غدیر اور اسلامی وحدت

غدیر اور اسلامی وحدت0%

غدیر اور اسلامی وحدت مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: متفرق کتب

غدیر اور اسلامی وحدت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مشاہدے: 2984
ڈاؤنلوڈ: 3055

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 2 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 2984 / ڈاؤنلوڈ: 3055
سائز سائز سائز
غدیر اور اسلامی وحدت

غدیر اور اسلامی وحدت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

غدیر اور اسلامی وحدت

تالیف:  علی اصغر رضوانی 

ترجمہ:   اقبال حیدر حیدری

 


مقدمہ

عصر حاضر میں بعض لوگ غدیر اور حضرت علی علیہ السلام کی امامت کی گفتگو (چونکہ اس کو بہت زمانہ گزر چکا ھے) کو بے فائدہ بلکہ نقصان دہ سمجھتے ھیں، کیونکہ یہ گفتگو ایک اےسے تاریخی واقعہ سے متعلق ھے جس کو صدیاں گزر چکی ھیں،لہٰذا یہ گفتگو کرنا کہ پیغمبر اکرم(صلی اہل  علیہ و آلہ و سلم)کا جانشین کون تھا اور کون ھے؟ حضرت علی بن ابی طالب علیھم السلام یا ابوبکر؟ آج اس کا کوئی فائدہ نھیں ھے، بلکہ بعض اوقات اس سلسلہ میں گفتگو کے نبائج میں فتنہ و فساد برپا ھو، اس کے علاوہ کوئی فائدہ نھیں ھے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے: اس زمانہ میںجبکہ اسلامی فرقوں کے درمیان وحدت کی اشد ضرورت ھے، تو پھر اس طرح کی اختلافی گفتگو کیوں کی جاتی ھے؟

ھم خداوندعالم کے لطف و کرم سے عصر حاضر میں ”امامت“ کی گفتگو کے آثار و فوائد کو چند مطالب کے تحت بیان کرنا چاہتے ھیں:

 


۱۔  وحدت کی حقیقت

چونکہ اعتراض کرنے والے لفظ ”وحدت“ پر بہت زیادہ اھمیت دیتے ھیں، لہٰذا پھلے اس لفظ کی حقیقت کو واضح کرنا ضروری ھے۔

عام طور پر ھمارے یھاں مھم عنوان اور دو اصطلاحیں پائی جاتی ھیں کہ دونوں پر غور و فکر کرنا ضروری ھے اور ان کو ایک دوسرے پر قربان نھیں کرنا چاہئے؛ ان میں سے ایک ”وحدت، اور امت اسلامیہ کے اتحاد“ کو محفوظ رکھنا ، اور دوسرے ”اصل اسلام“ کو محفوظ رکھنا ھے۔

اس حقیقت میں کوئی شک نھیں کہ ھر مسلمان کی ذمہ داری ھے کہ ”دین حنیف“ (یعنی حقیقی دین) کو حفظ کرے ، اور اس کو پھیلانے کی کوشش کرے، لہٰذا یہ سبھی کی اھم ذمہ داری ھے۔

اسی طرح چونکہ مسلمانوں کے بہت سے مشترک دشمن ھیں جو اسلام اور مسلمانوں کو نیست و نابود کرنا چاہتے ھیں ۔ لہٰذا ھم سب کو متحد ھوکر اسلام کے ارکان اور مسلمانوں کی حفاظت کے لئے کوشش کرنا چاہئے، لیکن اس کے یہ معنی نھیں ھیں کہ دوسری ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال دیا جائے، اور اسلام کے مسلّم حقائق کو بیان نہ کیا جائے۔ لہٰذاھر گز اےسا نھیں ھونا چاہئے کہ وحدت اور اتحاد کے مسئلہ کو اصلی و ہدف قراردیکر شریعت کے حقائق کوفرعی اور ان پر قربان کردیا جائے، بلکہ اس کے برخلاف اگر اسلام نے مسلمانوں کے درمیان وحدت کی سفارش کی ھے تو اس کی وجہ بھی دین اسلام کی حفاظت بیان کی ھے، اب یہ کیسے ممکن ھے کہ ”وحدت“ کا مسئلہ کسی کی نظر میں اتنا اھم دکھائی دے کہ بعض دینی مسلمات اور مذھب کے ارکان کو ترک کردے، یا بیجا اور فضول تاویلات پر اتر آئے۔

 

اس حقیقت پر پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی سیرت اور تاریخ بہترین گواہ ھیں، آنحضرت   اگرچہ جانتے تھے کہ بنی امیہ حضرت علی علیہ السلام اور بنی ھاشم کے مخالف ھیں، اوربعض افراد ھر گز حضرت علی علیہ السلام کی ولایت اور حکمرانی کے تحت نھیں جائیں گے، اور آپ کی امامت کو بھی کبھی قبول نھیں کریں گے، لیکن اس کی وجہ سے اےسا نہ ھوا کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حق و حقیقت کو بیان کرنے سے گریزکیا ھویا اور جھاں بھی موقع ملا ھو حضرت علی علیہ السلام کی ولایت و امامت کو بیان نہ کیا ھو، بلکہ اپنی بعثت کے ۲۳ سال میں جیسے بھی ممکن ھوا حضرت علی علیہ السلام کی ولایت و امامت کو اصحاب کے سامنے بیان کیا، جبکہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ یہ لوگ میری وفات کے بعد اس مسئلہ پر اختلاف کریں گے، بلکہ یہ اختلاف حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظھور تک باقی اور جاری رھے گا۔

آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ان تمام چیزوں کے باوجود بھی حق کو بیان کیا، پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)حالانکہ جانتے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے مسئلہ پر قیامت تک اختلاف رھے گا پھر بھی آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اس طرح حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر تاکید فرمائی یھاں تک کہ روز غدیر شک و شبہ کو دور کرنے کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے ھاتھوں کو اٹھاکر حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین قرار دیا اور آپ کی ولایت پر تاکید فرمائی تاکہ سب دیکھ لیں کہ پیغمبر  کو آپکی ولایت پر کتنا اصرار ھے۔

 

قارئین کرام!  یھاں تک کی باتوں سے یہ بات بالکل واضح ھوجاتی ھے کہ حق و حقیقت کو بیان کرنا اصل ھے اور کبھی وقت اس کو نظر انداز نھیں کرنا چاہئے؛ یھاں تک کہ اگر ھمیں معلوم ھو کہ اس کو بیان کرنے سے مسلمانوں کی صفوں میں اختلاف ھوجائے گا اور مسلمانوں کے درمیان دو گروپ ھوجائیں گے، لیکن اس کے یہ معنی نھیں ھیں کہ مسلمان ایک دوسرے کے دشمن ھوجائیں اور ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کی فکر میں لگ جائیں، بلکہ اپنا مدعا بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی باتوں کو بھی برداشت کرنے کا حوصلہ رکھیں، اور بہترین گفتار کی پیروی کرنے کی دعوت دیں، لیکن اس حال میں بھی مشترک دشمن سے بھی غافل نہ ھوں۔حضرت امام حسین علیہ السلام کا قیام بھی ھمارے مدعا پر بہترین گواہ ھے، کیونکہ امام حسین علیہ السلام حالانکہ جانتے تھے کہ میرے قیام سے مسلمانوں کے دو گروھوں میں اختلاف ھوگا، لیکن اس صورت میں بھی مسلمانوں کے اتحاد کی وجہ سے امر بالمعروف و نھی عن المنکر جیسے اھم اصل سے غافل نھیں ھوئے۔

حضرت امام علی علیہ السلام کی سیرت بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ھے، کیونکہ بعض لوگوں کے نظریہ کے مطابق حضرت علی علیہ السلام طلحہ و زبیر اور معاویہ کو بے جا عہدہ دے کر جنگ جمل و جنگ صفین کو روک سکتے تھے،

 اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان ھونے والے اختلاف کی روک تھام کرسکتے تھے جس کے نتیجہ میں ہزاروں لوگوں کو قتل ھونے سے بچاسکتے تھے،

 

لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اصول اسلام، حق و حقیقت اور شریعت اسلامی کی حفاظت کے لئے ان حقائق سے چشم پوشی نھیں کی۔لہٰذا ”وحدت“ کی حقیقت (یا دوسرے لفظوں میں ”اتحاد“) کے معنی یہ ھیں کہ اپنے مسلّم عقائد کو محفوظ رکھتے ھوئے مشترک دشمن کے مقابلہ میں ھم آواز رھیں، اور دشمن سے غفلت نہ برتیں، اس کے یہ معنی نھیں ھیں کہ خالص علمی گفتگو اور تعصب سے خالی بحث سے بھی پرھیز کریں، کیونکہ یہ تمام چیزیں درحقیقت ”شریعت اسلام“ کی حفاظت کے لئے ھیں۔

اسی وجہ سے جب جنگ صفین میں عین جنگ کے عالم میں حضرت علی علیہ السلام سے نماز کے وقت کے بارے میں سوال کیا اور اس سوال کے بعد کہ اس کارزار کے وقت کیا یہ نماز کا وقت ھے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا ھم نماز کے علاوہ کسی دوسری چیز کے لئے جنگ کر رھے ھیں؟ لہٰذا کبھی بھی ہدف کو وسیلہ اور ذریعہ پر قربان نہ کیا جائے۔

شیخ محمد عاشور، الازھر یونیورسٹی مصر  کے وائس چانسلرکے سکریٹری اور ”مذاھب اسلامی کے درمیان گفتگو“ کمیٹی کے صدر ایک بہترین اور منطقی گفتگو میں کہتے ھیں: ”اسلامی مذاھب کے درمیان گفتگو کے نظریہ کا مقصد یہ نھیں ھے کہ تمام مذاھب کو ایک کردیا جائے یا کسی ایک فرقہ سے دوسرے فرقہ کی طرف رغبت دلائی جائے، کیونکہ اگر یہ معنی کئے جائیں تو پھر قربت کا نظریہ بے فائدہ ھوجائے گا۔ قربت کا نظریہ علمی پذیرش اور گفتگو کی بنیاد پر ھونا چاہئے تاکہ اس علمی اسلحہ کے ذریعہ خرافات سے جنگ کی جاسکے، اور ھر مذھب و فرقہ کے علماء اور دانشور اپنی علمی گفتگو میں اپنے علم کو دوسروں کے سامنے پیش کریں، تاکہ انسان چین و سکون کے ماحول میں حقیقت سے آگاہ ھوجائے اور آسانی سے کسی نتیجہ پر پھنچ سکے.[1]

ھر مذھب کے ماننے والوں کی مشترک چیزوں پر نگاہ کے ذریعہ عالمی معاشرہ میں زندگی کرنے والے فرقوں میں تعاون اور ھمدردی کا باعث قرار پائے گی، اور اختلافی چیزوں پر ایک علمی اور تحقیقاتی موقع پر نظر کرنے سے حق و حقیقت تک پھنچنے کے لئے گفتگو و تحقیق کا راستہ ھموار ھوجانا ھے۔ چنانچہ ”اھل بیت علیھم السلام کی ولایت سے تمسک“ کے نعرہ کے ساتھ ساتھ ”شھادتین“ کے اقرار کے آثار اور فقھی لوازمات کی نفی نھیں کی جاسکتی، جس طرح ”وحدت اسلامی“ کے عنوان کے تحت یا ”تعصب کے خاتمہ“کے نعرہ کے ذریعہ ایمانی اصول اور اس کے آثار و لوازمات سے چشم پوشی نھیں کی جاسکتی۔

تعصب کی نفی کے معنی حقائق سے پیچھے ہٹ جانا نھیں ھے، بلکہ علمی اور تحقیقاتی اصول پر اعتقادی بنیاد کو قائم کرنا ھے، (چاھے تحقیق کے سلسلہ میں ھو یا گفتگو اور بحث سے متعلق ھو) ، جس کے نتیجہ میں فکری نظام اور مختلف فرقوں کے درمیان ایک دوسرے سے تعلقات، الفت اور حسن خُلق کی بنیاد پر قائم ھوں۔


۲۔  بر حق امام کے محور پر وحدت کا امکان

اسلام نے مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد پر بہت زور دیا ھے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

۱ <وَاذْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيکُمْ إِذْ کُنْتُمْ اٴَعْدَاءً فَاٴَلَّفَ بَينَ قُلُوبِکُمْ فَاٴَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَته إِخْوَانًا >[2]

”اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم آپس میں دشمن تھے اور اس نے تمھارے دلوں میں الفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے۔“

۲۔<وَلاَتَکُونُوا کَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَائَهُمُ الْبَينَاتُ وَاٴُوْلَئِکَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ > [3] ”اور خبرداران لوگوں کی طرح نہ ھو جاو جنھوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیوںکے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا کہ ان کے لئے عذاب عظیم ھے۔“ ۳۔<إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ> [4] بے شک مومنین آپس میں بھائی بھائی ھیں“

۴۔<إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهمْ وَکَانُوا شِيعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِی شَیْءٍ > [5] ”جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ھوگئے ان سے آپ کا کوئی تعلق نھیں ھے۔“

۵۔< وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلاَتَفَرَّقُوا > [6] ”اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رھو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو۔“

۶۔<وَلاَتَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُکُمْ > [7] ”اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑجاو اور تمھاری ھیبت جاتی رھے۔“

۷۔<إِنَّ هَذِه اٴُمَّتُکُمْ اٴُمَّةً وَاحِدَةً وَاٴَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِ> [8]

”بے شک یہ تمھاری امت  ایک پارچہ امت ھے اور میں تم سب کا پروردگار ھوں لہٰذا میری ھی عبادت کیا کرو۔“

قرآن میں اسلامی وحدت اور اتحاد کے مسئلہ پر اتنی تاکید کے باوجود اس نکتہ سے غافل نھیں ھونا چاہئے کہ وحدت کے لئے ایک ”محور“ ھونا چاہئے یا دوسرے الفاظ میں وحدت اور اتحاد تک پھنچنے کے لئے ایک راستہ ھونا ضروری ھے۔ لہٰذا وحدت پر زور دینا بغیر اس کے کہ اس کے لئے کوئی محور اور راستہ معین ھو، لغو اور بے ھودہ ھے ۔

کبھی بھی ”قرآن صامت“ تن تنھا وحدت کا محور نھیں ھوسکتا، کیونکہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے فرمان کے مطابق قرآن میں بہت سی وجوہ موجود ھیں جن میں سے ھر ایک وجہ کو ایک لفظ پر حمل کیا جاسکتا ھے؛ اس وجہ سے ھم دیکھتے ھیں کہ قرآن کریم آسمانی کتابوں کو ”امام“ سے تعبیر کرتا ھے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:

<وَمِنْ قَبْلِه کِتَابُ مُوسَی إِمَامًا وَرَحْمَةً > [9]

”اور اس کے پھلے موسیٰ کی کتاب گواھی دے رھی ھے جو قوم کے لئے پیشوا اوررحمت تھی۔“

اسی طرح خداوندعالم صحف ابراھیم و موسیٰ کا ذکر کرتا ھے، چنانچہ ارشاد ھوتا ھے:

<صُحُفِ إبرَاهيمَ وَ مُوسیٰ> [10]

”ابراھیم کے صحیفوں میں بھی اور موسیٰ کے صحیفوں میں بھی۔“

لیکن صرف اسی چیز پر اکتفاء نھیں کی بلکہ جناب ابراھیم علیہ السلام کو امام ناطق کے عنوان سے پہچنواتا ھے، اور ارشاد فرماتا ھے:

10<وَإِذْ ابْتَلَی إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِکَلِمَاتٍ فَاٴَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيتِی قَالَ لاَينَالُ عَهْدِی الظَّالِمِينَ > [11]

 ”اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعہ ابراھیم کا امتحان لیا اور انھوں نے پورا کر دیا اور اس نے کھا کہ ھم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رھے ھیں،انھوں نے عرض کی کہ میری ذریت؟ ارشاد ھوا کہ یہ عہدہ امامت ظالمین تک نھیں جائے گا۔“

قارئین کرام! یھاں تک کی گفتگو سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ ”امام صامت“ جو آسمانی کتابیں ھیں کافی نھیں ھے بلکہ ”امام ناطق“ کی بھی ضرورت ھے جو اختلاف کی صورت میں حق و حقیقت کو بیان کرے، اور دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ حق اور اسلامی وحدت کا محور قرار پائے۔

آیہ شریفہ اعتصام[12] سے بھی یہ نکتہ بالکل روشن ھے ، کیونکہ آیت مسلمانوں کو حکم دیتی ھے کہ خداوندعالم کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو، یعنی جو چیز تم کو یقینی طور پر خداوندعالم تک پھنچادے وہ امام برحق اور امام معصوم کے علاوہ کوئی نھیں ھے، اسلامی وحدت کے سلسلہ میں اھم قاعدہ یہ ھے کہ اس اتحاد و وحدت کا نتیجہ وہ حقیقت ھے جو ماھرین کی دقیق بحث و تحقیق کے بعد کشف و روشن ھو۔

 < وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ الله جَمِيعًا وَلاَتَفَرَّقُوا > ترجمہ:”اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رھو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو“

وحدت کا نتیجہ حقائق سے دست بردار ھونا نھیں ھے بلکہ وحدت، حقیقت کی راہ میں ھونا چاہئے، آیہ اعتصام اسلامی امت میں وحدت و اتحاد کا معیار اس اھم راز سے پردہ اٹھا دیتا ھے کہ امت اس وقت تک متحد نھیں ھوسکتی جب تک ”حبل اللہ“ (یعنی اللہ کی رسی) سے متمسک نہ ھوجائے، اور اللہ کی رسی سے تمسک امت کو تفرقہ، فتنہ و فساد اور بدبختی کی تاریک وادی سے نجات دیتا ھے۔

قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ وحدت کے محور کو ”حبل“ (یعنی رسی) سے تعبیر کیا گیا ھے،

جس سے روشن ھوجاتا ھے کہ رسی کے دو سِرے ھوتے ھیں جس کے ایک طرف امت اور دوسری طرف خداوندعالم ھے؛ جو زمین و آسمان اور بشر و غیب کے درمیان واسطہ ھے، لہٰذا اس اتحاد و وحدت کے دائرہ کا قطب، عالم غیب اور ملکوت اعلیٰ سے متصل ھونا چاہئے تاکہ عالم شھود عالم غیب سے رابطہ برقرار کرسکے۔ یھاں سے یہ نتیجہ واضح ھوجاتا ھے کہ وحدت و اتحاد کی کشتی، حق و حقیقت کے ساحل پر رکے، نہ کہ ھوا وھوس کے ساحل پر؛ ھماری نظر میں حق و حقیقت پر اتحاد ھونا چاہئے، نہ کہ ھوا و ھوس پر اتفاق۔

اس بنا پر ”حقیقت“ اس واقعیت کو کہتے ھیں جو امت کے کسی اتفاق یا اختلاف سے کوئی تعلق نہ رکھتی ھو، یہ تو امت کی ذمہ داری ھے کہ حقیقت کو تلاش کرے اور سبھی اس سے تمسک کریں، یعنی اس حقیقت کو حاصل کرکے اس پر متحد ھوجائیں، لہٰذا ”حقیقت“ امت کے کسی اتفاق کا نتیجہ نھیں ھے کہ اگر کسی چیز پر متحد ھوجائے تو وھی حق ھوجائے، اور اگر کسی چیز سے منھ موڑ لے تو وہ باطل ھوجائے،

 

جس طرح سے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے بڑی شجاعت کے ساتھ اتحاد کو درھم و برھم کردیا اور یزید کے خلاف قیام کیا، اور فرمایا:

<إنّما خرجت لطلب الاصلاح فی اٴمة جدّی اٴريد اٴن آمر بالمعروف واٴنهى عن المنکر> [13]

"میں اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکل رھا ھوں، میں امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنا چاہتا ھوں۔"

اگر امت کا اتفاق ھی حق و حقیقت کا معیار ھو تو پھر اصلاح کی کوئی ضرورت نھیں ھے، اصلاح، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر اس بات پر مضبوط دلیل ھے کہ حق و حقیقت لوگوں کے جمع ھونے سے حاصل نھیں کی جاسکتی، بلکہ خود لوگوں کو حق و حقیقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے، اور خود کو اس سے مطابقت دینا چاہئے، آیہ شریفہ اعتصام کے ذیل میں بیان ھونے والی روایات کے مطالعہ سے بھی یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ اللہ کی رسی وھی ائمہ معصومین علیھم السلام ھیں جو انسان کو یقینی طور پر خداوندعالم تک پھنچا دیتے ھیں۔

ابن حجر ھیثمی اس (آیہ اعتصام) کو ان آیات کی ردیف میں بیان کرتے ھیں جو اھل بیت علیھم السلام کی شان میں نازل ھوئی ھیں[14] اسی طرح حدیث ثقلین کو آیہ اعتصام کی تفسیر قرار دیا جاسکتا ھے، کیونکہ اس حدیث میں حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے مومنین کو حکم دیا ھے کہ ان دونوں گرانقدر گوھروں سے تمسک کرو، جو قرآن و عترت ھیں، تاکہ حق و حقیقت تک پھنچ جائیں اور کبھی گمراہ نہ ھوں۔

ابو جعفر طبری آیہ اعتصام کی تفسیر میں کہتے ھیں:

”اعتصام“ کا مقصد تمسک کرنا ھے، کیونکہ رسی کے ذریعہ انسان اپنے مقصد تک پھنچ سکتا ھے[15]

 اس کے علاوہ حدیث ثقلین کی بعض اسناد میں لفظ ”اعتصام“ استعمال ھوا ھے، نمونہ کے طور پر ابن بی شیبہ، حدیث ثقلین کو اس طرح نقل کرتے ھیں کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:

”انّی ترکت فيکم ما لن تضلّوا بعدی ان اعتصمتم به:کتاب الله و عترتی“ [16]

اسی وجہ سے مفسرین اور محدثین نے حدیث ثقلین کو آیہ ”اعتصام“ کے ذیل میں ذکر کیا ھے۔

حاکم حسکانی اپنی سند کے ساتھ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے نقل کرتے ھیں:

”من اٴحبّ اٴن يرکب سفينة النجاة و يتمسّک بالعروة الوثقی و يعتصم بحبل الله المتين فليوال علياً و ليا تمّ باالهداة من ولده“ [17]

 ”جو شخص چاھے اس نجات کی کشتی پر سوار ھو، اور مضبوط رسی سے متمسک ھو اور اللہ کی رسی سے تمسک کرے تو اُسے چاہئے کہ (حضرت)علی (علیہ السلام) کی ولایت کو قبول کرے اور ان کے ہدایت کرنے والے بیٹوں کی اقتدا کرے۔“

نتیجہ یہ ھوا کہ آیہ شریفہ اور اس کی تفسیر میں بیان ھونے والی روایات سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ اھل بیت علیھم السلام امت اسلامیہ کی وحدت و اتحاد کا محور ھیں، اور ان حضرات کی امامت و ولایت کی بحث در حقیقت اس وحدت کے محور سے گفتگو ھے جس پر قرآن کریم اور روایات نے زور دیا ھے، جیسا کہ دوسری روایات بھی اس حقیقت پر تاکید کرتی ھیں۔حاکم نیشاپوری اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کرتے ھیںکہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:

”النجوم امان لاهل الارض من الغرق و اهل بيتی امان لامّتی من الاختلاف فإذا خالفت ها قبيلة من العرب اختلفوا فصا روا حزب ابليس“ [18]

”ستارے اھل زمین کو غرق ھونے سے بچاتے ھیں اور میرے اھل بیت (علیھم السلام) میری امت کو اختلاف کا شکار ھونے سے بچاتے ھیں، پس اگر عرب کا کوئی قبیلہ ان کی مخالفت کرتا ھے، تو خود ان کے درمیان اختلاف ھوجائے گا، اور اس کا شمار حزب شیطان میں ھوگا۔“

نیز موصوف اپنی سند کے ذریعہ جناب ابوذر سے نقل کرتے ھیں کہ جناب ابوذر خانہ کعبہ کے پاس کھڑے ھوئے اور اپنے ھاتھوں سے خانہ کعبہ کے در کو پکڑکر لوگوں سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا: اے لوگو! جو مجھ کو جانتا ھے وہ جانتا ھے اور جو نھیں جانتا وہ مجھے پہچان لے کہ میں ابوذر ھوں، میں نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو یہ کہتے سنا ھے:

”الا ان مثل اهل بيتی فيکم مثل سفينة نوح من قومه من رکبها نجا و من تخلف عنها غرق “[19]

”آگاہ ھوجاؤ کہ تم میں میرے اھل بیت کی مثال نوح کی کشتی جیسی ھے جو اس میں سوار ھوگیا وہ نجات پاگیا اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ غرق ھوگیا۔“ اور پھر موصوف ان دونوں حدیثوں کو صحیح شمار کرتے ھیں۔


۳۔ علمی گفتگو ، اتحاد کا راستہ ھموار کرتی ھے

اسلامی امت کے درمیان سب سے بڑا اختلاف ”امامت و رھبری“ کا مسئلہ ھے، چنانچہ شھرستانی کہتے ھیں: ”

اسلامی امت کے درمیان سب سے بڑا اختلاف ”امامت“ کا مسئلہ ھے، کیونکہ اسلام کے کسی بھی مسئلہ میں امامت کے مسئلہ کی طرح تلوار نھیں اٹھائی گئی ھے“۔[20] لہٰذا ھر مسلمان کی ذمہ داری ھے کہ مسلمانوں کے اتحاد کے لئے کوشش کرے ، لیکن اس کے یہ معنی نھیں ھیں کہ ھر طرح کے تعصب و عناد سے خالی علمی گفتگو بھی نہ کی جائے، کیونکہ اس طرح کی بحث و گفتگو مسلمانوں کے اتحاد پر اثرانداز ھوتی ھے، جب مسلمانوں کا کوئی ایک فرقہ دوسرے فرقے کے حقیقی عقائد کو سمجھ جاتا ھے اور یہ سمجھ لیتا ھے کہ اس فرقہ کے عقائد قرآن و سنت اور عقل سے مستند ھے، تو پھر ایک دوسرے میں بغض و حسد کم ھوجاتا ھے، کینہ و دشمنی کا ایک عظیم حصہ اس وجہ سے ھوتا ھے کہ مسلمان ایک دوسرے کے عقائد سے بے خبر ھیں یا ان کو بلا دلیل مانتے ھیں، اگر شیعوں کو ”بدا“ کے عقیدہ کی وجہ سے کفر کی نسبت دی جاتی ھے اور ”تقیہ“ کو نفاق قرار دیا جاتا ھے، تو اسکی وجہ یہ ھے کہ دوسرے اس عقیدہ اور عمل کی حقیقت سے باخبر نھیں ھیں، جس میں کچھ تو ھماری بھی کمی ھوتی ھے کہ ھم نے اپنے عقائد کو صحیح طور پر پیش نھیں کیا ھے، ”امامت“ کا مسئلہ بھی اس موضوع سے الگ نھیں ھے

کہ اگر اھل سنت امامت کے مسئلہ میں شیعہ اثنا عشری اعتقاد اور اس کے شرائط کو غلو کہتے ھیں تو اس کی وجہ بھی یہ ھے کہ ھم نے علمی اور صحیح طور سے امامت کے مسئلہ کو نھیں پہچنوایا، اور جب ھم نے اچھا کردار ادا کیا تو ھمیں کامیابی بھی ملی، اور مسلمانوں کے درمیان اتحادکا سبب ھوئے ھیں، چنانچہ اس کے چند نمونے یھاں بیان کئے جاتے ھیں:


الف:  حق کی طرف رغبت

 ۱۔  شیخ محمود شلتوت الازھر یونیورسٹی مصر کے سابق وائس چانسلر، شیعہ فقہ اور اھل بیت (علیھم السلام) کی مرجعیت کے بارے میں کافی تحقیق اور مطالعہ کے بعد ”فقہ جعفری“ کو معتبرمان لیتے ھیں اور فقہ جعفری پر عمل کرنے کا اپنا مشھور فتوی دیدیتے ھیں، چنانچہ موصوف فرماتے ھیں: ”مذھب جعفری، جو شیعہ اثنا عشری کے نام سے مشھور ھے؛ پر عمل کرنا اھل سنت کے دوسرے مذاھب پر عمل کرنے کی طرح شرعی طور پر جائز ھے، لہٰذا مسلمانوں کے لئے مناسب ھے کہ اس مذھب کو پہچانیں اور بعض فرقوں کے بے جا تعصب سے نجات حاصل کریں۔“[21]

شیخ ازھر ڈاکٹر محمد محمد فخّام بھی شیخ شلتوت کے فتویٰ پر تقریظ لکھتے ھوئے ان کے نظریہ کی تائید کرتے ھیں، چنانچہ موصوف کہتے ھیں: ”میں شیخ محمود شلتوت اور ان کے اخلاق، وسیع علم، عربی زبان، تفسیر قرآن اور فقہ و اصول میں مھارت پر رشک کرتا ھوں، موصوف نے شیعہ امامیہ کی پیروی کرنے کا فتویٰ دیا ھے، مجھے ذرا بھی اس بات میں شک نھیں ھے کہ ان کے فتوے کی بنیاد مضبوط ھے اور میرا عقیدہ بھی یھی ھے“[22]

اسی طرح موصو ف کہتے ھیں: ”خداوندعالم رحمت نازل کرے شیخ شلتوت پر کہ انھوں نے اس حقیقت پر توجہ کی اور دلیری کے ساتھ صاف صاف فتویٰ دیا اور اپنے کو جاویدانہ بنالیا، انھوں نے شیعہ امامی مذھب کی پیروی کرنے کا فتویٰ دیا، کیونکہ یہ مذھب فقھی اور اسلامی مذھب ھے اور قرآن و سنت اور مضبوط دلائل پر اعتماد کرتا ھے۔۔۔۔۔“[23]

۳۔   شیخ محمد غزالی کہتے ھیں: ”میں اس بات کا عقیدہ رکھتا ھوں کہ استاد کبیر شیخ محمود شلتوت نے مسلمانوں کو قریب کرنے کے سلسلہ میں ایک بہت طولانی راستہ طے کیا ھے۔۔۔

ان کا عمل درحقیقت ان خیالات کی تکذیب ھے جو بعض مغربی مورخین اپنے ذھنوں میں سمائے ھوئے ھیں، چنانچہ وہ اس خیال میں تھے کہ مسلمانوں کے درمیان جو بغض و کینہ اور دشمنی پائی جاتی ھے اس کے پیش نظر ان کو وحدت اور ایک پرچم کے نیچے جمع ھونے سے پھلے متفرق اور ایک دوسرے سے جدا کرکے نیست و نابود کردیا جائے، لیکن میری نظر میں یہ فتویٰ پھلا قدم اور ابتدائی راہ ھے۔“[24]

۴۔  عبد الرحمن نجار قاھرہ مساجد کمیٹی کے صدر کہتے ھیں: ”ھم بھی شیخ شلتوت کے فتویٰ کا احترام کرتے ھوئے اسی کے مطابق فتویٰ دیتے ھیں، اور لوگوں کو صرف چار مذھب میں منحصر ھونے سے ڈراتے ھیں، شیخ شلتوت مجتہد اور امام ھیں، ان کی رائے عین حق ھے، پھر ھم کیوں اپنی نظر اور فتووں میں کسی خاص مذھب پر اکتفاء کریں، حالانکہ وہ سب مجتہد تھے؟“[25]

۵۔ استاد احمد بک، جو شیخ شلتوت اور ابوزھرہ کے استاد تھے، کہتے ھیں: ”شیعہ اثنا عشری سب مسلمان ھیں اور خدا، رسول، قرآن اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر نازل ھونے والی تمام چیزوں پر ایمان رکھتے ھیں، ان کے یھاں قدیم اور عصر حاضر میں جید فقھاء اور ھر علم و فن میں ماھر علماء پائے گئے ھیں، ان لوگوں کے افکار عمیق اور علم وسیع ھوتا ھے، ان کی تالیفات لاکھوں کی تعدا میں موجود ھے، اور بہت زیادہ کتابیں میرے علم میں ھیں۔“[26]

۶۔  شیخ محمد ابو زھرہ بھی لکھتے ھیں: ”اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ شیعہ ایک اسلامی فرقہ ھے، ۔۔۔اپنے اقوال میں قرآن مجید اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے منسوب احادیث سے تمسک کرتا ھے، وہ اپنے سنی پڑوسیوں سے دوستی اور ایک دوسرے سے نفرت نھیں کرتا۔“[27]

۷۔  استاد محمود سرطاوی، (جارڈن کے ایک مفتی) کہتے ھیں: ”میں وھی بات جو ھمارے سلف صالح کہتے رھے ھیں، کہتا ھوں کہ شیعہ اثنا عشری ھمارے دینی بھائی ھیں، اور ھم پر برادری کا حق رکھتے ھیں اور ھم بھی ان پر حق برادری رکھتے ھیں۔“[28]

۸۔  استاد عبد الفتاح عبد المقصود بھی کہتے ھیں: ”میرے عقیدہ کے مطابق شیعہ تنھا وہ مذھب ھے جو اسلام کا تمام نما اور روشن آئینہ ھے اور جو شخص اسلام کو دیکھنا چاہتا ھے شیعہ عقائد و اعمال کو دیکھے، اس بات کا بہترین گواہ تاریخ ھے کہ شیعوں نے اسلامی عقائد کے دفاع میں بہت زیادہ خدمات انجام دی ھیں۔“[29]

۹۔  قاھرہ کالج میں ادبیات عرب کے استاد ڈاکٹر حامد حنفی داؤدکہتے ھیں: ”ھم قارئین کرام کے لئے یہ بات واضح کرنا چاہتے ھیں کہ اگرچہ سفیانی منحرفین نے گمان کیا ھےکہ شیعیت،صرف ایک جعلی اور نقلی مذھب ھے، یا خرافات اور اسرائیلیات سے بھرا ھوا ھے یا عبد اللہ بن سبا  یا تاریخ کی دوسری خیالی شخصیتوں سے منسوب ھے، لیکن ایسا نھیں ھے بلکہ شیعیت آج کی نئی علمی روش میں اس چیز کے برعکس ھے جو انھوں نے گمان کیا ھے، شیعہ سب سے پھلا وہ مذھب ھے جس نے منقول و معقول پر خاص توجہ کی ھے، اور اسلامی مذاھب کے درمیان اس راہ کا انتخاب کیا ھے کہ جس کا افق وسیع ھے، اور اگر منقول و معقول  کے جمع کرنے میں شیعوں کا امتیاز نہ ھوتا تو پھر اجتھاد میں دوبارہ روح نھیں پھونکی جاسکتی تھی، اور موقع و محل سے اپنے کو مطابق نھیں کیا جاسکتا تھا، اور وہ بھی اس طرح کہ اسلامی شریعت کی حقیقت سے بھی کوئی مخالفت نہ ھو۔“[30] اسی طرح موصوف نے کتاب عبد اللہ بن سبا پر تقریظ لکھتے ھوئے کھا: ”اسلامی تاریخ کو تیرہ صدیاں گزرنے والی ھیںاور ھم ھمیشہ شیعوں کے خلاف فتویٰ صادر ھوتے ھوئے دیکھ رھے ھیں، ایسے فتوے جن میں عواطف اورھوائے نفس کا رفرما تھا، اور یہ بُرا طریقہ اسلامی فرقوں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ کا باعث بنا، اس طرح اس فرقے کے بزرگ علماء کی تعلیمات سے دیگر علمائے اسلام محروم ھوگئے،

جس طرح ان کے نظریاتی نمونوں اور ان کے مزاج کے فوائد سے محروم رہ گئے، درحقیقت اس طرح سے علم و دانش کا سب سے زیادہ نقصان شیعوں کی طرف خرافات کی نسبت دینے سے ھوا ھے، جبکہ وہ خرافات شیعوں میں نھیں پائے جاتے اور وہ ان سے بری ھیں، اور یھی آپ حضرات کے لئے کافی ھے کہ امام جعفر صادق (متولد ۱۴۸ھ) شیعہ فقہ کے پرچم دار اور سنیوں کے دو اماموں کے استاد ھیں، ابو حنیفہ نعمان بن ثابت (متولد ۱۵۰ ھ) اور ابوعبد اللہ مالک بن انس (متولد ۱۷۹ھ) امام صادق علیہ السلام کے شاگرد ھیں، اسی وجہ سے ابوحنیفہ کہتے ھیں: ”لولا السنتان لهلک النعمان ؛ اگر وہ دو سال نہ ھوتے تو نعمان (ابوحنیفہ) ھلاک ھوجاتے،

ان دوسالوں سے مراد وہ دو سال ھیں جن میں حضرت امام صادق علیہ السلام کے وسیع علم سے فیض حاصل کیا ھے، اسی طرح انس بن مالک کہتے ھیں: میں نے کسی کو امام صادق (علیہ السلام) سے زیادہ فقیہ نھیں دیکھا۔“[31]

۱۰۔ ڈاکٹر عبد الرحمن کیالی، ”حلب“ کی مشھور و معروف شخصیت، علامہ امینی علیہ الرحمہ کو ایک خط میں تحریر کرتے ھیں: ”عالم اسلام اس طرح کی تحقیقات کا ھمیشہ محتاج رھا ھے، کیونکہ رسول اعظم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد مسلمانوں کے درمیان اختلاف ھوگیا جس کے نتیجہ میں بنی ھاشم اپنے حق سے محروم کردئے گئے؟ نیز اس بات کی ضرورت ھے کہ مسلمانوں کو پستی اور تنزلی میں لے جانے والے اسباب و اور وجوھات سے گفتگو کی جائے، آج مسلمانوں کی کیسی حالت ھوگئی ھے؟ کیا یہ ممکن ھے کہ مسلمانوں کے ھاتھوں سے کھوئے ھوئے علم و دانش کو اصل تاریخ کی طرف رجوع کرتے ھوئے اور اس پربھروسہ کرتے ھوئے دوبارہ حاصل کیا جاسکے؟۔“[32]

۱۱۔  استاد ابو الوفاء غنیمی تفتازانی، الازھریونیورسٹی میں فلسفہ اسلامی کے مدرس کہتے ھیں: ”دنیا میں مشرق و مغرب کے قدیمی اور عصر حاضر میں بحث کرنے والے شیعوں کے خلاف بہت سی غلط باتوں کے مرتکب ھوئے ھیں، جو کسی بھی منقولی دلیل کے مطابق نھیں ھے،

عوام الناس نے بھی ان غلط باتوں کو ایک ھاتھ سے دوسرے ھاتھ تک پھنچایا بغیر اس کے ان کے صحیح یا غلط ھونے کے بارے میں کسی معتبر عالم سے سوال کریں، اور ھمیشہ شیعوں پر تھمتوں کی بوچھار کی، شیعوں کی نسبت ناانصافی روا رکھنے والے اسباب و علل میں سے شیعوں کے منابع و مآخذ سے لاعلمی ھے، ان کے سلسلہ میں لگائی جانے والی تھمتوں میں صرف شیعہ دشمن مولفین کی کتابوں پر رجوع کیا گیا ھے۔“[33]


ب۔  حق کا اقرار

صرف علمی اور تعصب وجنگ و جدال سے خالی گفتگو اور اسی طرح کی کتابوں کی تالیف نے نہ صرف یہ کہ اھل سنت کے بزرگ علماء کو اس بات کی طرف راغب کیا کہ وہ اس بات کا اعتراف کریںکہ مذھب جعفری کی پیروی کرنا جائز ھے اور شیعہ اثنا عشری کو اس عنوان سے قبول کرنا کہ اس مذھب کے اصول و فروع قرآن، حدیث اور عقل سے مستند ھیںصحیح ھے بلکہ اس بات کا بھی باعث بنا کہ اھل سنت کے بہت سے جید علماء نے اپنا مذھب چھوڑ کر مذھب شیعہ اپنا لیا، اور اس بات کا اقرار کیا کہ حق ایک ھی ھے اور وہ مذھب شیعہ اور مذھب اھل بیت علیھم السلام کے علاوہ نھیں ھے۔ قارئین کرام! ھم یھاں پر انھیں چند حضرات کے چند نمونے آپ کے سامنے پیش کرتے ھیں:


۱۔  علامہ شیخ محمد مرعی، امین انطاکی

موصوف انطاکیہ کے علاقہ میں ”عنصو“ نامی بستی میں ۱۳۱۴ھ میں پیدا ھوئے، پھلے وہ شافعی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے، وہ اپنے بھائی احمد کے ساتھ دینی علوم حاصل کرنے کے لئے مصر روانہ ھوئے، اور کچھ مقدمات حاصل کرنے کے بعد

الازھر کے پایہ کے علماء جیسے شیخ مطفی مراغی، محمود ابوطہ مھنی، شیخ رحم وغیرہ کے علم سے فیضیاب ھوتے ھوئے خود بھی علم کے بلند درجہ پر فائز ھوئے، لیکن جب وہ دونوں اپنے وطن لوٹنے لگے تو الازھر کے بزرگوں نے ان کو مصر میں رھنے کی دعوت دی،

اور الازھر میں مدرس کا عہدہ دینے کے لئے کھا تاکہ وہ مختلف شاگردوں کو اپنے علم سے سیراب کریں، لیکن ان دونوں بھائیوں نے یہ بات قبول نھیں کی اور اپنے شھر لوٹ آئے، اور واپس لوٹنے کے کچھ مدت بعد مختلف کتابوں کے مطالعہ سے شیعیت کی حقانیت سے آگاہ ھوئے، اور دونوں بھائیوں نے  مذھب تشیع کو اختیار کرلیا۔

 شیخ محمد اپنی کتاب ”لما ذا اخترت مذھب اھل البیت(علیھم السلام)“ میں کہتے ھیں:

”یقینی طور پر خداوندعالم نے میری ہدایت فرمائی، اور میرے لئے مذھب حق سے تمسک مقدر فرمایا، یعنی مذھب اھل بیت علیھم السلام، فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا مذھب۔۔۔۔“

 موصوف مذھب اھل بیت علیھم السلام تک پھنچانے والے اسباب و علل کے بارے میں کہتے ھیں:

۱۔  میں نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ شیعہ مذھب پر عمل کرنا مجزی (یعنی کافی) ھے، اور یقینی طور پر مکلف کی ذمہ داری پوری ھوجاتی ھے؛ اھل سنت کے بہت سے گزشتہ اور عصر حاضر کے علماء نے اس مذھب کے صحیح ھونے کا فتویٰ دیا ھے۔۔۔۔

 

۲۔  مجھ پر مستحکم دلائل، یقینی برھان اور واضح حجتوں جو روز روشن کی طرح واضح ھیں، کے ذریعہ مذھب اھل بیت علیھم السلام کی حقانیت ثابت ھوگئی، اور میرے لئے یہ بھی ثابت ھوگیا کہ وہ مذھب وھی ھے جس کو شیعوں نے اھل بیت علیھم السلام سے حاصل کیا ھے، اور اھل بیت علیھم السلام نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے اور آنحضرت   نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے خداوندعالم سے حاصل کیا ھے۔۔۔۔

۳۔  ان کے گھر میں وحی نازل ھوئی اور گھر والے گھر کی باتوں کو دوسروں کی نسبت بہتر جانتے ھیںکہ گھر میں کیا ھے لہٰذا ایک عقلمند انسان کے لئے ضروری ھے کہ اھل بیت علیھم السلام کے ذریعہ جو دلائل اس تک پھنچے ھیں ان کو ترک نہ کرے اور غیروں کے نظریات کے پیچھے نہ جائے۔

۴۔  قرآن کریم میں متعدد آیات نازل ھوئی ھیں جو ان حضرات کی ولایت اور دینی مرجعیت کی طرف دعوت دیتی ھیں۔

۵۔  پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے بہت سی روایات نقل ھوئی ھیں جو ھمیں مذھب اھل بیت علیھم السلام کی طرف دعوت دیتی ھیں، جن میں سے بہت سی روایات کو ھم نے اپنی کتاب ”الشیعة و حججھم فی التشیع“ میں بیان کیا ھے[34]


۲۔  علامہ شیخ احمد امین انطاکی

موصوف شیخ محمد امین کے بھائی ھیں جو سید شرف الدین عاملی کی کتاب ”المراجعات“ کو پڑھنے اور اس میں غور و فکر کرنے کے بعد اپنے مذھب کو چھوڑ کر مذھب شیعہ کو انتخاب کرتے ھیں،

وہ بھی اپنی کتاب”فی طریقی الی التشیع“ میں بیان کرتے ھیں: میرے شیعہ ھونے کی وجہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وہ حدیث ھے جس پر تمام اسلامی مذاھب نے اتفاق کیا ھے، اور وہ حدیث یہ ھے کہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:

”اے لوگو! آگاہ ھوجاؤ کہ تم میں میرے اھل بیت کی مثال نوح کی کشتی جیسی ھے جو اس میں سوار ھوگیا وہ نجات پاگیا اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ غرق ھوگیا۔“

میں نے دیکھا کہ اگر میں نے اھل بیت علیھم السلام کی پیروی کی اور اپنے دینی احکام کو ان حضرات سے حاصل کیا، تو میں نجات یافتہ ھوں، اور اگر میں نے ان کو ترک کردیا اور اپنے دینی احکام کو ان کے علاوہ دوسروں سے لیا تو میں گمراہ ھوں۔۔۔

نیز موصوف فرماتے ھیں:

 ”مذھب جعفری سے تمسک“ کرکے میرا ضمیر اور دل مطمئن ھوگیا ھے، یہ مذھب در حقیقت آل بیت نبوت (علیھم السلام) کا مذھب ھے، کہ روز قیامت تک ان پر خداکا درود و سلام ھو؛ میں اپنے عقیدہ کے مطابق اھل بیت علیھم السلام کی ولایت کو قبول کرکے نجات پاگیا ھوں، کیونکہ ان کی ولایت کو قبول کئے بغیر نجات پانا ممکن نھیں ھے۔۔۔۔“


۳۔  ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی

موصوف ٹیونس میں پیدا ھوئے، بچپن کی زندگی گزار نے کے بعد عربی ممالک کے سفر کئے، تاکہ مختلف علمی شخصیتوں سے فیضیاب ھوں، مصر میں الازھر یونیورسٹی کے علما و انشوروں نے ان سے درخواست کی کہ وہ وھیں رہ جائیں

 

 اور الازھر کے طلباء کو اپنے علم سے فیضیاب کریں، لیکن موصوف نے قبول نھیں کیا، اور عراق کے سفر میں مختلف شیعہ علماء سے بحث و گفتگو کرنے کے بعد شیعہ مذھب انتخاب کرلیا، اور اس وقت دنیا میں مذھب تشیع کی تبلیغ کرنے والوں میں شمار ھوتے ھیں، موصوف نے مذھب اھل بیت علیھم السلام کے دفاع میں بہت سی کتابیں بھی لکھیں ھیں۔

موصوف ”ثم اہتدیت“[35] کے ایک حصہ میں فرماتے ھیں: ”شیعہ ثابت قدم رھے، صبر کیا اور انھوں نے حق سے تمسک کیا ھے۔۔۔ میں ھر عالم سے درخواست کرتا ھوں کہ شیعہ علماء کی صحبت میں بیٹھے اور ان سے بحث و گفتگو کرے، میں یقین سے یہ بات کہتا ھوں کہ ان سے بحث کے نتیجہ میں مذھب اھل بیت علیھم السلام کو اپنائے بغیر ان کو ترک نھیں کرسکتا۔۔۔ جی ھاں، میں نے اپنے گزشتہ مذھب کے بدلہ اس مذھب کو انتخاب کرلیا ھے، خدا کا شکر ھے کہ اس نے مجھے اس مذھب کی ہدایت فرمائی، واقعاً اگر اس کی ہدایت اور توجہ نہ ھوتی تو مجھے کبھی بھی اس مذھب کی ہدایت نہ ھوتی[36] تمام مدح و ثنا اس خدا کے لئے ھیں جس نے مجھے ”فرقہ ناجیہ“ (یعنی نجات پانے والے فرقہ) کی رھنمائی فرمائی؛ جس فرقہ کی طرف مجھے مدتوں زحمت کرنے کے بعد رھنمائی ملی، مجھے اس بات میں ذرا بھی شک نھیں ھے کہ جو شخص حضرت علی اور اھل بیت علیھم لاسلام کی ولایت کو قبول کرے تو اس نے مضبوط رسی کو پکڑ لیا ھے جو کبھی ٹوٹنے والی نھیں ھے، اس سلسلہ میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی ایسی بہت سی احادیث نقل ھوئی ھیں جن پر مسلمانوں کا اجماع ھے،

اور اکیلے عقل بھی طالب حق کے لئے بہترین رھنما ھے۔۔۔ جی ھاں، خدا کا شکر ھے کہ میں نے بہترین مذھب پالیا ھے،

اور اعتقاد میں حضرت امیر المومنین و سید الوصیین امام علی بن ابی طالب علیہ السلام اور رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی اقتدا کی ھے، اورمیں جوانان جنت کے سردار اور اس امت کے دو گلدستہ حضرت امام حسن مجتبیٰ اور امام حسین علیھما السلام، نیز پارہ تن مصطفی، خلاصہ نبوت، مادر ائمہ اور معدن رسالت سیدة نساء العالمین حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کہ خدا جن کے غضب سے غضبناک ھوتا ھے، پر عقیدہ رکھتا ھوں۔

میں نے امام مالک کی جگہ تمام ائمہ کے استاد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی نسل سے ائمہ معصومین علیھم السلام کا انتخاب کیا ھے۔۔۔۔

موصوف حدیث ”باب مدینۃ العلم“ کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ھیں: ”اپنے دین و دنیا میں حضرت علی علیہ السلام کی تقلید ھم کیوں نھیں کرتے؟ اگرآپ اس بات کا عقیدہ رکھتے ھیں کہ علی(ع) پیغمبر کے علم کا دروازہ ھیں، تو پھر کیوں باب علم پیغمبر کو جان بوجھ کر چھوڑ دیا گیا ھے، اور ابوحنیفہ، امام مالک، شافعی، احمد بن حنبل اور ابن تیمیہ کی تقلید کرنے لگے!! یہ لوگ علم و عمل اور فضل و شرف میں حضرت علی علیہ السلام کے درجہ تک نھیں پھنچ سکتے. اس کے بعد موصوف اھل سنت کو خطاب کرتے ھوئے کہتے ھیں:

 ”اے میرے دوستو اور قبیلہ والو! میں تم کو حق کے بارے میں بحث و گفتگوکرنے اور تعصب و ہٹ دھرمی کو چھوڑنے کی دعوت دیتا ھوں، ھم بنی امیہ اور بنی عباس اور سیاہ تاریخ کی قربانی بن گئے ھیں، ھم فکری جمود پر قربان ھوچکے ھیں جس کو ھمارے بزرگوں نے ھمارے لئے میراث میں چھوڑا ھے۔“

موصوف نے شیعہ مذھب کے دفاع میں درج ذیل کتابیں بھی لکھیں ھیں:

ثم اهتدت، لاکون مع الصادقين، فاسألوا اهل الذکر، الشيعة هم أهل السنّة، إتقوا الله

 


۴۔  معاصر مولف، صائب عبد الحمید

موصوف عراق کی عظیم شخصیت ھیں جنھوں نے ایران کے سفر میں بہت زیادہ تحقیقات کرنے اور خداوندعالم کے فضل و کرم سے اھل سنت مذھب کو چھوڑ کر شیعہ مذھب کو اختیار کرلیا، چنانچہ وہ اپنی کتاب کے ایک حصہ میں لکھتے ھیں: ”میں اقرار کرتا ھوں کہ میرا نفس میرا دشمن تھا اور مجھے زمین بوس کردینا چاہتا تھا، لیکن خداوندعالم کے لطف و کرم اور اس کی عنایت نے میری مدد کی، میں اطمینان کے ساتھ ھوش میں آیااس حال میں کہ میں نے اپنے کو کشتی نجات کے بےچ پایا، میں نے صاف و شفاف پانی پینا شروع کردیااور اب آپ حضرات سے گلشن کے اس بھاری سایہ کے سلسلہ میں گفتگو کررھا ھوں۔

 اس خبر کو سن کر میرے احباء اور دوستوں نے مجھے ترک کردیا اور مجھ پر ظلم کیا، ان میں سب سے بڑا عالم مجھ سے کہتا ھے: کیا تمھیں معلوم ھے کہ تم نے کیا کام کیا ھے؟ میں نے کھا: ھاں مجھے معلوم ھے کہ میں نے مذھب امام جعفر صادق علیہ السلام ابن محمد باقر، ابن زین العابدین، ابن سید جوانان بہشت ، ابن سید وصیین و سیدہ زنان عالمین و ابن سید المرسلین سے تمسک کیا ھے۔ اس نے کھا: کیوں تم نے اس طرح ھم کو چھوڑ دیا ھے؟ تم جانتے ھو کہ لوگ ھمارے بارے میں کیا کیا باتیں کر رھے ھیں؟ میں نے کھا: میں وھی کہتا ھوں جو رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا ھے، اس نے کھا: تم کیا کہتے ھو؟ میں نے کھا: میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے فرمان کی بات کرتا ھوں کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”میں تمھارے درمیان وہ چیزچھوڑے جارھا ھوں کہ اگر تم نے اس سے تمسک کیا تو میرے بعد کبھی گمراہ نھیں ھوگے، ایک کتاب خدا، دوسرے میری عترت، جو میرے اھل بیت ھیں“،

اسی طرح آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا وہ فرمان جو آپ نے اپنے اھل بیت علیھم السلام کے بارے میں فرمایا کہ ”میرے اھل بیت (علیھم السلام) نجات کی کشتی ھیں جو اس میں سوار ھوگیا وہ نجات پاگیا۔“[37]

صائب عبد الحمید نے اھل بیت علیھم ا لسلام اور شیعہ مذھب کے دفاع میں بہت سی کتابیں لکھی ھیں جن میں چند درج ذیل ھیں:منهج فی الانتماء المذهبی، ابن تيميه، حياته، عقائده و تاريخ الاسلام الثقافی و السياسی ۔


۵۔  استاد صالح الوردانی

موصوف بھی انھیں حضرات میں سے ھیں جنھوں نے بہت سی کتابوں کے مطالعہ کے بعد مذھب شیعہ کی حقانیت کو سمجھ لیا ھے، انھوں نے بھی سنی مذھب کو چھوڑ کر شیعہ مذھب کو اختیار کیا ھے، موصوف ان لوگوں میں سے ھیں جو کسی خوف و خطر کی پروا کئے بغیر شیعیت اپنانے کا اعلان کرتے ھیں اور مصر کے لوگوں کو بھی اس مذھب کی دعوت دیتے ھیں۔موصوف اپنی کتاب”الخدعة، رحلتی من السنة الی الشيعة“ م یں رقمطراز ھیں:

”جب میں سنی تھا تو میں نے لوگوں کو عقل پسندی کی دعوت دی، اور عقل کا نعرہ بلند کیا، لیکن میں اپنی قوم کے درمیان جگہ نہ بنا پایا، اور ھر طرف سے اپنے خلاف تھمتیں اور الزامات سننے کو ملے۔۔۔ میں یہ بات اچھی طرح سے جانتا تھا کہ عقل سے کام نہ لینا یعنی گزشتہ لوگوں کی رو میں بہہ جانا ھے، جس کے نتیجہ میں انسان بغیر شخصیت کے رہتا ھے جو اس کے لئے حقیقت کو روشن کرے۔۔۔میں کبھی بھی کوئی بات بغیر تحقیق اور غور و فکر کے نھیں کہتا۔۔۔ عقل پسندی ھی شیعہ مذھب اور اھل بیت علیھم السلام کے راستہ کو اختیار کرنے میں سب سے بنیادی سبب ھے۔۔۔۔“[38]


۶۔  استاد معتصم سید احمد سوڈانی

موصوف نے بھی تاریخ و حدیث کی کتابوں کے کافی مطالعہ کے بعد مذھب اھل بیت علیھم السلام کی حقانیت کا علم حاصل کرلیا، اور اپنے مذھب کو ترک کرکے مذھب شیعہ کو انتخاب کرلیا، موصوف اپنی کتاب کو ”بنور فاطمة اہتدیت“سے موسوم کرنے کے سلسلہ میں کہتے ھیں:

 ”ھر انسان اپنے اندر ایک ایسا نور محسوس کرتا ھے جو اس کو حق و حقیقت کی طرف رھنمائی کرتاھے، لیکن ھوائے نفسانی اور ظن و گمان کی پیروی اس نور پر پردہ ڈال دیتی ھے، لہٰذا انسان کو ھر وقت یاد دھانی اور بیداری کی ضرورت ھے، حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا) اس نور کی اصل ھے، میں نے اس نور کو ھمیشہ اپنے وجود میں محسوس کیا ھے۔۔۔۔“[39] نیز موصوف ”عدالت صحابہ“ کے نظریہ کے سلسلہ میں کہتے ھیں:

”عدالت صحابہ کا نظریہ “وہ نظریہ ھے جس کو اھل سنت نے اھل بیت علیھم السلام کی عصمت کے مقابلہ میں گھڑا ھے، ان دونوں کے درمیان کتنا فرق ھے، اھل بیت علیھم السلام کی عصمت ایک قرآنی حقیقت ھے، اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے بھی اس پر تاکید فرمائی ھے، اور حقیقت میں بھی ظاھر ھوئی ھے۔ لیکن عدالت صحابہ کا نظریہ، قرآن مجید کے مخالف ھے، جیسا کہ خود پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے بھی اس کے برخلاف وضاحت فرمائی ھے، بلکہ خود صحابہ حضرات نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے زمانہ میں اور آپ کے بعد ایجاد کی ھوئی بدعتوں کا اقرار کیا ھے۔“[40]

  نیز موصوف ایک اور موقع پر کہتے ھیں:

”میں اپنے اندر ایک ایسی چیز محسوس کرتا ھوں جس کی توصیف نھیں کرسکتا، لیکن اس کے بارے میں یہ کہہ سکتا ھوں کہ اھل بیت علیھم السلام کی ولایت کو قبول کرنے کے بعد خداوندعالم سے قربت میں ھر روز اضافہ ھوتا جارھا ھے،

جتنی بھی ان حضرات کی احادیث میں غور و فکر کرتا ھوں دین کے سلسلہ میں میری معرفت اور یقین میں اتنا ھی اضافہ ھوتا جاتا ھے، میرا ماننا تو یہ ھے کہ اگر مذھب شیعہ نہ ھوتا تو اسلام کا نام و  نشان نہ ملتا اور میں جب بھی اھل بیت علےھم السلام کی تعلیمات سےخود ھم آھنگ اور ان پر عمل کرنا چاہتا ھوں تو ایمان کی لذت اور یقین کی لطافت کو اپنے اندر محسوس کرتاھوں، اور جب اھل بیت علیھم السلام سے ماثور دعاؤں کو پڑھتا ھوں جو کسی بھی مذھب میں نھیں پائی جاتیں، تو اپنے پروردگار سے مناجات کی شیرینی چکھتا ھوں۔۔۔۔“[41]


۷۔  مشھور و معروف مصری وکیل، دمرداش عقالی

موصوف مصر کی مشھور و معروف شخصیت ھیں اور مدتوں سے وکالت کرتے ھیں، وہ جب ایک شرعی مسئلہ میں تحقیق کے وقت تمام نظریات کا موازنہ کرتے ھیںتو شیعہ اثنا عشری کی فقہ اور استنباط کو دوسرے مذاھب سے مستحکم پاتے ھیں، جس بنا پر ان کے دل میں شیعہ مذھب کی طرف رغبت کی بجلی چمک اٹھتی ھے، اور ےھاں تک کہ ایک عجیب و غریب واقعہ کی بنا پر ان کی زندگی بالکل بدل جاتی ھے، اور وہ شیعہ مذھب کو اپنانے کا افتخار حاصل کرلیتے ھیں،

  اور وہ عجیب و غریب واقعہ یہ ھے کہ جب ایرانی حجاج تقریباً ۲۰ کارٹون اعتقادی کتابوں کے ساتھ سعودی عرب جاتے ھیں، تو سعودی حکومت ان ساری کتابوں کو ضبط کرلیتی ھے، ایران کے سفیر نے ملک فیصل تک اس موضوع کو پھنچایا، اس نے بھی سعودی وزیر داخلہ کو حقیقت حال کی چھان بین کا حکم دیا، جس بنا پر وزیر داخلہ نے حکم دیا کہ تمام کتابوں کی تحقیق کی جائے، اگر ان میں کوئی مشکل نھیں ھے تو ان کو ان کے مالکوں کو لوٹا دیا جائے۔ اس زمانہ میں ”دمر داش عقالی“ سر زمین حجاز میں تھے، چنانچہ ان سے ان کتابوں کی چھان بین کی درخواست کی گئی، تاکہ قانونی حوالہ سے ان کتابوں کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کریں، اس نے ان کتابوں کے مطالعہ کے بعد شیعہ مذھب کی حقانیت کا اندازہ لگالیا، اور اسی وقت سے اھل بیت علیھم السلام کی راہ پر قدم بڑھا دیا۔۔۔۔“[42]


۸۔  علامہ ڈاکٹر محمد حسن شحّاتہ

موصوف بھی الازھر یونیورسٹی کے سابق مدرس ھیں، کافی تحقیق اور مطالعہ کے بعد شیعہ اثنا عشری مذھب کی حقانیت کو سمجھ لیا، چنانچہ وہ اپنے ایران کے سفر اھواز میں تقریر کرتے ھوئے کہتے ھیں:

 ”امام حسین علیہ السلام کا عشق ایک بات کا سبب بنا کہ میں نے اپنے تمام عہدہ و مقام کو ترک کردیا۔“

اس کے علاوہ اپنے ایک اور بیان میں کہتے ھیں:

”اگر مجھ سے سوال کیا جائے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو مشرق یا مغرب میں تلاش کیا جاسکتا ھے؟ تو میں جواب میں کھوں گا کہ امام حسین علیہ السلام کو میرے دل میں دیکھا جاسکتا ھے، خداوندعالم نے مجھے حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا شرف عنایت کیا ھے۔“

موصوف اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ھوئے کہتے ھیں:

”میں ۵۰ سال سے حضرت امام علی علیہ السلام کا شیفتہ ھوں، اور برسوں سے حضرت امام علی علیہ السلام کی ولایت کے طواف سے اپنے اطراف میں نور کا ھالہ دیکھتا ھوں۔“[43]


۹۔ فلسطینی عالم شیخ محمد عبد العال

موصوف بھی مدتوں کی تحقیق اور چھان بین کے بعد شیعہ مذھب کی حقانیت تک پھنچ گئے، اور اھل بیت علیھم السلام کی اقتدا کرلی، موصوف اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ھیں:

”۔۔۔میں نے جن کتابوں کو پڑھا ھے ان میں سب سے اھم ”المراجعات“ تھی، جس سے میرے ایمان میں اضافہ نھیں ھوا صرف میری معلومات میں اضافہ ھوا، لیکن جس چیز نے مجھے اھل بیت علیھم السلام کی ولایت کی طرف رھنمائی کی وہ یہ ھے کہ میں ایک روز فٹ پاتھ پر چھل قدمی کررھا تھا جب اپنے ایک رشتہ دار کی دکان کے سامنے پھنچا تو کچھ دیر کے لئے ان کی دکان میں بیٹھ گیا، دکان چھوٹی تھی، کچھ دیر بعد انھوں نے اپنے پوتوں میں سے ایک کو بلایا اور کھا: تم میری جگہ بیٹھ جاؤ تاکہ میں نماز عصر ادا کرنے کے لئے جاؤں، جےسے ھی  میں نے یہ سنا تو فکر میں ڈوب گیا، کہ کس طرح ایک شخص اپنی چھوٹی سی دکان کو اتنی دیر کے لئے تنھا نھیں چھوڑتا کہ وہ نماز پڑھ سکے، اور اپنی جگہ کسی کو معین کرتا ھے تاکہ اس کے سامان کی حفاظت کرے، تو پھر یہ کیسے ممکن ھے کہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنی امت کو بغیر کسی امام اور جانشین کے چھوڑ دیا ھو!! خدا کی قسم ایسا ھرگز نھیں ھوسکتا۔۔۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا تم اجنبی ملک لبنان میں غربت اور خوف و وحشت کا احساس نھیں کرتے ھو؟ تو انھوں نے جواب دیا:

”حالانکہ تنھائی اور غربت کے آثار سنگین ھوتے ھیں لیکن مجھ پر ان کا ذرا بھی اثر نھیں ھے، اور ھرگز خوف و تنھائی کا احساس نھیں کرتا، کیونکہ میرے دل میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا کلام محفوظ ھے، کہ آپ نے فرمایا:

”لا تستوحشوا من الحق لقلة اهله“

” کبھی بھی راہ حق میں افراد کی کمی کی وجہ سے خوف و وحشت نہ کرو۔“[44]

نیز موصوف کہتے ھیں:


تقریر۔

”لوگ خود بخود مذھب اھل بیت علیھم السلام کو قبول کریں گے، کیونکہ دین فطری ھے، لیکن کیا کریں کہ یہ دین حکومتوں کے کے قضبہ میں ھے۔“اسی طرح جب موصوف سے سوال ھو کہ کیا ولایت (اھل بیت علیھم السلام) کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ھے؟ تو انھوں نے فرمایا:

 ”ھم اس بات پر عقیدہ رکھتے ھیں کہ اھل بیت علیھم السلام کی ولایت کے علاوہ ھر چیز کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ھے، کہ خود دلیل ان حضرات کی محتاج ھے۔۔۔۔“[45]

موصوف ایک اور مقام پر فرماتے ھیں:

”جو شخص خانہ کعبہ کا طواف کرے، عالم ھو یا جاھل، اختیاری ھو یا جبری یا ان دو چیزوں کے درمیان کی حالت ھو ، در حقیقت وہ ولایت کا طواف کرتا ھے، کیونکہ خانہ کعبہ مظھر ھے اور اس میں پیدا ھونے والا جوھر، لہٰذا جو مظھر کا طواف کرتا ھے در حقیقت جوھر کا طواف کررھا ھے۔“[46]


۱۰۔  فلسطینی مجاہد و رھبر محمد شحّادہ

موصوف نے اسرائیلی قید کی زندگی میں لبنانی شیعوں سے قیدخانہ میں بحث و گفتگو او رمناظرہ کرکے شیعہ مذھب کے صحیح ھونے کا اندازہ لگا لیا اور مذھب اھل بیت علیھم السلام کو قبول کرکے فلسطینیوں کو اھل بیت علیھم السلام کے مذھب کی طرف دعوت دینے میں مشغول ھوگئے، ھم یھاں سے ان سے لئے گئے انٹرویو کے بعض حصوں کو نقل کرتے ھیں، چنانچہ موصوف کہتے ھیں:

”فلسطین کو محمد  اور علی(ع) کی طرف پلٹنا ھے“، ”میں دنیا کے آزادی خواہ لوگوں کو آزای خواہ افراد کے امام و پیشوا حضرت امام حسین علیہ السلام کی اقتدا اور پیروی کی دعودت دیتا ھوں۔“

نیز موصوف کہتے ھیں:

”میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے اھل بیت علیھم السلام کی مظلومیت کے سلسلہ میں بہت زیادہ ھمدردی رکھتا ھوں اور احساس کرتا ھوں کہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام واقعاً مظلوم تھے، اور جب بھی فلسطین میں ظلم و ستم اور ناجائز قبضہ میں اضافہ ھوتا ھے، تو میرے دل میں امام علی علیہ السلام کی مظلومیت کا احساس بڑھ جاتا ھے۔“

”میں چونکہ مذھب شیعہ کے بارے میں معلومات نھیں رکھتا تھا جس کی وجہ سے اپنے اسی سنی مذھب پر باقی رھا، اور امیدوار ھوں کہ میں یہ کھنے والا آخری شخص نہ ھوں: ”ثم اہتدیت“ ( یعنی پھر میں ہدایت پاگیا)، میرا شیعہ ھونا ان سیاسی مسائل سے کوئی تعلق نھیں رکھتا، جو آج کل ھمارے سامنے موجود ھیں، میں بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح جنوب لبنان میں کامیابی اور سرفرازی کو اپنے وجود میں محسوس کرتا ھوں، جس افتخار میں سر فھرست ”حزب اللہ“ لبنان ھے، لیکن اس کے معنی یہ نھیں ھیں کہ میرے شیعہ ھونے میں سیاسی مسائل بنیادی سبب تھے، بلکہ اھل بیت علیھم السلام کے عقیدہ کو قبول کرنا میرے باطن کے قبول کرنے کا نتیجہ ھے، اور کسی دوسری چیز سے متاثر نھیں ھوں، اھل بیت علیھم السلام کا راستہ حق ھے جس کو میں نے اختیار کیا ھے“، ”میرا شیعہ ھونا عقیدتی لحاظ سے ھے نہ کہ سیاسی لحاظ سے“، ”میں بہت جلد ھی فلسطین میں شیعہ مذھب پھیلانے کی کوشش کروں گا، اور اس سلسلہ میں خداوندعالم سے دعا کرتا ھوں کہ اس کام میں میری مدد کرے۔“

”امام زمانہ قائم آل محمد علیھم السلام کی ذات گرامی ھمارے لئے باعث خیر و برکت ھے جس کی وجہ سے فلسطین میں تحریک آئی ھے، اور ھمارے درمیان ایک مخصوص جوش و خروش پیدا کردیا ھے کہ نصرت اور کامیابی کو اپنے آنکھوں کے سامنے مجسم دیکھ رھے ھیں، اور امام کے ظھور کا زمانہ نزدیک دیکھ رھے ھیں، انشاء اللہ، میں امام علیہ السلام سے باطنی طور پر رابطہ رکھتا ھوں اور ان سے آہستہ آہستہ باتیں کرتا ھوں، میں ان سے چاہتا ھوں کہ اس حساس موقع پر ھم پر مخصوص توجہ فرمائیں۔“

 ”دنیا بھر کے آزادی خواہ لوگ مخصوصاً مسلمانوں کو ان کے اختلافات کے باوجودنصیحت کرتا ھوں کہ ظلم و ستم کے خلاف حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام اور آپ کی تحریک کو اپنے لئے سر مشق قرار دیں ، اور شیطان بزرگ امریکہ نیز اسرائیل جو اسلامی ممالک کے درمیان ایک سرطانی غدہ ھے کے ظلم کے خلاف کبھی بھی خاموشی اختیار نہ کریں۔“

فلسطین میں ھونے والی کانفرسوں اور دیگر منعقد ھونے والے جن جلسات میں مجھے تقریر کے لئے دعوت دی جاتی ھے ہزاروں لوگوں کے سامنے اپنی تقریر کے تمام حصوں میں سیرت اھل بیت علیھم السلام کو محور قرار دیتا ھوں، اور میری یہ تقریریں اھل بیت علیھم السلام کے سلسلہ میں فلسطینی معاشرہ میں کافی اثر انداز ھوتی ھیں، میں اس طریقہ کار کو جاری رکھوں گا یھاں تک کہ لوگ اس کی قدر پہچان لیں، اور ان حضرات کی اقتداء کرتے ھوئے خداوندعالم کے اذن و مشیت سے کامیابی سے ھمکنار ھوجائیں۔۔۔۔“

”خداوندعالم کی اجازت سے اپنے مومن بھائیوں کے ساتھ میں مذھب اھل بیت علیھم السلام کو بہت جلد ھی فلسطین میں نشر کروں گا یھاں تک کہ حضرت امام مہدی آل محمد (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ) ظھور فرمائیں۔“

جس وقت الازھر یونیورسٹی مصر کی علماء کمےٹی کے صدر نے تشیع کے نشر اور اس کے دفاع کرنے کی وجہ سے ان پر اعتراض کیا تو اس کے جواب میں موصوف نے کھا: ”میں صرف (یھی) کہتا ھوں: خداوندا! میری قوم کی ہدایت فرما، وہ نھیں جانتی۔۔۔“، اس کے بعد کہتے ھیں: ”میں اس بات کے جواب میں جو اس زبان پر جاری کی وہ یہ کہ مذھب شیعہ کی نسبت میری جھالت اس بات کی باعث ھوئی کہ میں مذھب شیعہ اختیار کرلوں، صرف ایک نکتہ پر تاکید کرتا ھوں کہ در حقیقت یہ شیعیت کی نسبت لاعلمی اور جھالت تھی جس نے مجھے اس وقت تک اھل سنت کے مذھب پر باقی رکھا،لیکن اب میں حق و حقانیت کا اعتراف کرتا ھوں۔“[47]


۱۱۔ فلسطینی حکیم اسعد وحید قاسم

موصوف نے بھی شیعہ مذھب کے سلسلہ میں بہت مطالعہ کے بعد شیعیت کو انتخاب کرلیا، اور مختلف طریقوں سے شیعہ مذھب کی حقانیت کو لوگوں پر واضح کرنا شروع کردیا اوراس سلسلہ میں بہت زیادہ کوشش بھی کی، موصوف اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ھیں: ”میرے عقیدہ کے مطابق شیعہ مذھب ھی اسلام ھے، اور اسلام ھی شیعہ مذھب ھے“،[48] موصوف نے بھی مذھب اھل بیت علیھم السلام کے دفاع میں بہت سی کتابیں لکھی ھیں جن میں سے”ازمةالخلافة و الامامة و آثارها المعاصرة“ کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ھے۔

قارئین کرام!  مذھب شیعہ کی حقانیت اس بات کا سبب بنی کہ اھل سنت کے بہت سے ماننے والے یا دوسرے ادیان و مذاھب کے ماننے والے اس مذھب کے دلدادہ ھوگئے، اور پاک فطرت انسان اور حقیقت کے تلاش کرنے والوں نے شیعیت کی حقانیت کو دیکھ اس مقدس مذھب کو اپنا لیا۔

یہ تھے اس مختصر سی کتاب میں بیان ھونے والے چند نمونے تھے۔


۴۔  دینی مرجع کا انتخاب کرنا

مسئلہ امامت کے دو پھلو ھیں: ایک تاریخی اور دوسرا دینی ، فرض کریں کہ اس مسئلہ کے تاریخی پھلو کا زمانہ گزر گیا ھے تو پھر بھی دینی پھلو کے اثر ات اب تک باقی ھیں اور روز قیامت تک باقی رھیں گے، اگر امامت و ولایت کے سلسلہ میں بحث کریں تو اس کا ایک اھم حصہ یہ ھے کہ ھمارا دینی مرجع کون ھیں؟ دین کن لوگوں سے حاصل کریں؟

پیغمبر کی حقیقی سنت کس کے نزدیک ھے؟ کیا ھم دین اور اسلام کے معارف و تعلیمات کو ابو الحسن اشعری، ابن تیمیہ جیسے لوگوں سے حاصل کریں اور فروع دین یعنی شرعی مسائل کو چاروں مذھب کے کسی ایک امام سے لے لیں، جیسا کہ اھل سنت اور وھابی لوگ کہتے ھیں، یا ھم معصوم حضرات کی پیروی کریں کہ جو اھل بیت علیھم السلام کے علاوہ کوئی نھیں ھے؟جس چیز پر آیات و روایات بہت زور دیتی ھیں اور شیعہ اثنا عشری اس پر تاکید کرتے ھیںوہ یہ ھے کہ صاحب رسالت حضرت پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو ایک طویل زمانہ گزر گیا ھے اور مسلمانوں کے مذاھب میں اختلاف نظر پایا جاتا ھے، ایسے موقع پر ھر مسلمان پر واجب ھے کہ سنت نبوی اور دینی تعلیمات تک پھنچنے کے لئے ایسے راستے کو اپنائے جس پر وہ خود مطمئن ھو،لہٰذا حضرت علی علیہ السلام کو مقام خلافت و ولایت پر منصوب ماننا نہ صرف یہ کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد اسلامی رھبری و حاکمیت اور سیاسی امور کی مشکل کو دور کردیتا ھے بلکہ امام علیہ السلام کودینی مشکلات دور کرنے اور عوام کے شرعی مسائل حل کرنے کا بھی مرجع قرار دیتا ھے، وہ مشکلات جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد پیدا ھوئیں بلکہ ان میں شدت پیدا ھورھی ھے ، اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام نے اس اھم مسئلہ پر تاکید فرمائی، اور اھل بیت پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی توصیف کرتے ھوئے لوگوں سے خطاب کیا:

۱۔”فاٴين تذهبون؟ و اٴنی توٴفکون و الاٴعلام قائمة و الآيات واضحة و المنار منصوبة فاٴين يتاه بکم و کيف تعمهون و بينکم عترة نبيکم؟ وهم اٴزمّة  الحقّ و اٴعلام الدّين و اٴلسنة الصّدق“ [49]

”اے لوگو! کھاں جارھے ھو؟ کیوں حق سے منحرف ھورھے ھو؟ حق کے پرچم قائم ھیں، اور اس کی نشانیاں واضح ھیں، حالانکہ چراغ ہدایت، راستہ کو منور کئے ھوئے ھے، لیکن تم گمراھوں کی طرح کدھر جارھے ھو؟

  کیوں تم سرگرداں اور پریشان ھو؟ جبکہ تمھارے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی عترت (اور آپ کے اھل بیت علیھم السلام) تمھارے درمیان موجود ھیں، وہ حق کے زمامدار ، دین کے پیشوا اور سچائی کی زبانیں ھیں۔“

۲۔”انظروا أهل بيت نبيکم فالزموا سمتهم و اتّبعوا اٴثرهم فلن يخرجوکم من هدى و لن يعيدوکم فی ردی فإِن لبدوا فالبدوا و إن نهضوا فانهضوا و لا تسبقوهم فتضلّوا و لا تتاٴخّروا عنهم فتهلکوا“ [50]

”اے لوگو! اپنے نبی کے اھل بیت کی طرف نظر کرو، اور وہ جس طرف قدم بڑھائیں تم بھی ان کے نقش قدم پر چلو، وہ تم کو ہدایت کے راستے سے باھر اور پستی و ھلاکت میں نھیں لے جائیں گے، اگر وہ (کسی مسئلہ میں) خاموش رھیں تو تم بھی خاموش رھو، اور اگر وہ قیام کریں تو تم بھی قیام کرو، ان سے آگے آگے نہ چلو کہ گمراہ ھوجاؤ گے، اور ان سے پیچھے بھی نہ رہ جاؤ کہ نیست و نابود ھوجاؤ گے۔“

۳۔”نحن الشّعار و الاٴصحاب و الخزنة و الاٴ بواب و لا توٴتی البيوت إلّا من اٴبوابها فمن اٴتاها من غير اٴبوابها سمّی سرقاً“ ۔[51]

”اے لوگو! ھم اھل بیت پیغمبر !ان کے جسم کے لباس کی طرح، ان کے حقیقی ناصر و مددگار،خزانہ دار علوم و معارف وحی، اور ان معارف میں داخل ھونے کے دروازے ھیں، کیونکہ دروازہ کے علاوہ مکان میں داخل نھیں ھوا جاسکتا، اور جو شخص گھر میں دروازہ سے داخل نہ ھو وہ چور کھلاتا ھے۔“

۴۔”اٴين الذين زعموا اٴنّهم الرّاسخون فی العلم دوننا کذباً و بغياً علينا اٴن رفعنا الله و وضعهم و اٴعطانا و حرمهم و اٴدخلنا و اٴخرجهم بنا يستعطی الهدی و يستجلی العمی“ [52]

”کھاں ھیں وہ لوگ جو اپنے کو ”راسخون فی العلم“ گمان کرتے ھیں نہ کہ ھم کو؟ کہ انھوں نے یہ دعویٰ ظلم و ستم اور جھوٹ کی بنیاد پر ھماری ضد میں کیا ھے، خداوندعالم نے ھم اھل بیت پیغمبر کو بلند کیا اوران کو پست ،ھمیں عطا کیا اور انھیں محروم رکھا اپنی نعمتوں کے حرم میں داخل کیا اور ان کو باھر کیا ھے کہ ھماری رھنمائی کے ذریعہ راہ ہدیت کو طے کرتے ھیں اور کور دلوں کی روشنی کو ھم سے تلاش کرتے ھیں۔“

۵۔”إنّما مثلی بينکم کمثل السّراج فی الظّلمة يستضیء به من ولجها “ [53]

”بے شک میں تمھارے درمیان تاریکی میں چمکتے ھوئے چراغ کی طرح ھوں لہٰذا جو بھی اس نور کی طرف آئے گا تو اس نور سے فیضیاب ھو گا۔“

۶ ۔"   هم عيش العلم و موت الجهل يخبرکم حلمهم عن علمهم و ظاهرهم عن باطنهم و صمتهم عن حکم منطقهم لا يخالفون الحقّ  و لا يختلفون فيه “ [54]

”وہ اھل بیت پیغمبر  علم کی حیات اور جھالت کی موت کا رازھیں، ان کا حلم ان کے علم کا، ان کا ظاھر ان کے باطن کا اور ان کی خاموشی ان کی منطق کی خبر دیتا ھے، نہ تو دین خدا کی مخالفت کرتے ھیں اور نہ ھی اس میں اختلاف کرتے ھیں۔“


۵۔  انسانی زندگی پر غدیر کا اثر

ھر دین کا ایک امتیاز یہ ھوتا ھے اگر انسان کے لئے بلند مقصد پیش کرتا ھے اور اس تک پھنچنے کے لئے ایک راستہ معین کرتا ھے تو اس کے لئے ایک نمونہ اور آئیڈل بھی معین کرتا ھے تاکہ اس کی عملی سیرت کو مد نظر رکھتے ھوئے اور اس کی پیروی کرتے ھوئے انسان بہتر طور پر منزل مقصود تک پھنچ جائے، کیونکہ ماھر نفسیات علماء اور ڈاکٹروں کے مطابق بہترین نمونہ کے ذریعہ حق و حقیقت کی طرف بہتر طور پر انسان کی رھنمائی کی جاسکتی ھے۔

خداوندعالم نے پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو مسلمانوں کے لئے بہترین نمونہ قرار دیتے ھوئے فرمایا:

<لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللهِ اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ > [55]

”مسلمانو! بے شک تمھارے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ھے۔“

معلوم ھونا چاہئے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد ایسے مواقع پیش آئے جو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی زندگی میں کبھی بھی پیش نھیں آئے تھے، تاکہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو ان موقع و محل پر نمونہ قرار دیا جاسکتا، جن میں سے امام حسین علیہ السلام کے زمانہ میں پیش آنے والا واقعہ ھے، کہ اسلام کے نام پر لیکن اسلام کا مخالف یزید اسلامی ممالک کا حاکم بن گیا، اس موقع پر قیامت تک کے لئے انسانی معاشرہ کے لئے بہترین نمونہ پیش کرنے والے حضرت امام حسین علیہ السلام ھیں، جو شیعی معاشرہ اور پیروان اھل بیت (علیھم السلام) کے واسطے نمونہ عمل ھیں، جبکہ اھل سنت کے پاس ایسا کوئی نمونہ عمل نھیں ھے۔

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد امامت و خلافت کی بحث اگرچہ ایک لحاظ سے تاریخی بحث ھے، لیکن یھی صدر اسلام کی تاریخ ھے جو انسان کی قسمت سنوارتی ھے، آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد امامت کی بحث در حقیقت اس موضوع کی بحث ھے کہ امام میں امامت کرنے کی صلاحیت اور قابلیت ھونا چاہئے اور امام کو خداوندعالم کی طرف سے منسوب ھونا چاہئے، یہ بحث کرنا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد امام کون تھا؟ در حقیقت اس بات سے بحث ھے کہ اسلامی معاشرہ بلکہ تمام بشریت کے لئے قیامت تک کون نمونہ قرار پائے؟

کیا علی علیہ السلام کی طرح کوئی نمونہ قرار پائیجس میں تمام بہترین صفات جمع ھیں اور جو شجاعت، عدالت، سخاوت، عبادت، زہد و تقویٰ، انکساری اور دیگر صفات میں بے نظیر ھو، یا بعض وہ لوگ جو جنگ و شجاعت میں کوئی مقام نہ رکھتے تھے؟ امت اسلامیہ صدر اسلام کے بزرگوں میں ایسے کامل اور جامع نمونوں کی محتاج ھے، جو روز قیامت تک ان کے لئے باعث تحریک ھو، اور لوگ ان کے حالات، فضائل اور کمالات پڑھنے کے بعد ان کو نمونہ قرار دیں اور حق و حقیقت سے نزدیک ھوں۔

کیا ایسا نھیں ھے کہ ”مھاتما گاندھی“ ھندوستان میں انگریزوں کے خلاف اعلان جنگ میں نمونہ اور آئیڈل قرار پائے؟ کیا بچوں کی کتابوں میں ”فدا کار دیھاتی“ کو ایثار و فدارکاری کا نمونہ بیان نھیں کیا جاتا، تاکہ بچے شروع سے ھی اپنے ذھنوں میں اس نوجوان کی تصویر کشی کے ذریعہ ایثار و فداکاربن کر نکلیں۔ تو پھر امت اسلامیہ کیوں سوئی ھوئی ھے، جبکہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں نے ان کے شھروں اور ملکوں پر قبضہ کرلیا، ان پر غلبہ حاصل کئے ھوئے ھے اور وہ ان کے دین اور مال و دولت کو غارت کررھے ھیں؟ کیا خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد نھیں فرماتا ھے

 <وَلَنْ يجْعَلَ اللهُ لِلْکَافِرِينَ عَلَی الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا > [56]

”اور خداوندعالم، کفار کے لئے صاحبان ایمان کے خلاف کوئی راہ نھیں دے سکتا۔“

کیا پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے نھیں فرمایا ھے:

”الإسلام يعلو و لا يعلی عليه “ [57]

”اسلام ، ھر دین پر برتری رکھتا ھے اور کوئی بھی دین اس پر برتری نھیں رکھتا۔“

تو پھر مسلمان کیوں استعمار کی غلامی میں حتی دوسرے اسلامی ملکوں کے خلاف ایک دوسرے پر سبقت لے رھے ھیں؟ کیوں ایک اسلامی ملک استعمار کی اچھی خدمت کی خاطر ایک اسلامی ملک پر قبضہ کرنے کے انعام میں قبضہ کرنے والوں کو افتخار کا تمغہ دے؟ ھم کیوں سوئے ھوئے ھیں؟ کیوں غافل ھیں؟ کیوں ”تاجیکستان“ کی قوم دو لاکھ شھید دینے اور بیس لاکھ بے گھر ھونے کے بعد بھی کامیاب نھیں ھوسکی؟ لیکن ایرانی قوم نے ایک سال میں بہت کم شھید دے کر ۲۵۰۰ سالہ طاغوتی حکومت کا تختہ پلٹ دیا، اس کا راز صرف حضرت علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام جیسے نمونے اور آئےڈیل رکھنا ھے، کونسا ملک ھے

جو اپنی کامیابی کی ابتدائی زمانہ سے استعمار اور اسکتبار کی طرف سے تھونپی گئی جنگ میں آٹھ سال تک لڑنے کے بعد سرفراز رھے؟ کیا یہ امام حسین علیہ السلام اور اھل بیت علیھم السلام کو نمونہ عمل قرار دینے کے علاوہ کسی اور چیز کا نتیجہ ھے،

  اور کیا حضرت ابو الفضل العباس کو نمونہ عمل قرار دینے کے علاوہ کوئی اور چیز ھے؟ یہ میرا دعویٰ نھیں ھے کہ میں ایک شیعہ ھوں،بلکہ یہ دعویٰ بہت سے اسلامی ملکوں کی سیاسی اور انقلابی شخصیتوں نے کیا ھے، جو اپنی امت کی بے حسی سے رنجیدہ ھیں، فلسطین کے واقعہ کو  افسوس کے ساتھ ھم نے دیکھا ھے اور دیکھ رھے ھیں کہ بعض اسلامی ملکوں نے ذرا بھی ردّ عمل ظاھر نھیں کیا یھاں تک کہ ایک مظاھرہ کی حد تک بھی نھیں جو خود ان کے نفع میں تھا،

 کیونکہ اسرائیل تمام اسلامی ملکوں پر نظریں جمائے ھوئے ھے، لیکن گویا فلسطینی قوم کے لئے اےسا لگتا ھے کہ کوئی حادثہ ھی پیش نھیں آیاو، جو خود ان کی طرح انسان اور ان کے ھی دین سے ھیں، اور وہ اس پرندہ کی طرح  ھیں جو اپنے آشیانہ سر چھپائے بیٹھا ھے اور شکاری کو نھیں دیکھ رھا ھے، اور کہتا ھے کہ دشمن نھیں ھے، عیش و عشرت میں مشغول ھیں، لیکن غفلت کی وجہ سے اچانک دشمن ان کے سر پر مسلط ھوجاتا ھے اور سب کا شکار کرلیتا اور نیست و نابود کردیتا ھے، لیکن شیعہ اثنا عشری مسلمان شھنشاھی حکومت پر کامیابی کے باوجود تمام اسلامی اقوام کی فکر میں ھیں،

فلسطین، افغانستان، چچن اور عراق سے لے کر بوسنی اور دوسرے اقوام تک تمام مسلمان اقوام کو ھر ممکن طریقہ سے مدد پھنچانے کی کوشش میں ھیں، اگرچہ اس راہ میں بہت بھاری قیمت ادا کرچکا ھے۔ یہ سب کچھ نھیں ھے، مگر اس وجہ سے کہ شیعہ اثنا عشری اپنے لئے کچھ نمونے اورآئےڈیل رکھتے ھیں، جنھوں نے تاریخ کے آخر تک کے لئے یادگار درس چھوڑے ھیں، شیعہ امام علی علیہ السلام جےسا آئےڈیل رکھتے ھیں کہ جنکا اعتقاد ھے کہ اگر انسان ایک یھودی کے پیر سے پازیب چھن جانے پر اپنی جان دیدے تو اس کے لئے مناسب ھے،

  شیعہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرح آئےڈیل رکھتے ھیں جو فرماتے ھیں: ”نہ کسی پر ظلم کرو، اور نہ کسی کا ظلم برداشت کرو“، اور جو فرماتے ھیں:"هيهات منا الذلة“ ؛ (ھم سے ذلت دور ھے،) اور جو فرماتے ھیں: ”سرخ موت (یعنی شھادت) ذلت کی موت سے بہتر ھے“، جو اس بات پر عقیدہ رکھتے ھیں کہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے لئے کبھی جان بھی دی جاسکتی ھے۔

اس زمانہ میں امامت کی بحث در حقیقت نمونوں اور آئیڈیل کی بحث ھے، امامت کی بحث در حقیقت ھر میدان میں نمونہ عمل کی بحث ھے: عبادت کا پھلو ھو یا گھریلو زندگی ، ذاتی ذمہ داریوں کی بات ھو یا معاشرتی امور کا مسئلہ ، خلاصہ ھمارے پاس ھر میدان میں نمونے موجود ھیں، اور یھی نمونے ھیں جو انسان کی آئندہ زندگی کی تصویر کشی کرتے ھیں، اور زندگی کے صفحات کو کھولتے ھیں،

 جو بچہ بچپن ھی سےهيهات منا الذلة کی پٹی سر پر باندھ کر اور امام حسین علیہ السلام کی مجلس میں شرکت کرتا ھے، اور امام حسین علیہ السلام کو اپنے لئے نمونہ قرار دیتا ھے، تو یہ بچہ بڑا ھوکر کبھی بھی ذلت و رسوائی کو قبول نھیں کرے گا، جیسا کہ اس کے مولا و آقا حضرت امام حسین علیہ السلام نے کیا ھے، انسان نمونہ کو اپنا نصب العین قرار دیتا ھے، تاکہ اس کی اقتدا کرتے ھوئے اس کے نزدیک ھوجائے، اس کی نزدیکی سے خداوندعالم کی قربت ھوتی ھے، لہٰذا کتنا اچھا ھو کہ اپنے لئے بہترین نمونہ کا انتخاب کیا جائے، وہ جنھوں نے اپنی پوری زندگی میں کوئی بھی گناہ نہ کیا ھو، اور کبھی کسی خطا اور غلطی کے مرتکب نہ ھوئے ھوں، یہ حقیقی امام کی ذات ھوتی ھے جو حق کو باطل سے، نیک کو بد سے اور مفید کو نقصان دہ سے الگ کردیتی ھے، اگر میں حسین بن علی علیھما السلام کا پیرو ھوں تو پھر فاسق و فاجر حاکم کی بیعت کے لئے ھاتھ نھیں بڑھاؤں گا، لیکن اگر عبد اللہ بن عمر جیسے شخص کی پیروی کروں تو پھر تاریخ کے مشھور و معروف خونخوار حجاج بن یوسف ثقفی کے ھاتھوں بیعت کروں گا،

  جیسا کہ احمد بن حنبل نے عبد اللہ بن عمر کو نمونہ قرار دیتے ھوئے متوکل کی بیعت کی، یہ امامت ھی تو ھے جو معیاروں اور نعروں کو معین کرتی ھے، لہٰذا ”امامت“، اور ”غدیر“ کی بحث صرف ایک تاریخی اور بے فائدہ بحث نھیں ھے، بلکہ ایک تازہ بحث ھے، ایک زندہ بحث ھے جس سے اسلامی معاشرہ بلکہ عالم بشریت کی حیات وابستہ ھے، امامت اس چیز کا نام ھے

جو انسان کی روح اور اس کی حقیقت سے رابطہ رکھتی ھے، امامت انسان کے راستہ کو واضح کرتی ھے، امامت انسان کی دنیا و آخرت سے رابطہ رکھتی ھے، امامت اس حقیقت کو کہتے ھیں جو انسان کی زندگی میں قدم قدم پر موثر واقع ھوتی ھے


۶۔  دلیل و برھان کے ساتھ مذھب کا انتخاب

کیا ھم میں سے ھر شخص نے اپنے مذھب کو دلیل و برھان اور تحقیق کے ساتھ انتخاب کیا ھے، یا ھم کو یہ مذھب میراث میں ملا ھے؟ کیونکہ ھمارے ماں باپ اس مذھب پر عقیدہ رکھتے تھے لہٰذا ھم بھی اسی مذھب پر ھیں؟ کیا امامت ان اعتقادی اصول میں سے نھیں ھے جن پر ھمارے پاس دلیل ھونا چاہئے؟ کن وجوھات کی بنا پر میں نے اس مذھب کو قبول کیا ھے؟ کیا وہ اسباب قرآنی، حدیثی یا عقلی ھیں یا وہ اسباب نسل پرستی اور قومی تعصب ھے جس کی کوئی اصل و بنیاد نھیں ھوتی؟ کس دلیل کی وجہ سے دوسرے مذاھب ھمارے مذھب سے افضل نھیں ھیں؟ کیا کل میں اپنے ان اعتقاد کا ذمہ دار نھیں ھوں؟ یہ ایسے سوالات ھیں جو ھر انسان کے ذھن میں پیدا ھوسکتے ھیں، اور ان کے جوابات بھی اسی کو دینا ھیں، ان کا جواب امامت کی بحث کے علاوہ کچھ نھیں ھوسکتا، کیونکہ تمام ھی مذاھب کا محور ”مسئلہ امامت“  ھے۔

 

اندھی تقلید

تقلید اگرچہ بعض مقامات پر صحیح اور قابل تعریف ھے، جیسے شرعی مسائل میں جاھل کا کسی عالم کی تقلید کرنا، لیکن یھی تقلید بعض دوسرے مواقع پر صحیح نھیں ھے، جس کی شریعت اور عقل نے مذمت کی ھے، مثلاً جاھل کا کسی دوسرے جاھل کی تقلید کرنا، یا کسی عالم کا کسی دوسرے عالم کی تقلید کرنا جب کہ وہ خود اس کے برخلاف نتیجہ پر پھنچ چکا ھو، لہٰذا قرآن کریم میں ارشاد ھوتا ھے:

<وَإِذَا قِيلَ لهُمْ تَعَالَوْا إِلَی مَا اٴَنزَلَ اللهُ وَإِلَی الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيه آبَائَنَا اٴَوَلَوْ کَانَ آبَاؤهُمْ لاَيعْلَمُونَ شَيئًا وَلاَيهْتَدُونَ>58]

”اور جب ان سے کھا جاتا ھے کہ خدا کے نازل کئے احکام اور اس کے رسول کی طرف آو، تو کہتے ھیں کہ ھمارے لئے وھی کافی ھے جس پر ھم نے اپنے اباء و اجداد کو پایا ھے، چاھے ان کے آباء واجداد نہ کچھ سمجھتے ھوں اور نہ کسی طرح کی ہدایت رکھتے ھوں۔“

نیز قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے:

<وَکَذَلِکَ مَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِی قَرْيةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلاَّ قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَائَنَا عَلَی اٴُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَی آثَارهِمْ مُقْتَدُونَ>[59]

”اور اسی طرح ھم نے آپ سے پھلے کی بستی میں کوئی پیغمبر نھیں بھیجا مگر یہ کہ اس بستی کے خوشحال لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ ھم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ھے اور ھم انھیں کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے ھیں۔“

نیز ارشاد ھوتا ھے:

< يوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوههمْ فِی النَّارِ يقُولُونَ يالَيتَنَا اٴَطَعْنَا اللهَ وَاٴَطَعْنَا الرَّسُول(عليه الرحمه)وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا اٴَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَائَنَا فَاٴَضَلُّونَا السَّبِيلَا رَبَّنَا آتهِمْ ضِعْفَينِ مِنْ الْعَذَابِ وَالْعَنهمْ لَعْنًا کَبِيرًا> [60]

”جس دن ان کے چھرے جھنم کی طرف موڑ دیئے جائیں گے اور یہ کھیں گے کہ اے کاش ھم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ھوتی۔ اور کھیں گے کہ ھم نے اپنے سرداروں اور بزرگوں کی اطاعت کی تو انھوں نے راستہ سے بہکادیا۔ پروردگار !  اب ان پر دھرا عذاب نازل کراور ان پر بہت بڑی لعنت کر۔“

پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:

”ایسی امت نہ بنو جو یہ کھے کہ اگر لوگوں نے نیک کام کئے تو ھم بھی کریں گے، اور اگر لوگوں نے ظلم کیا تو ھم بھی ظلم کریں گے، لہٰذا تم اپنے آپ کو تیار کرلو کہ اگر لوگوں نے نیک کام کئے تو تم بھی ایسے ھی نیک کام کرو، اور اگر انھوں نے برے کام کئے تو تم برے کام نہ انجام دو۔“[61]


۷۔  فرقہ ناجیہ کونسا فرقہ ھے؟

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:

”افترقت الى يهود علی إحدی و سبعين فرقة، فواحدة فی الجنة، و سبعون فی النار و افترقت النصاری علی ثنتين و سبعين فرقة، فإحدی و سبعون فی النار، و واحدةفی الجنة و الذی نفس محمد بيده لتفترقنّ اٴمّتی علی ثلاث و سبعين فرقة، واحدة فی الجنة و ثنتان و سبعون فی النار“ [62]

”یھودی ۷۱ فرقوں میں بٹ گئے، جن میں سے صرف ایک فرقہ ناجیہ (یعنی نجات پانے والا) ھے اور ۷۰ فرقے آتش جھنم میں جائیں گے، اسی طرح نصاریٰ بھی ۷۲ فرقوں میں تقسیم ھوگئے، جن میں سے ۷۱ فرقے جھنم میں اور ایک فرقہ جنت میں جائے گا، قسم اس پروردگار کی جس کےقبضہ قدرت میں محمد کی جان ھے، میری امت بھی ۷۳ فرقوں میں تقسیم ھوجائے گی، جن میں سے ایک فرقہ جنت میں جائے گا اور ۷۲ فرقے آتش جھنم میں جلیں گے۔“

قارئین کرام!  ھم اس بات کو جانتے ھیں کہ سب سے بڑا اختلاف امامت کے مسئلہ میں ھے، اور اسی مسئلہ کی وجہ سے اسلامی معاشرہ میں مختلف فرقے بن گئے، لہٰذا فرقہ ناجیہ کو پانے کے لئے اسلامی معاشرہ کی امامت و رھبری کے سلسلہ میں بحث کرنا ضروری ھے ۔


پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے جانشین کو معین کرنے کی ضرورت

اھل سنت کا ایک گروہ اس بات پر عقیدہ رکھتا ھے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے کسی کو خلیفہ نھیں بنایا اور خلافت کے مسئلہ کو عوام پر چھوڑ دیا۔ دوسرا گروہ کہتا ھے: پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے حضرت ابو بکر کو اپنا جانشین معین فرمایا، لیکن شیعہ اثنا عشری یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے خلیفہ اور جانشین معین کیا ھے، ھم اس بحث میں اسی مسئلہ کی تحقیق اور چھان بین کریں گے، اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد جانشین کی ضرورت کو ثابت کریں گے:

پیغمبر، امت کے مستقبل سے آگاہ ھوتا ھے

اس سلسلہ میں سب سے پھلا سوال یہ ھوتا ھے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اپنی وفات کے بعد خلافت کے بارے میں ھونے والے اختلاف اور حوادث سے مطلع تھے یا نھیں؟

------------------------------

[1] باز خوانی اندیشہ تقریب، اسکندری، ص۳۲۔

 [2]  سورہ آل عمران، آیت ۱۰۳۔

 [3] سورہ آل عمران، آیت ۱۰۵۔

[4] سورہ حجرات، آیت ۱۰۔

[5] سورہ انعام، آیت

[7] سورہ انفال، آیت ۴۶۔

[8] سورہ ا،نبیاء، آیت ۹۲

 [9] سورہ ھود ، آیت ۱۷۔

[10] سورہ اعلیٰ، آیت ۱۹۔

 [11] سورہ بقرہ، آیت ۱۲۴۔

[12] سورہ آل عمران، آیت ۱۰۳۔

 [13] بحار الانوار، ج۴۴، ص۳۲۹۔

[14] صواعق المحرقہ، ص ۹۰۔

 [15] جامع البیان، ج۴، ص۲۱۔

[16] المصنّف، ابن ابی شیبہ۔

 [17] شواہد التنزیل، ج۱، ص۱۶۸۔

 [18] مستدرک حاکم، ج۳، ص۱۴۹۔

[19] مستدرک حاکم، ج۳، ص۱۵۱۔

[20] الملل و النحل، ج۱، ص۲۴۔

 [21] اسلامنا، رافعی، ص۵۹، مجلہ رسالة الاسلام، تاریخ ۱۳ ربیع الاول ۱۳۷۸ ہجری، قاھرہ۔

[22] فی سبیل الوحدة الاسلامیة، ص۶۴۔

 [23] فی سبیل الوحدة الاسلامیة، ص۶۴۔

[24] دفاع عن العقیدة والشریعة، ص۲۵۷۔

[25] فی سبیل الوحدة الاسلامیة، ص۶۶۔

 [26] تاریخ التشریع الاسلامی۔

[27] تاریخ المذاھب الاسلامیّة، ص۳۹۔

[28] مجلہ رسالة الثقلین، نمبر۲، سال اول ۱۴۱۳ ہجری، ص۲۵۲۔

 [29] فی سبیل الوحدة الاسلامیة۔

[30] نظرات فی الکتب الخالدة، ص۳۳۔

 [31] عبد الل بن سبا، ج۱، ص۱۳۔

[32] الغدیر، ج۴، ص۴ ۔ ۵۔

[33] مع رجال الفکر فی القاھرة، ص۴۰۔

 [34] لماذا اخترت مذھب اھل بیت علیھم السلام! ص ۱۶ تا ۱۷۔

 [35] اس کا ترجمہ ”پھر میں ہدایت پاگیا“ نام سے چھپ چکا ھے، اور مختلف ایڈیشن ختم ھوچکے ھیں، واقعاً حق و حقیقت کو تلاش کرنے کے لئے یہ کتاب تحفہ ھے۔ (مترجم)

[36] ثم اہتدیت، ص۲۰۴۔

[37] منہج فی الانتماء المذھبی، ص۳۱۱۔

[38] صالح الوردانی، الخدعة، العقل المسلم بین اغلال السلف و اوھام الخلف۔

[39] المتحّولون، ج۱، ص۱۲۳۔

[40] المتحّولون، ج۳، ص۱۲۶۔

[41] المتحّولون، ج۳، ص۱۲۷۔

 [42] المتحّولون، ج۳، ص۸۶ ۔ ۸۷، بہ نقل از صالح الوردانی۔

 [43] ”جمھوری اسلامی“ اخبار، شمارہ ۶۷۷۱سے نقل، اھواز میں موصوف کی

 [44] المتحّولون، ج۳، ص۱۱۳۔

[45] المتحّولون، ج۳، ص۱۱۷۔

[46] المتحّولون، ج۳، ص۱۱۷۔

 [47] المتحولون، ج۱، ص۷۰۹۔

 [48] المتحولون، ج۱، ص۴۶۲۔

 [49] نہج البلاغہ، عبدہ، ج۲، ص۱۹۔

 [50] نہج البلاغہ، عبدہ، ج۲، ص۱۹۔

[51] نہج البلاغہ، عبدہ، ج۱، ص۲۷۸۔

 [52] نہج البلاغہ، عبدہ، ج۲، ص۵۵۔

[53] نہج البلاغہ، عبدہ، ج۵، ص۳۶۲۔

[54] نہج البلاغہ، صحبی صالح، خطبہ۱۴۷۔

[55] سورہ احزاب، آیت ۲۱ ۔

 [56] سورہ نساء، آیت ۱۴۱۔

 [57] بحار الانوار، ج۳۹، ص۴۴، کنز العمال، ج۱، ص۱۶۶، ح۲۴۶۔

 [58] سورہ مائدہ، آیت ۱۰۴۔

[59] سورہ زخرف، آیت ۲۳۔

 [60] سورہ احزاب، آیت ۶۶۔ ۶۸۔

[61] الترغیب و الترھیب، ج۳، ص۳۴۱۔

 [62]سنن ابن ماجہ، ج۲، ص۱۳۲۲، ح۳۹۹۲، سنن ترمذی، ج۴، ص۱۳۴، ح۲۷۷۸