حکم اذاں

حکم اذاں0%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: صفحے: 328
مشاہدے: 55310
ڈاؤنلوڈ: 5072

تبصرے:

حکم اذاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 55310 / ڈاؤنلوڈ: 5072
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

لیکن بعض صحابہ جو واقعہ غدیر میں موجود تھے ، علی سے حسد اور بغض کی وجہ سے بیٹھے رہے اور شہادت دینے کے لیے کھڑے نہیں ہوئے ، ان میں انس بن مالک  بھی تھے ، جب امام علی ع منبر پر سے اترے  تو آپ  نے ان سے کہا : انس ! کیا بات ہے تم دوسرے صحابہ  کے ساتھ اس دن جو کچھ  تم نے سنا تھا اس  کی شہادت  دینے کے لیے کھڑے نہیں ہوتے ؟ انس نے کہا: امیر المومنین !  اب میں بڈھا  ہوگیا ہوں مجھے  یاد نہیں رہا کیا بات ہوئی تھی ۔ امام علی ع نے کہا: اگر تم جھوٹ بول رہے ہوتو اللہ  تمھیں برص  کی بیماری میں مبتلا کردے ۔ چنانچہ انس  ابھی وہاں سے اٹھے  بھی نہ تھے کہ ان کے چہرے پر برص کے داغ پڑگئے ۔انس روتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے شہادت کو چھپایا تھا ، اس لیے مجھے عبد صالح  کی بد دعا لگ گئی ۔ یہ مشہور قصہ ہے اس کو ابن قتیبہ نے کتاب المعارف (1) میں بیان کیا ہے جہاں باب  البرص میں انس بن مالک کاشمار  ان لوگوں میں کیا ہے جن کی بیماری شے شکل بگڑ گئی تھی ۔

امام احمد بن حنبل نے بھی مسند(2) میں اس واقعہ  کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ سب کھڑے ہوگئے  سوائے تین آدمیوں  کے جنھیں علی ع کی بد دعا لگ گئی ۔ مناسب ہوگا یہا ں ان تین اشخاص کی تصریح کردیں جن کا ذکر امام احمد بن جنبل  نے احمد بن یحیی بلاذری کے حوالے سے کیا ہے ۔ وہ کہتے  ہیں:

"جب امام علی ع نے شہادت طلب کی اس وقت  منبر کے نیچے انس بن مالک ، براء بن عازب اور جریر بن عبداللہ  بجلی  بیٹھے ہوئے تھے لیکن ان تین میں سے کوئی بھی نہیں اٹھا ۔ امام علی نے اپنی بات کو دہرایا  پھر بھی ان میں سے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ اس پر امام نے کہا " یا الہی ! جو کوئی جانتے بوجھتے اس شہادت کوچھپائے اسے اس وقت تک  دنیا سے نہ اٹھانا جب تک اس پر کوئی ایسی نشانی نہ لگ جائے جس سے وہ پہچانا جائے " چنانچہ انس بن مالک کو برص

-----------------------

(1):- ابن قتیبہ ،کتاب المعارف صفحہ 251۔

(2):- امام احمد بن جنبل ، مسند جلد1 صفحہ 119

۱۴۱

کی بیماری لگ گئی ۔ براء بن عازب کی بینائی جاتی رہی  اورجریر ہجرت کے بعد دوبارہ بدّو بن گئے اور شرات جاکر اپنی ماں کے گھر مرے ۔ یہ ایک مشہور قصہ ہے جس کو بہت سے مورخین  نے نقل کیا ہے(1)

"فاعتبروايآ اَولى الألباب"

جو شخص  بھی اس واقعہ کے مختلف(2) پہلوؤں پر غور کرے گا ، جو تقریبا فراموش کیا جاچکا تھا اور جسے امام علی ع نے چوتھائی صدی گزرنے کےبعد دوبارہ زندہ گیا تھا ۔ وہ امام علی ع کی عظمت ،بلند ہمتی اور خلوص کا قائل ہوجائے گا انھوں نے نہ صرف صبر کا حق ادا کردیا بلکہ صبر کے حق سے بھی زیادہ صبر کیا ۔ جب بھی انھوں نے اسلام اور مسلمانوں  کے مفاد میں ضرورت  محسوس کی توبے کہے ، ابوبکر  ،عمر اور عثمان کو نصیحت  کرنے اور مفید مشورے دینے سے گریز نہیں کیا ۔ لیکن اس سب کے باوجود واقعہ غدیر ان کےذہن میں ہمیشہ مستحضر رہا اور جب بھی موقع ملا انھوں نے اسے زندہ کیا ۔ یہاں تک کہ بھرے مجمع میں علی الاعلان  انھوں نے دوسروں سے بھی اس واقعہ کی گواہی چاہی ۔

دیکھیے امام علی ع نے اس واقعہ  کی یاد کو زندہ کرنے اور سب مسلمانوں پر خواہ وہ اس واقعہ کے وقت موجود تھے یا نہیں اتمام حجّت  کرنے کا کیا دانشمندانہ طریقہ اختیار کیا ہے ۔ اگر امام علی ع یہ کہتے کہ لوگو! غدیر خم میں رسول اللہ  نے خلافت  کے لیے مجھے نامزد  کیا تھا ، تو حاضرین  پر ذرا بھی اثر نہ ہوتا بلکہ وہ الٹا اعتراض کرتے کہ امام نے اتنی طویل مدت تک خاموشی کیوں اختیار کی۔

---------------------

(1):- ابن عساکر ، تاریخ دمشق جلد 2 صفحہ 7 اور جلد 3 صفحہ 150 ۔شرح نہج البلاغہ تحقیق محمد ابو الفضل جلد 19 صفحہ 217 ۔میر حامد حسین موسوی ،عبقات الانوار جلد 2 صفحہ 309 ۔ ابن مغازلی ،مناقب علی بن ابی طالب صفحہ 23 ۔ علی بن برہان الدین حلبی ، سیرۃ حلبیہ  جلد 3 صفحہ 337

(2):- ایک پہلو یہ ہے کہ امام علی ع نے صحابہ  کو دعوت دی تھی کہ حدیث غدیر کی شہادت دیں ۔ اس واقعہ کو محدثین اور مورخین  کی ایک بڑی تعداد نے بیان کیا ہے ۔جن کاذکرپہلے  ہوچکا ۔جیسے امام احمد بن حنبل  ،ابن عساکر ،ابن ابی الحدید وغیرہ ۔

۱۴۲

لیکن جب آپ نے یہ کہا کہ میں ہر مسلمان کو قسم دیتاہوں کہ اگر  اس نے وہ سنا ہو جو رسول اللہ ص نے غدیر کے دن فرمایا تھا ، تو وہ کھڑے  ہو کر اس کی شہادت دے ، تو اس واقعہ کو حدیث نبوی  کے طور پر تیس 30 صحابیوں نے بیان کیا جن میں  16 بدری تھے ۔ اس طرحی امام نے جھٹلانے  والوں ، شک کرنے والوں اور اتنی طویل مدت تک خاموشی اختیار کرنے پر اعتراض کرنے والو  کا منہ بند کردیا ۔ کیونکہ  اب آپ کے ساتھ ساتھ ان تیس صحابہ کا سکوت اس بات کی روشن  دلیل تھا کہ معاملہ دراصل نازک تھا اور جیسا کہ ظاہر ہے اس موقع پر سکوت ہی میں اسلام کا مفاد تھا ۔

شوری پر تبصرہ

گزشتہ اوراق میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ شیعوں کے بقول خلیفہ کا تعین اللہ کے ہاتھ میں ہے جو رسول اللہ ص وحی آنے پر کرتے تھے ۔ یہ قول  احکام اسلامی کے  فلسفے  سے مکمل مطابقت رکھتا ہے ۔کیونکہ سورہ قصص میں ہے ۔ "وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ"

اور چونکہ اللہ سبحانہ  کی مشیت یہ کہ امت محمدیہ بہترین امت ہو جو انسانوں کے لیے پیدا کی گئی ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس قیادت  دانشمندی ،پختگی ، قوت ،شجاعت ، ایمان اور زہد وتقوی کے اعلی معیار پر فائز ہو ۔ یہ صفات  صرف اس فرد  میں پائی جاسکتی ہیں جس کو اللہ تعالی نے منتخب  کیا ہو اور قیادت وسیادت کی خصوصی  صفات سے نوازا ہو ۔ سورہ حج آیت 75 میں ہے :

" اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلاً وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ " اللہ انتخاب کرلیتا ہے فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کا اور اسی طرح آدمیوں میں سے بھی ۔بے شک اللہ خوب سننے  والا خوب دیکھنے والا  ہے ۔

جس طرح اللہ سبحانہ انبیاء کا انتخاب کرتا ہے اسی طرح اوصیاء کا بھی ۔

۱۴۳

وہی انتخاب کرتا ہے ۔

رسو ل اللہ ص نے فرمایا ہے :

"لكلّ نبيّ ٍ وصيّ ٌ وأنا وصيّي عليّ ُبن أبي طالب "

ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے ۔ میرے وصی علی بن ابی طالب ع ہیں(1)

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت ص نے فرمایا :

"أنا خاتم الأنبياء وعليّ خاتم الأوصياء ".

میں خاتم الانبیاء ہوں اور علی ع خاتم الاوصیاء ہیں (2)

اس طرح شیعوں  نے دوسروں  کوبھی بے فکر کردیا اور خود بھی آرام سے ہوگئے انھوں نے اپنا معاملہ  اللہ اور اس کے رسول  ص کے سپرد کردیا ہے ۔اب ان میں نہ کوئی خلافت کا دعوی کرسکتا ہے ۔ نہ کسی کو خلافت  کا لالچ  ہوسکتا ہے ، نہ کسی نص کی بنیاد پر اور نہ خود اپنی مرضی سے ۔کیونکہ ایک تو نص اختیار اور شوری کی  نفی کرتی ہے ، دوسرے نص میں رسول اللہ ص نے خود مخصوص اشخاص کا ناموں کے ساتھ تعیّن کردیا ہے(3) ۔اسی لیے شیعوں میں تو کسی کو خلافت کا دعوی  کرنے کی جراءت  ہی نہیں ہوسکتی ۔اور اگر بالفرض کوئی ایسی جسارت کرے بھی تو اسے فاسق اور دین سے خارج سمجھا جائے گا۔

 لیکن اہل سنت کے نزدیک خلافت کا فیصلہ شوری اور لوگوں کی پسند سے ہوتا ہے ۔ اس طرح اہل سنت نے ایسا دروازہ  کھول دیا ہے جسے امت میں سے کسی شخص کے لیے بھی بند نہیں کیا جاسکتا اور اس طرح ہر ایرے غیرے  نتھوخیرے کے لیے موقع ہے کہ وہ خلافت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھے ۔ خلافت کا حصول

--------------------

(1):-ابن عساکر ، تاریخ دمشق جلد 3 صفحہ 5 ۔ خوارزمی ،مناقب خوارزمی صفحہ 42  ۔ینابیع المودۃ صفحہ 79 ۔

(2):- حافظ قندوزی حنفی ، ینابیع المودۃ جلد 2 صفحہ 3 بحوالہ دیلمی ۔خوارزمی ،مناقب خوارزمی  ۔محب طبری ، زخائر العقبی ۔

(3):- تعداد کی روایت  بخاری ومسلم میں ہے ۔ اورتعداد  اور اسماء کی روایت کے لیے دیکھیے ینابیع المودۃ جلد 3 صفحہ 99

۱۴۴

قریش ہی کے لیے نہیں بلکہ ایرانیوں ،ترکوں ، مغلوں حتی کہ غلاموں  کے لیے بھی ممکن ہوکیا ۔ایک شاعر نے خلافت اسلامیہ کا یوں نقشہ کھینچا ہے ۔

"هزلت حتّى بان من الهزال

كلاها وحتَى استامّها كلّ مفلس "

خلافت اس قدر لاغر ہوگئی ہے کہ دبلے  پن سے اس کے گردے نظر آنے لگے اور ہر مفلس  قلّاش  نے اسے اپنا بنا لیا ۔  وہ سب اقدار  اور شرائط  جن کا خلیفہ  میں ہونا ضروری تھا ، بھاپ بن کر ہوا میں اڑگئیں ۔ ایسا ہونا قدرتی تھا کہ کیونکہ بشر آخر بشر ہے ۔ اس کے انسانی جذبات ہیں ، خود غرضی اس کی جبلّت ہے ۔وہ اقتدار ملتے ہی بدل جاتا ہے اور پہلے سے بد تر ہوجاتا ہے ۔

ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کی  تصدیق اسلامی تاریخ سے ہوتی ہے ۔مسلمانوں  پر ایسے ایسے بد کاروں اور بد کرداروں نے حکومت کی ہے جن میں نہ حیا تھی ، نہ اخلاق اورنہ ہی ایمان ۔

مجھے دڑ ہے کہ بعض قارئین  اسے مبالغہ تصور کریں گے ۔ لیکن اگر وہ امویوں اورعباسیوں وغیرہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو انھیں معلوم ہوجائےگا کہ کوئی امیر المومنین کھلم کھلا شراب پیتے تھے ، بندروں سے کھیلتے تھے ، اور بندروں کو سونے کے زیور پہناتے تھے ۔ کسی امیرالمومنین  نے اپنی ایک کنیز کو اپنا لباس پہنا کر مسلمانوں  کو نماز پڑھانے کے لیے بھیج دیا تھا ۔ ایک امیر المومنین کی حبابہ نامی باندی  مرگئی تو یہ حضرت ہوش وحواس ہی کھو بیٹھے تھے ۔ ایک امیر المومنین کسی شاعر کے شعر سن کر ایسے مستائے کہ لگے اس کا عضو تناسل چومتے ۔ہم ان لوگوں کے حالات  بیان کرنے میں وقت ضائع کرنا نہیں چاہتے ، کیونکہ ان کے متعلق مسلمانوں کا پہلے ہی فیصلہ ہے کہ یہ محض کٹ کھنی بادشاہت کی نمائندگی  کرتے تھے خلافت کی قطعا نہیں ۔ کیونکہ رسول اللہ ص سے ایک قول منسوب ہے کہ

"الخلافة من بعدي ثلاثون عاما ً ثمّ تكون ملكا ً عضوضا ً."

۱۴۵

میرے بعد تیس سال خلافت رہے گی اس کےبعد کٹ کھنی بادشاہت ہوگی ۔

میرے خیال میں اس قول کو رسول اللہ ص سے  منسوب کرنا درست نہیں ہے ۔کیونکہ ثالث حضرت عثمان کو۔ جنھیں حضرت علی ع سے افضل شمار کیا جاتا ہے بلکہ ذوالنورین اور کامل الحیاء والایمان کہا جاتا ہے ۔ مسلمانوں نے قتل  کردیا تھا کیونکہ وہ ان سے تنگ آئے ہوئے تھے یہاں تک کہ انھوں نے حضرت عثمان کو  مسلمانوں کے قبر ستان "جنت البقیع " میں دفن بھی نہیں ہونے دیا ۔ چنانچہ ان ان کو بے غسل وکفن بقیع سے ملحق یہودیوں کے قبرستان " حش کوکب" میں سپر د خاک کیا گیا ۔

جو شخص تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرے گا ، اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوگا  کہ خلفاء کے کرتوت عام لوگوں سے بھی بد تر تھے لیکن اس وقت ہماری بحث  کاموضوع یہ نہیں ہے ۔ جسے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کا شوق ہو  ۔وہ طبری  کی تاریخ الامم والملوک ، ابن اثیر  کی  کامل التاریخ ، ابو الفداء کی المختصر فی تاریخ البشر اور ابن قتیبہ دینوری کی الامامۃ والسیاسۃ  وغیرہ سے رجوع کرے ۔ میں صرف اپنی پسند سے خلیفہ مقرر کرنے کی خرابی اور اس نظریہ کابنیادی بانجھ پن دکھانا چاہتا تھا ۔کیونکہ جس کو ہم آج پسند کرتے ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ کل وہ ہماری نظروں میں مردود قرارپائے اوریہ معلوم ہو کہ ہم نے غلطی کی تھی اور ہماری پسند صحیح نہیں تھی ۔ ایسا ہوچکا ہے ۔ عبدالرحمن بن عوف نے خود عثمان  بن عفان کو خلافت کے لیے پسند کیا لیکن بعد میں پچھتا ئے مگر اس وقت کیا ہوسکتا تھاجب چڑیاں چگ گئین کھیت ۔ عبدالرحمن بن عوف سابقین اولین میں سے ایک جلیل القدر صحابی تھے ۔ جب ان کی پسند درست ثابت نہیں ہوئی تو کیسے کوئی ہوش مند شخص  ایسے بانجھ  اوربے ثمر نظریے  سے مطمئن  ہوسکتا ہے جس نے صرف فتنہ وفساد ، افراتفری  اور خونریزی  کو جنم دیا ہو ۔ جب ابو بکر  کی بیعت کی جارہی تھی ۔ جو بقول عمر بن خطاب اچانک ہوگئی تھی لیکن اللہ نے اس کے برے نتائج  سے محفوظ رکھا ۔جس کی کتنے ہی صحابہ نے مخالفت کی اورجب علی ع کی بیعت جو بر سر عام ہوئی تھی بعض صحابہ نے

۱۴۶

توڑ دی جس کے نتیجے  میں جنگ جمل ، جنگ صفین ، اور جنگ نہروان واقع ہوئیں  تو کیسے کوئی دانش مند اس نظریے سے مطمئن ہوسکتا ہے جو آزمایاگیا  لیکن شروع ہی سے قطعی  ناکام  رہا بلکہ مسلمانوں کے لیے وبال ثابت ہوا ۔ بالخصوص جب کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ لوگ جو شوری کے ذریعے سے خلیفہ کے انتخاب کے قائل ہیں ایک دفعہ کسی کے خلیفہ مقرر ہوجانے کے بعد نہ اسے تبدیل کرسکتے ہیں اور نہ معزول کرسکتے ہیں ۔ جب عثمان کو مسلمانوں نے معزول کرنا چاہا تو انھوں نے یہ کہہ کرانکار کردیا کہ جو قمیص اللہ مجھے پنہائی ہے میں اسے نہیں اتاروں گا ۔

مغرب کی متمدن قومیں جو جمہوریت  کی چمپئین  بنی  ہوئی ہیں سربراہ مملکت  کے انتخاب سے متعلق ان کے طریقہ کار کو دیکھ کر ہمیں اس نظریے سے اور بھی نفرت ہوجاتی ہے ۔ہوتایہ ہے کہ مختلف سیاسی پارٹیاں اقتدارکی دوڑ میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے  کی کوشش میں لگی رہتی ہیں ، مختلف  اداروں سے سودے بازی کرتی ہیں اور ہر قیمت پر اقتدارکی کرسی تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ اس مقصد کے لیے اربوں ڈالرپروپیگنڈے پر خرچ کیے جاتے ہیں ، جب کہ قوم کے غریب اور کمزور طبقے  کو اس رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے جیسے ہی کوئی شخص اس سیاسی کھیل کے ذریعے  اقتدار کی کرسی تک پہنچ جاتا  ہے تو ہو فورا  اپنے حامیوں ، پارٹی ممبروں ، دوستوں اور عزیزرشتہ داروں کا وزارت کے منصوبوں ، اعلی عہدوں اور کلیدی  انتظامی ذمہ داریوں پر تقرکردیتا ہے اور دوسرے لوگ سربراہی کی معینہ مدت ختم ہونے تک حزب اختلاف  میں رہنے ہیں ۔ اور اس پوری مدت میں نہ صرف سربراہ کے لیے مشکلات اور رکاوٹیں  پیداکرتے رہتے ہیں  بلکہ حتّی  الامکان کوشش کرتے ہیں کہ اسے بدنام کریں اور ہوسکے تو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اس کا اقتدار ہی ختم کردیں ۔ اس سارے قضیے میں مجبور اوربے دست وپا قوم کی تقدیر میں صرف خسارہ ہی خسارہ ہے ۔

مغربی نظام جمہورت کے نتیجے میں کتنی انسانی اقدار پامال  ہوتی ہیں اور  آزادی اور جمہوریت کے نام پر اور پرکشش نعروں  کی آڑ میں کتنی سیاہ کاریاں فروغ پاتی ہیں !! یہاں تک کہ (بعض یورپی ملکوں مثلا برطانیہ میں ) لواطت کو قانونا جائز

۱۴۷

قرار دے دیا گیا ۔اور نکاح کے بجائے  زنا کو ترقی پسندی شمار کیاگیا ۔ میں حیران ہوں کہ مغربی تہذیبی  کی برکات  کو کہاں تک گنواؤں !

دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ہو اب زرکم عیار ہوگا

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرےگی

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپائیدار ہوگا

اب دیکھیے ! شیعہ عقیدہ کتنا عظیم اور کتنا فراخدلانہ ہے کہ اس کے مطابق خلافت اصول دین میں شامل ہے ، کیونکہ معاشرتی اور انفرادی زندگی  کی درستگی کا دارومدار اسی پر ہے ۔

شیعوں کا یہ قول کہ منصب خلافت اللہ کے اختیار میں ہے ایک عاقلانہ  اور صحت مندانہ نظریہ ہے ،جس کو عقل قبول کرتی ہے ، ضمیر کا اطمینان ہوتا ہے اور جس کی تائید  قرآن وسنت سے ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس سے لالچیوں ، غدّاروں  اور منافقوں کی ہمّت شکنی ہوتی ہے اور ظالموں ،گردن کشوں اور ملوک وسلاطین کا غرور خاک میں ملتا ہے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا ہے "

"فَرِيقاً هَدَى وَفَرِيقاً حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلاَلَةُ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ اللّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ "

ایک گروہ اس نے راہ دکھا دی اور ایک گروہ ہے کہ اس پر گمراہی ثابت ہوچکی ۔انھوں نے شیطان کو اپنا رفیق بنالیا  ہے اور سمجھے ہیں کہ ہم راہ پائے ہوئے ہیں ۔(سورہ اعراف ۔آیت 30)

۱۴۸

مسئلہ تقدیر ۔ اہل سنت کی نظر میں

میری گذشتہ زندگی میں قضا وقدر کا موضوع میرے لیے ایک چیستان بنا ہوا تھا کیونکہ مجھے اس کی کوئی ایسی وضاحت نہیں ملتی تھی جو میرے دل کو لگے اور جس سے مجھے اطمینا ن حاصل ہو ۔ میں اس سلسلے میں حیران وپریشان تھا ۔

مجھے اہل سنت کے مدرسے میں سکھایا گیا تھا کہ انسان اپنے افعال میں آزاد نہیں ، وہ وہی کچھ کرتا ہے جو اس کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے اور وہی کچھ بنتا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ۔جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کے پاس دوفرشتے بھیجتا ہے جو اس کی عمر ، اس کی روزی اور اس کے اعمال کےبارے میں تفصیل لکھ دیتے  ہیں کہ وہ شقی ہوگیا یا سعید(1)یعنی خوش نصیب ہوگا یا بد نصیب ۔

میں عجب مخمصے میں گرفتار تھا کیونکہ ایک طرف تو مجھے یہ تعلیم دی گئی تھی،  دوسری طرف میری عقل اور میرا ضمیر یہ کہتا تھا کہ اللہ تعالی عادل ہے ، وہ اپنی مخلوق  پر ظلم نہیں کرتا ۔یہ کیسے  ہوسکتا ہے کہ وہ کسی کو ایسے افعال پر مجبور کرے جس کاو ہ بعد میں محاسبہ کرے یاکسی کو ایسے جرم کی پاداش میں عذاب دے جو خود اس سے  اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہو اور جس کے ارتکاب پر اسے مجبور کیا ہو ۔ دوسرے مسلمان نوجوانوں کی طرح میں بھی اسی فکری تضاد میں مبتلا تھا اور میرا تصور یہ تھا کہ اللہ تعالی قوی اور جبار ہے ، اس کی شان یہ ہے کہ

اس سے کچھ نہیں کی جاسکتی اور وں سے بازپرس ہوگی (2)

---------------------

(1):- صحیح بخاری کتاب القدر۔

(2):-"لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ" (سورہ انبیاء ۔آیت 23)

۱۴۹

وہفعّا لٌ لّما يريد جو چاہتا ہے کرتا ہے  اس نے مخلوق کو پیدا کیا ، کچھ کو جنتی بنایا اور کچھ کو جہنمی ۔پھر یہ کہ وہ رحمان ورحیمی ہے وہ اپنے بندوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ،جیسا کہ قرآن میں ہے :

" تمھارا پروردگار اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔(1)

ایک اور آیت میں ہے :

"بے شک اللہ لوگوں پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں "(2)

اوریہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

"اللہ تعالی اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ شفیق ہے جتنی ماں اپنے بچے پر ہوتی ہے "(3)

میں اسی فکری تضاد کے پیچ وخم میں الجھا ہوا تھا اور اس کی جھلک میرے قرآن کے سمجھنے میں بھی نظر آتی تھی ۔ میں کبھی کہتا تھا کہ انسان خود اپنا نگران ہے اور وہی اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے :

"جو کوئی ذراسی نیکی کرے گا ، وہ اس کو دیکھ لے گا اور جو کوئی ذراسی بدی کرے گا ،وہ اس کو دیکھ لے گا (4)۔

کبھی تومیں یہ سمجھتا تھاکہ انسان کو کوئی دوسری طاقت چلاتی ہے ،اس کی اپنی کوئی قوت ہے اورنہ طاقت ،وہ خود انپے کو نہ نفع پہنچاسکتا ہے نہ نقصان  اور نہ اپنے لیے روزی کا بندوبست کرسکتا ہے کیونکہ بفحوائے قرآن

---------------------

(1):-" وَ مَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِلَعَبِيد" (سورہ حم سجدہ ۔آیت 46)

(2):-" إِنَّ اللّهَ لاَ يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئاً وَلَـكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ " (سورہ یونس ۔آیت 44)

(3):- صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 75

(4):-" فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ () وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ ()" (سورہ زلزال ۔آیت 7-8)

۱۵۰

تم تو بس وہی چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے(1) ۔

میں ہی نہیں بلکہ اکثر مسلمان اسی فکر تضاد میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر علماء ومشائخ  سےجب قضا وقدر کےبارےمیں گفتگو کی جائے تو ان سے کوئی  تو ان سے کوئی ایسا جواب نہیں بن پڑتا جس سے دوسروں کو تو کیا خود انھیں بھی اطمینان ہوسکے ۔بس کہہ دیتے ہیں کہ اس موضوع پرزیادہ بحث کی ضرورت نہیں بلکہ بعض تو تقدیر کی اس بحث کو ہی حرام قراردیتے ہیں  اور کہتے ہیں کہ مسلمان  کے لیے صرف اتنا ایمان لانا ضروری ہے کہ اچھی بری تقدیر اللہ کی طرف سے ہے ۔اگر کوئی  ضدی ان سے پوچھ بیٹھے کہ " یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ پہلے تو اپنے بندے  کو گناہ کے ارتکاب  پر مجبور کرے اور پھر اسے نار جہنم میں جھونک دے " تو فورا اس پر کافر وزندیق ہونے کا فتوی جڑدیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم دین سے نکل گئے ۔غرض ایسے ہی لغو الزام لگائے جاتے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عقلیں ٹھٹر  کررہ گئی ہیں اور لوگوں کا عقیدہ یہ ہوگیا ہے کہ جوڑے آسمانوں میں بنتے ہیں یعنی نکاح پہلے سے قسمت میں لکھا ہوتا ہے اور اسی طرح طلاق بھی ۔ اورحد تو یہ ہے کہ زنا بھی مقدر ہوتا ہے ۔ تقدیر مبرم کے ماننے والے کہتے ہیں کہ عورت کی شرمگاہ پر ان سب مردوں کے نام لکھے ہوتے ہیں جو اس کے ساتھ صحبت کرنے والے ہیں ۔ یہی حال شراب پینے اور کسی کو قتل کرنے کا ہے ۔ بلکہ یہی صورت کھانے پینے کی ہے ۔ تم وہ چیز کھاپی سکتےہو جو اللہ نے تمھارے مقدر میں لکھ دی ہے ۔

ایک مرتبہ یہ مسائل پیش کرنے کےبعد میں نے اپنے یہاں کے ایک عالم سے کہا کہ قرآن تو ان خیالات کی تکذیب کرتا ہے اور یہ ممکن نہیں کہ رسول ص ، قرآن کے برعکس کچھ کہے ، نکاح کے متعلق اللہ تعالی فرماتا ہے کہ

جو عورتیں تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کرو۔(2)

-----------------------

(1):-" وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ" (سورہ انسان ۔آیت30)

(2):-"فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاء" (سورہ نساء ۔آیت 3)

۱۵۱

اس آیت سے صاف اختیار اور آزادی کا اظہار ہوتا ہے ۔ طلاق کے متعلق قرآن کریم میں سے ہے :

"طلاق  تو دو ہی مرتبہ ہے ،پھر یا تو رکھ لینا ہے قاعدے کے مطابق یاچھوڑ دینا ہے خوش دلی کےساتھ "(1)

یہاں بھی وہی اختیار کی بات ہے ۔

زنا کے متعلق ارشاد ہے :

"زنا کے پاس نہ پھٹکو کہ وہ بے حیائی اوربری راہ ہے "(2)

اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آدمی جو کچھ کرتا ہے اپنے ارادہ واختیار سے کرتا ہے ۔ شراب کے بارے میں حق تعالی فرماتاہے :

"شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اورجوئے کے ذریعے تمھارے آپس میں دشمنی اور کینہ ڈال دے اور تمھیں ذکر الہی اور نماز سے روک دے ۔ تو کیا تم ان کاموں سے باز آجاؤگے ؟"(3)

اس آیت میں شراب اورجوئے کی ممانعت کی گئی ہے جس کے معنی یہی ہیں کہ آدمی کو اختیار ہے کہ چاہے تو شراب پئے اور جواکھیلنے یا پھر یہ کام نہ کرے ۔ قتل عمدکے بارے میں ارشاد ہے۔

"اللہ نے جس انسان کی جان کو محترم قراردیا ہے اس ناحق قتل مت کرو"(4)

--------------------

(1):-" الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ " (سورہ بقرہ۔آیت 229)

(2):-" وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاء سَبِيلاً" (سورہ بنی اسرائیل۔آیت32)

(3):-" إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ " (سورہ مائدہ ۔آیت 91)

(4):-" وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ" (سورہ انعام ۔آیت 151)

۱۵۲

ایک اور آیت میں ہے :

جو کوئی کسی مسلمان کو قصدا قتل کرےگا اس کا ٹھکانا جہنم  ہے جہاں ہو ہمیشہ رہےگا ۔ اللہ اس پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرےگا اور اس کے لیے دردناک عذاب تیار رکھے گا"(1)

اس آیت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کو اختیار ہے کہ وہ کسی کو قتل کرے یانہ کے ۔

کھانے پینے کے متعلق بھی اللہ تعالی نے کچھ حدود  مقرر کی ہیں ۔ چنانچہ ارشادہے :

" کھاؤ پیور لیکن اسراف نہ کرو ۔اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا "(2)

یہ آیت بھی آدمی کے اختیار پر ہی دلالت کرتی ہے ۔یہ تمام آیات سنانے کے بعد میں نے ان عالم سے کہا : قبلہ ! ان تمام قرآنی دلائل کے بعد بدی آپ یہی کہتے ہیں کہ ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور بندہ اپنے افعال میں مختار نہیں ، مجبور ہے ؟

ان عالم نے جواب دیا : تنہا اللہ تعالی ہی ہے جو کائنات میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتاہے ، اور دلیل کے طورپر انھوں نے یہ آیت پڑھی :

" اسے دنیا جہاں کے مالک توجسے چاہے دے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے اور جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلیل کرے ۔ ہرطرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے ۔

----------------------

(1):-" وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً " (سورہ نساء ۔آیت 93)

(2):-" وكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ " (سورہ اعراف ۔آیت 21)

۱۵۳

بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔(1)

میں نے کہا کہ ہمارا اختلاف اللہ تعالی کی مشیّت کے بارے میں نہیں ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ جب اللہ تعالی کوئی کام کرنا چاہے تو سب جن وانس اور دیگر تمام مخلوقات مل کر بھی اس کی مشیت کے خلاف نہیں کرسکتے ۔سوال بندوں کے افعال کا ہے کہ آیا وہ ان کے افعال ہیں یا وہ اللہ کی طرف سے ہیں ؟؟

اس پر ان عالم صاحب نے "لکم دينکم ولی دين" (تمھار عقیدہ تمھارے ساتھ اور میرا عقیدہ میرے ساتھ )کہہ کر بحث کا دروازہ بند کردیا ۔ہمارے جو علمائے کرام اپنی رائے پر قانع رہتے ہیں اور اسے بدلنے پر کبھی تیار نہیں ہوتے عموما ان کی آخری دلیل ہی ہوتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ دو دن کے بعد میں ان عالم صاحب سے پھر ملا اور میں نے کہا:

اگر آپ کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالی ہی سب کچھ کرتاہے اور بندوں  کو کچھ اختیار نہیں ، تو آپ خلافت کے بارے میں بھی یہی کیوں نہیں کہتے  کہ اللہ سبحانہ ، جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے پسند کرتا ہے ، بندوں کی مرضی کو کوئی دخل نہیں ۔

وہ :- جی ہاں ! میں  یہی تو کہتاہوں ۔ اللہ نے ہی پہلے ابو بکر کو پسند کیا ،پھر ابو بکر کو ، پھر عثمان کو ۔ اگر اللہ تعالی یہ چاہتا کہ علی خلیفہ اول ہوں تو جن وانس مل کر بھی علی ع کو خلیفہ اول ہونے سے نہیں روک سکتے تھے ۔

میں :-یہ کہہ کر تو آپ پھنس گئے ۔

وہ :- میں کیسے پھنس گیا ؟

----------------------

(1):-" قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ" (سورہ آل عمران ۔آیت 28)

۱۵۴

میں :-اب یا تو آپ یہ کہیں کہ اللہ نے چار خلفاء راشدین  کو تو خود پسند کرلیا ، اس کے بعد یہ کام لوگوں پر چھوڑ دیا کہ جس کو چاہیں پسند کرلیں یا پھر یہ کہیں کہ اللہ نے لوگوں کو بالکل اختیار نہیں دیا بلکہ رسول اللہ ص کی وفات سے لے کر تا قیام قیامت سب خلفاء کو وہی پسند کرتا ہے؟وہ :- دوسری شق کا قائل ہوں" قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاء وَتُعِزُّ مَن تَشَاء وَتُذِلُّ مَن تَشَاء  "

میں:- اس کا مطلب یہ ہوا کہ تاریخ  اسلام میں بادشاہوں او رکجکلاہوں  کی وجہ سے کجی واقع ہوئی ہو اللہ کی طرف سے بھی ۔ کیونکہ اللہ نے ہی انھیں حکومت  عطا کرکے مسلمانوں پر مسلط کیا تھا ۔وہ:-جی ہاں ! یہی بات ہے ۔بعض صلحاء نے اس آیت میں "امرنا" کو تشدید کسے ساتھ پڑھا ہے یعین"وإذا أردنا أن نهلك قريةً أمرنا مترفيها" مطلب یہ کہ ہم نے انھیں حاکم بنادیا ۔

میں :-(تعجب سے) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے ہی چاہا تھا کہ ابن ملجم  علی ع کو قتل کرے اور یزید کے ہاتھوں حسین  بن علی کا قتل ہو ۔وہ :- (فتحمندانہ لہجے میں)جی ہاں ! بالکل ۔ کیا آپ نے نہیں سنا کہ رسول اللہ ص نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا تھا کہ بعد میں آنے والوں میں س ب سے شقی وہ ہوگا جو تمھارے سر کو دوپارہ کرکے چہرے کو خون سے تربتر کردےگا ۔ اسی طرح  رسول اللہ ص نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات بتادی تھی کہ سیدنا حسین ع کو کربلا میں قتل کردیا جائے گا ۔ نیز آپ نے خبر بھی دی تھی کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں میں صلح کرائیں  گے اس طرح ہر شے ازل سے لکھی ہوئی ہے ۔ جو کچھ مقدر میں لکھا ہے اس سے انسان کو مفر نہیں ۔ اس طرح آپ ہارگئے ہیں میں نہیں ۔

میں کچھ دیر خاموش رہا ۔میں دیکھ رہاتھا کہ وہ پھولے نہیں سمارہے ہیں ۔کیونکہ بخیال خویش وہ میرے مقابلے میں جیت گئے تھے ۔ میں سوچ رہا تھا کہ ان حضرت کو کیسے سمجھاؤں کہ اللہ تعالی کو کسی واقعے کا علم ہونے کے قطعی یہ معنی نہیں کہ اللہ

۱۵۵

نے وہ واقعہ تقدیر میں لکھ دیا ہے یا لوگوں کو اس پر مجبور کردیا ہے ۔ مجھے پہلے سے معلوم تھاکہ یہ نظریہ ان صاحب کے دماغ میں بیٹھنا ممکن نہیں تھا ۔ اس لیے میں نے ایک اور سوال کیا کہ :کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نئے اور پرانے سب بادشاہ اور وہ سب لوگ جو اسلام اور مسلمانوں سے لڑتے رہے ہیں ، اللہ کے مقررکیے ہوئے ہیں ؟

وہ :- اس میں کیا شک ہے ۔

میں :- کیا وہ فرانسیسی نو آباد یاتی حکومت جس نے تیونس ، الجزائر اور مراکش پر قبضہ کررکھا تھا ، وہ بھی اللہ کی طرف سے تھی ؟

وہ :- جی ہاں ! اور جب مقررہ وقت آیا تو فرانس ان ملکوں سے نکل گیا ۔

میں:- بہت خوب ! پھر آپ پہلے کیسے اہل سنت کے اس نظریہ کا دفاع کررہے تھے کہ رسول اللہ  ص نے وفات پائی مگر خلافت کا معاملہ شوری پر چھوڑدیا کہ مسلمان جسے چاہیں خلیفہ بنالیں؟

وہ :- جی ہاں ! میں اب بھی اسی پر قائم ہوں اور انشااللہ قائم رہوں گا ۔

میں :- پھر آپ ان دونوں باتوں میں کیسے تطبیق دیتے ہیں : ایک اللہ کا اختیار اور دوسرے شوری کے ذریعے مسلمانوں کا اختیار؟

وہ جب مسلمانوں نے ابوبکر کو پسند کرلیا تو اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ نے بھی انھیں پسند کرلیا ۔

میں:- کیا سقیفہ میں خلیفہ کو منتخب کرنے کے بارےمیں کوئی وح نازل ہوئی تھی ؟

وہ :-استغفراللہ ! محمد ص کے بعد کوئی وحی نازل نہیں ہوئی ۔ یہ شیعوں کا عقیدہ ہے ۔

میں :- شیعوں  کو اور ان کے باطل عقائد کو چھوڑیے ۔ آپ نے اپنے عقیدے کے مطابق ہمیں قائل کیجئے ۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ابو بکر کو پسندکرلیا تھا؟

وہ :- اگر اللہ کا ارادہ کچھ اور ہوتا تو مسلمان اور سارا جہان مل کر بھی اللہ

۱۵۶

کے ارادے کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا تھا۔اس وقت میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ نہ سوچتے ہیں ، نہ قرآنی آیات پر غور کرتے ہیں ۔ ان کی رائے کبھی بھی کسی علمی نظریے کے مطابق نہیں ہوسکتی ۔

اس پر مجھے ایک اور قصہ یاد آگیا :

ایک دن میں اپنے دوست کےساتھ کجھور  کے باغ میں ٹہل رہا تھا اور ہم قضا وقدر کےبارےمیں  باتیں  کررہے تھے۔اتنے میں میرے سرپر ایک پکی ہوئی کجھور گری ۔میں نے اسے کھانے کے لیے گھاس پر سے  اٹھا کر منہ میں رکھ لیا ۔ میرے دو ست نے کہا : تم وہی چیز کھاسکتے ہو جو تمھارے نصیب میں ہو کیونکہ دانے دانے پرکھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے ۔

میں نے کہا : اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ لکھی ہوئی ہے تو پھر میں اسے نہیں کھاؤں گا  یہ کہہ کر میں نے اسے پھینک دیا ۔

میرے دوست نے کہا: سبحان اللہ اگر کوئی چیز تمھارے نام پر لکھی ہوئی نہ ہو  تو اللہ اسے تمھارے پیٹ میں سے بھی نکال لے گا ۔

میں نے کہا : اگر بات یہ ہے تو میں اسے کھالیتاہوں ۔یہ کہہ کر میں نے اسے دوبارہ اٹھالیا ۔ میں یہ ثابت کرناچاہتا تھا کہ اس کا کھانا یا نہ کھانا میرے اختیار میں ہے ۔ میرا دوست مجھے دیکھتا رہا ، یہاں تک کہ میں اس کجھور کو چباکر نگل  گیا ۔ اس وقت میرے دوست نے کہا : دیکھا یہ تمھارے نام پر ہی لکھی ہوئی تھی  اس طرح وہ اپنے خیال میں مجھ سے جیت گیا ۔ کیونکہ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ اب میں اس کجھو ر کو پیٹ میں سے نکال لیتا ۔

جی ہاں ! اہل سنت کا قضاوقدر کے بارے میں یہی عقیدہ ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ جب میں سنی تھا تو میرایہی عقیدہ تھا ۔

قدرتی بات ہے کہ میں اس عقیدے  کی وجہ سے جو فکری تضاد پر مبنی تھا پریشان رہتا تھا اور یہ بھی قدرتی بات ہے کہ اس عقیدے کی وجہ سے ہم لوگ جمود کا شکار ہیں ۔ ہم اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ اللہ ہماری حالت بدل دے

۱۵۷

ہم اپنی ذمہ داری سے بھاگتے ہیں اور اپنی ذمہ داری کو اللہ پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر آپ کسی چور ، ڈاکو سے یا شرابی ،زانی اور جواری سے یا اس مجرم سے بات کریں جس نےکی نابالغ لڑکی  کو اغوا کرکے اس سے اپنی شہوت کی آگ بجھانے کے بعد اسے قتل کردیا ہو،تو وہ یہی کہے گا کہ " وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے" میں کیا کرسکتا تھا ، میری تقدیر میں یہی لکھا تھا " ۔ یہ عجب خدا ہے جو پہلے تو انسان کو حکم دیتاہے کہ اپنی بیٹی کو زندہ دفن کردے ۔ پھر پوچھتا ہے کہے" بأيّ ذنبٍ قتلت" یہ بھی   جان لیجیے کہ ان باتوں کی وجہ سے مغربی مفکرین اور دانشور ہمیں حقارت کی نظر سے دیکھتے   ہیں اور ہماری کم سمجھی پر ہنستے ہیں ۔ اہل یورپ اسی عقیدہ تقدیر کو عربوں کی جہالت اور ان کی پس ماندگی کا خاص سبب بتلاتے ہیں ۔ یہ بھی قدرتی امر ہے کہ محققین نے دریافت کیا ہے کہ اس عقیدہ کو اموی حکمرانوں نے رواج دیا ۔ وہ کہتے تھے چونکہ  اللہ تعالی نے انھیں حکومت  عطا کی ہے ، اس لیے ان کی اطاعت فرض ہے ،جس نے ان کی اطاعت کی ، اس نے اللہ کی اطاعت کی او رجو ان کی مخالفت کرتاہے وہ باغی ہے اور بغاوت کی سزاموت ہے ۔ اسلامی تاریخ میں اس کے متعدد شواہد موجود ہیں ۔

عثمان بن عفان ہی کی مثال لیں ۔ جب لوگوں نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ خلافت سے دستبردار ہوجائیں ، تو انھوں نے کہا کہ میں وہ قمیص نہیں اتاروں گا جو اللہ نے مجھے پہنائی ہے ۔(1) گویا  ان کی رائے  کے مطابق خلافت وہ لباس تھا جو  اللہ نے انھیں پہنایا تھا کسی کو حق نہیں تھا کہ وہ یہ لباس ان سے چھین لے ، بجز اللہ تعالی کے کہ وہی یہ لباس اتار سکتا ہے یعنی ان کی موت  کی صورت میں ۔ اسی طرح معاویہ بن ابی سفیان نے اپنے ایک "خطبے میں کہا تھا کہ " میں نے تم سے اس لیے جنگ نہیں کی تھی کہ تم نماز  پڑھو ،روزے رکھو  یا حج کرو اور زکات دو ۔ میں نے تو اس لیے جنگ کی تھی  کہ تم پر حکومت

-----------------------

(1):- تاریخ طبری اور تاریخ ابر اثیر "عثمان کا محاصرہ"

۱۵۸

کروں ۔اللہ نے میری یہ خواہش پوری کردی حالانکہ تمھیں یہ بات ناگوار ہے "۔

یہ عثمان سے بھی ایک قدم آگے ہیں ۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالی پر الزام ہے  کہ اس نے مسلمانوں کے قتل میں مدد دی ۔ معاویہ کا یہ خطبہ مشہور ہے ۔(1)

لوگوں کی مرضی کے خلاف یزید کو زبردستی ولی عہد مقرر کرتے وقت بھی معاویہ نے یہی دعوی کیا تھا کہ اللہ نے یزید کو میرا جانشین بنادیا ہے ۔ مورخین نے معاویہ کا وہ مکتوب نقل کیا ہے جو اس نے اس موقع پر چہار طرف بھیجاتھا ۔ والی مدینہ مروان بن حکم کو لکھا تھا کہ

"اللہ نے میری زبان سے بیعت یزید کا فیصلہ صادر کرادیا ہے "(2)

جب امام زین العابدین  ع کو زنجیروں میں باندھ کر فاسق وفاجر ابن زیاد کے سامنے  لے جایا گیا تو ان نے پوچھا یہ کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا  کہ یہ علی بن الحسین ع ہیں ۔ اس نے کہا : کیا اللہ نے حسین بن علی کو ہلاک نہیں کردیا ؟ امام زین العابدین ع کی پھوپھی جناب زینب نے جواب دیا : نہیں ! انھیں نے اللہ اور اس کے رسول  ص کے دشمنوں نے قتل کردیا ہے ۔ ابن زیاد نے کہا: دیکھا! اللہ نے تمھارے گھروالوں کے ساتھ کیا کیا ؟ اس پر جناب زینب  نےکہا : میں نے تو جو کچھ دیکھا  اچھا ہی دیکھا ہے ۔ اللہ نے ان کے لیے قتل ہونا لکھاتھا سو وہ اپنی قبروں  میں جا سوئے عنقریب اللہ تجھے اور انھیں ایک جگہ جمع کرےگا وہاں دیکھ لینا کیا ہوتا ہے تیری ماں تجھ پر روئے اے اب مرجانہ !(3)

اس طرح یہ عقیدہ  بنی امیہ اور ان کے حامیوں سے چل کر امت اسلامیہ میں پھیل گیا ۔

---------------------

(1):- ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبیین صفحہ 70 ۔حافظ ابن کثیر البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 131 ۔شرح نہج البلاغہ جلد3 صفحہ 16

(2):- ابن قتیبہ ،الامامہ والسیاسہ جلد1 صفحہ 151

(3):- ابوالفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین مقتل حسین۔

۱۵۹

قضا وقد رکے بارے میں شیعہ عقیدہ

جیسے ہی شیعہ(1) علماء سے میری واقفیت ہوئی اور میں نے ان کی کتابیں پڑھیں ،قضاوقدر کے بارے میں بالکل  نیا علم مجھ پر منکشف ہوگیا ۔ ایک مرتبہ کسی نے امام علی علیہ السلام سے قضاوقدر کے بارے میں پوچھا تھا تو آپ نے غیر مبہم ،صاف اور جامع الفاظ میں اس کی وضاحت  کرتے ہوئے فرمایا :

"افسوس ! شاید تم یہ سمجھتے ہو کہ قضاوقدر نے لازمی اور حتمی فیصلہ کردیا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر جزا وسزا  کاسوال ہی نہ ہوتا اور نہ وعدہ وعید کا کچھ مطلب ہوتا ۔اللہ نے اپنے بندوں کو جن کاموں کاحکم دیا ہے ، ان کا اختیار بھی دیا ہے اور جن کاموں سے منع کیا ہے ، ان کا نقصان بھی بتلادیا ہے اللہ نے انسان کو تھوڑے سے کام کا مکلف ٹھہرایا ہے اور کوئی مشکل کام نہیں بتلایا ۔پھر یہ کہ تھوڑے کام پر بہت زیادہ اجر کا وعدہ کیا ہے ۔ نہ کوئی اللہ کی نافرمانی پر مجبور ہے اور نہ کسی پر اس کی اطاعت  کے لیے زبردستی ہے ۔ اس نے انبیاء کو کھیل کے طور نہیں بھیجا اور کتابوں کو فضول نہیں اتارا ۔ اس نے آسمانوں کو زمین کو انو جو کچھ ان کے درمیان ہے بے مقصد پیدا نہیں کیا ۔ یہ تو کافروں کا گمان ہے ۔ ان کا فروں  کی تو دوزخ میں شامت آجائےگی "۔(2)

یہ بیان کتنا واضح اور کتنا غیر مبہم ہے ۔میں نے اس موضوع پر اس سے جامع اور قاطع بیان اور حقیقت کے اظہار میں اس سے بہتر دلیل نہیں دیکھی ۔اللہ

-------------------------

(1):- جیسے آیت اللہ محمد باقر صدر جن سے میں  خوب استفادہ کیا ۔آیت اللہ سید ابو بوالقاسم خوئی ،علامہ علی طباطبائی اورسید حکیم وغیرہ ۔

(2):- شیخ محمد عبدہ ،شرح نہج البلاغہ جلد 4 صفحہ 673

۱۶۰