حکم اذاں

حکم اذاں0%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: صفحے: 328
مشاہدے: 55324
ڈاؤنلوڈ: 5072

تبصرے:

حکم اذاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 55324 / ڈاؤنلوڈ: 5072
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

وقت عطا فرمائی  جب آپ نےیہ کہا کہ

" کل میں اس شخص کو علم دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور رسول اس سے محبت رکھتے  ہیں ۔ جو آگے بڑھ کر حملہ کرنے والا ہے ، پیٹھ دکھانے والا نہیں ! اللہ نے اس کے دل کو ایمان  کے لیے جانچ لیا ہے ۔

سب صحابہ کی نظریں علم پر لگی تھیں مگر رسو اللہ نے علم  علی بن ابی طالب ع کو عطا فرمایا ۔(1)

مختصر یہ کہ علم وحکمت اور قوت وشجاعت امام علی ع کی ایسی خصوصیات ہیں جن سے شیعہ وسنی سب ہی واقف ہیں اور اس بارے میں دوراتیں نہیں ہوسکتیں(2) نص غدیر سے قطع نظر جس سے امام علی ع کی امامت ثابت ہوتی ہے ۔قرآن کریم قیادت وامامت کا مستحق صرف عالم  ،شجاع اور قوی کو قراردیتا ہے ۔علماء کی پیروی واجب ہونے کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشادہ ہے :

" أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لاَّ يَهِدِّيَ إِلاَّ أَن يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ "

کیا وہ شخص جو حق کا راستہ دکھائے زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو اس وقت تک راستہ نہیں دکھاسکتا  جب تک خود اسے راستہ نہ دکھایا جائے تمھیں کیا ہوگیا ہے ،تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟(سورہ یونس ۔آیت 35)

بہادر اور جری کی قیادت کے واجب الاتباع ہونے کے بارے میں قرآن کریم میں ہے ۔:

" قَالُوَاْ أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 5 ۔صفحہ 12 ۔جلد 5 صفحہ 76-77 ۔ صحیح مسلم جلد 7 صفحہ ۔۔۔

(2):- بقول بو علی سینا :- علی ع صحابہ میں ایسے ہی جیسے محسوس میں معقول (یعنی جسے جسم میں روح)(ناشر)

۱۲۱

اللّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ "

وہ کہنے لگے : اسے ہم پر حکمرانی کا حق کیسے ہوسکتا ہے حالانکہ بہ نسبت اس کے ہم حکمرانی کے زیادہ مستحق ہیں ۔ اور اس کو  تو کچھ مالی وسعت بھی نہیں دی گئی ۔ پیغمبر  نے جواب میں کہا : اول تو اللہ تعالی نے اس کو تمھارے مقابلے میں منتخب فرمایا ہے  دوسرے یہ کہ علم  اورجسامت دونوں میں اللہ نے اس کو زیادتی دی ہے ۔ اللہ تعالی اپنا ملک جس کو چاہتا ہے دیتا ہے ۔ اللہ تعالی وسعت دینے والا ، جاننے والا ہے ۔ (سورہ بقرہ ۔ آیت 246)

اللہ تعالی نے امام علی ع کو بہ نسبت دوسرے صحابہ کے علم میں بڑی وسعت عطا کی تھی اور وہ صحیح معنی میں شہر علی کا دروازہ تھے ۔ رسول اللہ کی وفات کے بعد صحابہ ان ہی سے رجوع کرتے تھے ۔ صحابہ کو جب کوئی ایسا مشکل مسئلہ درپیش ہوتا تھا جسے  وہ حل نہیں کرپاتے تھے تو کہا کرتے تھے :

"معضلةٌ وّليس لهآ إلّا أبو الحسن ".

یہ وہ مشکل  ہےجسے ابو الحسن کے سوا کوئی حل نہیں کرسکتا(1)

امام علی ع کو اللہ تعالی نے جسم میں بھی وسعت عطافرمائی تھی بہ این معنی کہ وہ واقعی اسداللہ الغالب تھے ۔ ان کی قوت وشجاعت صدیوں سے زبان زدخاص وعام ہے ۔ مورخین نے ان کی قوت وشجاعت کی ایسی داستانیں رقم کی ہیں جو معجزہ  سے کم نہیں ۔مثلا :

باب خیبر  کو اکھاڑنا جسے بعد میں 20 صحابی مل کر  ہلا بھی نہ سکے(2)

کعبے کی چھت  پر سے بڑے بت ہبل کو اکھاڑنا ۔(3) اور

اس مضبوط چٹان کو الٹ دینا جسے پورا لشکر بھی نہیں ہلا سکتاتھا ۔(4)

----------------------

(1):- مناقب الخوارزمی صفحہ 58 ۔تذکرۃ السبط صفحہ 87  اب مغازلی ترجمہ علی ع صفحہ 79

(2)(3)(4):- شرح نہج البلاغہ

۱۲۲

جب بھی موقع ہوتا رسول اللہ ص اپنے چچازاد بھائی کی خوبیاں اورفضائل بیان فرماتے اور لوگوں کو ان کی خصوصیات اور امتیازات  سےباخبر کرتے رہتے تھے ۔ کبھی فرماتے :

"إنّ هذا أخي وصيّي وخليفتي من بعدي فاسمعواله وأطيعوه."

یہ میرے بھائی ، میرے وصی اور میرے بعد میرے خلیفہ ہیں اس لیے ان کی بات سنو اور جو کچھ وہ کہیں اس پر عمل کرو(1)

کبھی فرماتے :

"أنت منّي بمنزلة هارون من مو سى إلّا أنّه لانبي بعدي ".

یعنی جو نسبت ہارون کو موسی سے تھی وہی نسبت تمھیں مجھ سے  ہے ، بس یہ فرق ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔(2)

کبھی فرماتے :

"من أرادأن يّحيا حياتي ويموت مماتي ويسكن جنّة الخلد الّتي وعدني فليوال على بن أبي طالبٍ فإنّه  لن يخرجكم من هدىً ولن يدخلكم في ضلالةٍ."

جو کوئی یہ چاہتا ہے کہ میری طرح جیے اور میری موت مرے اورخلد بریں میں رہے  جس کا مجھ سے میرے پروردگار نے وعدہ کیا ہے اسے چاہے کہ علی بن ابی طالب ع کا دوست بن جائے کیونکہ علی ع تمھیں کھبی ہدایت کے دائرہ سے خارج نہیں کریں گے اور نہ کبھی گمراہی کے دائرے میں داخل کریں گے ۔(3)

----------------------

(1):- طبری ،تاریخ الامم والملوک جلد 2 صفحہ 319 ۔ابن اثیر ، الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 62

(2):- صحیح بخاری باب فضائل علی ع صحیح مسلم جلد 7 صفحہ 120

(3):-مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ128 ۔طبرانی ،معجم کبیر ۔

۱۲۳

سیرت رسول ص کا متبّع کرنےوالے کو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ ص نے کبھی صرف اقوال پر اکتفاء نہیں فرمایا  بلکہ ان اقوال پر عمل بھی کرکے دکھایا ہے ۔ چنانچہ آپ نے اپنی زندگی میں کسی صحابی کو علی ع پر امیر مقررنہیں فرمایا جب کہ دوسرے صحابہ ایک دوسرے پر امیر مقرر ہوتے رہتے تھے ۔ غزوہ ذات السلاسل میں ابو بکر اور عمر پر عمر وبن عاص کو امیر مقرر فرمایا تھا(1)

اسی طرح آپ نے تمام کبار صحابہ پر ایک کم عمر نوجوان اسامہ بن زید کو اپنی وفات سے کچھ قبل امیر مقرر فرمادیا تھا ۔ مگر علی بن ابی طالب ع کو جب بھی کسی دستہ کے ساتھ بھیجا آپ ہی امیر ہوئے ۔

ایک مرتبہ آپ نے دو دستے روانہ فرمائے ایک کا امیر علی کو بنایا اور دوسرے کا خالد بن ولید کو ۔ اس موقع پر آپ نے کہا کہ تم دونوں الگ الگ رہو تو تم میں سے ہر ایک اپنے لشکر کا امیر ہے لیکن اگر اکٹھے ہوجاؤ تو علی ع پورے لشکر کے سالا ہوں گے ۔

اس تمام بحث سے ہمارے نزدیک یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ رسول اللہ کے بعد علی ع ہی مومنین کے ولی ہیں اور کسی کو ان سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے ۔لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں نے اس سلسلے میں سخت نقصان اٹھایا اور آج اٹھارہے ہیں کیونکہ اس وقت جو بویا تھا اسی کا پھل کاٹ رہے ہیں ۔ اگلوں نے جو بنیادرکھی تھی پچھلوں نے اس کا انجام دیکھ لیا !کیا علی ع کی خلافت سے بہتر خلافت راشدہ کا کوئی تصور کرسکتا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول ص نے اس بارے میں جو پسند کیا تھا اگر مسلمان اس کا اتباع کرتے تو علی ع ایک ہی طریقے پر اس امت کی قیادت تیس سال تک بالکل اسی طرح کرسکتے تھے جیسے رسول اللہ ص نے کی تھی ۔ یہ اس اس لیے ضروری تھا کہ ابو بکر اور عمر نے متعدد موقعوں پر اپنی رائے  سے اجتہاد کیا اور بعد میں ان کا اجتھاد بھی ایسی سنت بن گیا  جس کی پیروی ضروری خیال کی جانے لگی تھی ۔ جب عثمان خلیفہ ہوئے تو انھوں نے اور بھی

--------------------

(1):- سیرۃ حلبیہ ،غزوہ ذات السلاسل ۔ابن سعد طبقات کبری

۱۲۴

زیادہ تبدیلیاں کیں ۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے توکتاب اللہ ، سنت رسول   اللہ ص اور سنت شیخین سب کو بد ل دیا ۔ اس پر صحابہ نے اعتراض بھی کیا : اور باالآخر ایک عوامی انقلاب میں خود ان کی جان بھی گئی  لیکن اس سے امت میں ایسا فتنہ پیدا ہوا کہ آج تک اس کے زخم مندمل نہیں ہوسکے ۔

اس  کےبرخلاف علی ع سختی سے قرآن وسنت کی پابندی کرتے تھے اور ان سے سرموانحراف کے لیے تیار نہیں تھے ۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے اس وقت خلافت قبول کرنے سے انکار کردیا تھا جب ان پر یہ شرط عائد  کی گئی تھی کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ص کے ساتھ سنت شیخین کا بھی اتباع کریں گے پوچھنے والا پوچھ سکتا ہے کہ علی ع کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پابندی پر اس قدر زورکیوں دیتے تھے جب کہ ابو بکر ، عمر اور عثمان اجتہاد اور تغییر پر مجبور ہوگئے تھے ؟

اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ علی  ع کے پاس وہ علم تھا جو اور کسی کے پاس نہیں تھا ۔رسول اللہ  ص نے انہیں خاص طور پر علم کے ہزار دروازوں سے ممتاز فرمایا تھا اور ان ہزاروں میں سے ہر ایک سے ہزار اور دروازے کھلتے تھے(1) ۔ رسو ل اللہ ص  علی سے کہا تھا کہ :

"اے علی  ! میرے بعد میری امت میں جن امور کےبارے میں اختلاف ہوگا تم ان کو صاف صاف بیان کروگے(2) ۔رہے دوسرے خلفاء ! انھیں قرآن کی تاویل تو درکنا ر قرآن کے بہت سے ظاہری احکام بھی معلوم نہیں تھے ۔مثلا ،بخاری اور مسلم کےباب التیمم میں ایک روایت ہے کہ کسی شخص نے عمر بن خطاب سے ان کے ایام خلافت میں  پوچھا : امیر المومنین ! میں جنب ہوجاؤں اور

---------------------

(1):- ملا علاؤالدین متقی ، کنزالعمال جلد 6 صفحہ 392 حدیث 6009 ۔ابو نعیم اصفہانی ،حلیۃ الاولیاء ،حافظ قندوزی حنفی ، ینابیع المودۃ  صفحہ 73 ۔ 77 ۔ابن عساکر ،تاریخ دمشق جلد 2 صفحہ 483۔

(2):-مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 123 ۔ابن عساکر ،تاریخ دمشق جلد 2 صفحہ 488

۱۲۵

پانی نہ ملے تو کیا کروں ؟ عمر نے کہا تو ایسی صورت میں نماز نہ پڑھو۔

اسی طرح انھیں "کلالۃ"(1) کا حکم معلوم نہیں تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ " کاش میں "کلالۃ" کا حکم رسول اللہ سے پوچھ لیتا "۔ حالانکہ یہ حکم قرآن میں  مذکور ہے ۔

کوئی شخص کہہ سکتا  ہے کہ اگر یہ بات تھی تو امام علی ع نے ان امور کی وضاحت کیوں نہ کردی جن میں رسول اللہ ص کی وفات  کے بعد اختلاف پیدا ہوا ؟اس کا جواب یہ ہے کہ جس مسئلے  میں بھی امّت  کو مشکل پیش آئی ، امام علی ع نے اس کے بیان کرنے میں کوئی کسے نہیں چھوڑی ۔ ہر مشکل  میں صحابہ ان ہی سے رجوع کرتے تھے ، وہ ہر بات کی وضاحت کرتے تھے ، مسئلے کا حل  بیان کرتے تھے اور نصیحت  کرتے تھے ۔ مگر صحابہ کو جو بات پسند آتی  تھی اور جو ان کی سیاست سے متصادم نہیں ہوئی تھی وہ اسے قبول کرلیتے تھے اور باقی کو چھوڑ دیتے تھے ۔ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اس  کی سب سے بڑی گواہ خود تاریخ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر علی بن ابی طالب ع اور ان کی اولاد میں سے ائمہ نہ ہوتے تو  عوام اپنے دین کی امتیازی خصوصیات سے ناواقف ہی رہتے ۔لیکن  لوگ ۔ جیسا کہ قرآن نے ہمیں بتایا ہے ۔حق کو پسند نہیں کرتے ، اس لیے انھوں نے اپنی خواہشات کی پیروی شروع کردی اور ائمہ اہل بیت ع کے بالمقابل  نئے نئے  مذاہب ایجاد  کرلیے ۔ ادھر حکومتیں  بھی ائمہ  اہل بیت  پر پابندیاں عائد کرتی تھیں اور انھیں کہیں آنے  جانے اور لوگوں سے براہ راست رابطہ قائم  کرنے کی آزادی نہیں دیتی تھیں ۔ امام علی ع منبر پر سے فرمایا کرتے تھے :

"سلو ني قبل أن تفقدوني!"لوگو! اس سے پہلے کہ میں تم میں نہ رہوں ، جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو۔

امام ع کے علم وفضل کی یہی ایک دلیل کافی ہے کہ آپ نے نہج البلاغہ جیسا عظیم علمی سرمایہ چھوڑا ۔ائمہ اہل بیت ع نے علم کی اس قدر کثیر مقدار چھوڑی ہے کہ

---------------------

(1):- کلالۃ کے معنی میں اختلاف ہے ۔ بظاہر معنی ماں باپ اور اولاد کے علاوہ وارث ک ے ہیں ۔

۱۲۶

اس نے چار دانگ عالم کو بھر دیا ۔ سب ہی ائمہ مسلمین خواہ سنی ہوں خواہ شیعہ اس کے گواہ  ہیں ۔اس بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اکر قسمت  علی ع کا ساتھ دیتی اور انھیں سیرت رسول ص کے مطابق تیس سال تک امت کی قیادت کرنے  موقع ملتا تو اسلام عام ہوجاتا اور اسلامی عقائد لوگوں کے دلوں میں پختگی  کے ساتھ جاگزیں ہوجاتے ، پھر نہ کوئی فتنہ صغری ہوتا نہ کوئی فتنہ کبری ،نہ واقعہ کربلا ہوتا نہ یوم عاشورا ۔

اگر علی ع کے بعد گیارہ  ائمہ  کو قیادت کا موقع ملتا جن کا تعلق  رسول اللہ ص نے کیاتھا اورجن کی مدت حیات تقریبا  تین صدی پرمحیط ہے ، تو دنیا میں ہر جگہ  صرف مسلمان ہوتے اور کرہ ارض کی تقدیر بدل جاتی اور ہماری زندگی صحیح معنی میں انسانی زندگی ہوتی ۔ مگر اللہ تعالی کا تو فرمان ہے :

"الم () أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ()"

کیا ہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو چھوڑ دیا جائے  کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے  اور ان کو امتحان میں نہیں ڈالا جائیگا ۔(سورہ  عنکبوت ۔آیت 1-2)

امم سابقہ کی طرح مسلم امہ بھی اس امتحان میں ناکام رہی ۔ اس کی تصریح متعدد موقعوں پر خود رسول اللہ نے فرمائی(1)   اور اسی طرح قرآن کریم متعدد آیات میں بھی اس کی صراحت ہے ۔(2) انسان  وہ ناانصاف اور جاہل ہستی ہے

-----------------------

(1):- جیسا کہ بخاری ومسلم کی روایت میں ہے کہ مسلمان یہودی ونصاری کے طریقوں پر قدم بقدم چلیں گے اور اگر وہ گوہ کے بھٹ گھسیں گے تو مسلمان  بھی ایسا ہی کریں گے ۔ یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے ، اسی طرح حدیث حوض میں روسول اللہ ص نے فرمایا  : میں دیکھتا ہوں کہ ان میں بہت ہی کم نجات پائیں گے ۔

(2):- جیسا کہ سورہ آل عمران میں ہے :" أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ" اور سورہ فرقان میں ہے:"يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً"

۱۲۷

جس کے بارے میں رسول اللہ ص نے فرمایا ہے :

"لن يدخل الجنّة أحد بعمله إلّا أن يتغمده الله برحمته وفضله"

کوئی شیخص جنت میں اپنے اعمال  کی وجہ سے داخل نہیں ہوگا بجز اس کے کہ اللہ تعالی اپنا فضل فرمادے اور اسے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے ۔(1)

بحث کے آخر میں کچھ تبصرہ

میں اس طرح کے اقوال دیکھ کر اکثر دانشوروں اور پروفیسروں کی مجلس میں اس پر افسوس کیا کرتا تھا کہ خلافت اس کے صحیح حقدار علی بن ابی طالب ع کے  ہاتھ سے نکل گئی ۔ آخر ایک دن ان میں سے ایک پروفیسر صاحب نے یہ کہہ کر مجھ پر اعتراض کیا کہ

" علی بن ابی طالب ع نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے کیا کیا ہے؟انھوں نے اپنی پوری زندگی خلافت کی تگ و دو  میں گزاردی  اور اس کے لیے ہزاروں مسلمانوں کو مروادیا ۔ اس کی ساری جنگیں خلافت ہی کے لیے  تھیں ۔ اس کے برعکس ان سے پہلے خلفائے  ثلاثہ  نے اپنی زندگی اسلام کی اشاعت میں صرف کردی اور عمر بھر  اسلام کی عزت ووقار کے لیے کام کیا ۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے ملک فتح کیے اور شہرآباد کیے ۔ اگرابو بکر صدیق  نہ ہوتے تو عرب اسلام سے مرتد ہوگئے ہوتے ۔ اور اگر عمر بن خطاب نہ ہوتے تو ایران اور روم اسلام کی اطاعت قبول نہ کرتے ۔ اور اگر عثمان بن عفان نہ ہوتے تو آج آپ مسلمان نہ ہوتے "(2)

پھر ان صاحب نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر کہا :

--------------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 10 ۔ صحیح مسلم ، کتاب صفات المنافقین ۔

(2):- ان صاحب کا اشارہ عثمان بن عفّان کے عہد میں شمالی افریقہ کے فتح ہونےکی طرف تھا ۔مطلب یہ کہ اگر یہ فتح نہ ہوتی تو ہم بربر ہی رہتے ۔ ہمارا اسلام سے کوئی واسطہ نہ ہوتا ۔

۱۲۸

جب علی ع کو خلافت  ملی  تو انھوں نے وہ طوفان کھڑا کیا کہ سارا کاروبار خلافت ہی درہم برہم کردیا ۔ انتظام بگڑگیا  اور وہ  اسلام جو ان خلفاء  کےعہد میں طاقتور  تھا ، جن کی تیجانی صاحب تنقیص کرتے اور جن کی نیکی اور پارسائی میں شک پیدا کرتے ہیں ، وہ پیچھے ہٹنے اور ناکام ہونے لگا ۔ اب اس آخری الزام کا جس پر انھوں نے اپنی بات ختم کی میں کیا جواب دیتا  بہر حال میں نے اپنے آپ کو قابو میں رکھا اور جوش میں نہیں آیا ۔ میں نے استغفار پڑھ کرکہا :

"برادران عزیز! یہ پروفیسر صاحب جو کچھ کہہ رہے ہیں آپ اس سے متفق ہیں ؟ اکثر نےکہا :ہاں اور بعض نے جواب  نہیں دیا ،خواہ اسے لیے کہ میرا لحاظ کیا یا اس لیے کہ انھیں ان صاحب کی باتوں پر یقین نہیں تھا ۔

میں نے کہا کہ آپ کی اجازت سے میں پروفیسر صاحب کی ایک ایک بات  کو لے کر اس پر گفتگو کروں گا ، اس کے بعد فیصلہ آپ کے ہاتھ ہے ۔خواہ آپ میرے حق میں فیصلہ دیں خواہ میرے خلاف ۔ میں آپ سے صرف یہ چاہوں گا  کہ آپ حق کا ساتھ دیں اور تعصب سے کام نہ لیں ۔

سب نے کہا :بسم اللہ فرمائیے !

میں نے کہا :" پہلی بات تو یہ ہے کہ علی بن ابی طالب ع نے اپنی تمام زندگی خلافت کی تگ ودو میں نہیں گزاری ،جیسا کہ پروفیسر صاحب نے فرمایا ہے ،بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ خلافت سے گریزاں تھے ۔ اگر وہ خلافت کے پیچھے دوڑتے تو رسول اللہ ص کی تجیہز وتکفین کو چھوڑ کر دوسروں کی طرح جلدی سقیفہ پہنچتے اور وہاں انھیں کی بات  ور رہتی خصوصا ایسی حالت میں کہ اکثر صحابہ ان کی رائے سے اتفاق کرتے تھے ۔ پھر ہم دیکھتے  ہیں کہ جب ابو بکر کی موت کے بعد خلافت حضرت عمر  کو مل گئی ،جب بھی انھوں نے صبر سے کام لیا اور کوئی مخالفت نہیں کی ۔ پھر عمر کے بعد جب انھیں خلافت  کی پیش کش ہوئی تو انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا ۔کیونکہ اس پیشکش کے ساتھ جو شرائط تھیں وہ ان کے لیے قابل قبول نہیں تھیں ۔اس سے پروفیسر صاحب کے خیالات کی بالکل تردید ہوجاتی ہے ۔کیونکہ اگر علی ع خلافت کے پیچھے دوڑرہے ہوتے

۱۲۹

تو ان کا  کیا نقصان تھا ، وہ سنت شیخین پر عمل کی شرائط کو منظور کرلیتے اور پھر جو دل چاہتا کرتے جیسا کہ عثمان نے کیا۔ اسی رویہ سے علی ع کی عظمت کا اظہار ہوتاہے ۔ علی ع نے اپنی زندگی میں ہ کبھی جھوٹ بولا اور نہ کبھی وعدہ خلافی کی ۔ ان ہی اعلی اصولوں  کی پابندی کی جہ سے علی ناکام رہے جب کہ دوسرے کامیاب ہوگئے کیونکہ وہ اپنی مقصد برآری کے لیے جوچاہتے سوکرتے تھے ۔ مگر علی ع کہا کرتے تھے ۔

"میں جانتا ہوں کہ تمھاری بہتری کسی بات میں ہے ۔مگر مجھے تمھاری بہتری کے لیے اپنی برباد ی منظور نہیں " سبحان اللہ ! کیا کہنا امام ع کی عظمت کا !  سب مورخین بیان کرتے ہیں کہ قضیہ سقیفہ کے بعد ابو سفیان نے  علی ع کے پاس آکر انھیں خلافت کا لالچ دیا اور کہا کہ میں ابو بکر اور ان کے حلیفوں سے قتال کے لیے آدمیوں کا روپیوں کا انتظام کردیتا ہوں تو آپ نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا اور فرمایا:

" اے ابو سفیان ! فتنہ نہ پھیلا ، میں جانتا ہوں کہ تیرے دل میں کیا ہے ۔میں مسلمانوں مین فتنہ وآشوب پسند نہیں کرتا ،بہتر یہی  ہے کہ الگ رہوں اور افتراق پسندی سے اپنا دامن بچائے رکھوں "

اگر آپ خلافت کے پیچھے دوڑتے ہوتے تو اس پیشکش کو ضرورقبول کرلیتے ۔لیکن آپ نے اسلام او رمسلمانوں کی سلامتی  کی خاطر قربانی دی اور صبر سے کام لیا ۔ علی ع ہی نے تو ابن عباس سے کہاتھا کہ تمھاری دنیا کی میرے نزدیک بس اتنی وقعت ہے جتنی اس پتے کی جس کو کوئی ٹڈی اپنے منہ میں لے چبا ڈالے(1) یا اتنی جتنی کسی بکری کی رینٹ کی ہوتی ہے(2)

--------------------

(1):-"إنّ دنياكم عندي لاهون من وّرقةٍ في جرادةٍ تقمضها". (نہج البلاغہ خطبہ 221)

(2):-" ولا لفيتم دنياكم هذه أزهد عندي من عطفة عنزٍ". ( نہج البلاغہ خطبہ شقشقیہ)

۱۳۰

(ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب امیر المومنین  امام علی ع اہل بصرہ سے جنگ کے لیے نکلے تو میں مقام ذی قار مین آنجناب کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا  کہ اپنا جوتا ٹانک رہے ہیں ۔ مجھے دیکھ کر فرمایا کہ اے ابن عباس ! اس جوتے کی کیا  قیمت ہوگی ؟ میں نےکہا : اب تو اس کی کچھ بھی قیمت نہ ہوگی ۔یہ سن کر آپ نے فرمایا : "بخدا ! اگر میرے پیش نظر حق کی سربلندی اور باطل کی نابودی  نہ ہو تو مجھے یہ جوتا تم  لوگوں  پر حکومت کرنے سے زیادہ عزیز ہے )

تو جناب آپ کا یہ فرمانا کہ علی ع خلافت کے پیچھے دوڑ تھے تھے ، اس کی تاریخی واقعات سے تردید ہوجاتی ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ کا یہ دعوی کہ انھوں نے خلافت کے حصول کی خاطر  ہزاروں مسلمانوں کو قتل کرادیا اور اس کی سب لڑائیاں صرف اسی مقصد کے لیے تھیں تو یہ دعوع بھی بالکل جھوٹ اور سراسر بہتان ہے اور حقائق  کومسخ کرنا ہے ۔ اگر آپ نے ناواقفیت  کی بنا پر ایسا کہا  ہے  تو اللہ معافی مانگیں اورتوبہ استغفار کریں اور اگر آپ نے جان بوجھ کر ایسا کہا ہے تو آپ کی سب معلومات بالکل غلط اور جھوٹ ہیں کیونکہ امام ع کی وہ لڑائیاں جن کا آپ نے ذکر کیا اس کے بعد  کی ہیں جب خلافت آپ کے پیچھے دوڑتی ہوئی آپ کے پاس آچکی تھی ۔ آپ کو خلافت کے قبول کرنے پر  لوگوں نے مجبور کیا تھا بلکہ انکار کرنے کی صورت میں آپ کو قتل کرنے دھمکی بھی دی گئی تھی ۔ تاریخ شاہد ہے کہ علی چوتھا ئی صدی تک خاموش اور خانہ نشین رہے ۔ اس طویل مدّت  میں نہ خلفاء کی کسی جنگ میں حصہ لیا اور نہ تلوار میان سے نکالی  توجناب ! پھر آپ کیسے  یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کی جنگیں خلافت کے حصول کی خاطر تھیں ؟ اورکیسے یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے حصول خلافت کے لیے ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ؟۔جنگ جمل تو عائشہ(1) ، طلحہ اور زبیر نے شروع کی تھی ۔ ان ہی لوگوں نے بصرہ

--------------------

(1):- رسول اللہ ص کی ان زوجہ  محترمہ نے یہ آیہ قرآن "وقرن فی بیوتکنّ " کی خلاف ورزی کرکے سیاسی فتنوں کو عالم اسلام  میں راہ دی اگر چہ بعد میں وہ اس پر پشیمان  ہوئیں اور بولیں : کاش میرے رسول اللہ ص سے بہت سارے بچے ہوتے اور سارے مرجاتے مگر میں اس قضیے میں ہاتھ نہ ڈالتی ! (اسدالغابہ جلد 3 صفحہ 384 )(ناشر)

۱۳۱

میں داخل ہوکر لوگوں  کو قتل کیا تھا اور بیت المال لوٹ لیا تھا(1) ۔ جنگ جمل کو جنگ عہد شکنان بھی کہاجاتا ہے کیونکہ طلحہ اور زبیر نے اس وقت بیعت توڑدی تھی جب امام علی ع نے انھیں کوفے اوربصرے کا والی بنانے سے انکار کردیا تھا ۔(2)

رہی جنگ صفین تویہ معاویہ نے گلے منڈھی تھی ۔ معاویہ ہی نے ہزاروں  مسلمانوں  کو قتل کیا ۔ سب سے بڑھ کر عمار بن یاسر کو ۔اور یہ سب کچھ خلافت کے حصول کے لیے کیا ۔تو میرے بھائی ! آپ کیوں  حقائق کو  مسخ کرتے ہیں ۔ حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ جنگ صفین کی ابتدا معاویہ نے خون عثمان  کا دعوی لے کر شروع کی تھی لیکن اصل میں معاویہ  کا مقصد حکومت پر قبضہ کرنا تھا ۔ اس کی گواہی(3) خود معاویہ نے اس خطبہ میں دی جو انھوں نے جنگ کے بعد کوفہ میں داخل ہونے کےبعد دیا تھا ۔ معاویہ نے کہا:

"میں نے تمھارے ساتھ اس لیے جنگ نہیں کہ تم نماز پڑھو یا روزے رکھو یا حج کرو اور زکواۃ دو ۔ یہ سب کام تو تم پہلے کرتے ہو ۔ میں نے جنگ تمھارا امیر بننے کے لیے لڑی تھی ۔ اللہ نے مجھے اس میں کامیابی دی گو تمھیں یہ بات پسند نہیں تھی ۔"

جنگ صفین کو ظالموں اور باغیوں کی لڑائی کہا جاتا ہے ۔رہی جنگ  نہروان ! یہ خوارج کی لڑائی تھی۔  یہ جنگ بھی باغیوں  نے امام علی ع پر مسلط  کی تھی ۔ یہ ہیں وہ لڑائیاں جو امام علی ع نے لڑیں ۔ امام علی ع ہر موقع پر لوگوں کو کتاب اللہ کی طرف بلاتے رہے اور اپنے مخالفین پر حجّت قائم کرتے رہے ۔

جناب! آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ آپ تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ

---------------------

(1):-طبری ابن  اثیر ، یعقوبی ، مسعودی اور وہ تمام مورخین جنھوں نے جنگ جمل کا حال لکھا ہے۔

(2):- طبری ،تاریخ الامم والملوک جلد 5 صفحہ 153 ۔ابن کثیر ،البدایہ والنہایہ جلند 7 صفحہ 227۔ ابن واضح یعقوبی ،تاریخ یعقوبی جلد 2 صفحہ 127۔

(3):- ابن کثیر ، البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 131 ۔ابو الفرج اصفہانی ، مقابل الطالبین صفحہ 70 ۔ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ جلد 4 صفحہ 16

۱۳۲

حق وباطل کو پہچان سکیں اور اولیاء اللہ پر بیجا الزام لگانے سے بچ سکیں ۔

اس موقع پر ایک اور پروفیسر صاحب نے جوشاید تاریخ کے ماہر تھے ،اپنی رائے ظاہر کرتے ہوۓ کہا:

آپ نے جو کچھ کہا بالکل صحیح ہے ۔ معاذا اللہ امام علی کرّم اللہ وجہہ خلافت کے لالچی نہیں تھے اور نہ وہ خلافت کی طمع میں کسی کو بھی قتل کرسکتے تھے ،سخت افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک بعض مسلمان علی ع پر شک کرتے ہیں جبکہ عیسائی بھی ان کا احترام کرتے ہیں ۔ میں نے حال ہی ایک عیسائی مصنف جارج جرداق کی ایک کتاب پڑھی ہے جس کا نام ہے "صوت العدالۃ الانسانیہ "(ندائے عدالت انسانی ) اس کتاب میں اس نے حیران کن واقعات بیان کیے ہیں جو شخص بھی اس کتاب کوپڑھے گا ، امام علی ع کی عظمت کےسامنے سرجھکادے گا ۔ اس پر ایک تیسرے پروفیسر صاحب ان کی بات کاٹ کر بولے : آ پ نے  شروع سے ہی یہ با  کیوں نہ کہی؟

انھوں نے جواب دیا : میں درحقیقت تیجانی بھائی کی باتیں سن رہا تھا میں انھیں پہلے سے نہیں جانتا تھا اس لیے چاہتا تھا کہ ان کا جواب سنوں اور ان کی معلومات کا اندازہ لگاؤں ۔ الحمداللہ !انھوں نے اپنے دلائل سے ہمیں لاجواب کردیا ۔دوسری بات یہ ہے کہ مجھے یقین ہے کہ یہ صاحب بھی امام علی ع کی فضیلت  کے قائل ہیں لیکن انھیں ابو بکر اور عمر کی حمایت میں جوش آگیا ، اس لیے وہ تیجانی بھائی کی باتوں کے ردّ عمل کے طور پر امام علی ع کی شان میں گستاخی کربیٹھے جس کا انھیں احساس بھی نہیں ہوا ۔

پہلے پروفیسر صاحب نے بھی اپنے ساتھی  کی اس بات کو پسند کیا کیونکہ اس طرح انھیں اس مخمصے سے نجات مل گئی  جن میں وہ سب کے سامنے اپنی ہی باتوں  کی وجہ سے پھنس گئے تھے ۔گرچہ اب حق ظاہر ہوچکا تھا  اور ان صاحب کے لیے بہتر تھا کہ اپنی ضد پر قائم رہتے ہوئے صحابہ کا دفاع کرتے مگر وہ ازروئے  جہالت حقائق کو مسخ کرتے ہوئے کہنےلگے :

جی ہاں ! میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خلفاء کا اسلام  اور مسلمانوں پر بڑا احسان ہے

۱۳۳

چاہے انھوں نے کچھ بھی  کیا ہو ۔آخر کو وہ بشر تھے اور کسی نے بھی ان کے معصوم ہونے کا دعوی نہیں کیا ۔ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی خوبیاں بیان کریں (اور خامیوں پر پردہ پڑا رہنے دیں ) یہ صحیح نہیں ہے کہ شیعوں کی طرح خلفاء  کی فضلیت  کا انکار کریں اور حبّ علی میں  غلو سے کام لیں ۔

میں نے کہا : اگر اجازت ہوتو میں اپنا جواب مکمّل کرلوں تاکہ آپ میں سے کسی کے ذہن میں کوئی شبہ باقی نہ رہے ۔

"ان صاحب کا یہ کہنا کہ امام علی ع سے پہلے جو تین خلفاء ہوئے ان کی زندگیاں اشاعت  اسلام میں صرف ہوئیں اور ان کے عہد میں بڑی  فتوحات ہوئیں ، نیز کہ اگر وہ نہ ہوتے تو آج مسلمان نہ ہوتا ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر فتوحات کا مقصد اللہ کی رضا اور اسلام کی عزت تھا تو اللہ اس کی جزا دےگا ، لیکن اکر مقصد اپنی فوقیت جتانا ،مال غنیمت حاصل کرنا اور عورتوں کو باندیاں بنانے کے لیے قید کرنا تھا توپھر اس کانہ کوئی اجر ہے اور نہ ثواب۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب عثمان بن عفّان کی مخالفت نے زورپکڑا اور لوگ ان پر اعتراض کرنے لگے تو انھوں نے مروان بن حکم اور معاویہ بن ابی سفیان سے  مشورہ کیا ۔انھوں نے کہا " افریقہ  فتح کرنے کے لیے فوجیں بھیج دو تاکہ لوگوں کا دھیان بٹ جائے ، پھر چاہے ان کی پیٹھ پر جوئیں رینگتی رہیں انھیں فکر ہوگی تو اس کی کاٹھی  سے ان کے گھوڑوں  کی پیٹھ پر زخم پڑجائیں "(1) ۔چنانچہ  عثمان  نے اپنے  دودھ شریک بھائی عبداللہ بن ابی سرح کی قیادت میں افریقہ فتح کرنے کے لیے  فوج بھیج دی اور فتح کے بعد بلاشرکت غیرے عبداللہ بن ابی سرح کو افریقہ کا پورا خراج  دے دیا ۔ یہ عبداللہ بن ابی سرح  ایک دفعہ ایمان لانے کے بعدمرتد ہوگیا تھا اور رسول اللہ ھ نے اعلان کردیا تھا کہ اس کا خون  مباح ہے ،جو شخص چاہے  اسے قتل کردے ۔ جب رسول اللہ ص فتح مکہ کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے اپنے اصحاب کو ہدایت  کی عبداللہ  بن ابی سرح جہاں کہین ملے اس کو قتل کردو چاہے وہ کعبے کے

-------------------------

(1):-طبری ،تاریخ الامم والملوک  باب خلافت عثمان ۔ابن اثیر الکامل فی التاریخ باب خلافت عثمان۔

۱۳۴

پردے پکڑے ہوئے کیوں نہ ہو ۔ لیکن عثمان نے اسے  چھپالیا اور فتح کے بعد اسے رسول اللہ ص کے پاس لے کرآئے اور اس کی سفارش کی ۔ رسول اللہ ص خاموش  اور اس بات کے منتظر رہے کہ کوئی اٹھ کر اسے قتل کردے ، جیسا کہ

آپ نے بعد میں فرمایا ۔ اس پر عمر نے کہا کہ یا رسول اللہ ص مجھے آنکھ سے اشارہ کردیا ہوتا ۔ آپ نے فرمایا :

"نحن معاشر الأنبياء لاينبغي أن تكون لنا خائنة الأعين."

ہم انبیاء کے لیے آنکھ سے دھوکا دینا نامناسب  ہے "(1)

یہ تھے فتح افریقہ کے اسباب اور ایسے شخص کے ہاتھوں افریقہ کے لوگ مسلمان ہوئے ۔میں بھی اسی شخص کے توسط سے مسلمان ہوا ! یہ تو ہوئی ایک بات ۔دوسری بات یہ ہے کہ کس نے کہا ہے کہ اگر سقیفہ کا قصہ نہ ہوتا اور علی کو خلافت  سے دور نہ رکھا جاتا تو بڑے پیمانے پر اور زیادہ نفع  بخش نہ ہوتیں اورآج پورے کرہ ارض پر اسلام چھایا ہوا نہ ہوتا ؟؟ پھر یہ بھی ہے کہ انڈونیشیا کو  خلفاء نے فتح نہیں کیا تھا ، وہاں اسلام تلواروں کے ذریعے نہیں بلکہ سوداگروں کے ذریعے پہنچا تھا اور آج بھی وہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ مسلمان ہیں ۔ اور انڈونشیا اس اسپین سے بہتر ہے جو ان لوگوں کے ہاتھوں تلوار سے فتح ہواتھا اور جوآج اسلام اور مسلمانوں کامخالف ہے ۔

برادران گرامی ! مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس سلسلے میں ایک چھوٹا سا قصہ آپ کو سناؤں :

ایک بادشاہ نے حج کو جانے سے پہلے وزیر کو اپنا قائم مقام مقررکیا تھا ۔ ان دنوں حج کے سفر میں پورا ایک سال لگتا تھا ۔ بادشاہ کے جانے کےبعد اس کے کچھ درباریوں نے وزیر کے خلاف سازش کرکے اسے قتل کردیا اور اپنے میں سے کسی ایک کو اس کی جگہ وزیر مقررکردیا ۔ اس نئے وزیر نے بڑے بڑے کام کیے ۔سڑکیں اور مسجدیں بنوائیں ، سرائے اور حمام بنوائے ۔بعض سرکش قبائل کو زیر کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ

--------------------

(1):-طبری ،تاریخ الامم والملوک باب خلافت عثمان ۔ابن عبدالبر ،استیعاب ترجمہ بن ابی سرح ۔

۱۳۵

مملکت پہلے سے بھی زیادہ  وسیع ہوگئی ۔لیکن جب بادشاہ کو حج سے لوٹنے پریہ معلوم ہوا کہ اس کے قائم مقام  کو قتل کردیا گیا  ہے تو وہ بہت افروختہ ہوا اور سب سازشیوں کے قتل کا حکم دے دیا ۔ایک نے آگے بڑھ کر کہا: سرکار عالیجاہ ! ہم نے جو آپ کی حکومت کی توسیع کے لیے بڑے بڑے کارنامے اور خدمات لائقہ انجام دی ہیں ، کیا ان کے صلے میں ہمارے جرم کو معاف نہیں کیا جاسکتا ؟ بادشاہ نے بگڑ  کر کہا : چپ رہ خبیث ! تم نے میرے وزیر کو قتل کرکے ۔ جسے میں نے اپنا قائم مقام مقررکرکے گیا تھا ۔میرےساتھ نمک حرامی کی ہے ۔ رہی وہ خدمات جو تم نے انجام دی ہیں تو وہ اکیلا اس سے کئی گناہ زیادہ کرسکتا تھا جو تم سب نےمل کرکیا ہے " یہ قصّہ سن کر سب ہنسنے لگے اورکہنے لگے کہ ہم مطلب سمجھ گئے ۔

 میں نے کہا : اب اس آخری فقرے پر آئیے جو ان پروفیسر صاحب نے کہا تھا کہ جب علی ع کو خلافت مل گئی تو انھوں نے ایک طوفان کھڑا کردیا اور ہر چیز کو اتھل پتھل کردیا !

ہم سب کو معلوم ہے کہ اورتاریخ شاہد ہے کہ طوفان تو حضرت عثمان کے عہد میں مچا اور ہرچیز اس وقت اتھل پتھل ہوئی جب انھوں نے اقربا پروری کے نتیجے میں اپنے فاسق وفاجر رشتہ داروں کو مسلمانوں پر مسلط کردیا حالانکہ اس وقت بہترین صحابہ موجود تھے ،جنھیں اس کے سوا کیا ملا کہ انھیں زدوکوب کیا گیا(1)

شہر بدر کیا گیا(2) اور ان کی ہڈی پسلیاں توڑی گیئیں(3) اسلام اس وقت پیچھے ہٹنے اور ناکام ہونے لگا جب مسلمان بنی امیّہ کے غلام بن گئے ۔

پروفیسر صاحب !آپ یہ سب حقائق لوگوں کو اور خصوصا اپنے شاگردوں کو

--------------------

(1):- جیسے عمّار بن یاسر کو زدوکوب کیا گیا ،ان کی آنت اتر آئی ، مہینوں علاج کراتے رہے ۔

(2):- ابوذر غفاری نے بورژوا طبقے کی مخالفت کی تو شہر بدر کیے گئے ۔اکیلے پڑے ہوئے جان دے دی۔

(3):- عبداللہ بن مسعود نے فاسقوں کو مسلمانوں کا مال دینے پر اعتراض کیا تو وہ ماردی گئی کہ پسلیا ں ٹوٹ گئیں ۔

۱۳۶

کیوں نہیں بتلاتے اور ان کی صحیح رہنمائی کیوں نہیں کرتے ۔جب امام علی ع کو خلافت ملی تو انھوں نے دیکھا کہ کچھ بے دین ہیں ، کچھ ظالم ہیں اور کچھ غدّار ہیں باقی جو بچے ہو سب منافق ہیں ۔ حقیقی مسلمان صرف چند تھے جنھوں نے علی ع کی ان ہی امورپر بیعت کی جن امور پر رسول اللہ ص کی بیعت کی تھی  ۔امام علی ع نے بگاڑ کر دور کرنے ، عدالت کو قائم کرنے اور معاملات کو روبراہ لانے کی اپنی سی پوری کوشش کی یہاں تککہ وہ اسی اصلاح کی کوشش میں شہید ہوگئے ۔ اس کے بعد ان کے بیٹے شیہد ہوئے انھیں زہر دیا گیا اور وہ بھی اصلاح کی راہ میں قربان  ہوگئے ۔ اس کےبعد امام علی ع کے دوسرے بیٹے امام حسین اپنے ساتھیوں ،بھائیوں ،بیٹوں اور اہل بیت سمیت شہید(1) ہوئے ۔ ائمہ اہلبیت ع میں سے ہر امام نے شہادت پائی خواہ تلوار سے مقتول ہوکریا زبیر سے مسموم ہوکر ۔ ان سب ائمہ نے اپنے نانا کی امت کی اصلاح  کی خاطر  اپنی جان کی قربانی دی ۔

میں یہاں ایک لطیفہ بیان کرنا چاہتاہوں ، اس سے آپ کو امام علی بن ابی طالب ع کی قدرومنزلت کا اندازہ ہوگا :

ایک دفعہ ایک شخص امام علی ع کے پاس آیا اور کہنے لگا : یا امیر المومنین! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں ۔ امام ع نے فرمایا : جو چاہو پوچھو ۔ اس نے کہا: یہ کیا بات ہے کہ ابو بکر اور عمر کے زمانے میں تو حالات ٹھیک رہے لیکن آپ کے زمانے میں ٹھیک نہ ہوسکے ،امام علی ع نے برجستہ جواب دیا : ابوبکر اور عمر مجھ جیسے لوگوں پر حکومت کرتے تھے اور میں تم جیسے لوگوں پر حکومت کرتاہوں ۔ اسی لیے یہ انتشار پیداہوگیا ۔

کیا خوب اورشافی جواب ہے اس کی طر ف سے کہ تاریخ نے رسول اللہ ص کے بعد اس جیسا معلّم نہیں دیکھا ۔

اس قصّے کو سن کر سب حاضرین بہت محفوظ ہوئے اور کہنے لگے کہ آخر علی ع

------------------------

(1):- ذرا غور فرمائیے کہ وہ کون سے حالات اور اسباب تھے کہ رسول  اللہ کی رحلت کے صرف پچاس سال بعد رسول اللہ ص کے نام لیواؤں نے رسول اللہ  ص کی اولاد کو بھوکا پیاسا شہید کردیا ۔ (ناشر)

۱۳۷

شہر علم کا دروازہ تھے ۔

میں نے یہ کہہ کر اپنی بات ختم کردی کہ :ہمارے پروفیسر نے مجھ پر الزام لگایا کہ میں خلفائے ثلاثہ  کی تنقیص  کرتاہوں اور ان کے کردار کی پاکیزگی میں شبہ پیدا کرتا ہوں ، تو یہ محض تہمت ہے ۔کیونکہ میں نے فقط وہی کچھ کہا  جو  بخاری ومسلم نے کہا ہے اور اہل سنت مورخین نے کہا ہے ۔ اگر آپ اس تنقیص اور کردار کشی تصور کرتے ہیں تومجھے الزام دینے سے پہلے ان لوگوں پر الزام دیں ۔ مجھ سے تو فقط یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ میں کوئی ایسی سند دکھاؤں جو اہلسنت  کےنزدیک  قابل اعتماد ہو مجھے آپ صرف اس وقت الزام دے سکتے جب آپ خود ان سندوں کو دیکھ کر میرا کوئی ایک بھی جھوٹ پکڑسکیں ۔

سب نے یک زبان ہوکر کہا : واقعی اس طرح کی بحثوں میں یہی ہونا بھی چاہیے ۔ سب نے پروفیسر پر زوردیا کہ مجھ سے معذرت کریں چنانچہ انھوں نے معذرت کرلی ۔ فلللہ الحمد

امام علی ع کی ولایت کے دوسرے شواہد

چونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کی مشیت یہ ہوئی کہ امام علی ع کی ولایت کو مسلمانوں کے لیے آزمائش قراردیا جائے ۔ اس لیے اس بارے میں اختلاف پیدا ہوگیا ۔ مگر چونکہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے بندوں پر مہربان بھی ہے اور وہ اگلوں کی حرکتوں کا پچھلوں  سے مواخذہ  نہیں کرتا ، اس لیے  اس کی حکمت کا اقتضاء یہ ہوا کہ اس واقعہ میں موجود لوگ  اس واقعہ کو نقل کرتے رہیں اور بعد میں آنے والے اس واقعہ سے منسلک دوسرے واقعات سے عبرت پکڑیں ، شاید اس طرح اس واقعہ پر مسلسل گفتگو کے نتیجہ میں لوگ راہ حق پر گامزن ہوسکیں ۔

پہلا واقعہ : اس واقعے کا تعلق اس شخص کی سزا سے ہے جس نے ولایت علی ع کو اس وقت جھٹلایا تھا جب غدیر خم میں امام علی ع کے مسلمانوں پر

۱۳۸

خلیفہ مقرر ہونے کی خبر مشہور ہوچکی تھی اور سب لوگوں کو یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ رسول اللہ ص نے فرمایا  ہے کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں ، وہ یہ خبر ان لوگوں تک پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں ۔

ہوا یوں کہ جب حارث بن نعمان فہری کو یہ خبر ملی تو اسے ذرا پسند نہیں آئی ۔ وہ رسول اللہ ص کے پاس آیا اور اپن اونٹنی مسجد کے دروازے  کے سامنے بٹھا کر سیدھا رسول اللہ ص کی خدمت میں پہنچا  اور کہنے لگا : اے محمد! تم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم یہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور تم اللہ  کے رسول  ہو ، ہم نے تمھاری یہ بات مان لی ۔ تم نے ہمیں  حکم دیا ک ہ ہم دن رات میں پانچ نمازیں پڑھیں رمضان  کے روزے رکھیں ،بیت اللہ کا طواف  کریں ، اپنے اموال  کی زکواۃ  دیں ہم نے یہ بات بھی مان لی ۔لیکن تم نے اس پر بس نہیں کی ،اپنے چچا کے بیٹے کو اونچا اٹھادیا ۔ اسے سب لوگوں سے بڑھا دیا کہہ دیا :"من كنت مولاه فعلىٌّ مولاه" اب یہ بات تمھاری اپنی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے(1) ۔

رسول اللہ  کی آنکھیں سرخ ہوگئیں ۔آپ نے فرمایا : خدائے واحد کی قسم ! یہ اللہ کی طرف سے ہے ،میری طرف سے نہیں ۔ آپ نے اس بات کوتین بار دہرایا ۔ حارث وہاں سے اٹھا اور کہنے لگا : اے اللہ محمد ص جو کہہ رہے ہیں اگر وہ

--------------------

(1):-اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بدّو مدینے سے باہر رہتے تھے ، وہ علی بن ابی طالب ع کو پسند نہیں کرتے تھے بلکہ ان سے بغض رکھتے تھے بلکہ وہ تو رسول اللہ ص کو بھی پسند نہیں کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ گنوار رسول اللہ ص کے پاس آتا ہے تو سلام نہیں کرتا ، آپ کا نام لے کر پکارتا ہے ۔ سچ کہا اللہ تعالی نے :

"الأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفَاقاً وَأَجْدَرُ أَلاَّ يَعْلَمُواْ حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللّهُ عَلَى رَسُولِهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ " عرب کے بدو سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ جو کچھ اللہ نے اپنے رسول ص پر نازل کیا ہے اس کی حدوں  سے واقف ہی نہ ہوں "(سورہ ت توبہ ۔آیت 97)

۱۳۹

سچ ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر دردناک عذاب بھیج ۔

راوی کہتاہے کہ وہ ابھی اپنی اونٹنی تک نہیں پہنچا تھا کہ آسمان سے ایک پتھر آیا جو اس کے سرپر گرا اور وہ وہیں ہلاک ہوگیا ۔ تب آیہ"سأل سائل" اتری ۔علاوہ ان مآخذوں کے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے (1)، اور بھی بہت سے علمائے اہل سنت نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے ۔جسے مزید حوالوں کی تلاش ہو ، ہو علامہ امینی کی الغدیر کامطالعہ کرے ۔

دوسرا واقعہ : اس کا تعلق ان لوگوں  کی سزا سے ہے جنھوں نے واقعہ غدیر کوچھپانے  کی کوشش کی اور انھیں امام علی ع کی بد دعا لگی ۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب امام علی ع نے یوم رحبہ ، کوفہ میں لوگوں  کےمجمع  میں منبر پر سے اعلان  کیا کہ :

" میں ہر مسلمان  کو اللہ کی قسم دیتاہوں  کہ اگر  اس نے غدیر خم میں رسول اللہ  کو یہ کہتے ہوئے سنا  ہو کہ : "من كنت مولاه فعلىٌّ مولاه" تو وہ کھڑے ہوکر جو کچھ اس نے سنا ہو اس کی گواہی دے  لیکن وہ شخص کھڑا  ہو جس نے اپنی  آنکھوں سے یہ واقعہ دیکھا ہو اور اپنے کانوں سے سنا ہو"۔

یہ سن کر تیس صحابہ  کھڑے ہوگئے ،جن میں سے سولہ اصحاب بدر تھے ، ان سب نے شہادت دی کہ رسول اللہ  نے علی ع کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے کہا تھا کہ : کیا تمھیں معلوم ہے کہ مومنین پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ میرا حق ہے ؟ سب نے کہا : جی ہاں ! پھر آپ نے کہا :

"من كنت مولاه فهذا مولاه أللهمّ وال من وّالاه وعاد من عاداه"

---------------------

(1):-حافظ حسکانی ، شوہد التنزیل جل 2 صفحہ 286 ۔ ابو اسحاق  ثعلبی ، تفسیر  الکشف والبیان ۔ محمد بن احمد قرطبی  تفسیر الجامع لاحکام القرآن  جلد 18 صفحہ 278 ۔ محمد رشید رضا ،تفسیر المنار جلد 8 صفحہ 268 ۔حافظ قندوزی حنفی ینابیع المودۃ صفحہ 823 ۔حاکم نیشاپوری ۔ مستدرک علی الصحیحین  جلد 2 صفحہ 502  ۔علی بن برہان الدین حلبی  ،سیرت حلبیہ جلد 3 صفحہ 275

۱۴۰