شیعہ کافر -تو- سب کافر

شیعہ کافر -تو- سب کافر50%

شیعہ کافر -تو- سب کافر مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 101

  • ابتداء
  • پچھلا
  • 101 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30659 / ڈاؤنلوڈ: 4656
سائز سائز سائز
شیعہ کافر -تو- سب کافر

شیعہ کافر -تو- سب کافر

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

ارشاد رب العزت

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ الله لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاةَ أَزْوَاجِکَ وَالله غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ قَدْ فَرَضَ الله لَکُمْ تَحِلَّةَ أَیْمَانِکُمْ وَالله مَوْلَاکُمْ وَهُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ إِلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِه حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِه وَأَظْهَرَهُ الله عَلَیْهِ عَرَّفَ بَعْضَه وَأَعْرَضَ عَنْ م بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِه قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَکَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِیْ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَةُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ عَسٰی رَبُّه إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُّبْدِلَه أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَّأَبْکَارًا )

"اے نبی ! تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے(کیا اس لئے) کہ تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے اللہ نے تم لوگوں کے لئے اپنی قسموں سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے اللہ تمارا مولیٰ اور وہی علیم و حکیم ہے (ترجمہ آیات از تفہیم القرآن مولانا مودودی )

(اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبی نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی پھر جب اس بیوی نے (کسی اور) وہ راز ظاہر کر دیا اور اللہ نے نبی کو اس (افشاء راز) کی اطلاع دیدی تو نبی نے ا س پر کسی حد تک (اس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے در گزر کیا پھر جب نبی نے اسے (افشاء راز کی) یہ بات بتائی تو اس نے پوچھا آپ کو اس کی کس نے خبر دی نبی نے کہا مجھے اس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرائیل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں بعید نہیں کہ اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دے دے تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں ، سچی مسلمان ، باایمان ، اطاعت گزار ، توبہ گزار، عبادت گزار اور روزہ دار خواہ شوہر دیدہ ہو ں یا باکرہ جناب مولانا مودودی کے ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے (اور باقی تراجم بھی اسی طرح ہی ہیں) کہ حال پتلا ہے کچھ اچھا نہیں خدا خیر کرے

۴۱

( ۱۴) جناب خدیجة الکبریٰ (زوجہ رسول اعظم )

واقعاً ایک تاریخ ساز خاتون جس نے گھر میں بیٹھ کر تجارت کی مختلف دیار اور امصار میں پھیلی ہوئی تجارت کو سنبھالے رکھا سب سے زیادہ مالدار لیکن عرب شہزادوں ، قبائلی سرداروں اور رؤساء کے پیغام ہائے عقد کو ٹھکرا کر رسول اعظم سے ازدواج کیا اور عورت کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے عورت کھلونا نہیں عورت عظمت ہے عورت شرافت ہے عورت جانتی ہے کہ میرا شوہر کون ہو سکتا ہے سب کو ٹھکرا دیا کسی کی خوبصورتی، مالدار ہونا سامنے نہیں رکھا بلکہ نور الہی کو پسند کر کے اللہ و رسول کی خوشنودی کو ترجیح دی واہ رے تیری عظمت اے خدیجہ! خویلد کے اس معزز ترین خاندان کی فرد جو تین پشتوں کے بعد چوتھی میں رسول اعظم سے مل جاتا ہے تزویج سے قبل طاہرہ و سیدہ قریش کے لقب سے پکاری جاتی تھی

قال زبیر کانت تدعٰی فی الجاھلیہ طاہرہ استیعاب برحاشیہ اصابہ جلد ۴ ص ۲۷۹ کانت تدعی فی الجاھلیة بالطاہرہ و کان قیل لہا السیدہ قریش (سیرت حلبیہ جلد ۱ ، ص ۱۸۷)

حضور مدنی زندگی میں اکثر خدیجہ کا ذکر کرتے رہتے اور فرماتے تھے:رزقنی الله اولادها وحرمنی اولاد النساء خدا نے خدیجہ سے مجھے اولاد عطا کی جب کہ اور عورتوں سے نہیں ہوئی، کبھی ارشاد فرماتے :آمنت اذا کفرالناس و صدقتنی اذکذبنی الناس (اصابہ جلد ۴ ص ۲۸۳)

وہ مجھ پر تب ایمان لائیں جب کہ لوگ منکر تھے اور انہوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے تربیتی انداز میں قرآن مجید کی آیات( جن میں امہات المومنین ازواج نبی کو بعض چیزوں سے منع اور بعض کا حکم دیا گیا ہے) مدینہ میں نازل ہوئی ہیں حضرت خدیجہ اس قدر تربیت یافتہ سلیقہ شعار خدا و رسول کے فرامین پر عمل پیرا رسول اعظم کے اشاروں و کنایوں کو سمجھنے والی رسول اعظم کی قلبی راز دار کہ ان کے زمانہ میں ایسے احکام کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی وہ خود عاملہ صالحہ مومنہ کاملہ تھیں

۴۲

تاریخ عالم میں برگزیدہ و عظیم خواتین گزری ہیں لیکن رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے معیار (بہترین عادات و خصائل اعلیٰ خدمات اور عظیم قربانیوں کے عنوان سے) چارعورتیں ہی پوری اتریںقال رسول الله صلی الله علیه و آله وسلم خیر نساء العالمین اربع مریم بنت عمران و ابنة مزاح، امراة فرعون و خدیجه بنت خویلد و فاطمه بنت محمد (استیعاب بر حاشیہ اصابہ جلد ۴ ، ۳۸۴) نوٹ: مریم بنت عمران، اینہ مزا، زوجہ فرعون، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد یہ پانچ خواتین ہوتی ہیں جبکہ حدیث مین چار بتائی گئی ہیں ( ۱۵) امہات المومنین میں سے زینب بنت جحش

جناب زینب کے ساتھ حضور کی تزویج بڑا مشکل اور حساس مسئلہ ہے اللہ کے حکم ہی نے اس مسئلہ کو انتہا تک پہنچایا ، یہ تزویج اللہ کی طرف سے ہوئی جناب زینب فرمایا کرتی تھیں: میرے جیسا کون ہے سب کی شادیاں رسول اعظم کے ساتھ ان کی خواہش یا والدین کی طرف سے ہوئیں اور میری تزویج براہ راست خدا کی طرف سے ہے جناب زینب حضور کی پھوپھی زادہ ، خاندان بنی ہاشم کی چشم و چراغ لیکن حضور نے خود ان کی تزویج اپنے آزاد کردہ غلام اور پھر جس کو متبنیٰ (منہ بولے بیٹے ) زید بن حارث کے ساتھ کی کافی دیر ملا پ رہا لیکن اختلاف بھی رہا بالآخر انہوں نے طلاق دے دی تو اللہ کا حکم ہواکہ حضور شادی کر لیں اب مشکل درپیش ہے

۱ متبنی (منہ بولے بیٹے) کی زوجہ سے شادی کا فیصلہ

۲ آزاد کردہ غلام کی مطلقہ سے شادی وہ بھی حضور کی لیکن اللہ کا ارادہ حکم بن کر آیا اور خدا کی طرف سے شادی ہو گئی ارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ أَنْعَمَ الله عَلَیْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْهِ أَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ الله وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا الله مُبْدِیْهِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَالله أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَهَا لِکَیْ لاَیَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَکَانَ أَمْرُ الله مَفْعُوْلًا مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ الله لَه سُنَّةَ الله فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَکَانَ أَمْرُ الله قَدَرًا مَّقْدُوْرًا )

۴۳

"اور(اے رسول یاد کریں وہ وقت) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا کہہ رہے تھے اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو اور وہ بات آپ اپنے دل میں چھپا ئے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہے گا"نبی کے لئے اس (عمل کے انجام دینے میں) کوئی مضائقہ نہیں جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے جو (انبیاء) پہلے گذر چکے ہیں ان کے لئے بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے اور اللہ کا حکم حقیقی انداز سے طے شدہ ہوتا ہے" (سورہ احزاب آیت ۳۷۳۸)

اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کی عظیم شخصیت اور سب سے برتر اور معزز شخصیت حضور کی ذات ہے بعد از خدا توئی قصہ مختصر حضور کی محبت کا تقاضا ان کے متعلقین سے پیاراور ان کی عزت کرنا ہے لہٰذا ازواج نبی عزت و عظمت کی مالک ہیں اللہ نے ان کودو خصوصیات عطا کی ہیں

۱ ازواج نبی مومنین کی مائیں ہیں

( وَأَزْوَاجُه أُمَّهَاتُهُمْ ) ( سورہ احزاب آیت ۶)

۲ نبی کی ازواج سے اگرچہ طلاق ہو جائے کسی کو شادی کا حق نہیں

( وَلَاأَنْ تَنْکِحُوْا أَزْوَاجَه مِنْ م بَعْدِه أَبَدًا )

سورہ احزاب آیت ۵۳ اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ بے اعتدالی اور حد سے تجاوز ان سے بھی ہوا ہے حکم تھا کہ گھر میں جم کر بیٹھی رہو

( وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ الله وَالْحِکْمَةِ إِنَّ الله کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا )

"اوراللہ کی ان آیات اورحکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے اللہ یقیناً باریک بین خوب باخبر ہے" (احزاب ۳۴)

۴۴

لیکن گھر سے باہر جانا ہوا حواب کے کتوں نے بھونکتے ہوئے متوجہ کیا، پھر جنگ جمل کی کمان ، نبی اعظم کے خلاف جھة بندی سازش، اللہ کی طرف سے دل ٹیڑھے ہونے کا تذکرہ

( إِنْ تَتُوْبَا إِلَی الله فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ الله هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَةُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَهِیْرٌ ) (سورہ تحریم: ۴)

اللہ کی طرف سے دھمکی آمیز فرمان ،تم کو طلاق بھی ہو سکتی ہے اور تم سے بہتر ازواج مل سکتی ہیںاس سے واضح ہوتا ہے کہ عورت بڑے گھر میں رہنے کے باوجود عورت ہی رہتی ہے بڑے گھر میں آنے سے حقیقی عظمت پیدا نہیں ہوتی لیکن باین ہمہ ازواج نبی انتہائی قابل عزت ، قابل تکریم ہیں کوئی ایسا کلمہ نہ کہا جائے جو عظمت کے منافی ہو خداوند عالم نے ایک طرف ازواج کی طرف سے رسول اعظم کے خلاف سازش دل کا ٹیڑھا ہونے کا تذکرہ کیا ہے دوسری طرف نوح و لوط کی بیویوں کی مخالفت اور کفر کا ذکر کیا نیز زوجہ فرعون کی عظمت اور مادر عیسیٰ کی تکریم و ثناء کر کے واضح کیا ہے کہ صرف کسی نبی کی زوجہ ہو نا کافی نہیں اصل میں دیکھنایہ ہوگا کہ فرامین خداوندی پر کس قدر عمل ہوا ارتباط بہ خدا کس قدر ہے نبی کی اطاعت کا پیمانہ کیا ہے مثبت پہلو رکھنے والی زوجہ انتہائی عظیم منفی پہلو رکھنے والی زوجہ اپنی سزا کی مستحق

حضرت فاطمة الزہراء

رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اکلوتی بیٹی ، پر عظمت بیٹی ، معصومہ بیٹی جس کی رضا خدا کی رضا، جس کی ناراضگی خدا کی ناراضگی، باپ کا میوہ دل، جس کے متعلق حضور کا فرمانفاطمه هی ام ابیها بغقہ منی میرا ٹکڑامهجة قلبی دل کا ٹکڑا جس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے اپنی مسند پر بٹھاتے تھے حضرت مریم علیہا السلام کی عظمت و طہارة قرآن میں مذکور جناب فاطمہ زہراء کی عظمت کا ذکر قرآن مجید کر رہا ہے، سیدہ زاہراء سلام علیہا کو قرآن نےمصطفی (فاطر ۳۲)مرتضیٰ (جن، ۲۷)مجتبیٰ (آل عمر ان : ۱۷۰) اور پھر اذہاب رجس اوریطرکم تطهیرا سے نوازا گیا(احزاب : ۳۳) فاطمہ زہرا ، ان کے شوہر اوران کی اولاد کی محبت اجرر سالت قرار پائی (شوریٰ ۲۳)

۴۵

نصاریٰ نجران کے مقابل میں مباہلہ میں شرکت

( اَلْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَاتَکُنْ مِّنْ الْمُمْتَرِینَ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیْهِ مِنْ م بَعْدِمَا جَائَکَ مِّنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُم ْوَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَةَ الله عَلَی الْکَاذِبِیْنَ ) (آل عمران ۶۱)

زہرا ،حسین و زینب کبری کی ماں جنہوں نے جان و چادر دیکر اسلام کو زندہ و جاوید بنا دیا فدک کی مالک فاطمہ ، دربار میں خطبہ دینے والی فاطمہ ، پانی جس کا حق مہر فاطمہ ، جس کی تزویج پہلے عرش عُلیٰ پر پھر زمین پرہوئی فاطمہ ، بس فاطمہ فاطمہ ،فاطمہ ہی ہے، فاطمہ و اولاد فاطمہ اللہ کے محبو ب جان کا نذرانہ پیش کرنے والے جنہوں نے بچے دئیے ، بھتیجے دئیے، بھانجے دئیے، بھائی دئیے، اصحاب و انصار دئیے ، جان کا نذرانہ پیش کیا چادر دی، ہتکڑیاں و طوق پہنے جن کے ہاتھ پس پشت باندھے گئے سیدانیوں کو درباروں ، بازاروں میں پھرایا گیا سب کچھ برداشت ، سب کچھ قبولکیوں؟ اسلام بچ جائے انسانیت کی عظمت محفوظ رہے

انسانیت کی محافظ ، فاطمہ بنت فاطمہ ، اولاد فاطمہ

زینب (عورت) کی عظمت کہ حسین کے کارنامہ کو بازاروں ، درباروں میں خطبہ دے کے واضح و آشکار کیا جب بھی عورت کی عظمت میں تذبذب ، شک ہو تو زینب ، رباب ، ام لیلیٰ ، کلثوم ، سکینہ کے کارنامے دیکھ لیا کرو گردن جھک جائے گی مرد قوام علی النساء لیکن فاطمہ فاطمہ ہے زینب زینب ہے ان کی برابری کیسے ہو؟ عورت بیٹی ، زوجہ ، والدہ بیٹی اللہ کی طرف سے رحمت اوربیٹا نعمت ہے نعمت سے رحمت کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے رحمت ہی سے نظام چل رہاہے باران رحمت انسانی زندگی کے لیے عظیم تحفہ ہے بہرحال قرآن رحمت رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )رحمت ، رحمت جباریت و قہاریت سے زیادہ وسیع ہے اور بیٹی بھی رحمت

۴۶

جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے :

( إِذْ قَالَتِ امْرَأةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ وَضَعْتُهَا أُنْثٰی وَالله أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْأُنْثٰی وَإِنِّیْ مَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیْذُهَا بِکَ وَذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَّأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّکَفَّلَهَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ یَامَرْیَمُ أَنّٰی لَکِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ الله إِنَّ الله یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ )

"(اور وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی عورت نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے شکم میں ہے اسے تیری نذر کرتی ہوں وہ اورباتوں سے آزاد ہوگاتو میری طرف سے قبول فرما بے شک تو بڑا سننے والا جاننے والا ہے پھر جب اسے جن چکی تو کہنے لگی، مالک میں نے تو بیٹی جنی ہے اللہ کے بارے میں بہتر جانتا ہے کہ جو اس (مادر مریم )نے جنا اور بیٹا اس بیٹی جیسا نہیں ہو سکتا اور میں نے اس (بیٹی)کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے اور اسکی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں چنانچہ اسکے رب نے اسکی نذر (لڑکی) کو بوجہ احسن قبول کیا اوار اس کی بہترین نشوونما کا اہتمام کیااور زکریا کو اس کا سر پر ست بنادیا جب زکریا اس کے حجرہ عبادت میں آتے تو اسکے پاس طعام موجود پاتے پوچھا اے مریم یہ (کھانا) تمہارے پاس کہاں سے آتاہے وہ کہتی اللہ کے ہاں سے بے شک خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتاہے " )سورہ آل عمران آیت نمبر ۳۵۳۶۳۷

( عام طور پر نذر لڑکوں کی ہوتی ہے ادر مریم بھی پریشان ہوئی لیکن اللہ نے اس کی نذر کو بوجہ احسن قبول فرمایا ارشا د ہو ایس الذکر کالانثی یعنی لڑکا ،لڑکی جیسا نہیں ہو سکتا معلوم ہوا کہ بیٹی کی اہمیت اس کا م میں بھی (جس کی نذر کی تھی)بیٹے سے کم نہیں ہے کہ جسے بوجہ احسن قبول فرمایا گیا پھر جب زکریاجیسے نبی ہی کھانا و طعام ملاحظہ فرماتے ہیں تواللہ کی طرف سے ان نعمات کی آمد پر شکر بجالاتے بیٹی کی عظمت کی دلیل بیٹی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خدا نے رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو بیٹی ہی دی صرف ایک بیٹی لیکن وہ اس عظمت کی مالک کہ جب تشریف لاتیں تورسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بنفس نفیس تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے

۴۷

جب ارشاد رب العزب ہوا:

( وآتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّه )

"قریبی رشتہ داروں کو انکا حق دیا کرو" (بنی اسرائیل: ۲۶)

تب رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے جناب فاطمہ الزہرا کو فدک دے دیا الدر المنثور جلد ۴ ص ۳۲۰ روایت حضرت ابن عباس اسی طرح ارشاد رب العزت ہے:

( قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی )

"کہہ دیجیے کہ میں اس تبلیغ پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اپنے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے" ( سورہ شوریٰ: ۲۳ )

اس آیت میں بھی قربت کا محور جناب سیدہ ہیں مزید ارشاد رب العزت ہے:

( إِنَّمَا یُرِیْدُ الله لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا )

"اے اہل بیت اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسا پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے "( سورہ احزاب: ۳۳ )

آیت تطہیر کا محور بھی جناب سیدہ دختر رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہیں چنانچہ وقت تعارف کہا گیا ہے

هم فاطمة وابوها وبعلها وبنوها

یعنی مرکز تعارف بیٹی ہی بن رہی ہے عورت( بیٹی) کا مقام سیدہ زینب بنت علی کیوں نہ ایک اور بیٹی کاذکر بھی کر دیا جائے جس نے باپ کے زانو پر بیٹھے ہوئے پوچھا تھابابا آپ کو ہم سے محبت ہے

حضرت نے فرمایا تھا جی ہاں عرض کی یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ سے محبت بھی ہو اور بیٹی سے محبت بھی ہو پھر خود کہا ہاں اللہ سے محبت بیٹی اوراولاد پر شفقت ہے کیا کہنا عظمتِ ثانی زہرا ء کیا شان ہے دختر مرتضی کی جس نے اپنے خطبات سے اسلام کو زندہ وپائندہ بنادیا حق کوروز روشن کی طرح پوری دنیا کے سامنے واضح کیا کہ حسین باغی نہیں نواسہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہے بہرحال تم بیٹی یعنی عورت کو کم درجہ کی مخلوق نہ سمجھو مرد کے کام کی تکمیل عورت ہی کرتی ہے عورت و مرد کا کوئی فرق نہیں ہے

۴۸

معیار ِتفاضل صرف تقویٰ اور ارتباط بہ خداہے عورت ۔۔۔۔۔زوجہ شادی اورتزویج فطرت کی تکمیل ہے حدیث میں ہے کہ شادی کے بغیر مرد کادین آدھاہے تزویج سے اسکے دین کی تکمیل ہو گی بعض روایات میں غیر شادی شدہ مرد کو بد ترین کہا گیاہے ارشاد ہوتا ہےشرا ء کم عزابکم تم میں سے بد ترین افراد غیر شادی شدہ ہیں(تفسیر مجمع البیان )

شادی ہی سے اجتماعیت کا تصور پید ا ہوتا ہے اس وقت انسان خود سے ہٹ کر سوچنے کاسلسلہ شروع کرتا ہے قرآن مجید نے دعاکی تلقین کی ہے اے انسان یہ دعا طلب کیاکر :

( رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْیُنٍ )

"پرودگار ہماری ازواج او رہماری اولا دسے ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرما " (سورہ فرقان : ۷۴)

ارشاد رب العزت ہے:

( وَأَنْکِحُوْا الْأَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَائِکُمْ إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِهِمُ الله مِنْ فَضْلِه وَالله وَاسِعٌ عَلِیْمٌ )

"تم میں سے جو لوگ بے نکاح ہوں اور تمہارے غلاموں کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کردو اگروہ نادار ہو ں تواللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر د ے گا او راللہ بڑا وسعت والا علم والا ہے" (سورہ نور: ۳۲)

انسانیت کی بقا کے لیے سلسلہ تناسل کا جاری رہنا ضروری ہے سلسلہ تناسل کے لیے عورت اسکا لازمی جز وہے انسانیت کی بقا ء مرد و عورت دونو ں کی مرہون منت ہے مرد کی طرح عورت بھی اہمیت رکھتی ہےعورت کاوجود لازمی او رضروری ہے اس لیے حکم دیاگیاکہ بے نکاح لوگوں کے نکاح کرو یعنی ایسے اسباب مہیا کرو کہ ان کی شادی ہو سکے نکاح کے اسباب وسائل مہیا کرو تا کہ صالح مرد او ر صالحہ عورتوں کے ملاپ سے انسانیت کی بقاء ہو بہرحال اسلام نے بہترین توازن پیدا کیا اورایسا نظام دیا جس میں ان دونوں کی عزت ،عظمت اور اہمیت ظاہرر ہے خطبہ طلب زوجہ بھی (شادی کرنے کی خواہش کا اظہار)مرد کی طرف سے ہے برات مرد کی طرف سے ہے لیکن برات کے آنے سے نکاح کا صیغہ عورت کی طرف سے ہوگا گویا عورت برات کا استقبال کررہی ہے ایجاب عورت کی طرف سے ہو رہا ہے

۴۹

اب اس عزت واحترام کے ساتھ عورت کاورود مرد کے گھرمیں ہوتا ہے تاکہ عورت (زوجہ ) کی اہمیت واضح ہو جائے مرد سمجھے کہ کسی نے اپنے جگر کا ٹکڑا اس کے پاس امانت کے طور پر رکھوایا ہے اسی لیے تو اس لڑکی کا باپ یہ کہہ رہا ہوتاہے کہ میری امانت آپ کے حوالے ہے

عورت بہ حیثیت زوجہ

رسول اعظم کا فرمان ہے کہلولا علی لما کان لفاطمة کفو علی سید الاولیا ء ، علی نفس رسول علی رسول الله (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے بھا ئی نورِ علی رسول اعظم کے نور میں شریک علی مدینة العلم ، علی منبرسلو نی کے داعی ، فاطمہ کے کفو صرف علی ہیں اس سے واضح ہو ا کہ فاطمہ زہر ا کس قدر عظمت کی مالک ہیں اے انسان عورت زوجہ کی شکل میں اب تیری مشیر ،تیر ے گھر کی ملکہ ،تیری غم گسار ،تیری عزت کا نشان ،تیرے بچوں کی ماں،تیرے بچوں کی مربی ،اس کی عزت کر اس کی عظمت کا قائل ہو جا اسی میں تیری عزت وعظمت ہے عورت (والدہ) والدین ( ماں باپ ) کی اہمیت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے اس میں بھی باپ کیساتھ عورت ( ما ں) کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ یہ بتا یا جاسکے ماں عورت ہونے کی وجہ سے درجہ میں کم نہیں ہے بلکہ بعض روایات میں ماں کی عظمت بہتر انداز میں ذکر کی گئی ہے ارشاد ہے کہ الجنة تحت اقدام الامہات جنت ما ں کے قدمو ں کے نیچے ہے نیزارشاد رب العزت ہے:

( وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ الله وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )

"او ر جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا ( اور کہا ) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو او راپنے والدین پر احسان کرو " ( سورہ بقرہ : ۸۳)

پھر ارشاد رب العزت ہے :

( کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرَاًن الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ )

"تمہارے لیے یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے او روہ کچھ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ والدین اور رشتہ دارو ں کے لیے مناسب طور پروصیت کرے" سورہ بقرہ: ۱۸۰

۵۰

نیزارشاد رب العزت ہے :

( وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِه عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا )

"او رہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کاحکم دیا ہے اگر تیرے ماں باپ میرے ساتھ شرک پر مجبور کریں جس کا تجھے کو ئی علم نہ ہو توان دونوں کا کہنا نہ ماننا" (سورہ عنکبوت : ۸)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض آیات میں اپنی عبادت اورشرک نہ کرنے کے فوراً بعد والدین کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا ہے جیساکہ ارشاد رب العزت ہے:

)وَاعْبُدُوا الله وَلَاتُشْرِکُوْا بِه شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )

"او رتم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو او رکسی کو اسکا شریک قرار نہ دو او رماں باپ کے ساتھ احسان کرو" (سورہ نساء : ۳۶)

اللہ نے دس حقوق انسانی کا تذکرہ کرتے ہوئے پہلے اپنے ساتھ شرک نہ کرنے اور والدین سے اچھائی کرنے کا حکم دیا ہے ارشاد رب العزت ہے:

( قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ أَلاَّ تُشْرِکُوْا بِه شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )

"کہہ دیجئے آومیں تمہیں وہ چیزیں بتا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کر دی ہیں وہ یہ ہیں کہ تم لوگ کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ اور والدین پر احسان کرو" (انعام: ۱۵۱)

مزید ارشاد رب العزت ہے:

( وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا إِلاَّ إِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ کِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَا أُفٍّ وَّلَاتَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیرًا )

"اورتمہارے کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بوڑھے ہو جائیں تو خبر دار ان سے اف تک نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں بلکہ ان سے عزت و تکریم سے بات کرنا اور ان کیلئے خاکساری کے ساتھ کاندھوں کو جھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگارا ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے پالا ہے" ( بنی اسرائیل : ۲۳ تا ۲۴)

۵۱

ماں باپ کی عظمت کا کیا کہنا اللہ کا فیصلہ ہے کہ میری عبادت کرواور پھر والدین کے ساتھ احسان کرو پھر اف کہنے تک کی اجازت نہیں ہے بہرحال اس حکم میں ماں بھی شریک ہے جیساکہ انبیاء اور اولیاء بھی اپنی دعاوں میں باپ کے ساتھ ماں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں جیساکہ حضرت نوح کے متعلق ارشاد رب العزت ہے:

( رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ )

"پروردگار! مجھے اور میرے والدین ، اور جو ایمان کی حالت میں میرے گھر میں داخل ہو ، اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو معاف فرما " (نوح : ۲۸)

اس دعا میں ماں اور ہر مومن عورت کا تذکرہ موجود ہے اسی طرح حضرت ابراہیم کے متعلق ارشاد رب العزت ہے:

( رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ )

"پروردگار! مجھے ، میرے والدین اور ایمان والوں کو بروز حساب مغفرت سے نواز"(ابراہیم : ۴۱)

حضرت سلیمان بھی اپنے معصوم اورنبی باپ کے ساتھ اپنی والدہ کو بھی دعا میں شریک کر رہے ہیں جیساکہ ارشاد رب العزت ہے:( رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ )

"پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جن سے تو نے مجھے اور میرے والدین (ماں باپ) کو نوازا ہے "( احقاف : ۱۵)

اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ - کو ان پر ان کی والدہ پرکیے گئے احسان کا تذکرہ فرمارہا ہے:

( إِذْ قَالَ الله یَاعِیَسٰی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَعَلی وَالِدَتِکَ )

"جب حضرت عیسیٰ بن مریم سے اللہ نے فرمایا:یاد کیجئے میری اس نعمت کو جو میں نے آپ اور آپ کی والدہ کو عطا کی" (مائدہ : ۱۱۰)

۵۲

حضرت عیسیٰ اللہ سے اپنی ماں کے ساتھ نیکی کی خواہش کر رہے ہیں

( وَبَرًّا بِوَالِدَاٰتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا )

( اللہ نے) مجھے اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا اورمجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا" (مریم : ۳۲)

الٰہی کتاب قرآن مجید کی رو سے ،عورت اور مرد میں خلقت،اعمال، کردار،اخلاق ، نیکی ، بدی، جزا و سزا، انعام و اکرام ، حیات طیبہ ، وغیرہ میں سے کسی لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے البتہ اللہ نے معیار ِتفاضل ، معیار ِبہتری اور معیارِبلندی صرف تقویٰ اور خوف خدا کو قرار دیا ہے اے انسان! عورت تیری طرح کی اورتیرے ہی جیسی انسان ہےوہ بیٹی بن کرتجھ پر رحمت برساتی ہےبیوی بن کر تیرے دین اور ایمان کی تکمیل کرتی ہے اور ماں بن کر تجھے جنت کا تحفہ پیش کرتی ہے جب بیٹی بنے تو خوش ہو جا کہ تجھ پر رحمت خدا کا نزول ہوا ہےجب وہ زوجہ نہیں بنی تھی تو،تو اکیلا تھا لیکن اب تجھے دوست، شریک کار ،ساتھی،اور مشیر مل گیاہے جب ماں بنی تو ،تو اس کے پاوں پکڑ کر خدمت کر کیونکہ تجھے جنت کا وسیلہ مل گیا ہے خدایا تو ہم سب کو حقیقی مسلم اور مومن بننے کی توفیق عطا فرما احکام و حقوق میں مرد و عورت کا اشتراک ارشاد رب العزت :

( وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ )

" اور عورتوں کو بھی دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں" ( سورہ بقرہ آیت ۲۲۸)

مدینہ سے بعض مسلمان مکہ آئے مخفیانہ حضور کے دست مبارک پر بیعت کی ان میں دو عورتیں تھیں نسیبہ بنت کعب اسماء بنت عمرو ابن عدی فتح مکہ کے وقت عورتوں سے باقاعدہ علٰیحدہ بیعت لی گئی

۵۳

ارشاد رب العزت ہے:

( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ إِذَا جَائَکَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی أَنْ لَّایُشْرِکْنَ بِالله شَیْئًا وَّلَایَسْرِقْنَ وَلَایَزْنِینَ وَلاَیَقْتُلْنَ أَوْلاَدَهُنَّ وَلاَیَأْتِیْنَ بِبُهْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَه بَیْنَ أَیْدِیْهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلاَیَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ الله إِنَّ الله غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ )

"اے نبی جب مومنہ عورتیں اس بات پر آپ سے بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرئیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کا ارتکاب بنائیں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان (غیر قانونی اولاد) گھڑ کر (شوہر کے ذمے ڈالنے) لائیں گی اور نیک کاموں میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی تو ان سے بیعت لے لیں اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں اللہ یقینا بڑا بخشنے والا مہربان ہے (سورہ ممتحنہ : ۱۲)

اسلام کی نظر میں عورت کی پہچان اس عنوان سے ہے کہ اجتماعیت کا تکامل اسی وجہ سے ہے خواہ عورت بیٹی ہو ، زوجہ ہو یا ماں اسلامی قانون میں عورتیں ، کسب معاش ، تجارت ، عبادت و وظائف میں مردوں کے مساوی ہیں ارشاد رب العزت ہے:

( وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ الله بِهِ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا الله مِنْ فَضْلِه إِنَّ الله کَانَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا )

"اور جس چیز میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی تمنا نہ کیا کرو مردوں کو اپنی کمائی کا صلہ اور عورتوں کو اپنی کمائی کا صلہ مل جائے گا اور اللہ سے اس کا فضل و کرم مانگتے رہو یقینا اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے" ( النساء : ۳۲)

آسمان و زمین کی خلقت ،لیل و نہار کی آمد ، رات و دن عبادت خدا، خلقت عام میں تفکر، دعاؤں کا طلب کرنا، معارف اسلامی کی معرفت اور عملی عقیدہ ان سب امور میں مرد و عورت شریک ثواب و جزاء کے حق دار، کسب معارف، حمل امانت الٰہی میں سب برابر ہیں

۵۴

ارشاد رب العزت ہے :

( یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ یَسْعٰی نُوْرُهُمْ بَیْنَ أَیْدِیْهِمْ وَبِأَیْمَانِهِمْ بُشْرَاکُمُ الْیَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِیْنَ فِیهَا ذٰلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ )

"قیامت کے دن آپ مومنین و مومنات کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا (ان سے کہا جائے گا) آج انہیں ان جنتوں کی بشارت ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، جن میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہوگا، یہی تو بڑی کامیابی ہے " (سورہ حدید: ۱۲)

نورکی موجودگی میں عورت مرد مساوی مدارج عبادات اسلام و ایمان میں مساوی ارشاد رب العزت ہے:

( إِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِیْنَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِیْنَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِیْنَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِیْنَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاکِرِیْنَ الله کَثِیْرًا وَّالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ الله لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّأَجْرًا عَظِیْمًا )

"یقینا مسلم مرد اور مسلمہ عورتیں مومن مرد اور مومنہ عورتیں اطاعت گزار مرد اوراطاعت گزار عورتیں راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے وال مرد اور صبرکرنے والی عورتیں فروتنی کرنے والے مرد اور فروتن عورتیں صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں اپنی عفت کے محافظ مرد اور اپنی عفت کی محافظ عورتیں خدا کو یہ کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں وہ ہیں جن کے لئے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے " (احزاب ۳۵)

حفظ قانون ، نظارت امن ، باہمی اجتماع کا وجود عورت و مرد دونوں کا وظیفہ قرار دیا گیا ہے ارشاد رب العزت ہے:( وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَوْنَ عَنَ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکَاةَ وَیُطِیْعُوْنَ الله وَرَسُوْلَه أُوَلَئِکَ سَیَرْحَمُهُمْ الله إِنَّ الله عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ )

" اور مومن مرد و مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے خیر خواہ ہیں وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوة ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا حکمت والا ہے" (سورہ توبہ: ۷۱)

۵۵

ازواج نبی اعظم کو حکم ہے معارف قرآن کے حصول اور آپس میں مذاکرہ کرنے کا :

( وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ الله وَالْحِکْمَةِ إِنَّ الله کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا )

"اور اللہ کی ان آیات و حکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے اللہ یقینا بڑا باریک بین اور خوب با خبر ہے" (احزاب ۳۴)

گویا ہر گھر میں موجود عورت کو حکم ہے معارف قرآنی کے حصول اس کی دوسری عورتوں کو ترغیب اور عمل پیرا ہونے کا یہی اسلامی فریضہ ہے جو مرد و عورت دونوں نے بروئے کار لاناہے اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا جس میں عورت مرد شریک ہیں ارشا د رب العزت ہے :

( وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلاَمُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَی الله وَرَسُولُه أَمْرًا أَنْ یَّکُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ یَّعْصِ الله وَرَسُولَه فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنًا )

"اور کسی مومن مرد و مومنہ عورت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب اللہ اور اسکا رسول کسی معاملہ میں فیصلہ کریں تو انہیں اپنے معاملہ میں اختیار حاصل رہےاور جس نے اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہو گیا" (احزاب : ۳۶)

عزیز من !ان آیا ت سے معلوم ہو اکہ مرد و عورت کا امتیاز اعمال و کردار کی بلندی و پستی کی بدولت ہے جو اللہ سے زیادہ مربوط ہو گا وہی عالی درجہ پر فائز ہوگا

عورت و مرد میں مساوات

معارف اسلامی، نظریات و عقائد اصول شرعیہ میں عورت و مرد برابر اللہ پر ایمان واجبات کا بجا لانا محرمات کے ارتکا ب سے بچنا نماز و زکوٰة خمس وحج میں مساوی وضو و غسل تیمم نیز تعلیم و تعلم دونوں کا حق تجارت و ملکیت ،خرید و فروخت میں مساوات ،جزاو عقاب میں برابر چوری، زنا کی خرابیوں میں مساوی غرضیکہ حکم الٰہی سب کے لیے عورت ہو یامردہو انسان و انسانیت میں برابر لذا احکام الٰہی میں بھی مساوی! اسلام و خانوادہ (فیملی) خاندا ن وخانوادہ کی نشو ونما میں محبت ،الفت اورباہمی تعاون ایک دوسرے کے لیے تضا من دخیل ہیں گھر کے سکون گھر کے اطمینان کے لیے یہ چیزیں لازمی ہیں

۵۶

ارشادِ رب ِالعزت ہوتا ہے :

( وَالله جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ م بُیُوْتِکُمْ سَکَنًا )

" اوراللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لیے سکون کی جگہ بنایا ہے " (سورہ نحل: ۸۰)

عورت بچے کی خواہش مردسے زیادہ اور گھر کی خوبی کا زیادہ احساس رکھتی ہے عورت ہی ہے جو گھر کوگھر بناتی ہے اپنے ہشا ش بشاش چہرے سے گھر کو جنت کا درجہ دے دیتی ہے ،مرد کا کا م گھر بنانا ہے عورت کا کام گھر سجانا ہے گھر کی اہمیت اس قدر کہ فرمان رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہے کہ مسجدکیطرف جانا پھر گھر کی طرف واپس آنا ثواب میں برابر ہیں (الخلق الکامل: جلد ۲ ،ص ۱۸۳ )

رہبانیت ہر وقت مسجد و محراب میں عبادت کا تصور اسلام میں نہیں اسلام مسجد و گھر دونوں میں توازن کا قائل ہے کسی نبی کے لیے بھی اہم ترین نعمت زوجہ اور اولاد ہے ارشا د رب العزت ہے :

( وَلَقِدْاَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً )

" بتحقیق ہم نے آ پ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے اور انہیں ہم نے اولا د و ازوا ج سے بھی نوازا" (رعد: ۳۸)

اللہ نے اپنی تعلیمات کا تذکرہ کرتے ہوئے اولا د کی نسبت ازواج کی طرف دے کر عورت کی اہمیت واضح کر دی ارشا د رب العزت ہے :

( وَالله جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا وَّجَعَلَ لَکُمْ مِّنْ أَزْوَاجِکُمْ بَنِیْنَ وَحَفَدَةً وَّرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَةِ الله هُمْ یَکْفُرُوْنَ )

" اوراللہ نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے بیویا ں بنائیں اور اس نے تمہاری ان بیویوں سے تمہیں بیٹے اور پوتے عطا فرمائے اور تمہیں پاکیزہ چیزیں عنایت کیں تو کیا یہ لوگ باطل پر ایمان لائیں گے اور اللہ کی نعمت کا انکار کریں گے ؟ " (سورہ نحل: ۷۲)

۵۷

اولا د کی نسبت عورتوں کی طرف یعنی بیویوں کی طرف کیوں ظاہر ہے کہ مرد کا مقصد جماع سے ہر وقت بچہ ہی نہیں ہوتا عورت ملی ہے کہ وہ قطرہ کو اپنے رحم میں جگہ دیتی ہے اور پھر وہ بچہ کی صورت میں پیدا ہوتاہے کھجوریں کھانے والا کھجوریں کھا کر اس کی گٹھلی پھینک دیتا ہے لیکن اسی سے کھجور پید اہوتی ہے اور مالک ِ زمین کی ملک ِ بن جاتی ہے قطرہ کو کئی ماہ پیٹ میں رکھنا اپنا خون دینا اپنی انرجی صرف کرنا بے چاری زوجہ کا کام ہے مرد تو بعد از لذت و تلذذ اپنے آپ کو فارغ سمجھ لیتاہے بیویوں کی نسبت مرد کی طرف کہ وہ تمہاری ہی جنس سے ہیں، وحدت و یگانگی کی بہترین مثال ہے اور پھر اولا دکی نسبت زوجہ کی طرف دینے سے انسان کو متوجہ کرنا ہے کہ جنت ماں کے قدموں میں ملے گی گھر اللہ کا بنایا ہواایک حصار ہے جس میں محبت اور الفت و پیار کا دور دورہ گھر کو جنت معا شرہ کو مثالی بنا دیتاہے گھر مرد نے بنا یا اسکوجنت عورت نے بنانا ہے مرد کاکام حفاظت اور خوبصورتی پیداکرنا عورت کا کرشمہ ہے عورت و مرد ایک دوسرے کا لباس ایک دوسرے کی عزت و تکریم ہیں کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ تم مردان کے محافظ ہوتم سے ان کے متعلق سوال کیاجائے گا ارشاد رب العزت ہے :

( یَاأَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْا أَنفُسَکُمْ وَأَهْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلاَئِکَةٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ لَّایَعْصُوْنَ الله مَا أَمَرَهُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ )

"اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچا و،جسکاایندھن انسان اور پتھر ہوں گے اس پر تند خواو ر سخت مزاج فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں ملتاہے بجا لاتے ہیں " (سورہ تحریم : ۶)

حدیث میں ارشاد ہے کہ اس مرد پرخدا کی رحمت ہے جو نماز شب کے لیے بیدار ہوتاہے اور اپنی زوجہ کو بیدار کرتاہے تاکہ وہ بھی نماز شب پڑ ھ سکے خدا اس عورت پر رحیم کرتا ہے جو نماز شب کے لئے خود بیدار ہو اور شوہر کو بیدار کرے تاکہ وہ بھی نماز شب پڑھ سکے درحقیقت یہ کام متوجہ کر رہاہے کہ عورت و مرد کا باہمی تعلق اس قدر قوی ہے کہ مرد چاہتاہے عورت بھی اس کی نیکی میں ساتھی بنے ساتھی عورت خواہش کرتی ہے کہ مردبھی اس نیکی میں میرا ساتھ دے تاکہ پورے خانوادہ کے لیے جنت حق واجب بن جائے

۵۸

ارشادِ رب العزت ہے:

( وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِإِیْمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ کُلُّ امْرِءٍ بِمَا کَسَبَ رَهِیْنٌ )

"اور جو لوگ ایمان لے آئے اورانکی اولاد نے بھی ایمان لانے میں انکی پیروی کی تو ان کی اولاد کوبھی جنت میں ہم ان سے ملا دیں گے اور انکے عمل میں سے ہم کچھ بھی ضائع نہیں کریں گے ہرشخص اپنے عمل کا گروی ہے " (طور : ۲۱)

حضرت نوح کی دعا جس میں گھر کی اہمیت اور عورت و مردکے لیے مغفرت کی خواہش ہے

( رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلاَتَزِدِ الظَّالِمِیْنَ إِلاَّ تَبَارًا )

"پروردگار! مجھے اور میرے والدین اور جو ایمان کی حالت میں میر ے گھر میں داخل ہو اور تمام ایماندار مردوں اورایماندار عورتوں کو معاف فر ما اور کافروں کی ہلاکت میں مزید اضافہ فرما" (سورہ نوح : ۲۸)

عورت اورحجاب

حجا ب کے متعلق آیات قرآنی

( ۱)( قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِکَ أَزْکٰی لَهُمْ إِنَّ الله خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَ وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَایُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ إِلاَّ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰی جُیُوبِهِنَّ وَلَایُبْدِیْنَ زِینَتَهُنَّ إِلاَّ لِبُعُوْلَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِیْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِیْ أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰی عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلاَیَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّ وَتُوْبُوا إِلَی الله جَمِیْعًا أَیُّهَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ )

۵۹

"آپ مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچا کر رکھیں یہ ان کے لیے پاکیزگی کا باعث ہےاور مومنہ عورتوں سے بھی دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کر یں اوراپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں اوراپنی زیبائش کی جگہوں کو ظاہر نہ کریں سوائے اسکے جو خود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں آبا ء شوہر کے آبا ء اپنے بیٹوں، شوہر کے بیٹوں اپنے بھائیوں بھائیوں کے بیٹوں بہنوں کے بیٹوں اپنی ہم صنف عورتوں، اپنی کنیزوں، ایسے خادموں جو عورتوں کی خواہش نہ رکھتے ہوں اور ا ن بچوں کے جو عورتوں کی پردے کی بات سے واقف نہ ہوں اور مومن عورتوں کو چاہیے کہ چلتے ہوئے اپنے پاوں زور سے نہ رکھیں کہ ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہوجائے اور اے مومنو سب مل کر اللہ کے حضور توبہ کرو امید ہے کہ تم فلاح پا و گے (سورہ نور : ۳۰،۳۱)

(۲ )( یَاأَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ ذٰلِکَ أَدْنٰی أَنْ یُّعْرَفْنَ فَلاَیُؤْذَیْنَ وَکَانَ الله غَفُوْرًا رَّحِیْمًا )

"اے نبی! اپنی ازواج اور بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادریں تھوڑی نیچی کر لیا کریں یہ امر ان کی شناخت کے لیے (احتیاط کے) قریب تر ہو گا پھرکوئی انہیں اذیت نہیں دے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے " (سورہ احزاب : ۵۹)

(۳)( وَإِذَا سَأَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ ذٰلِکُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوبِهِنَّ )

"اور جس وقت وسائل زندگی میں سے کوئی چیز عاریتاً ان رسول کی بیویوں سے طلب کرو درمیان میں پردہ حائل ہونا چاہیے یہ کا م تمہارے اور انکے دلوں کو زیادہ پاک رکھتاہے" ( سورہ احزاب : ۵۳)

(۴)( وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْأُوْلَی ) "اور اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو " ( سورہ احزاب : ۳۳)

۶۰

جاتا ہے کہ تقریبا ہر دور میں شیعہ اثناعشری کو کافر قرار دیا گیا ہے اس استفتاء کی تحریر کردہ عبارتوں کے بعد جو اب استفتاء کے لئے مزید عبارت کی ضرورت ہیں ۔

تصدیقات علماء پاکستان

پاکستان کے کئی ممتاز علماء کرام نے حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی رئیس دار الافتاء جامعۃ العلو الاسلامیہ ،ومفتی اعظم پاکستان کے اسی فتوے پر اپنے تصدیقی دستخط ثبت فرمائے ہیں ۔ ان حضرات کے دستخط ذیل میں نقل کئے جارہے ہیں ۔

محمد عبدالستار تو فسوی عفی عنہ صدر تنظیم اہلسنت پاکستان

محمد یوسف لدھیانوی عفااللہ عنہ ، مدیر ماہنامہ ،بینات " جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی

سلیم اللہ خاں مہتمم وصدر المدرسین وشیخ الحدیث جامعۃ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی

نظام الدین شامزئی خادم دارالافتاء جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی

محمد عادل جامعہ فاروقیہ فیصل کالونی کراچی

محمد اکمل غفر لہ مفتی دار الافتاء جیکیب لائن کراچی

غلام محمد مفتی جامعہ حمادیہ شاہ فیصل کالونی نمبر ۲ کراچی

فداء الرحمن مہتمم جامعہ انوارالقرآن نارتھ کراچی

سیف الرحمن عفی عنہ ،نائب مہہتم جامع العلوم ضلع بھاولپور

محسن الدین احمد عفا اللہ عنہ ،موسس مدرسہ شریفیہ عالیہ بہالپور

(مقیم (حال نمبر ۱۳۷ بنگسال روڈ ڈھاکہ ۔بنگلہ دیش

عبدالقیوم محمد عبدالرزاق

محمد نعیم مہہتمم جامعہ بنوریہ کراچی نمبر ۱۶

۶۱

فتوی حضرت مولانا عبدالرشید نعمانی صاحب دامت برکاتہم

بسمہ اللہ الرحمن الرحیم

اہل قبلہ کی تکفیر میں علماء حق غایت درجہ کی احتیاط س کام لیتے ہیں لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اہل قبلہ میں سے جو فرقہ بھی ضروریات دین کا منکر ہو وہ قطعی کافر ہے خواہ وہ اپنے ایمان واسلام کا کتنے ہی زور شور سے دعوی کرتا رہے ۔فرقہ امامیہ اثنا عشریہ کے عقائد کے بارے میں فاضل علام حضرت مستفتی مولانا منظور نعمانی اطال اللہ بقاءہ و عم فیوضہ نے جس تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور ان کی مستند کتابوں کے جس کثرت سے حوالے پیش کئےہین ان کے مطالعہ کے بعد خواص تو کیا عوام کو بھی اس فرقہ ضالہ کے خارج از اسلام ہونے میں شک نہیں ہوسکتا ہے ۔

۶۲

بھلا جو فرقہ ختم نبوت کاقائل نہ ہو اپنے ائمہ کو جلی کا درجہ دے انھیں معصوم سمجھے ان کی اطاعت کو تمام انسانوں پر فرض قراردے ۔ ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ ان پر وحی باطنی ہوتی ہے اور وہ انبیاء اولوالعزم سے بھی افضل ہیں ۔ قرآن کریم محرف و مبدل ہے ،صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین جو بہ نص قرآن خیرامت ہیں اور جن کی جاں فشانی وجاں فروشی سے اسلام برپا ہوا اور دین اب تک باقی رہا ان ہی کو مرتد اور کافر کہے اور ان پر سب وشتم اور تبرا کو نہ صرف حلال بلکہ ثواب سمجھے ۔ایسا فرقہ لاکھ اپنے آپ کو مسلمان کہتا رہے اس کو اسلام وایمان اور قرآن ونبی صلواۃ والسلام سے کیا تعلق ؟ بقول شاعر

دشنام بمذہبے کہ طاعت باشد ۔۔۔۔۔ مذہب معلوم واہل مذہب معلوم

یاد رہے کہ تقیہ کے دبیز پردے اور اس فرقہ کی کتابوں کی اشاعت نہ ہونے کے باعث عام طور پر ہمارے علماء گذشتہ دور میں ان کے معتقدات سے بے خبر رہے لیکن اب جبکہ ان کی مستند کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ان کا کفر واضح ہوچکا ہے ۔ پہلے بھی جبکہ اس فرقہ کی تصانیف علماء حق کی دسترس سے باہر تھیں جن اکابر علماء نے ان کے افکار ونظریات پر کام کیا ہے ان کے کفر وزندقہ کی تصریح کی ہے ۔ چنانچہ فاضل مستفتی دامت برکاتہم نے استفتاء میں ان حضرات علماء کی تصریحات اس سلسلے میں نقل فرما دی ہیں ۔ جزاہ اللہ خیرا الجزا

۶۳

دار الافتاء والارشاد ،کراچی

الجواب

باسم طعم الصواب

شیعہ بلاشبہ کافر ہیں ۔ ان کے کفر میں ذرا تامل کی بھی گنجائش نہیں ، ان کی کتابیں کفریات سے لبریز ہیں ۔ جن میں سب سے بڑی وجہ تحریف قرآن ہے ، جو ان کے ہاں متواتر ومسلمات میں سے ہے ، اس مذہب کاجاہل ہر ہر فرد ہر مردوعورت بلکہ ہر بچہ یہی عقیدہ رکھتا ہے ،ان کے گھروں میں جو بچہ بھی جیسے ہی ہوش سنبھالتا ہے اس کے دل ودماغ میں مذہب کا یہ بنیادی عقیدہ زیادہ سے زیادہ راسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے ،ان کا چھوٹا بڑا ہر فرد اسے جزو ایمان بلکہ مدار ایمان سمجھتا ہے ، میں یہ بات کئی شہادتوں کے بعد پورے یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں ۔

اگر کوئی شخص تحریف قرآن سے انکار کرتا ہے تو وہ بطور تقیہ ایسا کرتا ہے اس کی کئی مثالیں خود انھیں کی کتابوں میں موجود ہیں ۔ جب ان پر ان کی کتابیں پیش کی جاتی ہیں تو جواب دیتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص مجتہد ہے ،اس لئے جس مصنف نے تحریف قرآن کا قول کیا ہے وہ اس کا اپنا اجتھاد ہے جو ہم پر حجت نہیں ۔ ایسی صورت میں ان کے تقیہ کا پول کھولنے کے دوطریقے ہیں ۔

۱:- عقیدہ تحریف قرآن "اصول کافی " میں بھی موجود ہے اور اس کتاب کے بارے میں شیعہ کا یہ عقیدہ ہے کہ امام مہدی نے اس کی تصدیق کی ہے یہ لوگ

۶۴

امام مہدی کی تصدیق اس کتاب کے ٹائٹل کی پیشانی پر چھاپتے ہیں ،اور ان کےعقیدہ کے مطابق امام غلطی سے معصوم اور عالم الغیب ہوتاہے اس لئے "اصول کافی " کے فیصلہ سے انکار کرنا امام کی عصمت اور اس کے علم غیب سے انکار کرنا ہے ۔

۲:- ان کے جن مصنفین اورمجتہدین نے تحریف قرآن کا قول کیا ہے یہ ان سب کو کافر کہیں اور ایسی تمام کتابیں جلاڈالیں ،اپنے اس قول وعمل کااخباروں میں اشتہاردیں میں دعوی سے کہتا ہوں کہ دنیا میں کوئی شیعہ بھی اس پر آمادہ نہیں ہوسکتا جو چاہے اس کا تجربہ کرکے دیکھ لے ،کیا اس کے بعد کسی کو اس حقیقت میں کسی قسم کے تامل کی کوئی گنجائش نظر آسکتی ہے کہ بلا استثناء شیعہ کا ہر فرد کافر ہے ۔

شیعہ کا کفر دوسرے کفار سے بھی زیادہ خطرنا ک ہے ،اس لئے کہ یہ بطور تقیہ مسلمانوں میں گھس کران کی دنیا وآخرت دونوں برباد کرنے کی تگ ودومیں ہر وقت مصروف کار رہتے ہیں ، اور اس میں کامیاب بھی ہورہے ہیں ،اللہ تعالی سب اہل اسلام کو ان کا دجل وفریب سمجھنے کی فہم عطاء فرمائیں ، اور ان کے شر سے حفاظت فرمائیں ان کے مذہب کی تفصیل میری کتاب "حقیقت شیعہ " میں ہے فقط واللہ تعالی اعلم

عبدالرشید رئیس دار الافتاء والارشاد ،ناظم آباد کراچی ۶ صفر سنہ ۱۴۰۷ ھ

الجواب صحیح عبدالرحیم نائب مفتی دارالافتاء والارشاد ۱۶ صفر سنہ ۱۴۰۷ ھ

۶۵

فتوی مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب

مدیر ہفت روزہ الاعتصام لاہور

بسم اللہ الرحمن الرحیم

استفتاء میں شیعہ اثناعشریہ کے جو عقائد تفصیل سے خو دان کی مستند کتابوں سے نقل کئے گئے ہیں جن کی رو سے شیعوں کے نزدیک

قرآن کریم محرف ہے اور اس میں ہر قسم کی تبدیلی کی گئی ہے ۔

٭ صحابہ کرام (نعوذ باللہ ) منافق اور مرتد ہیں بالخصوص حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق شیطان سےبھی زیادہ خبیث اور سب کافر وں سےبڑھ کر ہیں اور جہنم میں سب سے زیادہ عذاب بھی انہین کو مل رہاہے اور ملے گا ۔

٭ ان کے بارہ امام نبیوں کی طرح نہ صرف معصوم ہیں بلکہ انبیاء ئے سابقین سے افضل ہیں ۔ نیز "امامت" نبوت سے افضل ہے ۔ علاوہ ازیں ائمہ کو کائنات میں تکوینی تصرف کرنے کے اختیارات حاصل ہیں اور عالم ماکان و ما یکون ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔

ان مذکورہ عقائد میں سے ہر ایک عقیدہ کفریہ ہے ۔کوئی ایک عقیدہ بھی ان کی تکفیر کے لئے کافی ہے چہ جائیکہ ان کے عقائد مجموعہ کفریات ہوں ۔ بنابریں مذکورہ عقائد کے حامل شیعہ حضرات کو قطعا مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا ۔اگر وہ مسلمان ہیں تو اس کا مطلب صحابہ کرام سمیت تمام اہلسنت کی تکفیر ہوگا ۔ شیعہ تو صحابہ کرام اور اہل سنت کے

۶۶

بارے میں یہی رائے رکھتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہیں ۔لیکن کیا اہلسنت کے عوام وخواص کو شیعوں کی اس رائے سے اتفاق ہے ؟ اگر نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو پھر ایسے کفریہ اعقائد کے حامل شیعوں کو مسلمان سمجھنا بھی کسی لحاظ سے صحیح نہیں ۔ اہل سنت اس نکتے کو جتنی جلد سمجھ لیں ان کے حق میں بہتر ہوگا ۔

وماعلینا الا البلاغ

حافظ صلاح الدین یوسف

ہفت روزہ الاعتصام لاہور ، ۷ جون ۱۹۸۷ ء

جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ

شیعہ اثناعشریہ رافضیہ کا فر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ کیونکہ یہ غالی فرقہ ان مسائل کا انکار کرتا ہے ، جو قطعی الثبوت ،قطعی الدلالت اور ضروریات دین میں ہیں جس کی مختصر سی تشریح یوں ہے کہ :-

دین کے مسائل دو قسم کے ہوتے ہیں:-

البتہ قطعیات محضہ جو شہرت میں اس درجہ کو نہیں پہنچے ان کا انکار اگر بے خبری کی بنا پر کیا جائے تو کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا ۔

شیعہ اثنا عشریہ رافضیہ چونکہ موجودہ قرآن کا انکار کرتے ہیں ۔ جو ضروریات دین میں سے ہے ۔ اور خلافت راشدہ کا بھی انکار کرتے ہیں جس پر امت کا اجماع ہے اور اسی طرح صحابہ کرام کا انبیاء کے بعد تمام انسانوں سے افضل واعلی اور عدل وثقہ ہوتا اور اللہ تعالی کا ان سے راضی ہوتا ۔ اور ان کے لئے جنت کی خوشخبری کا بھی انکار کرتے ہیں ۔جو قرآن وحدیث کی نصوص سے ثابت ہونے کی بنا پر قطعیات اسلام میں سے ہے ۔

نیز صحابہ کرام کے متعلق تویہ بد ترین عقیدہ رکھتے ہیں کہ معاذاللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سواۓ تین حضرات (مقداد بن اسود ، سلمان فارسی ، عمار بن یاسر )کے باقی تمام صحابہ دین چھوڑ کر اللہ اور رسول کے بے وفا ہوگئے تھے ۔ لہذا یہ فرقہ مذکورہ کفریہ عقائد کی بنا پر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔

محمدعلی جانباز خادم جامعہ ابراھیمیہ

سیالکوٹ (مہر جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ)

۶۷

جواب فتوی

منظور نعمانی خود بھی دیوبندی حنفی ہے اور زیادہ تر فتوے باز بھی حنفی المسلک ہیں مگر شیعہ اثناعشریہ کےبارے میں ابو حنیفہ کی کوئی رائے نہیں پیش کی گئی اور اگر پیش کی گئی ہے تو امام مالک اور امام ابن تیمیہ کی ۔وجہ صرف یہ ہے کہ ابو حنیفہ کی رائے منظور نعمانی کی مرضی کے خلاف ہے ملاحظہ ہو کہ شرح فقہ اکبر ابو حنیفہ میں ہے :-

" جو کفر سے متعلق اگراس میں ۹۹ احتمالات کفر کے ہوں اور ایک احتمال یہ ہو کہ اس کا مقصد کفر نہیں ہے تو مفتی او ر قاضی کے لئے اولی ہے کہ وہ اس احتمال پر فتوی دے کیونکہ ایک ہزار کافروں کو اسلام میں رکھ لینا آسان ہے لیکن ایک مسلمان کو اسلام سے خارج کرنے کی غلطی بہت اشد ہے "۔

عقیدہ طحاویہ میں امام طحاوی نے ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں سے منقول عقائد بیان کئے ہیں ۔چنانچہ عقیدہ طحاویہ میں ہے ۔

"بندہ خارج ازایمان نہیں ہوتا مگر اس چیز کے انکار سے جس کے اقرار نے اسے داخل ایمان کیا تھا "

ملاحظہ ہو کہ ابوحنیفہ تویہ کہہ رہےہیں کہ اگر ایک فیصد بھی یہ احتمال ہو کہ اس کامقصد کفر نہیں تو اس ایک فیصد احتمال پرفتوی دینا چاہیے مگر یہ دیوبندی حنفی شیعہ اثناعشریہ کے خلاف تحقیق کرکرکے کفر کی وجہیں دریافت کررہے ہیں

۶۸

ڈھونڈ ڈھونڈ کر دلیلیں لارہے ہیں ۔کہ تم تحریف قرآن کے قائل ہو ، ہرشیعہ عالم قولا عملا ثابت کررہا ہے کہ ہم تحریف کےقائل نہیں ہیں مگر یہ کہتے ہیں کہ تم جھوٹ بولتے ہو تقیہ کرتے ہو۔۔۔۔۔جب یہ عقیدہ امامت کی وجہ سے شیعہ کو ختم نبوت کا منکر قرار دیتے ہیں تو شیعہ کہتے ہیں کہ ہمارے تو کلمہ میں ختم نبوت کا عقیدہ شامل ہے اورہم تو عملا تحریک ختم نبوت میں عام مسلمانوں کے ساتھ شریک رہے ہیں مگردیوبندی کسی بات کو نہیں مانتے اور اپنے امام ابو حنیفہ کےقول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شیعہ اثناعشریہ کو کافر قراردینے پر تلے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔یہ کہتے ہیں کہ تم صحابہ کی تکفیر کرتے ہو لہذا خارج ازایمان ہو ، مگر ان کے امام ابو حنیفہ کہتےہیں کہ بندہ صرف اسی وقت خارج ازایمان ہے جب وہ اس بات کا انکار کرے جس کے اقرار نے اسے داخل ایمان کیا ہو ۔۔۔۔۔۔اوریہ بات یقینی ہے کہ صحابہ کے ایمان کا اقرار کسی کو داخل ایمان نہیں کرتا ۔

منظور نعمانی شیعہ اثنا عشریہ کو کافر قرار دینے کے لئے امام مالک اور امام ابن تیمیہ کی آرا پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام مالک کی رائے ہے کہ صحابہ پر سب وشتم کرنے والا کافر ہے ۔ اور ابن تیمیہ کی رائے کو تین فقہا کی رائے کے حوالہ سے پیش کرتے ہیں ۔

۱:- اگر صحابہ کی شان میں گستاخی جائز سمجھ کر کی جائے تو ایسا کرنے والا کافر ہے اور اگر ایسے ہی بک دیا جائے تو سخت گناہ اور ایسا شخص فاسق ہوگا ۔

۲:- صحابہ کی شان میں گستاخی کرنے والا سزائے موت کا مستحق ہوگا ۔

۳:- حو صدیق اکبر کی شان میں گالی بکے وہ کافر ہے اور اس کی نمازجنازہ نہ پڑھی جائے ۔

منظور نعمانی صاحب بھی دوسرے دیوبندیوں کی طرح امام ابو حنیفہ کے

۶۹

پیروکار ہیں انھیں صحابہ کی شان مین گستاخی کرنے والے کے بارے بھی ابو حنیفہ ہی کے فتوے کو ماننا چاہئے اور ابو حنیفہ کا فتوی "عقیدہ طحاویہ " کے مطابق یہ ہے

"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اصحاب کو محبوب رکھتے ہیں ان میں سے کسی کی محبت میں حد سے نہیں گزرتے اور نہ کسی سے تبرا کرتے ہیں ، ان سے بغض رکھنے والے اور برائی کے ساتھ ان کا تذکرہ کرنے والے کو ہم ناپسند کرتے ہیں "۔۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابو حنیفہ کے نزدیک صحابہ سے بغض رکھنے اور ان کی برائی کرنے والا کافر نہیں ہے بلکہ صرف ناپسند یدہ شخص ہے ،ہوسکتا ہے کہ انھوں نے یہ بھی مصلحتا کہا ہو ۔۔۔۔ہمیں ایک روایت ا یسی بھی ملتی ہے کہ جس سےیہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے دل میں خود بھی حضرت عمر کا کوئی احترام نہ تھا ۔ علامہ شبلی نعمانی کہ جو ایک سنی عالم اوربڑے پائے کے مورخ تھے اپنی کتاب سیرت النعمان میں ایک واقعہ لکھتے ہیں ۔

"امام صاحب کے محلہ میں ایک پسنہارا رہتا تھا ۔جو نہایت متعصب شیعہ تھا اس کے پاس دوخچر تھے ۔ایک کانام ابو بکر اور دوسرے کا نام عمر رکھا تھا اتفاق سے ایک خچر نے دوسرے کے لات ماردی کہ اس کا سر پھٹ گیا اور اسی صدمے سے وہ مرگیا ۔محلہ میں اس کاچرچا ہوا ۔ امام صاحب نے سنا تو کہا ۔دیکھنا اس خچر نے مارا ہوگا جس کا نام اس نے عمر رکھا تھا ۔ لوگوں نے دریافت کیا تو واقعی ایسا ہی ہوا تھا ۔(سیرۃ النعمان ص ۱۲۹) مدینہ پبلیشنگ کراچی)

یہ محض اتفاق تھا کہ ابو حنیفہ کی بات سچ نکلی ،مگر یہ بات یقینا قابل غور ہے ان کے ذہن میں یہ بات آئی کیسے کہ لات مارنے والا عمر ہی ہوگا ۔۔۔۔۔ خیر یہ ان کے خلیفہ اور امام کا آپس کامعاملہ ہے ۔ہمیں اس سے کیا ! ہم تو صرف ابن تیمیہ کا وہ حوالہ یا د دلائیں گے کہ جس کے مطابق اگر کوئی شخص

۷۰

صحابہ کی شان گستاخی کو جائز سمجھتے ہوئے کرے ،تو کافر اور اگر ایسے ہی کچھ بک دے تو سخت گنہگار اور فاسق ہوگا ۔ اب یہ دیو بند کا حنفی مولوی جانے کہ ہو اپنے امام صاحب کو کس درجہ میں رکھتا ہے ۔۔۔۔۔مگر ایک نہ ایک درجہ میں ضرور رکھنا پڑے گا ۔کیونکہ امام صاحب سے حضرت عمر کی شان میں گستاخی ہوئی ، چاہے انھوں نے جائز سمجھ کر کی یا ناجائز سمجھ کر ۔۔

شیعہ اثنا عشریہ اگر بعض صحابہ کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے رسول اللہ کے ساتھ جو سلوک کیا وہ کیا مگر علی وفاطمہ وار ان کی اولاد کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا اور اس کے حقوق غصب کئے و ہ سب پر عیاں ہیں ۔ خاص طور سے جو لوگ علی کے خلاف تلوار کھینچ کر میدان میں آگئے تو ان کے بارے میں شیعہ اثناعشریہ کی رائے کیا ہوگی وہ ظاہر ہے ۔۔۔۔۔ مگر یہ بھی دیکھ لیجئے کہ امام ابو حنیفہ کی اس سلسلہ میں کیا رائے تھی ، مصر کی شرعی عدالتوں کے جج ابو زہرہ اپنی کتاب "ابو حنیفہ "میں لکھتے ہیں ۔

" امام صاحب کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت علی اپنی تمام لڑائیوں میں حق پر تھے اور اس سلسلہ میں وہ حضرت علی کے مخالفین کے متعلق کسی قسم کی تاویل کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے اور صاف طور سے فرمایا کرتے تھے کہ حضرت علی جو بھی جنگیں لڑی گئیں ان میں حضرت علی حق پر تھے "

مولانا مودودی فرماتے ہیں ۔

اگر چہ صحابہ کی خانہ جنگی کے بارے میں امام ابو حنیفہ نے اپنی رائے ظاہر کرنے سے دریغ نہیں کیا ۔چنانچہ وہ صاف طور پر یہ کہتے ہیں کہ حضرت علی کی جن لوگوں سے جنگ ہوئی (اور ظاہر ہے کہ اس میں جنگ جمل وصفین کے شرکا شامل ہیں ) ان کے مقابلے میں علی زیادہ برسر حق تھے ، لیکن وہ دوسرے

۷۱

فریق کو مطعون کرنے سے قطعی پرہیز کرتے ہیں (خلافت وملوکیت ص ۲۳۳)

مولانا موصوف کی ایک اور عبارت :-

" یہ بھی امر واقع ہے کہ تمام فقہاء ومحدثین ومفسرین نے بالاتفاق حضرت علی کی ان لڑائیوں کو جو آپ نے اصحاب جمل ،اصحاب صفین اور خوارج سے لڑیں قرآن مجید کی آیت "فان بغت احدھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی القی الی امراللہ " کے تحت حق بجانب ٹھہرا یا ، کیونکہ ان کے نزدیک آپ امام اہل عدل تھے اور آپ کے خلاف خروج جائز نہ تھا ۔ میرے علم میں کوئی ایک بھی فقہہ یا محدث یا مفسر نہیں جس نے اس مختلف کوئی رائے ظاہر کی ہو ۔ خصوصیت کے ساتھ علمائے حنفیہ نے بالاتفاق یہ کہا ہے کہ ان ساری لڑائیوں میں حق حضرت علی کے ساتھ اور ان کے خلاف جنگ کرنے والے بغاوت کے مرتکب تھے " (خلافت وملوکیت ص ۳۳۸)

مولانا مودودی نے امام ابو حنیفہ کو آزادی رائے کا بہت بڑا حامی بتایا ہے آپ فرماتے ہیں :-

"آزادی رائے کے معاملے میں وہ اس حد تک جاتے ہیں کہ جائز امامت اور اس کی عادل حکومت کے خلاف بھی اگر کوئی شخص زبان کھولے اورامام وقت کوگالیاں دے یا اسے قتل تک کرنے کاخیال ظاہر کرے تو اس کو قید کرنا اور سزادینا ان کے نزدیک جائز نہیں ، تاوقتیکہ کوہ مسلح بغاوت بدامنی برپا کرنے کا عزم نہ کرے " (خلافت و ملوکیت ص ۲۶۳)

امام ابو حنیفہ کے ماننے والے دیوبندی فتوے باز اگر ابو حنیفہ ہی کے صدقہ میں شیعہ اثناعشریہ کو اظہار رائے کی آزادی دے دیں تو پھر ان پر کفر کا فتوی نہ لگے ۔ شیعہ اس آزادی سے پورا فائدہ نہیں اٹھائیں گے ، کسی گال نہیں دیں

۷۲

گے اورقتل کی نیت توکرہی نہیں سکتے ۔ہاں حق پرستی کابھر پور مظاہرہ اور کامل عدل کرینگے ۔ابو حنیفہ اور تمام سنی فقہا محدثین ومفسرین علی لڑائیوں میں انہیں حق پر سمجھتے ہیں مگر باطل کو برا نہیں کہتے ،او ر نہ ہی ان سے اظہار برات کرتے ہیں ۔ شیعہ اثنائے عشریہ علی کو حق پر سمجھتے ہیں تو باطل پر ہونے کا سبب خطائے اجتہادی کو قراردیدیں یا اگر کسی کو خطائے اجتہادی کی گنجائش نہ ہونے کے باجود معاف کردیں اور یہ بھی بھول جائیں کہ ان لڑائیوں میں کتنے انسانوں کا خون بہا اور یہ بھی نہ سوچیں کہ آخر اس کا کوئی توذمہ دار ہوگا ۔ تو ان کی مرضی ۔۔۔۔۔۔

مگر یہ تو بڑی زیادتی ہوگی کہ شیعہ اثناعشریہ اس ظلم میں آپ کا ساتھ نہ دیں تو آپ انہیں کافر ٹھہرائیں ۔

امام ابو حنیفہ یا علمائے احناف کسی نے بھی اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی ہے کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں اور اپنے عقیدے امامت کی وجہ سے ختم نبوت کے منکر ہیں لہذا کافر ٹھہرے ۔،منظور نعمانی کو حنفی فقہاء اور علماء کے ہاں شیعہ اثناعشریہ کے خلاف کچھ نہ ملا تو اس نے ان پریہ مضحکہ خیز الزام لگا یا کہ انہوں نے مذہب شیعہ کی کتابوں کا براہ راست تفصیلی مطالعہ نہیں کیا ملاحظہ ہو اس کی تحریر ۔" ہمارے حنفی فقہا وعلماء میں علامہ ابن عابدین شامی (متوفی ۱۲۵۳ھ) اس لحاظ سے بہت ممتاز ہیں کہ ان کی کتاب "رد المحتار" فقہ حنفی کی گویا انسا ئیکوپیڈیا ہے ۔ اس میں فقہ حنفی کی ان قدیم کتابوں ی نقول

۷۳

بھی مل جاتی ہے جو اب تک بھی طبع نہیں ہوسکی ہیں ۔ بلاشبہ یہ کتاب تصنیف فرما کر انھوں نے حنفی دنیا پر بڑا احسان فرمایا ہے لیکن سی "رد المحتار" میں اور اس کے علاوہ اپنے ایک رسالہ میں جو "رسائل ابن عابدین" میں شامل ہے شیعوں کے بارے میں انھوں نے جو کچھ تحریر کیا ہے اس کےمطالعہ کے بعد اس میں شک نہیں کیا جاسکتا کہ مذہب شیعہ کی کتابیں ان کی نظر سے بھی نہیں گزر سکیں ،اگرچہ ان کا زمانہ اب سے قریبا ڈیڑھ سو سال پہلے ہی کا ہے بلکہ اس کے کے بعد کے دور کے بھی (چند حضرات کو مستثنی کرکے) ایسے جبال علم جو اپنے وقت کے آسمان علی کے آفتاب وماہتاب تھے ان کی کتابوں سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ مذہب شیعہ کی کتابوں کابراہ راست اور تفصیلی مطالعہ کرنے کا انہیں بھی موقع نہیں ملا (نگاہ اولیں)

جبال علم اور آسمان علم کے آفتاب وماہتاب حنفی حضرات کو تو شیعوں کی کتابیں پڑھنے کا موقع نہ مل سکا مگر آج کال کے پاک وہند کے حنفی ملا کو یہ کتابیں پڑھنے کا تفصیل سے موقع مل گیا ۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ احماقانہ باتیں نہیں ہیں؟ کتنی سچی بات ہے کہ انسان تعصب میں اندھا ہو جاتا ہے ۔

جن فتوؤں کا عکس پیش کیا گیا اور جن کا نہیں پیش اور جن کا نہیں پیش کیاگیا ان سب میں زیادہ ترانہی بنیادوں پر شیعہ اثنا عشریہ کو کافر قرار دیاگیا ہے کہ جن کا تفصیلی جواب ہم دوسرے باب میں دے چکے ہیں ۔ لہذا اس سلسلے مزید کچھ لکھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے ۔

ہم اپنے پڑھنے والوں کو صرف اتنا یاد دلاتے چلیں کہ یہ وہی جاہل ملاّ ہے کہ جس نے لاؤڈ اسپیکر پر اذان کے خلاف فتوی دیا تھا مگر آج ہر ملا اپنی پاٹ دار آواز کے باوجود ضرورت بلا ضرورت لاؤڈ سپیکر پر اذان بھی دیتا ہے

۷۴

اور نماز بھی پڑھاتا ہے ۔کل یہی جاہل مولوی تصویر کھینچوانے کو حرام قراردیتا تھا مگر آج بڑے ذوق وشوق سے تصویر کھینچواتا ہے اور انہیں اخبارات میں چھپوانے کو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ۔ اسی ملانے منصور حلاج اور سرمد جیسے صوفیوں کو کافر قرار دے کر قتل کرادیا تھا ۔۔۔۔۔۔اور ایسے ایسے لوگوں پر کفر کے فتوے لگائے کہ جنھیں آج کا مسلمان اور خود آج کا ملا رحمۃ اللہ علیہ کہتا ہے ۔ سرسید احمد خان، علامہ اقبال، محمد علی جناح ،مولانا ظفر علی خان غرضیکہ کون سا ایسا اپنے وقت کا بڑا آدمی ہے جو کہ اپنی حیات میں ان فتووں کو زد میں نہ آیا ہو ۔ اس کے علاوہ بریلوی ،دیوبندی ،اہل حدیث غرضیکہ کون سا فرقہ ایسا ہے کہ جس نے دوسرے فرقہ کے خلاف کفر کے فتوے نہ دیئے ہوں ۔

اس سلسلہ میں ہو ایک دلچسپ یاد دلائیں کہ جنوری سنہ ۱۹۵۱ ء میں ۳۲ علمائے دین پاکستان اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے ۲۲ نکات پر متفق ہوگئے تھے اور ان میں مسلمانوں کے ہر مکتبہ فکر کو نمائندگی حاصل تھی ۔ شیعہ اثناعشریہ کی طرف سے مفتی جعفر حسین اور حافظ کفایت حسین صاحب شریک ہوئے تھے ۔ ۔۔۔۔اب کیا تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں کایہ فرض نہیں ہے کہ وہ فتوے باز ملّا سے یہ پوچھیں کہ ان دوشیعہ کا فروں کو ان مقدس نکات کی تیاری میں کیوں شریک کیاگیا تھا ؟

۷۵

مروانی زاغ

عبد القدوس

صلاح الدین ہفت روزہ "تکبیر"کا مدیر ہے ۔پہلے یہ شخص گورنمنٹ ٹیچر ز ٹرینیگ اسکول قاسم آباد کراچی میں استاد تھا ۔ پتلون قمیص پہنتا اور داڑھی مونچھیں صاف کرتا تھا ۔اس نے صحافی زندگی کا آغاز اس طرح سے کیا کہ یہ اسکول کی سرکاری ملازمت بھی کرتا رہا اور" روزنامہ حریت " میں بھی ایک ٹیبل پر کام کرنے لگا ۔کراچی سے روزنامہ "جسارت " نکالا گیا تو یہ اس میں ایڈیٹر بن گیا ۔وہاں کسی باب پر ان بن ہوئی تو اس نے ایک ہفت روزہ نکالنا شروع کیا اور اس کا نام تکبیر رکھا ۔

روزنامہ "جسارت" کی ایڈیٹری سے معلوم ہوتاہے کہ اس کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا ۔ اب اصل صورت حال کیا ہے معلوم نہیں ۔ اس نے "تکبیر" نکالا تو لوگ سمجھے کہ یہ ایک اسلامی خدوخال رکھنے والا پرچہ ہوگا مگر کچھ عرصہ بعد ثابت ہوا کہ اس کا کام تو ملک میں تعصبات اور فرقہ واریت کو ہوا دینا ہے اور خاص طور سے یہ شیعہ دشمن رسالہ ہے ، اپنی اشاعت بڑھانے کے لئے یہ بھی وہی ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے جو دوسرے غیر مذہبی پرچے استعمال کرتے ہیں ۔ اس کے نزدیک حق وناحق میں تمیز کرنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔یہ اللہ کے اس حکم کی بلکل پراوہ

۷۶

نہیں کرتا کہ "دیکھو تمہیں کسی قوم کی دشمنی راہ عدل سے نہ ہٹا دیے "

چودہ اپریل سنہ ۱۹۸۸ ء کے شمارے نے صلاح الدین کو بالکل ننگا کردیا ہے ۔ اب اس بات کے یقین کرلینے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ یہ شخص بنو امیہ کا وارث ہے اور یہ وہ تکبیر ہے کہ جس کا تعلق اسلام سے نہیں ہے بلکہ بنی امیہ کے سفاکوں سے ہے ۔

تو یہی "تکبیر "مسلسل کئی ہفتوں سے اسماعیلی حضرات کے خلاف زہر اگل رہا ہے ۱۴ اپریل سنہ ۱۹۸۸ ء کے شمارہ میں اسماعیلی فرقہ پر ایک شخص عبدالقدوس ہاشمی کا ایک انٹریو شائع کیا گیا اس کی تصویر کے ساتھ یہ تعارفی عبارت دی ہوئی ہے ۔

"مولانا سید عبدالقدوس ہاشمی ہمارے عہد کی ان نابغہ روزگار شخصیات میں شامل ہیں جن کی تحقیق ،علمیت ،مطالعہ تقابل ادیان ،دینی معلومات اور نقطہ نظر کا زمانہ قائل ہے ۔ فقہ اور حدیث میں مولانا استناد کادرجہ رکھتے ہیں مجمع فقہی مکہ مکرمہ کے رکن ہیں ۔ فرانس کی ہسٹاریکل سوسائٹی کے ممبر ہیں ۔ موتمر عالم اسلامی کے ڈائکٹر ہیں ، مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے روح رواں اور عہدارہیں اور پاکستان سے رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے تاسیسی رکن ہیں ۔اب تک مولانا کی بائس کتب زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں ۔ مولانا کی جائے ولادت مخدوم پور ضلع گیا "بہار" ہے اور سنہ ولادت سنہ ۱۹۱۱ء ہے ۔

اصل گفتگو سے پہلے عبدالقدوس ہاشمی کی تصویر اور یہ طویل تعارف نقل کرنا ہم نے اس لئے ضروری سمجھا تاکہ اس کا انٹرویو سمجھنے میں آسانی ہو ۔

اس شخص کے تعارف میں غلط باتیں کتنی ہیں ؟ یہ معلوم کرنا تو مشکل ہے مگر یہ بات سوفیصد غلط معلوم ہوتی ہے کہ یہ شخص سید ہے ،کیونکہ کوئی بیٹا اپنے باپ کی کم ازکم ناحق اور جان بوجھ کے توہیں نہیں کرسکتا ۔اس نے جو کچھ حضرت علی مرتضی

۷۷

کے لئے کہا ہے اس سے کھلی دشمنی ظاہر ہورہی ہے ۔ ویسے اس کی تصویر سے بھی ہر قیافہ شناس اس کے قلب میں پیوستہ نفرتوں اور اس تکبر کا اندازہ لگا سکتاہے ۔

اسماعیلی فرقہ پر گفتگو کرتے کرتے جب یہ شخص آئمہ کی طرف آیا تو اس نے ان کے خلاف اس طرح گفتگو شروع کی :-

حقیقتا یہ سب کے سب کسی مافوق الفطرت صلاحیت کے مالک نہ تھے چنانچہ انھوں نے ایک افسانہ بنایا کہ اللہ تعالی کا خاص نور ان اماموں میں جلوہ گرہوتا ہے ۔حالانکہ ان میں ایسی کوئی بھی خصوصیت قطعا نہ تھی جس کی بنا پر انہیں عام معمولی انسانوں سے ذرا بھی برتر ثابت کرسکتے ۔ میں مثال دیتا ہوں ۔ان میں سے سب سے بڑے کو لے لو ،وہ تھے حضرت علی ، حضرت علی صحابہ میں سے تھے ،مگر صحابہ تو سولہ ہزار تھے ، حضرت علی میں آخر کون سی خصوصیت تھی جو دوسرے صحابہ میں نہیں پائی جاسکتی تھی ۔ آپ کہیں گے وہ مجاہد تھے ۔ٹھیک ہے اور بھی بہت سے مجاہد تھے ان کو اللہ تعالی نے فرمایا تھا کہ بخش دیا گیا ہے تو صلح حدیبیہ میں چودہ سو انیس آدمیوں کےبارے میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ ہم نے بخش دیا ہے وہ رسول اللہ ےک قریبی رشتہ دار تھے تو قریبی رشتہ دار رسول اللہ کے اوربھی تھے ۔عبیداللہ ابن زبیر بن عبدالمطلب بھی ویسے ہی چچا کے بیٹے تھے ۔ حضرت عثمان پھوپھی کے پوتے تھے آخر ان میں کیا خصوصیت تھی "؟

دراصل یہ شخص اسماعیلی فرقہ کے حوالہ سے آئمہ پر اظہار خیال کررہا تھا ۔ابتدا میں یہ گفتگو اسماعیلی حضرات کے تمام آئمہ پر تھی اور پھر ان سب کے بزرگ حضرت علی پر شروع ہوگئی ۔ حضرت علی سے لے کر امام ششم حضرت جعفر صادق تک شیعہ اثناعشریہ اور اسماعیلی فرقہ کے امام ایک ہی ہیں لہذا اس بات کا

۷۸

شیعہ اثنا عشریہ نے بڑی شدت سے نوٹس لیا ۔

اس چھوٹے سے آدمی کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے کہ "ان میں ایسی کوئی بھی خصوصیت قطعا نہ تھی جس کی بنا پر انہیں عام معمولی انسان سے ذرا بھی برتر ثابت کر سکے " اس کی یہ لفظیں بتارہی ہیں کہ وہ بغض ونفرت کے جذبات لئے ہوئے گفتگو کررہا ہے لہذا کسی علمی اپروچ کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔

ہم کہتے ہیں کہ ان حضرات کا امام ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حضرات عام معمولی انسانوں سے کئی خصوصیات کی بنا پر برتر ہوں گے ۔

اب ہم عبدالقدوس ہاشمی کے کہنے کے مطابق ان میں سے سب سے بڑے کو لیتے ہیں وہ تھے حضرت علی ۔ اس کے نز دیک وہ بھی کا ایک صحابی ،ایک عام مجاہد کی طرح اور رسول کے دوسرے رشتہ داروں کی طرح رشتہ دار تھے لہذا ان میں کوئی خصوصیت نہیں تھی ۔ اگر عبدالقدوس واقعی اتنا بڑا عالم ہے کہ جتنا ہفت روزہ تکبیر نے ظاہر کیا تو یقینا یہ شخص اچھی طرح جانتا ہوگا کہ حضرت علی نہ تو عام صحابی تھے نہ عام مجاہد اور نہ عام رشتہ دار رسول یقینا اس کے علم میں یہ ہوگا کہ نہ تو ہر صحابی درجہ میں برابر تھا اور نہ ہر مجاہد اور نہ رسول کا ہر رشتہ دار ۔ اس کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ تمام سنی مسلمانوں کا مسلک یہ ہے کہ صحابہ میں بیعت رضوان والے بھی تھے اور عشرہ مبشرہ والے بھی ۔ اور یہ دونوں گروہ عام صحابی سے افضل تھے ۔ اسی طرح سے صحابہ کا ایک تیسرا گروہ تھا جو سےب سے افضل تھا ۔وہ تھا خلفائے راشدین کاگروہ اور جناب علی مرتضی سنی مسلمانوں کے متفقہ علیہ خلیفہ راشد ہیں ۔اسی طرح سے مجاہدین کا معاملہ ہے کہ مجاہدین بدر کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ،اور پھروہ مجاہدین ہیں کہ جنھوں نے دوسرے غزوات میں جناب رسول خدا کی معیت میں جہاد کیا اور

۷۹

آخری درجہ ان مجاہدین کا ہے جنھوں نے رسول اللہ کی وفات کے بعد جہاد کیا حضرت علی نے تو بدر سے لے کر حنین تک ہر غزوہ میں جناب رسول خدا کی معیت میں جہاد کیا ۔سرایا کی تعداد بھی خاصی ہے اور پھر بعد وفات رسول تاویل قرآن پرجہاد کرتے رہے ۔ان کا اور ایک عام مجاہد کا کیا جوڑ ۔

مجاہد ین کی درجہ بندی ان کے کارناموں کی بنیاد پربھی کی جاسکتی ہے ۔ جان چرا کے لڑنے والا ،جان دے کے لڑنے والے کے برابر نہیں ہوسکتا ،میدان جنگ میں چھپر تلاش کرنے والا ،کھلے میدان میں لڑنے والے کے برابر نہیں ہوسکتا سینکڑوں شہ زوروں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا کسی ایسے شیخص کے برابر نہیں ہوسکتا کہ جس نے کسی ایک شہ روز کونہ مارا ہو ۔ میدان جنگ سے رسول کو چھوڑ کر کبھی نہ بھاگنے والا ،باربار پھاگنے والوں کے برابر نہیں ہوسکتا ۔تلواروں کی چھاؤں میں بستر رسول پر بے خوف ہوکر گہری نیند سوجانے والا ،غار ثور میں پہلوئے رسول میں ہونے کے باوجود حزن ملال کی کفیت میں مبتلا ہونے والے کے برابر نہیں ہوسکتا ۔ میدان جنگ میں دشمن کو خالص اللہ کے لئے قتل کرنے والا (عمر بن عبدود کا واقعہ ) اپنے ذاتی جذبات کی ملاوٹ کے ساتھ قتل کرنے والے کے برابر نہیں ہوسکتا ۔

اب اس مجمل گفتگو کے بعد ذرا مفصل اور صاف صاف گفتگو :- صحیح بخاری شریف کہ جسے سنی مسلمانوں میں قرآن کے بعد سب سے بڑا مقام حاصل ہے کے مطابق :-

"عدمان اخبرنا ابو حمزه عن عثمان بن موهب قال جاء رجل حج البیت فرائ قوما جلو سا فقال من هولاء القعود قالوا هولآء قریش قال ممن الشیخ قالوا ابن عمر فاما فقال انی سائلک عن شیئء تحدثنی قال الشذک "

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101