حکم اذاں

حکم اذاں0%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: صفحے: 328
مشاہدے: 55318
ڈاؤنلوڈ: 5072

تبصرے:

حکم اذاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 55318 / ڈاؤنلوڈ: 5072
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

شرکت  کی تھی اور مہاجرین میں سے جو دراصل مکے کے رہنے والے تھے اور رسول اللہ ص کے ساتھ ہجرت کرکے آئے تھے صرف تین یا چار اشخاص ہی شریک تھے جو قریش کی نمائندگی کررہے  تھے ۔اس کے ثبوت کے لیے یہ کافی ہے کہ ہم یہ اندازہ لگائیں کہ سقیفہ  کتنا بڑا ہوگا ۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ سقیفہ کیا ہوتا ہے ۔یہ مکان کے بیرونی دروازے  سے ملحق ایک کمرہ ہوتا ہے جس میں لوگ بیٹھک جماتے ہیں ۔ یہ مکان کے بیرونی دروازے  سے ملحق ایک کمرہ ہوتاہے جس میں لوگ بیٹھک جماتے ہیں ۔ یہ کوئی آڈیٹوریم یا  کانفرنس ہال نہیں تھا ۔اس لیے جب ہم یہ کہتے  ہیں کہ" سقیفہ  بنی ساعدہ " میں سوآدمی موجود ہوں گے تو درحقیقت ہم مبالغے  سے کام لیتے ہیں ۔ہمارا مقصد یہ ہے کہ تحقیق کرنے والے  کو یہ معلوم جائے  کہ وہاں وہ ایک لاکھ آدمی نہیں تھے جو "غدیر خم"کے موقع پرموجود تھے ،بلکہ انھیں تو یہ معلوم بھی کافی عرصہ کے بعد ہوا ہوگا کہ سقیفہ  میں کیا کاروائی ہوئی ۔ کیونکہ ان دنوں نہ فضائی رابطہ تھا نہ ٹیلفون تھے اور نہ ہی مصنوعی سیارے تھے ۔ جب وہاں موجود زعماء کا ابوبکر کے تقرر پر انصار کے سردار سعدبن عبادہ اور ان کے بیٹے قیس کی مخالفت کے باوجود ، اتفاق ہوگیا اور غالب اکثریت سے معاملہ طے پاگیا اس وقت مسلمانوں کی بڑی تعداد سقیفہ میں موجود نہیں تھی ۔ کچھ لوگ رسول اللہ ص کی تجہیز وتکفین میں مصروف تھے ،کچھ رسول اللہ ص کی وفات کی خبر سے حواس باختہ تھے ۔ عمر نے انھیں یہ کہہ کر اور بھی خوف زدہ کردیا تھا کہ خبر دار کوئی یہ بات زبان سے نہ نکالے  کہ رسول اللہ ص وفات پاگئے  ہیں ۔(1) اس کے علاوہ صحابہ کی ایک بڑی تعداد کو رسول اللہ ص نے سپاہ اسامہ میں بھرتی کرلیا تھا اوریہ لوگ زیادہ تر جرف میں مقیم تھے ۔ لہذا یہ لوگ رسول اللہ ص  کی وفات کے وقت نہ تو مدینے میں موجود تھے اور نہ ہی سقیفہ کی کانفرنس میں شریک ہوئے ۔ اس کے بعد بھی کیا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کسی قبیلے کے افراد اپنے سردار کی مخالفت کرتے اور اس سے جو فیصلہ کردیا تھا اسے نہ مانتے ۔خصوصا جب کہ یہ فیصلہ  ان کے لیے ایک بڑا اعزاز تھا جس کو حاصل کرنے کی ہر قبیلہ کوشش کرتا تھا ۔

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 195

۱۰۱

کون جانتا ہے کہ کسی دن ان کے ہی قبیلہ یا خاندان کو تمام خلافت حاصل ہوجائے جب کہ اس کا شرعی حق دار تو راستے سے ہٹاہی دیاگیا تھا اور معاملہ شوری پر منحصر ہوگیا تھا ۔اس صورت میں باری باری سب  کے لیے  موقع تھا ۔ ایسی حالت میں وہ اس فیصلے سے کیوں نہ خوش ہوتے اور کیسے نہ اس کی تائید کرتے ؟

دوسری بات یہ ہے کہ  جب مدینے کے رہنے والے اہل حل وعقد نے ایک بات طے کردی تھی  تو جزیرہ نمائے عرب کے دور افتادہ باشندوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ اس کی مزاحمت کریں گے کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی عدم موجودگی میں کیا ہورہاہے جب کہ اس دور میں وسائل رسل ورسائل  بالکل ابتدائی  حالت میں تھے ۔

اس کے علاوہ وہ یہ بھی سوچتے تھے کہ اہل مدینہ رسول اللہ کےپڑوسی ہیں وہ احکام ربانی اور وحی سے جو کسی وقت کسی دن بھی نازل ہوسکتی تھی  زیادہ واقف ہیں ۔ پھر یہ کہ صدر مقام سے دور رہنے والے قبیلے کے سردار کو خلافت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ اسے  اس سے کیا کہ ابو بکر خلیفہ ہوں یا علی ع یا کوئی اور ۔گھر کا حال گھر والے جانیں ۔اس کے لیے تو اہم بات صرف یہ تھی کہ اس کی  سرداری برقراررہے ۔ اسے کوئی چھیننے کی کوشش نہ کرے ۔کون جانتا ہے ۔شاید کسی نے معاملے کے متعلق کچھ پوچھ گچھ کی بھی ہو ۔ اور حقیقت حال جاننے کی کوشش کی ہوں ۔ لیکن حکومت کے کارندوں نے خواہ ڈرا دھمکا کر یالالچ دے کر اسے خاموش کردیا ہو ۔ شاید مالک بن نویرہ کے قصے کے متعلق ۔جس نے ابو بکر کو زکات دینے سے انکار کردیا تھا ۔ شیعوں ہی کی بات صحیح ہو ۔ حقیقت تو اللہ ہی کو معلوم ہے ۔لیکن جو شخص مانعین زکاۃ  کے ساتھ جنگ کے دوران میں پیش آنے والے واقعات کا بغور مطالعہ کرےگا اس ےبہت سے ایسے تضادات ملیں گے جن کے متعلق بعض مورخین کی پیش کی ہوئی صفائی سے اطمینان نہیں ہوگا ۔

تیسری بات یہ ہےاس واقعہ کے اچانک پیش آجانے کا بھی اس کو بطور امر  واقعی FAIT ACCOMPLI تسلیم کرلیے جانے میں بڑا دخل رہا ہے سقیفہ کانفرنس اس وقت اچانک منعقد ہوئی تھی جب بہت سے صحابہ رسول اللہ ص کی تجہیز

۱۰۲

وتکفین میں مشغول تھے ان میں امام علی ع عباس ،دوسرے بنی ہاشم ،مقداد ،سلمان ابوذر ، عمار اور دوسرے بہت سے اصحاب شامل تھے ۔ جب تک سقیفہ کے شرکاء ابو بکر کو مسجد میں لے کرگئے  اور انھوں نے عام بیعت کی دعوت دی جس پر لوگ بادل خواستہ ناخواستہ بیعت کے لیے امنڈ پڑے ، اس وقت تک علی ع اور ان کے پیروکار اپنے شرعی اور اخلاقی فریضہ سے فارغ نہیں ہوئے تھے اور ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ  رسول اللہ ص کو بغیر غسل اور بغیر کفن دفن کے چھوڑ کر سقیفہ میں خلافت کے واسطے دوڑ پڑتے اور جب تک وہ اس فریضہ سے فارغ ہوئے ۔ اس وقت تک معاملہ ابو بکر کے حق میں فیصلہ بھی ہوچکا تھا ۔ اب جو کوئی ابوبکر کی بیعت سے پیچھے ہٹتا  اس کا شمار مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والے ان فتنہ پردازوں میں ہوتا جن سے نمٹنا اور ضروری ہوتو انھیں قتل کردینا مسلمانوں پر واجب ہوگیا تھا ۔اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جب سعد بن عبادہ نے حضرت ابو بکر کی بیعت میں تامل کیا تو  عمربن خطاب نے انھیں قتل کی دھمکی دی تھی ۔(1)

اس کےبعد بیعت سے انکار کرنے والے ان صحابہ کو جو علی ع کے گھر میں جمع تھے ، زندہ جلادینے   کی اور علی ع کے گھر کو آگ  لگانے دینے کی دھمکی دی گئی تھی ۔ اگر ہمیں بیعت سے متعلق عمر کی صحیح رائے معلوم ہوجائے تو بہت سے حیران کن معمّوں کا  حل نکل آئے ۔ معلوم ہوتاہے کہ عمر کا خیال یہ تھا کہ بیعت کے درست ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ کوئی ایک مسلمان بیعت میں سبقت کرلے۔ پھر باقی پر اس کی پیروی واجب ہوجاتی ہے ۔ اس پر بھی اگر کوئی مخالفت کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج  اور واجب القتل ہے ۔ آئیے دیکھیں خود عمر بیعت کےبارے میں کیا کہتے ہیں !صحیح بخاری  کی روایت  ہے ۔(2) عمر کہتے ہیں :

اس پر بڑی گڑبڑ ہوئی اورخوب شور مچا ۔ میں ڈرا کہ کہیں آپس میں

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 8صفحہ 26 ۔طبری ،تاریخ الامم والملوک ۔ابن قتیبہ ، الامامۃ والسیاسۃ ۔

(2):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 29 ۔"باب رجم الحبلی عن الزنا اذا احصنت "

۱۰۳

تفرقہ پڑجائے ۔میں نے ابو بکر سے کہا:ہاتھ بڑھاؤ ۔انھوں نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے بیعت کرلی ۔ مہاجرین(1) اور انصار نے بھی بیعت کرلی ۔ ہم سعد بن عبادہ پر کود پڑے ۔انصار میں سے کسی نے کہا : تم نے سعد بن عبادہ کو مارڈالا ! میں نے کہا سعد بن عبادہ پر اللہ کی مار !

عمر کہتے ہیں کہ " جو مسئلہ ہمارے سامنے تھا ، اس کا اس سے مضبوط کوئی حل نہیں تھا کہ ابو بکر کی بیعت کر لی جائے ۔ہمیں ڈرتھا کہ اگر وہاں موجود لوگوں کوچھوڑ کرچلے گئے اور بیعت نہ ہوئی تو کہیں وہ ہمارے جانے کے بعد اپنے ہی لوگوں سے بیعت نہ کرلیں ۔ پھر یا تو ہمیں اپنی مرضی کے خلاف بیعت کرنی پڑیگی  اور اگر ہم نے مخالفت کی تو فساد برپا ہوگا ۔ اگر کوئی کسی سے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر بیعت کرے تو ان دونوں میں سے کسی کا ساتھ نہیں دیاجائیگا ۔

معلوم ہوا کہ عمر کے نزدیک سوال انتخاب ، اختیار اور شوری کا نہیں تھا ۔ صرف انتا کافی تھا کہ کوئی مسلمان بڑھ کر کسی سے بیعت کرلے تاکہ باقی لوگوں پر حجت  قائم ہوجائے ۔ اسی لیے عمر نے ابو بکر سے کہا کہ ہاتھ بڑھاؤ ۔ابوبکر نے ہاتھ بڑھایا تو عمر نے بلاجھجک اور بلا کسی سے مشورہ کیے فورا اس خوف سے بیعت کرلی  کہ کہیں کوئی دوسرا ان سے بازی نہ لے جائے ۔ اس بات کو عمر نے اس طرح بیان کیا :

ہم ڈرتے تھے کہ اگر ہم ان لوگوں کے پاس چلے گئے اور بیعت نہ ہوئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ہمارے جانے کے بعد اپنے ہی لوگوں میں سےکسی سے بیعت کرلیں ۔(عمر کوڈرتھا کہ کہیں انصار پہل کرکے

--------------------

(1):- سب مورخین کہتے ہیں کہ سقیفہ میں صرف چار مہاجر موجود تھے ۔ یہ کہنا کہ "میں نے بیعت کی اور مہاجرین نے بیعت کرلی " یہ اس قول سے متصادم ہے جو اسی خطبے میں آگے ہے کہ علی ع ،زبیر اور ان دونوں کے ساتھیوں نے مخالفت کی ۔ صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 26

۱۰۴

اپنے میں کسی کی بیعت نہ کرلیں)۔

مزید وضاحت اگلے فقرے سے ہوجاتی ہے :

پھر یا تو ہمیں اپنی مرضی کے خلاف ان سے بیعت کرنی ہوگی یا اگر ہم نے مخالفت کی  تو فساد برپا ہوجائے گا ۔(1)

احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ہم یہاں یہ اعتراف کرلیں کہ عمر بن خطاب نے بیعت کے بارے میں اپنی رائے اپنی زندگی  کے آخری ایام میں بدل  لی تھی ۔ ہوا یوں  کہ انھوں نے جو آخری  حج کیا تھا اس کے دوران  ایک شخص نے عبدالرحمان  بن عوف کی موجودگی میں ان سے آکر کہا تھا : آپ کو معلوم ہے کہ فلاں شخص  کہتا ہے کہ اگر عمر مرجائیں تو میں فلاں سے بیعت کرلوں گا ۔ ابو بکر کی بیعت تو اچانک ہوگئی تھی جو اتفاق سے کامیاب ہوگئی ۔ یہ سن کر عمر بہت ناراض ہوئے  اور مدینے واپسی  کےفورا بعد ایک خطبہ دیا جس میں اور باتوں کے علاوہ کہا :

میں نے سنا ہے کہ تم میں سے کوئی کہہ رہاتھا کہ اگر عمر مرگئے تو میں فلاں شخص کی بیعت کرلوںگا  ۔ کسی شخص کو اس  دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے کہ ابوبکر کی بیعت  اچانک ہوئی تھی لیکن کامیاب رہی ۔ یہ بات صحیح ہے اللہ نے اس کے برے نتائج سے محفوظ رکھا ۔(2)

پھر کہا کہ

"جو شخص مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر کسی سےبیعت کرے گا تو نہ بیعت کرنے والے کی بیعت صحیح ہوگی اور نہ بیعت لینے والے کی بیعت ،بلکہ وہ دونوں قتل کردیے جائیں(3) ۔

کاش ! سقیفہ کے موقع پر بھی عمر کی یہی رائے ہوتی !

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 28

(2):- صحیح بخاری جلد8صفحہ 26

(3):- طبری ،تاریخ الامم والملوک ،استخلاف عمر۔ ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ ۔

۱۰۵

اب یہ بات باقی رہ جاتی ہے کہ عمر نے زندگی کے آخری ایام میں اپنی رائے تبدیل کیوں کرلی ۔کیونکہ انھیں دوسروں سے بہتر طورپر معلوم تھا کہ وہ اپنی رائے کی وجہ سے ابوبکر کی بیعت  کی بنیادیں ڈھارہے ہیں  ، اس لیے کہ انھوں نے بھی ابو بکر  کی بیعت  مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر اچانک کی تھی ۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے اس بیان سے

خود ان کی اپنی بیعت کی بنیادیں ہل گئی اس لیے ابوبکر نے اپنی وفات  کے قریب مسلمانوں  سے مشورہ کیے بغیر ان کے لیے بیعت لی تھی ،یہاں تک کہ بعض صحابہ انے ابو بکر  کی چٹھی سنانے کے لیے عمر باہر نکلے تو کسی نے ان سے پوچھا : ابو حفص ! اس چٹھی میں کیا ہے ؟ عمر نے جواب دیا  مجھے معلوم نہیں ۔ لیکن پہلا میں شخص  ہوں گا جو ابوبکر کے حکم کو سن کر اسے قبول کرےگا ۔ اس شخص نے  اس پر کہا : مگر مجھے معلوم ہے کہ اس میں  کیا ہے ؟ اگلی بار آپ نے انھیں حکمراں بنایا تھا ، اس بار وہ آپ کو حکمران بنارہے ہیں(1) ۔یہ ویسی ہی بات ہے جیسی امام علی ع نے اس وقت کہی تھی جب وہ لوگوں کو ابوبکر کی بیعت کی دعوت دے رہے تھے ، علی ع نے کہاتھا :دودھ دوہ لو ، تمھیں تمھارا حصہ مل جائے گا ۔ آج تم ان کی خلافت پکی کرو  ، کل وہ خلافت تمھیں لوٹا دیں گے(2) ۔

اہم بات یہ ہے کہ ہمیں  یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بیعت کےبارے میں عمر نے اپنی رائے کیوں بدلی ؟ میرا خیال یہ ہے کہ انھوں نے سناتھا کہ بعض صحابہ ان کے مرنے کے بعد علی ابن ابی طالب ع سے بیعت کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر یہ بات انھیں قطعا پسند نہیں تھی ۔ عمر کو یہ گوارا نہیں تھا کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اگر عمر مرگئے تو میں فلاں  شخص سے بیعت کرلوںگا ۔خصوصا ایسی حالت میں جب کہ وہ خود عمر کے اپنے فعل سے استدلال کررہا ہے ۔ اس کہنے والے کا نام تو معلوم نہیں مگر اس میں شک نہیں کہ

--------------------

(1):- ابن قتیبہ ،الامامۃ والسیاسۃ جلد 1صفحہ 18

(2):- صحیح مسلم جلد 5 صفحہ 75 ۔صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 9

۱۰۶

یہ کبار صحابہ میں سے کوئی صاحب ہوں گے ۔ یہ صاحب کہہ رہے تھے کہ اگر ابوبکر کی بیعت اچانک ہوئی تھی مگر مکمل ہوگئی یعنی اگرچہ یہ بیعت مشورے کےبغیر اور دفعتا ہوگئی تھی مگر یہ مکمل ہو کر ایک حقیقت بن گئی ۔ اگر عمر اس طرح ابوبکر سے بیعت کرسکتے تھے تو وہ خود کیوں فلاں  سے اس طرح بیعت نہیں کرسکتے "۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ابن عبّاس ، عبدالرحمن بن عوف اور عمر بن خطاب  اس شخص کا نام نہیں لیتے جس نےیہ بات کہی تھی اور نہ اس شخص کا نام لیتے ہیں ۔جن کی یہ بیعت کرنا چاہتا تھا ۔ لیکن چونکہ یہ دونوں اشخاص مسلمانوں میں بڑی اہمیت رکھتے تھے ، اس لیے عمر یہ بات سن کر بگڑے اور پہلے ہی جمعہ کو جو خطبہ دیا اس  میں خلافت کاذکر چھیڑ کر اپنی نئی رائے کا اظہار کیا ، تاکہ جو صاحب  پھر ایک بار اچانک بیعت کا ارادہ کررہے تھے ان کا راستہ روکا جاسکے  ۔کیونکہ اس بیعت کی صورت میں خلافت فریق مخالف کے ہاتھ میں جانے کا امکان تھا ۔ اس کے علاوہ اس بحث کے بین السطور سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی شخص کی انفرادی رائے نہیں تھی ، یہ رائے بہت سے صحابہ کی تھی ، اس لیے بخاری کہتے ہیں  " اس پر عمر نے بگڑ کر کہا : میں انشااللہ شام کو  تقریر کرکے لوگوں کو ان سے خبر دار کردوں گا جو ان کے معاملات  پر ناجائز قبضہ کرنا چاہتے ہیں(1) ۔

اس سے معلوم ہوا کہ عمر کی رائے میں تبدیلی کی اصل وجہ  ان لوگوں  کی مخالفت تھی جو بقول ان کے لوگوں کے معاملات  پر ناجائز قبضہ کرنااور علی ع کی بیعت کرنا چاہتے تھے اور یہ بات عمر کے لیے ناقابل قبول تھی ۔ کیونکہ انھیں یقین تھا کہ خلافت  لوگوں کے طے کرنے کا مسئلہ ہے ۔یہ علی بن ابی طالب ع کا حق نہیں ۔لیکن اگر عمر کا یہ خیال صحیح تھا تو رسول اللہ ص کی وفات کے بعد انھوں نے خود لوگوں کا حق غصب کیوں کیا تھا اور مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر ابوبکر سے بیعت کرنے میں جلدی کیوں کی تھی ؟

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 25

۱۰۷

ابو حفص عمر کا رویہ ابو الحسن علی ع کے بارے میں سب کو معلوم ہے ۔عمر کی کوشش یہ تھی کہ جہاں تک ممکن ہو علی ع کو حکومت سے دور رکھا جائے ۔یہ نتیجہ ہم نے صرف مذکورہ بالا خطبے ہی سے اخذ نہیں کیا ہے بلکہ تاریخ کا متتبع کرنے والا ہر آدمی جانتا ہے کہ ابو بکر کے دور خلافت میں بھی عملا عمربن خطاب ہی حکمراں تھے ۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ابوبکر نے اسامہ سے اجازت مانگی تھی کہ عمر کو ان کے پاس چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ امور خلافت میں ان سے مدد لیتے رہیں(1) ۔

ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ابو بکر ، عمر اور عثمان کے پورے دورمیں علی بن ابی طالب کو ذمہ داری کے عہدوں سے دوررکھا گیا ۔ نہ ان کو کوئی منصب دیاگیا ۔نہ کسی صوبے کا گورنر بنایا گیا ، نہ کسی لشکر کا سالار مقررکیا گیا اورنہ خزانہ ان کی تحویل  میں دیا گیا ۔حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ علی بن ابی طالب ع کون تھے ۔

تاریخ کی کتابوں میں اس سے زیادہ عجیب بات یہ لکھی ہے کہ عمر کو مرنے کے قریب اس بات کا افسوس تھا کہ ابو عبیدہ بن جرّاح یا حذیفہ بن یمان کے آزاد کردہ غلام یاسر ، ان دونوں میں سے کوئی اس وقت زندہ نہیں ورنہ وہ ان ہی میں سے کسی کو اپنے بعد خلافت نامزد کردیتے ۔لیکن اس میں شک نہیں کہ بعد میں انھیں خیال آیا کہ اس طرح کی  بیعت کے بارے میں تو وہ اپنی راۓ پہلے ہی بدل چکے ، اس لیے ضروری ہوا کہ بیعت کا کوئی نیا طریقہ ایجاد کیا جائے جس کو درمیانی حل قرار دیا جاسکے ،جس میں نہ تو کوئی فر دواحد اس کی بیعت کرلے جس کو وہ اپنی ذاتی رائے میں مناسب سمجھتا ہو اور پھر دوسروں کو آمادہ کرے کہ وہ بھی اس کی پیروی کریں جیسا کہ خود عمر نے ابو بکر کی بیعت کے وقت کیا تھا ۔ یا جس طرح ابوبکر نے اپنے بعد خلافت کے لیے عمر کو نامزد کردیا تھا۔ یا جیسا کہ ان صاحب  کا ارادہ تھا جو حضرت عمر کی موت کا انتظار  کررہے تھے ۔تاکہ اپنے پسندیدہ شخص کی بیعت کرسکیں  ، لیکن عمر پیش  بندی کرکے ان کے

--------------------

(1):-ابن سعد نے طبقات  میں اس کی تصریح  کی ہے ۔ دوسرے مورخین نے بھی جنھوں نے سریہ اسامہ بن زید  کا ذکر کیا ہے ، ان بات کو بیان کیا ہے ۔

۱۰۸

منصوبے کو ناکام بنادیا تھا ۔ نہ ہی عمر کے لیے  یہ ممکن تھا کہ وہ خلافت  کے معاملے کا تصفیہ مسلمانوں کے شوری پر چھوڑ دیتے کیونکہ وہ اپنی  آنکھوں سے چکے تھے کہ رسول اللہ ص کی وفات کے بعد سقیفہ میں کیسے کیسے اختلاف پیدا ہوگئے تھے اور کس طرح کشت وخون کی نوبت آتے آتے وہ گئی تھی ۔

چنانچہ حضرت عمر نے بالآخر اصحاب شوری کا اصول وضع کیا اور اس اصول کے تحت  ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس کے خلیفہ کے انتخاب کا مکمل اختیار تھا اور اس کمیٹی کے ارکان  کے علاوہ مسلمانوں میں سے کسی کو اس معاملے میں دخل دینے کا حق نہیں تھا ۔ حضرت عمر کو معلوم تھا کہ ان چھ ارکان میں بھی اختلاف  پیدا ہونا ناگریز ہے اس لیے انھوں  ہدایت جاری کی کہ اختلاف کی صورت میں اس فریق کا ساتھ دیا جائے جس میں عبدالرحمان بن عوف ہوں ، خواہ  یہ ارکان  تین تین کے دو مساوی  گروہوں میں تقسیم ہوجائیں اور اس گروہ کو قتل ہی کردینا پڑے  جو عبدالرحمان بن عوف کے خلاف ہو۔لیکن عمر کو یہ بھی معلوم تھا  کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ۔ کیونکہ سعد بن ابی وقاص عبدالرحمان  بن عوف کے چچازاد بھائی تھے اور ان دونوں کا تعلق قبیلہ بنی زہرہ تھا ۔ ۔۔۔۔عمر کو یہ بھی معلوم تھا کہ سعد بن ابی وقاص علی ع سے خوش نہیں ،ان کی دل ہیں علی ع کی طرفسے بعض ہے کیونکہ علی ع نے ان کی ننھیال عبد شمس  کے بعض افراد کو غزوات میں قتل کیا تھا ۔

عمر کو یہ بھی معلوم تھا کہ عبدالرحمان بن عوف عثمان کے بہنوئی کیونکہ ان کی بیوی  ام کلثوم عثمان کی بہن ہیں ۔

۔۔۔۔یہ بھی جانتے تھے کہ طلحہ کا بھی جھکاؤ عثمان کی طرف ہے بعض راویوں نے ان دونوں کے درمیان  تعلقات کا  ذکر کیا ہے ۔ عثمان کی طرف طلحہ  کے جھکاؤ کا ایک سبب یہ تھا کہ طلحہ علی ع کوپسند نہیں کرتے تھے ۔وجہ یہ تھی کہ طلحہ تیمی تھے اور حضرت ابو بکر کے منصب خلافت پر خلافت فائزہوجانے کے بعد سے بنی ہاشم اور بنی تیم کے تعلقات ناخوشگوار ہوگئے تھے(1) ۔

--------------------

(1):- شیخ محمد عبدہ ، شرح نہج البلاغہ جلد 1صفحہ 88

۱۰۹

حضرت عمر کو یہ سب معلوم تھا اور انھی باتوں کے پیش نظر انھوں نے خاص طور پر ان چھ افراد کا انتخاب کیا تھا ، جو سب کے سب مہاجر اور قریشی تھے ، کوئی بھی انصار میں سے نہیں تھا ۔ ان میں سے ہر ایک کسی ایسے قبیلے  کی نمائندگی  کرتا تھا جس کی اپنی  اہمیت تھی اور اپنا اثر ورسوخ تھا ۔

1:- علی بن ابی طالب ۔ بنی ہاشم کے بزرگ ۔2:- عثمان بن عفان ۔ بنی امیہ کے بزرگ ۔

3:- عبدالرحمن بن عوف ۔ بنی زہرہ کے بزرگ ۔4:- طلحہ بن عبیداللہ ۔بنی تیم کے بزرگ ۔

5:-سعد بن ابی وقاص ان کا تعلق بھی بنی زہرہ سے تھا ۔ ننھیال بنی امیہ تھی ۔

6:- زبیر بن العوام ۔رسول اللہ ص کی پھوپھی  صفیہ کے صاحبزادے  اور اسماء  بنت ابی بکر کے شوہر ۔

یہ تھے وہ زعماء اور ارباب حل وعقد جن کا فیصلہ سب مسلمانوں کے لیے واجب العمل تھا ۔ خواہ وہ مسلمان مدینے کے باشندے ہوں یا دنیائے اسلام  میں کسی اور جگہ کے ۔مسلمانوں  کا کام چون وچرا کے بغیر حکم کی تعمیل تھا ۔ اگر کوئی تعمیل حکم نہ کرتا تو پھر اس کا خون معاف تھا ۔ یہ تھے وہ حالات جو ہم قاری  کےذہن نشین کرانا چاہتے تھے ، بالخصوص اس مقصد سے کہ یہ معلوم ہوجائے  کہ نص غدیر کے سلسلے میں خاموشی کیوں اختیار کی گئی تھی ۔اگر یہ مان لیا جائے کہ حضرت عمر کو ان چھ افراد کے خیالات اور ان کے طبعی رجحانات کا علم تھا تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انھوں نے اپنی طرف سے عثمان بن عفان کوخلافت  کےلیے نامزد کردیا تھا ، یا یوں کہاجاسکتا کہے کہ انھیں پہلے سے  علم تھا کہ یہ چھ رکنی کمیٹی علی بن ابی طالب ع کے حق میں فیصلہ نہیں دے گی ۔

یہاں میں ذرا رک کر اہل سنت اور ان سب لوگوں سے شوری اور آزادی  خیال کے اصول پر فخر کرتے ہیں یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ وہ شوری کے اصول میں اور اس نظریے میں جو عمرنے ایجاد کیا تھا کیسے ہم آہنگی پیدا کریں گے کیونکہ اس چھ رکنی کمیٹی کو مسلمانوں نے نہیں بلکہ حضرت عمر نے اپنی رائے سے منتخب اور مقرر

۱۱۰

کیا تھا ۔ اس صورت میں ہمیں کم از کم یہ اعتراف کرلینا چاہیے کہ اس نظریے کے مطابق اسلام میں حکومت کا نظام جمہوری نہیں ہے جیسا کہ شوری اور انتخاب کے حامی فخریہ دعوی کرتے ہیں ۔

اس بنیاد پر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شاید عمر شوری کے قائل نہیں تھے  وہ خلافت کو صرف مہاجرین کا حق سمجھتے تھے ۔بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حضرت ابو بکر  کی طرح ان کا خیال یہ تھا خلافت  صرف قریش سے مخصوص ہے کیونکہ مہاجرین میں تو بہت سے غیر قریشی بھی تھے بلکہ غیر  عرب بھی تھے ۔ اس لیے سلمان فارسی  ، عمار ، بلال حبشی ، صہیب رومی ، ابو ذرغفاری اور ہزاروں دوسرے صحابہ جو قریشی نہیں تھے ، انھیں کوئی حق نہیں تھا کہ  وہ خلافت کے معاملےمیں کچھ بولیں ۔ یہ محض  دعوی نہیں ۔ حاشا وکلا ! یہ ان کا عقیدہ تھا جو انہ ہی کی زبانی تاریخ اور حدیث میں محفوظ ہے ۔ آئیے ، اس خطبے کو دوبارہ دیکھیں جو بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحین میں قلمبند کیا ہے :

عمربن خطاب کہتے ہیں کہ :میرا ارادہ بولنے کا تھا ۔ میں نے ایک تقریر جو مجھے اچھی لگی تیار کرلی تھی۔ یہ تقریر میں  نے ابوبکر سے پہلے کرنا چاہتا تھا ۔ میں کسی حدتک ہوشیار ی سے کام لے رہا تھا ۔ جب میں نے بولنا چاہا ، ابو بکر نےکہا : ٹھہرو ! میں خاموش ہوگیا کیونکہ میں ابوبکر کو ناراض کرنا نہیں چاہتا تھا ۔ اس کے بعد ابو بکر نے خود تقریر کی ۔وہ میری نسبت زیادہ متانت اور وقار سے بولے ۔ میری تیار کی ہوئی تقریر میں کوئی ایسا لفظ نہیں تھا جو مجھے اچھا لگتا ہو ، اور ابو بکر نے فی البدیہ وہی لفظ  یا اس سے بہتر  لفظ استعمال نہ کیا ہو ۔ ابو بکر نے انصار کو مخاطب کرکے کہا : تم نے جو اپنے فضائل ومحاسن بیان کیے ہیں واقعی تم ان کے مستحق ہو ، لیکن جہاں تک اس معاملہ

۱۱۱

کا تعلق ہے یہ قریش کا حق ہے(1)

اس سے معلوم ہوا کہ ابوبکر اور عمر شوری اور آزادی اظہار کے اصول کے قائل نہیں تھے ۔ بعض مورخین کہتے ہیں کہ ابوبکر نے اپنی تائید میں انصار کے سامنے یہ حدیث نبوی پیش کی کہ"الخلافة فی قريش " اس میں شک نہیں کہ یہ صحیح حدیث ہے ،لیکن اس کی اصل وہ حدیث ہے جو بخاری ،مسلم اور سنی اور شیعہ تمام حدیث کی مستند کتابوں کی متفقہ روایت ہےکہ  رسول اللہ ص نے فرمایا :

"الخلفاء من بعدي اثنا عشركلّهم من قريش"

میرے بعد بارہ خلفاء ہوں گے جو سب  قریش میں سے ہونگے ۔ اس سے بھی زیادہ واضح یہ حدیث ہے :

"لا يزال هذا الأمر في قريشٍ ما بقي من النّاس اثنان."

یہ چیزیں قریش ہی میں رہے گی جب تک دوآدمی بھی باقی ہیں ۔(2) ایک اور حدیث ہے کہ

"النّاس تبع لقريشٍ في الخير والشّر."(3)

سب لوگ قریش کے تابع ہیں بھلائی میں بھی ، برائی میں بھی ،برائی میں بھی ۔ جب سب مسلمان ان احادیث پر یقین رکھتے ہیں تو کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ نے خلافت کا معاملہ مسلمانوں پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ باہمی مشورے سے جسے چاہیں خلیفہ منتخب کرلیں ، آپ ہی انصاف سے بتائیں کیا یہ تضاد نہیں ؟

اس تضاد سے چھٹکارا صرف اسی صورت میں ممکن ہےجب ہم ائمہ اہل بیت ع

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 27 ۔صحیح باب الوصیہ ۔

(2):- صحیح بخاری کتاب الاحکام باب الامراء من قریش ۔

(3)صحیح مسلم جلد 6 کتاب الامارہ۔

۱۱۲

ان کے شیعہ اور بعض علمائے اہل سنت کا یہ قول تسلیم کرلیں کہ جناب رسول اللہ ص نے خود خلفاء کے ناموں اور ان کی تعداد کی تصریح کردی تھی ۔ اس طرح ہم عمر کا موقف بھی بہتر طور پر سمجھ سکیں گے جو ان کے اپنے اجتہاد پر مبنی تھا ۔وہ نص کو علی کے حق میں جو قریش میں سب سے چھوٹے تھے ، قبول کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے بلکہ مذکورہ بالا حدیث کا اطلاق عمومی طورسب قریش پر کرتے تھے ۔

اسی وجہ انھوں نے اپنے مرنے قبل چھ ممتاز قریشیوں کی ایک کمیٹی قائم کی تھی تاکہ احادیث نبوی کے درمیان  کہ خلافت پر صرف قریش کا حق ہے ،ہم آہنگی  پیدا کرسکیں ۔

اس کے باوجود کہ یہ پہلے  سے معلوم تھا کہ اس کمیٹی کے ارکان  علی ع کا انتخاب  نہیں کریں گے ، پھر بھی علی ع کو اس کمیٹی میں شامل کرنا شاید اس کی ایک تدبیر تھی  کہ علی ع کو مجبور کیا جائے کہ وہ بھی آجکل کی اصطلاح  کے مطابق سیاست کے کھیل میں شامل ہوجائیں تاکہ ان کے شیعوں اور حامیوں کے پاس جو ان کی اولیت کے قائل ہیں کوئی دلیل باقی نہ رہے ۔ لیکن امام علی ع نے اپنے ایک خطبہ میں عوام کے سامنے اس پر گفتگو کی ۔ آپ نے کہا :

میں نے بہت دن صبر کیا اور بہت تکلیف اٹھائی ۔آخر جب وہ (خلیفہ)دنیا سے جانے لگا تو معاملہ ایک جماعت کے ہاتھ میں سونپ گیا اور مجھے بھی اس جماعت کی ایک فردخیال کیا ، جبکہ واللہ مجھے اس  شوری سے کوئی لگاؤ نہیں تھا ۔ ان میں کے پہلے صاحب (ابوبکر)کی نسبت میری فضلیت میں شک ہی کب تھا جو اب ان لوگوں نے مجھے اپنے جیسا سمجھ لیا ہے؟ (لیکن میں جی کڑا کرکے شوری میں حاضر ہوگیا ) اور نشیب وفراز میں ان کے ساتھ ساتھ چلامگر ان میں سے ایک نے بغض وحسد کے مارے میرا ساتھ نہ دیا اور دوسرا دامادی اور ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا ۔(1)

--------------------

(1):- شیخ محمد عبدہ ، شرح نہج البلاغہ جلد 1 صفحہ 87۔

۱۱۳

چھوتھی بات یہ ہے امام علی ع نے ہردلیل پیش کی گئیں بے سود ۔کیا امام علی ع ان لوگوں سے بیعت کی بھیک مانگتے جنھوں نے ان سے منہ پھیر لیا تھا ، اور جن کے دل دوسرے کی طرف جھک گئے تھے ۔ اور جو امام علی ع سے اس لیے حسد کرتے تھے  کہ ان پر اللہ کا فضل تھا یا اس لیے بغض رکھتے تھے کہ امام علی ع نے ان کے سرداروں کو قتل کیا تھا ، ان کےبہادروں کو کچل دیا تھا ، ان کی عزت خاک میں ملادی تھی ، ان کو نیچا دکھایا تھا ، ان کا غرور اپنی بہادری سے توڑدیا تھا ،یہاں تک  کہ وہ اسلام لانے اور اطاعت کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ اس پر بھی علی ع سربلند تھے اور اپنے ابن عم کا دفاع کرتے تھے ۔انھیں اللہ کے راستے میں کسی کی ملامت کی پروا نہیں تھی ۔دنیا کی کوئی شے ان کے عزم کو متزلزل نہیں کرسکتی تھی ۔ رسول اللہ ص کو اس کا بخوبی علم تھا اور ہو ہر موقع پر اپنے چچا زاد بھائی کے فضائل ومحاسن بیان کیاکرتے تھے کبھی فرماتے :

"حبّ عليّ ٍ إيمان وّبغضه نفاق"(1)

علی کی محبّت ایمان اور علی سے بغض نفاق ہے ۔

کبھی کہہتے :

"عليٌّ مّنّي وأنامن عليّ "ٍ (2) علی ع مجھ سے ہے اور میں علی ع سے ہوں ۔

"عليّ وّليّ كلّ مؤمن ٍ بعدي "(3) علی ع میرے بعد ہر مومن کے سرپرست ہیں ۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا:

"عليٌّ باب مدينة علمي وأبوولدي"(4)

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 411 ۔ مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 126

(2):- صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 168۔

(3):- مسند احمد جلد5 صفحہ 25 ۔مستدرک حاکم جلد3 صفحہ 124 ۔

(4):- مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 126۔

۱۱۴

علی ع میرے شہر علی کا دروازہ اور میرے بچوں کے باپ ہیں ۔ آپ نے فرمایا :

"عليٌّ سيّدالمسلمين وإمام المتقّين وقائدالغرّالمحجلين ."(1)

علی ع مسلمانوں کے سردار ،متقیوں کے پیشوا اور ان لوگوں کے سالار ہیں جو روزقیامت سرخرو ہوں گے ۔

لیکن افسوس کہ اس سب  کے باوجود ان لوگوں کا حسد اوربغض بڑھتا ہی  گیا اس لیے اپنی وفات سے چند روز قبل رسول اللہ ص نے علی ع کو بلا کر گلے سے لگایا اور روتے ہوئے کہا :

علی ! میں جانتا ہوں کہ لوگوں کے سینوں میں تمھاری طرف سے جو بغض ہے وہ میرے بعد کھل کر سامنے آجائے گا ۔ لہذا اگر تم سے بیعت کریں تو قبول کرلینا ورنہ صبر کرنا ، یہاں تک کہ تم مظلوم ہی میرے پاس آجاؤ ۔(2)

پس اگر ابو الحسن ع نے ابو بکر کی جبری بیعت کے بعد صبر کیا ، تو اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ نے انھیں وصیت کی تھی ۔اس کی مصلحت صاف ظاہر ہے ۔

پانچویں بات یہ کہ پچھلی  باتوں کے ساتھ ایک اور بات کا اضافہ کرلیجیے ۔مسلمان جب قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس کی آیات پر غور کرتا ہے ، تو اسے ان قرآنی قصّوں سے جن میں پہلی امّتوں کا ذکر ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں ہم سے بھی زیادہ ناخوشگوار واقعات پیش آئے ۔

یہ دیکھئے !

<>قابیل نے اپنے بھائی  کا سفاکی سے قتل کردیا ۔

<>جدّالانبیاء حضرت نوح ع کی ہزار سالہ کوشش کے بعد بھی بہت کم لوگ ان پر

--------------------

(1):- شیخ متقی ہندی ۔ متنخب کنزالعمال جلد 5 صفحہ 34

(2):- محبّ طبری ، الریاض النضرہ ، باب فضائل علی بن ابی طالب

۱۱۵

ایمان لائے ۔ان کا اپنا بیٹا اور بیوی کافر تھے ۔

<>حضرت لوط کے گاؤں میں صرف ایک ہی گھر مومنین کا تھا ۔

<>فراعنہ  جنھوں نے دنیا  میں کبریائی کا دعوی کیا اور لوگوں کو اپنا غلام بنایا  ان کے یہاں صرف ایک فرد مومن تھا ، وہ بھی تقیہ کیے ہوئے تھا یعنی اپنے ایمان  کو چھپائے ہوئے تھا ۔

<>حضرت یوسف ع کے بھائیوں کو لیجیے ، انھوں نے حسد کی وجہ سے اپنے بے قصور بھائی  کے قتل کی سازش کی اور اسے محض اس لیے قتل کرنا چاہا کہ وہ ان کے باپ حضرت یعقوب کو زیادہ محبوب تھا ۔

<>اور یہ بنی اسرائیل ہیں ، انھیں اللہ نے حضرت موسی ع کے ذریعے نجات دلائی ، ان کے لیے سمندر کے پانی کو پھاڑدیا ۔ انھیں جہاد کی تکلیف بھی نہیں اٹھانی پڑی اور اللہ نے ان کے دشمنوں ، فرعون اور اس کے لشکریوں کو ڈبودیا ۔مگر ہوا کیا؟ ابھی سمندر سے باہر نکل کر ان کے پاؤں سوکھے بھی نہیں تھے کہ یہ ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جو بتوں کی پوجا کرتی تھی تو کہنے لگے :" موسی! جیسے ان کے دیوتا ہیں  ، ویسا ہی ایک دیوتا ہمارے لیے بھی بنادو ۔ موسی نے کہا : تم تو جاہل لوگ ہو ۔ اورجب  موسی اپنے پروردگار سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے  اور اپنی عدم موجودگی میں اپنے بھائی ہارون  کو اپنا قائم مقام کرگئے تو لوگوں نے ان کے خلاف سازش کی اور قریب تھا کہ انھیں مارڈالتے ۔یہی نہیں انھوں نے اللہ کو چھوڑ کر ایک بچھڑے کی پوجا شروع کردی ۔ اس قوم کے لوگوں نے بہت سے انبیاء کو قتل کیا ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

"أَفَكُلَّمَا جَاءكُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَهْوَى أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقاً كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقاً تَقْتُلُونَ"

کیاایسا نہیں ہوا کہ جب کبھی کوئی رسول تمھارے پاس وہ کچھ لایا جو تمھیں پسند نہیں تھا تو تم نے سرکشی اختیارکی اور کچھ کو جھٹلایا اور کچھ کو قتل کردیا ؟(سورہ بقرہ ۔ آیت 87)

۱۱۶

<>حضرت  یحیی کو دیکھیے ! وہ نبی تھے ، پاک دامن تھے اور نیک تھے انھیں قتل کیا گیا اور ان کا سرتحفہ کے طور پر بنی اسرائیل کی ایک رنڈی کو بھیج دیا ۔

<>یہود ونصاری نے حضرت عیسی کو قتل کرنے  اور صلیب پرچڑھانے کی سازش کی ۔ خود اس امت محمدیہ نے تیس ہزار کا لشکر رسول اللہ ص کے لخت جگر اور اہل جنّت کے سردار امام حسین ع کو قتل کرنے کے لیے تیار کیا ۔ حالانکہ ان کے ساتھ فقط ستر بہتر اصحاب تھے ۔ لیکن ان لوگوں نے امام حسین ع اور ان کے سب اصحاب کو قتل کردیا ۔ حدیہ ہے کہ امام ع کے دودھ پیتے بچے تک کو نہ چھوڑا ۔

اس کے بعد حیرت کی کون سی بات باقی رہ جاتی ہے ؟ رسول اللہ ص نے خود اپنے اصحاب سے فرمایا تھا :

تم جلد اپنے سے پہلوں کے طور،طریقوں پر چلو گے ۔تم وجب بہ وجب اور ذراح ذراع  یعنی ہو بہو ان کا اتباع کروگے ۔اگر وہ گوہ کے بھٹ میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھس جاؤ  صحابہ  نے پوچھا  : کیا آپ کی مراد یہود ونصاری سے ہے ؟ آپ نے فرمایا : تو اور کس سے ؟(1)

حیرت کیسی ! ہم خود بخاری و مسلم میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا یہ قول پڑھتے ہیں :

"قیامت  کے دن میرے اصحاب کو بائیں طرف لایا جائے گا تو میں پوچھوں گا : انھیں کدھر لے جارہے ہو؟ کہا جائے گا : جہنّم  کی طرف ۔میں کہوں گا : اے میرے پروردگار ! یہ تو میرے  اصحاب ہیں ۔ کہا جائے گا : آپ کو معلوم نہیں ، انھوں نے آپ کےبعد دین میں بدعت پیدا کی ۔ میں کہوں گا : دور ہو وہ جس نے

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 144 وجلد 8 صفحہ 151

۱۱۷

میرے بعد  دین میں تبدیلی کی میں دیکھتا ہوں کہ ان میں سے بہت ہی کم نجات پائیں گے ۔(1)

ایک اور حدیث ہے کہ

میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے "(2)

سچ کہا ربّ العزّت نےجو دلوں کےبھید جاننے والا ہے وہ فرماتا ہے :

" وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِي "

گو آپ کا کیسا ہی جی چاہے ، اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں (سورہ یوسف ۔آیت 103)

" بَلْ جَاءهُم بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ "

بلکہ یہ رسول  ان کے پاس حق لے کر آئے لیکن ان میں سے بیشتر حق کو ناپسند کرتے ہیں ۔(سورہ  مومنون ۔آیت 70)

" لَقَدْ جِئْنَاكُم بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ "

ہم نے حق تم تک پہچادیا لیکن تم میں اکثر حق سے بیزار ہیں ۔(سورہ زخرف ۔آیت 78)

" أَلاَ إِنَّ وَعْدَ اللّهِ حَقٌّ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ "

یاد رکھو! اللہ کا وعدہ سچا ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے ۔(سورہ یونس ۔ آیت 55)

" يُرْضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ "

تمھیں باتوں سے خوش کرتے ہیں اور دل ان کے انکاری ہیں اور زیادہ تر ان میں بد عمل ہیں ۔(سورۃ توبہ ،آیت 8)

---------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 209 ۔صحیح مسلم ، باب الحوض ۔

(2):- سنن ابن ماجہ ،کتاب الفتن ،مسند احمد جلد3 صفحہ 120 ۔ جامع ترمذی کتاب الایمان ۔

۱۱۸

" إِنَّ اللّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَشْكُرُونَ "

بے شک اللہ لوگوں پر بڑاافضل کرنے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر ناشکر ہیں ۔(سورہ یونس ۔آیت 50)

" يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللّهِ ثُمَّ يُنكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ "

یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں پھر اس اس کا انکار کرتے ہیں اور اکثر ان میں سے کافر ہیں ۔(سورہ نحل ۔آیت 83)

" وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً "

ہم اس (پانی) گو ان کے درمیان تقیسم کردیتے ہیں تاکہ وہ  غور کریں ۔ تاہم اکثر لوگ ناشکرے ہوئے بغیر نہیں رہتے ۔(سورہ فرقان ۔آیت 50)

" وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّهِ إِلاَّ وَهُم مُّشْرِكُونَ "

ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں پھر بھی شرک کیے جاتے ہیں۔(سورہ یوسف ۔آیت 106)

" بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَهُم مُّعْرِضُونَ "

لیکن اکثر لوگ حق سے ناواقف ہیں اس لیے اس سے روگردانی کرتے ہیں ۔(انبیاء۔آیت 24)

" أَفَمِنْ هَذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ (٥٩) وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ (٦٠) وَأَنتُمْ سَامِدُونَ (٦١) "

کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ، تم غفلت میں پڑے ہوتے ہو ۔(سورہ نجم ۔آیات 59-61)

۱۱۹

حسرت وافسوس

یہ واقعات پڑھ کر نہ صرف مجھے بلکہ ہر مسلمان کو افسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے امام علی ع کو خلافت سے دوررکھ کر اپنا کتنا بڑا نقصان کردیا ۔ امّت نہ صرف ان کی حکیمانہ قیادت سے محروم ہوگئی بلکہ ان کے علوم  کے بحر ذخار سے بھی صحیح معنی میں استفادہ نہ کرسکی ۔

اگر مسلمان تعصب اور جذباتیت  سے بالا ہوکر دیکھیں تو انھیں تو انھیں صاف نظر آئیگا  رسول اعظم  کےبعد علی ع ہی اعلم الناس ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ علمائے صحابہ جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی تو حضرت علی ع ہی کی طرف رجوع کرتے تھے اور آپ فتوی دے کر ان کی مشکل کشائی فرماتے تھے ۔ عمربن خطاب تو اکثر کہا کرتے تھے ۔

"لولا عليٌّ لّهلك عمر".

اگر علی ع نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا ۔(1)

یہ بھی یادرہے کہ خود امام علی علیہ السلام نے کبھی کسی  صحابی ے کچھ بھی نہیں پوچھا ۔

تاریخ معترف ہے کہ علی ابن ابی طالب ع صحابہ میں سب سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ طاقتور تھے ۔ کئی موقعوں پر ایسا ہوا کہ دشمن نے پیش قدمی کی  تو بہادر صحابہ بھی بھاگ کھڑے ہوئے لیکن امام علی ع ہر موقع پر ثابت قدم رہے ۔اس کی دلیل کے لیے وہ امتیازی سند کافی ہے جو رسول اللہ ص نے اس

--------------------

(1):- 1:-صحیح بخاری کتاب المحاربین ،باب لایرجم المجنون ۔2:- سنن ابی داؤد باب مجنون یسرق  صفحہ 147۔3:- مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 140 ، 154۔ 4:- موطاء امام مالک بن انس کتاب الاشربہ صفحہ 186۔ 5:- مسند شافعی کتاب الاشربہ صفحہ 166۔ 6:- کنزالعمال  ملا علاء الدین متقی جلد 3 صفحہ 95۔7:- مستدرک حاکم جلد 4 صفحہ 375 ۔8:- سنن دراقطنی کتاب ۔۔۔۔۔9:- شرح المعانی آلاثار طحاوی کاب القضاء صفحہ 294۔

۱۲۰