حکم اذاں

حکم اذاں23%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 61518 / ڈاؤنلوڈ: 6822
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

تو قارئین  ! یہ ہے سنت رسول ص بلکہ یوں کہیے ، یہ ہیں وہ روایات جو خدا کے رسول ص سے منسوب کی گئی ہیں ۔ کبھی تو ابوہریرہ یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پہلے جو  حدیث سنائی تھی اس کا انھیں کچھ علم نہیں ،ان سے تو یہ بات کسی نے کہی تھی ۔ اور کبھی جب ان کی بیان کردہ احادیث میں تناقض کی نشان دہی کی جاتی ہے تو وہ کچھ  جواب نہیں دیتے بلکہ حبشی زبان میں کچھ بڑابڑادیتے ہیں ۔

معلوم نہیں اہل سنت کیسے انھیں اسلام کا سب سے بڑا راوی حدیث قرار دیتے ہیں ؟

عائشہ اور ابن عمر کا اختلاف

عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں اور ابن عمر ام المومنین عائشہ کے حجرے کے ساتھ پیٹھ لگائے بیٹھے تھے اور ہمیں ان کے مسواک کرنے کی آواز آرہی تھی ، اتنے میں میں نے پوچھا : اے ابو عبدالرحمان ! کیا رسول اللہ ص نے رجب کے مہینے میں بھی عمرہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : ہاں کیا ہے ۔ میں نے عائشہ سے کہا: اماں جاں ! آپ سن رہی ہیں ابو عبدالرحمان کیا کہتے ہیں  ؟ انھوں نے کہا : کیا کہتے ہیں ؟ میں نے کہا : یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ص نے رجب میں عمرہ کیا ہے ۔ انھوں نے کہا : ابو عبدالرحمن کو اللہ معاف کرے۔ آپ نے رجب میں کبھی عمرہ نہیں کیا ۔ اور جب بھی عمرہ کیا یہ تو ہر واقعہ آنحضرت کے ساتھ تھے ۔ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ابن عمر یہ گفتگو سن رہے تھے مگر انھوں نے نہ ام المومنین کی تصدیق کی نہ تردید ،بس چپکے ہورہے ۔(۱)

عائشہ  اور ازواج نبی کا اختلاف

ام المومنین  عائشہ بیان کرتی ہیں کہ سہلہ بت سہیل  ابو حذیفہ کی جو رو جو بنی عامر کی اولاد میں سے تھی  رسول اللہ کے پاس آئی اور بو لی : یارسول اللہ !

---------------------

(۱):- صحیح بخاری جلد ۵ بات عمرۃ القضا۔صحیح مسلم جلد ۲ کتاب الحج ۔

۱۸۱

ہم ابو حذیفہ کے غلام !سالم کو اپنا بچہ سمجھتے تھے او ر یہ کہ جب میں بے لباس ہوتی تھی وہ گھر میں اندر چلاآتا تھا ۔اب کیا کرناچاہیے کیونکہ ہمارے پاس صرف ایک ہی گھر  ہے ۔یہ سن کر رسو ل اللہ ص نے فرمایا : اسے دودھ پلادو ۔ سہلہ نے کہا: میں اسے کیونکر دودھ پلاسکتی ہوں ، اب تووہ جوان ہوگیا ہے اور اس کے داڑھی مونچھ ہے ۔ اس پر رسول اللہ ص مسکرائے اور بولے : اسے دودھ پلاؤ ، اس میں تمھارا کیا جائے گا ، اگر کچھ جائے گا تو ابو حذیفہ کا جائے گا ۔

ام المومنین عائشہ اس حدیث پر عمل کیا کرتی تھیں اورجس آدمی کو چاہتیں کہ ان کے پاس آیا جایا کرے تو اپنی بہن ام کلثوم کو حکم کرتیں اور اپنی بھتیجوں کو بھی کہ اس آدمی کو اپنا دودھ پلادیں لیکن دوسری امہات المومنین  اس کا انکار کرتی تھیں کہ بڑھ پن میں رضاعت کے سبب کوئی ان کا محرم بن کر ان کے پاس آجاسکتا ہے ۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ رسول اللہ ص نے یہ رخصت خاص سہلہ بنت سہیل کودی بخدا !ایسی رضاعت  کے سبب کوئی ہمارا محرم نہیں بن سکتا(۱)۔

تحقیق کرنے والا جب ایسی روایات دیکھتا ہے تو اسے یقین نہیں آتا ،لیکن یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ایسی روایات جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت پر حرف آتا ہے حدیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں ۔ یہ روایات رسول اللہ ص کو ۔ جو خصائل حسنہ کے پیکر تھے اور مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوئے تھے ۔ ایک ایسے شخض کو روپ میں پیش کرتی ہیں جو اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیرتا ہے اور دین اسلام  میں ایسی مضحکہ خیز باتیں داخل کرتا ہے کہ فرزانے تو کیا دیوانے بھی بس ساختہ ہنس پڑیں ۔(غلامی رسول ص میں ،موت بھی قبول  ہے کا نعرہ بلند کرنےوالے )مسلمان کیا ایسی کوئی حدیث قبول کرسکتے ہیں جو خداکے عظیم الشان رسول ص کا اسخفاف کرتی ہو ،عقل کی کسوٹی اور اخلاق  کے معیار پر پوری نہ اترتی ہو ، ایمانی غیرت کے منافی ہو اور شرم وحیا کا جنازہ نکال دے۔

کیا کوئی غیرت مند مسلمان اپنی بیوی کو اس بات کی اجازت دےسکتا ہے

----------------------

(۱):- صحیح مسلم کتاب الرضاع جلد ۴ صفحہ ۱۱۶ ۔ موطاء امام مالک کتاب الرضاع جلد ۲ صفحہ ۱۱۶

۱۸۲

کہ وہ کسی جوان آدمی کو دودھ پلائے تاکہ وہ اس کی ماں بن جائے ؟؟

اے اللہ کے رسول ص! آپ کی ذات والا صفات ایسی بیہودہ باتوں سے بہت بلند ہے اور یہ آپ پر بہتان عظیم ہے ۔ میں کیسے باورکرلوں کہ وہ رسول ص ، جس نے مرد کے لیے نامحرم عورت کو چھونا اور اس سے ہاتھ ملانا حرام قراردیا ہے ، وہ بڑھ پن میں عورت کا دودھ پینا جائز قراردے سکتاہے ۔(العیاذ باللہ)

میں اس حدیث سازی کا مقصد تو نہیں جانتا یہ جانتا ہوں کہ بات اس حدیث کی حدود سے نکل  کرآگے بڑھ گئی اور سنت جاریہ بن گئی ۔ کیونکہ ام المومنین عائشہ اس حدیث پر عمل کرتی تھیں ۔ وہ جس شخص کو چاہتیں کہ ان کے پاس آیا جایا کرے اسے رضاعت کے لیے اپنی بہن ام کلثوم کے پاس بھیجاکرتی تھیں۔

ذوق آگہی رکھنے والوں کی معلومات کےلیے بتاتا چلوں کہ لوگوں کا ام المومنین عائشہ کا محرم بن کر ان کے پاس آنا جانا صرف اسی صورت میں جائز ہوسکتا تھا جب ان کی رضاعت پانچ دفعہ ہوئی ہو کیونکہ ام المومنین ہی کی روایت ہے کہ اللہ نے دس دفعہ رضاعت والی آیت اتاری تھی ، پھریہ پانچ دفعہ رضاعت والی آیت سے منسوخ ہوگئی ۔پس یہ آیت برابر پڑھی جاتی تھی ۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ص کے انتقال کے بعد بھی قرآن میں تھی۔(۱) (لیکن اب قرآن میں موجود نہیں ہے(۲)۔

--------------------

(۱):- صحیح مسلم جلد ۴ صفحہ ۱۶۷ باب التحریم بخمس رضعات۔

(۲):- یہ قرآن جو ہمارے ہاتھوں میں ہے  وہی ہے جو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور اس میں کوئی تحریف  نہیں ہوئی ہے ۔ تیسری صدی کے  شیخ صدوق علیہ الرحمۃ سے لے کر پندرھویں صدی کے آیت اللہ خوئی دام ظلہ العالی تک شیعہ علماء کبھی تحریف قرآن کے قائل نہیں رہے، ان کی کتابیں  اور ان کے فتوے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔لیکن خدا معلوم کیوں کچھ لوگ مقطوع السند اخبار آحاد کے سہارے شیعہ دشمنی کی بھڑاس نکالتے ہیں اور شیعوں پریہ سنگین تہمت لگاتے ہیں کہ ان کا قرآن چالیس پاروں کا ہے وغیرہ وغیرہ ۔اگر کچھ مرسل ،ضعیف یا مقطوع السند  روایتیں شیعہ کتب میں ہین تو اس سے کہیں زیادہ روایات سنی کتب ،احادیث میں بھی ہیں لیکن  یہ کسی طرح بھی قائل اعتبار نہیں مثلا

۱۸۳

<>ام المومنین بی بی عائشہ  آیہ رضاعتعشر رضعات معلومات (شیر خواری کو دس مرتبہ دودھ پلانا معین ہے) کو جزو قرآن بتاتی ہیں اور یہ صحیح مسلم ، سنن ابی داؤد ،سنن نسائی ، سنن دارمی  اور موطاء مالک میں لکھی ہے ۔

<>عمر بن خطاب آیہ رجم(الشيخ والشيخة فارجموهما البتة ) جو  جز و قرآن بتاتے ہیں اور یہ آیت صحیح بخاری ، صحیح مسلم ،جامع ترمذی ،سنن ابی داؤد  ،سنن ابن ماجہ اور موطاء میں لکھی ہے ۔

<>عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ آیت : لاترغبوا عن آبائکم فانّہ کفر بکم"لاترغبواعن آبائكم فإنّه كفرٌ بكم إن ترغبواعن آبائكم" قرآن کا جزو تھی اور ہم اسے پڑھا کرتے تھے ۔یہ آیت صحیح بخاری  ومسند احمد بن  حنبل میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

<>سنن ابن ماجہ میں ہے کہ ام المومنین نےکہا:

 زانی اور زانیہ کو سنگسار کرنے کی آیت (آیہ رجم )نازل ہوئی تھی ۔نیز یہ کہ بڑھ  پن میں دس دفعہ دودھ پلانے کی آیت(ورضاعة الکبير عشرا") نازل ہوئی تھی اور ایک کاغذ پر لکھی ہوئی میرے تخت کے نیچے رکھی تھی ،جب رسول اللہ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور ہم افراتفری کے عالم میں تھے  توبکری اسے کھاگئی ۔

<>اور صحیح مسلم میں ترقیم ہے کہ ابو موسی اشعری نے بصرے میں تین سو قاریان قرآن کو خطاب کرتے ہوئے کہا :

ہم  ایک سورہ پڑھا کرتے تھے جو طویل تھا اور  اورجس کا مضمون سورہ توبہ کی طرح سخت تھا ۔بعد میں ہم وہ سورہ بھول گئے  البتہ  اس کی یہ آیت میرے حافظہ میں باقی ہیں :"لوكان لإبن آدم وأديان من مّالٍ لايبتغى وادياً ثالثاً ولا يملاٌ إبن آدم إلّا التراب"

<>اسی طرح ہم ایک سورہ بھی پڑھا کرتے تھے جو "مسبحات " میں سے ایک مشابہ تھا ۔ ہم ہو سورہ بھول گئے  اور مجھے  اس کی فقط  یہ آیت یاد رہ گئی ہے ۔"يايّها الذين آمنوالم تقولون ما لاتفعلون فكتب شهادة في أعناقكم فتسئلون عنهايوم القيامة."

۱۸۴

۲:- سنت رسول ص کے بارے میں فقہی مذاہب کا اختلاف

سنت رسول ص کے بارے میں ابوبکر اور عمر میں اختلاف تھا(۱) ۔ابو برک کا فاطمہ سے اختلاف تھا ۔(۲) ازواج رسول  ص کا آپس میں اختلاف تھا ۔(۳) ۔ ابو ہریرہ کاعائشہ سے اختلاف تھا ۔(۴) عبداللہ بن عمر اور عائشہ کے مابین اختلاف تھا ۔(۵)

-----------------------

حدیث کی معتبر کتابوں سے یہ چند نمونے ہم نے ان لوگوں کو آئینہ دکھانے کے لیے پیش کیے ہیں جو کہتے  پھرتے ہیں کہ شیعوں کا موجودہ قرآن پر ایمان نہیں ۔ حالانکہ قرآن یہی ہے جو دفتین کے بیچ ہے ، نہ کم  نہ زیادہ ۔ اور سب مسلمانوں  کا سی پر ایمان  ہے ۔جو ہم پر بہتان باندھتا ہے ،ہم اس کا اور اپنا معاملہ  اللہ کی عدالت میں پیش کرتے ہیں کہ وہ احکم الحاکمین ہے ۔

ہم تو بس اتنی سی بات جانتے ہیں کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے ، کیونکہ یہ آخری آسمانی شریعت اور خدا نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے :

"انا نحن نزلنا الذکر وانا لة لحافظون "( ناشر)

(۱):- مانعین زکواۃ سے جنگ کے بارےمیں اختلاف کی طرف اشارہ ہے ۔ ہم نے اس قصہ کے ماخذ بیان کردیے ہیں ۔

(۲):- قصہ فدک اور حدیثنحن معشر الانبياء لانورث کی طرف اشارہ ہے ۔ اس کے ماخذ کا بیان بھی گزرچکا

(۳):-بالغ مرد کو دودھ پلانے کے قصے کی طرف اشارہ ہے کہ جو عائشہ سے مروی ہے ۔لیکن دیگر ازواج رسول ص نے اس کے برخلاف کہا ہے۔

(۴):- ابو ہریرہ کی اس روایت کی طرف اشارہ ہے کہ رسول اللہ ص صبح کو جنب ہوتے تھے اور روزہ رکھ لیتے تھے ۔ عائشہ نے ابو ہریرہ کی  اس بات غلط بتلایا ہے ۔

(۵):- اشارہ ہے اس روایت کی طرف کہ رسول اللہ ص نے چار عمرے کیے جن میں سے ایک رجب میں تھا عائشہ نے اس کی تردید کی ہے۔

۱۸۵

عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن زبیر کے درمیان اختلاف تھا ۔(۱) علی بن ابی طالب ع اور عثمان بن عفان کے درمیان اختلاف تھا(۲) ۔ جب  صحابہ کے درمیان ہی اتنا اختلاف تھا(۳) تو تابعین  کے درمیان  تو اور بھی بڑھ گیا حتی کہ فقہی مذاہب ستر سے بھی زیادہ ہوگئے ۔ابن مسعود صاحب مذہب تھے ، اسی طرح ابن عمر ، ابن عباس  ، ابن زبیر ، ابن عینیہ ، ابن جریج ، حسن بصری ، سفیان ثوری ،مالک بن انس ،ابو حنیفہ ، شافعی ،احمد بن حنبل سب کے سب صاحب مذہب تھے ۔ ان کے علاوہ اور بہت ہیں ۔ لیکن سلطنت عباسیہ نے اہل سنت کے چار مشہور مذاہب کو چھوڑ کر باقی سب کاخاتمہ کردیا ۔

اگر چہ اب فقہی مذاہب چند ہی رہ گئے ہیں ، پھر بھی ان کے درمیان اکثر فقہی مسائل میں اختلاف ہے ۔ اور اس کی وجہ وہی سنت رسول ص کے بارے میں اختلاف ہے ۔ایک مذہب کسی مسئلے میں حکم کی بنیاد کسی حدیث پررکھتا ہے جسے وہ اپنے زعم میں صحیح سمجھتا ہے ، تو دوسرا مذھب اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہے یا کسی دوسرے مسئلے پر نص اور حدیث کی عدم موجودگی کی وجہ سے قیاس کرتا ہے ۔ اسی وجہ سے ، مثلا رضاعت کے مسئلے میں بہت اختلاف ہے ،کیونکہ اس بارےمیں احادیث باہم متضاد ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ ایک مذہب کے مطابق ایک قطرہ دودھ پینے  سے بھی حرمت ثابت ہوجاتی ہے ۔ جبکہ دوسرے مذہب  کی رو سے دس یا پندرہ دفعہ دودھ پلانا ضروری ہے ۔

۳:- سنت رسول ص کے بارے میں شیعہ سنی اختلافات

اس معاملے میں شیعہ سنی اختلاف عموما دووجہ سے ہوتا ہے  ایک تویہ کہ

---------------------

(۱):-اشارہ ہے ان کے درمیان متعہ کے حلال یا حرام ہونے کے بارےمیں اختلاف کی طرف ۔ دیکھیے صحیح بخاری جلد ۶ صفحہ ۱۲۹۔

(۲):- اشارہ ہے ان کے درمیان متعہ حج کے بارےمیں اختلاف کی طرف ۔دیکھیے صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۱۵۳

(۳):- بسم اللہ کےبارے میں ، وضو کے بارےمیں ،مسافر کی نماز کے بارے میں اور ایسے ہی ان گنت دوسرے مسائل

۱۸۶

شیعہ اس حدیث  کو صحیح نہیں مانتے جس کے راوی کی عدالت پائیہ اعتبار سے ساقط ہو خواہ وہ صحابی ہیں کیوں نہ ہو ۔

اہل سنت کے برخلاف  شیعہ اس بات کے قائل نہیں کہ تمام صحابہ ثقہ اور عادل تھے ۔

اس کے علاوہ شیعہ کسی ایسی حدیث کو بھی قبول نہیں کرسکتے جو ائمہ اہل بیت ع کی روایت سےمتصادم ہو ۔ وہ ائمہ اہل بیت ع کی روایت کو دوسروں کی روایت پر ترجیح دیتے ہیں خواہ دوسروں کا مرتبہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو ۔ اس سلسلے میں ان کے پاس ایسے دلائل ہیں جن کی قرآن وسنت سے تائید ہوتی ہے اور جن کو ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ ان میں بعض چیزوں کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں ۔ شیعہ سنی اختلاف  کا ایک اور سبب یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک  حدیث کا مفہوم کچھ ہے اور شیعہ اس کے کچھ اور معنی بیان کرتے ہیں ۔ مثلا وہ حدیث جس کا ہم پہلے تذکرہ کرچکے ہیں یعنی :

اختلاف امّتی رحمۃ

اہل سنت تو اس حدیث کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ فقہی مسائل میں مذاہب اربعہ کا اختلاف مسلمانوں کے لیے رحمت ہے ۔

جبکہ  شیعوں کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے پاس سفر کرکے جانا اور ایک دوسرے سے علم حاصل کرنا رحمت ہے ۔یہ تشریح امام جعفر صادق کی ہے اور ہم اسے پہلے بیان کرچکے ہیں ۔

بعض دفعہ شیعہ سنی اختلاف حدیث رسول ص کے مفہوم میں نہیں ہوتا بلکہ اس بارےمیں ہوتا ہے کہ جس شخص یا اشخاص کا حدیث میں ذکر ہے اس سے کون مراد ہے ۔مثلا قول رسول ص ہے کہ

"عليكم بسنّتي وسنّة الخلفاء الرّاشدين من بعدي"

اہل سنت خلفائے راشدین سے  ابو بکر ، عمر ،عثمان اور علی مراد لیتے ہیں مگر شیعہ بارہ ائمہ مراد لیتے ہیں ۔

اسی طرح رسو ل اللہ کا ایک اور قول ہے :

"الخلفاءمن بعدي اثنى عشركلّّهم من قريشٍ."

۱۸۷

"میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب قریش سے ہوں گے "۔

شیعہ بارہ خلفاء سے بارہ ائمہ اہل بیت ع مراد لیتے ہیں جبکہ اہل سنت والجماعت کے یہاں  اس کی کوئی تشریح ہے ہی نہیں ۔

کبھی شیعہ سنی اختلاف ان تاریخی واقعات کے بارے میں ہوتا جن کا تعلق رسول اللہ کی ذات سے ہے ۔ جیسا کہ آپ کے یوم بارے میں اختلاف ہے ۔ اہل سنت ۱۲ ربیع الاول کو میلاد النبی مناتے ہیں جبکہ شیعہ اس مہینے کی ۱۷ تاریخ کو محافل میلاد منعقد کرتے ہیں ۔

سنت نبوی کے بارے میں ایسا اختلاف  ہونا قدرتی ہے ۔ اس سے بچنا ممکن نہیں ۔ کیونکہ کوئی ایسا مرجع موجود نہیں جس کی طرف سب رجوع کرسکیں اور جس کے حکم کو سب مانیں اور جس کی رائے کو سب قبول کریں اور جس پر سب کو اسی طرح اعتمادہو جیسے رسول اللہ ص کی زندگی میں آپ پر تھا ۔

امت کی زندگی میں ایسے شخص کا وجود ہر وقت ضروری ہے اور عقل بھی یہی کہتی ہے ، اس لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ رسول اللہ ص اس ضرورت کو نظر انداز کردیتے ۔ آپ کو معلوم تھا اور علام الغیوب نے آپ کو اطلاع دے دی تھی کہ آپ کی امت آپ کے بعد قرآن کی  تاویل کرےگی ۔ اس لیے آپ کے لیے ضروری تھا کہ آپ کوئی معلم مقرر کریں کہ اگر امت کے لیے واقعی ایک ایسے عظیم قائد کا انتظام کردیا تھا جس کی تعلیم وتربیت میں آپ نے ابتدا ہی سے پوری کوشش صرف کی تھی اور جب وہ درجہ کمال کو پہنچ گیا اور آپ سے اس نسبت وہ ہوگئی جو حضرت ہارون ع کی جناب موسی ع سے تھی ۔تو آپ نے یہ جلیل القدر کام یہ کہہ کر اس کے سپر دکردیا کہ

"أناأُقاتلهم على تنزيل القرآن وأنت تقاتلهم على تاويله".(۱)

--------------------

(۱):-مناقب خوارزمی صفحہ ۴۴۔ ینابیع المودۃ صفحہ ۳۳۲۔الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد ۱ صفحہ ۲۵ ۔کفایت الطالب صفحہ ۳۳۴ ۔ منتخب کنزالعمال جلد ۵ صفحہ ۳۶ ۔ احقاق الحق جلد ۶ صفحہ ۳۷

۱۸۸

"اے علی ع! میں تنزیل قرآن کی خاطر جنگ لڑتا ہوں ، اب تم تاویل قرآن کے لیے لڑو۔"

آپ نے یہ بھی فرمایا :

"أنت يا عليّ ! تبيّن لأُمّتي ما اختلفوافيه من بعدي"

علی !جس بات میں میری امت میں میرے بعد اختلاف ہو تم اس بات کو واضح کردینا ۔(۱)

قرآن جو اللہ کی کتاب ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی اس کی تفسیر  اور توضیح کے لیے لڑے یعینی جانفشانی کرے کیونکہ یہ ایک خاموش کتاب ہے جو خود نہیں بولتی  مگر ساتھ ہی متعدد معانی کی حامل ہے ۔ اس کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ۔جب قرآن  کی ہ صورت ہے تو سنّت  کی تشریح وتوضیح تو اور بھی ضروری  ہے اور جب قرآن وسنت دونوں تشریح طلب ہوں تو رسول اللہ ص کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ دونوں ثقلین  ایسے چھوڑیں  جو خاموش اور گونگے ہوں اور جن کی حسب منشاء تاویل وہ لوگ کرسکیں  جسن کے دل میں کجی  ہے اور جو فتنہ برپا کرنا اور دنیا کمانا چاہتے  ہیں اور جن کے متعلق معلوم ہے کہ بعدمیں آنے والوں کے لیے گمراہی کا سبب بنیں گے کیونکہ لوگ ان کے ساتھ حسن ظن رکھیں گے ۔ انھیں عادل سمجھیں گے لیکن بعد میں قیامت کے دن پشیمان ہوں گے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

" يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا () وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا () رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْناً كَبِيراً"

جس دن  ان کے چہرے آگ میں الٹائے جائیں گے تو وہ کہیں گے اے کاش !ہم اللہ اور رسول ص کی اطاعت کرتے ۔ اورکہیں گے

-------------------

(۱):-مستدرک حاکم جلد ۴ صفحہ ۱۲۲ ۔تاریخ دمشق جلد ۲ صفحہ ۴۸۸ ۔ مناقب خوارزمی صفحہ ۲۳۶۔ کنوز الحقائق صفحہ ۲۰۳ ۔ منتخب کنزالعمال جلد ۵ صفحہ ۳۳۔ ینابیع المودۃ صفحہ ۱۸۲

۱۸۹

کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا تو انھوں نے ہمیں گمراہ کردیا ۔ اے پروردگار ! ان کو دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر (سورہ احزاب ۔آیات ۶۶ تا ۶۸)

"كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا حَتَّى إِذَا ادَّارَكُواْ فِيهَا جَمِيعاً قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لأُولاَهُمْ رَبَّنَا هَـؤُلاء أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَاباً ضِعْفاً مِّنَ النَّارِ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَـكِن لاَّ تَعْلَمُونَ"

جب ایک کے بعد ایک جماعت (جہنم میں)داخل ہوگی تو  وہ اپنے جیسی دوسری جماعت پر لعنت کرے گی یہاں تک کہ جب ساری جماعتیں جمع ہوجائیں گی تو پچھلی جماعت پہلی کی نسبت کہے گی اے ہمارے پروردگار  یہ تھے  وہ جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا ۔ پس تو ان کو آگ کا دوہرا عذاب دے ۔ اللہ کہے گا تم میں  سےہر جماعت  کے لیے دوہرا عذاب ہے لیکن تم نہیں جانتے ۔(سورہ اعراف ۔آیت ۳۸)

گمراہی کا سبب یہی ہے ۔کوئی امت ایسی نہیں گزری جس کے پاس  اللہ نے نبی ہادی نہ بھیجا ہو ۔ اور اس کی امت نے اس کے بعد اللہ کے کلام میں تحریف  نہ کی ہو ۔ کیا کوئی شخص بشرط صحت اوربقائمی ہوش وحواس یہ تصور کرسکتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام  نے اپنے پیروکاروں سے کہا ہوگا کہ میں خدا ہوں ، ہرگز نہیں ! قرآن شریف میں ہے :

"مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ"

 خدایا ! میں نے ان سے وہی کہاجس کا تو نے مجھے حکم دیا ۔

لکان لالچ  اورحب دنیا نے عیسائیوں  کو تثلیث کےعقیدے کی طرف دھکیل دیا ۔ حضرت عیسی نے اپنے پیروکاروں کو حضرت محمد ص کی آمد کی بشارت دی تھی ۔

۱۹۰

اسی طرح ان سے پہلے حضرت موسی ع نے بھی یہ بشارت دی تھی لیکن عیسائیوں نے محمد اور احمد ناموں کی تاویل کرکے ان کا مطلب نجات دہندہ بنالیا اورآج تک وہ اس نجات دہندہ کا انتظار کررہے ہیں ۔

امت محمدیہ بھی تاویل کی بدولت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوگئی جس میں سوائے ایک کے سب جہنمی ہیں ۔ اب ہم انھی فرقوں کے درمیان زندگی بسر کررہے ہیں ۔لیکن کیا کوئی ایک فرقہ بھی ایسا ہے جو خود کو گمراہ سمجھتا ہو؟ بالفاظ دیگر کیا کوئی ایک فرقہ ایسا ہے جو یہ کہتاہو کہ ہم کتاب وسنت کی مخالفت کرتے ہیں ؟ اس کے برعکس ہر فرقے کا یہی دعوی ہے کہ ہم کتاب وسنت پر قائم ہیں ۔ آخر پھر حل کیا ہے ؟

کیا رسول اللہ ص کو اس کا حل معلوم نہیں تھا یا خود اللہ تعالی کو حل معلوم نہیں تھا ۔ کیونکہ رسول اللہ ص تو عبد مامور تھے یعنی وہ تو وہی کرتے تھے جو انھیں حکم ملتا تھا ۔ جیسا کہ قرآن مین ہے ۔ :

" فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ () لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ " (۱)

اللہ تعالی اپنے بندوں پر مہربان ہے اور وہ ان کی بھلائی چاہتا ہے ، اس لیے یہ ہوہی نہیں سکتا کہ ہو اس مشکل کا کوئی  حل تجویز نہ کرے تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ بھی دلائل کو دیکھنے کے بعد ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ بھی دلائل  کو دیکھنے کے بعد زندہ رہے ۔ اللہ تعالی کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے بندوں کو نظر انداز کردے اور انھیں بغیر ہدایت کے چھوڑ دے ۔سوائے اس صورت کے کہ ہمارا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ تعالی کامنشاہی یہ ہے کہ اس کے بندے افتراق وانتشار اور گمراہی میں مبتلا ہوں تاکہ وہ انھیں آتش دوزخ میں جھونک  دے ۔ یہ اعتقاد بالکل غلط اور باطل ہے  میں اللہ سے عفو کا طلب گار ہوں اور توبہ کرتاہوں اس قول سے جو اللہ کی جلالت اور حمکت کے منافی ہے ۔

-----------------------

(۱):-آپ انھیں نصیحت کرتے رہیں کہ آپ نصیحت کرنے والے ہیں ۔ آپ ان  پر داروغہ نہیں ہیں ۔سورہ غاشیہ

۱۹۱

اس لیے رسول اللہ ص سے منسوب یہ قول کہ آپ نے اپنے بعد کتاب اور سنت چھوڑی ہے ، ہماری مشکل کا کوئی معقول حل نہیں ہے ، بلکہ اس سے پیچیدگی مزیدبڑھتی ہے اور فتنہ وفساد پھیلانے والوں کی جڑ نہیں کٹتی ۔ آپ نے نہیں دیکھا کہ جب لوگوں نے اپنے امام کے خلاف بغاوت کی تو انھوں نے یہی نعرہ لگایا  یا تھا کہ :

"ليس الحكم لك يا علي ُّ وإنّما الحكم للّه".

علی ! تمھارا نہیں اللہ کا حکم چلے گا ۔

بہ ظاہر یہ نعرہ بڑا دلکش معلوم ہوتا ہے  کہ نعرہ لگانے والا اللہ کے حکم کا نفاذ چاہتا ہے اور غیراللہ کا حکم ماننے سے انکاری ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

" وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ "

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کی گفتگو  دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنے مافی الضمیر  پر اللہ کو گواہ بناتے  ہیں حالانکہ وہ سخت جھگڑا لو ہیں "۔(سورہ بقرہ ۔آیت ۲۰۴)

جی ہاں ! ایسا اکثر ہوا ہے کہ صحیح بات کو غلط مقصد کے لیے استعمال کیاگیا ہے ۔آئیے اس کو سمجھ لیں کہ کیسے ؟:

جب خوارج امام علی ع سے یہ کہتے تھے کہ حکم آپ کا نہیں اللہ کا چلے گا ،  تو کیا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ زمین پراتر کر آئے گا اور سب کے سامنے ظاہر ہو کر ان کے اختلافی مسائل  کا تصفیہ کے گا ۔ یا وہ یہ جانتے تھے کہ اللہ کا حکم تو قرآن میں ہےلیکن یہ سمجھتے تھے کہ علی ع نے قرآن کی غلط تاویل کی ہے ۔ اگر ایسا تھا تو ان کے پاس

۱۹۲

اس کی کیا دلیل تھی  ، جب کہ علی ع ان سے زیادہ عالم تھے ، ان سے زیادہ  راستباز تھے اور ان سے پہلے اسلام لائے تھے ۔ کیا علی ع سے بڑھ کربھی کوئی اسلام کا ہمددرد اور وفادار ہوسکتا تھا ؟

معلوم ہوا کہ یہ محض دل فریب نعرہ تھا جس کا مقصد سیدھے سادھے لوگوں کو بے وقوف  بنا کر ان کی تائید اور جنگ میں ان کی معاونت حاصل کرنا تھا ۔ آج بھ ایسا ہی ہوتا ہے ۔وہی زمانہ وہی لوگ ۔ مکر وفریب کم نہیں ہوئے بلکہ بڑھتے جاتے ہیں ۔ کیونکہ آج کے مکار اور عیار ۔لوگ اگلوں  کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہیں ہمارے زمانے میں بھی کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ صحیح بات کو غلط مقصد کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔

آج بھی چمکتے دمکتے ہوئے دل فریب نعرے لگائے جاتے ہیں ۔ مثلا " وہابی ، توحید  کی حمایت اور شرک کی مخالفت کا نعرہ بلند کرتے ہیں ۔ اب کون مسلمان ہے جو اس اصول سے اتفاق  نہیں کریگا ۔ ایک فرقے نے تو اپنا نام ہی اہل سنت والجماعت رکھ چھوڑا ہے ۔کون مسلمان نہیں چاہے گا کہ وہ اس جماعت کے ساتھ ہو جو سنت رسول  کا اتباع کرتی ہو ۔

بعث پارٹی کا نعرہ ہے :

"أُمّةٌ عربيّةٌ وّاحدةٌ ذات رسالةٍ خالدةٍ"

غیر فانی پیغام کی حامل ایک متحد عرب قوم  کو ن مسلمان اس نعرے سے دھوکا نہیں کھاجائےگا اگر اسے اس پارٹی اور اس کے عیسائی بانی مائیکل عفلق کے خفیہ عزائم  کا علم نہیں ۔آفرین ہے آپ کو اے علی بن  ابی طالب ع ! آپ کے حکیمانہ اقوال آج بھی قائم ودائم ہیں اور ہمیشہ زمانے کے کانوں میں گونجتے رہیں گے !

" فکم من کلمةٍ حق يراد بها باطل "

کتنی ہی بار ایسا ہوتا ہے کہ صحیح بات کا غلط مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔

ایک عالم نے منبر پر چڑھ کر بہ آواز بلند فرمایا :

۱۹۳

جو کہے گا میں شیعہ ہوں ، ہم اس سے کہیں گے کہ تو کافر ہے اور جو کوئی کہے گا میں سنی ہوں ، ہم اس سے بھی کہیں گے تو کافر ہے ۔ہمیں شیعہ چاہییں نہ سنی ۔ہمیں فقط مسلمان چاہیئیں۔

یہاں بھی صحیح بات کا غلط مطلب لیا گیا ہے ۔ معلوم نہیں یہ عالم  کس اسلام کی بات کررہا تھا ؟

آج دنیا میں متعدد اسلام ہیں بلکہ قرن اول ہی میں متعدد اسلام تھے ۔ علی ع کا بھی اسلام تھا اور معاویہ کا بھی اسلام تھا اور دونوں کے پیروکار بھی تھے ، آخر لڑائی تک کی نوبت پہنچی ۔

پھر حسین  ع کا بھی  اسلام تھا اور یزید کا بھی اسلام تھا جس نے اہلبیت  کو اسلام ہی کے نام پر تہہ تیغ کیا ۔ اس سے دعوی کیا تھا کہ چونکہ حسین ع نے اس کے خلاف خروج  کیا ہے اس لیے وہ اسلام  سےخارج ہوگئے ہیں ۔ پھر ائمہ اہل بیت اور اس کے حامیوں کا اسلام تھا اور حکمرانوں اور ان کے عوام کا اسلام تھا ۔ تاریخ کے ہر دور میں مسلمانوں  میں اس طرح کا اختلاف رہا ہے ۔ آج بھی ایک طرف تو ان لوگوں کا اسلام ہے جنھیں مغرب اعتدال پسند اور روشن خیال کہتا ہے کیونکہ اسلام کے پیروکار وں نے یہود ونصاری کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہوا ہے اور یہ لوگ سپر پاورز کے سامنے سجدہ ریز ہیں ۔ دوسرا اسلام   ان کے کٹر مسلمانوں کا ہے جنھیں مغرب بنیاد پرست ، متعصب ، دقیانوسی اور مذہبی دیوانے کہتا ہے ۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ اس  عالم اور خطیب نے بعد میں اپنے خیالات سے رجوع کرلیا تھا ۔

ان اسباب کے پیش نظر جو ہم نے گزشتہ اوراق میں بیان کیے ۔ اس کی گنجائش  باقی نہیں رہتی کہ کتاب اللہ وسنتی  والی حدیث کو صحیح تسلیم کیا جاسکے ۔

اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح اور عیاں ہوجاتی ہے کہ دوسری  حدیث  کتاب اللہ وعترتی ہی صحیح ہے جس پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔ اس حدیث سے تمام مشکلات حل  ہوجاتی ہیں ۔ کیونکہ اگر ہم اہل بیت ع کی طرف رجوع کریں جن کی

۱۹۴

رجوع کر نے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ۔ تو پھر کسی آیت کی تفسیر میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا ۔ خصوصا اگر یہ ذہن میں رکھیں  کہ یہ ائمہ جن کو خود رسول اللہ ص نے مقرر کیا وہیک اس کام کے اہل ہیں اور مسلمانوں میں کوئی ان کے علم کی وسعت  میں اور ان کے زہد وتقوی میں شک نہیں کرتا ۔ وہ تمام فضائل  میں دوسروں  سے بڑھ کر ہیں ۔ لہذا وہ قرآن کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور نہ اس کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں ۔ بلکہ تا قیامت اس سے جدا نہیں ہوں گے  ۔رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔

"میں تمھارے درمیان دوچیزیں چھوڑرہا ہوں :ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے جو مثل رسی کے آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے اور دوسری میری عترت ہے یعنی میرے اہل بیت ع یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک  کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیںگے۔

چونکہ میں سچوں  کےساتھ شامل ہوناچاہتا ہوں اس لیے ضروری ہے کہ میں فقط حق بات کہوں گا اورکسی کی ملامت یا اعتراض کی پرواہ نہ کروں ۔ میرا مقصد لوگوں کو خوش کرنے کے بجائے  اللہ سبحانہ  کی رضا کا حصول اور خود انپے ضمیر کا اطمینان  ہو کیونکہ غیروں کا تو یہ حال ہے کہ

"وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ"

تم سے ہر گز خوش نہیں ہوں گے نہ یہود اور نہ نصاری ،جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہ کرنے لگو ۔

اس کی تمام بحث میں شیعہ ہی حق پر ہیں ۔ کیونکہ اہل بیت ع کے معاملے میں انھوں نے رسول اللہ کی وصیت پر عمل کیا  ہے اہل بیت ع کی امامت کو تسلیم کیا ہے اور اہل بیت ع کی اطاعت اور ان کی متابعت کے ذریعے  اللہ کا قرب  حاصل کرنے  کی کوشش کی ہے ۔ پس شیعوں کو دنیا اور آخرت کی یہ کامیابی مبارک ہو ۔حدیث میں

۱۹۵

ہے کہ " آدمی حشر ان کےساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہے ۔" پھر کیا کہنے اس شخص کے جو اہل بیت سے محبت بھی رکھتا ہو اور ان کا اتباع بھی کرتا ہو ۔ زمخشری نے اس بارے مین کہا :

"كثرالشّكُّ والإختلاف و كلّ

يدّعى أنّه الصّراطُ السّويّ

فتسّكتُ بلآ إله إلّا الله

وحبّي لأحمد وعلى

فازكلبٌ بحبّ أصحاب كهف

فكيف أشقى بحبّ آل النّبي

شک اور اختلاف بہت بڑھ گیا ہے اور ہر شخص کا دعوی ہے کہ وہ سیدھی راہ پر ہے ۔ ایسے میں دو چیزوں  کو مضبوطی سے تھا م لیا ہے : ایک ریسمان لا الہ الّا اللہ کو اور دوسرے احمد ص وعلی ع کی محبت کو ۔ اصحاب کہف سے محبت کے سبب اگر ایک کتا کامیاب ہوسکتا ہے تو پھریہ کیسے ممکن ہے کہ آل محمد سے محبت کے باوجود مجھے درمقصد نہ ملے ۔

سعدی گر عاشقی کنی وجوانی

عشق محمد ص بس است وآل محمد

اے اللہ ! تو ہمیں ان لوگوں میں سے بنادے جنھوں نے ولائے اہل بیت ع کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے ۔ جو ان کے راستے پر گامزن ہیں ، ان کی کشتی پر سوار ہیں ۔ ان کی امامت کے قائل ہیں اور جو ان کی جماعت میں محشور ہوں گے بے شک تو جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم پر چلنے  کی توفیق دے دیتا ہے ۔

"صراط عليّ حقّ ٌ نمسّكه"

۱۹۶

خمس

یہ بھی ان مسائل میں سے ہے جن پر شیعوں اورسنیوں میں اختلاف ہے اس سے قبل کہ ہم کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ کریں ، خمس کے موضوع پرمختصر بحث ضروری ہے ،جس کی ابتدا ہم قرآن کریم سے کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔:

"وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ "

اور یہ جان لو کہ جو مال تمھیں حاصل  ہو اس کا پانچواں  حصہ اللہ اور رسول  ص کے لیے ، رسول ص کے قرابتداروں کے لیے اور یتیموں  ناداروں اورمسافروں کے لیے ہے ۔(سورہ انفال ۔ آیت ۴۱)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

" أمركم بأربعٍ :الأيمان بالله وإقام الصّلاة وإيتاء الزكاة وصيام رمضان وأن تؤدّوا الله خمس ما غنمتم ."

اللہ تعالی نے تمھیں چار چیزوں کا حکم دیا ہے : ایمان با اللہ کا ، نماز قائم کرنے کا ،زکات دینے کا اور اس کا کہ تم جو کچھ  کماؤ اس کا پانچواں حصہ اللہ کو ادا کرو۔(۱)

چناںچہ شیعہ تو ائمہ اہل بیت ع کی پیروی کرتے ہوئے جو مال انھیں سال بھر میں حاصل ہوتا ہے اس کا خمس نکالتے ہیں ۔ اور غنیمت کی تشریح یہ کرتے ہیں

-----------------------

(۱):- صحیح بخاری  جلد ۴ صفحہ ۴۴

۱۹۷

کہ اس سے مراد نفع ہے جو آدمی کو عام طور پر حاصل ہوتا ہے ۔

اس کے برخلاف اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ خمس(۱) اس مال غنیمت سے مخصوص ہے جو کفار سے جنگ کے دوران میں حاصل ہو ۔ ان کے نزدیک "ماغنمتم من شیء " کے معنی ہیں کہ جو کچھ تمھیں جنگ کے دوران میں لوٹ کے مال سے حاصل ہو(جبکہ آیت میں دارالحرب کا خصوصیت سے ذکر نہیں اور من شیء کے الفاظ عمومیت کے حامل  ہیں )

-------------------------

(۱):-خمس کے موضوع پر صحیح بخاری کے علاوہ صحیح مسلم ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد  ،سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں حضرت رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث  موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسالتمآب نے نماز اور زکواۃ کے ساتھ خمس کی ادائیگی  کو بھی واجب قراردیا تھا ۔

اختصار کے پیش نظر ہم یہاں صرف صحیح مسلم سے ایک روایت کامتن درج کررہے ہیں ۔طالبان تفصیل  علامہ سید ابن حسن نجفی صاحب کی کتاب مسئلہ خمس ملاحظہ فرمائیں ۔

"ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبدالقیس کا ایک وفد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض  کی یا رسول اللہ ! ہم ربیعہ کے قبیلے سے ہیں اور ہمارے دور آپ کے درمیان مضر کا کافر قبیلہ حائل ہے اور حرمت والے مہینوں کے علاوہ  دوسرے زمانے میں ہم آپ تک نہیں پہنچ سکتے ! لہذا آپ ہمیں کوئی ایسی ہدایت  فرمائیں جس پر ہم خود بھی عمل  پیراہوں  اوراپنے دوسرے لوگوں کو بھی اس پر عمل کرنے کی دعوت دیں ۔ آپ نے فرمایا : تم کو حکم دیتاہوں چار باتوں کے لیے اور منع کرتا ہوں چارباتون سے ۔پھر آپ نے تو ضیح کرتے ہوئے فرمایا کہ گواہی  دو اس بات کی کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے خداکے اور محمد ص اس  کے رسول  ہیں ۔ نیز نماز قائم کرو ، زکواۃ دو اور اپنی کمائی میں سے خمس اداکرو ۔(صحیح مسلم جلد ۱ صفحہ ۹۳ مطبوعہ لاہور) (ناشر)

۱۹۸

یہ خلاصہ ہے خمس کے بارے میں فریقین کے اقوال کا ۔ میں حیران ہوں کہ کیسے میں خود کو یاکسی اور کو اہل سنت کے قول کی صحت کیایقین دلاؤں  جب کہ میرا خیال ہے کہ اس بارے میں اہل سنت نے اموی حکمرانوں کے قول پر اعتماد کیا ہے خصوصا معاویہ بن ابی سفیان کی رائے پر ۔جب کہ معاویہ بن ابی سفیان نے مسلمانوں کے اموال  پر قبضہ کرکے  سب سونا چاندی  اپنے لیے  اور اپنے  مقربین  کے لیے مخصوص  کرلیا تھا اور اس کا نگران اپنے بیٹے یزید کوبنالیا تھا جو بندروں اور کتوں کو سونے کے کنگن پہنا تا تھا جب  کہ بعض مسلمان بھوکے مرتے تھے ۔

اس لیے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں  کہ اہل سنت خمس کو دارالحرب سے مخصوص کرتے ہیں کیونکہ یہ آیت ان آیات کے درمیان واقع ہوئی ہے جن کا تعلق جنگ سے ہے ۔ ایسی بہت سی آیات ہیں جن کی تفسیر اہل سنت اگر کوئی مصلحت  اس کی مقتضی  ہو تو ان سے پہلی یا بعد کی آیات کے معنی کی مناسبت سے کرتے ہیں ۔مثلا وہ کہتے ہیں کہ آیہ تطہیر ازواج رسول ص سے مخصوص ہے کیونکہ اس سے پہلے اور بعد کی آیات میں ازواج رسول ص ہی کا ذکر ہے ۔اسی طرح  اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہ اہل کتاب سے  مخصوص ہے :

" وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ"

جو لوگ سونا چاندی جوڑ کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری دیدیجیے ۔(سورہ توبہ ۔آیت ۳۴)

اس سلسلے میں ابوذرغفاری رض  کے معاویہ اور عثمان سے اختلاف کا اور ابوذر کا ربذہ میں شہر بدر  کیے جانے کا قصہ مشہور ہے ۔ابو ذر جو سونا چاندی جمع کرنے پر اعتراض کرتے تھے ۔ وہ اسی آیت سے استدلال کرتے تھے ۔ لیکن عثمان نے کعب الاحبار سے مشورہ کیا تو کعب الاحبار نے کہا کہ یہ آیت اہل کتاب سے مخصوص ہے ۔ اس پر ابوذر غفاری رض غصّے  سے بولے : یہودی کے بچے ! تیری ماں تجھے روئے اب تو ہمیں ہمار دین سکھائے گا ؟اس پر عثمان ناراض ہوگئے اور ابوذر کو ربذہ

۱۹۹

میں شہر بدر کردیا ۔ وہ وہیں ! کیلے پڑے پڑے کس مپرسی کی حالت میں خالق حقیقی سے جاملے ۔ان کی بیٹی کو کوئی ایسا شخص بھی دستیاب نہ ہوسکا جو ان کو غسل وکفن دے سکتا ۔

اہل سنت نے آیات قرآنی اوراحادیث نبوی کی تاویل کو ایک فن بنادیا ہے ۔ ان کی فقہ اس سلسلے میں مشہور ہے ۔ اس معاملے میں وہ ان خلفائے اولین اور مشاہیر صحابہ کا اتباع کرتے ہیں ۔ جو نصوص صریحہ کی تاویل کرتے ہیں (۱)

اگر ہم ایسے تمام نصوص گنوانے لگیں تو ایک الگ کتاب کی ضرورت ہوگی  تحقیق سے دلچسپی رکھنے والے کے لیے کافی ہے کہ وہ النص والاجتہاد نامی کتاب کا مطالعہ کرے تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ تاویل کرنے والوں نے کس طرح اللہ کے احکام کو کھیل بنادیا ۔

اگر میرا مقصد تحقیق ہے تو پھر مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں آیات قرآنی اور احادیث نبوی کی اپنی  خواہش کے مطابق یا جس مذہب  کی طرف میرا رجحان ہے اس کے تقاضوں کے مطابق تاویل کرنے لگوں ۔

لیکن اس کاکیا علاج کہ اہل سنت نے خود ہی اپنی صحاح میں وہ روایات بیان  کی ہیں جن کے مطابق دارالحرب سے باہر خمس کی فرضیت کا ثبوت ملتا ہے اور اس طرح اپنے مذہب اور اپنی تاویل کی خود ہی تغلیط  اور تردید کردی ہے ۔مگر معما پھر بھی حل نہیں ہوتا ۔

معما یہ ہے کہ آخر اہل سنت ایسی بات کیوں کہتے ہیں جس پر عمل نہیں کرتے ۔وہ اپنی حدیث کی کتابوں  میں وہی اقوال بیان کرتے ہیں جن کے شیعہ قائل ہیں ۔ لیکن ان کا عمل سراسر مختلف  ہے ۔آخر کیوں  ؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ۔ خمس کا موضوع بھی ان ہی مسائل میں سے ہے جن کےبارے میں سنی خود اپنی روایات پر عمل نہیں کرتے ۔

------------------------

(۱):- علامہ شرف الدین اپنی کتاب النص والاجتھاد میں نصوص صریحہ میں تاویل کی سور سے زیادہ مثالیں جمع کی ہیں جسے تحقیق مقصود ہو وہ اس کتاب کا مطالعہ کرے

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

۱۔ﷲ نے بندوں کوجو معین عمرعطا فرمائی ہے اس میں انسان مسلسل روزے رکھ سکتا ہے روزہ اگر چہ صرف ماہ رمضان میں ہی واجب ہے لیکن سال کے بقیہ دنوں میں مستحب ہی نہیں بلکہ''مستحب مؤکد ''ہے ۔

امام محمد باقر نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالہ سے خداوند عالم کا یہ قول نقل کیا ہے ۔

(الصوم لی وأنا اجزی به )( ۱ )

''روزہ میرے لئے ہے اورمیں ہی اسکی جزادوں گا ''

اس طرح سال کے دوران روزہ چھوڑدینے سے انسان کتنے عظیم ثواب سے محروم ہوتا ہے ؟ اسے خدا کے علاوہ کوئی نہیںجانتا ۔اب انسان جس دن بھی روزہ نہ رکھکرﷲکی جائزاور حلال نعمتیں استعمال کرتا ہے اس کی وجہ سے وہ جنت کی کتنی نعمتوںسے محروم ہواہے ؟اسکا علم خدا کے علاوہ کسی کو نہیں ہے اگر چہ یہ طے ہے کہ جو کچھ اس نے کھایا وہ رزق حلال ہی تھا لیکن اس تھوڑے سے رزق کے باعث بہر حال آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کا موقع اسکے ہاتھ سے جاتا رہا ۔حلال لذتوں کے باعث دنیا و آخرت کے درمیان ٹکرائو کی یہ ایک مثال ہے ۔

۲۔جب انسان رات میں نیند کی لذت سے لطف اندوز ہوتا ہے تو بلا شبہ یہ زندگانی دنیا کی حلال اور بہترین لذت ہے لیکن جب انسان پوری رات سوتے ہوئے گذاردیتا ہے تو اس رات نماز شب اور تہجد کے ثواب سے محروم رہتا ہے ۔

فرض کیجئے خدا نے کسی کو ستر برس کی حیات عطا کی ہو تو اس کے لئے ستر سال تک یہ ثواب ممکن ہے لیکن جس رات بھی نماز شب قضا ہوجاتی ہے آخرت کی نعمتوں میں سے ایک حصہ کم ہوجاتاہے اگر (خدا نخواستہ )پورے ستر سال اسی طرح غفلت میں بسر ہوجائیں تو نعمات اخروی

____________________

(۱)بحارالانوار ج۹۶ص ۲۵۴ ،۲۵۵، ۲۴۹ ۔

۲۲۱

حاصل کرنے کا موقع بھی ختم ہوجائے گا اور پھر انسان افسوس کرے گا کہ ''اے کاش میں نے اپنی پوری عمر عبادت الٰہی میں بسر کی ہوتی ''

۳۔اگر خداوند عالم کسی انسان کومال عطا کرے تو اس مال کو راہ خدا میں خرچ کرکے کافی مقدار میں اخروی نعمتیں حاصل کرنے کاامکان ہے انسان جس مقدار میںدنیاوی لذتوں کی خاطرمال خرچ کرتا ہے اتنی ہی مقدار میںآخرت کی نعمتوں سے محروم ہوسکتا ہے کہ اسی مال کو راہ خدا میں خرچ کرکے دنیا کے بجائے آخرت کی لذتیں اور نعمتیں حاصل کرسکتا تھا لہٰذا اگر انسان اپنا پورا مال دنیاوی کاموں کے لئے خرچ کردے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس مال سے اخروی نعمتیں حاصل کرنے کا موقع گنوادیا ۔چاہے اس نے یہ مال حرام لذتوں میں خرچ نہ کیا ہو ۔

اسی طرح انسان کے پاس آخرت کی لذتیں اورنعمتیں حاصل کرنے کے بے شمار مواقع ہوتے ہیں ۔مال ،دولت، عمر، شباب، صحت ،ذہانت ،سماجی حیثیت اور علم جیسی خداداد نعمتوں کے ذریعہ انسان آخرت کی طیب وطاہر نعمتیں کما سکتا ہے لیکن جیسے ہی اس سلسلہ میں کو تاہی کرتا ہے اپنا گھاٹا کر لیتا ہے خدا وندعالم نے ارشاد فرما یا ہے :

( والعصرِ٭انّ الا نسان لفی خسر ) ( ۱ )

''قسم ہے عصر کی بیشک انسان خسارہ میں ہے ''

آیۂ کر یمہ نے جس گھا ٹے کا اعلان کیا ہے وہ اس اعتبار سے ہے کہ آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کے لئے جن چیز وں کی ضرورت ہے خداوندعالم نے وہ تمام چیزیں اپنے بندوں کو (مفت ) عطا کردی ہیں اور انھیں خدا داد نعمتوں سے آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کا بھی انتظام کردیا ہے اس کے باوجود انسان کوتاہی کرتا ہے اور ان نعمتوں کو خواہشات دنیا کے لئے صرف کر کے آخرت کما نے کا

____________________

(۱)سورئہ عصر آیت۱۔۲۔

۲۲۲

موقع کھودیتا ہے تو یقیناگھاٹے میں ہے ۔

اس صور ت حال کی منظر کشی امیر المو منین حضرت علی نے بہت ہی بلیغ انداز میں فرمائی ہے آپ کا ارشاد ہے :

(واعلم أن الد نیاداربلیّة،لم یفرغ صاحبها فیها قط ساعة لاکانت فرغته علیه حسرة یوم القیامة )( ۱ )

''آگاہ ہو جا ئو یہ دنیا دار ابتلاہے اس میںا گر کوئی ایک ساعت بے کار رہتا ہے تو یہ ایک ساعت کی بے کاری روز قیامت حسرت کا باعث ہوگی''

یہاں بے کاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان ذکر خدا نہ کرے اور اسکی خوشنودی کے لئے کوئی عمل نہ بجالا ئے اور اسکے اعضاء وجوارح بھی قربت خدا کے لئے کوئی کام نہ کر رہے ہوں یا یاد خدا میں مشغول نہ ہوں ۔

اب اگر ایک گھنٹہ بھی اس طرح خالی اوربے کار رہے چاہے اس دوران کوئی گنا ہ بھی نہ کرے تواسکی بناپر قیامت کے دن اسے حسرت کا سامناکرنا ہوگا اس لئے کہ اس نے عمر ،شعور اور قلب جیسی نعمتوں کو معطل رکھا اورانہیں ذکرو اطاعت خدا میں مشغول نہ رکھ کر اس نے رضا ئے خدا اور نعمات اخروی حاصل کرنے کا وہ موقع گنوادیا ہے جسکا تدارک قطعا ممکن نہیں ہے بعد میں چاہے وہ جتنی اخروی نعمتیں حاصل کرلے لیکن یہ ضائع ہوجانے والا موقع بہر حال نصیب نہ ہوگا ۔

۳۔سنت الٰہی یہ ہے کہ انسان ترقی وتکامل اور قرب الٰہی کی منزلیں سختیوں اورمصائب کے ذریعہ طے کر تا ہے ۔ارشاد الٰہی ہے :

( أحَسِبَ الناس أن یُترکوا أن یقولواآمنّا وهم لایُفتنون ) ( ۲ )

____________________

(۱) نہج البلاغہ مکتوب ۵۹۔

(۲)سورئہ عنکبوت آیت۲۔

۲۲۳

''کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ و ہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ہوگا''

دوسرے مقام پرارشاد ہوتا ہے :

( ولنبلونّکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقصٍ من الأموال والأنفس والثمرات ) ( ۱ )

''اور ہم یقیناتمہیں تھوڑاخوف تھوڑی بھوک اور اموال ونفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے ۔۔۔''

نیزارشاد خداوندی ہے :

( فأخذناهم بالبأساء والضرّاء لعلهم یتضرّعون ) ( ۲ )

''۔۔۔اسکے بعد ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں''

یہ آخری آیت واضح الفاظ میں ہمارے لئے خدا کی طرف انسانی قافلہ کی حرکت اور ابتلاء وآز مائش ،خوف، بھوک اور جان ومال کی کمی کے درمیان موجود رابطہ کی تفسیر کر رہی ہے کیونکہ تضرع وزاری قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے اور تضرع کی کیفیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان جان ومال کی کمی، بھوک ،خوف اور شدائد ومصائب میں گرفتار ہوتاہے اس طرح انسان کے پاس دنیاوی نعمتیں جتنی زیادہ ہو ں گی اسی مقدار میں اسے تضرع سے محرومی کاخسارہ اٹھانا پڑے گا اور نتیجتاً وہ قرب الٰہی کی سعادتوں اور اخروی نعمتوں سے محروم ہوجا ئے گا ۔

زندگانی دنیا کے مصائب ومشکلات کبھی تو خدا اپنے صالح بندوں کو مرحمت فرماتا ہے تا کہ وہ تضرع وزاری کیلئے آمادہ ہوسکیں اور کبھی اولیائے الٰہی اوربند گان صالح خود ہی ایسی سخت زندگی

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت۱۵۵۔

(۲)سورئہ انعام آیت ۴۲۔

۲۲۴

کواختیار کر لیتے ہیں ۔

۴۔لذائذ دنیا سے کنار کشی کا ایک سبب یہ ہو تا ہے کہ انسان کبھی یہ خوف محسوس کرتا ہے کہ کہیں لذائذ دنیا کا عادی ہوکر وہ بتدریج حب دنیا میں مبتلا نہ ہو جا ئے اوریہ حب دنیاا سے خدا اور نعمات اخروی سے دور نہ کردے ۔اس لئے کہ لذائذ دنیا اورحب دنیا میں دوطرفہ رابطہ پایا جاتا ہے یہ لذ تین انسان میںحب دنیا کا جذبہ پیدا کر تی ہیں یااس میں شدت پیدا کر دیتی ہیں اس کے بر عکس حب دنیا انسان کودنیاوی لذتوں کو آخرت پر ترجیح دینے اوران سے بھر پور استفادہ کرنے بلکہ اسکی لذتوں میںبالکل ڈوب جانے کی دعوت دیتی ہے ۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان لا شعوری طور پر حب دنیا کا شکار ہو جائے لہٰذا لذائذ دنیاسے ہو شیار رہنا چاہئے کیونکہ عین ممکن ہے کہ یہ لذتین اسے اسکے مقصد سے دور کردیں ۔

۵۔کبھی ہمیں روایات میں ایسی بات بھی نظر آتی ہے کہ جو مذ کور ہ وضاحتوں سے الگ ہے جیسا کہ مولا ئے کائنات حضرت علی نے جناب محمدبن ابی بکر کو مصر کا حاکم مقرر کرتے وقت (عہد نامہ میں)ان کے لئے یہ تحریر فرما یاتھا:

(واعلمواعبادﷲأن المتّقین ذهبوا بعاجل الدنیا وآجل الآخرة ،۔۔۔)( ۱ )

''بندگان خدا !یا د رکھو کہ پرہیزگار افراد دنیا اور آخرت کے فوائد لے کرآگے بڑھ گئے ۔وہ اہل دنیا کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے لیکن اہل دنیا ان کی آخرت میں شریک نہ ہوسکے۔وہ دنیا میں بہترین انداز سے زندگی گذار تے رہے جو سب نے کھایا اس سے اچھاپاکیزہ کھانا کھایااور وہ تمام لذتیںحاصل کرلیں جو عیش پرست حاصل کرتے ہیں اور وہ سب کچھ پالیا جو جابراور متکبر افراد کے حصہ میں آتا ہے ۔اسکے بعد وہ زادراہ لے کر گئے جو منزل تک پہونچادے اور وہ تجارت کرکے گئے

____________________

(۱)نہج البلا غہ مکتوب ۲۷۔

۲۲۵

جس میں فائدہ ہو۔دنیا میں رہ کر دنیا کی لذت حاصل کی اور یقین رکھے رہے کہ آخرت میں پروردگار کے جوار رحمت میں ہوںگے۔جہاں نہ ان کی آواز ٹھکرائی جائے گی اور نہ کسی لذت میں ان کے حصہ میں کوئی کمی ہوگی''

ان جملات میں متقین اور غیر متقین کا مواز نہ کیا گیا ہے جبکہ جن روایات کا ہم تجز یہ پیش کررہے تھے انمیں درجات متقین کا مو از نہ ہے،نہ کہ متقین اور غیر متقین کا!ظا ہر ہے کہ یہ دو نوں الگ ا لگ چیزیں ہیں لہٰذا ان دو نوں کا حکم بھی الگ ہو گا ۔

۲۲۶

با طن بیں نگاہ

دنیا کے بارے میں سر سری اور سطحی نگاہ سے ہٹ کر ہم دنیا پر زیادہ گہرائی اور سنجیدگی کے سا تھ نظر کر سکتے ہیں ۔جسے ہم (الرؤ یة النافذة) کا نام دے سکتے ہیں اس رویت میں ہم دنیا کے ظاہر سے بڑ ھ کر اس کے با طن کا نظارہ کر سکتے ہیں ۔ جس سے ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا کا ظا ہراگر حبّ دنیا کی طرف لے جا تا ہے اور انسان کو فر یب دیتا ہے تو اس کے بر خلا ف دنیا کا باطن انسان کو زہداور دنیا سے کنارہ کشی کی دعوت دیتا ہے ۔باطن بیں نگاہ ظا ہر سے بڑھکر دنیا کی اندرو نی حقیقت کو عیاں کر کے یہ بتا تی ہے کہ متاع دنیا بہر حال فنا ہو جا نے والی ہے نیز یہ کہ انسان کا دنیا میں انجام کیا ہو گا ؟ یوں انسان خو د بخود زہدا ختیار کر لیتا ہے ۔

روایات میںکثرت سے یہ تا کید کی گئی ہے کہ دنیا کو اس (نظر) سے دیکھنا چا ہئے، انسان مو ت کی طرف متو جہ رہے اورہمیشہ مو ت کو یاد رکھے، طویل آرزووں اور مو ت کی طرف سے غا فل ہو نے سے منع کیا گیاہے ۔

مو ت در اصل اس با طنی دنیا کا چہرہ ہے جس سے انسان فرار کرکے موت کو بھلا نا چا ہتا ہے چنا نچہ روایت میں وارد ہو ا ہے کہ (موت سے بڑھ کر کو ئی یقین ، شک سے مشا بہ نہیں ہے ) اس لئے کہ موت یقینی ہے ،اسمیں شک و شبہ کی گنجائش نہیں اس کے با وجود انسان اس سے گر یزاں ہے

۲۲۷

اور اسے بھلا ئے رکھنا چا ہتا ہے ۔

حا لا نکہ روایات میں اس کے با لکل بر عکس نظر آتا ہے امام محمد با قر کا ارشاد ہے:

(أکثروا ذکرالموت، فانه لم یُکثرالانسان ذکرالموت الازهد فی الدنیا )( ۱ )

'' مو ت کو کثرت سے یا د کرو کیو نکہ انسان جتنا کثرت سے موت کو یا د کر تا ہے اس کے زہد میں اتنا ہی اضا فہ ہو تا ہے''

امیر امو منین حضرت علی کا ار شاد گر امی ہے :

(من صوّرالموتَ بین عینیه هان أمرالدنیا علیه )( ۲ )

''جس کی نگا ہوں کے سا منے مو ت ہو تی ہے دنیا کا مسئلہ اس کے لئے آسان ہو تا ہے''

آپ ہی کا ار شاد ہے :

(أحقّ الناس بالزهادة من عرف نقص الدنیا )( ۳ )

''جو دنیا کے نقائص سے آگاہ ہے وہ زہد کا زیادہ حقدار ہے ''

امام مو سیٰ کا ظم کا ارشاد ہے:

(ان العقلاء زهدوا فی الدنیا،ورغبوا فی الآخرة ۔۔۔)( ۴ )

''بے شک صاحبان عقل دنیا میں زاہد اور آخرت کی جا نب راغب ہو تے ہیں انھیں معلوم ہے کہ دنیا طالب بھی ہے مطلوب بھی ،اسی طرح آخرت بھی طالب اور مطلوب ہو تی ہے ۔جو آخرت کا طلبگار ہو تا ہے اسے دنیا طلب کرتی ہے اور اپنا حصہ لے لیتی ہے ۔جو دنیا کا طلبگار ہو تا ہے آخرت اس

____________________

(۱) بحارالانوار ج۷۳ص۶۴۔

(۲)غرر الحکم ج۲ص۲۰۱۔

(۳) غرر الحکم ج۱ص۱۹۹۔

(۴)بحارالانوار ج ۷۸ ص ۳۰۱۔

۲۲۸

کی طالب ہو تی ہے پھر جب مو ت آتی ہے تو اس کی دنیا و آخرت دونوں خراب ہو جا تی ہیں ''

روا یت میں ہے کہ امام مو سی ٰ کا ظم ایک جنا زہ کے سر ہا نے تشریف لا ئے تو فر ما یا:

(ان شیئاً هذا أوّله لحقیق أن یُخاف آخره )( ۱ )

''جس چیز کا آ غازیہ (مر دہ لاش )ہو اس کے انجام کا خوف حق بجا نب ہے ''

ان روا یات میں ذکر مو ت اور زہد کے در میان واضح تعلق نظر آ تا ہے بالفاظ دیگران روایات میںنظر یہ یاتھیوری اورپریکٹیکل کے در میان تعلق کو ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ موت کا ذکر اور اسے یاد رکھنا ایک قسم کا نظر یہ اور تھیوری ہے اور زھد اس نظریہ کے مطابق راہ وردش یاپر یکٹیکل کی حیثیت رکھتا ہے امیر المو منین حضرت علی لوگوں کو دنیا کے بارے میں صحیح اور حقیقی نظریہ سے روشناس کراتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

(کونواعن الدنیا نُزّاها،والیٰ الآخرة ولّاهاولاتشیموا بٰارقها،ولا تسمعواناطقها،ولاتجیبواناعقها،ولاتستضیئواباشراقها،ولاتفتنواباعلاقها،فن برقهاخالب،ونطقهاکاذب ،واموالها محروبة،واعلاقها مسلوبة )( ۲ )

''دنیا سے پاکیزگی اختیار کرو اور آخرت کے عاشق بن جائو۔۔۔ اس دنیا کے چمکنے والے بادل پر نظر نہ کرو اور اسکے ترجمان کی بات مت سنو ،اسکے منادی کی بات پر لبیک مت کہو اور اسکی چمک د مک سے روشنی مت حاصل کرو اور اسکی قیمتی چیزوں پر جان مت دو اس لئے کہ اسکی بجلی فقط چمک دمک ہے اور اسکی باتیں سراسر غلط ہیں اسکے اموال لٹنے والے ہیں اور اسکا سامان چھننے والا ہے ''

آپ ہی کاارشاد گرامی ہے:

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ ص۳۲۰ ۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۱ ۔

۲۲۹

(وأخرجوا من الدنیا قلوبکم من قبل ان تخرج منها ابدانکم )( ۱ )

''دنیا سے اپنے دلوں کو نکال لو قبل اس کے کہ تمہارے بدن دنیا سے نکالے جائیں ''

دنیا سے دل نکال لینے کا مطلب ،دنیا سے قطع تعلق کرنا ہے جسے ہم (ارادی اور اختیاری موت)کا نام دے سکتے ہیں اس کے بالمقابل( قہری اور غیر اختیاری موت )ہے جسمیں ہمارے بدن دنیا سے نکالے جائیں گے ۔امام نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قہری موت سے پہلے ارادی موت اختیارکرلیں اور دنیا سے قطع تعلق کا ہی دوسرا نام ''زہد''ہے ۔۔۔دنیا کے باطن کو دیکھنے والی نظر اور زہد سے اسکے رابطہ کو سمجھنے کے لئے خود زہد کے بارے میںجاننااور گفتگوکرنا ضروری ہے ۔

زہد

زہد،حب دنیا کے مقابل حالت ہے ۔طور وطریقہ اور سلوک کی یہ دونوں حالتیں دو الگ الگ نظریوں سے پیداہوتی ہیں ۔

حب دنیا کی کیفیت اس وقت نمودار ہوتی ہے کہ جب انسان دنیا کے فقط ظاہرپر نظر رکھتا ہے اس کے بر خلاف اگر انسان کی نظر دنیا کے باطن کو بھی دیکھ رہی ہے تو اس سے زہد کی کیفیت جنم لیتی ہے ۔

چونکہ حب دنیا کا مطلب دنیا سے تعلق رکھنا ہے اور زہد اس کے مقابل کیفیت کا نام ہے تو زہد کا مطلب ہوگا دنیا سے آزاد البتہ اس کے معنی کی وضاحت ضروری ہے ۔حب دنیا کے مفہوم کو سمیٹ کر دو لفظوں میںیوں بیان کیا جاسکتا ہے :

۱۔فرحت ومسرت

۲۔حزن وملال

حب دنیا کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کولذائذ دنیا میں جب کچھ بھی نصیب ہو تا ہے تووہ خوش

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۴۔

۲۳۰

ہوجاتا ہے اور جب وہ کسی نعمت سے محروم رہتا ہے یااس سے کوئی نعمت چھن جاتی ہے تووہ محزون ہوجاتاہے چونکہ زہد حب دنیا کے مقابل کیفیت کا نام ہے لہٰذا زہد کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان دنیا سے اتنا آزاداور بے پرواہ ہوکہ دنیا میں سب کچھ مل جانے پربھی خوشی محسوس نہ کرے اور کچھ بھی نہ ملنے پر مغموم و محزون نہ ہو ۔

خدا وند عالم فر ماتا ہے :

(۔۔۔لکیلا تحزنوا علیٰ مافاتکم ولامااصابکم ۔۔۔)( ۱ )

''۔۔۔تاکہ تم نہ اس پر رنجیدہ ہو جو چیز ہاتھ سے نکل گئی ہے اور نہ اس مصیبت پر جو نازل ہوگئی ہے ۔۔۔''

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

(۔۔۔لکیلا تاسوا علیٰ مافاتکم ولا تفرحوا بماآتاکم ۔۔۔)( ۲ )

''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اسکا افسوس نہ کرو اور جو مل جائے اس پر غروراور فخر نہ کرو ۔۔۔''

امیر المو منین حضرت علی سے مروی ہے :

(الزهدکله فی کلمتین من القرآن )

''پورا زہد قرآن کے دو لفظوں میں سمٹا ہوا ہے جیسا کہ خدا کا ارشاد ہے :

(لکیلا تأسواعلیٰ مافاتکم )( ۳ )

''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اسکا افسوس نہ کرو''

____________________

(۱)سورئہ آل عمران آیت ۱۵۳۔

(۲)سورئہ حدید آیت۲۳۔

(۳)سورئہ حدید آیت ۲۳۔

۲۳۱

(فمن لم یأس علی الماضی ولم یفرح بالآ تی فهوالزاهد )( ۱ )

جو انسان ماضی پرافسوس نہ کرے اور ہاتھ آجانے والی چیز پر خوش نہ ہووہ زاہد ہے ''

ایک دوسرے مقام پر آپ سے روایت ہے :

''الزهدکلمة بین کلمتین من القرآن قال اللّٰه:(لکیلا تأسوا)فمن لم یأس علیٰ الماضی،ولم یفرح بالآ تی،فقد اخذ الزهد بطرفیه ''( ۲ )

''زہد قرآن کے دو لفظوں کا مجمو عہ ہے خدا وند عالم فر ماتا ہے :

(لکیلا تأسوا ۔۔۔)''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اسکا افسوس نہ کرو''

لہٰذاجو انسان ماضی پر افسوس نہ کرے اور ہاتھ آجانے والی چیز پر خوش نہ ہو اس نے پورا زہد حاصل کرلیا ہے ''

امیرالمو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(من اصبح علی الدنیا حزیناً،فقد أصبح لقضاء اللّٰه ساخطاً،ومن لهج قلبه بحب الدنیاالتاط قبله منها بثلاث:همّ لایُغِبُّه،وحرص لایترکه،وأمل لایدرکه )( ۳ )

''جو دنیا کے بارے میں محزون ہو گا وہ قضا و قدر الٰہی سے ناراض ہو گا جس کا دل محبت دنیا کا دلدادہ ہوجائے اسکے دل میں یہ تین چیزیں پیوست ہوجاتی ہیں وہ غم جو اس سے جدا نہیں ہوتا ہے ،وہ لالچ جو اسکا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے وہ امید جسے وہ کبھی حاصل نہیں کرسکتا ہے ''

یہ بھی حزن و فر حت سے آزادی کا ایک رخ ہے کہ دنیا کے بارے میں حزن وملال ،قضا وقدر الٰہی سے ناراضگی کے باعث ہوتا ہے اس لئے کہ انسان دنیا میں جن چیزوں سے بھی محروم ہوتا

____________________

(۱)بحا ر الانوار ج ۷۸ ص ۷۰۔

(۲)بحارالانوار ج ۷۰ ص ۳۲۔

(۳)نہج البلاغہ حکمت ۲۲۸۔

۲۳۲

ہے وہ در حقیقت قضا وقدر الٰہی کے تحت ہی ہوتا ہے نیز حب دنیا انسان میں تین صفتیں پیدا کرتی ہے ہم وغم ،حرص وطمع، آرزو۔ اس طرح وہ انسان کو ظلم وستم اور عذاب کے پنجوں میں جکڑدیتی ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(ایهاالناس انماالدنیا ثلا ثة:زاهدوراغب وصابر،فأماالزاهدفلا یفرح بشیٔ من الدنیا أتاه،ولایحزن علیٰ شیٔ منها فاته وامّاالصابرفیتمنّاها بقلبه،فان ادرک منهاشیئاصرف عنها نفسه،لما یعلم من سوء عاقبتها وامّا الراغب فلایبالی من حِلٍّ اصابها أم من حرام )( ۱ )

''اے لوگو: دنیا کے افرادتین قسم کے ہیں :۱۔زاہد ۲۔صابر ۳۔راغب

۱۔زاہد وہ ہے جو کسی بھی چیز کے مل جانے سے خوش یا کسی بھی شے کے نہ ملنے سے محزون نہیں ہوتا ۔صابر وہ ہے جو دل ہی دل میں دنیا کی تمنا تو کرتا ہے لیکن اگر اسے دنیا مل جاتی ہے تو چونکہ اسکے برے انجام سے واقف ہے لہٰذا اپنامنھ اس سے پھیر لیتا ہے اور راغب وہ ہے کہ جسے یہ پروا نہیں ہے کہ اسے دنیا حلال راستہ سے مل رہی ہے یا حرام راستہ سے ''

زہدکے معنی ،لوگوں کی تین قسموںاور ان قسموں پر زاہد ین کی تقسیم کے سلسلہ میں یہ حدیث عالی ترین مطالب کی حامل ہے ۔اسکے مطابق لوگوں کی تین قسمیں ہیں :

زاہد ،صابر اور راغب۔

زاہد وہ ہے کہ جو دنیا اور اسکی فرحت وملال سے آزاد ہو۔

صابر وہ ہے کہ جو ان چیزوں سے آزاد تو نہیں ہے مگر حب دنیا ،دنیاوی فرحت ومسرت اور حزن وملال سے نجات پانے کے لئے کوشاںہے ۔

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ص۱۲۱۔

۲۳۳

راغب وہ ہے کہ جو دنیا کا اسیر اور اسکی فرحت ومسرت اور حزن و ملال کے آگے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے۔

ان میں پہلا اور تیسراگروہ ایک دوسرے کے بالکل مقابل ہے کہ ایک مکمل طریقہ سے آزاد اور دوسراہر اعتبار سے مطیع و اسیرجبکہ تیسرا گروہ درمیانی ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی لوگوں کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی فرحت و ملال کا رخ دنیا سے آخرت کی جانب موڑدیں یہی بہترین چیز ہے کیونکہ اگر ہماری کیفیت یہ ہوکہ ہم اطاعت خدا کرکے خوشی محسوس کریں اور اطاعت سے محرومی پر محزون ہوں تو یہ بہترین بات ہے اس لئے کہ اس خوشی اورغم کا تعلق آخرت سے ہے ۔

مولائے کائنات حضرت علی، ا بن عباس کے نام اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:

''اما بعد !انسان کبھی کبھی ایسی چیز کو پاکر بھی خوش ہوجاتا ہے جو ہاتھ سے جانے والی نہیںتھی اور ایسی چیز کو کھوکر رنجیدہ ہوجاتا ہے جو ملنے والی نہیں تھی لہٰذا خبر دار تمہارے لئے دنیا کی سب سے بڑی نعمت، کسی لذت کا حصول یا جذبۂ انتقام ہی نہ بن جائے بلکہ بہترین نعمت باطل کو مٹانے اور حق کو زندہ کرنے کو سمجھو اور تمہیں ان اعمال سے خوشی ہو جنہیں پہلے بھیج دیا ہے اور تمہارا افسوس ان امور پر ہو جنہیں چھوڑکر چلے گئے ہو اور تمام تر فکر موت کے مرحلہ کے بارے میں ہونی چاہئیے''( ۱ )

زہد،تمام نیکیوں کا سرچشمہ

جس طرح حیات انسانی میں حب دنیا تمام برائیوں کی جڑہے اسی طرح تمام نیکیوں اور اچھائیوں کا سرچشمہ ''زہد''ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حب دنیا انسان کو دنیا اور اسکی خواہشات کا اسیر بنادیتی ہے اور دنیا خود تمام برائیوں اور پستیوں کی بنیاد ہے لہٰذا حب دنیابھی انسان کو برائیوںاور

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب ۶۶۔

۲۳۴

پستیوں کی طرف لے جاتی ہے جبکہ زہد کا مطلب ہے دنیااور خواہشات دنیا سے آزاد ہونا اور جب انسان برائیوں کی طرف لے جانے والی دنیا سے آزاد ہوگا تو اسکی زندگی خود بخود نیکیوں اور اچھائیوں کا سرچشمہ بن جائے گی ۔

روایات معصومین میں اس چیز کی طرف متعدد مقامات پر مختلف اندازسے اشارہ کیا گیا ہے بطور نمونہ ہم یہاں چند احادیث پیش کر رہے ہیں۔

امام صادق کا ارشاد ہے:

(جُعل الخیرکله فی بیت وجُعل مفتاحه الزهد فی الدنیا )( ۱ )

''تمام نیکیاں ایک گھر میں قرار دی گئی ہیں اور اسکی کنجی دنیا کے سلسلہ میں زہد اختیار کرنا ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الزهد أصل الدین )( ۲ )

''دین کی اصل، زہد ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الزهد اساس الدین )( ۳ )

''دین کی اساس اور بنیاد، زہد ہے ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(الزهد مفتاح باب الآخرة،والبرا ئة من النار،وهو ترکک کل شیٔ

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۴۹۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۲۹۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۳۰۔

۲۳۵

یشغلک عن اللّٰه من غیرتأسف علیٰ فوتها ولا أعجاب فی ترکها،ولاانتظارفرج منها،ولاطلب محمدة علیها،ولاعوض منهابل تریٰ فواتهاراحة،وکونهاآفة،وتکون أبداً هارباً من الآفة،معتصماً بالراحة )( ۱ )

''زہد،باب آخرت کی کنجی اورجہنم سے نجات کا پروانہ ہے ۔زہد کا مطلب یہ ہے کہ تم ہراس چیز کو ترک کردو جو تمہیں یاد خدا سے غافل کردے اور تمہیں اسکے چھوٹ جانے کا نہ کوئی افسوس ہو اور نہ اسے ترک کرنے میں کوئی زحمت ہو ۔اس کے ذریعہ تمہاری کشادگی کی توقع نہ ہو،نہ ہی اس پر تعریف کی امید رکھو، نہ اسکا بدلہ چاہو بلکہ اسکے فوت ہوجانے میں ہی راحت اور اسکی موجود گی کو آفت سمجھوایسی صورت میں تم ہمیشہ آفت سے دوراورراحت وآرام کے حصارمیںرہو گے''

حضرت علی نے فرمایا ہے :

(الزهد مفتاح الصلاح )( ۲ )

''زہد صلاح کی کنجی ہے ''

زہد کے آثار

حیات انسانی میں زہد کے بہت عظیم آثار و نتائج پائے جاتے ہیں جنہیں زاہد کے نفس اور اسکے طرز زندگی میں بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔

۱۔آرزووں میں کمی

حب دنیا کا نتیجہ آرزووں کی کثرت ہے اور زہد کا نتیجہ آرزووں میں کمی۔ جب انسان کا تعلق دنیا سے کم ہو اوروہ خواہشات دنیا سے آزاد ہوتو طبیعی طور پر اسکی آرزوئیں بھی مختصر ہوںگی وہ دنیا میں

____________________

(۱) بحا ر الا نو ا ر ج ۰ ۷ ص۳۱۵۔

(۲)غررالحکم ص۹۹،۳۷۔۸۔

۲۳۶

زندگی بسر کرے گا متاع زندگانی اوردنیاوی لذتوںسے استفادہ کرے گا لیکن ہمیشہ موت کو بھی یاد رکھے گا اور اسی طرح یہ بات بھی اسکے پیش نظر رہے گی کہ ان چیز وں کا سلسلہ کسی بھی وقت اچانک ختم ہوجائے گا۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(من یرغب فی الدنیا فطال فیها أمله،أعمیٰ ﷲ قلبه علیٰ قدررغبته فیها، ومن زهد فیها فقصرفیهاأمله،أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیً بغیرهدایة،وأذهب عنه العمائ،وجعله بصیرا )( ۱ )

''جو شخص دنیا کی طرف راغب ہوتاہے اسکی آرزوئیں طولانی ہوتی ہیں اور دنیا کی طرف اسکی رغبت کے مطابق ﷲ اسکے قلب کو اندھا کردیتاہے اور جو دنیا میں زاہد ہوتاہے اسکی آرزوئیں مختصر ہوتی ہیں اور ﷲ اسے تعلیم کے بغیر علم اوراسباب ہدایت کے بغیر ہدایت عطا کرتاہے۔اوراس سے اندھے پن کو دور کرکے اسکو بصیر بنا دیتاہے ''

اس روایت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ زہد ،سے آرزوئیںکم ہوجاتی ہیں اور اس کمی سے بصیرت اورہدایت ملتی ہے اسکے برعکس دنیا کی جانب رغبت سے آرزووں میں کثرت پیدا ہوتی ہے اور یہ کثرت اندھے پن کا سبب ہے تو آخر آرزووں کی قلت اور بصیرت کے درمیان کیا تعلق ہے ؟

اسکا راز یہ ہے کہ طویل آرزوئیںانسان کو دنیا میں اس طرح جکڑدیتی ہیں کہ انسان اس سے بیحدمحبت کرنے لگتا ہے اوردنیاکی محبت ا انسان اور خدا کے درمیان حجاب بن جاتی ہے اور جب آرزوئیں مختصر ہوتی ہیں تو یہ حجاب اٹھ جاتا ہے۔اور ظاہر ہے کہ جب قلب کے حجابات دور ہوجائیں گے تواس میں بصیرت پیدا ہوجائے گی ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۷ص۲۶۳۔

۲۳۷

(الزهد فی الدنیا قصرالأمل،وشکرکل نعمة،والورع عن کل ماحرّم ﷲ )( ۱ )

''دنیا میں زہد کا مطلب یہ ہے کہ آرزوئیں قلیل ہوں،ہر نعمت کا شکر ادا کیا جائے اور محرمات الٰہی سے پرہیز کیا جائے''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الزهد تقصیرالآمال،واخلاص الاعمال )( ۲ )

''آرزووںمیںکمی اور اعمال میں خلوص کا نام زہد ہے ''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(أیهاالناس،الزهادة قصرالأمل،والشکرعندالنعم،والتورع عندالمحارم،فانْ عزب ذلک عنکم،فلایغلب الحرام صبرکم،ولاتنسواعندالنعم شکرکم،فقدأعذرﷲالیکم بحججٍ مسفرةظاهرة،وکتبٍ بارزةالعذرواضحة )( ۳ )

''اے لوگوں:زہد امیدوں کے کم کرنے ،نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے اور محرمات سے پرہیز کرنے کا نام ہے ۔اب اگر یہ کام تمہارے لئے مشکل ہوجائے تو کم ازکم اتنا کرناکہ حرام تمہاری قوت برداشت پر غالب نہ آنے پائے اور نعمتوں کے موقع پر شکر کو فراموش نہ کردینا کہ پروردگار نے نہایت درجہ واضح اور روشن دلیلوں اور حجت تمام کرنے والی کتابوں کے ذریعہ تمہارے ہر عذر کا خاتمہ کردیا ہے ''

۲۔دنیاوی تاثرات سے نجات اورآزادی

دنیاوی نعمتیں ملنے سے نہ انسان خوشی محسوس کرے گا اور نہ ان سے محرومی پر محزون ہوگا ۔

امیرالمومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۱۶۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۹۳۔

(۳)نہج البلاغہ خطبہ ۸۱۔

۲۳۸

(فمن لم یأس علیٰ الماضی،ولم یفرح بالآ تی فقد أخذ الزهد بطرفیه )( ۱ )

''جو شخص ماضی پر افسوس نہ کرے اور ہاتھ آنے والی چیزوں سے مغرور نہ ہوجائے اس نے سارا زہدسمیٹ لیا ہے ''

امیر المومنین کے ہر کلام کی مانند حیات انسانی میں زہد کے نتائج کے بارے میں شاہکار کلام پایا جاتا ہے ہم یہاں اس کلام کو نہج البلاغہ سے نقل کر رہے ہیں ۔''اپنے کانوں کو موت کی آواز سنادو قبل اسکے کہ تمہیں بلالیاجائے دنیا میں زاہدوں کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ خوش بھی ہوتے ہیں تو ان کا دل روتا رہتاہے اور وہ ہنستے بھی ہیںتوان کا رنج و اندوہ شدیدہوتاہے۔وہ خود اپنے نفس سے بیزاررہتے ہیںچاہے لوگ ان کے رزق سے غبطہ ہی کیوں نہ کریں ۔افسوس تمہارے دلوں سے موت کی یاد نکل گئی ہے اور جھوٹی امیدوں نے ان پر قبضہ کرلیا ہے۔اب دنیا کا اختیار تمہارے اوپر آخرت سے زیادہ ہے اور وہ عاقبت سے زیادہ تمہیں کھینچ رہی ہے ۔تم دین خدا کے اعتبار سے بھائی بھائی تھے۔ لیکن تمہیں باطن کی خباثت اور ضمیر کی خرابی نے الگ الگ کردیا ہے کہ اب نہ کسی کا بوجھ بٹاتے ہو۔نہ نصیحت کرتے ہو۔نہ ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہواور نہ ایک دوسرے سے واقعاًمحبت کرتے ہو۔آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ معمولی سی دنیا کو پاکر خوش ہوجاتے ہو اور مکمل آخرت سے محروم ہوکر رنجیدہ نہیں ہوتے ہو۔تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے نکل جائے تو پریشان ہوجاتے ہو اور اسکا اثر تمہارے چہروں سے ظاہر ہوجاتاہے اور اس کی علیٰحدگی پر صبر نہیں کرپاتے ہو جیسے وہی تمہاری منزل ہے اور جیسے اس کا سرمایہ واقعی باقی رہنے والا ہے۔تمہاری حالت یہ ہے کہ کوئی شخص بھی دوسرے کے عیب کے اظہارسے باز نہیں آتا ہے مگر صرف اس خوف سے کہ وہ بھی اسی طرح پیش آئے گا ۔تم سب نے آخرت کو نظر انداز کرنے اور دنیا کی محبت پر اتحاد کرلیاہے اور ہر ایک کا دین زبان کی چٹنی بن کر رہ گیا

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۰ص۳۲۰،نہج البلاغہ حکمت ۴۳۹۔

۲۳۹

ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب نے اپنا عمل مکمل کرلیا ہے اور اپنے مالک کو واقعا خوش کرلیا ہے۔''( ۱ )

۳۔دنیاپرعدم اعتماد

انسانی نفس کے اوپر زہد کے آثار میں سے ایک اثریہ بھی ہوتا ہے کہ زاہد کبھی بھی دنیا پر اعتماد نہیں کرتا ۔انسان جب دنیا سے محبت کرنے لگتا ہے اور اس کا نفس دنیا میں الجھ جاتا ہے تو وہ دنیا پر بھروسہ کرتا ہے اوردنیا کو ہی اپناٹھکانہ اوردائمی قیام گا ہ مان لیتا ہے لیکن جب انسان کے اندر زہد کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اوروہ اپنے دل سے حب دنیا کونکال دیتا ہے تو پھراسے دنیا پر اعتبار بھی نہیں رہ جاتا اور وہ دنیا کو محض ایک گذرگاہ اور آخرت کے لئے ایک پُل تصور کرتاہے ۔

دنیا کے بارے میں لوگوں کے درمیان دو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں ۔کچھ افراد دنیا کو قیام گاہ مان کر اس سے دل لگالیتے ہیں اور کچھ لوگ دنیا کو گذر گاہ اور آخرت کے لئے ایک پل سمجھ کر اس سے دل نہیں لگاتے ۔دو نوںقسم کے افراد اسی دنیا میں رہتے ہیں اورخدا کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں مگر ان کے درمیان فر ق یہ ہے کہ پہلے گروہ کامنظور نظر خود دنیا ہوتی ہے اور وہ اسی کو سب کچھ مانتے ہیں یہاںتک کہ موت ان سے دنیا کو الگ کردیتی ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے کہ جو دنیا کو سب کچھ سمجھ کر اس سے دل نہیں لگاتا بلکہ اسے گذر گاہ اور پل کی حیثیت سے دیکھتا ہے لہٰذا جب موت آتی ہے تو دنیا کی مفارقت ان پر گراں نہیں گذرتی ہے۔

دنیا میں انسان کی حالت او راس میں اسکے قیام کی مدت کو روایات میں بہترین مثالوں کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے ایک مثال کے بموجب دنیامیں انسان کا قیام ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی سوار راستہ میںسورج کی گرمی سے پریشان ہوکر کسی سایہ داردرخت کے نیچے بیٹھ جاتا ہے اور تھوڑی دیر آرام کے بعد پھر اپنے کام کے لئے چل پڑتا ہے ۔ کیا ایسی صورت میں دنیا کو اپنا ٹھکانہ، دائمی قیام گاہ سمجھنا اور

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۳

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328