حکم اذاں

حکم اذاں0%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: صفحے: 328
مشاہدے: 55336
ڈاؤنلوڈ: 5073

تبصرے:

حکم اذاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 55336 / ڈاؤنلوڈ: 5073
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کا قصہ پیش کیا کرتا تھا ۔ اس پر بعض لوگوں نے اعتراض کیاکہ اس میں بداء کا لفظ  نہیں ہے ۔لیکن بعد میں جب میں نے انھیں صحیح بخاری کی ایک راویت رکھائی جس میں صراحت کے ساتھ بداء کا لفظ ہے اور اس میں کسی شک کی گنجائش بھی نہیں ، تو وہ مان گئے ۔

روایت حسب ذیل ہے :

بخاری نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

" بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے : ایک کے جسم پربرص کے سفید داغ تھے ، دوسرا نابینا تھا اور تیسرا گنجا تھا ۔ بد ا للہ ان یبتلیھم " اللہ کویہ (مناسب )معلوم ہوا کہ ان کا امتحان  لے ۔چنانچہ ایک فرشتے کو بھیجا ، جو پہلے مبروص کے پاس آیا اور اس سے پوچھا : تمھیں  سب سے زیادہ کیاچیز پسند ہے؟ اس نے کہا : صاف ستھری جلد اوراچھا رنگ ، کیونکہ لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں ۔ فرشتے نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری جاتی رہی اور خوبصورت رنگ نکل آیا ۔ پھر فرشتے  نے پوچھا ۔ تمھیں کس قسم کا مال پسند ہے ؟ اس نے کہا :اونٹ فرشتے نے اسے ایک دس مہینے کی گیا بھن اونٹنی دے  دی ۔

اس کے بعد فرشتہ گنجے   کے  پاس آیا ۔اس سے پوچھا : تمھیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا : خوبصورت  بال اور میری یہ بیماری جاتی رہے ، مجھ سے لوگ گھن کرتے ہیں ۔ فرشتے  نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس کاگنج جاتا رہا  اور عمدہ بال نکل آئے ۔ اس کے بعد فرشتے  نے اس سے پوچھا کہ تمھیں کون سا مال سب سے زیادہ پسند ہے ؟ اس شخص نے کہا: گائیں  فرشتے نے اسے ایک گیا بھن گائے دے دی ۔

اس کے بعد فرشتہ اندھے  کے پاس آیا ۔ اس سے پوچھا !تمھیں

۲۴۱

کون سی چیز سب سے زیادہ پسند  ہے؟ اس نے کہا: میں تو بس یہی چاہتا ہون کہ اللہ میری بینائی لوٹادے ۔ فرشتے نے ہاتھ پھیرا تو بینائی وآپس آگئی۔فرشتے  نے پوچھا تمھیں کونسا مال پسند ہے؟ اس شخص نے کہا: بھڑیں ۔ فرشتے نے اسے ایک بچوں والی بھیڑ دے دی ۔

ایک مدت کے بعد جب ان لوگوں کے پاس اونٹ گائیں اور بھیڑیں خوب ہوگئیں  اور ہر ایک کے پاس پورا گلہ ہوگیا تو وہ فرشتہ اسی شکل میں پھر آیا  اور مبروص ،گنجے اور نابینا میں سے ہر ایک کے پاس جاکر ان کے پاس جو جانور تھے ان میں سے کچھ جانور مانگے ،مبروص اورگنجے نے انکار کردیا ۔ اس پر اللہ تعالی نے ان کو پھر ان کی شکل پرلوٹا دیا ۔ نابینا نے جانور دیدیے تو حق تعالی نے اس کے مال میں اور برکت دی اور اسی کی بینائی بھی بحال رکھی(1) "

اس لیے میں اپنے بھائیوں کو یہ ارشاد ربانی یاد دلاتا ہوں :

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْراً مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاء مِّن نِّسَاء عَسَى أَن يَكُنَّ خَيْراً مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ"

اے ایمان والو ! نہ مرد مردوں کا مذاق  اڑائیں ، کیا عجب  کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا ،کیا عجب کہ ہو ان سے بہتر ہوں اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو اور نہ ایک دوسرے کا نام رکھو ۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام ہی برا ہے

------------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 4 باب ماذکر عن بنی اسرائیل

۲۴۲

اور جو اب بھی توبہ نہ کریں گے ، وہی ظالم ٹھہریں گے ۔ !(سورہ حجرات ۔آیت 11)

میری ولی خواہش ہے کہ کاش مسلمانوں کو عقل آجائے ، وہ تعصب کو چھوڑیں دیں اور دشمن کے مقابلے میں بھی جذبات سے کام نہ لیں تاکہ ہر بحث میں فیصلہ جذبات کے بجائے عقل سے ہو ۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ ہو بحث وجدال میں قرآن کریم کا اسلوب اختیار کریں۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول پر وحی نازل کی تھی کہ وہ مخالفین سے کہہ دیں کہ :

"َإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِين"

کہہ دیجیے :یا ہم راہ راست پر ہیں یا تم ، اسی طرح یا ہم گمراہی میں ہیں یا تم ۔(سورہ سبا ۔آیت 24)

یہ کہہ کر رسول  اللہ نے مشترکین کی  قدر منزلت بڑھادی اور خود ان کی سطح پر آنا منظور کرلیا تاکہ مشرکین کے ساتھ انصاف ہو اور اگر ہو سچے ہوں  تو انھیں بھی اپنے دلائل پیش کرنے کا موقع مل سکے۔

اب ہمیں اپنا جائزہ لینا چالینا چاہیے کہ ہم ان اعلی اخلاق پر کہاں تک عمل پیرا ہیں !

"صراط عليّ حقّ ٌ نمسّكه"

۲۴۳

تقیّہ

ہم گزشتہ بحث میں کہہ چکے ہیں کہ اہل سنت کے نزدیک "بداء" بہت ہی قابل اعتراض اور مکروہ عقیدہ ہے ، اسی طرح تقیہ کو بھی وہ برا سمجھتے ہیں اور اس پر شیعہ  بھائیوں کا مذاق  اڑاتے ہیں بلکہ شیعوں کو منافق سمجھتے  ہیں اور کہتے ہیں  کہ شیعوں  کہ دل میں کچھ اور ہوتا ہے اور ظاہر کچھ اور کرتے ہیں ۔

میں نے اکثر اہل سنت سے گفتگو کرکے انھیں یقین دلانے کی کوشش کی  کہ تقیہ نفاق نہیں ہے لیکن انھیں تو کسی بات کا یقین ہی نہیں آتا سوائے اس  کے جو انھیں ان کی مذہبی عصبیت نے سکھادیا ہے ۔یا جو ان کے بڑوں بزرگوں  نے ان کے دل میں بٹھا دیا ہے ۔

یہ بڑے پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان انصاف پسند اور تحقیق کے طالب لوگوں سے جو شیعوں  اور شیعہ عقائد کے متعلق معلومات حاصل کرناچاہتے ہیں ۔ حقائق کو چھپائیں اور یہ کہہ کر انھیں شیعوں سے متنفر کرنے کی کوشش کریں کہ یہ   عبداللہ بن سبایہودی کا فرقہ ہے جو رجعت ، بدا، تقیہ ، عصمت اور متعہ کا قائل ہے اور اس کے عقائد میں بہت سے خرافات اور فرضی باتین شامل ہیں جیسے مثلا مہدی منتظر وغیرہ کا عقیدہ ۔جو شخص ان کی باتوں کو سنتا ہے وہ کبھی اظہار نفرت کرتا ہے اور کبھی اظہار حیرت ۔ اور یہی سمجھتا ہے کہ ان خیالات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، یہ سب شیعوں کی منگھڑت اور فرضی باتیں ہیں ۔ مگر جب کوئی شخص تحقیق کرتا ہے اور انصاف سے کام لیتا ہے تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب عقائد کا اسلام سے گہرا تعلق ہے اور یہ قرآن وسنت کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں سچ تو یہ ہے کہ اسلامی عقائد وتصورات ان کے بغیر اپنی صحیح شکل اختیار ہی نہیں کرسکتے۔

اہل سنت میں عجیب بات یہ ہے کہ جن عقائد کو وہ با سمجھتے ہیں ، ان ہی

۲۴۴

عقائد سے ان کی کتابیں اور احادیث کے معتبر مجموعے بھرے ہوئے ہیں ۔ اب ایسے لوگوں کا کیا علاج جو کہتے ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں ۔ اور جو خود اپنے عقائد کی اس لیے ہنسی اڑاتے ہیں کیونکہ شیعہ ان پر عامل ہیں ۔

ہم بداء کی بحث میں ثابت کرچکے ہیں کہ اہل سنت خود بداء کے قائل ہیں لیکن اگر دوسرے بداء کے قائل ہوں تو ان پر اعتراض کرنے سے نہیں چوکتے ۔اب آئیے دیکھیں تقیہ کے مسئلہ میں اہل سنت والجماعت کیا کہتے ہیں ؟

اس کی بنا پر تو وہ شیعوں پر منافق ہونے کا الزام لگاتے ہیں ۔

ابن جریر طبری اور ابن ابی حاتم نے عوفی کے واسطے سے ابن عباس سے روایت بیا ن کی ہے کہ اس آیت"إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً" کے بارے میں ابن عباس کہتے تھے :"تقیہ" زبان سے ہوتاہے ۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی کسی شخص کو ایسی بات کہنے پر مجبور کرے جو اصل میں مصیت ہے تو وہ اگر لوگوں کے ڈر کے مارے وہ بات کہہ دے جب کہ اس کا دل پوری طرح ایمان پر قائم  ہو تو اسے کچھ نقصان نہیں ہوگا یہ بھی یاد رکھو کہ تقیہ محض زبان سے ہوتا ہے "(1)

یہ روایت حاکم نے نقل کی ہے اور اسے صحیح کہا ہے ۔ بیہقی نے بھی اپنی سنن میں عطا عن ابن عباس کے حوالے سے"إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً" (مگر ہاں ایسی صورت میں کہ تم کو ان  سے کچھ اندیشہ ضرر ہو)(سورہ آل عمران ۔آیت 28)۔کا مطلب بیان کرتے ہوئے کہاہے کہ ابن عباس کہتے تھے کہ "تقۃ " کا تعلق زبان سے کہنے سے ہے بشرطیکہ دل ایمان پر قائم ہو "۔عبد بن حمید نے حسن بصری سے روایت بیان کی ہے کہ

"حسن بصری کہتے تھے کہ تقیہ روزقیامت تک جائز ہے "(2)

--------------------

(1):-سیوطی ،تفسیر درمنثور

(2):- سنن بہیقی۔مستدرک حاکم

۲۴۵

عبد بن ابی رجاء نے نقل کیا ہے کہ حسن بصری اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے :"إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقيةً" (1)

عبدالرزاق ، ابن سعد ، ابن جریر طبری ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے  مندرجہ ذیل روایت بیان کی ہے ، حاکم نے مستدر ک میں اسے صحیح کہا ہے ، بیہقی نے دلائل میں اس کو نقل کیا ہے ،روایت یہ ہے: مشرکین نے عمّار یاسر کو پکڑلیا اور اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک عمّار نے نبی اکرم کو گالی نہ دی اور مشرکین کے معبودوں کی تعریف نہ کی۔

آخر جب عمار کو مشرکین نے چھوڑدیا تو وہ رسول اللہ ص کے پاس آئے ۔رسول اللہ نے پوچھا : کہو کیا گزری ؟ عمارکے کہا : بہت بری گزری ، انھوں نے مجھے اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک جب تک میں نے آپ کی شان میں گستاخی نہ کی اور ان کے معبودوں کی تعریف  نہ کی ۔ رسول اکرم ص نے پوچھا : تمھارا دل کیا کہتا ہے ؟ عمار نے کہا : میرا دل تو ایمان  پر پختہ اور قائم  ہے ۔ رسول اللہ ص نے فرمایا : اگر وہ لوگ تم پر پھر زبردستی کریں تو پھر ایسے ہی کہہ دینا ۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی :

"مَن كَفَرَ بِاللّهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ " یعنی جو شخص ایمان لانے کے خداکے ساتھ کفر کرے مگر  وہ نہیں جو کفر پر زبردستی مجبورکردیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطئمن ہو ۔(سورہ نحل ۔ آیت 106)

ابن سعد نے محمد بن سیرین سے روایت بیان  کی ہے کہ رسول اللہ نے دیکھا کہ عمار روہ رہے ہیں ۔ آپ نے ان کے آنسو پونچھے اور کہا : (مجھے معلوم ہے کہ ) کفار

--------------------------

(1):-سیوطی ، درمنثور

(2):-ابن سعد ، طبقات الکبری

۲۴۶

نے تمھیں پانی ڈبودیا تھا تب تم نے ایسا کہا ۔اگر ہو پھر تمھارے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں ، تو پھر یہی کہہ دینا ۔(1)

ابن جریر ، ابن منذر ، ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے اپنی سنن میں عن علی عن ابن عباس  کے حوالے سے بیان  کیا ہے کہ

ابن عباس اس آیت کی تفسیر  میں کہتے  تھے" من کفر با لله" کہ اللہ نے خبر دی ہے کہ جس نے ایمان  کے بعد کفر کیا ، اس پر اللہ کا غضب نازل ہوگا اور اس کے لیے سخت عذاب ہے مگر جسے  مجبور کیاگیا اور اس نے دشمن سے بچنے  کے لیے زبان سے کچھ  کہہ دیا مگر اس کے دل میں ایمان ہے اور اس کا دل اس کی زبان کے ساتھ نہیں ، تو کوئی بات نہیں کیونکہ اللہ اپنے بندوں سے صرے اس بات کا مواخذہ کرتا ہے جس پر ان کا دل  جم جائے(2)

ابن ابی شیبہ ، ابن جریر طبری ، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد سے روایت بیان کی ہے کہ یہ آیت مکے کے کچھ لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ ہوا یوں کہ یہ لوگ ایمان  لے آئے  تو انھیں بعض صحابہ  نے مدینے سے لکھا کہ ہجرت کرکے یہاں آجاؤ ۔جب تک تم ہجرت کرکے یہاں نہیں آؤگے  ، ہم تمھیں اپنا ساتھی نہیں سمجھیں گے ۔ اس پر وہ مدینہ کے اردے سے نکلے  ۔راستے میں انھیں  قریش نے پکڑ لیا اور ان پر سختی کی ۔مجبورا انھیں کچھ کلمات کفر کہہنے پڑے  ۔ان کے بارے میں آیت نازل ہوئی :" إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ " (3) ۔

بخاری نے اپنی صحیح میں باب المداراۃ مع الناس میں ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق ابو لدرداء کہتے تھے ۔

کچھ لوگ ہیں جن سے ہم بڑی خندہ پیشانی سے ملتے ہیں ،

-------------------

(1):-ابن سعد ،طبقات الکبری

(2):- حافظ احمد بن حسین بیہقی ، سنن الکبری

(3):- سیوطی ، تفسیر درمنثور جلد 2 صفحہ 178

۲۴۷

لیکن ہمارے دل ان پر لعنت بھیجتے ہیں ۔(1)

حلبی نے اپنی سیرت میں یہ روایت بیان کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ "جب رسول اللہ ص نے شہر خیبر فتح کیا تو حجاج بن علاط نے آپ سے عرض کیا: یا رسول اللہ ص ! مکے میں میرا کچھ سامان ہے  اور وہاں میرے گھر والے بھی ہیں ، میں انھیں  لانا چاہتا ہوں ، کیا مجھے اجازت ہے اگر میں کوئی ایسی بات کہہ دوں جو آپ کی شان میں گستاخی ہو ؟ رسول اللہ ص نے اجازت دے دی اور کہا : جو چاہے کہو "(2)

امام غزالی کی کتاب احیاء العلوم میں ہے کہ :

" مسلمان کی جان بچانا واجب ہے ۔اگر کوئی ظالم کسی مسلمان کو قتل کرناچاہتا ہو اور وہ شخص چھپ جائے تو ایسے موقع پر جھوٹ بول دینا واجب ہے "۔(3)

جلال الدین  سیوطی نے اپنی کتاب الاشباہ والنظائر میں ایک راویت بیان کی ہے ۔ اس میں لکھا ہے :

"فاقہ کشی  کی حالت میں مردار کھانا ،شراب میں لقمہ ڈبونا اور کفر کاکلمہ زبان سے نکالنا جائز ہے ۔اگر کسی جگہ حرام ہی حرام ہو اور حلال شاذ ونادر ہی ملتا ہو تو حسب ضرورت حرام  کاا ستعمال  جائز ہے ۔"

ابو بکر رازی نے اپنی کتاب احکام القرآن میں اس آیت"إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً" کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

مطلب یہ ہے کہ تمھیں جان جانے یا کسی عضو کے تلف

---------------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 102

(2):- علی بن برہان الدین شافعی ، انسان العیون المعروف بہ سیرت حلبیہ جلد3 صفحہ 61

(3):-حجۃ الاسلام ابو حامد غزالی ، احیاء علوم الدین  ،

۲۴۸

ہوجانے کا اندیشہ ہو تو تم کفار سے بہ ظاہر دوستی کا اظہار کرکے اپنی جان بچاسکتے ہو ۔آیت اللہ کے الفاظ سے یہی معنی نکلتے ہیں اور اکثر اہل علمی اسی کے قائل ہیں ۔ قتادہ نے بھی"لا يتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکافِرينَ أَوْلِباءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنينَ" کی تفسیر کرتے ہوئے  یہی کہا ہے کہ مومن کے لیے جائز نہیں کہ کسی کافر کادین کے معاملے میں اپنا دوست یا سرپرست بنائے سوائے اس کے ضرر کااندیشہ ہو ۔ قتادہ نے مزید کہا ہے کہ"إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً"  سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقیہ کی صورت میں زبانی کفر کا اظہار جائز ہے "(1)

صحیح بخاری میں عروہ بن زبیر سے روایت ہےکہ حضرت عائشہ نے انھیں بتلایا کہ

ایک دفعہ ایک شخص نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہون ےکی اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا : لغو آدمی ہے ، خیر آنے دو ، جب وہ شخص آیا تو آپ نے بڑی نرمی سے اس سے بات چیت کی ۔میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! ابھی تو آپ نے کیا فرمایا  تھا   پھر آپ نے اس سے گفتگو اتنی خوش اخلاقی  سے کی ؟ آپ نے جواب دیا : عائشہ ! اللہ کے نزدیک وہ بدترین آدمی ہے جس سے لوگ اس کی بد زبانی کی وجہ سے بچیں یا اس  کی بد زبانی کی وجہ سے چھوڑدیں(2) ۔

اس قدر تبصرہ یہ دکھانے کے لیے کافی ہے کہ اہل سنت تقیہ کے جواز کے پوری طرح قائل ہیں ۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ تقیہ قیامت  تک جائز رہے گا اور ۔ جیسا کہ غزالی نے کہا ہے ، ان کے نزدیک بعض صورتوں میں جھوٹ بولنا واجب

--------------------------

(1):- ابوبکر رازی ، احکام القرآن جلد 2 صفحہ 10

(2):-صحیح بخاری  جلد 7 ،باب " لم یکن النبی فاحشا ولا متفحشا"

۲۴۹

ہے اور بقول رازی جمہور علماء کا یہی مذہب ہے ۔ بعض صورتوں میں اظہار کفر بھی جائز ہے اور ۔ جیسا کہ بخاری اعتراف کرتے ہیں بہ ظاہر مسکرانا اور دل میں لعنت کرنا بھی جائز ہے اور ۔ جیسا کہ صاحب سیرۃ حلبیۃ  نےلکھا ہے ، اپنے مال کے ضائع ہوجانے کے خوف سے رسول اللہ ص کی شان میں گستاخی کرنا بلکہ کچھ بھی کہہ دینا روا ہے اور ۔جیسا کہ سیوطی نے اعتراف کیا ہے لوگوں کے خوف سے ایسی باتیں  کہنا بھی جائز ہے جو گناہ ہیں ۔

اب اہل سنت کے لیے اس کاقطعا جواز نہیں  کہ وہ شیعوں پر ایک ایسے عقیدے کی وجہ سے اعتراض کریں جس کے وہ خود بھی قائل ہیں اور جس کی روایات ان کی مستند حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں جو تقیہ کو نہ صرف جائز بلکہ واجب بتلاتی ہی جن باتوں کے اہل سنت قائل ہیں ، شیعہ ان سے زیادہ کچھ نہیں کہتے ۔ یہ بات البتہ ہے کہ وہ تقیہ پر عمل کرنے میں دوسروں سے زیادہ مشہور ہوگئے ہیں ۔ اوروجہ اس کی وہ ظلم وتشدد ہے جس سے شیعوں  کو اموی اور عباسی  دور میں سابقہ پڑا ۔اس دور میں کسی شخص کے قتل کردیے جانے کے لیے کسی کا اتنا کہہ دینا تھا کہ "یہ بھی شیعیان اہل بیت ع میں سے ہے"۔

ایسی صورت میں شیعوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کارہی نہیں تھا کہ وہ ائمہ اہل بیت علیھم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں تقیہ پر عمل کریں ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :"

"التقية دبنی ودبن آبائی "

تقیہ میرا اور میرے آباء واجداد کا دین ہے ۔ اور یہ بھی فرمایا کہ" من لا تقية له لا دين له"

جو تقیہ نہیں کرتا ، اس کا دین ہی نہیں ۔

تقیہ خود ائمہ اہل بیت ع کا شعار تھا ، اور اس کامقصد اپنےآپ کو اور اپنے  پیروکاروں  اور دوستوں کو ضرر سے محفوظ رکھنا  ،ان کی جانیں بچانا اور ان مسلمانوں  کی بہتری کا سامان کرنا تھا جو اپنے معتقدات کی وجہ سے تشدد کا شکار ہورہے تھے ،

۲۵۰

جیسے مثلا عمار بن یاسر ۔بعض کو تو عمار بن یاسر سے بھی زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی ۔ اہل سنت ان مصائب  سے محفوظ تھے کیونکہ ان کا ظالم حکمرانوں کے ساتھ مکمل اتحاد تھا ۔ اس لیے انھیں نہ قتل کا سامنا کرنا پڑا ، نہ لوٹ کھسوٹ کا ، نہ ظلم  وستم کا ۔ اس لیے یہ قدرتی امر ہے کہ وہ نہ صرف  تقیہ کا انکار کرتے ہیں  بلکہ تقیہ کرنے والوں کی بنا پر شیعوں کو بدنام کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ ان ہی کی پیروی اہل سنت والجماعت نے کی ہے ۔

جب اللہ تعالی نے قرآن میں تقیہ کا حکم نازل فرمایا ہے اورجب خود رسول اللہ نے اس پر عمل کیا ہے ، جیسا کہ بخاری کی روایت میں آپ پڑھ چکے  ہیں ۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ص نے عمار بن یاسر  کو اجازت دی کہ اگر کفار پھر ان پر تشدد کریں اور اذیت دیں تو جو کلمات   کفر کفار کہلوانا چاہیں وہ کہہ دیں ۔ نیز یہ کہ قرآن وسنت پر عمل کرتے ہوئے  علماء نے بھی تقیہ کی اجازت دی ہے تو پھر  آپ ہی انصاف سے بتائیں  کہ کیا اس کے بعد بھی شیعوں  پر طعن کرنا اور ان پر اعتراض کرنا درست ہے ؟

صحابہ کرام نے ظالم حمکرانوں کے عہد میں تقیہ پر عمل کیا ہے ۔ اس وقت جبکہ ہرشخص کو جو علی بن ابی طالب پر لعنت کرنے سے انکار کرتا ہے  تھا قتل کردیا جاتا تھا حجر بن عدی کندی اور  ان کے ساتھیوں کاقصہ تو مشہور ہے ۔اگر میں صحابہ کے تقیہ کی مثالیں جمع کروں تو ایک الگ کتاب کی ضرورت  ہوگی ۔ لیکن میں نے اہل سنت کے حوالوں سے جو دلائل پیش کیسے ہیں وہ بحمداللہ کافی ہیں ۔

لیکن اس موقع پر ایک دلچسپ واقعہ ضروربیان کروں گا جو خود میرے ساتھ پیش آیا ۔ ایک دفعہ ہوائی جہاز میں میری ملاقات اہل سنت کے ایک  عالم سے ہوگئی ہم دونوں برطانیہ میں منعقد ہونے والی ایک اسلامی کانفرنس میں مدعوتھے ۔ دوگھنٹے تک ہم شیعہ سنی مسئلے پر گفتگو کرتے رہے ۔ یہ صاحب اسلامی اتحاد کے داعی  اور حامی تھے ۔ مجھے بھی ان میں دلچسپی پیدا ہوگئی  تھی کہ لیکن اس وقت مجھے برا معلوم  ہوا جب انھوں نے یہ کہا شیعوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بعض ایسے عقائد چھوڑدیں جو

۲۵۱

مسلمانوں میں پھوٹ ڈالتے اور ایک دوسرے پر طعن وتشنیع کا سبب بنتے ہیں ۔ میں نے پوچھا : مثلا؟

انھوں نے بے دھڑک جواب دیا : مثلا متعہ اور تقیہ ۔

میں نے انھیں سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ متعہ تو جائز ہے اور قانونی نکاح کی ایک صورت ہے اور تقیہ اللہ کی طرف  سے ایک رعایت اور اجازت ہے۔لیکن وہ حضرت اپنی بات پر اڑے رہے اور میری ایک نہ مانے ، نہ ہی میرے دلائل انھیں قائل کرسکے ۔

کہنے لگے : جو کچھ آپ نے کہا ہے ، ممکن ہے کہ وہ صحیح ہو ،لیکن مصلحت یہی ہے کہ مسلمانوں کی وحدت کی خاطر ان چیزوں کو ترک کردیا جائے ۔

مجھے  ان کی منطق عجیب معلوم ہوئی ، کیونکہ وہ مسلمانوں کی وحدت کی خاطر اللہ کے احکام کو ترکرنے کامشورہ دے رہے  تھے ۔ پھر بھی میں نے ان کا دل رکھنے  کو کہا : اگر مسلمانوں کا اتحاد اسی پر موقوف ہوتا تو میں پہلا شخص ہوتا جو یہ بات مان جاتا ۔

ہم لندن ایرپورٹ پر اترے تومیں ان کے پیچھے چل رہاتھا ۔ جب ہم ائر پورٹ پولیس کے پاس پہنچے تو ہم سے برطانیہ آنے کی وجہ پوچھی گئی ۔

ان صاحب نے کہا: میں علاج کے لیے آیا ہوں ۔ میں نے کہا کہ میں اپنے دوستوں سے ملنے آیا ہوں ۔ اس طرح ہم دونوں  کسی وقت کے بغیر وہاں سے گزر کر اس ہال میں پہنچ گئے جہاں سامان وصول کرنا تھا ۔ اس وقت میں نے چپکے سے ان کے کان میں کہا کہ :آپ نے دیکھا  کہ کیسے تقیہ (نظریہ ضرورت) ہر زمانے میں کارآمد ہے ؟ کہنے لگے : کیسے ؟

 میں نے کہا: ہم دونوں نے پولیس سے جھوٹ بولا ۔میں نے کہا میں دوستوں سے ملاقات کے لیے آیا ہوں ، اور آپ نے کہا کہ میں  علاج کے لیے آیا ہوں ۔ حالانکہ ہم دونوں کا نفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہیں ۔

وہ صاحب کچھ دیر مسکرائے ۔سمجھ گئے تھے کہ میں نے ان کا جھوٹ سن لیا ۔

۲۵۲

پھر کہنے لگے :کیا اسلامی  کانفرنسوں میں ہمارا روحانی علاج نہیں ہوتا ؟

میں  نے ہنس کر کہا : تو کیا اس کانفرنسوں میں ہماری اپنے دوستوں سے ملاقات نہیں ہوتی ؟

اب میں پھر اپنے موضوع پر واپس آتا ہوں ۔میں کہتا ہوں کہ اہل سنت  کیا یہ کہنا غلط ہے کہ تقیہ نفاق کی کوئی شکل ہے بلکہ بات اس کی الٹ ہے کیونکہ نفاق کے معنی ہیں : ظاہر میں ایمان اور باطن میں کفر ۔ اور تقیہ کے معنی ہیں ظاہر میں کفر اور باطن میں  ایمان ۔ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ نفاق کے متعلق اللہ سبحانہ نے فرمایا ہے :

" وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكْمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ " جب وہ منوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی مومن ہیں اور جب اپنے شیطان کے ساتھ تنہائی میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں ۔ ہم تو مذاق کررہے تھے (سورہ بقرہ ۔آیت 14)

اس کا مطلب ہوا: ایمان ظاہر + کفر باطن = نفاق

تقیہ کے بار ے میں اللہ سبحانہ وتعالی نے کہا ہے :

"وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ"

فرعون کی قوم  میں سے ایک مومن شخص نے جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا کہا  ۔۔۔۔

اس کا مطلب یہ ہوا : کفر ظاہر + ایمان باطن =تقیہ

یہ مومن آل فرعون  اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا جس کا علم سوائے  اللہ کے کسی کو نہیں تھا ۔ وہ فرعون  اور ایک دوسرے سب لوگوں کے سامنے یہی ظاہر کرتا تھا کہ وہ فرعون کے دن پر ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کا ذکر قرآن کریم میں تعریف کرے انداز میں کیا ہے ۔

۲۵۳

اب قارئین  باتمکین آئیے  دیکھیں ! خود شیعہ تقیہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں تاکہ ان کے بارے میں جو غلط سلط باتیں مشہور ہیں ۔ جو جھوٹ بولا جاتا ہ اور طوفان اٹھایا جاتا ہے ، ہم اس سے دھوکا نہ کھانے پائیں ۔

شیخ محمد رضا مظفّر اپنی کتاب عقائد الامامیہ میں لکھتے  ہیں :

تقیہ بعض موقعوں پر واجب ہے اور بعض موقعوں پر  واجب نہیں ۔ اس کا دارومدار اس پر ہے کہ ضرر کا کتنا خوف ہے  تقیہ کے احکام فقہی کتابوں کے مختلف ابواب میں علماء نے لکھے ہیں ۔ ہر حالت میں تقیہ واجب نہیں ۔ صرف بعض صورتوں میں تقیہ کرنا جائز ہے ۔ بعض صورتوں میں تو تقیہ نہ کرنا واجب ہے ۔ مثلا اس صورت  میں جب کہ حق کا اظہار ، دین کی مدد ، اسلام کی خدمت اور جہاد ہو ۔ ایسے موقع پر جان ومال کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتا بعض صورتوں میں تقیہ حرام ہے یعنی ان صورتوں میں جب تقیہ کا نتیجہ خون ناحق ، باطل کا رواج یا دین میں بگاڑ  ہو یا تقیہ کے باعث مسلمانوں کا سخت  نقصان ہونے مسلمانوں میں گمراہی پھیلنے یا ظلم وجور کے فروغ پانے کا اندیشہ ہو۔

بہر حال شیعوں کے نزدیک تقیہ کا جو مطلب ہے وہ ایسا نہیں کہ اس کی بنا پر شیعوں کو تخریبی مقاصد کی کوئی خفیہ پارٹی سمجھ لیا  جائے ، جیسا کہ شیعوں کے بعض وہ غیر محتاط دشمن چاہتے ہیں جو صحیح بات کو سمجھنے  کی تکلیف گوارا نہیں کرتے ۔ اہم  غیر محتاط شیعوں سے بھی کہیں گے کہ

اقوال غیر جو پئے اسلام ہیں مضر

اپنی زباں سے ان کی حکایت نہ کیجیئے

اسی طرح تقیہ کے یہ بھی معنی نہیں کہ اس کی وجہ سے دین اور اس کے احکام ایسا راز بن جائیں جسے شیعہ مذہب کو نہ

۲۵۴

ماننے   والوں کے سامنے ظاہر نہ کیا جاسکے  ۔ اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ شیعہ  علماء کی تصانیف خصوصا ان کی فقہ  ،احکام عقائد اور علم کلام سے متعلق کتابیں مشرق ومغرب میں ہر جگہ  اتنی تعداد میں پھیلی ہوئی ہیں کہ اس سے زیادہ تعداد کی  کسی مذہب  کے ماننے والوں سے توقع نہیں کی جاسکتی "۔

اب آپ خود دیکھ لیجیے کہ دشمنوں کے خیال کے بر خلاف یہاں نہ نفاق  ہے نہ مکر وفریب ، نہ دھوکا ہے نہ جھوٹ!

متعہ : معین مدت کا نکاح

 جس طر ح تمام  مسلمان فقہوں  میں نکاح کے لیے  یہ شرط ہے کہ لڑکی اور لڑکے کی طرف سے ایجاب وقبول کیاجائے اور مہر معین کیا جائے ، اسی طرح سے متعہ میں بھی مہر کو معین  کیاجانا ضروری ہے ۔ نیز طرفین کی طرف سے ایجاب وقبول بھی شرط ہے : مثلا :

لڑکی لڑکے سے کہے : " زوّجتك نفسي بمهرٍ قدره كذا ولمدّةٍ كذا .(1)

اس پر لڑکا کہے :قبلتُ       یا کہے :رضيتُ

شریعت اسلام میں عام طور سےجتنی شرطیں  نکاح کےلیے مقرر کی گئی ہیں کم وبیش وہ تمام شرطیں  متعہ کے لیے بھی مقرر کی گئی ہیں ۔ مثلا جس طرح محرم سے(یا ایک ہی وقت میں دوبہنوں سے ) نکاح نہیں ہوسکتا  اسی طرح متعہ بھی نہین ہوسکتا (اور جس طرح بعض فقہا کے نزدیک اہل کتاب سے نکاح جائز ہے اسی طرح متعہ بھی جائز ہے ) اور جس طرح نکاح کے بعد طلاق ہوجانے پر منکوحہ کے لیے عدت ضروری ہے جس کے بعد ہی وہ دوسرا نکاح کرسکتی ہے اسی طرح ممتوعہ بھی متعہ کے بعد

--------------------

(1):- کذا وکذا کی بجائے  رقم اور متعہ کی مدت بولے ۔

۲۵۵

عدت  میں بیٹھی ہے اور عدت پوری کرنے کے بعد ہی دوسرا متعہ یا نکاح کرسکتی ہے ۔ممتوعہ کی عدت دو طہر (یا پینتالیس دن) ہے لیکن شوہر  کے مرجانے کی صورت میں یہ مدت چار ماہ دس دن ہے ۔

متعہ کی خصوصیت  یہ ہے کہ  اس میں نہ  نفقہ ہے نہ میراث ، اس لیے متعہ کرنے والے مرد اور عورت ایک دوسرے  سے میراث نہیں پاتے ۔

متعہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ نفقہ ہے  نہ میراث ، اس لیے  متعہ کرنے والے مرد اور عورت ایک دوسرے  سے میراث نہیں پاتے ۔ متعہ سے پیدا ہونے والے   بچے نکاح سے پیدا ہونے والے بچے کی طرح حلالی ہوتے ہیں اور انھیں عام بچوں  کی طرح میراث اور نفقہ (روٹی ،کپڑا ،مکان ،دوا  دارو وغیرہ )کے تمام حقوق  حاصل ہوتے  ہیں  اوران کا نسب اپنے باپ  سے چلتا ہے ۔ یہ ہیں متعہ کی شرائط اور حدود ۔اس کا حرام کاری سے دور کا بھی تعلق نہیں ، جیسا کہ بعض غلط الزام لگانے والے  اوربیجا شورمچانے والے سمجھتے ہیں ۔ اپنے شیعہ بھائیوں  کی طرح اہل سنت والجماعت کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ سورہ نساء کی آیت 24  میں اللہ تعالی کی طرف سے متعہ کی تشریع کی گئی ہے آیت یہ ہے :

" فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيماً حَكِيماً"

پس جن عورتوں س تم نے متعہ کیا ہے تو انھیں جو مہر مقرر کیا ہے دے دو اور مہر کے مقرر ہونے کے بعد اگر آپس میں (کم وبیش پر راضی ہوجاؤ تو اس میں  تم پر کچھ گناہ نہیں پیشک  خدا ہر چیز سے واقف اور مصلحتوں کا جاننے والا ہے ۔ اسی طرح اس پر بھی شیعہ اور سنی دونوں کا اتفاق  ہے کہ رسول اللہ نے متعہ کی اجازت دی تھی اورصحابہ نے عہد نبوی میں متعہ کیا تھا ۔

اختلاف  صرف اس پر ہے کہ کیا متعہ کا حکم منسوخ ہوگیا یا اب بھی باقی  اہل سنت اس کے منسوخ ہوجانے کے قائل  ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے متعہ حلال تھا پھر حرام کردیاگیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ نسخ حدیث سے ہوا ہے قرآن سے نہیں

۲۵۶

اس کے برخلاف شیعہ کہتے ہیں کہ متعہ منسوخ ہی نہیں ہوا ۔یہ قیامت تک جائز رہے گا ۔

فریقین کے اقوال پر ایک نظر ڈالنے  سے حقیقت واضح  ہوجائے گی  اور قارئین  باتمکین کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ تعصب  اور جذبات  سے بالاتر ہوکر حق کا اتباع کرسکیں ۔

شیعہ  جو یہ کہتے ہیں کہ  متعہ منسوخ نہیں ہوا اور یہ قیامت تک جائز رہے گا  ۔ اس کے متعلق ان کے اپنی دلیل ہے ۔ وہ کہتے  ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ ثابت نہیں کہ رسول اللہ نے کبھی متعہ سے منع کیا ہو۔

اس کے علاوہ ہمارے ائمہ جو عترت طاہرہ سے ہیں اسے کے حلال اور جائز ہونے کے قائل ہیں ۔ اگر متعہ منسوخ ہوگیا ہوتا تو ائمہ اہل بیت کو اور خصوصا امام علی ع کی ضرور اس کا علم  ہوتا کیونکہ گھر کا حال  گھر والوں  سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے ۔!

ہمارے نزدیک جو بات ہے ، وہ یہ ہے کہ عمر بن خطاب نے اپنے  عہد  خلافت میں اسے حرام قراردیا تھا ، لیکن یہ ان کا اپنا اجتہاد تھا ۔ اس بات کو علمائے  اہل سنت بھی  تسلیم کرتے ہیں لیکن ہم اللہ اور اس کے رسول ص کے احکام کو عمر بن خطاب کی رائے  اور اجتہاد  کی بنا پر نہیں چھوڑ سکتے ۔

یہ ہے متعہ کے بارے میں شیعوں کی رائے  کا  خلاصہ ، جو بظاہر بالکل درست اور صحیح ہے ۔کیونکہ سب مسلمان اللہ اوراس کے  رسول  ص کے احکام کی پیروی کرنے کے مکلف  ہیں ، کسی اور کی رائے کی نہیں ، خواہ اس کا رتبہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو خصوصا اگر اس کا اجتہاد  قرآن وحدیث کے نصوص کے خلاف ہو ۔

اس کے برعکس ، اہل سنت  والجماعت یہ کہتے ہیں کہ  متعہ پہلے حلال تھا ، اس کے متعلق قرآن میں آیت بھی اتر آئی  تھی ، رسول اللہ ص نے اس کی اجازت بھی دی تھی ، صحابہ ن ےاس پر عمل بھی کیا تھا لیکن بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا  کسی نے منسوخ کیا ۔ اس میں اختلاف کیا ہے :

 کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود انپی وفات

۲۵۷

سے قبل منسوخ کردیا تھا۔(1)

کچھ کا کہنا ہے کہ عمر بن خطاب نے متعہ کو حرام کیا اور ان کاحرام کرنا ہمارے لیے حجت ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کافرمان ہے کہ " میری سنت اورمیرے بعد آنے والے خلفا ئے راشدین کی سنت پر چلو اور اسے دانتوں  سے مضبوط پکڑ لو۔"

اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ  متعہ اس لیے حرام ہے کہ عمر بن خطاب نے اسے حرام کیا تھا اور سنت عمر کی پابندی  اور پاسداری ضروری ہے ، توایسے لوگوں سے تو کوئی گفتگو اور بحث  بیکار  ہے ،کیونکہ ان کا یہ قول  محض تعصب  اور تکلف بے جاہے ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی مسلمان  اللہ اور رسول  ص کا قول چھوڑ کر اور ان کی مخالفت کرکے کسی ایسے مجتہد  کی رائے پر چلنے لگے جس کی رائے  بنا بر بشریت صحیح کم ہوتی ہے  اور غلط زیادہ ۔ یہ صورت بھی اس وقت ہے جب اجتہاد کسی ایسے مسئلے  میں ہو جس کے بارے میں قرآن وسنت میں کوئی تصریح  نہ ہو ۔ لیکن اگر کوئی تصریح موجود  ہو تو پھر حکم خداوندی یہ ہے :

"وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِيناً"

جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کردیں تو پھر اس بات میں کسی  مومن  مرد  اور کسی مومن عورت کو کوئی اختیار نہیں ۔ اور جس نے اللہ اور اس کے رسول  کی نافرمانی  کی وہ بالکل گمراہ ہوگیا ۔(سورہ  احزاب ۔آیت 36)

جسے اس قاعدہ  پر مجھ سے اتفاق نہ ہو اس کے لیے اسلامی قوانین کے

------------------------

(1):-یہ بات وثوق سے معلوم نہیں کہ رسول اللہ ص نےکب منسوخ کیا تھا: کچھ لوگ  کہتے ہیں کہ روزخیبر اور کچھ کہتے ہیں  کہ روزفتح  مکہ اور کچھ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں اور کچھ  کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع میں اور کچھ کہتے ہیں عمرۃ القضا میں  رسول اللہ  ص نے منسوخ کیا تھا (ناشر)

۲۵۸

بارے میں اپنی معلومات پر نظر ثانی کرنی اور قرآن وحدیث کا مطالعہ کرناضروری ہے کیونکہ قرآن خود مذکورہ بالا آیت میں بتلاتا ہے کہ جو قرآن سنت کو حجت  نہیں مانتا وہ کافر اورگمراہ ہے ۔ اور ایک اسی آیت پر کیا موقوف ہے  قرآن میں ایسی  متعدد آیات موجود ہیں ۔ اسی طرح اس بارے میں احادیث بھی بہت ہیں ، ہم صرف ایک حدیث نبوی پر اکتفاء کریں گے ۔

رسو ل اللہ نے فرمایا  : "جس چیز  کو محمد  ص نے حلال  کیا وہ قیامت تک کے لیے حلال ہے اورجس چیز کو محمد ص نے حرام کیا وہ قیامت  تک کے لیے حرام ہے "۔

اس لیے کسی کو  یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ  کسی ایسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں فیصلہ کرے جس کے متعلق اللہ یا اس کے رسول  کا حکم موجود ہو

تکمیل  دین کے بعد  نہ ترمیم سوچیے

بندہ نواز ! آپ رسالت نہ کجیے

اس کے باوجود  بھی جو لوگ یہ چاہتے  ہیں گہ ہم یہ مان لیں کہ خلفائے  راشدین کے افعال واقوال اور ان کے اجتہادات پر عمل ہمارے لیے ضروری  ہے ، ہم ان سے صرف اتنا عرض کریں گے کہ :

"کیا تم ہم سے  اللہ کے بارے میں حجت کرتے ہو؟ ہو تو ہمارا بھی پروردگار ہے اور تمھارا  بھی ۔ ہمارے  اعمال  ہمارے لئے ہیں  اور تمھارے  اعمال  تمھارے  لیے ۔ اور ہم تو اسی کے لیے  خالص ہیں ۔ (سورہ بقرہ ۔ آیت 139)

لہذا ہماری بحث کا تعلق صرف اس گروہ سے ہے جو یہ کہتا ہے کہ رسول اللہ ص نے خود متعہ کو حرام قراردیا تھا اور یہ کہ  قرآن کا حکم حدیث سے منسوخ ہوگیا(1)

---------------------------

(1):- واضح رہے کہ حدیث سے قرآن کا حکم منسوخ نہیں ہوتا کیونکہ قانون سازی انبیاء کا کام نہیں ہے ، ان کا کام تو بس یہ ہے کہ اللہ کے بنائے ہوئے قانون  اسے کے بندوں تک پہنچادیں" وما علی الرّسول الّا البلاغ المبين" (ناشر)

۲۵۹

مگر  ان لوگوں کے اقوال میں بھی تضاد ہے اور ان کی دلیل کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ۔اگر چہ ممانعت  روایت صحیح مسلم میں آئی ہے ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خود رسول اللہ ص نے متعہ کی ممانعت فرمادی تھی  تو اس کے علم ان صحابہ کو کیوں  نہیں ہوا جنھوں ن ےعہد ابو بکر میں ان عہد عمر کے اوائل میں متعہ کیا ، جیسا کہ اس کی روایت خود صحیح مسلم میں ہے(1)

عطاء کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ انصاری کے لیے آئے تو ہم ان کی قیام گاہ پر گئے ۔ لوگ ان سے ادھر ادھر کی باتیں پوچھتے  رہے ۔ پھر متعہ کا ذکر چھڑ گیا ۔جابر نے کہا : ہاں ہم نے رسول اللہ کے زمانے  میں بھی متعہ کیا ہے(2) اور ابو بکر  اور عمر کے عہد میں بھی ۔

اگر رسول اللہ ص متعہ کی ممانعت کرچکے ہوتے تو پھر ابو بکر اور عمر کے زمانے میں صحابہ کے لیے  متعہ کرنا جائز نہ ہوتا ۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ص نے نہ متعہ کی ممانعت کی تھی اور نہ اسے حرام قراردیا تھا ۔ ممانعت تو عمر بن خطاب نے کی ۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں آیا ہے :

ابو رجاء ن ےعمران بن حصین سے روایت کی ہے کہ ابن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ متعہ کی آیت کتاب اللہ میں نازل ہوئی تھی چنانچہ ہم نے اس وقت متعہ کی جب ہم رسول اللہ ص کے  ساتھے تھے ، قرآن میں کبھی متعہ کی حرمت نازل نہیں ہوئی ، اور نہ رسول اللہ ص نے اپنی وافات تک متعہ سے منع کیا ۔ اس کے بعد ایک شخص نے اپنی رائے  سے جو چاہا کہا ۔

محمد کہتے ہیں کہ لوگ یہ کہتے تھے کہ ایک شخص سے مراد عمر

--------------------------

(1):-صحیح مسلم جلد 4 صفحہ 158

(2):- مثلا زبیر بن العوام نے حضرت ابوبکر کی بیٹی اسماء سے متعہ کیا تھا ۔ اس متعہ کے نتیجے  میں عبداللہ بن زبیر اور عروہ بن زبیر پیداہوئے تھے ۔ جیسا کہ امام اہلسنت راغب اصفہانی نے محاضرات الادباء میں لکھا ہے (ناشر)

۲۶۰