حکم اذاں

حکم اذاں0%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: صفحے: 328
مشاہدے: 55303
ڈاؤنلوڈ: 5072

تبصرے:

حکم اذاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 55303 / ڈاؤنلوڈ: 5072
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

صحیح بخاری کے ایک باب میں ایک عنوان ہے : "فی الرّکا ز الخمس"(دفینے میں خمس ہے)۔ مالک اور ابن ادریس کہتے ہیں کہ رکاز وہ مال ہے جو قبل از اسلام دفن کیا گیا تھا ۔ یہ تھوڑا ہو یا زیادہ اس میں خمس ہے ۔جبکہ معدنی ذاخائر رکاز یا دفینہ نہیں ہیں ۔رسول اللہ ص نے فرمایا ہے کہ رکاز میں خمس ہے ۔(1)

ابن عباس کہتے  ہیں کہ عنبر رکاز نہیں ہے ۔ وہ تو ایک چیز ہے جسے سمندر پھینکتا لیکن حسن بصری کہتے ہیں کہ عنبر اور موتی میں بھی خمس ہے ۔(2) اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غنیمت کا وہ مفہوم جس پر اللہ تعالی نے خمس واجب کیا ہے دار الحرب سے مخصوص  نہیں کیونکہ رکاز یا دفینہ وہ خزانہ ہے جو زمین کے اندر سےنکالا جائے ۔ یہ خزانہ ملکیت ہوتا ہے اسی کی جو اس کو نکالے لیکن اس پر خمس کی ا دائیگی واجب ہے اس لیے کہ دفینہ بھی مال غنیمت ہے ۔ اسی طرح عنبر اور موتی جو سمندر سے نکالے جائیں ان پر بھی خمس نکالنا واجب ہے ، کیونکہ وہ بھی مال غنیمت ہیں ۔بخاری نے اپنی صحیح  میں جو روایات بیان کی ہیں ان سے اور مذکور بالا احادیث سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اہل سنت کے اقوال اور ان کے افعال میں تضاد ہے ورنہ بخاری تو اہل سنت کے معتبر ترین محدث ہیں ، ان کی روایات پر عمل نہ کرنے کے کیا معنی ؟شیعوں کی ہمیشہ مبنی بر حقیقت ہوتی ہے ۔ اس میں نہ کوئی تضاد ہوتا ہےنہ اختلاف ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ اپنے عقائد میں بھی اور احکام میں بھی ائمہ اہلبیت ع کی طرف رجوع کرتے ہیں جن کی شان میں آیہ تطہیر  اتری ہے اورجن کو رسول اللہ  نے کتاب اللہ کے ہمدوش قراردیا ہے ۔ پس جس نے ان کا دامن پکڑ لیا وہ گمراہ نہیں ہوسکتا اور جس نے ان کی پناہ حاصل کرلی وہ محفوظ ہوگیا ۔علاوہ ازیں اسلامی حکومت کے قیام  کے لیے ہم جنگوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے ۔یہ بات

---------------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 134 باب فی الرّکاز الخمس

(2):- صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 136 باب ما یستخرج من البحر

۲۰۱

اسلام کی وسیع النظری  اور صلح پسندی کے خلاف ہے ۔ اسلام کوئی سامراجی حکومت نہیں ہے جس کامقصد دوسری قو موں کا استحصال کرنا ، ان کے وسائل سے ناجائز فائدہ اٹھانا اور انھیں لوٹنا ہو ۔ یہ تو وہ الزام  ہےجو اہل مغرب ہم پر لگاتے ہیں ۔ جو اسلام اور پیغمبر اسلام  کا ذکر حقارت کے ساتھ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام طاقت اور تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور اس کا مقصد غیر قوموں کے وسائل پر ناجائز قبضہ کرنا ہے ۔

مال زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔خصوصا ایسی حالت میں جبکہ اسلام کا اقتصادی نظریہ یہ ہے کہ لوگوں کو معاشی تحفظ کی ضمانت دی جائے جسے آج کال کی اصطلاح میں سوشل سیکیورٹی کہا جاتا ہے اور ہر فرد  کی ماہوار یا سالانہ  کفالت کا انتظام کیاجائے نیز معذوروں اورحاجت مندوں کو باعزت روزی کی ضمانت فراہم کی جائے ۔

ایسی حالت میں اسلامی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس آمدنی پر انحصار کرے جو اہل سنت زکات کے نام سے نکالتے ہیں جس کی مقدار زیادہ زیادہ ڈھائی فیصد ہوتی ہے ۔یہ تناسب اتنا کم ہوتا ہے کہ حکومت کی ایسی ضروریات کے لیے ناکافی  ہے مثلا افواج کو کیل کانٹے سے لیس کرنا ، اسکول اور کالج بنانا ، ڈسپنسر یاں اور ہسپتال قائم کرنا ، سڑکیں اور پل تعمیر کرنا وغیرہ ۔ حالانکہ حکومت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر شہر کو اتنی آمدنی کی ضمانت دے جو اس کے گزربسر کے لیے کافی ہو ۔ اسلامی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی اور اپنے اداروں اور افرادکی بقا اورترقی کے لیے خوں ریز جنگوں پن انحصار کرے یا ان مقتولین کی قیمت پر ترقی کرے جو اسلام میں دلچسپی نہ رکھنے کی پاداش میں قتل کر دیے گئے ہوں ۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ سب بڑی اور ترقی یافتہ حکومتیں تمام اشیائے صرف پر ٹیکس لگاتی ہیں جس کی مقدار تقریبا بیس فیصد ہوتی ہے ، خمس کی بھی اتنی ہی مقدار اسلام نے اپنے ماننے والوں پر فرض کی ہے ۔ اہل فرانس  جو T.V.A ادا کرتے ہیں اس کی مقدار 1865 فیصد ہوتی ہے ۔ اسے کے ساتھ اگر انکم ٹیکس کا اضافہ کرلیا جائے تو یہ مقدار 20 فیصد یا کچھ زیادہ ہوجاتی ہے ۔

۲۰۲

ائمہ اہل بیت ع کو قرآن کے مقاصد کا دوسروں سے زیادہ  علم  تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ وہ ترجمان قرآن تھے ۔ اسلامی  حکومت کی اقتصادی  اور اجتماعی  حکمت عملی وضع کرنا ان کا کام تھا بشرطیکہ ان کی بات مانی جاتی مگر افسوس کہ اقتدار اور اختیار دوسروں کے ہاتھ میں تھا ، جنھوں نے طاقت کے بل پر زبردستی خلافت پر قبضہ کرلیا تھا اور متعدد صحابہ صالحین  کو قتل کردیا تھا اور اپنی سیاسی اور دنیوی مصلحتوں کے مطابق اللہ کے احکام میں ردّ  وبدل کردیا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۔ نتیجۃ امت پستی کے تحت الثری میں گرگئی جس سے وہ آج تک نہیں ابھرسکی ۔

ائمہ کی تعلیمات نے ایسے افکار اور نظریات کی شکل اختیار کر لی جن پر شیعہ آج بھی یقین رکھتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کی تطبیق کی کوئی صورت نہ رہی شیعوں کو مشرق ومغرب میں ہر طرف دھتکار دیا گیا ۔ اموی اور عباسی صدیوں تک ان کا پیچھا کرتے رہے ۔

جب یہ دونوں حکومتیں ختم ہوگئیں تب جاکر شیعوں کو ایسا معاشرہ قائم کرنے کا موقع ملاجس میں وہ خمس ادا کرسکتے تھے ۔ پہلے وہ خمس خفیہ طور پر ائمہ علیھم السلام  کو ادا کرتے تھے ، اب وہ اپنے مرجع تقلید کو امام مہدی علیہ السلام کے نائب کی حیثیت میں اداکرتے ہیں ۔ اور مراجع تقلید اس رقم  کو شرعی کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔  مثلا وہ اس رقم سے دینی مدارس ،علمی مراکز ، اشاعت اسلام کے لیے اشاعتی ادارے نیز خیراتی ادارے ، پبلک لائبریاں اور یتیم خانے وغیرہ قائم کرتے  ہیں ۔دینی علوم کے طالب علموں کو ماہانہ وظائف وغیرہ بھی دیتے ہیں ۔

اس سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ شیعہ علماء حکومت کے دست نگر نہیں اس لیے کہ خمس کی رقم ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں بلکہ وہ خود مستحقین کو ان کے حقوق پہنچاتے ہیں ۔ اس لیے وہ حکمرانوں کا تقرّب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔اس کے بر خلاف ، علمائے اہل سنت حکام وقت کے دست نگر اور ان کے ملازم ہیں ۔ حکام اپنی مصلحت کے مطابق جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں اور جس کو

۲۰۳

چاہتے ہیں نظر انداز کرتے ہیں ۔ اس طرح علماء کا تعلق عوام سے کم اور ایوان اقتدار سے زیادہ ہوگیا ہے ۔

اب آپ خود دیکھیے کہ خمس کے حکم کی تاویل کا امت کے معاملات پر کیا اثر پڑا ۔ اس صورت میں ان  مسلمان نوجوانوں کو کیسے الزام دیا جاسکتا ہے جنھوں نے اسلام کو چھوڑ کر کمیونزم کا راستہ اس لیے اختیار کرلیا کہ انھیں کمیونزم کے نظریہ میں اس نظام کی نسبت جو ہمارے یہاں رائج ہے ،دولت کی تقسیم قوم کے تمام افراد میں زیادہ منصفانہ نظرآئی۔

ہمارے یہاں تو ایک  ظالم طبقہ ایسا ہے جو ملک کی ساری دولت پر قبضہ جمائے ہوئے ہے جبکہ ملگ کی غالب افلاس میں دن گزار رہی ہے ۔ جن دولت مندوں کے دل میں تھوڑا بہت اللہ کا خوف ہے ، وہ بھی سال میں ایک مرتبہ زکات نکالنے کو کافی سمجھتے ہیں جو فقط ڈھائی فیصد ہوتی ہے اور جس سے غریبوں کی سالانہ ضرورت کا دسواں حصہ بھی پورا نہیں ہوتا ۔

"صراط عليّ حقّ ٌ نمسّكه"

۲۰۴

تقلید

شیعہ کہتے ہیں کہ فروع دین شریعت کے وہ احکام ہیں جن کا تعلق ان اعمال سے ہے جو عبادت میں جیسے : نماز ، روزہ ، زکات اور حج وغیرہ ۔ ان کے بارے میں مندرجہ ذیل تین صورتوں میں سے کسی ایک پر عمل واجب ہے :-

الف:- یا تو آدمی خود اجتہاد کرے اور احکام کے دلائل پر غور کرے (بشرطیکہ اس کا اہل ہو)۔

ب:- یا احتیاط پر عمل کرے بشرطیکہ  احتیاط کی گنجائش ہو ۔

ج:- یا پھر کسی جامع الشرائط مجتھد کی تقلید کرے ۔

جس کی تقلید کی جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندہ ، عاقل ، عادل  پر ہیز گار اور دین پر عامل ہو۔ اپنی خواہشات نفسانی پر نہ چلتا ہو بلکہ احکامات الہی  کی پیروی کرتا ہو۔

فرعی احکام میں اجتہاد(1) تمام مسلمانوں پر واجب کفائی ہے ،اگر کوئی ایک بھی

--------------------

(1):-اجتہاد کی اصطلاح  شیعوں کے ہاں بھی موجود ہے لیکن اس کے اس کے وہ معنی جو سنیوں نے عملی طور پر اسے دے دیے ہیں ۔ سنیوں کے ہاں عملا اجتہاد میں "ذاتی رائےکے اظہار" کا عنصر بھی موجود ہے جبکہ  شیعوں میں اجتہاد فقط احکام الہی کو سمجھنے  کی کوشش کا نام ہے اور مجتہد کسی طور پر بھی اپنی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کرتا۔ البتہ اصطلاح کی تعریف کرتے وقت دونوں مکاتب کی اصولی کتابوں میں ایک ہی جملہ استعمال ہوتا ہے لیکن جہاں تک عمل کا تعلق ہے سنیوں  میں فقیہ یا غیر معصوم  صحابی کی رائے   کا احکام میں دخل ہے ۔جبکہ شیعوں کا مکتب صرف خدا اور رسول کے احکامات وارشادات کو معتبر گردانتا ہے ۔مثلا امام محمد باقر ع یا امام جعفر صادق  ع یہ نہیں کہتے تھے کہ انا اقول :(میں کہتا ہوں ) کہ انا احرّم (میں حرام کرتاہوں ) بلکہ یہی کہتے تھے کہ رسول اللہ نے یوں فرمایا ہے : یا خدانے یوں فرمایا ہے ۔یہ مکتب اہل بیت ع کا امتیاز ہے ۔

مکتب اہل بیت ع کے اصول تفکر کے نمونے کے طورپر ہم آپ کے لیے ایک بزرگ عالم  

۲۰۵

مسلمان جس میں اس کا م کی علمی لیاقت اور استعداد ہے ، اس کام کو کرلے تو باقی مسلمانوں سےیہ فریضہ ساقط ہوجاتا ہے ۔

شیعہ ان علماء کا اجتہاد کافی سمجھتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی اجتہاد کا رتبہ حاصل کرنے میں صرف کی ہو ۔ مسلمانوں کے لیے ایسے مجتہد کی تقلید کرنا اور فروع دین میں اس کی طرف رجوع کرنا جائز ہے ۔لیکن اجتہاد کا رتبہ حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں اور نہ اس کا حصول سب کے لیے ممکن ہے ۔ اس کے لیے بہت وقت اور بہت وسیع علمی  معلومات کی ضرورت ہوتی ہے ، اوریہ سعادت صرف اسے ہی میسّر آتی ہے جو سخت محنت  اور کوشش کرتا اور اپنی عمر تحقیق وتعلم میں کھپاتا ہے ۔ ان میں بھی اجتہاد  کا رتبہ صرف خاص خاص خوش نصیبوں ہی کو حاصل ہوتا ۔

رسو ل اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :

"من  أراد الله به خيرا يفقّهه فی الدين"

اللہ جس کے ساتھ نیکی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطاکردیتا ہے ۔

اس سلسلے میں شیعوں کا  یہ قول اہل سنت کے ایسے ہی قول سے مختلف  نہیں ۔ صرف بارے میں اختلا  ہے کہ تقلید کے لیے مجتہد کا زندہ ہونا ضروری ہے یا نہیں ۔

لیکن شیعوں اور سنیوں میں واضح اختلاف اس میں  ہے کہ تقلید پر عمل کیسے

-------------------

عثمان بن سعید عمری کا قول ہے نقل کرتے ہیں جو حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء کے نائب خاص تھے جب انھوں نے ایک شیعہ کے سوال کے جواب میں ایک عمل کی حرمت کا فیصلہ دیا تو ان الفاظ کا اضافہ کیا :

"میں یہ فیصلہ اپنی طرف سے نہیں دے رہا ۔ میرے لیے کسی صورت میں روا نہیں کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قراردوں "(یعنی میں فقط امام علیہ السلام کا قول نقل کررہا ہوں )اصول کافی جلد 1 ۔وسائل الشیعہ جلد 18 صفحہ 100)(ناشر)

۲۰۶

کیا جائے۔ شیعوں کا اعتقاد ہے کہ وہ مجتہد  جس میں مندرجہ ذیل بالا سب شرائط پائی جاتی ہوں امام علیہ السلام کا نائب ہے اور غیبت امام کے زمانے میں وہ حاکم اور سربراہ ہے اور مقدمات کا فیصلہ کرنے اور لوگوں پر حکومت کرنے کے اسے وہی اختیارات حاصل ہیں جو امام کوہیں ۔ مجتہد کے احکام کا انکار خود امام کا انکار ہے ۔

شیعوں کے نزدیک جامع الشرائط مجتہد کی طرف صرف فتوے کے لیے ہی رجوع نہیں کیا جاتا بلکہ اسے اپنے مقلدین پر ولایت عامہ بھی حاصل ہوئی ہے ۔ اس لیے مقلدین اپنے مقدمات کے تصفیہ کے لیے بھی اپنے مجتہد ہی سے رجوع کرتے ہیں ، جو خمس اور زکات میں امام زمانہ کے نائب کی حیثیت سے شریعت کے مطابق تصرف کرتا ہے ۔ لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک مجتہد کا یہ مرتبہ نہیں ۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ امام نائب رسول ہوتا ہے ۔ فقہی مسائل میں البتہ  وہ صاحب مذاہب اربعہ میں کسی ایک کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ ان ائمہ اربعہ کے نام یہ ہیں :

(1):-ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بن زوطی (سنہ 80 ھ تا سنہ 150ھ)۔(2):-مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر اصبحی (سنہ 93 ھ تا سنہ 179 ھ)۔(3):- محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان شافع(سنہ 150 ھ تا سنہ 198ھ)۔(4):- احمد بن محمد بن جنبل بن ہلال (سنہ 164 ھ تا سنہ 241ھ)

موجودہ  دور کے بعض اہل سنت ان میں کسی ایک معین امام کی تقلید نہیں کرتے ، بلکہ اپنی مصلحت کے مطابق بعض مسائل میں کسی ایک امام کی تقلید کرتے ہیں اور کچھ دوسرے مسائل میں کسی دوسرے امام کے قول پر عمل کرتے ہیں ۔ سید سابق جنہوں نے چاروں اماموں کے فقہ سے ماخود ایک کتاب مرتب کی ہے ، ایسا ہی کیا ہے  کیونکہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ اصحاب مذاہب کا اختلاف رحمت ہے ۔ اس لیے اگر کسی مالکی کو  اپنی مشکل کا حل اپنے امام کے یہاں نہ ملے اور امام ابو حنیفہ کے یہاں مل جائے تو وہ امام ابو حنیفہ کے قول پر عمل کرلے ۔میں اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں تاکہ مطلب واضح ہوجائے : ہمارے یہاں تیونس میں ایک بالغ لڑکی تھی ، یہ اس زمانے کی بات ہے

۲۰۷

جب یہاں قاضی کو رٹس ہوا کرتی تھیں ۔ اس لڑکی کو ایک شخص سے محبّت ہوگئی ۔ یہ اس سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر اس کا باپ اللہ جانے کیوں اس سے اس کے نکاح پر راضی نہیں تھا ۔ آخر باپ کے گھر سے بھاگ گئی اور اس نے اس نوجوان سے باپ  کی اجازت  کے بغیر نکاح کرلیا ۔ باپ نے شوہر کے خلاف دعوی دائر کردیا ۔ جب لڑکی اپنے شوہر  کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئی تو قاضی نے اس سے گھر سے بھاگنے اور ولی سے اجازت کے بغیر نکاح کرنے کی وجہ سے پوچھی تو اس نے کہا : "جناب عالی ! میری عمر 25 سال ہے ۔ میں  اسے شخص سے اللہ رسول  کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق شادی کرنا چاہتی تھی ، لیکن میرا باپ میرا بیاہ ایسے شخص سے کرنا چاہتا تھا جو مجھے بالکل پسند نہیں تھا ۔میں نے امام ابو حنیفہ کے مذہب کے مطابق شادی کرلی کیونکہ امام ابو حنیفہ کے قول کے مطابق مجھے بالغ ہونے کی وجہ سے حق ہے کہ میں جس سے چاہوں شادی کرلوں"۔

اللہ بخشے قاضی صاحب جنھوں نے یہ قصہ مجھے خود سنایا تھا ، کہنے لگے : جب ہم نے اس مسئلہ کی تحقیق کی تو معلوم ہواکہ لڑکی ٹھیک کہتی تھی۔ میرا خیال ہے شاید کسی جاننے والے عالم نے سکھایا تھا کہ عدالت میں جاکر کیا بیان دے ۔

قاضی صاحب کہتے تھے کہ میں باپ کادعوی خارج کردیا اور نکاح کو باقی رکھا ۔باپ غصہ میں بھرا ہوا عدالت سے باہر نکلا ۔وہ ہاتھ مل رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ کتیا حنفی ہوگئی "یعنی امام مالک کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ کا مذہب اختیار کرلیا ۔ بعد میں وہ شخص کہتا تھا کہ میں اس کتیا کو عاق کردوں گا ۔

یہ مسئلہ اجتہادی اختلاف کا ہے :-

امام مالک کی رائے ہے کہ کنواری باکرہ لڑکی کا نکاح سرپرست کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔بلکہ اگر مطلقہ یا بیوہ ہو تب بھی ولی کی اجازت ضروری ہے  ۔ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ بالغہ چاہے باکرہ ہویا مطلقہ و بیوہ اسے خود اپنا شوہر  پسند کرنے اور عقد کرنے کااختیار ہے ۔ تو اس فقہی مسئلے نے باپ بیٹی میں جدائی ڈال دی ۔ یہاں تک کہ باپ نے بیٹی کو عاق کردیا ۔

۲۰۸

پہلے زمانے میں تیونس میں اکثر باپ مختلف وجوہ سے بیٹیوں کو عاق کردیا کرتے تھے ،جن میں سے ایک وجہ یہ ہوتی تھی کہ لڑکی جس سے شادی کرناچاہتی تھی اس کے ساتھ بھاگ گئی ۔ عاق کرنے کا انجام بڑا خراب ہوتا ہے کیونکہ جب باپ بیٹی کو میراث سے محروم کردیتا ہے تو لڑکی اپنے بھائیوں کی دشمن بن جاتی ہے اور بھائی خود  بھی بہن کوچھوڑ دیتے ہیں ، کیونکہ بہن کے بھاگنے کو بھائی اپنے لیے کلنک کا ٹیکہ سمجھتے ہیں ۔  اس طرح معاملہ ویسا نہیں ہے جیسا کہ اہل  سنت  سمجھتے ہیں کہ اصحاب مذاہب فقہاء کا اختلاف  ہمیشہ رحمت ہوتا ہے ۔ کم از کم یہ اختلاف ہر مسئلے میں رحمت  نہیں ہے ، کیونکہ ہمارے  لیے معاشرتی اور قبائلی اختلاف اور روایات کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے ۔

ایک ایسے معاشرے میں جس کی نشوونما مالکی افکار پر ہوئی ہو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کو یہ حق ہو کہ گھر سے بھاگ جائے اور باپ کی اجازت  کے بغیر کسی سے نکاح کر لے ۔ جو عورت ایسا کرے گی اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا  کہ اس نے گویا اسلام کا انکار کرلے ۔ جو عورت ایسا کرےگی اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے گویا اسلام کا انکار کیا یا ایک ناقابل معافی گناہ کا ارتکاب کیا ۔ جبکہ دوسرے مذہب کی رو سے اس نے ایسا کا م کیا جو نہ صرف جائز ہے بلکہ اسے اس  کا حق بھی ہے ۔ اسی لیے مالکی معاشرے کو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے حنفی معاشرے میں نسبتا جنسی آزادی اور آوارگی ہے ۔ ان مذہبی اختلاف  کے نتیجے میں عورت اپنے بہت سے حقوق سے محروم ہے اور وہ اس صورت حال کا الزام دین اسلام کےو دیتی ہے ۔ اسی لیے ہم ان بعض نوجوان عورتوں کو الزام نہیں دے سکتے جو اپنے مذہب کا اس لیے انکار کرنے لگتی ہیں کیونکہ ان کے بڑے ان کے ساتھ خلاف شریعت ظالمانہ سلوک کرتے ہیں ۔

اس مثال کے بعد ہم پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں :-

اہل سنت کے نزدیک جس امام کی تقلید  کی جائے اس تقلید سے وہ درجہ حاصل نہیں ہوجاتا جس کے شیعہ قائل ہیں یعنی نیابت رسول کا درجہ ۔ اس  کی وجہ شوری اور "خلیفہ یا امام کے انتخاب کا نظریہ ہے ۔ اہل سنت نے خود اپنے

۲۰۹

آپ کو یہ حق دے دیا ہے کہ وہ جس کو چاہیں خلیفہ یا بہتر الفاظ میں امام بنادیں ۔ اسی طرح ان کے خیال میں انھیں یہ بھی حق ہے کہ وہ چاہیں تو امام کو معزول کردیں  یا اس کے بجائے جس اپنی دانست میں بہتر سمجھیں اسے مقرر کردیں ، اس طرح درحقیقت وہ امام کے بھی امام ہوگئے ۔یہ صورت شیعہ عقیدہ کے بالکل برعکس ہے اگر ہم اہل سنت کے پہلے امام یعنی ابو بکر صدیق پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ انھوں نے امت سے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا :

" أيّهاالنّاس لقد ولّيت عليكم ولست بخيركم فإن أطعتُ فأعينوني وإن عصيتُ فقوّموني......."

لوگو! مجھے تمھارا والی چن لیا گیا ہے اگر چہ میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں ۔چنانچہ جب تک میں صحیح راستے پر چلوں  میرے ساتھ تعاون کرو اور جب میں بھٹک جاؤں ، تو مجھے صحیح راہ پر چلادو۔۔۔۔۔"۔

اس طرح ابو بکر خود اعتراف کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے ان کو پسند کیا ہے اور ان کی بیعت  کی  ہے انھیں یہ بھی حق ہے کہ معصیت اورخطا کی صورت میں وہ ان کے مقابلے میں ڈٹ جائیں ۔

اس کے برعکس  ، جب ہم شیعوں کے پہلے امام یعنی علی بن ابی طالب ع پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ ان کی امامت کے قائل ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ ان کو امام مان کر  دراصل  حکم خداوندی کی تعمیل کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک امام علی ع کو ایسی ہی ولایت مطلقہ کیا ہو بھلا اس کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کوئی خطا کرے کیس معصیت کا مرتکب ہو ؟اسی طرح امت  کے لیے بھی یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ اس کے کسی حکم کی  مخالفت کرے یا اس کا مقابلہ کرے کیونکہ ارشادباری تعالی ہے :

"وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُبِيناً "

۲۱۰

چونکہ حضرت علی ع کو مسلمانوں کا امام اللہ اور اس کے رسول ص نے مقرر کیا تھا: اس لیے ان کی حکم عدولی نہیں کی جاسکتی  تھی نہ یہ ممکن تھا کہ حضرت علی  ع کسی معصیت کا ارتکاب کریں اسی لیے رسول اللہ  ص نے فرمایا تھا :

"عليٌّ مع الحقّ والحقّ مع عليّ ٍ ولن يفرقا حتّى يردا عليّ الحوض ."

علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے ۔ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے جب تک میرے پاس حوض پر نہ آجائیں"(1) ۔

تقلید کے بارے میں فریقین کا استدلال ان کے دو مختلف نظریوں کی بنیاد پر آسانی سے سجمھ میں آسکتا ہے ۔ مطلب ہے سنیوں کا شوری کا نظریہ  اور شیعوں کا نص کا نظریہ۔

اس کے بعد تقلید  کے متعلق شیعوں  اور سنیوں میں صرف ایک اور اختلافی مسئلہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ ہے "تقلید میت کا مسئلہ "۔

اہل سنت جس ائمہ کی تقلید کرتے ہیں انھیں فوت ہوئے صدیاں گزرچکی ہیں ۔ اسی زمانے کے بعد سے اہل سنت کے یہاں  اجتہاد  کا دروازہ بند ہے ۔ ان ائمہ  کےبعد جو علماء ہوئے ان کی ساری توجہ صرف اگلی کتابوں کی شرحیں لکھنے اور مذاہب اربعہ کے مطابق فقہی مسائل کے نظم اور نثر میں مجموعے مرتب کرنے پر مرکوز رہی ۔ اب چونکہ بہت سے ایسے مسائل پیدا ہوگئے ہیں جن کا ائمہ کے زمانے میں وجود بھی نہیں تھا ۔ اس لیے بعض معاصرین آواز اٹھارہے ہیں کہ زمانے کی مصلحت کا

---------------------------

(1):- محمد بن عیسی ترمذی جامع ترمذی جلد 5 صفحہ 297 ۔علاء الدین شقی ہندی کنزالعمال جلد 5 صفحہ 30 ۔محمد بن عبداللہ  حاکم نیشاپوری مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 124۔ جار اللہ زمخشری ربیع الابرار ۔ ابن حجر ہیثمی مکی صواعق محرقہ  صفحہ 122 ۔ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد 2 صفحہ 572۔حافظ ابو بکر خطیب بغدادی تاریخ بغداد جلد 14 صفحہ 321 ۔ حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق جلد 3 صفحہ 119 ۔ ابن قتیبہ دینوری الامامۃ والسیاسۃ جلد 1 صفحہ 73۔

۲۱۱

 تقاضا یہ ہے کہ اجتہاد کا دروازہ پھر سے کھول دیا جائے ۔

اس کے برعکس ، شیعہ میت کی تقلید جائز نہیں سمجھتے اور اپنے تمام احکام کے بارے میں ایسے زندہ مجتہد  کی طرف رجوع کرتے ہیں جس  میں وہ سب شرائط پائی جاتی ہون جن کا ہم نے گزشتہ اوراق میں ذکر کیا ہے یہ صورت امام معصوم کی غیبت کے زمانے میں ہے ۔ جب تک امام معصوم دوبارہ ظاہر نہیں ہوتے ، شیعہ قابل اعتماد علماء ہی سے رجوع کرتے رہیں گے ۔

آج بھی ایک سنّی مالکی مثلا کہتا ہے کہ امام مالک قول کے مطابق یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے ۔ حالانکہ امام مالک  کو فوت  ہوئے چودہ صدیاں گزرچکی ہیں ۔یہی صورت امام ابو حنیفہ ، امام شافعی اور امام احمد بن جنبل کے پیرو کاروں کے ساتھ ہے  کیونکہ یہ سب مذاہب اور ائمہ ایک ہی  زمانے میں تھے اور ان کا ایک دوسرے سے  استاد شاگرد کا تعلق تھا ۔ اہل سنت اپنے ائمہ  کے معصوم ہونے کے بھی قائل نہیں ۔ نہ خود ان ائمہ نے کبھی عصمت کا دعوی کیا ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ ائمہ جو اجتہاد کرتے ہیں اس  میں خطا اور صواب دونوں کا احتمال ہے ۔ صواب کی صورت میں انھیں دو اجر ملتے ہیں اور خطا کی صورت میں ایک اجر ۔ بہر کیف اجر ہر اجتہاد پر ملتا ہے ۔

شیعوں کے نزدیک تقلید کے دو دور ہیں :

۔ پہلا دورائمہ اثناعشر کا دور ہے ۔ یہ مرحلہ تقریبا ساڑھے تین سوسال پر محیط ہے ۔ اس دور میں ہر شیعہ امام معصوم کی تقلید کرتا تھا اور امام کوئی بات اپنی رائے یا اپنے اجتہاد  سے بیان نہیں کرتے تھے ۔ وہ جو کچھ کہتے تھے اسی علم اور ان روایات  کی بنیاد پر کہتے تھے جو انھیں ابا عن جد رسول اللہ ص سے پہنچی تھیں ۔ مثلا وہ کسی سوال کے جواب میں اس طرح کہتے تھے :"روایت بیان کی میرے والد نے ، انھوں یہ روایت سنی اپنے نانا سے ، انھوں نے جبریل سے انھوں نے اللہ عزوجل  سے "(1)

--------------------

(1):- ہشام بن سالم اورحمّاد بن عیسی سے روایت ہے  کہ انھوں نے کہا کہ ہم نے امام جعفر صادق ع کو

۲۱۲

۔ دوسرا دور زمانہ غیبت کا دور ہے جو ابھی تک چل رہا ہے ۔ اب شیعہ یہ کہتا ہے کہ یہ چیز آیت اللہ خوئی کی رائے کے مطابق  یا آیت اللہ خمینی کی رائے کے مطابق حلال یا حرام ہے ۔یہ دونوں(1) مجتہد زندہ ہیں ۔ ان کی رائے سے مراد ہے  قرآن اور ائمہ اہل بیت ع کی روایات کے مطابق سنت سے احکام کے استبناط  میں ان کا اجتہاد  ،ائمہ  اہل بیت  ع کی روایات کےبعد دوسرے درجے میں صحابہ عدول یعنی معتبر صحابہ کی روایات ہیں ۔ ائمہ اہل بیت ع کو ترجیح اس لیے ہے کہ وہ شریعت کے بارے میں اپنی رائے سے قطعی احتراز کرتے ہیں اور اس کے قائل ہیں کہ :

------------------------

یہ فرماتے ہوئے سنا کہ :

"میرے حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے دادا کی حدیث ہے اور میرے داداکی حدیث  حسین کی حدیث ہے اور  حسین  کی حدیث حسن کی حدیث ہے اور حسن  کی حدیث امیر المومنین علیھم السلام کی حدیث ہے اور امیر المومنین کی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے اور رسول اللہ ص کی حدیث ارشاد الہی ہے "۔(اصول کافی جلد 1 صفحہ 35)

عنبسہ روایت کرتے ہیں کہ

"ایک شخص امام جعفر صادق علیہ السلام سے کوئی مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا ۔ اس  پر اس شخص نے کہا کہ اگر ایسا اور ایسا ہوتا تو اس میں دوسرا قول نہ ہوتا ۔ آپ نے فرمایا ۔" جب کبھی ہم کسی مسئلے کاجواب دیں تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے  اورہم کوئی جاوب اپنی رائے سے نہیں دیتے "۔(بصائر الدرجات صفحہ 300-301)

(1):- جن دنوں مصنف نے یہ کتاب لکھی تھی ، آیت اللہ خمینی حیات تھے ۔

۲۱۳

"مامن شئ ٍإلّا ولله فيه حكمٌ"

   یعنی کوئی ایسی چیز نہیں جس کے بارےمیں اللہ کا حکم نہ ہو ۔

اگر کسی مسئلہ کے بارے میں ہمیں یہ حکم دستیاب نہ ہو تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالی نے اس مسئلہ کو نظر انداز کردیا ہے ۔ بلکہ یہ  ہمارا قصور ناواقفیت ہے جس کی وجہ سے ہمیں اس حکم کا علم نہیں ہوسکا ۔کسی چیز کا علم نہ ہونا اس کی دلیل نہیں کہ اس کا وجود ہی نہیں ۔ اللہ سبحانہ کا قول ہے :

"مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ"

اس کتاب میں ہم نے کوئی چیز نظر انداز نہیں کی۔(سورہ انعام ۔آیت 38)

وہ عقائد  جن پر سنت شیعوں کو الزام دیتے ہیں

شیعوں کے کچھ عقائد ایسے ہیں جن پر اہل سنت محض اس تعصب کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں جو امویوں اور عباسیوں نے اس لیے پھیلایا تھا  کیونکہ وہ امام علی ع سے بغض اور کینہ رکھتے تھے یہاں تک کہ امویوں نے علی الاعلان 80 برس تک  منبروں سے افتخار ہر نبی وہر ولی حضرت علی ع پر لعنت کی(1) اس لیے اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ یہ لوگ ہر اس شخص کو گالیاں دیتے تھے اور اس پر ہر طرح کے بہتان  باندھتے تھے جس کا ذرا بھی علی ع کی جماعت سے تعلق ہو ۔ نوبت یہاں  تک پہنچ گئی تھی مگر کسی کو یہ کہا جاتا تھا کہ تو یہودی ہے تو وہ اس کا اتنا برا نہیں مانتا تھا جتنا اگر اس کو یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ تو شیعہ ہے ۔ ان کے حامیوں اور پیروکاروں کا بھی ہر زمانے میں اور ہرملک میں یہی طریقہ رہا۔یہاں تک کہ اہل سنت کے لیے لفظ شیعہ ایک گالی بن گیا ۔ کیونکہ شیعوں کے عقائد مختلف تھے اور سنیوں کی  جماعت سے باہر تھے ، اس لیے سنی ان پر جو چاہتے الزام لگادیتے تھے ، جس طرح چاہتے نام دھرتے تھے اور ہر بات میں ان کے طریقے کے

----------------------

(1):- تفصیلات کے لیے دیکھیے تاریخ عاشورا ،مطبوعہ تعلیمات اسلامی ۔کراچی پاکستان

۲۱۴

خلاف کرتے تھے ۔(1)

آپ کو شاید علم ہو کہ علمائے اہل سنت میں سے ایک مشہور عالم(2) کا کہنا ہے تھا کہ "اگر چہ دائیں ہاتھ میں انگھوٹھی پہننا سنت رسول ہے ، لیکن چونکہ یہ شیعوں کا شعار بن گیا ہے اس لیے اس کا تر ک واجب ہے"۔

اور سنئے حجۃ الاسلام  ابو حامد غزالی کہتے ہیں کہ " قبر کی سطح کو ہموار کرنا اسلام میں مشروع ہے مگر رافضیوں نے اسے اپنا شعار بنالیا ہے ،اس لیے ہم اسے چھوڑ کے قبروں کو اونٹ کے کوہان کی شکل دے دی "۔

---------------------

(1):- آج بھی بعض اتنہا پسند حلقے یہ پروپیگنڈے کرتےہیں کہ " شیعہ کافر ہیں ، سبائی ہیں اور ان کی جان اور ان کا مال  محترم نہیں ہے ، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے "۔اس طرح انھوں نے نفرت اور افتراق کا پنڈورا بکس کھول دیا ہے ۔ لیکن ہمارے علماء ہمیشہ ملت کی وحدت ویگانگت  کے داعی رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جو کوئی " لا الہ الا اللہ محمد رسو ل اللہ "کہہ دے وہ مسلمان ہے اور اس کی جان اور املاک محترم ہیں ۔

تاریخ گواہ ہے کہ جمال الدین افغانی سے لے کر آیت اللہ خمینی تک ہمارے علماء نے اتحاد  اسلامی کیلئے بھر پور کوشش کی ہیں ۔ہمارے ان ہی علماء میں سے ایک آیت اللہ کاشف الغطاء ہیں جنھوں نے قابل قدر سیاسی وسماجی خدمات انجام دی نہیں ۔ سنہ 1350 ھ میں جب آیت اللہ کاشف الغطاء موتمر اسلامی میں شرکت کے لیے القدس الشریف پہنچے تو موتمر کے بیشتر مندوبین نے آپ ہی کی اقتدا میں مسجد اقصی میں نماز پڑھی تھی ۔(ناشر)

(2):-یہ الھدایہ کے مولف شیخ الاسلام براہانن الدین علی بن ابی بکر المرغینانی (593ھ)ہیں ۔

زمخشری نے اپنی کتاب ربیع الابراء میں لکھا ہے کہ

" معاویہ بن ابی سفیان نے سب سے پہلے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا شروع کی جو خلاف سنت ہے "۔

لہذا ہم معاویہ کے طرفدار سے اتنا ہی عرض کریں گے کہ

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ ،ذرا بند قبادیکھ

۲۱۵

اور ابن تیمیہ(1) کہتے ہیں :

بعض فقہاء کیا خیال یہ ہے کہ اگر کوئی مستحب شیعوں کا شعار بن جائے تو اس مستحب کو ترک کردینا بہتر ہے گو ترک کرنا واجب نہیں ۔کیونکہ اس مستحب پر عمل میں بہ ظاہر شیعوں سے مشابہت ہے ۔ سنیوں اور رافضیوں میں فرق کی مصلحت  مستحب پر عمل کی مصلحت سے زیادہ قوی ہے ۔(2)

حافظ عراقی سے جب یہ پوچھ گیا کہ تحت الحنک کس طرف کیاجائے ؟ تو انھوں نے کہا کہ

مجھے کوئی ایسی دلیل نہیں ملی جس سے داہنی طرف کی تعیین  ہوتی ہو ، سوائے اس کے طبرانی کے یہاں ایک ضعیف حدیث ضرور ہے ، لیکن اگر یہ ثابت بھی ہو تو شاید آپ داہنی طرف لٹکا کر بائیں طرف لپیٹ لیتے ہیں جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں مگر چونکہ یہ شیعوں کا شعار بن گیا ہے ، اس لیے تشبہ سے بچنے کے لیے اس سے احتراز ہی مناسب ہے(3)

سبحان اللہ ! یہ اندھا تعصب ملاحظہ ہو ۔یہ علماء کیسے سنت رسول ص کی مخالفت کی اجازت صرف اس بنا پر دیتے ہیں کہ اس  پر شیعوں نے پابندی سے عمل کرنا شروع کردیا ہے اور وہ ان کا شعار بن گئی ہے  ۔ پھر دیدہ دلیری دیکھیے

-------------------------

(1):-کہا جاتا ہے کہ برطانوی سامراج نے جب سرزمین حجاز میں "وہابی تحریک "کا آغاز کیا تو انھوں نے ۔مستشرقین کی تجویز کے بموجب جو اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ اس تحریک کے ذریعہ ابو العباس تقی الدین احمد بن عبدالحلیم المعروف بہ اب تیمیہ حرّانی  کے افکار ونظریات کو فروغ دیا کہ کیونکہ وہ اپنے افکار ونظریات کی بنا پر مطعون تھالیکن بیسویں صدی کے لوگوں نے اسے "مجدد "اور" مصلح" کاخطاب دے دیا ۔(ناشر)

(2):- منہاج السنۃ النبویہ ، ابن تیمیہ

(3):-شرح المواہب ،زرقانی ۔

۲۱۶

کہ اس بات کا علانیہ اعتراف کرتے ہوئے بھی ذرا نہیں شرماتے ،میں تو کہتاہوں کہ شکر خدا کہ ہر صاحب بصیرت اور جویائے حقیقت پر حق واضح ہوگیا ۔ سنت کا نام لینے والو ! دیکھ سنت کا دامن کسے نے تھاما ہوا ہے ۔

الحمداللہ کہ ظاہر ہوگیا کہ یہ شیعہ ہی ہیں جو سنت رسول ص کااتباع کرتے ہیں جس کی گواہی تم خود دے رہے ہو ۔ اور تم خود ہی اس کے بھی اقراری مجرم ہو کہ تم نے سنت رسول ص کو عمدا اور دیدہ ودانستہ محض اس لیے  چھوڑدیا تاکہ تم اہل بیت ع اور ان کے شیعیان  با اخلاص  کی روش کی مخالفت کرسکو ۔ تم نے معاویہ بن ابی سفیان کی سنت اختیار کرلی جن کے شاہد عادل امام زمخشری ہیں جو کہتے ہیں کہ سنت رسول ص کے برخلاف سب سے پہلے بائیں ہاتھ  میں انگوٹھی  معاویہ  ابن ابی سفیان  نے پہنی تھی ۔ تم نے  باجماعت تراویح کی بدعت میں سنت عمر کی پیروی کی ۔حالانکہ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے مسلمانوں کو نافلہ نمازیں گھر میں فرادی پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا(1) ۔ حضرت عمر نے خود اعتراف کیا تھا کہ یہ نماز بدعت ہے :

بخاری میں عبدالرحمان بن عبدالقاری سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ماہ رمضان میں ایک دن رات کے وقت ،میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی طرف گیا تو وہاں دیکھا کہ لوگ متفرق طور پر نماز پڑھ رہے ہیں ۔ کہیں کوئی اکیلا ہی نماز پڑھ رہا تھا اور کہیں چند لوگ مل کر ۔ عمر نے کہا کہ میرے خیال میں یہ بہتر ہوگا کہ میں ایسا انتظام کردوں کہ یہ سب ایک قاری کے پیچھے نماز  پڑھیں ۔چنانچہ عمر نے ایسا ہی کیا اور ابی بن کعب کوامام مقرر کردیا ایک رات پھر مین عمر کے ساتھ گیا ۔ اس وقت سب لوگ جماعت سے نماز پڑھ رہے تھے ۔ انھیں دیکھ کر  عمر نے کہا : کتنی اچھی بدعت ہے یہ(2) ۔عمر ، جب آپ نے یہ بدعت شروع کی تھی تو آپ خود کیوں اس میں شریک نہیں ہوئے ؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب آپ ان کے امیر تھے تو آپ بھی ان کے

---------------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 99 باب مایجوز من الغضب والشدۃ لامراللہ عزوجل ۔

(2):- صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 252 کتاب صلاۃ التراویح

۲۱۷

ساتھ نماز پڑھتے ۔ یہ کیا کہ آپ ان کا تماشا دیکھنے نکل کھڑے ہوئے ؟ آپ کہتے ہیں کہ یہ اچھی بدعت ہے ۔یہ اچھی کیسے ہوسکتی ہے جب رسول اللہ ص نے اس سے اس وقت منع کردیا تھا جب لوگوں نے آپ کے دروازے  پر جمع ہوکر شور مچایا تھا کہ آپ آکر نافلہ رمضان پڑھادیں ۔ اس پر رسول اللہ ص غصّے میں بھرے ہوئے نکلے اورآپ نے فرمایا ۔

"مجھے اندیشہ تھا کہ یہ نماز تم پر فرض ہوجائے گی ۔ جاؤ اپنے گھروں میں جاکر نماز  پڑھو۔ فرض نمازوں کے علاوہ ہر نماز آدمی کے لیے گھر میں پڑھنا ہی بہتر ہے "۔ تم نے سفر کی حالت میں پوری نماز پرھنے کی بدعت میں عثمان بن عفان کی سنت کی پیروی کی ہے ۔ تمھارا یہ عمل سنت رسول کے خلاف ہے ۔کیونکہ رسول اللہ ص تو سفر میں قصر نماز پڑھا کرتے تھے(1) ۔ اگر میں وہ سب مثالیں گنانے  لگوں جہاں تم نے سنت رسول کے خلاف طریقہ اختیار کیا ہے  تو اس کے لیے ایک پوری کتاب کی ضرورت ہوگی ۔ لیکن تمھارے خلاف تو تمھاری اپنی شہادت ہی کافی ہے جو تمھارے اپنے اقرار پر مبنی ہے ۔تم نے یہ بھی اقرارکیا ہے کہ یہ شیعہ رافضی ہیں جو سنت رسول کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں !

کیا اس کے بعد بھی ان جاہلوں کی تردید کرے لیے کسی دلیل کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں کہ شیعہ علی بن ابی طالب ع کا اتباع کرتے ہیں اور اہل سنت رسول اکرم ص کا ؟ کیا یہ لوگ یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ علی ع رسول اللہ ص کے مخالف تھے اور انھوں نے کوئی نیا دین ایجاد کیا تھا ؟ کیسی سخت بات ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ علی ع تو سرتاپا سنت رسول ص تھے ۔ وہ سنت رسول ص کے شارح تھے اور سنت پر سختی سے قائم تھے ۔ ان کےمتعلق رسول اللہ ص نے فرمایا تھا کہ

"عليٌّ مّنّي بمنزلتي من رّبي."(2)

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 35  "وکذالک تاوّلت عائشۃ فصلّت اربعا صفحہ 36

(2):- ابن حجر عسقلانی ، لسان المیزان جلد 5 صفحہ 161 ۔ محب طبری ،ذخائر العقبی صفحہ 64 نور اللہ حسینی مرعشی ۔ احقاق الحق جلد 7 صفحہ 217

۲۱۸

"علی ص کا مجھ سے وہی تعلق ہے جو میرا میرے پروردگار سے ہے " یمنی جس طرح کہ تنہا محمد ص ہی وہ شخص تھے جو اللہ تعالی  کا پیغام پہنچاتے تھے ایسے ہی تنہا علی ص وہ شخص تھے جو رسول اللہ ص کا پیغام پہنچاتے تھے ۔ علی ع کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے اپنے سے سابق خلفاء کی خلافت تسلیم نہیں  کی اور شیعوں کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے اس معاملے  میں علی ع کی پیروی کی اور ابوبکر ، عمر اور عثمان کے جھنڈے تلے جمع ہونے سے انکار کردیا ۔ اسی لیے اہل سنت انھیں "رافضی م"یعنی منکر کہنے لگے ۔

اگر اہل سنت شیعہ عقائد اور شیعہ اقوال کا انکار کرتے ہیں تو اس کے دو سبب ہیں :

پہلا سبب تو وہ دشمنی ہےجس کی آگ اموی حکمرانوں نے جھوٹے پروپیگنڈے اور منگھڑت روایات کے ذریعے سے بھڑکائی تھی ۔

دوسرا سبب یہ ہے کہ اہل سنت جو خلفاء کی تائید کرتے ہیں اور ان کی غلطیوں اور ان کے اجتھادات کو صحیح ٹھہراتے ہیں ، خصوصا اموی حکمرانوں کی غلطیوں کو جن میں معاویہ کا نام سر فہرست ہے ۔شیعہ عقائد ان کے اس طرز عمل کے منافی ہیں ۔جو شخص واقعات کا متتبع کرے گا ۔ اس  پر واضح ہوجائے گا کہ شیعہ  ،سنی اختلافات کی داغ بیل تو سقیفہ کے دن ہی پڑگئی تھی ۔ اس کے بعد اختلافات کی خلیج برابر وسیع ہوتی چلی گئی ۔ بعد میں جو بھی اختلاف پیدا ہوا اس کی اصل سقیفہ کا واقعہ ہی تھا ۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ کہ شیعوں کے وہ سب عقائد جن پر اہل سنت اعتراض کرتے ہیں ، ان کا خلافت کے معاملے سے گہرا تعلق ہے اور ان سب کی جڑ خلافت ہے ۔مثلا ۔ ائمہ کی تعداد ، امام کا منصوص ہونا ، ائمہ کی عصمت ، ا ن کا علم ،بدا ، تقیہ ، مہدی منتظر وغیرہ ۔

اگر ہم طرفین کے اقوال پر غیر جذباتی ہو کر غور کریں تو ہمیں طرفین کے عقائد میں بہت زیادہ بعدنظر نہیں آئے گا اور نہ ایک دوسرے پر طعن وتشنیع کا کوئی جواز ملیگا کیونکہ  جب آپ اہل سنت کی وہ کتابیں پڑھتے ہیں جن میں شیعوں کو گالیاں دی گئی ہیں تو آپ کو ذرا دیر کے لیے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا شیعہ اسلامی اصولوں  اور اسلامی احکام

۲۱۹

کے مخالف ہیں اور انھوں نے کوئی نیا دین گھڑا ہوا ہے ۔ حالانکہ جو بھی منصف مزاج شخص شیعہ عقائد پر غور کرےگا وہ ان کی اصل قرآن وسنت میں پائیگا حتی کہ جو مخالفین ان عقائد پر اعتراض کرتے ہیں خود ان کی کتابوں سے بھی ان ہی عقائد کی تایید ہوتی ہے ۔ پھر ان عقائد میں کوئی بات خلاف عقل ونقل اورمنافی اخلاق نہیں ہے!

آیئے  ان عقائد پر ایک نظر ڈالیں  تاکہ میرے دعوے کی صحت ظاہر ہوجاتے اور آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ مخالفین کے اعتراضات دھوکے کی ٹٹی کے سواکچھ  نہیں !

ائمہ کی عصمت

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ نبی کی طرحی امام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ تمام ظاہری اور باطنی برائیوں سے بچپن سے لے کر موت تک محفوظ رہے ۔ اس سے عمدا یا سہوا کوئی گناہ سرزد نہ ہو اور بھول چوک اور خطا سے محفوظ ہو ۔ کیونکہ ائمہ شریعت کے نگراں اور محافظ ہیں اور اس لحاظ سے ان کی حیثیت وہی ہے جو نبی کی ہے ۔جس کی دلیل کی رو سے ہمارے لیے ائمہ کے معصوم ہونے کا عقیدہ بھی ضروری ہے ۔ اس معاملے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں (1)

یہ عصمت کے باے  میں شیعوں کی رائے ہے ۔لیکن کیا اس میں کوئی ایسی بات ہے جو قرآن وسنت کے منافی ہو یا عقلا محال ہو یا جس سے اسلام پر حرف آتا ہو اور اس کے شایان شان نہ ہو یا جس سے کسی نبی  یا امام کی قدرومنزلت میں فرق آتا ہو؟ ہر گز نہیں !

بلکہ اس عقیدے سے تو کتاب وسنت کی تائید ہوتی ہے ۔ یہ عقیدہ عقل سلیم کے عین مطابق ہے اور اس سے نبی اور امام کی شان میں اضافہ ہوتا ہے

-----------------------

(1):- شیخ محمد رضا مظفر  ،عقائد الامامیہ صفحہ 67 ۔یہ کتاب جامعہ تعلمیات اسلامی نے مکتب تشیع کرے نام سے شایع کردی ہے ۔

۲۲۰