حکم اذاں

حکم اذاں11%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 61522 / ڈاؤنلوڈ: 6825
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

لیکن بعض صحابہ جو واقعہ غدیر میں موجود تھے ، علی سے حسد اور بغض کی وجہ سے بیٹھے رہے اور شہادت دینے کے لیے کھڑے نہیں ہوئے ، ان میں انس بن مالک  بھی تھے ، جب امام علی ع منبر پر سے اترے  تو آپ  نے ان سے کہا : انس ! کیا بات ہے تم دوسرے صحابہ  کے ساتھ اس دن جو کچھ  تم نے سنا تھا اس  کی شہادت  دینے کے لیے کھڑے نہیں ہوتے ؟ انس نے کہا: امیر المومنین !  اب میں بڈھا  ہوگیا ہوں مجھے  یاد نہیں رہا کیا بات ہوئی تھی ۔ امام علی ع نے کہا: اگر تم جھوٹ بول رہے ہوتو اللہ  تمھیں برص  کی بیماری میں مبتلا کردے ۔ چنانچہ انس  ابھی وہاں سے اٹھے  بھی نہ تھے کہ ان کے چہرے پر برص کے داغ پڑگئے ۔انس روتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے شہادت کو چھپایا تھا ، اس لیے مجھے عبد صالح  کی بد دعا لگ گئی ۔ یہ مشہور قصہ ہے اس کو ابن قتیبہ نے کتاب المعارف (۱) میں بیان کیا ہے جہاں باب  البرص میں انس بن مالک کاشمار  ان لوگوں میں کیا ہے جن کی بیماری شے شکل بگڑ گئی تھی ۔

امام احمد بن حنبل نے بھی مسند(۲) میں اس واقعہ  کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ سب کھڑے ہوگئے  سوائے تین آدمیوں  کے جنھیں علی ع کی بد دعا لگ گئی ۔ مناسب ہوگا یہا ں ان تین اشخاص کی تصریح کردیں جن کا ذکر امام احمد بن جنبل  نے احمد بن یحیی بلاذری کے حوالے سے کیا ہے ۔ وہ کہتے  ہیں:

"جب امام علی ع نے شہادت طلب کی اس وقت  منبر کے نیچے انس بن مالک ، براء بن عازب اور جریر بن عبداللہ  بجلی  بیٹھے ہوئے تھے لیکن ان تین میں سے کوئی بھی نہیں اٹھا ۔ امام علی نے اپنی بات کو دہرایا  پھر بھی ان میں سے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ اس پر امام نے کہا " یا الہی ! جو کوئی جانتے بوجھتے اس شہادت کوچھپائے اسے اس وقت تک  دنیا سے نہ اٹھانا جب تک اس پر کوئی ایسی نشانی نہ لگ جائے جس سے وہ پہچانا جائے " چنانچہ انس بن مالک کو برص

-----------------------

(۱):- ابن قتیبہ ،کتاب المعارف صفحہ ۲۵۱۔

(۲):- امام احمد بن جنبل ، مسند جلد۱ صفحہ ۱۱۹

۱۴۱

کی بیماری لگ گئی ۔ براء بن عازب کی بینائی جاتی رہی  اورجریر ہجرت کے بعد دوبارہ بدّو بن گئے اور شرات جاکر اپنی ماں کے گھر مرے ۔ یہ ایک مشہور قصہ ہے جس کو بہت سے مورخین  نے نقل کیا ہے(۱)

"فاعتبروايآ اَولى الألباب"

جو شخص  بھی اس واقعہ کے مختلف(۲) پہلوؤں پر غور کرے گا ، جو تقریبا فراموش کیا جاچکا تھا اور جسے امام علی ع نے چوتھائی صدی گزرنے کےبعد دوبارہ زندہ گیا تھا ۔ وہ امام علی ع کی عظمت ،بلند ہمتی اور خلوص کا قائل ہوجائے گا انھوں نے نہ صرف صبر کا حق ادا کردیا بلکہ صبر کے حق سے بھی زیادہ صبر کیا ۔ جب بھی انھوں نے اسلام اور مسلمانوں  کے مفاد میں ضرورت  محسوس کی توبے کہے ، ابوبکر  ،عمر اور عثمان کو نصیحت  کرنے اور مفید مشورے دینے سے گریز نہیں کیا ۔ لیکن اس سب کے باوجود واقعہ غدیر ان کےذہن میں ہمیشہ مستحضر رہا اور جب بھی موقع ملا انھوں نے اسے زندہ کیا ۔ یہاں تک کہ بھرے مجمع میں علی الاعلان  انھوں نے دوسروں سے بھی اس واقعہ کی گواہی چاہی ۔

دیکھیے امام علی ع نے اس واقعہ  کی یاد کو زندہ کرنے اور سب مسلمانوں پر خواہ وہ اس واقعہ کے وقت موجود تھے یا نہیں اتمام حجّت  کرنے کا کیا دانشمندانہ طریقہ اختیار کیا ہے ۔ اگر امام علی ع یہ کہتے کہ لوگو! غدیر خم میں رسول اللہ  نے خلافت  کے لیے مجھے نامزد  کیا تھا ، تو حاضرین  پر ذرا بھی اثر نہ ہوتا بلکہ وہ الٹا اعتراض کرتے کہ امام نے اتنی طویل مدت تک خاموشی کیوں اختیار کی۔

---------------------

(۱):- ابن عساکر ، تاریخ دمشق جلد ۲ صفحہ ۷ اور جلد ۳ صفحہ ۱۵۰ ۔شرح نہج البلاغہ تحقیق محمد ابو الفضل جلد ۱۹ صفحہ ۲۱۷ ۔میر حامد حسین موسوی ،عبقات الانوار جلد ۲ صفحہ ۳۰۹ ۔ ابن مغازلی ،مناقب علی بن ابی طالب صفحہ ۲۳ ۔ علی بن برہان الدین حلبی ، سیرۃ حلبیہ  جلد ۳ صفحہ ۳۳۷

(۲):- ایک پہلو یہ ہے کہ امام علی ع نے صحابہ  کو دعوت دی تھی کہ حدیث غدیر کی شہادت دیں ۔ اس واقعہ کو محدثین اور مورخین  کی ایک بڑی تعداد نے بیان کیا ہے ۔جن کاذکرپہلے  ہوچکا ۔جیسے امام احمد بن حنبل  ،ابن عساکر ،ابن ابی الحدید وغیرہ ۔

۱۴۲

لیکن جب آپ نے یہ کہا کہ میں ہر مسلمان کو قسم دیتاہوں کہ اگر  اس نے وہ سنا ہو جو رسول اللہ ص نے غدیر کے دن فرمایا تھا ، تو وہ کھڑے  ہو کر اس کی شہادت دے ، تو اس واقعہ کو حدیث نبوی  کے طور پر تیس ۳۰ صحابیوں نے بیان کیا جن میں  ۱۶ بدری تھے ۔ اس طرحی امام نے جھٹلانے  والوں ، شک کرنے والوں اور اتنی طویل مدت تک خاموشی اختیار کرنے پر اعتراض کرنے والو  کا منہ بند کردیا ۔ کیونکہ  اب آپ کے ساتھ ساتھ ان تیس صحابہ کا سکوت اس بات کی روشن  دلیل تھا کہ معاملہ دراصل نازک تھا اور جیسا کہ ظاہر ہے اس موقع پر سکوت ہی میں اسلام کا مفاد تھا ۔

شوری پر تبصرہ

گزشتہ اوراق میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ شیعوں کے بقول خلیفہ کا تعین اللہ کے ہاتھ میں ہے جو رسول اللہ ص وحی آنے پر کرتے تھے ۔ یہ قول  احکام اسلامی کے  فلسفے  سے مکمل مطابقت رکھتا ہے ۔کیونکہ سورہ قصص میں ہے ۔ "وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ"

اور چونکہ اللہ سبحانہ  کی مشیت یہ کہ امت محمدیہ بہترین امت ہو جو انسانوں کے لیے پیدا کی گئی ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس قیادت  دانشمندی ،پختگی ، قوت ،شجاعت ، ایمان اور زہد وتقوی کے اعلی معیار پر فائز ہو ۔ یہ صفات  صرف اس فرد  میں پائی جاسکتی ہیں جس کو اللہ تعالی نے منتخب  کیا ہو اور قیادت وسیادت کی خصوصی  صفات سے نوازا ہو ۔ سورہ حج آیت ۷۵ میں ہے :

" اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلاً وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ " اللہ انتخاب کرلیتا ہے فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کا اور اسی طرح آدمیوں میں سے بھی ۔بے شک اللہ خوب سننے  والا خوب دیکھنے والا  ہے ۔

جس طرح اللہ سبحانہ انبیاء کا انتخاب کرتا ہے اسی طرح اوصیاء کا بھی ۔

۱۴۳

وہی انتخاب کرتا ہے ۔

رسو ل اللہ ص نے فرمایا ہے :

"لكلّ نبيّ ٍ وصيّ ٌ وأنا وصيّي عليّ ُبن أبي طالب "

ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے ۔ میرے وصی علی بن ابی طالب ع ہیں(۱)

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت ص نے فرمایا :

"أنا خاتم الأنبياء وعليّ خاتم الأوصياء ".

میں خاتم الانبیاء ہوں اور علی ع خاتم الاوصیاء ہیں (۲)

اس طرح شیعوں  نے دوسروں  کوبھی بے فکر کردیا اور خود بھی آرام سے ہوگئے انھوں نے اپنا معاملہ  اللہ اور اس کے رسول  ص کے سپرد کردیا ہے ۔اب ان میں نہ کوئی خلافت کا دعوی کرسکتا ہے ۔ نہ کسی کو خلافت  کا لالچ  ہوسکتا ہے ، نہ کسی نص کی بنیاد پر اور نہ خود اپنی مرضی سے ۔کیونکہ ایک تو نص اختیار اور شوری کی  نفی کرتی ہے ، دوسرے نص میں رسول اللہ ص نے خود مخصوص اشخاص کا ناموں کے ساتھ تعیّن کردیا ہے(۳) ۔اسی لیے شیعوں میں تو کسی کو خلافت کا دعوی  کرنے کی جراءت  ہی نہیں ہوسکتی ۔اور اگر بالفرض کوئی ایسی جسارت کرے بھی تو اسے فاسق اور دین سے خارج سمجھا جائے گا۔

 لیکن اہل سنت کے نزدیک خلافت کا فیصلہ شوری اور لوگوں کی پسند سے ہوتا ہے ۔ اس طرح اہل سنت نے ایسا دروازہ  کھول دیا ہے جسے امت میں سے کسی شخص کے لیے بھی بند نہیں کیا جاسکتا اور اس طرح ہر ایرے غیرے  نتھوخیرے کے لیے موقع ہے کہ وہ خلافت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھے ۔ خلافت کا حصول

--------------------

(۱):-ابن عساکر ، تاریخ دمشق جلد ۳ صفحہ ۵ ۔ خوارزمی ،مناقب خوارزمی صفحہ ۴۲  ۔ینابیع المودۃ صفحہ ۷۹ ۔

(۲):- حافظ قندوزی حنفی ، ینابیع المودۃ جلد ۲ صفحہ ۳ بحوالہ دیلمی ۔خوارزمی ،مناقب خوارزمی  ۔محب طبری ، زخائر العقبی ۔

(۳):- تعداد کی روایت  بخاری ومسلم میں ہے ۔ اورتعداد  اور اسماء کی روایت کے لیے دیکھیے ینابیع المودۃ جلد ۳ صفحہ ۹۹

۱۴۴

قریش ہی کے لیے نہیں بلکہ ایرانیوں ،ترکوں ، مغلوں حتی کہ غلاموں  کے لیے بھی ممکن ہوکیا ۔ایک شاعر نے خلافت اسلامیہ کا یوں نقشہ کھینچا ہے ۔

"هزلت حتّى بان من الهزال

كلاها وحتَى استامّها كلّ مفلس "

خلافت اس قدر لاغر ہوگئی ہے کہ دبلے  پن سے اس کے گردے نظر آنے لگے اور ہر مفلس  قلّاش  نے اسے اپنا بنا لیا ۔  وہ سب اقدار  اور شرائط  جن کا خلیفہ  میں ہونا ضروری تھا ، بھاپ بن کر ہوا میں اڑگئیں ۔ ایسا ہونا قدرتی تھا کہ کیونکہ بشر آخر بشر ہے ۔ اس کے انسانی جذبات ہیں ، خود غرضی اس کی جبلّت ہے ۔وہ اقتدار ملتے ہی بدل جاتا ہے اور پہلے سے بد تر ہوجاتا ہے ۔

ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کی  تصدیق اسلامی تاریخ سے ہوتی ہے ۔مسلمانوں  پر ایسے ایسے بد کاروں اور بد کرداروں نے حکومت کی ہے جن میں نہ حیا تھی ، نہ اخلاق اورنہ ہی ایمان ۔

مجھے دڑ ہے کہ بعض قارئین  اسے مبالغہ تصور کریں گے ۔ لیکن اگر وہ امویوں اورعباسیوں وغیرہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو انھیں معلوم ہوجائےگا کہ کوئی امیر المومنین کھلم کھلا شراب پیتے تھے ، بندروں سے کھیلتے تھے ، اور بندروں کو سونے کے زیور پہناتے تھے ۔ کسی امیرالمومنین  نے اپنی ایک کنیز کو اپنا لباس پہنا کر مسلمانوں  کو نماز پڑھانے کے لیے بھیج دیا تھا ۔ ایک امیر المومنین کی حبابہ نامی باندی  مرگئی تو یہ حضرت ہوش وحواس ہی کھو بیٹھے تھے ۔ ایک امیر المومنین کسی شاعر کے شعر سن کر ایسے مستائے کہ لگے اس کا عضو تناسل چومتے ۔ہم ان لوگوں کے حالات  بیان کرنے میں وقت ضائع کرنا نہیں چاہتے ، کیونکہ ان کے متعلق مسلمانوں کا پہلے ہی فیصلہ ہے کہ یہ محض کٹ کھنی بادشاہت کی نمائندگی  کرتے تھے خلافت کی قطعا نہیں ۔ کیونکہ رسول اللہ ص سے ایک قول منسوب ہے کہ

"الخلافة من بعدي ثلاثون عاما ً ثمّ تكون ملكا ً عضوضا ً."

۱۴۵

میرے بعد تیس سال خلافت رہے گی اس کےبعد کٹ کھنی بادشاہت ہوگی ۔

میرے خیال میں اس قول کو رسول اللہ ص سے  منسوب کرنا درست نہیں ہے ۔کیونکہ ثالث حضرت عثمان کو۔ جنھیں حضرت علی ع سے افضل شمار کیا جاتا ہے بلکہ ذوالنورین اور کامل الحیاء والایمان کہا جاتا ہے ۔ مسلمانوں نے قتل  کردیا تھا کیونکہ وہ ان سے تنگ آئے ہوئے تھے یہاں تک کہ انھوں نے حضرت عثمان کو  مسلمانوں کے قبر ستان "جنت البقیع " میں دفن بھی نہیں ہونے دیا ۔ چنانچہ ان ان کو بے غسل وکفن بقیع سے ملحق یہودیوں کے قبرستان " حش کوکب" میں سپر د خاک کیا گیا ۔

جو شخص تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرے گا ، اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوگا  کہ خلفاء کے کرتوت عام لوگوں سے بھی بد تر تھے لیکن اس وقت ہماری بحث  کاموضوع یہ نہیں ہے ۔ جسے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کا شوق ہو  ۔وہ طبری  کی تاریخ الامم والملوک ، ابن اثیر  کی  کامل التاریخ ، ابو الفداء کی المختصر فی تاریخ البشر اور ابن قتیبہ دینوری کی الامامۃ والسیاسۃ  وغیرہ سے رجوع کرے ۔ میں صرف اپنی پسند سے خلیفہ مقرر کرنے کی خرابی اور اس نظریہ کابنیادی بانجھ پن دکھانا چاہتا تھا ۔کیونکہ جس کو ہم آج پسند کرتے ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ کل وہ ہماری نظروں میں مردود قرارپائے اوریہ معلوم ہو کہ ہم نے غلطی کی تھی اور ہماری پسند صحیح نہیں تھی ۔ ایسا ہوچکا ہے ۔ عبدالرحمن بن عوف نے خود عثمان  بن عفان کو خلافت کے لیے پسند کیا لیکن بعد میں پچھتا ئے مگر اس وقت کیا ہوسکتا تھاجب چڑیاں چگ گئین کھیت ۔ عبدالرحمن بن عوف سابقین اولین میں سے ایک جلیل القدر صحابی تھے ۔ جب ان کی پسند درست ثابت نہیں ہوئی تو کیسے کوئی ہوش مند شخص  ایسے بانجھ  اوربے ثمر نظریے  سے مطمئن  ہوسکتا ہے جس نے صرف فتنہ وفساد ، افراتفری  اور خونریزی  کو جنم دیا ہو ۔ جب ابو بکر  کی بیعت کی جارہی تھی ۔ جو بقول عمر بن خطاب اچانک ہوگئی تھی لیکن اللہ نے اس کے برے نتائج  سے محفوظ رکھا ۔جس کی کتنے ہی صحابہ نے مخالفت کی اورجب علی ع کی بیعت جو بر سر عام ہوئی تھی بعض صحابہ نے

۱۴۶

توڑ دی جس کے نتیجے  میں جنگ جمل ، جنگ صفین ، اور جنگ نہروان واقع ہوئیں  تو کیسے کوئی دانش مند اس نظریے سے مطمئن ہوسکتا ہے جو آزمایاگیا  لیکن شروع ہی سے قطعی  ناکام  رہا بلکہ مسلمانوں کے لیے وبال ثابت ہوا ۔ بالخصوص جب کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ لوگ جو شوری کے ذریعے سے خلیفہ کے انتخاب کے قائل ہیں ایک دفعہ کسی کے خلیفہ مقرر ہوجانے کے بعد نہ اسے تبدیل کرسکتے ہیں اور نہ معزول کرسکتے ہیں ۔ جب عثمان کو مسلمانوں نے معزول کرنا چاہا تو انھوں نے یہ کہہ کرانکار کردیا کہ جو قمیص اللہ مجھے پنہائی ہے میں اسے نہیں اتاروں گا ۔

مغرب کی متمدن قومیں جو جمہوریت  کی چمپئین  بنی  ہوئی ہیں سربراہ مملکت  کے انتخاب سے متعلق ان کے طریقہ کار کو دیکھ کر ہمیں اس نظریے سے اور بھی نفرت ہوجاتی ہے ۔ہوتایہ ہے کہ مختلف سیاسی پارٹیاں اقتدارکی دوڑ میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے  کی کوشش میں لگی رہتی ہیں ، مختلف  اداروں سے سودے بازی کرتی ہیں اور ہر قیمت پر اقتدارکی کرسی تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ اس مقصد کے لیے اربوں ڈالرپروپیگنڈے پر خرچ کیے جاتے ہیں ، جب کہ قوم کے غریب اور کمزور طبقے  کو اس رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے جیسے ہی کوئی شخص اس سیاسی کھیل کے ذریعے  اقتدار کی کرسی تک پہنچ جاتا  ہے تو ہو فورا  اپنے حامیوں ، پارٹی ممبروں ، دوستوں اور عزیزرشتہ داروں کا وزارت کے منصوبوں ، اعلی عہدوں اور کلیدی  انتظامی ذمہ داریوں پر تقرکردیتا ہے اور دوسرے لوگ سربراہی کی معینہ مدت ختم ہونے تک حزب اختلاف  میں رہنے ہیں ۔ اور اس پوری مدت میں نہ صرف سربراہ کے لیے مشکلات اور رکاوٹیں  پیداکرتے رہتے ہیں  بلکہ حتّی  الامکان کوشش کرتے ہیں کہ اسے بدنام کریں اور ہوسکے تو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اس کا اقتدار ہی ختم کردیں ۔ اس سارے قضیے میں مجبور اوربے دست وپا قوم کی تقدیر میں صرف خسارہ ہی خسارہ ہے ۔

مغربی نظام جمہورت کے نتیجے میں کتنی انسانی اقدار پامال  ہوتی ہیں اور  آزادی اور جمہوریت کے نام پر اور پرکشش نعروں  کی آڑ میں کتنی سیاہ کاریاں فروغ پاتی ہیں !! یہاں تک کہ (بعض یورپی ملکوں مثلا برطانیہ میں ) لواطت کو قانونا جائز

۱۴۷

قرار دے دیا گیا ۔اور نکاح کے بجائے  زنا کو ترقی پسندی شمار کیاگیا ۔ میں حیران ہوں کہ مغربی تہذیبی  کی برکات  کو کہاں تک گنواؤں !

دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ہو اب زرکم عیار ہوگا

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرےگی

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپائیدار ہوگا

اب دیکھیے ! شیعہ عقیدہ کتنا عظیم اور کتنا فراخدلانہ ہے کہ اس کے مطابق خلافت اصول دین میں شامل ہے ، کیونکہ معاشرتی اور انفرادی زندگی  کی درستگی کا دارومدار اسی پر ہے ۔

شیعوں کا یہ قول کہ منصب خلافت اللہ کے اختیار میں ہے ایک عاقلانہ  اور صحت مندانہ نظریہ ہے ،جس کو عقل قبول کرتی ہے ، ضمیر کا اطمینان ہوتا ہے اور جس کی تائید  قرآن وسنت سے ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس سے لالچیوں ، غدّاروں  اور منافقوں کی ہمّت شکنی ہوتی ہے اور ظالموں ،گردن کشوں اور ملوک وسلاطین کا غرور خاک میں ملتا ہے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا ہے "

"فَرِيقاً هَدَى وَفَرِيقاً حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلاَلَةُ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ اللّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ "

ایک گروہ اس نے راہ دکھا دی اور ایک گروہ ہے کہ اس پر گمراہی ثابت ہوچکی ۔انھوں نے شیطان کو اپنا رفیق بنالیا  ہے اور سمجھے ہیں کہ ہم راہ پائے ہوئے ہیں ۔(سورہ اعراف ۔آیت ۳۰)

۱۴۸

مسئلہ تقدیر ۔ اہل سنت کی نظر میں

میری گذشتہ زندگی میں قضا وقدر کا موضوع میرے لیے ایک چیستان بنا ہوا تھا کیونکہ مجھے اس کی کوئی ایسی وضاحت نہیں ملتی تھی جو میرے دل کو لگے اور جس سے مجھے اطمینا ن حاصل ہو ۔ میں اس سلسلے میں حیران وپریشان تھا ۔

مجھے اہل سنت کے مدرسے میں سکھایا گیا تھا کہ انسان اپنے افعال میں آزاد نہیں ، وہ وہی کچھ کرتا ہے جو اس کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے اور وہی کچھ بنتا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ۔جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کے پاس دوفرشتے بھیجتا ہے جو اس کی عمر ، اس کی روزی اور اس کے اعمال کےبارے میں تفصیل لکھ دیتے  ہیں کہ وہ شقی ہوگیا یا سعید(۱)یعنی خوش نصیب ہوگا یا بد نصیب ۔

میں عجب مخمصے میں گرفتار تھا کیونکہ ایک طرف تو مجھے یہ تعلیم دی گئی تھی،  دوسری طرف میری عقل اور میرا ضمیر یہ کہتا تھا کہ اللہ تعالی عادل ہے ، وہ اپنی مخلوق  پر ظلم نہیں کرتا ۔یہ کیسے  ہوسکتا ہے کہ وہ کسی کو ایسے افعال پر مجبور کرے جس کاو ہ بعد میں محاسبہ کرے یاکسی کو ایسے جرم کی پاداش میں عذاب دے جو خود اس سے  اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہو اور جس کے ارتکاب پر اسے مجبور کیا ہو ۔ دوسرے مسلمان نوجوانوں کی طرح میں بھی اسی فکری تضاد میں مبتلا تھا اور میرا تصور یہ تھا کہ اللہ تعالی قوی اور جبار ہے ، اس کی شان یہ ہے کہ

اس سے کچھ نہیں کی جاسکتی اور وں سے بازپرس ہوگی (۲)

---------------------

(۱):- صحیح بخاری کتاب القدر۔

(۲):-"لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ" (سورہ انبیاء ۔آیت ۲۳)

۱۴۹

وہفعّا لٌ لّما يريد جو چاہتا ہے کرتا ہے  اس نے مخلوق کو پیدا کیا ، کچھ کو جنتی بنایا اور کچھ کو جہنمی ۔پھر یہ کہ وہ رحمان ورحیمی ہے وہ اپنے بندوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ،جیسا کہ قرآن میں ہے :

" تمھارا پروردگار اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔(۱)

ایک اور آیت میں ہے :

"بے شک اللہ لوگوں پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں "(۲)

اوریہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

"اللہ تعالی اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ شفیق ہے جتنی ماں اپنے بچے پر ہوتی ہے "(۳)

میں اسی فکری تضاد کے پیچ وخم میں الجھا ہوا تھا اور اس کی جھلک میرے قرآن کے سمجھنے میں بھی نظر آتی تھی ۔ میں کبھی کہتا تھا کہ انسان خود اپنا نگران ہے اور وہی اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے :

"جو کوئی ذراسی نیکی کرے گا ، وہ اس کو دیکھ لے گا اور جو کوئی ذراسی بدی کرے گا ،وہ اس کو دیکھ لے گا (۴)۔

کبھی تومیں یہ سمجھتا تھاکہ انسان کو کوئی دوسری طاقت چلاتی ہے ،اس کی اپنی کوئی قوت ہے اورنہ طاقت ،وہ خود انپے کو نہ نفع پہنچاسکتا ہے نہ نقصان  اور نہ اپنے لیے روزی کا بندوبست کرسکتا ہے کیونکہ بفحوائے قرآن

---------------------

):-" وَ مَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِلَعَبِيد" (سورہ حم سجدہ ۔آیت ۴۶)

(۲):-" إِنَّ اللّهَ لاَ يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئاً وَلَـكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ " (سورہ یونس ۔آیت ۴۴)

(۳):- صحیح بخاری جلد ۷ صفحہ ۷۵

(۴):-" فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ () وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ ()" (سورہ زلزال ۔آیت ۷-۸)

۱۵۰

تم تو بس وہی چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے(۱) ۔

میں ہی نہیں بلکہ اکثر مسلمان اسی فکر تضاد میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر علماء ومشائخ  سےجب قضا وقدر کےبارےمیں گفتگو کی جائے تو ان سے کوئی  تو ان سے کوئی ایسا جواب نہیں بن پڑتا جس سے دوسروں کو تو کیا خود انھیں بھی اطمینان ہوسکے ۔بس کہہ دیتے ہیں کہ اس موضوع پرزیادہ بحث کی ضرورت نہیں بلکہ بعض تو تقدیر کی اس بحث کو ہی حرام قراردیتے ہیں  اور کہتے ہیں کہ مسلمان  کے لیے صرف اتنا ایمان لانا ضروری ہے کہ اچھی بری تقدیر اللہ کی طرف سے ہے ۔اگر کوئی  ضدی ان سے پوچھ بیٹھے کہ " یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ پہلے تو اپنے بندے  کو گناہ کے ارتکاب  پر مجبور کرے اور پھر اسے نار جہنم میں جھونک دے " تو فورا اس پر کافر وزندیق ہونے کا فتوی جڑدیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم دین سے نکل گئے ۔غرض ایسے ہی لغو الزام لگائے جاتے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عقلیں ٹھٹر  کررہ گئی ہیں اور لوگوں کا عقیدہ یہ ہوگیا ہے کہ جوڑے آسمانوں میں بنتے ہیں یعنی نکاح پہلے سے قسمت میں لکھا ہوتا ہے اور اسی طرح طلاق بھی ۔ اورحد تو یہ ہے کہ زنا بھی مقدر ہوتا ہے ۔ تقدیر مبرم کے ماننے والے کہتے ہیں کہ عورت کی شرمگاہ پر ان سب مردوں کے نام لکھے ہوتے ہیں جو اس کے ساتھ صحبت کرنے والے ہیں ۔ یہی حال شراب پینے اور کسی کو قتل کرنے کا ہے ۔ بلکہ یہی صورت کھانے پینے کی ہے ۔ تم وہ چیز کھاپی سکتےہو جو اللہ نے تمھارے مقدر میں لکھ دی ہے ۔

ایک مرتبہ یہ مسائل پیش کرنے کےبعد میں نے اپنے یہاں کے ایک عالم سے کہا کہ قرآن تو ان خیالات کی تکذیب کرتا ہے اور یہ ممکن نہیں کہ رسول ص ، قرآن کے برعکس کچھ کہے ، نکاح کے متعلق اللہ تعالی فرماتا ہے کہ

جو عورتیں تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کرو۔(۲)

-----------------------

(۱):-" وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ" (سورہ انسان ۔آیت۳۰)

(۲):-"فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاء" (سورہ نساء ۔آیت ۳)

۱۵۱

اس آیت سے صاف اختیار اور آزادی کا اظہار ہوتا ہے ۔ طلاق کے متعلق قرآن کریم میں سے ہے :

"طلاق  تو دو ہی مرتبہ ہے ،پھر یا تو رکھ لینا ہے قاعدے کے مطابق یاچھوڑ دینا ہے خوش دلی کےساتھ "(۱)

یہاں بھی وہی اختیار کی بات ہے ۔

زنا کے متعلق ارشاد ہے :

"زنا کے پاس نہ پھٹکو کہ وہ بے حیائی اوربری راہ ہے "(۲)

اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آدمی جو کچھ کرتا ہے اپنے ارادہ واختیار سے کرتا ہے ۔ شراب کے بارے میں حق تعالی فرماتاہے :

"شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اورجوئے کے ذریعے تمھارے آپس میں دشمنی اور کینہ ڈال دے اور تمھیں ذکر الہی اور نماز سے روک دے ۔ تو کیا تم ان کاموں سے باز آجاؤگے ؟"(۳)

اس آیت میں شراب اورجوئے کی ممانعت کی گئی ہے جس کے معنی یہی ہیں کہ آدمی کو اختیار ہے کہ چاہے تو شراب پئے اور جواکھیلنے یا پھر یہ کام نہ کرے ۔ قتل عمدکے بارے میں ارشاد ہے۔

"اللہ نے جس انسان کی جان کو محترم قراردیا ہے اس ناحق قتل مت کرو"(۴)

--------------------

(۱):-" الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ " (سورہ بقرہ۔آیت ۲۲۹)

(۲):-" وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاء سَبِيلاً" (سورہ بنی اسرائیل۔آیت۳۲)

(۳):-" إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ " (سورہ مائدہ ۔آیت ۹۱)

(۴):-" وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ" (سورہ انعام ۔آیت ۱۵۱)

۱۵۲

ایک اور آیت میں ہے :

جو کوئی کسی مسلمان کو قصدا قتل کرےگا اس کا ٹھکانا جہنم  ہے جہاں ہو ہمیشہ رہےگا ۔ اللہ اس پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرےگا اور اس کے لیے دردناک عذاب تیار رکھے گا"(۱)

اس آیت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کو اختیار ہے کہ وہ کسی کو قتل کرے یانہ کے ۔

کھانے پینے کے متعلق بھی اللہ تعالی نے کچھ حدود  مقرر کی ہیں ۔ چنانچہ ارشادہے :

" کھاؤ پیور لیکن اسراف نہ کرو ۔اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا "(۲)

یہ آیت بھی آدمی کے اختیار پر ہی دلالت کرتی ہے ۔یہ تمام آیات سنانے کے بعد میں نے ان عالم سے کہا : قبلہ ! ان تمام قرآنی دلائل کے بعد بدی آپ یہی کہتے ہیں کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور بندہ اپنے افعال میں مختار نہیں ، مجبور ہے ؟

ان عالم نے جواب دیا : تنہا اللہ تعالی ہی ہے جو کائنات میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتاہے ، اور دلیل کے طورپر انھوں نے یہ آیت پڑھی :

" اسے دنیا جہاں کے مالک توجسے چاہے دے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے اور جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلیل کرے ۔ ہرطرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے ۔

----------------------

(۱):-" وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً " (سورہ نساء ۔آیت ۹۳)

(۲):-" وكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ " (سورہ اعراف ۔آیت ۲۱)

۱۵۳

بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔(۱)

میں نے کہا کہ ہمارا اختلاف اللہ تعالی کی مشیّت کے بارے میں نہیں ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ جب اللہ تعالی کوئی کام کرنا چاہے تو سب جن وانس اور دیگر تمام مخلوقات مل کر بھی اس کی مشیت کے خلاف نہیں کرسکتے ۔سوال بندوں کے افعال کا ہے کہ آیا وہ ان کے افعال ہیں یا وہ اللہ کی طرف سے ہیں ؟؟

اس پر ان عالم صاحب نے "لکم دينکم ولی دين" (تمھار عقیدہ تمھارے ساتھ اور میرا عقیدہ میرے ساتھ )کہہ کر بحث کا دروازہ بند کردیا ۔ہمارے جو علمائے کرام اپنی رائے پر قانع رہتے ہیں اور اسے بدلنے پر کبھی تیار نہیں ہوتے عموما ان کی آخری دلیل ہی ہوتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ دو دن کے بعد میں ان عالم صاحب سے پھر ملا اور میں نے کہا:

اگر آپ کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالی ہی سب کچھ کرتاہے اور بندوں  کو کچھ اختیار نہیں ، تو آپ خلافت کے بارے میں بھی یہی کیوں نہیں کہتے  کہ اللہ سبحانہ ، جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے پسند کرتا ہے ، بندوں کی مرضی کو کوئی دخل نہیں ۔

وہ :- جی ہاں ! میں  یہی تو کہتاہوں ۔ اللہ نے ہی پہلے ابو بکر کو پسند کیا ،پھر ابو بکر کو ، پھر عثمان کو ۔ اگر اللہ تعالی یہ چاہتا کہ علی خلیفہ اول ہوں تو جن وانس مل کر بھی علی ع کو خلیفہ اول ہونے سے نہیں روک سکتے تھے ۔

میں :-یہ کہہ کر تو آپ پھنس گئے ۔

وہ :- میں کیسے پھنس گیا ؟

----------------------

(۱):-" قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ" (سورہ آل عمران ۔آیت ۲۸)

۱۵۴

میں :-اب یا تو آپ یہ کہیں کہ اللہ نے چار خلفاء راشدین  کو تو خود پسند کرلیا ، اس کے بعد یہ کام لوگوں پر چھوڑ دیا کہ جس کو چاہیں پسند کرلیں یا پھر یہ کہیں کہ اللہ نے لوگوں کو بالکل اختیار نہیں دیا بلکہ رسول اللہ ص کی وفات سے لے کر تا قیام قیامت سب خلفاء کو وہی پسند کرتا ہے؟وہ :- دوسری شق کا قائل ہوں" قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء  "

میں:- اس کا مطلب یہ ہوا کہ تاریخ  اسلام میں بادشاہوں او رکجکلاہوں  کی وجہ سے کجی واقع ہوئی ہو اللہ کی طرف سے بھی ۔ کیونکہ اللہ نے ہی انھیں حکومت  عطا کرکے مسلمانوں پر مسلط کیا تھا ۔وہ:-جی ہاں ! یہی بات ہے ۔بعض صلحاء نے اس آیت میں "امرنا" کو تشدید کسے ساتھ پڑھا ہے یعین"وإذا أردنا أن نهلك قريةً أمرنا مترفيها" مطلب یہ کہ ہم نے انھیں حاکم بنادیا ۔

میں :-(تعجب سے) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے ہی چاہا تھا کہ ابن ملجم  علی ع کو قتل کرے اور یزید کے ہاتھوں حسین  بن علی کا قتل ہو ۔وہ :- (فتحمندانہ لہجے میں)جی ہاں ! بالکل ۔ کیا آپ نے نہیں سنا کہ رسول اللہ ص نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا تھا کہ بعد میں آنے والوں میں س ب سے شقی وہ ہوگا جو تمھارے سر کو دوپارہ کرکے چہرے کو خون سے تربتر کردےگا ۔ اسی طرح  رسول اللہ ص نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات بتادی تھی کہ سیدنا حسین ع کو کربلا میں قتل کردیا جائے گا ۔ نیز آپ نے خبر بھی دی تھی کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں میں صلح کرائیں  گے اس طرح ہر شے ازل سے لکھی ہوئی ہے ۔ جو کچھ مقدر میں لکھا ہے اس سے انسان کو مفر نہیں ۔ اس طرح آپ ہارگئے ہیں میں نہیں ۔

میں کچھ دیر خاموش رہا ۔میں دیکھ رہاتھا کہ وہ پھولے نہیں سمارہے ہیں ۔کیونکہ بخیال خویش وہ میرے مقابلے میں جیت گئے تھے ۔ میں سوچ رہا تھا کہ ان حضرت کو کیسے سمجھاؤں کہ اللہ تعالی کو کسی واقعے کا علم ہونے کے قطعی یہ معنی نہیں کہ اللہ

۱۵۵

نے وہ واقعہ تقدیر میں لکھ دیا ہے یا لوگوں کو اس پر مجبور کردیا ہے ۔ مجھے پہلے سے معلوم تھاکہ یہ نظریہ ان صاحب کے دماغ میں بیٹھنا ممکن نہیں تھا ۔ اس لیے میں نے ایک اور سوال کیا کہ :کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نئے اور پرانے سب بادشاہ اور وہ سب لوگ جو اسلام اور مسلمانوں سے لڑتے رہے ہیں ، اللہ کے مقررکیے ہوئے ہیں ؟

وہ :- اس میں کیا شک ہے ۔

میں :- کیا وہ فرانسیسی نو آباد یاتی حکومت جس نے تیونس ، الجزائر اور مراکش پر قبضہ کررکھا تھا ، وہ بھی اللہ کی طرف سے تھی ؟

وہ :- جی ہاں ! اور جب مقررہ وقت آیا تو فرانس ان ملکوں سے نکل گیا ۔

میں:- بہت خوب ! پھر آپ پہلے کیسے اہل سنت کے اس نظریہ کا دفاع کررہے تھے کہ رسول اللہ  ص نے وفات پائی مگر خلافت کا معاملہ شوری پر چھوڑدیا کہ مسلمان جسے چاہیں خلیفہ بنالیں؟

وہ :- جی ہاں ! میں اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انشااللہ قائم رہوں گا ۔

میں :- پھر آپ ان دونوں باتوں میں کیسے تطبیق دیتے ہیں : ایک اللہ کا اختیار اور دوسرے شوری کے ذریعے مسلمانوں کا اختیار؟

وہ جب مسلمانوں نے ابوبکر کو پسند کرلیا تو اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ نے بھی انھیں پسند کرلیا ۔

میں:- کیا سقیفہ میں خلیفہ کو منتخب کرنے کے بارےمیں کوئی وح نازل ہوئی تھی ؟

وہ :-استغفراللہ ! محمد ص کے بعد کوئی وحی نازل نہیں ہوئی ۔ یہ شیعوں کا عقیدہ ہے ۔

میں :- شیعوں  کو اور ان کے باطل عقائد کو چھوڑیے ۔ آپ نے اپنے عقیدے کے مطابق ہمیں قائل کیجئے ۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ابو بکر کو پسندکرلیا تھا؟

وہ :- اگر اللہ کا ارادہ کچھ اور ہوتا تو مسلمان اور سارا جہان مل کر بھی اللہ

۱۵۶

کے ارادے کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا تھا۔اس وقت میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ نہ سوچتے ہیں ، نہ قرآنی آیات پر غور کرتے ہیں ۔ ان کی رائے کبھی بھی کسی علمی نظریے کے مطابق نہیں ہوسکتی ۔

اس پر مجھے ایک اور قصہ یاد آگیا :

ایک دن میں اپنے دوست کےساتھ کجھور  کے باغ میں ٹہل رہا تھا اور ہم قضا وقدر کےبارےمیں  باتیں  کررہے تھے۔اتنے میں میرے سرپر ایک پکی ہوئی کجھور گری ۔میں نے اسے کھانے کے لیے گھاس پر سے  اٹھا کر منہ میں رکھ لیا ۔ میرے دو ست نے کہا : تم وہی چیز کھاسکتے ہو جو تمھارے نصیب میں ہو کیونکہ دانے دانے پرکھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے ۔

میں نے کہا : اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ لکھی ہوئی ہے تو پھر میں اسے نہیں کھاؤں گا  یہ کہہ کر میں نے اسے پھینک دیا ۔

میرے دوست نے کہا: سبحان اللہ اگر کوئی چیز تمھارے نام پر لکھی ہوئی نہ ہو  تو اللہ اسے تمھارے پیٹ میں سے بھی نکال لے گا ۔

میں نے کہا : اگر بات یہ ہے تو میں اسے کھالیتاہوں ۔یہ کہہ کر میں نے اسے دوبارہ اٹھالیا ۔ میں یہ ثابت کرناچاہتا تھا کہ اس کا کھانا یا نہ کھانا میرے اختیار میں ہے ۔ میرا دوست مجھے دیکھتا رہا ، یہاں تک کہ میں اس کجھور کو چباکر نگل  گیا ۔ اس وقت میرے دوست نے کہا : دیکھا یہ تمھارے نام پر ہی لکھی ہوئی تھی  اس طرح وہ اپنے خیال میں مجھ سے جیت گیا ۔ کیونکہ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ اب میں اس کجھو ر کو پیٹ میں سے نکال لیتا ۔

جی ہاں ! اہل سنت کا قضاوقدر کے بارے میں یہی عقیدہ ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ جب میں سنی تھا تو میرایہی عقیدہ تھا ۔

قدرتی بات ہے کہ میں اس عقیدے  کی وجہ سے جو فکری تضاد پر مبنی تھا پریشان رہتا تھا اور یہ بھی قدرتی بات ہے کہ اس عقیدے کی وجہ سے ہم لوگ جمود کا شکار ہیں ۔ ہم اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ اللہ ہماری حالت بدل دے

۱۵۷

ہم اپنی ذمہ داری سے بھاگتے ہیں اور اپنی ذمہ داری کو اللہ پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر آپ کسی چور ، ڈاکو سے یا شرابی ،زانی اور جواری سے یا اس مجرم سے بات کریں جس نےکی نابالغ لڑکی  کو اغوا کرکے اس سے اپنی شہوت کی آگ بجھانے کے بعد اسے قتل کردیا ہو،تو وہ یہی کہے گا کہ " وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے" میں کیا کرسکتا تھا ، میری تقدیر میں یہی لکھا تھا " ۔ یہ عجب خدا ہے جو پہلے تو انسان کو حکم دیتاہے کہ اپنی بیٹی کو زندہ دفن کردے ۔ پھر پوچھتا ہے کہے" بأيّ ذنبٍ قتلت" یہ بھی   جان لیجیے کہ ان باتوں کی وجہ سے مغربی مفکرین اور دانشور ہمیں حقارت کی نظر سے دیکھتے   ہیں اور ہماری کم سمجھی پر ہنستے ہیں ۔ اہل یورپ اسی عقیدہ تقدیر کو عربوں کی جہالت اور ان کی پس ماندگی کا خاص سبب بتلاتے ہیں ۔ یہ بھی قدرتی امر ہے کہ محققین نے دریافت کیا ہے کہ اس عقیدہ کو اموی حکمرانوں نے رواج دیا ۔ وہ کہتے تھے چونکہ  اللہ تعالی نے انھیں حکومت  عطا کی ہے ، اس لیے ان کی اطاعت فرض ہے ،جس نے ان کی اطاعت کی ، اس نے اللہ کی اطاعت کی او رجو ان کی مخالفت کرتاہے وہ باغی ہے اور بغاوت کی سزاموت ہے ۔ اسلامی تاریخ میں اس کے متعدد شواہد موجود ہیں ۔

عثمان بن عفان ہی کی مثال لیں ۔ جب لوگوں نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ خلافت سے دستبردار ہوجائیں ، تو انھوں نے کہا کہ میں وہ قمیص نہیں اتاروں گا جو اللہ نے مجھے پہنائی ہے ۔(۱) گویا  ان کی رائے  کے مطابق خلافت وہ لباس تھا جو  اللہ نے انھیں پہنایا تھا کسی کو حق نہیں تھا کہ وہ یہ لباس ان سے چھین لے ، بجز اللہ تعالی کے کہ وہی یہ لباس اتار سکتا ہے یعنی ان کی موت  کی صورت میں ۔ اسی طرح معاویہ بن ابی سفیان نے اپنے ایک "خطبے میں کہا تھا کہ " میں نے تم سے اس لیے جنگ نہیں کی تھی کہ تم نماز  پڑھو ،روزے رکھو  یا حج کرو اور زکات دو ۔ میں نے تو اس لیے جنگ کی تھی  کہ تم پر حکومت

-----------------------

(۱):- تاریخ طبری اور تاریخ ابر اثیر "عثمان کا محاصرہ"

۱۵۸

کروں ۔اللہ نے میری یہ خواہش پوری کردی حالانکہ تمھیں یہ بات ناگوار ہے "۔

یہ عثمان سے بھی ایک قدم آگے ہیں ۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالی پر الزام ہے  کہ اس نے مسلمانوں کے قتل میں مدد دی ۔ معاویہ کا یہ خطبہ مشہور ہے ۔(۱)

لوگوں کی مرضی کے خلاف یزید کو زبردستی ولی عہد مقرر کرتے وقت بھی معاویہ نے یہی دعوی کیا تھا کہ اللہ نے یزید کو میرا جانشین بنادیا ہے ۔ مورخین نے معاویہ کا وہ مکتوب نقل کیا ہے جو اس نے اس موقع پر چہار طرف بھیجاتھا ۔ والی مدینہ مروان بن حکم کو لکھا تھا کہ

"اللہ نے میری زبان سے بیعت یزید کا فیصلہ صادر کرادیا ہے "(۲)

جب امام زین العابدین  ع کو زنجیروں میں باندھ کر فاسق وفاجر ابن زیاد کے سامنے  لے جایا گیا تو ان نے پوچھا یہ کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا  کہ یہ علی بن الحسین ع ہیں ۔ اس نے کہا : کیا اللہ نے حسین بن علی کو ہلاک نہیں کردیا ؟ امام زین العابدین ع کی پھوپھی جناب زینب نے جواب دیا : نہیں ! انھیں نے اللہ اور اس کے رسول  ص کے دشمنوں نے قتل کردیا ہے ۔ ابن زیاد نے کہا: دیکھا! اللہ نے تمھارے گھروالوں کے ساتھ کیا کیا ؟ اس پر جناب زینب  نےکہا : میں نے تو جو کچھ دیکھا  اچھا ہی دیکھا ہے ۔ اللہ نے ان کے لیے قتل ہونا لکھاتھا سو وہ اپنی قبروں  میں جا سوئے عنقریب اللہ تجھے اور انھیں ایک جگہ جمع کرےگا وہاں دیکھ لینا کیا ہوتا ہے تیری ماں تجھ پر روئے اے اب مرجانہ !(۳)

اس طرح یہ عقیدہ  بنی امیہ اور ان کے حامیوں سے چل کر امت اسلامیہ میں پھیل گیا ۔

---------------------

(۱):- ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبیین صفحہ ۷۰ ۔حافظ ابن کثیر البدایہ والنہایہ جلد ۸ صفحہ ۱۳۱ ۔شرح نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ ۱۶

(۲):- ابن قتیبہ ،الامامہ والسیاسہ جلد۱ صفحہ ۱۵۱

(۳):- ابوالفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین مقتل حسین۔

۱۵۹

قضا وقد رکے بارے میں شیعہ عقیدہ

جیسے ہی شیعہ(۱) علماء سے میری واقفیت ہوئی اور میں نے ان کی کتابیں پڑھیں ،قضاوقدر کے بارے میں بالکل  نیا علم مجھ پر منکشف ہوگیا ۔ ایک مرتبہ کسی نے امام علی علیہ السلام سے قضاوقدر کے بارے میں پوچھا تھا تو آپ نے غیر مبہم ،صاف اور جامع الفاظ میں اس کی وضاحت  کرتے ہوئے فرمایا :

"افسوس ! شاید تم یہ سمجھتے ہو کہ قضاوقدر نے لازمی اور حتمی فیصلہ کردیا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر جزا وسزا  کاسوال ہی نہ ہوتا اور نہ وعدہ وعید کا کچھ مطلب ہوتا ۔اللہ نے اپنے بندوں کو جن کاموں کاحکم دیا ہے ، ان کا اختیار بھی دیا ہے اور جن کاموں سے منع کیا ہے ، ان کا نقصان بھی بتلادیا ہے اللہ نے انسان کو تھوڑے سے کام کا مکلف ٹھہرایا ہے اور کوئی مشکل کام نہیں بتلایا ۔پھر یہ کہ تھوڑے کام پر بہت زیادہ اجر کا وعدہ کیا ہے ۔ نہ کوئی اللہ کی نافرمانی پر مجبور ہے اور نہ کسی پر اس کی اطاعت  کے لیے زبردستی ہے ۔ اس نے انبیاء کو کھیل کے طور نہیں بھیجا اور کتابوں کو فضول نہیں اتارا ۔ اس نے آسمانوں کو زمین کو انو جو کچھ ان کے درمیان ہے بے مقصد پیدا نہیں کیا ۔ یہ تو کافروں کا گمان ہے ۔ ان کا فروں  کی تو دوزخ میں شامت آجائےگی "۔(۲)

یہ بیان کتنا واضح اور کتنا غیر مبہم ہے ۔میں نے اس موضوع پر اس سے جامع اور قاطع بیان اور حقیقت کے اظہار میں اس سے بہتر دلیل نہیں دیکھی ۔اللہ

-------------------------

(۱):- جیسے آیت اللہ محمد باقر صدر جن سے میں  خوب استفادہ کیا ۔آیت اللہ سید ابو بوالقاسم خوئی ،علامہ علی طباطبائی اورسید حکیم وغیرہ ۔

(۲):- شیخ محمد عبدہ ،شرح نہج البلاغہ جلد ۴ صفحہ ۶۷۳

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

امام علیہ السلام سے کہنے لگے : اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے! آپ کہاں جارہے ہیں ! امام علیہ السلام نے انکار کیا اور دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے یہاں تک کہ انھوں نے تازیانہ بلندکر لیا لیکن امام علیہ السلام اپنی راہ پر گامزن رہے۔ جب امام علیہ السلام کو ان لوگوں نے جاتے ہوئے دیکھاتوبلند آوازمیں پکارکر کہا : اے حسین !کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے جو جماعت سے نکل کر اس امت کے درمیان

تفرقہ اندازی کررہے ہو ! ان لوگوں کی باتیں سن کر امام علیہ السلام نے قران مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی( : لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِيْئُوْنَ مِمَّا اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِی ئْ مِمَّا تَعْمَلُوْنَ'' ) (١) و(٢)

اگر وہ تم کو جھٹلائیں تو تم کہہ دو کہ ہمارا عمل ہمارے لئے اور تمہاری کارستانی تمہارے لئے ہے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے تم ذمہ دار نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں ۔

عبداللہ بن جعفر کاخط

چوتھے امام حضرت علی بن حسین بن علی (علیہم السلام) کا بیان ہے کہ جب ہم مکہ سے نکل رہے تھے تو عبداللہ بن جعفربن ابیطالب(٣) نے ایک خط لکھ کر اپنے دونوں فرزندوں عون و محمد(٤) کے ہمراہ روانہ کیا جس کی عبارت یہ ہے:

____________________

١۔ سورہ ٔیونس ٤١

٢۔ طبری، ج٥، ص ٣٨٥،ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ہے ۔

٣۔ آپ جنگ جمل میں امیر المومنین کے لشکر میں تھے اور عائشہ کو مدینہ پہنچانے میں آپ نے آنحضرت کی مدد فرمائی تھی ۔(طبری، ج٤، ص٥١٠)آپ کی ذات وہ ہے جس سے حضرت امیر المومنین کوفہ میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ آ پ ہی نے حضرت کو مشورہ دیا تھا کہ محمد بن ابی بکر جو آپ کے مادری بھائی بھی تھے، کو مصر کا والی بنادیجئے۔ (طبری ،ج٤، ص ٥٥٤)آپ جنگ صفین میں بھی حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور آپ کے حق میں بڑھ بڑھ کر حملہ کررہے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٤٨)بنی امیہ کے خلاف امام حسن علیہ السلام کے قیام میں بھی آپ ان کے مدد گار تھے (طبری ،ج٥،ص ١٦٠) اور جب صلح کے بعد سب مدینہ لوٹنے لگے تو دونو ں امامو ں کے ہمراہ آپ بھی مدینہ لوٹ گئے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ١٦٥) آپ کے دونو ں فرزند عون و محمد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے۔ جب آپ تک ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا :''واللّه لو شهدته ،لأ حببت الّا أفارقه حتی أقتل معه'' خداکی قسم اگر میں موجود ہوتا تو واقعاً مجھے یہ محبوب تھا کہ میں ان سے جدا نہ ہو ں یہا ں تک کہ ان کے ہمراہ قتل ہوجاؤ ں ۔ (طبری ج٥ ، ص ٤٦٦)

٤۔یہ دونو ں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلامیں جام شہادت نوش فرماکرسرفراز ہوئے۔ طبری کے بیان کے مطابق عون کی ما ں جمانہ بنت مسیب بن نجبہ بن فزاری ہیں (مسیب بن نجبہ توابین کے زعماء میں شمار ہوتے ہیں ) اور محمد کی ما ں خو صاء بنت خصفہ بنت ثقیف ہیں جو قبیلہ بکربن وائل سے متعلق ہیں ۔

۲۲۱

'' امابعد ، فانّی أسألک باللّه لمّا انصرفت حین تنظر فی کتابی فانّی مشفق علیک من الوجه الذی تتوجه له أن یکون فیه هلاکک واستئصال اهل بیتک ، أن هلکت الیوم طفیٔ نور الارض فانک علم المهتدین ورجاء المؤمنین، فلا تعجل بالسیر فانّی فی أثر الکتاب؛ والسلام ''

اما بعد : جب آپ کی نگاہ میرے خط پر پڑے تو میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے ارادہ سے منصرف ہو جائیے ؛کیو نکہ آپ نے جس طرف کا رخ کیا ہے مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلا کت اور آپ کے خاندان کی اسیری ہے اور اگر آپ دنیا سے گذرگئے تو زمین کا نور خاموش ہو جا ئے گا؛ کیوں کہ آپ ہدایت یافتہ افراد کے پر چمدار اور مو منین کی امید ہیں ؛ لہٰذا آپ سفر میں جلدی نہ کریں ۔ میں اس خط کے پہنچتے پہنچتے آپ کی خدمت میں شر فیاب ہو رہا ہوں ۔ والسلام

عبد اللہ بن جعفر اس خط کے فوراًبعد عمرو بن سعید بن عاص کے پاس گئے اور اس سے گفتگو کرتے ہو ئے کہا : حسین (علیہ السلام) کو ایک خط لکھو جس میں تم ان کے امن وامان کا تذکرہ کرو ، اس میں ان سے نیکی اور صلہ رحم کی تمنا وآرزو کرو اور اطمینان دلا ؤ، ان سے پلٹنے کی درخواست کرو، شائد وہ تمہاری باتوں سے مطمئن ہو کر پلٹ آئیں اور اس خط کو اپنے بھائی یحٰی بن سعید کے ہمراہ روانہ کرو؛ کیو نکہ وہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس سے وہ مطمئن ہوں اور ان کو یقین ہو جا ئے کہ تم اپنے قصد میں مصمم ہو۔عمر وبن سعید نے عبد اللہ بن جعفر کو جواب دیتے ہو ئے کہا : تم جو چا ہتے ہو لکھ کر میرے پاس لے آؤ میں اس پر مہر لگا دوں گا، بنابر یں عبد اللہ بن جعفر نے اس طرح نامہ لکھا :

بسم اللہ الر حمن الر حیم ،یہ خط عمر وبن سعید کی جانب سے حسین بن علی کے نام ہے ۔

اما بعد : میں خدا وند متعال سے در خواست کر تا ہوں کہ آپ کو ان چیزوں سے منصرف کر دے جس میں آپ کا رنج و ملال ہے اور جس میں آپ کی ہدایت ہے اس طرف آپ کو سر فراز کرے ۔مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نے عراق کا رخ کیا ہے ۔

خداوند عالم آپ کو حکومت کی کشمکش او رمخالفت سے محفو ظ رکھے؛ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اس میں آپ کی ہلاکت ہے۔ میں آپ کی طرف عبداللہ بن جعفر اور یحٰبن سعید کوروانہ کررہا ہوں ؛آپ ان دونوں کے ہمراہ میرے پاس تشریف لے آئیے کیونکہ میرے پاس آپ کے لئے امان ، صلہ رحم ، نیکی اورخانہ خداکے پاس بہترین جائیگاہ ہے۔ میں خداوند عالم کو اس سلسلے میں گواہ ، کفیل ، ناظر اور وکیل قر ار دیتاہوں ۔ والسلام

۲۲۲

خط لکھ کر آپ اسے عمر و بن سعید کے پاس لے کر آئے اور اس سے کہا: اس پر مہر لگاؤ تواس نے فوراًاس پر اپنی مہر لگادی اور اس خط کو لے کرعبداللہ بن جعفر اور یحٰی امام علیہ السلام کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر آپ کی خدمت میں یحٰی بن سعیدنے خط پڑھا تو امام حسین علیہ السلام نے عمر و بن سعید کو خط کا جواب اس طرح لکھا:

بسم اللّہ الرحمن الرحیم

امابعد، فانه لم یشاقق الله ورسوله من دعاالی اللّٰه عزَّو جلَّ وعمل صالحاًو قال أنّنی من المسلمین؛وقد دعوت الیٰ الامان والبرّو الصلة فخیرالامان امان الله ولن یؤمّن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا، فنسأل اللّٰه مخافة فی الدنیاتوجب لنا أمانه یو م القیامة فان کنت نویت بالکتاب صلتی و برّی فجُزیتَ خیراًفی الدنیاوالآخرة ۔ والسلام

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ، امابعد،ہر وہ شخص جو لوگوں کو خدائے عزّو جلّ کی طرف دعوت دیتاہے اور عمل صالح انجام دیتاہے اور کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں تو وہ خدااور رسول کی مخالفت نہیں کرتا ہے اور تم نے جو مجھے امان ، نیکی اور صلہ رحم کی دعوت دی ہے تو جان لو کہ بہترین امان خداوندمتعال کی امان ہے اور قیامت میں وہ شخص اللہ کی امان میں نہیں ہے جو دنیا میں اللہ سے نہیں ڈرتا ۔میں دنیامیں خدا سے اس خوف کی درخواست کرتا ہوں جو آخرت میں قیامت کے دن ہمارے لئے اما ن کا باعث ہو۔اب اگر تم نے اپنے خط کے ذریعہ میر ے ساتھ صلہ رحم اور نیکی کی نیت کی ہے تو تم کو دنیاوآخر ت میں اس کی جزا ملے گی۔

۲۲۳

وہ دونوں امام علیہ السلام کا جواب لے کرعمرو بن سعید کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم دونوں نے تمہارے خط کو ان کے سامنے پڑھا اور اس سلسلے میں بڑی کو شش بھی کی لیکن اس سلسلہ میں ان کا عذر یہ تھا کہ وہ فر ما رہے تھے :'' انّی رأیت رؤیاً فیهارسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه (وآله) وسلم وأُمرتُ فیها بأ مرٍأنا ما ضٍ له، علیّ کان أولٰ''

میں نے ایک ملکو تی خواب دیکھا ہے جس میں رسو ل خدا صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم موجو د تھے۔ اس خوا ب میں آپ نے مجھ کو ایک چیز کا حکم دیا گیا ہے۔میں اس پر ضرور عمل کروں گا اور یہ مجھ پر سب سے زیادہ اولیٰ ہے۔

جب ان دونوں نے امام علیہ السلام سے پوچھا کہ وہ خواب کیا تھا ؟تو آپ نے فر مایا :'' ما حدثت بها أحداً وما أنا محدّ ث بها حتی ألقی ربِّی'' (١) اور(٢) میں یہ خواب کسی سے بیان نہیں کرسکتا اور نہ ہی میں یہ خواب کسی سے بیان کرنے والا ہوں یہاں تک کہ اپنے رب سے ملا قات کر لوں ۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ حارث بن کعب والبی نے علی بن الحسین (علیہما السلام) کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص٣٨٨)

٢۔امام علیہ السلام یہ مناسب نہیں دیکھ رہے تھے کہ اپنے سفر کے رازسے سب کو آشنا کر تے کیو نکہ انسان جوکچھ جا نتا ہے وہ سب بیان نہیں کر دیتا ہے خصوصاً جبکہ انسان ظرف و جودکے لحاظ سے مختلف و متفاوت ہو ں اور امام علیہ السلام پر واجب ہے کہ ہر شخص کو اس کے وجود کی وسعت اور معرفت کی گنجا ئش کے اعتبار سے آشنائی بہم پہنچائی ں ، اسی لئے امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو ایک واقعی جو اب دیدیا کہ''لم یشا قق الله ورسوله من دعا الی اللّٰه وعمل صالحاً ...وخیر الا مان أمان اللّٰه و لن یؤمن اللّٰه یوم القیامةمن لم یخفه فی الدنیا فنسأل اللّٰه مخافةفی الدنیا تو جب لنا أما نه یوم القیامه ''

اور جب وہ لوگ اس جواب سے قانع نہ ہو ئے تو امام علیہ السلام نے کہہ دیاکہ آپ کو ایک ایسے خواب میں حکم دیا گیا ہے جس میں خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود تھے کہ آپ اپنے سفر کو جاری رکھی ں ؛ لیکن آپ نے اس خواب کو بیان نہیں کیا اور یہ کہہ کربات تمام کردی : ''وما أنا محدث لها حتی ألقی ربی ''

شاید یہیں پرا حمد بن اعثم کوفی متوفی ٣١٠ ھ نے امام علیہ السلام کے اس خواب کا تذکر ہ کر دیا ہے جو آپ نے اپنے جد کی قبر پر مد ینہ میں دیکھا تھا لیکن یہ کیسے معلوم کہ یہ خواب وہی ہے ؟ جب امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ خواب خدا کی ملا قات سے قبل میں کسی سے بھی بیان نہیں کرو ں گا یعنی یہ وہی بات ہے جس کا میں نے عہد کیا ہے ۔ واللہ اعلم بہ ، اللہ اس سے بہتر آگاہ ہے۔

۲۲۴

راستہ کی منزلیں

* پہلی منزل: تنعیم

* دوسری منزل : صفاح

*تیسری منزل : حاجر

* چوتھی منزل:چشمۂ آب

* پانچویں منزل : خزیمیہ

* زہیر بن قین کا امام علیہ السلام سے ملحق ہونا

* ایک اور نامہ

* چھٹی منزل :زرود

* ساتویں منزل :ثعلبیہ

* آٹھویں منزل:زبالہ

* نویں منزل : درّہ عقبہ

* دسویں منزل : شراف

* گیارہویں منزل : ذو حسم

* بارہویں منزل : البیضہ

* تیرہویں منزل : عذیب الھجانات

* چودہویں منزل : قصر بنی مقاتل

* قربان گاہ عشق نینوا

۲۲۵

راستہ کی چودہ (١٤)منزلیں

پہلی منزل :تنعیم(١)

امام حسین علیہ السلام نے اپنے سفرکو جاری رکھااورراستہ میں آپ کا گذرایک ایسی جگہ سے ہوا جسے تنعیم کہتے ہیں ۔ وہاں آپ کی ملاقات ایک قافلہ سے ہوئی جسے بحیر بن ریسان حمیر ی(٢) نے یزید بن معاویہ کی طرف روانہ کیا تھا۔ یہ شخص یمن میں یزید کاکار گزار تھا۔ اس قافلہ کے ہمراہ الورس(٣) اور بہت سارے شاہانہ لباس تھے جسے عامل یمن نے یزید کے پاس روانہ کیا تھا۔امام علیہ السلام نے اس کا روان کے سارے بار کو اپنی گرفت میں لے لیا اور قافلہ والوں سے فرمایا :''لا أکر هکم من أحب أن یمضی معنا الی العراق أوفینا کراء ه وأحسنا صحبته، ومن أحب أن یفارقنا من مکاننا هذا أعطیناه من الکراء علیٰ قدر ماقطع من الارض''

____________________

١۔یہ مکہ سے دوفرسخ پر ایک جگہ ہے جیساکی معجم البلدان ج٢،ص٤١٦پر مرقوم ہے ۔ مکہ کے داہنی جانب ایک پہاڑہے جسے تنعیم کہتے ہیں اور شمالی حصہ میں ایک دوسراپہاڑہے جسے ''ناعم ''کہتے ہیں او راس وادی کو ''نعیمان''کہتے ہیں ۔وہا ں پر ایک مسجد موجود ہے جو قر یب ترین میقات اورحرم سے نزدیک ترین احرام سے باہر آنے کی جگہ ہے آج کل یہ جگہ مکہ کے مرکزی علاقہ سے ٦ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے جس کا مطلب یہ ہو ا کہ ایک فرسخ ہے نہ کہ دو فرسخ ۔ اس وقت شہر سے لے کر یہا ں تک پورا ایک متصل اور وسیع علاقہ ہے جو مدینہ یا جدہ سے مکہ آنا چاہتا ہے اسے ادھر ہی سے ہو کر گذرنا پڑتا ہے۔

٢۔گویایہ وہی شخص ہے جو علم نجوم میں صاحب نظر تھاکیونکہ اس نے عبداللہ بن مطیع کو بتایا تھا کہ جب ابن زبیر قیام کرے گا تو وہ کوفہ کاوالی بنے گا۔(طبری ،ج٦، ص ٩) طاوؤ س یمانی جو بہت معروف ہیں اس شخص کے آقا تھے۔طاوؤ س یمانی نے مکہ میں ١٠٥ھ میں وفات پائی۔(طبری، ج٦، ص٢٩)

٣۔ الورس؛ یہ خاص قسم کی گھاس ہے جو تل کی طرح ہوتی ہے اور رنگ ریزی کے کام آتی ہے اور اس سے زعفران بھی بنایا جاتا ہے۔ یہ گھاس یمن کے علاوہ کہیں بھی نہیں ملتی ہے۔

ممکن ہے کہ بادی النظر فکر میں کسی کو امام علیہ السلام کا یہ فعل العیاذباللہ نا مناسب لگے کہ آپ نے درمیان سے قافلہ کے بار کو اپنی گرفت میں کیو ں لیا؟ یہ تو غصب ہے لیکن وہ افراد جو تاریخ کی ابجد خوانی سے بھی واقف ہو ں گے وہ بالکل اس کے برعکس فیصلہ کری ں گے۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق تو امام علیہ السلام کا کام غلط ہوہی نہیں سکتا، انھو ں نے جو کیا وہی حق ہے لیکن ایک غیر کے لئے تا ریخ کی ورق گردانی کافی ہوگی اور جب وہ تاریخ کے اوراق میں امام حسن علیہ ا لسلام کی صلح کے شرائط پر نگاہ ڈالے گا تو ظاہری اعتبار سے بھی یزید کا تخت حکومت پر براجمان ہونا غلط ثابت ہوگا اور وہ ایک باغی شمار کیا جائے گا جس نے مسلمانو ں کے بیت المال کو غصب کیاہے اور امام حسین علیہ السلام امت مسلمہ کے خلیفہ قرار پائی ں گے جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی ہر ممکن کوشش صرف کرکے اس غاصب و باغی تک اموال مسلمین پہنچنے سے مانع ہو ں پس یمن کے اس قافلہ کو روک کر اموال کو اپنی گرفت میں لینا امام علیہ السلام کا اولین فریضہ تھا لہٰذا ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے قافلہ والو ں سے بڑی دلنشین گفتگو کی جب کہ ظالم وجابر حکومت کی نگاہ میں ایسے افراد لائق گردن زدنی یا قابل قید و بندہوتے ہیں ۔(مترجم)

۲۲۶

میں تم لوگوں پر کوئی زبر دستی نہیں کرتا لیکن تم میں جو یہ چاہتا ہے کہ ہمارے ساتھ عراق چلے تو ہم اس کو کرایہ سفر بھی دیں گے اور اس کی ہمراہی کو خوش آمدید بھی کہیں گے اور جو ہم سے یہیں سے جدا ہونا چاہتا ہے اسے بھی ہم اتنا کرایہ سفر دے دیں گے کہ وہ اپنے وطن تک پہنچ جائے ۔

امام علیہ السلام کی اس دلنشین گفتار کے بعد جو بھی اس قافلہ نور سے جدا ہوا اسے امام علیہ السلام نے اس کا حق دے دیا اور جس نے رکنا چاہا اسے کرایہ دینے کے علاوہ اما م علیہ السلام نے لباس بھی عطا کیا۔(١)

دوسری منزل : الصفاح(٢)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل اسدی کا بیان ہے کہ پہلی منزل سے چلنے کے بعدہم لوگ امام حسین علیہ السلام کے قافلہ کے ہمراہ دوسری منزل پر پہنچے جسے '' الصفاح '' کہتے ہیں اور وہاں ہماری ملاقات فرزدق بن غالب(٣) شاعر سے ہوئی۔ وہ حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا: خدا وند متعال آپ کی حاجت کو پورا کرے اور آ پ کی تمنا و آرزو کو منزل مراد تک پہنچائے ۔

____________________

١۔ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری،ج٥، ص ٣٨٥)

٢۔یہ جگہ حنین اور انصاب الحرم کے درمیان ہے جو بہت آ سانی سے مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے ۔

٣۔ اس شخص کا نام ھمام بن غالب بن صعصہ ہے۔ ان کے دونو ں چچا'' ذھیل'' اور ''زحاف ''بصرہ میں زیاد بن سمیہ کے دیوان میں دو دو ہزار بخشش لیا کرتے تھے ۔انھو ں نے بنی نہشل اور فقیم کی ہجو میں اشعار کہے تو ان دونو ں نے زیاد سے جا کر ان کی

۲۲۷

شکایت کی ۔جب اس نے فرزدق کو طلب کیا تویہ وہا ں سے بھاگ گئے۔ اس کے بعد نوبت یہ آ گئی جب زیاد بصرہ آتا تھا تو فرزدق کوفہ آجاتے تھے اور جب وہ کوفہ آتا تھا تو فرزدق بصرہ روانہ ہوجاتے تھے۔ واضح رہے کہ زیاد ٦ مہینہ بصرہ رہتا تھااور ٦ مہینہ کوفہ کے امور سنبھالتا تھا۔ اس کے بعد یہ حجاز چلے گئے اور وہیں مکہ ومدینہ میں رہنے لگے۔اس طرح زیاد کی شرارتو ں سے بچ کر سعید بن عاص کی پناہ میں رہنے لگے یہا ں تک کہ زیاد ہلاک ہوگیا(طبری، ج٥، ص ٢٤٢، ٢٥٠)تو انھو ں نے اس کی ہجو میں مرثیہ کہا :

بکیت امرئً امن آ ل سفیان کافراً ککسری علی عدوانہ أو کقیصراً (طبری، ج٥،ص ٢٩٠)میں نے آل سفیان کے ایک مرد پر گریہ کیا جو کافر تھا جیسے قیصر و کسری اپنے دشمن پر روتے ہیں ۔

ابن زیاد کی ہلاکت کے بعد یہ دوبارہ بصرہ پلٹ گئے اور وہیں رہنے لگے۔ ٦٠ھمیں یہ اپنی ما ں کے ہمراہ حج پر آ رہے تھے جب ان کی امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی شاید اسی لئے حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا میں حاضری نہ دے سکے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٨٦) انھو ں نے حجاج کے لئے بھی شعر کہے ہیں ۔(طبری ،ج٦،ص ٣٨٠و ٩٣٩٤) سلیمان بن عبدالملک کے محل میں بھی ان کی آمد ورفت تھی۔ (طبری ،ج٥، ص ٥٤٨)١٠٢ھ تک یہ شاعر زندہ رہے۔(طبری ،ج٥، ص ٢٤٢ ، ٢٥٠) بنی نہشل کی ہجو میں جب انھو ں نے اشعار کہے تھے تو یہ جوان تھے بلکہ ایک نوجوان اعرابی تھے جو دیہات سے آئے تھے۔ (طبری ،ج٥ ، ص ٢٤٢) ایسی صورت میں امام علیہ السلام سے ملاقات کے وقت ان کی عمر ٣٠سال سے کم تھی۔

امام علیہ السلام نے اس سے کہا :''بيّن لنا نبأ الناس خلفک'' تم جس شہر اور جہا ں کے لوگو ں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو ان کی خبری ں ہمارے لئے بیان کرو ۔فرزدق نے کہا : آ پ نے واقف کار شخص سے سوال کیا ہے تو سنئے :'' قلوب الناس معک ''لوگو ں کے دل آپ کے ساتھ ہیں ''و سیوفهم مع بنی امیه'' اور ان کی تلواری ں بنی امیہ کے ساتھ ہیں'' والقضاء ینزل من السمائ'' لیکن فیصلہ و قضا تو خدا وند عالم کی طرف سے ہے ''واللّہ یفعل ما یشائ'' اور اللہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

۲۲۸

امام حسین علیہ السلام نے ان سے کہا : تم نے سچ کہا، اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے ؛ہمارے رب کی روزانہ اپنی ایک خاص شان ہے لہٰذا اگر اس کا فیصلہ ایسا ہوا جو ہمیں محبوب ہے تو اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں گے اور شکر کی ادائیگی میں وہ ہمارا مدد گا ر ہے اور اگرفیصلہ الہٰی ہماری امیدوں کے درمیان حائل ہوگیا تب بھی اس شخص کے لئے کچھ نہیں ہے جس کی نیت حق اور جس کی سرشت تقویٰ ہے۔ یہ کہہ کر امام علیہ السلام نے اپنی سواری کو حرکت دی تو انھوں نے امام کو سلام کیا اور دونوں جدا ہوگئے۔(١) و(٢) جب عبیداللہ بن زیاد کو خبر ملی کہ امام حسین علیہ السلام مکہ سے عراق کی طرف آرہے ہیں تو اس نے اپنی پولس کے سربراہ حصین بن تمیم تمیمی کو روانہ کیا۔ اس نے مقام قادسیہ میں آکر پڑاؤ ڈالا اور قادسیہ(٣) و خفا ن(٤) کے درمیان اپنی فوج کو منظم کیا اسی طرح قادسیہ اور قطقطانہ(٥) اورلعلع کے درمیان اپنی فوج کو منظم کرکے کمین میں لگادیا۔(٦)

____________________

١۔ ابومخنف کا بیان ہے کہ ابی جناب نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے یہ روایت نقل کی ہے۔ (طبری ،ج٥، ص ٣٨٦) یہ بیان اس بیان سے میل نہیں کھاتا جو ان دونو ں سے عنقریب بیان ہو گا کہ یہ دو نو ں کہتے ہیں کہ ہم لوگ مقام '' زرود میں امام علیہ السلام سے ملحق ہوئے اور یہ منزل صفاح کے بعد کوفہ کے راستہ میں چندمنازل کے بعد ہے مگر یہ کہا جائے کہ ان کے قول''اقبلنا حتی انتھینا ''کا مطلب یہ ہوکہ ہم لوگ کوفہ سے روانہ ہوکر صفاح تک پہنچے جو مکہ میں داخل ہونے کا راستہ ہے پھر مناسک حج انجام دینے کے بعد منزل زرود میں امام علیہ السلام سے دوبارہ ملحق ہوگئے ۔

٢۔طبری نے کہا : ہشام نے عوانہ بن حکم کے حوالے سے، اس نے لبطہ بن فرزدق بن غالب سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ اس کے باپ نے کہا : میں نے ٦٠ھ میں حج انجام دیا اور ایام حج میں حرم میں داخل ہو ا تو دیکھا حسین بن علی مکہ سے نکل رہے ہیں میں ان کے پاس آیا اورعرض کی: بأبی أنت و أمی یا بن رسول اللّٰہ! ما اعجلک عن الحج؟ فرزند رسول خدا میرے ما ں باپ آپ پر قربان ہوجائی ں !آپ کو اتنی بھی کیا جلدی تھی کہ آپ حج چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا : لو لم أعجل لأْ خذت اگر میں جلدی نہ کرتا تو پکڑ لیا جاتا ۔ فرزدق کہتا ہے کہ پھر آپ نے مجھ سے پوچھا ممن أنت ؟تم کہا ں کے رہنے والے ہو ؟ تو میں نے جواب دیا : میں عراق کا رہنے والا ایک شخص ہو ں ؛ خدا کی قسم !اس سے زیادہ انھو ں نے میرے بارے میں تفتیش نہیں کی ؛ بس اتنا فرمایا : جن لوگو ں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو مجھے ان کی خبر بتاؤ تو میں نے کہا: انکے قلوب آپ کے ساتھ ہیں اور تلواری ں بنی امیہ کے ہمراہ ہیں اور قضاء اللہ کے ہاتھ میں ہے۔آپ نے مجھ سے فرمایا : تم نے سچ کہا! پھر میں نے نذر اور مناسک حج کے سلسلہ میں کچھ سوالات کئے تو آپ نے اس کے جواب سے مجھے بہرہ مند فرمایا۔(طبری، ج٥، ص ٣٨٦)

٣۔قادسیہ او ر کوفہ کے درمیان ١٥ فرسخ کی مسافت ہے اور اس کے وعذیب کے درمیان ٤میل کا فاصلہ ہے اور اسے دیوانیہ کہتے ہیں ۔ حجاز کے دیہات کی طرف یہ(قادسیہ) عراق کا سب سے پہلا بڑاشہر ہے۔ اسی جگہ پر عراق کی سب سے پہلی جنگ بنام جنگ قادسیہ سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں ہوئی ہے ۔

٤۔ یہ ایک قریہ ہے جو کوفہ سے نزدیک ہے جہا ں بنی عباس کا ایک پانی کاچشمہ ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٣ ، ص٤٥١ پر موجود ہے ۔

٥۔ قطقطانہ ، رہیمہ سے کوفہ کی طرف تقریباً ٢٠میل کے فاصلہ پرہے۔ (طبری، ج٧ ، ص ١٢٥) یعقوبی کا بیان ہے : جب امام علیہ السلام کومسلم کی شہادت کی خبر ملی تو آپ قطقطانہ میں تھے۔ (طبری، ج٢، ص ٢٣٠)

٦۔ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یونس بن ابی اسحاق سبیعی نے اس کی روایت کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٤)

۲۲۹

تیسری منزل : حاجر(١)

اس کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے مقصد کی طرف روانہ ہوتے ہوئے حاجر بطن رمہ(٢) تک پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے قیس بن مسہر صیداوی کو اہل کوفہ کی طرف روانہ کیا اور ان کے ہمراہ اہل کوفہ کے نام ایک خط لکھا :

''بسم اللّه الرحمن الرحیم ! من الحسین بن علی الی اخوانه من المومنین و المسلمین، سلام علیکم : فانّی أحمد الیکم اللّٰه الذی لا اله الا هو ، أما بعد ، فان کتاب مسلم بن عقیل جاء ن یخبرن فیه بحسن رأیکم و اجتماع ملئکم علی نصرنا و الطلب بحقنا فسألت اللّٰه أن یحسن لنا الصنع وأن یثیبکم علی ذالک أعظم الاجر ، وقدشخصت من مکة یوم الثلاثاء لثمان مضین من ذی الحجه یوم التروية فاذا قدم علیکم رسول فا کمشوا أمرکم و جدّ وا، فان قادم علیکم فأیام هٰذه، ان شاء اللّٰه؛ والسلام علیکم ورحمة اللّه وبرکا ته ''

بسم اللّہ الرحمن الرحیم ! یہ خط حسین بن علی کی جانب سے اپنے مومنین و مسلمین بھائیوں کے نام، سلام علیکم ، میں اس خدا کی حمد و ثنا کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔امابعد ، حقیقت یہ ہے کہ مسلم بن عقیل کا خط مجھ تک آچکا ہے، اس خط میں انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ تم لوگوں کی رائے اچھی ہے اور تمہارے بزرگوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ وہ ہماری مدد کریں گے اور ہمارے حق کو ہمارے دشمنوں سے واپس لے لیں گے تو میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمارے لئے اچھی راہ قرار دے اور اس کے ثواب میں تم لوگوں کو اجرعظیم سے نوازے ۔

____________________

١ ۔حاجرنجد کی بلند وادی کو کہتے ہیں ۔

٢۔ بطن رمہ وہ جگہ ہے جہا ں اہل کو فہ و بصرہ اس وقت یکجا ہوتے تھے جب وہ مدینہ جانے کا ارادہ کرتے تھے جیسا کہ معجم البلدان، ج ٤،ص ٢٩٠،اور تاج العروس، ج ٣،ص١٣٩پر مرقوم ہے۔

۲۳۰

اس سے تم لوگ آگاہ رہوکہ میں بروز سہ شنبہ ٨ ذی الحجہ یوم الترویہ مکہ سے نکل چکا ہوں لہذا جب میرا نامہ بر تم لوگوں تک پہنچے تو جو کام تم کو کرنا چاہئیے اس کی تدبیر میں لگ جاؤ اور اس مسئلہ میں بھر پور کوشش کرو کیونکہ میں انشا ء اللہ انہی چند دنوں میں تم تک پہنچنے والا ہوں ۔ والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

امام حسین علیہ السلام کا یہ خط لے کر قیس بن مسہر صیداوی کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے۔آپ جب قادسیہ پہنچے تو حصین بن تمیم نے آپ کو گرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا ۔

ابن زیاد نے آپ سے کہا محل کی چھت پر جاؤ اور کذاب بن کذاب کو گالیاں دو !

قیس بن مسہر شجاعت وشہا مت کے ساتھ محل کی چھت پر آئے اور کہا :'' أیھا الناس ! ان الحسین علیہ السلام بن علی خیر خلق اللّٰہ ابن فاطمہ بنت رسول اللہ وأنا رسولہ الیکم وقد فارقتہ بالحاجر فأجیبوہ ثم لعن عبید اللہ بن زیاد وأباہ واستغفر لعلیِّ بن أبی طالب '' اے لوگو ! حسین بن علی خلق خدا میں بہتر ین مخلوق ہیں ، آپ فرزند فاطمہ بنت رسول خدا ہیں اور میں ان کا نامہ بر ہوں ، میں ان کو مقام حاجر میں چھوڑ کر یہاں آیا ہوں ۔ تم لوگ ان کی عدالت خواہ آواز پر لبیک کہنے کے لئے آمادہ ہو جاؤ پھر آپ نے عبید اللہ اور اس کے باپ پر لعنت کی اور علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کے لئے طلب مغفرت کی۔عبید اللہ نے حکم دیا کہ انھیں محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔اس طرح آپ شہید ہو گئے ۔] اللہ آپ پر نزول رحمت فر مائے[(١)

چو تھی منزل : چشمۂ آب

امام حسین علیہ السلام کا قافلہ کوفہ کی طرف رواں دواں تھا؛ راستے میں آپ کا قافلہ عرب کے ایک پا نی کے چشمہ کے پاس جا کر ٹھہرا۔ وہاں عبد اللہ بن مطیع عدوی بھی موجود تھے جو پا نی لینے کی غرض سے وہاں اترے تھے۔جیسے ہی عبد اللہ بن مطیع نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا ویسے ہی آپ کی خدمت میں

____________________

١۔ کتاب کے مقدمہ میں شرح احوال موجود ہے۔

۲۳۱

آکر کھڑے ہو گئے اور عرض کی: فرزند رسول خدا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں !کون سا سبب آپ کو یہاں تک لے آیا ؟

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : اہل عراق نے خط لکھ کر مجھے اپنی طرف بلا یا ہے۔عبد اللہ بن مطیع نے آپ سے عرض کیا: فرزند رسول اللہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ اس راہ میں آپ اسلام کی ہتک حرمت نہ ہو نے دیں ، میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ(وآلہ) وسلم کی حرمت خطرے میں نہ پڑے ،خدا کے لئے عرب کی حرمت خطرے میں نہ ڈالئے۔خدا کی قسم! اگر حق کو بنی امیہ سے واپس لینا چاہیں گے تو وہ آپ کو قتل کر ڈالیں گے اور اگر ان لوگوں نے آپ کو قتل کردیا تو آپ کے بعد کسی کو نگا ہ میں نہیں لا ئیں گے ۔(١) خدا کی قسم! اسلام کی حرمت، قریش کی حرمت ہے اورعربوں کی حرمت خاک میں مل جائے گی ،پس آپ ایسا نہ کریں اور کوفہ نہ جائیں اور بنی امیہ سے نہ الجھیں !عبد اللہ بن مطیع نے اپنے نظر یہ کو پیش کیا اور امام علیہ السلام اسے بغور سنتے رہے لیکن اپنے راستے پر چلتے رہے۔

پانچو یں منزل:خزیمیہ(٢)

امام حسین علیہ السلام کا سفر اپنے مقصد کی طرف جاری تھا۔ چلتے چلتے پھر ایک منزل پررکے جو مقام '' زرود'' سے پہلے تھی یہاں پر پانی موجود تھا،(٣) اس جگہ کا نام خزیمیہ ہے ۔

____________________

١۔ امام کے عمل سے نہ تو اسلام کی بے حرمتی ہوئی نہ ہی رسول خدا ، عرب اور قریش کی ہتک حرمت ہوئی بلکہ اسلام دشمن عناصر کی کا رستا نیو ں سے یہ سب کچھ ہوا ۔ابن مطیع نے اپنے اس جملہ میں خطا کی ہے جو یہ کہہ دیا کہولئن قتلوک لا یها بون بعد ک احداابدا کیونکہ امام علیہ السلام کے بعد ان لوگو ں کو جرأ ت ملی جو مکہ ومدینہ وکوفہ میں اس سے پہلے اپنے ہاتھو ں میں چوڑیا ں پہنے بیٹھے تھے انھی ں میں سے خود ایک ابن مطیع بھی ہے جو ابن زبیر کے زمانے میں کوفہ کا والی بنا۔ اگر امام حسین علیہ السلام نے قیام نہ کیا ہوتا تو بنی امیہ کے خلا ف کسی میں جرأ ت پیدا نہ ہوتی اور اسلام کو مٹا نے میں وہ جو چاہتے وہی کرتے ۔

٢۔یہ جگہ مقام زرود سے پہلے ہے اس کے بعدکاراستہ کوفہ جانے والو ں کے لئے ہے جیسا کہ معجم البلدان میں آیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے اس کے اورثعلبیہ کے درمیان ٣٢کیلومیٹرکا فاصلہ ہے۔ یہ درحقیقت ثعلبیہ کے بعدحجاج کی پہلی منزل ہے۔

٣۔ طبری ،ج٥،ص ٣٩٤، ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے محمد بن قیس نے یہ روایت بیان کی ہے ۔شاید یہ قیس بن مسہر کے فرزند ہیں ۔

۲۳۲

زہیر بن قین کا امام حسین علیہ السلام سے ملحق ہونا

قبیلہء بنی فنرارہ کے ایک مرد کا بیان ہے : ہم زہیر بن قین بجلی کے ہمراہ تھے اور ہم اسی راستے پر چل رہے تھے جس راستہ پر حسین (علیہ السلام) محو سفر تھے لیکن ہمارے لئے سب سے زیادہ نا پسند امر یہ تھا کہ ہم ان کے ہمراہ ایک ساتھ سفر کریں اور ایک منزل پر ٹھہریں لہٰذ ا زہیر کے حکم کے مطا بق حسین جہاں ٹھہر تے تھے ہم وہاں سے آگے بڑھ جا تے اور وہ جہاں پر آگے بڑھتے ہم وہاں پڑاؤ ڈال کر آرام کرتے تھے؛ لیکن راستے میں ہم ایک ایسی منزل پر پہنچے کہ چارو نا چار ہم کو بھی وہیں پر رکنا پڑا جہاں پر امام حسین نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ امام حسین نے ایک طرف اپنا خیمہ لگا یا اور ہم نے اس کے دوسری طرف ؛ ہم لوگ ابھی بیٹھے اپنے خیمے میں کھا نا ہی کھا رہے تھے کہ یکایک حسین کا پیغام رساں حاضر ہوا اور اس نے سلام کیاپھر خیمہ میں داخل ہوا اور کہا : اے زہیر بن قین ! ابو عبد اللہ حسین بن علی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے تا کہ تم ان کے پاس چلو۔ اس جملہ کا اثر یہ ہوا کہ حیرت وتعجب سے جس انسان کے ہاتھ میں جو لقمہ تھا وہ نیچے گر گیا؛ سکوت کا یہ عالم تھا کہ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ ہم سب کے سروں پر طائر بیٹھے ہیں ۔(١) زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر کہتی ہے کہ میں نے زہیر سے کہا : فرزند رسول اللہ تمہارے پاس پیغام بھیجے اور تم ان کے پاس نہ جائو !سبحان اللہ! اگر انھوں نے مجھے بلایا ہوتاتو میں ضرور جاتی اور ان کے گہر بار کلام کو ضرور سنتی، پھر میں نے کچھ نہ کہا لیکن زہیر بن قین اٹھے اور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں روانہ ہوگئے ۔ابھی کچھ دیر نہ گزری تھی کہ واپس آگئے لیکن اب تو بات ہی کچھ اور تھی؛ چہرے پر خوشی کے آثار تھے اور چہرہ گلاب کی طرح کھلا جارہاتھا۔

____________________

١۔ ابو مخنف کا بیان ہے کہ مجھ سے سدّی نے بنی فزارہ کے ایک جوان کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جب حجاج بن یوسف کے زمانے میں ہم لوگ زہیر بن قیس بجلی کے مکان میں چھپے تھے جہا ں اہل شام داخل نہیں ہو تے تھے تو میں نے فزاری سے پوچھا: ذرا مجھ سے اس واقعہ کو بیان کرو جب تم لوگ حسین بن علی کے ہمراہ، سفر میں تھے تو اس نے یہ روایت بیان کی۔(طبری، ج٥، ص ٣٩٦، ارشاد، ص ٢٢١، خوارزمی، ص٣٢٥)

۲۳۳

اسی عالم میں زہیر نے اپنے ہمراہیوں سے کہا : تم میں سے جو ہمارے ساتھ آناچاہتا ہے آ جائے اور اگر نہیں تو اب اس سے میرا یہ آخری دیدار ہے۔اس کے بعداپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے زہیر نے کہا : میں تم لوگوں سے ایک روایت بیان کرنا چاہتا ہوں ، اسے غور سے سنو !ہم لوگ جب مقام '' بلنجر ''(١) پر لڑنے کے لئے گئے تو خداوندمتعال نے ہم لوگوں کو دشمنوں پر کامیابی عطاکی اور بڑی مقدار میں مال غنیمت بھی ہاتھ آیا۔اس وقت سلمان باہلی(٢) نے ہم لوگوں سے کہا : کیا تم لوگ اس بات پر خوش ہو کہ خدا وند عالم نے تم لوگوں کو فتح و ظفر سے نوازاہے اور کافی مقدار میں مال غنیمت تمہارے ہاتھوں لگاہے ؟ ہم لوگوں نے کہا : ہاں کیوں نہیں !تواس نے ہم لوگوں سے کہا : جب تم لوگ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی جوانی دیکھو گے تو تمہاری ان کے ساتھ جنگ کی خوشی اس مال غنیمت ملنے کی خوشی سے زیادہ ہو گی اورجہاں تک میری بات ہے تو اب میں تم لوگوں سے خدا حافظی کر تا ہوں ۔

پھر زہیر بن قین نے اپنی زوجہ کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا : اب میں تم کو طلا ق دے رہا ہوں تاکہ تم آزاد ہو جاؤ اورگھروالوں کے پاس جا کر وہیں زندگی بسر کرو؛ کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میری وجہ سے تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔میں تمہارے لئے بہتری چاہتاہوں ۔(٣) و(٤)

____________________

١۔ یہ تاتا ریو ں (یا خزریو ں) کا شہر ہے جو انہیں کے دروازو ں میں سے ایک دروازے کے نزدیک ہے ٣٣ھ عہد عثمان میں سلمان بن ربیعہ باہلی کے ہاتھو ں یہ جنگ فتح کی گئی جیسا کہ معجم البلدان میں یہی موجود ہے ۔

٢۔ طبری ،ج٤، ص ٣٠٥ پر ہے کہ سلمان فارسی اور ابو ہریرہ اس جنگ میں لشکر کے ہمراہ موجود تھے ۔یہ بیان ابن اثیر کی الکامل میں ہے (ج ٤،ص ١٧)پھریہ بیان ہے کہ جس شخصیت نے ان لوگو ں سے یہ گفتگوکی وہ سلمان فارسی ہیں نہ کہ باہلی۔ ابن اثیر نے ا پنی تاریخ الکامل فی التاریخ میں اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ تاریخ طبری کو کامل کری ں لہٰذاوہ اکثرو بیشتر اخبار میں طبری سے ناقل دکھائی دیتے ہیں ۔شیخ مفید نے ارشاد میں اور فتال نے روضة الواعظین میں ص ١٥٣پر ، ابن نمانے مثیر الاحزان میں ص ٢٣پر ، خوارزمی نے اپنے مقتل میں ج١، ص ٢٢٥پر اور البکری نے معجم ج١ ،ص٣٧٦ پر واضح طور سے اس بات کی صراحت کی ہے کہ وہ شخص جناب سلمان فارسی ہی تھے جنہو ں نے یہ جملہ کہا تھا۔ اس بات کی تائید طبری نے بھی کی ہے کیونکہ طبری کے بیان کے مطابق جناب سلمان وہا ں موجود تھے ؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ مدائن فتح ہونے کے بعد جناب سلمان فارسی وہیں کے گورنر رہے اور وہیں اپنی وفات تک قیام پذیر رہے اور کسی بھی جنگ کے لئے وہا ں سے نہیں نکلے؛ بلکہ اس جنگ سے قبل عمر کے عہد حکومت میں آپ نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا ۔

٣۔ ابو مخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبر زہیر بن قین کی زوجہ دلھم بنت عمر و نے بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥،ص٣٩٦، الارشاد، ص ٢٢١)

٤۔ عنقریب یہ بات کربلامیں زہیر بن قین کے خطبے سے معلوم ہوجائے گی کہ اس سے قبل زہیراس بات پر معاویہ کی مذمت کیا کرتے تھے کہ اس نے زیاد کو کس طرح اپنے سے ملحق کرلیا؛اسی طرح حجر بن عدی کے قتل پر بھی معاویہ سے ناراض تھے ۔

۲۳۴

ایک اور نامہ بر

اسی جگہ سے امام حسین علیہ السلام نے عبداللہ بن بقطر حمیری(١) کو بعض راستوں سے مسلم بن عقیل(٢) کی طرف روانہ کیا۔ سپاہ اموی جو حصین بن تمیم کے سربراہی میں کوفہ کے قریب قادسیہ میں چھاؤنی ڈالے راہوں کو مسدود کئے تھی اور آمد و رفت پر سختی سے نظررکھے ہوئی تھی؛ اس نے عبداللہ بن بقطر کوگرفتار کر کے عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ جب آپ عبیداللہ کے پاس لائے گئے تو اس نے کہا : محل کے اوپر جاؤ اور کذاب بن کذاب پر لعنت بھیجو پھر نیچے اتر آؤ تاکہ میں تمہارے سلسلے میں اپنانظریہ قائم کرسکوں ۔یہ سن کر عبداللہ بن بقطر محل کے اوپر گئے اور جب دیکھا کہ لوگ تماشابین کھڑے ہیں تو آپ نے فرمایا :

'' أیھاالناس انی رسول الحسین علیہ السلام بن فاطمہ بنت رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم لتنصروہ و توازروہ علی بن مرجانة بن سمیہ الدعی ! ''

اے لوگومیں حسین فرزند فاطمہ بنت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام رساں ہوں تاکہ تم لوگ ان کی مدد و نصرت کر سکو اور اس مرجانہ بن سمیہ کے بچے جس کی پیدائش کا بستر معلوم نہیں ہے، کے خلاف ان کی پشت پناہی کرو ،یہ سنتے ہی عبیداللہ بن زیادنے حکم دیاکہ انھیں چھت سے پھینک دیاجائے۔ اس کے کارندوں نے آپ کو محل کے اوپر سے نیچے پھینک دیا؛جس کی وجہ سے آ پ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ؛ لیکن ابھی رمق حیات باقی تھی۔عبدالملک بن عمیرلخمی(٣) آپ کے پاس آ یا اور آپ کو ذبح کر کے شہید کر ڈالا۔

____________________

١۔ آپ کی ما ں امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیاکرتی تھی ں اسی لئے آپ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ آ پ حضرت امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی تھے۔طبری نے بقطر ہی لکھا ہے اسی طرح جزری نے الکامل میں بھی بقطر ہی ذکر کیا ہے؛ لیکن ہمارے بزرگو ں نے(ی) کے ساتھ یعنی یقطر لکھاہے جیسا کہ سماوی نے ابصارالعین، ص٥٢پر یہی لکھا ہے ۔

٢۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے یہ خبرابو علی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے نقل کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص٣٩٨؛ارشاد، ص ٢٢٠) اس خبر کو انھو ں نے قیس بن مسہر صیداوی کی خبرسے خلط ملط کردیا ہے ۔

٣۔ شعبی کے بعد اس نے کوفہ میں قضاوت کا عہدہ سنبھالا۔ ١٣٦ ھ میں وہ ہلاک ہوا ؛اس وقت اس کی عمر ١٠٣ سال تھی جیسا کہ میزان الاعتدال، ج ١، ص ١٥١ ، اور تہذیب الاسمائ، ص٣٠٩ پر تحریرہے۔ عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ پر صیداوی کی شہادت کی خبر سے پہلے امام علیہ السلام کو ابن بقطر کی شہادت کی خبر ملی ہے؛ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے قیس بن مسہر صیداوی سے پہلے یقطر کو روانہ کیا تھا ۔

۲۳۵

چھٹی منزل: زرود(١)

عبداللہ بن سلیم اسدی اور مذری بن مشمعل سے روایت ہے کہ ان دونوں نے کہا :

جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو ہماری ساری کوشش یہی تھی کہ ہم کسی طرح حسین سے راستے میں ملحق ہو جائیں تاکہ دیکھیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے؛ لہٰذا ہم لوگوں نے اپنے ناقوں کو سر پٹ دو ڑایا؛ یہاں تک کہ مقام زرود(٢) پر ہم ان سے ملحق ہوگئے۔جب ہم لوگ ان کے قریب گئے تو دیکھا کوفہ کا رہنے والا ایک شخص عراق سے حجاز کی طرف روانہ ہے، جیسے ہی اس نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا اپنے راستے سے پلٹ گیا تاکہ آپ سے اس کی ملاقات نہ ہو لیکن ا مام علیہ السلام وہاں پر کھڑ ے رہے گویا اس کے دیدار کے منتطر تھے لیکن جب دیکھا کہ وہ ملاقات کے لئے مائل نہیں ہے تو اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔

ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : آؤ اس شخص کے پاس چلیں اور اس سے پوچھیں اگر اس کے پاس کوفہ کی خبر ہو گی تووہ ہم کو اس سے مطلع کرے گا ؛یہ کہہ کر ہم لوگ چلے یہاں تک کہ اس تک پہنچ ہی گئے، پہنچ کر ہم نے کہا : السلام علیک ، تو اس نے جواب دیا: وعلیکم السلام ورحمة اللہ ۔

پھر ہم لوگوں نے پوچھا : تم کس قبیلہ سے ہو ؟ اس شخص نے جواب دیا : ہم قبیلہ بنی اسد سے ہیں ۔

ہم لوگوں نے کہا : ہم لوگ بھی بنی اسد سے متعلق ہیں ؛تمہارا نام کیا ہے ؟

____________________

١۔یہ جگہ خزیمیہ او رثعلبیہ کے درمیان کوفہ کے راستے میں ہے جیسا کہ معجم البلدان، ج٤،ص ٣٢٧میں یہی موجود ہے۔

٢۔ یہ خبر اس خبر سے منافات ر کھتی ہے جوابھی گذرچکی کہ یہ لوگ منزل صفاح پر مقام زرو د سے چند منزل قبل فر زدق والے واقعے میں موجود تھے کیونکہ اس خبر سے یہی ظاہر ہوتاہے بلکہ واضح ہے کہ یہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے زرود میں ملحق ہوئے ہیں اور اس سے پہلے یہ لوگ امام کے ساتھ موجود نہیں تھے بلکہ حج کی ادائیگی کے ساتھ یہ ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ منزل صفاح اوائل میں ہے جبکہ امام علیہ السلام ''یوم الترویہ'' کو مکہ سے نکلے ہیں ۔ اگر یہ لوگ امام علیہ السلام سے منزل صفاح پر ملحق ہوئے ہیں تو پھر حج کی انجام دہی ممکن نہیں ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ دونو ں خبرو ں کا ایک ہی راوی ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا؛ نہ ہی ابو جناب ، نہ ابو مخنف اورنہ ہی طبری، مگر یہ کہ یہ کہا جائے کہ حج سے پہلے یہ دونو ں منزل صفاح پر امام علیہ السلام سے ملے اور پھر حج کے بعد منزل زرود پر پہنچ کرامام علیہ السلام سے ملحق ہو گئے ۔

اس نے جواب دیا : بکیر بن مثعبہ، ہم لوگو ں نے بھی اپنا نام بتایا اور پھر اس سے پوچھا : کیا تم ہمیں ان لوگو ں کے بارے میں بتاؤ گے جنہیں تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ہو؟

اس نے جواب دیا:ہا ں ! میں جب کوفہ سے نکلاتھا تو مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل کئے جا چکے تھے ۔ ہم نے دیکھا ان دونو ں کے پیرو ں میں رسی باندھ کر انھی ں بازار میں پھرایا جا رہاہے۔ اس خبر کے سننے کے بعد ہم لوگ اس سے جداہوکر اپنے راستے پر چل پڑے یہا ں تک کہ(حسین علیہ السلام) سے ملحق ہوگئے اور ایک دوسری منزل پر ان کے ہمراہ پٹراؤ ڈالا ۔

۲۳۶

ساتویں منزل : ثعلبیہ(١)

شام کا وقت تھا جب امام علیہ السلام نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا جس کا نام'' ثعلبیہ'' تھا۔جب آپ کے خیمہ نصب ہوچکے تو ہم لوگوں نے آپ کی خدمت میں آکر سلام عرض کیا ۔آ پ نے سلام کا جواب دیا تو ہم لوگوں نے آپ سے کہا : اللہ آپ پر رحمت نازل کرے! ہم لوگوں کے پاس ایک اہم خبر ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اسے اعلانیہ بیان کریں اوراگر چاہیں ۔ توخفیہ اور پوشیدہ طور پر بیان کریں ۔ امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا: ''مادون ھولاء سر'' ان لوگوں سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے جو خبر لائے ہو بیان کردو، ہم لوگوں نے ان سے کہا : آپ نے کل شام اس سوار کو دیکھا تھا جو آپ کے پاس سے گزرا تھا ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ! میں اس سے کوفہ کے بارے میں سوال کرناچاہتا تھا۔ ہم نے کہا: ہم نے اس سے آپ کے لئے خبر لے لی ہے اورآپ کے بجائے ہم لوگوں نے کوفہ کے موضوع پر تحقیق کر لی ہے۔ وہ شخص قبیلہ بنی اسد کاایک مرد تھا جو ہمارے ہی قبیلہ سے تھا ۔ وہ صاحب نظر، سچا، اور صاحب عقل و فضل تھا ۔اس نے ہم لوگوں سے بتایا کہ جب وہ وہاں سے نکلا تھا تومسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ قتل ہوچکے تھے حتیٰ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ ان دونوں کے پیروں میں رسی باندھ کر بازار میں گھسیٹا جارہاہے۔یہ سن کر آپ نے فرمایا :

____________________

١۔ کوفہ سے مکہ جانے کے لئے جو راستہ مڑتا ہے یہ وہی ہے۔ اس کی نسبت بنی اسد کے ایک شخص ثعلبہ کی طرف دی گئی ہے جیسا کہ معجم میں تحریر ہے۔

۲۳۷

'' انّاللّہ وانّاالیہ راجعون'' اس جملہ کی آپ نے چند مرتبہ تکرار فرمائی(١) پھر ہم نے عرض کی : آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آ پ اپنے گھر والوں کے ہمراہ یہاں سے واپس لوٹ جائیں ؛کیونکہ اب کوفہ میں آپ کا کوئی ناصر ومدد گا ر نہیں ہے بلکہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں وہ سب آپ کے مخالف نہ ہوگئے ہو ں ۔ایسے موقع پر فرزندان عقیل بن ابیطالب اٹھے اور انھوں نے اس کی مخالفت کی(٢) اور کہنے لگے : نہیں خدا کی قسم ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے۔جب تک ہم ان سے اپنا انتقام نہ لے لیں یا وہی مزہ نہ چکھ لیں جس کاذائقہ ہمارے بھائی نے چکھاہے۔(٣) ان دونوں کا بیان ہے: حسین (علیہ السلام) نے ہم لوگوں پر ایک نگاہ ڈالی اور فرمایا : ''لاخیر فی العیش بعد ھولاء !'' ان لوگوں کے بعد زندگی میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔ اس جملہ سے ہم نے بخوبی سمجھ لیا کہ سفر کے ارادے میں یہ مصمم ہیں تو ہم نے کہا : خدا کرے خیر ہو ! آپ نے بھی ہمارے لئے دعا کی اور فرمایا:'' رحمکم اللّہ ''اللہ تم دونوں پر رحمت نازل کرے ۔

رات کا سناٹا چھاچکا تھا، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آپ سپیدہ سحر کے انتظار میں ہیں ؛جیسے ہی سپیدہ سحر نمودار ہوئی ،آپ نے اپنے جوانوں اور نو جوانوں سے فرمایا :''اکثروا من المائ'' پانی زیادہ سے زیادہ جمع کرلو ، ان لوگوں نے خوب خوب پانی جمع کرلیا اور اپنے سفر پر نکل پڑے یہاں تک کہ ایک دوسری منزل تک پہنچ گئے ۔

____________________

١۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جناب مسلم کی شہادت کی خبر یہا ں عام ہوگئی لیکن عنقریب یہ بات آئے گی کہ منزل زبالہ میں پہنچ کر امام علیہ السلام نے یہ خط لکھ کر اپنے اصحاب کے سامنے اس کا اعلان کیا تھا؛ یہا ں سے امام علیہ السلام کے اس جملے کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے کہ'' مادو ں ھولاء سر'' یعنی ان کے علاوہ جو لوگ ہیں ان کے لئے یہ خبر سری ہے اور اسی طرح یہ خبر منزل زبالہ تک پوشیدہ ہی رہی لیکن یعقوبی کا بیان ہے کہ مسلم کی شہادت کی خبر آپ کو مقام'' قطقطانہ'' میں ملی تھی۔ (تاریخ یعقوبی ،ج٦ ، ص ٢٣٠ ،ط، نجف)

٢۔ ابو مخنف کا بیان ہے : ابو جناب کلبی نے عدی بن حرملہ اسد کے حوالے سے اور اس نے عبداللہ سے اس خبر کو ہمارے لئے بیان کیاہے۔ (طبری ،ج٥، ص٣٩٧) ارشاد میں ،ص ٢٢٢ پر ہے کہ عبداللہ بن سلیمان نے یہ روایت بیان کی ہے۔(ارشاد ، طبع نجف)

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : مجھ سے عمر بن خالد نے یہ خبر بیان کی ہے (لیکن صحیح عمرو بن خالد ہے) اور اس نے زید بن علی بن الحسین سے اور اس نے دائود بن علی بن عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے ۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٧ ؛ارشاد، ص٢٢٢، مسعودی ،ج٣ ،ص ٧٠، الخواص ، ص ٢٤٥ ، طبع نجف)

۲۳۸

آٹھویں منزل : زبالہ(١)

یہ نورانی قافلہ اپنے سفرکے راستے طے کرتا ہوا زبالہ(٢) کے علاقے میں پہنچا تو وہاں امام حسین علیہ السلام کو اپنے رضائی بھائی عبداللہ بن بقطر(٣) کی شہادت کی خبر ملی۔ آپ نے ایک نوشتہ نکال کر لوگوں کو آواز دی اور فرمایا :'' بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم، أمابعد، فقد أتانا خبر فضیع ! قتل ابن عقیل و هانی بن عروةو عبدالله بن یقطر، وقدخذلتنا شیعتنا (٤) فمن أحب منکم الانصراف فلینصرف لیس علیه منا ذمام ''

بسم اللہ الرحمن الرحیم، امابعد،مجھ تک ایک دل دھلانے والی خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل ، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر قتل کردئے گئے ہیں اور ہمار ی محبت کا دم بھرنے والوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے لہذا اب تم میں سے جو جانا چاہتا ہے وہ چلاجائے، ہماری جانب سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔

یہ جملہ سنتے ہی لوگ امام علیہ السلام سے جدا ہونے لگے کوئی داہنی طرف جانے لگاکوئی بائیں طرف؛ نتیجہ یہ ہواکہ فقط وہی ساتھی رہ گئے جو مدینہ سے آئے تھے۔ آپ نے یہ کام فقط اس لئے کیاتھا کہ

____________________

١۔ یہ جگہ کوفہ سے مکہ جاتے وقت مختلف راستے پیداہونے سے قبل ہے۔ یہا ں ایک قلعہ اورجامع مسجد ہے جو بنی اسد کی ہے۔ اس جگہ کا نام عمالقہ کی ایک عورت کے نام پر ہے جیسا کہ معجم البلدان میں یہی ہے ۔

(٢) ابومخنف کا بیان ہے : ابوجناب کلبی نے عدی بن حرملہ سے اور اس نے عبداللہ بن سلیم سے میرے لئے یہ خبر بیان کی ہے۔ (طبری، ج٥، ص ٣٩٨)

٣۔ ان کے شرح احوال گزر چکے ہیں اور وہ یہ کہ ان کی والدہ امام حسین علیہ السلام کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی ں اسی لئے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے رضائی بھائی ہیں ۔

٤۔ اس جملہ میں امام علیہ السلام کی تصریح ہے کہ کوفہ کے شیعو ں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ کوفہ اور جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کے سلسلے میں یہ پہلا اعلان ہے اگرچہ اس کی خبر آپ کو اس سے قبل منزل زرود میں مل چکی تھی؛ لیکن ظاہر یہ ہے کہ جو لوگ وہا ں موجود تھے۔ ان کے علاوہ سب پر یہ خبر پوشیدہ تھی کیونکہ یہ امام علیہ السلام کے حکم سے ہوا تھا۔آخر کار آپ نے یہا ں '' زبالہ'' میں تمام حاضرین کے لئے اس خبر کا اعلان کردیا ۔

۲۳۹

باد یہ نشین عرب اس گمان میں آپ کے پیچھے پیچھے ہوئے تھے کہ آپ ایسے شہر میں آئیں گے جوظالم حکمرانوں کی حکومت سے پاک ہوگا اور وہاں کے لوگ آپ کے فرمانبردار ہوں گے لہذا امام علیہ السلام نے ناپسند کیا کہ ایسے لوگ آپ کے ہمسفر ہوں ۔امام چاہتے تھے کہ آپ کے ہمراہ صرف وہ رہیں جنہیں معلوم ہو کہ وہ کہاں جارہے ہیں اور امام علیہ السلام کو معلوم تھا کہ جب ان لوگوں پر بات آشکار ہوجائیگی تو کوئی بھی آپ کے ہمراہ نہیں رہے گا مگر وہ لوگ جو عدالت چاہتے ہوں اور موت ان کے ہمراہ چل رہی ہو۔(١) رات اسی منزل پر گزری ،صبح کو آپ نے اپنے جوانوں کو چلنے کا حکم دیاتو انھوں نے سب کو پانی پلاکر اور خوب اچھی طرح پانی بھر کر اپنا سفر شروع کر دیا یہاں تک کہ درّۂ عقبہ سے آپ کا گزرہوا ۔

نویں منزل : درّہ عقبہ(٢)

یہ نورانی قافلہ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھتا ہوا درّہ عقبہ تک پہنچا۔وہاں اس قافلہ نے اپنا پڑاؤ ڈالا۔(٣) بنی عکرمہ کے ایک شخص نے امام سے عرض کیا: آپ کو خدا کا واسطہ ہے کہ آپ یہیں سے پلٹ جائیے، خداکی قسم !آپ یہاں سے قدم آگے نہیں بڑھائیں گے مگریہ کہ نیزوں کی نوک اور تلواروں کی دھار پر آگے بڑھیں گے ، جن لوگوں نے آپ کو خط لکھا تھا اور آپ کوآنے کی دعوت دی تھی اگر یہ لوگ میدان کارزار کی مصیبتیں برداشت کرکے آپ کے لئے راستہ آسان کردیتے تب آپ وہاں جاتے تو آپ کے لئے بہت اچھا ہوتا لیکن ایسی بحرانی حالت میں جس سے آپ خود آگاہ ہیں ، میں نہیں سمجھتا کہ آپ کوفہ جانے کے سلسلے میں قدم آگے بڑھائیں گے۔

____________________

١۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ان لوگو ں کو جانے کی اجازت دی تو آپ کا مقصد کیا تھا؟ امام علیہ السلام کا یہ بیان تمام چیزو ں پر کافی ہے

٢۔واقصہ کے بعد اور قاع سے پہلے مکہ کے راستے میں یہ ایک منزل ہے۔ یہ منزل ان کے لئے ہے جو مکہ جانا چاہتے ہیں ۔

٣۔ ابومخنف کا بیان ہے : ابوعلی انصاری نے بکر بن مصعب مزنی کے حوالے سے مجھ سے یہ خبر بیان کی ہے۔(طبری ،ج٥، ص ٣٩٨ ، ارشاد ،ص ٢٢٢ ،طبع نجف)

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328