حکم اذاں

حکم اذاں0%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: صفحے: 328
مشاہدے: 55309
ڈاؤنلوڈ: 5072

تبصرے:

حکم اذاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 55309 / ڈاؤنلوڈ: 5072
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

احمقانہ اور غلط بات تو یہ ہے کہ یہ کہاجائے  کہ نبی غلطی کرتا ہے اور اس کی اصلاح دوسرے لوگ کرتے ہیں ۔

عصمت ازروئے قرآن

اللہ تعالی کاارشاد ہے :

" إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً "

اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ اسے اہل بیت ع تم سے رجس کو دور رکھے اور تمھیں خوب پاک وپاکیزہ رکھے ۔(سورہ احزاب ۔آیت 33)

اگر رجس سے دور رکھنے کے معنی سب برائیوں اور گناہوں سے حفاظت ہے تو کیا اس کا مطلب عصمت نہیں ؟ ورنہ پھر اس کا مطلب اور کیا ہے؟

اللہ تعالی کا ارشادہے :

"إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُواْ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ"

جو لوگ متقی ہیں ، جب انھیں کوئی شیطانی خیال ستاتا ہے تو وہ اللہ کویادہ کرتے ہیں جس سے انھیں یکایک صحیح راستہ  سمجھائی دینے لگتاہے (سورہ اعراف ۔ آیت 201)

جب شیطان کسی متقی شخص کو بہکانا اور گمراہ کرنا چاہتا ہے تو اگر وہ اللہ کو یاد کرتا ہے تو اللہ اسے شیطان کے دام فریب سے بچالیتا ہے اور اسے راہ حق دکھادیتا ہے جس پر و ہ چل پڑتا ہے جب عام مومن کی یہ صورت ہے تو ان لوگوں کا

کیا کہنا  جو اللہ کے چنیدہ بندے ہیں جنھیں اللہ نے ہر آلودگی سے پاک رکھا ہے" ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا "

پھر ہم نے وارث بنادیا کتاب کا ان کو جنھیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا ۔ (سورہ فاطر ۔آیت 32)

جسے اللہ چنے گا وہ بلاشک معصوم عن الخطاء ہوگا ۔ خاص اسی آیت سے

۲۲۱

امام رضا ع نے ان علما کے سامنے استدلال کیا تھا جنھیں عباسی خلیفہ مامون نے جمع کیا تھا ۔ امام رضا ع نے یہ ثابت کیا تھا کہ اس آیت میں چنیدہ بندوں سے مراد ائمہ اہل بیت ہی ہین جنھیں اللہ نے کتاب کا وارث بنایا ہے ۔جو علماء وہاں موجود تھے انھوں نے امام کی یہ بات تسلیم کرلی تھی(1)

یہ قرآن کریم سے بعض مثالیں ہیں ۔ ان کے علاوہ اوربھی آیات ہیں جن سے ائمہ کی عصمت ثابت ہوتی ہے ۔جیسے مثلا"أﺋﻤﺔ يهدون ﺑﺄﻣﺮﻧﺎ" وغیرہ لیکن ہم بہ اختصار اتنے ہی پر اکتفاء کرتے ہیں

عصمت ازروئے حدیث

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"لوگو! میں تمھارے درمیان وہ چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ جب تک تم ان سے جڑے رہوگے ، ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ، اور وہ ہیں اللہ کی کتاب اور میری عترت یعنی میرے اہل بیت ع(2) ۔

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ، یہ حدیث ائمہ اہل بیت ع کے معصوم ہونے کے بارےمیں صریح شہادت ہے :

اولا:- اس لیے اللہ کی کتاب معصوم ہے ، اس  میں باطل کا کسی طرف سے کوئی دخل نہیں کیونکہ وہ اللہ کا کلام ہے اور جو اس میں شک کرے ،وہ کافر ہے ۔

ثانیا :- اس لیے کہ جو کتاب اور عترت کو تھامے رہے ، وہ گمراہی سے محفوظ ومامون رہتا ہے ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتاب وعترت میں غلطی کی گنجائش نہیں ۔ایک اور حدیث میں رسول اللہ ص نے فرمایا :"میرے اہل بیت ع کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو اس پر

-----------------------

(1):- ابن عبدربہ اندلسی العقد الفرید جلد 3 صفحہ 42

(2):- محمدبن عیسی ترمذی جامع الترمذی جلد 5 صفحہ 328

۲۲۲

سوار ہوگیا نجات پاگیا اور جس نے گریز کیا وہ ڈوب گیا "(1)

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ، اس حدیث میں تصریح ہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام معصوم ہیں ۔ اس وجہ سے جو ان کی کشتی میں سوار ہو جائے گا وہ نجات پاجائے گا اور جو پیچھے رہ جائے گا ،گمراہی کے سمندر میں ڈوب جائے گا ۔

رسول اللہ ص نے فرمایا :

جو میری طریح کی زندگی چاہتا ہے اور میری طرح مرناچاہتا ہے اور اس جنت الخلد میں جانا چاہتا ہے جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے ،تو وہ علی ع سے اور ان کے بعد ان کی اولاد سے دوستی رکھے ،اس لیے کہ وہ تمھیں ہدایت کے دروازے سے باہر نکلنے نہیں دیں گے اور گمراہی کے دروازے میں گھسنے نہیں دیں گے ۔(2)

اس حدیث میں تصریح ہے کہ ائمہ اہل بیت ع جو علی اور اولاد علی ہیں ہو معصوم عن الخطا ہیں کیونکہ جو لوگ ان کا اتباع کریں گے وہ انھیں گمراہی کے دروازے میں داخل نہیں ہونے دیں گے ۔ ظاہر ہے کہ جو خود غلطی  کرسکتا ہے وہ دوسروں کو ہدایت کیسے کرےگا ۔رسول اللہ ص نے فرمایا :

" أنا المنذر وعليٌّ الهادي وبك يا علي يهتدي المهتدون من بعدي".

میں ڈرانے والا ہوں اور علی ہدایت دینے والے ہیں ۔ اے علی ع ! ہدایت کے طالب میرے بعد تم سے ہدایت حاصل کریں گے(3)

-------------------------

(1):- مستدرک حاکم جلد 2 صفحہ 243 ۔کنز العمال جلد 5 صفحہ 95 ۔صواعق محرقہ صفحہ 184

(2):-کنز العمال جلد 6 صفحہ 155 ۔ مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 108 ۔ تاریخ دمشق جلد 2 صفحہ 99۔ مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ128 ۔حلیۃ الاولیاء  جلد 4 صفحہ 359 ۔ احقاق الحق جلد 5 صفحہ 108

(3):- طبری ،جامع البیان فی تفسیر القرآن  جلد 13 صفحہ 108 ۔رازی ،تفسیر کبیر جلد 5 صفحہ 271 ۔ابن کثیر ، تفسیر القرآن العظیم جلد 3 صفحہ 503  ۔شوکانی ،تفسیر فتح القدیر  جلد 3 صفحہ 70 ۔سیوطی تفسیر درمنثور  جلد 4 صفحہ 45 ۔حسکانی شواہد التنزیل جلد 1 صفحہ 293۔

۲۲۳

اہل نظر پر مخفی نہیں کہ اس حدیث میں بھی عصمت امام کی تصریحج ہے ۔ امام علی ع نے خود بھی  اپنے معصوم ہونے اور اپنی اولاد میں سے دوسرے ائمہ کے معصوم ہونے کی تصرح کی ہے آپ نے کہا:

"تم کہا ں جارہے ہو اور تمھیں کدھر موڑا جارہا ہے ؟ حالانکہ ہدایت کے پرچم اڑرہے ہیں ، نشانیاں صاف اور واضح ہیں ، منارہ نور ایستادہ ہے تم کہاں بھٹک رہے ہو اور کیوں بہک رہے ہو ؟ نبی کی عترت تمھارے درمیان موجود ہے ،جو حق کی باگ ڈور ہیں ، دین کے نشان ہیں اور سچائی کی زبان ہیں ۔ جو قرآن کی بہتر سے بہتر منزل سمجھ سکو ، وہیں ان کو بھی جگہ دو ۔ ان کی طرف اس طرح دوڑ و جیسے پیاسے پانی کی طرف دوڑتے ہیں ۔

اے لوگو! خاتم النبییں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشادکو سنوکہ (انھوں نے فرمایا ):

ہم میں سے جو مرتا ہے وہ مرتوجاتا ہے مگر مردہ(1) نہیں ہوتا ۔ ہم میں سے جو بظاہر مرکربوسیدہ ہوجاتا ہے ،وہ درحقیقت کبھی بوسیدہ نہیں ہوتا ۔ تم وہ بات نہ کہو جو تمھیں معلوم نہیں ۔ کیونکہ اکثر وہی بات صحیح ہوتی ہے جس کا تم انکار کرتے ہو ۔جس کے خلاف تمھارے پاس کوئی دلیل نہ ہو اسے معذور سمجھو ۔اورمیں ایسا ہی شخص  ہوں ۔ کیا میں نے تمھارے درمیان ثقل اکبر (قرآن )پر عمل نہیں کیا ؟ اب میں تمھارے درمیان ثقل اصغر چھوڑرہا ہوں  میں نے تمھارے درمیان ایمان کا جھنڈا گاڑدیا ہے ۔"(2)

کیا ان تمام آیات قرآنی ،احادیث نبوی اور اقوال علی ع کے بعد بھی عقل

------------------------

(1):- فرشتہ موت کا چھوتا ہے گوبدن تیرا

ترے وجود کے مرکز سے دوررہتا ہے (اقبال

(2):-نہج البلاغہ خطبہ 85

۲۲۴

ان ائمہ کی عصمت کاا نکار کرسکتی ہے جنھیں اللہ نے چنیدہ وبرگزیدہ قراردیا ہے ۔ جواب یہ ہے کہ نہیں ،ہرگز نہیں ۔ بلکہ عقل تو یہ کہتی ہے کہ ان کی عصمت ایک حتمی اور لابدی امر ہے ۔ اس لیے کہ انسانوں کی قیادت وہدایت کامنصب جن کے  سپرد کیا گیا ہو ممکن نہیں کہ وہ معمولی انسان ہوں ، جو بھول چوک اور غلطی کاشکار ہوتے ہوں اور جس کی پیٹھ پر گناہوں کی گٹھڑی لدی ہوئی ہو جن پر لوگ نکتہ چینی کرتے ہوں ، عیب لگاتے ہوں اور کیڑے نکالتے ہوں ،بلکہ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے مین سب سے زیادہ سب سے زیادہ عالم ، سب سے زیادہ نیک ، سب سے  بہادر اور سب سے بڑھ کر متقی اور پرہیز گارہون کہ

یہی ہےرخت سفر میر کارواں کے لیے

یہی وہ صفات  ہیں جن سے قائد کی شان بڑھتی ہے لوگوں کی نگاہ اس کی عزت وعظمت میں اضافہ ہوتا ہے ، سب اس کا احترام کرتے ہیں اور پھر دل وجان سے کسی ہچکچاہٹ  اور خوشامد کے بغیر  کے بغیر ، اس کی اطاعت کرنے لگتے  ہیں ۔ جب یہ بات ہے تو پھر اس کے ماننے والوں کے خلاف یہ طعن وتشنیع کیوں اور یہ شوروغوغا کیسا ؟

اس سلسلے میں اہلسنت نے شیعوں پر جو تنقید کی ہے اگر وہ آپ سنیں اور پڑھیں تو آپ کو ایسا معلوم ہوگا کہ گویا شیعہ جس کو چاہتے ہیں تمغہ عصمت پہنا دیتے ہیں ۔ یا جو عصمت کا قائل  ہے ہو کوئی کلمہ کفر منہ سے نکال رہا ہے یا گویا وہ معصوم کے متعلق کہہ ہے کہ یہ ایسا دیوتا ہے کہ نہ اس کو اونگھ آتی ہے نہ نیند درحقیقت ایسی کوئی بھی بات نہیں ۔

عصمت ائمہ نہ کوئی عجیب وغریب بات ہے نہ محال وناممکن ۔شیعوں کے نزدیک عصمت کے معنی فقط  یہ ہیں کہ معصوم اللہ تعالی کی خاص   رحمت وحفاظت میں ہوتا ہے کہ شیطان اس کو ورغلا نہیں سکتا اور نفس امارہ اس پر غلبہ پا نہیں سکتا کہ اسے معصیت کی طرف لے جائے ۔ یہ وو بات ہے جس سے اللہ کے دوسرے متقی بندے بھی محروم نہیں ۔ ابھی یہ آیت گزرچکی ہے"إِنَّ الَّذينَ اتَّقَوا إِذا مَسَّهُم طائِفٌ مِنَ الشَّيطانِ تَذَکَّروا فَإِذا هُم مُبصِرونَ"

۲۲۵

مگر عام اہل تقوی  کی یہ عصمت وقتی اور عارضی ہوتی ہے اور اسکا تعلق ایک خاص حالت سے ہوتا ہے ۔اگر بندہ تقوی کی کیفیت سے دور ہٹ جائے تو اللہ تعالی  پھر اسے گناہوں سے محفوظ  نہیں رکھتا  مگر امام جسے اللہ منتخب کرتا ہے کسی حالت میں بھی تقوی اور خوف خدا کی راہ سے بال برابر بھی نہیں سرکتا ۔ ہمیشہ گناہوں اور خطاؤں سے محفوظ رہتا ہے

قرآن حکیم میں حضرت یوسف کے قصے میں ہے :

" وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَن رَّأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاء إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ "

اس عورت نے ان کا قصد کیا اور وہ بھی اگر اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھ چکے ہوتے تو قصد کربیٹھتے ۔ پس ہم نے انھیں بچالیا تاکہ ہم ان سے برائی اور بے حیائی کو دور رکھیں ۔ بیشک وہ ہمارے خاص بندوں میں سے تھے ۔(سورہ یوسف ۔آیت 24)

واضح رہے کہ حضرت یوسف ع نے ہرگز زنا کا قصد نہیں کیا تھا ، کیونکہ معاذاللہ اس قبیح فعل کا قصد انبیاء کی شان نہیں ہے ۔ البتہ آپ نے اس عورت  کوروکنے ، دھکادینے اور ضرورت  ہو تو اس کو مارنے کاقصد  ضرو رکیا تھا ۔ لیکن اللہ تعالی  نے ایسی غلطی کے ارتکاب سے آپ کو بچالیا ۔کیونکہ اگر یہ غلطی ہوجاتی تو آپ پر زنا کی کوشش کا الزام لگ جاتا اور ان لوگوں سے آپ کو نقصان پہنچتا ۔

قرآن شریف میں ایا ہے :

" وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّيَ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ'

میں اپنے نفس کی برائت کااظہار نہیں کرتا ۔کیونکہ نفس تو برائی ہی سکھا تار ہتا ہے مگر یہ کہ جس پر پر وردگار رحم کرے ۔(سورہ یوسف ۔آیت 53)

جب اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے اپنے دوستوں کو چن لیتا ہے تو پھر

۲۲۶

ان کو سکھاتا ہے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے ۔اور ان کو برائی اور گندی باتوں سے بچاتا ہےاور جب ان پر کرتا ہے ، تو انھیں کسی برائی میں ملوث نہیں ہونے دیتا ۔یہ سب اس لیے کرتا ہے کیونکہ وہ اس کے ہر معنی میں خاص بندے ہوتے ہیں۔لیکن اگر کوئی یہ تسلیم کرنا ہی چاہتا کہ اللہ تعالی اپنے خاص الخاص بندوں کو برائیوں سےبچاتا اور گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے تو وہ آزاد ہے ، اس پر  کوئی زبردستی نہیں ۔ ہم اس کی را ئے کا بھی احترام کرتے ہیں ۔ لیکن ان کا بھی فرض ہے کہ دوسروں کی رائے کا احترام کرے جو عصمت ائمہ کے قائل ہیں اور جن کے پاس اپنے دلائل ہیں ۔ خواہ مخواہ انھیں بدنام کرنے کی کوشش نہ کرے ۔جیسا کہ ایک شخص نے کی تھی جو پیرس میں لکچر دینے آیا تھا، یا جیسا کہ افسوس سےکہنا پڑتا ہے کہ اکثر علمائے اہل سنت کرتے ہیں ۔جب وہ اپنی  تحریروں میں اس موضوع کا مذاق اڑاتے ہیں ۔

ائمہ کی تعداد

شیعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد ائمہ معصومین کی تعداد بارہ ہے ۔ یہ تعداد نہ کم ہوسکتی ہے نہ زیادہ ۔ رسول اللہ ص نے ان ائمہ کی تعداد کے ساتھ  ان کے نام بھی گنوائے ہیں(1) ان کے نام یہ ہیں :

(1):- امام علی بن ابی طالب ع(2):-حسن بن علی ع

(3):-حسین بن علی ع

(4):-علی بن الحسین ع (زین العابدین)

(5):- امام محمد بن علی ع (باقر)

(6):-امام جعفربن محمد ع(صادق)

(7):- امام موسی بن جعفر ع(کاظم)

---------------------

(1):-سلیمان قندوزی حنفی ینابیع المودۃ جزو3 صفحہ 99

۲۲۷

(8):- امام علی بن موسی ع (رضا)

(9):- امام محمد بن علی ع (تقی)

(10):- امام علی بن محمد ع (نقی)

(11):-امام حسن بن علی ع(عسکری)

(12):- امام محمد بن حسن ع(مہدی منتظر)

یہ ہیں ائمہ اثناعشر ! جن کی عصمت کے شیعہ قائل ہیں ۔بعض افترا پرداز یہ کہہ کر کچھ مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ شیعہ  اہل بیت کی عصمت کے قائل ہیں اور دیکھو شاحسین بادشاہ  اردن بھی اہل بیت ع  میں سے ہیں اور اسی طرح شاہ حسن ثانی بادشاہ مراکش بھی اہل بیت ع میں سے ہیں ۔ اب تو کچھ لوگ یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ شیعہ امام خمینی کو بھی معصوم مانتے ہیں ۔

یہ ہے مسخرا پن ، افتراء اور سفید جھوٹ ،شیعہ علماء اور اعلی تعلیم یافتہ تو درکنار ، ایسی بات تو شیعہ عوام بھی نہیں کہتے ، ان مسخروں کی جب اور کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی تو وہ سوچتے ہیں کہ شاید اسی طرح وہ لوگوں کو خصوصا توجوانوں کو جو اس قسم کے پروپیگنڈے پر آسانی سا یقین کرلیتے ہیں ، شیعوں سے متنفر  کرسکیں ۔ شیعہ پہلے بھی اور آج بھی فقط ان ہی ائمہ کے معصوم ہونے کے قائل ہیں جن کے نام رسول اللہ نے اس وقت بتلادیے تھے جب وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ۔ جیسا کہ ہو پہلے  ذکر کرچکے ہیں ، خود بعض علمائے اہل سنت نے ایسی روایات  نقل کی ہیں ۔بخاری ومسلم نے اپنی صحیحین میں ائمہ  کی تعداد سے متعلق حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق ائمہ  بارہ ہیں اور وہ سب قریش میں سے ہیں(1) ان احادیث کا مطلب اسی وقت ٹھیک بیٹھتا ہے جب ہم بارہ اماموں  سے مراد ائمہ اہلبیت ع لین جن کے شیعہ قائل ہیں ۔ ورنہ اہل سنت بتلائیں کہ

----------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 127 ۔صحیح مسلم جلد6 صفحہ 3

۲۲۸

اس چیستان کا حل کیا ہے؟

اہل سنت نے اپنی صحاح میں ائمہ اثناعشرو الی احادیث تو  نقل کی ہیں لیکن یہ آج تک معماہے کہ ان مراد کون سے بارہ امام ہیں ۔مگر پھر بھی سنیوں  کو یہ توفیق کہاں کہ وہ اس بات کو مان لیں جس کے شیعہ قائل ہیں ۔

ائمہ علم

اہل سنت کا ایک اوراعتراض یہ ہے کہ شیعہ یہ کہتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت ع سلام اللہ علیھم کو اللہ تعالی نے ایسا خصوصی  علم عطا کیا ہے جس  میں کوئی ان کا  شریک وسہیم نہیں ہے ۔ اور یہ کہ امام اپنے زمانے کاسب سے بڑا عالم ہوتا ہے  اس لیے یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص امام سے کوئی سوال کرے اور امام سے اس کا جواب بن نہ پڑے

تو کیا شیعوں کے پاس اس کی کوئی دلیل ہے ؟؟؟

ہم حسب معمول اپنی اس بحث کا آغاز بھی قرآن کریم سے کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :" ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا "

پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے ان کو کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے چن لیا۔

اس آیت سے واضح طور پ ر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ  نے اپنے کچھ  بندوں کو چن لیا ہے اور انھیں کتاب کا وارث بنادیا ہے ۔کیا معلوم کرسکتے ہیں کہ یہ چنیدہ بندے کون ہیں ؟

ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ امام علی رضا ع  نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آیت ائمہ اہل بیت ع کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ اس موقع کی بات ہے جب مامون نے چالیس مشہور قاضیوں کو جمع کیا تھا اور اس میں سے ہر  قاضی نے 40 سوال امام ثامن کے لیے تیار کیے تھے ۔امام نے ان سب سوالوں

۲۲۹

کے مسکت جواب دیے اور بالآخر سب قاضیوں کو ان کی اعلمیت کا اعتراف کرنا پڑا(1)

جس وقت ان قاضیوں اور امام کے درمیان یہ مناظرہ ہوا اور قاضیوں نے ان کی اعلمیت کا اقرار کیا ، اس وقت امام کی عمر چودہ سال سے بھی کم تھی ۔پھر اگر شیعہ  ان ائمہ کی اعلمیت کے قائل ہیں تو اس میں حیرت کای  کیا بات ہیے جبکہ خود اہل سنت  علماء بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں ۔

اگر ہم قرآن کی تفسیر سے کریں گے تو ہم دیکھیں گے کہ متعدد آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ سبحانہ نے اپنی حکمت بالغہ سے ائمہ  اہل بیت  کو ہو علم لدنی عطا کیا تھا جو ان ہی سے مختص تھا اور یہ ائمہ واقعی ہادیوں کے پیشوا اور اندھیروں کے چراغ تھے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

" يُؤتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً كَثِيراً وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ"

ہو جسے چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت عطا ہوگئی اسے بڑی نعمت عطا ہوگئی ۔ اور نصیحت  تو صاحبان  عقل وفہم ہی قبول کرتے ہیں (سورہ بقرہ ۔آیت 269)

ایک اور جگہ ارشاد ہے :

" فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ () وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ ()إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ () فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ () لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ "

پس میں قسم کھاتا ہوں  ستاروں کی جگہ  کی اور اگر تم سجھوں تو یہ ایک بڑی قسم ہے  ۔واقعی یہ قابل احترام  قرآن ہے  ایک محفوض کتاب میں جسے کوئی مس نہیں کرسکتا بجز ان کے جو پاک

----------------------

(1):-ابن عبد ربّہ اندلسی عقد الفرید جلد 3 صفحہ 42۔

۲۳۰

کیے گئے ہیں "۔

اس آیت میں اللہ نے ایک بڑی قسم کھا کر کہا ہے کہ قرآن کریم میں ایسے باطنی اسرار ہیں جن کی حقیقت صرف ان کو معلوم ہے جو  پاک کیے گئے ہیں ۔یہ پاکیزہ حضرات اہل بیت ع ہیں جن سے اللہ نے ہر طرح کی آلودگی کو دور رکھا ہے ۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قران سے متعلق کچھ باطنی علوم ہیں ، جن کو سبحانہ نے صرف ائمہ اہل بیت سےمختص کیا ہے ۔کسی  دوسرے کو اگر  ان علوم سے آگہی حاصل کرنا ہو تو فقط ان ائمہ کے واسطے سے ہوسکتی ہے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

"هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ"

وہ اللہ ہی ہے جس نے آپ پرکتاب اتاری ۔اس کی بعض آیتیں محکم ہیں اور جو اس کتاب کامدار ہیں اور بعض متشابہ  ہیں ۔ توجن لوگوں کے دلوں میں کجی  ہے وہ اس حصہ کے پیچھے ہولیتے  ہیں جو متشابہ ہے تاکہ فتنہ برپا کریں اور غلط مطلب نکالیں ،جبکہ اس کا صحیح  کوئی نہیں جانتا سوائے  اللہ کے اور ان لوگوں کے جو علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے ۔ یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے ۔ اور نصیحت تو عقل والے ہی قبول کرتے ہیں (سورہ آل عمران ۔آیت 7)

اس آیہ کریمہ سے معلوم ہوتا ہے،  اللہ سبحانہ نے قرآن میں ایسے اسرار ورموز  رکھے ہیں جن کی تاویل یا وہ خود جانتا ہے یا وہ لوگ جو علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں

۲۳۱

جیسا کہ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے جو گزشتہ اوراق میں نقل کی جاچکی ہیں ،  علم میں دستگاہ  رکھنے والے  یعنی راسخوں فی العلم سے مراد اہل بیت رسول ع ہیں ۔

اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ ص نے فرمایا ہے :" ان سےآگے نہ بڑھو ورنہ ہلاک ہوجاؤ
گے  اور ان سے پیچھے بھی نہ رہو  ورنہ گمراہ ہوجاؤگے  اور انھیں پڑھانے  کی کوشش نہ کرو کہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں "(1) امام علی ع نے خود بھی کہا تھا :

"کہاں ہیں وہ جو یہ جھوٹا دعوی کرتے ہیں کہ راسخون فی العلم ہم نہیں وہ ہیں ، وہ ہماری مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں اونچا درجہ دیا ہے اور ان کو ادنی درجہ ۔ ہمیں اللہ نے منصب امامت دیا اور ان کو محروم رکھا ۔ ہمیں (زمرہ  خواص میں )داخل کیا اور ان کو باہر نکال دیا ۔ہم ہی ہیں جن سے ہدایت  طلب کی جاسکتی ہے اور جن سے بے بصیر تی دور کرنے کے لیے روشنی  مانگی جاسکتی ہے ۔ بلاشبہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلے  کی ایک شاخ بنی ہاشم کی کشت زار سے ابھریں گے ۔ نہ امامت کسی کو زیب دیتی  ہے اور نہ کوئی اس کا اہل ہوسکتا ہے(2) "

اگر ائمہ اہل بیت راسخوں فی العلم نہیں ، تو پھر کون ہے ؟ میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ امت میں سے آج تک ان سے بڑھ کر عالم ہونے کا دعوی کسی نے نہیں کیا ۔

اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

"فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ "

اگر تم نہیں جانتے تو جاننے والوں سے پوچھ لو ۔

-------------------------

(1):- صواعق محرقہ صفحہ 148 ۔ درمنثور جلد 2 صفحہ 60 ۔ کنزالعمال جلد ا صفحہ 168 ۔ اسد الغابہ فی معرفۃ ۔الصحابہ جلد3 صفحہ 137۔

(3):- نہج البلاغہ خطبہ 142

۲۳۲

یہ آیت بھی اہل بیت ع کی شان میں نازل ہوئی تھی ۔(1)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد امت کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقائق  معلوم کرنے کے لیے اہل بیت سے رجوع کرے ۔ چنانچہ صحابہ کو جب کوئی بات مشکل معلوم ہوتی تھی  تو وہ اس کی وضاحت  کے لیے امام  علی ع سے رجوع کرتے تھے ۔ اسی طرح عوام مدتوں  ائمہ اہل بیت ع سے حلال وحرام معلوم کرنے کے لیے  رجوع کرتے رہے اور ان کے علوم ومعارف کے چشموں سے فیض یاب ہوتے رہے ۔

ابو حنیفہ کہا کرتے تھے ۔" اگر وہ دوسال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوگا ہوتا "(2)

یہ ان دوسالوں کی طرف اشارہ تھا جن کے دوران میں انھوں نے امام جعفر صادق سے تعلیم حاصل کی تھی ۔

امام مالک کہتے تھے کہ :

"علم وفضل ، عبادت اور زہد ،تقوی کے لحاظ سے جعفر صادق ع سے بہتر کوئی شخص نہ کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کسی کان نے سنا  اور نہ کسی کے تصور میں آیا "۔(3)

جب ائمہ اہل سنت کے اعتراف کے بموجب یہ صورت ہو تو ان تمام دلائل  کے باوجود شیعوں پر طعن وتشنیع کیوں ؟ جب اسلامی تاریخ سے ثابت ہے کہ ائمہ اہل بیت اپنے زمانے میں علم میں سب سے برتر تھے،تو پھر اس  میں حیرت کی کیا بات ہے کہ اللہ سبحانہ ، نے اپنے اولیاء کو جنھیں اس نے چن لیا تھا مخصوص حکمت اور علم لدنی سے نوازا اور انھیں مومنین کا پیشوا اور مسلمانوں کا امام مقرر کردیا ۔اگر مسلمان ایک دوسرے کے دلائل سنیں تووہ ضرور اللہ اور رسول ص کے فرمان

------------------------

(1):-تفسیر طبری جلد 14 صفحہ 134 ۔ تفسیر ابن کثیر جلد 2صفحہ 540 ۔تفسیر قرطبی جلد 11 صفحہ 272۔

(2):- شبلی نعمانی ،سیرت نعمان ۔

(3):-علامہ  ابن شہر آشوب ۔مناقب آل ابی طالب ۔ حالات صادق ع

۲۳۳

کو تسلیم کرلیں اور ایسی امت واحدہ بن جائیں  جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہو ۔ پھر نہ کوئی اختلاف  رہے نہ تفرقہ ، نہ مختلف نظریات  ومذاہب  ، نہ مسالک یہ سب ہوگا  اور ضرور ہوگا اور جو ہونے والا ہے اس کے مطابق اللہ اپنا فیصلہ ضرور دےگا ۔

" تاکہ جسے برباد ہونا ہو وہ کھلی نشانیاں آنے کے بعد برباد ہو اور جسے زندہ رہنا ہو وہ بھی کھلی نشانیاں آنے کے بعد زندہ رہے "۔(سورہ انفال ۔آیت 48)

بداء

اس کے معنی ہیں کہ اللہ کے سامنے کوئی بات جس کو کرنے کا اس کا ارادہ ہو پھر اس کی رائے بدل جائے  اور پہلے  جس کام کا ارادہ تھا ، وہ اس کے بجائے کچھ اور کرلے ۔

اہل سنت شیعوں کو مطعون کرنے کے لیے بداء کا مطلب اس طرح لیتے ہیں گویا یہ نتیجہ ہے اللہ تعالی کی ذات میں جہل یا نقص کا ۔ اور کہتے ہیں کہ "شیعہ اللہ تعالی کے جہل قائل ہیں "۔

دراصل بداء کا یہ مطلب بالکل غلط ہے ۔ شیعہ اس کے کبھی قائل نہیں رہے ۔ اور جو شخص اس طرح  کاعقیدہ ان سے منسوب کرتا ہے ۔ وہ افتراء پردازی کرتا ہے ۔قدیم وجدید شیعہ علماء کے اقوال  اس کے گواہ ہیں ۔

شیح محمد رضا مظفر اپنی کتاب عقائد الامامیہ  میں کہتے ہیں :

 اس معنی میں اللہ تعالی کے لیے بداء محال ہے کیونکہ یہ نقص ہے اور اللہ تعالی کی لاعلمی ظاہر  کرتا ہے ۔ شیعہ اس معنی بداء  کے ہرگزقائل نہیں ۔ "

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

"جو شخص یہ کہتا ہے کہ بداء کے معنی " ابداء ندامہ کے ہیں ،یعنی اللہ تعالی اپنی کسی رائے کو غلط پاکر اور اس  پر نادم ہوکر

۲۳۴

اپنی وہ ر ائے بدل دیتا ہے تو ایسا شخص کافر ہے "۔ امام صادق ہی نے فرمایا ہے کہ

"جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالی  کے بداء کی وجہ سے اس کی لاعلمی ہے ،تو میرا اس سے کوئی تعلق نہیں "  بالفاظ دیگر شیعہ جس بداء  کے قائل ہیں وہ اس قرآنی آیت کے حدود کے اندر ہے:

"يمْحُوالله ما يشاءُ وَ يثْبِتُ وَ عِنْدَهُ اُمُّ الْکِتابِ" اور اللہ جس حکم کو چاہتا ہے مٹا دیتاہے ۔ اور جس کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اصل کتاب اس کے پاس  ہے ۔(سورہ رعد ۔آیت 39)

اس بات کے اہل سنت بھی اسی طرح قائل ہیں  جس طرح شیعہ ۔ پھر شیعوں ہی پر اعتراض کیوں کیاجاتا ہے سنیوں پرکیوں نہیں ۔ وہ بھی تو یہ مانتے  ہیں کہ اللہ تعالی احکام میں تغییر کردیتا ہے ۔ موت کا وقت بدل دیتا ہے اور رزق گھٹا بڑھا دیتا ہے ۔

کیا کوئی پوچھنے والا اہل سنت سے پوچھ سکتا ہے کہ جب سب کچھ  ازل سے ام الکتاب میں لکھا ہوا ہے تو پھر اللہ تعالی اپنی مرضی کے مطابق یہ تغیر وتبدل کیوں کرتا رہتا ہے ؟

ابن مردویہ اور ابن عساکر نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ :

حضرت علی ع نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے  "يمْحُوالله ما يشاءُ وَ يثْبِتُ وَ عِنْدَهُ اُمُّ الْکِتابِ"  کے بارے میں دریافت  کیا تو رسول اللہ نے فرمایا : میں اس کا ایسا مطلب بیان کروں گا کہ خوش ہوجاؤگے  اور میرے  بعد میری امت کی آنکھیں بھی اس سے ٹھنڈی ہوں گی ۔ اگر صدقہ صحیح طریقے سے دیا جائے ، والدین کے ساتھ نیکی کی جائے ، کسی پر احسان کیا جائے ، تو یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ ان سے بدبختی خوش بختی

۲۳۵

میں بدل جاتی ہے ، عمر بڑھتی ہے اور بری موت سے حفاظت رہتی ہے "

ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے شعب الایمان یمں قیس بن عبّاد  رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ

"رسول اللہ نے فرمایا کہ اشہر حرم میں سے ہر مہینے کی دسویں تاریخ کی رات کو اللہ تعالی کا ایک خاص معاملہ ہوتاہے رجب کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالی  کا ایک خاص معاملہ ہوتا ہے ۔رجب کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالی جو چاہتا ہے مٹادیتا ہے اور جو چاہتا باقی رکھتا ہے "۔

عبد بن حمید ، ابن جدیر اور ابن منذر نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ

"عمر بن خطاب بیت اللہ کا طواف کررہے تھے اورکہتے جاتے تھےکہ "یا الہی! اگر تونے میری قسمت میں کوئی برائی یا گناہ لکھا ہو تو اسے مٹادے اور اسے سعادت ومغفرت سے بدل دے ۔کیونکہ  تو جو چاہتا ہے مٹادیتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور تیرے ہی پاس ام الکتاب ہے "۔(1)

بخاری نے اپنی صحیح میں ایک عجیب وغریب قصہ بیان کیا ہے ۔معراج النبی کے دوران اپنے پرودرگار سے ملاقات  کا واقعہ بیان کرتے ہو ئے رسول اکرم ص فرماتے ہیں :

"اس کے بعد مجھ پر پچاس  نمازیں فرض کردی گئیں ۔ میں چلتا ہوا موسی ع کے پاس آیا ۔ انھوں نے پوچھا کیا گزری ؟ میں نے کہا : مجھ پر پچاس نمازیں فرض کردی گئی ہیں۔ موسی ع نے کہا : مجھے لوگوں کی حالت کا آپ سے زیادہ علم ہے ۔ مجھے بنی اسرائیل کو قابو میں لانے میں بڑی دشواری کا سامنا کرناپڑا تھا ۔ مناسب یہ ہے

---------------------

(1):- سیوطی ،درمنثور جلد 4 صفحہ 661

۲۳۶

کہ آپ اپنے پروردگار کے پاس دوبارہ جائیے اور اس سے کچھ تخفیف کی درخواست کیجیے۔

چنانچہ میں نے واپس جاکر تخفیف کی درخواست کی ۔ اللہ تعالی نے چالیس نمازیں کردیں ۔ میں پھر موسی کے پاس پہنچا تو انھوں نے پھروہی  بات کہی ۔ میں نے واپس جاکر پھر درخواست کی تو تیس نمازیں ہوگیئیں ۔پھر یہی کچھ  ہوا تو بیس ہوگئیں  پھر دس ہوئیں ۔ میں موسی کے پاس گیا تو انھوں نے پھروہی بات کہی اب کے پانچ ہوگئیں ۔ میں پھر موسی کے پاس پہنچا ، انھوں  نے پوچھا کہ کیا کیا ؟میں نے کہا : اللہ تعالی  نے پانچ نمازیں کردیں موسی نے پھر وہی بات کہی ۔ اس مرتبہ جو میں نے سلام کیا تو آواز آئی :" اب میں نے اپنے فریضہ کے بارے میں پختہ حکم دے دیا ہے ۔میں نے اپنے بندوں کا بوجھ کرم کردیا ہے اور میں نیکی کا دس گنا اجر دوں گا "(1)

بخاری ہی میں ایک اور روایت ہے ۔ اس میں ہے کہ : کئی مرتبہ کی مراجعت کے بعد جب پانچ نمازیں  فرض رہ گئیں  تو حضرت موسی نے رسول اکر م ص  سے ایک بار پھر مراجعت  کرنے کےلیے کہا۔ اور یہ بھی کہا کہ آپ کی امت پانچ نمازوں  کی  بھی طاقت نہیں رکھتی  ۔لیکن رسول اکرم ص نے فرمایا : اب مجھے اپنے رب سے کہتے ہوئے شرم آتی ہے ۔(2)

جی ہاں پڑھیے ا ور علمائے اہل سنت کے ان عقائد پر سردھنیے ، اس پر بھی وہ ائمہ اہل بیت ع کے پیروکار شیعوں پر اس لیے اعتراض کرتے ہیں کہ وہ بداء کے قائل ہیں ۔

-----------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 78 کباب بدء الخلق باب ذکر الملائکہ ۔

(2):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 250 باب المعراج ۔صحیح مسلم جلد1 صفحہ 101 باب الاسراء برسول اللہ وفرض الصلوات

۲۳۷

اس قصے میں اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی  نے محمد ص اور امت محمدیہ پر اول پچاس نمازیں فرض کی تھیں پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مراجعت کرنے پر اسے یہ مناسب معلوم ہوا کہ نمازوں  کی تعداد چالیس کردے ۔ پھر دوسری دفعہ مراجعت کرنے پر یہ مناسب معلوم ہوا کہ نمازوں کی تعداد تیس  کردے ۔ تیسری دفعہ مراجعت کرنے پر یہ مناسب معلوم  ہوا کہ اس تعداد  کو گھٹا کر بیس کردے ۔ پھر چوتھی دفعہ مراجعت کرنے پر مناسب معلوم ہوا کہ دس کردے ۔پانچویں دفعہ مراجعت کرنے پر مناسب معلوم ہوا کہ پانچ کردے ۔

اور کون جانتا ہے کہ اگر محمد ص اپنے رب سے شرما نہ جاتے تو وہ یہ تعداد ایک ہی کردیتا یا بالکل  معاف کردیتا ۔

استغفراللہ ۔کیسی شرمناک بات ہے !

میرا اعتراض  اس پر نہیں کہ اس قصے میں بداء کیوں ہے ؟ نہیں ، بالکل نہیں  ۔"يمْحُوالله ما يشاءُ وَ يثْبِتُ وَ عِنْدَهُ اُمُّ الْکِتابِ"

ہم پہلے اہل سنت کا یہ عقیدہ بیان کرچکے ہیں کہ والدین سے حسن سلوک صدقات اور دوسروں کے ساتھ بھلائی اور احسان  سے بدبختی ،نیک بختی میں بدل جاتی ہے ، عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور برے طریقے سے موت سے حفاظت ہوجاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ اسلامی اصولوں اور قرآن کی روح کے عین مطابق ہے ۔ قرآن میں ہے کہ :

"إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسهم"

اللہ تعالی  کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ لوگ خود اپنی حالت نہ بدلیں ۔

اگر ہمارا سب کا یعنی شیعہ اور سنی دونوں کا یہ عقیدہ نہ ہوتا کہ اللہ تعالی تغیر وتبدل کرتا رہتا ہے ،  تو ہماری یہ نمازیں او ردعائیں سب بیکار تھیں ۔ ان کا نہ کوئی فائدہ تھا اور نہ کوئی مقصد۔

ہم سب اس کے قائل ہیں کہ اللہ تعالی  احکام تبدیل کرتا ہے ۔ اسی لیےہر نبی کی شریعت جداہے بلکہ خود ہمارے نبی کی شریعت میں بھی ناسخ ومنسوخ کا

۲۳۸

سلسلہ رہا ہے ، ایسی صورت  میں بداء کاعقیدہ نہ کفر ہے نہ دین سے بغاوت ، اہلسنت  کوکوئی حق نہیں کہ اس عقیدے کی وجہ سے شیعون  کو طعنے  دیں ۔ اسی طرح شیعوں کو بھی حق نہیں کہ اہل سنت پن اعتراض کریں ۔

لیکن مجھے مذکورہ بالا قصے پر ضرور اعتراض ہے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی نماز کے بارے میں اپنے پروردگار سے سودے بازی پر ۔ کیونکہ اس میں اللہ جل شانہ ، کی طرف جہل کی نسبت لازم آتی ہے اور تاریخ بشریت کے سب سے بڑے انسان یعنی ہمارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کی شخصیت کی توہین ہوتی ہے ۔ اس روایت میں جناب موسی ع حضرت محمد ص سے کہتے ہیں کہ

" أنا أعلم بالنّاس منك"

میں لوگوں کے حالات اور مزاج سے تمھاری نسبت زیادہ واقف ہوں ۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ موسی ع زیادہ افضل  ہیں  اور اگر وہ نہ  ہوتے تو امت محمدیہ کی عیادت کے بوجھ میں تخفیف نہ ہوتی۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت موسی ع کو کیسے معلوم ہوا کہ امت محمدیہ پانچ نمازوں کا بھی بوجھ برداشت نہیں کرسکے گی جبکہ خود اللہ تعالی  کو یہ بات معلوم نہیں تھی ، کیونکہ اس نے ناقابل برداشت عبادت کا بو جھ اپنے بندوں پر ڈال دیا تھا اور پچاس  نمازیں ان پر فرض کردی  تھیں ۔

میرے بھائی ذرا تصور کیجیے !پچاس نمازیں  ایک دن میں کیسے ادا کی جاسکتی ہیں ؟ ایسا ہوا تو پھر نہ کوئی مشغلہ ہوگا ، نہ کوئی کام ، نہ تعلیم نہ کمائی ، نہ کوشش نہ ذمہ داری ۔ سب آدمی فرشتے  بن جائیں  گے ، جن کا کام صرف  نمازیں پڑھنا  اور عبادت  کرنا ہوگا ۔ آپ معمولی  حساب لگائیں  تو آپ کو معلوم ہوجائے گا  کہ یہ روایت صحیح نہیں ہوسکتی ۔ اگر ایک نماز میں دس منٹ بھی لگیں  اور یہ ایک باجماعت نماز کے وقت کا معقول اندازہ ہے ، تو دس منٹ کو پچاس  سے ضرب دس لیجیے  تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پچاس نمازیں ادا کرنے میں تقریبا دس گھنٹے لگیں گے ۔ اب یا تو آپ اس افتاد پر صبر کریں یا اس دین کا ہی انکار کردیں جو اپنے ماننے والوں پر یہ  ناقابل برداشت

۲۳۹

بوجھ ڈالتا ہے ۔

ہوسکتا ہے یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس حضرت موسی اور حضرت عیسی ع کے خلاف سرکشی کی کوئی قابل قبول وجہ ہو ۔ لیکن اب تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کا بوجھ  اتار دیا ہے اور ان کی سب زنجیریں  کاٹ دی ہیں ۔ اب محمد  صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کا اتباع نہ کرنے کا ان کےپاس کیا بہانہ ہے ۔

اگر اہل  سنت شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں  کہ شیعہ بداء کے قائل  ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ جیسے مناسب سمجھتا ہے تغیّر  تبدل کرلیتا ہے تو وہ اپنے اوپر کیوں اعتراض نہیں کرتے جب  وہ خود یہ کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ  نے جب مناسب سمجھا تو ایک ہی حکم ایک ہی رات یعنی شب معراج میں پانچ دفعہ بدل دیا ۔

براہو اندھے تعصب اور عناد  کاجو حقائق   کو چھپاتا اور الٹا کرکے پیش کرتا ہے ۔ متعصب اپنے مخالف پر حملہ کرنے کے لیے صاف اور واضح امور کا انکار کرگزرتا ہے اور بات بے بات مخالف پر اعتراض کرتا ہے ، اس کے خلاف افواہیں  پھیلاتا ہے  اور ذراسی بات کا بتنگز بنادیتا ہے جبکہ خود بہت زیادہ قابل اعتراض باتیں کہتا ہے ۔ یہاں تک مجھے وہ بات یادآگئی  جو حضرت عیسی علیہ السلام نے یہود سے کہی تھی ۔ آپ نے کہا تھا:

"تم دوسروں کی آنکھ کا تنکادیکھتے  ہو اور اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں دیکھتے " ایک مثال ہے کہ :

بیماری تو اسے تھی مگر وہ مجھ سے یہ کہہ کر کہ یہ بیماری تمھیں ہے خود کھسک گئی "۔

شاید کوئی یہ کہے کہ اہل سنت کے یہاں بداء کا لفظ نہیں آیا ، گو اس کے معنی تو حکم بدلنے ہی کے ہیں لیکن پھر بھی بدا للہ کے الفاظ اہل سنت کے یہاں نہیں ۔

میں اکثر دلیل کے طور پر کہ بداء اہل سنت کے یہاں بھی ہے ۔ معراج

۲۴۰