حکم اذاں

حکم اذاں0%

حکم اذاں مؤلف:
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 328

حکم اذاں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد تیجانی سماوی (تیونس)
: علی اصغر رضوانی
: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات: صفحے: 328
مشاہدے: 55345
ڈاؤنلوڈ: 5073

تبصرے:

حکم اذاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 328 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 55345 / ڈاؤنلوڈ: 5073
سائز سائز سائز
حکم اذاں

حکم اذاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کا یہ قول ہے کہ" علمائ امتی افضل من انبياء بنی اسرائيل " (میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے پیغمبروں سے افضل ہیں )یا یہ قول کہ  :" العلماء ورثة الأنبياء " (علماء انبیاء کے وارث ہیں )(1) ۔اہل سنّت کےنزدیک یہ حدیث عام ہے اور اس کا مصداق سب علمائے امت ہیں ۔ جبکہ شیعوں کے نزدیک یہ حدیث صرف بارہ اماموں سے مخصوص ہے اور اسی بنا پر وہ ائمہ  اثناعشر کو اولوالعزم انبیاء کو چھوڑ کر سب انبیاء سے افضل قراردیتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل کارجحان بھی اسی تخصیص کی طرف ہے :اوّل تواس لئے کہ کلام الہی کے مطابق قرآن کی تاویل کا علم صرف راسخوں فی العلم سے مخصوص ہے ۔ اسی طرح قرآن  کے علم کا وارث بھی اللہ  تعالی نے اپنے چیدہ وچنیدہ بندوں کو ہی قراردیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تخصیص ہے ۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل بیت ع کو " سفینۃ النجاۃ ۔ ائمۃ الھدی" اور"مصابیح الدجی" کہا ہے اور وہ ثقل ثانی قراردیا ہے جو گمراہی سے بچانے والا ہے ۔

دوسرے اس لئے کہ اہل سنت والجماعت کا قول اس تخصیص کے منافی ہے جو قرآن اور حدیث نبوی سے ثابت ہے ۔ عقل بھی اس قول کو قبول نہیں کرتی کیونکہ اس میں ابہام ہے اس لئے کہ اس میں حقیقی علماء اوربناوٹی  علماء میں فرق نہیں کیا گیا ہے ۔کون نہیں جانتا کہ یہاں وہ علماء بھی  جنھیں اللہ تعالی نے ہمہ اقسام رجس سے پاک رکھا ہے اور وہ علماء بھی ہیں جنھیں اموی اور عباسی حکمرانوں نے امّت پر سوار کردیا تھا ۔زیادہ واضح الفاظ میں یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ دوقسم کے علماء ہیں : ایک وہ جن کو علم لدنی عطا ہوا ہے ۔ اور دوسرے وہ جنھوں نے استادوں سے راہ نجات کی تعلیم  حاصل کی ۔یہیں سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ تاریخ کسی ایسے استاد کاذکر نہیں کرتی جس سے ائمہ اہلبیت ع نے تعلیم  حاصل کی ہو ۔ بجز اس کے کہ بیٹے نے باپ سے علم حاصل کیا ہے ۔ اس کے باوجود خود علمائے اہل سنت  نے اپنی کتابوں  میں ان ائمہ کی علمیت کی حیرت انگیز داستانیں بیان کی ہیں ۔خصوصا امام باقر ع ، امام صادق ع

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد اول کتاب العلم اور صحیح ترمذی کتاب العلم

۲۱

اورامام رضا ع سے متعلق ۔امام رضا ع کا تو ابھی لڑکپن ہی تھا جب انھوں نے اپنی کثرت معلومات چالیس قاضیوں کو مبہوت کردیا تھا جنھیں مامون نے ان کے مقابلے کے لئے جمع کیاتھا (1) ۔

اسی سےیہ راز بھی آشکار  ہوجاتا ہے کہ سنیوں کے مذاہب اربعہ کے اماموں میں تو ہر مسئلے میں اختلاف ہے اوراہل بیت ع کے بارہ اماموں میں کسی ایک مسئلہ میں بھی اختلاف نہیں ۔

تیسری بات یہ ہے کہ اگر اہلسنت  کی یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ یہ آیات اور احادیث بلا امتیاز علمائے امت کے بارے میں ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ آراء اور مذاہب  کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوتا چلاجائے گا ۔ شاید علمائے اہل سنت نے اپنی رائے کی اسی کمزوری کو بھانپ لیا تھا جس کی وجہ سے انھوں نے عقیدے کی تفریق سے بچنے کی خاطر ائمہ اربعہ کے وقت سے ہی اجتہاد کا دروازہ بندکردیا ۔

اس کے بر عکس ، شیعوں کا نظریہ یہ اتفاق  اور ان ائمہ سے وابستگی کی دعوت دیتا ہے ۔ جنھیں اللہ اور اس کے رسول نے خصوصی طورپر ان سب علوم ومعارف سے نوازا ہے جن کی ہرزمانے میں مسلمانوں  کوضرورت ہوتی ہے ۔ اس لئے اب یہ کسی مدعی کی مجال نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے کوئی غلط بات منسوب کرکے کسی نئے مذہب کی بنیاد ڈالے اور لوگوں کو اس کے اتباع پرمجبور کرے ۔اس مسئلے میں شیعہ ، سنی اختلاف کی نوعیت بالکل وہی ہے جو مہدی موعودسے متعلق احادیث کے بارے میں ان کے اختلاف  کی ہے ۔ مہدی موعود سے متعلق حدیث کی صحت کے د ونوں فریق قائل ہیں ۔

شیعوں کےیہاں مہدی کی شخصیت معلوم ہے ۔ یہ بھی علم ہے کہ ان کے باپ دادا کون ہں ۔لیکن اہل سنت کے خیال میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں کہ مہدی کون صاحب ہوںگے ۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ آخری زمانے میں  پیدا ہوں گے ۔یہی وجہ ہے کہ ابتک

--------------------

(1):-العقدالفرید ابن عبد ربہ اور الفصول المہمہ ابن صباغ مالکی جلد 3۔

۲۲

بہت سے لوگ مہدی ہونے کا دعوی کرچکے ہیں ۔خود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہادفی نے کہا کہ وہ منتظر مہدی ہیں ۔ یہ بات انھوں نے میرے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں کہی جو اس وقت انکا مرید تھا ۔بعد میں شیعہ ہوگیا ۔

بہت سے اہل سنت اپنے بچے کا نام مہدی اس امید میں رکھتے ہیں کہ شاید وہی امام منتظر وموعود ہو ۔لیکن شیعوں کے یہاں یہ ممکن ہی نہیں کہ اب پیدا ہونے والا کوئی شخص ایسا دعوی کرسکے ۔کچھ لوگ اپنے بچوں کا نام مہدی برکت کے لئے ضرور رکھتے ہیں جیسے بعض لوگ اپنے بیٹے کا نام محمد یا احمد یا علی رکھتے ہیں ۔شیعوں کے نزدیک مہدی کا ظہور خود ایک معجزہ ہے کیونکہ وہ اب سےبارہ سو سال پہلے پیدا ہوئے  تھے ، اس کے بعد غائب ہوگئے ۔ اس طرح شیعہ خود بھی آرام سے ہوگئے اور انھوں نے مہدی ہونے کا دعوی کرنے والوں کے لئے بھی راستہ بند کردیا ۔اسی طرح بہت سی صحیح احادیث کے معنی میں بھی شیعوں اورسنیوں کےدرمیان اختلاف ہے ۔ حتی کہ ایسی احادیث کے معنی میں اختلاف ہے جن کا تعلق اشخاض سے نہیں مثلا ایک حدیث ہے :"إختلاف اُمتي رحمة"

سنی کہتے ہیں : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی فقہی مسئلہ فقہاء کے مابین اختلاف مسلمان کے لئے رحمت ہےکیونکہ اس طرح وہ مسئلہ کا وہ حل اختیار کرسکتا ہے جو اس کے حالات کےمناسب ہو اور اسے پسند ہو ۔ مثلا اگر کسی مسئلہ میں امام  مالک کا فتوی سخت ہو تو وہ مالکی ہونے کے باوجود امام ابو حنیفہ کی تقلید کرسکتا ہے اگر اسے ان کا مذہب سہل اورآسان معلوم ہو ۔

مگر شیعہ اس حدیث کا مطلب کچھ اور بیان کرتے ہیں ۔ ان کےیہاں روایت ہے کہ جب امام صادق علیہ السلام سے اس حدیث کےبارےمیں پوچھا گیا  تو آپ نے کہا کہ رسول اللہ نے صحیح فرمایا ۔ سائل نے پوچھا کہ اگر اختلاف رحمت ہے تو کیا اتفاق مصیبت ہے ؟ امام صادق ع نے کہا : نہیں یہ بات نہیں تم غلط راستے پر چل پڑے اوراکثر لوگ اس حدیث کا مطلب غلط سمجھتے ہیں ۔ رسول اللہ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ" حصول علم کے لئے ایک دوسرے کے پاس جانا اور سفر کرنا رحمت ہے " آپ نے

۲۳

اپنے قول کی تائید میں یہ آیت پڑھی :

" وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ"

ایسا کیوں نہ ہو کہ ہر جماعت میں سے ایک گروہ تحصیل علم کے لئے  نکلا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کرے ، پھر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس واپس آکر ان کوڈرائے ۔ کیا عجب کہ وہ غلط کاموں سے بچیں(1) ۔ پھر فرمایا کہ اگر لوگ دین میں اختلاف کریں گے تو وہ شیطانی جماعت بن جائیں گے ۔جیسا کہ ظاہر ہے ، یہ تفسیر اطمینان بخش ہے کیونکہ اس میں عقائد میں اختلاف کے بجائے اتحاد کی تعلیم دی گئی ہے ۔ یہ نہیں کہ لوگ جماعتوں اور گروہوں میں بٹ جائیں ایک اپنی رائے  کے مطابق کسی چیز کو حلال قراردے تو دوسرا اپنے قیاس کی بنا پر اسی چیز کو حرام دے دے ۔ ایک اگر کراہت کا قائل ہو تو دوسرا استحباب کا تیسرا وجوب کا(2) عربی زبان میں دومختلف ترکیبیں استعمال ہوتی ہیں ۔

"إختلفت إليك "اور"إختلفت معك"

دونوں کےمعنی میں فرق ہے ۔"إختلفت إليك " کے معنی ہیں : میں تیرے پاس آیا " اور"إختلفت معك" کے معنی ہیں" میں نے تیری رائے سے اختلاف کیا "۔

اس کے علاوہ اہل سنت والجماعت نے حدیث کا جو مفہوم اختیار کیا ہے وہ اس لحاظ سے بھی نامناسب ہے کہ اس اختلاف اور تفرقہ کی دعوت ہے جو قرآن کریم کی اس تعلیم کے منافی ہے جس میں اتحاد واتفاق اور ایک مرکز پر جمع ہونے کی تلقین کی گئی ہے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے :

--------------------

(1):-سورہ توبہ آیت 122

(2):- مالکیوں کے نزدیک نماز میں بسم اللہ پڑھنا مکروہ ہے ۔شافعیوں کے نزدیک واجب ہے ۔حنفیوں اورحنبلیوں کے نزدیک مستحب ہے مگر کہتے ہیں کہ جہری نماز میں بھی آہستہ پڑھی جائے ۔

۲۴

" وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ "

اور یہ تمھاری امت ایک امت ہے اورمیں تمھارا پروردگار ہوں اس لئے مجھ سے ڈرتے رہو۔(سورہ مومنون ۔آیت 52)

" وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ "

اللہ کی رسی کو مضبوطی سےتھامے رہو اور نااتفاقی نہ کرو۔(سورہ آل عمران ۔آیت 103)

" وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ "

آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ ناکام رہوگے اورتمھاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔(سورہ انفال ۔آیت 46)

اس سے بڑھ کر اور کیا پھوٹ اور تفرقہ ہوگا کہ امت واحدہ ایسے مختلف فرقوں اور گرہوں میں بٹ جائے جو ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہوں ، ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے ہوں بلکہ ایک دوسرے کو کافر کہتے ہوں یہاں تک کہ ایک دوسرے کا خون بہانا جائز سمجھتے ہوں ۔یہ کوئی خیالی  بات نہیں بلکہ مختلف ادوار میں فی الواقع ایسا ہوتا رہا ہے جس کی سب سے بڑی گواہ تاریخ ہے اور امت میں پھوٹ کے اسی انجام سے خود اللہ تعالی نے ڈرایا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہے :

" وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمُ الْبَيِّنَاتُ "

ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو دلائل آجانے کے باوجود آپس میں بٹ گئے اور ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے ۔(سورہ آل عمران ۔آیت 105)

" إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعاً لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ "

جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ میں بٹ گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ۔(سورہ انعام ۔آیت 160)

"وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ () مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ

۲۵

وَكَانُوا شِيَعاً كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ "

مشرکوں میں سے نہ بن جاؤ نہ ان لوگوں میں سے جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور خود فرقے فرقے ہوگئے ۔سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو ان کے پاس ہے ۔(سورہ روم ۔آیت 31-32)

یہاں یہ کہنا بے محل نہ ہو گا  کہ لفظ شیعا کا شیعہ سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ ایک سادہ لوح شخص نے سمجھا تھا  جو ایک دفعہ میرے پاس آکر مجھے نصیحت کرنے لگا : "بھائی جان! خدا کے واسطے ان شیعوں کوچھوڑیئے ،اللہ  ان سے نفرت کرتا ہے :اس نے اپنے رسول کو متنبہ کیا تھا کہ ان کے ساتھ نہ ہوں "۔

میں نے کہا : یہ کیسے ؟

اس نے یہ آیت پڑی دی : " إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعاً لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ "

 میں نے اسے سمجھانے کی بہیتری کوشش کی کہ شیعا کے معنی ہیں گروہ ،جماعتیں ،پارٹیاں ۔اس کا شیعہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ شیعہ کا لفظ تو اچھے معنی میں آیا ہے مثلا :" وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ "

یا حضرت موسی ع  کے قصے میں آیا ہے کہ" فوجد فيها رجلين يقتتلان هذا من شيعته وهذا من عدوه "

مگر افسوس ! یہ شخص کسی طرح میری بات مان کر نہ دیاکیونکہ اسے تومسجد کے امام صاحب نے شیعوں کے خلاف سکھا پڑھا دیا تھا ۔ پھر وہ کوئی اور بات کیوں سنتا ؟

اب میں اصل موضوع کی طرف پلٹتا ہوں ۔ بات یہ ہے کہ میں شیعہ ہونے سے پہلے سخت شش وپنچ میں تھا ۔جب میں یہ حدیث پڑھتا تھا کہ :"إختلاف اُمتي رحمة" اور اس کا مقابلہ اس دوسری حدیث سے کرتا تھا جس میں آیا ہے کہ "میری امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو ایک کو چھوڑ کر سب جہنم میں جائیں گے "(1) تو میں دل ہی دل

-------------------

(1):-سنن ابن ماجہ کتاب الفتن جلد 2۔ مسند امام احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 120 ۔جامع ترمذی کتاب الایمان ۔

۲۶

میں حیران  ہوتا تھا کہ آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو امت کا اختلاف ہو اور ساتھ ہی وہ دخول جہنم کا موجب بھی ہو ؟؟

پھر جب میں نے اس حدیث کی وہ تشریح پڑھی جو امام جعفر صادق نے کی ہے تومیری حیرت دور ہوگئی کیونکہ معما حل ہوگیا تھا۔ اس وقت میں سمجھا کہ ائمہ اہل بیت ع واقعی بہترین رہنما ،اندھیروں میں چراغ اور صحیح معنی میں قرآن وسنت کے ترجمان ہیں ۔ جب ہی تو رسول اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے :

"مثل أهل بيتي فيكم كسفينة نوحٍ من ركبها نجا ومن تخلّف عنها غرق .لاتقدّمواهم فتهلكواولاتتخلّفواعنهم فتهلكوا,ولا تعلّموهم فإنّهم أعلم منكم"

میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح  کی سی ہے جو اس پر سوار ہوگیا بچ گیا اور جو اس سے بچھڑ گیا ڈوب گیا ۔ ان سے نہ توآگے نکلو نہ ان سے پیچھے رہو ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے ۔انھیں کچھ سکھانے  کی کوشش نہ کرو کہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں (1)۔

امام علی ع نے بھی ان کے حق میں فرمایا ہے :

" اپنے نبی کے اہل بیت پر نظر جمائے رکھو ،ان ہی کے رخ پر ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہو وہ تمھیں راستے سے بھٹکنے نہیں دیں گے  نہ تمھیں کسی گڑھے میں گرنے دیں گے ۔ اگر وہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو ۔ ان سے آگے نہ نکلو ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے اور نہ ان سے پیچھے رہو ورنہ تباہ ہوجاؤ گے (2)

ایک اور خطبے میں اہل بیت ع کی قدر ومنزلت بیان کرتے ہوے امام

--------------------

(1):- صوعق محرقہ ابن حجر ہیثمی مکی ۔جامع الصغیر سیوطی جلد 2 صفحہ 157 ۔مسند امام احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 17 وجلد 4 صفحہ 266

(2):-نہج البلاغہ خطبہ 95

۲۷

علی ع نے فرمایا :

"وہ علم  کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں ۔ان کا حلم ان کے علم کی اور ان کا ظاہر ان کے باطن کی خبر دیتا ہے ۔ ان کی خاموشی ان کی عاقلانہ گفتگو  کی غمازی کرتی ہے ۔ وہ نہ حق کے خلاف کرتے ہیں اور نہ امر حق  میں اختلاف کرتے ہیں ۔ وہ اسلام کے ستون ہیں ۔ تعلق  مع اللہ  ان کی فطرت ہے ۔ ان کی وجہ سے حق کا بول بالا ہوا ، باطل کی جڑیں کٹ گئیں اور اس کی زبان گدی سے کھینچ گئی ان کے پاس وہ عقل ہے کہ انھوں نے دین کو سمجھا اور برتا، یہ نہیں کہ سنا اور بیان کردیا ۔علم کو بیان کرنے والے بہت ہیں اور اسے سمجھنے اور برتنے والے کم ہیں "(1)

جی ہاں  سچ فرمایا امام علی ع نے ، کیونکہ وہ شہر علم کا دروازہ ہیں ۔ بڑا فرق ہے  اس عقل میں جو دین کو سمجھتی اور برتتی  ہے اور اس عقل میں جو سنتی اور بیان کردیتی ہے ۔ سننے اور بیان کردینے والے بہت ہیں کتنے صحابہ ہیں جنھیں رسول اللہ ص کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہے ۔ وہ احادیث سنتے تھے اور بغیر سمجھے بوجھے نقل کردیتے  تھے جس سے حدیث کے معنی کچھ کےکچھ ہوجاتے تھے بلکہ بعض دفعہ تو مطلب بالکل الٹا ہوجاتا تھا ۔یہاں تک کہ صحابی کے سخن شناس نہ ہونے اور اصل مطلب نہ سمجھنے  کی وجہ سے بات کفر تک جاپہنچی(2) ۔

لیکن جو علم پر پوری طرح حاوی ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے ۔آدمی اپنی پوری

--------------------

(1):-نہج البلاغہ خطبہ 236

(2):- اس کی مثال ابو ہریرہ  کی یہ روایت ہے کہ " انّ اللہ خلق آدم علی صورتہ " اس کی وضاحت امام جعفر صادق ع نے کی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ص نے سنا کہ دو آدمی ایک دوسرے کو برابھلا کہہ رہے ہیں ۔ایک نے کہا " تیری شکل پر پھٹکار  اور تیرے جیسی جس کی شکل ہو اس پر بھی پھٹکار ۔"

اس پر رسول اللہ ص نے فرمایا :" " انّ اللہ خلق آدم علی صورتہ "" مطلب یہ کہ اس کی شکل تو حضرت آدم ع جیسی ہے ۔گویا تو حضرت آدم کو گالی دے رہا ہے کیونکہ ان کی شکل اس جیسی تھی ۔

۲۸

عمر تحصیل علم میں صرف کردیتا ہے لیکن بسا اوقات اسے بہت ہی کم علم حاصل ہوتا ہے ۔یا زیادہ سے زیادہ وہ علم کی کسی ایک شاخ یا کسی ایک فن میں مہارت حاصل کرپاتا ہے لیکن علم کی تمام شاخوں پر حاوی ہوجانا یہ بالکل ناممکن ہے  مگر جیسا کہ معلوم ہے ائمہ اہل بیت مختلف علوم سے کماحقہ ، واقف تھے اور ان میں مہارت رکھتے تھے ۔ اس چیز کو امام علی ع نے ثابت کردیا تھا جس کی شہادت مورخین نے بھی دی ہے ۔ اسی طرح امام محمد باقر ع اور امام جعفر صادق سے ہزاروں علماء کو مختلف علوم میں تلمذ حاصل تھا ، جیسے فلسفہ ، طب  ،کیمیا اور طبیعیات وغیرہ ۔

شیعہ اور سنی عقائد

جس بات سےمجھے یقین ہوگیا کہ شیعہ امامیہ ہی نجات پانے والا فرقہ ہے ،وہ یہ ہے کہ شیعہ عقائد فراخ دلانہ ،آسان اورہر ہوشمند اورباذوق شخص کے لئے قابل قبول ہیں ۔ شیعوں کے یہاں ہر مسئلے اور ہر عقیدے کی مناسب اور اطمینان بخش وضاحت موجود ہے جو ائمہ اہل بیت ع میں سے کسی نہ کسی سے منسوب ہے ۔ جب کہ ممکن ہے کہ ایسی کافی وشافی وضاحت اہل سنت اوردوسرے فرقوں کے یہاں نہ مل سکے ۔

میں اس فصل میں فریقین کے بعض اہم عقائد کے بارے میں گفتگو کروں گا اور کوشش کروں گا کہ ان کے متعلق اپنی سوچی سمجھی رائے  ظاہر کروں ۔ قارئین کو آذادی اور اختیار ہے کہ وہ میری رائے کو مانیں یا نہ مانیں ،مجھ سے اتفاق کریں  یا اختلاف ۔

میں یہاں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ بنیادی عقیدہ سب مسلمانوں کا ایک ہے ۔ سب مسلمان اللہ تعالی پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے  ہیں اور اس کے رسولوں میں کوئی تمییز نہیں کرتے ۔

اسی طرح سب مسلمان اس پر متفق ہیں کہ جہنّم حق ہے ، جنت حق ہے ، اللہ سب مردوں کو زندہ کرےگا اور انھیں محشر میں حساب کتاب کے لئے جمع کرےگا ۔ اسی طرح قرآن پر بھی اتفاق ہے اور سب کا ایمان ہے کہ حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ سب کا قبلہ ایک ہے ، ان کا دین ایک ہے ،لیکن ان عقائد کے مفہوم میں اختلاف ہوگیا ۔ اور اس طرح یہ عقائد مختلف کلامی فقہی اورسیاسی مکاتب فکر کی جولان گاہ بن گئے ہیں ۔

۲۹

اللہ تعالی کے متعلق فریقین کا عقیدہ

اس سلسلے میں ایک اہم اختلاف رویت باری تعالی کے متعلق ہے :- اہل سنت والجماعت کہتے ہیں کہ جنّت میں سب مومنین کو رویت باری تعالی نصیب ہوگی ۔ان کی حدیث کی مستند کتابوں ،مثلا بخاری اور مسلم وغیرہ میں ایسی روایات موجود ہیں جن میں اس پر زوردیا گیا ہے کہ یہ رویت مجازی نہیں بلکہ حقیقی ہوگی (1)۔

بلکہ ان میں ایسی روایات بھی ہیں جن سے معلوم ہوتاہے گویا خدا انسانوں کے مشابہ ہے ، وہ ہنستاہے (2)،آتا جاتا ہے ،چلتا ہے پھرتاہے اور ساتویں آسمان سے پہلے آسمان پر اترتا ہے (3)۔حتی کہ اپنی پنڈلی کھولتا ہے جس پر شناختی علامت بنی ہوئی ہے (4)۔ اور یہ کہ جب وہ اپنا ایک پاؤں دوزخ میں رکھے گا تو دوزخ میں رکھے گا تو دوزخ بھر جائے گی ۔ غرض ایسی باتیں اور ایسے اوصاف حق تعالی سے منسبوب کیے گئے ہیں جن سے وہ  پاک اور منزہ ہے (5)۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار کینیا (مشرقی افریقہ)کے شہر لامو سےمیر اگزر ہوا ۔ وہاں مسجد میں ایک وہابی امام صاحب نمازیوں  کوخطاب کررہے تھے ، وہ کہہ رہے تھے کہ اللہ کے دو ہاتھو ہیں ۔ دوپاؤں ہیں ، دوآنکھیں اور چہرہ ہے ۔ جب میں نے اس پر اعتراض کیاتو انھوں نے اپنی تائید میں قرآن کی کچھ آیات پڑھیں ، فرمایا :-" وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 2صفحہ 47 ۔جلد 5 صفحہ 178 اور جلد 6صفحہ 33

(2):-صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 225۔جلد 5صفحہ 47۔48 ۔صحیح مسلم جلد1 صفحہ 114۔122

(3):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 197

(4):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 182

(5):- صحیح بخاری جلد 8صفحہ 187 ،صفحہ 202 سےثابت ہوتا ہے کہ حق تعالی کے ہاتھ اور انگلیاں ہیں ۔

نوٹ:- واضح ہو کہ یہ تو خدا کو حادث ماننا  ہوا جبکہ وہ قدیم ہے ۔(ناشر)

۳۰

وَلُعِنُواْ بِمَا قَالُواْ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ ...... "

یہود کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ تو بندھا ہوا ہے ۔ بندھیں ان کے ہاتھ ! اورلعنت ہو ان پر یہ بات کہنے کی وجہ سے ۔ اللہ کے ہاتھ تو کھلے ہیں "۔

اس کے بعد دوآیتیں اور پڑھیں :" وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا " ہماری آنکھوں کے سامنے کشتی بناؤ، اور

" کل من عليها فان و يبقی وجه ربک ذو الجلال و الاکرام " جو مخلوق بھی زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے اور تمھارے پروردگار کا چہرہ جو صاحب جلال وعظمت ہے باقی رہے گا ۔

میں نے کہا :- بھائی صاحب !جو آیات آپ نے پڑھی ہیں مجاز ہیں حقیقت  نہیں ۔ کہنے لگے سارا قرآن حقیقت ہے اس میں مجاز کچھ نہیں ۔ اس پر میں نے کہا : پھر اس آیت کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں:" وَمَن كَانَ فِي هَـذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الآخِرَةِ أَعْمَى " کیا آپ آیت  کو اس کے حقیقی معنی میں لیں گے ؟ کیا واقعی دنیا میں جو بھی اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا ؟

امام صاحب نے جواب دیا : ہم اللہ کے ہاتھ ، اللہ کی آنکھ اور اللہ کےچہرے کی بات کررہے ہیں ، اندھوں سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ۔(فکری جمود کی انتہا ملاحظہ ہو۔)

میں نے کہا :- اچھا اندھوں کو چھوڑیۓ ! آپ نے جو آیت پڑھی ہے : " کل من عليها فان و يبقی وجه ربک ذو الجلال و الاکرام " اس کی تشریح آپ کیسے کریں گے ؟

امام صاحب نے حاضر ین کو مخاطب کرکے کہا :کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو اس

۳۱

آیت کا مطلب نہ سمجھتا ہو؟اس کا مطلب صاف ظاہر ہے ۔یہ بالکل ویسی ہی آیت ہے جیسی"كلّ شيءٍ هالك إلّا وجهه".

میں نے کہا:- آپ نے اور بھی گڑبڑکردی ۔بھائی صاحب میرا آپ کا اختلاف  قرآن کے بارے میں ہے ۔آپ کا دعوی ہے کہ قرآن میں مجاز نہیں سب حقیقت ہے ، میں کہتا ہوں مجاز بھی ہے خصوصا ان آیات  میں جس میں تجسیم   یا تشبیہ کا شبہ ہوتا ہے ۔ اگر آپ کو اپنی رائے پر اصرارہے تو آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ"كلّ شيءٍ هالك إلّا وجهه"

کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ہاتھ ،پاؤں اور اس کا پورا جسم فنا ہوجائے گا اور صرف چہرہ باقی بچے گا ۔ (نعوذ باللہ)پھر میں نے حاضرین کو مخاطب کرکے کہا : کیا آپ کو یہ تفسیر منظور ہے ؟

پورے مجمع پر سکوت طاری ہوگیا اور امام صاحب کو بھی ایسی چپ لگ گئی جیسے منہ میں گھنگھنیاں بھری ہوں ۔ میں انھیں رخصت کرکے یہ دعا کرتا ہوا چلاآیا کہ اللہ انھیں نیک ہدایت کی توفیق دے ۔

جی ہاں ! یہ ہے ان کا عقیدہ جو ان کی معتبر کتابوں میں اور جو ان کے مواعظ وخطبات میں بیان کیا جاتا ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ کچھ علمائے اہل سنت اس کے انکاری نہیں ہیں لیکن اکثریت کو یقین ہے کہ آخرت میں اللہ کا دیدار ہوگا اور وہ اس کو اسی طرح دیکھیں گے جس طرح چودھویں کا چاند دیکھتے ہیں ۔ ان کا استدلال اس آیت سے ہے :

" وجوه يومئذ ناضرة إلى ربها ناظرة "

کچھ چہرے اس دن ہشاش بشاش اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے ۔

جیسے  ہی آپ کو اس بارے میں شیعوں  کا عقیدہ معلوم ہوگا آپ کے دل کو اطمینان ہوجائے گا  اور آپ کی عقل اسے تسلیم کرلے گی ۔ کیونکہ شیعہ ان قرآنی آیات کی جن میں

--------------------

(1):- سورہ قیامہ ۔آیت 22۔ ائمہ اہل بیت ع نے " اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوںگے " کی تفسیر یہ کی ہےکہ اپنے پروردگار کی رحمت کے امیدوار ہوںگے ۔

۳۲

تجسیم یا تشبیہ کا شبہ ہوتا ہے تاویل کرتے ہیں اور انھیں مجاز پر محمول کرتے ہیں ، حقیقت پر نہیں ۔ اور وہ مطلب نہیں لیتے جو ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے ، یا جیسا بعض دوسرے لوگ سجمھتے ہیں ۔

اس سلسلے میں امام علی علیہ السلام کہتے ہیں : "ہمت کتنی ہی بلند پروازی سے کام لے اورعقل کتنی ہی گہرائی میں غوطے لگائے ، اللہ کی ذات کا ادراک ناممکن ہے ۔ اس کی صفات کی کوئی حد نہیں اور نہ اس کی تعریف ممکن ہے نہ اس کا وقت متعین ہے اورنہ زمانہ مقررہے "(1) امام محمد باقر علیہ السلام  تجسیم الہی کی تردید کرتے ہوئے کتنی فلسفیانہ ،علمی ،نازک اور جچی تلی بات کہتے ہیں : "ہم چاہے جس چیز کا تصور ذہن میں لائیں اور اس کے بارے میں جتنا بھی سوچیں ہمارے ذہن میں جو بھی تصویر ابھرے گی وہ ہماری طرح کی مخلوق ہوگی "(2) جو عقل میں گھر  گیا لاانتہا کیوں کر ہوا

                                       جو سمجھ میں آگیا وہ خدا کیوں کر ہوا

(اکبر آلہ آبادی)

تجسیم  اور تشبیہ کی رد میں ہمارے لیے تو اللہ پاک کا اپنی کتاب محکم میں یہ قول کافی ہے:

"ليس كمثله شيءٌ"اور "لاتدرکه الأبصار"

اس جیسی کوئی چیز نہیں ۔ اور ۔ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں ۔

جب حضرت موسی نے اللہ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور کہا :"ربّ أرني أنظر إليك " تو جواب ملا"لن ترانی" تم مجھے  کبھی نہیں دیکھ سکو گے ۔ اوربقول زمخشری

--------------------

(1):-نہج البلاغہ ۔پہلا خطبہ ۔

(2):- عقائد الامامیہ ۔شیخ مظفر ۔یہ کتاب جامعہ تعلیمات اسلامی نے مکتب تشیع کے نام سے شایع کی ہے

لن کے مفہوم  میں تابید  شامل ہے ۔یعنی ابد تک کبھی بھی نہیں دیکھ سکو گے ۔

۳۳

یہ سب شیعہ اقوال کی صحت  کی دلیل قاطع ہے ۔بات یہ ہے کہ شیعہ ان ائمہ اہل بیت کے اقوال نقل کرتے  ہیں جو سرچشمہ علم تھے ۔ اور جنھیں کتاب اللہ کا علم میراث میں ملا تھا ۔

جو شخص اس موضوع سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنا چاہے وہ اس موضوع پر مفصل کتابوں  کی طرف رجو ع کرے ۔ مثلا المراجعات کے مولف سید شرف الدین عاملی کی کتاب "کلمۃ حول الرویہ "

نبوت کے بارے میں فریقین  کا عقیدہ

نبوت  کے بارے میں شیعہ سنی اختلاف کا موضوع عصمت کا مسئلہ ہے ۔ شیعہ اس کے قائل ہیں کہ انبیاء بعثت سے قبل بھی معصوم ہوتے ہیں اور بعثت  کےبعد بھی ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ جہاں تک کلام اللہ  کی تبلیغ کا تعلق ہے ، انبیاء بے شک معصوم ہیں لیکن دوسرے معاملات میں وہ عام انسانوں  کی طرح ہیں ۔ اس بارے میں حدیث کی کتابوں میں متعدد روایات موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے کئی موقعوں پر غلط فیصلہ کیا اور صحابہ نے  آپ  کی اصلاح کی ۔جیسا کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے معاملے میں ہوا ۔جہاں اللہ کے رسول  ص کی رائے درست نہیں تھی اور عمر کی رائے صحیح تھی ۔(1)

اسی طرح جب رسول اللہ مدینہ آئے تو وہاں لوگوں کو دیکھا کہ کجھور کے درخت میں گا بھادے رہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا :- گابھا دینے کی ضرورت نہیں ، ایسے بھی کجھوریں لگیں گی ، لیکن ایسا نہ ہوا ۔ لوگوں نے آپ سے آکر شکایت  کی تو آپ نے کہا :" تم اپنے دنیا کے کاموں کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو"۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے کہا : میں بھی انسان ہوں ،جب میں تمھیں دین کی کوئی بات بتاؤں تو اس پر ضرور عمل کرو ۔ مگر جب میں کسی دنیا وی معاملے میں اپنی رائے دوں

------------------

(1):-البدائیہ والنہائیہ کے علاوہ صحیح مسلم ۔ سنن ابوداؤد ۔جامع ترمذی ۔

۳۴

تو میں محض انسان ہوں ۔(1) یہ بھی روایت  ہے کہ ایک مرتبہ آپ پر جادو کے اثر سے آپ کو یہ نہیں پتہ چلتا تھا کہ آپ نے کیا کیا ۔ بعض دفعہ یہ خیال ہوتا تھا کہ آپ نے ازدواج سے صحبت کی ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہوتا تھا(2) ۔یا کسی اور کام کے متعلق خیال ہوتا تھا کہ یہ کام کیا ہے مگر دراصل وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا(3) ۔ اہل سنت کی ایک اور روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ کو نماز میں سہو ہوگیا ۔یہ یاد نہیں رہا کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ۔(4) ایک دفعہ آپ کو نماز میں بے خبر سوگئے ،یہاں تک کہ لوگوں نے آپ کے خراٹے کی آواز سنی ،پھر جاگ گئے اور وضو کی تجدید کے بغیر نماز پوری گی(5) ۔اہل سنت یہ بھی کہتے  کہیں کہ آپ  بعض دفعہ کسی پر بلاوجہ ناراض ہوجاتے ، اسے برابلا کہتے اور اس کو لعنت ملامت کرتے تھے ۔ اس پر آپ نے فرمایا :   یا الہی ! میں انسان ہوں ، اگر میں کسی مسلمان کو لعنت ملامت کروں یا برابھلا کہوں تو تو اسے اس کے لئے رحمت بنادے(6) ۔اہل سنت  کی ایک اور روایت  ہے کہ ایک دن آپ حضرت عائشہ کے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ کی ران کھلی ہوئی تھی ، اتنے میں ابوبکر آئے ، آپ اسی طرح لیٹے ہوئے ان سے باتیں کرتے رہے ۔کچھ دیر بعد عمر آئے تو آپ ان سے بھی اسی طرح باتیں کرتے رہے ۔ جب عثمان نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ اٹھ کربیٹھ  گئے اور کپڑے ٹھیک کرلیے ۔ جب عائشہ نے اس بارے میں پوچھا  تو آپ نے کہا : میں کیوں نہ اس شخص سے حیا کروں جس سے ملائکہ بھی شرماتے ہیں ۔(7)

------------------

(1):-صحیح مسلم کتاب الفضائل  جلد 7 صفحہ 95 ۔مسند امام احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 162 اورجلد 3 صفحہ 152

(2):- صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 29

(3):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 67

(4):- صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 123

(5):- صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 37 وصفحہ 44 وصفحہ 171

(6):- سنن دارمی کتاب الرقاق

(7):- صحیح مسلم باب فضائل عثمان جلد 7 صفحہ 117

۳۵

اہل سنت  کے ہاں ایک روایت یہ بھی ہےکہ رمضان  المبارک میں آپ جنب ہوئے تھے اور صبح ہوجاتی  تھی اور آپ کی نماز فوت ہوجاتی تھی(1) ۔اسی طرح اور جھوٹ ہیں جن کو نہ عقل قبول کرتی ہے ،نہ دین اور نہ شرافت اس کامقصد رسول اللہ کی توہین کرنا اور آپ  کی شان  میں گستاخی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ۔ اہل سنت ایسی باتیں رسول اللہ سے منسوب کرتے ہیں جو خود اپنے سے منسوب کرنا پسند نہیں کرتے ۔

اس کے برخلاف شیعہ ائمہ اہلبیت ع کے اقوال سے استدلال کرتے ہوئے انبیاء کو ان تمام لغویات سے پاک قراردیتے ہیں خصوصا ہمارے نبی محمد  علیہ افضل الصلاۃ وازکی السلام کو ۔شیعہ کہتے ہیں کہ آنحضرت تمام خطاؤں ،لغزشوں اورگناہوں سے پاک ہیں چاہے وہ گناہ چھوٹے ہوں یا بڑے ۔اس طرح آپ پاک ہیں ہر غلطی اوربھول چوک سے ،جادو کے اثر سے اور ہر اس چیز سے جس سے عقل متاثر ہوتی ہو ۔ آپ پاک ہیں ہر اس چیز سے جو شرافت اوراخلاق  حمیدہ  کےمنافی ہو جیسے راستے میں کچھ کھانا یا ٹھٹھامارنا یا ایسا مذاق کرنا جس میں جھوٹ کی آمیزش ہو ۔آپ پاک ہیں ہر اس فعل سے جو عقلاء کے نزدیک ناپسندیدہ ہو یا عرف عام میں اچھا نہ سمجھا جاتا ہو ۔چہ جائیکہ  آپ دوسروں  کے سامنے اپنا رخسار بیوی کے رخسار پررکھیں اور اس کے ساتھ حبشیوں کا ناچ دیکھیں(2) ۔یا بیوی کو کسی جنگ کے موقع ساتھ لے کرجائیں  اور وہاں اس کے ساتھ دوڑلگائیں  کہ کبھی وہ آگے نکل جائے اور کبھی آپ اور اس پر آپ کہیں کہ " یہ اس کے بدلے  میں "(3) ۔

شیعہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم  کی ساری روایات جو عصمت انبیاء سے متناقض ہیں امویوں  اور ان کے حامیوں  کی گھڑی ہوئی ہیں ۔ مقصد ان کے دو ہیں :

-------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 232-234  یہ اور ایسی بے شمار روایتیں راجپال کو رنگیلا رسول  رشدی ملعون کو STANNIC VERSESاور مستشرقین کو ہتک رسول کے لئے مواد فراہم کرتی ہیں ۔ (ناشر)

(3):- صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 228

(4):- مسند امام احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 75       

۳۶

         ایک تو رسول اللہ  کی عزت وتوقیر  کو کم کرنا تاکہ اہل بیت ع کی وقعت کو گھٹایا جاسکے ۔ دوسرے اپنے ان افعال بد کے لیے وجہ تلاش کرنا جن کا ذکر تاریخ میں ہے  اب اگر رسول اللہ بھی غلطیاں کرتے تھے اور خواہشات نفسانی سے متاثر ہوتے تھے  جیسا کہ اس قصے میں بیان  کیا گیا ہے ،جس میں کہا گیا ہے کہ جب زینب بنت جحش ابھی زید بن حارثہ کے نکاح میں تھیں  ،آپ انھیں بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے  دیکھ کر ان  پر فریفتہ ہوگئے تھے ، اس وقت آپ کی زبان سے نکلا تھا :سبحان الله مقّلب القلوب     (1)           

ایک اور سنی روایت کے مطابق آپ کی طبیعت کا زیادہ جھکاؤ حضرت عائشہ  کی طرف تھا اور بقیہ ازواج کے ساتھ ویسا سلوک نہیں تھا ۔ چنانچہ ازواج نے ایک دفعہ حضرت فاطمہ زہرا س کو اور ایک دفعہ زینب بن جحش  کو عدل کا مطالبہ کرنے کے لئے  آپ کے پاس اپنا نمایندہ بنا کر بھیجا تھا(2) ۔            

اگر خود رسول اللہ کی یہ حالت  ہو تو معاویہ بن ابی سفیان  ،مروان بن حکم ،عمرو بن عاص ،یزید بن معاویہ  اور ان تمام اموی حکمرانوں  کو کیا الزام دیا جاسکتا  ہے جنھوں نے سنگین جرائم  کا ارتکاب کیا اور بے گناہوں کو قتل کیا ۔بقول شخصی ،اگر گھر کا مالک ہی طبلہ بجارہا ہو تو اگر بچے ناچنے لگیں تو ان کا کیا قصور !

ائمہ اہل بیت ع جو شیعوں کے ائمہ ہیں وہ حضرت رسالتمآب  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی عصمت کے قائل  ہیں اور ظاہر ہے کہ گھر والوں سے زیادہ گھر کا حال  کون جان سکتا ہے ؟ اسی لئے وہ ان تمام آیات قرآنی کی تاویل کرتے ہیں جن  سے بظاہر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے نبی کو عتاب کررہا ہے جیسے" عبس وتولّی" یا جن سے گناہوں   کے اقرار کا مفہوم نکلتا ہے جیسے" ليغفر لک الله ما تقدّم من ذنبک وما تاخّر " یا ایک دوسری آیت" لقد تاب الله علی النبیّ " یا"عفا الله عنک لم اذنت لهم" 

--------------------

(1):- تفسیر جلالین" وتخفی فی نفسک ماالله مبديه " کی تفسیر کی ذیل میں ۔

(2):- صحیح مسلم جلد 7 صفحہ 136 باب فضائل عائشہ ۔

۳۷

ان تمام آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت مجروح نہیں ہوتی ۔ اس لیے کہ بعض آیات آپ سے متعلق ہی نہیں ہیں اور بعض آیات ظاہری الفاظ پر محمول نہیں ہیں بلکہ جو کچھ کہا گیا ہے مجازا کہا گیا ہے ۔جیسا کہ کسی نے کہا ہے : اے پڑوسن سن لے یہ بات تیرے لیے ہے " مجاز کا استعمال عربی زبان میں کثرت سے ہوتا ہے اور اللہ تعالی نے بھی اس کا استعمال قرآن مجید میں کیا ہے ۔جو شخص تفصیل معلوم کرنا اور حقیقت حال سے آگاہی حاصل کرناچاہیے ،اس کے لیے ضروری ہے کہ شیعہ تفسیر کی کتابوں کا مطالعہ کرے جیسے علامہ طبا طبائی کی المیزان  ،آیت اللہ  خوئی کی البیان ،محمد جواد مغنیہ کی الکاشف ،علامہ طبرسی کی  الاحتجاج ، وغیرہ وغیرہ ۔

میں اختصار کے کام لے رہا ہوں کیونکہ میرا مقصد صرف عمومی طورپر فریقین کا عقیدہ بیان کرنا ہے ۔اس کتاب سےمیرا مقصد صرف ان امور کا بیان کرنا ہے جن سے مجھے ذاتی طور پر اطمینان نصیب ہوا اور انبیاء اور ان کے بعد اوصیاء کی عصمت کا مجھے یقین ہوگیا ۔ میرا شک اورحیرت یقین میں بدل گئے اور ان شیطانی وسوسوں کا ازالہ ہوگیا جن کی وجہ سے کبھی کبھی میری خطائیں ، میرے گناہ اور میرے غلط اعمال مجھے اچھے ،صحیح اوردرست معلوم ہوتے تھے ۔ کبھی تو مجھے  افعال واقوال رسول میں بھی شک  ہونے لگتا تھااور آپ کے بتلائے ہوئے احکام  پر بھی اطمینان نہیں ہوتا تھا بلکہ نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ بعض دفعہ اللہ کے اس قول میں بھی شک ہونے لگتا تھا کہ

"ومآ اتاكم الرّسول فخذوه ومآ نهاكم عنه فانتهوا"

رسول  تمھیں جو بتلائیں اس پر عمل کرو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ ۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ کلا م اللہ  نہ ہو رسول کا اپنا ہی کلام ہو ! سنیوں کا یہ کہنا کہ " رسول اللہ صرف اللہ کے کلام کی تبلیغ کی حد تک معصوم ہیں " بالکل بیکار بات ہے ۔اس لیے کہ اس کی کوئی پہچان نہیں کہ اس قسم کا کلام تو اللہ کی طرف سے ہے اور اس طرح کا کلام خود آپ کی اپنی طرف سے ، تاکہ یہ کہا جاسکے کہ اس کلام میں تو آپ معصوم ہیں اور اس میں معصوم نہیں ، اس لیے یہاں غلطی کا

۳۸

احتمال ہے ۔

اللہ کی پناہ اس متضاد قول سے ! اس سے تو رسول اللہ کی شان تقدس میں شک پیدا ہوتا ہے اور آپ کی شان میں طعن  کی گنجائش نکلتی ہے ۔

اس پر مجھے وہ گفتگو یاد آگئی  جو میرے شیعہ ہوجانے کےبعد میرے اور چند دوستوں کے درمیان ہوئی تھی ۔ میں انھیں قائل  کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ رسول اللہ ص ہر بات میں معصوم ہیں اور وہ مجھے سمجھارہے تھے کہ آپ صرف قرآن کی تبلیغ  کی حد تک معصوم ہیں ۔ ان میں ایک تو زر کے پروفیسر تھے ۔ توزر منطقہ  جرید کا ایک شہر ہے(1) ۔یہاں کے لوگ علم وفن ،ذہانت وفطانت  اور لطیفہ گوئی کے لئے مشہور ہیں ۔یہ پروفیسر صاحب ذرا دیر سوچتے رہے ، پھر کہنے لگے : حضرات ! اس مسئلے میں میری بھی ایک رائے ہے ۔ہم سب نے  کہا تو فرمائیے ۔کہنے لگے :بھائی تیجانی شیعوں کی طرف سے جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے ، ہمارے لیے یہی ضروری کہ رسول اللہ ص  کے علی الاطلاق معصوم ہونے کا عقیدہ رکھیں ورنہ خود قرآن میں شک پڑجائےگا ۔ سب نے کہا : وہ کیسے ؟ پروفیسر  صاحب نے فورا جواب دیا : کیا تم نے دیکھا ہے کہ کسی سورت کے نیچے اللہ تعالی کے دستخط ہوں ۔ دستخط سے ان کی مراد وہ مہر تھی جو دستاویزات  اور مراسلات کے آخر میں اس لئے لگائی جاتی ہے تاکہ یہ شناخت ہوسکے کہ یہ کس کی طرف سے ہے ۔ سب لوگ اس لطیفے پر ہنسنے لگے مگر یہ لطیفہ بڑا معنی  خیز ہے ،کوئی بھی غیر متعصب انسان اگر اپنی عقل استعمال کرکے غور کرے گا تو یہ حقیقت واضح  طور  پر سامنے آئے گی کہ قرآن کو کلام الہی تسلیم کرنے  کا مطلب یہ ہے  کہ صاحب وحی کی عصمت مطلقہ کا بھی عقیدہ بغیر کیس کاٹ چھانٹ کے رکھا جائے کیونکہ یہ توکوئی دعوی نہیں کرسکتا کہ اس نے اللہ تعالی کو بولتے ہوئے سنا ہے  یا جبرئیل کو وحی لاتے ہوئے دیکھا ہے ۔

------------------

(1):- منطقہ جرید تیونس کے جنوب میں قفصہ سے 92 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ یہ عربی کے مشہور شاعر ابو القاسم شابی اور خضر حسین کا جائے والادت ہے ۔خضر حسین جامعۃ الازہر کے شیخ الجامعہ تھے ۔ تیونس کے علماء میں سے بہت سے علماء اسی علاقے میں پیدا ہوئے ہیں ۔

۳۹

خلاصہ کلام یہ ہے کہ " عصمت انبیاء ع" کے بارے میں شیعہ عقیدہ ہی وہ محکم اور مضبوط عقیدہ ہے جس سے قلب کو اطمینان حاصل ہوتا ہے اور تمام تفسانی وشیطانی وسوسوں کی جڑکٹ جاتی ہے اور مفسدوں خصوصا یہودیوں ،عیسائیوں اور دشمنان دین کا راستہ بند ہوجاتا ہےجو ہر وقت  اس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ کہیں سےراستہ ملے تو اندر گھس کر ہمارے معتقدات  کو بھک سے اڑا دیں اور ہمارے دین میں عیب نکالیں ۔ایسے راستے انھیں صرف اہل سنت ہی  کی کتابوں میں ملتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں  کہ وہ اکثر وبیشتر  ہمارے خلاف ان ہی اقوال وافعال سے دلیل  لاتے  ہیں جو بخاری ومسلم میں غلط طور پر رسول اللہ سے منسوب کیے گئے  ہیں۔ (1)

ابہم  انھیں کیسے یقین دلائیں  کہ بخاری ومسلم میں بعض غلط روایات بھی ہیں ۔ یہ بات قدرتی طور پر خطر ناک  ہےکیونکہ اہل سنت والجماعت اسے کبھی نہیں مانیں گے  ۔ان کے نزدیک تو بخاری  کتاب باری کے بعد صحیح ترین کتاب ہے اور اسی طرح مسلم بھی ۔

فریقین کے نزدیک امامت کا عقیدہ

اس بحث میں امامت سے مراد مسلمانوں کی امامت کبری ہے ، یعنی خلافت ،حکومت ،قیادت اور ولایت کا مجموعہ ۔امامت سے مراد محض نماز کی امامت نہیں جیسا کہ آج کل اکثر لوگ سمجھتے ہیں ۔

چونکہ میری کتاب میں بحث کا مدار مذہب تسنن اور مذہب تشیع کے

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 3 باب شہادۃ الاعمی میں عبید بن میمون کی سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے مسجد میں ایک نابینا شخص کو قرآن  کی تلاوت  کرتے ہوئے سنا تو فرمایا : اللہ اس پر رحم کرے اس نے فلاں سور  کی فلاں فلاں آیتیں یاد دلادیں جو میں بھول گیا تھا ۔

آپ یہ روایت پڑھیے اورحیرت کیجیے کہ رسول اللہ آیات بھول گئے اور اگر یہ نابینا شخص وہ آیات یاد نہ دلاتا تو وہ آیات غائب ہی ہوگئی ہوتیں ۔ حد ہے اس لغویت کی !

۴۰