حکم اذاں

حکم اذاں17%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 61534 / ڈاؤنلوڈ: 6829
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

دنيوى امور كى سرپرستى كےلئے اپنے بعد ان كى جانشينى كا اعلام فرماديں _

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس الہى پيغام كا اعلان مختلف مواقع پر فرمايا يہاں ہم اختصار كے پيش نظر ان تين احاديث كا ہى ذكر كريں گے جو آپ نے مختلف اوقات ميں بيان فرمائي ہيں :

۱_ حديث يوم الدار

۲_ حديث منزلت

۳_ حديث غدير

حديث يوم الدار

بعثت كى تين سال كے بعد جب يہ آيت نازل ہوئي ''وانذر عشيرتك الاقربين''(۳۲) يعنى رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس كام پر مامور كئے گئے كہ وہ سب سے پہلے اپنے عزيز واقرباء كو دعوت اسلام ديں _ اس مقصد كے تحت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم پر حضرت علىعليه‌السلام نے بنى ہاشم كے چاليس سرداروں كو جن ميں ابوطالب، ابولہب ، حمزہ ، وغيرہ شامل تھے مدعو كيا جب سب لوگ كھانے سے فارغ ہوئے تو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا اے فرزندان عبدالمطلب عرب كے جوانوں ميں مجھے كوئي بھى ايسا نظر نہيں آتا جو تمہارے لئے مجھ سے بہتر پيغام لايا ہو _ ميں تمہارے لئے ايسا پيغام لے كر آياہوں جس ميں دونوں جہان كى خير وسعادت ہے_ خداوند تعالى نے مجھے حكم ديا ہے كہ ميں تمہيں اس كى طرف دعوت دوں _ تم ميں سے ايسا كون ہے جو اس راہ ميں ميرى مدد كرے تاكہ وہ ميرا بھائي ، وصى اور جانشين قرار پائے _ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس سوال كو تين مرتبہ دہرايا اور ہر مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام ہى اپنى جگہ سے اٹھے اور انہوں نے اپنى آمادگى كا اعلان كيا_

اس وقت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرمايا : تو گويا علىعليه‌السلام ہى ميرے بھائي ، وصى اور جانشين ہيں لہذا تم ان كى بات سنو اور ان كى اطاعت كرو _(۳۳)

۲۱

حديث منزلت

صرف وہ غزوہ جس ميں حضرت علىعليه‌السلام نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حكم كے پيروى كرتے ہوئے شركت نہيں كى غزوہ تبوك تھا _ چنانچہ اس مرتبہ آپ جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حيثيت سے اور ان واقعات كا سد باب كرنے كى غرض سے جن كے رونما ہونے كا احتمال تھا مدينہ ميں ہى قيام پذير رہے_

جس وقت منافقوں كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ارادے كى خبر ہوئي تو انہوں نے ايسى افواہيں پھيلائيں جن سے حضرت علىعليه‌السلام اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے تعلقات ميں كشيدگى پيدا ہوجائے اور حضرت علىعليه‌السلام كو يہ بات باور كراديں كہ اب آپ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو پہلى سى محبت نہيں _ چنانچہ جب آپ كو منافقين كى ان شرپسندانہ سازشوں كا علم ہوا تو ان كى باتوں كو غلط ثابت كرنے كى غرض سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں تشريف لے گئے اور صحيح واقعات كى اطلاع دي_ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علىعليه‌السلام كو مدينہ واپس جانے كا حكم ديتے ہوئے اس تاريخى جملے سے حضرت علىعليه‌السلام كے اس مقام و مرتبہ كو جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نزديك تھا اس طرح بيان فرمايا : ''كيا تم اس بات سے خوش نہيں ہو كہ ميرے اور تمہارے درميان وہى نسبت ہے جو كہ موسىعليه‌السلام اور ہارونعليه‌السلام كے درميان تھي_ مگر يہ كہ ميرے بعد كوئي نبى نہيں ہوگا_(۳۴)

قرآن مجيد ميں حضرت ہارون كے مقامات ومناصب:

اب ديكھنا يہ ہے كہ قرآن پاك كى نظر ميں حضرت ہارون كے وہ كون سے مناصب و مقامات تھے جو حضرت علىعليه‌السلام ميں بھى نبوت كے علاوہ (چنانچہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود ہى مذكورہ حديث ميں آپ كو اس سے مستثنى قرار ديا ہے) بدرجہ اتم موجود تھے_

چنانچہ جب ہم قرآن كى جانب رجوع كرتے ہيں تو ديكھتے ہيں كہ حضرت موسىعليه‌السلام نے حضرت ہارونعليه‌السلام كے لئے مندرجہ ذيل مناصب چاہے تھے_ مقام وزارت :( واجعل لى وزيرا من اهلى هارون اخي' ) _(۳۵) _ ''ميرے كنبے سے ہارون كو وزير مقرر كردے جوكہ ميرے بھائي ہيں ''_

۲۲

تقويت و تائيد''واشد به ازري'' _ اس كے ذريعے ميرا ہاتھ مضبوط كر

مقام نبوت:''واشركه فى امري''اور اس كو ميرے كام ميں شريك كردے''_

حضرت موسىعليه‌السلام نے جو چيزيں خداوند تعالے سے مانگيں اس نے ان كا مثبت جواب ديا اور مذكورہ تمام مقامات حضرت ہارون كو عطا كرديئے_ چنانچہ اس سلسلے ميں قرآن مجيد فرماتاہے:''قد اوتيت سوالك يا موسي_ ''اے موسى جو تم نے مانگا ہم نے عطا كيا''_

اس كے علاوہ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى غير موجودگى ميں حضرت ہارونعليه‌السلام كو اپنا جانشين مقرر كيا _ (وقال موسى لاخيہ ہارون اخلفنى فى قومي)موسى نے حضرت ہارون سے كہا تم ميرى قوم ميں ميرے خليفہ اور جانشين ہو ''_

حديث منزلت كے مطابق وہ تمام مناصب و مقامات جو ہارون كےلئے بيان كئے گئے ہيں ، صرف ايك منصب كے علاوہ كہ جسے آيت سے مستثنى قرار ديا ہے، حضرت علىعليه‌السلام كےلئے ثابت ہيں _

اس لحاظ سے حضرت عليعليه‌السلام ہى امت مسلمہ ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ياور و مددگار اور خليفہ ہيں _(۴۰)

حديث غدير

ہجرت كے دسويں سال پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جس وقت ''حجة الوداع''(۴۱) سے واپس تشريف لا رہے تھے تو ماہ ذى الحجہ كى اٹھارہ تاريخ كو آپ نے ''غدير خم '' كے مقام پر فرمان خداوندى كے مطابق حكم ديا كہ سارے مسلمان يہاں توقف كريں اس كے بعد ايك لاكھ سے زيادہ افراد كى موجودگى ميں حمد وستائشے بارى تعالى كے بعد جو خطبہ ديا اسے جارى ركھتے ہوئے آپ نے دريافت فرمايا : اے لوگو تم ميں ايسا كون ہے جسے تمام مومنين پر برترى حاصل ہو ؟

سب نے كہا يہ تو خدااور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى بہتر جانتاہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا خداوند تعالى نے مجھے ولايت سے سرفراز فرمايا ہے اور مجھے تمام مومنين پر ان كے نفسوں سے زيادہ تصرف كا حق حاصل ہے_

۲۳

اس كے بعد آپ نے حضرت على عليه‌السلام كا ہاتھ اونچا كيا چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس وقت وہاں جمع تھے انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام كو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دوش بدوش ديكھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا : جس كا مولا و سرپرست ميں ہوں علىعليه‌السلام اس كا مولا و سرپرست ہے _(۴۲) چنانچہ يہ جملہ آپ نے تين مرتبہ دہرايا_

اس كے بعد مزيد فرمايا : ''اے پروردگار تو اسے دوست ركھ جو علىعليه‌السلام كو دوست ركھے اور اسے دشمن ركھ جو علىعليه‌السلام كو دشمن ركھے _ خداوندا ياران علىعليه‌السلام كى مدد فرما اور اس كے دشمنوں كو ذليل و خواركر_(۴۳)

يہ تھيں وہ سرافرازياں جو حضرت علىعليه‌السلام نے زندگى كے اس اولين مرحلے ميں حاصل كيں كہ جس كى مدت دس سال سے زيادہ نہ تھى _ اگرچہ ديگر كتب ميں آپ كى سوانح حيات مفصل طور پر بيان كى گئي ہے مگر يہاں اختصار سے كام ليتے ہوئے انہى پر اكتفا كرتے ہيں _

۲۴

سوالات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے مختلف ادوار كے بارے ميں لكھيئے؟

۲_ بعثت سے قبل حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى ميں كون سا اہم ترين واقعہ پيش آيا؟آپ كے اقوال كے روشنى ميں اس كى مختصر اً وضاحت كيجئے؟

۳_ حضرت علىعليه‌السلام كے امتيازات وافتخارات ميں سے ان دو كى كيفيت بيان كيجئے جو بعثت كے بعد اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہجرت سے قبل رونما ہوئے_

۴_ جنگ بدر ميں حضرت علىعليه‌السلام كا كيا كردار رہا اختصار سے لكھ يے_

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غزوہ احزاب كے موقع پر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں كيا فرمايا تھا؟

۶_ حضرت علىعليه‌السلام نے مختلف جنگوں (بالخصوص جنگ بدر)ميں دلاورى كے جو جوہر دكھائے اورمشركين كو قتل كيا وہ آپ كى سياسى زندگى پر كس طرح اثر انداز ہوئے اور كب منظر عام پر آئے ان كى كوئي مثال لكھيئے

۷_ حديث ''يوم الدار'' كى مختصر وضاحت كيجئے اور بتايئے مذكورہ حديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد امامعليه‌السلام كى جانشينى پر كس طرح دلالت كرتى ہے؟

۲۵

حوالہ جات

۱_ عام الفيل وہ سال كہلاتا ہے جس ميں ابرہہ ہاتھيوں پر سوار لشكر كے ساتھ كعبہ كو نيست و نابود كرنے كى غرض سے آيا تھا_

۲_ حضرت عمران كے چار فرزند تھے جن كے نام طالب ، عقيل ، جعفر اور على تھے وہ ابوطالب كى كنيت سے مشہور تھے_ بعض مورخين نے حضرت علىعليه‌السلام كے والد كا نام عبدمناف بھى بيان كيا ہے (تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو شرح ابن ابى الحديد ج۱ ص ۱۱)

۳_حضرت علىعليه‌السلام كى ولادت كو اہل سنت كے محدثين و مورخين نے بھى اپنى كتابوں ميں خانہ كعبہ ميں تحرير كيا ہے منجملہ ان كے مسعودى نے مروج الذہب (ج ۲ ص ۳۴۹)حاكم نے مستدرك (ج ۳ ص ۴۸۳) اور آلوسى نے شرح قصيدہ _ عبدالباقى افندى ص ۱۵ مزيد تفصيل كيلئے اہل سنت كے دانشوروں كے نظريات كو جاننے كيلئے ملاحظہ ہو كتاب ''الغدير'' ج ۴ ص ۲۳_ ۲۱

۴_ سيرت ابن ہشام ج ۱ /۲۶۲ ، كامل ابن اثير ج ۲/ ۵۸ كشف الغمہ ج ۱ / ۷۹ ، تاريخ طبرى ج ۲ / ۳۱۲ البتہ مورخين كى رائے ميں حضرت علىعليه‌السلام كے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر منتقل ہونے كا سبب وہ قحط سالى تھى جس سے شہر مكہ دوچار ہواتھا اور ابوطالب كى زندگى چونكہ تنگ دستى ميں گزر رہى تھى اس لئے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تجويز پر آپ كے قبيلے كے لوگ ان كے ہر فرزند كو اپنے ساتھ لے گئے اور حضرت علىعليه‌السلام كو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ساتھ لے آئے ليكن شہيد مطہرى نے نقل مكانى كى اس وجہ كو مسترد كيا ہے اور اسے مورخين كے ذہن كى اختراع قرار ديا ہے_ جس كا سبب رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اس اقدام كى اہميت اور قدر وقيمت كو كم كرنا مقصود ہے اس سلسلے ميں موصوف كا مطمع نظر متن كتاب ميں ملاحظہ ہو _

۵_ تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۱۳ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۳/۱۹۹ _ كشف الغمہ ج ۱ / ۱۱۷ كامل ابن اثير ج ۲ /۵۸ وسيرة ابن ہشام ج ۱ / ۲۶۳

۶_ نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ (۱۹۲)ولقد كنت اتبعه اتباع الفصيل اثر امه يرفع لى كل يوم من اخلاقه علماً يا مرنى بالاقتداء به

۷_ سورہ واقعہ آيہ( السابقون السابقون اولئك المقربون ) _ جنہوں نے اسلام قبول كرنے ميں سبقت

۲۶

كى وہى افراد خدا كى رضا ورحمت كے حصول ميں سبقت ركھتے ہيں _

۸_ سورہ حديد آيہ ۱۰( لاَيَستَوى منكُم مَن أَنفَقَ من قَبل الفَتح وَقَاتَلَ أُولَئكَ أَعظَمُ دَرَجَةً من الَّذينَ أَنفَقُوا من بَعدُ وَقَاتَلُوا ) ''تم ميں سے جو لوگ خرچ اور جہاد كريں گے وہ كبھى ان لوگوں كے برابر نہيں ہوسكتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد كيا ان كا درجہ بعد ميں خرچ اور جہاد كرنے والوں سے بڑھ كر ہے''_

۹_ سيرت ابن ہشام ج ۱ / ۲۴۶ ، كشف الغمہ ج ۱/۱۱۳ ، تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۱۰ _ سنن ابن ماجہ ج ۱/ ۵۷

۱۰ _''اولكم ورداً على الحوض اولكم اسلاماً على بن ابى طالب _ مستدرك حاكم ج ۳/ ۱۳۶ ، كشف الغمہ ج ۱ / ۱۰۵ _ تاريخ بغداد ج ۲/ ۸۱ شرح ابن ابى الحديد ج ۳ / ۳۸۵ وغيرہ مزيد اطلاع كيلئے ملاحظہ ہو الغدير ج ۳/ ۲۲۰

۱۱_ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲ _''ولم يجمع بيت واحد يومئذ فى الاسلام غير رسول اللہ وخديجة انا ثالثہما ا رى نورالوحى والرسالة واشم ريح النبوة''_

۱۲_ نہج البلاغہ خ ۱۳۱ _اللهم انى اول من اناب وسمع واجاب

۱۳_ روايات سے مزيد آگہى كے لئے ملاحظہ ہو تفسير برہان ج ۱ / ۲۰۶ ، تفسير الميزان ج ۲/ ۹۹، مطبوعہ جامعہ مدرسين بحار ج ۱۹ صفحات (۵۶_ ۷۸_ ۸۷)

۱۴_ بقرہ آيہ ۲۰۷

۱۵_ قبا مدينہ سے دو فرسخ كے فاصلے پر واقع ہے يہاں قبيلہ بنى عمروبن عوف آباد تھا(معجم البلدان) ج ۴ / ۳۰۱

۱۶_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۷۷ (دس جلدي) منقول از سيرت حلبى واسد الغابہ

۱۷_والذى بعثنى بالحق الخ انت اخى فى الدنيا و الاخرة _ مستدرك حاكم ج ۳/ ۱۴

۱۸_ ''غزوہ'' اصطلاح ميں اس جنگ كو كہتے ہيں جس ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بذات خود موجود رہتے تھے _ ايسى جنگوں كى تعداد چھبيس يا ستائيس ہيں اورجن جنگوں ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موجود نہ تھے انہيں اصطلاحاً ''سريہ'' كہاجاتا ہے جن كى تعداد پينتيس سے چھياسٹھ تك كے درميان بتائي گئي ہے_

۱۹_ الصحيح من سيرة النبى ج ۳/۱۹۲ ، بحار ج ۱۹/ ۲۲۵ _ ۲۵۴ _۲۹۰

۲۷

۲۱_ الصحيح من سيرة النبى ج ۳ / ۲۰۳ _۲۰۲_ مناقب ج ۲/ ۶۸ نيز ملاحظہ ہو بحار ج ۱۹/ ۲۷۹_ ۲۷۶_ ۲۹۱

۲۲_ بحار ج ۲۰/۵۰ _ ۵۱ ،الصحيح من سيرة النبىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ج ۴ / ۲۱۸_ ۲۱۳_

۲۳_ ملاحظہ ہو تاريخ طبرى ج ۲/ ۵۱۴ كامل ابن اثير ج ۲/ ۱۵۴ وشرح ابن ابى الحديد ج ۱۴/ ۲۵۰ اس واقعے كا ذكر تمام مذكورہ كتب ميں مختصر سے فرق كے ساتھ موجود ہے _

۲۴_ بحار ج ۲۰ / ۷۰ خصال صدوق (مترجم) ج ۲ / ۱۲۷_

۲۵_ بحار ج ۲۰/ ۵۴ تفسير على ابن ابراہيم سے منقول_

۲۶_ ۱۲۷ _ بحارج ۲۰ / ۲۱۶_ ۲۱۵ _

۲۷_ بحار ج ۲۰ / ۲۰۵_

۲۸_''ا رونيه ترونى رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله (ارشاد مفيد / ۶۶)_

۲۹_ ارشاد مفيد / ۶۷ / ۶۵ بحار ج ۲۱ / ۱۶_ ۱۴_

۳۰ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۹/ ۲۳_ الصحيح ج ۳/ ۲۲۰_

۳۱_ مقتل خوارزمى ۲ /۵۹ _

لستُ من خندف ان لم انتقم من بنى احمد ما كان فعل

لعبت هاشم بالملك فلا خبر جاء و لا وحى نزل

قد اخذنا من على ثارناوقتلنا الفارس الليث البطل

۳۲_ سورہ شعرا ء ۲۱۴ _

۳۳_ تاريخ طبرى ج ۲/ ۳۲۱ و ۳۲۰ كامل ابن اثير ج ۲/ ۶۳ _ ۶۲ مجمع البيان ج ۸/ ۷ الغدير ج ۲ / ۲۷۸ ''فا يكم يؤازرنى على هذاالامر على ان يكون اخى ووصى وخليفتى فيكم ...؟ ان هذا اخى و وصيى وخليفتى فيكم فاسمعوا له واطيعوه'' _

۳۴_اما ترضى ان تكون منى بمنزلة هارون من موسى الا انه لا نبى بعدى _ غاية المرام كے صفحہ ۱۵۲ سے ۱۰۷پر ايك سو ستر (۱۷۰)محدثين كے طريق سے ''حديث منزلت'' كو نقل كيا گيا ہے ان ميں سے سو طريق اہل سنت والجماعت كے ہيں _ صاحب المراجعات نے بھى (۱۳۹_ ۱۴۱) پر مذكورہ حديث كو صحيح

۲۸

مسلم ، بخارى ، سنن ابن ماجہ ومستدرك حاكم اور اہل سنت كے ديگر مصادر سے نقل كيا ہے_

۳۵_ سورہ طہ ۲۹_ ۳۰_

۳۶_ _۳۷_ ۳۸ _ سورہ طہ آيات ۳۱_۳۲_ ۳۶_

۳۹_سورہ احزاب آيت ۱۴۲_

۴۰_ رہبرى امت مصنفہ جعفر سبحانى سے ماخوذ صفحات ۱۶۸ _ ۱۶۷_

۴۱_ فرمان خداوندى سورہ مائدہ آيت ۶۷ ''( ياأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغ مَا أُنزلَ إلَيكَ من رَبّكَ وَإن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رسَالَتَهُ وَالله ُ يَعصمُكَ من النَّاس ) '_

۴۲_من كنت مولاه فهذا على مولاه _اللهم وال من والاه و عاد من عاداه وانصر من نصره واخذل من خذله _ ملاحظہ ہو الغدير ج ۱/ ۱۱_۹

۲۹

دوسر ا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك

وفات پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا

غير متوقع حادثہ

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں

لاتعلقي

امت كى پريشانى كا خطرہ

لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ

منافقين كا خطرہ

شورى

وصى اور جانشين كا تقرر

سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات

اس خطبے كے اہم نكات

انصار كا رد عمل

علىعليه‌السلام كى بيعت كے بارے ميں تجويز

سقيفہ كے واقعات كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كا رد عمل

علىعليه‌السلام نے كيوں عجلت نہيں كي؟

سوالات

حوالہ جات

۳۰

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك(۱)

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے تعميرى اور كردار ساز بعض حادثات وواقعات كا جائزہ ترتيب وار گذشتہ فصل ميں ليا جاچكا ہے _ چونكہ ہمارا مطمع نظر تاريخ اسلام كا تجزيہ وتحليل ہے نہ كہ ان بزرگوار شخصيات كے احوال زندگى كو بيان كرنا اسيلئے بہت سے ايسے واقعات جن كا امامعليه‌السلام نے ان مراحل ميں سامنا كيا ، ان كا ذكر نہيں كياجاسكا_اب ہم يہاں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد تاريخ اسلام كے واقعات كا جائزہ ليں گے_

وفات پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو جھٹلانا

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد سب سے پہلا واقعہ جو مسلمانوں كے سامنے آيا وہ عمر كى جانب سے رونما ہوا چنانچہ انہوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر كے سامنے بآواز بلند كہا كہ جو شخص يہ كہے گا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت ہوگئي ميں اسى تلوار سے اس كا سر قلم كردوں گا اگر چہ حضرت ابن عباس و ديگر صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ آيت بھى سنائي جس كا مفہوم يہ ہے كہ موت سے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بھى مفر نہيں(۲) مگر اس كا ان پر اثر نہ ہوا بوقت رحلت ابوبكر مدينہ سے باہر تھے _ چند لحظے گذرنے كے بعد وہ بھى آن پہنچے اور عمر كى داد و فرياد كى جانب توجہ كي ے بغير وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر ميں داخل ہوگئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے چہرہ مبارك سے چادر ايك طرف كركے بوسہ ديا اور مسجد ميں واپس آگئے اور يہ اعلان كيا كہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحلت فرماگئے ہيں _ اس كے بعد انہوں نے بھى اسى آيت كى تلاوت كى اس پر عمر نے كہا ايسا لگتا ہے كہ ميں نے آج تك گويا يہ آيت سنى ہى نہيں تھى(۳)

۳۱

غير متوقع حادثہ

جس وقت حضرت علىعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل دينے ميں مشغول اور مسلمان تكميل غسل و كفن كا انتظار كر رہے تھے تاكہ نماز جنازہ ميں شركت كرسكيں خبر آئي كہ كچھ لوگ ''سقفيہ بنى ساعدہ'' ميں جمع ہيں او رخليفہ منتخب كئے جانے كے بارے ميں بحث كر رہے ہيں اور قبيلہ خزرج كے سردار سعد بن عبادہ كا نام خلافت كےلئے پيش كيا گيا ہے_

عمر اور ابوبكر نے جيسے ہى يہ خبر سنى فوراً سقيفہ كى طرف روانہ ہوئے_ راستے ميں ابوعبيدہ بن جراح كو بھى مطلع كيا اور تينوں افراد نے سقيفہ(۴) كى جانب رخ كيا _

اس وقت تك معاملہ انصار كے ہاتھ ميں تھا ليكن جيسے ہى يہ تينوں مہاجر وہاں پہنچے تو تنازع شروع ہوگيا اور ہر شخص اپنى اہليت وشايستگى كى تعريف كرنے لگا _ بالآخر ابوبكر كو پانچ رائے كے ذريعے سقيفہ ميں خليفہ چن ليا گيا _

برادران اہل سنت نے اس واقعہ كو حقيقت سمجھ ليا اور خليفہ كے انتخاب كو مشاورت اور اجماع مسلمين كا نام دے كر اسے تسليم كرليا_

اس حقيقت كو آشكار كرنے كے لئے ضرورى ہے كہ مندرجہ ذيل عنوانات كا تجزيہ كياجائے تاكہ اصل واقعے كى وضاحت ہوسكے_

پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں

شيعوں كا عقيدہ ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا مسئلہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں ہى فرمان خدا كے ذريعے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طے اور واضح كرديا تھا اور جو كچھ سقيفہ بنى ساعدہ ميں پيش آيا وہ فرمان خدا اور حكم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف محض ايك تحريك تھي_

گذشتہ فصل ميں ہم نے چند ايسى دليليں اور حديثيں بيان كى تھےں جو مذكورہ دعوے كو ثابت كرتى ہيں _ يہاں اس مسئلے كا تاريخى واقعات كى روشنى ميں جائزہ لياجائے گا_

۳۲

پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دوش مبارك پر ايك عالمى تحريك كى قيادت تھى يہ بات بھى واضح و روشن ہے كہ اس تحريك كے پروان چڑھنے اور سياسى ، ثقافتى نيز اجتماعى سطح پر گہرى تبديلى لانے كيلئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا زمانہ رسالت (بعثت سے رحلت تك) كافى نہ تھا اگرچہ اسلام كے اس عظےم رہبر و پيشوا نے اس مختصر و محدود عرصے ميں ہى انسان كى تكميل اور اسلامى معاشرے كى تشكيل كے لئے بہت عظيم واساسى اقدامات كئے ليكن اس عالمى تحريك كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد بھى جارى و سارى رہناتھا_

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت اچانك واقع نہيں ہوئي بلكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كے وقوع پذير ہونے سے كچھ عرصہ قبل محسوس كرليا تھا كہ جلد ہى اس دنيا سے كوچ كر جائيں گے _ چنانچہ آپ نے ''حجةالوداع'' كے موقع پر كھلے لفظوں ميں اس كا اعلان بھى كرديا تھا اس كے بعد آپ كے پاس اسلام كے مستقبل سے متعلق سوچنے كے لئے وقت كافى تھا اور آپ كوئي اصولى روش وتدبير اختيار كركے ان عوامل كى پيش بندى كرسكتے تھے جن سے انقلاب خداوندى كى راہ ميں آئندہ كسى خطرے كے آنے كا امكان ہوسكتا تھا_ان حالات و واقعات كے بارے ميں غيبى عوامل كى مدداور سرچشمہ وحى سے ارتباط كو عليحدہ كركے بھى غور كياجاسكتا ہے ايسى صورت اور ان واقعات كى روشنى ميں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سامنے اسلام كے مستقبل سے متعلق تين ہى ممكن راہيں ہوسكتى تھيں :

لا تعلقي

شوري

اپنے وصى اور جانشين كے بارے ميں وصيت

اب ہم تاريخى حقائق اور ان سياسى واجتماعى حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے جو اس وقت اسلامى معاشرہ پر حكم فرما تھے مذكورہ بالا تينوں راہوں كا اجمالى جائزہ ليں گے_

۳۳

لاتعلقي

لاتعلقى سے مراد يہ ہے كہ ہم اس بات كے قائل ہوجائيں كہ رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اسلام كے مستقبل سے كوئي سرو كار نہ تھا بلكہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے نوشتہ تقدير اور آئندہ حالات كے رحم وكرم پر چھوڑ ديا تھا_

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جيسى شخصيت كے بارے ميں ايسى بے سرو پا باتوں كا فرض كرلينا كسى طرح بھى حقائق وواقعات كے موافق نہيں ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اسلامى رسالت كا مقصد يہ تھا كہ دور جاہليت كے جتنے بھى رگ وريشے اس دور كے انسان ميں ہوسكتے تھے انہيں اس كے دل وجان كے اندر ہى خشك كردياجائے اور اس كے بجائے ايك جديد اسلامى انسان كى تعمير كى جائے _ جب بھى كوئي ہادى و راہنما نہ ہو تو معاشرہ بے سرپرست رہ جائے اور انقلاب ميں ايك ايسا خلاء پيدا ہوجائے گا جس كى وجہ سے اس كو مختلف قسم كے خطرات لاحق ہوجائيں گے _ مثال كے طور پر :

لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ روح رسالت اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تحريك كے مقاصد كو وہى شخص پايہ تكميل تك پہنچاسكتا تھا كہ جس كو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہچنواياتھا اور امت كے كسى فرد ميں اسكى صلاحيت نہ تھى كہ وہ رسول كے بعد زمام دارى اور رسالت كے مقصد كے درميان كوئي متين تناسب قائم كرسكے اور اسلامى معاشرہ سے ان جاہلى تعصبات كو دور كرسكے جو ابھى تك معاشرہ كى رگ و پے ميں موجود تھے كہ جس نے انہيں مہاجر، انصار ، قريش و غير قريش اور مكى و مدنى وغيرہ ميں تقسيم كر ركھا تھا_

۳۴

تھے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ كاغذ و دوات لے آؤ تاكہ ميں تمہارے لئے ايسا نوشتہ لكھ دوں كہ جس سے تم (ميرے بعد)ہرگز گمراہ نہ ہو(۵)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا يہ فرمانا ہى اس بات كى واضح و روشن دليل ہے كہ آيندہ رونما ہونے والے خطرات كے بارے ميں آپ كو تشويش تھى اور ان كا سد باب كرنے كے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوشاں تھے _

شورى

شورى سے مراد يہ ہے كہ گويا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد مسلمانوں كى رہبرى كو انہى كے وست اختيار ميں دے ديا تھا كہ جسكو چاہيں منتخب كر ليں _

اگرچہ اسلام نے قانون اور اصول شورى (مشاورت)كا احترام كيا ہے اور قرآن ميں اس كا شمار اوصاف مومنين ميں ہوتا ہے(۶) ليكن اس كا تعلق ان واقعات سے ہے جو مسلم معاشرے كے درميان رونما ہوتے ہيں اور ان كى بارے ميں كوئي نص صريح موجود نہ ہو كيونكہ اسلام كے قوانين و احكام مشوروں سے طے نہيں ہوتے يہى وجہ تھى كہ وہ ذمہ دارياں (تكاليف) جو وحى كى ذريعے معين كى گئيں تھيں ان كے بارے ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كسى سے مشورہ نہ كيا چنانچہ مسئلہ ولايت و امامت كا شمار بھى ايسے ہى مسائل ميں ہوتاہے جو امور مشاورت كى حدود سے خارج ہيں يہى نہيں بلكہ اس كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى اپنى رائے كا اظہار نہيں فرما سكتے تھے _

يہى وجہ ہے كہ جس وقت قبيلہ بنى عامر كى ايك جماعت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات كرنے كے لئے آئي اور اس نے يہ تجويز پيش كى كہ ہم اس شرط پر ايمان لانے كو تيار ہيں كہ آپ اپنے بعد خلافت ہمارى تحويل ميں دے ديں اگرچہ اس وقت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انتہائي پر آشوب حالات سے دو چار تھے نيز قريش(۷) كى جانب سے آپ پر سخت دباؤ بھى تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوخوفزدہ كرنے كى كوشش بھى كى جا رہى تھى مگر اس كے باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا يہ كام خداند تعالى كا ہے (اور اس ميں مجھے كوئي اختيار نہيں )وہ جسے بھى مناسب سمجھے گا اسے ہى ميرے بعد ميرا جانشين مقرر كرے گا(۸) _

۳۵

اس كى علاوہ اسلام كى فلاح و بہبود كى خاطر پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نظام شورى كو سودمند اقدام خيال فرماتے تو آپ يقينا اپنے زمانہ حيات كے دوران ايسے دستورات عمل كا سلسلہ مرتب فرماتے جس كے ذريعے امت مسلمہ خود كو اس اقدام كے لئے تيار كر ليتى كہ شورى كے ذريعے نظام حكومت جارى ركھ سكے كيونكہ دور جاہليت كے نظام حكومت ميں كوئي ايسا ادارہ كار فرمانہ تھا جو شورى كى ذريعے نظام حكومت چلاسكے اگرچہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے كسى وقت بھى نظام شورى اور راس كے دائرہ عمل نيز مشخصات كو منفى قرار نہيں ديا اور نہ ہى مسلمانوں كو يہ ہدايت فرمائي كہ وہ اس سے گريز كريں _

اس سے قطع نظر ابو بكر نے جب عمر كو اپنا جانشين مقرر كيا تو يہ اس امر كى واضح دليل تھى كہ اس اقدام كے ذريعے نظام شورى كى نفى كى گئي اور يہ ثابت ہو گيا كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نظام شورى كے حامى نہ تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے اپنا حق سمجھتے تھے كہ زمانہ حيات ميں كسى ايسے شخص كو مقرر فرما ديں جو رحلت كے بعد آپ كا جانشين ہو سكے يہى نہيں بلكہ عمر بھى خليفہ مقرر كرنا اپنا حق سمجھتے تھے اور اسے انہوں نے چھ افراد كے درميان محدود كر ديا تھا تاكہ وہ اپنے درميان ميں سے كسى ايك شخص كو خليفہ مقرر كر ليں اور ان افراد كے علاوہ انہوں نے تمام امت مسلمہ كو اس حق سے محروم كر ديا تھا_

وصى اور جانشين كا تقرر

وصايت (عملى جانشينى)سے ہمارى مراد يہ ہے كہ تنہا ايك يہى ايسى راہ ہے جو حقائق اور فطرت اور خلافت كى واقعيت سے عين سازگار ہے اور ہم كہہ سكتے ہيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلام كى آيندہ فلاح و بہبود كى خاطر يہ مثبت اقدام فرمايا تھا اور خدا عالم كے حكم سے ايك شخص كو جانشين كى حيثيت سے مقرر كر ديا تھا چنانچہ صرف يہى ايك ايسا مثبت اقدام تھا جو مستقبل ميں اسلام كى خير و صلاح اور رسالت كو خطرات سے محفوظ ركھنے كا ضامن ہو سكتا تھا _ اسلام ميں سبقت ، اور دوسرے مسلمانوں كى نسبت عليعليه‌السلام كى واضح و امتيازى خصوصيات كى بناء پر كسى دوسرے شخص كو ان كے علاوہ

۳۶

پيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كا حق حاصل نہ تھا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علىعليه‌السلام كى باہمى زندگى كے ايسے بہت سے شواہد موجود ہيں جو اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حيثيت سے حضرت علىعليه‌السلام كى تربيت فرمارہے تھے كہ آيندہ اسلامى معاشرے كے آپعليه‌السلام ہى قائد و رہبر ہيں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپعليه‌السلام كو حقائق رسالت كى بہت سے خصوصيات سے نوازا تھا حضرت علىعليه‌السلام جب كبھى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كوئي بات دريافت فرماتے تو آپكا سوال ختم ہونے كے بعد رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كلام كى ابتدا فرماتے اور تہذيب و افكار كے ہدايا و تحائف كى دولت سے آپعليه‌السلام كو معزز و مفتخر فرماتے چنانچہ روز و شب كا زيادہ وقت باہمى گفتگو اور خلوت مےں گذرتا _

اس كے علاوہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانشينى كا مختلف مواقع پر اعلان بھى فرما ديا تھا چنانچہ اس ضمن ميں بكثرت احاديث نبوى موجود ہيں جس ميں سے حديث يوم الدرار ' حديث الثقلين ' حديث منزلت اور سب سے اہم غدير (حضرت علىعليه‌السلام كے دست مبارك پر مسلمانوں كا بيعت كرنا)قابل ذكر اور اس دعوے كى شاہد و گواہ ہيں(۹) _

مزيد بر آں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد بہت سے حوادث رونما ہوئے اور آپ نے پورى زندگى جہاد و ذمہ دارى ميں گذارى جس سے يہ بات ثابت ہوتى ہے كہ آپعليه‌السلام ہى رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جانشين ہيں آپ كى لياقت كا ايك نمونہ يہ ہے كہ جن مسائل كو حل كرنا خلفاء كے لئے ناممكن تھا انھيں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى سے حل كرتے تھے ليكن اس كے برعكس ہميں خلفاء كے زمانہ ميں ايك موقعہ بھى ايسا نظر نہيں آتا كہ جس ميں امامعليه‌السلام نے كسى مشكل كے حل كيلئے يا اسلام كے نظريہ سے مزيد آگہى كے لئے كسى سے رجوع كيا ہو(۱۰)

سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات

معن بن عدى اور عويم بن ساعدہ نامى دو افراد كے دلوں ميں '' سعد بن عبادہ خزرجى '' كے

۳۷

خلاف كدورت تھى ان كے ذريعے عمر اور ابوبكر كو خبر ملى كہ انصار سقيفہ بنى ساعدہ ميں جمع ہو رہے ہيں چنانچہ يہ دونوں حضرات نہايت عجلت كے ساتھ اضطراب و پريشانى كے عالم ميں ابو عبيدہ كے ہمراہ سقيفہ ميں داخل ہوئے عمر گفتگو كا آغاز كر كے ابوبكر كى خلافت كيلئے ميدان ہموار كرنا چاہتے تھے ليكن ابو بكر نے منع كر ديا اور كہا كہ اگر مجھ سے كوئي فرو گذاشت ہو جائے تو تم اس كى تلافى كرو چنانچہ اس كے بعد انھوں نے تقرير شروع كى اور خداوند عالم كى وحدنيت اور رسالت رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شہادت كے بعد كہا كہ مہاجرين ميں ہم وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے دين اسلام قبول كيا اور اس لحاظ سے تمام لوگ ہمارے پيروكار ہيں ہم طائفہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مركز قبائل عرب ميں سے ہيں نيز ان كے درميان نقطئہ ربط و تعلق ہيں آپ انصار بھى خدا و رسول كے ياور و مددگار ہيں پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پشتيبان اور ہمارے سردار ہيں دين اور اس كے فائدے ميں آپ ہمارے شريك ہيں _ خداوند تعالى كى رضا ميں راضى رہے اور اس پاك پروردگار نے تم سے مہاجر بھائيوں كے لئے جو كچھ چاہا اسے قبول كرنے ميں لائق و شائستہ ترين افراد ثابت ہوئے ليكن تمہيں اس پر حسد نہيں كرنا چاہيے اسلام كى ترقى كى خاطر تم نے مشكلات ميں اپنى طاقت كے جوہر دكھائے اس بنا پر تمہارے لئے يہ زيبا نہيں كہ اپنے ہى ہاتھوں سے اس دين كى بيخ كُنى كرو_ ميں تمہيں ابو عبيدہ اور عمر كى بيعت كى دعوت ديتا ہوں ميں دونوں ہى كو قابل و اہل سمجھتا ہوں(۱۱) اس موقعے پر ان دونوں نے كہا : لوگوں ميں سے كسى كو تم پر برترى حاصل نہيں ہے _ تم پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے يار غار ہو

اس خطبے كے اہم نكات

ابو بكر نے جو تقرير كى اس كے بعض نكات كا ذكر كرنا يہاں ضرورى ہے _(۱۲)

ابوبكر نے پہلے مہاجرين كى تعريف كى تاكہ ان كى عظمت انصار كے ذہنوں پر نقش ہو جائے اس كے بعد جس حد تك ممكن تھا اُس نے انصار كى بھى تعريف و توصيف بيان كى اور خود كو منصف كى حيثيت سے ظاہر كيا جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ انصار كو اپنى طرف متوجہ كر ليا اس تردو كے بر خلاف جو

۳۸

خلافت كے سلسلہ مےں انصار كے ذہنوں ميں تھا ابوبكر نے يقين كے ساتھ كہا مہاجرين كى خلافت جو خدا كى مرضى كے مطابق ہے اور يہى خدا كا حتمى فيصلہ ہے چنانچہ ہر قسم كا تذبذب ختم ہو گيا ابوبكر نے خلافت كو مہاجرين كا مسلم حق ثابت كرنے كے بعد اس سلسلہ ميں انصار كى كسى بھى فعاليت كو خدا سے عہد شكنى اور دين كو برباد كرنے كے مترادف قرار دے ديا اپنى تقرير كے آخر ميں ابوبكر نے حاضرين كو عُمر و ابوعبيدہ كى بيعت كى دعوت دى وہ طبيعى طور پر ابوبكر كو مقدم سمجھتے تھے گويا وہ پہلے ہى خليفہ كى تعيين كے سلسلہ ميں منصوبہ بنا چكے تھے _(۱۳)

انصار كا ردّعمل

پروگرام كے تحت ابوبكر كى ہونے والى تقرير سن كر انصار اپنے گذشتہ موقف سے ہٹ گئے اور انہوں نے مہاجرين كے سامنے اپنے سرخم كر ديئے ان ميں '' حباب بن منذر '' ہى ايك ايسے انصار تھے جنہوں نے كھڑے ہو كر يہ دھمكى دى كہ اگر مہاجرين انصار سے مصالحت نہيں كرتے تو ہم عليحدہ مستقل حكومت قائم كر ليں گے ليكن عمر نے فورا ہى اس كى گفتگو كى كمزورى سے فائدہ اٹھاتے ہوئے كہا كہ افسوس دو تلواريں ايك ميان ميں نہےں سماسكتيں خدا كى قسم عرب اس بات پر ہرگز راضى نہےں ہوں گے كہ حكومت تمہارے حوالے كر دى جائے اس كى وجہ يہ تھے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم ميں سے نہےں تھے _(۱۴) مہاجرين اور انصار كے درميان حصول اقتدار كى خاطر بہت سخت كشمكش ہونے لگى چنانچہ انصار كے دو قبيلوں اوس اور خزرج كے درميان شديد اختلاف پيدا ہو گيا قبيلہ اوس كے سردار ''اسيد بن حضير'' كا ميلان مہاجرين كى طرف تھا ، اس نے اظہار رغبت كيا انكى پيروى كرتے ہوئے '' بشير بن سعد خزرجى '' نے لوگوں كو مہاجرين كى بيعت كى جانب رغبت دلانا شروع كى بالاخر اس كشمكش كا نتيجہ يہ ہوا كہ خلافت كا فيصلہ ابوبكر كے حق ميں ہوگيا اور انھيں پانچ رائے كے ذريعے خليفہ منتخب كر ليا گيا _(۱۵)

اس واقعے كا اگر اجمالى طور پر جايزہ ليں تو اس نتيجے پر پہنچيں گے كہ سقيفہ ميں جو كچھ پيش آيا

۳۹

اور اس ميں ابوبكر كو خليفہ منتخب كيا گيا وہ انتخاب كے اصول و ضوابط كے منافى تھا _

اس معاملے مےں فيصلہ اتنى عجلت و جلدى سے كيا گيا كہ كسى صاحب فكر شخص كو اتنا موقعہ ہى نہےں ديا گيا كہ وہ اس مسئلے كے بارے ميں غور و فكر كر سكے اور كسى مخالف كوبھى اتنى مہلت نہ ملى كہ وہ اپنے دعوے كے حق ميں دليل پيش كر سكے اس عجلت و تندى كے باعث روح انتخابات كى اچھى طرح پائمالى كى گئي كہ حتى كہ ان لوگوں سے بھى جو سقيفہ ميں موجود تھے حق رائے دہى سلب كر ليا گيا شروع سے آخر تك ذاتى ميلانات و احساسات كار فرما رہے اس كے علاوہ انتخاب اس طرح كيا گياكہ بيشتر مسلمان قطعى لاعلم و بے خبر رہے اور جنہيں اطلاع بھى ہوئي تو وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مراسم تجہيز و تكفين ميں منہمك و مشغول تھے وہ سقيفہ والے انتخابات ميں شريك نہيں ہو سكتے تھے _

جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے انتخاب كے لئے جس مجلس كى تشكيل كى گئي تھى اس ميں كم از كم كوئي ايسا شخص تو اپنے افراد خاندان كے ہمراہ وہاں پيش پيش رہتا جس كى قدر و منزلت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نظروں ميں وہى تھى جو حضرت ہارون كى حضرت موسيعليه‌السلام كے نزديك تھى اس واقعے پر جب ہم شروع سے آخر تك نظر ڈالتے ہيں تو ديكھتے ہيں يہ سب اس طرح پيش آيا كہ قبيلہ بنى ہاشم بالخصوص اس كے سردار يعنى اميرالمومنين علىعليه‌السلام ان واقعات سے قطعى بے خبر اور لاعلم ركھا گيا _

علىعليه‌السلام كى بيعت كے بارے ميں تجويز

حضرت علىعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جسد مبارك كى تجہيز و تدفين ميں منہمك و مشغول تھے كہ ابو سفيان ' جس مےں حس تدبر و سياست فہمى بہت تيز تھى ' پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر پہنچا تاكہ مسلمانوں كے درميان اختلاف پيدا كرے اور حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے يہ تجويز پيش كى كہ آپعليه‌السلام كے دست مبارك پر بيعت كرے ليكن حضرت علىعليه‌السلام اسكى نيت كو جانتے تھے لہذا اسكى باتوں كو قطعى اہميت نہ دى اور فرمايا تمہارا مقصد مسلمانوں كے درميان فتنہ پھيلانا ہے_(۱۶)

جس وقت ابوسفيان نے يہ تجويز پيش كى توعين اس وقت حضرت عباس نے بھى چاہا كہ اپنے

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

لیکن بعض صحابہ جو واقعہ غدیر میں موجود تھے ، علی سے حسد اور بغض کی وجہ سے بیٹھے رہے اور شہادت دینے کے لیے کھڑے نہیں ہوئے ، ان میں انس بن مالک  بھی تھے ، جب امام علی ع منبر پر سے اترے  تو آپ  نے ان سے کہا : انس ! کیا بات ہے تم دوسرے صحابہ  کے ساتھ اس دن جو کچھ  تم نے سنا تھا اس  کی شہادت  دینے کے لیے کھڑے نہیں ہوتے ؟ انس نے کہا: امیر المومنین !  اب میں بڈھا  ہوگیا ہوں مجھے  یاد نہیں رہا کیا بات ہوئی تھی ۔ امام علی ع نے کہا: اگر تم جھوٹ بول رہے ہوتو اللہ  تمھیں برص  کی بیماری میں مبتلا کردے ۔ چنانچہ انس  ابھی وہاں سے اٹھے  بھی نہ تھے کہ ان کے چہرے پر برص کے داغ پڑگئے ۔انس روتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے شہادت کو چھپایا تھا ، اس لیے مجھے عبد صالح  کی بد دعا لگ گئی ۔ یہ مشہور قصہ ہے اس کو ابن قتیبہ نے کتاب المعارف (۱) میں بیان کیا ہے جہاں باب  البرص میں انس بن مالک کاشمار  ان لوگوں میں کیا ہے جن کی بیماری شے شکل بگڑ گئی تھی ۔

امام احمد بن حنبل نے بھی مسند(۲) میں اس واقعہ  کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ سب کھڑے ہوگئے  سوائے تین آدمیوں  کے جنھیں علی ع کی بد دعا لگ گئی ۔ مناسب ہوگا یہا ں ان تین اشخاص کی تصریح کردیں جن کا ذکر امام احمد بن جنبل  نے احمد بن یحیی بلاذری کے حوالے سے کیا ہے ۔ وہ کہتے  ہیں:

"جب امام علی ع نے شہادت طلب کی اس وقت  منبر کے نیچے انس بن مالک ، براء بن عازب اور جریر بن عبداللہ  بجلی  بیٹھے ہوئے تھے لیکن ان تین میں سے کوئی بھی نہیں اٹھا ۔ امام علی نے اپنی بات کو دہرایا  پھر بھی ان میں سے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ اس پر امام نے کہا " یا الہی ! جو کوئی جانتے بوجھتے اس شہادت کوچھپائے اسے اس وقت تک  دنیا سے نہ اٹھانا جب تک اس پر کوئی ایسی نشانی نہ لگ جائے جس سے وہ پہچانا جائے " چنانچہ انس بن مالک کو برص

-----------------------

(۱):- ابن قتیبہ ،کتاب المعارف صفحہ ۲۵۱۔

(۲):- امام احمد بن جنبل ، مسند جلد۱ صفحہ ۱۱۹

۱۴۱

کی بیماری لگ گئی ۔ براء بن عازب کی بینائی جاتی رہی  اورجریر ہجرت کے بعد دوبارہ بدّو بن گئے اور شرات جاکر اپنی ماں کے گھر مرے ۔ یہ ایک مشہور قصہ ہے جس کو بہت سے مورخین  نے نقل کیا ہے(۱)

"فاعتبروايآ اَولى الألباب"

جو شخص  بھی اس واقعہ کے مختلف(۲) پہلوؤں پر غور کرے گا ، جو تقریبا فراموش کیا جاچکا تھا اور جسے امام علی ع نے چوتھائی صدی گزرنے کےبعد دوبارہ زندہ گیا تھا ۔ وہ امام علی ع کی عظمت ،بلند ہمتی اور خلوص کا قائل ہوجائے گا انھوں نے نہ صرف صبر کا حق ادا کردیا بلکہ صبر کے حق سے بھی زیادہ صبر کیا ۔ جب بھی انھوں نے اسلام اور مسلمانوں  کے مفاد میں ضرورت  محسوس کی توبے کہے ، ابوبکر  ،عمر اور عثمان کو نصیحت  کرنے اور مفید مشورے دینے سے گریز نہیں کیا ۔ لیکن اس سب کے باوجود واقعہ غدیر ان کےذہن میں ہمیشہ مستحضر رہا اور جب بھی موقع ملا انھوں نے اسے زندہ کیا ۔ یہاں تک کہ بھرے مجمع میں علی الاعلان  انھوں نے دوسروں سے بھی اس واقعہ کی گواہی چاہی ۔

دیکھیے امام علی ع نے اس واقعہ  کی یاد کو زندہ کرنے اور سب مسلمانوں پر خواہ وہ اس واقعہ کے وقت موجود تھے یا نہیں اتمام حجّت  کرنے کا کیا دانشمندانہ طریقہ اختیار کیا ہے ۔ اگر امام علی ع یہ کہتے کہ لوگو! غدیر خم میں رسول اللہ  نے خلافت  کے لیے مجھے نامزد  کیا تھا ، تو حاضرین  پر ذرا بھی اثر نہ ہوتا بلکہ وہ الٹا اعتراض کرتے کہ امام نے اتنی طویل مدت تک خاموشی کیوں اختیار کی۔

---------------------

(۱):- ابن عساکر ، تاریخ دمشق جلد ۲ صفحہ ۷ اور جلد ۳ صفحہ ۱۵۰ ۔شرح نہج البلاغہ تحقیق محمد ابو الفضل جلد ۱۹ صفحہ ۲۱۷ ۔میر حامد حسین موسوی ،عبقات الانوار جلد ۲ صفحہ ۳۰۹ ۔ ابن مغازلی ،مناقب علی بن ابی طالب صفحہ ۲۳ ۔ علی بن برہان الدین حلبی ، سیرۃ حلبیہ  جلد ۳ صفحہ ۳۳۷

(۲):- ایک پہلو یہ ہے کہ امام علی ع نے صحابہ  کو دعوت دی تھی کہ حدیث غدیر کی شہادت دیں ۔ اس واقعہ کو محدثین اور مورخین  کی ایک بڑی تعداد نے بیان کیا ہے ۔جن کاذکرپہلے  ہوچکا ۔جیسے امام احمد بن حنبل  ،ابن عساکر ،ابن ابی الحدید وغیرہ ۔

۱۴۲

لیکن جب آپ نے یہ کہا کہ میں ہر مسلمان کو قسم دیتاہوں کہ اگر  اس نے وہ سنا ہو جو رسول اللہ ص نے غدیر کے دن فرمایا تھا ، تو وہ کھڑے  ہو کر اس کی شہادت دے ، تو اس واقعہ کو حدیث نبوی  کے طور پر تیس ۳۰ صحابیوں نے بیان کیا جن میں  ۱۶ بدری تھے ۔ اس طرحی امام نے جھٹلانے  والوں ، شک کرنے والوں اور اتنی طویل مدت تک خاموشی اختیار کرنے پر اعتراض کرنے والو  کا منہ بند کردیا ۔ کیونکہ  اب آپ کے ساتھ ساتھ ان تیس صحابہ کا سکوت اس بات کی روشن  دلیل تھا کہ معاملہ دراصل نازک تھا اور جیسا کہ ظاہر ہے اس موقع پر سکوت ہی میں اسلام کا مفاد تھا ۔

شوری پر تبصرہ

گزشتہ اوراق میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ شیعوں کے بقول خلیفہ کا تعین اللہ کے ہاتھ میں ہے جو رسول اللہ ص وحی آنے پر کرتے تھے ۔ یہ قول  احکام اسلامی کے  فلسفے  سے مکمل مطابقت رکھتا ہے ۔کیونکہ سورہ قصص میں ہے ۔ "وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ"

اور چونکہ اللہ سبحانہ  کی مشیت یہ کہ امت محمدیہ بہترین امت ہو جو انسانوں کے لیے پیدا کی گئی ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس قیادت  دانشمندی ،پختگی ، قوت ،شجاعت ، ایمان اور زہد وتقوی کے اعلی معیار پر فائز ہو ۔ یہ صفات  صرف اس فرد  میں پائی جاسکتی ہیں جس کو اللہ تعالی نے منتخب  کیا ہو اور قیادت وسیادت کی خصوصی  صفات سے نوازا ہو ۔ سورہ حج آیت ۷۵ میں ہے :

" اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلاً وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ " اللہ انتخاب کرلیتا ہے فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کا اور اسی طرح آدمیوں میں سے بھی ۔بے شک اللہ خوب سننے  والا خوب دیکھنے والا  ہے ۔

جس طرح اللہ سبحانہ انبیاء کا انتخاب کرتا ہے اسی طرح اوصیاء کا بھی ۔

۱۴۳

وہی انتخاب کرتا ہے ۔

رسو ل اللہ ص نے فرمایا ہے :

"لكلّ نبيّ ٍ وصيّ ٌ وأنا وصيّي عليّ ُبن أبي طالب "

ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے ۔ میرے وصی علی بن ابی طالب ع ہیں(۱)

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت ص نے فرمایا :

"أنا خاتم الأنبياء وعليّ خاتم الأوصياء ".

میں خاتم الانبیاء ہوں اور علی ع خاتم الاوصیاء ہیں (۲)

اس طرح شیعوں  نے دوسروں  کوبھی بے فکر کردیا اور خود بھی آرام سے ہوگئے انھوں نے اپنا معاملہ  اللہ اور اس کے رسول  ص کے سپرد کردیا ہے ۔اب ان میں نہ کوئی خلافت کا دعوی کرسکتا ہے ۔ نہ کسی کو خلافت  کا لالچ  ہوسکتا ہے ، نہ کسی نص کی بنیاد پر اور نہ خود اپنی مرضی سے ۔کیونکہ ایک تو نص اختیار اور شوری کی  نفی کرتی ہے ، دوسرے نص میں رسول اللہ ص نے خود مخصوص اشخاص کا ناموں کے ساتھ تعیّن کردیا ہے(۳) ۔اسی لیے شیعوں میں تو کسی کو خلافت کا دعوی  کرنے کی جراءت  ہی نہیں ہوسکتی ۔اور اگر بالفرض کوئی ایسی جسارت کرے بھی تو اسے فاسق اور دین سے خارج سمجھا جائے گا۔

 لیکن اہل سنت کے نزدیک خلافت کا فیصلہ شوری اور لوگوں کی پسند سے ہوتا ہے ۔ اس طرح اہل سنت نے ایسا دروازہ  کھول دیا ہے جسے امت میں سے کسی شخص کے لیے بھی بند نہیں کیا جاسکتا اور اس طرح ہر ایرے غیرے  نتھوخیرے کے لیے موقع ہے کہ وہ خلافت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھے ۔ خلافت کا حصول

--------------------

(۱):-ابن عساکر ، تاریخ دمشق جلد ۳ صفحہ ۵ ۔ خوارزمی ،مناقب خوارزمی صفحہ ۴۲  ۔ینابیع المودۃ صفحہ ۷۹ ۔

(۲):- حافظ قندوزی حنفی ، ینابیع المودۃ جلد ۲ صفحہ ۳ بحوالہ دیلمی ۔خوارزمی ،مناقب خوارزمی  ۔محب طبری ، زخائر العقبی ۔

(۳):- تعداد کی روایت  بخاری ومسلم میں ہے ۔ اورتعداد  اور اسماء کی روایت کے لیے دیکھیے ینابیع المودۃ جلد ۳ صفحہ ۹۹

۱۴۴

قریش ہی کے لیے نہیں بلکہ ایرانیوں ،ترکوں ، مغلوں حتی کہ غلاموں  کے لیے بھی ممکن ہوکیا ۔ایک شاعر نے خلافت اسلامیہ کا یوں نقشہ کھینچا ہے ۔

"هزلت حتّى بان من الهزال

كلاها وحتَى استامّها كلّ مفلس "

خلافت اس قدر لاغر ہوگئی ہے کہ دبلے  پن سے اس کے گردے نظر آنے لگے اور ہر مفلس  قلّاش  نے اسے اپنا بنا لیا ۔  وہ سب اقدار  اور شرائط  جن کا خلیفہ  میں ہونا ضروری تھا ، بھاپ بن کر ہوا میں اڑگئیں ۔ ایسا ہونا قدرتی تھا کہ کیونکہ بشر آخر بشر ہے ۔ اس کے انسانی جذبات ہیں ، خود غرضی اس کی جبلّت ہے ۔وہ اقتدار ملتے ہی بدل جاتا ہے اور پہلے سے بد تر ہوجاتا ہے ۔

ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کی  تصدیق اسلامی تاریخ سے ہوتی ہے ۔مسلمانوں  پر ایسے ایسے بد کاروں اور بد کرداروں نے حکومت کی ہے جن میں نہ حیا تھی ، نہ اخلاق اورنہ ہی ایمان ۔

مجھے دڑ ہے کہ بعض قارئین  اسے مبالغہ تصور کریں گے ۔ لیکن اگر وہ امویوں اورعباسیوں وغیرہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو انھیں معلوم ہوجائےگا کہ کوئی امیر المومنین کھلم کھلا شراب پیتے تھے ، بندروں سے کھیلتے تھے ، اور بندروں کو سونے کے زیور پہناتے تھے ۔ کسی امیرالمومنین  نے اپنی ایک کنیز کو اپنا لباس پہنا کر مسلمانوں  کو نماز پڑھانے کے لیے بھیج دیا تھا ۔ ایک امیر المومنین کی حبابہ نامی باندی  مرگئی تو یہ حضرت ہوش وحواس ہی کھو بیٹھے تھے ۔ ایک امیر المومنین کسی شاعر کے شعر سن کر ایسے مستائے کہ لگے اس کا عضو تناسل چومتے ۔ہم ان لوگوں کے حالات  بیان کرنے میں وقت ضائع کرنا نہیں چاہتے ، کیونکہ ان کے متعلق مسلمانوں کا پہلے ہی فیصلہ ہے کہ یہ محض کٹ کھنی بادشاہت کی نمائندگی  کرتے تھے خلافت کی قطعا نہیں ۔ کیونکہ رسول اللہ ص سے ایک قول منسوب ہے کہ

"الخلافة من بعدي ثلاثون عاما ً ثمّ تكون ملكا ً عضوضا ً."

۱۴۵

میرے بعد تیس سال خلافت رہے گی اس کےبعد کٹ کھنی بادشاہت ہوگی ۔

میرے خیال میں اس قول کو رسول اللہ ص سے  منسوب کرنا درست نہیں ہے ۔کیونکہ ثالث حضرت عثمان کو۔ جنھیں حضرت علی ع سے افضل شمار کیا جاتا ہے بلکہ ذوالنورین اور کامل الحیاء والایمان کہا جاتا ہے ۔ مسلمانوں نے قتل  کردیا تھا کیونکہ وہ ان سے تنگ آئے ہوئے تھے یہاں تک کہ انھوں نے حضرت عثمان کو  مسلمانوں کے قبر ستان "جنت البقیع " میں دفن بھی نہیں ہونے دیا ۔ چنانچہ ان ان کو بے غسل وکفن بقیع سے ملحق یہودیوں کے قبرستان " حش کوکب" میں سپر د خاک کیا گیا ۔

جو شخص تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرے گا ، اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوگا  کہ خلفاء کے کرتوت عام لوگوں سے بھی بد تر تھے لیکن اس وقت ہماری بحث  کاموضوع یہ نہیں ہے ۔ جسے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کا شوق ہو  ۔وہ طبری  کی تاریخ الامم والملوک ، ابن اثیر  کی  کامل التاریخ ، ابو الفداء کی المختصر فی تاریخ البشر اور ابن قتیبہ دینوری کی الامامۃ والسیاسۃ  وغیرہ سے رجوع کرے ۔ میں صرف اپنی پسند سے خلیفہ مقرر کرنے کی خرابی اور اس نظریہ کابنیادی بانجھ پن دکھانا چاہتا تھا ۔کیونکہ جس کو ہم آج پسند کرتے ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ کل وہ ہماری نظروں میں مردود قرارپائے اوریہ معلوم ہو کہ ہم نے غلطی کی تھی اور ہماری پسند صحیح نہیں تھی ۔ ایسا ہوچکا ہے ۔ عبدالرحمن بن عوف نے خود عثمان  بن عفان کو خلافت کے لیے پسند کیا لیکن بعد میں پچھتا ئے مگر اس وقت کیا ہوسکتا تھاجب چڑیاں چگ گئین کھیت ۔ عبدالرحمن بن عوف سابقین اولین میں سے ایک جلیل القدر صحابی تھے ۔ جب ان کی پسند درست ثابت نہیں ہوئی تو کیسے کوئی ہوش مند شخص  ایسے بانجھ  اوربے ثمر نظریے  سے مطمئن  ہوسکتا ہے جس نے صرف فتنہ وفساد ، افراتفری  اور خونریزی  کو جنم دیا ہو ۔ جب ابو بکر  کی بیعت کی جارہی تھی ۔ جو بقول عمر بن خطاب اچانک ہوگئی تھی لیکن اللہ نے اس کے برے نتائج  سے محفوظ رکھا ۔جس کی کتنے ہی صحابہ نے مخالفت کی اورجب علی ع کی بیعت جو بر سر عام ہوئی تھی بعض صحابہ نے

۱۴۶

توڑ دی جس کے نتیجے  میں جنگ جمل ، جنگ صفین ، اور جنگ نہروان واقع ہوئیں  تو کیسے کوئی دانش مند اس نظریے سے مطمئن ہوسکتا ہے جو آزمایاگیا  لیکن شروع ہی سے قطعی  ناکام  رہا بلکہ مسلمانوں کے لیے وبال ثابت ہوا ۔ بالخصوص جب کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ لوگ جو شوری کے ذریعے سے خلیفہ کے انتخاب کے قائل ہیں ایک دفعہ کسی کے خلیفہ مقرر ہوجانے کے بعد نہ اسے تبدیل کرسکتے ہیں اور نہ معزول کرسکتے ہیں ۔ جب عثمان کو مسلمانوں نے معزول کرنا چاہا تو انھوں نے یہ کہہ کرانکار کردیا کہ جو قمیص اللہ مجھے پنہائی ہے میں اسے نہیں اتاروں گا ۔

مغرب کی متمدن قومیں جو جمہوریت  کی چمپئین  بنی  ہوئی ہیں سربراہ مملکت  کے انتخاب سے متعلق ان کے طریقہ کار کو دیکھ کر ہمیں اس نظریے سے اور بھی نفرت ہوجاتی ہے ۔ہوتایہ ہے کہ مختلف سیاسی پارٹیاں اقتدارکی دوڑ میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے  کی کوشش میں لگی رہتی ہیں ، مختلف  اداروں سے سودے بازی کرتی ہیں اور ہر قیمت پر اقتدارکی کرسی تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ اس مقصد کے لیے اربوں ڈالرپروپیگنڈے پر خرچ کیے جاتے ہیں ، جب کہ قوم کے غریب اور کمزور طبقے  کو اس رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے جیسے ہی کوئی شخص اس سیاسی کھیل کے ذریعے  اقتدار کی کرسی تک پہنچ جاتا  ہے تو ہو فورا  اپنے حامیوں ، پارٹی ممبروں ، دوستوں اور عزیزرشتہ داروں کا وزارت کے منصوبوں ، اعلی عہدوں اور کلیدی  انتظامی ذمہ داریوں پر تقرکردیتا ہے اور دوسرے لوگ سربراہی کی معینہ مدت ختم ہونے تک حزب اختلاف  میں رہنے ہیں ۔ اور اس پوری مدت میں نہ صرف سربراہ کے لیے مشکلات اور رکاوٹیں  پیداکرتے رہتے ہیں  بلکہ حتّی  الامکان کوشش کرتے ہیں کہ اسے بدنام کریں اور ہوسکے تو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اس کا اقتدار ہی ختم کردیں ۔ اس سارے قضیے میں مجبور اوربے دست وپا قوم کی تقدیر میں صرف خسارہ ہی خسارہ ہے ۔

مغربی نظام جمہورت کے نتیجے میں کتنی انسانی اقدار پامال  ہوتی ہیں اور  آزادی اور جمہوریت کے نام پر اور پرکشش نعروں  کی آڑ میں کتنی سیاہ کاریاں فروغ پاتی ہیں !! یہاں تک کہ (بعض یورپی ملکوں مثلا برطانیہ میں ) لواطت کو قانونا جائز

۱۴۷

قرار دے دیا گیا ۔اور نکاح کے بجائے  زنا کو ترقی پسندی شمار کیاگیا ۔ میں حیران ہوں کہ مغربی تہذیبی  کی برکات  کو کہاں تک گنواؤں !

دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ہو اب زرکم عیار ہوگا

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرےگی

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپائیدار ہوگا

اب دیکھیے ! شیعہ عقیدہ کتنا عظیم اور کتنا فراخدلانہ ہے کہ اس کے مطابق خلافت اصول دین میں شامل ہے ، کیونکہ معاشرتی اور انفرادی زندگی  کی درستگی کا دارومدار اسی پر ہے ۔

شیعوں کا یہ قول کہ منصب خلافت اللہ کے اختیار میں ہے ایک عاقلانہ  اور صحت مندانہ نظریہ ہے ،جس کو عقل قبول کرتی ہے ، ضمیر کا اطمینان ہوتا ہے اور جس کی تائید  قرآن وسنت سے ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس سے لالچیوں ، غدّاروں  اور منافقوں کی ہمّت شکنی ہوتی ہے اور ظالموں ،گردن کشوں اور ملوک وسلاطین کا غرور خاک میں ملتا ہے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا ہے "

"فَرِيقاً هَدَى وَفَرِيقاً حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلاَلَةُ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ اللّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ "

ایک گروہ اس نے راہ دکھا دی اور ایک گروہ ہے کہ اس پر گمراہی ثابت ہوچکی ۔انھوں نے شیطان کو اپنا رفیق بنالیا  ہے اور سمجھے ہیں کہ ہم راہ پائے ہوئے ہیں ۔(سورہ اعراف ۔آیت ۳۰)

۱۴۸

مسئلہ تقدیر ۔ اہل سنت کی نظر میں

میری گذشتہ زندگی میں قضا وقدر کا موضوع میرے لیے ایک چیستان بنا ہوا تھا کیونکہ مجھے اس کی کوئی ایسی وضاحت نہیں ملتی تھی جو میرے دل کو لگے اور جس سے مجھے اطمینا ن حاصل ہو ۔ میں اس سلسلے میں حیران وپریشان تھا ۔

مجھے اہل سنت کے مدرسے میں سکھایا گیا تھا کہ انسان اپنے افعال میں آزاد نہیں ، وہ وہی کچھ کرتا ہے جو اس کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے اور وہی کچھ بنتا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ۔جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کے پاس دوفرشتے بھیجتا ہے جو اس کی عمر ، اس کی روزی اور اس کے اعمال کےبارے میں تفصیل لکھ دیتے  ہیں کہ وہ شقی ہوگیا یا سعید(۱)یعنی خوش نصیب ہوگا یا بد نصیب ۔

میں عجب مخمصے میں گرفتار تھا کیونکہ ایک طرف تو مجھے یہ تعلیم دی گئی تھی،  دوسری طرف میری عقل اور میرا ضمیر یہ کہتا تھا کہ اللہ تعالی عادل ہے ، وہ اپنی مخلوق  پر ظلم نہیں کرتا ۔یہ کیسے  ہوسکتا ہے کہ وہ کسی کو ایسے افعال پر مجبور کرے جس کاو ہ بعد میں محاسبہ کرے یاکسی کو ایسے جرم کی پاداش میں عذاب دے جو خود اس سے  اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہو اور جس کے ارتکاب پر اسے مجبور کیا ہو ۔ دوسرے مسلمان نوجوانوں کی طرح میں بھی اسی فکری تضاد میں مبتلا تھا اور میرا تصور یہ تھا کہ اللہ تعالی قوی اور جبار ہے ، اس کی شان یہ ہے کہ

اس سے کچھ نہیں کی جاسکتی اور وں سے بازپرس ہوگی (۲)

---------------------

(۱):- صحیح بخاری کتاب القدر۔

(۲):-"لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ" (سورہ انبیاء ۔آیت ۲۳)

۱۴۹

وہفعّا لٌ لّما يريد جو چاہتا ہے کرتا ہے  اس نے مخلوق کو پیدا کیا ، کچھ کو جنتی بنایا اور کچھ کو جہنمی ۔پھر یہ کہ وہ رحمان ورحیمی ہے وہ اپنے بندوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ،جیسا کہ قرآن میں ہے :

" تمھارا پروردگار اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔(۱)

ایک اور آیت میں ہے :

"بے شک اللہ لوگوں پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں "(۲)

اوریہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

"اللہ تعالی اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ شفیق ہے جتنی ماں اپنے بچے پر ہوتی ہے "(۳)

میں اسی فکری تضاد کے پیچ وخم میں الجھا ہوا تھا اور اس کی جھلک میرے قرآن کے سمجھنے میں بھی نظر آتی تھی ۔ میں کبھی کہتا تھا کہ انسان خود اپنا نگران ہے اور وہی اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے :

"جو کوئی ذراسی نیکی کرے گا ، وہ اس کو دیکھ لے گا اور جو کوئی ذراسی بدی کرے گا ،وہ اس کو دیکھ لے گا (۴)۔

کبھی تومیں یہ سمجھتا تھاکہ انسان کو کوئی دوسری طاقت چلاتی ہے ،اس کی اپنی کوئی قوت ہے اورنہ طاقت ،وہ خود انپے کو نہ نفع پہنچاسکتا ہے نہ نقصان  اور نہ اپنے لیے روزی کا بندوبست کرسکتا ہے کیونکہ بفحوائے قرآن

---------------------

):-" وَ مَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِلَعَبِيد" (سورہ حم سجدہ ۔آیت ۴۶)

(۲):-" إِنَّ اللّهَ لاَ يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئاً وَلَـكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ " (سورہ یونس ۔آیت ۴۴)

(۳):- صحیح بخاری جلد ۷ صفحہ ۷۵

(۴):-" فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ () وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ ()" (سورہ زلزال ۔آیت ۷-۸)

۱۵۰

تم تو بس وہی چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے(۱) ۔

میں ہی نہیں بلکہ اکثر مسلمان اسی فکر تضاد میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر علماء ومشائخ  سےجب قضا وقدر کےبارےمیں گفتگو کی جائے تو ان سے کوئی  تو ان سے کوئی ایسا جواب نہیں بن پڑتا جس سے دوسروں کو تو کیا خود انھیں بھی اطمینان ہوسکے ۔بس کہہ دیتے ہیں کہ اس موضوع پرزیادہ بحث کی ضرورت نہیں بلکہ بعض تو تقدیر کی اس بحث کو ہی حرام قراردیتے ہیں  اور کہتے ہیں کہ مسلمان  کے لیے صرف اتنا ایمان لانا ضروری ہے کہ اچھی بری تقدیر اللہ کی طرف سے ہے ۔اگر کوئی  ضدی ان سے پوچھ بیٹھے کہ " یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ پہلے تو اپنے بندے  کو گناہ کے ارتکاب  پر مجبور کرے اور پھر اسے نار جہنم میں جھونک دے " تو فورا اس پر کافر وزندیق ہونے کا فتوی جڑدیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم دین سے نکل گئے ۔غرض ایسے ہی لغو الزام لگائے جاتے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عقلیں ٹھٹر  کررہ گئی ہیں اور لوگوں کا عقیدہ یہ ہوگیا ہے کہ جوڑے آسمانوں میں بنتے ہیں یعنی نکاح پہلے سے قسمت میں لکھا ہوتا ہے اور اسی طرح طلاق بھی ۔ اورحد تو یہ ہے کہ زنا بھی مقدر ہوتا ہے ۔ تقدیر مبرم کے ماننے والے کہتے ہیں کہ عورت کی شرمگاہ پر ان سب مردوں کے نام لکھے ہوتے ہیں جو اس کے ساتھ صحبت کرنے والے ہیں ۔ یہی حال شراب پینے اور کسی کو قتل کرنے کا ہے ۔ بلکہ یہی صورت کھانے پینے کی ہے ۔ تم وہ چیز کھاپی سکتےہو جو اللہ نے تمھارے مقدر میں لکھ دی ہے ۔

ایک مرتبہ یہ مسائل پیش کرنے کےبعد میں نے اپنے یہاں کے ایک عالم سے کہا کہ قرآن تو ان خیالات کی تکذیب کرتا ہے اور یہ ممکن نہیں کہ رسول ص ، قرآن کے برعکس کچھ کہے ، نکاح کے متعلق اللہ تعالی فرماتا ہے کہ

جو عورتیں تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کرو۔(۲)

-----------------------

(۱):-" وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ" (سورہ انسان ۔آیت۳۰)

(۲):-"فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاء" (سورہ نساء ۔آیت ۳)

۱۵۱

اس آیت سے صاف اختیار اور آزادی کا اظہار ہوتا ہے ۔ طلاق کے متعلق قرآن کریم میں سے ہے :

"طلاق  تو دو ہی مرتبہ ہے ،پھر یا تو رکھ لینا ہے قاعدے کے مطابق یاچھوڑ دینا ہے خوش دلی کےساتھ "(۱)

یہاں بھی وہی اختیار کی بات ہے ۔

زنا کے متعلق ارشاد ہے :

"زنا کے پاس نہ پھٹکو کہ وہ بے حیائی اوربری راہ ہے "(۲)

اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آدمی جو کچھ کرتا ہے اپنے ارادہ واختیار سے کرتا ہے ۔ شراب کے بارے میں حق تعالی فرماتاہے :

"شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اورجوئے کے ذریعے تمھارے آپس میں دشمنی اور کینہ ڈال دے اور تمھیں ذکر الہی اور نماز سے روک دے ۔ تو کیا تم ان کاموں سے باز آجاؤگے ؟"(۳)

اس آیت میں شراب اورجوئے کی ممانعت کی گئی ہے جس کے معنی یہی ہیں کہ آدمی کو اختیار ہے کہ چاہے تو شراب پئے اور جواکھیلنے یا پھر یہ کام نہ کرے ۔ قتل عمدکے بارے میں ارشاد ہے۔

"اللہ نے جس انسان کی جان کو محترم قراردیا ہے اس ناحق قتل مت کرو"(۴)

--------------------

(۱):-" الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ " (سورہ بقرہ۔آیت ۲۲۹)

(۲):-" وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاء سَبِيلاً" (سورہ بنی اسرائیل۔آیت۳۲)

(۳):-" إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ " (سورہ مائدہ ۔آیت ۹۱)

(۴):-" وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ" (سورہ انعام ۔آیت ۱۵۱)

۱۵۲

ایک اور آیت میں ہے :

جو کوئی کسی مسلمان کو قصدا قتل کرےگا اس کا ٹھکانا جہنم  ہے جہاں ہو ہمیشہ رہےگا ۔ اللہ اس پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرےگا اور اس کے لیے دردناک عذاب تیار رکھے گا"(۱)

اس آیت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کو اختیار ہے کہ وہ کسی کو قتل کرے یانہ کے ۔

کھانے پینے کے متعلق بھی اللہ تعالی نے کچھ حدود  مقرر کی ہیں ۔ چنانچہ ارشادہے :

" کھاؤ پیور لیکن اسراف نہ کرو ۔اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا "(۲)

یہ آیت بھی آدمی کے اختیار پر ہی دلالت کرتی ہے ۔یہ تمام آیات سنانے کے بعد میں نے ان عالم سے کہا : قبلہ ! ان تمام قرآنی دلائل کے بعد بدی آپ یہی کہتے ہیں کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور بندہ اپنے افعال میں مختار نہیں ، مجبور ہے ؟

ان عالم نے جواب دیا : تنہا اللہ تعالی ہی ہے جو کائنات میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتاہے ، اور دلیل کے طورپر انھوں نے یہ آیت پڑھی :

" اسے دنیا جہاں کے مالک توجسے چاہے دے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے اور جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلیل کرے ۔ ہرطرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے ۔

----------------------

(۱):-" وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً " (سورہ نساء ۔آیت ۹۳)

(۲):-" وكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ " (سورہ اعراف ۔آیت ۲۱)

۱۵۳

بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔(۱)

میں نے کہا کہ ہمارا اختلاف اللہ تعالی کی مشیّت کے بارے میں نہیں ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ جب اللہ تعالی کوئی کام کرنا چاہے تو سب جن وانس اور دیگر تمام مخلوقات مل کر بھی اس کی مشیت کے خلاف نہیں کرسکتے ۔سوال بندوں کے افعال کا ہے کہ آیا وہ ان کے افعال ہیں یا وہ اللہ کی طرف سے ہیں ؟؟

اس پر ان عالم صاحب نے "لکم دينکم ولی دين" (تمھار عقیدہ تمھارے ساتھ اور میرا عقیدہ میرے ساتھ )کہہ کر بحث کا دروازہ بند کردیا ۔ہمارے جو علمائے کرام اپنی رائے پر قانع رہتے ہیں اور اسے بدلنے پر کبھی تیار نہیں ہوتے عموما ان کی آخری دلیل ہی ہوتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ دو دن کے بعد میں ان عالم صاحب سے پھر ملا اور میں نے کہا:

اگر آپ کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالی ہی سب کچھ کرتاہے اور بندوں  کو کچھ اختیار نہیں ، تو آپ خلافت کے بارے میں بھی یہی کیوں نہیں کہتے  کہ اللہ سبحانہ ، جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے پسند کرتا ہے ، بندوں کی مرضی کو کوئی دخل نہیں ۔

وہ :- جی ہاں ! میں  یہی تو کہتاہوں ۔ اللہ نے ہی پہلے ابو بکر کو پسند کیا ،پھر ابو بکر کو ، پھر عثمان کو ۔ اگر اللہ تعالی یہ چاہتا کہ علی خلیفہ اول ہوں تو جن وانس مل کر بھی علی ع کو خلیفہ اول ہونے سے نہیں روک سکتے تھے ۔

میں :-یہ کہہ کر تو آپ پھنس گئے ۔

وہ :- میں کیسے پھنس گیا ؟

----------------------

(۱):-" قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ" (سورہ آل عمران ۔آیت ۲۸)

۱۵۴

میں :-اب یا تو آپ یہ کہیں کہ اللہ نے چار خلفاء راشدین  کو تو خود پسند کرلیا ، اس کے بعد یہ کام لوگوں پر چھوڑ دیا کہ جس کو چاہیں پسند کرلیں یا پھر یہ کہیں کہ اللہ نے لوگوں کو بالکل اختیار نہیں دیا بلکہ رسول اللہ ص کی وفات سے لے کر تا قیام قیامت سب خلفاء کو وہی پسند کرتا ہے؟وہ :- دوسری شق کا قائل ہوں" قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء  "

میں:- اس کا مطلب یہ ہوا کہ تاریخ  اسلام میں بادشاہوں او رکجکلاہوں  کی وجہ سے کجی واقع ہوئی ہو اللہ کی طرف سے بھی ۔ کیونکہ اللہ نے ہی انھیں حکومت  عطا کرکے مسلمانوں پر مسلط کیا تھا ۔وہ:-جی ہاں ! یہی بات ہے ۔بعض صلحاء نے اس آیت میں "امرنا" کو تشدید کسے ساتھ پڑھا ہے یعین"وإذا أردنا أن نهلك قريةً أمرنا مترفيها" مطلب یہ کہ ہم نے انھیں حاکم بنادیا ۔

میں :-(تعجب سے) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے ہی چاہا تھا کہ ابن ملجم  علی ع کو قتل کرے اور یزید کے ہاتھوں حسین  بن علی کا قتل ہو ۔وہ :- (فتحمندانہ لہجے میں)جی ہاں ! بالکل ۔ کیا آپ نے نہیں سنا کہ رسول اللہ ص نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا تھا کہ بعد میں آنے والوں میں س ب سے شقی وہ ہوگا جو تمھارے سر کو دوپارہ کرکے چہرے کو خون سے تربتر کردےگا ۔ اسی طرح  رسول اللہ ص نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات بتادی تھی کہ سیدنا حسین ع کو کربلا میں قتل کردیا جائے گا ۔ نیز آپ نے خبر بھی دی تھی کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں میں صلح کرائیں  گے اس طرح ہر شے ازل سے لکھی ہوئی ہے ۔ جو کچھ مقدر میں لکھا ہے اس سے انسان کو مفر نہیں ۔ اس طرح آپ ہارگئے ہیں میں نہیں ۔

میں کچھ دیر خاموش رہا ۔میں دیکھ رہاتھا کہ وہ پھولے نہیں سمارہے ہیں ۔کیونکہ بخیال خویش وہ میرے مقابلے میں جیت گئے تھے ۔ میں سوچ رہا تھا کہ ان حضرت کو کیسے سمجھاؤں کہ اللہ تعالی کو کسی واقعے کا علم ہونے کے قطعی یہ معنی نہیں کہ اللہ

۱۵۵

نے وہ واقعہ تقدیر میں لکھ دیا ہے یا لوگوں کو اس پر مجبور کردیا ہے ۔ مجھے پہلے سے معلوم تھاکہ یہ نظریہ ان صاحب کے دماغ میں بیٹھنا ممکن نہیں تھا ۔ اس لیے میں نے ایک اور سوال کیا کہ :کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نئے اور پرانے سب بادشاہ اور وہ سب لوگ جو اسلام اور مسلمانوں سے لڑتے رہے ہیں ، اللہ کے مقررکیے ہوئے ہیں ؟

وہ :- اس میں کیا شک ہے ۔

میں :- کیا وہ فرانسیسی نو آباد یاتی حکومت جس نے تیونس ، الجزائر اور مراکش پر قبضہ کررکھا تھا ، وہ بھی اللہ کی طرف سے تھی ؟

وہ :- جی ہاں ! اور جب مقررہ وقت آیا تو فرانس ان ملکوں سے نکل گیا ۔

میں:- بہت خوب ! پھر آپ پہلے کیسے اہل سنت کے اس نظریہ کا دفاع کررہے تھے کہ رسول اللہ  ص نے وفات پائی مگر خلافت کا معاملہ شوری پر چھوڑدیا کہ مسلمان جسے چاہیں خلیفہ بنالیں؟

وہ :- جی ہاں ! میں اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انشااللہ قائم رہوں گا ۔

میں :- پھر آپ ان دونوں باتوں میں کیسے تطبیق دیتے ہیں : ایک اللہ کا اختیار اور دوسرے شوری کے ذریعے مسلمانوں کا اختیار؟

وہ جب مسلمانوں نے ابوبکر کو پسند کرلیا تو اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ نے بھی انھیں پسند کرلیا ۔

میں:- کیا سقیفہ میں خلیفہ کو منتخب کرنے کے بارےمیں کوئی وح نازل ہوئی تھی ؟

وہ :-استغفراللہ ! محمد ص کے بعد کوئی وحی نازل نہیں ہوئی ۔ یہ شیعوں کا عقیدہ ہے ۔

میں :- شیعوں  کو اور ان کے باطل عقائد کو چھوڑیے ۔ آپ نے اپنے عقیدے کے مطابق ہمیں قائل کیجئے ۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ابو بکر کو پسندکرلیا تھا؟

وہ :- اگر اللہ کا ارادہ کچھ اور ہوتا تو مسلمان اور سارا جہان مل کر بھی اللہ

۱۵۶

کے ارادے کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا تھا۔اس وقت میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ نہ سوچتے ہیں ، نہ قرآنی آیات پر غور کرتے ہیں ۔ ان کی رائے کبھی بھی کسی علمی نظریے کے مطابق نہیں ہوسکتی ۔

اس پر مجھے ایک اور قصہ یاد آگیا :

ایک دن میں اپنے دوست کےساتھ کجھور  کے باغ میں ٹہل رہا تھا اور ہم قضا وقدر کےبارےمیں  باتیں  کررہے تھے۔اتنے میں میرے سرپر ایک پکی ہوئی کجھور گری ۔میں نے اسے کھانے کے لیے گھاس پر سے  اٹھا کر منہ میں رکھ لیا ۔ میرے دو ست نے کہا : تم وہی چیز کھاسکتے ہو جو تمھارے نصیب میں ہو کیونکہ دانے دانے پرکھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے ۔

میں نے کہا : اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ لکھی ہوئی ہے تو پھر میں اسے نہیں کھاؤں گا  یہ کہہ کر میں نے اسے پھینک دیا ۔

میرے دوست نے کہا: سبحان اللہ اگر کوئی چیز تمھارے نام پر لکھی ہوئی نہ ہو  تو اللہ اسے تمھارے پیٹ میں سے بھی نکال لے گا ۔

میں نے کہا : اگر بات یہ ہے تو میں اسے کھالیتاہوں ۔یہ کہہ کر میں نے اسے دوبارہ اٹھالیا ۔ میں یہ ثابت کرناچاہتا تھا کہ اس کا کھانا یا نہ کھانا میرے اختیار میں ہے ۔ میرا دوست مجھے دیکھتا رہا ، یہاں تک کہ میں اس کجھور کو چباکر نگل  گیا ۔ اس وقت میرے دوست نے کہا : دیکھا یہ تمھارے نام پر ہی لکھی ہوئی تھی  اس طرح وہ اپنے خیال میں مجھ سے جیت گیا ۔ کیونکہ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ اب میں اس کجھو ر کو پیٹ میں سے نکال لیتا ۔

جی ہاں ! اہل سنت کا قضاوقدر کے بارے میں یہی عقیدہ ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ جب میں سنی تھا تو میرایہی عقیدہ تھا ۔

قدرتی بات ہے کہ میں اس عقیدے  کی وجہ سے جو فکری تضاد پر مبنی تھا پریشان رہتا تھا اور یہ بھی قدرتی بات ہے کہ اس عقیدے کی وجہ سے ہم لوگ جمود کا شکار ہیں ۔ ہم اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ اللہ ہماری حالت بدل دے

۱۵۷

ہم اپنی ذمہ داری سے بھاگتے ہیں اور اپنی ذمہ داری کو اللہ پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر آپ کسی چور ، ڈاکو سے یا شرابی ،زانی اور جواری سے یا اس مجرم سے بات کریں جس نےکی نابالغ لڑکی  کو اغوا کرکے اس سے اپنی شہوت کی آگ بجھانے کے بعد اسے قتل کردیا ہو،تو وہ یہی کہے گا کہ " وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے" میں کیا کرسکتا تھا ، میری تقدیر میں یہی لکھا تھا " ۔ یہ عجب خدا ہے جو پہلے تو انسان کو حکم دیتاہے کہ اپنی بیٹی کو زندہ دفن کردے ۔ پھر پوچھتا ہے کہے" بأيّ ذنبٍ قتلت" یہ بھی   جان لیجیے کہ ان باتوں کی وجہ سے مغربی مفکرین اور دانشور ہمیں حقارت کی نظر سے دیکھتے   ہیں اور ہماری کم سمجھی پر ہنستے ہیں ۔ اہل یورپ اسی عقیدہ تقدیر کو عربوں کی جہالت اور ان کی پس ماندگی کا خاص سبب بتلاتے ہیں ۔ یہ بھی قدرتی امر ہے کہ محققین نے دریافت کیا ہے کہ اس عقیدہ کو اموی حکمرانوں نے رواج دیا ۔ وہ کہتے تھے چونکہ  اللہ تعالی نے انھیں حکومت  عطا کی ہے ، اس لیے ان کی اطاعت فرض ہے ،جس نے ان کی اطاعت کی ، اس نے اللہ کی اطاعت کی او رجو ان کی مخالفت کرتاہے وہ باغی ہے اور بغاوت کی سزاموت ہے ۔ اسلامی تاریخ میں اس کے متعدد شواہد موجود ہیں ۔

عثمان بن عفان ہی کی مثال لیں ۔ جب لوگوں نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ خلافت سے دستبردار ہوجائیں ، تو انھوں نے کہا کہ میں وہ قمیص نہیں اتاروں گا جو اللہ نے مجھے پہنائی ہے ۔(۱) گویا  ان کی رائے  کے مطابق خلافت وہ لباس تھا جو  اللہ نے انھیں پہنایا تھا کسی کو حق نہیں تھا کہ وہ یہ لباس ان سے چھین لے ، بجز اللہ تعالی کے کہ وہی یہ لباس اتار سکتا ہے یعنی ان کی موت  کی صورت میں ۔ اسی طرح معاویہ بن ابی سفیان نے اپنے ایک "خطبے میں کہا تھا کہ " میں نے تم سے اس لیے جنگ نہیں کی تھی کہ تم نماز  پڑھو ،روزے رکھو  یا حج کرو اور زکات دو ۔ میں نے تو اس لیے جنگ کی تھی  کہ تم پر حکومت

-----------------------

(۱):- تاریخ طبری اور تاریخ ابر اثیر "عثمان کا محاصرہ"

۱۵۸

کروں ۔اللہ نے میری یہ خواہش پوری کردی حالانکہ تمھیں یہ بات ناگوار ہے "۔

یہ عثمان سے بھی ایک قدم آگے ہیں ۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالی پر الزام ہے  کہ اس نے مسلمانوں کے قتل میں مدد دی ۔ معاویہ کا یہ خطبہ مشہور ہے ۔(۱)

لوگوں کی مرضی کے خلاف یزید کو زبردستی ولی عہد مقرر کرتے وقت بھی معاویہ نے یہی دعوی کیا تھا کہ اللہ نے یزید کو میرا جانشین بنادیا ہے ۔ مورخین نے معاویہ کا وہ مکتوب نقل کیا ہے جو اس نے اس موقع پر چہار طرف بھیجاتھا ۔ والی مدینہ مروان بن حکم کو لکھا تھا کہ

"اللہ نے میری زبان سے بیعت یزید کا فیصلہ صادر کرادیا ہے "(۲)

جب امام زین العابدین  ع کو زنجیروں میں باندھ کر فاسق وفاجر ابن زیاد کے سامنے  لے جایا گیا تو ان نے پوچھا یہ کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا  کہ یہ علی بن الحسین ع ہیں ۔ اس نے کہا : کیا اللہ نے حسین بن علی کو ہلاک نہیں کردیا ؟ امام زین العابدین ع کی پھوپھی جناب زینب نے جواب دیا : نہیں ! انھیں نے اللہ اور اس کے رسول  ص کے دشمنوں نے قتل کردیا ہے ۔ ابن زیاد نے کہا: دیکھا! اللہ نے تمھارے گھروالوں کے ساتھ کیا کیا ؟ اس پر جناب زینب  نےکہا : میں نے تو جو کچھ دیکھا  اچھا ہی دیکھا ہے ۔ اللہ نے ان کے لیے قتل ہونا لکھاتھا سو وہ اپنی قبروں  میں جا سوئے عنقریب اللہ تجھے اور انھیں ایک جگہ جمع کرےگا وہاں دیکھ لینا کیا ہوتا ہے تیری ماں تجھ پر روئے اے اب مرجانہ !(۳)

اس طرح یہ عقیدہ  بنی امیہ اور ان کے حامیوں سے چل کر امت اسلامیہ میں پھیل گیا ۔

---------------------

(۱):- ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبیین صفحہ ۷۰ ۔حافظ ابن کثیر البدایہ والنہایہ جلد ۸ صفحہ ۱۳۱ ۔شرح نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ ۱۶

(۲):- ابن قتیبہ ،الامامہ والسیاسہ جلد۱ صفحہ ۱۵۱

(۳):- ابوالفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین مقتل حسین۔

۱۵۹

قضا وقد رکے بارے میں شیعہ عقیدہ

جیسے ہی شیعہ(۱) علماء سے میری واقفیت ہوئی اور میں نے ان کی کتابیں پڑھیں ،قضاوقدر کے بارے میں بالکل  نیا علم مجھ پر منکشف ہوگیا ۔ ایک مرتبہ کسی نے امام علی علیہ السلام سے قضاوقدر کے بارے میں پوچھا تھا تو آپ نے غیر مبہم ،صاف اور جامع الفاظ میں اس کی وضاحت  کرتے ہوئے فرمایا :

"افسوس ! شاید تم یہ سمجھتے ہو کہ قضاوقدر نے لازمی اور حتمی فیصلہ کردیا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر جزا وسزا  کاسوال ہی نہ ہوتا اور نہ وعدہ وعید کا کچھ مطلب ہوتا ۔اللہ نے اپنے بندوں کو جن کاموں کاحکم دیا ہے ، ان کا اختیار بھی دیا ہے اور جن کاموں سے منع کیا ہے ، ان کا نقصان بھی بتلادیا ہے اللہ نے انسان کو تھوڑے سے کام کا مکلف ٹھہرایا ہے اور کوئی مشکل کام نہیں بتلایا ۔پھر یہ کہ تھوڑے کام پر بہت زیادہ اجر کا وعدہ کیا ہے ۔ نہ کوئی اللہ کی نافرمانی پر مجبور ہے اور نہ کسی پر اس کی اطاعت  کے لیے زبردستی ہے ۔ اس نے انبیاء کو کھیل کے طور نہیں بھیجا اور کتابوں کو فضول نہیں اتارا ۔ اس نے آسمانوں کو زمین کو انو جو کچھ ان کے درمیان ہے بے مقصد پیدا نہیں کیا ۔ یہ تو کافروں کا گمان ہے ۔ ان کا فروں  کی تو دوزخ میں شامت آجائےگی "۔(۲)

یہ بیان کتنا واضح اور کتنا غیر مبہم ہے ۔میں نے اس موضوع پر اس سے جامع اور قاطع بیان اور حقیقت کے اظہار میں اس سے بہتر دلیل نہیں دیکھی ۔اللہ

-------------------------

(۱):- جیسے آیت اللہ محمد باقر صدر جن سے میں  خوب استفادہ کیا ۔آیت اللہ سید ابو بوالقاسم خوئی ،علامہ علی طباطبائی اورسید حکیم وغیرہ ۔

(۲):- شیخ محمد عبدہ ،شرح نہج البلاغہ جلد ۴ صفحہ ۶۷۳

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328