حکم اذاں

حکم اذاں0%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: صفحے: 328
مشاہدے: 55334
ڈاؤنلوڈ: 5073

تبصرے:

حکم اذاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 55334 / ڈاؤنلوڈ: 5073
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہ نغمہ فصل گل ولالہ کا نہیں پابند

بہار  ہو کہ خزاں لاالہ الا اللہ

اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکم اذاں  لا الہ الا اللہ

لاکون من الصادقین

حکم اذاں

ڈاکٹر محمدتیجانی سماوی

ترجمہ:- مستجاب احمد اانصاری

 ای بک کمپوزنگ :- حافظی

نیٹ ورک :-  شبکۃ الاما مین الحسنین(ع) نیٹ ورک

۱

خطبۃ الکتاب

بسم الله الرحمان الرحیم

الحمد الله رب العالمين - الرحمن الرحيم  مالک يوم الدين - ايا ک نعبد وايا ک نستعين - إهدنا الصراط المستقيم وصلّ علی محمد خاتم النّبيّين - الذی ارسلته رحمة للعالمين  وانزلت عليه کتابا لاريب فيه هدی للمتقين وسلّم على أهل بيته المطهرين الذين جعلت صراط الذين أنعمت عليهم غيرالمغضوب عليهم ولاالضّالّين .

۲

بسمه سبحانه تعالى

گفتار مولف

میری پہلی کتاب "ثمّ اھتدیت" (جس کا اردو ترجمہ تجلی ہے)کو قارئین کرام نے حسن قبول سے نوازا اور اس  پر کئی اہم تبصرے بھی کیے ۔بعض نے ان مسائل کے بارے میں جو اہل سنت  اور اہل تشیع میں اختلافی ہیں مزید وضاحت چاہی تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے ۔ اور جو شخص تحقیق کرنا اور حقیقت سے واقف ہونا چاہے ، اس کے لئے کوئی شک  اور ابہام باقی نہ رہے ۔

اس لئے میں نے ایک اور کتاب اسی طرز پر لکھی ہے تاکہ انصاف پسند تحقیق کا طالب بہ آسانی حقیقت تک اسی طرح رسائی حاصل کرسکے جیسے میں نے تفصیلی بحث ومطالعہ  کے بعد حاصل  کی ہے ۔ برکت کے لئے میں نے اس کتاب کا نام " لاکون مع الصادقین" رکھا  ہے ، جو اس آیت کریمہ  سے ماخوذ ہے :

"يآيّها الّذين آمنوا اتّقواالله وكونوا مع الصّادقين"(1)

ظاہر ہے کہ حضرت رسول ص اور ان کی آل پاک ع سے بڑھ کر اور کون سچا ہوسکتا ہے ۔ مسلمانوں میں سے جو بھی ان سچوں کا ساتھ  دینے  سے انکار کرےگا  وہ خود  کو راہ راست سے دور ہٹا ہوا پائے گا  اور اس طرح یا تو مغضوب علیہم  کے زمرے میں شام  ہوگا یا ضالّین  کے زمرے میں  ۔

مجھے ذاتی طور پر تو اس بات  کا یقین اور اطمینان  ہوگیا ہے ۔ اب میری  کوشش یہ ہے کہ جہاں تک  بن پڑے دوسروں کے لیے بھی یہ بات واضح کردوں مگر میں کسی  پر اپنی رائے  ٹھونسنا نہیں چاہتا بلکہ  دوسروں کی  رائے کا بھی احترام کرتا ہوں ۔

--------------------

(1):- اے ایمان والو! تقوی اپناؤ اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ۔(سورہ توبہ ۔آیت 119)

۳

کچھ لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ میں نے اپنی پہلی کتاب کا نام " ثمّ اھتدیت "کیوں رکھا ؟ ان کاکہنا ہے کہ یہ اہل سنت کو اشتعال دلانا ہے ،کیونکہ اگر انھوں نے ہدایت نہیں  پائی تو مطلب یہ ہوا کہ وہ ضلالت میں مبتلا ہیں ۔ میں اس کے جواب میں کہوں گا۔پہلی بات  یہ ہے کہ قرآن شریف میں ضلالت کا لفظ بھول چوک کے معنی  میں آیا ہے ۔ ارشاد ہے :

"قال علمها عندربّي في كتابٍ لايضلّ ربّي ولاينسى"(1)

ایک اورجگہ آیا ہے:"ان تضلّ إحداهما فتذكّرإحداهما الاُخرى" (2)

اسی طرح قرآن کریم  میں ضلالت کا لفظ بحث وتفتیش کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ اپنے پیارے رسول  ص کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا  :"ووجدك ضآلّا فهدى" (3) جیسا کہ  معلوم ہے ، بعثت سے قبل مکّے  میں رسول اللہ  ص  کا طریقہ یہ تھا کہ آپ اپنے اہل وعیال کو  چھوڑ کر کئی کئی راتیں حقیقت کی تلاش میں غار حرا میں بسر کیا کرتے تھے ۔ انھی معنوں میں آپ کا یہ قول بھی :"الحكمة ضآلّة المومن أينما وجدها أخذها" (4)

پس کتاب کا نام ان ہی معنوں  پر محمول کیاجائے ۔ ثمّ اھتدیت  یعنی میں نے حقیقت کی تلاش کی اور اللہ نے مجھے اس تک پہنچادیا ۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب ہم اللہ سبحانہ کا یہ قول پڑھتے  ہیں کہ

--------------------

(1):- اس کا علم میرے پروردگار  کے پاس کتاب میں ہے ۔ میرے پروردگار  سے کبھی بھول چوک نہیں ہوتی ۔ (سورہ طہ ۔آیت 52)

(2):- اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے ۔(سورہ بقرہ ۔آیت 282)

(3):- آپ کو حققیت کی تلاش میں پایا تو آپ کو اس تک پہنچادیا ۔(سورہ ضحی)

(4):- حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے ،  جہاں ملتی ہے لے لیتا ہے ۔

۴

"وإنّي لغفّارلّمن تاب وآمن وعمل صالحا ثمّ اهتدى"(1) تو ہمیں ہدایت نہ پانے والے  کی گمراہی کا مطلق احساس نہیں ہونے پاتا ۔ کیونکہ جس نے تو بہ کی ، ایمان لایا  اور نیک عمل  کیے اسے  ضالّ  یا گمراہ نہیں کہا جاسکتا  ۔یہ الگ  بات ہے کہ اسے ولایت  اہل بیت کی طرف ہدایت نصیب نہ ہوئی ہو ۔

تیسری بات اورآخری  بات یہ ہے  کہ بالفرض جسے ولایت  اہل بیت  کے قبول  کرنے کی ہدایت  نہیں ملی  وہ ضال ہے اس معنی میں کہ ضلالت  ہدایت کی ضد  ہے تویوں ہی سہی ۔ یہ تو وہ حقیت  ہے جس سے اکثر لوگ بھاگتے  ہیں ، خوشدلی سے اس کا سامنا کرنا نہیں چاہتے  اور حق  کو خواہ کڑوا ہی کیوں نہ ہو برداشت  کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ورنہ اس حدیث رسول  کے کیا معنی ہیں  کہ :"تركت فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي اهلبيتي ما ان تمسكتم بهما لن تضلّوابعدي ابدا" (2) جو ان دونوں میں سے ایک  کے ساتھ تمسک نہیں کرےگا  اس کے ضال ہونے کےبارے میں یہ حدیث واضح اور صریح ہے ۔

بہر حال  مجھے تو یقین اور اطمینان ہے کہ بھٹکا ہوا تھا اور اللہ کے فضل  سے مجھے کتاب خدا اور عترت رسول  ص  سے تمسک کی ہدایت   نصیب ہوئی ۔فالحمد لله الّذي هدانا لهذا .

میری پہلی کتاب کی طرح اس کتاب کا نام بھی قرآن کریم سے ماخوذ ہے ،جو سب سے سچّا  اور سب سے اچھا کلام ہے ۔ میں نے اس کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اگر وہ مکمل طور پر حق نہیں بھی ہے ، جب بھی وہ حق سے اس قدر نزدیک ہے جتنا امکانی طور پر ہوسکتا ہے ، کیونکہ اس میں ان ہی باتوں کا تذکرہ ہے جن پر شیعہ اورسنی دونوں کا اتفاق ہے اور جو دونوں  کے نزدیک ثابت اور صحیح ہیں ۔

--------------------

(1):- میں یقینا اس کو بخش دوں گا  جس نے توبہ کی ،ایمان اور نیک عمل کیے اور پھر ہدایت پاگیا ۔(سورہ طہ ۔آیت 82)

(2):- میں تم میں دوگراں قد رچیزیں چھوڑ رہا ہوں : ایک اللہ کی کتاب  اور دوسری میری عترت میرے اہلبیت  ۔جب تک تم ان دونوں کا دامن تھامے رہوگے  کبھی گمراہ نہیں ہونگے ۔

۵

میں حریم اقدس الہی  میں دعا کرتا ہوں  کہ وہ ہم مسلمانوں  کو خیرالامم  بننے کی توفیق عطا فرمائیے تاکہ ہم مہدی  ع برحق  کی قیادت  میں قافلہ انسانیت کی نوروھدایت کی طرف رہنمائی  کرسکیں ، وہی مہدی ع جن کے ظہور  وانقلاب کی خبر دیتے ہوئے ان کے نانا رسول اللہ  نے بتایا  ہے کہ وہ ظلم  وجور سے سسکتی بلکتی  اس دنیا کو ایسا عادلانہ نظام  قائم کریں گے کہ ہر طرف انصاف کا دور دورہ ہوگا  اور شیر اور بکری ایک گھاٹ میں پانی پئیں گے ۔

صراط علی حق  نمسكه

۶

اسلوب تالیف

بسم الله الرّحمن الرّحيم

والصلاة والسلام على أشرف المرسلين سيدنا ومولانا محمد وآله الطّاهرين.

دین ومذہب  کی بنیاد عقائد پر ہوتی ہے جو ان افکار وتصورات کے مجموعے کا نام ہے جس پر اس دین کے ماننے والے  ایمان لاتے ہیں  اور یقین رکھتے ہیں ۔ بعض عقائد کو بغیر کسی علمی اور عقلی دلیل کے تسلیم کرلیا جاتا ہے ، کیونکہ علم اور عقل دونوں  محدود ہیں   جب کہ  اللہ تعالی  کی ذات زمان ومکان ہر لحاظ سے  لامحدود ہے اس کا احاطہ نہ علم  کرسکتا ہے اور نہ عقل ۔اس لئے ہر دین کے پیروکار وں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ کچھ ایسے امور پر بھی ایمان لائیں  اور ان کی تصدیق کریں جو علم اور عقل کے معیار پر بظاہر پورے نہیں اترتے ۔ مثلا آگ کا ٹھنڈک اور سلامتی کا موجب بن جانا  جبکہ علم اورعقل کا اس پر اتفاق ہے کہ آگ گرم اور مہلک ہے ۔ یا کسی پرندے کے ٹکڑے کرکے ان ٹکڑوں کو پہاڑوں پر بکھیر دینا اور پھر بلانے پر ان پرندوں کا دوڑتے ہوئے آنا جبکہ علم وعقل کے نزدیک یہ سب ناممکن ہے ۔ یا اندھے ، جذامی اور پیدائشی نابینا کا حضرت عیسی ع کے ہاتھ پھیر دینے سے اچھا ہوجانا  بلکہ مردے کا بھی زندہ ہوجانا ، جبکہ علم اور عقل نے جو ترقی  کی ہے اس سے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ مردہ آنکھ کو زندہ آنکھ سے اور مردہ دل کو زندہ دل سے بدل دیا جائے ، یعنی مردہ عضو کی جگہ زندہ عضو لگا دیا جائے ۔ جیسا کہ معلوم ہے ان دونوں باتوں زمین آسمان کا فرق ہے ۔کیونکہ یہ مردے کو زندہ سے بدلنا ہے اور وہ مردے  کو زندہ  کرنا ۔ بہ الفاظ        دیگر ۔ ایک عمل اصلاح اور درستگی ہے اور دوسرا تخلیق ۔ اسی لئے

۷

اللہ تعالی نے تحدّی کے ساتھ کہا :

"اے لوگو! تمھارے لیے ایک مثال بیان کی جاتی ہے ، اسے غورسے سنو! جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا  پکارتے  ہو وہ سب مل کر بھی ایک مکھی تک تو پیدا کرنہیں سکتے "(1)

میں نے قصدا وہی مثالیں بیان کی ہیں جو عقل اور علم سے ماوراء ہیں اور جن پر مسلمانوں ، یہودیوں اور عیسائیوں سب کا ایمان  اور اتفاق ہے ۔اللہ تعالی نے اپنے نبیوں  اور رسولوں  کے ہاتھ سے معجزات اس لیے ظاہر کیے تاکہ لوگوں  کو یہ سمجھایا جائے کہ ان کی عقلیں ہر چیز کا ادراک  اور احاطہ کرنے سے قاصر ہیں ، کیونکہ اللہ سبحانہ نے ان کو علم کا صرف تھوڑا ساحصہ عطا کیا ہے اور شاید اسی میں ان کی بھلائی مضمر تھی اور ان کے جزوی کمال کے مناسب یہی صورت تھی کیونکہ بہت سوں نے خدا ئے منعم کی نعمتوں کا انکار کیا ہے اور بہتوں نے تو خود اس کے وجود ہی کا انکار کردیا ہے اوربہت سے اپنے غیر معمولی علم اور عقل  کی بنا پر اتنے بڑے سمجھے گئے کہ لوگ اللہ  کوچھوڑ کر انھی کی پرستش کرنے لگے ۔یہ توجب ہوا جب انسان کا علم بھی کم تھا اور اس کی عقل  بھی ناقص تھی ۔ اگر اللہ  تعالی انسان کو ہرچیز کا علم عطا کردیتا  پھر تو نہ جانے کیا ہوتا ۔

اس لئے میں نے اس کتاب میں اسلامی عقائد میں سے فی الجملہ انہی عقائد کو بیان کیا ہے جو قرآن وحدیث  میں آئے  ہیں اور جن کے بارے میں مختلف اسلامی فرقوں میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ان ہی کے زیر اثر علم کلام  وجود میں آیا اور وہ فلسفی مکاتب  فکر نمودار ہوئے جنھوں نے عربی ادبیات  کو ایسی میراث کی شکل عطا کردی جس کی نظیر دوسرے ادیان میں شاید ناپید ہے ۔یہ کارنامہ تنہا عربوں کا نہیں بلکہ اس کا سہرا ان تمام مسلمانوں کے سرہے جنھوں نے اپنی زندگی بحث ،کھوج اور اسلامی عقائد کے دفاع میں صرف کردی ۔

--------------------

(1):يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَاباً وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ (سورہ حج ۔آیت 73)

۸

شاید اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا  اگر میں یہ کہوں کہ بیشتر اسلامی عقائد علم اور عقل دونوں کے لئے قابل قبول  ہیں ۔ میری اس بات میں اور جو کچھ میں نے اوپر کہا ہے ،کوئی تضاد نہیں ہے ۔ کیونکہ ان تمام امور میں ۔ جن کا ادراک  علم اور عقل کے اپنے معیار سے نہیں  کیا جاسکتا ۔ مسلمانوں کا علم اور اس کی عقل نصوص قرآنی اور احادیث نبوی کے تابع ہیں ۔

اسی بنیاد پر میں نے اپنی کتاب میں سب سے پہلے ان عقائد سے بحث کی ہے جن کا ذکر قرآن وحدیث میں ہے اور اس کے بعد ان عقائد کو لیا ہے جن کی بابت فریقین میں اختلاف ہے اور ان کی وجہ سے بغیر کسی جواز کے ایک نے دوسرے  پر اعتراض کیا ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنی مرضیات پر عمل کی توفیق دے ، اور مسلمانوں میں اتحاد واتفاق پیدا کرے ۔

وهو ةعلى جمعهم اذايشاءقدير

ولاية على ابن ابي طالب حصني فمن دخل حصني أمن من عذابي

۹

قرآن ۔اہل سنّت اور اہل تشیّع کی نظر میں

قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے جو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر نازل  ہوا ہے ۔ باطل کبھی اس کے منہ نہیں آسکتا ،نہ سامنے سے نہ پیچھے سے ۔احکام ،عبادات اور عقا"ئد کے بارے میں قرآن مسلمانوں  کے لیے مرجع اعلی  ہے ، جو اس میں شک کرے یا اس کی توہین کرے اسلام پر پھر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ۔ قرآن کے تقد س ، احترام اور بغیر طہارت کے اس کو چھونے کی ممانعت پر سب مسلمانوں  کا انفاق ہے ۔

لیکن اس کی تفسیر  اور تاویل  کےبارے میں مسلمانوں میں اختلاف ہے : شیعوں کے نزدیک  قرآن کی تفسیر اور تاویل کا حق صرف ائمہ اہل بیت  کو ہے ۔جبکہ اہل سنت اس سلسلہ میں یا تو صحابہ  پر اعتماد کرتے ہیں یا ائمہ اربعہ  میں سے کسی ایک پر ۔

قدرتی طور پر اس صورت حال کی وجہ  سے احکام اور بالخصوص فقہی احکام میں اختلاف پیدا ہوا ۔کیونکہ خود اہلسنت  کے چاروں مذاہب میں آپسم میں کافی اختلاف ہے ، تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں  کہ شیعوں اور سنیوں میں اور بھی زیادہ اختلاف ہو ۔

میں نے کتاب کے  شروع میں کہا ہے  کہ اختصار کے پیش نظر میں شاید چند ہی مثالیں دے سکوں  ۔اس لئے جو کوئی  مزید تحقیق کا خواہشمند ہے ، اس کے لئے ضروری ہے وہ سمندر کہ تہ میں غوطہ زن ہو تاکہ حسب توفیق کچھ جواہر پارے اس ہاتھ آسکیں ۔

اہل سنّت اور اہل تشیّع  کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن  کے سب احکام بتلادیئے ہیں اور اس کی تمام آیات کی تفسیر بیان کردی ہے ،لیکن اس بات میں اختلاف  ہے کہ آپ کی وفات کے بعد قرآن کی تفسیر

۱۰

اور تاویل  کے لئے کس سے رجوع یا جائے ؟

اہل سنّت  کہتے ہیں کہ سب صحابہ قرآن کی تفسیر کے بدرجہ اولی اہل ہیں اور ان کے بعد تمام علماء امت اسلامیہ  ۔جہاں تک تاویل کا تعلق ہے تو اہل سنّت کی اکثریت  کا کہنا یہ کہ"وما يعلم تاويله الّا الله"

بخز اللہ کے کسی کو اس کی تاویل  کا علم نہیں ۔ اس موقع پر مجھے وہ گفتگو یادآگئی  جو ایک دفعہ میرے اور تیونس کے مشہور عالم زغوانی کے مابین ہوئی تھیں ۔میں نے  ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تھا جو حضرت موسی کے ملک الموت کو تھپڑ مارکر ان کی  آنکھ نکال دینے کے بارےمیں  بخاری اور مسلم میں آئی  ہے(1)

شیخ زغوانی بخاری پڑھانے اور اس کی شرح کے ماہر سمجھے جاتے تھے انھوں نے فورا جواب دیا : جی ہاں ! یہ حدیث بخاری میں موجود ہے  اور یہ حدیث صحیح ہے ۔ بخاری میں جو بھی حدیث ہے اس کی صحت کے بارے میں شک نہیں کیا جاسکتا ۔

میں نے کہا :- میں سمجھا نہیں ، کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس کی تشریح فرمادیں !؟

وہ:-صحیح بخاری  کتاب  اللہ کی طرح ہے ، جو سمجھ سکتے ہو اسے سمجھ لو ، جو نہیں سمجھ سکتے اسے چھوڑ دو اور اس کا معاملہ خدا کے سپرد کردو ۔

میں :- صحیح  بخاری کس طرح قرآن  کی طرح ہے ؟ ہم سے تو قرآن  کو بھی سمجھنے کے لئے کہا گیا ہے ؟

وہ :هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ (2)

-------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 2 ص 163 باب وفات موسی اور مسلم جلد 2 ص 300 باب فضائل موسی ۔

(2):- وہ وہی اللہ ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری ۔ اس میں  کچھ محکم  آیتیں ہیں جن پر اصل کتاب۔۔۔۔

۱۱

میں بھی شیخ زغوانی کے ساتھ ساتھ تلاوت کررہا تھا ، میں نےالّا الله   کےبعد پڑھاوالرّاسخون فی العلم تو انھوں نے چیخ کر کہا ۔

وہ :- ٹھہرو! اللہ کےبعد وقف لازم ہے ۔

میں :- حضرت! واو عاطفہ ہے ،الراسخون فی العلم کا عطف اللہ پر ہے ۔

وہ:- یہ نیا جملہ ہے :والرّاسخون فی العلم يقولون آمنّا  به کلّ من عند ربّنا (1) گو وہ اس کی تاویل سےناواقف ہوں ۔

میں :- حضرت! آپ توبڑے عالم ہیں ، آپ کیسے اس مطلب کو تسلیم کرتے ہیں ؟

وہ:- اس لیے کہ صحیح تفسیر یہی ہے ۔

میں :- یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ سبحانہ ،نے ایسا کلام نازل کیا ہو جس کا مطلب صرف وہی جانتا ہے ۔آخر اس میں کیاحکمت  ہے ؟ ہمیں تو قرآن پر غور کرنے اور اس کو سمجھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ بلکہ قرآن نے تو لوگوں کو للکارا ہے کہ اگر ہوسکے تو اس جیسی کوئی آیت  یا کوئی ایک سورت بناکر لے آؤ ۔ اگر اللہ کے سوا کوئی قرآن کو سمجھتا ہی نہیں تو پھر اس چلینچ  کا کیا مطلب ہے ؟اس پر شیخ زغوانی ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے جو مجھے ان کے پاس لیکر گئے تھے اور کہنے لگے :" تم میرے پاس ایسے آدمی کولے کر آئے ہوجو مجھے صرف لاجواب کرنا چاہتا ہے ،وہ کوئی سوال پوچھنا نہیں چاہتا "  پھر انھوں نے ہمیں یہ کہتے ہوئے رخصت کردیا ک:" میں بیمار ہوں ، تم میری بیماری بڑھانے کی کوشش نہ کرو"۔ جب ہم ان

--------------------

کا مدار اور کچھ متشابہ آیتیں ہیں ۔ اب جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ اس کے اسی حصے کے پیچھے ہولیتے ہیں جو متشابہ ہے ۔ ان کا مقصد شورش پھیلانا اور متشابہ آیات کا غلط مطلب نکالنا ہے حالانکہ ان آیات کا صحیح مطلب کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے اور۔۔"(سورہ آل عمران ۔آیت 7)

(1):-اور راسخون فی العلم کہتے : "ہم تو اس پر ایمان لے آئے ۔یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے "

۱۲

کے پاس سے نکلے تومیرے ساتھیوں میں سے ایک تو مجھ سے سخت خفا تھا ،باقی چار میرے طرفدار تھے اور کہہ رہے تھے کہ معلوم ہوگیا کہ بقول شخصی "شیخ بالکل کورے ہیں " اب میں پھر اصل موضوع پر آتا ہوں ۔ قرآن کی تاویل نہ کرنے پر سب اہل سنت کا اتفاق ہے ۔کیونکہ ان کے نزدیک قرآن کی تاویل کا علم صرف اللہ کو ہے ۔لیکن شیعہ  کہتے ہیں  کہ ائمہ اہلبیت ع قرآن کی تفسیر اور تاویل دونوں کے اہل ہیں  اور راسخون فی العلم سے وہی مراد  ہیں اور وہی وہ اہل ذکر ہیں جن سے رجوع کرنے کا اللہ نے ہمیں اس آیت میں حکم دیا ہے :" فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ " (1) اور یہی   وہ ہیں  جن کو اللہ نے منتخب قراردیا ہے اور اپنی کتاب کے علم کا وارث بنایا ہے ۔ارشاد ہے :" ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا " (2)

اسی مقصد کے لئے رسول اللہ نے انھیں قرآن  کا ہمدوش اور ثقلین میں سے ایک قراردیا ہے اور ان سے تمسک کرنےکا سب مسلمانوں ک وحکم دیا ہے ۔ آپ نے فرمایا :

"تركت فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي اهلبيتي ما ان تمسكتم بهما لن تضلّوابعدي ابدا" (3)

میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں ایک تواللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت ،میرے اہل بیت  جب تک تم ان کا دامن تھامے رہوگے ، میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے ۔

مسلم کے الفاظ ہیں :" کتاب اللہ اور میرے اہلبیت ۔ میں  تمھیں اپنے اہلبیت

--------------------

(1):-اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو (سورہ نحل ۔آیت 43 )تفسیر طبری جلد 14 صفحہ 109 ،تفسیر ابن کثیر جلد 2۔

(2):- پھر ہم نے وارث  بنایا کتاب کا ان کو جنھیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا ۔(سورہ فاطر آیت 32)

(3)جامع ترمذی جلد 5 صفحہ 329 ۔حدیث 3874 مطبوعہ دارالفکر بیروت۔

۱۳

کے بارے میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں ۔"آپ نے یہ الفاظ تین بار فرمائے(1) "

سچی بات یہ ہے کہ میرا رجحان شیعہ قول کی طرف ہے کیونکہ وہ زیادہ سمجھ میں آنے والا ہے ۔ قرآن کا ظاہر  بھی ہے اور باطن  بھی ، اس کی تفسیر بھی ہے اور تاویل بھی ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ صرف اہل بیت ع ہی کو اس کے سب علوم سے واقف ہونا چاہیۓ کیونکہ یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے کہ اللہ سبحانہ ، سب لوگوں  کو قرآن  کی سمجھ عطاکردے ۔اللہ تعالی  نے خود فرمایا ہے : وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ ۔علمائے اسلام  تک میں قرآن  کی تفسیر میں اختلاف ہے ، مگر جیسا کہ خود  اللہ نے گواہی  دی ہے راسخون فی العلم  قرآن کی تاویل سے واقف  ہیں ۔اس لئے ان کے مابین  قرآن کی تفسیر میں اختلاف نہیں ہوسکتا ۔

یہ بھی بالبداہت  معلوم ہے کہ اہل بیت سب سے زیادہ  عالم ، سب سے زیادہ پرہیزگار ،سب سے زیادہ متقی اور سب سے افضل تھے ۔ فرزدق نے ان کے بارے میں کہا ہے _

وإن عدّأهل التّقى كانواأئمّتهم

وإن قيل من خيرأهل الأرض قيل هم

اگر اہل تقوی کو گنوایا جائے تو یہ ان سب کے امام ہیں ۔ اوراگر پوچھا جائے کہ دنیا میں بہترین لوگ کون ہیں تو کہا جائے گا کہ یہی تو ہیں ۔

میں اس سلسلے میں صرف ایک مثال پر اکتفا کروں گا جس سے ظاہر ہوجائیگا  کہ شیعہ وہی  کچھ کہتے ہیں جو قرآن کہتا ہے اور جس کی  تائید سنت نبوی سے ہوتی ہے ۔ آئیے یہ آیت پڑھیں ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:" فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ  وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ   فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ

--------------------

(1):- صحیح مسلم جلد  2صفحہ 362 باب فضائل علی بن ابی طالب ع

۱۴

لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ….. "

میں قسم کھاتا ہوں ستاروں  کی جگہ کی ، اور اگر تم سمجھو تم یہ ایک بڑی قسم ہے ۔واقعی  یہ ایک  قابل احترام  قرآن  ہے ،ایک  خفیہ کتاب میں ، جسے  کوئی مس نہیں کرسکتا سوائے ان کے جو پاک کیے گئے ہیں ۔(سورہ واقعہ ۔آیات 75-79)

ان آیات سے بغیر کسی ابہام کے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ اہل بیت  ع ہی ہیں جو قرآن کے چھپے ہوئے  معنی سمجھ سکتےہیں ۔

اگر ہم غور سے دیکھیں تویہ قسم جو ربّ العزت نے کھائی  ہے واقعی ایک بڑی قسم ہے بشرطیکہ  ہم سمجھیں ، کیونکہ  اللہ نے (دوسری سورتوں میں ) قسم کھائی ہے ،عصر کی ، قلم کی ، انجیر کی، زیتون کی ،ان کے مقابلے میں مواقع النجوم  یعنی ستاروں  کی جگھوں کی یا ستاروں  کی منازل کی قسم ، ایک بڑی قسم  ہے کیونکہ  ستاروں  کی منازل اللہ کے حکم سے پر اسرار طور پر کائنات پر اثر انداز  ہوتی ہیں ۔  یہ بھی  یاد رکھنا  چاہیے  کہ جب اللہ   قسم کھاتا ہے تویہ قسم کسی بات  کی  ممانعت کے لئے نہیں ہوتی  بلکہ کسی بات کی نفی یا اثبات کے لئے ہوتی ہے ۔

قسم کے بعد  اللہ سبحانہ زور دے کر کہتا  ہے کہ واقعی یہ قابل احترام قرآن ، ایک کتاب مکنون میں ہے اور مکنون  خفیہ یا چھپے ہوئے کو کہتے ہیں ۔ اس کے بعد ہے  "لا یمسّہ الا المطہرون" اس میں لا نفی  کے لیے ہوسکتا ہے  کیونکہ قسم کے بعد آیا ہے ۔ یمسّہ  کے معنی  یہاں درک کرنے اور سمجھنے کے ہیں ، ہاتھ سے چھونے کے نہیں  جیسا  کہ بعض کا  خیال  ہے ۔ دراصل مسّ او ر لمس دولفظ ہیں اور دونوں کے معنی میں فرق ہے ۔ ارشاد خداوندی  ہے :-" إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُواْ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ " (1)

--------------------

(1):- جو لوگ متقی  ہیں جب انھیں کوئی شیطانی خیال ستاتا  ہے تو اللہ کو یاد کرتے ہیں جس سے انھیں یکایک سجھائی دینے لگتا ہے ۔ (سورہ اعراف ۔آیت 201)

۱۵

دوسری جگہ ارشاد  ہے :" الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ " (1)

ان آیات میں مسّ کا تعلق دل ودماغ سے ہے ہاتھ سے چھونے سے نہیں ۔ہم پوچھتے ہیں  یہ کیسی بات ہے  کہ اللہ سبحانہ ،تو قسم  کھا کر کہتا ہے کہ قرآن کو کوئی چھو نہیں سکتا بجز اس کے جو پاک کئے گئے ۔ جبکہ  تاریخ  ہمیں بتاتی  ہے کہ بنی امیہ کے حکمران  افلاس  ایمانی  کے سبب توہین قرآن  کے مرتکب ہوتے رہے ہیں اور ولید بن مروان نے تویہاں تک کہاتھا کہ

" تم ہر جابر سرکش کو عذاب سےڈراتا ہے اور میں بھی جابر اور سرکش ہوں، جامحشر میں اپنے رب سے کہہ دینا کہ ولید نے مجھے پھاڑدیا تھا ۔"

ہم نے خود دیکھا  ہے کہ جب اسرائیلوں نے بیروت پر قبضہ کیا تو انھوں نے قرآن پاک کو اپنے پیروں تلے روندا اور جلایا ۔ اس کے دل ہلادینے والی تصویر یں ٹیلویژن پر دکھائی گئی تھیں ۔(2)

اس لئے یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالی قسم کھائے اور پھر قسم توڑے ۔البتہ اللہ سبحانہ ،نے اس کی نفی  کی ہے کہ قرآن  مکنون  کے معانی  کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ، بجز اس کے ان منتخب بندوں کے جنھیں  ان سے چن لیا ہے خوب پاک کیا ہے ۔ اس آیت میں مطہرون اسم مفعول کا صیغہ  ہے جس کا معنی ہیں :"وہ جو پاک کیے گئے " سورہ احزب میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

"إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ

--------------------

(1):- جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ(قیامت میں )ایسے اٹھیں گے جیسے وہ اٹھتا ہے جو شیطان کے اثر سے خبطی ہوگیا ہو ۔ (سورہ بقرہ۔ آیت 275)

(2):- پاکستان جیسے اسلامی ملک میں بھی مذہبی وسیاسی جھگڑوں میں قرآن جلائے جاتے ہیں اور مسجدوں  کی بے حرمتی کی جاتی ہے جو باعث شرم اور قابل مذمت ہے (ناشر)

۱۶

وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً "

اللہ تو بس یہی چاہتا ہے  کہ اے اہلبیت تم سے رجس(1) کو دور رکھے اور تمھیں خوب پاک کردے ۔(سورہ احزاب ۔آیت 32)

سوا س آیت میں "لا یمسہ الا مطہرون" کے معنی ہیں کہ "قرآن کی حقیقت کو کوئی نہیں سمجھتا  سوائے اہل بیت  کے " اسی لئے رسول اللہ ص نے ان کے بارے میں کہا ہے :

"النّجوم أمان لأهل الأرض من الغرق وأهل بيتي أمان لاُمتي من إختلافٍ فاذاخالفها قبيلةٌ مّن العرب اختلفوا فصاروا حزب الإبليس."ستارے زمین والوں  کوڈوبنے سے بچاتے ہیں اور میرے اہلبیت ع میری امت کو اختلاف سے بچاتے ہیں ۔ جب عرب کا کوئی قبیلہ میرے اہلبیت ع  کی مخالفت کرتا ہے تو اس قبیلے میں پھوٹ پڑجاتی ہے اور وہ ابلیس کی جماعت بن جاتا ہے ۔ (2)

اس لیے شیعوں کا یہ کہنا  کہ قرآن اہلبیت ع ہی سمجھتے  ہیں ایسی بات نہیں جیسا کہ اہل سنت دعوی کرتے ہیں کہ شیعہ تو جھوٹ بولتے ہیں  اور اہلبیت ع کی محبت میں غلو کرتے ہین کیونکہ شیعوں کی تائید میں دلائل صحاح ستہ  میں موجود  ہیں ۔

سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں

سنت میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ہر قول ،فعل اور تقریر شامل ہے ۔ یہ مسلمانوں کے نزدیک اعتقادات ،عبادات اور احکامات کا دوسرا بڑا ماخذ ہے

------------------

(1):- برائی اور بری چیز کو رجس کہتے ہیں ۔رجس کی مختلف اقسام ہیں :- کوئی چیز طبیعی طور پر بری ہوتی ہے مثلا مردار ۔۔یا عقلی طورپر مثلا جوا ۔۔اور یا شرعی طور پر ہی ہوتی ہے مثلا شرک ۔(ناشر)

(2):- یہ حدیث حاکم نے ابن عباس کے حوالے سے مستدرک علی الصحیحین جلد 3 میں بیان کی ہے اور کہا  ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں مگر بخاری اور مسلم نے یہ حدیث روایت نہیں کی ۔

۱۷

اہل سنت والجماعت سنت نبوی کے ساتھ خلفائے راشدین یعنی ابوبکر ، عمر ، عثمان اور علی کی سنت کا بھی اضافہ کرتے ہیں کیونکہ ان کے یہاں ایک حدیث ہے کہ

"عليكم بسنّتي وسنّة الخلفاء الرّاشدين المهديّين من بعدي عضّواعليها بالنواجذ.(1)

اس کی ایک بہت واضح مثال  نماز تراویح ہے جس سے رسول اللہ نے منع کردیا تھا(2) ،مگر سنّی  ،سنت عمر کی پیروی  میں یہ نماز پڑھتے ہیں ۔

بعض اہل سنت والجماعت سنّت رسول  کے ساتھ سنت صحابہ(تمام صحابہ بغیر کسی تفریق کے) کا بھی اضافہ  کرتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے یہاں ایک روایت ہے کہ"أصحابي كالنّجوم بأيّهم اقتديتم اهتديتم .(3)

حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے جس سے فرار ممکن نہیں کہ حدیث اصحابی کالنجوم  شیعہ حدیث(4) "الأئمة من أهل بيتي كالنجوم بأيّهم اقتديتم اهتديتم" کے مقابلے  پر وضع کی گئی ہے ۔شیعہ حدیث کی معقولیت  میں تو اس لئے شک نہیں کیونکہ ائمہ اہل بیت ع علم وزہد اور ورع وتقوی  کے اعلی ترین معیار پر فائز تھے ۔ ان کے پیروکاروں  کو تو چھوڑئیے ، اس کی گواہی  تو ان کے دشمن بھی دیتے ہیں اور پوری تاریخ اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہے ۔لیکن حدیث اصحابی کالنجوم ایسی  حدیث ہے جسے عقل سلیم قبول نہیں کرتی، کیونکہ صحابہ میں تو وہ لوگ بھی ہیں جو رسول اللہ کے بعد مرتد ہوگئے تھے (5) نیز

--------------------

(1):- تم میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو دانتوں سے مضبوط پکڑنا ۔(مسند امام احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 126)

(2):- صحیح بخاری جلد 7 باب مایجوز من الغضب والشدۃ لامراللہ ۔

(3):-میرے اصحاب ستاروں کے مانند ہیں جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پاجاؤگے ۔(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ اور مسند امام احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 398)

(4):- قاضی نعمان بن محمد ،دعائم الاسلام جلد 1 صفحہ 86 دارالمعارف ،مصر،

(5):- جیسے اہل ردّہ جن سے حضرت ابو بکر نے جنگ کی تھی ۔

۱۸

یہ کہ اصحاب بہت سے امور میں ایک دوسرے کے خلاف تھے اور ایک دوسرے  میں کیڑے نکالتے تھے(1) ، ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے ،(2) بلکہ ایک دوسرے کے خلاف لڑتے تھے(3) ، حتی کہ بعض صحابہ پر تو شراب نوشی ،زنا اور چوری وغیرہ کے الزام م میں حد جاری کی گئی تھی۔ ان حالات میں کیسے کوئی عاقل اس حدیث  کو قبول کرسکتا ہے جس میں  ایسے  لوگوں  کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور کیسے  کوئی امام علی  ع کے خلاف  جنگ میں معاویہ کی پیروی کرسکتا ہے جبکہ رسول اللہ نے معاویہ کو امام الفئۃ الباغیہ کہا تھا(4) ۔وہ شخص کیسے ہدایت یافتہ ہوسکتا ہے جو عمروبن عاص ،مغیرہ  بن شعبہ اور بسر بن ارطاۃ کی پیروی کرے جنھوں نے اموی اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی ۔کوئی بھی باشعور قاری جب حدیث اصحابی کالنجوم پڑھے گا تو اسے معلوم ہوجائے گا یہ گھڑی ہوئی حدیث ہے ۔ کیونکہ  اس حدیث  کے مخاطب صحابہ ہیں ۔ اور رسول اللہ یہ کیسے کہہ سکتے  تھے کہ " اے میرے اصحاب ! میرے اصحاب کا اتباع کرنا ۔لیکن دوسری حدیث کے " اے میرے اصحاب ! ان ائمہ کا اتباع کرنا جو میرے اہل بیت ع میں سے  ہیں کیونکہ  میرے بعد وہ تمھاری رہنمائی کریں گے " بالکل حق ہے ۔اس میں کسی شک  شبہ کی گنجائش نہیں کیونکہ  اس کے متعدد شواہد  سنت رسول ص میں پائے جاتے ہیں ۔شیعہ کہتے ہیں کہ حدیث""عليكم بسنّتي وسنّة الخلفاء الرّاشدين المهديّين من بعدي عضّواعليها بالنواجذ

سے مراد ائمہ اثنا عشر ہیں ۔ ان ہی سے تمسک  اور انہی کا اتباع ، کلام اللہ سے تمسک اور کلام اللہ کے اتباع  کی طرح ہے(5)

---------------------

(1):- جیسے اکثر صحابہ حضرت عثمان پر طعن کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ عثمان کو قتل کردیا گیا ۔

(2):- جیسے معاویہ نے امام علی  ع پر لعنت کرنے کا حکم دیا تھا ۔

(3):- جیسے جنگ جمل ، جنگ صفین اور جنگ نہروان وغیرہ ۔

(4):- حدیث کہ " عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا "

(5) صحیح ترمذی جلد 5 صفحہ 328 ۔صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 362 ۔خصائص امیرالمومنین ،امام نسائی ،کنز العمال جلد 1 صفحہ 44۔ مسند امام احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 189 ۔مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 148 ۔صواعق محرقہ صفحہ 148۔ طبقات ابن سعد جلد 2 صفحہ 194 ۔الطبرانی جلد 1 صفحہ 131

۱۹

میں نے عہد کررکھا ہے کہ جن روایات سے شیعہ استدلال کرتے ہیں میں ان میں  سے صرف وہی روایات نقل کروں گا جو اہل سنت والجماعت کی صحاح میں پائی جاتی ہیں ، ورنہ شیعوں  کی کتابوں میں تو اس سے کئی گنا زیادہ احادیث موجود ہیں اور ان کی عبارت بھی زیادہ واضح اور صاف ہے (1) ۔

یہ بھی واضح کردوں کہ شیعہ یہ نہیں کہتے  کہ ائمہ اہلبیت ع کو تشریع کا حق حاصل ہے یا ان کی سنت ان کا اپنا اجتہاد ہے بلکہ شیعہ یہ کہتے ہیں کہ ائمہ  کے بیان کیے ہوئے سب احکام یا تو قرآن سے ماخوذ ہیں یا اس سنت سےجس کی تعلیم رسول اللہ نے امام علی ع کو دی تھی  نے اپنی اولاد کو ۔ اس طرح ائمہ کا علم متوارث ہے ۔

اس ضمن میں شیعوں کے پاس بہت سے دلائل ہیں جن کی بنیاد ان روایات پر جو علمائے اہل سنت نے اپنی صحاح ، مسانید اور تاریخوں میں نقل کی ہیں ۔ یہاں ایک سوال باقی رہ جاتا ہے  جو بار بار ذہن میں آتا ہے کہ اہل سنت والجماعت کیوں ان آیات کے مضمون پر عمل نہیں کرتے  جو خود ان کے نزدیک صحیح ہیں ؟؟؟

پھر جس طرح اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان قرآن کی تفسیر میں اختلاف ہے اسی طرح ان کے درمیان احادیث کے معانی میں بھی اختلاف ہے ۔ مثلا خلفائے راشدین  کے الفاظ آئے ہیں اور اس حدیث کو فریقین نے صحیح قرار دیا  ہے ۔ لیکن اہل سنت کہتے ہیں کہ خلفائے  راشدین سے مراد وہ چار خلیفے ہیں جو رسول اللہ ص کے بعد مسند خلافت پر بیٹھے ۔ اور شیعہ کہتے ہیں کہ ان سے مراد بارہ خلفاء ہیں اور وہ ائمہ اہل بیت ع ہیں ۔

یہی اختلاف ان تمام اشخاص کے بارے میں ہے جن کو قرآن  یا رسول ص نے پاک قرار دیا ہے اور مسلمانوں  کو ان کے اتباع کا حکم دیا ہے ۔ اس کی مثال رسول اللہ

--------------------

(1):- میں صرف ایک مثال دوں گا ۔ شیخ صدوق نے اکمال الدین میں بسند امام صادق عن ابیہ عن جدہ  ایک روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

"میرے بعد بارہ امام ہوں گے : پہلے امام علی ع اورآخری امام قائم ہوںگے"

۲۰