حکم اذاں

حکم اذاں17%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 61519 / ڈاؤنلوڈ: 6822
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

نے ہمیں حکم دیا لیکن اسے ماننے یا نہ ماننے کا اختیار بھی دیا ہے ۔

یہی مطلب ہے اس کا کہ اللہ نے اپنے بندوں کو جن کاموں کا حکم دیا ہے ان کا اختیار بھی دیا ہے ۔ اسی طرح جن کا موں سے اللہ سبحانہ نے منع کیا ہے ان کے بارے میں تنبیہ بھی کردی ہے کہ اس قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں وہ  سزا کا مستحق ہوگا ۔امام علی علیہ السلام نے اس مسئلے کی کہہ کر مزید  توضیح فرمادی ہے کہ نہ کوئی اللہ کی نافرمانی پر مجبور کرنا چاہتنا تو اس سے کون جیت تھا لیکن اللہ تعالی نے خود اپنے بندوں کو اطاعت اور نافرمانوں کی طالعت اور اختیا ردے دیا  ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے :

"وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ "

آپ کہہ دیجیے کے حق تمھارےپر دودگار کا طرف سے آچکا ہے اب جس کاجی چاہے ایمان لائے  اورجس کا جس چاہے کافر رہے ۔(سورہ کہف ۔آیت ۲۹)

اس کے بعد امام انسانی ضمیر کو مخاطب کرتے ہیں تاکہ ہیں تاکہ بات دل کی گہرائیوں تک اتر جائے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ

"انسان اپنے افعال میں مجبور ہوتا تو انبیاء کا بھیجا جانا اور کتابوں کا نازل کیا جاتا محض ایک مذاق ہوتا ،جس سے اللہ جلّ شافہ ، پاک ہے ،کیونکہ کا آنا اور کتابوں کانازل ہونا محض لوگوں کی اصلاح ،ان کی روحانی بیماریوں بیماریوں کے علاج اور کامیاب زندگی گزارنے کے بہترین طریقے  کی وضاحت کے لیے ہے ۔"

اللہ تعالی فرماتا ہے :

"إِنَّ هَـذَا الْقُرْآنَ يِهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ "

بیشک یہ قرآن ایسے طریقے کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا

۱۶۱

ہے "۔ (سورہ بنی اسرائیل ،آیت ۹)

امام ع اپنی بات کو یہ کہہ کر ختم کرتے ہیں کہ

"عقیدہ جبر کے یہ معنی ہیں کہ زمین وآسمان اور ان کے درمیان جوکچھ ہے اس کو بے مقصد پیدا کیا گیا ہے حالانکہ  ایسا کرنا کفرہے   جس  پر اللہ تعالی نے عذاب جہنم کی دھمکی دی ہے "

جب ہم قضا وقدر کے بارے میں شیعہ نظریے کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو اسے مناسب اور معقول پاتے ہیں جب کہ ان کے مقابل میں ایک گروہ نے تفریط سے کام لیا اور وہ جبر کا قائل ہوگیا ، دوسرے نے افراط سے کام لیا اور وہ تفویض کا قائل ہوگیا ۔ پھر عقائد کی درستگی کے لیے ائمہ آئے تو انھوں نے ان دونوں فریقوں کو حق کا راستہ دکھایا اور کہا کہ

"لاجبرولاتفويض ولكن أمرٌ بين الامرين "

کام میں نہ جبر ہے نہ تفویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے ۔ امام صادق ع نے اس بات کو ایک ایسی سادہ مثال سے سمجھایا ہے جس کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے اور جو ہر شخص  کی عقل کے مطابق  ہے ۔ کسی نے آپ سے پوچھا کہ آپ کے اس قول کا کیا مطلب ہے کہ "نہ جبر نہ تفویض بلکہ ان دونوں کے دومیان ایک چیز ؟" آپ نے اس کے جواب  میں کہا تمھارے زمین پر چلنے اور زمین پر گرنے فرق ہے ۔ مطلب یہ تھا کہ زمین پر ہم اپنے اختیار سے چلتے ہیں لیکن جب  ہم گرتے ہیں تو یہ گرنا ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا  کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی  گرنا نہیں چاہتا ۔کون چاہے گا کہ گرے تاکہ اس کی کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ جائے اور وہ معذور ہوجائے ؟

اس لیے قضا وقدر جبر وتفویض کے درمیان ایک چیز ہے ۔ یعنی کچھ کام ایسے ہیں جو ہم اپنے ارادے اور اختیار سے کرتے ہیں ، اور کچھ کام ایسے ہیں جن پر ہمارا بس نہیں چلتا اور اگر ہم ان کو روکنا بھی چاہیں تو روک نہیں سکتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گا اور دوسری قسم کے کاموں کا حساب

۱۶۲

نہیں ہوگا ۔اس طرح انسان کو بیک وقت اختیار ہے  بھی اور نہیں بھی ۔

الف :- جن کاموں کا انسان کو اختیار ہے وہ ان کو سوچ سمجھ کر کرتا ہے ۔ کیونکہ اسے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آیا وہ اس کام کو کرے  یا نہ کرے ۔اسی کی طرف اللہ تعالی نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے:

وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا () فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا () قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا () وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ()"

قسم ہے جان کی اور جس نے اسے درست کیا ، پھرنیکی اور بدی کی دونوں راہیں اسے بتادیں ۔ وہ یقینا بامراد ہوگیا جس نے  اپنی جان کو پاک کرلیا ۔اور وہ یقینا نامراد ہوا جس نے اسے گناہ کرکے دبادیا ۔(سورہ شمس ۔آیت ۷تا ۱۰)

نفس کو پاک کرنا یا نہ کرنا نتیجہ ہے اس کا کہ انسانی ضمیر کو اختیار حاصل ہے ۔ اسی طرح  کامرانی اور نامرادی منصافانہ نتیجہ ہے اختیار کے استعمال کا ۔

ب:- جن کاموں کا انسانوں کو اختیار نہیں وہ ،وہ قوانین فطرت ہیں جو کلی طو  رپر اللہ کی مشیت کے تابع ہیں ۔ مثلا مرد یا عورت ہونا انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ۔ نہ اس کا رنگ روپ اس کے اپنے اختیارمیں ہے ، نہ یہ اس کے بس میں ہے کہ اس کے ماں باپ کون ہوں ، وہ غریب گھرانے میں پیدا ہو یا خوشحال گھرانے میں ۔ نہ اس کا اپنے  قدوقامت پربس ہے نہ اپنی شکل وصورت پر اختیار ہے ۔

انسان متعدد زبردست عوامل کے تابع ہے جیسے موروثی امراض ،یا طبعی قوانین جو اس کے فائدے کے لیے کام کرتے ہیں اور اسے ان کے سلسلے میں کوئی مشقت برداشت نہیں کرنی پڑتی ۔ چنانچہ انسان جب تھک جاتا ہے تو اسے نیند آجاتی ہے اور وہ سوجاتا ہے اورجب آرام کرچکتا ہے تو جاگ جاتا ہے جب بھوک لگتی ہے تو کھانا کھاتا ہے اورجب پیاس لگتی ہے تو پانی پیتا  ہے ۔ جب خوش ہوتا ہے کھلکھلا اٹھتا ہے ، ہنستا ہے اورجب غمگین ہوتا ہے ، پژمردہ ہوجاتا ہے ۔روتا ہے ۔ اس کے جسم کے اند فیکٹریاں اور ورکشاپیں کام کررہی ہیں ۔ جو

۱۶۳

ہارمون ، زندہ خلیے اور سیال مادے بناتی ہیں اور ساتھ ہی جسم کی عجب متوازن طریقے سے تعمیر کرتی ہیں ۔ یہ سب کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ النسان کو احساس  بھی نہیں ہونے پاتا کہ عنایت  ربّانی ہر لحاظہ اس کیے ہوئے ہے ، اس کی زندگی میں بھی بلکہ مرنے کے بعد بھی ۔ اس سلسلے میں اللہ تعالی کا ارشادہے :

" أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُتْرَكَ سُدًى () أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَى () ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى () فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى () أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَى"

کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا ؟ کیا یہ پہلے ایک قطرہ منی نہ تھا جو ٹپکایا تھا ۔ پھر وہ خون کالوتھڑا ہوگیا ۔ پھر اللہ نے اسے بنایا اور درست کیا۔ پھر اس کی دوقسمیں  کردیں مرد اور عورت  ۔ تو کیا اللہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کردے ۔(سورہ قیامت ۔آیات ۳۶ تا ۴۰)

سچ کہا تونے اے ہمارے پالنہار ! تونے ہی ہمیں پیدا کیا اور ہمارے اعضاء کو درست کیا ۔ تو ہی موت دےگا اور تو ہی پھر زندہ کرےگا ۔ پھٹکار ان پر جو  تیری مخالفت کرتے ہیں اور تجھ سے دوری اختیار کرتے ہیں انھوں نے تجھے نہیں پہچانا ۔ ہم اس بحث کو امام علی رضا کے ایک قول پر ختم کرتے ہیں ۔ مامون الرشید کے عہد میں جب کہ ابھی آپ کی عمر پورے چودہ سال بھی نہیں تھی کہ آپ کو اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم تسلیم کرلیاگیا تھا ۔(۱)

ایک دفعہ کسی شخص نے آپ سے آپ کے دادا امام جعفر صادق ع کے اس قول کے معنی پوچھے کہ

"لاجبرولاتفويض ولكن أمرٌ بين الامرين "

کو آپ نے فرمایا : جو شخص یہ کہتا ہے کہ جو کچھ ہم کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ کرتاہے پھر اللہ ان افعال پر ہمیں عذاب بھ دیتا ہے ، وہ جبر کا قائل ہے ۔اور جو شخص

------------------------

(۱):- ابن عبد ربہ اندلسی ، العقد الفرید جلد ۳ صفحہ ۴۲

۱۶۴

یہ کہتا ہے کہ اللہ نے پیدا کرنے اور رزق دینے کا کام اماموں کے سپرد کردیا ہے ، وہ تفویض کا قائل ہے ۔ جو شخص جبر  کا قائل ہے وہ کافر ہے اور جو تفویض کا قائل ہے وہ مشرک ہے۔

"الأمرٌ بين الامرين" کے معنی ہیں ان افعال کو بجالانا جن کا اللہ نے حکم دیا ہے اور افعال سے بچنا جن سے اس منع کیا ہے ۔بہ الفاظ دیگر اللہ تعالی نے انسان  کویہ قدرت بخشی ہے کہ وہ برائی کرے یا نہ کرے ۔ساتھ ہی اسے برائی سے منع کیا ہے ۔ اسی طرح اسے یہ بھی قدرت بخشی ہے کہ وہ نیکی کا کام کرے یا نہ کرے ۔لیکن اسے نیکی کے کام کرنے کاحکم دیا ہے ۔

جان عزیز کی قسم ! قضا وقدر کےبارے میں امام ثامن کا یہ بیان کافی وشافی ہے ،جس کو ہرشخص تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ سمجھ سکتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا ۔ جب آپ نے آئمہ  کے بارےمیں کہا :

"ان سے آگے نہ بڑھنا اور ان سے پیچھے نہ رہنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے  اور ان کو سکھانے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں "(۱)

قضا وقدر کی بحث کے ضمن میں خلافت پر تبصرہ

اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر چہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ جو تقدیر میں لکھا ہے وہ ہوکر رہتا ہے ۔اوربندوں کے اعمال اللہ چلاتا ہے اور بندوں کو اس ضمن میں کوئی اختیار نہیں ۔ لیکن خلافت کے معاملے میں وہ کہتے ہیں کہ اسے رسول اللہ ص نے شوری پرچھوڑ دیا تھا ۔ کہ لوگ جس کو پسند

---------------------

(۱):- ابن حجر ،الصواعق المحرقہ صفحہ ۱۴۸ ۔ہیثمی ،مجمع الزوائد جلد ۹ صفحہ ۱۶۳ ۔سلیمان قندوزی ، ینابیع المودۃ صفحہ ۴۱ ۔ سیوطی ،الدر المنثور جلد ۲ صفحہ ۶۰ ۔ علی متقی ہندی کنزالعمال جلد ۱ صفحہ ۱۶۸

ابن اثیر اسدالغابہ جلد ۳ صفحہ ۱۳۷ ۔ حامد حسین عبقات الانوار جلد ۱ صفحہ ۱۸۴

۱۶۵

کریں اسے خلیفہ بنالیں ۔

اس کے  بالکل برعکس ، اگر چہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے سب اعمال  کا اختیار ہے اوراللہ کے بندے جوچاہتے  ہیں کرتے ہیں ۔ مگر خلافت کےبارے میں میں وہ کہتے ہیں کہ یہاں بندوں کو پسند کا کوئی حق نہیں ۔

پہلی نظر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کے نقطہ نظر میں بھی تضاد ہے  اور اہل تشیع کے نقطہ نظر میں بھی تضاد  ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔

جب اہل سنت یہ کہتے ہیں"اللہ اپنے بندوں کے اعمال  چلاتا ہے "توان  کایہ قول فی الواقع جو کچھ ہوتا ہے اس سے متضاد ہے ۔ کیونکہ ان کے خیال کے مطابق اگر چہ اصل اختیار اللہ کو ہے لیکن ظاہری طورپر کچھ اختیار بندوں کو بھی ہے چنانچہ بروز سقیفہ بظاہر تو ابو بکر کو عمر اور دوسرے بعض صحابہ نے منتخب  کیا تھا ، لیکن درحقیقت وہ اللہ کے حکم کو عملی جامہ پہنا رہے تھے اور ان کی حیثیت اہل سنت کے خیال کے مطابق محض ایک واسطے کی تھی اس سے زیادہ  کچھ نہیں ۔

اس کے بر خلاف شیعہ جب یہ کہتے  ہیں کہ اللہ سبحانہ نے اپنے بندوں کو ان کے افعال کااختیار دیا ہے  تو ان کے اس قول میں اور اس قول میں کہ خلافت کے معاملے میں اختیار صرف اللہ کو ہے ، کوئی تضاد نہیں ہوتا ۔ کیونکہ نبوت کی طرح خلافت بھی بندوں کا عمل نہیں ، اورنہ اس کو طے کرنا  ان کے سپرد ہے ۔جس طرح اللہ تعالی اپنے رسول کو انسانوں  میں سے پسند کرکے مبعوث فرماتا ہے ، بالکل یہی صورت خلیفہ رسول کی  ہے۔لوگوں کو اختیار ہے کہ وہ اللہ کے حکم کی تعمیل کریں یا اس کی نافرمانی کریں ۔ خود انبیاء کی زندگی  میں ہمیشہ ایسے ہی ہوتارہا ہے ۔اللہ کی پسند کےبارے میں بھی بندوں کو آزادی ہے ۔نیک اور مومن اللہ کی پسند کو قبول کرتے ہیں ۔ اور کفران نعمت کرنے والے  اللہ کی پسند کو قبول کرنے سے انکار کرتے اور اس کے خلاف بغاوت اور سرکشی کرتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :

" فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى () وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً وَنَحْشُرُهُ

۱۶۶

يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى () قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيراً ()قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى "

جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرےگا وہ نہ بھٹکے گا اور نہ لکلیف میں پڑے گا اور جو کوئی میری نصیحت سے منہ موڑےگا  اس کے لیے تنگی کا جینا ہوگا اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے ۔ وہ کہے گا اے میرے پروردگار ! تو نے مجھے اندھا کیوں  اٹھایا میں تو آنکھوں والاتھا؟ اللہ کہے گا : یہ  تو ٹھیک ہے لیکن جیسے تیرے پاس ہماری نشانیاں پہنچی تھیں اور تونے انھیں بھلادیا تھا ۔ اسی طرح آج ہم تجھے بھلادیں گے"۔(سورہ طہ ۔آیات ۱۲۳-۱۲۶)

پھر اہل سنت والجماعت  کانظریہ اس خاص مسئلے یعنی  خلافت کے بارے میں دیکھیے ۔وہ کسی فریق کو بھی الزام نہیں دیتے ۔کیونکہ جو کچھ ہوا اور جتنا خون بہایا گیا اور جو بھی بدعنوانیاں  ہوئیں ، سب اللہ کی طرف سے تھیں ۔ ایک شخص نےجو صاحب علم ہونے کا مدعی تھا مجھ سے کہا تھا :

"ولو شاء ربّك ما فعلوه"

اگر تیرا پروردگار نہ چاہتا تو وہ یہ سب ،کچھ نہ کرتے ،

لیکن شیعہ نظریہ یہ ہے کہ ہر اس شخص کو ذمہ داری اٹھانی پڑے گی جو بھی کجروی کا سبب بنا اور جس نے بھی اللہ کی نافرمانی کی اس کو نہ صرف اپنی غلطی کا بو جھ  اٹھانا ہوگا بلکہ ان کی غلطیوں کا بھی جو قیامت تک اس کا اتباع کریں گے ،کیونکہ

"كلّكم راعٍ وكلّكم مسئولٌ عن رّعيّته"

*****

۱۶۷

رسول ص کے ترکہ کے بارےمیں اختلاف

گزشتہ  مباحث سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا ہے کہ خلافت کے بارے میں اہلسنت کی کیا رائے  ہے ، اور شیعوں کی کیا رائے  ہے ، اور ہر فریق کے قول کے بموجب رسول اللہ ص نے اس سلسلے میں کیا اقدام کیا تھا ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے : کیا رسول اللہ نے کوئی ایسی قابل اعتماد چیز چھوڑی ہے جس کی طرف اختلاف کی صورت میں رجوع کیاجاسکے ، کیونکہ اختلاف کا ہونا فطری ہے جیسا کہ خود کتاب اللہ سے معلوم ہوتا ہے :

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً "

اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور رسول کی اور ان کی جو تم میں سے اولی الامر ہیں ۔ اگر تم میں کسی بات پر کوئی نزاع پیدا ہو تو اس کو لوٹادو اللہ اور رسول  کی طرف ، اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور روز آخرت  پر ۔یہ طریقہ اچھا ہے اور اس کا انجام بہتر ہے۔(سورہ نساء ۔آیت ۵۹)

جی ہاں ! رسول اللہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ امت کےلیے کوئی ایسی بنیاد چھوڑ جائیں جو امت کے لیے سہارے کا کام دے ۔ رسول اللہ ص تو رحمت للعالمین  تھے ۔ ان کی شدید ،خواہش تھی کہ ان کی امت دنیا میں بہتر ین امت ہو اور آپ کے بعد اس میں اختلاف پیدا نہ ہو ۔ اسی لیے صحابہ اور محدثین سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں ۔ تم جب تک ان کو تھارہوگے میرے بعدکبھی گمراہ نہیں ہونگے  کتاب اللہ اور میرے اہل بیت ۔یہ دونوں ایک دوسرے سے

۱۶۸

کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں  تک کہ میرے پاس حوض پر پہنچ جائیں گے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو ۔

یہ صحیح  حدیث ہے اور فریقین کے محدثین نے اپنی کتابوں میں تیس سے زیادہ صحابہ کے حوالے سے اسے روایت کیا ہے ۔

چونکہ میری عادت ہے کہ میں شیعوں کی کتابوں اور شیعہ علماء کے اقوال سے استدلال نہیں کیا کرتا ۔ اس لیے میرے لیے ضروری ہے کہ میں ان علماء اہل سنت کے نام گنواؤں  جنھوں نے اس حدیث ثقلین  کی صحت  کا اعتراف کیا ہے اور اسے  اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔ اگر چہ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ شیعہ اقوال سے بھی استدلال کیاجائے ۔بہر حال یہ ہے مختصر فہرست ان علمائے اہل سنت کی ، جنھوں نے اس حدیث کو روایت کیا ہے :

۱:- مسلم بن حجاج نیشاپوری ، صحیح مسلم فضائل علی بن ابی طالب ع جلد ۷ صفحہ ۱۲۲۔

۲:- محمد بن عیسی سلمی ترمذی ۔،جامع الترمذی جلد ۵ صفحہ ۳۲۸۔

۳:- احمد بن شعیب بن علی نسائی " خصائص امیر المومنین  صفحہ ۲۱۔

۴:- احمد بن محمد بن جنبل  مسند احمد جلد ۳ صفحہ ۱۷

۵:- محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری  المستدرک علی الصحیحین ، جلد ۳ صفحہ ۱۰۹۔

۶:- علاء الدین علی متقی ہندی کنز العمال من سنن الاقوال والافعال جلد ۱ صفحہ ۱۵۴۔

۷:- محمد بن سعد زہری بصری الطبقات الکبری جلد ۲ صفحہ ۱۹۴۔

۸:- عزالدین ابن اثیر جزری جامع الاصول جلد ۱ صفحہ ۱۸۷۔

۹:- حافظ جلال الدین سیوطی  الجامع الصغیر جلد ۱ صفحہ ۳۵۳۔

۱۰:- حافظ نورالدین علی بن ابی بکر ، ہیثمی مجمع الزوائد ومنبع الفوائد جلد ۹ صفحہ ۱۶۳

۱۶۹

۱۱:- نبہانی الفتح الکبیر جلد ۱ صفحہ ۴۵۱۔

۱۲:- عزالدین ابن اثیر جزری  اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد ۲ صفحہ ۱۲۔

۱۳:- علی بن حسین  دمشقی المعروف بہ ابن عساکر تاریخ مدینہ دمشق جلد ۵ صفحہ ۴۳۶۔

۱۴:- اسماعیل بن عمر المعروف بہ ابن کثیر  تفسیر القرآن العظیم جلد ۴ صفحہ ۱۱۳۔

۱۵:- منصور علی ناصف  التاج الجامع للاصول جلد ۳ صفحہ ۳۰۸۔

ان کے علاوہ ابن حجر نے اپنی کتاب صواعق محرقہ میں اس حدیث کو بیان کیا ہے اور اسے صحیح کہا ہے ۔نیز ذہبی نے بھی تلخیص میں اسے علی شرط  الشیخین (بخاری ومسلم) صحیح قراردیا ہے ۔خوارزمی حنفی اور ابن مغازلی شافعی نے بھی یہ روایت بیان کی ہے ۔ طبرانی نے اپنی کتاب معجم میں اسے نقل کیا ہے  ۔علاوہ ازیں سیرت حلبیہ کے حاشیہ پر ، سیرت نبویہ میں اور ینابیع المودہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے ۔

کیا اس کے بعد بھی کوئی دعوی کرسکتا ہے کہ  حدیث ثقلین  (کتاب اللہ وعترتی اھل بیتی )سے اہل سنت واقف نہیں ، یہ شیعوں کی وضع کی ہوئی ، احادیث میں سے ہے ، تعصب تنگ نظری ،فکری جمود  اورجاہلانہ کٹرپن پر خدا کی مار !

صحیح بات یہ ہے کہ حدیث ثقلین جس  میں رسول اللہ ص نے کتاب اللہ اور عترت طاہرہ سے وابستہ وپیوستہ رہنے کی وصیت کی ہے وہ اہل سنت کے نزدیک بھی صحیح حدیث ہے اور شیعوں کے یہاں تو اور بھی زیادہ تواتر اور صحت سند کے ساتھ

۱۷۰

ائمہ طاہرین سے منقول ہے ۔پھر نہیں معلوم بعض لوگ کیوں اس حدیث میں شک پیدا کرتے اور اپنی سی پوری کوشش کرتے ہیں کہ اس کے الفاظ کو ہو کتاب اللہ وسنتی سے بد ل دیں ۔ اس کے باوجود مفتاح کنوز السنۃ " نامی کتاب کے صفحہ ۴۷۸ پر مصنف نے  وصیتہ صلی اللہ علیہ وسلم بکتاب اللہ وسنتہ رسولہ " کا عنوان بخاری ومسلم ،ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالے سے باندھا ہے لیکن اگر آپ ان چاروں کتابوں میں یہ حدیث تلاش کریں تو اس کا دور دور تک پتہ نہیں چلے گا۔ بخاری  میں ایک عنوان البتہ ہے "کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ "(۱) لیکن اس عنوان کے تحت  بھی کتاب میں اس حدیث کا وجود نہیں ۔

زیادہ سے زیادہ بخاری میں ایک حدیث ملتی ہے کہ :

طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ وصیت فرمائی تھی ،انھوں نے کہا: نہیں ۔ میں نے کہا :پھر باقی سب لوگوں کو وصیت کا حکم کیوں ہے ؟ عبداللہ بن ابی اولی نے کہا : آپ نے کتاب اللہ کے متعلق وصیت کی تھی(۲) ۔

لیکن یہاں بھی  اس حدیث کا وجود  نہیں کہ رسول اللہ ص نے فرمایا :

"تركت فيكم الثّقلين كتاب الله وسنتي".

میں تم میں دوگراں قدر چیزیں چھوڑرہا ہوں ، ایک کتاب اللہ ،دوسرے میری سنت ۔

اگر  فرض کرلیا جائے کہ کسی کتاب میں یہ حدیث موجود بھی ہے جب  بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔اجماع حدیث کے دوسرے الفاظ پر ہے ۔ جیسا کہ اوپر گزر چکا ۔علاوہ ازیں اگر ہم کتاب اللہ وسنتی والی حدیث پر ذرا غور کریں تو مختلف وجوہ سے یہ حدیث واقعات کی کسوٹی  پر پوری نہیں اترتی ،نہ عقلا نہ نقلا :

----------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۸ صفحہ ۱۳۷۔

(۲):- صحیح بخاری جلد ۳ صفحہ ۱۶۸۔

۱۷۱

پہلی وجہ : مورخین اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے ہ رسول اللہ ص نے اپنی احادیث کی کتابت سے منع فرمایا تھا۔

آپ کے زمانے میں کسی کو سنت نبوی کو مدون کنے کی اجازت نہیں تھی ۔ اس لیے یہ بات دل کو نہیں لگتی کہ آپ نے "تركت فيكم الثّقلين كتاب الله وسنتي"فرمایا ہوگا۔ اس کے برخلاف جہاں تک کتا ب اللہ کا تعلق ہے وہ لکھی ہوئی موجود تھی۔ کا تبان وحی اس کے لکھنے پر مامور تھے نیز اسے صحابہ یاد کرتے تھے ، وہ سینوں میں محفوظ  تھی اس لیے ہر صحابی کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ کتاب اللہ سے رجوع کرسکے ، خواہ وہ حافظ قرآن ہویا نہ ہو۔جہاں تک سنت نبوی کا تعلق ہے وہ آپ کے زمانے میں لکھی ہوئی نہیں  تھی ، نہ آپ کے زمانے میں کوئی احادیث کا مجموعہ تحریری شکل میں موجود تھا ، جیسا کہ  معلوم ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ سنت نبوی میں آنحضرت ص کے اقوال ، افعال اور وہ تمام امور شامل ہیں جن  کی آپ نے عملا تصویب کی ہو یعنی صحابہ کو کرتے دیکھ کر منع نہ کیا ہو ۔ یہ بھی معلوم  ہے کہ آپ صحابہ کو خاص طور پر سنت نبوی سکھانے کے لیے کبھی جمع نہیں کیا کرتے تھے بلکہ مختلف موقعوں  کی مناسبت سے گفتگو  فرماتے رہتے تھے ۔ ان موقعوں پر کچھ اصحاب موجود ہوتے تھے اورکبھی کبھار ایسا بھی ہوتا تھا کہ اس وقت آپ کے ساتھ صرف ایک ہی صحابی ہوں ۔تو ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن تھا کہ رسول اللہ ص یہ فرمادیتے کہ میں تمھارے درمیان اپنی سنت چھوڑ رہا ہوں ۔

دوسری وجہ : جب وفات سے تین دن قبل رسول اللہ ص کے مرض میں اضافہ ہوگیا اور تکلیف شدید ہوگئی تو آپ نے موجودین سے فرمایا کہ شانے کی ہڈی  اور دوات لے آؤ  میں کچھ  لکھ دوں تاکہ تم پھر کبھی گمراہ نہ ہو ۔ لیکن عمربن خطاب نے کہا : "حسبنا کتاب اللہ " (۱) (ہمارے لیے کتاب اللہ کافی ہے ) اگر اس سے پہلے  رسول اللہ ص یہ فرماچکے ہوتے کہ : "تركت فيكم الثّقلين كتاب الله وسنتي"تو اس صورت میں عمر بن خطاب کے لیے یہ کہنا کسی طرح جائز نہیں تھا کیونکہ اس

---------------------

(۱):- صحیح بخاری بات مرضی النبی ووفاتہ جلد ۵ صفحہ ۱۳۸ صحیح مسلم جلد ۲کتاب الوصیہ

۱۷۲

کے معنی  یہ ہوتے  کہ وہ اور دوسرے صحابہ جنھوں نے ان کی تائید کی تھی ، رسول اللہ  ص کی تردید  کررہے ہیں جب کہ معلوم ہے کہ رسول اللہ کی تردید  کرنے والا بلاشبہ کافر ہے ۔ میرے خیال میں اہل سنت والجماعت کویہ بات کبھی بھی پسند نہیں ہوگی ۔ اس کے ساتھ یہ بھی اضافہ کرلیجیے کہ عمر بن خطاب نے خود احادیث بیان کرنے پن پابندی عائد کررکھی  تھی ۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حدیث اہل بیت ع کے کسی مخالف کی گھڑی(۱) ہوئی ہے اور غالبا اہل بیت ع کو خلافت سے محروم کرنے  کےبعد گھڑی گئی ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے یہ حدیث وضع کی ہے وہ خود حیران تھا کہ کیا بات ہے کتاب اللہ سے تو لوگ تمسک کرتے ہیں مگر عترت کو چھوڑ کر دوسروں کی پیروی کرنےلگے ہیں ۔ اس لیے اس نے سوچا کہ وہ حدیث گھڑ کر ان لوگوں کی روش  کے لیے ایک وجہ جواز مہیا کردے تاکہ صحابہ پر یہ اعتراض نہ کیا جاسکے کہ انھوں نے رسو ل اللہ ص کی وصیت پر عمل کیوں نہیں کیا اور اس کے برخلاف کیوں کیا ۔

تیسری وجہ : ہمیں معلوم ہے کہ اپنی خلافت  کےاوائل  میں ابو بکر  کو جس مسئلے سے سب سے پہلے دوچار ہونا پڑا وہ ان کا یہ فیصلہ تھا کہ مانعین زکات  سےجںگ کی جائے ۔ عمر بن خطاب نے اس فیصلے کی مخالفت کی اور دلیل کے طور پر کہا تھا کہ رسول اللہ ص نے فرمایا ہے کہ

جو توحید ورسالت  کی گواہی دے اور لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کہے اس کی جان اور اس کا مال میری طرف سے محفوظ ہے ،بجز اس کے کہ کسی حق کی وجہ سے ہو اور اس کا حساب اللہ پر ہے ۔

اگر سنت رسول  ص کو ئی معلوم شے ہوتی تو ابوبکر اس سے ناواقف نہیں  ہوسکتے تھے۔ ان کو تو سب سے پہلے اس کا علم ہونا چاہیے تھا ۔ بعد میں عمر ان حدیث کی اس تاویل سے مطمئن ہوگئے جو ابوبکر نے کی ۔ اورابو بکر کی یہ بات تسلیم کرلی  کہ زکات مال کا حق ہے ۔لیکن رسول اللہ ص کی وہ فعلی

-----------------------

(۱):- احادیث کی گھڑنت کے بارے مین علامہ مرتضی عسکری کی کتاب "احیائے دین مین ائمہ اہلبیت ع کا کردار"دیکھیے !

۱۷۳

سنت جس کی تاویل ممکن نہیں دانستہ یا نادانستہ ان لوگوں نے نظر انداز کردی ۔یہ ثعلبہ کا قصہ ہے ، جس نے رسو ل اللہ  کو زکات ادا کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ اس کے بارے میں قرآن کی ایک آیت بھی نازل ہوئی تھی لیکن رسول اللہ ص نے اس سے جنگ نہیں کی اورنہ اسے زکات ادا کرنے پر مجبور کیا ۔ کیا ابو بکر اور عمر کو اسامہ بن زید کا قصہ بھی معلوم نہیں تھا ؟ اسامہ بے بعد دشمن کا ایک آدمی اسامہ کو ملا جس نے مسلمانوں کو دیکھتے ہی کہا :"لا الہ الا اللہ " لیکن اسامہ نے اسے قتل کردیا ۔ جب یہ بات رسول اللہ ص کو معلوم ہوئی تو آپ نے اسامہ سے کہا :

کیا تم نے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی اسے قتل کردیا؟

اسامہ کہتے ہیں کہ : میں نے عرض کیا : اس نے تو اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا ۔لیکن رسول اللہ ص بار بار وہی بات دہراتے رہے یہاں تک کہ میرے دل میں یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کاش ! میں آج ہی اسلام لایا ہوتا(۱)

ان تمام باتوں کے پیش نظر ہمارے  لیے کتاب اللہ وسنتی  والی حدیث پر یقین کرنا ممکن نہیں ہے ۔ جب صحابہ ہی کو سنت نبوی کا علم نہیں تھا تو بعد میں آنے والوں کا تو ذکر ہی کیا ؟ اور ان لوگوں کے متعلق کیا کہاجائے  جو مدینے سے دور رہتے تھے ۔

چوتھی وجہ : ہمیں معلوم ہے  کہ رسول اللہ ص کی وفات کے بعد صحابہ کے بہت سے اعمال  سنت رسول ص کے منافی تھ ے۔لہذا ہمارے سامنے اب دوہی صورتیں ہیں : یا تو کہیں کہ صحابہ سنت رسول ص سے ناواقف تھے یا پھر یہ کہیں کہ وہ عمدا  سنت رسول  کو چھوڑ کر اپنے اجتہاد سے کام لیتے  تھے۔ اگر ہم دوسری صورت کے قائل ہوجائیں تو وہ اس آیت  کامصداق ہوجائیں گے ۔:

"    وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَ

-------------------------

(۱):-صحیح بخاری جلد ۸ صفحہ ۳۶ وصحیح مسلم جلد ۱ صفحہ ۶۷ کتاب الدیات ۔

۱۷۴

رَسُولُهُ أَمْراً أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِيناً"

کسی مومن  یا مومنہ کے لیے یہ مناسب نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول  ص کسی کا م کا فیصلہ کردیں تو وہ یہ کہیں کہ انھیں اپنے کام میں کچھ اختیار ہے ۔اورجس نے اللہ اور اس کے رسول ص کی نافرمانی کی تو وہ صریحا گمراہ ہوگیا ۔(سورہ اجزاب ۔آیت ۳۶)

اور اگر ہم یہ کہیں کہ صحابہ رسول  ص سے ناواقف تھے ، تو ایسی حالت میں رسول اللہ ص یہ کیسے  فرماسکتے تھے کہ میں تمھارے  درمیان اپنی سنت چھوڑ رہا ہوں  جب کہ آپ  کو معلوم تھا کہ آپ کے اصحاب اور مقربین  سنت کا پورا علم نہیں رکھتے  بعد میں آنے والوں  کا تو ذکر کیا جنھوں نے آپ کو دیکھا تک نہیں ۔ایسی حالت میں تو آپ کے لیے ضروری  تھا کہ آپ صحابہ  کو احادیث لکھنے کا حکم دیتے تاکہ یہ مجموعہ احادیث مسلمانوں کے لیے قرآن کے بعد مرجع ثانی کا کام دیتا ۔ رہا یہ کہنا کہ آپ کو یہ اندیشہ تھا کہ کہیں قرآن وسنت خلط ملط نہ ہوجائیں تو اس کا لغو ہونا ظاہر ہے ۔کیونکہ یہ ممکن تھا کہ وحی ایک خاص  رجسٹر میں جمع کی جاتی اور سنت ایک دوسرے رجسٹر میں ۔ اس طرح دو الگ الگ کتابیں تیار  ہوجاتیں ، جیسا  کہ ہمارے یہاں آج کل قاعدہ ہے ، اس صورت میں ضرور یہ کہنا صحیح  ہوتا کہ میں تمھارے درمیان کتاب اللہ کو اپنی سنت کو چھوڑ رہا ہوں ۔

پانچویں وجہ : یہ تو معلوم ہے کہ سنت کی تدوین  عباسی دور مین ہوئی  اس سے پہلے نہیں ۔ حدیث کی جو پہلی کتاب لکھی گئی وہ موطاء امام مالک ہے یہ فاجعہ کربلااور واقعہ حرہ کے بعد کی بات ہے ۔ واقعہ حرّہ  میں تین دن تک  مدینہ منورہ میں وجیوں  کو آزاد چھوڑ  دیا گیا تھا کہ وہ جو جی چاہے کریں ۔ اس سانحے میں صحابہ کی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی ۔ ان احادیث  کے بعد ان روایوں کا کیسے اعتبارکیا جاسکتا ہے جنھوں نے دنیا کمانے کی غرض سے حکام وقت کاقرب حاصل کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث میں اضطراب اور تناقض پیدا ہوا اور امت مسلمہ

۱۷۵

فرقوں میں بٹ گئی ۔چنانچہ ایک فرقے کے نزدیک جو بات ثابت شدہ تھی وہ دوسرے کے نزدیک پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ سکی  اور جسے ایک فرقے نے صحیح قراردیا دوسرے نے اس کی تکذیب کی ۔ان حالات میں ہم کسیے مان لیں کہ رسول اللہ ص نے فرمایا ہو کہ :

" تركت فيكم الثّقلين كتاب الله وسنتي"۔رسول اللہ کو خوب معلوم تھا کہ منافقین اور منحرفین  آپ سے جھوٹی باتیں منسوب کریں گے ۔ آپ نے خود فرمایا تھا :مجھ سے بہت سی جھوٹی باتیں منسوب کی گئی  ہیں ۔ پس جو شخص مجھ سے جان بوجھ کر جھوٹ منسوب کرے ، وہ اپنا ٹھکانا  جہنّم میں بنالے ۔ (۱)جب آپ کی زندگی ہی میں آپ سے بکثرت جھوٹی  باتیں منسوب  کی گئی  ہوں ، تو آپ کیسے اپنی امت کو اپنی سنت کے اتباع کا حکم دے سکتے  تھے جب کہ آپ کے بعد صحیح وغلط مین تمییز  دشوار ہوگئی ۔

چھٹی وجہ : اہل سنت  کی صحاح میں روایت ہے کہ رسول اللہ ص نے اپنے ثقلین  یعنی دوجانشین یا دوچیزیں  چھوڑیں ۔اہل سنت کبھی روایت کرتے ہیں کہ آپ نے کتاب اللہ وسنۃ رسولہ فرمایا اور کبھی کہتے ہیں کہ آپ نے  علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الرّاشدین من بعدی فرمایا ۔ ظاہر ہے کہ اس حدیث سے  کتاب اللہ  اور سنت رسول اللہ ص میں ، سنت خلفاء  کا اضافہ ہوجاتا ہے اور اس طرح شریعت  کے ماخذ دو کے بجائے تین ہوجاتے ہیں ۔ مگر یہ سب اس حدیث ثقلین  کے منافی  ہے جس پر اہل سنت اور شیعوں کا اتفاق  ہے ۔ اس حدیث میں کتاب اللہ وعترتی  کے الفاظ ہیں اور اس کے لیے ہم نے بیس سے زیادہ اہل سنت کی معتبر کتابوں کا حوالہ دیا ہے ۔ شیعہ ماخذ اس کے علاوہ ہیں جن کا ہم نے ذکر نہیں کیا ۔

ساتھویں وجہ : رسول اللہ ص کو بخوبی علم تھا کہ آپ کے اصحاب ۔گو

-----------------------

(۱):-صحیح بخاری کتاب العلم جلد ۱ صفحہ ۳۵

۱۷۶

قرآن ان کی زبان  میں اور جیسا کہ مشہور ہے ، ان کے لہجے میں نازل ہوا ہے ۔ بہت سے مقامات کی تفسیر اور تاویل سے ناواقف تھے ۔ پھریہ کیسے   توقع کی جاسکتی تھی کہ بعد میں آنے ولے ، خصوصا وہ رومی  ، ایرانی ،حبشی اور دوسرے عجمی  جن کی زبان  عربی نہیں تھی اور جو نہ عربی سمجھتے تھے اور نہ بولتے تھے ، قرآن کو کما  حقہ سمجھ پائیں گے روایت  ہے کہ  جب ابو بکر سے اللہ تعالی کے قول  وفاکھۃ وابا کے معنی پوچھے گئے تو انھوں نے کہا : میری کیا مجال کہ میں کتاب اللہ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہ ہو ۔(۱)

اسی طرح عمر بن خطاب  کو بھی اس کے معنی معلوم نہیں تھے ۔ انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک دفعہ  عمربن خطاب نے منبر پر یہ آیت پڑھی ۔

"فأنبتنا فيها حبّاوّعنباوّقضباوّزيتوناوّنخلاوّحدايق غلباوّفاكهة وّأباً"

اس کے بعد کہا : اور تو سب ہمیں معلوم  ہےمگر یہ "ابّ" کیا ہے ؟ اس  کے بعد کہنے لگے :چھوڑو ایسی ٹوہ محض تکلیف ہے ۔اگر تمھیں اب کے معنی معلوم نہیں تو نہ ہوں  ، اس سے فرق کیا پڑتا ہے ۔کتاب اللہ میں جو واضح ہدایت ہے اس پر عمل کرو اور جو سمجھ مین نہ آئے  اسے اس کے رب پرچھوڑدو(۲)

جو کچھ یہاں کتا ب اللہ کی تفسیر  کےبارے میں کہا گیا ہے ،اس کا اطلاق سنت نبوی کی تفسیر پر بھی ہوتا ہے ۔چنانچہ  کتنی ہی احادیّث  ہیں جن  کے بارے میں  صحابہ میں مختلف فرقوں میں اور شیعوں اور سنیوں  میں اختلاف  رہا ہے کبھی  اس بارے میں کہ حدیث صحیح یا ضعیف اور کبھی اس بارے میں کہ حدیث کا مفہوم کیا ہے ۔ وضاحت کے لیے میں اس اختلاف  کی چند مثالیں  پیش کرتاہوں

--------------------

(۱):-قسطلانی ، ارشاد الساری جلد ۱۰ صفحہ ۲۹۸ ۔ ابن حجر ، فتح الباری فی شرح صحیح البخاری  جلد ۱۳ صفحہ ۲۳۰

(۲):- تفسیر طبری جلد ۳ کنزالعمال  جلد ۱ صفحہ ۲۲۷ ۔ مستدرک جلد ۲ صفحہ ۱۴ ۔تاریخ بغداد جلد ۱۱ صفحہ ۴۶۸ ۔تفسیر کشّاف جلد۳  صفحہ ۲۵۳ ۔ تفسیر خازن جلد ۴ صفحہ ۳۷۴ ۔ ابن تیمیہ ، مقدمہ اصول تفسیر صفحہ ۳۰ ابن کثیر تفسیر القرآن العظیم جلد ۴ صفحہ ۴۷۳۔

۱۷۷

۱:- حدیث کی صحت اور عدم صحت کے بارے میں صحابہ میں اختلاف

یہ صورت خلافت ابو بکر کے ابتدائی  ایام میں اس وقت پیش آئی جب فاطمہ بنت رسول  ص  ابو بکر کے پاس
آئیں  اورفدک کی واگزاری کا مطالبہ کیا ۔ جناب فاطمہ س کا دعوی تھا کہ فد ک ان کے والد نے اپنی زندگی میں انھیں عطا کردیا تھا لیکن ان کے والد کی وفات کے بعد ان سے لے لیا گیا ۔ ابوبکر نے اس  دعوے  کو غلط قراردیا  اور اس کی تردید کی کہ رسول اللہ ص نے اپنی زندگی میں فدک جناب فاطمہ س کو دے دیا تھا۔ جناب فاطمہ س نےیہ مطالبہ بھی کیا  کہ ان کے والد کی میراث انھیں دے جائے ۔لیکن ابوبکر نے کہا کہ

رسول اللہ نے فرمایا ہے :

"نحن معاشر الأنبياء لانورث ما تركناه صدقة"

ہم انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا ۔جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔

جناب فاطمہ س نے اس حدیث کو من گھڑت  قراردیا اور اس کے مقابلے  میں قرآنی آیات پیش کیں  نتیجہ یہ ہوا کہ اختلاف  او رجھگڑا بڑھ گیا ۔جناب فاطمہ مرتے دم تک ابو بکر سے ناراض رہیں ، ان سے بات نہیں کرتی تھیں ۔ جیسا کہ خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں آیا ہے ۔

ایک اور مثال ام المومنین عائشہ  اور ابوہریرہ  کےاختلاف کی ہے :

اگر کوئی شخص رمضان میں صبح کو ناپاک اٹھے تو عائشہ  کہتی تھیں کہ اس کا روزہ درست ہے ۔ابو ہریرہ  کی رائے  تھی کہ وہ افطار  کرے ۔ امام مالک نے موطا میں اوربخاری ن ےاپنی صحیح میں ام المومنین  عائشہ  اور ام المومنین  ام سلمہ  سے روایت کی ہے وہ دونوں کہتی ہیں کہ رمضان  میں رسول اللہ صبح کو جنب اٹھتے  تھے ہم بستری  کی وجہ سے ،  احتلام  کیوجہ سے نہیں ، پھر وہ روزہ رکھ لیتے تھے ۔ ابو بکر بن عبد الرحمن کی روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ جن دنوں مروان بن حکم

۱۷۸

مدینے کا امیر تھا ،ایک دن میں اور میرے والد اس کے پاس تھے ۔ اس کے سامنے ذکر آیا کہ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جو شخص صبح کو جنب  اٹھے وہ اس دن افطار کرے ۔

مروان کہنے لگا : عبدالرحمن ! میں تمھیں قسم دیتا ہوں کہ تم ام المومنین  عائشہ اور ام المومنین ام سلمہ  کےپاس جاکر ذرا ! اس بارے میں دریافت تو کرو ۔ اس پر عبدالرحمان  اور میں حضرت عائشہ  کے پاس گئے ۔ وہاں جاکر عبدالرحمن  نے سلام کیا اور کہا : ام  المومنین ! ہم مروان بن حکم کے پاس تھے ، وہاں ذکر آیا کہ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جو صبح کو جنب ہو وہ اس دن افطار کرے ، روزہ نہ رکھے ، عائشہ  نے کہا: اس طرح نہیں جیسے ابو ہریرہ کہتے ہیں ۔ عبدالرحمان  ! کیا تمھیں رسول اللہ ص کا طریقہ پسند نہیں؟ عبدالرحمن نے کہا: بخدا یہ بات نہیں ۔ عائشہ نے کہا : اگر ایسا ہے تو میں گواہی  دیتی ہوں کہ رسول اللہ ص احتلام کے بغیر ہم بستری سے صبح کو جنب  ہوتے تھے اور پھر اس دن کا روزہ رکھ لیتے تھے ۔ ابو بکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ہم وہاں سے نکل کر حضرت ام سلمہ کے یہاں گئے ۔ ہم نے ان سے پوچھا تو انھوں نے بھی وہی  کہاجو عائشہ  نے کہا تھا۔ اس کے بعد ہم واپس مروان بن حکم کے  پاس  پہنچے اورجو کچھ ان دونوں نے کہا تھا وہ مروان کو بتایا ۔

مروان نےکہا :ابو محمد  ! دروازے پر سواری  موجود ہے ۔تم فورا  سوار ہوکر ابوہریرہ  کےپاس جاؤ ، وہ عتیق میں اپنی زمین  پر ہیں ، انھیں جاکر سب بت بتلاؤ ۔ چنانچہ  عبدالرحمان سوار ہوئے میں بھی ان کے ساتھ سوار ہوا اور ہم دونوں ابوہریرہ کے پاس پہنچے ۔ عبدالرحمن  نے کچھ ویران سے ادھر ادھر کی باتیں پھر اصل موضوع  پر آئے ۔ابو ہریرہ نے کہا: مجھے تو اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ، مجھ سے تو کسی نے کہا تھا (۱)۔

دیکھئے ! ابو ہریرہ  جیسے صحابی جو اہل سنت کے نزدیک اسلام  میں احادیث  کےسب سے بڑے راوی  ہیں ، کیسے دینی احکام سے متعلق محض ظن وتخمین کی بناپر

---------------------

(۱):-صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۲۳۲ باب الصائم یصبح جنبا ۔  تنویر الحوالک شرح موطاء مالک جلد ۱ صفحہ ۲۷۲ "ما جا فی الذی  يصبح جنبا فی رمضان"

۱۷۹

فتوی دے دیتے ہیں اور پھر اسے رسول اللہ سے منسوب کردیتے حالانکہ انھیں یہ تک معلوم نہیں تا کہ یہ بات کس نے بتلائی تھی ۔ ایسے احکام جن کا ماخذ بھی معلوم نہیں اہل سنت ہی کو مبارک ہوں۔

ابو ہریرہ کا ایک اور قصہ

عبد اللہ بن محمد کہتے کہتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا ہشام بن یوسف نے اورہ کہتے ہیں کہ ہمیں بتلا یا معمر نے ، وہ روایت کرتے ہیں زہری سے ، وہ ابو سلمہ سے ، وہ ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے ، وہ کہتے ہیں کہ  رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"چھوت ، یرقان اور ہامہ (ایک فرضی پرندہ جو جاہلی عربوں کے خیال کے مطابق  اس وقت چیختا رہتا ہے جب تک مقتول کا بدلہ نہ لے لیا جائے) کوئی چیز نہیں ۔ اس پر ایک اعرابی نے کہا کہ یا رسول اللہ ص ! پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ اونٹ صحرا میں  خوبصورت  ہر نوں کی طرح کلیلیں کرتے پھرتے  ہیں پھر ان میں کوئی خارش زدہ اونٹ آملتا ہے تو سب کو خارش ہوجاتی ہے ۔ رسول اللہ ص نے کہا: یہ بتاؤ ، پہلے اونٹ کو بیماری کس نے لگائی  تھی ؟

ابو سلمہ ہی سے روایت ہے کہ میں نے بعد میں ابو ہریرہ کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

"بیماری کو تندرست کے پاس نہ لے جاؤ "

ابو ہریرہ نے پہلی حدیث کا انکار کیا تو ہم نے کہا : آپ نے نہیں کہا تھا کہ چھوت کوئی چیز نہیں ۔ اس پر ابوہریرہ حبشی زبان میں کچھ کہا جو ہماری سمجھ میں نہیں آیا ۔ ابو سلمہ کہتے ہیں کہ اور کوئی حدیث ہم نے ابو ہریرہ کو بھولتے نہیں دیکھا(۱)

----------------------

(۱):-صحیح بخاری جلد ۷ صفحہ ۳۱ باب لاہامہ ۔صحیح مسلم جلد ۷ صفحہ ۳۲ باب لاعدوی ولا طیرہ

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

۱۔ﷲ نے بندوں کوجو معین عمرعطا فرمائی ہے اس میں انسان مسلسل روزے رکھ سکتا ہے روزہ اگر چہ صرف ماہ رمضان میں ہی واجب ہے لیکن سال کے بقیہ دنوں میں مستحب ہی نہیں بلکہ''مستحب مؤکد ''ہے ۔

امام محمد باقر نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالہ سے خداوند عالم کا یہ قول نقل کیا ہے ۔

(الصوم لی وأنا اجزی به )( ۱ )

''روزہ میرے لئے ہے اورمیں ہی اسکی جزادوں گا ''

اس طرح سال کے دوران روزہ چھوڑدینے سے انسان کتنے عظیم ثواب سے محروم ہوتا ہے ؟ اسے خدا کے علاوہ کوئی نہیںجانتا ۔اب انسان جس دن بھی روزہ نہ رکھکرﷲکی جائزاور حلال نعمتیں استعمال کرتا ہے اس کی وجہ سے وہ جنت کی کتنی نعمتوںسے محروم ہواہے ؟اسکا علم خدا کے علاوہ کسی کو نہیں ہے اگر چہ یہ طے ہے کہ جو کچھ اس نے کھایا وہ رزق حلال ہی تھا لیکن اس تھوڑے سے رزق کے باعث بہر حال آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کا موقع اسکے ہاتھ سے جاتا رہا ۔حلال لذتوں کے باعث دنیا و آخرت کے درمیان ٹکرائو کی یہ ایک مثال ہے ۔

۲۔جب انسان رات میں نیند کی لذت سے لطف اندوز ہوتا ہے تو بلا شبہ یہ زندگانی دنیا کی حلال اور بہترین لذت ہے لیکن جب انسان پوری رات سوتے ہوئے گذاردیتا ہے تو اس رات نماز شب اور تہجد کے ثواب سے محروم رہتا ہے ۔

فرض کیجئے خدا نے کسی کو ستر برس کی حیات عطا کی ہو تو اس کے لئے ستر سال تک یہ ثواب ممکن ہے لیکن جس رات بھی نماز شب قضا ہوجاتی ہے آخرت کی نعمتوں میں سے ایک حصہ کم ہوجاتاہے اگر (خدا نخواستہ )پورے ستر سال اسی طرح غفلت میں بسر ہوجائیں تو نعمات اخروی

____________________

(۱)بحارالانوار ج۹۶ص ۲۵۴ ،۲۵۵، ۲۴۹ ۔

۲۲۱

حاصل کرنے کا موقع بھی ختم ہوجائے گا اور پھر انسان افسوس کرے گا کہ ''اے کاش میں نے اپنی پوری عمر عبادت الٰہی میں بسر کی ہوتی ''

۳۔اگر خداوند عالم کسی انسان کومال عطا کرے تو اس مال کو راہ خدا میں خرچ کرکے کافی مقدار میں اخروی نعمتیں حاصل کرنے کاامکان ہے انسان جس مقدار میںدنیاوی لذتوں کی خاطرمال خرچ کرتا ہے اتنی ہی مقدار میںآخرت کی نعمتوں سے محروم ہوسکتا ہے کہ اسی مال کو راہ خدا میں خرچ کرکے دنیا کے بجائے آخرت کی لذتیں اور نعمتیں حاصل کرسکتا تھا لہٰذا اگر انسان اپنا پورا مال دنیاوی کاموں کے لئے خرچ کردے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس مال سے اخروی نعمتیں حاصل کرنے کا موقع گنوادیا ۔چاہے اس نے یہ مال حرام لذتوں میں خرچ نہ کیا ہو ۔

اسی طرح انسان کے پاس آخرت کی لذتیں اورنعمتیں حاصل کرنے کے بے شمار مواقع ہوتے ہیں ۔مال ،دولت، عمر، شباب، صحت ،ذہانت ،سماجی حیثیت اور علم جیسی خداداد نعمتوں کے ذریعہ انسان آخرت کی طیب وطاہر نعمتیں کما سکتا ہے لیکن جیسے ہی اس سلسلہ میں کو تاہی کرتا ہے اپنا گھاٹا کر لیتا ہے خدا وندعالم نے ارشاد فرما یا ہے :

( والعصرِ٭انّ الا نسان لفی خسر ) ( ۱ )

''قسم ہے عصر کی بیشک انسان خسارہ میں ہے ''

آیۂ کر یمہ نے جس گھا ٹے کا اعلان کیا ہے وہ اس اعتبار سے ہے کہ آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کے لئے جن چیز وں کی ضرورت ہے خداوندعالم نے وہ تمام چیزیں اپنے بندوں کو (مفت ) عطا کردی ہیں اور انھیں خدا داد نعمتوں سے آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کا بھی انتظام کردیا ہے اس کے باوجود انسان کوتاہی کرتا ہے اور ان نعمتوں کو خواہشات دنیا کے لئے صرف کر کے آخرت کما نے کا

____________________

(۱)سورئہ عصر آیت۱۔۲۔

۲۲۲

موقع کھودیتا ہے تو یقیناگھاٹے میں ہے ۔

اس صور ت حال کی منظر کشی امیر المو منین حضرت علی نے بہت ہی بلیغ انداز میں فرمائی ہے آپ کا ارشاد ہے :

(واعلم أن الد نیاداربلیّة،لم یفرغ صاحبها فیها قط ساعة لاکانت فرغته علیه حسرة یوم القیامة )( ۱ )

''آگاہ ہو جا ئو یہ دنیا دار ابتلاہے اس میںا گر کوئی ایک ساعت بے کار رہتا ہے تو یہ ایک ساعت کی بے کاری روز قیامت حسرت کا باعث ہوگی''

یہاں بے کاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان ذکر خدا نہ کرے اور اسکی خوشنودی کے لئے کوئی عمل نہ بجالا ئے اور اسکے اعضاء وجوارح بھی قربت خدا کے لئے کوئی کام نہ کر رہے ہوں یا یاد خدا میں مشغول نہ ہوں ۔

اب اگر ایک گھنٹہ بھی اس طرح خالی اوربے کار رہے چاہے اس دوران کوئی گنا ہ بھی نہ کرے تواسکی بناپر قیامت کے دن اسے حسرت کا سامناکرنا ہوگا اس لئے کہ اس نے عمر ،شعور اور قلب جیسی نعمتوں کو معطل رکھا اورانہیں ذکرو اطاعت خدا میں مشغول نہ رکھ کر اس نے رضا ئے خدا اور نعمات اخروی حاصل کرنے کا وہ موقع گنوادیا ہے جسکا تدارک قطعا ممکن نہیں ہے بعد میں چاہے وہ جتنی اخروی نعمتیں حاصل کرلے لیکن یہ ضائع ہوجانے والا موقع بہر حال نصیب نہ ہوگا ۔

۳۔سنت الٰہی یہ ہے کہ انسان ترقی وتکامل اور قرب الٰہی کی منزلیں سختیوں اورمصائب کے ذریعہ طے کر تا ہے ۔ارشاد الٰہی ہے :

( أحَسِبَ الناس أن یُترکوا أن یقولواآمنّا وهم لایُفتنون ) ( ۲ )

____________________

(۱) نہج البلاغہ مکتوب ۵۹۔

(۲)سورئہ عنکبوت آیت۲۔

۲۲۳

''کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ و ہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ہوگا''

دوسرے مقام پرارشاد ہوتا ہے :

( ولنبلونّکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقصٍ من الأموال والأنفس والثمرات ) ( ۱ )

''اور ہم یقیناتمہیں تھوڑاخوف تھوڑی بھوک اور اموال ونفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے ۔۔۔''

نیزارشاد خداوندی ہے :

( فأخذناهم بالبأساء والضرّاء لعلهم یتضرّعون ) ( ۲ )

''۔۔۔اسکے بعد ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں''

یہ آخری آیت واضح الفاظ میں ہمارے لئے خدا کی طرف انسانی قافلہ کی حرکت اور ابتلاء وآز مائش ،خوف، بھوک اور جان ومال کی کمی کے درمیان موجود رابطہ کی تفسیر کر رہی ہے کیونکہ تضرع وزاری قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے اور تضرع کی کیفیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان جان ومال کی کمی، بھوک ،خوف اور شدائد ومصائب میں گرفتار ہوتاہے اس طرح انسان کے پاس دنیاوی نعمتیں جتنی زیادہ ہو ں گی اسی مقدار میں اسے تضرع سے محرومی کاخسارہ اٹھانا پڑے گا اور نتیجتاً وہ قرب الٰہی کی سعادتوں اور اخروی نعمتوں سے محروم ہوجا ئے گا ۔

زندگانی دنیا کے مصائب ومشکلات کبھی تو خدا اپنے صالح بندوں کو مرحمت فرماتا ہے تا کہ وہ تضرع وزاری کیلئے آمادہ ہوسکیں اور کبھی اولیائے الٰہی اوربند گان صالح خود ہی ایسی سخت زندگی

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت۱۵۵۔

(۲)سورئہ انعام آیت ۴۲۔

۲۲۴

کواختیار کر لیتے ہیں ۔

۴۔لذائذ دنیا سے کنار کشی کا ایک سبب یہ ہو تا ہے کہ انسان کبھی یہ خوف محسوس کرتا ہے کہ کہیں لذائذ دنیا کا عادی ہوکر وہ بتدریج حب دنیا میں مبتلا نہ ہو جا ئے اوریہ حب دنیاا سے خدا اور نعمات اخروی سے دور نہ کردے ۔اس لئے کہ لذائذ دنیا اورحب دنیا میں دوطرفہ رابطہ پایا جاتا ہے یہ لذ تین انسان میںحب دنیا کا جذبہ پیدا کر تی ہیں یااس میں شدت پیدا کر دیتی ہیں اس کے بر عکس حب دنیا انسان کودنیاوی لذتوں کو آخرت پر ترجیح دینے اوران سے بھر پور استفادہ کرنے بلکہ اسکی لذتوں میںبالکل ڈوب جانے کی دعوت دیتی ہے ۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان لا شعوری طور پر حب دنیا کا شکار ہو جائے لہٰذا لذائذ دنیاسے ہو شیار رہنا چاہئے کیونکہ عین ممکن ہے کہ یہ لذتین اسے اسکے مقصد سے دور کردیں ۔

۵۔کبھی ہمیں روایات میں ایسی بات بھی نظر آتی ہے کہ جو مذ کور ہ وضاحتوں سے الگ ہے جیسا کہ مولا ئے کائنات حضرت علی نے جناب محمدبن ابی بکر کو مصر کا حاکم مقرر کرتے وقت (عہد نامہ میں)ان کے لئے یہ تحریر فرما یاتھا:

(واعلمواعبادﷲأن المتّقین ذهبوا بعاجل الدنیا وآجل الآخرة ،۔۔۔)( ۱ )

''بندگان خدا !یا د رکھو کہ پرہیزگار افراد دنیا اور آخرت کے فوائد لے کرآگے بڑھ گئے ۔وہ اہل دنیا کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے لیکن اہل دنیا ان کی آخرت میں شریک نہ ہوسکے۔وہ دنیا میں بہترین انداز سے زندگی گذار تے رہے جو سب نے کھایا اس سے اچھاپاکیزہ کھانا کھایااور وہ تمام لذتیںحاصل کرلیں جو عیش پرست حاصل کرتے ہیں اور وہ سب کچھ پالیا جو جابراور متکبر افراد کے حصہ میں آتا ہے ۔اسکے بعد وہ زادراہ لے کر گئے جو منزل تک پہونچادے اور وہ تجارت کرکے گئے

____________________

(۱)نہج البلا غہ مکتوب ۲۷۔

۲۲۵

جس میں فائدہ ہو۔دنیا میں رہ کر دنیا کی لذت حاصل کی اور یقین رکھے رہے کہ آخرت میں پروردگار کے جوار رحمت میں ہوںگے۔جہاں نہ ان کی آواز ٹھکرائی جائے گی اور نہ کسی لذت میں ان کے حصہ میں کوئی کمی ہوگی''

ان جملات میں متقین اور غیر متقین کا مواز نہ کیا گیا ہے جبکہ جن روایات کا ہم تجز یہ پیش کررہے تھے انمیں درجات متقین کا مو از نہ ہے،نہ کہ متقین اور غیر متقین کا!ظا ہر ہے کہ یہ دو نوں الگ ا لگ چیزیں ہیں لہٰذا ان دو نوں کا حکم بھی الگ ہو گا ۔

۲۲۶

با طن بیں نگاہ

دنیا کے بارے میں سر سری اور سطحی نگاہ سے ہٹ کر ہم دنیا پر زیادہ گہرائی اور سنجیدگی کے سا تھ نظر کر سکتے ہیں ۔جسے ہم (الرؤ یة النافذة) کا نام دے سکتے ہیں اس رویت میں ہم دنیا کے ظاہر سے بڑ ھ کر اس کے با طن کا نظارہ کر سکتے ہیں ۔ جس سے ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا کا ظا ہراگر حبّ دنیا کی طرف لے جا تا ہے اور انسان کو فر یب دیتا ہے تو اس کے بر خلا ف دنیا کا باطن انسان کو زہداور دنیا سے کنارہ کشی کی دعوت دیتا ہے ۔باطن بیں نگاہ ظا ہر سے بڑھکر دنیا کی اندرو نی حقیقت کو عیاں کر کے یہ بتا تی ہے کہ متاع دنیا بہر حال فنا ہو جا نے والی ہے نیز یہ کہ انسان کا دنیا میں انجام کیا ہو گا ؟ یوں انسان خو د بخود زہدا ختیار کر لیتا ہے ۔

روایات میںکثرت سے یہ تا کید کی گئی ہے کہ دنیا کو اس (نظر) سے دیکھنا چا ہئے، انسان مو ت کی طرف متو جہ رہے اورہمیشہ مو ت کو یاد رکھے، طویل آرزووں اور مو ت کی طرف سے غا فل ہو نے سے منع کیا گیاہے ۔

مو ت در اصل اس با طنی دنیا کا چہرہ ہے جس سے انسان فرار کرکے موت کو بھلا نا چا ہتا ہے چنا نچہ روایت میں وارد ہو ا ہے کہ (موت سے بڑھ کر کو ئی یقین ، شک سے مشا بہ نہیں ہے ) اس لئے کہ موت یقینی ہے ،اسمیں شک و شبہ کی گنجائش نہیں اس کے با وجود انسان اس سے گر یزاں ہے

۲۲۷

اور اسے بھلا ئے رکھنا چا ہتا ہے ۔

حا لا نکہ روایات میں اس کے با لکل بر عکس نظر آتا ہے امام محمد با قر کا ارشاد ہے:

(أکثروا ذکرالموت، فانه لم یُکثرالانسان ذکرالموت الازهد فی الدنیا )( ۱ )

'' مو ت کو کثرت سے یا د کرو کیو نکہ انسان جتنا کثرت سے موت کو یا د کر تا ہے اس کے زہد میں اتنا ہی اضا فہ ہو تا ہے''

امیر امو منین حضرت علی کا ار شاد گر امی ہے :

(من صوّرالموتَ بین عینیه هان أمرالدنیا علیه )( ۲ )

''جس کی نگا ہوں کے سا منے مو ت ہو تی ہے دنیا کا مسئلہ اس کے لئے آسان ہو تا ہے''

آپ ہی کا ار شاد ہے :

(أحقّ الناس بالزهادة من عرف نقص الدنیا )( ۳ )

''جو دنیا کے نقائص سے آگاہ ہے وہ زہد کا زیادہ حقدار ہے ''

امام مو سیٰ کا ظم کا ارشاد ہے:

(ان العقلاء زهدوا فی الدنیا،ورغبوا فی الآخرة ۔۔۔)( ۴ )

''بے شک صاحبان عقل دنیا میں زاہد اور آخرت کی جا نب راغب ہو تے ہیں انھیں معلوم ہے کہ دنیا طالب بھی ہے مطلوب بھی ،اسی طرح آخرت بھی طالب اور مطلوب ہو تی ہے ۔جو آخرت کا طلبگار ہو تا ہے اسے دنیا طلب کرتی ہے اور اپنا حصہ لے لیتی ہے ۔جو دنیا کا طلبگار ہو تا ہے آخرت اس

____________________

(۱) بحارالانوار ج۷۳ص۶۴۔

(۲)غرر الحکم ج۲ص۲۰۱۔

(۳) غرر الحکم ج۱ص۱۹۹۔

(۴)بحارالانوار ج ۷۸ ص ۳۰۱۔

۲۲۸

کی طالب ہو تی ہے پھر جب مو ت آتی ہے تو اس کی دنیا و آخرت دونوں خراب ہو جا تی ہیں ''

روا یت میں ہے کہ امام مو سی ٰ کا ظم ایک جنا زہ کے سر ہا نے تشریف لا ئے تو فر ما یا:

(ان شیئاً هذا أوّله لحقیق أن یُخاف آخره )( ۱ )

''جس چیز کا آ غازیہ (مر دہ لاش )ہو اس کے انجام کا خوف حق بجا نب ہے ''

ان روا یات میں ذکر مو ت اور زہد کے در میان واضح تعلق نظر آ تا ہے بالفاظ دیگران روایات میںنظر یہ یاتھیوری اورپریکٹیکل کے در میان تعلق کو ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ موت کا ذکر اور اسے یاد رکھنا ایک قسم کا نظر یہ اور تھیوری ہے اور زھد اس نظریہ کے مطابق راہ وردش یاپر یکٹیکل کی حیثیت رکھتا ہے امیر المو منین حضرت علی لوگوں کو دنیا کے بارے میں صحیح اور حقیقی نظریہ سے روشناس کراتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

(کونواعن الدنیا نُزّاها،والیٰ الآخرة ولّاهاولاتشیموا بٰارقها،ولا تسمعواناطقها،ولاتجیبواناعقها،ولاتستضیئواباشراقها،ولاتفتنواباعلاقها،فن برقهاخالب،ونطقهاکاذب ،واموالها محروبة،واعلاقها مسلوبة )( ۲ )

''دنیا سے پاکیزگی اختیار کرو اور آخرت کے عاشق بن جائو۔۔۔ اس دنیا کے چمکنے والے بادل پر نظر نہ کرو اور اسکے ترجمان کی بات مت سنو ،اسکے منادی کی بات پر لبیک مت کہو اور اسکی چمک د مک سے روشنی مت حاصل کرو اور اسکی قیمتی چیزوں پر جان مت دو اس لئے کہ اسکی بجلی فقط چمک دمک ہے اور اسکی باتیں سراسر غلط ہیں اسکے اموال لٹنے والے ہیں اور اسکا سامان چھننے والا ہے ''

آپ ہی کاارشاد گرامی ہے:

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ ص۳۲۰ ۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۱ ۔

۲۲۹

(وأخرجوا من الدنیا قلوبکم من قبل ان تخرج منها ابدانکم )( ۱ )

''دنیا سے اپنے دلوں کو نکال لو قبل اس کے کہ تمہارے بدن دنیا سے نکالے جائیں ''

دنیا سے دل نکال لینے کا مطلب ،دنیا سے قطع تعلق کرنا ہے جسے ہم (ارادی اور اختیاری موت)کا نام دے سکتے ہیں اس کے بالمقابل( قہری اور غیر اختیاری موت )ہے جسمیں ہمارے بدن دنیا سے نکالے جائیں گے ۔امام نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قہری موت سے پہلے ارادی موت اختیارکرلیں اور دنیا سے قطع تعلق کا ہی دوسرا نام ''زہد''ہے ۔۔۔دنیا کے باطن کو دیکھنے والی نظر اور زہد سے اسکے رابطہ کو سمجھنے کے لئے خود زہد کے بارے میںجاننااور گفتگوکرنا ضروری ہے ۔

زہد

زہد،حب دنیا کے مقابل حالت ہے ۔طور وطریقہ اور سلوک کی یہ دونوں حالتیں دو الگ الگ نظریوں سے پیداہوتی ہیں ۔

حب دنیا کی کیفیت اس وقت نمودار ہوتی ہے کہ جب انسان دنیا کے فقط ظاہرپر نظر رکھتا ہے اس کے بر خلاف اگر انسان کی نظر دنیا کے باطن کو بھی دیکھ رہی ہے تو اس سے زہد کی کیفیت جنم لیتی ہے ۔

چونکہ حب دنیا کا مطلب دنیا سے تعلق رکھنا ہے اور زہد اس کے مقابل کیفیت کا نام ہے تو زہد کا مطلب ہوگا دنیا سے آزاد البتہ اس کے معنی کی وضاحت ضروری ہے ۔حب دنیا کے مفہوم کو سمیٹ کر دو لفظوں میںیوں بیان کیا جاسکتا ہے :

۱۔فرحت ومسرت

۲۔حزن وملال

حب دنیا کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کولذائذ دنیا میں جب کچھ بھی نصیب ہو تا ہے تووہ خوش

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۴۔

۲۳۰

ہوجاتا ہے اور جب وہ کسی نعمت سے محروم رہتا ہے یااس سے کوئی نعمت چھن جاتی ہے تووہ محزون ہوجاتاہے چونکہ زہد حب دنیا کے مقابل کیفیت کا نام ہے لہٰذا زہد کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان دنیا سے اتنا آزاداور بے پرواہ ہوکہ دنیا میں سب کچھ مل جانے پربھی خوشی محسوس نہ کرے اور کچھ بھی نہ ملنے پر مغموم و محزون نہ ہو ۔

خدا وند عالم فر ماتا ہے :

(۔۔۔لکیلا تحزنوا علیٰ مافاتکم ولامااصابکم ۔۔۔)( ۱ )

''۔۔۔تاکہ تم نہ اس پر رنجیدہ ہو جو چیز ہاتھ سے نکل گئی ہے اور نہ اس مصیبت پر جو نازل ہوگئی ہے ۔۔۔''

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

(۔۔۔لکیلا تاسوا علیٰ مافاتکم ولا تفرحوا بماآتاکم ۔۔۔)( ۲ )

''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اسکا افسوس نہ کرو اور جو مل جائے اس پر غروراور فخر نہ کرو ۔۔۔''

امیر المو منین حضرت علی سے مروی ہے :

(الزهدکله فی کلمتین من القرآن )

''پورا زہد قرآن کے دو لفظوں میں سمٹا ہوا ہے جیسا کہ خدا کا ارشاد ہے :

(لکیلا تأسواعلیٰ مافاتکم )( ۳ )

''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اسکا افسوس نہ کرو''

____________________

(۱)سورئہ آل عمران آیت ۱۵۳۔

(۲)سورئہ حدید آیت۲۳۔

(۳)سورئہ حدید آیت ۲۳۔

۲۳۱

(فمن لم یأس علی الماضی ولم یفرح بالآ تی فهوالزاهد )( ۱ )

جو انسان ماضی پرافسوس نہ کرے اور ہاتھ آجانے والی چیز پر خوش نہ ہووہ زاہد ہے ''

ایک دوسرے مقام پر آپ سے روایت ہے :

''الزهدکلمة بین کلمتین من القرآن قال اللّٰه:(لکیلا تأسوا)فمن لم یأس علیٰ الماضی،ولم یفرح بالآ تی،فقد اخذ الزهد بطرفیه ''( ۲ )

''زہد قرآن کے دو لفظوں کا مجمو عہ ہے خدا وند عالم فر ماتا ہے :

(لکیلا تأسوا ۔۔۔)''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اسکا افسوس نہ کرو''

لہٰذاجو انسان ماضی پر افسوس نہ کرے اور ہاتھ آجانے والی چیز پر خوش نہ ہو اس نے پورا زہد حاصل کرلیا ہے ''

امیرالمو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(من اصبح علی الدنیا حزیناً،فقد أصبح لقضاء اللّٰه ساخطاً،ومن لهج قلبه بحب الدنیاالتاط قبله منها بثلاث:همّ لایُغِبُّه،وحرص لایترکه،وأمل لایدرکه )( ۳ )

''جو دنیا کے بارے میں محزون ہو گا وہ قضا و قدر الٰہی سے ناراض ہو گا جس کا دل محبت دنیا کا دلدادہ ہوجائے اسکے دل میں یہ تین چیزیں پیوست ہوجاتی ہیں وہ غم جو اس سے جدا نہیں ہوتا ہے ،وہ لالچ جو اسکا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے وہ امید جسے وہ کبھی حاصل نہیں کرسکتا ہے ''

یہ بھی حزن و فر حت سے آزادی کا ایک رخ ہے کہ دنیا کے بارے میں حزن وملال ،قضا وقدر الٰہی سے ناراضگی کے باعث ہوتا ہے اس لئے کہ انسان دنیا میں جن چیزوں سے بھی محروم ہوتا

____________________

(۱)بحا ر الانوار ج ۷۸ ص ۷۰۔

(۲)بحارالانوار ج ۷۰ ص ۳۲۔

(۳)نہج البلاغہ حکمت ۲۲۸۔

۲۳۲

ہے وہ در حقیقت قضا وقدر الٰہی کے تحت ہی ہوتا ہے نیز حب دنیا انسان میں تین صفتیں پیدا کرتی ہے ہم وغم ،حرص وطمع، آرزو۔ اس طرح وہ انسان کو ظلم وستم اور عذاب کے پنجوں میں جکڑدیتی ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(ایهاالناس انماالدنیا ثلا ثة:زاهدوراغب وصابر،فأماالزاهدفلا یفرح بشیٔ من الدنیا أتاه،ولایحزن علیٰ شیٔ منها فاته وامّاالصابرفیتمنّاها بقلبه،فان ادرک منهاشیئاصرف عنها نفسه،لما یعلم من سوء عاقبتها وامّا الراغب فلایبالی من حِلٍّ اصابها أم من حرام )( ۱ )

''اے لوگو: دنیا کے افرادتین قسم کے ہیں :۱۔زاہد ۲۔صابر ۳۔راغب

۱۔زاہد وہ ہے جو کسی بھی چیز کے مل جانے سے خوش یا کسی بھی شے کے نہ ملنے سے محزون نہیں ہوتا ۔صابر وہ ہے جو دل ہی دل میں دنیا کی تمنا تو کرتا ہے لیکن اگر اسے دنیا مل جاتی ہے تو چونکہ اسکے برے انجام سے واقف ہے لہٰذا اپنامنھ اس سے پھیر لیتا ہے اور راغب وہ ہے کہ جسے یہ پروا نہیں ہے کہ اسے دنیا حلال راستہ سے مل رہی ہے یا حرام راستہ سے ''

زہدکے معنی ،لوگوں کی تین قسموںاور ان قسموں پر زاہد ین کی تقسیم کے سلسلہ میں یہ حدیث عالی ترین مطالب کی حامل ہے ۔اسکے مطابق لوگوں کی تین قسمیں ہیں :

زاہد ،صابر اور راغب۔

زاہد وہ ہے کہ جو دنیا اور اسکی فرحت وملال سے آزاد ہو۔

صابر وہ ہے کہ جو ان چیزوں سے آزاد تو نہیں ہے مگر حب دنیا ،دنیاوی فرحت ومسرت اور حزن وملال سے نجات پانے کے لئے کوشاںہے ۔

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ص۱۲۱۔

۲۳۳

راغب وہ ہے کہ جو دنیا کا اسیر اور اسکی فرحت ومسرت اور حزن و ملال کے آگے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے۔

ان میں پہلا اور تیسراگروہ ایک دوسرے کے بالکل مقابل ہے کہ ایک مکمل طریقہ سے آزاد اور دوسراہر اعتبار سے مطیع و اسیرجبکہ تیسرا گروہ درمیانی ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی لوگوں کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی فرحت و ملال کا رخ دنیا سے آخرت کی جانب موڑدیں یہی بہترین چیز ہے کیونکہ اگر ہماری کیفیت یہ ہوکہ ہم اطاعت خدا کرکے خوشی محسوس کریں اور اطاعت سے محرومی پر محزون ہوں تو یہ بہترین بات ہے اس لئے کہ اس خوشی اورغم کا تعلق آخرت سے ہے ۔

مولائے کائنات حضرت علی، ا بن عباس کے نام اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:

''اما بعد !انسان کبھی کبھی ایسی چیز کو پاکر بھی خوش ہوجاتا ہے جو ہاتھ سے جانے والی نہیںتھی اور ایسی چیز کو کھوکر رنجیدہ ہوجاتا ہے جو ملنے والی نہیں تھی لہٰذا خبر دار تمہارے لئے دنیا کی سب سے بڑی نعمت، کسی لذت کا حصول یا جذبۂ انتقام ہی نہ بن جائے بلکہ بہترین نعمت باطل کو مٹانے اور حق کو زندہ کرنے کو سمجھو اور تمہیں ان اعمال سے خوشی ہو جنہیں پہلے بھیج دیا ہے اور تمہارا افسوس ان امور پر ہو جنہیں چھوڑکر چلے گئے ہو اور تمام تر فکر موت کے مرحلہ کے بارے میں ہونی چاہئیے''( ۱ )

زہد،تمام نیکیوں کا سرچشمہ

جس طرح حیات انسانی میں حب دنیا تمام برائیوں کی جڑہے اسی طرح تمام نیکیوں اور اچھائیوں کا سرچشمہ ''زہد''ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حب دنیا انسان کو دنیا اور اسکی خواہشات کا اسیر بنادیتی ہے اور دنیا خود تمام برائیوں اور پستیوں کی بنیاد ہے لہٰذا حب دنیابھی انسان کو برائیوںاور

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب ۶۶۔

۲۳۴

پستیوں کی طرف لے جاتی ہے جبکہ زہد کا مطلب ہے دنیااور خواہشات دنیا سے آزاد ہونا اور جب انسان برائیوں کی طرف لے جانے والی دنیا سے آزاد ہوگا تو اسکی زندگی خود بخود نیکیوں اور اچھائیوں کا سرچشمہ بن جائے گی ۔

روایات معصومین میں اس چیز کی طرف متعدد مقامات پر مختلف اندازسے اشارہ کیا گیا ہے بطور نمونہ ہم یہاں چند احادیث پیش کر رہے ہیں۔

امام صادق کا ارشاد ہے:

(جُعل الخیرکله فی بیت وجُعل مفتاحه الزهد فی الدنیا )( ۱ )

''تمام نیکیاں ایک گھر میں قرار دی گئی ہیں اور اسکی کنجی دنیا کے سلسلہ میں زہد اختیار کرنا ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الزهد أصل الدین )( ۲ )

''دین کی اصل، زہد ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الزهد اساس الدین )( ۳ )

''دین کی اساس اور بنیاد، زہد ہے ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(الزهد مفتاح باب الآخرة،والبرا ئة من النار،وهو ترکک کل شیٔ

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۴۹۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۲۹۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۳۰۔

۲۳۵

یشغلک عن اللّٰه من غیرتأسف علیٰ فوتها ولا أعجاب فی ترکها،ولاانتظارفرج منها،ولاطلب محمدة علیها،ولاعوض منهابل تریٰ فواتهاراحة،وکونهاآفة،وتکون أبداً هارباً من الآفة،معتصماً بالراحة )( ۱ )

''زہد،باب آخرت کی کنجی اورجہنم سے نجات کا پروانہ ہے ۔زہد کا مطلب یہ ہے کہ تم ہراس چیز کو ترک کردو جو تمہیں یاد خدا سے غافل کردے اور تمہیں اسکے چھوٹ جانے کا نہ کوئی افسوس ہو اور نہ اسے ترک کرنے میں کوئی زحمت ہو ۔اس کے ذریعہ تمہاری کشادگی کی توقع نہ ہو،نہ ہی اس پر تعریف کی امید رکھو، نہ اسکا بدلہ چاہو بلکہ اسکے فوت ہوجانے میں ہی راحت اور اسکی موجود گی کو آفت سمجھوایسی صورت میں تم ہمیشہ آفت سے دوراورراحت وآرام کے حصارمیںرہو گے''

حضرت علی نے فرمایا ہے :

(الزهد مفتاح الصلاح )( ۲ )

''زہد صلاح کی کنجی ہے ''

زہد کے آثار

حیات انسانی میں زہد کے بہت عظیم آثار و نتائج پائے جاتے ہیں جنہیں زاہد کے نفس اور اسکے طرز زندگی میں بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔

۱۔آرزووں میں کمی

حب دنیا کا نتیجہ آرزووں کی کثرت ہے اور زہد کا نتیجہ آرزووں میں کمی۔ جب انسان کا تعلق دنیا سے کم ہو اوروہ خواہشات دنیا سے آزاد ہوتو طبیعی طور پر اسکی آرزوئیں بھی مختصر ہوںگی وہ دنیا میں

____________________

(۱) بحا ر الا نو ا ر ج ۰ ۷ ص۳۱۵۔

(۲)غررالحکم ص۹۹،۳۷۔۸۔

۲۳۶

زندگی بسر کرے گا متاع زندگانی اوردنیاوی لذتوںسے استفادہ کرے گا لیکن ہمیشہ موت کو بھی یاد رکھے گا اور اسی طرح یہ بات بھی اسکے پیش نظر رہے گی کہ ان چیز وں کا سلسلہ کسی بھی وقت اچانک ختم ہوجائے گا۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(من یرغب فی الدنیا فطال فیها أمله،أعمیٰ ﷲ قلبه علیٰ قدررغبته فیها، ومن زهد فیها فقصرفیهاأمله،أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیً بغیرهدایة،وأذهب عنه العمائ،وجعله بصیرا )( ۱ )

''جو شخص دنیا کی طرف راغب ہوتاہے اسکی آرزوئیں طولانی ہوتی ہیں اور دنیا کی طرف اسکی رغبت کے مطابق ﷲ اسکے قلب کو اندھا کردیتاہے اور جو دنیا میں زاہد ہوتاہے اسکی آرزوئیں مختصر ہوتی ہیں اور ﷲ اسے تعلیم کے بغیر علم اوراسباب ہدایت کے بغیر ہدایت عطا کرتاہے۔اوراس سے اندھے پن کو دور کرکے اسکو بصیر بنا دیتاہے ''

اس روایت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ زہد ،سے آرزوئیںکم ہوجاتی ہیں اور اس کمی سے بصیرت اورہدایت ملتی ہے اسکے برعکس دنیا کی جانب رغبت سے آرزووں میں کثرت پیدا ہوتی ہے اور یہ کثرت اندھے پن کا سبب ہے تو آخر آرزووں کی قلت اور بصیرت کے درمیان کیا تعلق ہے ؟

اسکا راز یہ ہے کہ طویل آرزوئیںانسان کو دنیا میں اس طرح جکڑدیتی ہیں کہ انسان اس سے بیحدمحبت کرنے لگتا ہے اوردنیاکی محبت ا انسان اور خدا کے درمیان حجاب بن جاتی ہے اور جب آرزوئیں مختصر ہوتی ہیں تو یہ حجاب اٹھ جاتا ہے۔اور ظاہر ہے کہ جب قلب کے حجابات دور ہوجائیں گے تواس میں بصیرت پیدا ہوجائے گی ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۷ص۲۶۳۔

۲۳۷

(الزهد فی الدنیا قصرالأمل،وشکرکل نعمة،والورع عن کل ماحرّم ﷲ )( ۱ )

''دنیا میں زہد کا مطلب یہ ہے کہ آرزوئیں قلیل ہوں،ہر نعمت کا شکر ادا کیا جائے اور محرمات الٰہی سے پرہیز کیا جائے''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الزهد تقصیرالآمال،واخلاص الاعمال )( ۲ )

''آرزووںمیںکمی اور اعمال میں خلوص کا نام زہد ہے ''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(أیهاالناس،الزهادة قصرالأمل،والشکرعندالنعم،والتورع عندالمحارم،فانْ عزب ذلک عنکم،فلایغلب الحرام صبرکم،ولاتنسواعندالنعم شکرکم،فقدأعذرﷲالیکم بحججٍ مسفرةظاهرة،وکتبٍ بارزةالعذرواضحة )( ۳ )

''اے لوگوں:زہد امیدوں کے کم کرنے ،نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے اور محرمات سے پرہیز کرنے کا نام ہے ۔اب اگر یہ کام تمہارے لئے مشکل ہوجائے تو کم ازکم اتنا کرناکہ حرام تمہاری قوت برداشت پر غالب نہ آنے پائے اور نعمتوں کے موقع پر شکر کو فراموش نہ کردینا کہ پروردگار نے نہایت درجہ واضح اور روشن دلیلوں اور حجت تمام کرنے والی کتابوں کے ذریعہ تمہارے ہر عذر کا خاتمہ کردیا ہے ''

۲۔دنیاوی تاثرات سے نجات اورآزادی

دنیاوی نعمتیں ملنے سے نہ انسان خوشی محسوس کرے گا اور نہ ان سے محرومی پر محزون ہوگا ۔

امیرالمومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۱۶۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۹۳۔

(۳)نہج البلاغہ خطبہ ۸۱۔

۲۳۸

(فمن لم یأس علیٰ الماضی،ولم یفرح بالآ تی فقد أخذ الزهد بطرفیه )( ۱ )

''جو شخص ماضی پر افسوس نہ کرے اور ہاتھ آنے والی چیزوں سے مغرور نہ ہوجائے اس نے سارا زہدسمیٹ لیا ہے ''

امیر المومنین کے ہر کلام کی مانند حیات انسانی میں زہد کے نتائج کے بارے میں شاہکار کلام پایا جاتا ہے ہم یہاں اس کلام کو نہج البلاغہ سے نقل کر رہے ہیں ۔''اپنے کانوں کو موت کی آواز سنادو قبل اسکے کہ تمہیں بلالیاجائے دنیا میں زاہدوں کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ خوش بھی ہوتے ہیں تو ان کا دل روتا رہتاہے اور وہ ہنستے بھی ہیںتوان کا رنج و اندوہ شدیدہوتاہے۔وہ خود اپنے نفس سے بیزاررہتے ہیںچاہے لوگ ان کے رزق سے غبطہ ہی کیوں نہ کریں ۔افسوس تمہارے دلوں سے موت کی یاد نکل گئی ہے اور جھوٹی امیدوں نے ان پر قبضہ کرلیا ہے۔اب دنیا کا اختیار تمہارے اوپر آخرت سے زیادہ ہے اور وہ عاقبت سے زیادہ تمہیں کھینچ رہی ہے ۔تم دین خدا کے اعتبار سے بھائی بھائی تھے۔ لیکن تمہیں باطن کی خباثت اور ضمیر کی خرابی نے الگ الگ کردیا ہے کہ اب نہ کسی کا بوجھ بٹاتے ہو۔نہ نصیحت کرتے ہو۔نہ ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہواور نہ ایک دوسرے سے واقعاًمحبت کرتے ہو۔آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ معمولی سی دنیا کو پاکر خوش ہوجاتے ہو اور مکمل آخرت سے محروم ہوکر رنجیدہ نہیں ہوتے ہو۔تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے نکل جائے تو پریشان ہوجاتے ہو اور اسکا اثر تمہارے چہروں سے ظاہر ہوجاتاہے اور اس کی علیٰحدگی پر صبر نہیں کرپاتے ہو جیسے وہی تمہاری منزل ہے اور جیسے اس کا سرمایہ واقعی باقی رہنے والا ہے۔تمہاری حالت یہ ہے کہ کوئی شخص بھی دوسرے کے عیب کے اظہارسے باز نہیں آتا ہے مگر صرف اس خوف سے کہ وہ بھی اسی طرح پیش آئے گا ۔تم سب نے آخرت کو نظر انداز کرنے اور دنیا کی محبت پر اتحاد کرلیاہے اور ہر ایک کا دین زبان کی چٹنی بن کر رہ گیا

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۰ص۳۲۰،نہج البلاغہ حکمت ۴۳۹۔

۲۳۹

ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب نے اپنا عمل مکمل کرلیا ہے اور اپنے مالک کو واقعا خوش کرلیا ہے۔''( ۱ )

۳۔دنیاپرعدم اعتماد

انسانی نفس کے اوپر زہد کے آثار میں سے ایک اثریہ بھی ہوتا ہے کہ زاہد کبھی بھی دنیا پر اعتماد نہیں کرتا ۔انسان جب دنیا سے محبت کرنے لگتا ہے اور اس کا نفس دنیا میں الجھ جاتا ہے تو وہ دنیا پر بھروسہ کرتا ہے اوردنیا کو ہی اپناٹھکانہ اوردائمی قیام گا ہ مان لیتا ہے لیکن جب انسان کے اندر زہد کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اوروہ اپنے دل سے حب دنیا کونکال دیتا ہے تو پھراسے دنیا پر اعتبار بھی نہیں رہ جاتا اور وہ دنیا کو محض ایک گذرگاہ اور آخرت کے لئے ایک پُل تصور کرتاہے ۔

دنیا کے بارے میں لوگوں کے درمیان دو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں ۔کچھ افراد دنیا کو قیام گاہ مان کر اس سے دل لگالیتے ہیں اور کچھ لوگ دنیا کو گذر گاہ اور آخرت کے لئے ایک پل سمجھ کر اس سے دل نہیں لگاتے ۔دو نوںقسم کے افراد اسی دنیا میں رہتے ہیں اورخدا کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں مگر ان کے درمیان فر ق یہ ہے کہ پہلے گروہ کامنظور نظر خود دنیا ہوتی ہے اور وہ اسی کو سب کچھ مانتے ہیں یہاںتک کہ موت ان سے دنیا کو الگ کردیتی ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے کہ جو دنیا کو سب کچھ سمجھ کر اس سے دل نہیں لگاتا بلکہ اسے گذر گاہ اور پل کی حیثیت سے دیکھتا ہے لہٰذا جب موت آتی ہے تو دنیا کی مفارقت ان پر گراں نہیں گذرتی ہے۔

دنیا میں انسان کی حالت او راس میں اسکے قیام کی مدت کو روایات میں بہترین مثالوں کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے ایک مثال کے بموجب دنیامیں انسان کا قیام ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی سوار راستہ میںسورج کی گرمی سے پریشان ہوکر کسی سایہ داردرخت کے نیچے بیٹھ جاتا ہے اور تھوڑی دیر آرام کے بعد پھر اپنے کام کے لئے چل پڑتا ہے ۔ کیا ایسی صورت میں دنیا کو اپنا ٹھکانہ، دائمی قیام گاہ سمجھنا اور

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۳

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328