ہو تقیہ کرتے ہو۔۔۔۔۔جب یہ عقیدہ امامت کی وجہ سے شیعہ کو ختم نبوت کا منکر قرار دیتے ہیں تو شیعہ کہتے ہیں کہ ہمارے تو کلمہ میں ختم نبوت کا عقیدہ شامل ہے اورہم تو عملا تحریک ختم نبوت میں عام مسلمانوں کے ساتھ شریک رہے ہیں مگردیوبندی کسی بات کو نہیں مانتے اور اپنے امام ابو حنیفہ کےقول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شیعہ اثناعشریہ کو کافر قراردینے پر تلے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔یہ کہتے ہیں کہ تم صحابہ کی تکفیر کرتے ہو لہذا خارج ازایمان ہو ، مگر ان کے امام ابو حنیفہ کہتےہیں کہ بندہ صرف اسی وقت خارج ازایمان ہے جب وہ اس بات کا انکار کرے جس کے اقرار نے اسے داخل ایمان کیا ہو ۔۔۔۔۔۔اوریہ بات یقینی ہے کہ صحابہ کے ایمان کا اقرار کسی کو داخل ایمان نہیں کرتا ۔

منظور نعمانی شیعہ اثنا عشریہ کو کافر قرار دینے کے لئے امام مالک اور امام ابن تیمیہ کی آرا پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام مالک کی رائے ہے کہ صحابہ پر سب وشتم کرنے والا کافر ہے ۔ اور ابن تیمیہ کی رائے کو تین فقہا کی رائے کے حوالہ سے پیش کرتے ہیں ۔

۱:- اگر صحابہ کی شان میں گستاخی جائز سمجھ کر کی جائے تو ایسا کرنے والا کافر ہے اور اگر ایسے ہی بک دیا جائے تو سخت گناہ اور ایسا شخص فاسق ہوگا ۔

۲:- صحابہ کی شان میں گستاخی کرنے والا سزائے موت کا مستحق ہوگا ۔

۳:- حو صدیق اکبر کی شان میں گالی بکے وہ کافر ہے اور اس کی نمازجنازہ نہ پڑھی جائے ۔

منظور نعمانی صاحب بھی دوسرے دیوبندیوں کی طرح امام ابو حنیفہ کے

۶۹

پیروکار ہیں انھیں صحابہ کی شان مین گستاخی کرنے والے کے بارے بھی ابو حنیفہ ہی کے فتوے کو ماننا چاہئے اور ابو حنیفہ کا فتوی "عقیدہ طحاویہ " کے مطابق یہ ہے

"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اصحاب کو محبوب رکھتے ہیں ان میں سے کسی کی محبت میں حد سے نہیں گزرتے اور نہ کسی سے تبرا کرتے ہیں ، ان سے بغض رکھنے والے اور برائی کے ساتھ ان کا تذکرہ کرنے والے کو ہم ناپسند کرتے ہیں "۔۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابو حنیفہ کے نزدیک صحابہ سے بغض رکھنے اور ان کی برائی کرنے والا کافر نہیں ہے بلکہ صرف ناپسند یدہ شخص ہے ،ہوسکتا ہے کہ انھوں نے یہ بھی مصلحتا کہا ہو ۔۔۔۔ہمیں ایک روایت ا یسی بھی ملتی ہے کہ جس سےیہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے دل میں خود بھی حضرت عمر کا کوئی احترام نہ تھا ۔ علامہ شبلی نعمانی کہ جو ایک سنی عالم اوربڑے پائے کے مورخ تھے اپنی کتاب سیرت النعمان میں ایک واقعہ لکھتے ہیں ۔

"امام صاحب کے محلہ میں ایک پسنہارا رہتا تھا ۔جو نہایت متعصب شیعہ تھا اس کے پاس دوخچر تھے ۔ایک کانام ابو بکر اور دوسرے کا نام عمر رکھا تھا اتفاق سے ایک خچر نے دوسرے کے لات ماردی کہ اس کا سر پھٹ گیا اور اسی صدمے سے وہ مرگیا ۔محلہ میں اس کاچرچا ہوا ۔ امام صاحب نے سنا تو کہا ۔دیکھنا اس خچر نے مارا ہوگا جس کا نام اس نے عمر رکھا تھا ۔ لوگوں نے دریافت کیا تو واقعی ایسا ہی ہوا تھا ۔(سیرۃ النعمان ص ۱۲۹) مدینہ پبلیشنگ کراچی)

یہ محض اتفاق تھا کہ ابو حنیفہ کی بات سچ نکلی ،مگر یہ بات یقینا قابل غور ہے ان کے ذہن میں یہ بات آئی کیسے کہ لات مارنے والا عمر ہی ہوگا ۔۔۔۔۔ خیر یہ ان کے خلیفہ اور امام کا آپس کامعاملہ ہے ۔ہمیں اس سے کیا ! ہم تو صرف ابن تیمیہ کا وہ حوالہ یا د دلائیں گے کہ جس کے مطابق اگر کوئی شخص

۷۰

صحابہ کی شان گستاخی کو جائز سمجھتے ہوئے کرے ،تو کافر اور اگر ایسے ہی کچھ بک دے تو سخت گنہگار اور فاسق ہوگا ۔ اب یہ دیو بند کا حنفی مولوی جانے کہ ہو اپنے امام صاحب کو کس درجہ میں رکھتا ہے ۔۔۔۔۔مگر ایک نہ ایک درجہ میں ضرور رکھنا پڑے گا ۔کیونکہ امام صاحب سے حضرت عمر کی شان میں گستاخی ہوئی ، چاہے انھوں نے جائز سمجھ کر کی یا ناجائز سمجھ کر ۔۔

شیعہ اثنا عشریہ اگر بعض صحابہ کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے رسول اللہ کے ساتھ جو سلوک کیا وہ کیا مگر علی وفاطمہ وار ان کی اولاد کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا اور اس کے حقوق غصب کئے و ہ سب پر عیاں ہیں ۔ خاص طور سے جو لوگ علی کے خلاف تلوار کھینچ کر میدان میں آگئے تو ان کے بارے میں شیعہ اثناعشریہ کی رائے کیا ہوگی وہ ظاہر ہے ۔۔۔۔۔ مگر یہ بھی دیکھ لیجئے کہ امام ابو حنیفہ کی اس سلسلہ میں کیا رائے تھی ، مصر کی شرعی عدالتوں کے جج ابو زہرہ اپنی کتاب "ابو حنیفہ "میں لکھتے ہیں ۔

" امام صاحب کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت علی اپنی تمام لڑائیوں میں حق پر تھے اور اس سلسلہ میں وہ حضرت علی کے مخالفین کے متعلق کسی قسم کی تاویل کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے اور صاف طور سے فرمایا کرتے تھے کہ حضرت علی جو بھی جنگیں لڑی گئیں ان میں حضرت علی حق پر تھے "

مولانا مودودی فرماتے ہیں ۔

اگر چہ صحابہ کی خانہ جنگی کے بارے میں امام ابو حنیفہ نے اپنی رائے ظاہر کرنے سے دریغ نہیں کیا ۔چنانچہ وہ صاف طور پر یہ کہتے ہیں کہ حضرت علی کی جن لوگوں سے جنگ ہوئی (اور ظاہر ہے کہ اس میں جنگ جمل وصفین کے شرکا شامل ہیں ) ان کے مقابلے میں علی زیادہ برسر حق تھے ، لیکن وہ دوسرے

۷۱

فریق کو مطعون کرنے سے قطعی پرہیز کرتے ہیں (خلافت وملوکیت ص ۲۳۳)

مولانا موصوف کی ایک اور عبارت :-

" یہ بھی امر واقع ہے کہ تمام فقہاء ومحدثین ومفسرین نے بالاتفاق حضرت علی کی ان لڑائیوں کو جو آپ نے اصحاب جمل ،اصحاب صفین اور خوارج سے لڑیں قرآن مجید کی آیت "فان بغت احدھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی القی الی امراللہ " کے تحت حق بجانب ٹھہرا یا ، کیونکہ ان کے نزدیک آپ امام اہل عدل تھے اور آپ کے خلاف خروج جائز نہ تھا ۔ میرے علم میں کوئی ایک بھی فقہہ یا محدث یا مفسر نہیں جس نے اس مختلف کوئی رائے ظاہر کی ہو ۔ خصوصیت کے ساتھ علمائے حنفیہ نے بالاتفاق یہ کہا ہے کہ ان ساری لڑائیوں میں حق حضرت علی کے ساتھ اور ان کے خلاف جنگ کرنے والے بغاوت کے مرتکب تھے " (خلافت وملوکیت ص ۳۳۸)

مولانا مودودی نے امام ابو حنیفہ کو آزادی رائے کا بہت بڑا حامی بتایا ہے آپ فرماتے ہیں :-

"آزادی رائے کے معاملے میں وہ اس حد تک جاتے ہیں کہ جائز امامت اور اس کی عادل حکومت کے خلاف بھی اگر کوئی شخص زبان کھولے اورامام وقت کوگالیاں دے یا اسے قتل تک کرنے کاخیال ظاہر کرے تو اس کو قید کرنا اور سزادینا ان کے نزدیک جائز نہیں ، تاوقتیکہ کوہ مسلح بغاوت بدامنی برپا کرنے کا عزم نہ کرے " (خلافت و ملوکیت ص ۲۶۳)

امام ابو حنیفہ کے ماننے والے دیوبندی فتوے باز اگر ابو حنیفہ ہی کے صدقہ میں شیعہ اثناعشریہ کو اظہار رائے کی آزادی دے دیں تو پھر ان پر کفر کا فتوی نہ لگے ۔ شیعہ اس آزادی سے پورا فائدہ نہیں اٹھائیں گے ، کسی گال نہیں دیں

۷۲

گے اورقتل کی نیت توکرہی نہیں سکتے ۔ہاں حق پرستی کابھر پور مظاہرہ اور کامل عدل کرینگے ۔ابو حنیفہ اور تمام سنی فقہا محدثین ومفسرین علی لڑائیوں میں انہیں حق پر سمجھتے ہیں مگر باطل کو برا نہیں کہتے ،او ر نہ ہی ان سے اظہار برات کرتے ہیں ۔ شیعہ اثنائے عشریہ علی کو حق پر سمجھتے ہیں تو باطل پر ہونے کا سبب خطائے اجتہادی کو قراردیدیں یا اگر کسی کو خطائے اجتہادی کی گنجائش نہ ہونے کے باجود معاف کردیں اور یہ بھی بھول جائیں کہ ان لڑائیوں میں کتنے انسانوں کا خون بہا اور یہ بھی نہ سوچیں کہ آخر اس کا کوئی توذمہ دار ہوگا ۔ تو ان کی مرضی ۔۔۔۔۔۔

مگر یہ تو بڑی زیادتی ہوگی کہ شیعہ اثناعشریہ اس ظلم میں آپ کا ساتھ نہ دیں تو آپ انہیں کافر ٹھہرائیں ۔

امام ابو حنیفہ یا علمائے احناف کسی نے بھی اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی ہے کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں اور اپنے عقیدے امامت کی وجہ سے ختم نبوت کے منکر ہیں لہذا کافر ٹھہرے ۔،منظور نعمانی کو حنفی فقہاء اور علماء کے ہاں شیعہ اثناعشریہ کے خلاف کچھ نہ ملا تو اس نے ان پریہ مضحکہ خیز الزام لگا یا کہ انہوں نے مذہب شیعہ کی کتابوں کا براہ راست تفصیلی مطالعہ نہیں کیا ملاحظہ ہو اس کی تحریر ۔" ہمارے حنفی فقہا وعلماء میں علامہ ابن عابدین شامی (متوفی ۱۲۵۳ھ) اس لحاظ سے بہت ممتاز ہیں کہ ان کی کتاب "رد المحتار" فقہ حنفی کی گویا انسا ئیکوپیڈیا ہے ۔ اس میں فقہ حنفی کی ان قدیم کتابوں ی نقول

۷۳

بھی مل جاتی ہے جو اب تک بھی طبع نہیں ہوسکی ہیں ۔ بلاشبہ یہ کتاب تصنیف فرما کر انھوں نے حنفی دنیا پر بڑا احسان فرمایا ہے لیکن سی "رد المحتار" میں اور اس کے علاوہ اپنے ایک رسالہ میں جو "رسائل ابن عابدین" میں شامل ہے شیعوں کے بارے میں انھوں نے جو کچھ تحریر کیا ہے اس کےمطالعہ کے بعد اس میں شک نہیں کیا جاسکتا کہ مذہب شیعہ کی کتابیں ان کی نظر سے بھی نہیں گزر سکیں ،اگرچہ ان کا زمانہ اب سے قریبا ڈیڑھ سو سال پہلے ہی کا ہے بلکہ اس کے کے بعد کے دور کے بھی (چند حضرات کو مستثنی کرکے) ایسے جبال علم جو اپنے وقت کے آسمان علی کے آفتاب وماہتاب تھے ان کی کتابوں سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ مذہب شیعہ کی کتابوں کابراہ راست اور تفصیلی مطالعہ کرنے کا انہیں بھی موقع نہیں ملا (نگاہ اولیں)

جبال علم اور آسمان علم کے آفتاب وماہتاب حنفی حضرات کو تو شیعوں کی کتابیں پڑھنے کا موقع نہ مل سکا مگر آج کال کے پاک وہند کے حنفی ملا کو یہ کتابیں پڑھنے کا تفصیل سے موقع مل گیا ۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ احماقانہ باتیں نہیں ہیں؟ کتنی سچی بات ہے کہ انسان تعصب میں اندھا ہو جاتا ہے ۔

جن فتوؤں کا عکس پیش کیا گیا اور جن کا نہیں پیش اور جن کا نہیں پیش کیاگیا ان سب میں زیادہ ترانہی بنیادوں پر شیعہ اثنا عشریہ کو کافر قرار دیاگیا ہے کہ جن کا تفصیلی جواب ہم دوسرے باب میں دے چکے ہیں ۔ لہذا اس سلسلے مزید کچھ لکھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے ۔

ہم اپنے پڑھنے والوں کو صرف اتنا یاد دلاتے چلیں کہ یہ وہی جاہل ملاّ ہے کہ جس نے لاؤڈ اسپیکر پر اذان کے خلاف فتوی دیا تھا مگر آج ہر ملا اپنی پاٹ دار آواز کے باوجود ضرورت بلا ضرورت لاؤڈ سپیکر پر اذان بھی دیتا ہے

۷۴

اور نماز بھی پڑھاتا ہے ۔کل یہی جاہل مولوی تصویر کھینچوانے کو حرام قراردیتا تھا مگر آج بڑے ذوق وشوق سے تصویر کھینچواتا ہے اور انہیں اخبارات میں چھپوانے کو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ۔ اسی ملانے منصور حلاج اور سرمد جیسے صوفیوں کو کافر قرار دے کر قتل کرادیا تھا ۔۔۔۔۔۔اور ایسے ایسے لوگوں پر کفر کے فتوے لگائے کہ جنھیں آج کا مسلمان اور خود آج کا ملا رحمۃ اللہ علیہ کہتا ہے ۔ سرسید احمد خان، علامہ اقبال، محمد علی جناح ،مولانا ظفر علی خان غرضیکہ کون سا ایسا اپنے وقت کا بڑا آدمی ہے جو کہ اپنی حیات میں ان فتووں کو زد میں نہ آیا ہو ۔ اس کے علاوہ بریلوی ،دیوبندی ،اہل حدیث غرضیکہ کون سا فرقہ ایسا ہے کہ جس نے دوسرے فرقہ کے خلاف کفر کے فتوے نہ دیئے ہوں ۔

اس سلسلہ میں ہو ایک دلچسپ یاد دلائیں کہ جنوری سنہ ۱۹۵۱ ء میں ۳۲ علمائے دین پاکستان اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے ۲۲ نکات پر متفق ہوگئے تھے اور ان میں مسلمانوں کے ہر مکتبہ فکر کو نمائندگی حاصل تھی ۔ شیعہ اثناعشریہ کی طرف سے مفتی جعفر حسین اور حافظ کفایت حسین صاحب شریک ہوئے تھے ۔ ۔۔۔۔اب کیا تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں کایہ فرض نہیں ہے کہ وہ فتوے باز ملّا سے یہ پوچھیں کہ ان دوشیعہ کا فروں کو ان مقدس نکات کی تیاری میں کیوں شریک کیاگیا تھا ؟

۷۵

مروانی زاغ

عبد القدوس

صلاح الدین ہفت روزہ "تکبیر"کا مدیر ہے ۔پہلے یہ شخص گورنمنٹ ٹیچر ز ٹرینیگ اسکول قاسم آباد کراچی میں استاد تھا ۔ پتلون قمیص پہنتا اور داڑھی مونچھیں صاف کرتا تھا ۔اس نے صحافی زندگی کا آغاز اس طرح سے کیا کہ یہ اسکول کی سرکاری ملازمت بھی کرتا رہا اور" روزنامہ حریت " میں بھی ایک ٹیبل پر کام کرنے لگا ۔کراچی سے روزنامہ "جسارت " نکالا گیا تو یہ اس میں ایڈیٹر بن گیا ۔وہاں کسی باب پر ان بن ہوئی تو اس نے ایک ہفت روزہ نکالنا شروع کیا اور اس کا نام تکبیر رکھا ۔

روزنامہ "جسارت" کی ایڈیٹری سے معلوم ہوتاہے کہ اس کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا ۔ اب اصل صورت حال کیا ہے معلوم نہیں ۔ اس نے "تکبیر" نکالا تو لوگ سمجھے کہ یہ ایک اسلامی خدوخال رکھنے والا پرچہ ہوگا مگر کچھ عرصہ بعد ثابت ہوا کہ اس کا کام تو ملک میں تعصبات اور فرقہ واریت کو ہوا دینا ہے اور خاص طور سے یہ شیعہ دشمن رسالہ ہے ، اپنی اشاعت بڑھانے کے لئے یہ بھی وہی ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے جو دوسرے غیر مذہبی پرچے استعمال کرتے ہیں ۔ اس کے نزدیک حق وناحق میں تمیز کرنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔یہ اللہ کے اس حکم کی بلکل پراوہ

۷۶

نہیں کرتا کہ "دیکھو تمہیں کسی قوم کی دشمنی راہ عدل سے نہ ہٹا دیے "

چودہ اپریل سنہ ۱۹۸۸ ء کے شمارے نے صلاح الدین کو بالکل ننگا کردیا ہے ۔ اب اس بات کے یقین کرلینے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ یہ شخص بنو امیہ کا وارث ہے اور یہ وہ تکبیر ہے کہ جس کا تعلق اسلام سے نہیں ہے بلکہ بنی امیہ کے سفاکوں سے ہے ۔

تو یہی "تکبیر "مسلسل کئی ہفتوں سے اسماعیلی حضرات کے خلاف زہر اگل رہا ہے ۱۴ اپریل سنہ ۱۹۸۸ ء کے شمارہ میں اسماعیلی فرقہ پر ایک شخص عبدالقدوس ہاشمی کا ایک انٹریو شائع کیا گیا اس کی تصویر کے ساتھ یہ تعارفی عبارت دی ہوئی ہے ۔

"مولانا سید عبدالقدوس ہاشمی ہمارے عہد کی ان نابغہ روزگار شخصیات میں شامل ہیں جن کی تحقیق ،علمیت ،مطالعہ تقابل ادیان ،دینی معلومات اور نقطہ نظر کا زمانہ قائل ہے ۔ فقہ اور حدیث میں مولانا استناد کادرجہ رکھتے ہیں مجمع فقہی مکہ مکرمہ کے رکن ہیں ۔ فرانس کی ہسٹاریکل سوسائٹی کے ممبر ہیں ۔ موتمر عالم اسلامی کے ڈائکٹر ہیں ، مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے روح رواں اور عہدارہیں اور پاکستان سے رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے تاسیسی رکن ہیں ۔اب تک مولانا کی بائس کتب زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں ۔ مولانا کی جائے ولادت مخدوم پور ضلع گیا "بہار" ہے اور سنہ ولادت سنہ ۱۹۱۱ء ہے ۔

اصل گفتگو سے پہلے عبدالقدوس ہاشمی کی تصویر اور یہ طویل تعارف نقل کرنا ہم نے اس لئے ضروری سمجھا تاکہ اس کا انٹرویو سمجھنے میں آسانی ہو ۔

اس شخص کے تعارف میں غلط باتیں کتنی ہیں ؟ یہ معلوم کرنا تو مشکل ہے مگر یہ بات سوفیصد غلط معلوم ہوتی ہے کہ یہ شخص سید ہے ،کیونکہ کوئی بیٹا اپنے باپ کی کم ازکم ناحق اور جان بوجھ کے توہیں نہیں کرسکتا ۔اس نے جو کچھ حضرت علی مرتضی

۷۷

کے لئے کہا ہے اس سے کھلی دشمنی ظاہر ہورہی ہے ۔ ویسے اس کی تصویر سے بھی ہر قیافہ شناس اس کے قلب میں پیوستہ نفرتوں اور اس تکبر کا اندازہ لگا سکتاہے ۔

اسماعیلی فرقہ پر گفتگو کرتے کرتے جب یہ شخص آئمہ کی طرف آیا تو اس نے ان کے خلاف اس طرح گفتگو شروع کی :-

حقیقتا یہ سب کے سب کسی مافوق الفطرت صلاحیت کے مالک نہ تھے چنانچہ انھوں نے ایک افسانہ بنایا کہ اللہ تعالی کا خاص نور ان اماموں میں جلوہ گرہوتا ہے ۔حالانکہ ان میں ایسی کوئی بھی خصوصیت قطعا نہ تھی جس کی بنا پر انہیں عام معمولی انسانوں سے ذرا بھی برتر ثابت کرسکتے ۔ میں مثال دیتا ہوں ۔ان میں سے سب سے بڑے کو لے لو ،وہ تھے حضرت علی ، حضرت علی صحابہ میں سے تھے ،مگر صحابہ تو سولہ ہزار تھے ، حضرت علی میں آخر کون سی خصوصیت تھی جو دوسرے صحابہ میں نہیں پائی جاسکتی تھی ۔ آپ کہیں گے وہ مجاہد تھے ۔ٹھیک ہے اور بھی بہت سے مجاہد تھے ان کو اللہ تعالی نے فرمایا تھا کہ بخش دیا گیا ہے تو صلح حدیبیہ میں چودہ سو انیس آدمیوں کےبارے میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ ہم نے بخش دیا ہے وہ رسول اللہ ےک قریبی رشتہ دار تھے تو قریبی رشتہ دار رسول اللہ کے اوربھی تھے ۔عبیداللہ ابن زبیر بن عبدالمطلب بھی ویسے ہی چچا کے بیٹے تھے ۔ حضرت عثمان پھوپھی کے پوتے تھے آخر ان میں کیا خصوصیت تھی "؟

دراصل یہ شخص اسماعیلی فرقہ کے حوالہ سے آئمہ پر اظہار خیال کررہا تھا ۔ابتدا میں یہ گفتگو اسماعیلی حضرات کے تمام آئمہ پر تھی اور پھر ان سب کے بزرگ حضرت علی پر شروع ہوگئی ۔ حضرت علی سے لے کر امام ششم حضرت جعفر صادق تک شیعہ اثناعشریہ اور اسماعیلی فرقہ کے امام ایک ہی ہیں لہذا اس بات کا

۷۸

شیعہ اثنا عشریہ نے بڑی شدت سے نوٹس لیا ۔

اس چھوٹے سے آدمی کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے کہ "ان میں ایسی کوئی بھی خصوصیت قطعا نہ تھی جس کی بنا پر انہیں عام معمولی انسان سے ذرا بھی برتر ثابت کر سکے " اس کی یہ لفظیں بتارہی ہیں کہ وہ بغض ونفرت کے جذبات لئے ہوئے گفتگو کررہا ہے لہذا کسی علمی اپروچ کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔

ہم کہتے ہیں کہ ان حضرات کا امام ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حضرات عام معمولی انسانوں سے کئی خصوصیات کی بنا پر برتر ہوں گے ۔

اب ہم عبدالقدوس ہاشمی کے کہنے کے مطابق ان میں سے سب سے بڑے کو لیتے ہیں وہ تھے حضرت علی ۔ اس کے نز دیک وہ بھی کا ایک صحابی ،ایک عام مجاہد کی طرح اور رسول کے دوسرے رشتہ داروں کی طرح رشتہ دار تھے لہذا ان میں کوئی خصوصیت نہیں تھی ۔ اگر عبدالقدوس واقعی اتنا بڑا عالم ہے کہ جتنا ہفت روزہ تکبیر نے ظاہر کیا تو یقینا یہ شخص اچھی طرح جانتا ہوگا کہ حضرت علی نہ تو عام صحابی تھے نہ عام مجاہد اور نہ عام رشتہ دار رسول یقینا اس کے علم میں یہ ہوگا کہ نہ تو ہر صحابی درجہ میں برابر تھا اور نہ ہر مجاہد اور نہ رسول کا ہر رشتہ دار ۔ اس کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ تمام سنی مسلمانوں کا مسلک یہ ہے کہ صحابہ میں بیعت رضوان والے بھی تھے اور عشرہ مبشرہ والے بھی ۔ اور یہ دونوں گروہ عام صحابی سے افضل تھے ۔ اسی طرح سے صحابہ کا ایک تیسرا گروہ تھا جو سےب سے افضل تھا ۔وہ تھا خلفائے راشدین کاگروہ اور جناب علی مرتضی سنی مسلمانوں کے متفقہ علیہ خلیفہ راشد ہیں ۔اسی طرح سے مجاہدین کا معاملہ ہے کہ مجاہدین بدر کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ،اور پھروہ مجاہدین ہیں کہ جنھوں نے دوسرے غزوات میں جناب رسول خدا کی معیت میں جہاد کیا اور

۷۹

آخری درجہ ان مجاہدین کا ہے جنھوں نے رسول اللہ کی وفات کے بعد جہاد کیا حضرت علی نے تو بدر سے لے کر حنین تک ہر غزوہ میں جناب رسول خدا کی معیت میں جہاد کیا ۔سرایا کی تعداد بھی خاصی ہے اور پھر بعد وفات رسول تاویل قرآن پرجہاد کرتے رہے ۔ان کا اور ایک عام مجاہد کا کیا جوڑ ۔

مجاہد ین کی درجہ بندی ان کے کارناموں کی بنیاد پربھی کی جاسکتی ہے ۔ جان چرا کے لڑنے والا ،جان دے کے لڑنے والے کے برابر نہیں ہوسکتا ،میدان جنگ میں چھپر تلاش کرنے والا ،کھلے میدان میں لڑنے والے کے برابر نہیں ہوسکتا سینکڑوں شہ زوروں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا کسی ایسے شیخص کے برابر نہیں ہوسکتا کہ جس نے کسی ایک شہ روز کونہ مارا ہو ۔ میدان جنگ سے رسول کو چھوڑ کر کبھی نہ بھاگنے والا ،باربار پھاگنے والوں کے برابر نہیں ہوسکتا ۔تلواروں کی چھاؤں میں بستر رسول پر بے خوف ہوکر گہری نیند سوجانے والا ،غار ثور میں پہلوئے رسول میں ہونے کے باوجود حزن ملال کی کفیت میں مبتلا ہونے والے کے برابر نہیں ہوسکتا ۔ میدان جنگ میں دشمن کو خالص اللہ کے لئے قتل کرنے والا (عمر بن عبدود کا واقعہ ) اپنے ذاتی جذبات کی ملاوٹ کے ساتھ قتل کرنے والے کے برابر نہیں ہوسکتا ۔

اب اس مجمل گفتگو کے بعد ذرا مفصل اور صاف صاف گفتگو :- صحیح بخاری شریف کہ جسے سنی مسلمانوں میں قرآن کے بعد سب سے بڑا مقام حاصل ہے کے مطابق :-

"عدمان اخبرنا ابو حمزه عن عثمان بن موهب قال جاء رجل حج البیت فرائ قوما جلو سا فقال من هولاء القعود قالوا هولآء قریش قال ممن الشیخ قالوا ابن عمر فاما فقال انی سائلک عن شیئء تحدثنی قال الشذک "

۸۰